75. معاملات میں نرمی کرنے کا بیان

【1】

معاملات میں نرمی کرنے کا بیان

باہمی لین دین اور خریدو فروخت کے معاملات میں نرمی اور مسامحت اختیار کرنا معاشرتی تعلقات کے استحکام اور آپس کے تعاون و ہمدردی کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری ہے چناچہ اس باب میں اسی موضوع سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی۔

【2】

معاملات میں نرمی کرنے والے کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء رحمت

حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو بیچنے میں خریدنے میں اور تقاضہ کرنے میں نرمی کرتا ہے۔

【3】

تم دوسروں کے معاملہ میں نرمی کرو اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں نرمی کرے گا

حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگو (یعنی گزشتہ امتوں میں) سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ جب اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے ؟ اس نے کہا مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کوئی نیک کام کیا ہوا اس سے پھر کہا گیا کہ اچھی طرح سوچ لے اس نے کہا کہ مجھے قطعًا یاد نہیں آ رہا ہے ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں دنیا میں جب لوگوں سے خریدوفروخت کے معاملات کیا کرتا تھا تو تقاضہ کے وقت یعنی مطالبات کی وصولی میں ان پر احسان کیا کرتا تھا بایں طور کہ مستطیع لوگوں کو تو مہلت دے دیتا تھا اور جو نادار ہوتے ان کو معاف کردیتا تھا (یعنی اپنے مطالبات کا کوئی حصہ یا پورا مطالبہ ان کے لئے معاف کردیتا تھا) چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسی عمل سے خوش ہو کر اس کو جنت میں داخل کردیا (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک اور روایت میں جو عقبہ ابن عامر اور ابومسعود انصاری نے اسی کے مثل (یعنی کچھ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ) نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ جب اس شخص نے اپنا یہ عمل بیان کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس کا یعنی معاف کرنے کا حق تجھ سے زیادہ رکھتا ہیں اور پر فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو۔ تشریح (اتاہ الملک) سے مرادی تو یہ ہے کہ خود حضرت عزرائیل (علیہ السلام) ہی اس کی روح قبض کرنے آئے تھے یا پھر یہ کہ ان فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ آیا ہوگا جو حضرت عزرائیل (علیہ السلام) کے مددگار و ماتحت ہیں لیکن اغلب یہ ہے کہ خود حضرت عزرائیل (علیہ السلام) ہی آئے ہوں گے کیونکہ قبض روح کے سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ارواح قبض کرنے کا کام حضرت عزرائیل (علیہ السلام) ہی انجام دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ا یت (قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم) کہہ دیجئے کہ تمہیں وہ ملک الموت (عزرائیل علیہ السلام) مارتا ہے جو تم پر اس کام کے لئے متعین ہے چنانچہ حضرت عزارئیل (علیہ السلام) جب روح قبض کرلیتے ہیں تو جو اچھی یعنی پاکباز روح ہوتی ہے اسے رحمت کے فرشتے لے لیتے ہیں اور جو بری روح ہوتی ہے وہ عذاب کے فرشتوں کی نگرانی (CUSTODY) میں چلی جاتی ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ ملک الموت (خواہ وہ عزرائیل ہوں یا کوئی اور فرشتہ) روح قبض کرنے کا صرف ایک ظاہری ذریعہ بنتا ہے ورنہ حقیقت میں تو روح قبض کرنے والا اور موت طاری کرنیوالا اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسا کہ خود اسی کا ارشاد ہے آیت (اللہ یتوفی الانفس حین موتہا) ہر نفس کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی مارتا ہے فقیل لہ (تو اس سے پوچھا گیا) اس کے بارے میں بھی دونوں احتمال ہیں یا تو اس سے یہ سوال اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا یا فرشتوں نے یہ بات پوچھی نیز وقت سوال کے سلسلے میں زیادہ واضح بات تو یہ ہے کہ اس شخص سے یہ سوال روح قبض کرنے سے پہلے کیا گیا تھا جیسا کہ حدیث کے ابتدائی الفاظ سے مفہوم ہوتا ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سوال روح قبض ہونے کے بعد قبر میں کیا گیا ہوگا جیسا کہ شیخ مظہر کا قول ہے اور علامہ طیبی نے ایک یہ احتمال بھی بیان کیا ہے کہ دراصل یہ سوال قیامت میں کیا جائے گا۔ بہرکیف اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مطالبات کی وصولی میں مستطیع کو مہلت دینا اور نادار شخص کو معاف کردیا بڑے ثواب کی چیز ہے

