7. حیض کا بیان

【1】

حیض کا بیان

لغت میں حیض کے معنی جاری ہونا ہیں اور اصطلاح شریعت میں حیض اس خون کو کہا جاتا ہے جو عورت کے رحم سے بغیر کسی بیماری اور ولادت کے جاری ہوتا ہے اور جسے عرف عام میں ماہواری یا ایام بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح رحم عورت سے جو خون کسی مرض کی وجہ سے آتا ہے اسے استخاضہ اور جو خون ولادت کے بعد جاری ہوتا ہے اسے نفاس کہتے ہیں۔ حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے لہٰذا اس مدت میں خون خالص سفیدی کے علاوہ جس رنگ میں بھی آئے وہ حیض کا خون شمار ہوگا یعنی حیض کے خون کا رنگ سرخ بھی ہوتا ہے اور سیاہ و سبز بھی، نیز زرد اور مٹی کے رنگ جیسا بھی حیض کے خون کا رنگ ہوتا ہے۔ ایام حیض میں نماز، روزہ نہ کرنا چاہئے البتہ ایام گزر جانے کے بعد روزے تو قضاء ادا کئے جائیں گے مگر نماز کی قضا نہیں ہوگی۔ مناسب ہے کہ اس موقعہ پر حیض کے کچھ مسائل و احکام (ماخوذ از علم الفقہ) ذکر کر دئیے جائیں۔ (١) اگر کوئی عورت سو کر اٹھنے کے بعد خون دیکھے تو اس کا حیض اسی وقت سے شمار ہوگا جب سے وہ بیدار ہوئی ہے اس سے پہلے نہیں اور اگر کوئی حائضہ عورت سو کر اٹھنے کے بعد اپنے کو طاہر پائے تو جب سے سوئی ہے اسی وقت سے طاہر سمجھی جائے گی۔ (٢) حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے ناف اور زانوں کے درمیان کے جسم کو دیکھنا یا اس سے اپنے جسم کو ملانا بشرطیکہ کوئی کپڑا درمیان میں نہ ہو مکروہ تحریمی ہے اور جماع کرنا حرام ہے۔ (٣) حیض والی عورت اگر کسی کو قرآن مجید پڑھاتی ہو تو اس کو ایک ایک لفظ رک رک کر پڑھانے کی غرض سے کہنا جائز ہے۔ ہاں پوری آیت ایک دم پڑھ لینا اس وقت بھی ناجائز ہے۔ (٤) حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے بوسے لینا، اس کا استعمال کیا پانی وغیرہ پینا اور اس سے لپٹ کر سونا اور اس کے ناف اور ناف کے اوپر اور زانوں کے نیچے کے جسم سے اپنے جسم کو ملانا اگرچہ کپڑا درمیان میں نہ ہو اور ناف وزانوں کے درمیان کپڑے کے ساتھ ملا ناجائز ہے بلکہ حیض والی عورت سے علیحدہ ہو کر سونا یا اس کے اختلاط سے بچنا مکروہ ہے۔ (٥) جس عورت کا حیض دس دن اور دس راتیں آکر بند ہوا ہو تو اس سے بغیر غسل کے خون بند ہوتے ہی جماع جائز ہے اور جس عورت کا خون دس دن سے کم آکر بند ہوا ہو تو اگر اس کی عادت سے بھی کم آکر بند ہوا ہے تو اس سے جماع جائز نہیں۔ جب تک کہ اس کی عادت نہ گزر جائے اور عادت کے موافق اگر بند ہوا ہے تو جب تک غسل نہ کرے یا ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے جماع جائز نہیں۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد بغیر غسل کے بھی جائز ہوگا۔ نماز کے وقت گزر جانے سے یہ مقصود ہے کہ اگر شروع وقت میں خون بند ہوا تو باقی وقت سب گزر جائے اور اگر آخر وقت میں خون بند ہوا تو اس قدر وقت ہونا ضروری ہے کہ جس میں غسل کر کے نماز کی نیت کرنے کی گنجائش ہو اور اگر اس سے بھی کم وقت باقی ہو تو پھر اس کا اعتبار نہیں دوسری نماز کا پورا وقت گزرنا ضروری ہے۔ یہی حکم نفاس کا ہے کہ اگر چالیس دن آکر بند ہوا ہو تو خون بند ہوتے ہی بغیر غسل کے اور اگر چالیس دن سے کم آکر بند ہوا ہو اور عادت سے بھی کم ہو تو بعد عادت گزر جانے کے اور اگر عادت کے موافق بند ہوا ہو تو غسل کے بعد یا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد جماع وغیرہ جائز ہے۔ ہاں ان کے سب صورتوں میں مستحب ہے کہ بغیر غسل کے جماع نہ کیا جائے۔ (٦) جس عورت کا خون دس دن اور راتوں سے کم آکر بند ہوا اور عادت مقرر ہوجانے کی شکل میں عادت سے بھی کم ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا واجب ہے اس خیال سے کہ شاید پھر خون آجائے مثلاً عشاء کے شروع وقت خون بند ہوا ہو تو عشاء کے آخر وقت مستحب یعنی نصف شب کے قریب تک اس کو غسل میں تاخیر کرنا چاہئے اور جس عورت کا حیض دس دن یا عادت مقرر ہونے کی شکل میں عادت کے موافق آکر بند ہوا ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔ (٧) اگر کوئی عورت غیر زمانہ حیض میں کوئی ایسی دوا استعمال کرے جس سے خون آجائے تو وہ حیض نہیں مثلاً کسی عورت کو مہینے میں ایک دفعہ پانچ دن حیض آتا ہو تو اس کے حیض کے پانچ دن کے بعد کسی دوا کے استعمال سے خون آجائے تو وہ حیض نہیں۔ (٨) اگر کسی عادت والی عورت کو خون جاری ہوجائے اور برابر جاری رہے اور اس کو یہ یاد نہ رہے کہ مجھے کتنے دن حیض آتا تھا یا پھر یہ یاد نہ رہے کہ مہینہ کی کس کس تاریخ سے شروع ہوتا تھا اور کب ختم ہوتا تھا۔ یا دونوں باتیں یاد نہ رہیں تو اس کو چاہئے کہ اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جس زمانے کو وہ حیض کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں حیض کے احکام پر عمل کرے اور جس زمانے کو طہارت کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں طہارت کے احکام پر عمل کرے اور اگر اس کا گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھنی چاہئے اور روزہ بھی رکھے مگر جب اس کا یہ مرض رفع ہوجائے روزہ کی قضاء ادا کرنی ہوگی اور اگر اس کو شک کی کیفیت ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانے کی نسبت یہ شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا تو اس صورت میں ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانہ کی نسبت پر شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا یا حیض سے خارج ہونے کا تو اس صورت میں وہ ہر نماز کے وقت غسل کر کے نماز پڑھ لے۔

