65. عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان

【1】

عرفات سے آنحضرت ﷺ کی واپسی

حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا حضرت اسامہ بن زید (رض) سے پوچھا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی میں آنحضرت ﷺ کی رفتار کیا تھی ؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی رفتار تیز تھی اور جہاں کہیں کشادہ راستہ ملتا (اپنی سواری) دوڑاتے۔ (بخاری ومسلم)

【2】

عرفات سے آنحضرت ﷺ کی واپسی

حضرت ابن عباس (رض) کے بارے میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منیٰ کی طرف) واپسی میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے چناچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت ﷺ نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا) شور و شغب سنا تو آپ ﷺ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہوجائیں اور آپ ﷺ کی بات سنیں) اور فرمایا لوگوں ! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری) تشریح دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہوگا۔

【3】

رمی جمرہ عقبہ تک برابر تلبیہ میں مصروف رہنا سنت ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ عرفات سے مزدلفہ تک تو اسامہ ابن زید (رض) نبی کریم ﷺ کے پیچھے بیٹھے رہے پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا اور ان دونوں کا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرہ عقبہ پر کنکری ماری (یعنی قربانی کے دن جب جمرہ عقبہ پر پہلی ہی کنکری ماری تو تلبیہ موقوف کردیا) (بخاری و مسلم)

【4】

مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا (یعنی عشاء کے وقت دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا) اور ان میں سے ہر ایک کے لئے تکبیر کہی گئی (یعنی مغرب کے لئے علیحدہ تکبیر ہوئی اور عشاء کے لئے علیحدہ) اور آپ ﷺ نے نہ تو ان دونوں کے درمیان نفل نماز پڑھی اور نہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعد۔ (بخاری) تشریح ان نمازوں کے بعد نفل پڑھنے کی جو نفی کی گئی ہے تو اس سے ان دونوں کے بعد سنتیں اور وتر پڑھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔ باب قصۃ حجۃ الوداع میں حضرت جابر (رض) کی جو طویل حدیث گزری ہے اس کے ان الفاظ لم یسبح بینہما شیأ کی وضاحت میں ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ جب مزدلفہ میں آپ ﷺ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ چکے تو مغرب و عشاء کی سنتیں اور نماز وتر بھی پڑھی۔ چناچہ ایک روایت میں بھی یہ منقول ہے کہ نیز شیخ عابد سندھی نے در مختار کے حاشیہ میں اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال نقل کرنے کے بعد یہی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز کے بعد سنتیں اور وتر پڑھی۔

【5】

مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ نے کوئی نماز اپنے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں پڑھی ہو سوائے دو نمازوں کے کہ وہ مغرب و عشاء کی ہیں جو مزدلفہ میں پڑھی گئی تھیں (یعنی مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی) اور اس دن (یعنی مزدلفہ میں م قربانی کے دن) فجر کی نماز آپ ﷺ نے وقت سے پہلے پڑھی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہاں صرف مغرب و عشاء کی نمازوں کو ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت پڑھی، حالانکہ آپ ﷺ نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز بھی ایک ساتھ اسی طرح پڑھی تھی کہ عصر کی نماز مقدم کر کے ظہر کے وقت ہی پڑھ لی گئی تھی، لہٰذا یہاں ان دونوں نمازوں کو اس سبب سے ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دن کا وقت تھا، سب ہی جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے عصر کی نماز کو مقدم کر کے ظہر کے وقت پڑھا ہے اس لئے اس کو بطور خاص ذکر کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ فجر کی نماز وقت سے پہلے پڑھی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن فجر کی نماز وقت معمول یعنی اجالا پھیلنے سے پہلے تاریکی ہی میں پڑھ لی تھی، یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے فجر کے وقت سے پہلے پڑھی تھی کیونکہ تمام ہی علماء کے نزدیک فجر کی نماز، فجر سے پہلے پڑھنی جائز نہیں ہے۔

【6】

مزدلفہ سے عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی منیٰ روانہ کردینا جائز ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اہل و عیال کے کمزور ضعیف لوگوں کے جس زمرے کو مزدلفہ کی رات میں پہلے ہی بھیج دیا تھا اسی میں میں بھی شامل تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح کمزور و ضعیف لوگوں سے مراد عورتیں اور بچے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو پہلے ہی سے منیٰ روانہ کردیا تھا ان میں حضرت ابن عباس (رض) بھی شامل تھے اور خود آنحضرت ﷺ آفتاب طلوع ہونے سے پہلے اور صبح روشن ہو جاتنے کے بعد منیٰ کے لئے سوار ہوئے جیسا کہ سنت ہے، آپ ﷺ نے اپنے ہی عیال کو پہلے اس لئے بھیج دیا تھا تاکہ ہجوم کی وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو اور ایسا کرنا جائز ہے۔

