60. افعال حج کا بیان

【1】

افعال حج کا بیان

لغت کے اعتبار سے حج کے معنی ہیں کسی باعظمت چیز کی طرف جانے کا قصد کرنا اور اصطلاح شریعت میں کعبہ مکرمہ کا طواف اور مقام عرفات میں قیام انہیں خاص طریقوں سے جو شارع نے بتائے ہیں اور اسی خاص زمانے میں جو شریعت سے منقول ہے، حج کہلاتا ہے۔ حج دین کے ان پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک عظیم القدر ستون ہے جن پر اسلم کے عقائد و اعمال کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے حج کا ضروری ہونا (جس کو اصطلاح فقہ میں فرض کہا جاتا ہے) قرآن مجید سے اسی طرح صراحت کے ساتھ ثابت ہے جس طرح زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔

【2】

حج کب فرض ہوا؟

فرضیت حج کی سعادت عظمی ہمارے آقا سرکار دو عالم ﷺ کی امت کے ساتھ مختص ہے گو کہنے کو تو حج کا رواج حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے ہے مگر اس وقت اس کی فرضیت کا حکم نہ تھا۔ چناچہ صحیح مسلک یہی ہے کہ حج صرف امت محمدیہ پر فرض ہوا ہے۔ حج کب فرض ہوا ؟ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، کچھ حضرات کہتے ہیں سن ٥ ھجری میں فرض ہوا، اکثر علما سن ٦ ھجری میں فرضیت کے قائل ہیں لیکن زیادہ صحیح قول ان علماء کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حج سن ٩ ھ کے آخر میں فرض ہوا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا آیت (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا) ۔ یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج (ضروری) ہے اور یہ اس شخص پر جو وہاں تک جاسکے۔ چونکہ یہ حکم سال کے آخر میں نازل ہوا تھا اس لئے آپ ﷺ تو فعال حج کی تعلیم میں مشغولیت اور آئندہ سال کے لئے سفر حج کے اسباب کی تیاری میں مصروفیت کی وجہ سے خود حج کے لئے تشریف نہیں لے جاسکے، بلکہ اس سال یعنی سن ٩ ھ میں حضرت ابوبکر (رض) کو حاجیوں کا امیر مقرر فرما کر مکہ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کو حج کرا دیں اور پھر آپ ﷺ خود سال آئندہ یعنی سن ١٠ ھ میں اس حکم الٰہی کی تعمیل میں حج کے لئے تشریف لے گئے یہ عجیب اتفاق ہے کہ فرضیت کے بعد آپ ﷺ نے یہی پہلا حج کیا جو آخری حج بھی ثابت ہوا۔ چناچہ یہی حج حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے اسی حج کے بعد آپ ﷺ کے چہرہ عالمتاب اور وجود پر نور نے اس دنیا سے پردہ کیا۔

【3】

حج کے احکام

حج عمر میں ایک بار فرض ہے جب کہ وہ تمام شرائط پائی جائیں جن سے حج فرض ہوتا ہے ان شرائط کے پائے جانے کے باوجود جو شخص حج نہ کرے وہ فاسق و گنہگار ہے اور جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جب حج کے شرائط پائے جائیں تو فی الفور حج کرنا فرض ہے۔ دوسرے سال تک اس میں تاخیر کرنا گناہ ہے۔ حج ہے اس شخص پر جو میقات کے اندر بغیر احرام باندھے چلا جائے اور اس کے بعد حج کا احرام باندھے اسی طرح اس شخص پر حج فرض ہے جس نے حج کی نذر کی ہو۔ ناجائز مال سے حج کرنا حرام ہے اور مکروہ تحریمی ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو کی اجازت کے بغیر حج کرے جن سے اجازت لینا ضروری ہے اس شخص کے لئے بھی حج مکروہ تحریمی ہے جو ان لوگوں کے نفقہ کا انتظام کئے بغیر حج کرے جن کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے۔

【4】

حج کے فرض ہونے کی شرطیں

حج ان شرائط کے پائے جانے کے بعد فرض ہوتا ہے۔ (١) مسلمان ہونا، کافر پر حج فرض نہیں ہے (٢) آزاد ہونا، لونڈی غلام پر حج فرض نہیں ہے۔ (٣) عاقل ہونا، مجنون، مست اور بےہوش پر حج فرض نہیں۔ (٤) بالغ ہونا، نابالغ بچوں پر حج فرض نہیں۔ (٥) صحت مند و تندرست ہونا، بیمار، اندھے، لنگڑے، اپاہج پر حج فرض نہیں (٦) قادر ہونا یعنی اس قدر مال کا مالک ہونا جو ضرورت اصلیہ اور قرض سے زائد ہو اور اس کے زاد راہ اور سواری کے کرایہ و خرچ کے لئے کافی ہوجائے نیز جن لوگوں کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کے لئے بھی اس میں سے اس قدر چھوڑ جائے جو اس کی واپسی تک ان لوگوں کو کفایت کرسکے۔ (٧) راستے میں امن ہونا، اس بارے میں اکثر کا اعتبار ہے یعنی اگر اکثر لوگ امن وامان سے پہنچ جاتے ہوں تو حج فرض ہوگا، مثلا اگر اکثر لوگ راستے میں ڈاکہ زنی وغیرہ سے لٹ جاتے ہوں یا کوئی ایسا دریا اور سمندر حائل ہو جس میں بکثرت جہاز ڈوب جاتے ہوں اور اکثر ہلاک ہوجاتے ہوں یا راستے میں اور کسی قسم کا خوف ہو تو ایسی حالت میں حج فرض نہیں ہوگا، ہاں اگر یہ حادثات کبھی کبھی اتفاقی طور پر ہوجاتے ہیں تو پھر حج کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی (٨) عورت کے لئے ہمراہی میں شوہر یا کسی اور محرم کا موجود ہونا جب کہ اس کے یہاں سے مکہ کی دوری بقدر مسافت سفر یعنی تین دن کی ہو۔ اگر شوہر یا محرم ہمراہی میں نہ ہوں۔ تو پھر عورت کے لئے سفر حج اختیار کرنا جائز نہیں ہے اور محرم کا عاقل بالغ ہونا اور مجوسی و فاسق نہ ہونا بھی شرط ہے۔ محرم کا نفقہ اس عورت پر ہوگا جو اپنے اپنے ساتھ حج میں لے جائے گی۔ نیز جس عورت پر حج فرض ہو وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بھی محرم کے ساتھ حج کے لئے جاسکتی ہے۔ اگر کوئی نابالغ لڑکا یا غلام احرام باندھنے کے بعد بالغ ہوجائے یا آزاد ہوجائے اور پھر وہ حج پورا کرے تو اس صورت میں فرض ادا نہیں ہوگا ! ہاں اگر لڑکا فرض حج کے لئے از سر نو احرام باندھے گا تو صحیح ہوجائے گا۔ لیکن غلام کا احرام فرض حج کے لئے اس صورت میں بھی درست نہیں ہوگا۔

【5】

حج کے فرائض

حج میں پانچ چیزیں فرض ہیں۔ (١) احرام، یہ حج کے لئے شرط بھی ہے اور رکن یعنی فرض بھی ہے۔ (٢) وقوف عرفات یعنی عرفات میں ٹھہرنا خواہ ایک ہی منٹ کے بقدر ہو اور خواہ دن میں ہو یا رات میں (٣) طواف الزیارۃ اس کو طواف الافاضہ اور طواف الرکن بھی کہتے ہیں (٤) مذکورہ بالا فرائض میں ترتیب کا لحاظ یعنی احرام کو وقوف اور وقوف کو طواف زیارت پر مقدم کرنا (٥) ہر فرض کو اسی مکان مخصوص میں ادا کرنا یعنی وقوف کا خاص عرفات میں اور طواف کا حاصل مسجد حرام کعبہ مکرمہ کے گرد ہونا اور ہر فرض کا اسی خاص وقت میں ادا کرنا جو شریعت سے اس کے لئے مقرر ہے یعنی وقوف کا نویں ذی الحجہ کی ظہر کے وقت سے دسویں تاریخ کی فجر سے پہلے تک ادا کرنا اور طواف کا اس کے بعد ادا کرنا۔

【6】

حج کے واجبات

حج میں یہ چیزیں واجب ہیں۔ (١) وقوف مزدلفہ (٢) صفا اور مروہ کے درمیان سعی (٣) رمی جمار (٤) آفاقی یعنی غیر مکی کے لئے طواف قدوم (٥) حلق یا تقصیر یعنی بال منڈوانا یا کترانا (٦) اور ہر وہ چیز جس کو ترک کردینے پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوجاتا ہو۔ ان فرائض و واجبات کے علاوہ اور بہت سی چیزیں جو حج کے سنن و آداب کے تحت آتی ہیں وہ آئندہ صفحات میں موقع بموقع بیان ہوں گی۔