【4】

خرید وفروخت میں زیدہ قسم نہ کھاؤ

حضرت ابوقتادہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی تجارتی زندگی میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ تجارتی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانا پہلے تو کاروبار کو رواج دیتا ہے مگر پھر برکت کو کھو دیتا ہے۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تجارتی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانے کی وجہ سے وقتی طور پر کاروبار میں وسعت ہوتی ہے بایں طور کہ لوگ قسم پر اعتبار کر کے زیادہ خریداری کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن انجام رزیدہ قسمیں کاروبار میں خیروبرکت کو ختم کردیتی ہیں کیونکہ جس شخص کو زیادہ قسمیں کھانے کی عادت ہوگی اس سے جھوٹی قسموں کا بھی صدور ہونے لگے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک تو باطنی طور پر اس کی تجارت سے خیروبرکت کی روح نکل جائے گی دوسرے اس کا اعتبار آہستہ آہستہ اٹھنے لگے گا اور لوگ اس سے لین دین کرنے میں تامل کرنے لگیں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ ﷺ یہ فرماتے تھے کہ قسم شروع میں تو مال و اسباب میں منفعت کا سبب بنتی ہے لیکن انجام کار برکت کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہے۔ تشریح قسم سے مراد قسم کی کثرت و زیادتی بھی ہوسکتی ہے اور جھوٹی قسم بھی مراد لی جاسکتی ہے حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص زیادہ قسمیں کھاتا ہے اگرچہ وہ قسمیں سچی ہوتی ہوں یا جھوٹی قسم کھاتا ہے تو اس کی وجہ سے شروع میں اور وقتی طور پر اس کے مال و اسباب میں وسعت و زیادتی ہوجاتی ہے کہ لوگ اس کی قسم پر اعتبار کر کے اس سے لین دین کثرت سے کرتے ہیں لیکن آخر کار یہی چیز اس کے مال واساب میں برکت ختم ہوجانے کا سبب بن جاتی ہے بایں طور کہ یا تو اس کا مال و اسباب تلف ہوجاتا ہے یا وہ ایسی جگہ خرچ ہوجاتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہ تو اسے دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور نہ اخروی طور پر اسے کچھ اجروثواب ملتا ہے۔

【5】

جھوٹی قسمیں کھاکرتجارت بڑھانے والے کے لئے وعید

حضرت ابوذر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تین شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے مہربانی و عنایت کا کلام کرے گا نہ بنظر رحمت و عنایت ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان تینوں کے لئے درد ناک عذاب ہے ابوذر نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ خیروبھلائی سے محروم اور اس ٹوٹے میں رہنے والے وہ کون شخص ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ایک تو پائنچے لٹکانے والا دوسرا کسی کو کوئی چیز دے کر احسان جتانے والا اور تیسرا جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی تجارت بڑھانیوالا (مسلم) تشریح پائنچے لٹکانے والے سے مراد وہ شخص ہے جو ازراہ تکبر ٹخنوں سے نیچاپا جامہ پہنتا ہے چناچہ اس میں وہ شخص بھی داخل ہے جو ٹخنوں سے نیچا کرتہ پہنے۔ احسان جتانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کر کے مثلا کسی کو کوئی چیز دے کر یا کسی کے ساتھ ہمدردی کا کوئی معاملہ کر کے اسے زبان پر لایا جائے چناچہ جو شخص کسی کے ساتھ ہمدری واعانت کا کوئی معاملہ کر کے پھر اس پر احسان جتاتا ہے تو وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔ جھوٹی قسمیں کھا کر تجارت بڑھانے والے سے مراد وہ تاجر ہے جو زیادہ نفع حاصل کرنے کے لئے یا اپنا مال تجارت بڑھانے کے لئے جھوٹی قسمیں کھائے مثلا اس نے کوئی چیز نوے روپے میں خریدی ہو مگر اپنے خریدار سے اس کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لئے یا اس کی مالیت بڑھانے کے لئے جھوٹی قسم کھا کر کہے کہ اللہ کی قسم میں نے یہ چیز سو روپے میں خریدی ہے۔

