61. احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان

【1】

احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان

احرام کے معنی ہیں حرام کردینا چونکہ حج کرنے والے پر کئی چیزیں حرام ہوجاتی ہیں لہٰذا اس اظہار کے واسطے کہ اس وقت یہ چیزیں حرام ہوگئی ہیں ایک لباس جو صرف ایک چادر اور تہبند ہوتا ہے۔ بہ نیت حج یا عمرہ باندھا جاتا ہے جس کو احرام کہتے ہیں۔ تلبیہ یعنی لبیک کہنے سے مراد یہ عبارت پڑھنا ہے۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک

【2】

احرام میں خوشبو لگانے کا مسئلہ

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کو آپ ﷺ کے احرام کے لئے احرام باندھنے سے پہلے اور آپ ﷺ کے احرام سے نکلنے کے لئے طواف کعبہ سے پہلے خوشبو لگاتی تھی اور ایسی خوشبو لگتی تھی جس میں مشک ہوتا تھا گویا میں اب بھی آپ ﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ ﷺ احرام باندھے ہوئے ہیں یعنی وہ چمک گویا میری آنکھوں تلے پھرتی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت عائشہ (رض) کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ جب احرام کا ارادہ کرتے تو احرام باندھنے سے پہلے میں آپ ﷺ کو خوشبو لگاتی اور وہ خوشبو ایسی ہوتی جس میں مشک بھی ہوتا تھا۔ لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر خوشبو احرام سے پہلے لگائی جائے اور اس کا اثر احرام کے بعد بھی باقی رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ خوشبو کا احرام کے بعد استعمال کرنا ممنوعات احرام سے ہے نہ کہ احرام سے پہلے۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ احرام کے بعد خوشبو استعمال کرنا ممنوع ہے احرام سے پہلے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے ہاں احرام سے پہلے بھی ایسی خوشبو لگانا مکروہ ہے جس کا اثر احرام باندھنے کے بعد بھی باقی رہے۔ ولحلہ قبل ان یطوف بالبیت ( اور آپ ﷺ کے احرام سے نکلنے کے لئے الخ) کا مفہوم سمجھنے سے پہلے یہ تفصیل جان لینی چاہے کہ بقر عید کے روز (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) حاجی مزدلفہ سے منیٰ میں آتے ہیں اور وہاں رمی جمرہ عقبہ (جمرہ عقبہ پر کنکر مارنے) کے بعد احرام سے نکل آتے ہیں یعنی وہ تمام باتیں جو حالت احرام میں منع تھیں اب جائز ہوجاتی ہیں البتہ رفث (جماع کرنا یا عورت کے سامنے جماع کا ذکر اور شہوت انگیز باتیں کرنا) جائز نہیں ہوتا یہاں تک کہ جب مکہ واپس آتے ہیں اور طواف افاضہ کرلیتے ہیں تو رفث بھی جائز ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حضرت عائشہ (رض) کے اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب احرام سے نکل آتے یعنی مزدلفہ سے منیٰ آ کر رمی جمرہ عقبہ سے فارغ ہوجاتے لیکن ابھی تک مکہ آ کر طواف افاضہ نہ کرچکے ہوتے تو میں اس وقت بھی آپ ﷺ کو خوشبو لگاتی تھی۔

