76. خیار کا بیان

【1】

خیارکا بیان

خیار، لفظ، اختیار، سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں میں سے کسی ایک اچھی چیز کا انتخاب کرنا چناچہ کسی تجارتی معاملے کو فسخ کردینے یا اس کو باقی رکھنے کا وہ اختیار جو خریدار اور تاجر کو حاصل ہوتا ہے اصطلاح فقہ میں خیار کہلاتا ہے تجارتی معاملات میں اس اختیار کی کئی قسمیں ہیں جن کے تفصیلی احکام اور فقہی اختلاف فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں تاہم اس موقع پر ان قسموں کے نام اور تعریفات ذکر کردینا ضروری ہے۔ خیار شرط جو تجارتی معاملے طے ہوجانے کے بعد تاجر یا خریدار یا دونوں کو اس معاملے کے ختم کردینے یا باقی رکھنے کا حق دیا جانا خیار شرط کہلاتا ہے مثلا تاجر نے ایک چیز فروخت کی جسے خریدار نے خرید لی مگر اس خریدو فروخت کے بعد تاجر نے یا خریدار نے یہ کہا کہ باوجود بیع ہوجانے کے مجھ کو ایک روز یا دو روز یا تین روز تک یہ اختیار حاصل ہوگا کہ خواہ اس بیع کو باقی رکھا جائے خواہ ختم کردیا جائے۔ خریدو فروخت میں یہ صورت جائز ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر مدت اختیار میں بیع کو فسخ کیا جائے تو وہ فسخ ہوجائے گی اور اگر اس مدت کے ختم ہونے تک بیع کو برقرار رکھا یا سکوت کیا تو بعد ختم مدت بیع پختہ ہوجائے گی یہ بات ذہن میں رہے کہ خیار شرط کی مدت حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ تین دن تک ہے۔ خیار عیب بیع ہوجانے کے بعد خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب معلوم ہونے کے بعد اس چیز کو رکھ لینے یا واپس کردینے کا جو اختیار خریدار کو حاصل ہوتا ہے اسے خیار عیب کہتے ہیں مثلا تاجر نے ایک چیز بیچی جسے خریدار نے خرید لی اب اس بیع کے بعد اگر خریدار واپس کر کے اپنی دی ہوئی قیمت لوٹا لے البتہ اگر بیچنے والے نے اس چیز کو بیچنے کے وقت خریدار سے یہ کہہ دیا تھا کہ اس چیز میں جو عیب ہو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں خواہ تم اس وقت اسے خریدو یا نہ خریدو اور اس کے باوجود بھی خریدار رضا مند ہوگیا تھا تو خواہ کچھ ہی عیب اس میں نکلے خریدار کو واپسی کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ خیار رؤیت بےدیکھی ہوئی چیز کو خرید نے کے بعد اس چیز کو رکھ لینے یا واپس کردینے کا جو اختیار خریدار کو حاصل ہوتا ہے اسے خیار رؤیت کہتے ہیں مثلا کسی خریدار نے بغیر دیکھے کوئی چیز خریدی تو یہ بیع جائز ہوجائے گی لیکن خریدار کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اس چیز کو جس وقت دیکھے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو بیچنے والے کو واپس کر دے۔ ان اقسام کے علاوہ اس باب میں خیار کی ایک اور قسم ذکر ہوگی جسے خیار مجلس کہتے ہیں اس کی صورت یہ ہے کہ کسی ایک مجلس میں تاجروخریدار کے درمیان خریدوفروخت کا کوئی معاملہ طے ہوجانے کے بعد اس مجلس کے ختم ہونے تک تاجر اور خریدار دونوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس معاملہ کو ختم کرسکتا ہے مجلس ختم ہونے کے بعد یہ اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں رہتا لیکن خیار کی اس قسم میں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام شافعی اور بعض دوسرے علماء اس خیار کے قائل ہیں جبکہ حضرت امام ابوحنیفہ اور دوسرے علماء اس کے قائل نہیں ہیں یہ حضرات کہتے ہیں کہ جب بیع کا ایجاب و قبول ہوگیا یعنی معاملہ تکمیل پا گیا تو اب کسی کو بھی اس معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہے گا اور یہ کہ معاملہ کے وقت خیار کی شرط طے پاگئی ہو جسے خیار شرط کہتے ہیں اور جس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن تک ہے تین دن کے بعد خیار شرط کی صورت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