【7】

رمی جمار کا وقت

ایک اور روایت میں جو آگے آرہی ہے یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو پہلے سے روانہ کردیا اور ان سے فرمایا کہ رمی جمرہ عقبہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد ہی کرنا، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ رمی جمرہ عقبہ کا وقت دسویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن بعض روایت میں یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں سے بس اتنا ہی فرمایا تھا کہ جاؤ اور رمی جمرہ عقبہ کرو، اس روایت میں طلوع آفتاب کی قید نہیں ہے، چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے اسی روایت پر عمل کیا کہ ان کے ہاں رمی جمرہ عقبہ کا وقت نصف شب کے بعد ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔

【8】

رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ یا راستہ سے لے لی جائیں

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) راوی ہیں کہ حضرت فضل بن عباس (رض) نے جو (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے) نبی کریم ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، بیان کیا کہ جب عرفہ کی شام کو (عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے) اور مزدلفہ کی صبح کو (مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے) لوگوں نے سواریوں کو تیزی سے ہانکنا اور مارنا شروع کیا تو آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اطمینان وآہستگی کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے اور اس وقت خود آنحضرت ﷺ اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے بڑھا رہے تھے، یہاں تک کہ جب آپ ﷺ وادی محسر میں جو منیٰ (کے قریب مزدلفہ کے آخری حصہ) میں ہے پہنچے تو فرمایا کہ تمہیں (اس میدان سے) خذف کی کنکریاں اٹھا لینی چاہئیں جو جمرہ (یعنی مناروں) پر ماری جائیں گی۔ اور فضل بن عباس (رض) کہتے تھے کہ آنحضرت ﷺ رمی جمرہ تک برابر لبیک کہتے رہے تھے (یعنی جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری ماری تو لبیک کہنا موقوف کردیا) ۔ (مسلم) تشریح عرفہ کے دن شام کو آنحضرت ﷺ جب میدان عرفات سے مزدلفہ کو چلے تو اس وقت حضرت فضل بن عباس (رض) آپ ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ خذف اصل میں تو چھوٹی کنکری یا کھجور کی گٹھلی دونوں شہادت کی انگلیوں میں رکھ کر پھینکنے کو کہتے ہیں۔ اور یہاں خذف کی مانند کنکریوں سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جو چنے کے برابر ہوتی ہیں یہاں سے اٹھا لو جو رمی جمار کے کام آئیں گی۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ سے روانگی کے وقت وہیں سے یا راستہ میں سے اور یا جہاں سے جی چاہے لے لی جائیں ہاں جمرہ کے پاس سے وہ کنکریاں نہ لی جائیں جو جمرہ پر ماری جا چکی ہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے ویسے اگر کوئی شخص جمرہ کے پاس ہی سے پہلے پھینکی گئی کنکریاں اٹھا کر مارے تو یہ جائز تو ہوجائے گا مگر خلاف اولیٰ ہوگا۔ چناچہ شمنی نے شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ ان کنکریوں سے رمی کافی ہوجائے گی مگر ایسا کرنا برا ہے۔ اس بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ کنکریاں کتنی اٹھائی جائیں ؟ آیا صرف اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے لئے سات کنکریاں اٹھائی جائیں یا ستر کنکریاں اٹھائی جائیں جن میں سات تو اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے کام آئیں اور تریسٹھ بعد کے تینوں دنوں میں تینوں جمرات پر پھینکی جائیں گی۔

