73. حرم مدینہ کا بیان

【1】

حرم مدینہ (اللہ اس کو آفات سے محفوظ رکھے) کا بیان

مدینہ اور اس کی گرداگرد زمین کی حرمت کے بارے میں بھی احادیث منقول ہیں، لیکن اس سلسلہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، چناچہ حنفی علماء کے نزدیک مدینہ اور اس کی گرداگرد زمین کی حرمت کا مطلب یہ ہے کہ اس شہر مقدس اور اس کی چاروں طرف کی زمین کی تعظیم و تکریم کی جائے، نہ یہ کہ اس کا بھی وہی حکم ہے جو مکہ اور اس کی گردا گرد زمین کا ہے، لہٰذا حنفی مسلک کے مطابق مدینہ اور اس کی اطراف کی زمین میں درخت وغیرہ کاٹنا اور شکار کرنا حرام نہیں ہے۔ لیکن ائمہ ثلاثہ کے نزدیک چونکہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کا ایک ہی حکم ہے اس لئے ان کے مسلک میں مدینہ اور اس کے اطراف کی زمین میں وہ تمام چیزیں جو حرام ہیں جو مکہ اور اس کے اطراف کی زمین میں حرام ہیں تاہم ان ائمہ کے ہاں بھی حرم مدینہ میں ان چیزوں کے ارتکاب سے جزاء واجب نہیں ہوتی۔

【2】

حرم مدینہ کی حدود

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کے طرف سے علاوہ قرآن اور ان باتوں کے جو اس صحیفہ میں ہیں اور کچھ نہیں لکھا ہے ! حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے اس صحیفہ میں رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی لکھا ہے کہ مدینہ عیر اور ثور کے درمیان حرام ہے، لہٰذا جو شخص مدینہ میں بدعت پیدا کرے یعنی ایسی بات کہے یا رائج کرے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اس شخص کے نہ (کامل طور) فرض (اعمال) قبول کئے جاتے ہیں نہ نفل ! مسلمانوں کے عہد ایک ہے جس کے لئے ان کا ادنیٰ شخص بھی کوشش کرسکتا ہے لہٰذا جو شخص کسی مسلمان کے عہد کو توڑے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل ! جو شخص اپنے ساتھوں کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے موالات (دوستی) قائم کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب آدمیوں کی لعنت ہے، نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل ! (بخاری ومسلم) بخاری اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جو شخص اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کا دعویٰ کرے (یعنی یوں کہے کہ میں زید کا بیٹا ہوں جب کہ حقیقت میں وہ بکر کا بیٹا ہو) یا اپنے مالک کی بجائے کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے (مثلاً یوں کہے کہ میں زید کا غلام یا خدمت گار ہوں جب کہ حقیقت میں وہ بکر کا غلام یا خدمت گار ہو) تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل۔ تشریح کچھ لوگوں نے آپس میں کہا ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) کو قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب بطور خاص عنایت کی ہے جس کا علم اور کسی کو نہیں ہے، جب یہ بات حضرت علی (رض) نے سنی تو اس کی تردید کی اور فرمایا کہ میں نے تو آنحضرت ﷺ کی طرف سے صرف قرآن کریم لکھا ہے یا پھر چند احکام پر مشتمل وہ احادیث لکھی ہیں جو اس صحیفہ میں ہیں، ان کے علاوہ نہ تو میں نے کوئی اور کتاب لکھی ہے اور نہ آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کے علاوہ مجھے اور کوئی کتاب دی ہے، چناچہ اس صحیفہ سے مراد وہ لکھا ہوا ورق تھا جس میں آنحضرت ﷺ نے دیات کے احکام اور چند دوسرے احکام تحریر کرائے تھے اور جو حضرت علی (رض) کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا۔ اس صحیفہ یا ورق میں دیات کے احکام کے علاوہ اور جو احکام لکھے ہوئے تھے ان میں مدینہ کے بارے میں بھی یہی حکم تھا، جو حضرت علی (رض) نے مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا۔ لہٰذا مدینہ عیر اور ثور کے درمیان حرام ہے، کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ منورہ اور اس کے گرداگرد زمین کا وہ حصہ جو عیر اور ثور کے درمیان ہے بزرگ قدر اور باعظمت ہے ! اس میں ایسی چیزوں کا ارتکاب ممنوع ہے، جو اس مقدس شہر اور اس کی باعظمت زمین کی توہین و حقارت کا سبب ہوں، لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک حرام سے مراد حرم ہے یعنی مدینہ، حرم مکہ کی مانند ہے کہ جو چیزیں مثلاً شکار وغیرہ حرم مکہ میں حرام ہیں وہ مدینہ میں بھی حرام ہیں، اس طرح ان کے ہاں حرم مدینہ کی حدود عیر اور ثور نامی پہاڑ ہیں جو مدینہ مطہرہ کے دونوں طرف واقع ہیں۔ لایقبل منہ صرف ولاعدل، میں لفظ صرف کے معنی فرض بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور نفل بھی نیز توبہ اور شفاعت بھی اس لفظ کے معنی ہوسکتے ہیں، اس طرح لفظ عدل کے معنی نفل بھی مراد لئے جاسکتے ہیں اور فرض بھی۔ نیز فدیہ اور بعض حضرات کے قول کے مطابق شفاعت، یا توبہ، بھی اس لفظ کے معنیٰ ہوسکتے ہیں۔ حضرت علی (رض) نے اس صحیفہ میں سے آنحضرت ﷺ کا لکھوایا ہو ادوسرا حکم یہ بیان کیا کہ مسلمانوں کا امان ایک شئے واحد کی مانند ہے کہ اس کا تعلق ملت کے ہر فرد سے ہوسکتا ہے خواہ وہ برتر ہو یا کمتر، مثلاً جس طرح کسی اعلیٰ حیثیت کے مسلمان کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو عہد امان دے اسی طرح کسی ادنیٰ ترین مسلمان کو بھی عہد امان دینے کا اختیار حاصل ہے اور اس کے عہد امان کا لحاظ کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے، گویا اس حکم کا حاصل یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی حقیر و کمتر ہو (جیسے غلام وغیرہ) کسی غیر مسلم کو امان دے اور اس سے اس کی جان و مال کی حفاظت کا عہد کرے، اس کو اپنی پناہ میں لے لے تو اس کے عہد کو توڑنا کسی دوسرے مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے عہد امان کو پامال کرے گا بایں طور کہ اس کے زیر امان غیر مسلم کی جان و مال کو نقصان پہنچائے تو وہ اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام مسلمانوں کی لعنت کا مستحق ہوگا۔ حضرت علی (رض) نے اس صحیفہ کا ایک حکم یہ بھی بیان کیا کہ جو شخص اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے سلسلہ موالات یعنی رابطہ دوستی قائم کرے وہ بھی لعنت کا مستحق ہوتا ہے ! اس ضمن میں کچھ تفصیل ہے اس کو جان لینا چاہئے ولاء کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم تو ولاء موالات ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا اہل عرب کا یہ معمول تھا کہ کچھ لوگ آپس میں دوستی کا رشتہ قائم کر کے یہ عہد کرتے اور قسم کھاتے تھے کہ ہم دوسرے کے بھلے برے میں شریک رہیں گے، زندگی کے ہر مرحلہ پر ہر ایک دوسرے کا ممد و معاون رہے گا، آپس میں ایک دوسرے کے دوست سے دوستی رکھیں گے اور دشمن کو دشمن سمجھیں گے۔ اسی کو ولاء موالات کہتے ہیں۔ ایام جاہلیت میں تو آپس کے عہد و پیمان کا تعلق صحیح و غلط، حق و ناحق، ہر معاملہ سے ہوتا تھا، ایک شخص چاہے حق پر ہو چاہے ناحق پر، اس کے دوسرے ساتھی اس کی مدد ہر حال میں کرتے تھے۔ لیکن جب اسلام کی روشنی نے عہد جاہلیت کی ظلمت کو ختم کیا تو مسلمانوں نے اس میں اتنی ترمیم کی کہ ان کا ایک دوسروں کے ساتھ تعان و اشتراک صرف صحیح اور حق معاملہ تک محدود رہتا لیکن اس کے باوجود یہ معمول جاری رہا یہاں تک کہ اکثر اہل عجم، عرب میں آ کر صحابہ سے اس کا سلسلہ قائم کرتے تھے۔ دوسری قسم ولاء عتاقت ہے اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے کسی غلام کو آزاد کرتا ہے تو اس غلام پر یہ حق ولاء ثابت ہوجاتا ہے کہ اس کے عصبہ (بیٹا پوتا وغیرہ) نہ ہونے کی صورت میں وہ آزاد کرنے والا اس کا وارث بن جاتا ہے لہٰذا ذوی الفروض (باپ دادا وغیرہ سے جو کچھ بچتا ہے وہ اس کا مالک ہوتا ہے۔ اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر اب سمجھئے کہ حدیث میں مذکورہ موالات سے ولاء کی پہلی قسم بھی مراد ہوسکتی ہے، اس صورت میں اس حکم کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص کے موالی یعنی مذکورہ بالا عہد و پیمان کے مطابق دوست اور رفقاء ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ان دوستوں کی اجازت کے بغیر کسی اور جماعت کو اپنا موالی (دوست) نہ بنائے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک طرح کی عہد شکنی بھی ہوتی ہے اور مسلمانوں کو قلبی اذیت اور روحانی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی ہوتا ہے جو کسی مسلمان کے لئے قطعا مناسب نہیں ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ موالات سے ولاء کی دوسری قسم مراد ہو، اس کے پیش نظر معنی یہ ہوں گے کہ جو شخص اپنی آزادی کی نسبت آزاد کرنے والے کی بجائے کسی دوسرے کی طرف کرے تو وہ مستحق لعنت ہوتا ہے جیسا کہ اپنے باپ کی بجائے کسی غیر کی طرف اپنی نسبت کرنے والا شخص مستحق لعنت ہوتا ہے اس صورت میں بغیر اذن موالیہ کی قید اکثر کے اعتبار سے ہوگی کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر آزادی یافتہ غلام اپنے مالک سے اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کی نسبت اس کی بجائے کسی دوسرے کی طرف کرے تو وہ اس کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مالک اجازت دے دے تو پھر غیر مالک کی طرف نسبت کرنا درست ہوجائے گا کیونکہ پھر جھوٹ کی صورت بن جائے گی جو ویسے بھی جائز نہیں ہے۔ شیعوں کے قول کی تردید شیعہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) سے ایک وصیت نامہ مرتبہ کرایا تھا، جس میں جہاں اور بہت سی خاص باتیں تھیں وہیں حضرت علی (رض) کو اپنا خلیفہ اول مقرر کرنے کی ہدایت بھی تھی۔ اس وصیت نامہ کا علم اہل بیت میں سے چند مخصوص افراد (مثلاً حضرت علی (رض) وحضرت فاطمہ (رض) وغیرہ) کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا، ظاہر ہے کہ شیعہ حضرات کا یہ قول اختراع سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ مذکورہ بالا حدیث اس قول کی تردید میں مضبوط دلیل ہے، چناچہ حضرت علی (رض) خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔ آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر وثواب کا باعث بھی۔

