71. محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان

【1】

حالت احرام میں آنحضرت ﷺ کا شکار سے اجتناب

حضرت صعب (رض) بن جثامہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حمار وحشی (گورخر) بطور ہدی کے بھیجا جب کہ آپ ﷺ مقام ابواء یا ودان میں کہ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں تشریف فرما تھے آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا اور جب آپ ﷺ نے اس کی وجہ سے ان کے چہرہ پر غم و افسوس کے آثار محسوس کئے تو فرمایا کہ ہم نے تمہارا ہدیہ اس لئے واپس کردیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح بظاہر یہ حدیث ان حضرات کی دلیل ہے جو مطلق شکار کا گوشت کھانے کو محرم کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور چونکہ حنفیہ کا مسلک جو باب کی ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے حضرت عمر (رض) حضرت ابوہریرہ (رض) حضرت طلحہ بن عبیدا للہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کے قول کے مطابق ہے اس لئے حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ زندہ گورخر بطور شکار آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور چونکہ شکار قبول کرنا محرم کے لئے درست نہیں ہے اس لئے آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا۔ لیکن پھر ایک اشکال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک روایت میں وضاحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا گیا تھا، ایک روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ گورخر کی ران بھیجی گئی تھی، اسی طرح ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ اس کا ایک ٹکڑا بھیجا گیا تھا۔ لہٰذا ان روایتوں کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندہ گورخر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ یہاں حدیث میں بھی گورخر سے اس کا گوشت ہی مراد ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو آپ ﷺ کی خدمت میں زندہ گورخر ہی بھیجا گیا ہوگا جسے آپ ﷺ نے قبول نہیں کیا، پھر بعد میں دوسرے گورخر کی ران بھیجی گئی اسی کو کسی نے تو گوشت سے تعبیر کیا اور کسی نے اسے اس کا ٹکڑا کہا۔ اس بارے میں حنفیہ کی بڑی دلیل یہ روایت ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں گورخر پیش کیا گیا جب کہ آپ ﷺ مقام عرف میں تشریف فرما تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے، چناچہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر (رض) کو حکم دیا کہ اسے رفقاء میں تقسیم کردو۔ مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں شافعیہ یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس گورخر کو اس گمان کی بناء پر واپس کردیا کہ بطور خاص میرے لئے شکار کیا گیا ہے۔

【2】

حنفیہ کی مستدل حدیث

حضرت ابوقتادہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے لئے رسول کریم ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے تو وہ اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے جو عمرہ کے لئے احرام باندھے ہوئے تھے لیکن خود ابوقتادہ حالت احرام میں نہیں تھے ! چناچہ راستہ میں ایک جگہ ان کے ساتھیوں نے گورخر دیکھا مگر ابوقتادہ کی نظر اس پر نہیں پڑی، ان کے ساتھیوں نے اس گورخر کو دیکھ کر صرف نظر کرلیا، آخر کار ابوقتادہ نے بھی اس گور خر کر دیکھ لیا اور اس کو شکار کرنے کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے اپنا چابک مانگا مگر انہوں نے اس وجہ سے کہ اس شکار میں ہماری اعانت کسی درجہ میں بھی شامل نہ ہو چابک دینے سے انکار کردیا ابوقتادہ نے گھوڑے سے اتر کر خود چابک اٹھایا اور گورخر پر حملہ آور ہوئے یہاں تک کہ اسے مار لیا، پھر اس کے گوشت کو تیار کر کے خود انہوں نے بھی کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا، مگر ان کے ساتھی اس کا گوشت کھا کر پشیمان ہوئے کیونکہ انہوں نے گمان کیا کہ محرم کے لئے مطلق شکار کا گوشت کھانا درست نہیں ہے۔ چناچہ جب وہ لوگ آنحضرت ﷺ سے ملے تو آپ ﷺ سے اس کا حکم پوچھا کہ آیا اس گورخر کا گوشت کھانا ہمارے لئے درست تھا یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس کا پاؤں باقی رہ گیا ہے۔ آپ ﷺ نے وہ پاؤں لیا اور اس کو تیار کرا کر کھایا اس طرح آپ ﷺ نے ظاہر فرمایا کہ اس کا گوشست کھانا تمہارے لئے درست تھا (بخاری و مسلم) بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب وہ لوگ رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابوقتادہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ گورخر پر حملہ آور ہوں یا تم میں سے کسی نے گورخر کی طرف اشارہ کر کے اس کے شکار پر متوجہ کیا تھا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اس کے گوشت میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے کھالو۔ تشریح اس حدیث کے بارے میں ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو بتایا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس گورخر میں سے بچا ہوا پاؤں تیار کرا کر کھایا جب کہ ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسے کھایا نہیں ؟ لہٰذا اس اشکال کو دور کرنے کے لئے علماء ان دونوں روایتوں میں یہ مطابقت پیدا کرتے ہیں کہ آپ ﷺ چونکہ خود حالت احرام میں تھے اس لئے ابتداء میں آپ ﷺ نے یہ گمان کیا ہوگا کہ اس گورخر کے شکار میں کسی محرم کے حکم یا اس کی اعانت کو دخل رہا ہوگا اس لئے آپ ﷺ نے اسے کھانے سے انکار کردیا ہوگا مگر جب صحیح صورت حال سامنے آگئی اور آپ ﷺ کو معلوم ہوگیا کہ اس کے شکار میں کسی محرم کے حکم یا اس کی اعانت کا کوئی دخل نہیں تھا تو آپ ﷺ نے اسے کھایا۔ محرم کے لئے جس طرح یہ ممنوع ہے کہ وہ شکار کے لئے کسی کو حکم دے اسی طرح دلالت اور اشارت بھی ممنوع ہے دلالت اور اشارت میں فرق یہ ہے کہ دلالت کا تعلق زبان سے ہوتا ہے مثلاً محرم کو کسی ہاتھ کے اشارہ سے شکار کی طرف متوجہ کرے ! بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دلالت کا تعلق اس شکار سے ہوتا ہے جو نظر کے سامنے نہ ہو اور اشارت کا تعلق اس شکار سے ہوتا ہے جو نظر کے سامنے ہو۔ اس موقع پر یہ بات جان لیجئے کہ محرم کے لئے تو دلالت حدود حرم میں بھی حرام اور حدود حرم سے باہر بھی لیکن غیر محرم کے لئے حدود حرم میں تو حرام ہے اور حدود حرم سے باہر نہیں۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محرم کو شکار کا گوشت کھانا حلال ہے بشرطیکہ وہ شکار نہ تو خود اس نے کیا ہو اور نہ اس شکار میں اس کی دلالت اشارت اور اعانت کا قطعا دخل ہو، چناچہ یہ حدیث حنفیہ کے اس مسلک کی دلیل ہے اور ان حضرات کے مسلک کی تردید کرتی ہے جو محرم کو مطلق شکار کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں۔

