62. حجۃ الوداع کے واقعہ کا بیان

【1】

حجۃ الوداع کے واقعہ کا بیان

وداع واؤ کے زبر کے ساتھ کے معنی ہیں رخصت کرنا اور حجۃ الوداع اس حج کو کہتے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے حج کی فرضیت نازل ہونے کے بعد ١٠ ھ میں کیا ! اس حج کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس حج میں احکام شریعت کی تعلیم دی، ان کو رخصت کیا، اس دنیا سے اپنے رخصت ہونے کی انہیں خبر دی اور منصب رسالت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی و انجام دہی اور دینی و تشریعی احکام کو دنیا کے سامنے پہنچا دینے اور نافذ کردینے پر ان کو اپنا گواہ بنایا۔ اس باب میں سب سے پہلے حضرت جابر (رض) کی جو طویل و بسیط حدیث نقل کی جا رہی ہے یہ احادیث میں سب سے جامع حدیث ہے اس حدیث سے ڈیڑھ سو فقہی مسئلے مستنبط ہوتے ہیں اور اگر کوئی زیادہ غور تامل کرے تو اس سے بھی زیادہ مسئلے سامنے آسکتے ہیں۔

【2】

حجۃ الوداع کی تفصیل حضرت جابر کی زبانی

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں نو برس اس طرح گزارے کہ حج نہیں کیا البتہ آپ ﷺ نے عمرے کئے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے پھر جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو دسویں سال آپ ﷺ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ رسول اللہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں جو لوگ حج کے لئے جانا چاہتے ہیں وہ رفاقت کے لئے تیار ہوجائیں اس اعلان کو سن کر مخلوق اللہ کی ایک بہت بڑی تعداد مدینہ میں جمع ہوگئی چناچہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ ماہ ذی قعدہ کے ختم ہونے سے پانچ دن پہلے ظہر و عصر کے درمیان مدینہ سے روانہ ہوگئے جب ہم لوگ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس (رض) کے بطن سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔ اسماء نے کسی کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور دریافت کرایا کہ اب میں کیا کروں ؟ آیا احرام باندھوں یا نہ باندھوں اور اگر باندھوں تو کس طرح باندھوں ؟ آپ ﷺ نے کہلا بھیجا کہ غسل کر کے کپڑے کا لنگوٹ باندھوں اور پھر احرام باندھ لو بہرکیف رسول کریم ﷺ نے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی اور قصواء پر کہ جو آنحضرت ﷺ کی اونٹنی کا نام تھا سوار ہوئے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کی اونٹنی آپ ﷺ کو لے کر بیداء کے میدان میں کھڑی ہوئی تو آپ ﷺ نے بآواز بلند تلبیہ کے یہ کلمات کہے لبیک اللہم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیری خدمت میں تیرا کوئی شریک نہیں حاضر ہوں تیری خدمت میں بیشک تعریف اور نعمت تیرے لئے ہے اور بادشاہت بھی تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے اور ہم حج کے مہینوں میں عمرہ سے واقف بھی نہیں تھے بہرکیف جب ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو حجر اسود پر ہاتھ رکھا اور اس کو بوسہ دیا اور تین بار رمل یعنی تیز رفتار سے اور اکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور چار مرتبہ اپنی رفتار سے یعنی آہستہ آہستہ چل کر طواف کیا اور طواف کے بعد مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی۔ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2 ۔ البقرۃ 125) مقام ابراہیم کے اطراف کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو پھر آنحضرت ﷺ نے مقام ابراہیم اور بیت اللہ کو اپنے درمیان کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور ایک روایت کے مطابق ان دو رکعتوں میں قل ہو اللہ اور قل یا ایہا الکافرون کی قرأت کی پھر حجر اسود کی طرف لوٹے اور اس کو بوسہ دیا اس سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازہ یعنی باب الصفا سے نکلے اور صفا پہاڑ کی طرف چلے چناچہ جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھی۔ (ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ) بلا شبہ صفا اور مروہ اللہ کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں اور فرمایا میں بھی اسی چیز کے ساتھ ابتداء کرتا ہوں۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے صفا کا ذکر کیا ہے پھر مروہ کا اسی طرح میں بھی پہلے صفا پر چرھتا ہوں پھر مروہ پر چڑھونگا، چناچہ آپ ﷺ نے سعی کی ابتداء صفا سے کی اور اس پر چڑھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جب صفا سے بیت اللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی بڑائی بیان کی یعنی لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہا اور یہ کلمات فرمائے۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ انجز وعدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا و تنہا ہے اس نے اسلام کا بول بالا کرنے کا اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندوں کی مدد کی اور کفار کے لشکر کو تنہا شکست دی یعنی غزوہ خندق۔ پھر اس کے درمیان دعا کی اور تین مرتبہ اسی طرح کہا (یعنی پہلے یہ کلمات کہے اور پھر دعا کی اور اسی طرح تین مرتبہ کہا) اس کے بعد صفا سے اترے اور مروہ پہاڑ کی طرف چلے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کے دونوں قدم چڑھنے لگے (یعنی نشیب سے مروہ کی بلندی پر چڑھنے لگے) تو (دوڑنا موقوف کر کے) آہستہ آہستہ چلنے لگے اور پھر جب مروہ پر پہنچ گئے تو وہی کیا جو صفا پر کیا تھا یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نے مروہ پر سعی کا اختتام کیا تو لوگوں کو آواز دی در آنحالیکہ آپ ﷺ مروہ کے اوپر تھے۔ اور لوگ اس کے نیچے اور فرمایا اگر اپنے بارے میں مجھے پہلے سے وہ بات معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی ہے تو ہدی قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اپنے حج کو عمرہ کردیتا لہٰذا تم میں سے جو شخص ہدی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہوجائے یعنی حج کا احرام کھول دے اور حج کو عمرہ بنا لے یہ سن کر حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم (رض) کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے واسطے یہ حکم اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ آنحضرت ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا عمرہ حج میں داخل ہوگیا ہے آپ ﷺ نے یہ بات دو مرتبہ کہی اور پھر فرمایا نہیں یہ حکم خاص طور پر اسی سال کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ جائز ہے اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو یمن کے حاکم مقرر ہوگئے تھے جب آنحضرت ﷺ کے لئے قربانی کے واسطے یمن سے اونٹ لے کر آئے تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تم نے اپنے اوپر حج لازم کیا تھا تو اس وقت یعنی احرام باندھنے کے وقت کیا کہا تھا ؟ تو نے کس چیز کے لئے احرام باندھا تھا اور کیا نیت کی تھی ؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے کہا کہ میں نے اس طرح کہا تھا کہ۔ اللہم انی اہل بنا اہل بہ رسولک۔ یعنی اے اللہ ! میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں جس چیز کا احرام تیرے رسول ﷺ نے باندھا ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرے ساتھ تو قربانی کا جانور ہے اور میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے ہوں، اس لئے جب تک عمرہ اور حج دونوں سے فارغ نہ ہوجاؤں اس وقت تک احرام سے نہیں نکل سکتا اور چونکہ تم نے وہی نیت کی ہے جو میں نے کی ہے تو تم بھی احرام نہ کھولو۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ وہ اونٹ جو آنحضرت ﷺ کے لئے قربانی کے واسطے حضرت علی کرم اللہ وجھہ یمن سے لے کر آئے تھے اور وہ اونٹ جو آنحضرت ﷺ خود اپنے ہمراہ لائے تھے، سب کی مجموعی تعداد سو تھی۔ حضرت جابر (رض) کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق سب لوگوں کے کہ جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا عمرہ کر کے، احرام کھول دیا اپنے سروں کے بال کٹوا دئیے مگر آنحضرت ﷺ اور وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے احرام کی حالت میں رہے پھر جب ترویہ کا دن آیا یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تایخ آئی تو سب لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہونے کے لئے تیار ہوئے چناچہ ان صحابہ نے کہ جو عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد احرام سے نکل آئے تھے حج کا احرام باندھا اور آنحضرت ﷺ بھی آفتاب طلوع ہونے کے بعد سوار ہوئے اور منیٰ پہنچ گئے منیٰ کی مسجد خیف میں ظہر و عصر، مغرب عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھی گئیں اور نویں تاریخ کی فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر قیام کیا یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ آپ ﷺ کے لئے وادی نمرہ عرفات میں خیمہ نصب کیا جائے جو بالوں کا بنا ہوا تھا پھر رسول کریم ﷺ منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے قریش کو گمان تھا کہ آنحضرت ﷺ مشعر حرام مزدلفہ میں قیام کریں گے جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں حج کے موقعہ پر کیا کرتے تھے مگر رسول کریم ﷺ مزدلفہ سے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ جو میدان عرفات میں آئے اور وادی نمرہ میں اپنے خیمہ کو کھڑا پایا چناچہ آپ ﷺ اس میں آئے اور قیام کیا یہاں تک کہ جب دوپہر ڈھل گیا تو قصواء کو جو آپ ﷺ کی اونٹنی کا نام تھا، لانے کا حکم دیا جب قصواء آگئی تو اس پر پالان کس دیا گیا ور آپ ﷺ اس پر سوار ہو کر وادی نمرہ میں تشریف لائے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔ لوگو ! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن عرفہ میں تمہارے اس مہینہ ذی الحجہ میں اور تمہارے اس شہر (مکہ میں حرام ہیں یعنی جس طرح تم عرفہ کے دن ذی الحجہ کے مہینہ میں اور مکہ مکرمہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو حرام سمجھتے ہو اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور ہر جگہ ایک مسلمان کی جان و مال دوسرے پر حرام ہے لہٰذا تم میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کسی کا خون نہ کر کسی کا مال چوری و دغابازی سے نہ کھاجائے اور کسی کو کسی جانی اور مالی تکلیف و مصیبت میں بھی مبتلا نہ کرے، یاد رکھو ! زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے اور پامال و بےقدر یعنی موقوف باطل ہے لہٰذا اسلام سے پہلے جس نے جو کچھ کیا میں نے وہ سب معاف کیا اور زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو موقوف و ختم کردیا زمانہ جاہلیت کے خون معاف کردیئے گئے ہیں لہٰذا زمانہ جاہلیت میں اگر کسی نے کسی کا خون کردیا تھا تو اب نہ اس کا قصاص ہے نہ دیت اور نہ کفارہ بلکہ اس کی معافی کا اعلان ہے اور سب سے پہلا خون جسے میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ جو ایک شیر خوار بچہ تھا اور قبیلہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور ہزیل نے اس کو مار ڈالا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا سود معاف کردیا گیا ہے اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں سے معاف کرتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود بالکل معاف کردیا گیا ہے۔ لوگو ! عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ لیا ہے یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو عزت و احترام کے ساتھ رکھنے کا جو عہد اللہ نے تم سے لیا ہے یا اس کا عہد جو تم نے اللہ سے کیا ہے اسی کے مطابق عورتیں تمہارے پاس آئی ہیں اور ان کی شرم گاہوں کو اللہ کے حکم سے (یعنی فانکحوا کے مطابق رشتہ زن و شو قائم کر کے) اپنے لئے حلال بنایا ہے اور عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے یعنی وہ تمہارے گھروں میں کسی کو بھی تمہاری اجازت کے بغیر نہ آنے دیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، پس اگر وہ اس معاملہ میں نافرمانی کریں کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر آنے دیں اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد بھی وہ اس سے باز نہ آئیں تو تم اس کو مارو مگر اس طرح نہ مارو جس سے سختی و شدت ظاہر ہو اور انہیں کوئی گزند پہنچ جائے اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو اپنی استطاعت و حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا سامان اور مکان اور کپڑا دو ۔ لوگو ! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑتا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد (یا اس کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد) تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے اور وہ چیز کتاب اللہ ہے اور اے لوگو ! میرے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا کہ میں نے منصب رسالت کے فرائض پوری طرح انجام دئیے یا نہیں ؟ اور میں نے دین کے احکام تم تک پہنچا دئیے یا نہیں ؟ تو تم کیا جواب دو گے ؟ اس موقع پر صحابہ نے (بیک زبان) کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ ﷺ نے دین کو ہم تک پہنچا دیا اپنے فرض کو ادا کردیا اور ہماری خیر خواہی کی اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا بایں طور کہ اسے آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر تین مرتبہ یہ کہا کہ اے اللہ ! اپنے بندوں کے اس اقرار اور اعتراف پر تو گواہ رہ اے اللہ ! تو گواہ رہ۔ اس کے بعد حضرت بلال (رض) نے اذان دی اور اقامت کہی اور ظہر کی نماز پڑھی گئی پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ہوئی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی چیز یعنی سنت و نفل نہیں پڑھی گئی پھر آنحضرت ﷺ سوار ہوئے اور میدان عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ پہنچے وہاں اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ پتھروں کی طرف کیا اور جبل مشاۃ یہ ایک جگہ کا نام ہے اپنے آگے رکھا پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا، زردی بھی تھوڑی سی جاتی رہی اور آفتاب کی ٹکیہ غائب ہوگئی۔ آپ ﷺ نے حضرت اسامہ (رض) کو اپنے پیچھے بٹھایا اور تیز تیز چل کر مزدلفہ آگئے یہاں ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھیں اور ان دونوں نمازوں کے درمیان اور کچھ نہیں پڑھا پھر آپ ﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہوگئی تو آپ ﷺ نے صبح کی روشنی پھیل جانے پر اذان و اقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر حرام میں آئے اور وہاں قبلہ رو ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ تکبیر کہی۔ لا الہ اللہ پڑھا اور اللہ کی وحدانیت کی یعنی لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ آخر تک پڑھا وہیں کھڑے تکبیر و تہلیل وغیرہ میں مصروف رہے یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہوگئی تو سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلے اور حضرت فضیل بن عباس (رض) کو اپنے پیچھے سوار کیا جب وادی محسر میں پہنچے تو اپنی سواری کو تیز چلانے کے لئے تھوڑی سی حرکت دی اور اس درمیانی راہ پر ہو لئے جو جمرہ کبریٰ کے اوپر نکلتی ہے تاآنکہ آپ اس جمرہ کے پاس پہنچے جو درخت کے قریب ہے اور اس پر سات کنکریں ماریں اس طرح کہ ان میں سے ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور وہ کنکریاں باقلہ کے دانہ کے برابر تھیں اور آپ ﷺ نے وہ کنکریاں نالے یعنی وادی کے درمیان سے ماریں اس کے بعد قربانی کرنے کی جگہ جو منیٰ میں ہے واپس آئے اور یہاں آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے تریسٹھ اونٹ ذبح کئے اور باقی اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے سپرد کئے چناچہ باقی سینتیس اونٹ حضرت علی (رض) نے ذبح کئے۔ آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا جائے چناچہ وہ سب گوشت لے کر ایک ہانڈی میں ڈال دیا گیا اور اسے پکایا گیا جب گوشت پک گیا تو آنحضرت ﷺ اور حضرت علی (رض) نے قربانی کے اس گوشت میں سے کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ آنحضرت ﷺ سوار ہوئے اور خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر طواف کیا اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی پھر عبدالمطلب کی اولاد یعنی اپنے چچا حضرت عباس اور ان کی اولاد کے پاس تشریف لائے جو زمزم کا پانی پلا رہے تھے آپ ﷺ نے ان سے فرمایا۔ عبدالمطلب کی اولاد زمزم کا پانی کھینچو اور پلاؤ کہ یہ بہت ثواب کا کام ہے اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پانی پلانے پر غلبہ پالیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا ابھی اس بات کا خوف ہے کہ لوگ مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری اتباع میں خود بھی پانی کھینچنے لگیں گے اور یہاں بہت زیادہ جمع ہوجائیں گے جس کی وجہ سے زمزم کا پانی کھینچنے اور پلانے کی یہ سعادت تمہارے ہاتھ سے چلی جائے گی اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا تو میں خود بھی تم لوگوں کے ساتھ پانی کھنیچتا اور لوگوں کو پلاتا، چناچہ عبدالمطلب کی اولاد نے آپ ﷺ کو پانی کا ایک ڈول دیا جس میں سے آپ ﷺ نے پانی پیا۔ (مسلم) تشریح حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ کتنے آدمی تھے ؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں چناچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حج میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ نوے ہزار آدمی تھے، بعض حضرات نے ایک لاکھ تیس ہزار اور بعضوں نے اس سے بھی زائد تعداد بیان کی ہے۔ بعض حضرات نے ایک لاکھ تیس ہزار اور بعضوں نے اس سے بھی زائد تعداد بیان کی ہے۔ حضرت اسماء بنت عمیس (رض) پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب کے نکاح میں تھیں ان کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کے نکاح میں آئیں۔ حضرت ابوبکر (رض) کے انتقال کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے نکاح کیا۔ چناچہ جب آنحضرت ﷺ حجۃ الوداع کے لئے روانہ ہوئے ہیں تو اس وقت یہ حضرت ابوبکر (رض) صدیق کے نکاح میں تھیں اور ان سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔ آنحضرت ﷺ کی طرف سے حضرت اسماء (رض) کو غسل کرنے کی ہدایت اس بات کی دلیل ہے کہ نفاس والی عورت کو احرام کے لئے غسل کرنا مسنون ہے اور یہ غسل نظافت یعنی ستھرائی کے لئے ہوتا ہے طہارت یعنی پاکی کے لئے نہیں، اسی لئے نفاس والی عورت کو تیمم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اور یہی حکم حائضہ کا بھی ہے نیز ان کو آپ ﷺ کے اس حکم کہ اور پھر احرام باندھ لو یعنی احرام کی نیت کرو اور لبیک کہو سے یہ بات ثابت ہوتی ہوتی ہے کہ نفاس والی عورت کا احرام صحیح ہوتا ہے۔ چناچہ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ رسول کریم ﷺ نے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے احرام کی سنت دو رکعت نماز پڑھی، اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر میقات میں مسجد ہو تو مسجد ہی میں یہ دو رکتعتیں پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھ لے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، نیز اوقات مکروہہ میں یہ نماز نہ پڑھی جائے، علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کی طرح فرض نماز بھی اس نماز کے قائم مقام ہوجاتی ہے۔ لسنا نعرف العمرۃ (اور ہم عمرہ سے واقف نہیں تھے۔ یہ جملہ در اصل پہلے جملہ لسنا ننوی الا الحج ہم حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے) کی تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان جملوں کی وضاحت یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بڑا گناہ سمجھتے تھے، چناچہ اس وقت آنحضرت ﷺ نے اس کا رد کیا اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا حکم فرمایا اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ جب ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ بیت اللہ پہنچے یعنی پہلے ہم ذی طویٰ میں اترے اور رات کو وہیں قیام کیا اور پھر ١٤ ذی الحجہ کو نہا دھو کر ثنیہ علیا کی طرف سے یعنی جانب بلند سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور پھر باب السلام کی جانب سے مسجد حرام میں آئے اور وہاں آ کر تحیۃ المسجد کی نماز نہیں پڑھی کیونکہ بیت اللہ کا طواف ہی وہاں کا تحیۃ ہے۔ تین بار رمل کیا اور چار مرتبہ اپنی رفتار سے طواف کیا اس بارے میں یہ تفصیل جان لینی چاہئے کہ خانہ کعبہ کے گرد مطاف پر سات چکر کرنے کو طواف کہتے ہیں۔ کل طواف کے ساتھ چکر ہوتے ہیں اور ہر چکر حجر اسود سے شروع ہو کر حجر اسود ہی پر ختم ہوتا ہے ہر چکر کو اصطلاح شریعت میں شوط کہا جاتا ہے۔ طواف کے سات چکروں میں سے پہلے تین چکر میں تو رمل کرنا چاہئے اور پہلوانوں کی طرف کندھے ہلا ہلا کر، اکڑ کر اور کچھ تیزی کے ساتھ قریب قریب قدم رکھ کر چلنا رمل کہلاتا ہے، طواف کے باقی چار چکروں میں آہستہ آہستہ یعنی اپنی معمولی چال کے ساتھ چلنا چاہئے۔ رمل یعنی اکڑ کر تیز تیز چلنے کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ عمرۃ القضاء کے لئے مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ تپ یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے ان کو بہت ضعیف و سست کردیا ہے لہٰذا آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس طرح چل کر اپنی قوت و چستی کا اظہار کرو۔ وہ وقت تو گزر گیا مگر اس علت اور وجہ کے دور ہوجانے کے بعد بھی یہ حکم باقی رہا چناچہ یہ طریقہ اب تک جاری ہے۔ اس حدیث میں اضطباع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن طواف کے وقت اضطباع بھی مسنون ہے چناچہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ چادر کو اس طرح اوڑھنا کہ ان کا ایک سرا داہنے کاندھے سے اتار کر اور داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے اضبطاع کہلاتا ہے چادر کو اس طرح اوڑھنے کا حکم بھی اظہار قوت کے لئے دیا گیا تھا اور یہ حکم بھی بعد میں باقی رہا۔ مقام ابراہیم کے معنی ہیں حضرت ابراہیم کے پاؤں کے نشان بن گئے تھے جو آج تک قائم ہیں۔ بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم ایک پتھر ہے کہ جب حضرت ابراہیم اپنے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو دیکھنے مکہ آتے تھے تو اونٹ سے اسی پتھر پر اترتے تھے اور جب جانے لگتے تو اسی پتھر پر کھڑے ہو کر سوار ہوتے اس پتھر پر ان کے دونوں مبارک قدموں کا نشان بن گیا ہے ! بہرکیف یہ پتھر اب خانہ کعبہ کے آگے ایک حجرے میں رکھا ہوا ہے، آنحضرت ﷺ نے طواف سے فارغ ہو کر اسی مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی یہ دو رکعت نماز اگرچہ اسی جگہ کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے لیکن جائز حرم میں ہر جگہ پڑھنا ہے چاہے مسجد حرام میں پڑھی جائے اور چاہے مسجد حرام سے باہر نیز ہر طواف کے بعد یہ نماز حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں سنت ہے۔ ان دو رکعتوں میں قل ہو اللہ احد اور قل یا ایہا الکافرون کی قرأت کی اس عبادت سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قل ہو اللہ احد پہلی رکعت میں پڑھی اور قل یا ایہا الکافرون دوسری رکعت میں جب کہ اس طرح سورت مقدم پر سورت متاخر کی تقدیم یعنی بعد کی سورت کو پہلے اور پہلے کی سورت کو بعد میں پڑھنے کی صورت لازم آتی ہے، اس لئے علماء نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ حدیث میں اس بارے میں جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں حرف واؤ صرف اظہار جمع کے لئے یعنی آپ کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں، اب یہ کہ ان میں سے کون سی پہلی رکعت میں پڑھی اور کون سی سورت دوسری رکعت میں ؟ اس کی وضاحت نہ اس سے مقصود ہے اور نہ یہاں اس کی وضاحت موجود ہی ہے اس توجیہ کے پیش نظر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوسکتا۔ پھر طیبی نے اس عبارت میں ان دونوں سورتوں کے ذکر کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ قل ہو اللہ احد، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اثبات و اظہار کے لئے ہے اور قل یا ایہا الکافرون شرک سے بیزاری کے واسطے ہے، اس لئے توحید کی عظمت شان اور اس کی سب سے زیادہ اہمیت کی بناء پر اس سورت کو پہلے ذکر کیا جس سے توحید کا اثبات ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ بعض روایتوں میں اس عبارت کو اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اس میں پہلے قل یا ایہا الکافرون ذکر ہے اور بعد میں قل ہو اللہ احد کا اس صورت میں بات بالکل ہی صاف ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی سات بار کی، بایں طور کہ صفا سے مروہ تک ایک بار، مروہ سے صفا تک دوسری بار، اسی طرح آپ ﷺ نے ساتھ پھیرے کئے اس طرح سعی کی ابتداء تو صفا سے ہوئی اور ختم مروہ پر ہوئی جیسا کہ حدیث کے الفاظ یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نے مروہ سعی کا اختتام کیا سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ سعی یعنی صفا مروہ کے درمیان پھیرے کرنا واجب ہے اس کی اصل یہ ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جن دنوں چھوٹے تھے تو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش کو گئیں جب نشیب میں پہنچیں تو حضرت اسماعیل ان کی نظر سے پوشیدہ ہوگئے وہ صفا اور مروہ پر چڑھ کر ان کو دیکھنے کے لئے ان دونوں کے درمیان پھیرے کرتی تھیں، چناچہ یہ سعی انہیں کی سنت ہے جسے آنحضرت ﷺ نے پورا کیا اب صفا ومروہ کے درمیان چونکہ مٹی بھر گئی ہے اس لئے وہ نشیب باقی نہیں رہا البتہ وہاں نشان بنا دیئے گئے ہیں اور حضرت ہاجرہ کی سنت کو پورا کرنے کے لئے وہاں دوڑتے پھرتے ہیں۔ لو انی استقبلت من امری الخ اگر اپنے بارے میں مجھے پہلے سے وہ بات معلوم ہوتی الخ۔ اس سلسلہ میں اگرچہ بڑی طویل بحث ہے تاہم خلاصہ کے طور پر سمجھ لیجئے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ پہنچے اور عمرہ سے فارغ ہوگئے تو صحابہ کو حکم دیا کہ جو شخص قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لایا ہے وہ عمرہ کے بعد احرام سے باہر آجائے اور حج کو عمرہ کے ساتھ فسخ کر دے یعنی حج کے احرام کو عمرہ کا احرام قرار دے لے جب حج کے دن آجائیں تو دوبارہ احرام باندھے اور حج کرے اور جو شخص قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہے وہ عمرہ کے بعد احرام نہ کھولے بلکہ حج تک حالت احرام ہی میں رہے اور حج کے بعد احرام کھول دے۔ چونکہ رسول کریم ﷺ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے تھے اس لئے آپ ﷺ نے احرام نہیں کھولا بلکہ عمرہ کے بعد بھی حالت احرام ہی میں رہے۔ یہ حکم صحابہ کو بڑا گراں گزرا، ایک تو اس لئے ہم تو احرام کھول دیں اور سرکار دو عالم ﷺ حالت احرام میں رہیں اس طرح آپ ﷺ کی متابعت کا ترک ہوگا جو صحابہ کو کسی حال میں بھی گوارا نہیں تھا، دوسرے انہوں نے یہ سوچا کہ اب عرفہ میں صرف پانچ رہ گئے ہیں اس لئے یہ بات مناسب نہیں معلوم ہوتی کہ احرام کھول دیا جائے اور پھر ہم اس عرصہ میں اپنی عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور جب عرفہ کا دن آئے تو فوراً احرام باندھ کر عرفات روانہ ہوجائیں اور حج کریں۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ درمیانی پانچ دن بھی احرام ہی کی حالت میں گزر جائیں اس طرح رسول کریم ﷺ کی متابعت بھی ہوگی اور ان ایام میں طبعی خواہشات اور دنیاوی امور میں مشغولیت سے اجتناب بھی رہے گا۔ پھر یہ کہ ایام جاہلیت میں چونکہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا اور ان کے ذہن میں بھی ابھی تک یہی بات تھی اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس وقت مستقل طور پر عمرہ کی صورت پیدا ہوجائے انہیں سب وجوہ کی بناء پر وہ چاہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ ہمیں احرام کھولنے کا حکم نہ دیں، اسی بناء پر آنحضرت ﷺ نے برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ یہ تو دین کی بات ہے میں کیا کرو، اللہ تعالیٰ نے جس طرح حکم دیا ہے اسی طرح کرنا پڑے گا، چاہے طبیعت پر بار ہی کیوں نہ ہو، اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میری متابعت کے ترک کی بناء پر تم لوگوں کو احرام کھولنا گراں گزرے گا تو میں بھی قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور احرام کھول کر اس وقت حج کو عمرہ کے ساتھ فسخ کردیتا لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ حکم الٰہی یہ ہوگا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ عمرہ کے ساتھ اس فسخ حج کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا یہ اس سال میں صرف صحابہ ہی کے لئے تھا یا ہمیشہ کے لئے دوسروں کو بھی ایسا جائز ہے ؟ چناچہ امام احمد اور اہل ظاہر کی ایک جماعت نے تو یہ کہا ہے کہ یہ فسخ حج صرف صحابہ ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ حکم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے، لہٰذا اس شخص کے لئے کہ جو حج کا احرام باندھے اور ہدی اس کے ساتھ نہ ہو یہ جائز ہے کہ وہ حج کا احرام عمرہ کے ساتھ فسخ کر دے اور افعال عمرہ کی ادائیگی کے بعد حلال ہوجائے یعنی احرام کھول دے، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور علماء سلف وخلف کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ یہ حکم صرف اسی سال میں صحابہ کے لئے تھا کہ زمانہ جاہلیت میں حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جو حرام سمجھا جاتا تھا اس کی تردید ہوجائے۔ نیز اسی حدیث کے پیش نظر حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا مسلک یہ بھی ہے کہ جو شخص عمرہ کا احرام باندھے اور ہدی اپنے ساتھ نہ لائے تو افعال عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام سے باہر آجائے اور اگر ہدی ساتھ لایا ہو تو احرام سے باہر نہ ہو تاآنکہ نحر قربانی کے دن اس کی ہدی ذبح ہوجائے، لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک یہ کہتے ہیں کہ محض افعال عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام سے باہر آجانا جائز ہے خواہ ہدی ساتھ لایا ہو یا ساتھ نہ ہو۔ معشر حرام مزدلفہ میں ایک پہاڑی کا نام ہے۔ ایام جاہلیت میں قریش کا یہ طریقہ تھا کہ وہ حج کے لئے بجائے عرفات میں ٹھہرنے کے مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ یہ موقف حمس یعنی قریش اور حرم والوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ قریش کے علاوہ تمام اہل عرب عرفات میں ہی وقوف کرتے تھے، آنحضرت ﷺ چونکہ قریش سے تھے اس لئے اہل قریش نے یہ گمان کیا کہ آنحضرت ﷺ بھی عرفات کی بجائے مزدلفہ ہی میں وقوف کریں گے لیکن آنحضرت ﷺ نے وہاں وقوف نہیں کیا بلکہ سیدھے عرفات میں پہنچنے میں خطبہ ارشاد فرمایا آپ ﷺ نے دو خطبے پڑھے، پہلے خطبہ میں تو حج کے احکام بیان کئے اور عرفات میں کثرت ذکر و دعا پر ترغیب دلائی، دوسرا خطبہ پہلے خطبہ کی بہ نسبت چھوٹا تھا اس میں صرف دعا تھی۔ ربیعہ ابن حارث کے بیٹے کے خون کا قصہ یہ ہے کہ حارث آنحضرت ﷺ کے چچا اور عبدالمطلب کے بیٹے تھے ان کا لڑکا تھا ربیعہ اور ربیعہ کا ایک شیر خوار بچہ تھا جس کا نام تھا ایاس، عرب کے عام قاعدہ کے مطابق یا اس کو دودھ پلانے کے لئے قبیلہ بنی سعد میں دے دیا گیا تھا جن دنوں قبیلہ بنی سعد اور قبیلہ ہزیل کے درمیان معرکہ آرائی ہو رہی تھی ایاس قبیلہ بنی سعد ہی میں تھا، اسی لڑائی کے دوران قبیلہ ہذیل کے کسی شخص نے ایاس کو پتھر مارا جس سے وہ شیر خوار بچہ مرگیا ایاس چونکہ آنحضرت ﷺ کے چچا کا پوتا تھا اس لئے اس کے قتل کا انتقام لینے کا حق آنحضرت ﷺ کو حاصل تھا مگر آنحضرت ﷺ نے اس کا خون معاف کردیا۔ اس طرح حضرت عباس بن عبدالمطلب جو آنحضرت ﷺ کے عم محترم تھے، ایام جاہلیت میں سود کا لین دین کرتے تھے اسی وقت کا ان کا بہت زیادہ سود لوگوں کے ذمہ باقی تھا اسے بھی آنحضرت ﷺ نے معاف فرما دیا۔ پھر (دوبارہ) اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ہوئی یعنی ظہر ہی کے وقت پہلے تو ظہر کی نماز پڑھی گئی، پھر عصر کی نماز ہوئی، گویا ظہر و عصر کی نماز کو جمع کر کے پڑھا گیا۔ اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں عرفات میں وقوف کے لئے یہ دونوں نمازیں ملا کر ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہیں اس طرح کہ ظہر کے چار فرض کے بعد مؤذن دوسری اقامت کہتا ہے اور پھر عصر کی نماز ہوتی ہے نیز ان دونوں نمازوں کے درمیان سنن و نوافل وغیرہ نہیں پڑھی جاتیں تاکہ دونوں نمازوں کے درمیان وقفہ ہوجانے کی وجہ سے جمع باطل نہ ہوجائے کیونکہ ان نمازوں کو پے درپے پڑھنا واجب ہے۔ اور تیز تیز چل کر مزدلفہ آگئے۔ مزدلفہ منیٰ اور عرفات کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے، دسویں تاریخ کی رات پھر مزدلفہ میں ٹھہرنا حنفیہ کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے ہاں واجب ہے۔ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مزدلفہ پہنچ کر مغرب و عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو تکبیر کے ساتھ پڑھیں جس طرح کہ آپ ﷺ جس طرح کہ آپ ﷺ نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز ایک اذان اور دو تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی چناچہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں مزدلفہ میں یہ دونوں نمازیں ایک اذان اور ایک ہی تکبیر کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں کیونکہ اس موقع پر عشاء کی نماز چونکہ اپنے وقت میں پڑھی جاتی ہے اس لئے زیادتی اعلام کے لئے علیحدہ سے تکبیر کی ضرورت نہیں برخلاف عرفات میں عصر کی نماز کے کہ وہاں عصر کی نماز چونکہ اپنے وقت میں نہیں ہوتی بلکہ ظہر کے وقت ہوتی ہے اس لئے وہاں زیادتی اعلام کے لئے علیحدہ تکبیر کی ضرورت ہے، صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر (رض) سے یہی روایت منقول ہے اور ترمذی نے بھی اس کی تحسین و تصحیح کی ہے۔ مشعر حرام جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے عرفات میں ایک پہاڑ کا نام ہے، دسویں تاریخ کی صبح وہاں وقوف حنفیہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک رکن حج ہے۔ وادی محسر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ایک گھاٹی کا نام ہے کہا جاتا ہے کہ اصحاب فیل یہیں عذاب الٰہی میں مبتلا ہو کر ہلاک و برباد ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ جب مشعر حرام مزدلفہ سے روانہ ہوئے اور اس وادی میں پہنچے تو اپنی سواری کو تیز کردیا اور اس وادی کی مسافت کو تیزی سے گزر کر پورا کیا، کیونکہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جس جگہ کسی قوم پر عذاب نازل ہوا ہوتا تو آپ ﷺ از راہ عبرت اس جگہ سے تیزی سے گزر جاتے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حج کے موقعہ پر نصاریٰ یا مشرکین عرب وادی محسر میں ٹھہرا کرتے تھے اس لئے آپ ﷺ نے ان کی مخالفت کے پیش نظر اس وادی میں اپنی سواری کو تیز تیز چلا کر وہاں سے جلد گزر گئے۔ بہرحال آنحضرت ﷺ کی پیروی کے پیش نظر ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ اس وادی میں تیزی سے گزرے۔ اور اس درمیانی راہ پر ہوئے جو جمرہ کبریٰ کے اوپر نکلتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس راستہ سے جاتے ہوئے آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے وہ راستہ اور تھا اور یہ راستہ دوسرا تھا جو جمرہ کبریٰ یعنی جمرہ عقبہ پر جا کر نکلتا ہے۔ پہلا راستہ جس سے آپ ﷺ عرفات و مزدلفہ تشریف لے گئے تھے اس کو طریق ضب کہتے تھے اور یہ راستہ جس سے آپ ﷺ رمی جمرہ کے لئے منیٰ واپس آ رہے تھے۔ طریق مازمین کہلاتا تھا ضب اور مازمین دو پہاڑوں کے نام ہیں۔ تا ان کہ آپ ﷺ اس جمرہ کے پاس پہنچے جو درخت کے قریب ہے یہاں جمرہ سے جمرہ عقبہ مراد ہے جس کا پہلے ذکر ہوا جمرہ منار کو کہتے ہیں منیٰ میں کئی ایسے منار ہیں جن پر سنگریزے مارے جاتے ہیں اس کا تفصیلی بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی قربانی کے جانوروں میں حضرت علی (رض) کو بھی شریک کرلیا تھا۔ یعنی آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) کو کچھ اونٹ دے دئیے تاکہ وہ اپنی طرف سے ذبح کرلے اب یا تو آپ ﷺ نے انہیں وہ اونٹ اپنے باقی اونٹوں میں سے دئیے یا پھر دوسرے اونٹوں میں سے دئیے گئے ہوں گے آنحضرت ﷺ اور حضرت علی (رض) نے اپنی قربانی کا گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اپنی قربانی میں سے گوشت کھانا مستحب ہے۔ اور خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے وہاں پہنچ کر طواف کیا اس طواف کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں اور طواف رکن بھی یہ طواف حج کا ایک رکن ہے، اس پر حج کا اختتام ہوجاتا ہے۔ ویسے تو یہ طواف قربانی کے دن ہی کرنا افضل ہے لیکن بعد میں کرنا بھی جائز ہے۔ اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی یہ بات حضرت ابن عمر (رض) کی اس روایت کے خلاف ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز تو مکہ ہی میں پڑھی البتہ آپ ﷺ نے منیٰ میں نفل نماز پڑھی تھی جسے حضرت ابن عمر (رض) نے ظہر کی نماز گمان کیا یا یوں کہا جائے کہ جب دونوں راوایتیں متعارض ہوئیں تو دونوں ساقط ہوگئیں اب ترجیح اس بات کو دی جائے گی کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز مکہ میں پڑھی کیونکہ مکہ میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ واللہ اعلم۔

