69. جن چیزوں سے محرم کو بچناچاہئے ان کا بیان

【1】

جن چیزوں سے محرم کو بچنا چاہئے ان کا بیان

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے احرام باندھ لینے کے بعد کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو محرم پر حرام ہوجاتی ہے اور ان چیزوں سے اجتناب محرم کے لئے ضروری ہوتا ہے، پھر ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے ارتکاب سے دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب نہیں ہوتا۔ چناچہ اس باب میں ان چیزوں کا ذکر ہوگا جن سے محرم کو بچنا چاہئے اور ضمنا وہ چیزیں بھی ذکر ہوں گی جو محرم کے لئے مباح ہیں۔ اس موقع پر اتنی بات جان لیجئے کہ جن ممنوع چیزوں کے ارتکاب سے صدقہ واجب ہوتا ہے ان میں بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کی وجہ سے بطور صدقہ نصف صاع (یعنی ایک کلو ٦٣٣ گرام) گیہوں یا ایک صاع (یعنی تین کلو ٢٦٦ گرام) جو دینا بھی واجب ہوتا ہے اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں صدقہ کی مقدار اس سے بھی کم ہے اور بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی بھی غیر متعین چیز تھوڑی سی صدقہ کردینا واجب ہوتا ہے۔

【2】

وہ چیزیں جو محرم کو پہننا ممنوع ہیں

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ محرم کپڑوں میں سے کیا چیزیں پہن سکتا ہے اور کیا چیزیں نہیں پہن سکتا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہ تو قمیص و کرتہ پہنو، نہ عمامہ باندھو، نہ پاجامہ پہنو، نہ برنس اوڑھو اور نہ موزے پہنو، ہاں جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن سکتا ہے مگر اس طرح کہ موزہ دونوں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے، نیز کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس پر زعفران یا ورس لگی ہو۔ (بخاری ومسلم) بخاری نے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ محرم عورت نقاب نہ ڈالے اور اور نہ دستانے پہنے۔ تشریح قمیص و کرتہ اور پاجامہ پننے سے مراد ان کو اس طرح پہننا ہے جس طرح کہ عام طور پر یہ چیزیں پہنی جاتی ہیں جیسے قمیص و کرتہ کو گلے میں ڈال کر پہنتے ہیں یا پاجامہ ٹانگوں میں ڈال کر پہنا جاتا ہے، چناچہ احرام کی حالت میں ان چیزوں کو اس طرح پہننا ممنوع ہے۔ ہاں اگر کوئی محرم ان چیزوں کو مروج طریقہ پر پہننے کی بجائے بدن پر چادر کی طرح ڈالے تو یہ ممنوع نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس نے قمیص و کرتہ پہنا ہے یا پاجامہ پہنا ہے۔ برنس اس لمبی ٹوپی کو کہتے ہیں جو عرب میں اوڑھی جاتی تھی اور برنس وہ لباس بھی ہوتا ہے جس کا کچھ حصہ ٹوپی کی جگہ کام دیتا ہے جیسے برساتی وغیرہ۔ چناچہ نہ برنس اوڑھو، سے مراد یہ ہے کہ ایسی کوئی چیز نہ اوڑھو جو سر کو ڈھانپ لے خواہ وہ ٹوپی ہو یا برساتی اور خواہ کوئی اور چیز۔ ہاں جو چیز ایسی ہو جس پر عرف عام میں پہننے یا اوڑھنے کا اطلاق نہ ہوتا ہو مثلاً سر پر کو نڈا یا گھڑا وغیرہ رکھ لینا یا سر پر گٹھر اٹھا لینا تو اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ وہ موزہ دونوں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے میں یہاں ٹخنے سے مراد حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک وہ ہڈی ہے جو پیر کی پشت پر بیچ میں ہوتی ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں وہی متعارف ٹخنہ مراد ہے جس کو وضو میں دھونا فرض ہے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں اور وہ موزے پہن لے تو آیا اس پر فدیہ واجب ہوتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی تو یہ کہتے ہیں کہ اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر فدیہ واجب ہوتا ہے۔ جس طرح یہ مسئلہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں کسی کو سر منڈانے کی احتیاج و ضرورت لاحق ہوجائے تو وہ سر منڈا لے اور فدیہ ادا کرے۔ ورس ایک قسم کی گھاس کا نام ہے جو زرد رنگت کی اور زعفران کے مشابہ ہوتی ہے۔ اس گھاس سے رنگائی کا کام لیا جاتا ہے۔ زعفران اور اس کے رنگ آلود کپڑوں کو پہننے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ان میں خوشبو ہوتی ہے۔ محرم عورت نقاب نہ ڈالے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے منہ کو برقع اور نقاب سے نہ ڈھانکے ہاں اگر وہ پردہ کی خاطر کسی ایسی چیز سے اپنے منہ کو چھپائے جو منہ سے الگ رہے تو جائز ہے، اسی طرح حنفیہ کے ہاں مرد کو بھی عورت کی طرح احرام کی حالت میں منہ ڈھانکنا حرام ہے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی ایک روایت کے مطابق یہی ہے جب کہ امام شافعی کا مسلک اس کے برخلاف ہے۔ ہودج میں بیٹھنا ممنوع ہے بشرطیکہ سر ہودج میں لگتا ہو، اگر سر ہودج میں نہ لگتا ہو تو پھر اس میں بیٹھنا ممنوع نہیں ہے، اسی طرح اگر کعبہ کا پردہ یا خیمہ سر میں لگتا ہو تو ان کے نیچے کھڑا ہونا ممنوع ہے اور اگر سر میں نہ لگتا ہو تو ممنوع نہیں ہے۔

