68. سر منڈانے کا بیان

【1】

سرمنڈانے کا بیان

دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے کے بعد منیٰ ہی میں ہدی ذبح کی جاتی ہے اس کے بعد سر منڈا کر یا بال کتروا کر احرام کھول دیا جاتا ہے اس طرح رفث (عورت سے جماع وغیرہ) کے علاوہ ہر وہ چیز جو احرام کی حالت میں ممنوع تھی، جائز ہوجاتی ہے، چناچہ اس باب میں سر منڈوانے اور بال کتروانے دونوں چیزوں کا ذکر ہے، اگرچہ مؤلف مشکوۃ نے عنوان میں صرف سر منڈوانے کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے کیونکہ احرام سے نکلنے کے لئے بال کتروانے کی بہ نسبت سر منڈانا افضل ہے، اس بارے میں تفصیل انشاء اللہ حسب موقع بیان ہوگی۔ یہ بات جان لیجئے کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ کہیں ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے حج وعمرہ کے علاوہ اور کبھی سر منڈایا ہو۔

【2】

سر منڈانا افضل ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈایا اور صحابہ میں سے کچھ نے تو اپنے سر منڈائے اور کچھ نے اپنے بال کتروائے۔ (بخاری و مسلم) تشریح جن صحابہ (رض) نے اپنے سر منڈائے انہوں نے تو آنحضرت ﷺ کی اتباع کے جذبے اور حصول فضیلت کو پیش نظر رکھا اور جن صحابہ (رض) نے بال کتروانے پر اکتفاء کیا (انہوں نے گویا جواز پر عمل کیا کہ بال کتروانا بھی جائز ہے) ۔ صحیحین وغیر ہما میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عمرۃ القضاء میں سر منڈانے کی بجائے بال کتروائے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ سے یہ دونوں چیزیں ثابت ہیں لیکن افضل سر منڈانا ہی ہے۔

【3】

آنحضرت ﷺ کا بال کتروانا

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے سر کے بال مروہ کے قریب تیر کی پیکان سے کترے۔ (بخاری و مسلم) تشریح مشقص کے معنی ہیں تیر کی پیکان لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ مشقص بڑی قینچی کو کہتے ہیں اور یہ معنی زیادہ مناسب اور زیادہ صحیح ہیں۔ احادیث سے چونکہ یہ بات ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے حج میں سر کے بال کتروائے نہیں بلکہ منڈوائے تھے اس لئے حضرت معاویہ (رض) کے اس بیان کا تعلق حج سے نہیں بلکہ عمرے سے ہے، چناچہ حضرت معاویہ (رض) کے الفاظ عند المروۃ (مروہ کے قریب) بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ حضرت معاویہ (رض) اگر آپ ﷺ کے بال حج میں کترتے تو مروہ کے قریب نہ کہتے بلکہ یہ کہتے کہ میں نے آپ ﷺ کے سر کے بال منیٰ میں کترے۔

【4】

سر منڈانے والوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء رحمت

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا۔ اے اللہ ! سر منڈانے والوں پر رحم فرما ! صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بال کتروانے والوں کے لئے دعاء رحمت کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے اللہ ! سر منڈانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ نے جب پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعاء رحمت کیجئے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا (اے اللہ) اور بال کتروانے والوں پر بھی رحم فرما۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس بات سے سر منڈانے کی فضیلت ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے سر منڈانے والوں کے لئے تو کئی بار دعاء رحمت کی اور بال کتروانے والوں کے لئے کئی بار کے بعد ایک ہی مرتبہ دعاء رحمت کی۔

【5】

سر منڈانے والوں کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء رحمت

حضرت یحییٰ بن حصین (تابعی) اپنی دادی محترمہ سے (کہ جن کی کنیت ام الحصین ہے) نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺ کو سر منڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ اور بال کتروانے والوں کے لئے آخر میں ایک مرتبہ دعا کرتے سنا۔ (مسلم) تشریح اس حدیث سے پہلے بخاری و مسلم کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے سر منڈانے والوں کے لئے تو دو مرتبہ دعا کی اور تیسری مرتبہ میں بال کتروانے والوں کو بھی شامل فرمایا نیز بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چوتھی مرتبہ میں بال کتروانے والوں کو شامل فرمایا جب کہ مسلم کی یہ روایت بتار ہی ہے کہ آپ ﷺ نے سر منڈانے والوں کے لئے تو تین مرتبہ دعا کی اور بال کتروانے والوں کے لئے ایک مرتبہ، اب چاہے تو ان کو تو تیسری ہی مرتبہ میں شامل کیا ہو، چاہے چوتھی مرتبہ ان کے لئے علیحدہ سے دعا کی۔ بہرکیف ان تمام روایتوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ دعا کئی مجلسوں میں کی ہوگی، چناچہ کسی مجلس میں آپ ﷺ نے سر منڈانے والوں کے لئے دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ میں بال کتروانے والوں کے لئے دعا کی اور کسی مجلس میں تین مرتبہ سر منڈانے والوں کے لئے اور چوتھی مرتبہ بال کتروانے والوں کے لئے دعا کی ہوگی، یا پھر یہ کہ جس راوی نے جو سنا اور اس پر جو حقیقت ظاہر ہوئی اس نے اسی کو ذکر کیا۔

【6】

سرمنڈانے میں دائیں طرف سے ابتداء کرنا سنت ہے

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ منیٰ میں آنے کے بعد جمرہ عقبہ کے پاس تشریف لائے اور وہاں کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور اپنی ہدی کے جانوروں کو ذبح کیا، اس کے بعد سر مونڈنے والے کو (جس کا نام معمر بن عبداللہ تھا) بلایا اور اپنے سر کا دایاں حصہ اس کے سامنے کیا، چناچہ اس نے آپ ﷺ نے سر (کے اس داہنے حصہ) کو مونڈا، پھر آپ ﷺ نے حضرت طلحہ انصاری (رض) کو بلایا اور ان کو اپنے وہ مونڈے ہوئے بال دئیے، اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے سر کا بایاں حصہ مونڈنے والے کی طرف کر کے فرمایا کہ اب اسے مونڈو، چناچہ اس نے مونڈ دیا، یہ بال بھی آپ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ انصاری (رض) کو دے دئیے اور فرمایا کہ یہ بال لوگوں میں تقسیم کردو۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سر منڈانے میں دائیں طرف سے ابتداء کرنا سنت ہے، نیز اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دائیں طرف میں منڈوانے والے کا اعتبار ہے کہ وہ اپنے سر کو دائیں طرف سے منڈوانا شروع کرے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مونڈنے والے کی دائیں طرف کا اعتبار ہے یعنی مونڈنے والا اپنی دائیں طرف سے سر مونڈنا شروع کرے۔

【7】

قربانی کے دن خوشبو کا استعمال

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کو احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگاتی تھی (احرام خواہ حج کا ہوتا خواہ عمرہ کا اور خواہ دونوں کا) اور میں نحر (قربانی) کے دن بھی خانہ کعبہ کے طواف سے پہلے (سر منڈانے اور کپڑے پہننے کے بعد) آپ ﷺ کے خوشبو لگاتی تھی اور خوشبو بھی وہ جس میں مشک ہوتا تھا۔ (بخاری ومسلم) تشریح علماء لکھتے ہیں کہ جن مواقع پر حضرت عائشہ (رض) نے خوشبو لگانے کا ذکر کیا ہے یعنی احرام باندھنے سے پہلے اور نحر کے دن طواف خانہ کعبہ سے قبل، اگر ان اوقات میں خوشبو لگائی جائے تو مشک اور گلاب کی خوشبو لگانا سب سے بہتر اور اولیٰ ہے کیونکہ ان دونوں میں صرف خوشبو ہوتی ہے رنگ نہیں ہوتا۔ نحر (قربانی کے دن) یعنی دسویں ذی الحجہ کو سر منڈانے کے بعد حاجی احرام سے باہر ہوجاتے ہیں یعنی وہ چیزیں جو احرام کی وجہ سے ان پر حرام تھیں اس دن سب حلال ہوجاتی ہیں علاوہ رفث کے اور جب طواف زیارت سے فراغت ہوجاتی ہے تو رفث بھی حلال ہوجاتا ہے۔