【3】

احرام کے طریقے اور حج کی اقسام

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ جحۃ الوداع کے موقع پر روانہ ہوئے تو ہم میں سے بعض تو وہ تھے جنہوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض وہ تھے جنہوں نے صرف حج کا (یا حج وعمرہ دونوں کا) احرام باندھا چناچہ جب ہم مکہ پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا وہ افعال عمرہ کے بعد اپنے سر کے بال منڈوا کر یا کتروا کر، احرام کھول دے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی کا جانور لایا ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے یعنی حج کو عمرہ کے ساتھ شامل کر کے قارن ہوجائے اور جب حج وعمرہ دونوں سے فارغ نہ ہوجائے احرام نہ کھولے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ وہ (بقر عید کے دن) اپنی قربانی کے جانور کے ذبح کرنے سے فارغ نہ ہوئے احرام نہ کھولے اور جس نے حج کا احرام باندھا ہے خواہ وہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو یا نہ لایا ہو اور اس نے حج کے ساتھ عمرہ کا بھی احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو وہ اپنا حج پورا کرے مگر جن لوگوں کو عمرہ کے ساتھ حج فسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ گزشتہ روایت میں گزرا وہ اپنا حج پورا نہ کریں حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ چونکہ میں حائضہ تھی اس لئے مکہ پہنچ کر نہ تو میں نے عمرہ کرنے کے لئے طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، میں حیض ہی کی حالت میں تھی کہ عرفہ کا دن آگیا اور میں نے چونکہ عمرہ کا احرام باندھا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنا سر کھول ڈالوں اور بالوں میں کنگھی کرلوں یعنی احرام کھول دوں تاکہ جو چیزیں احرام کی حالت میں ممنوع ہیں وہ مباح ہوجائیں اور پھر حج کا احرام باندھ لوں، نیز یہ کہ عمرہ چھوڑ دوں یعنی حج سے فارغ ہو کر عمرہ کے احرام کی قضا کروں چناچہ میں نے ایسا ہی کیا اور جب میں حج ادا کرچکی تو آپ ﷺ نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابوبکر کو تنعیم بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ مقام تنعیم سے احرام باندھ کر اپنے قضا شدہ عمرہ کے بدلے عمرہ کروں ! حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جن لوگوں نے حج وعمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع ہی سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے عمرہ کے لئے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ اس کے بعد انہوں نے احرام کھول ڈالا لوگوں نے منیٰ سے مکہ واپس آ کر دوبارہ اپنے حج کا طواف کیا جسے طواف افاضہ کہتے ہیں اور جن لوگوں نے حج وعمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع میں سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا۔ یا بعد میں ایک کو دوسرے کے ساتھ شامل کیا۔ انہوں نے صرف ایک ہی یعنی یوم نحر کے دن طواف کیا۔ (بخاری و مسلم) تشریح تنعیم ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ سے ڈھائی تین میل کے فاصلہ پر شمال مغربی جانب واقع ہے۔ یہ جگہ حدود حرم سے باہر ہے حجاج عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے یہیں آجاتے ہیں۔ عمرہ کے احرام کے لئے ضروری اور شرط ہے کہ حل سے یعنی حدود حرام سے باہر باندھا جائے عمرہ کرنے والا خواہ مکی ہو یا غیر مکی جب کہ حج کا احرام غیر مکی تو حل سے باندھے اور مکی حدود حرم ہی میں کہیں سے باندھے۔ انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا سے اگرچہ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ قارن کو ایک طواف عمرہ اور حج دونوں کے لئے کافی ہے، جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حنفیہ کے ہاں قارن کو دو طواف کرنے ضروری ہیں ایک طواف تو عمرہ کے لئے جو مکہ میں داخل ہونے کے بعد کیا جائے اور دوسرا طواف حج کے لئے وقوف عرفات کے بعد کیا جائے کیونکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقوع پر نبی کریم ﷺ قارن تھے، چناچہ آپ ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو ایک طواف اس وقت کیا اور دوسری مرتبہ طواف الزیارۃ وقوف عرفات کے بعد کیا نیز دارقطنی نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ قارن دو طواف کرے اور صفا ومروہ کے درمیان دو مرتبہ سعی کرے ! حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی یہی بات منقول ہے کہ قارن دو طواف اور دو مرتبہ سعی کرے۔

【4】

احرام کے طریقے اور حج کی اقسام

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا (یعنی فائدہ اٹھایا بایں طور پر کہ پہلے عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا) اور ذوالحلیفہ سے (کہ جہاں آپ ﷺ نے احرام باندھا تھا) قربانی کا جانور ساتھ لے لیا تھا، چناچہ پہلے تو آپ ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، پھر حج کا احرام باندھا اور لوگوں نے بھی نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا، بعض لوگ کہ جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تھے جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے اور بعض وہ تھے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لائے تھے، جب آنحضرت ﷺ مکہ پہنچے تو (عمرہ کرنے والے) لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہو وہ اس چیزش کو حلال نہ کرے جس سے وہ باز رہا ہے (یعنی احرا نہ کھولے) یہاں تک کہ وہ اپنا حج ادا کرے اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہ لایا ہو تو وہ (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کرے، صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے، بال کتروائے اور پھر وہ (عمرہ کا) احرام کھول دے (یعنی جو چیزیں حالت احرام میں ممنوع تھیں انہیں مباح کرلے) اس کے بعد حج کے لئے دوبارہ احرام باندھے اور رمی جمار کے بعد سر منڈانے سے پہلے نحر کے دن قربانی کرے (کیونکہ ادائیگی حج وعمرہ کی توفیق اور حق تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی شگر گزاری کے طور پر متمتع پر قربانی واجب ہے) اور جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے حج کے دنوں میں (یعنی حج کے مہینوں میں احرام کے بعد اور قربانی کے دن سے پہلے) رکھے اس بارے میں افضل یہ ہے کہ ذی الحجہ کی ساتویں، آٹھویں اور نویں تاریخ کو تین روزے رکھے اور سات روزے رکھ لے چاہے گھر پہنچ کر) بہرکیف آنحضرت ﷺ نے مکہ پہنچ کر (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کیا اور (طواف کے جو افعال ہیں ان میں) سب چیزوں سے پہلے (مگر لبیک کہنے کے بعد) حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف میں تین مرتبہ تو جلدی جلدی (یعنی اکڑ کر اور تیز رفتار سے) چلے اور چار مرتبہ معمولی رفتار سے چلے، پھر خانہ کعبہ کے گرد طواف پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی اور سلام پھیرا (یعنی صلوۃ الطواف پڑھی، حنفیہ کے نزدیک یہ نماز واجب ہے) اس کے بعد (خانہ کعبہ) سے چل کر صفاء پر آئے اور صفا ومروہ کے درمیان سات پھیرے کئے (یعنی سعی کی) اس کے بعد کسی ایسی چیز کے ساتھ حلال نہیں ہوئے جس سے اجتناب کیا جاتا ہے (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنا حج پورا کیا اور نحر کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) اپنی قربانی کا جانور ذبح کرلیا (تو اب سر منڈانے کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں مباح ہوگئیں علاوہ بیوی سے ہمبستری) اور پھر (منی سے) چلے اور (مکہ پہنچ کر) خانہ کعبہ کا طواف (یعنی طواف افاضہ) کیا اور اس کے بعد وہ چیز حلال ہوگئی جو ممنوع تھی (یعنی اب طواف سے فراغت کے بعد بیوی سے ہمبستری بھی حلال ہوگئی) پھر جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور تھے انہوں نے بھی وہی کیا جو رسول کریم ﷺ نے کیا تھا۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حج تمتع کیا تھا جب کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ ﷺ قارن تھے لہٰذا اب حدیثوں کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہاں تمتع سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی نفع اٹھانا اور یہ مفہوم قرآن میں بھی موجود ہے بایں طور کہ قارن حج کے ساتھ عمرہ ملا کر منتفع ہوتا ہے۔