【3】

وہ جانور جن کو حالت احرام اور حرم میں مارنا جائز ہے

حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ پانچ جانور ہیں جن کو حرم میں اور حالت احرام میں مارنا گناہ نہیں ہے (١) چوہا۔ (٢) کوا (٣) چیل (٤) بچھو (٥) کٹ کھنا کتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح الغراب (کوا) سے مراد الغراب الابقع (ابلق کوا) یعنی وہ سیاہ سفید کوا ہے جو اکثر مردار اور نجاسات کھاتا ہے۔ چناچہ اگلی روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ اس لئے وہ کوا مارنا جائز نہیں ہے جو کھیت کھلیاں کھاتا ہے اور جس کے پورے جسم کا رنگ تو سیاہ اور چونچ و پاؤں کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ کٹ کھنے کتے کے حکم کے میں وہ تمام درندے جانور شامل ہیں جو حملہ آور ہوتے ہیں، ایسے تمام جانوروں کو حرم میں اور احرام کی حالت میں مارنا جائز ہے۔

【4】

وہ جانور جن کو حالت احرام اور حرم میں مارنا جائز ہے

حضرت عائشہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایذاء پہنچانے والے پانچ جانور ہیں جن کو حدود حرم سے باہر بھی اور حدود حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے (مارنے والا خواہ احرام کی حالت میں ہو خواہ احرام سے باہر ہو) سانپ، ابلق کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا، چیل۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس کتے کو مارنا حرام ہے جس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اس کتے کو بھی مارانا حرام ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو اس سے کوئی ضرر و نقصان بھی نہ پہنچتا ہو۔ مذکورہ بالا دونوں حدیث میں جن جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے مارنے کی اجازت صرف انہیں پر منحصر نہیں بلکہ یہی حکم ان تمام جانروں کا بھی ہے جن سے ایذاء پہنچتی ہو جیسے چیونٹی، پسو، چچری اور کھٹمل وغیرہ۔ ہاں اگر جوئیں ماری جائیں گی تو پھر حسب استطاعت و توفیق صدقہ دینا واجب ہوگا۔

【5】

امام مالک وامام شافعی کی مستدل حدیث اور اس کا مطلب

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے احرام کی حالت میں شکار کا گوشت حلال ہے بشرطیکہ وہ شکار نہ تو تم نے خود کیا اور نہ تمہارے لئے کیا گیا ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر حالت احرام میں تم خود شکار کرو گے یا کوئی دوسرا تمہارے لئے شکار کرے گا، اگرچہ وہ شکاری حالت احرام میں نہ ہو تو اس شکار کا گوشت کھانا تمہارے لئے درست نہیں ہوگا۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی اس حدیث کو اپنے اس مسلک کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ محرم کے لئے اس شکار کا گوشت کھانا حرام ہے جسے کسی غیر محرم نے اس کے لئے شکار کیا ہو۔ لیکن حنفیہ اس حدیث کے یہ معنی مراد لیتے ہیں کہ اگر حالت احرام میں زندہ شکار تمہارے لئے بطور تحفہ بھیجا جائے تو اس کا گوشت کھانا تمہارے لئے حرام ہوگا۔ ہاں اگر اس شکار کا گوشت تحفہ کے طور پر تمہارے پاس بھیجا جائے اس کا کھانا حرام نہیں ہوگا۔ گویا اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہوگا کہ اگر تمہارے حکم کی بناء پر کوئی شکار کیا جائے گا تو اس کا کھانا تمہارے لئے درست نہیں ہوگا لہٰذا اس شکار کا گوشت محرم کے لئے حرام نہیں ہے جسے کوئی غیر محرم اس کے لئے ذبح کرے بشرطیکہ اس شکار میں محرم کے حکم یا اس کی اعانت اور اشارت و دلالت کا کوئی دخل نہ ہو۔

【6】

ٹڈی کے شکار کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ٹڈی دریا کے شکار کی مانند ہے (ابوداؤد، ترمذی) تشریح حنفی علماء کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ٹڈی کو دریا کے شکار کی مانند صرف اس اعتبار سے فرمایا ہے، کہ ٹڈی دریائی شکار یعنی مچھلی کے مشابہ ہے کہ جس طرح مچھلی بغیر ذبح کئے ہوئے کھائی جاتی ہے اسی طرح ٹڈی کو بھی بغیر ذبح کئے کھانا درست ہے، چناچہ محرم کے لئے ٹڈی مارنا جائز نہیں ہے اگر کوئی محرم ٹڈی مارے گا تو اس پر صدقہ جتنا بھی وہ دے سکے گا لازم ہوگا۔ نیز ہدایہ میں بھی یہ لکھا ہے کہ ٹڈی جنگل کے شکار کے حکم میں ہے اور ابن ہمام کے قول کے مطابق اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لئے ٹڈی کا شکار یعنی ٹڈی پکڑنا جائز ہے کیونکہ یہ دریائی شکار کی مانند ہے اور اس آیت کریمہ۔ (اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ) 5 ۔ المائدہ 96) ۔ اور احرام کی حالت میں تمہارے لئے دریائی شکار حلال رکھا گیا ہے کے پیش نظر محرم کے لئے دریا کا شکار جائز ہے۔