【8】

نحر کے دن آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز کہاں پڑھی۔

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے نحر کے دن (رمی اور قربانی سے فارغ ہو کر) مکہ تشریف لائے اور چاشت کے وقت طواف فرض کیا پھر (اس روز) وہاں سے واپس ہوئے اور ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھی۔ (مسلم) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھی جب کہ باب حجۃ الوداع میں حضرت جابر (رض) کی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس دن ظہر کی نماز مکہ میں ادا فرمائی ؟ چناچہ دونوں روایتوں کے اس ظاہری تضاد کو حضرت جابر (رض) کی روایت کی تشریح میں رفع کیا جا چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز تو مکہ ہی میں ادا کی تھی البتہ آپ ﷺ نے منیٰ میں نفل نماز پڑھی جس کو حضرت ابن عمر (رض) نے ظہر کی نماز گمان کیا۔

【9】

عورت کو صرف بال کتروانے چاہئیں

حضرت علی (رض) اور حضرت عائشہ (رض) دونوں راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو اپنا سر منڈاوانے سے منع فریایا ہے۔ (ترمذی) تشریح اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب احرام سے باہر آئیں تو سر منڈانا ان پر واجب نہیں ہے بلکہ ان کے لئے حرام ہے ہاں بال کتروانا ان پر واجب ہے، بخلاف مردوں کے کہ ان پر دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک واجب ہے کہ چاہے تو سر منڈائیں چاہے صرف بال کتروالیں البتہ سر منڈانا افضل ہے۔

【10】

سرمنڈانے یا بال کتروانے کی مقدار

سر منڈانے یا بال کتروانے کی مقدار حنفیہ کے ہاں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ سر منڈانے کے سلسلہ میں صرف چوتھائی سر کا منڈنا واجب ہے اور پورے سر کا منڈانا افضل ہے، ہاں بال کتروانے کے سلسلہ میں واجب صرف چوتھائی سر کے بال کو ایک انگلی پور کے برابر کتروانا ہے اور پورے سر کے بال کتروانے مستحب ہیں، لیکن علامہ ابن ہمام نے اس قول کو اختیار کیا ہے جو حضرت امام مالک کا مسلک ہے کہ پورے سر کو منڈوانا یا پورے سر کے بال کتروانا ہی واجب ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ یہی صواب ہے۔

【11】

افعال حج میں تقدیم وتاخیر

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جب منیٰ میں ٹھہرے تاکہ لوگ آپ ﷺ سے مسائل دریافت کریں تو ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ ناواقفیت کی وجہ سے میں نے ذبح کرنے سے پہلے اپنا سر منڈا لیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اب ذبح کرلو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں نے ناواقفیت کی بناء پر کنکریاں مارنے سے پہلے جانور ذبح کرلیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ سے جس فعل کی بھی تقدیم یا تاخیر کے بارے میں سوال کیا گیا آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ اب کرلو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے خانہ کعبہ کا فرض طواف کنکریاں مارنے سے پہلے کرلیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ تشریح اس روایت میں ان افعال حج کی تقدیم و تاخیر کے سلسلے میں فرمایا گیا ہے اور سائلین کے جواب دئیے گئے ہیں جو قربانی کے دن یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو کئے جاتے ہیں، چناچہ اس دن چار چیزیں ہوتی ہیں جن کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے منیٰ میں پہنچ کر جمرہ عقبہ پر جو ایک مینار ہے سات کنکریاں ماری جائیں، پھر جانور کہ جن کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے ذبح کئے جائیں اس کے بعد سر منڈایا جائے یا بال کتروائے جائیں اور پھر مکہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کیا جائے، اس ترتیب کے ساتھ ان افعال کی ادائیگی اکثر علماء کے نزدیک مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں سنت ہے چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بھی انہیں میں شامل ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک اگر ان افعال کی ادائیگی میں تقدیم و تاخیر ہوجائے تو بطور جزاء (اس کے بدلہ میں) دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب نہیں ہوتا۔ علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترتیب واجب ہے۔ حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک بھی اس جماعت کے ساتھ ہیں۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ ارشاد گرامی اس میں کوئی حرج نہیں ہے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ تقدیم و تاخیر چونکہ ناواقفیت یا نسیان کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن جزاء کے طور پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوگا۔ لہٰذا ان حضرات کے مسلک کے مطابق ان چاروں چیزوں میں سے کوئی چیز اگر مقدم یا مؤخر ہوگئی تو بطور جزاء ایک بکری یا اس کے مانند کوئی جانور ذبح کرنا ضروری ہوگا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ نے ایسی ہی ایک حدیث روایت کی ہے جب کہ خود انہوں نے مذکورہ افعال کی تقدیم و تاخیر کے سلسلہ میں دم واجب کیا ہے اگر وہ حدیث کے وہ معنی نہ سمجھتے جو حضرت امام اعظم اور ان کے ہمنواء علماء نے سمجھے ہیں تو وہ خود دم واجب کیوں کرتے ؟

【12】

افعال حج میں تقدیم وتاخیر

اور حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ قربانی کے دن منیٰ میں لوگ نبی کریم ﷺ سے (تقدیم و تاخیر کے سلسلسہ میں) مسائل دریافت کررہے تھے اور آپ ﷺ جواب میں یہی فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے چناچہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ میں نے شام ہونے کے بعد کنکریں ماری ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ (بخاری) تشریح دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے دن کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب غروب ہوجائے تو اس پر دم واجب ہوگا، چناچہ ان کے نزدیک حدیث میں شام کے بعد سے مراد بعد عصر ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ دسویں ذی الحجہ کو طلوع فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت کنکریاں مارنے کے لئے وقت جواز ہے مگر اساء ۃ کے ساتھ، یعنی اگر کوئی شخص طلوع فجر کے بعد ہی کنکریاں مارے تو یہ جائز ہوجائے گا مگر یہ اچھا نہیں ہوگا۔ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک کا وقت، وقت مسنون ہے۔ زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت، وقت جواز ہے مگر بغیر اساء ۃ کے یعنی اگر کوئی شخص زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کے کسی حصہ میں کنکریاں مارے تو یہ جائز بھی ہوگا اور اس کے بارے میں یہ بھی نہیں کہیں گے کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ البتہ وقت مسنون کی سعادت اسے حاصل نہیں ہوگی۔ اور غروب آفتاب کے بعد یعنی رات کا وقت، وقت جواز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔ مگر اتنی بات ذہن میں رہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص بلا عذر اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب بھی غروب ہوجائے اور پھر وہ رات میں کنکریاں مارے، چناچہ اگر چرواہے یا ان کے مانند وہ لوگ جو کسی عذر کی بناء پر رات ہی میں کنکریاں مار سکتے ہوں تو ان کے حق میں کراہت نہیں ہے، البتہ اس حدیث میں آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ کوئی حرج نہیں ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سائل کوئی چرواہا ہوگا جس نے شام کے بعد یعنی رات میں کنکریاں ماریں اس لئے آپ ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ تم چونکہ دن میں کنکریاں مارنے سے معذور تھے اس لئے رات میں کنکریاں مارنے کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر رمی کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ صبح ہوجائے تو وہ رمی کرے گا مگر اس پر بطور جزاء دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوجائے گا، یہ حضرت امام اعظم کا قول ہے صاحبین کا اس سے اختلاف ہے۔ یوم نحر کے بعد کے دو دنوں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں کنکریاں مارنے کا وقت مسنون زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک مکروہ ہے، لہٰذا فجر طلوع ہوتے ہی حضرت امام اعظم کے نزدیک وقت ادا ختم ہوجاتا ہے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وقت ادا طلوع فجر کے بعد بھی باقی رہتا ہے، گویا رمی کا وقت طلوع فجر کے بعد بالاتفاق باقی رہتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت کی رمی حضرت امام اعظم کے ہاں وقت قضا میں ہوگی اور صاحبین کے ہاں وقت ادا ہی میں ! اور چوتھے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہوتے ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک رمی کا وقت ادا بھی فوت ہوجاتا ہے اور وقت قضا بھی۔