【9】

آپ ﷺ کی طرف سے اپنے وصال کی اطلاع

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ (منیٰ کے لئے) مزدلفہ سے چلے تو آپ ﷺ کی رفتار میں سکون و وقار تھا اور آپ ﷺ نے دوسرے لوگوں کو بھی سکون و اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ہاں میدان محسر میں آپ ﷺ نے اونٹنی کو تیز رفتاری کے ساتھ گزارا اور آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ خذف کی کنکریوں جیسی (یعنی چنے کی برابر) سات کنکریوں سے رمی کریں، نیز آپ ﷺ نے (صحابہ (رض) سے) یہ بھی فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہیں دیکھوں گا۔ (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے یہ حدیث بخاری و مسلم میں تو پائی نہیں۔ ہاں ترمذی میں یہ حدیث کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ مذکور ہے۔ تشریح حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال میری دنیاوی زندگی کا آخری سال ہے، آئندہ سال میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا، اس لئے تم لوگ مجھ سے دین کے احکام اور حج کے مسائل سیکھ لو۔ چناچہ اسی وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کہ اسی حج کے موقعہ پر آپ ﷺ نے دین کے احکام پورے طور پر لوگوں تک پہنچا دئیے اور اپنے صحابہ کو رخصت و وداع کیا، پھر اگلے سال یعنی بارہ ہجری کے ماہ ربیع الاول میں آپ ﷺ کا وصال ہوا۔ صاحب مشکوۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو پہلی فصل میں نقل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اس لئے صاحب مصابیح کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس روایت کو پہلی فصل کی بجائے دوسری فصل میں نقل کرتے۔ اگرچہ اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا اعتراض پھر بھی باقی رہتا۔

【10】

عرفات سے واپسی اور مزدلفہ سے روانگی کا وقت

حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایام جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) لوگ عرفات سے اس وقت واپس ہوتے جب آفتاب غروب ہونے سے پہلے مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا (یعنی عرفات سے غروب آفتاب سے پہلے چلتے) اور مزدلفہ سے طلوع آفتاب کے بعد اس وقت روانہ ہوتے جب آفتاب مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا، مگر ہم عرفات سے اس وقت تک نہیں چلیں گے جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہوجائے اور مزدلفہ سے ہم سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہوں گے کیونکہ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور مشرکین سے مختلف ہے۔۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگ عرفات سے ایسے وقت چلتے تھے جب آفتاب آدھا تو غروب ہوچکا ہوتا اور اس کا آدھا حصہ باہر ہوتا آفتاب کی اسی صورت کو پگڑی سے مشابہت دی گئی ہے کہ آفتاب کا آدھا گروہ پگڑی کی شکل کا ہوتا ہے، اسی طرح مزدلفہ سے ایسے وقت روانہ ہوتے جب آفتاب کا آدھا حصہ طلوع ہوچکا ہوتا اور آدھا حصہ اندر رہتا۔ صاحب مشکوۃ کو اس کی تحقیق نہیں ہوسکی تھی کہ یہ روایت کس نے نقل کی ہے، چناچہ مشکوۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ چھوٹی ہوئی ہے البتہ ایک دوسرے صحیح نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ رواہ البیہقی فی شعب الایمان وقال خطبنا وساقہ نحوہ۔

【11】

رات میں رمی جائز نہیں ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں مزدلفہ کی رات (یعنی شب عیدالاضحی) میں (منیٰ کے لئے) روانہ کیا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ہم کئی بچے تھے (جنہیں آپ ﷺ نے رات میں روانہ کیا تھا اور گدھے ہماری سواری تھے۔ رسول کریم ﷺ (ہماری روانگی کے وقت از راہ محبت والفت) ہماری رانوں پر ہاتھ مارتے اور فرماتے تھے۔ میرے چھوٹے بچو ! جب تک سورج نہ نکلے تم منارے (یعنی جمرہ عقبہ) پر کنکریاں نہ پھینکنا۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رات میں رمی جائز نہیں ہے چناچہ حضرت امام ابوحنیفہ اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں آدھی رات کے بعد سے رمی جائز ہے، نیز طلوع فجر کے بعد اور آفتاب نکلنے سے پہلے رمی اگرچہ تمام علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کراہت کے ساتھ جواز کے قائل ہیں، حنفی مسلک کے مطابق طلوع آفتاب کے بعد رمی مستحب ہے۔

【12】

امام شافعی کی مستدل حدیث اور اس کی تاویل

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ام سلمہ (رض) کو بقر عید کی رات میں (مزدلفہ سے منیٰ ) بھیج دیا تھا۔ چناچہ انہوں نے (وہاں پہنچ کر) فجر سے پہلے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور پھر وہاں سے (مکہ) آئیں اور طواف افاضہ ( جو فرض ہے) کیا اور یہ وہ دن تھا جس میں آنحضرت ﷺ ان کے پاس تھے یعنی یہ ام سلمہ (رض) کی باری کا دن تھا۔ (ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری الفاظ میں دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ام سلمہ (رض) کو اس رات میں منیٰ کیوں بھیجا، انہوں نے رات میں رمی کیوں کی اور دن ہی میں طواف افاضہ سے فارغ کیوں ہوگئیں جب کہ دیگر ازواج مطہرات نے اگلی رات میں طواف افاضہ کیا ؟ حضرت امام شافعی فجر سے پہلے رمی جمرہ کے جواز کے لئے اس حدیث کو دلیل قرار دیتے ہیں اگرچہ افضل فجر کے بعد ہے حضرت امام شافعی کے علاوہ دیگر علماء اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سہولت و رعایت ہے جو صرف حضرت ام سلمہ (رض) کو دی گئی تھی دوسروں کے لئے حضرت ابن عباس (رض) کی مذکورہ بالا روایت کے پیش نظر فجر سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں فجر سے مراد نماز فجر ہو کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے نماز فجر سے پہلے اور طلوع فجر کے بعد رمی کی۔