【3】

مدینہ میں رہنا دنیا وعقبی کی بھلائی ہے

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے کناروں کے درمیان کو حرام (باعظمت) قرار دیتا ہوں، لہٰذا نہ تو اس زمین کے ( جو، ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ہے) خاردار درخت کاٹے جائیں اور نہ اس میں شکار مارا جائے (حنفیہ کے نزدیک یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے) مدینہ ان (لوگوں) کے لئے ( جو مدینہ میں رہتے ہیں) بہتر ہے (یعنی مدینہ کا قیام دنیا و عقبی کی بھلائی کا ضامن ہے) بشرطیکہ وہ اس کی بھلائی و بہتری کو جانیں تو اس شہر کی اقامت کو ترک نہ کریں اور دنیا کے آرام و راحت کے لئے اس کو چھوڑ کر اور کہیں نہ جائیں جو بھی شخص بےرغبتی کے ساتھ (یعنی بلا ضرورت) اس شہر کو چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے ایسے شخص کو مقیم کر دے گا جو اس سے بہتر ہوگا (یعنی بےرغبتی کے ساتھ مدینہ کو چھوڑنا مدینہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے مفید ہی ہوگا کہ اس شخص کی جگہ کوئی اس سے بہتر شخص آ کر مقیم ہوگا کہ ضرورت و مجبوری کے تحت مدینہ کو چھوڑنا اس حکم میں داخل نہیں) اور جو بھی شخص مدینہ میں سختیوں اور بھوک پر ثابت قدم رہے گا (یعنی وہاں کی ہر تنگی و پریشانی پر صبر کرے گا) تو میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا یہ فرمایا کہ میں اس (کی اطاعت) کا گواہ بنوں گا۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں جہاں مدینہ کے رہنے والوں کے لئے خاتمہ بخیر کی سعادت عظمی کی بشارت ہے وہیں یہ تنبیہ بھی ہے کہ مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی سکونت پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر شکر بھی کرتا رہے اور وہاں کی ہر سختی و مصیبت پر صابر بھی رہے، نیز یہ کہ وہ ان مقدس شہروں کی بھلائی سے صرف نظر کر کے دوسری جگہوں کی ظاہری نعمت اور راحت و آرام پر نظر نہ رکھے کیونکہ اصل نعمت اور اصل راحت تو آخرت کی نعمت اور وہاں کی راحت ہے جیسا کہ یہ حدیث ہے۔ اللہم لا عیش الا عیش الآخرۃ۔ اے اللہ ! آخرت کی راحت و آرام کے علاوہ اور کوئی راحت و آرام نہیں ہے۔

【4】

مدینہ میں تکلیف ومصیبت کے وقت صبر کرنے والے کا اجر

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کا جو بھی شخص مدینہ میں سختی و بھوک پر اور وہاں کی کسی بھی تکلیف و مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (مسلم)

【5】

مدینہ کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ لوگوں کا معمول تھا کہ جب وہ کوئی نیا پھل دیکھتے تو اس کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لاتے اور جب آپ ﷺ اس پھل کو لیتے تو فرماتے، اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر میں برکت عطا فرما، ہمارے صاع میں برکت عطا فرما (صاع ایک پیمانہ کا نام تھا) ہمارے مد میں برکت عطا فرما (مد بھی ایک پیمانہ کا نام تھا) اور اے اللہ ! ابراہیم تیرے بندے تھے، تیرے خاص دوست تھے اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ ہوں اور تیرا نبی ہوں، ابراہیم نے تجھ سے مکہ کے لئے دعا مانگی تھی (جو اس آیت ( فَاجْعَلْ اَفْى ِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ ) 14 ۔ ابراہیم 37) اور میں بھی تجھ سے مدینہ کے لئے دعا مانگتا ہوں اسی طرح کی دعا جو ابراہیم نے مکہ کے لئے مانگی تھی بلکہ اس کی مانند اور بھی دعا (یعنی ابراہیم نے جو دعا مانگی تھی میں نہ صرف اسی طرح کی دعا بلکہ اس سے بھی دو چند دعا مانگتا ہوں) پھر ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اس کے بعد آنحضرت ﷺ اپنے خاندان کے سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور اس کو وہ پھل عنایت فرماتے (تاکہ وہ بچہ خوش ہوجائے) (مسلم) تشریح برکت کے معنی ہیں زیادہ ہونا لہٰذا پھل میں برکت کی دعا مانگنے کا مطلب تو ظاہر ہی ہے، البتہ شہر میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں وسعت ہو، اس میں لوگ کثرت سے آباد ہوں اور اس کی تہذیبی و تمدنی حیثیت مثالی درجہ اختیار کرے چناچہ آپ ﷺ کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ شہر کا رقبہ بڑھا، اس کی آبادی بڑھی، مسجد نبوی کی بھی توسیع ہوئی اور دور دور سے آ کر مسلمان کثیر تعداد میں یہاں آباد ہوئے اور اس کے علاوہ یہ شہر اپنی تہذیبی و تمدنی حیثیت سے بھی مثالی درجہ پر پہنچا ! صاع اور مد میں برکت سے مراد یہ ہے کہ رزق میں فراخی ہو۔ حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں اور آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے حبیب ! اس کے باوجود کہ خلیل سے حبیب کا مرتبہ بڑا ہے آپ ﷺ نے حضرت ابراہیم کی اس صفت کو ذکر کیا مگر سبب تواضع و انکسار اپنی صفت کو ذکر نہیں کیا اپنے کو صف اللہ کا بندہ اور اس کا نبی کہنے پر اکتفاء فرمایا۔

【6】

مدینہ کی حرمت کا ذکر

حضرت ابوسعید (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت ابرہیم نے مکہ کو بزرگی دی اور اس کو حرم قرار دیا (یعنی انہوں نے مکہ کی بزرگی اور حرم کو ظاہر کیا) اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی ہے اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضا یہ ہے کہ نہ تو اس میں خونریزی کی جائے نہ وہاں جنگ کے لئے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ اس کے درخت کے پتے جھڑے جائیں البتہ جانوروں کے کھانے کے لئے جھاڑے جاسکتے ہیں۔ (مسلم) تشریح علامہ تو پشتی کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ وانی حرمت المدینہ میں تحریم سے مراد تعظیم ہے (جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کی گیا ہے) اس سے وہ احکام مراد نہیں جو حرم سے متعلق ہیں یعنی شکار وغیرہ کا حرام ہونا چناچہ اس بات کی دلیل خود آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ اور نہ اس کے درخت کے پتے جھاڑے جائیں البتہ جانوروں کے کھانے کے لئے جھاڑے جاسکتے ہیں (اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حرم مکہ کا جو حکم ہے وہ حرم مدینہ کا نہیں ہے) کیونکہ مکہ کے جو درخت ہیں ان کے پتے جھاڑنے کسی حالت میں بھی درست نہیں ہیں، جہاں تک شکار کا تعلق ہے تو اگرچہ بعض صحابہ نے مدینہ میں شکار مارنے کو حرام کہا ہے لیکن اکثر صحابہ نے مدینہ کے پرندوں کے شکار کا انکار (یعنی اس سے منع) نہیں کیا ہے نیز اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی کوئی ممانعت کسی ایسے طریق سے ہم تک نہیں پہنچی ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے، یہ علامہ تو پشتی کا اقتباس ہے اس بارے میں ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے، اہل علم ان کی شرح سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

【7】

سعد بن وقاص کا ایک واقعہ

حضرت عامر بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد بن وقاص (رض) جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں اپنی حویلی کی طرف جو مدینہ کے قریب مقام عقیق میں تھی، سوار ہو کر چلے تو راستہ میں انہوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا اس درخت کے پتے جھاڑ رہا تھا، حضرت سعد (رض) نے بطور سزا و تنبیہ اس غلام کے کپڑے چھین لئے، پھر جب وہ مدینہ واپس آئے تو غلام کے مالک ان کی خدمت میں آئے اور یہ گفتگو کی کہ انہوں نے جو چیز ان کے غلام سے لی ہے یعنی اس کے کپڑے اسے وہ غلام کو واپس کردیں یا ان مالکوں کو دے دیں۔ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ میں اس چیز کو کیسے واپس کرسکتا ہوں جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے دلوائی ہے۔ چناچہ سعد نے کپڑے واپس کرنے سے بالکل انکار کردیا۔ (مسلم) تشریح ان یرد علی غلامہم او علیہم، حرف او راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ ان کے مالکوں نے یا تو کہا تھا کہ غلام کے کپڑے غلام کو واپس کردیں یا اس کے بجائے یہ کہا تھا کہ جو کپڑے ہمارے غلام سے لئے ہیں وہ ہمیں دے دیں۔ حدیث کے اس جملہ جو مجھے رسول اللہ ﷺ نے دلوائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ جو شخص کسی کو مدینہ میں شکار مارتے یا درخت کاٹتے دیکھے تو وہ اس کے کپڑے ضبط کرلے، لہٰذا کہا جائے گا کہ یا تو یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر یہ کہ آپ ﷺ کی طرف سے یہ اجازت زجر تنبیہ کے طور پر دی گئی تھی۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مدینہ میں شکار مارنے یا درخت کاٹنے کی وجہ سے بدلہ کفارہ واجب نہیں ہوتا بلکہ مدینہ میں یہ چیزیں بغیر بدلہ کے حرام ہیں، جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ جس طرح مکہ میں ان چیزوں کے ارتکاب سے بدلہ واجب ہوتا ہے اسی طرح مدینہ میں بھی ان کی وجہ سے بدلہ میں واجب ہوتا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک مدینہ میں یہ چیزیں حرام نہیں ہیں البتہ مکروہ ہیں۔

【8】

مدینہ کی آب وہوا کی اصلاح کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعا

حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت بلال (رض) بخار میں مبتلا ہوگئے، چناچہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ ﷺ کو ان کی بیماری کی خبر دی، آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے جس طرح تو نے مکہ کو ہمارا محبوب بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا درست فرما دے اور مدینہ کے صاع و مد میں ہمارے لئے برکت عطا فرما، نیز مدینہ کے بخار کو (یعنی بخار کی کثرت و وباء کو) کو یہاں سے نکال کر جحفہ میں منتقل کر دے۔ (بخاری ومسلم) تشریح منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) شدت بخار میں مبتلا ہوئے اور حضرت عائشہ (رض) نے ان کی مزاج پرسی کی تو اس وقت وہ مکہ اور وہاں کی آب و ہوا، وہاں کے مکانات اور پہاڑوں کی صحت افزاء فضاؤں وغیرہ کا بآواز بلند ذکر کرنے لگے، چناچہ حضرت عائشہ (رض) نے آنحضرت ﷺ سے یہ حال ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مذکورہ بالا دعا فرمائی۔ جحفہ ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے، اس مقام پر یہودی آباد تھے، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے کفار کے لئے مہلک امراض اور ان کے شہروں کی خرابی کی بددعا کرنا جائز ہے، چناچہ اس حدیث کے علاوہ ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ مدینہ میں آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے بیماری اور وباؤں کی کثرت تھی آپ ﷺ نے ان وباؤں کو (اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ) کفار کے علاقوں میں بھیج دیا۔

【9】

آپ ﷺ کا ایک خواب اور اس کی تعبیر

حضرت عبداللہ بن عمر مدینہ سے متعلق نبی کریم ﷺ کے خواب کے سلسلہ میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے ایک کالی عورت کو دیکھا جس کے بال پراگندہ تھے وہ مدینہ سے نکلی اور مہیعہ چلی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ لی کہ مدینہ کی وباء مہیعہ یعنی جحفہ کی طرف منتقل کردی گئی ہے۔ (بخاری )

【10】

مدینہ کے کچھ لوگوں کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی ایک پیش گوئی