【13】

افعال حج میں تقدیم وتاخیر

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے طواف افاضہ یعنی فرض طواف سر منڈانے سے پہلے کرلیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اب سر منڈالو یا بال کتروا لو۔ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے جانور ذبح کرلیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ترمذی)

【14】

افعال حج میں تقدیم وتاخیر

حضرت اسامہ بن شریکرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول کریم ﷺ کے ہمراہ ادائیگی حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے چناچہ حج کے دوران جو لوگ مسائل پوچھنے کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آتے تھے، ان میں کوئی یہ کہتا کہ یا رسول اللہ ! میں نے طواف کعبہ سے پہلے سعی کرلی ہے یا افعال منیٰ میں سے یہ کام میں نے پہلے کرلیا یا یہ کام میں نے بعد میں کیا ؟ آپ ﷺ اس سے فرماتے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ گناہ اس شخص پر ہے جو ظالم ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کی آبروریزی کرے پس یہ وہ شخص ہے جو گنہگار ہے اور ہلاک ہوا۔ (ابوداؤد) تشریح اگر احرام باندھنے اور طواف قدوم یا طواف نفل سے پہلے سعی کرلی جائے تو صحیح نہیں ہوگی یعنی طواف افاضہ سے پہلے سعی کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ سعی، احرام اور طواف کے بعد ہو خواہ نفل ہی طواف ہو۔ اس لئے میں طوف کعبہ سے پہلے سعی کرلی ہے کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ سائل اگر آفاقی (یعنی غیر مکی) تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے حج کے احرام اور طواف قدوم کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے سعی کرلی ہے۔ اور اگر سائل مکی تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے حج کے احرام اور طواف نفل کے بعد طواف افاضہ سے پہلے سعی کرلی ہے ۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر افعال منیٰ میں نادانستگی کی وجہ سے کوئی تقدیم و تاخیر ہوجائے تو کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دراصل گناہگار تو وہ شخص ہے جو از راہ ظلم و ایذاء رسانی ناحق کسی کی آبروریزی کرے مثلاً کسی کی اہانت کرے یا کسی کی غیبت کرے۔ گویا وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں رہا جو دین کی خاطر کسی کی آبروریزی کرے چناچہ ایسا شخص گنہگار نہیں ہوتا۔

【15】

قربانی کے دن خطبہ

حضرت ابوبکرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے قربانی کے دن ہمارے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا۔ لوگو ! یعنی سال کی گردش پوری ہوگئی اپنی اس وضع کے موافق جس پر کہ وہ اس روز تھا جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا (یعنی سال اپنی وضع کے مطابق بارہ مہینے کا پورا ہوگیا ہے) سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جس میں سے چار مہینے باحرمت ہیں تین تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور چھوتا مضر کا رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ! زیادہ جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ﷺ نے اس مہینہ کا کوئی اور نام رکھیں گے مگر آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے کہا بیشک ذی الحجہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ آپ ﷺ پھر خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ﷺ اس شہر کا کوئی اور نام رکھیں گے مگر آپنے فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ کا ایک نام ہے) نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ بیشک ! بلدہ ہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون سا دن ہے ؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ ﷺ اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے مگر آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ یوم نحر (قربانی کا دن) نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ بیشک یہ یوم نحر ہی ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں تم پر ہمیشہ کے لئے اسی طرح حرام ہیں جس طرح کہ تمہارے اس دن میں، تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں ! اور اے لوگو ! تم عنقریب اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا ! خبردار ! میری وفات کے بعد تم ضلالت کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ! آگاہ ! کیا میں نے (احکام الٰہی کا پہنچانے کا) اپنا فرض ادا کردیا ؟ ہم نے عرض کیا بیشک آپ ﷺ نے اپنا فرض پورا کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ پروردگار تو (ان لوگوں کے اس اقرار پر) گواہ رہ (تاکہ یہ قیامت کے دن اپنے اس اقرار کا انکار نہ کریں) پھر (آپ ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ) جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، کیونکہ بعض وہ لوگ جنہیں کوئی بات پہنچائی جائے اس بات کو سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح شافعیہ کے نزدیک ایام نحر کے پہلے دن یعنی دسویں ذی الحجہ کو خطبہ پڑھنا مستحب ہے، جب کہ حنفیہ کے ہاں نحر کے دوسرے دن یعنی گیارہویں ذی الحجہ کو مستحب ہے، چناچہ حنفی مسلک کے مطابق ایک خطبہ تو ذی الحجہ کی ساتویں کو، ایک خطبہ نویں کو اور ایک خطبہ گیارہویں کو پڑھا جاتا ہے اور ان خطبات میں حج کے احکام بیان کئے جاتے ہیں جن احادیث صحیحہ میں دوسرے دن (یعنی گیارہویں) کو آنحضرت ﷺ کے خطبہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حنفی مسلک کی مؤید ہیں لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے بطور تذکیر و نصیحت یہ خطبہ دیا ہوگا اور اصل خطبہ آپ ﷺ نے دوسرے ہی دن ارشاد فرمایا تھا۔ ارشاد گرامی کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے سال کے جو بارہ مہینے مقرر فرمائے تھے اس کے مطابق بارہ مہینے کا یہ سال پورا ہوگیا، چناچہ قرآن کریم میں سال کے بارہ مہینوں کے سلسلہ میں یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم) الخ۔ یقینا شمار مہینوں کا کتاب الٰہی میں اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں اہل عرب نے سال کے مہینوں میں تغیر کردیا تھا جس کی صورت یہ تھی کہ وہ ایک سال کو بارہ مہینے کا رکھتے تو ایک سال کو تیرہ مہینوں کا، اس طرح وہ حج کی ادائیگی کو ہر دو برس بعد ایک مہینہ مؤخر کردیتے تھے، مثلاً ایک سال وہ کسی مہینہ میں حج کرتے پھر دوسرے سال کو تیرہ مہینے کا قرار دے کر اس مہینہ میں حج کرتے جو پہلے سال کے ماہ حج کے بعد آتا۔ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ حج کا مہینہ بدلتا رہتا تھا بلکہ جو مہینے اشہر حرام ہوتے ان کو تو وہ اشہر حلال قرار دے لیتے اور جو مہینے اشہر حلال ہوتے ان کو اشہر حرام بنا لیتے تھے، مثلاً جن مہینوں میں جنگ و جدل حرام نہ ہوتا، اس میں تو وہ جنگ و جدل سے اجتناب کرتے اور ان مہینوں کی خوب تعظیم کرتے اور جن مہینوں میں جنگ وجدال حرام ہوتا اس میں پوری طرح جنگ وجدال کرتے، گویا جو مہینہ واقعۃً محرم کا مہینہ ہوتا اسے وہ احمق اپنے حساب کی رو سے محرم کا مہینہ نہ سمجھتے نتیجہ اس میں خوب لڑتے مرتے، اسی طرح صفر یا کسی دوسرے مہینے کو اپنے حساب سے حرام ٹھہرا لیتے اور اس میں لڑنے مرنے سے باز رہتے، چناچہ حق تعالیٰ نے ان کے اس احمقانہ طرز عمل کے بارے میں یہ حکم فرمایا۔ آیت (انما النسیء زیادۃ فی الکفر) ۔ اور ان کی طرف سے مہینوں میں یہ تبدیلی ان کے کفر میں زیادتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے حساب کو باطل قرار دیا اور سال کے ہر مہینے کو اس کی اصل پر برقرار رکھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے جس سال حجۃ الوداع کیا ہے اس سال ذی الحجہ کا مہینہ اپنی اصل پر تھا، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان الزمان قد استدار کہیئۃ (سال کی گردش اپنی وضع کے موافق پوری ہوگئی) ارشاد فرما کر لوگوں کو آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ مہینہ ماہ ذی الحجہ ہے اور حج کا یہی مہینہ ہے، لہٰذا اس مہینہ کو یاد رکھو، اسی مہینہ میں حج کیا کرو اور آئندہ ایک مہینہ کو دوسرے مہینہ سے تبدیل نہ کرو۔ مشہور مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں اہل عرب کا یہ دستور ہوگیا تھا کہ جب ماہ حرام آتا اور ان کو اس مہینہ میں لڑنا منظور ہوتا تو وہ اس ماہ حرام کو حلال قرار دے لیتے اور اس کے بعد کسی اور حلال مہینہ کو ماہ حرام بنا لیتے اس طرح مہینوں کی جو اصل خصوصیت تھی اسے تو انہوں نے ترک کردیا تھا صرف عدد کا اعتبار رکھا تھا۔ حدیث کے الفاظ۔ السنۃ اثنا عشر شہرا۔ جملہ مستانفہ ہے یعنی علیحدہ ایک جملہ ہے جو ماقبل جملہ کا بیان اور اس کی وضاحت ہے۔ منہا اربعۃ حرم (جس میں چار مہینے باحرمت ہیں) جیسا کہ حدیث نے ان چار مہینوں کی وضاحت کی ہے وہ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ان مہینوں میں قتل و قتال اور جنگ و جدل ممنوع ہے چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ آیت (فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ) 9 ۔ التوبہ 36) ۔ پس ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ لیکن علماء کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ ان مہینوں میں قتل و قتال اور جنگ و جدل کی حرمت منسوخ ہے، ان کے نزدیک مذکورہ بالا آیت میں ظلم سے مراد ارتکاب معاصی ہے۔ اس طرح آیت بالا کا مطلب یہ ہوگا کہ ان مہینوں میں گناہ کر کے اپنے نقصان مت کرو کیونکہ جس طرح حرم میں اور حالت احرام میں گناہ کرنا بہت ہی برا ہے اسی طرح ان مہینوں میں ارتکاب معاصی بھی بہت بری بات ہے، ان علماء کے اس قول کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے شوال اور ذی قعدہ کے مہینوں میں طائف کا محاصرہ اور قبیلہ ہوزن کے ساتھ غزوہ کیا تھا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان مہینوں میں حرمت قتل کا حکم اب بھی باقی ہے۔ مضر عرب کے ایک قبیلہ کا نام تھا، یہ قبیلہ ماہ رجب کی بہت زیادہ تعظیم کرتا تھا، اسی وجہ سے رجب کی نسبت اس قبیلہ کی طرف کرتے ہوئے آپ ﷺ نے رجب مضر (مضر کا رجب) فرمایا۔ آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے مہینہ، دن اور شہر کا نام اس لئے پوچھا تاکہ لوگوں کے ذہن و قلوب میں اس مہینہ دن اور شہر کی حرمت پوری طرح جاگزیں ہو اور اس طرح وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرنے کا پورا عزم و یقین پیدا کریں جسے بعد میں بیان کرنا مقصود تھا۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے سوال پر لوگوں کا جواب میں یہ کہنا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ نہ صرف از راہ ادب تھا بلکہ اس سے یہ جاننا بھی مقصود تھا کہ اس سوال سے آنحضرت ﷺ کی غرض کیا ہے۔ بعض احادیث میں فلا ترجعوا بعدی ضلالا (میری وفات کے بعد تم ضلالت کی طرف نہ لوٹ جانا) میں لفظ ضلالا کی بجائے لفظ کفارا ذکر کیا گیا ہے اس صورت میں اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ میری وفات کے بعد اعمال میں کافروں کے مشابہ نہ ہوجانا کہ ان کافروں کی طرح تم بھی ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ۔