【7】

حج عمر بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لھذا تم حج کرو یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم ہر سال حج کریں ؟ آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ اس شخص نے تین مرتبہ یہی بات کہی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا ہوں تو یقینا حج ہر سال کے لئے فرض ہوجاتا اور تم ہر سال حج کرنے پر قادر نہیں ہوسکتے تھے ؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا جب تک میں تمہیں چھوڑوں تم مجھے چھوڑ دو (یعنی جو کچھ میں نہ کہا کروں مجھ سے مت پوچھا کرو) کیونکہ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں یعنی یہود و نصاریٰ وہ اسی سبب سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء سے پوچھتے اور ان سے اختلاف کرتے تھے (جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں منقول ہے) لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس میں سے جو کچھ تم کرنے کی طاقت رکھتے ہو کرو اور جب میں تمہیں کسی بات سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو ۔ (مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے جب حج کی فرضیت کا فرمان نازل فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے اس کو امت کے اوپر نافذ کرنے کے لئے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ حج کریں چناچہ جب آپ ﷺ لوگوں کے سامنے حج کی فرضیت بیان فرما رہے تھے اور انہیں حج کرنے کا حکم دے رہے تھے تو ایک صحابی جن کا نام اقرع بن حابس (رض) تھا پوچھ بیٹھے کہ حج ہر سال کیا جائے گا ؟ وہ یہ سمجھے کہ جس طرح دیگر عبادتیں یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ بار بار ادا کی جاتی ہیں اسی طرح یہ حج بھی مکرر ہی ہوگا اسی لئے انہوں نے یہ سوال کیا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کو یہ بات ناگوار ہوئی اس لئے آپ ﷺ نے پہلے تو تنبیہا سکوت اختیار فرمایا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ جب انہوں نے کئی بار پوچھا تو آخر کار آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ اگر میں اس سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیتا تو یقینا ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا کیونکہ میں یہ جواب اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب دیتا بغیر اس کے حکم سے میری زبان سے کوئی تشریعی بات نہیں نکلتی اور اگر ہر سال حج فرض ہوجاتا تو تم میں اتنی طاقت نہ ہوتی کہ ہر سال اس کی ادائیگی پر قادر نہ ہوتے۔ پھر آپ ﷺ نے متنبہ فرمایا کہ کسی بھی دینی حکم کو مجھ پر چھوڑ دو ، جب میں کسی فعل کا حکم دوں تو مجھ سے یہ نہ پوچھوں کہ یہ فعل کتنا ہے اور کیسا ہے جب تک میں خود یہ بیان نہ کروں کہ یہ فعل کتنا کیا جائے اور کس طرح کیا جائے۔ میں جس طرح کہوں تم اسی طرح ادا کرو۔ اگر کسی فعل کے بارے میں بلا قید و تعین اعداد کے مطلق حکم کروں تو اس حکم کی اسی طرح بجا آوری کرو اور اگر یہ بیان کروں کہ اس فعل کو اتنی بار اور اس طرح کرو تو اسے اتنی ہی بار اور اسی طرح کرو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میں دنیا میں اسی لئے آیا ہوں کہ تم تک اسلام کے احکام پوری وضاحت کے ساتھ پہنچا دوں اور شریعت کو بیان کر دوں جو بات جس طرح ہوتی ہے اسے اسی طرح بیان کردیتا ہوں۔ تمہارے سوال کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ پھر آخر میں آپ ﷺ نے احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں تائید و مبالغہ کے طور پر فرمایا کہ فا توا منہ ما استطعتم (اس میں سے جو کچھ تم کرنے کی طاقت رکھتے ہو کرو) یعنی اللہ اور رسول ﷺ کے احکام پر عمل کرنے کی تم جتنی بھی طاقت رکھتے ہو اس کے مطابق عمل کرو یا پھر یہ کہ اس جملے کے ذریعہ آپ ﷺ نے رفع حرج پر اشارہ فرمایا کہ مثلاً نماز کے بعض شرائط و ارکان ادائیگی سے تم اگر عاجز ہو تو جس قدر ہو سکے اسی قدر کرو، جو تم سے نہ ہو سکے اسے چھوڑ دو جیسے اگر تم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرسکو تو بیٹھ کر نماز پڑھو، اگر بیٹھ کر پڑھنے سے بھی عاجز ہو تو لیٹے ہی لیٹے پڑھو مگر پڑھو ضرور، اسی پر دوسرے احکام و اعمال کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔

【8】

کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پوچھا گیا کہ پھر کون سا، فرمایا حج مقبول۔ (بخاری ومسلم) تشریح افضل اعمال کے سلسلے میں سب سے بہتر عمل کون سا ہے۔ مختلف احادیث منقول ہیں کسی حدیث میں کسی عمل کو افضل فرمایا گیا ہے اور کسی میں کسی کو، ان سب میں مطابقت و موافقت یوں پیدا کی جاتی ہے کہ یہ اختلاف بیان سائلین کے اقوال، حیثیات اور مقامات کے فرق و تفاوت کی بناء پر ہے، اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ کتاب الصلوۃ میں بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے۔

【9】

صرف اللہ کے لئے حج کرنے والے کی سعادت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اور حج کے دوران نہ ہم بستری اپنی عورت سے کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تو وہ اس طرح بےگناہ ہو کر واپس آتا ہے جیسے اس دن بےگناہ تھا کہ جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو شخص اللہ کے لئے حج کرے کا مطلب یہ ہے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اور صرف اس کے حکم کی بجا آوری کے لئے حج کرے، دکھانے، سنانے کا جذبہ یا غرض و مقصد پیش نظر نہ ہو۔ اس سلسلے میں اتنی بات ضرور جان لینی چاہئے کہ جو شخص حج اور تجارت یا مال وغیرہ لانے، دونوں کے قصد سے حج کے لئے جائے گا تو اسے ثواب کم ملے گا بہ نسبت اس شخص کے جو صرف حج کے لئے جائے گا کہ اسے ثواب زیادہ ملے گا۔ رفث کے معنی ہیں جماع کرنا، فحش گوئی میں مبتلا ہونا اور عورتوں کے ساتھ ایسی باتیں کرنا جو جماع کا داعیہ اور اس کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ اور نہ فسق میں مبتلا ہو کا مطلب یہ ہے کہ حج کے دوران گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرے۔ یہ ذہن میں رہے کہ گناہوں سے توبہ نہ کرنا بھی کبیرہ گناہوں ہی میں شمار ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی سے واضح ہوتا ہے آیت (ومن لم یتب فاولئک ہم الظالمون) ۔ اور جس نے توبہ نہیں کی تو یہی وہ ہیں جو اپنے حق میں ظالم ہیں۔ حاصل یہ کہ جو شخص خالصۃ للہ حج کرے اور اس حج کے دوران جماع اور فحش گوئی میں مبتلا نہ ہو اور نہ گناہ کی دوسری چیزوں کو اختیار کرے تو گناہ سے ایسا ہی پاک و صاف ہو کر حج سے واپس آتا ہے جیسا کہ گناہوں سے پاک و صاف ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔

【10】

حج کا ثمرہ جنت ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان صغیرہ گناہوں کے لئے جو ان دونوں عمروں کے درمیان ہوں اور حج مقبول کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم )

【11】

رمضان میں عمرہ کا ثواب

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے ثواب کے برابر ہے۔ (بخاری ومسلم )

【12】

نابالغ کو بھی حج کا ثواب ملتا ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سفر حج کے دوران روحاء میں جو مدینہ سے ٣٦ کوس کے فاصلے پر ایک جگہ کا نام تھا ایک قافلے سے ملے، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم کون قوم ہو ؟ قافلے والوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں پھر قافلے والوں نے پوچھا کہ آپ ﷺ کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ہوں یہ سن کر ایک عورت نے ایک لڑکے کو ہاتھ میں لے کر کجاوے سے آنحضرت ﷺ کی طرف پکڑ کر بلند کیا یعنی آپ ﷺ کو دکھلایا پھر آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا اس کے لئے حج کا ثواب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ! اور تمہارے لئے بھی ثواب ہے۔ (مسلم) تشریح عورت کے سوال کے جواب میں آپ ﷺ کے ہاں کا مطلب یہ تھا کہ لڑکا اگرچہ نابالغ ہے اور اس پر حج فرض نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ حج میں جائے گا تو اسے نفلی حج کا ثواب ملے گا اور چونکہ تم اس بچے کو افعال حج سکھلاؤگی، اس کی خبر گیری کروگی اور پھر یہ کہ تم ہی اس کے حج کا باعث بنوگی اس لئے تمہیں بھی ثواب ملے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ حج کرے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہیں ہوگا اگر بالغ ہونے کے بعد فرضیت حج کے شرائط پائے جائیں گے تو اسے دوبارہ پھر کرنا ہوگا، اسی طرح اگر غلام حج کرے تو اس کے ذمہ سے بھی فرض ساقط نہیں ہوتا، آزاد ہونے کے بعد فرضیت حج کے شرائط پائے جانے کی صورت میں اس کے لئے دوبارہ حج کرنا ضروری ہوگا۔ ان کے برخلاف اگر کوئی مفلس حج کرے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہوجائے گا۔ مال دار ہونے کے بعد اس پر دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہوگا۔

【13】

دوسرے کی طرف سے حج کرنے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ کے ایک فریضہ نے جو اس کے بندوں پر ہے میرے باپ کو بڑا بوڑھا پایا ہے یا جو سواری پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں ! اس کی طرف سے حج کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اور اس عورت کے درمیان یہ سوال جواب حجۃ الوداع میں ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس عورت کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میرے باپ پر بڑھاپے میں حج فرض ہوا ہے۔ بایں سبب کہ وہ بڑھاپے میں اس کو اتنا مال مل گیا ہے اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ جس کی وجہ سے اس پر حج فرض ہوجاتا ہے یا یہ کہ اب بڑھاپے میں اس کو اتنا مال مل گیا ہے کہ اس پر حج فرض ہوگیا ہے مگر وہ اتنا ضعیف اور کمزور ہے کہ ارکان و افعال حج کی ادائیگی تو الگ ہے وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے نیابتہ حج کرلوں ؟ چناچہ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں ! اس کی طرف سے تم حج کرلو۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص پر اگر حج فرض ہو اور وہ بذات خود حج کرنے سے معذور ہو نیز یہ کہ اس کی وہ معذوری ایسی ہو جو موت تک زائل نہ ہونے والی ہو۔ جیسے بڑھاپے کا ضعف، نابینا ہونا، یا پیروں کا کٹا ہونا وغیرہ تو اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج کرلینا جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ معذور اپنی طرف سے حج کرنے والے کو حج کے اخراجات بھی دے اور اسے اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم بھی دے۔ نیز اس کی موت کے بعد بھی اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج کرنا جائز ہے جب کہ وہ اس کی وصیت کر کے مرا ہو۔ لیکن بعض علماء کہتنے ہیں کہ اولاد اگر اپنے والدین کی طرف سے فرض حج کرے تو اس صورت میں حکم اور وصیت شرط نہیں ہے یعنی والدین کی طرف سے حج کرنا۔ بغیر حکم اور بغیر وصیت کے بھی جائز ہے، یہ تو فرض حج کی بات تھی نفل حج کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کسی دوسرے سے نفل حج کرائے۔ تو معذوری شرط نہیں ہے۔ یعنی اگر بذات خود اسے حج کرنے کی قدرت و طاقت حاصل ہے تو اس کے باوجود وہ کسی دوسرے سے اپنا نفل حج کرا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا مسئلہ کو ذہن میں رکھ کر حدیث کی طرف آئیے۔ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے پوچھ رہی ہے۔ لیکن وہ چونکہ وضاحت نہیں کر رہی ہے اس لئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے نہ تو اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ اسے اخراجات دئیے ہیں۔ گویا اس طرح حدیث کے ظاہری مفہوم اور مذکورہ بالا اس فقہی روایت میں کہ جس کی طرف سے حج کیا جائے اس کا حکم اور اس کی طرف سے اخراجات کی ادائیگی حج کے صحیح ہونے کی شرط ہے، تضاد نظر آتا ہے، لہٰذا اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعے ختم کیا جائے گا کہ اس عورت کے باپ نے اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کی اجازت بھی دی ہوگی اور اسے اخراجات بھی دئیے ہوں گے مگر اس نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ اس تاویل کی بنیاد حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی وہ تقریر ہے کہ انہوں نے حضرت ابورزین کی روایت کی وضاحت کے ضمن میں بیان کی ہے یہ روایت اسی باب کی دوسری فصل میں آئے گی۔ بعض علماء کے قول کہ والدین کی طرف سے حج کرنا بغیر حکم و وصیت کے بھی جائز ہے۔ کے پیش منظر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں تو یہ حدیث اس فقہی روایت کی دلیل بن جائے گی۔