【3】

وہ چیزیں جو محرم کو پہننا ممنوع ہیں

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے، نیز آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اگر محرم کو جوتے میسر نہ ہوں تو وہ موزے پہن سکتا ہے اور جس محرم کے پاس تہہ بند نہ ہو تو وہ پائجامہ پہن سکتا ہے۔ (بخاری مسلم) تشریح موزوں کے استعمال کے بارے میں تو گزشتہ حدیث میں بتایا جا چکا ہے کہ جوتے میسر نہ ہوں تو محرم موزے پہن سکتا ہے۔ اس صورت میں امام شافعی کے نزدیک اس پر کوئی فدیہ واجب نہیں ہوگا۔ لیکن حضرت امام اعظم کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ اگر تہہ بند نہ ہو تو پائجامہ کو پھاڑ کر اسے تہ بند کی صورت میں باندھ لیا جائے اور اگر کوئی شخص اسے پھاڑ کر استعمال نہ کرے بلکہ پائجامہ ہی پہن لے تو اس پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوگا۔

【4】

وہ چیزیں جو محرم کو پہننا ممنوع ہیں

حضرت یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ جعرانہ میں (کہ جو مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ایک مقام ہے اور جہاں سے آپ ﷺ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) نبی کریم ﷺ کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص جو دیہاتی تھا آیا اس نے کرتہ پہنا ہوا تھا، نیز وہ شخص خلوق میں رنگا بسا تھا (خلوق ایک خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار ہوتی تھی) اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے عمرہ کا احرام اس حالت میں باندھا تھا کہ یہ کرتہ میرے جسم پر تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے اوپر جو خوشبو لگی ہوئی ہے اسے تو تین مرتبہ دھو ڈالو اور کرتہ کو اتار دو اور پھر اپنے عمرہ کے احرام میں وہی کرو جو تم اپنے حج کے احرام میں کرتے ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح زعفران کا استعمال چونکہ مردوں کے لئے حرام ہے اور خلوق زعفران ہی سے تیار ہوتی تھی اس لئے آپ ﷺ نے اس شخص کو یہ حکم دیا کہ وہ اسے دھو ڈالے نیز تین مرتبہ دھونے کا حکم صرف اس لئے دیا تاکہ وہ خوب اچھی طرح چھوٹ جائے ورنہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ خلوق کو بالکل صاف کردو خواہ وہ کسی طرح اور کتنی ہی مرتبہ میں صاف ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں حج کے احرام کی حالت میں ممنوع ہیں وہی عمرہ کے احرام کی حالت میں بھی ممنوع ہیں اس لئے تم عمرہ کے احرام کی حالت میں ان تمام چیزوں سے پرہیز کرو جن سے حج کے احرام کی حالت میں پرہیز کیا جاتا ہے۔ مسئلہ احرام کی حالت میں بغیر خوشبو سرمہ لگانا جائز ہے بشرطیکہ اس سے زیب وزینت مقصود نہ ہو۔ اگر کوئی شخص زیب وزینت کے بغیر خوشبو کا بھی سرمہ لگائے تو مکروہ ہوگا۔ اس موقع پر ایک خاص بات یہ جان لینی چاہئے کہ جو چیزیں احرام کی حالت میں حرام ہوجاتی ہیں ان کا ارتکاب اگر قصداً ہوگا تو متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک اس کی وجہ سے مرتکب پر فدیہ لازم ہوگا۔ ہاں بھول چوک سے ارتکاب کرنے والے پر فدیہ واجب نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت امام شافعی، ثوری، احمد اور اسحق رحمہم اللہ کا قول ہے البتہ امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک اس صورت میں بھی فدیہ واجب ہوگا۔