حضرت سفیان بن ابوزہیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا، رسول کریم ﷺ فرماتے تھے۔ جب یمن فتح ہوجائے گا تو ایک ایسا گروہ آئے گا جو آہستہ رو ہوگا (یعنی مدینہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو محنت و مشقت سے دور رہ کر دنیا کی راحت و آرام کے طالب ہوں گے) چناچہ وہ لوگ اپنے و اہل و عیال کے ساتھ مدینہ سے چلے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر جگہ ہوگی اگر وہ مدینہ کے بہتر ہونے کو جانیں تو مدینہ کو نہ چھوڑیں۔ جب شام فتح ہوگا تو ایک گروہ آئے گا جو آہستہ رو ہوگا چناچہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ سے چلے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر جگہ ہوگی اگر وہ جانیں۔ اسی طرح جب عراق کو فتح کیا جائے گا تو ایک گروہ آئے گا جو آہستہ رو ہوگا چناچہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ سے چلے جائیں گے۔ حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر جگہ ہوگی اگر وہ جانیں (تو مدینہ کو نہ چھوڑیں گے) ۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ آپ ﷺ نے مدینہ کے کچھ لوگوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی ہے کہ جب مذکورہ بالا ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوجائیں تو وہ لوگ مدینہ کی سخت کوش زندگی سے اکتا کر طلب معاش اور دنیا کے فانی فائدوں اور آسائشوں کی خاطر اس مقدس و بابرکت شہر کو چھوڑ کر ان ممالک میں جا بسیں گے، حالانکہ ہر اعتبار سے مدینہ ہی ان کے لئے سب سے بہتر جگہ ہوگی، اگر وہ اس حقیقت کو جان لیں اور دنیا و آخرت کی سعادت و بھلائی ان کے پیش نظر رہے تو مدینہ کو نہ چھوڑیں۔

【11】

مدینہ برے آدمیوں کو نکال دیتا ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں پر غالب رہتی ہے اور اس بستی کو لوگ یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے جو برے آدمیوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال دیتی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح جو تمام بستیوں پر غالب رہتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مدینہ میں رہتے ہیں وہ دوسرے لوگوں پر غالب رہتے ہیں اور دوسرے شہروں کو فتح کرتے ہیں، چناچہ تاریخی طور پر اس عظیم الشان شہر کی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ مدینہ میں آکر بسنے والے دوسروں پر غالب اور بیشتر شہروں کے فاتح رہے ہیں، پہلے قوم عمالقہ آ کر شہر میں آباد ہوئی اس نے غلبہ حاصل کیا اور کتنے ہی شہروں اور علاقوں کو فتح کیا، پھر یہود آئے تو وہ عمالقہ پر غالب ہوئے پھر انصار پہنچے تو انہوں نے یہودیوں پر اپنا اقتدار قائم کیا، یہاں تک کہ جب سرکار دو عالم ﷺ اور مہاجرین کرام (رض) نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو ان کو جس طرح غلبہ حاصل ہوا اور جس طرح انہوں نے مشرق سے لے کر مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا وہ سامنے کی بات ہے۔ اس شہر کا نام پہلے یثرب اور اثرب تھا، جب رسول کریم ﷺ ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اس شہر کی مدنیت اور کثرت آبادی کے پیش نظر اس کا نام مدینہ رکھا نیز آپ ﷺ نے حکم دیا کہ آئندہ اس شہر کو یثرب نہ کہا جائے کیونکہ اول تو یہ زمانہ اسلام سے قبل کا نام تھا جس سے عہد جاہلیت کی بو آتی تھی، دوسرے یہ کہ معنوی طور پر بھی یہ نام بالکل نامناسب تھا اس لئے کہ یثرب کے معنی ہیں ہلاک و فساد نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یثرب ایک بت یا ایک بہت بڑے ظالم شخص کا نام تھا۔ بخاری نے اپنی تاریخ میں ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ یثرب کہے تو اسے چاہئے کہ وہ دس مرتبہ مدینہ کہے تاکہ اس مقدس شہر کا ممنوع نام لینے کا تدارک اور اس کی تلافی ہوجائے، نیز ایک روایت یہ بھی ہے کہ جو شخص یثرب کہے وہ استغفار کرے ۔ برے آدمیوں سے مراد اہل کفر و شرک ہیں، جو اسلام کا غلبہ ہوجانے کے بعد اس شہر سے نکال دئیے گئے تھے، چناچہ کفار و مشرکین پر اس شہر کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے گئے ہیں۔

【12】

اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدینہ کا نام

حضرت جابر بن سمرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا، رسول کریم ﷺ یہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ (مسلم) تشریح اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی لسان مقدس کے ذریعہ مدینہ کا نام طابہ ظاہر فرمایا ہے اور ایک روایت میں طیبہ ہے جس کے معنی ہیں پاک و خوش یعنی یہ شہر مقدس کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک ہے، اس کی آب و ہوا طبائع سلیم کو موافق ہے اور یہاں کے رہنے والے خوش و خرم ہیں۔

【13】

مدینہ کی خصوصیت

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں رہنے کی آپ ﷺ سے بیعت کی، کچھ ہی دنوں کے بعد جب وہ مدینہ کے شدید بخار میں مبتلا ہوا اور اس صورت میں اس سے مدینہ رہنا گوارا نہ ہوا اور وہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد ! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ مگر آپ ﷺ نے انکار کردیا، وہ پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد ! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی انکار کردیا، اس کے بعد وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر انکار کردیا، چناچہ وہ آپ ﷺ کی اجازت کے بغیر ہی مدینہ سے بھاگ گیا، جب آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو اپنے میل کو دور کردیتا ہے اور اپنے اچھے آدمی کو نکھار دیتا ہے یعنی برے آدمی کو نکال باہر کرتا ہے اور پاک باطن و مخلص آدمی کو پلید ذہن اور بدطینت آدمی سے الگ کردیتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ نے اس کی بیعت کو فسخ کرنے سے اس لئے انکار فرمایا کہ جس طرح اسلام کی بیعت کو فسخ کردینا جائز نہیں تھا اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کی بیعت کو بھی فسخ کردینے کی اجازت نہیں تھی۔ علماء لکھتے ہیں کہ مدینہ کی اس خاصیت یعنی برے آدمیوں کو نکال دینے اور اچھے آدمیوں کو خالص کردینے کا تعلق یا تو آنحضرت ﷺ ہی کے زمانہ کے ساتھ خاص تھا یا پھر آخر زمانہ میں قیامت کے قریب اس مقدس شہر کی یہ خاصیت ظاہر ہوگی کہ جب دجال نمودار ہوگا تو مدینہ کو تین مرتبہ ہلایا اور جھنجھوڑا جائے گا چناچہ اس وقت مدینہ میں جتنے بھی برے لوگ ہوں گے (خواہ وہ کافر ہوں یا منافق) اس شہر سے نکل پڑیں گے اور دجال کے پاس پہنچ جائیں گے، نیز یہ احتمال بھی ہے کہ اس خاصیت کا تعلق ہر زمانہ کے ساتھ ہو۔

【14】

مدینہ کی خصوصیت

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ مدینہ اپنے شریر (یعنی برے) لوگوں کو اس طرح نہ نکال پھینکے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال پھینکتی ہے۔ (مسلم)

【15】

مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگا

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مدینہ کے راستوں یا اس کے دروازوں پر بطور نگہبان فرشتے متعین ہیں، نہ تو مدینہ میں طاعون کی بیماری داخل ہوگی نہ دجال داخل ہوگا (بخاری ومسلم) تشریح طاعون وبا کے علاوہ ایک خاص بیماری کو بھی کہتے ہیں چناچہ یہاں حدیث میں اسی خاص بیماری کے بارے میں فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے یہ بیماری مدینہ میں داخل نہیں ہوگی، گویا یہ آنحضرت ﷺ کا ایک صریح معجزہ ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں طاعون کا ترجمہ وباء ہی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مدینہ میں وباء کا داخل نہ ہونا یا تو دجال کے ظاہر ہونے کے وقت ہوگا یا یہ کہ اس کا تعلق ہر زمانہ سے ہے۔

【16】

مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگا

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مکہ اور مدینہ کے علاوہ ایسا کوئی شہر نہیں ہے جسے دجال نہ روندے گا اور مدینہ، یا مکہ اور مدینہ میں سے ہر ایک کے راستوں میں ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس پر صف باندھے ہوئے فرشتے نہ کھڑے ہوں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں چناچہ جب دجال مدینہ سے باہر زمین شور میں نمودار ہوگا تو مدینہ اپنے باشندوں کے ساتھ زلزلہ کی صورت میں تین مرتبہ ہلے گا جس کے نتیجہ میں ہی کافر و منافق مدینہ سے نکل پڑے گا اور دجال کے پاس چلا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)

【17】

اہل مدینہ سے مکروفریب کرنے والے کی سزا

حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی مدینہ والوں سے مکر و فریب کرے گا وہ اس طرح گھل جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح تاریخ اسلام کی بدنام ترین شخصیت یزید کا یہی حال ہوا کہ وہ واقعہ حرہ کے بعد دق اور سل کی بیماری میں گھل گھل کر مرگیا۔

【18】

مدینہ سے آنحضرت ﷺ کی محبت

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب کسی سفر سے واپس ہوتے تو مدینہ منورہ کی دیواریں (یعنی اس کی عمارتیں) دیکھ کر اپنے اونٹ کو دوڑانے لگتے اور اگر گھوڑے یا خچر پر سوار ہوتے تو اس کو تیز کردیتے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ آپ ﷺ کو مدینہ سے محبت تھی۔ (بخاری)

【19】

احد پہاڑ کی فضیلت

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی نظر مبارک جب احد پہاڑ پر پڑی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں (پھر آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) اے اللہ ! حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرام کیا (یعنی اس کے حرم ہونے کو ظاہر کیا) اور میں اس قطعہ زمین کو حرام کرتا ہوں (یعنی قابل تعظیم قرار دیتا ہوں) جو سنگسان مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے یہ جملہ بلا شک و شبہ اپنے طاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جمادات (یعنی پتھروں وغیرہ) میں بھی ان کے حسب حال علم و فہم اور محبت و عداوت، خاص طور سے انبیاء و اولیاء اور بالاخص حضرت سید الانبیاء ﷺ کی محبت پیدا کی ہے، نیز یہ کہ پروردگار عالم جس کو دوست رکھتا ہے اس کو تمام چیزیں دوست رکھتی ہیں کیونکہ ہر چیز پروردگار کی مخلوق اور اس کی تابعدار ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ کی مفارقت کی وجہ سے کھجور کے تنے کے رونے کا واقعہ اس دعویٰ کی صریح دلیل ہے۔ وانی احرم ما بین لابتیہا کا مطلب جیسا کہ ترجمہ میں بھی ظاہر کیا گیا، یہ ہے کہ میں اس قطعہ زمین کو جس میں مدینہ ہے بزرگ قدر اور قابل تعظیم قرار دیتا ہوں، اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ مکہ کی طرح مدینہ اور اس کے اطراف کی زمین بھی بایں معنی حرم ہے کہ اس کا درخت کاٹنا اور اس میں شکار وغیرہ حرام ہے۔

【20】

احد پہاڑ کی فضیلت

حضرت سہل بن سعد (رض) راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں ۔ (بخاری)

【21】

حرم مدینہ کا مسئلہ

حضر سلیمان بن ابوعبداللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے ایک شخص کو پکڑا جو اس حرم مدینہ (یعنی مدینہ کے اطراف) میں شکار مار رہا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام ٠ یعنی قابل تعظیم) قرار دیا ہے، چناچہ حضرت سعد (رض) نے اس شخص کے کپڑے زجر و تنبیہ کے طور پر چھین لئے، پھر اس شخص کے مالک آئے اور حضرت سعد (رض) سے اس کے بارے میں گفتگو کی، حضرت سعد (رض) نے ان سے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے اس حرم کو حرام قرار دیا ہے، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو پکڑے جو اس میں شکار مار رہا ہو تو وہ اس کا سامان چھین لے۔ لہٰذا جو چیز رسول اللہ ﷺ نے مجھے دلوائی ہے (یعنی جو چیز میں نے آپ ﷺ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حاصل کی ہے) وہ تو میں (کسی حال میں بھی) واپس نہیں کروں گا، ہاں اگر تم چاہو تو میں اس کی قیمت (از راہ مروت و احسان) تمہیں دے دوں۔ (ابوداؤد)