【3】

تلبید وتلبیہ

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو تلبیہ اس طرح بآواز بلند کہتے سنا اور اس وقت آپ تلبید کئے ہوئے تھے۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ یعنی حاضر ہوں میں تیری خدمت میں اے اللہ ! حاضر ہوں تیری خدمت میں، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں میں تیری خدمت میں بیشک تمام تعریف اور ساری نعمت تیرے ہی لئے ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ آپ ﷺ ان کلمات سے زیادہ نہیں کہتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح تلبید کرنا یہ کہ محرم (احرام باندھنے والا) اپنے سر کے بالوں میں گوند یا خطمی یا مہندی یا اور کوئی چیز لگا لیتا ہے تاکہ بال آپس میں یکجا رہیں اور چپک جائیں ان میں گرد و غبار نہ بیٹھے اور جوؤں سے محفوظ رہیں۔ تلبیہ یعنی لبیک کہنے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک احرام کے صحیح ہونے کے لئے تلبیہ شرط ہے، حضرت امام مالک کہتے ہیں کہ تلبیہ واجب نہیں ہے لیکن تلبیہ ترک کرنے کی وجہ سے دم (جانور ذبح کرنا) لازم آتا ہے اور حضرت امام شافعی کے ہاں تلبیہ سنت ہے اس کو ترک کرنے کی صورت میں دم لازم نہیں ہوتا۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ تلبیہ میں اکثر اتنے ہی الفاظ کہتے تھے کیونکہ اور روایتوں میں تلبیہ کے الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ بھی منقول ہیں چناچہ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ تلبیہ کے جو الفاظ یہاں حدیث میں نقل کئے گئے ہیں، ان میں کمی کرنا تو مکروہ ہے زیادتی مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ حدیث سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ تلبیہ بآواز بلند ہونا چاہئے چناچہ تمام علماء کے نزدیک بلند آواز سے لبیک کہنا مستحب ہے۔

【4】

تلبیہ کب کیا جائے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب اپنے پاؤں رکاب میں ڈالے اور اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب تلبیہ کیا (یعنی بآواز بلند لبیک کہی) (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رخت سفر باندھا اور ظہر کی نماز مدینہ میں پڑھ کر روانہ ہوئے۔ عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی جو اہل مدینہ کے لئے میقات ہے رات وہیں گزاری اور پھر صبح کو آپ ﷺ نے احرام باندھا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اور اونٹ کے کھڑے ہوجانے کے بعد لبیک کہی جب ایک دوسری روایت میں یہ منقول ہے کہ احرام کے لئے بہ نیت نفل دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد لبیک کہی نیز ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ آپ ﷺ نے بیداء پہنچ کر جو ایک بلند جگہ کا نام ہے لبیک کہی اس طرح لبیک کہنے کے وقت کے سلسلہ میں تین طرح کی روایتیں منقول ہیں۔ چناچہ حضرت امام شافعی نے تو پہلی روایت پر کہ جو یہاں نقل کی گئی ہے عمل کرتے ہوئے کہا کہ اونٹ پر (یا جو بھی سواری ہو اس پر) بیٹھ کر لبیک کہی جائے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے دوسری روایت کو اختیار کیا ہے۔ لہٰذا ان تینوں ائمہ کے ہاں مستحب یہ ہے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھنے کے بعد احرام کی نیت کی جائے اور پھر وہیں مصلیٰ پر بیٹھے ہی ہوئے لبیک کہے تو یہ جائز ہے لیکن نماز کے بعد ہی لبیک کہنا افضل ہے۔ اب ان تینوں روایتوں کے تضاد کو اس تطبیق کے ساتھ دور کیجئے کہ آنحضرت ﷺ نے نماز پڑھ کر مصلےٰ پر بیٹھے ہوئے لبیک کہی پھر جب اونٹنی پر بیٹھے تو اس وقت بھی لبیک کہی اور اس کے بعد جب مقام بیداء پر پہنچے تو وہاں بھی لبیک کہی چناچہ علماء نے اسی لئے لکھا ہے کہ حالت وقت اور جگہ کے تغیرات کے وقت لبیک کی تکرار مستحب ہے۔ بہر کیف آپ ﷺ نے اس طرح تین مرتبہ لبیک کہی اور جس راوی نے جہاں لبیک کہتے سنا وہ یہ سمجھا کہ آپ ﷺ نے یہیں سے لبیک کہنی شروع کی ہے اس لئے ہر ایک راوی نے اپنے سننے کے مطابق ذکر کردیا۔ اس تطبیق و توجیہ کی بنیاد حضرت ابن عباس (رض) کی وہ روایت ہے جسے شیخ عبدالحق نے اشعۃ اللمعات میں شرح کتاب خرقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