【2】

حیض کا بیان

حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ یہود میں سے جو کوئی عورت ایام سے ہوجاتی تو وہ لوگ نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے نہ تھے بلکہ گھروں میں سونا بیٹھنا تک چھوڑ دیتے تھے چناچہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں حکم پوچھا (کہ حائضہ عورتوں کے بارے میں یہودیوں کا تو یہ عمل ہے لیکن ہم کیا کریں ؟ ) جبھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ( وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْض) 2 ۔ البقرۃ 222) (یعنی یہ لوگ آپ ﷺ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں الخ نازل فرمائی (آیت کے نازل ہونے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ) تم اپنی عورتوں کے ساتھ جب کہ وہ حائضہ ہوں) سوائے صحبت کے جو چاہے کیا کرو جب یہ خبر یہودیوں کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ آدمی یعنی محمد ﷺ ہمارے جس دینی امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس میں ہماری مخالفت ضرور کرتے ہیں۔ (یہود کی زبانی یہ سن کردو صحابہ کرام) حضرت اسید ابن حضیر اور حضرت عباد ابن بشر (رض) (دربار رسالت میں) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں (یعنی انہوں نے یہودیوں کا کلام نقل کیا اور پھر یہ کہا کہ) اگر اجازت ہو (یہودیوں کی موافقت کے لئے) ہم اپنی عورتوں کے پاس (ایام حیض) میں رہنا سہنا چھوڑ دیں۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور ہمیں یہ گمان ہوگیا کہ آپ ﷺ ان دونوں پر خفا ہوگئے ہیں۔ چناچہ وہ دونوں بھی نکل کر چل دئیے۔ ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ کے پاس کہیں سے تحفہ میں دودھ آگیا، آپ ﷺ نے ان دونوں کے پیچھے (کسی آدمی کو بلانے کے لئے) بھیجا (جب وہ آگئے تو) آپ ﷺ نے انہیں وہ دودھ پلا دیا (تاکہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے لطف و کرم کا احساس ہوجائے چناچہ دودھ پینے کے بعد انہوں نے جانا کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ناراض نہیں ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح پوری آیت یہ ہے ( وَيَسْ َ لُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ قُلْ ھُوَ اَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَا ءَ فِي الْمَحِيْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَ طْهُرْنَ ) 2 ۔ البقرۃ 222) اور (اے محمد ﷺ صحابہ کرام حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں سو آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم) ان سے کہہ دیجئے کہ وہ تو نجاست ہے لہٰذا ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تم وہ پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور ان سے مقاربت نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں جماع نہ کرو، اس کے علاہ تمام چیزیں جائز ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ کھانا، پینا، گھروں میں رہنا سہنا، لیٹنا، بیٹھنا یہاں تک کہ عورت کے ناف کے اوپر کے حصے سے اپنا بدن ملانا یا ہاتھ لگانا یہ سب چیزیں جائز ہیں۔ لہٰذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایام حیض میں اگر کوئی آدمی جماع کرے گا تو وہ آدمی گنہ گار ہوگا کیونکہ یہ حرام ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی اپنی عورت سے ایام حیض میں یہ سمجھ کر جماع کرے کے یہ حلال اور جائز ہے تو وہ کافر ہوجائے گا کیونکہ اس کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہوتا ہے، (دونوں صحابہ کرام نے یہود کی باتیں سن کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جو معروضہ پیش کیا تھا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کرلیجئے کہ اللہ نخواستہ ان کے ذہن میں اس حکم کی کوئی اہمیت نہ تھی یا یہ کہ ایک اسلامی حکم کے مقابلے میں یہودیوں کی بات کا انہیں زیادہ خیال تھا بلکہ ان کا مطلب تو صرف یہ تھا کہ آپ ﷺ اجازت دیں تو ہم عورتوں کے ساتھ ایام حیض میں اٹھنا بیٹھنا ترک کردیں اور ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیں، تاکہ یہود جو طعن کرتے ہیں وہ نہ کریں اور ہم آپس میں الفت و یک جہتی کے ساتھ رہا کریں۔

【3】

حیض کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں جنابت کی حالت میں ایک برتن سے نہا لیا کرتے تھے۔ (اور بعض اوقات) میں ایام سے ہوتی تو آپ ﷺ مجھے (تہ بند باندھنے کے واسطے) ارشاد فرماتے جب میں تہبند باندھ لیتی تو آپ ﷺ مجھ سے (ناف کے اوپر اوپر) اپنے بدن کو لگا کر لیٹ جایا کرتے تھے اور (بعض مرتبہ) آپ اعتکاف میں ہوتے اور اپنا سر مبارک (مسجد سے) باہر نکال دیتے تو میں اپنے ایام کی حالت میں آپ ﷺ کا سر مبارک دھویا کرتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عرب کے قاعدے اور معمول کے مطابق ایک بڑا برتن جو طشت کی قسم کا ہوتا تھا پانی سے بھرا ہوا رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے درمیان رکھا ہوتا اور یہ دونوں اس میں سے چلو بھر بھر کر نہاتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے جسم کے اس حصے سے فائدہ اٹھانا جو ناف کے نیچے اور زانو کے اوپر ہوتا ہے حرام ہے۔ یعنی وہاں ہاتھ لگانا اور جماع کرنا ممنوع ہے چناچہ اس کی وضاحت دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے اور یہی مسلک امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور امام مالک (رح) کا ہے۔ امام محمد، امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما اور بعض شوافع حضرات کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ عورت سے صرف وطی یعنی شرمگاہ میں دخول کرنا حرام ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا حجرہ مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا یہاں تک کہ اس کا دروازہ بھی مسجد ہی کی طرف کھلا ہوا تھا۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف میں ہوتے تھے تو اپنے سر مبارک اسی دروازے سے حجرے کی طرف نکال دیتے تھے وہاں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیٹھ کر آپ ﷺ کا سر مبارک دھو دیتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اعتکاف میں بیٹھا ہو اور اپنے جسم کے کسی حصے کو مسجد سے باہر نکالے تو اس سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا۔