【22】

حرم مدینہ کا مسئلہ

حضرت سعد (رض) کے آزاد کردہ غلام صالح کہتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے مدینہ کے غلاموں میں سے کچھ غلاموں کو مدینہ کا درخت کاٹتے ہوئے پایا تو انہوں نے ان کے اسباب ضبط کر لئے اور پھر ان کے مالکوں سے فرمایا کہ میں نے خود سنا ہے، رسول کریم ﷺ نے مدینہ کے درخت کا کوئی بھی حصہ کاٹنے سے منع فرمایا ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مدینہ کے درخت کا کچھ بھی حصہ کاٹے تو اس کا اسباب اس شخص کے لئے ہے جو اس کو پکڑے۔ (ابوداؤد) تشریح عن صالح مولیٰ لسعد (حضرت سعد (رض) کے آزاد کردہ غلام صالح کہتے ہیں) کے بجائے صحیح یوں ہے عن صالح عن مولیٰ لسعد (صالح حضرت سعد کے آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں) گویا مولیٰ لسعد سے پہلے لفظ عن یا تو کاتب کی غلطی سے نہیں لکھا گیا، یا پھر اس بارے میں خود مصنف کو سہو ہوا ہے کیونکہ صالح حضرت سعد کے آزاد کردہ غلام نہیں بلکہ توامہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور صالح نے یہ روایت حضرت سعد (رض) کے آزاد کردہ غلام سے نقل کی ہے۔

【23】

وج میں شکار وغیرہ کی ممانعت

حضرت زبیر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وج کا شکار اور اس کے خاردار درخت حرام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ بموجب) حرام کئے گئے (یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں یعنی غازیوں کی وجہ سے) حرام کئے گئے ہیں۔ (ابوداؤد) امام محی السنہ فرماتے ہیں کہ وج کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ یعنی وج طائف کے کنارے ایک مقام ہے، نیز خطابی نے انہا من ناحیۃ الطائف میں انہا کی بجائے انہ لکھا ہے۔ تشریح علماء لکھتے ہیں کہ مقام وج میں شکار وغیرہ کی حرمت حمی کے طور پر تھی (حمی اس چراگاہ کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کے جانور کو چرانے کی ممانعت ہو) چناچہ مقام وج میں چونکہ غازیوں کے گھوڑوں کے لئے گھاس وغیرہ روکی جاتی تھی اس لئے اس مقام میں شکار کے لئے جانا یا اس کے درخت وغیرہ کاٹنا ممنوع تھا، حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام وج کی مذکورہ بالا حرمت حرم کے طور پر تھی اور اگر یہ حرمت حرم ہی کے طور پر تھی تو پھر کہا جائے گا کہ اس حرمت کا تعلق ایک مخصوص زمانہ کے ساتھ تھا جو بعد میں منسوخ ہوگئی تھی۔ امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ مقام وج میں نہ تو شکار کیا جائے نہ وہاں کے درخت وغیرہ کاٹے جائیں تاہم انہوں نے اس میں ضمان (یعنی بطور جزاء و کفارہ کسی چیز کا واجب ہونا) ذکر نہیں کیا ہے۔

【24】

مدینہ میں مرنے کی سعادت

حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص مدینہ میں مرسکتا ہو اسے مدینہ ہی میں مرنا چاہئے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (احمد، ترمذی) امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن صحیح غریب ہے۔ تشریح حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس بات پر قادر ہو کہ مدینہ میں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک رہ سکے، تو اسے چاہئے کہ وہ مدینہ ہی میں رہے تاآنکہ اس کی موت اسی مقدس شہر میں واقع ہو اور میں اس کی شفاعت کروں بایں طور کہ اگر وہ گنہگار ہوگا تو میں اسے بخشواؤں گا اور اگر نیکوکار ہوگا تو اس کے درجات بلند کراؤں گا۔ واضح رہے کہ یہاں شفاعت سے مراد وہ خاص شفاعت ہے جو صرف مدینہ میں رہنے والوں ہی کو حاصل ہوگی اور کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوگی، البتہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت عام ہر مسلمان کے لئے ہوگی۔ لہٰذا افضل یہ ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہوجائے یا کشف وغیرہ کے ذریعہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس کی موت کا وقت قریب آگیا ہے تو وہ مدینہ منورہ میں جا رہے تاکہ وہاں مرنے کی وجہ سے وہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت خاص کی اس سعادت عظیم کا حق دار ہوجائے، حضرت عمر (رض) کی دعا کیا خوب ہے۔ اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی ببلدرسولک۔ اے اللہ ! مجھی اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں مجھے موت دے۔ دعا ہے کہ رب کریم ہم جیسے بےرز و بےپر کو بھی یہ دولت نصیب کرے۔ آمین

【25】

قرب قیامت میں مدینہ سب سے آخر میں ویران ہوگا

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ویران و اجاڑ ہونے والے اسلامی شہروں میں سب سے آخری نمبر مدینہ کا ہوگا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جب قیامت قریب ہوگی تو تمام آبادیاں اور شہر ویران و اجاڑ ہوجائیں گے اور ان میں مدینہ سب سے آخر میں ویران و اجاڑ ہوگا۔ گویا مدینہ کو یہ برکت آنحضرت ﷺ کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

【26】

آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے لئے مدینہ کا تعین

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے مطلع فرمایا کہ آپ ﷺ ان تین شہروں (١) مدینہ (٢) بحرین (٣) قنسرین۔ میں سے جس شہر میں (رہنے کے لئے) اتریں گے وہی آپ ﷺ کے لئے دارالہجرت (ہجرت کا مکان) ہوگا۔ (ترمذی) تشریح بحرین موجودہ جغرافیائی نقشہ کے مطابق ان متعدد جزیروں کے مجموعہ کا نام ہے جو خلیج غربی کے جنوب مغربی گوشے میں واقع ہیں، ان جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ، جزیرہ منامہ ہے جس کا دوسرا نام بحرین بھی ہے اسی جزیرہ کے نام پر پورے ملک کو بحرین کہتے ہیں۔ لیکن حدیث شریف اور تاریخ کی کتابوں میں بحرین کا لفظ اس علاقہ کے متعلق آیا ہے جو جزیرہ العرب کے مشرقی ساحل پر خلیج بصرہ سے قطر اور عمان تک پھیلا ہوا ہے اور موجودہ بحرین کے مغرب میں واقع ہے۔ اس علاقہ کو اب احساء کہا جاتا ہے، لہٰذا یہاں حدیث میں بھی بحرین سے مراد وہی علاقہ ہے جس کا نام اب احساء ہے۔ قنسرین ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے ! بہرکیف آنحضرت ﷺ کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ ان تین شہروں میں جس شہر کے بارے میں آپ ﷺ کی خواہش ہو مکہ سے ہجرت کر کے وہاں چلے جائیں اور اسی شہر کو اپنا مسکن قرار دیجئے۔ لیکن تاریخ مدینہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ شروع میں آنحضرت ﷺ کو ان تین شہروں میں سے کسی بھی ایک شہر میں رہنے کا اختیار دیا گیا تھا مگر آخر میں مدینہ ہی کو متعین کردیا گیا تھا، چناچہ آپ ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے۔

【27】

دجال سے مدینہ کی حفاظت

حضرت ابوبکرہ (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مدینہ میں کانے دجال کا خوف (بھی) داخل نہیں ہوگا، اس دن (جب کہ کانا دجال نمودار ہوگا) مدینہ کے سات دروازے (یعنی سات راستے) ہوں گے اور ہر دروازہ یعنی ہر راستہ پر دائیں بائیں دو فرشتے (مدینہ کی حفاظت پر مامور) ہوں گے۔ (بخاری)

【28】

مدینہ میں برکت کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعا

حضرت انس (رض) نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے (بطور دعا) فرمایا۔ اے اللہ ! مدینہ کو اس برکت سے دوگنی برکت عطا فرما جو تو نے مکہ کو عطا کی ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! مکہ کی شان و شوکت کی نسبت مدینہ کو دوگنی شان و شوکت عطا فرما، یہ دعا مدینہ پر مکہ کی فضیلت کے منافی بایں اعتبار نہیں ہے کہ مکہ میں حسنات کی زیادتی اس کے افضل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ترجیح ہے۔

【29】

حرمین میں سکونت پذیر ہونے کی سعادت

اور خطاب کے خاندان کا ایک شخص ناقل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ اور میری پناہ میں ہوگا، جس شخص نے مدینہ میں سکونت اختیار کر کے اس کی سختیوں پر صبر کیا قیامت کے دن میں اس کی اطاعت کا گواہ بنوں گا اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لئے شفاعت کروں گا اور جو شخص حرمین (مکہ اور مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا (یعنی یہ قیامت کے دن عذاب کے خوف سے مامون رہے گا) ۔ تشریح جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تجارت، دکھانے سنانے، یا اسی طرح کی اور کسی دنیاوی غرض کے لئے نہیں بلکہ حصول ثواب کے پیش نظر صرف میری زیارت کے لئے آئے گا اسے مذکورہ سعادت حاصل ہوگی۔

【30】

روضہ اطہر کی زیارت کی فضیلت

حضرت ابن عمر (رض) بطریق مرفوع (یعنی آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور پھر میرے وصال کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی مانند ہوگا جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ تشریح روضہ اطہر کی زیارت کرنے والا آپ ﷺ کی زیارت کرنے والے کی مانند اس لئے ہوتا ہے کہ آپ ﷺ حیات ہیں ! یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روضہ اطہر کی زیارت حج کے افعال سے فراغت کے بعد کی جائے۔ ایک اور روایت میں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص میری قبر کی زیارت کرتا ہے اس کے لئے میری شفاعت واجب و لازم ہوتی ہے ایک اور روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے حج بیت اللہ کی اور میری زیارت نہیں کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ اسی طرح ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ جس شخص نے مکہ یعنی حج کا قصد کیا اور پھر میری زیارت اور میری مسجد میں شرف حاضری کے حصول کا قصد کیا تو اس کے لئے یعنی اس کے نامہ اعمال میں دو مقبول حج لکھے جاتے ہیں۔

【31】

مدینہ سے آپ ﷺ کا کمال تعلق

حضرت یحییٰ بن سعید (رض) کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن مدینہ میں ایک قبر کھودی جا رہی تھی اور رسول کریم ﷺ بھی وہاں تشریف فرما تھے، ایک شخص نے قبر میں جھانکا اور کہنے لگا یہ قبر مومن کے لئے بری خوابگاہ ہے، رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ بری تو وہ چیز ہے کہ جو تم نے کہی ہے اس شخص نے عرض کیا کہ میرا منشاء یہ نہیں تھا، بلکہ اس بات سے میرا مطلب اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی فضیلت کو ظاہر کرنا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا (ہاں یہ بات تو صحیح ہے کہ) اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ روئے زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسا نہیں جس میں میری قبر بنے اور وہ مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح بری تو وہ چیز ہے جو تم نے کہی ہے کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ بات بری اور غلط ہے کہ قبر مؤمن کے لئے بری خوابگاہ ہے کیونکہ تم نے مؤمن کی قبر کو برا کہا ہے حالانکہ مؤمن کی قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ چناچہ اس شخص نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ میرا منشاء قبر کو مطلقاً مؤمن کی بری خوابگاہ کہنا نہیں تھا بلکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونا گھر میں مرنے سے بہتر ہے، آنحضرت ﷺ نے اس کے اس نکتہ کو پسند فرمایا اور تصدیق کی کہ واقعی اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں ہے، پھر آپ ﷺ نے اپنی قبر کے لئے مدینہ کی زمین کو پسند فرما کر اس شخص کی فضیلت کو ظاہر کیا جو مدینہ میں مرے اور مدینہ ہی میں دفن کیا جائے خواہ وہ شہید ہو یا غیر شہید۔