【16】

گیارہویں اور بارہویں کو رمی کا وقت

حضرت وبرہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ میں (گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو) رمی جمار کس وقت کروں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام رمی کرے، اسی وقت تم بھی رمی کرو (یعنی رمی میں اس شخص کی پیروی کرو جو رمی کے وقت کے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہو) میں نے ان کے سامنے پھر یہ مسئلہ رکھا (یعنی میں نے ان سے رمی کے وقت کی مزید وضاحت چاہی) انہوں نے فرمایا ہم رمی کے وقت کا انتظار کرتے تاآنکہ جب دوپہر ڈھلتی تو ہم کنکریاں مارتے۔ (بخاری)

【17】

رمی جمرات کی ترتیب

حضرت سالم، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ابن عمر) نزدیک کے جمرہ یعنی جمرہ اولیٰ پر سات کنکریاں مارنے اور ہر کنکری کے بعد اللہ اکبر کہتے پھر آگے بڑھتے یہاں تک کہ جب نرم زمین پر پہنچتے تو دیر تک (یعنی بقدر تلاوت سورت بقرہ) قبلہ رو کھڑے رہتے اور دعا مانگتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جمرہ وسطی پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے، پھر بائیں جانب کو بڑھتے اور نرم زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دعا مانگتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور دیر تک کھڑے رہتے، پھر وہ وہاں سے واپس ہوتے اور کہتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (بخاری) تشریح مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق رمی اگرچہ حنفیہ کے ہاں سنت ہے لیکن احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اس ترتیب کو ترک نہ کیا جائے کیونکہ یہ ترتیب حضرت امام شافعی وغیرہ کے نزدیک واجب ہے ! موالات یعنی تمام جمرات پر پے در پے رمی بھی سنت ہے جب کہ یہ حضرت امام مالک کے مسلک میں واجب ہے۔ من بطن الوادی (بطن وادی سے) یہ بات معلوم ہوئی کہ رمی جمرہ عقبہ، بطن وادی سے (یعنی نشیبی حصہ میں کھڑے ہو کر) کی جائے چناچہ نشیب میں کھڑے ہو کر رمی کرنا مسنون ہے۔ لیکن ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر اوپر کی جانب سے جمرہ عقبہ پر کنکریاں پھینکی جائیں تو اس طرح بھی رمی ہوجائے گی مگر یہ خلاف سنت ہے۔ جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کے پاس ٹھہرنا اور حمد و صلوٰۃ اور وہاں دعا میں مشغول ہونا تو ثابت ہے لیکن تیسرے جمرہ یعنی جمرہ عقبی کے پاس ٹھہرنا اور دعا مانگنا ثابت نہیں ہے اور اس کی کوئی وجہ علت منقول نہیں ہے اگرچہ بعض علماء نے اس بارے میں کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔

【18】

منیٰ میں رات کو ٹھہرنا واجب ہے یا سنت؟

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) نے رسول کریم ﷺ سے اس بات کی درخواست کی کہ جن راتوں میں منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے ان میں انہیں سبیل زمزم کی خدمت کے لئے مکہ رہنے کی اجازت دے دی جائے چناچہ آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) تشریح طواف افاضہ کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے چناچہ اس زمانہ میں زمزم کے کنوئیں کے قریب ہی کئی حوض زمزم کے پانی سے بھرے رہتے تھے تاکہ اگر کوئی شخص اژدحام وغیرہ کی وجہ سے کنوئیں سے پانی نہ پی سکے تو وہ ان حوضوں میں سے پی لے، سبیل زمزم کی نگرانی کی سعادت آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) کو حاصل تھی، اس طرح زمزم کا پانی پلانے کی اس عظیم السعادت خدمت کو وہ اپنے کئی مددگاروں کے ذریعہ انجام دیتے تھے ! چناچہ جن راتوں میں حاجی منیٰ میں قیام کرتے ہیں انہیں راتوں میں حضرت عباس (رض) نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو میں ان راتوں میں مکہ میں رہوں تاکہ سبیل زمزم کی جو مقدس خدمت میرے سپرد ہے اسے انجام دے سکوں آنحضرت ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ اب مسئلہ کی طرف آئیے، جو راتیں منیٰ میں گزاری جاتی ہیں ان میں منیٰ میں قیام اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں ان راتوں میں منیٰ میں رہنا سنت ہے، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ رات کے قیام کے سلسلہ میں رات کے اکثر حصہ یعنی آدھی رات سے زیادہ کے قیام کا اعتبار ہے اور یہی حکم ان راتوں کا بھی ہے جن میں عبادت وغیرہ کے لئے شب بیداری مستحب ہے مثلاً لیلۃ القدر وغیرہ کہ ان راتوں کے اکثر حصہ کی شب بیداری کا اعتبار ہے۔ بہرکیف جن علماء کے نزدیک منیٰ میں رات کا قیام سنت ہے جیسے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ اگر منیٰ میں رات میں قیام واجب ہوتا تو آنحضرت ﷺ حضرت عباس (رض) کو ان راتوں میں مکہ میں رہنے کی اجازت کیسے دیتے۔ بعض حنفی علماء کہتے ہیں حضرت عباس (رض) کی طرح جس شخص کے سپرد زمزم کا پانی پلانے کی خدمت ہو یا جس کو کوئی شدید عذر لاحق ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جو راتیں منیٰ میں گزاری جاتی ہیں وہ ان میں منیٰ کا قیام ترک کر دے، گویا اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ بلاعذر سنت کو ترک کرنا جائز نہیں ہے اور یہ کہ کسی عذر کی بناء پر سنت کو ترک کرنے میں اساء ۃ بھی نہیں ہے۔

【19】

آنحضرت ﷺ سبیل زمزم پر

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سبیل پر تشریف لائے اور زمزم کا پانی مانگا، حضرت عباس (رض) نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ فضل ! اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور رسول کریم ﷺ کے لئے ان سے (زمزم کا وہ) پانی مانگ لاؤ جو ان کے پاس رکھا ہوا ہے اور ابھی استعمال نہیں ہوا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم تو مجھے اسی سبیل سے پانی پلا دو ۔ حضرت عباس (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ہے مجھے اسی میں سے پلا دو ۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس پانی میں سے پیا اور پھر زمزم کے کنویں کے پاس تشریف لائے جہاں لوگ (یعنی عبدالمطلب کے خاندان والے) لوگوں کو پانی پلا رہے تھے اور اس خدمت میں پوری طرح مصروف تھے، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا اپنا کام کئے جاؤ، کیونکہ تم ایک نیک کام میں لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غلبہ پالیں گے تو میں اپنی اونٹنی پر سے اترتا جس پر آپ ﷺ سوار تھے تاکہ آپ ﷺ سب کے سامنے رہیں اور لوگ آپ ﷺ سے حج کے عملی احکام سیکھیں اور آپ ﷺ نے اپنے مونڈھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رسی اس پر رکھتا (یعنی اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری سنت کی اتباع میں پانی کھینچنے لگیں گے اور اس سعادت کے حصول کے لئے اتنا اژدحام کریں گے کہ وہ تم پر غالب آجائیں گے اور تمہیں پانی نہ کھینچنے دیں گے جس کی وجہ سے یہ مقدس خدمت تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے گی تو میں بھی اپنی اونٹنی سے اتر کر اس کنویں سے پانی کھینچتا۔ (بخاری) تشریح لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اس بات سے حضرت عباس (رض) کا مطلب یہ تھا کہ یہاں پانی پینے والوں کا اژدحام رہتا ہے اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ صاف ستھرے نہیں ہوتے اور وہ پانی پینے کے لئے اس حوض میں اپنے ہاتھ ڈالتے رہتے ہیں اس لئے میں آپ ﷺ کے لئے اس پانی میں سے منگایا ہے جو بالکل الگ رکھا ہوا ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے اسے منظور نہیں کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تم تو مجھے اسی حوض میں سے پانی پلا دو چناچہ آپ ﷺ نے اسی حوض سے پانی پیا گویا یہ بات اس روایت کی مانند ہے جس میں منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ کا بچا ہوا پانی از راہ تبرک پینا پسند فرماتے تھے ! نیز حضرت انس (رض) نے بطریق مرفوع (یعنی آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی) نقل کیا ہے کہ یہ چیز تواضع میں داخل ہے کہ انسان اپنے (کسی) بھائی کا جھوٹا پئے۔ لیکن لوگوں میں جو یہ حدیث مشہور ہے کہ سورت المؤمنین شفاء (مومنین کا جھوٹا شفا ہے) تو اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث غیر معروف ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ مذکورہ بالا روایت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ زمزم کے کنوئیں سے پانی کھینچنے اور پینے کے لئے اونٹنی سے اترے نہیں، جب کہ ایک اور روایت میں جو حضرت عطاء (رض) سے منقول ہے یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ جب طواف افاضہ کرچکے تو آپ ﷺ نے زمزم کے کنویں سے ڈول (میں پانی کھینچا اور اس کھینچنے میں آپ ﷺ کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تھا پھر آپ ﷺ نے اس میں سے پیا اور ڈول میں جو پانی بچ گیا اسے کنویں میں ڈال دیا۔ ان دونوں روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ پہلے تو آنحضرت ﷺ بھیڑ کی وجہ سے اونٹنی سے نہ اترے ہوں گے پھر دوبارہ تشریف لائے تو بھیڑ دیکھ کر پانی کھینچا اور پیا چناچہ حضرت ابن عباس (رض) کی مذکورہ بالا روایت کا تعلق پہلی مرتبہ سے ہے اور حضرت عطاء (رض) کی روایت کا تعلق دوسری مرتبہ سے ہے۔

【20】

آنحضرت ﷺ کا طواف وداع

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو منیٰ سے روانہ ہو کر محصب میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور وہیں کچھ دیر تک سو رہے پھر خانہ کعبہ کے لئے سوار ہوئے اور وہاں پہنچ کر طواف (طواف وداعی) کیا۔ (بخاری) تشریح محصب اصل میں تو اس زمین کو کہتے ہیں جہاں بہت زیادہ کنکریاں ہوں، لیکن یہ ایک خاص جگہ کا نام بھی ہے جو مکہ و مدینہ کے درمیان منیٰ کے قریب واقع ہے اور چونکہ اس جگہ کو محصب کے علاوہ ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں، اسی لئے راوی نے یہاں تو یہ کہا کہ آپ نے محصب میں نماز پڑھی اور دوسری روایت میں یہ کہا گیا کہ ابطح میں نماز پڑھی۔

【21】

آنحضرت ﷺ نے ترویہ اور نفر کے دن ظہر وعصر کی نماز کہاں پڑھی

حضرت عبدالعزیز بن رفیع (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے عرض کیا کہ آپ رسول کریم ﷺ کے متعلق اس بارے میں جو کچھ جانتے ہیں مجھے بتائیے کہ آپ ﷺ نے ترویہ کے دن (یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو) ظہر کی نماز کہاں پڑھی ؟ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ منیٰ میں عبدالعزیز کہتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت انس (رض) سے یہ پوچھا کہ آپ ﷺ نے نفر کے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو عصر کی نماز کہاں پڑھی ؟ تو حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ ابطح میں۔ پھر حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ تم اسی طرح کرو جس طرح تمہارے سردار کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تو اسی طرح کیا تھا لیکن تم اس بارے میں اپنے سردار اور اپنے امیر کی پیروی و اتباع کرو کہ جس طرح وہ کریں اسی طرح تم کرو تاکہ ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے کوئی فتنہ انگیزی نہ ہو اور ویسے یہ کوئی ضروری بات بھی نہیں ہے کہ ترویہ کے دن آنحضرت ﷺ نے جہاں ظہر کی نماز اور نفر کے دن جہاں عصر کی نماز پڑھی ہے وہیں تم بھی پڑھو۔ پہلی روایت سے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے نفر کے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو ظہر کی نماز محصب میں پڑھی تھی جب کہ یہ حدیث اس سلسلہ میں خاموش ہے چناچہ ان دونوں روایتوں میں بایں معنی کوئی تضاد نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ظہر کی نماز محصب ہی میں پڑھی تھی جیسا کہ حضرت انس (رض) کی پہلی روایت سے معلوم ہوا مگر اس موقع پر چونکہ حضرت عبدالعزیز نے اس دن کی ظہر کی نماز کے بارے میں دریافت نہیں کیا اس لئے اس دوسری روایت میں حضرت انس (رض) نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔

【22】

ابطح میں قیام سنت ہے یا نہیں ؟

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ابطح میں اترنا یعنی ٹھہرنا سنت نہیں ہے اور نبی کریم ﷺ تو وہاں صرف اس لئے اترے تھے کہ مکہ سے چلنے میں آسانی ہو جب کہ آپ ﷺ وہاں سے واپس ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت عائشہ (رض) کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب تیرہویں ذی الحجہ کو منیٰ سے لوٹے تو ابطح یعنی محصب میں صرف اس غرض سے ٹھہر گئے تھے تاکہ وہاں اپنا سامان وغیرہ چھوڑ کر مکہ جائیں اور وہاں طواف الوداع کریں اور جب مکہ سے مدینہ واپس ہوں تو اس وقت سامان وغیرہ ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے آسانی ہو۔ اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ تحصب یعنی محصب میں ٹھہرنا سنت ہے اور افعال حج کا ایک تتمہ ہے۔ یہ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے، ان کے نزدیک قیام محصب کے مسنون ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے منیٰ میں فرمایا تھا کہ کل ہم انشاء اللہ خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں ٹھہریں گے اور اس کا سبب یہ تھا کہ خیف بنی کنانہ ہی وہ جگہ ہے جہاں مشرکین مکہ نے آنحضرت ﷺ کی مکی زندگی میں باہم یہ عہد و پیمان کیا تھا اور یہ قسم کھائی تھی کہ ہم بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب یعنی ان دونوں خاندانوں کے لوگوں سے میل جول، نکاح بیاہ، خریدو فروخت اور ان میں اٹھنا بیٹھنا اس وقت تک چھوڑے رہیں گے جب تک یہ لوگ محمد کو ہمارے سپرد نہ کردیں گے گویا اس مقام پر انہوں نے ان خاندانوں سے مکمل مقاطعہ اور بائیکاٹ کا اعلان کر کے شعائر کفر کا اظہار کیا تھا۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی قوت کو غالب فرمایا اور کفر و شرک کا پھیلاؤ دور ہوا تو آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقوع پر منیٰ سے مکہ کو واپس ہوتے ہوئے یہ چاہا کہ اس جگہ یعنی خیف بنی کنانہ (محصب) میں ٹھہر کر شعائر اسلام کو ظاہر کریں جہاں کچھ ہی سال پیشتر کفار نے شعائر کفر کو ظاہر کیا تھا اور اس طرح وہاں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جو اس نے اسلام کو غلبہ اور عظمت دے کر عطا فرمائی تھیں۔ طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر فاروق (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یوم النفر کی رات میں ابطح میں ٹھہرنا منجملہ سنت ہے، نیز یہ کہ حضرت عمر فاروق (رض) لوگوں کو اس رات میں ابطح میں ٹھہرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ابطح میں اس مقصد سے قیام فرماتے تھے کہ مشکرین کو اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائیں کہ کل جس جگہ انہوں نے مکمل مقاطعہ کا عہد و پیمان کر کے اپنی برتری کا اظہار کیا تھا آج وہی جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کے زیر تسلط ہے، چناچہ اس جگہ رات میں قیام سنت ہے۔ اس کے برخلاف، بعض حضرات کہتے ہیں کہ محصب میں قیام سنت نہیں ہے کہ کیونکہ وہاں آنحضرت ﷺ کا قیام محض اتفاقی طور پر ہوگیا تھا جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع جو آنحضرت ﷺ کے سامان سفر کے نگران تھے اپنی رائے سے اور اتفاقی طور پر وہاں رک گئے اور آپ ﷺ کا خیمہ نصب کردیا، اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا کوئی حکم نہیں تھا۔ قیام محصب کو سنت نہ کہنے والوں میں حضرت ابن عباس (رض) کے علاوہ حضرت عائشہ (رض) بھی ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا۔ بہرکیف اس بارے میں بہتر بات یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کا محصب میں ٹھہرنا منقول ہے چاہے وہ ٹھہرنا اتفاقی طور پر ہی کیوں نہ رہا ہو تو اچھا یہی ہے کہ وہاں قیام کرلیا جائے جیسا کہ دیگر صحابہ اور خلفاء راشدین بھی اس پر عمل کرتے تھے اور اگر کوئی شخص وہاں نہ ٹھہرے تو اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔

【23】

طواف وداع کے بعد آنحضرت ﷺ کی مکہ سے روانگی

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عمرہ کے لئے تنعیم سے احرام باندھا اور مکہ میں داخل ہوئی اور پھر میں نے اپنا وہ عمرہ ادا کیا جو ایام شروع ہوجانے کی وجہ سے رہ گیا تھا اور جس کی قضا مجھے کرنی تھی، اس کی تفصیل باب قصۃ حجۃ الوداع میں گزر چکی ہے اور رسول کریم ﷺ ابطح میں میرے انتظار میں رہے، یہاں تک کہ جب میں افعال عمرہ سے فارغ ہوگئی تو آپ ﷺ نے لوگوں کو روانگی کا حکم دیا، چناچہ آپ ﷺ ابطح سے روانہ ہو کر خانہ کعبہ تشریف لائے اور نماز فجر سے پہلے اس کا طواف یعنی طواف وداع کیا پھر نماز فجر سے پہلے ہی یا نماز فجر پڑھنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مؤلف مشکوۃ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بخاری ومسلم میں سے کسی کی روایت کے ساتھ نہیں ملی۔ بلکہ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے وہ بھی آخر میں کس قدر مختلف ہے۔ تشریح مؤلف مشکوۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق اس روایت کو نہ تو بخاری نے نقل کیا ہے اور نہ مسلم نے، بلکہ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے مزید کہ ابوداؤد کی روایت اور صاحب مصابیح کی نقل کردہ اس روایت کے آخری جزء میں کچھ اختلاف بھی ہے، گویا اس جملہ کے ذریعہ مؤلف مشکوۃ نے صاحب مصابیح پر ایک اعتراض تو یہ کیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو فصل اول میں نقل کیا ہے جب کہ فصل اول میں صرف بخاری و مسلم ہی کی روایت نقل کی جاتی ہے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ نقل حدیث میں راوی یعنی ابوداؤد کی مخالفت کی بایں طور کہ حدیث کا آخری جزو بعینہ نقل نہیں کیا جو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

【24】

طواف وداع واجب ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ لوگ افعال حج کی ادائیگی کے بعد طواف وداع کئے بغیر ہر طرف یعنی اپنے اپنے وطن کو روانہ ہو رہے تھے یعنی لوگ اس بات کی پابندی نہیں کر رہے تھے کہ افعال حج کے بعد مکہ آ کر طواف وداع کرتے چناچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی یعنی آفاقی روانہ نہ ہو جب تک کہ سفر حج کا آخری مرحلہ بیت اللہ کو قرار نہ دے لے یعنی کوئی بھی آفاقی طواف وداع کئے بغیر اپنے وطن کو واپس نہ ہو، ہاں یہ طواف حیض و نفاس والی عورت کے لئے موقوف ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح افعال حج سے فراغت کے بعد اور مکہ سے اپنے وطن کو روانہ ہونے سے پہلے جو طواف کیا جاتا ہے اسے طواف وداع کہتے ہیں اور اس کا ایک نام طواف صدر بھی ہے، یہ طواف آفاقی پر واجب ہے اگرچہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ اس طواف کے بعد جتنے دن چاہیں مکہ میں مقیم رہا جائے لیکن افضل یہی ہے کہ مکہ سے روانگی کے وقت ہی یہ طواف کیا جائے چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص دن کے کسی حصہ میں طواف وداع کرے اور پھر عشاء تک مکہ میں مقیم رہے تو میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ بات یہی ہے کہ وہ مکہ سے روانگی کے وقت دوسرا طواف کرلے۔ یہ طواف نہ تو اہل مکہ پر واجب ہے نہ اس شخص پر جو میقات کے اندر رہتا ہو اور نہ اس شخص پر واجب ہے جو مکہ میں آ کر رہ گیا ہو اور پھر وہ وہاں سے چلے جانے کا ارادہ رکھتا ہو، اسی طرح یہ طواف نہ تو اس شخص پر واجب ہے جس کا حج فوت ہوگیا ہو اور نہ عمرہ کرنے والے پر واجب ہے نیز اس طواف میں نہ رمل (یعنی اکڑ کر چلنا) ہوتا ہے اور نہ اس کے بعد سعی کی جاتی ہے۔