【14】

دوسرے کی طرف سے حج کرنے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ مرگئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے ذمہ اگر کوئی مطالب (مثلاً قرض وغیرہ) ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اللہ کا مطالبہ (یعنی حج نذر) ادا کرو کیونکہ اس کا ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کی بہن کے ورثہ میں کچھ مال ملا ہوگا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے حق اللہ کو حق العباد پر قیاس فرماتے ہوئے اس کو بہن کا حج نذر کرنے کا حکم دیا۔ مسئلہ وارث کے لئے جائز ہے کہ وہ مورث کی طرف سے اس کی اجازت و وصیت کے بغیر بھی حج کرسکتا ہے، یا اس کی طرف سے خود حج کرسکتا ہے۔ لیکن دوسروں کے لئے اجازت و وصیت شرط ہے کہ اس کے بغیر حج درست نہ ہوگا۔

【15】

عورت خاوند یا محرم کے بغیر حج کو نہیں جاسکتی

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے (یعنی اجنبی مرد و عورت کسی جگہ تنہا جمع نہ ہوں) اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فلاں غزوہ میں میرا نام لکھا جا چکا ہے (یعنی فلاں جہاد جو درپیش ہے اور وہاں جو لشکر جانے والا ہے اس میں میرا نام بھی لکھا جا چکا ہے کہ میں بھی لشکر کے ہمراہ جاؤں) اور حالانکہ میری بیوی نے سفر حج کا ارادہ کرلیا ہے ؟ تو کیا کروں ؟ آیا جہاد کو جاؤں اور بیوی کو اکیلا حج کے لئے جانے دوں یا بیوی کے ساتھ جاؤں اور جہاد میں نہ جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (کیونکہ جہاد میں جانے والے تو بہت ہیں لیکن تمہاری بیوی کے ساتھ جانے والا تمہارے علاوہ اور کوئی محرم نہیں ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح اجنبی عورت و مرد کے لئے حرام ہے کہ وہ تنہائی میں یک جا ہوں۔ اسی طرح عورت کو بقدر مسافت سفر (یعنی ٤٨ میل یا ٧٨ کلو میٹر) یا اس سے زائد مسافت میں خاوند یا محرم کے بغیر سفر کرنا حرام ہے حتی کہ سفر حج میں بھی عورت کے لئے اس کے خاوند یا کسی محرم کا ساتھ ہونا وجوب حج کے لئے شرط ہے یعنی عورت پر حج اسی وقت فرض ہوتا ہے جب کہ اس کے ساتھ خاوند یا محرم ہو۔ محرم اصطلاح شریعت میں اس کو کہتے ہیں جس کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہو خواہ قرابت کے لحاظ سے ہو یا دودھ کے رشتے سے یا سسرال کے ناطے سے، نیز محرم کا عاقل و بالغ ہونا اور مجوسی و فاسق نہ ہونا بھی شرط ہے۔

【16】

عورتوں کا جہاد، حج ہے

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے۔ (یعنی تم عورتوں پر جہاد واجب نہیں ہے اس کی بجائے حج بشرطیکہ نفل حج کرنے کی استطاعت ہو۔ (بخاری ومسلم)

【17】

خاوند یا محرم کے بغیر عورت کے سفر کی حد

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ کوئی عورت ایک دن و ایک رات کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے علاوہ یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس موقع پر حدیث اور فقہی روایت کا تضاد سامنے آسکتا ہے وہ یوں کہ ہدایہ میں جو فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہے لکھا ہے کہ عورتوں کو بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر مباح ہے جس کی مسافت حد سفر سے (کہ وہ تین منزل یعن ٤٨ میل سے کم ہو) لیکن یہاں حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عورت بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر بھی نہیں کرسکتی جس کی مسافت ایک دن و ایک رات (ایک منزل یا ١٦ میل کے سفر کے بقدر ہو۔ نیز بخاری و مسلم میں بھی یہ ایک روایت منقول ہے کہ کوئی عورت دو دن کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے الاّ یہ کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا محرم ہو۔ لہٰذا فقہاء کا قول بظاہر ان روایات کے مخالف نظر آتا ہے لیکن اس تضاد و اختلاف کو دور کرنے کے لئے علماء یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مطلق طور پر جو یہ منقول ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے تو چونکہ شرعی طور پر سفر کا اطلاق تین دن سے کم پر نہیں ہوتا اس لئے فقہاء نے اس حدیث کو تین دن (٤٨ میل) کی مسافت کے بقدر سفر پر محمول کیا ہے اور یہ فقہی قاعدہ مرتب کردیا کہ کوئی عورت اتنی دور کا سفر کہ جو تین دن کی مسافت کے بقدر ہو بغیر خاوند یا محرم کے نہ کرے اور جب تین دن کی مسافت کے بقدر تنمہا سفر نہیں کرسکتی تو اس سے زائد مسافت کا سفر کرنا تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہوگا۔ اور جن حدیثوں میں دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر سفر سے بھی منع کیا گیا ہے تو اس کو فتنہ و فساد پر محمول کیا ہے کہ اگر سفر تین دن کی مسافت سے بھی کم یعنی دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر ہو اور کسی فتنہ و فساد مثلاً عورت کی عزت و آبرو پر حرف آنے کا گمان ہو تو اس صورت میں بھی عوت کو تنہا سفر نہیں کرنا چاہئے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جہاں تین دن کی مسافت کے بقدر سفر کی ممانعت منقول ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ ہر منزل (یعنی ١٦ میل) ایک دن کے اکثر حصے میں طے ہوتی ہو تو اس طرح تین دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں دو دن کے سفر کی ممانعت ہے۔ تو اس کی مراد یہ ہے کہ تمام دن چلے یعنی ایک دن میں ڈیڑھ منزل (٢٤ میل) طے ہو اس طرح دو دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں ایک دن و رات کے سفر کی ممانعت ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ شب و روز چلے، یعنی ڈیڑھ منزل پورے دن میں طے ہو ڈیڑھ منزل پوری رات میں طے ہو اس طرح ایک دن و رات میں تین منزلیں طے ہوں گی۔ اس تاویل کی وجہ سے ان تمام روایات کا مقصد تین دن کی مسافت کے بقدر عورت کو تنہا سفر کرنے سے روکنا ثابت ہوجائے گا اور تمام روایات میں باہم کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات دل کو زیادہ لگتی ہے کہ ان تمام روایات ( کہ جن سے عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور جن میں حد سفر کے بارے میں اختلاف نظر آ رہا ہے) کا مقصد سفر کی کسی حد اور مدت کو متعین کرنا نہیں ہے بلکہ ان روایات کا مجموعی حاصل یہ ہے کہ عورت بغیر خاوند یا محرم تنہا سفر مطلقاً نہ کرے مسافت چاہے طویل ہو اور چاہے کتنی ہی مختصر ہو۔ لہٰذا موجودہ دور میں جب کہ فتنہ فساد کا خوف عام ہے اور انسانی ذہن غلط طریقہ تعلیم و تربیت اور فاسد ماحول کی وجہ سے بےحیائی اور فحاشی کا مرکز بن گئے ہیں تو احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ عورت مطلقاً تنہا سفر نہ کرے سفر چاہے تھوڑی دور کا ہو چاہے زیادہ فاصلے کا۔ اس لئے کہ فتنہ و فساد کا خوف بہر صورت رہتا ہے۔

【18】

مواقیت حج

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے آفاقی یعنی غیر مکی کے لئے احرام باندھنے کی جگہ (میقات) اس طرح متعین فرمائیں۔ اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لئے جحفہ، نجد والوں کے لئے قرن منازل اور یمن والوں کے لئے یلملم۔ یہ سب مذکورہ علاقوں کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ہیں اور ان مقامات سے گزرنے والے ان لوگوں کے لئے بھی یہی میقات ہیں جو ان علاقوں کے علاوہ ہوں مثلا ہندوستانی کہ جب یمن کے راستے پر پہنچیں تو یلملم سے احرام باندھیں۔ اسی طرح دوسرے ملکوں کے لوگوں کے لئے بھی یہی ہے کہ ان کے راستے میں جو میقات آئے وہیں سے احرام باندھیں اور یہ (احرام اور احرام باندھنے کی جگہیں) ان لوگوں کے لئے ہیں جو حج اور عمرہ کا ارادہ کریں۔ اور جو شخص ان مقامات کے اندر رہتا ہے اس کے احرام باندھنے کی جگہ اس کے گھر سے ہے اسی طرح اور اسی طرح یہاں تک کہ مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح احرام کے معنی ہیں حرام کردینا) چونکہ حج کرنے والے پر کئی چیزیں حرام ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اس اظہار کے واسطے کہ اس وقت سے یہ چیزیں حرام ہوگئی ہیں ایک لباس جو صرف ایک چادر اور ایک تہبند ہوتا ہے بہ نیت حج پہنا جاتا ہے۔ جس کو احرام کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ احرام کا عمل اس وقت سے شروع ہوتا ہے جس وقت احرام پہننے کے بعد حج کی نیت کی جائے اور لبیک کہی جائے یا کوئی ایسا فعل کیا جائے جو تلبیہ (لبیک کہنے) کے مثل ہو جیسے (یعنی قربانی کا جانور) روانہ کرنا، ورنہ صرف احرام کا لباس پہننے پھرنے سے کوئی شخص محرم نہیں ہوسکتا۔