【32】

وادی عقیق میں نماز کی فضیلت

حضرت ابن عباس (رض) راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کہا کہ میں نے وادی عقیق میں (جو مدینہ کا ایک جنگل ہے) رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج کی رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا یعنی فرشتہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور وہ عمرہ کہئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اور عمرہ و حج کہئے (یعنی اس وادی میں نماز پڑھنا حج وعمرہ کے برابر ہے۔ (بخاری ) تشریح پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ عربی قواعد کے مطابق لفظ قول فعل کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لہٰذا حدیث کے آخری جملہ قل عمرۃ فی حجۃ کے معنی ہیں اور اس نماز کو وہ عمرہ شمار کیجئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے گویا اس جملہ کے ذریعہ وادی عقیق میں ادا کی جانے والی نماز کی فضیلت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وادی عقیق میں جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کا ثواب اس عمرہ کے برابر ہے جو حج کے ساتھ کیا جاتا ہے، اسی طرح دوسری روایت کے الفاظ وقل عمرۃ وحجۃ کا مطلب یہ ہے کہ وادی عقیق میں پڑھی جانے والی نماز عمرہ و حج کے برابر ہے۔ مدینہ منورہ کے کچھ اور فضائل علماء نے لکھا ہے کہ حکیم مطلق اللہ جل شانہ نے اس شہر پاک کی خاک پاک اور وہاں کے میوہ جات میں تاثیر شفا ودیعت فرمائی ہے۔ اکثر احادیث میں منقول ہے کہ مدینہ کے غبار میں ہر قسم کے مرض کی شفا ہے بعض دوسرے طرق سے منقول احادیث میں ہے کہ مدینہ کے غبار میں جذام اور برص کی شفا ہے آنحضرت ﷺ نے اپنے بعض صحابہ (رض) کو حکم فرمایا تھا کہ وہ بخار کا علاج اس کی خاک پاک سے کریں۔ چناچہ نہ صرف مدینہ ہی میں اس حکم پر عمل ہوتا رہا ہے بلکہ اس خاک پاک کو بطور دوا لے جانے کے سلسلہ میں بھی کتنے ہی آثار منقول ہیں اور بعض علماء نے تو اس معالجہ کا تجربہ بھی کیا ہے، حضرت شیخ مجددالدین فیروز آبادی کا بیان ہے کہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ میرا ایک خدمت گار مسلسل ایک سال سے بخار کے مرض میں مبتلا تھا میں نے مدینہ کی وہ تھوڑی سی خاک پاک پانی میں گھول کر اس خدمت گار کو پلا دی اور وہ اسی دن صحت یاب ہوگیا۔ حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ مدینہ کی خاک پاک سے معالجہ کا تجربہ مجھے بھی ہوا ہے وہ اس طرح کہ جن دنوں میں مدینہ منورہ میں مقیم تھا میرے پاؤں میں ایک سخت مرض پیدا ہوگیا جس کے بارے میں تمام اطباء کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ اس کا آخری درجہ موت ہے اور اب صحت دشوار ہے۔ میں نے اسی خاک پاک سے اپنا علاج کیا، تھوڑے ہی دنوں میں بہت آسانی سے صحت حاصل ہوگئی۔ اسی قسم کی خاصیتیں وہاں کی کھجور کے بارے میں بھی منقول ہیں چناچہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ اگر کوئی شخص سات عجوہ کھجوریں (عجوہ مدینہ کی کھجور کی ایک قسم ہے) نہار منہ کھالیا کرے تو کوئی زہر اور کوئی سحر اس پر اثر نہیں کرے گا۔ فضائل مدینہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی بطور خاص قابل لحاظ ہے کہ اس مقدس شہر کی عظمت و بزرگی ہی کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس شہر کے رہنے والوں کی تعظیم و تکریم کی یہ وصیت کی تھی کہ میری امت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میرے ہمسایوں یعنی اہل مدینہ کے احترام کو ہمیشہ پیش ملحوظ رکھیں، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں، ان سے اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اس پر مواخذہ نہ کریں اور اس وقت تک ان کی خطاؤں سے درگزر کریں جب تک کہ وہ کبائر سے اجتناب کریں (یعنی اگر وہ کبائر کے مرتکب ہوں تو پھر رعایت اور درگزر کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ اللہ اور بندوں کے حقوق کے سلسلے میں شریعت کا جو حکم ہو اسے جاری کرے) یاد رکھو، جو شخص ان کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا اور جو شخص اہل مدینہ کے احترام و حرمت کو ملحوظ نہیں رکھے گا اسے طینۃ الخبال کا سیال پلایا جائے گا (واضح رہے کہ طینۃ الخبال دوزخ کے ایک حوض کا نام ہے جس میں دوزخیوں کی پیپ اور لہو جمع ہوتا ہے) ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے دست دعا بلند کئے اور یوں گویا ہوئے خداوندا ! جو شخص میرے اور میرے شہر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کو جلد ہی ہلاک کر دے نیز آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے اہل مدینہ کو ڈرایا اس نے گویا مجھے ڈرایا نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے اہل مدینہ کو اپنے ظلم کے خوف میں مبتلا کیا اسے (اللہ تعالیٰ خوف میں مبتلا کرے گا اور اس پر اللہ کی، فرشتروں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایسے شخص کا کوئی بھی عمل بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوگا خواہ فرض ہو یا نفل ۔ حج کے کچھ مسائل اور ادائیگی حج کا طریقہ اگرچہ احادیث کی تشریح میں حج کے اکثر مسائل بیان کئے جا چکے ہیں مگر اب کتاب الحج کے اختتام پر مناسب ہے کہ کچھ اور مسائل یکجا طور پر ذکر کر دئیے جائیں اور حج کی ادائیگی کا طریقہ بھی بیان کردیا جائے۔ حج میں چار چیزیں فرض ہیں۔ (١) احرام۔ (٢) عرفہ کے دن وقوف عرفات (٣) طواف الزیارت (٤) ان فرائض میں ترتیب کا لحاظ یعنی احرام کو وقوف عرفات پر وقوف عرفات کو طواف الزیارت پر مقدم کرنا۔ واجبات حج یہ ہیں، وقوف مزدلفہ، صفا ومروہ کے درمیاں سعی، رمی جمار، آفاقی کے لئے طواف قدوم، حلق یا تقصیر، احرام میقات سے باندھنا، غروب آفتاب تک وقوف عرفات، طواف حجر اسود سے شروع کرنا (بعض علماء نے اسے سنت کہا ہے) طواف کی ابتداء دائیں طرف سے کرنا، طواف پیادہ پا کرنا بشرطیکہ کوئی عذر لاحق نہ ہو، طواف باطہارت کرنا، طواف میں ستر ڈھانکنا، سعی کی ابتداء صفا سے کرنا، سعی پا پیادہ کرنا بشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو، قارن اور متمتع کو بکری یا اس کی مانند جانور ذبح کرنا، ہر سات شوط یعنی ایک طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا، رمی حلق اور قربانی میں ترتیب کا لحاظ رکھنا بایں طور کہ پہلے رمی کی جائے پھر قربانی پھر حلق اور پھر طواف زیارت کی جائے، طواف الزیارۃ ایام نحر میں کرنا، طواف اس طرح کرنا کہ حطیم طواف کے اندر آجائے، سعی طواف کے بعد کرنا، حلق حرم اور ایام نھر میں کرنا، وقوف عرفہ کے بعد ممنوعات احرام مثلاً جماع وغیرہ سے اجتناب، نیز وہ چیزیں بھی واجبات حج میں شامل ہیں، جن کو ترک کرنے سے دم لازم آتا ہے، ان چیزوں کے علاوہ اور سب حج کے مستحبات اور آداب میں سے ہیں۔ غنی کا حج فقیر کے حج سے افضل ہے، والدین کی فرمانبرداری سے حج فرض تو اولیٰ ہے لیکن حج نفل اولیٰ نہیں ہے۔ بلکہ والدین کی فرمانبرداری ہی حج نفل سے افضل ہے۔ سرائے بنانا حج نفل سے افضل ہے۔ البتہ صدقہ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعض تو صدقہ کو افضل کہتے ہیں۔ اور بعض نے حج نفل کو افضل کہا ہے، تاہم بزازیہ میں ہے کہ حج نفل کی فضیلت ہی کو ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ حج میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور جسمانی مشقت بھی ہوتی ہے جب کہ صدقہ میں صرف مال خرچ ہوتا ہے جس حج میں وقوف عرفات جمعہ کے دن ہو وہ حج ستر حجوں پر فضیلت رکھتا ہے اور اس حج میں ہر شخص کی بلاواسطہ مغفرت ہوتی ہے، اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا حج کی وجہ سے کبیرہ گناہ ساقط ہوجاتے ہیں یا نہیں ؟ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ساقط ہوجاتے ہیں جس طرح کہ جب کوئی حربی کافر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے سب گناہ ساقط ہوجاتے ہیں لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ حج کی وجہ سے حقوق اللہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے جس طرح کہ جب کوئی ذمی کافر، اسلام قبول کرلیتا ہے تو اس کے ذمہ سے حقوق اللہ تو ساقط ہوجاتے ہیں لیکن حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ تمام علماء اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ صرف توبہ ہی سے ساقط ہوتے ہیں، محض حج کی وجہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے، نیز کوئی بھی عالم حج کی وجہ سے دین (قرض) کے ساقط ہونے کا بھی قائل نہیں ہے۔ خواہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہو جیسے نماز و زکوۃ، ہاں ادائیگی قرض یا ادائیگی نماز وغیرہ میں تاخیر کا گناہ ضرور ساقط ہوجاتا ہے لہٰذا جو علماء کبیرہ گناہ کے ساقط ہوجانے کے قائل ہیں ان کی مراد بھی یہی ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا مستحب ہے بشرطیکہ خود اس کو یا کسی اور کو اس سے تکلیف نہ پہنچے، خانہ کعبہ کا غلاف اور پردہ بنی شیبہ سے خریدنا جائز نہیں ہے ہاں امام سے یا اس کے نائب سے لینا جائز ہے، خانہ کعبہ کے غلاف و پردہ کو لباس میں استعمال کرنا جائز ہے اگرچہ جنبی (ناپاک) یا حائضہ ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے حرم میں پناہ لے لے تو اس کو بطور قصاص قتل کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ حرم میں رہے، ہاں اگر قاتل نے حرم ہی میں قتل کا ارتکاب کیا ہو تو اس کو بھی حرم میں مار ڈالنا جائز ہے لیکن خانہ کعبہ کے اندر قاتل کو اس صورت میں بھی قتل کرنا جائز نہیں ہے جب کہ اس نے خانہ کعبہ کے اندر ہی قتل کا ارتکاب کیا ہو۔ آب زمزم سے استنجا کرنا تو مکروہ ہے لیکن نہانا مکروہ نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ سے افضل ہے لیکن مدینہ منورہ کی زمین کا وہ قطعہ پاک جس پر سرکار دو عالم ﷺ آرام فرما ہیں مطلقاً افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ آنحضرت ﷺ کے روضہ اطہر کی زیارت کرنا مستحب ہے بلکہ بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لئے واجب ہے جسے فراغت میسر ہو ! حج فرض کی ادائیگی کی صورت میں حج روضہ اطہر کی زیارت سے پہلے کرنا چاہئے ہاں نفل کی صورت میں اختیار ہے کہ چاہے تو پہلے کیا جائے چاہے پہلے زیارت کی جائے بشرطیکہ مدینہ راستہ میں نہ پڑتا ہو۔ اگر مکہ کا راستہ مدینہ سے ہو کر گزرتا ہو تو پھر پہلے روضہ اطہر کی زیارت کرنا ضروری ہے، روضہ اطہر کی زیارت کے ساتھ مسجد نبوی ﷺ کی زیارت کی نیت بھی کرنی چاہئے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دوسری مساجد میں ادا کی جانے والی ہزار نمازوں سے بہتر ہے ٠ مسجد حرام کا استثناء اس لئے ہے کہ اس میں ادا کی جانے والی ایک نماز کا ثواب دس لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) حج کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حج کی سعادت عظمی کی توفیق بخشے اور وہ حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ پہلے وہ اپنی نیت کو درست کرے کہ اس کے پیش نظر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ادائیگی فرض ہو، کوئی دنیاوی غرض یا نام و نمود کا کوئی ہلکا سا تصور بھی نہ ہو ورنہ سب محنت اکارت جائے گی، پھر اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر، اعزہ و احباب سے رخصت ہو کر، سب سے معافی تلافی کر کے اپنے وطن سے کم از کم ایسے وقت روانہ ہو کہ مکہ مکرمہ میں ساتویں ذی الحجہ سے پہلے پہنچ جائے اور ساتویں تاریخ کا خطبہ سن سکے، جب میقات پر پہنچے (ہندوستانیوں کی میقات یلملم ہے) تو احرام باندھے، اگر مفرد ہو تو صرف حج، کا قارن ہو تو حج وعمرہ دونوں کا اور متمتع وہ تو صرف عمرہ کا احرام باندھے، مستحب یہ ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے ہاتھ پاؤں کے ناخن کٹوائے، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرے، حجامت بنوائے، اگر سر منڈانے کی عادت ہو تو سر منڈائے ورنہ بال درست کرائے اور ان میں کنگھی کرے، اگر بیوی ہمراہ ہو تو صحبت کرے، پھر وضو کرے یا نہائے لیکن نہانا افضل ہے اس کے بعد احرام کا لباس پہنے یعنی ایک لنگی باندھے اور ایک چادر اس طرح اوڑھے کہ سر کھلا رہے، یہ دونوں کپڑے نئے ہوں تو افضل ہے ورنہ صاف دھلے ہوئے ہونے چاہئیں، اگر کسی کے پاس دو کپڑے میسر نہ ہوں تو ایک ایسا کپڑا لپیٹ لینا بھی جائز ہے جس سے ستر پوشی ہوجائے پھر خوشبو لگائے، اس کے بعد نیت کرے، اگر قران کا ارادہ ہو تو اس طرح کہے۔ دعا (اللہم انی ارید الحج والعمرۃ فیسر ہمالی وتقبلہما منی) ۔ اگر تمتع کا ارادہ ہو تو یوں کہے۔ دعا (اللہم انی ارید العمرۃ فیسرہا لی وتقبلہا منی) ۔ اور اگر افراد کا ارادہ رکھتا ہو تو اس طرح کہے دعا (اللہم انی ارید الحج فیسرہ لی وت قبلہ منی۔ اگر نیت کے مذکورہ بالا الفاظ زبان سے ادا نہ کئے جائیں بلکہ دل ہی میں نیت کرلی جائے تو بھی جائز ہے، نیت کے بعد لبیک کہے حج یا عمرہ کی نیت کے ساتھ لبیک کہتے ہی محرم ہوجائے گا، لبیک کے الفاظ یہ ہیں۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ ان الفاظ میں کمی نہ کی جائے ہاں زیادتی جائز ہے چناچہ یہ الفاظ بھی منقول ہیں جن کے اضافہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک والرغباء الیک والعمل لبیک لبیک الہ الخلق لبیک۔ بعد ازاں اکثر اوقات آواز بلند لبیک کہتا رہے خصوصا نماز کے بعد خواہ فرض ہو خواہ نفل نماز، صبح کے وقت، باہم ملاقات کے، بلندی پر چڑھتے یا نشیب میں اترتے وقت، غرضیکہ یہ سفر حج چونکہ نماز کے حکم میں ہے کہ جس طرح نماز میں ہر حالت کی تبدیلی پر تکبیر کہی جاتی ہے اس طرح اس سفر میں ہر حالت کی تبدیلی کے وقت لبیک کہنی چاہئے ! احرام باندھ لینے کے بعد ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے جو حالت احرام میں ممنوع ہیں مثلا سلے ہوئے کپڑے جیسے کرتہ، انگر کھا، پاجامہ، فرغل، جبہ، قبا، بارانی موزہ، دست تانہ اور ٹوپی وغیرہ نہ پہنے جائیں، جو کپڑے رنگ دار خوشبو جیسے زعفران وغیرہ میں رنگے ہوئے ہوں وہ بھی استعمال نہ کئے جائیں ہاں دھلنے کے بعد کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو استعمال کرنا جائز ہے، سر اور منہ کسی چیز سے نہ ڈھانکا جائے، جوئیں نہ ماری جائیں، بیوی سے نہ تو صحبت کی جائے اور نہ ان چیزوں کا ارتکاب کیا جائے جو جماع کا باعث بنتی ہیں مثلاً بوسہ لینا، شہوت کے ساتھ عورت کو ہاتھ لگانا یا اس کے سامنے فحش باتیں یا جماع کا ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ فسق و فجور سے پرہیز کیا جائے کسی کے ساتھ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے، صحرائی وحشی جانوروں کا شکار نہ کیا جائے حتی ٰ کہ کوئی محرم نہ تو شکار کی طرف اشارہ کرے اور نہ شکار میں کسی کی اعانت کرے، ہاں دریائی جانوروں مثلا مچھلی کا شکار درست ہے۔ خوشبو کا استعمال نہ کیا جائے، ناخن نہ کٹوائے جائیں، سر داڑھی بلکہ تمام بدن کے بال نہ کتروائے جائیں نہ منڈوائے جائیں اور نہ اکھاڑے جائیں، سر و داڑھی کے بالوں کو خطمی سے نہ دھویا جائے البتہ محرم نہا سکتا ہے، حمام میں داخل ہوسکتا ہے، گھر اور کجاوہ کے سایہ میں بیٹھ سکتا ہے، ہمیانی (یعنی روپیہ رکھنے والی تھیلی) کمر میں باندھ سکتا ہے اور اپنے دشمن سے دفاعی لڑائی لڑ سکتا ہے۔ احرام کی حالت میں جن جانوروں کو مارنا جائز ہے اور جن کے مارنے کی وجہ سے بطور جزاء نہ دم لازم ہوتا ہے نہ صدقہ وہ یہ ہیں۔ کوا، چیل، سانپ، بچھو، چوہا، چیچڑی، کچھوا، بھیڑیا، گیدڑ، پتنگا، مکھی، چیونٹی، گرگٹ، بھڑ، مچھر، حملہ آور درندہ اور موذی جانور۔ جب مکہ مکرمہ کے قریب آجائے تو غسل کرے کہ یہ مستحب ہے پھر دن میں کسی وقت باب المعلیٰ سے مکہ میں داخل ہو اور اپنی قیام گاہ پر سامان وغیرہ رکھ کر سب سے پہلے مسجد حرام کی زیارت کرے، مستحب یہ ہے کہ مسجد حرام میں لبیک کہتا ہوا اور باب السلام سے داخل ہو اور اس وقت نہایت خشوع و خضوع کی حالت اپنے اوپر طاری کرے اور اس مقدس مقام کی عظمت و جلالت کا تصور دل میں رکھے اور کعبہ کے جمال دلربا پر نظر پڑتے ہی جو کچھ دل چاہے اپنے پروردگار سے طلب کرے پھر تکبیر و تہلیل کرتا ہوا حمد و صلوٰۃ پڑھتا ہوا حجر اسود کے سامنے آئے اور اس کو بوسہ دے اور بوسہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کو اس طرح اٹھائے جس طرح تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھاتے ہیں، اگر اژدھام کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکے تو حجر اسود کو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی لکڑی سے حجر اسود کو چھو کر چومے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو پھر دونوں ہتھیلیوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے ہتھیلیوں کو چوم لے، حجر اسود کے استلام کے بعد حجر اسود کے پاس ہی سے اپنی داہنی جانب سے طواف قدوم شروع کرے، طواف میں سات شوط (چکر) کرے اور ہر شوط کو حجر اسود ہی پر ختم کرتے اور ہر شوط ختم کرنے کے بعد مذکورہ بالا طریقے سے حجر اسود کا استلام اور تکبیر و تہلیل کرے طواف میں حطیم کو بھی شامل کرے، طواف میں اضطباع کرے اور پہلے تین شوطوں میں رمل کرے نیز ہر شوط میں رکن یمانی کا ابھی استلام کرے مگر اس کے استلام میں اس کو چومنا نہیں چاہئے طواف ختم کرنے کے بعد دو رکعت نماز طواف مقام ابراہیم کے قریب پڑھے، یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب ہے، اگر اژدحام وغیرہ کی وجہ سے اس نماز کو مقام ابراہیم کے قریب پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر مسجد حرام میں جہاں بھی چاہے پڑھ لے، اس نماز کی پہلی رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد سورت قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ کی قرأت کرے اور دعا میں جو چاہے اللہ سے مانگے، اس کے بعد چاہ زمزم پر آئے اور زمزم کا پانی پیٹ بھر کر پئے پھر مقام ملتزم میں آئے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے مقصد کے لئے دعا مانگے پھر صفا سے مروہ کی طرف اپنی چال کے ساتھ چلے مگر جب وادی بطن پہنچے، تو میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے اور پھر جب مروہ پر چڑھے تو وہی کچھ یعنی تکبیر و تہلیل وغیرہ کرے جو صفا پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صفا ومروہ کے درمیان سات شوط کرے، ہر شوط کی ابتداء صفا سے ہو اور انتہا مروہ پر اور ہر شوط میں میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے، یہ بات ذہن میں رہے کہ سعی سے پہلے طواف کرنا ضروری ہے اگر کسی نے طواف سے پہلے سعی کرلی تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ طواف کے بعد پھر دوبارہ سعی کرے۔ یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ اس سعی، وقوف عرفات، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار کے لئے طہارت (پاکی) شرط نہیں ہے لیکن اولیٰ ضرور ہے جب کہ طواف کے لئے طہارت شرط ہے۔ نیز طواف و سعی کے وقت ٹھہرا رہے اور اس کے دوران نفل طواف جس قدر ہو سکے کرتا رہے، مگر نفل طواف کے درمیان رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے، پھر ساتویں ذی الحجہ کو مسجد حرام میں خطبہ سنے، اس خطبہ میں جو ظہر کی نماز کے بعد ہوتا ہے امام حج کے احکام و مسائل بیان کرتا ہے، پھر اگر احرام کھول چکا ہو تو آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر طلوع آفتاب کے بعد منیٰ روانہ ہوجائے، اگر ظہر کی نماز پڑھ کر منیٰ میں پہنچے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، رات منیٰ میں گزارے اور عرفہ کے روز یعنی نویں تاریخ کو فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھ کر طلوع آفتاب کے بعد عرفات جائے اگر کوئی آٹھویں تاریخ کو منیٰ میں نہ جائے بلکہ نویں کو عرفات میں پہنچ جائے تو بھی جائز ہے مگر یہ خلاف سنت ہے۔ عرفات میں بطن عر نہ کے علاوہ جس جگہ چاہے اترے لیکن جبل عرفات کے نزدیک اترنا افضل ہے پھر اسی دن زوال آفتاب کے بعد غسل کرے (جو سنت ہے) اور عرفات میں وقوف کرے (جو فرض ہے اور جس کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں) امام جو خطبہ دے اسے سنے اور امام کے ساتھ بشرط احرام ظہر و عصر کی نماز ایک وقت میں پڑھے اور جبل رحمت کے پاس کھڑا ہو کر نہایت خشوع و خضوع اور تذلل و اخلاص کے ساتھ تکبیر و تہلیل کرے، تسبیح پڑھے، اللہ کی ثنا کرے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجے اور اپنے تمام اعزہ و احباب کے لئے استغفار کرے اور تمام مقاصد دینی و دنیوی کے لئے دعا مانگے، پھر غروب آفتاب کے بعد امام کے ہمراہ مزدلفہ کی طرف روانہ ہوجائے اور راستہ میں استغفار، لبیک، حمد و صلوۃ اور اذکار میں مشغول رہے مزدلفہ پہنچ کر امام کے ہمراہ مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھے اور رات میں وہیں رہے کیونکہ رات میں وہاں رہنا واجب ہے، نیز اس پوری رات میں نماز، تلاوت قرآن اور ذکر و دعا میں مشغول رہنا مستحب ہے، جب صبح ہوجائے تو (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھے اور وہاں وقوف کرے، مزدلفہ میں سوائے بطن محسر کے جہاں چاہے وقوف کرسکتا ہے، اس وقوف کی حالت میں نہایت الحاح وزاری کے ساتھ اپنے دینی و دنیاوی مقصد کے لئے خداوند والم سے دعا مانگے، آفتاب نکلنے سے کچھ پہلے وقوف ختم کرلیا جائے، پھر جب روشنی خوب پھیل جائے تو آفتاب سے پہلے منیٰ واپس پہنچ کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری مارتے ہی تلبیہ موقوف کر دے، اس کے بعد قربانی کرے پھر سر منڈوائے یا بال کتروائے، اس کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں، سوائے رفث کے، جائز ہوجائیں گی، پھر عید کی نماز منیٰ ہی میں پڑھ کر اسی دن مکہ آجائے اور طواف زیارت کرے، اس طواف کے بعد سعی نہ کرے ہاں اگر پہلے سعی نہ کرچکا ہو تو وہ پھر اس طواف کے بعد سعی کرے، اس کے بعد رفث بھی جائز ہوجائے گا طواف زیارت سے فارغ ہو کر پھر منیٰ واپس آجائے اور رات میں وہاں قیام کرے۔ گیارہویں تاریخ کو تینوں جمرات کی رمی کرے بایں طور کہ پہلے تو اس جمرہ پر سات کنکریاں مارے جو مسجد خیف کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ اولیٰ کہتے ہیں اس کے بعد اس جمرہ پر جو اس کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ وسطیٰ کہتے ہیں سات کنکریاں مارے اور پھر سوار ہو کر پا پیادہ ہی جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبری کہتا رہے، اسی طرح بارہویں تاریخ ہی کو منیٰ سے رخصت ہوگیا تو پھر اس پر تیرہویں تاریخ کو واجب نہیں ہوگی۔ گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے لیکن تیرہویں تاریخ کو اگر طلوع فجر کے بعد اور زوال آفتاب سے پہلے بھی رمی کرے تو جائز ہے مگر مسنون زوال آفتاب کے بعد ہی ہے جب کہ گیارہویں اور بارہویں تاریخوں میں زوال آفتاب سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ آخری دن رمی سے فارغ ہو کر مکہ روانہ ہوجائے اور راستہ میں تھوڑی دیر کے لئے محصب میں اترے، پھر جب مکہ مکرمہ سے وطن کے لئے روانہ ہونے لگے طواف وداع کرے اس طواف میں بھی رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے طواف کے بعد دو رکعت پڑھ کر زمزم کا مبارک پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پیے اور ہر مرتبہ کعبہ مکرمہ کی طرف دیکھ کر حسرت سے آہ سرد بھرے نیز اس مبارک پانی کو منہ، سر اور بدن پر ملے پھر خانہ کعبہ کی طرف آئے اگر ممکن ہو بیت اللہ کے اندر داخل ہو اگر اندر نہ جاسکے تو اس کی مقدس چوکھٹ کو بوسہ دے اور اپنا سینہ اور منہ ملتزم پر رکھ دے اور کعبہ مکرمہ کے پردوں کر پکڑ پکڑ کر دعا کرے اور روئے اور اس وقت بھی تکبیر و تہلیل، حمد و ثنا اور دعاء استغفار میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے مقاصد کی تکمیل طلب کرے۔ اس کے بعد پچھلے پیروں یعنی کعبہ مکرمہ کی طرف پشت نہ کر کے مسجد حرام سے باہر نکل آئے حج تمام افعال ختم ہوگئے۔