【6】

امانت دار کاروباری شخص کی فضیلت

حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قول وفعل میں نہایت سچائی اور نہایت دیانتداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا شخص نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا (ترمذی دارمی دارقطنی اور ابن ماجہ نے یہ روایت حضرت ابن عمر سے نقل کی ہے نیز ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح کاروباری سے مراد وہ شخص ہے جو تجارتی کاروبار اور اجارہ داری کرتا ہو اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سب سے بہتر کاروبار کپڑے کی تجارت ہے اس کے بعد عطاری ہے۔ ارشاد گرامی ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ جو کاروباری شخص سچائی دیانت داری اور امانت کے اوصاف سے متصف ہوگا گویا اس کی زندگی تمام صفات کمالیہ سے مزین ہوگی جس کا تنیجہ یہ ہوگا کہ وہ یا تو میدان حشر میں نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا کہ جس طرح وہاں کی ہولنا کیوں کے وقت یہ تینوں طبقے رحمت الٰہی کے سایہ میں ہوں گے اسی طرح وہ شخص بھی رحمت الٰہی کی خاص پناہ میں ہوگا یا یہ کہ اسے جنت میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا چناچہ اسے انبیاء کی رفاقت تو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے حاصل ہوگی صدیقوں کا ساتھ ان کی صفت خاص یعنی صدق کی موافقت کی وجہ سے ہوگا اور شہیدوں کی رفاقت کی سعادت اسے اس لئے نصیب ہوگی کہ شہداء اس شخص کے وصف صدق و امانت کی شہادت دینگے۔

【7】

تجارت کے ساتھ صدقہ وخیرات کا حکم

قیس بن غرزہ (جو سوداگری کرتے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم لوگوں کو یعنی سودا گروں کو سماسرہ کہا جاتا تھا۔ چناچہ ایک دن کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ہماری طرف ہوا تو آپ ﷺ نے ہمارے طبقے کا ایک ایسا نام عطا کیا جو ہمارے پہلے نام سے کہیں بہتر ہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا اے طبقہ تجار تجارت میں اکثر بےفائدہ باتیں اور بہت زیادہ قسم یا کبھی کبھی جھوٹی قسم کھانے کی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں اس لئے تم تجارت کو صدقہ و خیرات کے ساتھ ملائے رکھو (ابوداؤد ترمذی نسائی ابن ماجہ) تشریح سماسرہ دراصل لفظ سمسار کے جمع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں دلال یا کسی چیز کا مالک و منتظم چناچہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار کرنے والے کو سمسار ہی کہتے ہیں پھر آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو اس سے بہتر نام یعنی تجارج ولفظ تاجر کی جمع کا صیغہ ہے عطاء کیا اس نام کے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خریدو فروخت کے کاروبار کو مدحیہ طور پر لفظ تجارت کے ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ایک آیت کی عبارت کا یہ ٹکڑا ہے (هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 61 ۔ الصف 10) (کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے) یا ایک اور آیت میں ہے (تجارۃ عن عراض) (سوداگری آپس کی رضا مندی سے) یا ایک آیت کے یہ الفاظ تجارۃ (لن تبور) (تجارت کرو ہلاکت میں نہ پڑو) فشوبوہ بالصدقۃ (تجارت کو صدقہ و خیرات کے ساتھ ملائے رکھو کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی زندگی میں عام طور پر بےفائدہ باتیں اور جھوٹی سچی قسموں کا صدور ہوتا رہتا ہے اور یہ دونوں ہی چیزیں پروردگار کے غضب وغصہ کا باعث ہیں اس لئے تم ان دونوں چیزوں کے کفارہ کے طور پر اپنا کچھ مال صدقہ و خیرات کرتے رہا کرو کیونکہ صدقہ و خیرات اللہ تعالیٰ کے غضب وغصہ کو دور کرتا ہے۔

【8】

تاجروں کے لئے وعید

حضرت عبید ابن رفاعہ تابعی اپنے والد محترم حضرت رفاعہ ابن رافع انصاری صحابی سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تاجر لوگوں کا حشر فاجروں (یعنی دروغ گو اور نافرمان لوگوں) کے ساتھ ہوگا ہاں وہ تاجر اس سے مستثنی ہونگے) جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی (یعنی خیانت اور فریب دہی وغیرہ میں مبتلا نہ ہوئے) اور نیکی کی ( یعنی اپنے تجارتی معاملات میں لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا یا یہ کہ عبادت الٰہی کرتے رہے) اور سچ پر قائم رہے ( ترمذی ابن ماجہ دارمی) اور بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو حضرت براء (رض) نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