【19】

مواقیت

مواقیت میقات کی جمع ہے۔ میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے مکہ مکرمہ میں جانے والے احرام باندھتے ہیں اور مکہ مکرمہ جانے والے کے لئے وہاں سے بغیر احرام آگے بڑھنا منع ہے۔ ذوالحلیفہ ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے جنوب میں تقریباً ١١٥ میل ١٨٨ کلو میٹر کے فاصلے پر اور رابغ سے چند میل جنوب میں واقع ہے یہ قریش کی تجارتی شاہراہ کا ایک اسٹیشن رہ چکا ہے اب غیر آباد ہے، یہ مقام شام و مصر کی طرف سے آنے والوں کے واسطے میقات ہے۔ نجد اصل میں تو بلند زمین کو کہتے ہیں مگر اصطلاحی طور جزیرۃ العرب کے ایک علاقے کا نام ہے جو مملکت سعوی عرب کا ایک حصہ ہے۔ اس علاقے کو نجد غالباً اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سطح سمندر سے یہ علاقہ اچھا خاصا بلند ہے اس وقت جزیرۃ العرب کا سارا وسطی علاقہ جسے نجد کہا جاتا ہے۔ شمال میں بادیۃ الشام کے جنوبی سرے سے شروع ہو کر جنوب میں وادی الاواسر یا الربع الخال تک اور عرضا احساء سے حجاز تک پھیلا ہوا ہے، حکومت سعودی عرب کا دارالسلطنت ریاض نجد ہی کے علاقے میں ہے۔

【20】

قرن المنازل

قرن المنازل یہ ایک پہاری ہے جو مکہ سے تقریباً تیس میل (٤٨ کلو میٹر) جنوب میں تہامہ کی ایک پہاڑی ہے یہ پہاری یمن سے مکہ آنے والے راستے پر واقع ہے اس پہاڑی سے متصل سعدیہ نامی ایک بستی ہے یہ یمن کی طرف سے آنے والوں کی میقات ہے۔ ہندوستان سے جانے والے اس پہاڑی کے سامنے سے گزرتے ہیں اس لئے ہندوستان والوں کے لئے بھی یہی میقات ہے۔ امن مواقیت کے علاوہ ایک میقات ذات عرق) یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً ساٹھ میل (٩٧ کلو میٹر) کے فاصلے پر شمال مشرقی جانب عراق جانے والے راستے پر واقع ہے۔ اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے واسطے میقات ہے۔ حدیث کے الفاظ لمن کان یرید الحج والعمرۃ (اور یہ احرام کی جگہیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو حج وعمرہ کا ارادہ کریں) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص (یعنی غیر مکی) حج وعمرہ کے ارادے کے بغیر میقات سے گزرے تو اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے احرام باندھے۔ جیسا کہ امام شافعی کا مسلک ہے، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ خواہ حج وعمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی غیر مکی شخص مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے خواہ وہ حج کے لئے جاتا ہو یا کسی اور غرض سے تو اس پر واجب ہے کہ وہ میقات سے احرام باندھ کر جائے احرام کے بغیر وہ مکہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ حنفی مسلک کی دلیل آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ۔ لا یجاوز حد المیقات الا محرما۔ کوئی شخص (مکہ میں داخل ہونے کے لئے) میقات کے آگے بغیر احرام کے نہ بڑھے۔ یہ حدیث اس بارے میں مطلق ہے کہ اس میں حج وعمرہ کے ارادے کی قید نہیں ہے، پھر یہ کہ احرام اس مقدس و محترم مکان یعنی کعبہ مکرمہ کی تعظیم و احترام کی غرض سے باندھا جاتا ہے۔ حج وعمرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے لہٰذا اس حکم کا تعلق جس طرح حج وعمرہ کرنے والے سے ہے اسی طرح یہ حکم تاجر و سیاح وغیرہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہاں جو لوگ میقات کے اندر ہیں ان کو اپنی حاجت کے لئے بغیر احرام مکہ میں داخل ہونا جائز ہے کیونکہ ان کو بارہا مکہ مکرمہ میں آنا جانا پڑتا ہے۔ اس واسطے ان کے لئے ہر بار احرام کا واجب ہونا دقت و تکلیف سے خالی نہیں ہوگا، لہٰذا اس معاملے میں وہ اہل مکہ کے حکم میں داخل ہیں کہ جس طرح ان کے لئے جائز ہے کہ اگر وہ کسی کام سے مکہ مکرمہ سے باہر نکلیں اور پھر مکہ میں داخل ہوں تو بغیر احرام چلے آئیں اسی طرح میقات کے اندر والوں کو بھی احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔ فمن کان دونہن (اور جو شخص ان مقامات کے اندر رہتا ہے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ لوگ میقات کے اندر مگر حدود حرم سے باہر رہتے ہوں تو ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ان کے گھر سے تاحد حرم ہے ان کو احرام باندھنے کے لئے میقات پر جانا ضروری نہیں ہے اگرچہ وہ میقات کے قریب ہی کیوں نہ ہوں۔ جو لوگ خاص میقات میں ہی رہتے ہوں ان کے بارے میں اس حدیث میں کوئی حکم نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ ان کا حکم بھی وہی ہے جو میقات کے اندر رہنے والوں کا ہے۔ وکذاک وکذاک (اور اسی طرح اور اسی طرح) اس کا تعلق پہلے ہی جملے سے ہے کہ حل (حدود حرم سے باہر سے موقیت تک جو زمین ہے) اس میں جو جہاں رہتا ہے وہیں سے احرام باندھے یعنی میقات اور حد حرم کے درمیان جو لوگ رہنے والے ہیں وہ اپنے اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے چاہے وہ میقات کے بالکل قریب ہوں اور چاہے میقات سے کتنے ہی دور اور حد حرم کے کتنے ہی قریب ہوں۔ حتی اہل مکۃ یہلون منہا کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ یعنی اہل حرم مکہ سے احرام باندھیں جو لوگ خاص مکہ شہر میں رہتے ہیں وہ تو خاص مکہ ہی سے احرام باندھیں گے اور جو لوگ خاص مکہ شہر میں نہیں بلکہ شہر سے باہر مگر حدود حرم میں رہتے ہیں وہ حرم مکہ سے احرام باندھیں گے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ کے لئے احرام باندھنے کی جگہ مکہ ہے خواہ احرام حج کے لئے خواہ عمرہ کے لئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمرہ کرنے والا حل کی طرف جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر پھر حرم میں داخل ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) کو حکم دیا تھا کہ وہ عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم جائیں جو حل میں ہے لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ اس حدیث کا تعلق صرف حج کے ساتھ ہے یعنی یہ حکم اہل مکہ کے لئے ہے کہ وہ جب حج کرنے کا ارادہ کریں تو احرام مکہ ہی سے باندھیں اور اگر عمرہ کرنے کا ارادہ ہو تو پھر حل میں آ کر احرام باندھیں جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

【21】

قرن المنازل

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ مدینہ والوں کے احرام کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے، عراق والوں کے لئے احرام کی جگہ ذات عرق ہے، نجد والوں کے لئے احرام کی جگہ قرن ہے اور یمن والوں کے لئے احرام کی جگہ یلملم ہے۔ (مسلم) تشریح اور دوسرا راستہ جحفہ ہے کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی دوسری جگہ جحفہ ہے اگر وہ مکہ کے لئے مدینہ سے وہ راہ اختیار کریں جس میں جحفہ ملتا ہے تو وہ پھر جحفہ ہی سے احرام باندھیں، ذوالحلیفہ جانے کی ضرورت نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ پہلے مدینہ سے مکہ آنے کے لئے دو راستے تھے ایک راستے میں تو ذوالحلیفہ ملتا تھا اور دوسرے راستے میں جحفہ۔ اسی لئے یہ حکم دیا گیا کہ اگر وہ راہ اختیار کی جائے جس میں ذوالحلیفہ ملتا ہے تو احرام ذوالحلیفہ سے باندھا جائے اور اگر وہ راہ اختیار کی جائے جس میں جحفہ ملتا ہے تو پھر جحفہ سے احرام باندھا جائے، لیکن اب ایک ہی راستہ ہوگیا ہے جس میں پہلے تو ذوالحلیفہ آتا ہے اور پھر جحفہ، اسی طرح اہل مدینہ کے لئے دو میقات ہوگئی ہیں۔ اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اب اہل مدینہ احرام کہاں سے باندھیں ؟ تو علماء لکھتے ہیں کہ اس جگہ سے باندھنا اولیٰ ہے جو مکہ سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے یعنی ذوالحلیفہ اور اگر کوئی شخص جحفہ سے احرام باندھے تو یہ بھی جائز ہے۔

