64. وقوف عرفات کا بیان

【1】

وقوف عرفات کا بیان

عرفہ ایک مخصوص جگہ کا نام ہے اور یہ زمان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بایں طور کہ نویں ذی الحجہ کو عرفہ کا دن کہتے ہیں۔ لیکن عرفات جمع کے لفظ کے ساتھ صرف اس مخصوص جگہ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جمع اطراف و جوانب کے اعتبار سے ہے۔ عرفات مکہ مکرمہ سے تقریبا ساڑھے پندرہ میل (پچیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ ایک وسیع وادی یا میدان ہے جو اپنے تین طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے، درمیان میں اس کے شمالی جانب جبل الرحمۃ ہے۔ عرفات کی وجہ تسمیہ کے متعلق بہت اقوال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا جب جنت سے اتر کر اس دنیا میں آئے تو وہ دونوں سب سے پہلے اسی جگہ ملے۔ اس تعارف کی مناسبت سے اس کا نام عرفہ پڑگیا ہے اور یہ جگہ عرفات کہلائی۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب اس جگہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو افعال حج کی تعلیم دے رہے تھے تو وہ اس دوران ان سے پوچھتے کہ عرفت (یعنی جو تعلیم میں نے دی ہے) تم نے اسے جان لیا ؟ حضرت ابراہیم جواب میں کہتے عرفت (ہاں میں جان لیا) اور آخرکار دونوں کے سوال و جواب میں اس کلمہ کا استعمال اس جگہ کی وجہ تسمیہ بن گیا۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔ وقوف عرفات یعنی نویں ذی الحجہ کو ہر حاجی کا میدان عرفات میں پہنچنا اس کی ادائیگی حج کے سلسلہ میں ایک سب سے بڑا رکن ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا، چناچہ حج کے دو رکنوں یعنی طواف الافاضہ اور وقوف عرفات میں وقوف عرفات چونکہ حج کا سب سے بڑا رکن ہے اس لئے اگر یہ ترک ہوگیا تو حج ہی نہیں ہوگا۔

【2】

عرفہ کے دن تکبیر وتلبیہ کا مسئلہ

حضرت محمد بن ابوبکر ثقفی (تابعی) کے بارے میں منقول ہے انہوں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا جب کہ وہ دونوں صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے، کہ آپ لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ اس عرفہ کے دن کیا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم میں سے لبیک کہنے والا لبیک کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہا کرتا تھا اور اس کو اس سے منع نہیں کیا جاتا تھا۔ (بخاری و مسلم) تشریح علامہ طیبی کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن حاجیوں کو تکبیر کہنی جائز تو ہے جیسا کہ اور اذکار جائز ہیں لیکن سنت نہیں ہے بلکہ اس دن ان کے لئے سنت تلبیہ میں مصروف رہنا ہے جب تک کہ وہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ نہ ہوجائیں۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز پڑھنے والے کے لئے خواہ حج میں ہو یا حج کے علاوہ ہو، تکبیر کہنی واجب ہے۔

【3】

منیٰ میں قربانی اور عرفات ومزدلفہ میں وقوف کی جگہ

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے تو اس جگہ قربانی کی ہے ویسے منیٰ میں ہر جگہ قربان گاہ ہے لہٰذا تم اپنے ڈیروں میں قربانی کرو اور میں نے تو اس جگہ وقوف کیا ہے ویسے عرفات میں ہر جگہ موقف ہے اور میں نے تو اس جگہ وقوف کیا ہے ویسے مزدلفہ کی ہر جگہ موقف ہے۔ (مسلم) تشریح اس جگہ سے آنحضرت ﷺ نے منیٰ کی اس خاص جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں آپ ﷺ نے قربانی کی، چناچہ یہ جگہ منحر النبی (نبی کریم ﷺ کے قربانی کرنے کی جگہ) کہی جاتی ہے چناچہ آپ ﷺ نے اس جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے تو یہاں قربانی کی ہے ویسے منیٰ میں کسی بھی جگہ قربانی کی جاسکتی ہے کیونکہ وہاں ہر جگہ قربانی کرنا سنت ہے، اسی طرح آپ ﷺ نے عرفات میں اپنے وقوف کی جگہ اشارہ کر کے فرمایا کہ میں تو عرفات میں اس جگہ سوائے وادی عرفہ کے وقوف کیا جاسکتا ہے۔ مزدلفہ کو جمع بھی کہتے ہیں چناچہ آپ ﷺ نے یہاں کے بارے میں اپنے وقوف کے جگہ کی طرف کہ جو مشعر حرام کے قریب ہے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے تو یہاں وقوف کیا ہے ویسے مزدلفہ میں کسی بھی جگہ علاوہ وادی محسر کے وقوف کیا جاسکتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ منیٰ میں کسی بھی جگہ قربانی کی جاسکتی ہے، عرفات اور مزدلفہ میں کسی بھی جگہ علاوہ وادی عرفہ اور وادی محسر کے وقوف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس جگہ قربانی کی ہے، جس جگہ وقوف کیا ہے، اسی جگہ قربانی کرنا یا وقوف کرنا بہرحال افضل ہے۔