【4】

حیض کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں حالت ایام میں پانی پی کر (وہ برتن) رسول اللہ کو دے دیا کرتی تھی آپ ﷺ اسی جگہ سے جہاں میرا منہ لگا ہوتا تھا منہ لگا کر پی لیتے اور کبھی میں ایام کی حالت میں ہڈی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر وہ ہڈی رسول اللہ ﷺ کو دے دیتی آپ ﷺ اسی جگہ پر منہ رکھ کر گوشت کو نوچتے جہاں سے میں نے منہ رکھ کر نوچا ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم) تشریح آپ ﷺ کا یہ عمل دو وجہ سے ہوا کرتا تھا اول تو یہ کہ آپ ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے بےانتہا محبت تھی دوسری یہ کہ آپ ﷺ کو یہودیوں کی مخالفت منظور ہوتی تھی چناچہ یہودی تو کہاں حائضہ عورت کے ساتھ گھر میں رہنا اور ان کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہ کرتے تھے اور ادھر یہ معمول تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ایام حیض میں برتن میں جس جگہ سے منہ لگا کر پانی پیا کرتی تھیں آپ ﷺ بھی اسی جگہ منہ (لگا کر پانی پیتے اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) جس جگہ سے منہ لگا کر ہڈی سے گوشت کو نوچا کرتی تھیں آپ ﷺ بھی اسی جگہ منہ لگا کر ہڈی سے گوشت نوچا کرتے تھے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جائز ہے نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے اعضائے بدن نجس و ناپاک نہیں ہوتے۔

【5】

حیض کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ میں ایام کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ ﷺ میری گود میں سہارا دے کر بیٹھ جاتے اور قرآن کریم پڑھتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث نے بھی اس بات کی وضاحت کردی کہ حائضہ عورت ظاہری طور پر پاک ہوتی ہے اس کی ناپاکی کا حکم صرف حکمًا ہے اس لئے اگر حائضہ عورت ظاہراً پاک نہ ہوتی اور اس کے بدن کے اعضاء نجس ہوتے تو سرکار دو عالم ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی گود میں سہارا دے کر جب کہ وہ حالت ایام میں ہوا کرتی تھیں نہ بیٹھتے اور نہ اس طرح بیٹھ کر قرآن کریم پڑھتے۔

【6】

حیض کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد میں سے چھوٹا بوریہ (جائے نماز) اٹھا کر مجھے دے دو (یعنی باہر کھڑی ہو کر اندر ہاتھ ڈال کر بوریا اٹھالاؤ) میں نے عرض کیا کہ میں تو ایام سے ہوں۔ (اس لئے مسجد میں ہاتھ کیسے داخل کرسکتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا۔ تمہارے ہاتھ میں تو حیض نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ مسجد سے باہر کھڑی ہو کر مسجد کے اندر سے کوئی چیز اٹھالے تو جائز ہے۔ کیونکہ ایام والی عورت کو صرف مسجد کے اندر جانا منع ہے نہ کہ مسجد کے اندر ہاتھ داخل کرنا بھی۔

【7】

حیض کا بیان

اور ام المومنین حضرت میمونہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسی چادر میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے کہ جس کا کچھ حصہ تو آپ ﷺ کے اوپر ہوتا تھا اور کچھ حصہ مجھ پر ہوتا تھا اور میں ایام سے ہوتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ حائضہ کا پورا جسم ناپاک نہیں ہوتا بلکہ اس کی شرم گاہ کے علاوہ تمام بدن پاک ہوتا ہے کیونکہ حائضہ کا پورا بدن اگر ناپاک ہوتا ہو تو ایسی چادر میں نماز جائز نہ ہوتی جس کا بعض حصہ تو نمازی پر پڑا ہو اور بعض حصہ نجاست و ناپاکی پر۔ حضرت سید جمال الدین (رح) فرماتے ہیں کہ صاحب تخریج نے لکھا ہے کہ میں نے یہ حدیث یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ان کے الفاظ کے ساتھ نہیں پائی ہے البتہ ان میں نیز ابوداؤد میں اس مضمون کی احادیث مذکور ہیں۔