【22】

آنحضرت ﷺ کے حج وعمرہ کی تعداد

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے چار عمرے کئے ہیں اور وہ سب ذی قعدہ کے مہینے میں کئے گئے تھے علاوہ اس ایک عمرہ کے جو حج کے ساتھ کیا گیا تھا اور ذی الحجہ کے مہینے میں ہوا تھا (اور ان چار عمروں کی تفصیل یہ ہے کہ) ایک عمرہ حدیبیہ سے ذی قعدہ کے مہینے میں، دوسرا عمرہ اس کے اگلے سال وہ بھی ذی قعدہ میں ہوا، تیسرا عمرہ جعرانہ سے جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا گیا یہ عمرہ بھی ذی قعدہ میں ہوا اور چوتھا عمرہ حج کے ساتھ جو ذی الحجہ میں ہوا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیبیہ ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریبا پندرہ سولہ میل (٢٦ کلو میٹر) کے فاصلے پر جدہ جاتے ہوئے ملتی ہے یہ مکہ سے شمال مغربی جانب ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس مقام کو شمیسہ بھی کہتے ہیں۔ حدود حرم یہاں سے بھی گزرتے ہیں اس لئے اس جگہ کا اکثر حصہ حرم میں ہے اور کچھ حصہ حل میں (یعنی حرم سے باہر) ہے۔ عمرہ حدیبیہ کا (اجمالی) بیان یہ ہے کہ سن ٦ ھ میں ذی قعدہ کی پہلی تاریخ کو دوشنبہ کے دن نبی کریم ﷺ عمرہ کے قصد سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے چودہ سو یا اس سے کچھ زائد رفقاء آپ ﷺ کے ساتھ تھے جب آپ ﷺ حدیبیہ پہنچے تو قریش مکہ جمع ہو کر آپ ﷺ کے پاس آئے اور زیارت بیت اللہ سے آپ ﷺ کو روکا، کافی ردو قدح کے بعد کہ جس کی تفصیل تاریخ و سیر کی کتابوں میں ملتی ہے۔ آنحضرت ﷺ اور قریش مکہ کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا جو معاہدہ حدیبیہ اور صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ آنحضرت ﷺ مع رفقاء اس سال تو مدینہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں۔ چناچہ آپ ﷺ قریش سے صلح کر کے عمرہ کئے بغیر مدینہ منورہ واپس ہوگئے لہٰذا حقیقت میں تو آپ ﷺ نے عمرہ ادا نہیں کیا مگر عمرہ کا ثواب مل جانے کی وجہ سے یہ آپ ﷺ کا پہلا عمرہ شمار کیا گیا۔ اسی موقع پر احصار کا حکم مشروع ہوا۔ چناچہ آئندہ سال اسی عمرہ کی قضاء کے لئے آپ ﷺ مکہ تشریف لائے تین روز مکہ میں قیام فرمایا عمرہ ادا کیا اور چوتھے روز وہاں سے واپس ہوئے۔ یہ دوسرا عمرہ ہوا اسی عمرہ کو عمرۃ القضاء کہتے ہیں یہ نام احادیث میں بھی منقول ہے۔ حنفیہ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محرم احصار کی وجہ سے احرام سے باہر آجائے تو اس کی قضا اس پر واجب ہوگی حضرت امام شافعی کے نزدیک قضا واجب نہیں ہوتی۔ آپ ﷺ کا تیسرا عمرہ وہ ہے جو آپ ﷺ نے جعرانہ سے مکہ مکرمہ جا کر ادا کیا۔ جہاں آپ ﷺ نے غزوہ حنین کا مال تقسیم کیا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جعرانہ، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جب فتح مکہ کے بعد سن ٨ ھ میں غزوہ حنین کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت بیشمار مال غنیمت ہاتھ لگا، اسی موقع پر آپ ﷺ جعرانہ میں پندرہ سولہ روز قیام پذیر رہے اور وہ مال غنیمت صحابہ میں تقسیم فرمایا انہیں دنوں میں ایک روز رات میں بعد نماز عشاء آپ ﷺ مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا اور اسی رات میں واپس آئے اور جعرانہ میں نماز فجر پڑھی۔ چوتھا عمرہ وہ ہے جو آپ ﷺ نے حج فرض ہونے کے بعد سن ١٠ ھ میں حج کے ساتھ کیا، لہٰذا یہ عمرہ تو ذی الحجہ میں ہوا اور بقیہ عمرے ذی قعدہ میں کئے اس طرح آپ ﷺ نے جو چار عمرے کئے تھے وہ یہ تھے، البتہ زمانہ اسلام میں حج آپ ﷺ نے ایک مرتبہ کیا ہے جب کہ وہ فرض ہوا ہے ایام جاہلیت میں قریش حج کرتے تھے۔ آپ ﷺ بھی اس وقت حج کرتے تھے لیکن ان کی تعداد علماء کو صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔

【23】

حج وعمرہ کا فرق

حج اور عمرہ کی کیفیت اور ان کے متعلقات کا تفصیلی بیان تو آگے آئے گا، اس موقع پر صرف اتنی بات جان لینی چاہئے کہ حج وعمرہ میں فرق کیا ہے ؟ حج میں وقوف عرفات، طواف بیت اللہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی ہوتی ہے جب کہ عمرہ میں صرف طواف بیت اللہ اور سعی بین الصفا و المروہ ہوتی ہے احرام دونوں کے لئے شرط ہے جس طرح حج احرام کے بغیر صحیح نہیں اسی طرح عمرہ بھی احرام کے بغیر صحیح نہیں ہوتا، حج فرض بھی ہوتا ہے سنت بھی اور نفل بھی جب کہ عمرہ فرض نہیں ہوتا۔ صرف سنت اور نفل ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی عمرہ کی نذر مانے تو پھر عمرہ کرنا واجب ہوجاتا ہے۔

【24】

حج سے پہلے آپ ﷺ نے دو عمرے کئے یا تین؟

حضرت براء بن عازب (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ذی قعدہ کے مہینے میں حج سے پہلے دو مرتبہ عمرہ کیا ہے۔ (بخاری) تشریح اس سے پہلی حدیث سے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے حج سے پہلے تین عمرے کئے تھے۔ جب کہ یہ حدیث حج سے پہلے آپ ﷺ کے عمرے کی تعداد دو بتارہی۔ ان دونوں حدیثوں کے تضاد کو یوں دور کیجئے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اگرچہ بظاہر آپ ﷺ نے عمرہ نہیں کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ آپ احرام سے باہر آ جائیے آپ کو عمرے کا ثواب حاصل ہوگیا، گویا آپ ﷺ نے عمرہ کے افعال ادا نہیں کئے ہیں لہٰذ جس روایت میں حج سے پہلے عمرے کی تعداد تین بتائی گئی ہے اس میں اس عمرہ سے مراد عمرہ کا ثواب ہے اس اعتبار سے تین عمرے شمار کئے گئے ہیں اور جس روایت میں حج سے پہلے عمرہ کی تعداد دو بتائی گئی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ اگرچہ آپ ﷺ کو ثواب تین عمرے کے ملے ہیں۔ لیکن ظاہری طور پر عمرے آپ ﷺ نے دو ہی کئے ہیں۔

【25】

حج صرف ایک مرتبہ فرض ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب فرمایا کہ لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو اقرع بن حابس کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہر سال (حج کرنا فرض ہوا ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ میں اس حج کے (ہر سال فرض ہونے کے سوال) کے بارے میں ہاں کہہ دیتا تو یقینا (ہر سال حج کرنا) واجب (یعنی فرض) ہوجاتا تو نہ تم اس حکم پر عمل کر پاتے اور نہ تم اس کی استطاعت ہی رکھتے، حج پوری زندگی میں بشرط قدرت ایک ہی مرتبہ فرض ہے ہاں جو شخص ایک بار سے زیادہ کرے وہ نفل ہوگا (جس پر اسے بہت زیادہ ثواب ملے گا) ۔ (احمد، نسائی، دارمی)

【26】

باوجود قدرت کے حج نہ کرنے والے کے لئے وعید

حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے (یعنی جو شخص حج کرنے کی استطاعت وقدرت رکھتا ہو) اور (پھر بھی) وہ حج نہ کرے تو اس کے یہودی یا نصرانی ہو کر مرجانے (اور بےحج مرجانے) میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ (یعنی حج کے لئے زاد راہ و سواری کا شرط ہونا اور اس عظیم عبادت کو ترک کردینے پر مذکورہ بالا وعید) اس لئے ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے۔ آیت (وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْ تَ طَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا) 3 ۔ ال عمران 97) ۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج کرنا ضروری ہے جو وہاں جاسکتا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند محل کلام ہے ہلال ابن عبداللہ مجہول ہیں اور حارث روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات کے لئے کافی بھی ہوجائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس قدر دے جائے جو اس کی واپسی تک ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے نیز اس کے پاس ایسی سواری ہو جو بیت اللہ تک پہنچا سکے، چاہے وہ اپنی ہو یا کرایہ کی ہو اور وہ اتنی استطاعت وقدرت کے باوجود بھی حج نہ کرے اور مرجائے تو وہ یہودی و نصرانی ہو کر مرتا ہے۔ اب اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس نے استطاعت وقدرت کے باوجود حج اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کی فرضیت ہی کا منکر ہو تو پھر یہودی اور نصرانی کی اس مشابہت کا تعلق کفر سے ہوگا۔ یعنی جس طرح یہودی و نصرانی کفر کی حالت میں مرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی کفر کی حالت میں مرے گا اور اگر فرضیت کا منکر ہوئے بغیر حج نہ کرے تو اس مشابہت کا تعلق گناہ سے ہوگا کہ یہودی و نصرانی جتنے سخت گناہ کی حالت میں مرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی شدید گناہ کا بار لئے موت کی نذر ہوگا۔ اگرچہ بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ وعید از راہ تغلیظ و تشدید یعنی ترک حج کے گناہ کی شدت وہیبت ناکی کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔ لیکن بہر نوع ترک حج ایک ایسا گناہ ہے اور اتنا شدید جرم ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اتنی شدید اور سخت وعید بیان فرمانی پڑی کہ حج نہ کرنے والا یہودی یا نصرانی ہو کر مرتا ہے العیاذ باللہ منہ۔ الیہ سبیلا کے بعد آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت (وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران 97) ۔ اور کوئی کفر کرے (اور طاعات و عبادات نہ کر کے) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کرے تو اللہ تعالیٰ عالم کے لوگوں سے بےنیاز ہے۔ یعنی لوگ طاعت و عبادت کریں یا نہ کریں اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں، نفع نقصان تو انہیں لوگوں کو ہے کہ اگر طاعت و عبادت کریں تو فلاح و نجات پائیں گے اور اگر نہ کریں گے تو خسران و عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ پوری آیت پڑھی ہوگی کیونکہ استدلال تو پوری ہی آیت سے ہوتا ہے لیکن راوی نے الیہ سبیلا ہی تک اس آیت کو نقل کیا۔

【27】

باوجود قدرت کے حج نہ کرنے والے کے لئے وعید

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ صیرورت اسلام میں داخل نہیں۔ (ابوداؤد) تشریح صیرورت کا مفہوم ہے۔ وہ شخص جس نے کبھی حج نہ کیا ہو۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے حج واجب ہونے کے باوجود حج نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہی ہے کہ جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھے اور پھر بھی حج نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ارشاد یا تو از راہ تغلیظ و تشدید ہے یا پھر اس کی مراد یہ ہے کہ ایسا شخص کامل مسلمان نہیں ہوتا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ صیرورت کے معنی ہیں نکاح اور حج کو ترک کرنا، اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نکاح اور حج کو ترک کرنا اسلام کا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ رہبانیت میں داخل ہے اس لئے مسلمان کو نکاح و حج ترک نہ کرنا چاہئے۔