【5】

تلبیہ کا ذکر اور حج کی قسمیں

حضرت ابوسعید خدری (رض) کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ہمراہ سفر حج میں اس طرح روانہ ہوئے کہ ہم حج کے لئے چلاتے تھے (یعنی حج کے لئے بآواز بلند لبیک کہتے تھے) (مسلم) تشریح صرف حج ہی کا ذکر اس لئے کیا کہ حج ہی اصل اور مقصود اعظم ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بات راوی نے اپنے بارے میں کہی ہے زیادہ سے زیادہ اس کا تعلق ان لوگوں سے بھی ہوسکتا ہے جو راوی کی طرح صرف حج کے لئے تلبیہ کرتے تھے۔ یا زیادہ وضاحت سے یوں کہئے کہ یہ حدیث صرف ان لوگوں کا حال بیان کر رہی ہے جنہوں نے افراد کا احرام باندھا تھا۔ جہاں تک آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے تو آپ ﷺ کے بارے میں یہ حدیث ساکت ہے کہ اس کی وضاحت دوسری روایت سے ہوگی اس لئے یہ روایت روایت آئندہ کے منافی نہیں ہے۔

【6】

تلبیہ کا ذکر اور حج کی قسمیں

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ میں سواری پر حضرت ابوطلحہ (رض) کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور اکثر صحابہ دونوں چیزوں یعنی حج وعمرہ کے لئے چلاتے تھے۔ (یعنی بآواز بلند کہتے تھے) (بخاری) تشریح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قران افضل ہے چناچہ حنفیہ کا یہی مسلک ہے۔ اس حدیث کو مستدل قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ (رض) آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے وہ آنحضرت ﷺ کے خلاف عمل کرنا کب گوارا کرسکتے تھے۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے قران کیا ہوگا اس لئے اکثر صحابہ نے بھی آپ ﷺ کی اتباع ہی میں قران کیا۔ قران کے معنی اگلی حدیث میں بیان کئے جائیں گے۔

【7】

تلبیہ کا ذکر اور حج کی قسمیں

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول کریم ﷺ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے چناچہ ہم میں سے بعض تو وہ تھے جنہوں نے صرف عمرہ کے لئے احرام باندھا اور رسول کریم ﷺ نے بھی صرف حج کا احرام باندھا تھا لہٰذا جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تو حلال ہوگیا یعنی احرام سے باہر ہوگیا اور جنہوں نے صرف حج کا یا حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا وہ حلال نہیں ہوتے یہاں تک کہ قربانی کا دن آیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح حج کرنے والوں کی قسمیں ہیں۔ (١) مفرد (٢) قارن (٣) متمتع۔ مفرد اسے کہتے ہیں جو صرف حج کا احرام باندھے چناچہ صرف حج کا احرام باندھنے اور صرف حج پر اکتفا کرنے کو افراد کہتے ہیں۔ قارن اسے کہتے ہیں جو حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ کر پہلے عمرہ کرے اور پھر حج کرے چناچہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ اور پھر حج کرنے کو قران کہتے ہیں۔ متمتع اسے کہتے ہیں جو حج کے مہینوں میں میقات سے عمرہ کا احرام باندھے اور عمرہ کے افعال ادا کرے پھر اگر ہدی (قربانی کا جانور) ساتھ لایا ہو تو احرام باندھے رہے اور اگر ہدی ساتھ نہیں لایا ہے تو احرام سے نکل آئے اور مکہ میں مقیم رہے، جب حج کے دن آئیں تو حج کا احرام حرم سے باندھے اور حج کرے چناچہ حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرنا اور عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد وطن جانے سے پہلے بغیر احرام کھولے (اگر قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے) یا احرام کھول کر پھر حج کے دنوں میں حرم سے حج کا احرام باندھ کر حج کرنے کو تمتع کہتے ہیں۔ یہاں اجمالی طور پر صرف تعریفات بیان کردی گئی ہیں۔ تفصیلی احکام انشاء اللہ آگے آئیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع میں کس قسم کے لئے احرام باندھا تھا، آیا آپ ﷺ مفرد تھے یا قارن اور یا متمتع ؟ علماء لکھتے ہیں کہ اس بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، بعض حدیثوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ مفرد تھے چناچہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے یہ بھی انہیں میں سے ہے، اکثر احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ قارن تھے۔ اور بعض احادیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ متمتع تھے۔ لہٰذا ان تمام احادیث میں تطبیق یوں کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کے رفقاء میں سے بعض تو احرام باندھتے وقت آنحضرت ﷺ سے صرف لبیک بحجۃ ہی سنا اور لفظ وعمرۃ نہ سنا لہٰذا انہوں نے یہ کہا کہ آپ ﷺ مفرد تھے۔ بعض نے لبیک بحجۃ وعمرۃ سنا لہٰذا انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ قارن تھے اور بعض نے لبیک بعمرۃ سنا لہٰذا انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ متمتع تھے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی تو لبیک بحجۃ کہا ہو کبھی لبیک بعمرۃ اور کبھی لبیک بحجۃ وعمرہ کہا ہو، لہٰذا جس نے جو کچھ سنا وہی روایت کیا نیز یہ کہ قران و تمتع کے افعال آپس میں چونکہ مشابہ ہیں اس لئے بعض صحابہ نے جانا کہ آنحضرت ﷺ نے حج قران کیا ہے انہوں نے اسی کو نقل کیا اور بعض صحابہ نے جانا کہ آپ ﷺ نے تمتع کیا ہے اس لئے انہوں نے اسی کو نقل کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس روایت میں تمتع منقول ہے وہاں اس کے لغوی معنی مراد ہوں کیونکہ تمتع کے معنی ہیں نفع اٹھانا اور ظاہر ہے کہ یہ مفہوم قران سے بھی حاصل ہوتا ہے بایں طور کہ قارن عمرہ سے منتفع ہوتا ہے جو وہ حج کے ساتھ کرتا ہے۔ فاما من اہل بعمرۃ فحل الخ (لہٰذا جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تو حلال ہوگیا الخ) کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے حج سے پہلے صرف عمرہ کے لئے احرام باندھا تھا وہ طواف و سعی کرنے اور حلق یعنی سر منڈانے کے بعد عمرہ کے احرام سے باہر ہوگئے اور پھر انہوں نے حج کا احرام باندھا اور جن لوگوں نے صرف حج کا یا حج وعمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوئے یہاں تک کہ نحر (قربانی) کا دن گزر گیا، نحر کے دن وہ بھی رمی جمرۃ العقبہ (جمرہ عقبہ پر کنکری مارنے اور حلق کے بعد احرام سے باہر آگئے جس کے بعد تمام ممنوعات احرام ان کے لئے جائز ہوگئے علاوہ عورت کے ساتھ مباشرت کے کہ یہ طواف رکن (کہ جس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں) کے بعد جائز ہوئی۔