【25】

عذر کی بنا پر طواف وداع واجب نہیں رہتا

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ یوم نفر کی رات میں حضرت صفیہ (رض) کے ایام شروع ہوگئے تو وہ کہنے لگیں کہ میرا خیال ہے میں آپ لوگوں کو مدینہ کی روانگی سے روکوں گی کیونکہ میرے ایام شروع ہوگئے ہیں اور میں نے طواف وداع کیا ہی نہیں آنحضرت ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے کیا اس نے نحر کے دن طواف طواف زیارۃ کیا ہے ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا۔ پھر رکنے کی ضرورت نہیں ہے، چلو۔ (بخاری ومسلم) تشریح یوم نفر کی رات سے مراد وہی رات ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے محصب میں قیام فرمایا تھا، یعنی تیرہویں ذی الحجہ کی رات، مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حج کے بیان میں رات کی نسبت روز گزشتہ کی طرف کی جاتی ہے نہ کہ روز آئندہ کی طرف، لہٰذا یوم نفر (تیرہویں ذی الحجہ) کی رات سے وہ رات مراد ہوتی ہے جو تیرہویں کے دن کے بعد آتی ہے۔ بہرکیف حضرت صفیہ (رض) نے تو یہ گمان کیا کہ جس طرح طواف زیارۃ عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا اسی طرح عذر کے سبب طواف وداع کا ترک بھی جائز نہیں اس لئے انہوں نے کہا کہ اب میں جب تک پاک نہ ہوجاؤں اور طواف نہ کرلوں اس وقت تک سب کو ٹہرنا پڑے گا اور آنحضرت ﷺ یہ سمجھے کہ انہوں نے طواف زیارۃ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اب ٹھہرنا پڑے گا اس لئے آپ ﷺ نے جملہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے، مگر جب آپ کو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ صفیہ (رض) نے یہ بات طواف زیارۃ کے لئے نہیں کہی بلکہ طواف وداع کے لئے کہی ہے تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ طواف وداع کے بغیر ہی مدینہ روانہ ہوجاؤ کیونکہ عذر کی بناء پر طواف کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر طواف زیارۃ ابھی نہ ہوا ہوتا تو پھر اس کی وجہ سے رکنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے یہ جملہ اگرچہ بد دعائیہ ہے مگر یہ بد دعا کے ارادہ سے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اہل عرب کی عادت ہے کہ وہ ایسے جملے از راہ پیار استعمال کرتے ہیں۔

【26】

قربانی کے دن آپ ﷺ کی تذکیر ونصیحت

حضرت عمرو بن احوص (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا جانتے بھی ہو کہ یہ کون سا دن ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں حج اکبر کا دن ہے۔ پھر آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن اور تمہارے اس شہر میں ! خبردار ! ظلم کرنے والا صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے یعنی جو شخص کسی پر ظلم کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے کہ وہی ماخوذ ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ ظلم کوئی کرے اور پکڑا کوئی جائے یاد رکھو ! کوئی ظالم اپنے بیٹے پر ظلم نہیں کرتا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ پر ظلم کرتا ہے، جان لو ! شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ تمہارے اس شہر مکہ میں اس کی پرستش کی جائے۔ ہاں تمہارے ان اعمال میں شیطان کی فرمانبرداری ہوگی جنہیں تم حقیر سمجھو گے، چناچہ وہ ان گناہوں سے خوش ہوگا جن کو تم حقیر سمجھو گے۔ تشریح حج اکبر مطلق حج کو کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (و اذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہ) ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے دن عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول، مشرکوں کو امن دینے سے دست بردار ہوتے ہیں۔ اور حج کو صفت اکبر کے ساتھ موصوف اس لئے کیا جاتا ہے کہ عمرہ حج اصغر کہلاتا ہے اس مناسبت سے حج کو حج اکبر سے موسوم کیا گیا۔ مشہور مفسر بیضاوی کہتے ہیں کہ یوم بقر عید یعنی دسویں ذی الحجہ کا دن یوم حج اکبر کہلاتا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اسی دن حج مکمل ہوتا ہے بلکہ حج کے تمام بڑے بڑے افعال اسی دن میں ادا کئے جاتے ہیں چناچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ حجۃ الوداع میں قربانی بقر عید کے دن جمرات کے قریب کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔ پچھلے صفحات میں اسی مضمون کی جو حدیث گزری ہے اس میں تو یہ ذکر تھا کہ آنحضرت ﷺ نے جب صحابہ سے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے جب کہ یہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے، بظاہر ان دونوں میں تضاد نظر آتا ہے حالانکہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بعض صحابہ نے تو وہ جواب دیا ہو اور بعض نے یہ، لہٰذا جس راوی نے جو جواب سنا وہ ذکر کردیا۔ فان دماء کم الخ (اور تمہارے خون الخ) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم لوگ اس مبارک دن اور اس مقدس شہر میں ایک دوسرے کا خون بہانے، ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے اور ایک دوسرے کی بےآبروئی کو حرام اور برا سمجھتے ہو اسی طرح یہ چیزیں ہر جگہ اور ہر وقت حرام وبری ہیں۔ کوئی ظالم اپنے بیٹے پر ظلم نہیں کرتا الخ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ جملہ، نفی کو ظاہر کر رہا ہے یعنی اگر کسی کا بیٹا کسی پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا باپ کسی پر ظلم کرتا ہے تو وہ ایک دوسرے کے ظلم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوتے، یہ نہیں ہوتا کہ کسی پر ظلم تو کرے بیٹا اور اس کی وجہ سے پکڑا جائے باپ، یا کسی پر ظلم کرے باپ اور اس کی وجہ سے پکڑا جائے بیٹا، بلکہ جو ظلم کرتا ہے وہی پکڑا جاتا ہے، چناچہ یہ ارشاد گرامی اس آیت کی مانند ہے کہ۔ (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35 ۔ فاطر 18) ۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور یہ بات صرف باپ بیٹے ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے ظلم و جرم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوتا۔ چناچہ یہاں باپ بیٹے کو بطور خاص محض اس مقصد سے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں سب سے زیادہ قریبی اقرباء ہیں جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے فعل کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اس طرح یہ جملہ ماقبل کی عبارت لایجنی جان الخ ظلم کرنے والا صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کی تاکید کے طور پر ہوگا۔ بعض شارحیں نے اس جملہ لایجنی الا علی نفسہ میں لفظ الا نقل نہیں کیا ہے اور لکھا ہے یہ جملہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ منع کیا جا رہا ہے کہ کوئی ظالم اپنے نفس پر ظلم نہ کرے جس سے مراد یہ ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے کیونکہ جو شخص کسی پر ظلم کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بایں طور کہ وہ کسی پر ظلم کر کے اپنے کو سزا اور عذاب کا مستحق بنا لیتا ہے۔ وان الشیطان قد ایس الخ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ اس شہر مکہ میں غیر اللہ کی عبادت کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری ہو۔ لہٰذا یہاں اب کبھی بھی کوئی شخص شیطان کے فریب میں آکر غیر اللہ کی عبادت و پرستش کھلم کھلا نہیں کرے گا۔ اس سے گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ مقدس شہر ہمیشہ کے لئے کفر و شرک کی غلاظت سے پاک کردیا گیا ہے اور اب کبھی بھی اس پاک سر زمین پر کسی غیر مسلم کو قدم رکھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی غیر مسلم چوری چھپے اس شہر میں آجائے اور وہ خفیہ طور پر غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ ہاں تمہارے ان اعمال میں شیطان کی فرمانبرداری ہوگی میں اعمال سے مراد گناہ کے اعمال ہیں جیسے ناحق قتل کرنا، کسی کا مال لوٹنا یا اسی قسم کے دوسرے اعمال بد اور صغیرہ گناہوں کو اہمیت نہ دینا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال بد میں مبتلا ہونے والا جب ان کو حقیر سمجھتا ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ ان اعمال سے اجتناب نہیں کرتا تو گویا وہ شیطان کی اطاعت کرتا ہے کیونکہ شیطان ان باتوں سے خوش ہوتا ہے اور پھر وہی اعمال بڑے فتنہ و فساد کا باعث بن جاتے ہیں۔