【5】

حالت احرام میں نکاح کرنے کرانے کا مسئلہ

حضرت عثمان (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ محرم نکاح کرے اسی طرح (ولایۃ یا وکالۃ) نکاح کرانا اور منگنی کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ (مسلم) تشریح حضرت امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک خود اپنا نکاح کرنے یا کسی کا نکاح کرانے کی ممانعت مکروہ تحریمی کے طور پر ہے اور منگنی کرنے کی ممانعت مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے۔ چناچہ ان حضرات کے نزدیک حالت احرام میں نہ تو خود اپنا نکاح کرنا درست ہے اور نہ کسی کا نکاح کرانا جائز ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں تینوں کی ممانعت صرف مکروہ تنزیہی کے طور پر ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے احرام کی حالت میں حضرت میمونہ (رض) سے اپنا نکاح کیا تھا۔

【6】

حالت احرام میں نکاح کرنے کرانے کا مسئلہ

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت میمونہ (رض) سے اس حالت میں نکاح کیا کہ آپ (عمرۃ القضا کا) احرام باندھے ہوئے تھے۔ (بخاری ومسلم)

【7】

حالت احرام میں نکاح کرنے کرانے کا مسئلہ

حضرت یزید بن اصم (تابعی) جو ام المؤمنین حضرت میمونہ (رض) کے بھانجے ہیں اپنی خالہ حضرت میمونہ (رض) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ان (حضرت میمونہ (رض) سے جب نکاح کیا تو آپ ﷺ احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ (مسلم) حضرت امام محی السنہ (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر علماء (یعنی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے علاوہ) اس بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب حضرت میمونہ (رض) سے نکاح کیا تو اس وقت آپ ﷺ حالت احرام میں نہیں تھے۔ ہاں حضرت میمونہ (رض) کے ساتھ آپ ﷺ کے نکاح کا اظہار عام اس وقت ہوا جب آپ ﷺ احرام کی حالت میں تھے، پھر آپ ﷺ نے حضرت میمونہ (رض) کے ساتھ شب زفاف مقام سرف ہی میں جو مکہ کے راستہ میں واقع ہے اس وقت گزاری جب کہ آپ ﷺ احرام کھول چکے تھے۔ تشریح مظاہر حق جدید کی زیر نظر جلد میں ایک موقع پر یہ بتایا جا چکا ہے کہ سرف ایک مقام کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریبا چھ میل اور مقام تنعیم سے جانب شمال تین یا چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے اسی موقع پر ایک تاریخی اتفاق بھی ذکر کیا گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ حضرت میمونہ (رض) کا نکاح بھی سرف میں ہوا (جب کہ آپ ﷺ عمرۃ القضاء کے لئے مکہ تشریف لا رہے تھے اور اس وقت حالت احرام میں تھے) اور ان کی شب زفاف بھی یہیں گزری (جب کہ آپ ﷺ عمرہ سے فارغ ہو کر مدینہ واپس ہو رہے تھے) اور پھر بعد میں ان کا انتقال بھی یہیں ہوا۔ بہرکیف یہ حدیث جسے حضرت میمونہ (رض) کے بھانجے حضرت یزید نے روایت کیا ہے، حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت کے بالکل برخلاف ہے جو اس سے پہلے نقل کی گئی، حضرت ابن عباس (رض) کی روایت تو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت میمونہ (رض) سے حالت احرام میں نکاح کیا تھا جب کہ حضرت یزید کی یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت میمونہ (رض) سے آپ ﷺ کا نکاح اس وقت ہوا تھا جب کہ آپ ﷺ حالت احرام میں نہیں تھے۔ اس طرح ان دونوں روایتوں میں تعارض ہوگیا ہے، چناچہ حنفیہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں اول تو اس وجہ سے کہ حضرت ابن عباس (رض) کو اپنے علم و فضل، قوت حافظہ، فقہی بصیرت اور اپنی شان مرتبت کے اعتبار سے حضرت یزید پر کہیں زیادہ برتری حاصل ہے، دوسرے یہ کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے جب کہ حضرت یزید کی روایت کو صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ اب رہی یہ بات حضرت عثمان (رض) کی روایت (چار) میں احرام کی حالت میں نکاح کرنے کرانے کی ممانعت منقول ہے ؟ تو اس کے بارے میں حنفی علماء لکھتے ہیں کہ اس ممانعت سے یہ مراد ہی نہیں ہے کہ نکاح کرنا کرانا قطعاً ناجائز یا حرام ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ محرم چونکہ ایک عبادت میں مشغول رہتا ہے اس لئے اس کی شان اور اس کے حال کے مناسب یہ نہیں ہے کہ وہ نکاح کرے یا کسی کا کا نکاح کرائے۔ چناچہ اس حدیث کی تشریح میں یہی وضاحت کی گئی تھی کہ یہاں اس ممانعت کا مطلب مکروہ تنزیہی ہے۔ حضرت امام محی السنۃ کے یہ الفاظ وظہر امر تزویجہا وہو محرم (حضرت میمونہ (رض) کے ساتھ آپ کے نکاح کا اظہار عام اس وقت ہوا جب کہ آپ ﷺ احرام کی حالت میں تھے۔ دراصل شوافع کی طرف سے حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت کہ۔ آپ ﷺ نے حضرت میمونہ (رض) سے اس حالت میں نکاح کیا کہ آپ ﷺ احرام باندھے ہوئے تھے۔ کی تاویل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نکاح تو اس وقت ہی کیا تھا جب کہ آپ ﷺ حالت احرام میں نہیں تھے ہاں اس نکاح کا علم لوگوں کو اس وقت ہوا جب آپ ﷺ نے احرام باندھ لیا تھا۔ گویا امام محی السنۃ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) کو بھی اس نکاح کا علم اس وقت ہوا جب کہ آپ ﷺ حالت احرام میں تھے اس لئے وہ یہی سمجھے کہ نکاح آپ ﷺ نے حالت احرام ہی میں کیا ہے حالانکہ شوافع کی طرف سے حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کی یہ تاویل تکلف سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔

【8】

سردھونے کی اجازت

حضرت ابوایوب (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ احرام کی حالت میں اپنا سر مبارک دھوتے تھے۔ (بخاری ومسلم) تشریح بغیر کسی اختلاف کے محرم کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنا سر دھوئے مگر اس طرح کہ سر کا کوئی بال ٹوٹنے نہ پائے، ہاں اگر کوئی خطمی سے سر دھوئے گا تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک اس پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوگا کیونکہ نہ صرف یہ کہ خطمی خوشبو کی قسم سے ہے بلکہ اس کے لگانے سے جویں مرجاتی ہیں۔ البتہ (بغیر خوشبو کے) صابون یا بیری کے پتوں اور یا اسی قسم کی دوسری چیزوں سے سر دھونے کی صورت میں متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا۔

【9】

سینگی کھنچوانا جائز ہے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں بھری ہوئی سینگی کھنچوائی۔ تشریح اکثر علماء کے نزدیک احرام کی حالت میں سینگی کھنچوانا جائز ہے بشرطیکہ کوئی بال نہ ٹوٹے۔

【10】

سرمہ لگانے کا مسئلہ

حضرت عثمان (رض) نے ایک شخص کے بارے میں رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر حالت احرام میں اس کی آنکھیں کہیں یا وہ ضعف بصارت میں مبتلا ہو تو وہ اپنی آنکھوں پر ایلوے کا لیپ کرے۔ (مسلم) تشریح تاج المصادر میں تضمید کے معنی لیپ کرنا ہی لکھتے ہیں۔ لیکن کچھ علماء نے اس کے معنی آنکھوں کے اندر لگانا لکھے ہیں۔ یعنی جس طرح سرمہ لگایا جاتا ہے اسی طرح وہ آنکھوں میں ایلوا لگائے۔ اور علامہ طیبی نے یہ لکھا ہے کہ تضمید زخم پر پٹی باندھنے کو کہتے ہیں اسی طرح زخم پر دوا لگانے کو بھی تضمید کہتے ہیں۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ محرم کو بغیر خوشبو کا سرمہ لگانا جائز ہے اور اس کی وجہ سے بطور جزاء کوئی چیز واجب نہیں ہوتی بشرطیکہ اس سے زیب وزینت مقصود نہ ہو کیونکہ زیب وزینت کے لئے سرمہ لگانا مکروہ ہے۔ اس موقع پر خوشبودار سرمہ کے بارے میں یہ تفصیل جان لیجئے کہ اگر سرمہ میں کم خوشبو ہو تو اس کو لگانے سے صرف صدقہ واجب ہوگا اور اگر خوشبو زیادہ ہوگی تو ایسے سرمہ کو لگانے سے دم یعنی جانور کو ذبح کرنا واجب ہوگا۔ ایسے ہی یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی محرم اپنے سر اور منہ کے علاوہ کسی اور عضو پر پٹی باندھے تو اس پر اگرچہ بطور جزاء کچھ واجب نہیں ہوتا لیکن یہ مکروہ ہے۔ اور اگر کوئی محرم اپنے سر یا منہ کے چوتھائی حصہ یا اس سے زیادہ کو کسی کپڑے وغیرہ سے ڈھانکے گا تو اس پر دم لازم ہوگا اور چوتھائی حصہ سے کم کو ڈھانکے گا تو صرف صدقہ واجب ہوگا۔