【8】

آنحضرت ﷺ کا حج

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کیا (یعنی فائدہ اٹھایا) بایں طور کہ آپ ﷺ نے عمرہ کے احرام سے ابتدا کی اور پھر حج کا احرام باندھا (اس طرح آپ ﷺ نے حج وعمرہ کو ملا دیا اور قارن ہوگئے۔ (بخاری ومسلم)

【9】

احرام کے کپڑے

حضرت زید بن ثابت (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ اپنے احرام کے لئے ننگے ہوئے اور غسل کیا۔ (ترمذی، دارمی) تشریح ننگے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سلے ہوئے کپڑے اپنے بدن سے اتار دیئے اور تہمد باندھ کر چادر اوڑھ لی جو احرام کے کپڑے ہیں چناچہ احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا مثلاً کرتا، پائجامہ، ٹوپی عبا، قبا اور موزہ وغیرہ پہننا منع ہے۔ جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا احرام کے لئے غسل کرنا مسنون و افضل ہے، اگر غسل نہ ہو سکے تو پھر وضو پر اکتفا بھی جائز ہے حیض و نفاس والی عورت اور نابالغ بچوں کے لئے بھی غسل مسنون ہے۔

【10】

تلبید کا ذکر

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے سر کے بالوں کو ان چیزوں کے ذریعہ جمایا جن سے سر دھویا جاتا ہے۔ (ابوداؤد) تشریح آپ نے احرام کے وقت اپنے سر کے بالوں کو گوند یا خطمی وغیرہ سے جما لیا تھا تاکہ وہ گرد و غبار سے محفوظ رہیں، اسی کو تلبید کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے۔

