63. مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان

【1】

مکہ میں داخل ہونے اور طواف کرنے کا بیان

مکہ کے لغوی معنی ہیں ہلاک کرنا، برباد کرنا اس شہر مقدس کو مکہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو تباہ و برباد کردیتا ہے اور اس شخص کو آخرت یا دنیا ہی میں ہلاک کرا دیتا ہے جو اس شہر میں ظلم و کجروی اختیار کرتا ہے۔ اس باب میں ان چیزوں کو ذکر کیا جائے گا کہ مکہ آنے والا اس مقدس شہر میں کس طرف سے داخل ہو، کس طرف سے نکلے، کس وقت آئے اور یہ کہ داخلہ کے وقت کیا اداب و قواعد ملحوظ ہونے چاہئیں، نیز طواف اور اس کے متعلقات مثلاً حجر اسود کو بوسہ دینے وغیرہ کی کیفیات اور ان کے مسائل کا بیان ہوگا۔

【2】

مکہ کا مدخل اور مخرج

حضرت نافع (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) جب بھی مکہ آتے، تو ذی طوی میں رات گزارتے اور جب صبح ہوتی تو غسل کرتے اور نماز پڑھتے پھر دن کو مکہ میں داخل ہوتے اور جب مکہ سے واپس ہوتے تو اس وقت بھی ذی طویٰ سے گزرتے اور صبح تک وہیں رات بسر کرتے، نیز حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ذی طوی ایک جگہ کا نام ہے جو حدود حرم میں مقام تنعیم کی طرف واقع ہے نبی کریم ﷺ جب مکہ تشریف لائے تو استراحت کے لئے رات ذی طوی گزارتے پھر صبح غسل فرماتے اور نماز پڑھ کر اس شہر مقدس میں داخل ہوتے۔ نماز سے بظاہر نماز نفل مراد ہے جو وہاں جانے کے لئے پڑھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مکہ سے واپس ہوتے تو اس وقت بھی ذی طویٰ میں قیام فرماتے تاکہ رفقاء وہاں جمع ہوجائیں اور سب لوگوں کا سامان وغیرہ اکٹھا ہوجائے۔ حضرت ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مکہ میں دن کے وقت داخل ہونا مستحب ہے تاکہ شہر میں داخل ہوتے ہی بیت اللہ شریف نظر آئے اور دعا کی جائے۔

【3】

مکہ کا مدخل اور مخرج

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ (حجۃ الوداع کے موقع پر) جب مکہ تشریف لائے تو شہر میں اس کے بلند حصہ کی طرف سے داخل ہوئے اور (واپسی کے وقت) نشیبی حصے کی طرف سے نکلے۔ (بخاری و مسلم) تشریح مکہ کے جس طرف ذی طوی ہے وہی شہر کا بلند حصہ ہے، جنت المعلی یعنی مکہ کا مشہور قبرستان بھی اسی جانب ہے۔ شہر کی دوسری جانب نشیبی حصہ ہے۔ پہلی حدیث اور اس حدیث میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مکہ کے نیشبی حصہ سے نکل کر جب مدینہ کا راستہ اختیار کرتے تو ذی طویٰ پہنچتے اور وہاں رات گزار کر صبح مدینہ کے لئے روانہ ہوجاتے۔

【4】

طواف کے لئے پاکی واجب ہے

حضرت عروہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حج کیا اور حضرت عائشہ (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے مکہ پہنچ کر جو سب سے پہلے کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور پھر بیت اللہ کا طواف کیا (یعنی عمرہ کا طواف کیا کیونکہ آپ ﷺ قارن یا متمتع تھے اور عمرہ نہیں ہوا، پھر آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے حج کیا تو آپ نے بھی بیت اللہ کے طواف سے افعال حج کی ابتداء کی اور عمرہ نہیں ہوا، پھر حضرت عمر (رض) نے اور حضرت عثمان (رض) نے بھی اسی طرح کیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح آپ ﷺ نے وضو کیا۔ کا مطلب یہ ہے کہ مکہ پہنچ کر طواف بیت اللہ سے پہلے آپ ﷺ نے دوبارہ وضو کیا، کیونکہ یہ بات پہلے ہی معلوم ہوچکی ہے کہ آنحضرت ﷺ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں غسل کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ غسل میں وضو بھی شامل ہوتا تھا۔ طواف کے صحیح ہونے کے لئے طہارت یعنی پاکی جمہور علماء کے نزدیک تو شرط ہے لیکن حنفیہ کے ہاں شرط نہیں ہے البتہ واجب ہے۔ گزشتہ احادیث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ نے مکہ پہنچ کر عمرہ کیا، اس کے بعد جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے وہ تو احرام باندھے رہے اور جو لوگ قربانی کا جانور ساتھ نہ لائے تھے انہوں نے احرام کھول دیا۔ لہٰذا اور عمرہ نہ ہوا کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ یعنی موقوف کر کے عمرہ نہیں کیا اور احرام نہیں کھولا بلکہ آپ ﷺ عمرہ کے بعد احرام ہی کی حالت میں رہے کیونکہ قارن تھے اور پھر آخر میں قربانی کے دن آپ ﷺ نے احرام کھولا۔ لہٰذا راوی نے یہ بات اس لئے کہی تاکہ ان لوگوں کی تردید ہوجائے جو یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے حج کو فسخ کر کے عمرہ کیا۔ یا پھر اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ ان سب نے حج کے بعد الگ سے اور عمرہ نہیں کیا بلکہ اسی عمرہ پر اکتفاء کیا جو حج کے ساتھ شامل تھا۔