【7】

حملہ آور درندے کو مار ڈالنے کا حکم

حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ محرم حملہ کرنے والے درندے کو مار ڈالے۔ تشریح حملہ کرنے والے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ جان لینے یا زخمی کرنے کے لئے چڑھ دوڑے جیسے شیر، بھیڑیا اور چیتا وغیرہ کہ یہ درندے انسان کو دیکھتے ہی اس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔

【8】

چرغ کے شکار کا مسئلہ

حضرت عبدالرحمن بن ابوعمار (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے چرغ کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ شکار ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے پھر پوچھا کہ کیا اس کا گوشت کھایا جاسکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! میں نے کہا کہ کیا آپ نے یہ رسول کریم ﷺ سے سنا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہاں ! (ترمذی، نسائی، شافعی) نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح سائل کا مطلب یہ تھا کہ چرغ شکار ہے کہ محرم کے لئے اس کا کھانا حرام ہو یا یہ کہ شکار نہیں ہے، بہرکیف اس موقع پر محرم سے قطع نظر چرغ کے بارے میں بنیادی اختلاف تو یہ ہے کہ چرغ کا گوشت ویسے بھی حلال ہے یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام شاسفعی تو اس حدیث کے پیش نظر یہ فرماتے ہیں کہ چرغ حلال جانور ہے اس کا گوشت کھانا درست ہے جب کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک حلال جانور نہیں ہے اس لئے اس کا گوشت کسی کو بھی کھانا درست نہیں ہے۔ ان کی دلیل حضرت خزیمہ ابن جزی (رض) کی روایت ہے جو آگے آرہی ہے۔

【9】

چرغ کے شکار کا مسئلہ

حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے چرغ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شکار ہے اگر کوئی محرم اس کا مرتکب ہوجائے تو اس کے بدلہ میں دنبہ دے یا مینڈھا دے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے احرام کی حالت میں چرغ کا شکار کیا اسے خریدا تو اس کی جزاء کے طور پر ایک دنبہ یا ایک مینڈھا واجب ہوگا۔

【10】

چرغ حلال نہیں ہے

حضرت خزیمہ بن جزی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے چرغ کا گوشت کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہیں کوئی اس کا گوشت بھی کھاتا ہے ؟ یعنی اس کا گوشت نہ کھانا چاہئے پھر میں نے بھیڑئیے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا کوئی ایسا شخص جس میں بھلائی یعنی ایمان یا تقویٰ ہو بھیڑئیے کا گوشت بھی کھاتا ہے ؟ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔ تشریح جیسا کہ امام ترمذی نے فرمایا ہے یہ روایت اگرچہ باعتبار سند کے ضعیف ہے لیکن بذات خود یہ حدیث بالکل صحیح ہے جس کی دلیل ابن ماجہ کی روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ومن یا کل الضبع نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہر ذی ناب کو نچلی والا درندہ کھانے سے منع کیا (ذی ناب درندہ اس درندہ کو کہتے ہیں جو دانت سے شکار کرتا ہے) اور چرغ ذی ناب درندہ ہے، بہرکیف چونکہ چرغ کے مباح اور حرام ہونے کی دلیلوں میں تعارض ہے اس لئے حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے کہ اس کا گوشت نہ کھانا چاہئے۔

【11】

محرم کو شکار گوشت کھانا جائز ہے۔

حضرت عبدالرحمن بن عثمان تیمی (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) کے ساتھ تھے اور ہم سب احرام کی حالت میں تھے کہ ان کے پاس بطور ہدیہ ایک پرندہ کا پکا ہوا گوشت آیا حضرت طلحہ (رض) اس وقت سور ہے تھے چناچہ ہم میں سے بعض نے وہ گوشت کھالیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ محرم کو شکار کا گوشت کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس شکار میں اس کے حکم وغیرہ کو کوئی دخل نہ ہو اور بعض نے اس سے پرہیز کیا کیونکہ ان کا گمان تھا کہ محرم کو یہ گوشت کھانا درست نہیں ہے، پھر حضرت طلحہ (رض) بیدار ہوئے تو انہوں نے ان لوگوں کی موافقت کی جنہوں نے وہ گوشت کھایا تھا، نیز انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول کریم ﷺ کے ہمراہ اسی طرح یعنی حالت احرام میں شکار کا گوشت کھایا تھا۔ تشریح گوشت کھانے والوں سے حضرت طلحہ (رض) کی موافقت کا تعلق قول سے بھی ہوسکتا ہے اور فعل سے بھی، یعنی یا تو حضرت طلحہ (رض) نے ان سے زبانی یہ کہا ہوگا کہ تم نے گوشت کھالیا، اچھا کیا، اس میں کوئی حرج نہیں یہ قولی موافقت ہے، یا پھر یہ کہ خود انہوں نے بھی باقی بچا ہوا گوشت کھایا ہوگا یہ فعلی موافقت ہے۔ بہرکیف یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے اس مسلک کی تائید کرتی ہے کہ اگر محرم خود شکار نہ کرے اور نہ اس شکار میں اس کے حکم وغیرہ کا دخل ہو تو وہ اس کا گوشت کھا سکتا ہے۔ ایک پر ندہ سے مراد یا تو جنس ہے کہ کئی پرندوں کا گوشت آیا تھا، یا پھر وہ ایک ہی پرندہ تھا جو اتنا بڑا تھا کہ اس کا گوشت تمام لوگوں کے لئے کافی ہوگیا۔