【11】

تلبیہ میں آواز بلند کرنے کا حکم

حضرت خلاد بن سائب اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے یہ امر کیا کہ میں اپنے صحابہ کو اس بات کا حکم دوں کہ وہ اہلال یا تلبیہ میں اپنی آوازیں بلند کریں۔ ٠ مالک، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح بالاہلا او التلبیۃ میں حرف اور راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو بالاہلال فرمایا یا بالتلبیۃ کہا معنی دونوں کے ایک ہی ہیں یعنی لبیک کہنا۔ بآواز بلند لبیک کہنا مردوں کے لئے مستحب ہے لیکن آواز کو اتنا بلند نہ کرنا چاہئے جس سے تکلیف پہنچے، عورتیں اتنی آہستہ آواز سے لبیک کہیں کہ وہ خود ہی سن سکیں دوسروں تک ان کی آواز نہ پہنچے۔

【12】

لبیک کہنے والے کی فضیلت وعظمت

حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی بھی مسلمان لبیک کہتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں کی ہر چیز خواہ وہ پتھر ہو یا درخت اور یا ڈھیلے سب لبیک کہتے ہیں یہاں تک کہ اس طرف سے یعنی اس کی دائیں طرف کی ساری زمین اور اس طرف سے یعنی اس کی بائیں طرف کی ساری زمین اس میں شامل ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث گویا لبیک اور لبیک کہنے والے کی عظمت و فضیلت کو ظاہر کر رہی ہے کہ جب کوئی بھی مسلمان لبیک کہتا ہے تو زمین کی تمام چیزیں لبیک کہنے والے کی ہمنوائی کرتی ہیں بایں طور کہ وہ بھی لبیک کہتی ہیں۔

【13】

احرام کے لئے دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (احرام باندھتے وقت) ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر جب ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوتی تو آپ ﷺ ان کلمات کو (یعنی لبیک کے مشہور کلمات کو جو پہلے گزر چکے ہیں) بآواز بلند کہتے اور (پھر) یہ کلمات (مزید) کہتے لبیک اللہم لبیک لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک لبیک والرغباء الیک والعمل۔ حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ ! میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیری خدمت میں اور نیک بختی حاصل کرتا ہوں تیری خدمت میں اور بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے حاضر ہوں تیری خدمت میں اور رغبت و توجہ تیری طرف ہے اور عمل تیرے ہی لئے ہے۔ اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے لیکن الفاظ مسلم کے ہیں۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ پہنچتے تو وہاں پہلے آپ ﷺ دو رکعت نماز بہ نیت نفل پڑھتے جو احرام کے لئے مسنون ہے اور ان دونوں رکعتوں میں آیت (قل یا ایہا الکافرون) اور (قل ہو اللہ احد) کی قرأت کرتے پھر نیت کرتے اس کے بعد لبیک کہتے اور پھر جب آپ مسجد ذوالحلیفہ کے پاس اونٹنی پر سوار ہوتے اور اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر کھڑی ہوتی تو اس وقت بھی پہلے تو آپ ﷺ انہیں کلمات کے ذریعہ تلبیہ کرتے جو مشہور ہیں اور پھر لبیک کے مزید وہ کلمات کہتے جو حدیث میں نقل کئے گئے ہیں۔

【14】

تلبیہ کے بعد درود ودعا

حضرت عمارہ بن خزیمہ بن ثابت اپنے والد مکرم حضرت خزیمہ (رض) سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ جب تلبیہ (یعی لبیک کہنے) سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی اور جنت مانگتے اور اس کی رحمت کے ذریعہ دوزخ کی آگ سے معافی کے خواستگار ہوتے۔ (شافعی) تشریح حنفی علماء فرماتے ہیں کہ یہ مستحب ہے کہ جو شخص تلبیہ سے فارغ ہو تو وہ نبی کریم ﷺ پر درود پڑھے اور درود پڑھتے وقت اپنی آواز تلبیہ کی آواز کی بہ نسبت پست و دھیمی رکھے نیز اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی اور جنت مانگے، دوزخ کی آگ سے اس کی پناہ چاہے اور اپنی جس دینی و دنیاوی فلاح و بھلائی کے لئے چاہے دعا مانگے۔ یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ تلبیہ کرنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی تلبیہ کرنے کی حالت میں سلام ہی کرلے تو اس کے سلام کو جواب دینا جائز ہے نیز حنفی علماء کے نزدیک ایک مرتبہ تلبیہ کرنا تو فرض ہے اور ایک مرتبہ سے زیادہ سنت ہے ایسی سنت کہ جس کو ترک کرنے والا برا سمجھا جاتا ہے۔