【5】

طواف میں رمل کا ذکر

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب حج یا عمرہ کا طواف کرتے تو پہلے تین شوط میں تیز تیز (اور اکڑ کر) چلتے (یعنی رمل کرتے) اور باقی چار شوط میں اپنی معمولی رفتار سے چلتے پھر طواف کی دو رکعت نماز پڑھتے اور اس کے بعد صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے۔ (بخاری و مسلم) تشریح خانہ کعبہ کے گرد ایک پھیرے کو شوط کہتے ہیں اور سات شوط کا ایک طواف ہوتا ہے، چناچہ نبی کریم ﷺ طواف کے وقت تین پھیروں میں تو اس طرح تیز چلتے کہ قدم پاس پاس رکھتے اور جلد جلد اٹھاتے اور دوڑتے اور اچھلتے نہ تھے اور باقی چار پھیرے اپنی معمولی رفتار سے چل کر کرتے۔

【6】

صفا اور مروہ کے درمیان سعی واجب ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے طواف کے وقت حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں تو رمل کیا اور چار پھیروں میں اپنی معمولی رفتار سے چلے اور جب صفا و مرہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن مسیل میں دوڑتے تھے۔ (مسلم) تشریح سعی کرنا یعنی صفا ومروہ کے درمیان سات پھیرے کرنا حنفیہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت اما شافعی کے ہاں رکن ہے۔ بطن مسیل صفا ومروہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے شناخت کے لئے اس کے دونوں سروں پر نشان بنے ہوئے ہیں، جنہیں میلین اخضری کہتے ہیں۔ سعی کے وقت اس جگہ تیز رفتاری سے چلنا تمام علماء کے نزدیک سنت ہے۔

【7】

حجراسود کا بوسہ

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (جب حج یا عمرہ کے لئے) مکہ تشریف لائے تو حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا پھر (طواف کے لئے) داہنے ہاتھ کی طرف چلے، چناچہ تین مرتبہ تو بازو ہلاکر اور جلدی جلدی چلے (جس طرح پہلوان چلتے ہیں) اور چار مرتبہ اپنی معمولی رفتار سے چلے۔ (مسلم)

【8】

حجراسود کا بوسہ

حضرت زبیر ابن عربی (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر (رض) سے حجر اسود کو بوسہ دینے کے سلسلہ میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اسے ہاتھ لگاتے اور چومتے تھے۔ (بخاری)

【9】

استلام رکن یمانی

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو خانہ کعبہ کے صرف دو رکن کا استلام کرتے دیکھا ہے جو یمن کی سمت ہیں۔ (بخاری مسلم) تشریح کعبہ مقدسہ کے چار رکن یعنی چار کونے ہیں، ایک رکن تو وہ ہے جس میں حجر اسود نصب ہے، دوسرا اس کے سامنے ہے اور حقیقت میں یمانی اسی رکن کا نام ہے، مگر اس طرف کے دونوں ہی رکن کو تغلیبا رکن یمانی ہی کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دو رکن اور ہیں جن میں سے ایک تو رکن عراقی ہے اور دوسرا رکن شامی مگر ان دونوں کو رکن شامی ہی کہتے ہیں۔ جن میں رکن حجر اسود ہے اس کو دوہری فضیلت حاصل ہے، ایک فضیلت تو اسے اس لئے حاصل ہے کہ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا ہے اور دوسری فضیلت یوں حاصل ہے کہ اس میں حجر اسود ہے، جب کہ رکن یمانی کو صرف یہی ایک فضیلت حاصل ہے کہ اسے حضرت ابراہیم نے بنایا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ان دونوں رکن کو رکن شامی و عراقی پر فضیلت و برتری حاصل ہے۔ اسی لئے اسلام انہیں دونوں رکن کے ساتھ مختص ہے۔ استلام کے معنی ہیں لمس کرنا یعنی چھونا یہ چھونا خواہ ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ ہو یا بوسہ کے ساتھ اور یا دونوں کے ساتھ لہٰذا جب یہ لفظ رکن اسود کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس سے حجر اسود کو چومنا مقصود ہے اور جب رکن یمانی کی نسبت استعمال ہوتا ہے تو اس سے رکن یمانی کو صرف چھونا مراد ہوتا ہے۔ چونکہ رکن اسود، رکن یمانی سے افضل ہے اس لئے اس کو بوسہ دیتے ہیں یا ہاتھ وغیرہ لگا کر یا کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کر کے چومتے ہیں اور رکن یمانی کو صرف چوما جاتا ہے اس کو بوسہ نہیں دیا جاتا، بقیہ دونوں رکن یعنی شامی اور عراقی کو نہ بوسہ دیتے ہیں اور نہ ہاتھ لگاتے ہیں، چناچہ مسئلہ یہی ہے کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی اور پتھر وغیرہ کو نہ چومنا چاہئے اور نہ ہاتھ لگانا چاہئے۔