【12】

احصار اور حج کے فوت ہوجانے کا بیان

احصار کے معنی لغت کے اعتبار سے تو روک لیا جانا ہیں اور اصطلاح فقہ میں احرام باندھ لینے کے بعد حج یا عمرہ سے روکا جانا احصار کہلاتا ہے۔ جس شخص پر ایسا واقعہ پیش آجائے یعنی جس شخص نے احرام باندھا اور پھر جس کام کے واسطے یعنی حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا تھا اس کے ادا کرنے سے وہ رکا گیا تو اس کو محصر کہتے ہیں۔ احصار کی صورتیں حنفی مسلک کے مطابق احصار کی کئی صورتین ہیں جو اس چیز کی ادائیگی سے کہ جس کا احرام باندھا ہے یعنی حج یا عمرہ، حیققۃً یا شرعا مانع ہوجاتی ہیں، ان صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ١۔ کسی دشمن کا خوف ہو ! دشمن سے مراد عام ہے خواہ کوئی آدمی ہو یا درندہ جانور۔ مثلا یہ معلوم ہو کہ راستہ میں کوئی دشمن بیٹھا ہے جو حجاج کو ستاتا ہے یا لوٹتا ہے یا مارتا ہے آگے نہیں جانے دیتا، یا ایسے ہی کسی جگہ شیر وغیرہ کی موجودگی کا علم ہو۔ ٢۔ بیماری ! احرام باندھنے کے بعد ایسا بیمار ہوجائے کہ اس کی وجہ سے آگے نہ جاسکتا ہو یا آگے جا تو سکتا ہے مگر مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو۔ ٣۔ عورت کا محرم نہ رہے ! احرام باندھنے کے بعد عورت کا محرم یا اس کا خاوند مرجائے، یا کہیں چلا جائے یا آگے جانے سے انکار کر دے۔ ٤۔ خرچ کم ہوجائے ! مثلاً احرام باندھنے کے بعد مال و اسباب چوری ہوجائے، یا پہلے ہی سے خرچ کم لے کر چلا ہو اور اب آگے کی ضروریات کے لئے روپیہ پیسہ نہ رہے۔ ٥۔ عورت کے لئے عدت ! احرام باندھنے کے بعد عورت کا شوہر مرجائے یا طلاق دے دے جس کی وجہ سے وہ پابند عدت ہوجائے تو یہ احصار ہوجائے گا۔ ہاں اگر وہ عورت اس وقت مقیم ہے اور اس کے جاء قیام سے مکہ بقدر مسافت سفر نہیں ہے تو احصار نہیں سمجھا جائے گا۔ ٦۔ راستہ بھول جائے اور کوئی راہ بتانے والا نہ مل سکے ٧۔ عورت کو اس کا شوہر منع کر دے ! بشرطیکہ اس نے حج کا احرام اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر باندھا ہو، حج فرض کے روکنے اور حج نفل میں اجازت دینے کے بعد روکنے کا اختیار شوہر کو نہیں ہے۔ ٨۔ لونڈی یا غلام کو اس کا مالک منع کر دے۔ احصار کی یہ تمام صورتیں حنفیہ کے مسلک کے مطابق ہیں، بقیہ تینوں ائمہ کے ہاں احصار کی صرف ایک ہی صورت یعنی دشمن کا خود ہے، چناچہ ان حضرات کے نزدیک دیگر صورتوں میں احصار درست نہیں ہوتا بلکہ احرام کی حالت برقرار رہتی ہے۔ احصار کا حکم جس محرم کو احصار کی مندرجہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اگر مفرد ہو تو ایک ہدی کا جانور مثلاً ایک بکری اور اگر قارن ہو تو دو ہدی کے جانور مثلاً دو بکری کسی شخص کے ذریعہ حرم میں بھیج دے تاکہ وہ اس کی طرف سے وہاں ذبح ہو۔ یا قیمت بھیج دے کہ وہاں ہدی کا جانور خرید کر ذبح کردیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ذبح کا دن اور وقت بھی متعین کر دے یعنی جس شخص کے ذریعہ جانور حرم بھیج رہا ہو اس کو یہ تاکید کر کے کہ یہ جانور وہاں فلاں دن اور فلاں وقت ذبح کیا جائے پھر وہ اس متعین دن اور وقت کے بعد احرام کھول دے، سر منڈانے یا بال کتروانے کی ضرورت نہیں ! اور پھر آئندہ سال اس کی قضا کرے بایں طور کہ اگر اس نے احصار کی وجہ سے حج کا احرام اتارا ہے تو اس کے بدلہ ایک حج اور ایک عمرہ کرے اور قران کا احرام اتارا ہے تو اس کے بدلہ ایک حج اور دو عمرے کرے جب کہ عمرہ کا احرام اتارنے کی صورت میں صرف ایک عمرہ کیا جائے گا۔ اگر ہدی کا جانور بھیجنے کے بعد احصار جاتا رہے اور یہ ممکن ہو کہ اگر محصر روانہ ہوجائے تو قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے پہنچ جائے گا اور حج بھی مل جائے گا تو اس پر واجب ہوگا کہ وہ فوراً روانہ ہوجائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس پر فوراً جانا واجب نہیں ہوگا۔ تاہم اگر وہ حج کو روانہ ہوجائے اور وہاں اس وقت پہنچے جب کہ ہدی کا جانور بھی ذبح ہوچکا ہو اور حج کا وقت بھی گزر چکا ہو تو اس صورت میں عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے۔ حج فوت ہوجانے کا مطلب اور اس کا حکم حج فوت ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص حج کے لئے گیا، اس نے احرام بھی باندھ لیا تھا مگر کوئی ایسی بات پیش آگئی کہ عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد سے بقر عید کی صبح تک کے عرصہ میں ایک منٹ کے لئے بھی وقوف عرفات نہ کرسکا، (یاد رہے کہ وقوف عرفات کا وقت عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بقر عید کی فجر طلوع ہوتے ہی ختم ہوجاتا ہے اس عرصہ میں وقوف عرفات فرض ہے۔ خواہ ایک منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو تو اس صورت میں حج فوت ہوجائے گا اور جس شخص کا حج فوت ہوجاتا ہے اسے فائت الحج کہتے ہیں۔ جس شخص کا حج فوت ہوجائے اس کو چاہئے کہ عمرہ کر کے یعنی خانہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد احرام کھول دے، اگر مفرد ہو تو ایک عمرہ کرے اور اگر قارن ہو دو عمرے کرے اور اس کے بعد سر منڈوا دے یا بال اتروا دے اور پھر سال آئندہ میں اس حج کی قضا کرے۔ حج فوت ہوجانے کے سلسلہ کا ایک پیچیدہ مسئلہ جس شخص کا حج فوت ہو رہا ہو اس کے بارے میں ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وہاں بقر عید کی رات کے بالکل آخری حصہ میں اس حال میں پہنچے کہ اس نے ابھی تک عشاء کی نماز نہ پڑھی ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ اگر عرفات جاتا ہوں تو عشاء کی نماز جاتی رہے اور اگر عشاء کی نماز میں مشغول ہوتا ہوں تو وقوف عرفات ہاتھ نہیں لگے گا، اس صورت میں وہ کیا کرے ؟ اس کے متعلق بعض، حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ اسے عشاء کی نماز میں مشغول ہونا چاہئے اگرچہ وقوف عرفات فوت ہوجائے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ عشاء کی نماز چھوڑ دے اور عرفات چلا جائے۔ چناچہ فقہ حنفی کی کتاب درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر عشاء کا وقت بھی تنگ ہو اور وقوف عرفات بھی نکلا جا رہا ہو تو اس صورت میں نماز چھوڑ کر عرفات چلے جانا چاہئے۔