【8】

حیض کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایام والی عورت سے صحبت کی یا عورت کے پیچھے کی طرف بدفعلی کی۔ یا کسی کاہن کے پاس (غیب کی باتیں پوچھنے) گیا تو اس آدمی نے (گویا) محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم) پر نازل کئے گئے دین کا کفر کیا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، دارمی) ابن ماجہ اور دارمی کی روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کاہن کے کہے ہوئے کی اس نے تصدیق بھی کردی تو وہ کافر ہے۔ اور امام ترمذی (رح) نے فرمایا ہے کہ ہمیں یہ حدیث معلوم نہیں سوائے اس سند کے کہ اسے حکیم اثرم، ابوتمیمہ سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابوہریرہ (رض) سے۔ تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حلال اور جائز سمجھ کر کسی حائضہ سے جماع کرے یا کسی عورت کے پیچھے کی طرف بدفعلی کرے یا کاہن کے پاس جائے اور کاہن اسے غیب کے متعلق جو چیزیں بتائے انہیں وہ سچ جانے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ اور اگر یہ شکل ہو کہ کوئی آدمی حائضہ عورت سے جماع یا عورت سے لواطت کرے مگر یہ سمجھتا ہو کہ یہ حلال اور جائز نہیں ہے وہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی کاہن کے پاس جائے مگر اس نے جو چزیں بتائی ہیں اس کو سچ نہ جانے تو بھی فاسق ہوگا۔ اس صورت میں اس حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جس آدمی نے ایسا کیا گویا اس نے کفران نعمت کیا۔ کاہن اس آدمی کو کہتے ہیں جو آئندہ واقعات کی خبر دیتا ہے اور نجومی اسے کہتے ہیں جو ستاروں کی مدد سے خبر دیتا ہے۔ کاہن اور نجومی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ جس طرح کاہن کے پاس غیب کی خبریں جاننے کے لئے جانا ممنوع ہے اور اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنا کفر ہے اسی طرح نجومی کے پاس بھی جانا فسق اور اس کی بتائی باتوں کو سچ جاننا کفر ہے۔ اس حدیث میں پیچھے کی طرف بدفعلی کرنے کے سلسلے میں صرف عورت کی جو قید لگائی ہے اور وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد سے اغلام کرنا اس سے بھی زیادہ برا ہے۔

【9】

حیض کا بیان

اور حضرت معاذ ابن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میری بیوی کے ایام کی حالت میں میرے واسطے کیا کیا جائز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ چیز جو تہ بند کے اوپر ہو۔ اور اس سے بھی بچنا بہت ہی بہتر ہے۔ (رزین اور محی السنۃ فرماتے ہیں اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے) ۔ تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے ایام کی حالت میں اس کی تہ بند کے اوپر ہاتھ وغیرہ لگانا یا تہ بند کے اوپر اختلاط کرنا اور بوس و کنار کرنا جائز ہے۔ مگر ان چیزوں سے بھی پرہیز کرنے کو زیادہ بہتر اور افضل اس لئے کہا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ان امور کی وجہ سے خواہش نفسانی بھڑک اٹھے اور کوئی آدمی جذبات سے مغلوب ہو کر جماع کر بیٹھے اس لئے اس حرام فعل سے بچنے کے لئے مناسب ہے کہ ان امور سے بھی اجتناب کیا جائے جو اس کے لئے ممد اور سبب بنتے ہیں۔ اور جہاں تک رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کا سوال ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے تہ بند کے اوپر اوپر ہاتھ لگاتے تھے اور اختلاط کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ سرکار دو عالم ﷺ اپنے نفس اور جذبات پر قادر تھے۔ اس کے برخلاف دوسرے لوگوں سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی وہ رسول اللہ ﷺ کی طرح اپنے جذبات اور نفس پر قابو رکھ سکیں گے۔

【10】

حیض کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے تو اسے نصف دینار صدقہ کردینا چاہئے۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد، دارمی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی) تشریح ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونے کا ہوتا ہے۔ اگر سونا روپے تولہ ہو تو ایک دینار چھ روپے کا ہوا اور آدھا دینار تین روپے کا۔ خطابی نے کہا ہے کہ اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرلے تو اس کا کفارہ صرف استغفار ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنفیہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر امام شافعی (رح) یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی حائضہ عورت سے اس وقت جماع کیا جب کہ خون جاری تھا تو اسے ایک دینار صدقہ کرنا مستحب ہے اسی طرح اگر کسی نے انقطاع خون کے بعد صحبت کی تو اسے بھی نصف دینار صدقہ کرنا مستحب ہے۔ حضرت ابن ہمام حنفی حرمہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے یہ سمجھ کر صحبت کرے کہ یہ حلال ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور جس آدمی نے اسے حرام سمجھتے ہوئے کیا تو اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا لہٰذا اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خداوند کریم کی بارگاہ میں اس حرام فعل کے صدور پر شر مسار ہو کر اس سے توبہ و بخشش کا خواست گار ہو اور ایک دینار یا نصف دینار از روئے استحباب صدقہ کرلے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عبداللہ ابن عباس (رض) پر مرسل ہے یا موقوف ہے کیونکہ اس حدیث کا رسول اللہ ﷺ تک مرفوع متصل ہونا ثابت نہیں ہے۔