【4】

عرفہ کے دن کی فضیلت

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندہ کو عرفہ کے دن سے زیادہ آگ سے آزاد کرتا ہو (یعنی اس عرفہ کے دن عرفات میں اللہ تعالیٰ سب دنوں سے زیادہ بندوں کو آگ سے نجات اور رستگاری کا پروانہ عطا فرماتا ہے) اور بلاشبہ (اس دن) اللہ تعالیٰ (اپنی رحمت و مغفرت کے ساتھ) بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے حج کرنے والوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ (یہ جو کچھ بھی چاہتے ہیں) میں انہیں وہ دوں گا۔ (مسلم)

【5】

امام کے موقف سے بعد میں کوئی مضائقہ نہیں

حضرت عمرو بن عبداللہ بن صفوان (تابعی) اپنے ماموں سے کہ جن کا نام یزید بن شیبان تھا، نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا۔ ہم میدان عرفات میں اس جگہ پر ٹھہرے ہوئے تھے جو ہمارے لئے متعین تھی۔ اور عمرو اس جگہ کو امام کے موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے بہت دور بیان کرتے تھے، چناچہ ابن مربع الانصاری ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں رسول کریم ﷺ کا ایلچی بن کر تمہارے پاس آیا ہوں اور آنحضرت ﷺ کا تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ تم لوگ اپنے مشار (یعنی اپنی عبادت کی جگہ) ٹھہرے رہو کیونکہ تم اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث (کی پیروی) پر قائم ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) تشریح عرب میں زمانہ اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ میدان عرفات میں ہر قبیلہ اور ہر قوم کے لئے الگ الگ ایک جگہ موقف کے لئے متعین ہوتی تھی، ہر شخص اسی جگہ وقوف کرتا جو اس کی قوم کے لئے متعین ہوتی، چناچہ حضرت یزید بن شیبان کے قبیلہ کا موقف جس جگہ تھا وہ جگہ اس مقام سے بہت دور تھی جہاں آنحضرت ﷺ نے وقوف فرمایا تھا، لہٰذا حدیث امام کے موقف سے مراد آنحضرت ﷺ کا موقف ہے۔ بہرکیف میدان عرفات میں آنحضرت ﷺ سے اس دوری اور بعد کی بنا پر یزید بن شیبان نے چاہا کہ آنحضرت ﷺ سے یہ عرض کریں کہ آپ ﷺ ہمیں بھی اپنے قریب ہی وقوف کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ اس بات کی درخواست کرنے والے ہیں تو آپ ﷺ نے ایک صحابی کے ذریعے کہ جن کا نام ابن مربع تھا یہ پیغام بھیجا کہ تم لوگ اپنے قدیمی موقف پر ہی وقوف کرو چناچہ حدیث مشاعر سے مراد ان کا قدیمی موقف ہے اور تم لوگ اپنے اس موقف سے جو تمہارے دادا سے تمہارے لئے متعین چلا آ رہا ہے منتقل ہونے کی خواہش نہ کرو، کیونکہ اول تو پورا میدان عرفات موقف ہے۔ دوسرے یہ کہ میدان عرفات میں امام کے موقف کی دوری یا نزدیکی سے کوئی فرق نہیں پڑتا پھر یہ کہ اگر ہر شخص یہی خواہش کرنے لگے کہ میں اپنے امام اور اپنے امیر کے قریب ہی وقوف کروں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے چناچہ آپ ﷺ نے یہ بات ان کی تسلی کے لئے کہلائی تاکہ آپس میں نزاع و اختلاف کی صورت پیدا نہ ہوجائے۔

【6】

حدود حرم میں ہر جگہ قربانی کی جاسکتی ہے

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا پورا میدان عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے، سارا منیٰ قربان گاہ ہے، سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے اور مکہ کا ہر راستہ (اور اس کی ہر گلی) راستہ اور قربانی کی جگہ ہے۔ (ابوداؤد، دارمی) تشریح حدیث کے آخری کلمات کا مطلب یہ ہے کہ جس راستہ سے بھی مکہ میں جائیں درست ہے اور مکہ میں جس جگہ چاہیں قربانی کا جانور ذبح کریں جائز ہے کیونکہ قربانی کا جانور حرم میں ذبح کرنا چاہئے اور مکہ حرم میں واقع ہے، یہ اور بات ہے کہ قربانی کا جانور منیٰ ہی میں ذبح کرنے کا دستور بن گیا ہے کیونکہ قربانی کے دن کہ وہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے حاجی منیٰ میں ہوتے ہیں اس لئے اپنی قربانی بھی وہیں کرتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بات بیان جواز کی خاطر ارشاد فرمائی ورنہ تو وہی جگہ افضل ہے جہاں آپ ﷺ نے وقوف فرمایا جہاں آپ ﷺ نے قربانی کا جانور ذبح کیا اور وہی راستہ افضل ہے جس سے آپ ﷺ مکہ آئے۔