【13】

آنحضرت ﷺ کے احصار کا بیان

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے سال رسول کریم ﷺ کو عمرہ سے روکا گیا، چناچہ آپ ﷺ نے اپنا سر منڈوا یا اور احرام کھولنے کے بعد اپنی ازواج مطہرات سے ہم بستر ہوئے اور اپنی ہدی کا جانور ذبح کیا، پھر اگلے سال آپ ﷺ نے اپنا عمرہ ادا کیا۔ (بخاری ومسلم) تشریح روکا گیا کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کو روانہ ہوئے مگر حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو مع رفقاء کے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا جس کی وجہ سے آپ ﷺ عمرہ نہ کرسکے چناچہ آپ ﷺ نے وہاں احرام کھول دیا۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہدایہ کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ محصر ہدی کا جانور ذبح ہونے سے پہلے احرام نہیں کھولتا اسی لئے یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی محصر نے ہدی کا جانور حرم روانہ کیا اور اس جانور کو لے جانے والے سے یہ تاکید کی کہ اس جانور کو فلاں دن اور فلاں وقت ذبح کردینا اور پھر اس نے اس متعین دن میں یہ سمجھ کر کہ اب جانور ذبح ہوگیا ہوگا اپنے کو احرام سے باہر سمجھ لیا اور کوئی ایسا فعل کیا جو حالت احرام میں ممنوع ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہدی کا وہ جانور اس متعین دن ذبح نہیں ہوا تھا یا ذبح تو اسی دن ہوا تھا مگر حرم میں ذبح ہونے کی بجائے حرم سے باہر ذبح ہوگیا تھا تو اس صورت میں اس نے خلاف احرام جس قدر فعل کئے ہوں گے ہر فعل کے عوض جزاء دینی پڑے گی۔ احصار کی ہدی کہاں ذبح کیا جائے ؟ احصار کی ہدی کے علاوہ باقی ہدایا کے بارے میں تو حنفیہ اور شوافع کا اتفاق ہے کہ وہ حرم کے علاوہ اور کہیں ذبح نہ کی جائیں مگر حج یا عمرہ کے احصار کی ہدی کہاں ذبح کی جائے ؟ اس بارے میں دونوں کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ احصار کی ہدی اسی جگہ ذبح کی جائے جہاں احصار کی صورت پیش آئی ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ احصار کی ہدی حرم میں بھیجی جائے اور وہاں ذبح ہو، حرم کے علاوہ اور کہیں ذبح نہ کی جائے، کیونکہ خاص دنوں میں اور خاص موقع پر ہدی کا ذبح ہونا عبادت ہے۔ اور جب یہ بات ہے کہ ایک خاص وقت اور خاص جگہ ہدی کا ذبح کرنا عبادت شمار کیا جاتا ہے تو اگر اس کے خلاف کیا گیا یعنی اس ہدی کو ذبح کرنے کی جو خاص جگہ یعنی حرم ہے اگر وہاں یہ ہدی ذبح نہ کی گئی تو عبادت کہاں رہی اور جب عبادت نہ رہی تو اس کی وجہ سے حلال ہونا یعنی احرام کھولنا کس طرح درست ہوگا۔ حضرت امام شافعی کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نے اپنی ہدی حدیبیہ میں ذبح کی جو حل میں یعنی حرم سے باہر ہے۔ اس کا جواب حنفیہ کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ اس موقع پر ہدی کے جانوروں کا حرم میں پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا اس مجبوری کی بناء پر آپ ﷺ نے اور صحابہ نے اپنی ہدی وہیں ذبح کردی۔ نیز بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ تو حل میں ہے اور کچھ حصہ حرم میں ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ نے ہدی کے جانور حدیبیہ کے اس حصہ میں ذبح کئے ہوں جو حرم میں شامل ہے۔ محصر پر قضا واجب ہے جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوا آنحضرت ﷺ جب احصار کی وجہ سے عمرہ ادا نہ کرسکے تو آپ ﷺ نے آئندہ سال یعنی ٧ ھجری میں اس عمرہ کو پورا کیا چناچہ اس عمرہ کو عمرۃ القضاء کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر کوئی محصر ہوجائے یعنی اسے حج یا عمرہ سے روک دیا جائے تو وہ اس کی قضاء کرے اس لئے حنبفیہ کے مسلک میں اس کی قضا واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں محصر پر اس کی قضا واجب نہیں ہوتی آنحضرت ﷺ نے ٧ ھجری میں جو عمرہ کیا اس کا نام عمرۃ القضا ہونا حنفیہ کے مسلک کی تائید کرتا ہے۔