【27】

قربانی کے دن آپ ﷺ کی تذکیر ونصیحت

حضرت رافع بن عمرو (رض) مزنی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول کریم ﷺ منیٰ میں قربانی کے دن چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے آپ ﷺ ایسے خچر پر سوار تھے جس کے بال اوپر کی جانب سے سرخ اور اندر کی جانب سفید تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ ﷺ کی طرف سے بیان کر رہے تھے (یعنی آنحضرت ﷺ جو کچھ فرماتے حضرت علی (رض) اسے دہراتے تھے تاکہ دور کے لوگ بھی آپ ﷺ کی بات سن لیں) اور لوگوں میں سے کچھ تو کھڑے تھے اور کچھ بیٹھے تھے۔ (ابوداؤد)

【28】

طواف زیارۃ کا وقت

حضرت عائشہ (رض) وحضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے طواف زیارۃ میں قربانی کے دن رات تک تاخیر کی۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عورتوں کے لئے یا یہ کہ سب ہی کے لئے طواف زیارت میں قربانی کے دن رات تک تاخیر کو جائز قرار دیا۔ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے طواف زیارت میں رات تک تاخیر کی، کیونکہ آپ ﷺ کے بارے میں تو یہ صراحت کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ نے قربانی کے وقت طواف زیارۃ کیا اور اس کے بعد مکہ میں یا منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھی۔ طیبی کہتے ہیں کہ طواف زیارۃ کا وقت امام شافعی کے نزدیک بقر عید کی آدھی رات کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے جب کہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کا وقت بقر عید کے دن طلوع فجر کے بعد شروع ہوتا ہے اور آخری وقت کا کوئی تعین نہیں ہے جب بھی کیا جائے گا جائز ہوجائے گا لیکن امام ابوحنیفہ کے ہاں طواف زیارت کی ادائیگی ایام نحر میں واجب ہے لہٰذا اگر کوئی شخص اتنی تاخیر کرے کہ ایام نحر پورے گزر جائیں گے اور پھر وہ بعد میں طواف زیارۃ کرے تو اس پر دم یعنی بطور جزاء جانور ذبح کرنا واجب ہوگا۔

【29】

طواف زیارۃ میں رمل نہیں ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے طواف زیارت میں رمل نہیں کیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ شانہ ہلاتے ہوئے چھاتی نکال کر کچھ تیزی کے ساتھ چلنا رمل کہلاتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے طواف زیارۃ میں جو کہ فرض ہے رمل نہیں کیا کیونکہ طواف قدوم میں آپ ﷺ یہ کرچکے تھے۔ اس بارے میں مسئلہ بھی یہی ہے جو شخص طواف قدوم میں رمل و سعی کرچکا ہو وہ طواف زیارۃ میں نہ تو رمل کرے اور نہ طواف کے بعد سعی کرے اور جو شخص طواف قدوم میں یہ دونوں چیزیں نہ کرچکا ہو تو پھر وہ طواف زیارت میں رمل بھی کرے اور اس کے بعد سعی بھی کرے۔

【30】

محرم کے لئے ممنوع چیزیں کب جائز ہوتی ہیں

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی رمی جمرہ عقبہ سے فارغ ہوجاتا ہے اور سر منڈوا لیتا ہے یا بال کتروا لیتا ہے تو اس کے لئے عورت کے علاوہ ہر چیز حلال ہوجاتی ہے یعنی بیوی کے ساتھ جماع ان چیزوں کے بعد بھی حلال نہیں ہوتا، بلکہ یہ طواف زیارت سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوتا ہے اس روایت کو صاحب مصابیح نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔ اور احمد و نسائی نے اس روایت کو حضرت ابن عباس (رض) سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے رمی جمرہ عقبہ کرلی تو سر منڈوانے یا بال کتروانے کے بعد اس کے لئے عورت کے علاوہ ہر چیز حلال ہوجاتی ہے۔

【31】

آنحضرت ﷺ کی رمی جمرات

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے قربانی کے دن آخری حصہ میں اس وقت فرض طواف کیا جب کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی اس کے بعد منیٰ میں واپس آگئے اور منیٰ میں ایام تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں) کی راتیں بسر کیں، ان ایام میں آپ ﷺ جمروں پر اس وقت کنکریاں مارتے جب دوپہر ڈھل جاتی ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے اور پہلے دوسرے جمرہ (یعنی جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی) دعا و اذکار کے لئے دیر تک ٹھہرتے اور اس وقت مختلف دعاؤں اور عرض حاجات کے لئے تضرع اختیار کرتے اور پھر جب تیسرے جمرہ یعنی جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارتے تو اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ (ابوداؤد) تشریح یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دسویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز مکہ میں پڑھی منیٰ میں نہیں پڑھی تھی۔ فلا یقف عندہا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ جمرہ عقبہ کے پاس یا اس کے بعد ذکر و دعا نہیں کرتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ جس طرح دعا و اذکار کے لئے جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کے پاس دیر تک کھڑے رہتے تھے اس طرح دعا و اذکار کے لئے جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ وہاں چلتے چلتے ہی دعا وغیرہ کرلیا کرتے تھے۔

【32】

ایام تشریق کی رمی جمرات میں تقدیم وتاخیر کا مسئلہ

حضرت ابوالبداح بن عاصم بن عدی (تابعی) اپنے والد مکرم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے اونٹ چرانے والوں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ منیٰ میں شب باشی نہ کریں اور یہ کہ نحر کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ پر) کنکریاں ماریں اور پھر دونوں کی رمی جمرات کو یوم نحر کے بعد ایک ساتھ کریں اس طرح دونوں دن کی رمی جمرات ان میں سے کسی ایک دن کریں۔ (مالک، ترمذی، نسائی) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ تشریح طیبی کہتے ہیں کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے چرواہوں کو یہ اجازت عطا فرما دی تھی کہ وہ ایام تشریق کی راتوں میں منیٰ میں نہ رہیں کیونکہ وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کے چرانے وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں، نیز انہیں اس بات کی بھی اجازت دے دی کہ وہ صرف بقر عید کے دن جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اس کے بعد دوسرے دن یعنی گیارہویں کو رمی جمرات نہ کریں بلکہ تیسرے دن یعنی بارہویں کو دونوں دن کی ایک ساتھ رمی کریں اس طرح گیارہویں کی رمی تو بطور قضا ہوگی اور بارہویں کی ادا ہی ہوگی۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ائمہ کے نزدیک عید کے دوسرے دن کی رمی کی تقدیم جائز نہیں ہے یعنی اگر کوئی عید کے دوسرے دن یعنی گیارہویں کو اس دن کی رمی کے ساتھ تیسرے دن یعنی بارہویں کی رمی بھی کرے تو یہ درست نہیں ہوگا ہاں تاخیر درست ہے کہ دوسرے دن کی رمی بھی تیسرے دن کی رمی کے ساتھ کی جاسکتی ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