【5】

حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو وہ ہر طرح سے حلال ہوجائے (یعنی عمرہ کے بعد پورا احرام کھول دے) کیونکہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا قیامت تک کے لئے جائز ہوگیا ہے۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں بھی تمتع سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی فائدہ اٹھانا۔ اس کی بقیہ وضاحت پہلے ذکر ہوچکی ہے۔

【6】

تبدیل احرام کے حکم پر صحابہ کا تردد وتامل

حضرت عطاء (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کتنے ہی آدمیوں کے ساتھ کہ جو میرے ساتھ شریک مجلس تھے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم (صحابہ (رض) نے) بغیر عمرہ کی شمولیت کے) خالص حج کا احرام باندھا۔ عطاء (رض) کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا۔ پھر جب رسول کریم ﷺ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو (مکہ) میں پہنچے تو ہمیں حکم دیا کہ ہم احرام کھول دیں۔ حضرت عطاء (رض) کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ احرام کھول دو ۔ اور عورتوں کے پاس جاؤ (یعنی ان سے مقاربت بھی کرو) نیز عطاء کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عورتوں کی مقاربت کو واجب نہیں کیا تھا بلکہ آپ ﷺ نے صرف عورتوں کو ان کے لئے حلال کردیا تھا (یعنی احرام کھول دینے کا حکم تو وجوب کے طور پر تھا البہ صحبت و مجامعت کا حکم صرف اباحت و جواز کی صورت میں تھا) حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کا یہ حکم سن کر تعجب کے ساتھ کہنے لگے کہ جب کہ ہمارے اور عرفہ کے دن کے درمیان صرف پانچ راتیں باقی رہ گئی ہیں آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ حکم دے دیا کہ ہم اپنی عورتوں سے مجامعت کریں (یہ تو بڑی عجیب بات ہوگی کہ) ہم میدان عرفات میں اس طرح جائیں کہ ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپکتی ہو (یعنی رات کو ہم جماع کریں اور صبح کو عرفات میں پہنچ جائیں، اس بات کو ایام جاہلیت میں بہت برا سمجھا جاتا تھا کہ عورتوں سے مجامعت اور حج میں اتنا قرب ہوجائے بلکہ اس چیز کو حج میں نقصان کا باعث جانتے تھے) عطاء (رض) کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے یہ بات کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ان کا ہاتھ کا اشارہ اور اپنے ہاتھ کو ہلانا گویا اب بھی میری نظروں میں پھر رہا ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (کو جب ہمارے اس تردد و تامل کا علم ہوا تو آپ ﷺ ہمارے درمیان (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری بہ نسبت اللہ سے زیادہ ڈرتا ہوں۔ تم سے زیادہ سچا اور تم میں سب سے زیادہ نیکو کار ہوں۔ اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور ہوتا تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا جس طرح تم احرام کھولو گے اور اگر مجھے میری یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا (یعنی اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ احرام کھولنا تم پر شاق گزرے گا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں بھی احرام کھول دیتا) تم (بلا تامل) احرام کھول دو ۔ چناچہ ہم نے احرام کھول دیا اور آپ ﷺ کے ارشاد کو سنا اور اطاعت کی۔ عطاء کا بیان ہے کہ حضرت جابر (رض) نے فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (رض) اپنے کام پر آئے (یعنی وہ یمن قاضی ہو کر گئے تھے جب وہاں سے آئے) تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے ؟ حضرت علی (رض) نے عرض کیا کہ جس چیز کا احرام نبی کریم ﷺ نے باندھا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ (نحر کے دن) قربانی کا جانور ذبح کرو (کہ یہ قارن پر واجب ہے) اور حالت احرام کو برقرار رکھو (یعنی میری طرح اب تم بھی احرام باندھے رکھو) چناچہ حضرت علی (رض) آنحضرت ﷺ کے لئے یا خود اپنے لئے قربانی کا جانور لے کر آئے سراقہ بن مالک بن جعشم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ (یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کا جواز) صرف اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہمیشہ کے لئے۔ (مسلم) تشریح ہم نے خالص حج کا احرام باندھا حضرت جابر (رض) نے یہ بات اپنے خیال و گمان کے مطابق کہی ورنہ تو جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے حضرت عائشہ کی روایت سے یہ معلوم ہی ہوچکا ہے کہ بعض صحابہ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض نے صرف حج کا اور بعض نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا۔ حضرت جابر (رض) نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جابر (رض) نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر عضو مخصوص سے قطرات ٹپکنے کی طرف اشارہ کیا۔ یا یہ کہ انہوں نے عضو مخصوص کی حرکت کو ہاتھ کی حرکت سے تشبیہ دی۔ بہرکیف یہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ بات کرتے ہوئے اعضاء کے اشاروں سے وضاحت کرتے تھے تاکہ مفہوم اچھی طرح واضح اور ذہن نشین ہوجائے۔

【7】

صحابہ کے تردد پر آنحضرت ﷺ کی برہمی

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں رسول کریم ﷺ ذی الحجہ کی چوتھی یا پانچویں تاریخ کو میرے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کس نے آپ کو غصہ دلایا ؟ اللہ اسے دوزخ میں ڈالے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے بعض لوگوں کو عمرہ کے ساتھ حج کو فسخ کردینے کا ایک حکم دیا اور وہ اس حکم سے تردد میں ہیں، اگر یہ بات مجھے پہلے سے معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اسی طرح احرام کھول دیتا جس طرح ان لوگوں نے احرام کھولا ہے اور پھر میں یہاں مکہ میں یا راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیتا۔ (مسلم)