【14】

محصر کے لئے حلق یا تقصیر کا مسئلہ

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ عمرے کے لئے گئے تو کفار قریش نے ہمیں خانہ کعبہ پہنچنے سے پہلے حدیبیہ میں روک دیا چناچہ آپ ﷺ نے اپنی ہدی کے جانور وہیں ذبح کئے اور سر منڈوایا، نیز آپ ﷺ کے رفقاء میں سے کچھ نے بال کتروائے اور کچھ نے سر منڈوائے۔ (بخاری) تشریح فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد تو یہ کہتے ہیں کہ محصر کے لئے سر منڈوانا یا بال کتروانا ضروری نہیں ہے کیونکہ حلق سر منڈوانا تقصیر بال کتروانا اسی صورت میں عبادت شمار کیا جاتا ہے جب کہ افعال حج کی ترتیب میں ہو لہٰذا جب حج کے افعال ادا ہی نہ ہوں تو ان کو عبادت شمار نہیں کرسکتے جہاں تک آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے اور صحابہ نے حلق یا تقصری اس مقصد سے کیا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ بس اب واپسی کا پختہ ارادہ ہوگیا ہے اور عمرہ کی ادائیگی کی صورت نہیں رہی ہے حضرت امام ابویوسف کے نزدیک محصر کو اگرچہ سر منڈوانا یا کتروانا چاہئے لیکن اگر وہ سر نہ منڈوائے یا بال نہ کتروائے تو اس صورت میں بھی احرام سے باہر ہوجائے گا اور بطور جزاء اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔

【15】

محصر کے لئے حلق یا تقصیر کا مسئلہ

حضرت مسور بن مخرمہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنا سر منڈوانے سے پہلے ہدی کا جانور ذبح کیا، نیز آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو بھی اس بات کا حکم دیا کہ وہ سر منڈوانے سے پہلے اپنی ہدی کے جانور ذبح کریں۔ (بخاری )

【16】

احصار اور حج فوت ہوجانے کا مسئلہ

حضرت ابن عمر (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے رسول کریم ﷺ کی یہ سنت یعنی آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی کافی نہیں کہ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روکا جائے یعنی اس کو کوئی ایسا عذر پیش آجائے جو حج کے رکن اعظم یعنی وقوف عرفات سے مانع ہو اور طواف و سعی سے مانع نہ ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کر کے ہر چیز سے حلال ہوجائے یعنی اس کے بعد اس کے لئے ہر وہ چیز حلال ہوجائے گی جو احرام کی حالت میں ممنوع تھی تآنکہ وہ اگلے سال حج کرے اور ہدی ذبح کرے اور اگر وہ ہدی ذبح نہ کرسکتا ہو تو روزہ رکھے۔ (بخاری) تشریح اس حدیث میں احصار کا حکم بیان کیا گیا ہے ! کچھ لوگوں نے اس بارے میں خلاف سنت طرز عمل اختیار کیا ہوگا، اس لئے حضرت ابن عمر (رض) نے انہیں متنبہ فرمایا اور کہا کہ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی سنت یہ ہے کہ اگر کسی کو حج میں حصر و حبس کی صورت پیش آجائے تو وہ عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور سال آئندہ اس حج کی قضا کرے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فائت الحج اور محصر کے حکم میں تھوڑا سا فرق ہے فائت الحج کے لئے تو یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو یعنی اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو تو طواف و سعی کر کے احرام کھول دے اس پر صرف سال آئندہ اس حج کی قضا واجب ہے، عمرہ اور ہدی اس کے لئے واجب نہیں ہے۔ محصر کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو اور اسے حرم پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں احصار کی کوئی صورت پیش آجائے تو وہ پہلے ہدی کا جانور حرم بھیجے جب وہ جانور حرم میں پہنچ کر ذبح ہوجائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور اس کے ساتھ ہی ایک عمرہ بھی کرے۔ لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس پر سال آئندہ صرف حج کرنا ہی واجب ہوگا عمرہ کرنا ضروری نہیں ہوگا، کیونکہ وہ صرف حج سے محصر ہوا ہے اور چونکہ ہدی کا جانور بھیج کر اس نے احرام کھولا تھا تو بس اس کے بدلہ اس کے ذمہ صرف حج ہی ہے، عمرہ نہیں ہے۔ اور اگر محصر قارن ہو (یعنی اس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہو) تو وہ بھی ہدی کا جانور حرم میں بھیجے اور وہاں اس جانور کے ذبح ہوجانے کے بعد احرام کھول دے، لیکن سال آئندہ اس پر اس حج کی قضا اور اس کے ساتھ دو عمرے واجب ہوں گے، اس پر ایک حج اور دو عمرے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک حج اور عمرہ تو اصلی حج وعمرہ کے بدلہ ادا کرنا ہوگا اور دوسرا عمرہ اس واسطے کہ اس سے حج اور عمرہ فوت ہوا اس لئے اس کی جزاء کے طور پر ایک عمرہ ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر احصار کی صورت حرم پہنچنے سے پہلے راستہ میں پیش نہ آئے بلکہ حرم پہنچ کر پیش آئے کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے وقوف عرفات سے تو عاجز رہے مگر طواف اور سعی کرسکتا ہو تو وہ طواف و سعی کرنے کے بعد یعنی عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور پھر آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور ہدی کا جانور ذبح کرے اور اگر ہدی کا جانور ذبح نہ کرسکتا ہو تو روزہ رکھے، مذکورہ حدیث میں یہی صورت بیان فرمائی گئی ہے۔ فائت الحج اگر قارن ہو تو پہلے وہ عمرہ کے لئے طواف و سعی کرے پھر حج فوت ہوجانے کے بدلہ میں طواف و سعی کرے اس کے بعد سر منڈائے یا بال کتروائے اور احرام کھول دے اس کے ذمہ سے قران کی قربانی ساقط ہوجائے گی۔ اور اگر وہ متمتع ہوگا تو اس کا تمتع باطل ہوجائے گا اور اس کے ذمہ سے تمتع کی قربانی بھی ساقط ہوجائے گی اگر وہ اس کی قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو تو اس کو جو چاہے کرے۔ جس طرح مفرد کا حج فوت ہوجانے کی صورت میں اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا ہی واجب ہوتی ہے اسی طرح قران اور تمتع کی صورت میں بھی اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا واجب ہوگی۔ عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا۔ اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا کیونکہ وہ تو سال میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے علاوہ یوم عرفہ، یوم عیدالاضحیٰ اور ایام تشریق کے، جب کہ حج کی ادائیگی تو اسی خاص زمانہ اور خاص وقت میں ہوسکتی ہے جو شریعت نے متعین کی ہے۔