【33】

عمرہ کے احکام

عمرہ واجب نہیں ہے بلکہ عمر بھر میں ایک مرتبہ سنت مؤ کدہ ہے عمرہ کے لئے کسی خاص زمانہ کی شرط نہیں ہے، جیسا کہ حج کے لئے ہے بلکہ جس وقت چاہے کرسکتا ہے اسی طرح ایک سال میں کئی مرتبہ بھی عمرہ کیا جاسکتا ہے، البتہ غیر قارن کو ایام حج میں عمرہ کرنا مکروہ ہے ایام حج کا اطلاق یوم عرفہ یوم نحر اور ایام تشریق پر ہوتا ہے۔ عمرہ کا رکن طواف ہے اور اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو صفا ومروہ کے درمیان سعی اور دوسرے سر منڈوانے یا بال کتروانا۔ جو شرائط اور سنن و آداب حج کے ہیں وہی عمرہ کے بھی ہیں۔

【34】

جنایات کے احکام

حج کے بیان میں جنایت اس حرام فعل کو کہتے ہیں جس کی حرمت احرام یا حرم کے سبب سے ہو اور جس کے مرتکب پر کوئی چیز مثلاً قربانی یا صدقہ بطور جزاء یعنی بطور کفارہ واجب ہوتی ہو، چناچہ اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ اگر محرم اپنے کسی ایک پورے عضو پر خوشبو لگائے یا کوئی خوشبودار چیز کھا کر منہ کو خوشبو دار کرے بشرطیکہ وہ خوشبو خالص ہو اور اس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو یا رقیق مہندی کا استعمال کرے خواہ سر میں لگائے یا داڑھی یا ہاتھ پر وغیرہ میں یا زیتون لگائے یا پورے ایک دن سلے ہوئے کپڑے رواج و عادت کے موافق استعمال کرے یا پورا دن اپنا سر ڈھانکے رکھے یا سر، داڑھی چوتھائی یا اس سے زیادہ منڈوائے یا پوری ایک بغل کے بال یا زیر ناف بال یا گردن کے بالوں کو دور کرے یا دونوں ہاتھوں یا دونوں پیروں یا ایک ہاتھ اور ایک پیر کے ناخن ترشوائے یا طواف قدوم یا طواف صدر حلالت جناب میں کرے یا طواف زیارت (یعنی طواف فرض) بےوضو کرے یا عرفات سے امام سے پہلے واپس آجائے یا سعی چھوڑے یا وقوف مزدلفہ چھوڑ دے یا تمام دنوں کی رمی یا ایک دن کی یا پہلے دن کی رمی نہ کرے، یا حلق و تقصیر حرم سے باہر کرائے یا احرام کی حالت میں بیوی کا بوسہ لے لے یا اس کو شہوت کے ساتھ چومے یا حلق و تقصری یا طواف زیارت ایام نحر گزر جانے کے بعد کرے، یا افعال حج کی واجب ترتیب کو بدل دے مثلاً قربانی سے پہلے سر منڈوا لے تو ان تمام صورتوں میں اس پر بطور جزاء ایک قربانی واجب ہوگی۔ اور اگر محرم تلبید کرے یعنی اپنے سر کے بال گوند وغیرہ لگا کر جما لے یا قارن ہونے کی صورت میں قربانی سے پہلے حلق یا تقصیر کرائے تو اس پر دو قربانی واجب ہوں گی۔ اور اگر محرم ایک عضو سے کم میں خوشبو استعمال کرے یا ایک دن سے کم اپنا سر ڈھانکے یا سلا ہوا کپڑا پہنے یا سر داڑھی چوتھائی حصہ سے کم منڈوائے یا پانچ ناخن سے کم ترشوائے یا پانچ ناخن مختلف مجلسوں میں ترشوائے یا طواف صدر یا طواف قدوم بےوضو کرے یا یوم نحر کے بعد تینوں جمرات میں سے کسی ایک جمرہ کی رمی ترک کر دے تو ان سب صورتوں میں اس پر صدقہ واجب ہوگا جس کی مقدار نصف صاع گیہوں ہے۔ اگر محرم کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے خوشبو استعمال کرے یا سر منڈوائے یا سلا ہوا کپڑا پہنے تو ان صورتوں میں اسے اختیار ہوگا کہ چاہے تو ایک بکری ذبح کرے چاہے چھ مسکینوں ایک ایک مقدار صدقہ فطر دے دے اور چاہے تین روزے مسلسل یا غیر مسلسل رکھ لے۔ خوشبو یا خوشبودار پھول یا خوشبو دار میوہ سونگھنے سے محرم پر کچھ واجب نہیں ہوتا تاہم یہ مکروہ ہے۔ اگر کوئی محرم جوں مارے تو بطور صدقہ تھوڑی سی کھانے کی چیز مثلاً ایک مٹھی آٹا دے دے بشرطیکہ اس نے وہ جوں اپنے بدن سے یا سر سے یا کپڑے سے نکال کر ماری ہو اور اگر زمین سے پکڑ کر مارے تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا اور اگر اس نے اپنے کپڑے دھوپ میں اس نیت سے ڈال دیئے کہ اس میں موجود جوئیں مرجائیں اور پھر بہت ساری جوئیں مرجائیں تو اس پر نصف صاع گیہوں کا صدقہ واجب ہوگا۔ ہاں اگر کپڑے کو خشک کرنے کی نیت سے دھوپ میں ڈالے اور جوئیں مارنا اس کا مقصد نہ ہو اور پھر اس صورت میں جوئیں مرجائیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔ اگر محرم شکار مارے یا کسی کو شکار کی راہ بتائے یا شکار کی طرف کسی کو متوجہ کرے تو اس پر بطور جزاء اس شکار کی وہ قیمت واجب ہوگی جو دو عادل شخص تجویز کریں اور وہ قیمت اس مقام کے اعتبار سے ہو جہاں شکار مارا گیا ہے ہو یا اس کے قریب تر مقام کے اعتبار سے ہو، اس بارے میں محرم کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو وہ اس قیمت سے قربانی کا کوئی جانور خرید کر ذبح ہونے کے لئے حرم بھیج دے چاہے اس قیمت سے گیہوں وغیرہ خرید کر ہر فقیر کو صدقہ فطر کی ایک مقدار تقسیم کر دے اور چاہے ہر فقیر کی مقدار صدقہ کے عوض ایک ایک روزہ رکھ لے۔ آخر میں یہ بات بھی بتا دینی ضروری ہے کہ ان تمام جنایات کے ارتکاب میں قصدا اور اضطرار علم اور لاعلمی، رغبت اور جبر سب برابر ہے یعنی محرم ممنوعات احرام میں سے جو بھی فعل کرے گا اس پر جزاء بہر صورت واجب ہوگی خواہ اس سے اس فعل کا ارتکاب قصداً ہوا ہو یا بلا قصد اس کے علم کے باوجود ہوا ہو یا اس کی لاعلمی کی وجہ سے اور اس نے وہ فعل اپنی رغبت سے کیا ہو یا کسی دوسرے کی زبردستی کی وجہ سے۔

【35】

روضہء اطہر کی زیارت کے احکام وآداب :