【11】

حیض کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (ایام کی حالت میں اگر حیض کا) خون سرخ رنگ کا ہو (اور اس حالت میں کوئی صحبت کرے) تو ایک پورا دینار اور اگر خون کا رنگ زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرنا لازم ہے) ۔ (جامع ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں جماع کرنے سے جو صدقہ دیا جاتا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ جماع کے وقت اگر حیض کے خون کا رنگ سرخ ہو تو ایک دینار صدقہ کرنا ضروری ہے اور اگر حیض کے خون کا رنگ زرد ہو تو آدھا دینار صدقہ کرنا چاہئے چناچہ جو علماء کرام فرماتے ہیں کہ ابتدائے حیض میں صحبت کرنے کی وجہ سے ایک دینار اور حالت انقطاع میں نصف دینار مستحب ہے۔ وہ اسی حدیث سے استدلال ہیں کیونکہ ابتداء میں حیض کے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور آخر میں زرد ہوجاتا ہے۔

【12】

حیض کا بیان

حضرت زید ابن اسلم (بھی) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میرے لئے میری بیوی سے جب کہ وہ ایام کی حالت میں ہو تو کیا جائز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے جسم پر اس کا تہ بند خوب مضبوط باندھ لو پھر تہبند کے اوپر تمام کام ہے۔ (یعنی ناف سے اوپر تم کو اختلاط مباح ہے اور ناف کے نیچے حرام ہے۔ (مالک اور دارمی نے اس حدیث کو بطریق ارسال روایت کیا ہے)

【13】

حیض کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب میں ایام سے ہوجاتی تو بستر سے اتر کر بوریہ پر آجاتی تھی، چناچہ جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجاتی نہ تو رسول اللہ ﷺ ان کے نزدیک آتے تھے اور نہ وہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک آتی تھیں۔ (سنن ابوداؤد) تشریح بظاہر یہ حدیث ان احادیث کے بالکل برعکس ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ایام کی حالت میں ان کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرتے تھے چناچہ خود حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہی سے ایسی احادیث مروی ہیں۔ جن میں انہوں نے بتایا ہے کہ آنحضرت ﷺ ان سے ایام حیض میں اختلاط کرتے تھے۔ لہٰذا اس تعارض کو ختم کرنے کے لئے یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث ان احادیث سے مسنوخ ہے۔ یا پھر اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ یہاں نزدیک نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایام کی حالت میں جماع کے لئے ایک دوسرے کے قریب نہ آتے تھے جیسا کہ قرآن مجید کی آیت (لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ) 2 ۔ البقرۃ 222) میں ان کے نزدیک نہ آؤ جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں کا مطلب یہ کیا جاتا ہے کہ ان سے جماع نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں۔ یہاں حدیث کے الفاظ فلم یَقْرُبْ میں حرف ی زبر کے ساتھ اور حرف ر پیش کے ساتھ ہے اسی طرح لَمْ تدن حتی تطھر دونوں حرف ت کے ساتھ ہیں۔ چناچہ مشکوٰۃ کے اکثر صحیح نسخوں میں اسی طرح یہ الفاظ مذکور ہیں مگر نسخہ سید جمال الدین (رح) کے حاشیے میں لکھا ہے کہ صحیح فَلَمْ نَقْرِبْ نون اور حرف ر کے زبر کے ساتھ ہے نیز رسول اللہ ﷺ کے لام کو زبر ہے۔ اسی طرح لم ندن پہلے نون کے زبر اور دوسرے نون کے پیش کے ساتھ ہے اور لفظ نطہر میں بھی نون ہے اور میرک شاہ (رح) نے لکھا ہے کہ اصل ابوداؤد میں یہ الفاظ اسی طرح ہیں۔