【7】

آپ ﷺ نے خطبہ کس طرح ارشاد فرمایا

حضرت خالد بن ہوذہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ عرفہ کے دن (میدان عرفات میں) اونٹ کے اوپر دونوں رکابوں پر کھڑے ہوئے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ (ابوداؤد) تشریح بلندی پر ہونے کے لئے آپ ﷺ رکابوں پر کھڑے ہوئے اور پھر آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ دور و نزدیک کے سبھی لوگ آپ ﷺ کا خطبہ سن سکیں۔

【8】

یوم عرفہ کی دعا

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی ہے (خواہ وہ میدان عرفات میں مانگی جائے یا کسی بھی جگہ) اور ان کلمات میں کہ جو میں نے یا مجھ سے پہلے کے نبیوں نے بطور دعا پڑھے ہیں سب سے بہتر یہ کلمات ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل چیز قدیر۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے، نیز مالک نے اس روایت کو طلحہ بن عبیداللہ سے الفاظ لا شریک لہ تک نقل کیا ہے۔

【9】

یوم عرفہ شیطان کی سب سے زیادہ ذلت وخواری کا دن ہے

حضرت طلحہ بن عبیداللہ بن کریز کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں شیطان کو اتنا زیادہ ذلیل و راندہ اور اتنا زیادہ حقیر پر غیظ دیکھا گیا ہو جتنا کہ وہ عرفہ کے دن ہوتا ہے (یعنی یوں تو شیطان ہمیشہ ہی آدمیوں کو نیکیاں کرتا ہوا دیکھ کر پر غیظ و حقیر ہوتا ہے مگر عرفہ کے دن سب دنوں سے زیادہ پر غیظ ہوتا ہے اور ذلیل و خوار بھی) اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ (اس دن ہر خاص و عام پر) اللہ کی نازل ہوتی ہوئی رحمت اور اس کی طرف سے بڑے بڑے گناہوں کی معافی دیکھتا ہے۔ ہاں بدر کے دن بھی شیطان کو ایسا ہی دیکھا گیا تھا (یعنی غزوہ بدر کے دن جب مسلمانوں کو عزت اور اسلام کو شوکت حاصل ہوئی تو اس دن بھی شیطان عرفہ ہی کے دن کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ذلیل و خوار اور پر غیظ تھا) چناچہ (بدر کے دن) شیطان نے دیکھا تھا کہ حضرت جبرائیل (مشرکین سے لڑنے کے لئے) فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دے رہے تھے۔ اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے، نیز ششرح السنہ میں یہ روایت مصابیح کے الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔

【10】

یوم عرفہ کی فضیلت

حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی رحمت اور احسان و کریم کے ساتھ قریب ہوتا ہے) اور پھر فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ذرا میرے بندوں کی طرف تو دیکھو، یہ میرے پاس پراگندہ بال، گرد آلود اور لبیک و ذکر کے ساتھ آوزایں بلند کرتے ہوئے دور، دور سے آئے ہیں، میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا، (یہ سن کر) فرشتے کہتے ہیں کہ پروردگار ان میں فلاں شخص وہ بھی ہے جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی ہے اور فلاں شخص اور فلاں عورت بھی ہے جو گنہ گار ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انہیں بھی بخش دیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں یوم عرفہ کی برابر لوگوں کو آگ سے نجات و رستگاری کا پروانہ عطا کیا جاتا ہو۔ (شرح السنہ)