【11】

حالت احرام میں سر پر سایہ کرنے کا مسئلہ

حضرت ام حصین (رض) کہتی ہیں کہ میں نے حضرت اسامہ (رض) اور حضرت بلال (رض) کو دیکھا کہ ان میں سے ایک (یعنی حضرت اسامہ) اپنا کپڑا اٹھائے (آپ ﷺ کے اوپر) سورج کی گرمی کی تپش سے سایہ کئے ہوئے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں۔ (مسلم) تشریح حضرت اسامہ (رض) نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر کپڑے سے اس طرح سایہ کر رکھا تھا کہ وہ کپڑا اونچا ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے سر مبارک سے لگتا نہیں تھا۔ اور ایک روایت یہ ہے کہ وہ سایہ کے لئے آنحضرت ﷺ کے مبارک سر پر چھتر کی مانند ایک چیز اٹھائے ہوئے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے سر پر کسی چیز سے سایہ کرلے بشرطیکہ سایہ کرنے والی چیز اس کے سر کو نہ لگے، چناچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے لیکن حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے اسے مکروہ کہا ہے۔

【12】

سرمنڈوانے کی جزا

حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ان کے پاس سے گزرے جب کہ وہ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حدیبیہ میں تھے اور وہ کعب (رض) احرام کی حالت میں تھے یعنی یہ اس موقع کا ذکر ہے جب آپ ﷺ اپنے رفقاء کے ہمراہ عمرہ کے لئے مکہ روانہ ہوئے تھے لیکن مشرکین نے حدیبیہ میں سب کو روک دیا تھا چناچہ سب کے ساتھ کعب (رض) بھی مکہ میں داخل ہونے کے متوقع تھے مگر پھر بعد میں ایک معاہدہ کے تحت کہ جس کو صلح حدیبیہ کہتے ہیں، سب لوگ عمرہ کئے بغیرہ واپس ہوگئے تھے، بہرکیف جب آنحضرت ﷺ کعب کے پاس سے گزرے تو وہ ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے اور جوئیں سر سے جھڑ کر ان کے منہ پر گر رہی تھیں، چناچہ آنحضرت ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا۔ جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر تم اپنا سر منڈوا لو اور بطور جزاء ایک فرق کھانا چھ مسکینوں کو کھلا دو اور فرق تین صاع کا ہوتا ہے یا تین روزے رکھ لو اور یا ایک جانور جو ذبح کرنے کے قابل ہو، ذبح کرو۔ (بخاری ومسلم) تشریح حضرت کعب (رض) بن عجرہ ایک جلیل القدر انصاری صحابی ہیں، صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ بھی موجود تھے، ان کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بڑا دلچسپ بھی ہے اور بڑا سبق آموز بھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایک بت تھا جس کو یہ پوجا کرتے تھے، عبادہ بن صامت ان کے دوست تھے، ایک دن عبادہ کعب کے پاس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کعب بت کی پوجا کرنے کے بعد گھر سے نکل کر گئے ہیں، عبادہ گھر میں داخل ہوئے اور اس بت کو توڑ ڈالا، جب کعب گھر میں آئے تو دیکھا کہ بت ٹوٹا پڑا ہے، انہیں معلوم ہوا کہ یہ حرکت عبادہ کی ہے، بڑے غضب ناک ہوئے اور چاہا کہ عبادہ کو برا بھلا کہیں مگر پھر سوچ میں پڑگئے، دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اس بت کو کچھ بھی قدرت حاصل ہوتی تو اپنے آپ کو بچا لیتا، بس یہ خیال گزرنا تھا کہ شرک و کفر کا اندھیرا چھٹ گیا اور ایمان و صداقت کے نور نے قلب و دماغ کے ایک ایک گوشہ کو منور کردیا اور اس طرح وہ مشرف باسلام ہوگئے، سچ ہے اللہ تعالیٰ جسے ہدایت یافتہ بناتا ہے اسی طرح ہدایت کی توفیق بخش دیتا ہے۔ بہرکیف اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی محرم کسی عذر مثلاً جوئیں، زخم اور درد سر وغیرہ کی وجہ سے اپنا سر منڈوائے تو اسے اختیار ہے کہ بطور جزاء چاہے تو چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے بایں طور کہ ہر مسکین کو آدھا صاع گیہوں دے دے، چاہے تین روزے رکھ لے اور چاہے جانور ذبح کرے۔ چناچہ یہ حدیث اس آیت کریمہ کی تفسیر ہے کہ ( فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِه اَذًى مِّنْ رَّاْسِه فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍ ) 2 ۔ البقرۃ 196) ۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور وہ اپنا سر منڈا دے تو وہ بطور فدیہ یا تو روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔

【13】

احرام میں عورتوں کے لئے ممنوع چیزیں

حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا کہ رسول کریم ﷺ اس سے منع فرماتے تھے کہ عورتیں اپنے احرام کی حالت میں دستانے پہنیں اور اس طرح نقاب ڈالیں کہ وہ نقاب ان کے منہ پر لگتی ہو اور ایسے کپڑے پہنیں جس میں زعفران اور ورس لگی ہو، ہاں اس کے بعد یعنی احرام سے نکلنے کے بعد وہ کپڑوں کی انواع سے جو چاہیں پہنچیں خواہ وہ کسم کا رنگا ہوا ہو۔ ریشم ہو، یا زیور ہو اور خواہ پائجامہ ہو، قمیص ہو یا موزہ ہو۔ (ابوداؤد) تشریح بعد ذالک (اس کے بعد) کا مطلب شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے تو احرام سے نکلنے کے بعد ہی لکھا ہے لیکن ملا علی قاری نے یہ معنی لکھے ہیں کہ ان مذکورہ چیزوں کے بعد یعنی حدیث میں جن چیزوں کے استعمال سے منع کیا گیا ہے ان کے علاوہ اور جس قسم کا بھی کپڑا چاہے پہنے۔ نیز ملا علی قاری نے یہ بھی لکھا ہے کہ (بعد ذالک کے یہ معنی مراد لینے کی صورت میں) حدیث سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ احرام کی حالت میں زعفران کا رنگا ہوا کپڑا پہننا تو ممنوع ہے لیکن کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہننا ممنوع نہیں جب کہ حنفیہ کے مسلک میں حالت احرام میں جس طرح زعفرانی کپڑا پہننا ممنوع ہے اسی طرح کسم کا رنگا کپڑا پہننا بھی ممنوع ہے، چناچہ خزانۃ الاکمل اور ولوالجی اور فقہ کی دوسری کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ اگر کسی محرم نے زعفران یا کسم میں رنگا ہوا کپڑا ایک دن پہنا تو اس پر بطور جزاء دم واجب ہوتا ہے اور اگر ایک دن سے کم پہنا تو صدقہ لازم ہوگا، لہٰذا اول تو یہی بہتر ہے کہ بعد ذالک کے وہی معنی مراد لئے جائیں جو شیخ عبدالحق نے لکھے ہیں، یا پھر یہ تاویل کی جائے کہ حدیث میں کسم کا وہ رنگا ہوا کپڑا مراد ہے جو دھل چکا ہو اور جس میں خوشبو باقی نہ رہ گئی ہو۔ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث کے آخر میں کپڑوں کے ساتھ زیور کا ذکر مجازاً کیا گیا ہے۔

【14】

احرام میں پردہ کا طریقہ

ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ہم سفر کے دوران حالت احرام میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے اور احرام کی وجہ سے ہمارے منہ کھلے ہوئے تھے اور ہمارے قریب سے قافلے گزرتے رہے، چناچہ جب کوئی قافلہ ہمارے سامنے سے گزرتا تو ہم میں سے ہر عورت پردہ کی غرض سے اپنی چادر اپنے سر پر تان کر اپنے منہ پر اس طرح ڈال لیتی تھی کہ وہ چادر اس کے منہ کو نہ لگتی اور جب قافلہ ہمارے سامنے سے گزر جاتا تو ہم اپنا منہ کھول دیتے تھے۔ (ابوداؤد) ابن ماجہ نے بھی اسی مضمون کی ایک روایت نقل کی ہے۔