【10】

اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور محجن کے ذریعہ حجر اسود کو بوسہ دیا۔ (بخاری و مسلم) تشریح حنفیہ کے ہاں چونکہ پیادہ پا طواف کرنا واجب ہے اس لئے اس حدیث کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کسی عذر اور مجبوری کی بناء پر اس طرح طواف کیا ہوگا۔ لہٰذا یہ طواف آنحضرت ﷺ کے ساتھ مختص ہے کسی اور کو سواری پر بیٹھ کر طواف کرنا جائز نہیں ہے۔ علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ اگرچہ پیادہ پا طواف کرنا افضل ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لئے طواف کیا تاکہ سب لوگ آپ ﷺ کو دیکھتے رہیں۔ یہاں ایک اشکال بھی واقع ہوتا ہے وہ یہ کہ احادیث سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر طواف کرتے ہوئے پہلے تین پھیروں میں رمل کیا تھا، جب کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں رمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا پیادہ پا طواف کرنا اور اس کے تین پھیروں میں رمل کرنا طواف قدوم کے موقع پر تھا اور اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کا تعلق طواف افاضہ سے ہے جو فرض ہے اور قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) ہوا تھا اور جسے طواف الرکن بھی کہتے ہیں۔ اور اس موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کی وجہ یہی تھی کہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھتے رہیں۔ تاکہ طواف افعال و مسائل سیکھ لیں۔ محجن اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کا سرا خمدار ہوتا ہے ا، اس کے ذریعہ حج اسود کو بوسہ دینے کی صورت یہ تھی کہ آپ ﷺ اس لکڑی سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے اس کو چومتے تھے۔

【11】

طریق استلام حجر اسود

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر کیا، جب آپ ﷺ حجر اسود کے سامنے آئے تو ایک چیز سے (یعنی لکڑی سے) کہ جو آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے۔ (بخاری) تشریح حجر اسود کو بوسہ دینے کا طریق تو یہ ہے کہ دونوں ہاتھ حجر اسود پر رکھ کر دونوں ہونٹوں کو حجر اسود پر لگایا جائے۔ لیکن آنحضرت ﷺ ہجوم کی زیادتی اور لوگوں کے ازدحام کی وجہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرتے اور اسے چومتے ہوں گے، چناچہ حنفیہ کا یہی مسلک ہے کہ حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے اس کو نہ چوما جائے۔ ہاں اگر کسی وجہ سے حجر اسود پر ہاتھ رکھنا اور اس کو چومنا ممکن نہ ہو تو پھر اشارہ کے ذریعہ ہی یہ سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔

【12】

طریق استلام حجر اسود

حضرت ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ سوار ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور ایک خمدار سرے والی لکڑی سے کہ جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی حجر اسود کی طرف اشارہ کرتے اور اس لکڑی کو چومتے تھے۔ (مسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کے بارے میں بعض روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حجر اسود کو چوما، بعض روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ آپ ﷺ نے حجر اسود کو ہاتھ لگا کر بوسہ دیا اور بعض روایتوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے بوسہ دینا ثابت ہے۔ لہٰذا ان تمام روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ کسی طواف میں تو آپ ﷺ نے حجر اسود کو بوسہ دیا ہوگا کسی طواف میں ہاتھ لگا کر چوما ہوگا اور کسی طواف میں کثرت ہجوم و ازدحام کی وجہ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کے ذریعہ استلام کرلیا ہوگا، یا پھر یہ کہ ایک طواف میں ہر شوط اور کسی شوط میں ازدحام کی وجہ سے اشارہ کے ذریعہ استلام کرلیتے ہوں گے۔

【13】

حائضہ طواف وسعی نہ کرے

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے تو ہم لبیک کہتے وقت صرف حج کا ذکر کرتے تھے بعض حضرات نے یہ معنی لکھے ہیں کہ ہم صرف حج کا قصد کرتے تھے یعنی مقصود اصلی حج تھا عمرہ نہیں تھا، لہٰذا عمرہ کا ذکر نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عمرہ نیت میں بھی نہیں تھا۔ پھر جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میرے ایام شروع ہوگئے، چناچہ نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں اس خیال سے رو رہی تھی کہ حیض کی وجہ سے میں حج نہ کر پاؤں گی۔ آنحضرت ﷺ نے میری کیفیت دیکھ کر فرمایا کہ شاید تمہارے ایام شروع ہوگئے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لئے مقرر فرما دیا ہے اس کی وجہ سے رونے اور مضطرب ہونے کی کیا ضرورت ہے تم بھی وہی افعال کرو جو حاجی کرتے ہیں۔ ہاں جب تک پاک نہ ہوجاؤ (یعنی ایام ختم نہ ہوجائیں اور اس کے بعد نہا نہ لو۔ اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا اور نہ سعی کرنا کیونکہ سعی طواف کے بعد ہی صحیح ہوتی ہے۔ (بخاری و مسلم) تشریح سرف ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریبا چھ میل اور مقام تنعیم سے جانب شمال تین یا چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے، اس جگہ ام المؤمنین حضرت میمونہ (رض) کی قبر ہے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت میمونہ (رض) کا نکاح بھی اسی جگہ ہوا، شب زفاف بھی یہیں گزری اور انتقال بھی یہیں ہوا۔ اس حدیث کے پیش نظر ایک خلجان پیدا ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ حضرت عائشہ (رض) کے یہ الفاظ لا نذکر الا لحج (ہم صرف حج کا ذکر کرتے تھے) خود حضرت عائشہ (رض) ہی کی اس روایت کے بالکل متضاد ہیں جو گزشتہ باب میں (دو ) گزر چکی ہے جس میں حضرت عائشہ (رض) نے اپنے بارے میں یہ بتایا تھا کہ ولم اہلل الا بعمرۃ (یعنی میں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا) لہٰذا اس ظاہر تضاد کو دفع کرنے کے لئے یہ تاویل کی جائے گی کہ یہاں حضرت عائشہ (رض) کے الفاظ لانذکر الا الحج کی مراد یہ ہے کہ اس سفر سے ہمارا اصل مقصد حج تھا اور چونکہ حج کی تین قسمیں ہیں یعنی افراد، تمتع اور قران، اس لئے ہم میں سے بعض تو مفرد تھے اور بعض متمتع اور بعض قارن۔ میں نے تمتع کا قصد کیا تھا، چناچہ میں نے میقات سے عمرہ کا احرام باندھا مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی میرے ایام شروع ہوگئے جس کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عرفہ کا دن اور وقوف عرفات کا وقت آگیا اور اس طرح عمرہ کا وقت گزر کر ایام حج شروع ہوگئے چناچہ آنحضرت ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں عمرہ کا احرام تو کھول دوں اور حج کا احرام باندھ لوں اور پھر طواف اور سعی کے علاوہ دیگر افعال حج کروں۔