【17】

احصار اور حج فوت ہوجانے کا مسئلہ

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب حج کے لئے روانہ ہونے والے تھے تو اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر کے ہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا کہ شاید تم ہمارے ساتھ حج کا ارادہ رکھتی ہو ؟ اور ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ تم ہمارے ساتھ حج کے لئے چلو، ضباعہ نے عرض کیا کہ جی ہاں، میرا ارادہ تو ہے لیکن اللہ کی قسم ! میں اپنے کو بیمار پاتی ہوں یعنی مرض کی بناء پر میں بڑا ضعف محسوس کر رہی ہوں اگر میں چلتی ہوں تو نہیں جانتی کہ حج پورا بھی کرسکوں گی یا نہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم حج کا ارادہ کرلو اور جب احرام باندھو تو یہ شرط کرلو یعنی یہ کہو کہ۔ اللہم محلی حیث حبستنی۔ اے اللہ ! میرے احرام سے نکلنے کی جگہ وہ ہے جہاں میں بیماری کے سبب روک دی جاؤں۔ (بخاری ومسلم) تشریح میرے احرام سے نکلنے کی جگہ وہ ہے جہاں میں روک دی جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ مجھ پر مرض غالب ہوجائے اور وہاں سے میں خانہ کعبہ کی طرف آگے نہ چل سکوں اسی جگہ میں احرام کھول دوں گی۔ جن ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ احصار کی صرف ایک ہی صورت یعنی دشمن کا خوف ہے اور بیماری سے احصار نہیں ہوتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے کہ اگر مرض کی وجہ سے احرام کھول دینا مباح ہوتا تو آنحضرت ﷺ حضرت ضباعہ کو مذکورہ بالا شرط کرنے کا حکم نہ دیتے کیونکہ جب مرض کی وجہ سے احصار ہو ہی جاتا تو پھر شرط کا کیا فائدہ حاصل ہوتا۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ احصار مرض کی وجہ سے بھی ہوجاتا ہے اس لئے وہ حضرت حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث کو اپنی دلیل قرار دیتے ہیں جو آگے آرہی ہے، نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمر شرط کے منکر تھے جو لوگ شرط کے قائل تھے ان سے حضرت ابن عمر (رض) یہی فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے آنحضرت ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے ؟ یعنی جب اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا واضح حکم موجود ہے تو پھر شرط کو اختیار کرنے کا کیا معنیٰ ۔ اب رہی یہ بات کہ جب مرض کی وجہ سے احرام کھول دینا مباح تھا تو پھر حضرت ضباعہ کو شرط کا حکم دینا کس مقصد سے تھا اور اس کا کیا فائدہ تھا ؟ حنفیہ کہتے ہیں کہ ضباعہ کے حق میں شرط کا فائدہ یہ تھا کہ وہ احرام کی پابندیوں سے جلد آزاد ہوجائیں، اس لئے کہ وہ اگر یہ شرط نہ کرتیں تو انہیں احرام سے نکلنے میں دیر لگتی بایں طور کہ جب ان کی ہدی کا جانور حرم پہنچ کر ذبح ہوجاتا تب ہی وہ احرام کھول سکتی تھیں، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ محرم کے لئے احرام کھلونا اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ اس کی ہدی حرم میں ذبح نہ ہوجائے۔ ہاں اگر وہ احرام باندھتے وقت یہ شرط کرلے کہ جس جگہ بھی مجھے احصار کی صورت پیش آجائے گی میں وہیں احرام کھول دوں گا تو وہ محض احصار کی صورت پیش آجانے پر، ہدی کا جانور ذبح ہوئے بغیر احرام سے باہر ہوسکتا ہے۔