【28】

حج علی الفور واجب ہے یا علی التراخی

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ جلدی کرے۔ (ابوداؤد، ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص حج کرنے پر قادر ہو اور حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لئے ملے ہوئے موقع کو غنیمت جانے کیونکہ تاخیر کرنے کی صورت میں نہ معلوم کتنی رکاوٹیں پیدا ہوجائیں اور مآل کار اس نعمت عظمی سے محرومی رہے۔ اس بارے میں کہ حج علی الفور واجب ہے یا علی التراخی ؟ حنفیہ کے ہاں سب سے صحیح قول یہ ہے کہ جب حج واجب ہو یعنی شرائط حج پائے جائیں اور حج کا وقت آجائے نیز قافلہ مل جائے (بشرطیکہ قافلے کی ضرورت ہو جیسا کہ پہلے زمانے میں بغیر قافلہ کے سفر کرنا تقریبا ناممکن ہوتا تھا) تو اسی سال حج کرے دوسرے سال تک تاخیر نہ کرے، اگر کوئی شخص بلا عذر کئی سال تاخیر کرتا رہے گا تو وہ فاسق کہلائے گا اور شرعی نقطہ نظر سے اس کی گواہی قبول نہ ہوگی۔ یعنی وہ شریعت کی نظر میں ناقابل اعتبار قرار پائے گا یہاں تک کہ اس عرصے میں اگر اسباب حج (کہ جن کی وجہ سے اس پر حج واجب ہوا تھا) جاتا رہے گا تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہیں ہوگا بلکہ باقی رہے گا (جس کی وجہ سے حج نہ کرسکنے کی صورت میں گنہگار ہوگا) حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں واجب علی التراخی ہے یعنی آخر عمر تک حج میں تاخیر جائز ہے جیسا کہ نماز میں آخر وقت تک تاخیر جائز ہے، حضرت امام محمد (رح) کا بھی یہی قول ہے لیکن اس سلسلے میں دونوں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تاخیر اسی وقت جائز ہوگی جب کہ حج کے فوت ہوجانے کا گمان نہ ہو، اگر یہ گمان ہو کہ تاخیر کرنے میں حج فوت ہوجائے گا (یعنی کبھی حج نہیں کرسکے گا) تو پھر تاخیر نہ کرے، اس صورت میں اگر کوئی شخص حج فرض ہونے کے باوجود بغیر حج کے مرے گا تو تمام ہی علماء کے نزدیک گنہگار مرے گا چناچہ حج نہ کرنے کا اس سے مواخذہ ہوگا۔ حنفی علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے شرائط حج پائے جانے کے بعد حج میں تاخیر کی اور اس عرصے میں اس کا مال و زر تلف ہوگیا تو وہ قرض لے کر حج کرے اگرچہ اس قرض کی ادائیگی پر وہ قادر نہ ہو اور اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرض کی عدم ادائیگی پر مواخذہ نہیں کرے گا بشرطیکہ اس کی نیت یہ ہو کہ میرے پاس جب بھی مال آجائے گا میں یہ قرض ضرور ادا کروں گا۔

【29】

حج وعمرہ ساتھ کرنے کا حکم

حضرت ابن مسعود (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ حج اور عمرہ ایک ساتھ کرو اور اس لئے کہ یہ دونوں (یعنی ان میں سے ہر ایک) فقر اور گناہوں کو ایسا دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے سونے اور چاندی کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں۔ (ترمذی، نسائی امام احمد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت عمر (رض) سے لفظ خبث الحدید تک نقل کیا ہے) ۔ تشریح حج اور عمرہ ایک ساتھ کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کرو۔ یہ حج کی سب سے افضل قسم ہے جس میں حج وعمرہ دونوں ساتھ ہوتے ہیں اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔ یا پھر اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے عمرہ کیا ہے تو پھر حج بھی کرو اور حج کرلیا ہے تو پھر عمرہ بھی کرو۔ فقر سے مراد ظاہری فقر بھی ہوسکتا ہے اور باطنی بھی یعنی حج وعمرہ کرنے سے اللہ تعالیٰ مال و دولت کی نعمت سے نوازتا ہے یا یہ کہ دل غنی ہوجاتا ہے۔

【30】

حج کے شرائط

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کون سی چیز حج کو واجب کرتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا زاد راہ اور سواری۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح سوال کون سی چیز حج کو واجب کرتی ہے ؟ کا مطلب یہ ہے کہ حج واجب ہونے کی شرط کیا ہے ؟ چناچہ آپ ﷺ نے ایک چیز تو زاد راہ بتایا جس کی مراد یہ ہے کہ اتنا مال و زر جو سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات اور تا واپسی اہل و عیال کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور دوسری چیز سواری بتائی جس پر سوار ہو کر بیت اللہ تک پہنچا جاسکے اگرچہ حج کے واجب ہونے کی شرطیں اور بھی ہیں مگر یہاں بطور خاص ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اصل میں یہی دو شرائط ایسی ہیں جو حج کے لئے بنیادی اور ضروری اسباب کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ حدیث حضرت امام مالک کے مسلک کی تردید کرتی ہے ان کے ہاں اس شخص پر بھی حج واجب ہوتا ہے جو پیادہ چلنے پر قادر ہو اور تجارت یا محنت مزدوری کے ذریعہ سفر حج کے اخراجات کے بقدر روپے پیسے حاصل کرسکتا ہو۔

【31】

حاجی کی صفت وکیفیت

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ حاجی کی صفت و کیفیت کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ غبار آلود سر، پراگندہ بال اور پسینہ و میل کی وجہ سے بو آتی ہو (یعنی زیب وزینت سے مکمل اجتناب جیسا کہ کسی عاشق صادق اور محب مخلص کی علامت ہوتی ہے) پھر ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! حج میں (ارکان کے بعد) کون سی چیزیں بہت زیادہ ثواب کی حامل ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لبیک کے ساتھ آواز بلند کرنا اور قربانی یا ہدی کے جانور کا خون بہانا۔ اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ سبیل کیا ہے ؟ یعنی قرآن کریم میں حج کے سلسلہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے آیت (من استطاع الیہ سبیلا) تو اس آیت میں سبیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا زاد راہ اور سواری۔ (شرح السنۃ) نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے لیکن انہوں نے حدیث کا آخری حصہ یعنی فقام آخر (اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا) سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔

【32】

باپ کی طرف سے حج کرنے کی اجازت

حضرت ابورزین عقیلی (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ بہت زیادہ بوڑھا ہوگیا ہے وہ نہ تو حج کی طاقت رکھتا ہے اور نہ عمرے کی اور نہ ہی سوار ہونے کی (یعنی بسبب ضعف و کبر سنی نہ تو حج وعمرہ کے افعال و ارکان کی ادائیگی پر قادر ہے اور نہ سوار ہو کر حج وعمرہ کے لئے جاسکتا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اس کی طرف سے تم حج وعمرہ کرو۔ (ترمذی، ابوداؤد نسائی) نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح اس باب کی پہلی فصل میں حضرت ابن عباس (رض) کی روایت (حدیث نمبر سات) کی تشریح کے ضمن میں اس روایت کا تذکرہ آچکا ہے۔

【33】

دوسرے کی طرف سے حج کرنے سے پہلے کیا اپنا حج کئے ہونا ضروری ہے؟

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (حج کے دوران) ایک شخص کو سنا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک کہہ رہا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ شبرمہ کون ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ میرا بھائی ہے یا کہا کہ میرا قریبی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اپنی طرف سے حج کرچکے ہو ؟ اس نے کہا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پہلے تم اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ (شافعی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ جو شخص پہلے اپنا فرض حج نہ کرچکا ہو اس کو دوسرے کی طرف سے حج کرنا درست نہیں ہے، چناچہ یہ حدیث ان حضرات کی دلیل ہے، حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ دوسرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے چاہے خود اپنا فریضہ حج ادا نہ کر پایا ہو۔ لیکن ان حضرات کے نزدیک بھی اولیٰ یہی ہے کہ پہلے اپنا حج کرے اس کے بعد دوسرے کی طرف سے حج کرے چناچہ ان کے مسلک کے مطابق اس حدیث میں پہلے اپنا حج کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے۔ ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا یہ کہ منسوخ ہے اس لئے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ہے۔

【34】

مشرق والوں کی میقات

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مشرق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ (یعنی میقات) عقیق کو متعین فرمایا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح عقیق ایک جگہ کا نام ہے جو ذات عرق کے محاذات میں واقع ہے یہ جگہ مشرق والوں کے لئے میقات ہے مشرق والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حرم سے باہر مکہ کی مشرقی جانب کے علاقوں میں رہنے والے ہیں یہی لوگ عراقی بھی کہلاتے ہیں جن کا تذکرہ اگلی حدیث میں ہے، اس طرح مشرق والوں کے لئے احرام باندھنے کی دو جگہیں ہوئیں ایک تو عقیق اور ذات عرق۔ لہٰذا اس سمت سے آنے والے لوگ ان دونوں میں سے جس جگہ بھی گزریں وہیں سے احرام باندھیں۔

【35】

مشرق والوں کی میقات

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق متعین فرمائی۔ (ابوداؤد، نسائی)