【14】

مشرکین کو طواف کعبہ کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع سے پہلے جس حج میں نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو لوگوں کا امیر حج بنا کر بھیجا تھا اس حج میں نحر (قربانی) کے دن حضرت ابوبکر (رض) نے مجھے بھی اس جماعت کے ساتھ بھیجا جس کو یہ حکم دیا تھا کہ یہ وہ یہ اعلان کر دے کہ خبردار ! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ (بخاری و مسلم) تشریح پہلے یہ بتایا جا چکا ہے کہ حج 9 ھ کے آخر میں فرض ہوا ہے آنحضرت ﷺ تو اس سال دیگر دینی امور میں مشغولیت کی وجہ سے خود حج کو تشریف نہ لے جاسکے بلکہ حضرت ابوبکر (رض) کو قافلہ حجاج کا امیر بنا کر حج کے لئے روانہ کیا۔ یہ واقعہ حجۃ الوداع سے ایک سال پہلے کا ہے، چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) جب وہاں پہنچے تو ایک جماعت کو کہ جس میں حضرت ابوہریرہ (رض) بھی شامل تھے لوگوں کے پاس بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ لوگوں میں یہ اعلان کردیا جائے کہ اس سال کے بعد آئندہ کوئی مشرک یعنی کافر بیت اللہ کا حج کرنے کے لئے نہ آئے کیونکہ حج کی سعادت عظمی صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کی گئی ہے اور انہوں نے یہ اعلان اس آیت کریمہ کے پیش نظر کرایا کہ۔ آیت ( اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا) 9 ۔ التوبہ 28) ۔ تمام مشرک نجس (ناپاک ہیں لہٰذ کوئی بھی مشرک اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ آئے۔ نیز حضرت ابوبکر (رض) نے اس جماعت کو یہ اعلان کرنے کا بھی حکم دیا کہ کوئی بھی شخص برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ ایام جاہلیت میں لوگ برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہم اللہ کی یہ عظیم الشان عبادت ان کپڑوں میں کس طرح کرسکتے ہیں جن میں دن رات گناہ کیا کرتے تھے چناچہ اسلام نے اس لغویت کو بند کیا اور حکم دیا کہ آئندہ کوئی بھی اس غیر اخلاقی و انسانی اور سراسر جہالت آمیز حرکت کی جرات نہ کرے۔

【15】

خانہ کعبہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ

حضرت مہاجر مکی (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو خانہ کعبہ کو دیکھ کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے کہ آیا یہ مشروع ہے یا نہیں ؟ تو حضرت جابر (رض) نے کہا کہ جب ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ حج کیا تو ایسا نہ کرتے تھے (یعنی خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنے کے لئے اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ (ترمذی ابوداؤد) تشریح زائر بیت اللہ، مکہ پہنچ کر جب مسجد حرام میں داخل ہوتا ہے وہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی دعا مانگتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ کعبہ مقدس کے جمال دل ربا پر نظر پڑتے ہی جو کچھ دل چاہے اپنے پروردگار سے مانگ لیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس وقت دعا مانگتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ بھی اٹھائے جائیں یا نہیں ؟ چناچہ یہ حدیث اس کا انکار کر رہی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافع اور حضرت امام مالک کا مسلک بھی یہی ہے کہ خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنے والا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے، جب کہ حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھائے جائیں اور دعا مانگی جائے۔ (طیبی) ملا علی قاری نے مرقات میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا مسلک اس کے برخلاف لکھا ہے یعنی ان کی نقل کے مطابق ان دونوں ائمہ کے ہاں ہاتھ اٹھانا مشروع ہے لیکن انہیں ملا علی قاری نے اپنی ایک اور کتاب مناسک میں اس کو مکروہ لکھا ہے اگرچہ بعض علماء سے اس کا جواز بھی نقل کیا ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور و معتمد کتاب ہدایہ اور در مختار سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس موقع پر ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔

【16】

سعی کے دوران صفا سے کعبہ کو دیکھنا اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب (حج وعمرہ کے لئے) تشریف لائے اور مکہ میں داخل ہوئے تو حجر اسود کے پاس گئے اور اس کو بوسہ دیا، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا اس کے بعد نماز طواف پڑھ کر صفا کی طرف آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ جب خانہ کعبہ کی طرف نظر اٹھائی تو دعا کے لئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور جس قدر چاہا اللہ کا ذکر (یعنی تکبیر و تہلیل) کرتے رہے اور دعا مانگتے رہے۔ (ابوداؤد) تشریح سعی کے وقت جب صفا پر چڑھا جائے تو وہاں بیت اللہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہئے اور پھر تکبیر و تہلیل کرنے اور درود پڑھنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی چاہئے۔ کبھی یہ طریقہ رہا ہوگا اور شاید اب بھی ہو کہ بعض لوگ اس موقع پر تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے ہیں جیسا کہ نماز میں تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا جاتا ہے، خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے یہ ایک غیر مشروع و غیر مسنون طریقہ ہے۔

【17】

نماز وطواف میں مماثلت

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا نماز کی مانند ہے اگرچہ تم اس میں کلام کرتے ہو، لہٰذا جو شخص طواف میں کلام کرے تو وہ لغو لا یعنی اور تغیر پسندیدہ کلام نہ ہو بلکہ نیک کلام ہی کرے۔ (ترمذی، نسائی، دارمی) اور امام ترمذی نے ذکر کیا ہے کہ کچھ لوگ اس روایت کو حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف کرتے ہیں (یعنی یہ حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد ہے ) تشریح نماز و طواف میں مماثلت کا تعلق ثواب سے ہے کہ جیسے نماز کا ثواب بہت زیادہ ہے ویسے ہی خانہ کعبہ کا طواف بھی کثیر ثواب حاصل ہے۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ جس طرح نماز میں بات چیت اور کلام مفسد ہے۔ اس طرح طواف میں کلام مفسد نہیں ہے۔ لہٰذا حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ کلام اور جو چیزیں کہ کلام کے حکم میں آتی ہیں جیسے کھانا پینا اور افعال کثیرہ وغیرہ طواف کے لئے مفسد نہیں ہیں۔ حدیث کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ نماز اور طواف دونوں یکساں ہیں کیونکہ ایک فرق تو خود حدیث نے بتادیا ہے اس کے علاوہ بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو دونوں کے ظاہری فرق کو واضح کرتی ہیں، مثلاً آنحضرت ﷺ کے عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ جس طرح نماز میں استقبال قبلہ اور وقت شرط ہے اسی طرح طواف میں قبلہ رو ہونا اور کسی خاص وقت کا متعین ہونا شرط نہیں ہے۔ اسی طرح نماز کی اور شرطیں جیسے طہارت حقیقیہ اور حکمیہ اور ستر کا چھپا ہونا، اگرچہ امام شافعی کے نزدیک طواف کے لئے اسی درجہ میں ہیں جس درجہ میں نماز کے لئے ہیں یعنی جس طرح یہ چیزیں نماز کی شرائط میں سے ہیں کہ ان کے بغیر نماز اداء ہی نہیں ہوتی اسی طرح طواف کے لئے بھی شرط ہیں لیکن حنفیہ کے ہاں یہ چیزیں طواف کے لئے صرف واجب کے درجہ میں ہیں شرط نہیں۔ چناچہ حدیث کے الفاظ طواف کرنا نماز کی مانند ہے، سے یہ لازم نہیں آتا کہ طواف بعینہ نماز کے درجہ کا عمل ہوجائے، بلکہ طواف کو نماز کی مانند کہنا خود اس طرف اشار کرتا ہے کہ نماز طواف سے افضل ہے۔

【18】

حجر اسود کی حقیقت وماہیت

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حجر اسود بہشت سے اترا ہے یہ پتھر (پہلے) دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا مگر ابن آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے (احمد، ترمذی) نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح وہ مقدس پتھر جسے آج حجر اسود (کالا پتھر) کہا جاتا ہے جب جنت سے اتر کر ظلم و جہل سے معمور اس دنیا میں آیا اور دنیا کے گنہگار باسیوں نے اس کو چھونا اور اس کو ہاتھ لگانا شروع کیا تو ان کے گناہوں نے کی تاثیر نے اس کا رنگ بدل دیا اور وہ پتھر جو دودھ سے زیادہ سفید تھا انسانوں کے گناہوں سے سیاہ ہوگیا۔ اب غور کیجئے جب پتھر پر انسان کے گناہوں کا یہ اثر ہوسکتا ہے تو خود انسان کے قلوب پر ان گناہوں کا کیا اثر ہوتا ہوگا۔ معاذاللہ۔

【19】

قیامت کے دن حجر اسود کی گواہی

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کی قسم ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا، پھر اس کو دو آنکھیں دی جائیں گی جن کے ذریعہ وہ دیکھے گا اور اس کو زبان دی جائے گی جس کے ذریعہ وہ بولے گا، چناچہ وہ اس شخص کے حق میں گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کو بوسہ دیا ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح جس نے حق کے ساتھ اس کو بوسہ دیا ہوگا، کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے ایمان، صدق اور یقین کے ساتھ اور محض طلب ثواب کی خاطر حجر اسود کو بوسہ دیا ہوگا قیامت میں وہ اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ اس شخص نے مجھے بوسہ دیا تھا۔ یہ حدیث بھی اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن حجر اسود کو بالکل اسی طرح آنکھیں اور زبان عطا ہوں گی جس طرح انسان کو عطا کی گئی ہیں کیونکہ اللہ رب العزت جمادات میں بینائی اور گویائی پیدا کرنے پر قادر ہے۔ وہ اگر خون و گوشت کے ایک لوتھڑے کو دیکھنے اور بولنے کی قوت دے سکتا ہے تو اسی طرح ایک پتھر کو بھی دیکھنے اور بولنے پر قادر کرسکتا ہے۔