【15】

حالت احرام میں خوشبودار تیل استعمال کرنا ممنوع ہے

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ احرام کی حالت میں بغیر خوشبو کا زیتون کا تیل استعمال کرتے تھے۔ (ترمذی) تشریح مقتت اس تیل کو کہتے ہیں جس میں خوشبو کے پھول ڈال کر اسے پکا لیا جائے تاکہ وہ تیل خوشبو دار ہوجائے یا اس تیل میں کوئی خوشبو دار تیل وغیرہ ملا دیا جائے۔ احرام کی حالت میں خوشبودار تیل استعمال کرنا مکروہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی محرم کسی ایک عضو کے پورے حصہ پر یا کئی یا سب اعضاء پر روغن بنفشہ، روغن گلاب، روغن موتیا یا اسی قسم کا کوئی بھی خوشبودار تیل لگائے گا تو حنفیہ کے ہاں بالاتفاق اس پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوگا اور اگر زیتون یا تل کا ایسا تیل کہ جس میں خوشبو نہ ملی ہوئی ہو زیادہ مقدار میں لگائے گا تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس صورت میں بھی دم واجب ہوگا جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کہتے ہیں کہ صدقہ واجب ہوگا۔ لیکن یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب کہ یہ دونوں تیل خوشبو سے بالکل خالی اور کسی خوشبودار پھول کے پکائے ہوئے نہ ہوں، کیونکہ اگر زیتون کے یا تل کے تیل میں خوشبو ملی ہوگی یا اس میں خوشبودار پھول ڈال کر پکایا گیا ہو تو پھر سب ہی کے نزدیک اس کو استعمال کرنے کی وجہ سے دم واجب ہوگا۔ اسی طرح یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب کہ یہ تیل زیادہ مقدار میں لگائے جائیں اور اگر کم مقدار میں لگایا جائے گا تو متفقہ طور پر سب کے نزدیک اس کے استعمال کرنے سے صرف صدقہ واجب ہوگا۔ اور پھر ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ ان تیلوں کے استعمال کی وجہ سے دم یا صدقہ اسی وقت واجب ہوگا جب کہ ان کو محض خوشبو کی خاطر استعمال کیا جائے اور اگر انہیں دوا کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو پھر علی الاتفاق کچھ بھی واجب نہیں ہوگا۔ جب کہ مشک یا دوسری خوشبوؤں کے استعمال کا مسئلہ اس سے مختلف ہے کہ ان کے استعمال سے بہر صورت دم واجب ہوتا ہے خواہ بطور خوشبو استعمال ہو خواہ بطور دوا۔

【16】

سلے ہوئے کپڑوں کو بدن پر ڈال لینے کا مسئلہ

حضرت نافع (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) کو (حالت احرام میں ایک موقع پر) سردی لگنے لگی تو انہوں نے فرمایا کہ نافع (رض) ! مجھ پر کوئی کپڑا ڈال دو ، چناچہ میں نے ان کے بدن پر برساتی ڈال دی تو انہوں نے فرمایا کہ تم میرے بدن پر یہ برساتی ڈال رہے ہو ؟ حالانکہ رسول کریم ﷺ نے محرم کو اس کے پہننے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد) تشریح حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ سلے ہوئے کپڑے کو اس طرح استعمال کرنا محرم کے لئے ممنوع ہے جس طرح اسے عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے بصورت دیگر ممنوع نہیں ہے مثلاً برساتی عام طور پر پہنی جاتی ہے۔ اگر کوئی محرم اسے پہنے نہیں بلکہ ایسے ہی جسم پر ڈال لے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ اس بارے میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ چناچہ حضرت ابن عمر (رض) نے برساتی کو اپنے جسم پر ڈال لینے سے بھی منع یا تو اس لئے فرمایا کہ وہ اپنے خیال کی بناء پر سلے ہوئے کپڑے کو مطلقاً کسی بھی استعمال کرنے سے اجتناب کرتے ہوں گے یا پھر یہ کہ نافع نے ان کا سر بھی ڈھانک دیا ہوگا۔ اس وجہ سے انہوں نے منع فرمایا۔