【18】

محصر کی ہدی کا جانور، حرم ہی میں ذبح ہونا چاہئے

حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو یہ حکم دیا کہ عمرۃ القضاء کے موقع پر اپنی ہدی کے ان جانوروں کے عوض ذبح کریں جو انہوں نے واقعہ حدیبیہ کے سال ذبح کئے تھے۔ تشریح اس حکم گرامی کا مطلب یہ تھا کہ صحابہ نے واقعہ حدیبیہ کے موقعہ پر عمرہ سے احصار کی صورت پیش آجانے کی وجہ سے ہدی کے جو جانور ذبح کئے تھے سال آئندہ عمرۃ القضا کے موقع پر ان جانوروں کے بدلے دوسرے جانور حرم پہنچ کر ذبح کریں تاکہ ہدی کا حرم میں ذبح ہونا واقع ہوجائے کیونکہ احصار کی ہدی کا جانور حرم ہی میں ذبح کیا جاتا ہے جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ لیکن مذکورہ بالا حکم کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب کہ یہ بات ثابت ہو کہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر ہدی کے جانور حرم سے باہر ذبح کئے گئے تھے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ہدی کے وہ جانور حرم ہی میں ذبح ہوئے تھے کیونکہ حدیبیہ کا اکثر حصہ حدود حرم میں واقع ہے (جیسا کہ باب کی پہلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں ایک قول نقل کیا گیا تھا) تو پھر واقعہ حدیبیہ کے موقع پر ذبح کئے گئے جانوروں کے عوض دوسرے جانور ذبح کرنے کے اس حکم کا تعلق صرف احتیاط اور حصول فضیلت سے ہوگا اور کہا جائے گا کہ یہ حکم محض استحباب کے طور پر ہے۔ مشکوۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ کالی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوۃ کو اس حدیث کے اصل ماخذ کی تحقیق نہیں ہوسکی تھی، لیکن ایک دوسرے نسخہ میں رواہ کے بعد ابوداؤد لاحق کیا گیا ہے یعنی اس روایت کو ابوداو نے نقل کیا ہے، نیز ایک اور نسخہ میں رواہ ابوداؤد کے بعد ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے۔ وفیہ قصۃ وفی سندہ محمد بن اسحق۔

【19】

بیماری سے احصار واقعہ ہوجاتا ہے

حضرت حجاج بن عمرو انصاری (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کا پاؤں ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو وہ حلال ہوگیا۔ یعنی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے اور اپنے گھر واپس جائے لیکن آئندہ سال اس پر حج واجب ہوگا۔ ( ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) ابوداؤد کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا وہ بیمار ہوجائے۔ نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے جب کہ بغوی نے مصابیح میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو احرام باندھ لینے کے بعد دشمن کے خوف کے علاوہ بھی اور کوئی مانع پیش آجائے اس کے لئے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے، چناچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کے خوف کے علاوہ احصار کی اور صورتیں بھی ہیں مثلا بیماری وغیرہ جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ وفی المصابیح ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو بغوی نے جس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ سند ضعیف ہے لہٰذا بغوی کی سند ضعیف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ترمذی وغیرہ کی سند بھی ضعیف ہو اور اگر اس بارے میں تعارض تسلیم بھی کرلیا جائے تو ترمذی کے قول ہذا حدیث حسن (یہ حدیث حسن ہے) کو بغوی کے اس کہنے پر کہ یہ حدیث ضعیف ہے تو ترجیح حاصل ہوگی، پھر یہ کہ ایک نسخہ میں ترمذی کے قول میں لفظ حسن کے بعد لفظ صحیح بھی ہے نیز تور پشتی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہنا بالکل غلط ہے۔

【20】

حج کارکن اعظم قیام عرفات ہے

حضرت عبدالرحمن بن یعمر دیلی کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حج عرفہ ہے (یعنی حج کا سب سے بڑا رکن ذی الحجہ کی نو یا دس تاریخ میں قیام عرفات ہے) جس نے مزدلفہ کی رات یعنی ذی الحجہ کی دسویں رات میں طلوع فجر سے پہلے وقوف عرفات پا لیا اس نے حج کو پا لیا۔ منیٰ میں ٹھہرنے کے تین دن ہیں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں تیرہویں تاریخ جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں، ان دنوں میں منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے اور رمی جمار کی جاتی ہے پس جو شخص جلدی کرے اور دو ہی دن کے بعد چلا آئے اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو شخص تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح اس نے حج کو پا لیا کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حج فوت نہیں ہوا اور وہ حج میں کسی خرابی اور فساد سے مامون رہا بشرطیکہ اس نے احرام کا وقت پورا ہونے سے پہلے بیوی سے ہم بستری یا کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کیا ہو جو احرام کی حالت میں ممنوع ہے اور یہ بات تو پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ جس شخص کا حج فوت ہوجائے یعنی وہ ذی الحجہ کی دسویں رات کو طلوع فجر تک ایک منٹ کے لئے بھی وقوف عرفات نہ کرسکے تو اس پر یہ واجب ہوگا کہ وہ عمرہ کے افعال یعنی طواف و سعی کے بعد احرام کھول دے، آئندہ سال کے حج تک مسلسل احرام باندھے رہنا اس کے لئے حرام ہے۔ جو شخص جلدی کرے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو ظہر کے بعد تینوں مناروں پر کنکریاں مار کر مکہ چلا آئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اور تیرہویں رات میں قیام منیٰ اور تیرہویں تاریخ کو کنکریاں مارنا اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص تاخیر کرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو رمی جمرات کے بعد منیٰ ہی میں ٹھہرا رہے تآنکہ تیرہویں رات کو بھی رمی جمرات کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، گویا جواز کے اعتبار سے تو دونوں صورتیں برابر ہیں، البتہ کثرت عبادت کے پیش نظر تاخیر افضل ہے۔ منقول ہے کہ اہل جاہلیت میں دو فریق تھے، ایک فریق تو تعجیل کو گناہ کہتا تھا اور دوسرا فریق تاخیر کو، چناچہ یہ حکم نازل ہوا کہ تعجیل اور تاخیر دونوں برابر ہیں ان میں سے کسی میں کوئی گناہ نہیں ہے۔