【36】

میقات سے پہلے احرام باندھنا افضل ہے

ام المؤمنین حضرت ام اسلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص حج یا عمرہ کے لئے مسجد اقصیٰ (ہی سے احرام باندھ کر چلے) تو اس کے وہ تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے ہوں گے اور جو بعد میں کرے گا یا فرمایا کہ اس شخص کے لئے ابتداء ہی میں جنت واجب ہوجائے گی (یعنی وہ شروع ہی میں جنت میں داخل ہوگا۔ (ابوداؤد ابن ماجہ) تشریح من اہل بحجۃ او عمرۃ میں حرف او تنویع کے لئے ہے اور او وجبت لہ الجنۃ میں اور راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی شخص بیت المقدس سے مکہ کے لئے چلتا ہے تو وہ راستہ میں مدینہ منورہ سے گزرتا ہے، اس طرح وہ شخص اپنے راستہ میں تینوں افضل ترین مقامات سے مشرف ہوتا ہے بایں طور کہ اس راستہ کے سفر کی ابتداء بیت المقدس سے ہوتی ہے درمیان میں مدینہ منورہ آتا ہے اور آخر میں مکہ مکرمہ پہنچتا ہے لہٰذا اس شخص کی خوش بختی کا اندازہ لگائیے جو اپنے سفر حج کی ابتداء بیت المقدس سے کرے کہ اول تو خود سفر مقدس و باعظمت پھر سفر کی ابتداء بیت المقدس سے درمیان میں مدینہ منورہ اور سفر کی انتہاء حرم محترم پر اس سبب سے مذکورہ بالا شخص یہ عظیم ثواب پاتا ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ احرام باندھنے کی جگہ حرم محترم سے جتنی دور ہوگی ثواب بھی اتنا زیادہ ہوگا اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک مواقیت سے احرام کی تقدیم یعنی احرام باندھنے کی جگہوں سے پہلے ہی احرام باندھ لینا یا اپنے گھر ہی سے احرام باندھ کر چلنا افضل ہے حضرت امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ ممنوعات احرام سے بچ سکے، ورنہ اگر یہ جانے کہ اس صورت میں ممنوعات احرام سے اجتناب ممکن نہیں ہوگا تو پھر میقات ہی سے احرام باندھنا افضل ہوگا۔ اسی طرح حج کے مہینوں میں (یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن) سے پہلے احرام باندھنے کے بارے میں حنفیہ کے ہاں جواز کا قول بھی ہے اور مکروہ کہا گیا ہے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بھی کراہت ہی کے قائل ہیں۔ حضرت امام شافعی کا ایک قول اگرچہ یہ بھی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھنے والوں کا احرام درست نہیں ہوگا لیکن ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھے گا تو اس کا وہ احرام حج کی بجائے عمرہ کا ہوجائے گا۔

【37】

حج میں لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے اجتناب کرو

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یمن والے جب حج کرنے آئے تو زاد راہ ساتھ نہیں لائے تھے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو توکل کرنے والے ہیں اور پھر جب وہ مکہ میں آتے تو لوگوں سے مانگتے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی (ڼوَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى) 2 ۔ البقرۃ 197) اور جب حج کو جانے لگو تو زاد راہ ضرور ساتھ لے لیا کرو کیونکہ سب سے بڑی بات اور خوبی زاد راہ میں گداگری سے بچنا ہے۔ (بخاری) تشریح ان لوگوں نے توکل کو زارد راہ کا درجہ دے دیا تھا ور یہ سمجھتے تھے کہ حج کے ضروری اخراجات کی فراہمی سے قطع نظر توکل بہترین چیز ہے لیکن حقیقت میں نہ تو وہ توکل تھا اور نہ یہ کوئی اچھی بات تھی کہ حج کے لئے مکہ مکرمہ پہنچ کر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے جائیں جو انسانی شرف و عظمت کے خلاف ہے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ سب سے بڑی بات اور خوبی یہ ہے کہ زاد راہ اپنے ساتھ رکھو اور گداگری سے بچو۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ حج کے ضروری اخراجات ساتھ رکھے بغیر اس شخص کے لئے جانا درست نہیں ہے جس کے نفس میں توکل کی قوت نہ ہو اور اس کو غالب گمان ہو کہ میں شکایت و بےصبری اور گداگری میں مبتلا ہو کر خود بھی پوری طمانینت اور سکون کے ساتھ افعال حج ادا نہ کرسکوں گا اور دوسروں کو بھی پریشانی میں مبتلا کروں گا۔ آیت اور حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اتنا وسائل اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے چناچہ کاملین کے نزدیک یہ افضل ہے کہ ہاں اگر کوئی بغیر اسباب کے صرف توکل ہی کو اختیار کرے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ اپنے عزم و ارادہ پر مستحکم و مضبوط رہ کر صبر کرسکے اور ایسا کوئی بھی کام نہ کرے جو حقیقی توکل کے منافی ہو۔

【38】

عورتوں کا جہاد حج وعمرہ ہے

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورتوں پر جہاد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں عورتوں پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج وعمرہ ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح اسلام نے عورتوں کے لئے جہاد واجب قرار نہیں دیا ہے لیکن چونکہ یہ ایک ایسی عظیم سعادت ہے جس سے عورتیں محروم رہیں اس لئے ان کے حق میں حج وعمرہ کو جہاد کا درجہ دے کر جہاد کے ثواب کی سعادت سے انہیں نوازا گیا، چناچہ حج وعمرہ میں اگرچہ جنگ و جدل اور قتل قتال نہیں ہے لیکن اس میں بھی مشقت سفر، گھر والوں سے مفارقت اور وطن کی جدائی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح جہاد میں۔ اس لئے عورتوں کے حق میں حج وعمرہ بمنزلہ جہاد ہے۔

【39】

بغیر عذر فرض حج نہ کرنے والوں کے لئے وعید

حضرت ابوامامہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جس شخص کو ظاہری حاجت نے (کہ وہ زاد راہ اور سواری کا نہ ہونا ہے) یا ظالم بادشاہ نے یا خطرناک مرض نے حج سے نہ روک رکھا ہو اور وہ حج کئے بغیر مرجائے تو اسے اختیار ہے کہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔ (دارمی) تشریح اگر کسی شخص کو سفر حج کے راستہ میں کسی ظالم بادشاہ و حکمران کی طرف سے جان و مال کے اتلاف کا خوف ہو تو اس پر حج فرض نہیں رہتا باوجودیکہ اس میں حج کے دوسرے شرائط مثلاً اخراجات کے بقدر مال و زر اور سواری وغیرہ پائے جاتے ہوں اسی طرح وہ بیماریاں جن کی وجہ سے سفر کرنا ممکن نہ ہو حج کی فرضیت کو ساقط کردیتی ہیں۔ چناچہ اندھے و فالج زدہ وغیرہ پر باوجود مالی استطاعت وقدرت کے حج فرض نہیں ہوتا۔ اس تفصیل کی روشنی میں حدیث بالا کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس زاد راہ ہو اور سواری کا انتظام ہو، راستہ میں کسی ظالم بادشاہ کا خوف نہ ہو، کوئی بیماری مانع سفر نہ ہو گویا کہ حج کے تمام شرائط موجود ہوں اور اس پر حج فرض ہو اور پھر وہ حج نہ کرے تو اب چاہئے وہ یہودی ہو کر مرے۔ اور چاہے عیسائی ہو کر اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہی اس وعید کے سلسلہ میں گزشتہ صفحات میں ایک موقع پر تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔

【40】

حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح کعبہ مکرمہ کو بیت اللہ فرمایا گیا ہے یعنی وہ اللہ جل شانہ کا گھر ہے جو شخص اس کے گھر کی زیارت کے لئے جاتا ہے وہ اس کا مہمان ہوتا ہے جس طرح میزبان اپنے مہمان کی ہر جائز خواہش کا احترام کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے مہمانوں کی لاج رکھتا ہے جو وہ مانگتے ہیں قبول فرماتا ہے وہ اگر اپنی مغفرت و بخشش چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت و بخشش کی دولت سے نوازتا ہے۔

【41】

حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ (١) جہاد کرنے والے (٢) حج کرنے والے (٣) عمرہ کرنے والے۔ (نسائی، بیہقی)

【42】

حج کر کے واپس آنے والے سے سلام ومصافحہ کرو

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم حاجی سے ملاقات کرو تو اس کو سلام کرو اس سے مصافحہ کرو اور اس سے اپنے لئے بخشش کی دعا کرنے کو کہو اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اور یہ اس لئے کہ اس کی بخشش کی جا چکی ہے۔ (احمد) تشریح جیسا کہ ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے حاجی مستجاب الدعوات ہوجاتے ہیں جس وقت کہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہیں اور گھر واپس آنے کے چالیس روز بعد تک ایسے ہی رہتے ہیں۔ چناچہ گزشتہ زمانہ میں دستور تھا اور اب بھی ہے کہ جب حجاج اپنے گھر واپس آتے تھے تو لوگ ان کے استقبال کے واسطے جایا کرتے تھے اور ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اس شخص کی مغفرت ہوچکی ہے اور یہ گناہوں سے پاک ہو کر آیا ہے اس سے مل کر مصافحہ کریں پیشتر اس کے کہ وہ دنیا میں ملوث ہوجائے تاکہ ہم کو بھی ان سے کچھ فیض پہنچے۔ اگرچہ آج کل یہ غرض کم اور نام و نمود کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ چناچہ اس حدیث میں بھی حاجی سے سلام و مصافحہ کرنے کے لئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اس وقت تک دنیا میں ملوث اور اپنے اہل و عیال میں مشغول نہیں ہوتا بلکہ اس وقت تک وہ اللہ کے راستہ ہی میں ہوتا ہے اور گناہوں سے پاک و صاف ہوتا ہے اور اس صورت میں حاجی چونکہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ اس سے اپنے لئے مغفرت و بخشش کی دعا کراؤ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور تمہیں مغفرت و بخشش سے نوازے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا، جہاد کرنے والا اور دینی طالب علم بھی حاجی کے حکم میں یعنی جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے گھر آئیں تو ان سے بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام و مصافحہ کیا جائے اور دعاء بخشش و مغفرت کی درخواست کی جائے کیونکہ یہ لوگ بھی مغفور ہوتے ہیں۔

【43】

حج وعمرہ کی راہ میں مرجانے والے کو پورا ثواب ملتا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص حج یا عمرہ اور یا جہاد کے ارادہ سے گھر سے نکلا اور پھر اس کے راستہ میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہاد کرنے والے اور حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے ہی کا ثواب لکھتا ہے۔ (بیہقی) تشریح انہیں لوگوں کے حکم میں دینی طالب علم بھی ہے یعنی اگر کوئی شخص دین کا علم حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر سے نکلا اور پھر وہ راستہ میں مرگیا تو اس کے لئے بھی عالموں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