【11】

عرفات میں وقوف کا حکم

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے طریقہ کے پابند تھے مزدلفہ میں قیام کرتے تھے اور قریش کو حمس یعنی بہادر و شجاع کہا جاتا تھا۔ (قریش کے علاوہ) اور تمام اہل عرب میدان عرفات میں وقوف کرتے تھے، لیکن جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ میدان عرفات میں آئیں وہاں وقوف کریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں، چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد۔ آیت (ثم افیضوا من حیث افاض الناس) ۔ پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوتے ہیں وہیں سے تم بھی واپس ہو۔ کے یہی معنیٰ ہیں۔ (بخاری و مسلم) تشریح مزدلفہ حدود حرم میں واقع ہے، جب کہ عرفات حرم سے باہر ہے۔ چناچہ قریش اور ان کے حواری دوسرے لوگوں پر اپنی برتری اور فوقیت جتانے کے لئے مزدلفہ میں وقوف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اہل اللہ ہیں اور اللہ کے حرم کے باشندہ ہیں اس لئے ہم حرم سے باہر وقوف نہیں کرسکتے، قریش کے علاوہ اور تمام اہل عرب قاعدہ کے مطابق میدان عرفات ہی میں قیام کرتے تھے چناچہ جب اسلام کی روشنی نے طبقاتی اور اونچ نیچ کی تاریکیوں کو ختم کردیا اور قبیلہ و ذات کے دنیاوی فرق و امتیاز کو مٹا ڈالا تو یہ حکم دیا گیا کہ جس طرح تمام لوگ میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں اسی طرح قریش بھی میدان عرفات ہی میں وقوف کریں اور اس طرح اپنے درمیان امتیاز و فوقیت کی کوئی دیوار کھڑی نہ کریں۔

【12】

مزدلفہ میں آنحضرت ﷺ کی دعا کی قبولیت اور ابلیس کا واویلا

حضرت عباس بن مرد اس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی، جو قبول کی گئی اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے آپ ﷺ کی امت کو بخش دیا۔ علاوہ بندوں کے حقوق کے کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق لوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے عرض کیا کہ میرے پروردگار ! اگر تو چاہے تو مظلوم کو اس حق کے بدلہ میں کہ جو ظالم نے کیا ہے جنت کی نعمتیں عطا فرما دے اور ظالم کو بھی بخش دے۔ مگر عرفہ کی شام کو یہ دعا قبول نہیں کی گئی، جب مزدلفہ میں صبح ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے پھر وہی دعا کی اور آپ ﷺ نے جو چیز مانگی وہ عطا فرما دی گئی راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہنسے یا راوی نے یہ کہا کہ آپ ﷺ مسکرائے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے کہا کہ میرا باپ اور میری ماں آپ پر قربان ! یہ ایسا وقت ہے جس میں آپ ﷺ ہنستے نہیں تھے۔ (یعنی یہ وقت ہنسنے کا تو نہیں ہے) پھر کس چیز نے آپ ﷺ کو ہنسایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ ﷺ کے دانتوں کو ہنستا رکھے (یعنی اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا دشمن اللہ ابلیس کو جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ بزرگ و برتر نے میری دعا قبول کرلی ہے اور میری امت کو بخش دیا تو اس نے مٹی لی اور اسے اپنے سر پر ڈالنے لگا اور واویلا کرنے اور چیخنے چلانے لگا چناچہ اس کی بدحواسی اور اضطراب نے مجھے ہنسنے پر مجبور کردیا۔ (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح چونکہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امت کو مغفرت عام سے نواز اس گیا ہے کہ حقوق اللہ بھی بخش دئیے ہیں اور حقوق العباد بھی اس لئے بہتر یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم میں یہ قید لگا دی جائے کہ اس مغفرت عام کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ جو اس سال حج کے موقع پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے، یا یہ بات اس شخص کے حق میں ہے جس کا حج مقبول ہو بایں طور کہ اس کے حج میں فسق و فجور کی کوئی بات نہ ہو۔ یا پھر یہ کہ مفہوم اس ظالم پر محمول ہے جس کو توبہ کی توفیق ہوئی اور اس نے صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی مگر حق کی واپسی سے عاجز و معذور رہا۔ پھر یہ کہ رحمت الٰہی جسے چاہے اپنے دامن میں چھپا سکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ آیت (ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء) ۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے ہاں مشرک کے علاوہ جس کو چاہے گا بخش دے گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) آنحضرت ﷺ کی شفاعت اور مغفرت عام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت ہر مسلمان کو حاصل ہوگی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جنت میں صالح اور نیکو کار لوگوں کے تو درجات بلند کرے گا اور اکثر گنہگاروں کو بخش کر جنت میں داخل کرے گا۔ اب رہ گئے وہ لوگ جو دوزخ میں ہوں گے تو ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کی شفاعت کا اثر یہ ہوگا کہ ان کے عذاب میں تخفیف اور مدت عذاب میں کمی کردی جائے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش بھی انشاء اللہ ہر مسلمان کو حاصل ہوگی خواہ وہ صالح ہو یا گنہگار۔ بایں طور کہ جنت میں صالح و نیکوکاروں کے درجات اس جزاء و انعام سے زیادہ بلند ہوں گے جس کا وہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے مستحق ہوگا۔ اور فاجر و گنہگار کے حق میں اس کی مغفرت یہ ہوگی کہ یا تو انہیں اپنے فضل و کرم سے بغیر عذاب ہی کے جنت میں داخل کر دے گا یا پھر ان کے عذاب کی شدت میں کمی کر دے گا جو مغفرت ہی کی ایک نوع ہے۔