【17】

آنحضرت ﷺ کا پچھنے لگوانا

حضرت عبداللہ بن مالک (رض) جو بحینہ کے بیٹے ہیں کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مکہ کے راستے میں لحی جمل کے مقام پر بحالت احرام اپنے سر کے بیچوں بیچ سینگی کھنچوائی۔ (بخاری و مسلم) تشریح مالک، حضرت عبداللہ کے باپ کا نام ہے اور بحینہ ان کی ماں کا نام ہے گویا ابن بحینہ، حضرت عبداللہ کی دوسری صفت ہے اسی لئے، عبداللہ بن مالک ابن بحینہ، میں مالک کو تنوین کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ابن بحینہ، میں الف لکھا جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جب سر کے بیچوں بیچ پچھنے لگوائے تو سر مبارک کے بال کچھ نہ کچھ ضرور ٹوٹے ہوں گے لہٰذا یہ حدیث ضرورت پر محمول ہے کہ آپ ﷺ نے کسی عذر و ضرورت کی بناء پر سر میں پچھنے لگوائے تھے، چناچہ اگر محرم کسی ایسی جگہ پچھنے لگوائے جہاں بال ہوں تو اس پر فدیہ واجب نہیں ہوتا۔ مسئلہ اگر کوئی محرم سر کے بال چوتھائی حصہ سے کم منڈوائے یا پچھنے وغیرہ کی وجہ سے اس کے سر کے چوتھائی حصہ سے کم بال ٹوٹ جائیں تو اس پر صدقہ واجب ہوگا یعنی وہ بطور جزاء یا تو کسی بھوکے کے پیٹ بھر کھانا کھلا دے یا اسے نصف صاع گیہوں دے دے۔ اگر کوئی محرم بلاعذر چوتھائی سر سے زیادہ منڈوا دے یا بلا عذر پچھنے لگوا لے اور اس کی وجہ سے چوتھائی سر سے زیادہ بال ٹوٹ جائیں تو اس پر دم واجب ہوگا یعنی وہ بطور جزاء ایک بکری یا اس کی مانند کوئی جانور ذبح کرے اور اگر کوئی کسی عذر کی بناء پر چوتھائی سر سے زیادہ منڈوائے یا کسی عذر کی وجہ سے پچھنے لگوائے اور اس کی وجہ سے چوتھائی سر سے زائد بال ٹوٹ جائیں تو اسے تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کا اختیار ہوگا کہ چاہے تو وہ ایک بکری ذبح کرے، چاہے نصف صاع فی مسکین کے حساب سے چھ مسکینوں کو تین صاع گیہوں دے اور چاہے تین روزے رکھے خواہ تین روزے مسلسل رکھ لے یا متفرق طور پر۔ اگر کوئی محرم پچھنے لگوانے کی وجہ سے محاجم یعنی پچھنوں کی جگہ سے بال منڈوائے تو اس صورت میں امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو اس پر دم واجب ہوگا اور صاحبین کے نزدیک صدقہ۔ پچھنوں کی جگہ سے گردن کے دونوں کنارے اور گدی مراد ہے، اس لئے اگر کوئی پوری گردن منڈوائے گا تو پھر متفقہ طور پر سب کے نزدیک اس پر دم واجب ہوگا اور اگر پوری سے کم منڈوائے گا تو صدقہ واجب ہوتا ہے ! خود بخود بال ٹوٹنے سے کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔

【18】

آنحضرت ﷺ کا پچھنے لگوانا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے احرام کی حالت میں اپنے پیر کی پشت پر پچھنے لگوائے کیونکہ آپ ﷺ کے درد تھا۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح پیر کی پشت پر چونکہ بال نہیں ہوتے اور وہاں پچھنے لگوانے سے بال ٹوٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے اس حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے اور پھر یہ کہ آپ ﷺ نے ایک عذر یعنی درد کی وجہ سے یہ پچھنے لگوائے تھے۔

【19】

حضرت میمونہ سے آپ ﷺ کا نکاح

حضرت ابورافع (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جب حضرت میمونہ (رض) سے نکاح کیا تو آپ ﷺ حالت احرام میں نہیں تھے اور جب ان کے ساتھ شب زفاف گزاری تب بھی حالت احرام میں نہیں تھے۔ نیز ان دونوں کے درمیان نکاح کا پیغام لے جانے والا میں تھا۔ (احمد، ترمذی) امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ تشریح یہ حدیث بھی حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت کے برخلاف ہے جس میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت میمونہ (رض) سے نکاح اس وقت کیا تھا جب کہ آپ ﷺ حالت احرام میں تھے، اس بارے میں حدیث نمبر چھ کی تشریح میں بحث کی گئی تھی، اس موقع پر بھی یہ جان لیجئے کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے جب کہ اس روایت کو ان دونون میں سے کسی نے بھی نقل نہیں کیا ہے، اس بنیاد پر یہ روایت چونکہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے مرتبہ کو نہیں پہنچتی اس لئے ترجیح حضرت ابن عباس (رض) ہی کی روایت کو حاصل ہوگی۔