جو کوئی حج کرنے جائے اس کو چاہئے کہ اگر حج فرض ہو تو پہلے اپنے حج سے فارغ ہوجائے پھر روضہ اطہر کی زیارت کے لئے مدینہ جائے اور اگر حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ چاہے تو پہلے زیارت کرے اور اس کے بعد حج کرے چاہے پہلے حج کرلے بعد میں زیارت کرے بشرطیکہ حج کے لئے مکہ جانے والا راستہ مدینہ کی طرف سے نہ ہو،۔ جب زیارت کے لئے چلے تو یہ نیت کرے کہ میں آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک اور آپ ﷺ کی مسجد انور کی زیارت کے لئے سفر کرتا ہوں۔ راستہ میں جتنی مسجدیں ملیں سب میں نماز پڑھے، راستہ میں درود پڑھتا رہے، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اس شہر مقدس کی عظمت کو دل میں جاگزیں کرے، جب مدینہ منورہ بالکل سامنے آجائے تو بہ خیال ادب اور بہ مقتضائے شوق اپنی سواری سے اتر پڑے اور اگر ممکن ہو تو وہاں سے مسجد شریف تک پاپیادہ جائے۔ حدود شہر میں داخل ہونے سے پہلے اگر ممکن ہو تو غسل کرلے ورنہ وضو کر کے عمدہ اور خاص طور پر سفید کپڑے پہن لے اور خوشبو لگائے، شہر کے اندر پہنچ کر سب سے پہلے مسجد نبوی ﷺ میں جائے، مسجد نبوی میں داخلہ سے پہلے غسل کرلے تو بہتر ہے ورنہ وضو کرے اور خوشبو لگائے، مسجد نبوی پہنچ کر تحیۃ المسجد اور نماز شکر پڑھے، اس کے بعد اس تصور و یقین کے ساتھ بصد ادب و احترام قبر اقدس کی زیارت کی طرف متوجہ ہو کہ میں اس باعظمت درگارہ میں حاضر ہو رہا ہوں جس کے سامنے تمام دنیا کے پر جلال بادشاہوں کی بھی کوئی وقعت نہیں، پھر مرقد اطہر کے پاس آ کر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کی طرح داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر اس طرح کھڑا ہو کہ حضرت سید بشر ﷺ کی طرف منہ ہو اور قبلہ کی طرف پیٹھ اور اس بات کا یقین کرے کہ آنحضرت ﷺ میری حاضری سے واقف ہیں، میرے سلام کا جواب دیتے ہیں اور میری دعا پر آمین کہتے ہیں اور پھر انتہائی شوق و ذوق کے ساتھ معتدل آواز میں سلام و صلوٰۃ پیش کرے اور عرض و معروض کرے، جب اپنی عرض و نیاز سے فارغ ہوجائے تو اپنے اعزاء و احباب میں سے جس نے عرض سلام کی درخواست کی ہو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس کی طرف سے اس طرح سلام عرض کر دے کہ یا رسول اللہ ! ﷺ فلاں بن فلاں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے آپ ﷺ اس کے لئے پروردگار سے شفاعت کریں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق (رض) کے سر مبارک کے سامنے کھڑا ہو اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے، اس کے بعد پھر آنحضرت ﷺ کے سر مبارک کے سامنے پہلے کی طرح دست بستہ کھڑا ہو اور بہت ذوق و شوق کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرے اور جو جو خواہش رکھتا ہو، آپ ﷺ کے طفیل میں حق تعالیٰ سے مانگے، وہاں سے ہٹ کر حضرت ابولبابہ (رض) کے ستون کے پاس جس قدر ممکن ہو نوافل پڑھے اور توبہ و استغفار کرے اس کے بعد آثار نبویہ کی زیارت کرے جو معلمین بتا دیتے ہیں اور جنت البقیع جائے وہاں صحابہ کرام اور اہل بیعت کے مزارات مقدسہ کی زیارت کرے پھر شہدائے احد خصوصاً سید الشہداء حضرت امیر حمزہ (رض) کی قبر کی زیارت کرے اور ان تمام مشاہد و مزارات پر فاتحہ پڑھے اور شنبہ کے دن یا جس دن ممکن ہو مسجد قبا کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز بہ نیت تحیۃ المسجد پڑھے۔ مدینہ منورہ اور روضہ اطہر کی زیارت کے آداب یہ ہیں کہ جتنے دنوں مدینہ منورہ میں قیام ہو سکے اس کو غنیمت سمجھے حتی الامکان اپنا اکثر وقت مسجد شریف نبوی ﷺ میں صرف کرے وہاں اعتکاف کرے اور ہر قسم کی عبادت یعنی نماز، روزہ تلاوت، درود اور صدقہ و خیرات سے اپنے اوقات کو آباد رکھے، جب تک مسجد میں رہے حجرہ شریف کی طرف نہایت شوق کی نگاہوں سے نظر کرتا رہے اور اگر مسجد سے باہر ہو تو بنظر احترام و تعظیم اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ قبہ شریف کو دیکھتا رہے کیونکہ روضہ حبیب کبریا ﷺ پر نظر ڈالنا استحباباً حکم نظر کرنے کعبہ شریف کا ہے نیز شہر سے باہر قبہ شریف پر نظر کرنے سے اہل شوق کو جو نورانیت اور سرور و ذوق حاصل ہوتا ہے اس کا ادراک اسی حالت پر موقوف ہے جس کو الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ ع ذوق ایں می نشناسی واللہ تانہ چشی۔ مسجد نبوی میں جس قدر بھی شب بیداری کی سعادت حاصل ہو سکے خواہ ایک ہی شب کے لئے ہو اسے ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ شب قدر و منزلت کے اعتبار سے شب قدر سے کم نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اس لئے اس ایک رات کو اپنی تمام عمر کا ماحصل اور خلاصہ سمجھ کر عبادت میں کاٹ دے بہتر یہی ہے کہ اس رات میں اور کوئی عبادت نہ کرے بلکہ صرف درود شریف پڑھتا رہے اور اگر نیند آنے لگے تو حبیب کبریا ﷺ کی حضوری اور آپ ﷺ کے جمال باکمال کا سرور آمیز تصور کر کے نیند کو دفع کرے جب آنحضرت ﷺ کے جمال کمال کا تصور اس کے دل و دماغ کو کیف حضوری کا سرور بخشے گا تو کہاں نیند رہے گی اور کہاں غفلت قرار چیست صبوری کدام وخواب کجا۔ مسجد نبوی ﷺ میں جب تک رہے اپنے دل، اپنی زبان اور تمام اعضاء کو برے کلمات و خیالات اور ہر خلاف اولیٰ فعل سے محفوظ رکھے اور محبوب دو عالم ﷺ کی حضوری کے تصور کے سوا اور کسی طرف متوجہ نہ ہو اگر کوئی اس کی مشغولیت میں مخل ہو تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرے ہاں کسی سے نہایت ضروری گفتگو کرنی ہو تو مختصر کلام کر کے اسی جناب مقدس ﷺ کی طرف متوجہ ہوجائے، مسجد شریف کے آداب کے بطور خاص خیال رکھے تھوک وغیرہ وہاں نہ گرنے پائے مسجد میں آنے سے قبل روضہ اطہر اور منبر کے درمیان اپنا مصلے پہلے سے نہ بچھوائے رکھے بلکہ اس اگر اس مقدس مقام پر ادائیگی نماز کی فضیلت کے حصول کا شوق ہو تو سب سے پہلے مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرے اور وہاں بیٹھ جائے اس مقدس مسجد میں جو نزول قرآن و جبرائیل کی جگہ ہے قرآن پاک ختم کرنے میں کوتاہی نہ کرے کم از کم ایک قرآن مجید کا ختم اس مسجد پاک میں ضرور کرے اگر ممکن ہو تو ایسی کتابیں پڑھے یا سنے جس میں آنحضرت ﷺ کے مبارک حالات و خصائل اور فضائل ہوں تاکہ آپ ﷺ کی ملاقات اور عبادت کا شوق فزوں ہو۔ قبر شریف کے سامنے سے جتنی مرتبہ بھی گزرنا ہو وہاں تمام آداب زیارت کو ملحوظ رکھ کر کھڑا ہوجائے اور آپ ﷺ کی خدمت میں سلام و صلوٰ ۃ پیش کرے، مدینہ منورہ اور مسجد نبوی ﷺ کے رہنے والوں اور خدمت گاروں کی محبت و تعظیم کو ہمہ وقت ملحوظ رکھے چاہے ان میں کوئی بات خلاف شریعت و سنت ہی کیوں نہ دیکھے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی ہمسائیگی کا شرف ہی ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے جو کسی گناہ و بدعت کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا اور انہیں حسن خاتمہ و مغفرت کی سعادت سے محروم نہیں ہونے دیتا۔ دیار مقدس سے وطن کو واپسی جب مدینہ منورہ میں قیام کی مدت ختم ہوجائے اور اس مقام مقدس سے جدا ہو کر وطن کو روانہ ہونے کا ارادہ ہوجائے تو مصلی نبوی یا اس کے قریب نماز پڑھ کر اور دعا مانگ کر مسجد نبوی ﷺ سے رخصت ہو بعد ازاں آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر وحضرت عمر (رض) کی زیارت کرے اور اللہ تعالیٰ سے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے اعزاء و احباب کے لئے کونین کی سعادتوں کے حصول کی دعا مانگے نیز دیار مقدس میں اپنی تمام عبادات کی قبولیت اور اپنے اہل و عیال کے پاس امن و سلامتی کے ساتھ پہنچنے کی درخواست کرے اور یہ دعا پڑھے (اللہم انا نسئلک فی سفرنا ہذا لبر والتقویٰ ومن العمل ما تحب وترضی اللہم لا تجعل ہذا آخر العہد بنبیک ومسجدہ وحرمہ ویسر لی العود الیہ والعکوف لدیہ وارزقنی العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ورددنا الی اھلنا سالمین غانمین آمنین۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مقبولیت دعا اور حصول مقصد کی علامت یہ ہے کہ اس وقت بےاختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں اور دل دیار محبوب کی جدائی کی حسرت و یاس سے معمور ہو بلکہ درحقیقت تمام اوقات دعا میں گریہ وزاری حصول رزق کا باعث اور امیدواری رحمت کی علامت ہے ایں دلم باغست وچشم ابروش ابر گرید باغ خندوشادوخوش !۔ اس وقت اگر خدانخواستہ کسی شخص پر حالت گریہ وزاری طاری نہ ہو تو وہ بہ تکلف اپنے اوپر یہ حالت طاری کرے اور ان باتوں کا تصور کرے جو ذوق اور گریہ و رقت کی حالت پیدا کریں کیونکہ اس وقت حالت گریہ ہی بہر صورت قبولیت کی علامت ہے اور پھر وہاں کی جدائی سے بہ چشم نم اور بہ حسرت و یاس رخصت ہو اور رخصت ہوتے وقت پچھلے پیروں نہ لوٹے کیونکہ یہ صرف خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے اور وقت وداع جس قدر ہو سکے صدقہ و خیرات کرے اور ان تمام آداب کو ملحوظ رکھے جو سفر سے واپسی کے وقت کے سلسلہ میں منقول ہیں اور پھر جب اپنے شہر کے قریب پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی اسئلک خیرہا وخیر اھلہا وخیر ما فیہا واعوذبک من شرہا وشر اھلہا وشر ما فیہا اللہم اجعل لنا بہا قرار اور زقا حسنا) ۔ اور جب شہر میں پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔ ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اٰئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون لاالہ الا اللہ وحدہ صدق وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ واعز جندہ فلا شیء بعدہ) ۔ اور چاہئے کہ اپنے شہر و مکان تک پہنچنے سے پہلے اپنے اعزہ کو خبر کر دے کہ میں فلاں دن فلاں وقت پہنچ رہا ہوں بغیر اطلاع کے ایک دم نہ پہنچ جائے نیز اپنے شہر میں پہنچنے کا بہترین وقت چاشت ہے یا شام۔ رات کے وقت نہ پہنچے پھر جب اپنے مکان پہنچ جائے۔ تو مکان کے اندر جانے سے پہلے اگر وقت مکروہہ نہ ہو تو مسجد میں جا کردو رکعت نماز پڑھے دعا مانگے اور بخیر و عافیت وطن واپس پہنچ جانے پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ کہے الحمد للہ الذی بنعمتہ و جلالہ تتم الصالحات۔ الحمدللہ کہ آج مورخہ ١٩ ذی الحجہ ١٤٢٩ ھ مطابق 19 اکتوبر 2008 ء بروز اتوار بوقت ساڑھے سات بجے شب مظاہر حق جلد دوم کی کمپوزنگ اللہ رب العزت کی مدد سے اور توفیق سے مکمل ہوئی۔ حق تعالیٰ مجھ سیہ کار انسان کی اس خدمت کو قبول و مقبول فرمائے۔ آمین۔ صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلیٰ آلہ وا صحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