【44】

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ

حج کے بارے میں چند بنیادی باتین اجمالی طور پر اس باب میں بیان ہوئی ہیں۔ مابعد کے ابواب میں حج کے تفصیلی احکام و مسائل آئیں گے چونکہ مکہ مکرمہ اس عظیم عبادت وسعادت کا بنیادی مقام و محور ہے اور مدینہ منورہ ایک ایک مسلمان کے دل کی دھڑکنوں کا مرکز اور دیار محبوب ہے اور جس کی زیارت بھی سفر حج کی ایک بنیادی خواہش ہے اس لئے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مقدس و بابرکت مقامات کا ایک مختصر سا تاریخی اور جغرافیائی خاکہ پیش کردیا جائے اگرچہ آگے ان مقامات کے فضائل و مسائل پر مشتمل الگ ابواب آئیں گے۔

【45】

مکہ مکرمہ

مکہ مکرمہ جہاں بیت اللہ شریف واقع ہے مملکت سعودی عرب کے علاقہ حجاز کا ایک شہر ہے جو وادی ابراہیم میں آباد ہے سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً ساڑھے تین سو فٹ بتائی جاتی ہے اس کا عرض البلد اکیس درجہ شمالی اور طول البلد ساڑھے انتالیس درجہ مشرقی ہے، آبادی چار لاکھ یا اس سے متجاوز ہے اس کا محل وقوع ساحل سمندر سے تقریباً اڑتالیس میل (٧٨ کلو میٹر) کے فاصلہ پر ہے۔ مکہ کے علاوہ بکہ، ام القرای اور بلد الامین اسی شہر کے نام ہیں مشہور اور متعارف نام مکہ ہی ہے یہ جس جگہ واقع ہے وہ ناقابل کاشت، تنگ اور گہری وادی ہے جو کسی زمانہ میں بالکل جنگل اور بےآب وگیاہ ریگستان ہونے کے سبب لوگوں کی آبادی کا مرکز نہیں بنتی تھی اس وادی میں شہر مکہ مکرمہ مشرق سے مغرب تک پانچ میل سے زائد حصہ میں پھیلا ہوا ہے اس کا عرض دو میل سے زائد ہے اس کی زمین سیلاب کی گزرگاہ ہونے کے باعث بطحا بھی کہی جاتی ہے مکہ کی وادی دو پہاڑی سلسلوں میں گھری ہوئی ہے جو مغرب سے شروع ہو کر مشرق تک چلے گئے ہیں ان میں ایک سلسلہ شمالی ہے اور ایک جنوبی ان دونوں سلسلوں کو اخشیان کہتے ہیں ان پہاڑوں کو توریت میں جبال فاران کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور اپنے بیٹھے حضرت اسماعیل کو اس جنگل اور بےآب وگیاہ وادی میں لا کر آباد کیا اور اسی وقت کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس جنکل کو آباد کر دے۔ جب ہی سے یہ بےآب وگیاہ میدان قرب و جوار بلکہ ساری دنیا کا مرکز بنا، اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندے اسی کا رخ بنا کر پانچ وقت اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ حضرت اسماعیل کی نسلیں یہاں مقیم ہوئی اور کچھ نسلیں قرب و جوار میں بھی پھیلیں آخر میں قریش یہاں کے متولی اور باشندے ہوئے اور پھر یہاں قریش میں دنیا کے سب سے عظیم رہنما اور اللہ کے سب سے آخری پیغمبر و رسول سرکار دو عالم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی اور آپ ﷺ نے مبعوث ہونے کے بعد اسی مقدس شہر سے اللہ کے آخری دین اسلام کا پیغام دنیا کو سنایا اور یہیں سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تمام تر جدو جہد کا آغاز ہوا۔ مکہ کی آبادی پہلے صرف خیموں میں رہتی تھی ہجرت سے صرف دو صدی پہلے آنحضرت ﷺ ایک جد قصی ابن کلاب جب شام سے آئے تو ان کے مشورہ سے مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا، پھر اسلام کے آنے کے بعد اس شہر کو برابر ترقی ہوتی رہی، اب یہ اپنے قرب و جوار میں دور دور تک سب سے بڑا اور پورے عالم اسلام کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔ شہر میں پانی کا ایک ہی چشمہ ہے جسے زمزم کہتے ہیں اس کے علاوہ یہاں پانی کا اور کوئی کنواں نہیں ہے پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کی زمین میں کچھ کاشت نہیں ہوسکتی تھی، اب پانی کی افراط کی وجہ سے کچھ گھاس اور پودے لگائے گئے ہیں پہلے شہر میں پانی کی بہت قلت ہونے کی وجہ سے طائف کے قریب یہاں ایک نہر لائی گئی ہے جس کا نام نہر زبیدہ ہے۔ یہ نہر امین الرشید کی والدہ زبیدہ نے بنوائی تھی بعد میں اس کو ترقی دی جاتی رہی اس کے لئے پانی پہنچانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کئے گئے اب موجودہ حکومت میں پانی کی سپلائی کا بہت معقول انتظام اور عمدہ ہونے کی وجہ سے یہ قلت بالکل جاتی رہی ہے۔ پہاڑوں کے درمیان گھرے ہونے کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں گرمی زیادہ اور سردی کم ہوتی ہے شہر کا موسم گرمیوں میں بڑا سخت ہوتا ہے اور بارش صرف جاڑوں میں ہوتی ہے جس کی سالانہ مقدار چار پانچ انچ سے زیادہ نہیں ہوتی لہٰذا گرمی کا موسم مارچ میں شروع ہو کر آخر اکتوبر تک رہتا ہے موسم سرما میں سردی کم ہوتی ہے۔

【46】

مدینہ منورہ :

مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے بجانب شمال تقریبا دو سو ستر میل (چار سو بتیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع اس کے مغربی جانب سو سو میل (سو کلو میٹر) کے فاصلہ پر سمندر اور اس علاقہ کا مشہور بندرگاہ ینبوع ہے۔ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ اور شام کے درمیان راستہ کے تقریبا وسط پر واقع ہے اس کا طول البلد ساڑھے انتالیس درجہ مشرقی اور عرض البلد چوبیس درجہ شمالی ہے۔ جب اللہ کے نام لیواؤں پر مکہ کی زمین تنگ ہوئی اور کفار مکہ کی خطرناک انتقامی کاروائیوں، ایذاء رسانیوں اور سازشوں کی وجہ سے تبلیغ اسلام میں رکاوٹ اور مسلمانوں کی جان و آبرو کے لالے پڑگئے تو اللہ کے حکم سے آنحضرت ﷺ نے صحابہ (رض) کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور خود بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ آگئے اس طرح اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا مرکز مدینہ منورہ منتقل ہوگیا اور پھر اسی سر زمین سے اسلام کی روشنی عرب کی حدود سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچی۔ آپ کی تشریف آوری سے قبل اس شہر کا نام یثرب تھا یہاں قدیم زمانہ میں عمارز اور دوسری قومیں رہ چکی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام بدل دیا اور پھر اسے مدینۃ الرسول یعنی رسول اللہ ﷺ کا شہر کہا جانے لگا۔ اس کے علاوہ۔ طابہ، طیبہ، طائبہ، ارض اللہ، دارالہجرۃ۔ بیت رسول اللہ۔ حرم رسول اللہ۔ محبوبہ۔ حسنہ وغیرہ بھی نام احادیث وغیرہ میں آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مشہور اور متعارف نام مدینہ ہے۔ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے برعکس سرسبز و شاداب اور ایک زراعتی شہر ہے۔ مغربی جانب کے علاوہ اس کے دوسرے اطراف میں باغات بکثرت ملتے ہیں جن میں کھجور، انگور انار سیب اور دوسرے پھل کافی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی زمینوں میں کھیتی باڑی کی جاتی ہے مدینہ کی آب و ہوا مکہ کی آب و ہوا کے مقابلہ میں معتدل ہے ایک تو وجہ یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی طرح پہاڑیوں سے گھرا ہوا نہیں ہے دوسرے یہ کہ اس کو مختلف سمتوں سے باغات نے گھیر رکھا ہے تیسرے یہ کہ شہر سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلند ہے یہاں جاڑا اور گرمی دونوں سخت ہوتے ہیں۔ یہ شہر ایک صحت پرور شہر سمجھا جاتا ہے منقول ہے کہ جب آنحضرت ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو اس وقت یہاں کی آب و ہوا نہایت ناقص اور خراب تھی اکثر وبائی بیماریاں ہوتی رہتی تھیں چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت بلال (رض) یہاں آتے ہی سخت بیمار ہوگئے آنحضرت ﷺ نے اس شہر کی آب و ہوا کی اصلاح اور درستی کے لئے دعا مانگی اور آپ کی دعا قبول ہوئی۔ مدینہ کی مشرقی جانب حرۃ الواقم اور مغربی جانب حرۃ الوبرہ نامی پہاڑ ہیں۔ شمالی جانب جبل احد ہے جس کے پاس احد کا معرکہ پیش آیا تھا اور وہاں متعدد صحابہ اور حضرت حمزہ (رض) کی قبریں ہیں یہ پہاڑ شہر سے تقریباً اڑھائی میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جنوبی جانب جبال گیر نامی دو پہاڑ ہیں اور قبا اور عوالی نامی دو بستیاں ہیں حرۃ الواقم اور حرۃ الوبرہ کے درمیان شمال میں لیکن ذرا علیحدہ جبل سلع ہے یہی وہ جگہ ہے یہاں چار ہجری میں آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کے ساتھ خندق کھودی تھی۔ اور مدینہ منورہ پر حملہ آور کفار کا راستہ بند کردیا تھا۔ یہ واقعہ غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کہلاتا ہے یہ خندق حرۃ الواق سے حرۃ الوبرہ تک ہلالی شکل میں کھو دی گئی تھی اور جبل سلع کے پیچھے سے گزری تھی۔ مسلمانوں کا لشکر جبل سلع کے دامن میں مقیم ہوا تھا۔ شہر کے تقریباً وسط میں قدرے مستطیل شکل کی رسول اللہ ﷺ کی پر شکوہ مسجد ہے اس مسجد کے مشرقی پہلو اور جنوبی سرے پر روضہ اطہر ہے جس میں سرکار دو عالم ﷺ آرام فرما ہیں اور آپ کے دو معزز رفیق ابوبکر صدیق اور عمر فاروق (رض) بھی یہیں مدفون ہیں۔