【20】

حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یاقوت ہیں

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا سرکار دو عالم ﷺ فرماتے تھے۔ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے یا قوتوں میں سے دو یاقوت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کا نور اٹھا لیا ہے (تاکہ ایمان بالغیب رہے) اگر ان کا نور باقی رہتا تو اس میں شک نہیں کہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری چیزوں کو روشن کردیتا۔

【21】

استلام حجر اسود اور طواف کی فضیلت

حضرت عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) دونوں رکن یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگانے میں لوگوں پر جس طرح سبقت حاصل کرتے تھے اس طرح میں رسول کریم ﷺ کے کسی بھی صحابی کو ان دونوں رکن میں سے کسی پر سبقت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، نیز حضرت ابن عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کروں تو مجھے مت روکو، کیونکہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں رکن کو ہاتھ لگانا گناہوں کے لئے کفارہ ہے اور میں نے آپ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور اس کی محافظت کرے (یعنی طواف کے واجبات و سنن اور آداب بجا لائے تو اس کا ثواب غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔ نیز میں نے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے۔ (طواف کرتے وقت) جب بھی کوئی قدم رکھتا ہے اور پھر اسے اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قدم رکھنے کے عوض تو اس کا گناہ ختم کرتا ہے اور قدم اٹھانے کے عوض اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے (یعنی طواف کرنے والے کا جب قدم رکھا جاتا ہے تو اس سے گناہ دور کردیا جاتا ہے اور جب قدم اٹھتا ہے تو اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس طرح پورے طواف میں اس کے گناہ ختم ہوتے رہتے ہیں اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے) ۔ (ترمذی) تشریح سبقت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حجر اسود اور رکن یمانی کے استلام کے لئے لوگوں کے ہجوم کو چیر پھاڑ کر آگے بڑھتے اور ان دونوں رکن کو ہاتھ لگاتے، لیکن ان کی یہ سبقت اس طرح ہوتی تھی کہ لوگوں کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی تھی، چناچہ اگر کوئی شخص استلام کے لئے لوگوں کو دھکیلتا، گراتا ان دونوں رکن تک پہنچے اور لوگ اس کی وجہ سے ایذاء محسوس کریں تو وہ گنہگار ہوگا، لہٰذا ہجوم کی سورت میں ہاتھ کے ذریعہ دور سے اشارہ کرلینے ہی پر اکتفا کرلینا چاہئے۔ سات مرتبہ طواف کرے میں تین احتمال ہیں ایک تو یہ کہ سات شوط کرے یعنی خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے اور یہ معلوم ہی ہے کہ سات شوط (چکر) کا ایک طواف ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ سات طواف کرے اور تیسرے یہ کہ سات روز تک طواف کرے۔

【22】

حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان آپ ﷺ کی دعا۔

حضرت عبداللہ بن سائب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم ﷺ دونوں رکن یعنی حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے۔ دعا (ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) ۔ (ابوداؤد) اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

【23】

سعی کا حکم

حضرت صفیہ بنت شیبہ کہتی ہیں کہ ابوتجراۃ کی بیٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں قریش کی عورتوں کے ساتھ آل ابوحسن کے گھر گئی تاکہ ہم رسول اللہ ﷺ کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھیں (اور اس طرح ہم آپ ﷺ کے جمال باکمال سے مشرف اور آپ ﷺ کے عمل و برکت سے مستفید ہوں) چناچہ میں نے آپ ﷺ کو صفا ومروہ کے درمیان اس طرح سعی کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ ﷺ کا تہہ بند سعی دوڑنے میں تیزی کی وجہ سے آپ ﷺ کے پیروں کے گرد گھوم رہا تھا، نیز میں نے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ سب لوگ سعی کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سعی کو لکھ دیا ہے، (شرح السنہ) اس روایت کو احمد نے بھی کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ تشریح پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صفا ومروہ پہاڑیوں کے درمیان سات مرتبہ چکر لگانے کو سعی کہتے ہیں کہ جو حج کا ایک اہم رکن ہے صفا اور مروہ کی پہاڑیاں اب باقی نہیں رہی ہیں دونوں کٹ کٹا کر ختم ہوگئی ہیں صرف ان کی جگہیں متعین ہیں جہاں چند سیڑھیا بنادی گئی ہیں، دونوں میں آپس کا فاصلہ تقریبا ڈیڑھ فرلانگ کا ہے۔ یہ بھی پہلے بتایا جا چکا ہے یہ سعی درحقیقت حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) کی اس بھاگ دوڑ اور اضطراب کی یادگار ہے جس میں وہ اپنے شیرخوار بچے حضرت اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کی تلاش میں ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان مبتلا ہوئی تھیں، اس کے بعد اللہ نے زمزم شریف پیدا فرمایا تھا، اسلام سے قبل عربوں نے ان دونوں پہاڑیوں پر ایک ایک بت رکھ دیا تھا۔ صفا کے بت کا نام اہناف تھا اور مروہ کے بت کا نام نائلہ تھا۔ صفا کی پہاڑی جبل ابوقبیس کے دامن میں تھی وہیں سے سعی شروع کی جاتی ہے، صفا اور مروہ کے درمیان وہ راستہ جس پر سعی کی جاتی ہے اور جسے مسعیٰ کہتے ہیں بیت اللہ کے مشرقی جانب ہے، یہ پہلے مسجد حرام سے باہر تھا، اب اس کے ساتھ ہی شامل کردیا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ فان اللہ کعب علیکم السعی کے معنی حضرت شافعی تو یہ مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی کو فرض کیا ہے، چناچہ ان کے نزدیک صفا ومروہ کے درمیان سعی فرض ہے اگر کوئی شخص سعی نہیں کرے گا تو اس کا حج باطل ہوجائے گا۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں چونکہ سعی فرض نہیں ہے بلکہ واجب ہے اس لئے وہ اس جملہ کے یہ معنی مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی کو واجب کیا ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق اگر کوئی شخص سعی ترک کرے تو اس پر دم یعنی دنبہ وغیرہ ذبح کرنا واجب ہوجاتا ہے حج باطل نہیں ہوتا۔