【2】

خیار مجلس کا مسئلہ

حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بیچنے والا خریدنے والا دونوں میں سے ہر ایک اپنے دوسرے صاحب معاملہ پر اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے تو وہ خریدو فروخت کے معاملے کو باقی رکھے اور چاہے تو ختم کر دے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یعنی جس مجلس میں وہ معاملہ طے پایا ہوگا جب وہ ختم ہوجائے گی بایں طور کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں رہے گا ہاں بیع خیار اس سے مستثنی ہے یعنی بیع میں خریدار نے اس اختیار کی شرط طے کرلی ہوگی کہ اگر میں چاہوں تو اس خریدی ہوئی چیز کو رکھوں گا اور اگر نہ چاہوں گا تو واپس کر دوں گا اس بیع میں ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بعد بھی اختیار باقی رہتا ہے ( بخاری مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب بیچنے والا اور خریدنے والا خریدو فروخت کا کوئی معاملہ کریں تو ان میں سے ہر ایک کو معاملے کو باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار حاصل ہوگا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یا یہ کہ ان کی خریدو فروخت کا معاملہ بشرط خیار ہو چناچہ اگر وہ خیار شرط کے ساتھ کوئی تجارتی معاملہ کریں گے تو اس صورت میں (جدائی کے بعد بھی) اختیار کا حق حاصل رہے گا۔ ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں انہیں اختیار حاصل ہے الاّ یہ کہ وہ اپنے تجارتی معاملے میں خیار کی شرط طے کریں ( یعنی اگر وہ اپنا تجارتی معاملہ مذکورہ بالا خیار شرط کے ساتھ طے کریں گے تو انہیں جدائی کے بعد بھی اختیار حاصل رہے گا۔ لیکن بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ترمذی کی اس روایت کے آخری الفاظ (اویختار (الا یہ کہ وہ خیار کی شرط طے کریں) کی بجائے یہ الفاظ ہیں کہ الاّ یہ کہ ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے صاحب معاملہ سے یہ کہہ دے کہ اختیار کی شرط طے کرلو ( اور وہ دوسرا کہہ دے کہ مجھے یہ منظور ہے) تشریح اس حدیث سے بظاہر خیار مجلس کا جواز ثابت ہوتا ہے لیکن جو حضرات خیار مجلس کے قائل نہیں ہیں جیسے اما ابوحنیفہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں ایک دوسرے سے جدا ہونے کا مطلب مجلس کا ختم ہوجانا نہیں ہے بلکہ جدا ہونے سے مراد دونوں کی اس تجارتی معاملے کی گفتگو کا پایہ تکمیل کو پہنچ کر منقطع ہوجانا ہے یعنی جب تک کہ وہ دونوں اس معاملے سے متعلق گفتگو کر رہے ہوں اور ایجاب و قبول پورا نہیں ہوا ہو اس وقت تک ان میں سے ہر ایک کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ چاہے تو زیر گفتگو معاملہ کو فسخ کر دے چاہے اسے باقی رکھے لیکن جب ایجاب و قبول پورا ہوجائے گا یعنی بیچنے والا یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز تمہیں فروخت کردی اور خریدنے والا یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز خرید لی تو اب اس کے بعد ان میں سے کسی کو بھی اس معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہے گا ان حضرات نے جدا ہونے کے یہ معنی مراد لینے کے سلسلے میں اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے ا یت (وَاِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِه) 4 ۔ النساء 130) اگر وہ دونوں جدا ہوجائیں گے تو اللہ اپنے فضل سے ان میں سے ہر ایک کو بےپرواہ کر دے گا چنانچہ اس آیت میں جدا ہونے کا مطلب مجلس سے جدا ہونا نہیں ہے بلکہ خاوند وبیوی کے درمیان طلاق کے ذریعے جدائی مراد ہے۔ اور حضرت حکیم ابن حزام کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے ولا دونوں کو اپنے تجارتی معاملہ کو باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار حاصل رہتا ہے لیکن یہ اختیار اس وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں اور یاد رکھو جب بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں ( فروخت کی جانیوالی چیز اور اس کی تعریف میں سچ بولتے ہیں اور اس چیز و قیمت میں جو عیب و نقصان ہوتا ہے اس کو ظاہر کردیتے ہیں تاکہ کسی دھوکہ اور فریب کا دخل نہ رہے تو ان کے تجارتی معاملے میں برکت عطاء کی جاتی ہے اور جب وہ عیب چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی خریدو فروخت میں برکت ختم کردی جاتی ہے۔