【15】

حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان عام

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب حج کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خبردار کیا (یعنی اعلان کرایا) چناچہ لوگ جمع ہوگئے اور پھر جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو احرام باندھا۔ (بخاری) تشریح جب حج فرض ہوا اور آپ ﷺ نے دس ہجری میں اس فریضہ کی ادائیگی کا ارادہ فرمایا تو یہ اعلان عام کرا دیا کہ رسول اللہ ﷺ حج کا ارادہ رکھتے ہیں جن لوگوں پر حج فرض ہے وہ سفر حج کے لئے تیار ہوجائیں چناچہ وقت مقررہ پر مدینہ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد جمع ہوگئی اور آپ تمام رفقاء کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوگئے پھر جب آپ ﷺ بیداء کے میدان میں جو ذوالحلیفہ کے قریب ہے پہنچے تو احرام باندھا۔ اب اس موقع پر اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں احرام باندھنے سے مراد یہ ہے کہ بیداء میں آپ ﷺ نے دوبارہ لبیک کہہ کر اپنے محرم ہونے کا اظہار کیا، کیونکہ پہلے بتایا جا چکا ہے اور یہی ثابت بھی ہے کہ آپ ﷺ نے ابتداء ً ذوالحلیفہ ہی میں احرام کے لئے دو رکعت نماز پڑھ کر احرام باندھ لیا تھا۔

【16】

مشرکوں کا تلبیہ

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مشرک لوگ جب تلبیہ کہتے اور یہ کلمات ادا کرتے لبیک لا شریک لک (حاضر ہیں تیری خدمت میں، تیرا کوئی شریک نہیں) تو رسول اللہ ﷺ فرماتے افسوس ہے تم پر ! بس بس (یعنی بس اتنا ہی کہو اس سے زیادہ مت کہو، مگر مشرک کب ماننے والے تھے وہ پھر اس کے بعد یہ کہتے) الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک (یعنی تیرا کوئی شریک نہیں ہاں وہ بت تیرا شریک ہے جو تیری ملک میں ہے، تو اس کا مالک ہے وہ شریک تیرا مالک نہیں ہے۔ مشرک لوگ تلبیہ کے یہ کلمات خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ (مسلم) تشریح مشرک بھی حج وعمرہ اور طواف وغیرہ کیا کرتے تھے نیز وہ خانہ کعبہ کی تعطیم بھی ہمیشہ کیا کرتے تھے اور اس کا احترام ملحوظ رکھتے مگر جب لبیک کہتے تو اپنے شریک کی وجہ سے اس طرح کہتے لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک یعنی وہ حق تعالیٰ سے شرک کی نفی تو کرتے مگر بتوں کا استثناء کرتے اور یہ کہتے کہ وہ بت اللہ کے شریک ہیں لیکن اس کے مملوک ہیں اور اللہ ان بتوں کا مالک ہے، چناچہ وہ جب تلبیہ کہنا شروع کرتے اور یہ کہتے لبیک لاشریک لک تو آنحضرت ﷺ فرماتے کہ یہاں تک تو ٹھیک بس تم اتنا ہی کہو کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے، اس سے آگے نہ کہو مگر مشرکین کی عقلوں پر تو پردے پڑے ہوئے تھے وہ ہدایت کو کیسے مان لیتے اس لئے وہ آگے کے الفاظ کہنے سے باز نہیں آتے تھے، حالانکہ ان کے یہ کلمات الا شریکا ہولک الخ درحقیقت ان کی انتہائی حماقت اور بےوقوفی ہی کو ظاہر کرتے تھے کہ بتوں کو اللہ کی ملکیت بھی بتاتے تھے اور پھر انہیں شریک بھی کہتے تھے حالانکہ اگر انہیں عقل سلیم کی ذرا بھی رہنمائی حاصل ہوتی تو وہ خود یہ سمجھ سکتے تھے کہ بھلا مملوک اپنے مالک کا شریک کیوں کر ہوسکتا ہے ؟