【24】

پیاہ پا سعی کرنا واجب ہے

حضرت قدامۃ بن عبداللہ بن عمار کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو صفا ومروہ کے درمیان اونٹ پر سوار ہو کر سعی کرتے دیکھا ہے اور اس وقت نہ مارنا تھا نہ ہانکنا تھا اور نہ ہٹو بچو کی آوازیں تھیں۔ (شرح السنۃ) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی جب کہ اوپر کی حدیث اور بعض دوسری احادیث سے یہ ثابت ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے پیادہ پا سعی کی ہے۔ لہٰذا احادیث کے اس تضاد کو یوں ختم کیا جائے کہ کسی سعی میں تو آپ ﷺ پیادہ پا تھے اور کسی وقت آپ ﷺ نے تعلیم امت کی خاطر یا کسی عذر کی وجہ سے اونٹ پر سوار ہو کر سعی کی چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق بشرط قدرت پیادہ پا سعی کرنا واجب ہے اگر کوئی شخص بلاعذر سواری وغیرہ پر سعی کرے گا تو اس پر دم جانور ذبح کرنا واجب ہوگا۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ﷺ اونٹ پر سوار ہو کر سعی کر رہے تھے تو اس وقت اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے اور اظہار شان کی خاطر نہ تو کسی کو مارتے دھکیلتے تھے اور نہ ہاتھ وغیرہ سے کسی کو ہٹاتے تھے اور نہ ہٹو بچو کی ہانک لگاتے تھے جیسا کہ امراء و سلاطین اور حکام نیز ظالم و مغرور لوگوں کی عادت ہے، گویا اس جملہ کے ذریعہ ایسے لوگوں کو غیرت دلانا اور ان پر طعن مقصود ہے جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں۔

【25】

طواف میں اضطباع

حضرت یعلی بن امیہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس حالت میں طواف کیا کہ آپ ﷺ سبز (دھاریوں والی) چادر کے ذریعہ اضطباع کئے ہوئے تھے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی) تشریح پہلے بتایا جا چکا ہے کہ چادر کو اس طرح اوڑھنا کہ اسے دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے، اضطباع کہلاتا ہے۔ طواف کے وقت اس طرح چادر اوڑھنے کی وجہ بھی پہلے بیان کی جا چکی ہے۔

【26】

طواف میں اضطباع سنت ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نے جعرانہ سے کہ جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے عمرہ کیا، چناچہ سب نے خانہ کعبہ کے طواف کے پہلے تین پھیروں میں رمل کیا نیز انہوں نے طواف میں اپنی چادروں کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کاندھوں پر ڈال لیا تھا۔ (ابوداؤد) تشریح اضطباع پورے طواف میں سنت ہے جب کہ رمل یعنی تیز اور اکڑ کر چلنا طواف کے پہلے دو تین پھیروں میں ہوتا ہے اتنی بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اضطباع صرف طواف کے وقت ہی مستحب ہے، طواف کے علاوہ اوقات میں مستحب نہیں ہے، نیز بعض لوگ جو ابتداء احرام ہی سے اضطباع اختیار کرلیتے ہیں اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔

【27】

استلام حجر اسود ورکن یمانی کی اہمیت

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول کریم ﷺ کو دونوں رکن استلام کرتے دیکھا ہے ہم نے ان دونوں رکن یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام نہ کبھی بھیڑ میں چھوڑا ہے اور نہ چھیڑ میں (یعنی کسی حال میں بھی ہم نے اس سعادت کو ترک نہیں کیا ہے) (بخاری و مسلم) نیز بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت نافع (رض) نے کہا میں نے حضرت ابن عمر (رض) کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو ہاتھ سے چھوتے اور پھر اس ہاتھ کو چومتے اور فرماتے کہ جب سے میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے کبھی اس کو ترک نہیں کیا۔