【3】

تجارتی معاملات میں فریقین کی رضا مندی وطمانیت ضروری ہے

حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں اسی وقت تک بیع کو باقی رکھنے یا اس کو فسخ کردینے کا اختیار رکھتے ہیں جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں الاّ یہ کہ ان کی بیع بشرط خیار ہو تو اس میں جدائی کے بعد بھی اختیار باقی رہتا ہے اور ان دونوں میں سے کسی کے لئے از روئے تقوی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ معاملہ کرتے ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو اس خوف سے کہ مبادا دوسرا فریق معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار مانگ لے ( یعنی جب تک کسی معاملے میں دونوں فریق پوری طرح مطمئن نہ ہوجائیں ایجاب و قبول میں ان میں سے کوئی محض اس لئے جلد بازی نہ کرے کہ مبادا فریق ثانی معاملے کو فسخ کر دے یا معاملہ طے کرتے ہی ان میں سے کوئی محض اس وجہ سے نہ بھاگ کھڑا ہو کہ کہیں دوسرا فریق بیع کو فسخ کرنے کے اختیار کی شرط نہ چاہنے لگے ( ابوداؤد نسائی) حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیچنے ولا اور خرید نے والا دونوں آپس کی رضا مندی کے بغیر جدا نہ ہوں (ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ دونوں صاحب معاملہ کوئی تجارتی معاملہ طے کرنے کے بعد اس وقت تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں جب تک کہ قیمت کی ادائیگی اور خرید کردہ چیز کی حوالگی دونوں میں برضا ورغبت طے نہ پا جائے یا عمل میں نہ آجائے کیونکہ اس کے بغیر ایک دوسرے کو نقصان و تکلیف پہنچنے کا احتمال رہے گا جو شریعت میں ممنوع ہے یا پھر اس سے مراد یہ ہے کہ جب معاملہ طے ہوجائے اور دونوں صاحب معاملہ میں سے کوئی ایک وہاں سے اٹھ کھڑے ہونے کا ارداہ کرے تو وہ دوسرے فریق سے پہلے یہ پوچھ لے کہ اب تمہیں کوئی اشکال و اعتراض تو نہیں ہے اور کیا اس معاملے پر تم راضی ہو اس کے بعد اگر وہ دوسرا فریق معاملے کو فسخ کرنا چاہے تو وہ بھی معاملے کو فسخ کر دے اور اگر وہ معاملے کی برقراری پر رضا مند ہو تو پھر تکمیل کے بعد اس سے الگ ہو اس صورت میں یہ حدیث معنی کے اعتبار سے پہلی حدیث کے موافق ہوگی نیز یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے کیونکہ اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر جدا ہونا حلال ہے۔

【4】

عقد بیع کے بعد فسخ کا اختیار

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک اعرابی کو خریدو فروخت کا معاملہ ہوجانے کے بعد دوسرے فریق کی رضامندی سے اس معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار دیدیا تھا ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