【13】

عمرہ میں تلبیہ کب موقوف کیا جائے

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مقیم اور عمرہ کرنے والا حجر اسود کو بوسہ دینے تک لبیک کہتا رہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو (بطریق مرفوع) نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے۔ تشریح مقیم سے مراد مکہ کا رہنے والا ہے جو عمرہ کرے اور عمرہ کرنے والا سے غیر مکی مراد ہے جو عمرہ کے لئے مکہ آیا ہو، لہٰذا جملہ۔ یلبی المقیم اوالمعتمر۔ میں حرف، او، تنویع کے لئے ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح حج میں رمی جمرہ عقبہ پر تلبیہ کو موقوف کرتے ہیں اسی طرح عمرہ میں حجر اسود کو چومتے ہی تلبیہ موقوف کردیا جائے۔

【14】

آنحضرت ﷺ نے عرفات ومزدلفہ کا پورا درمیانی راستہ سواری پر طے کیا

حضرت یعقوب بن عاصم بن عروہ (تابعی) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت شرید (رض) (صحابی) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں (عرفات) واپسی میں رسول کریم ﷺ کے ہمراہ تھا چناچہ رسول کریم ﷺ کے قدم مبارک زمین پر نہیں گئے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے۔ (ابوداؤد) تشریح اس روایت کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عرفات سے مزدلفہ تک کا پورا راستہ سواری پر طے کیا پیدل نہیں چلے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے پورے راستہ میں زمین پر قدم ہی نہیں رکھے کیونکہ صحیح بخاری میں منقول ہے کہ عرفات سے واپسی کے موقع پر راستہ میں آپ ﷺ (سواری سے اتر کر) پہاڑ کے ایک درہ کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں پیشاب کیا اور پھر وضو کیا یہ دیکھ کر حضرت اسامہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا نماز کا وقت آگیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز تو آگے آرہی ہے (یعنی مزدلفہ پہنچ کر پڑھیں گے) ۔

【15】

عرفات میں جمع بین الصلوٰتین

حضرت ابن شہاب (رح) کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے صاحبزادے حضرت سالم (رح) نے مجھے بتایا کہ حجاج ابن یوسف نے جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کو قتل کیا اسی سال اس نے (مکہ آنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے پوچھا کہ ہم عرفہ کے دن وقوف کے دوران کیا کریں۔ (یعنی عرفات میں اس دن ظہر، عصر کی نماز وقوف سے پہلے پڑھ لیں یا وقوف کے دوران اور یا وقوف کے بعد ؟ ) اس کا جواب سالم نے دیا کہ اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن (ظہر و عصر کی نماز) سویرے پڑھ (یہ جواب سن کر) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ سالم ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ صحابہ طریقہ سنت کو اختیار کرنے کے لئے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے پوچھا کیا آنحضرت ﷺ نے اسی طرح کیا تھا ؟ حضرت سالم نے فرمایا۔ ہم اس معاملہ میں (یعنی اس طرح نماز پڑھنے میں) صرف آنحضرت ﷺ ہی کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ (بخاری) تشریح جو شخص اسلامی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ حجاج بن یوسف کے نام سے بخوبی واقف ہوگا۔ یہ نام ظلم و بربریت کی داستانوں میں اپنی ایک بڑی ہی وحشت ناک داشتان کا حامل ہے۔ حجاج بن یوسف جس کے نام کا جز ہی ظالم بن چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں کو باندھ کر قتل کرایا تھا۔ عبدالملک بن مروان کی طرف سے اسی ظالم نے مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) پر چڑھائی کی تھی اور ان جلیل القدر صحابی کو اس نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اسی سال عبدالملک بن مروان نے اس کو حاجیوں کا امیر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ تمام افعال حج میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے افعال و اقوال کی پیروی کرنا، ان سے حج کے مسائل پوچھتے رہنا اور کسی معاملہ میں ان کی مخالفت نہ کرنا، چناچہ حجاج نے اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے مذکورہ بالا مسئلہ بھی پوچھا۔