【28】

بسبب عذر سوار ہو کر طواف کرنا جائز ہے

حضرت ام سلمہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے حج کے دنوں میں رسول کریم ﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں جس کی وجہ سے پیادہ پا طواف نہیں کرسکتی آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں سے ایک طرف ہو کر سوار پر طواف کرلو۔ چناچہ میں نے اسی طرح طواف کیا اور میں نے اس دوران دیکھا کہ رسول کریم ﷺ بیت اللہ کے پہلو میں یعنی خانہ کعبہ کی دیوار متصل نماز پڑھ رہے تھے اور نماز میں آیت (والطور وکتاب مسطور) کی قرأت فرما رہے تھے۔ (بخاری و مسلم) تشریح سورت طور آپ ﷺ نے ایک رکعت میں پڑھی ہوگی اور دوسری رکعت میں کوئی اور سورت پڑھی ہوگی جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی۔ یا یہ کہ سورت طور کو دونوں ہی رکعتوں میں پڑھا ہوگا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی بناء پر بیت اللہ کا طواف سوار ہو کر کرنا جائز ہے بلاعذر جائز نہیں ہے کیونکہ پیادہ پا طواف کرنا واجب ہے۔

【29】

بوسہ دیتے ہوئے حجر اسود سے حضرت عمر کا خطاب

حضرت عابس بن ربیعہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عمر فاروق (رض) حجر اسود کو بوسہ دیتے تھے اور اس کے سامنے یہ فرماتے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں رسول کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم) تشریح حضرت عمر (رض) کا یہ ارشاد اس اعتقادی و عملی گمراہی کو روکنے کے لئے تھا کہ کہیں بعض نو مسلم اس پتھر کو پوجنے ہی نہ لگیں، چناچہ اس ارشاد سے آپ کی مراد یہی تھی کہ یہ پتھر بذات خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ کسی کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر اس کی ذات سے کوئی نفع پہنچتا ہے تو صرف اسی حد تک کہ رسول کریم ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اس کو چومنے سے ثواب ملتا ہے۔

【30】

رکن یمانی پر دعا اور وہاں متعین فرشتوں کی آمین

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہاں یعنی رکن یمانی پر ستر فرشتے متعین ہیں، چناچہ جو شخص وہاں یہ دعا پڑھتا ہے، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں، دعا یہ ہے۔ (اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرہ حسنۃ وقنا عذاب النار) ۔ (ابن ماجہ) اے اللہ ! میں تجھ سے گناہوں کی معافی اور دنیا و آخرت میں عافیت مانگتا ہوں، اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں اگ کے عذاب سے بچا۔ تشریح رکن یمانی کی جب یہ فضیلت ہے تو حجر اسود کی فضیلت تو اس سے بھی زائد ہوگی لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فضیلت و امتیاز صرف رکن یمانی ہی کے ساتھ مختص ہو اور حجر اسود کے لئے اس سے زائد دوسری فضیلتیں ہوں۔ اس حدیث میں اور حدیث نمبر اکیس میں کہ جس میں یہ ذکر ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان۔ ربنا آتنا الخ۔ پڑھتے تھے، کوئی منافات و تضاد نہیں ہے بایں طور کہ جب آپ ﷺ طواف کے دوران رکن یمانی کی طرف پہنچتے اور چلتے ہوئے یہ دعا شروع کرتے تو ظاہر ہے کہ اس دعا کا پڑھنا رکن یمانی اور حج اسود کے درمیان ہی ہوتا ہوگا کیونکہ طواف کرتے ہوئے دعا کے لئے ٹھہرنا تو درست نہیں ہے۔ چناچہ جو لوگ طواف کے دوران ٹھہر کر دعا پڑھتے ہیں وہ غلطی کرتے ہیں۔

【31】

طواف کی حالت میں تسبیح وتہلیل وغیرہ کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کرے اور طواف کے دوران۔ دعا (سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ) ۔ کے علاوہ اور کوئی کلام نہ کرے تو اس کے دس گناہ محو کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے درجے بلند کر دئیے جاتے ہیں اور جو شخص طواف کرے اور اس طواف کرنے کی حالت میں کلام کرے تو وہ اپنے دونون پاؤں کے ساتھ دریائے رحمت میں اسی طرح داخل ہوتا ہے جس طرح کوئی اپنے پاؤں کے ساتھ پانی میں داخل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح حدیث کے پہلے جزو کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص طواف کی حالت میں تسبیح و تکبیر اور تہلیل وغیرہ میں مشغول رہتا ہے اس کے گناہ دور ہوتے رہتے ہیں اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے درجات میں بلندی عطا فرمائی جاتی ہے۔ دوسرا جزو اور جو شخص طواف کرے اور اسی حالت میں کلام کرے درحقیقت پہلے ہی جزو کی تکرار ہے اور اس حالت میں کلام کرے میں کلام سے مراد تسبیح و تکبیر وغیرہ کے مذکورہ بالا کلمات پڑھنا ہیں، دوبارہ اس بات کو اس لئے ذکر کیا گیا ہے، تاکہ طواف کی حالت میں ان کلمات کا مزید ثواب بیان کیا جائے کہ ایک ثواب تو وہ ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ایک ثواب یہ ہے لیکن علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ حدیث کے اس دوسرے جز میں کلام سے مراد تسبیح و تکبیر وغیرہ کے مذکورہ بالا کلمات کے علاوہ دوسرے قسم کے اذکار اور اولیاء کرام و مشائخ عظام کے منقولات و ارشادات وغیرہ ہیں۔