8. مستحاضہ کا بیان

【1】

مستحاضہ کا بیان

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) راوی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میں ایک ایسی عورت ہوں جسے برابر (استخاضہ کا) خون آتا رہتا ہے۔ چناچہ میں کسی وقت پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ! یہ تو ایک رگ کا خون ہے، حیض کا خون نہیں ہے لہٰذا جب تمہیں حیض آنے لگے تو تم نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہوجائے تو جسم سے خون کو دھو ڈالو (اور نہا کر) نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس مسئلے میں کہ اگر کوئی عورت مستحاضہ ہوجائے اور وہ ہر وقت استخاضہ کے خون سے ناپاک رہے تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر وہ ایسی عورت ہو جو معتادہ ہو یعنی اس کے حیض کے ایام مقرر ہوں مثلاً اسے ہر ماہ پانچ روز یا چھ روز خون آتا تھا تو جب وہ مستحاضہ ہوجائے تو اسے چاہئے کہ ان دنوں کو جن میں حیض کا خون آتا تھا ایام حیض قرار دے اور ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور جب وہ دن پورے ہوجائیں تو خون کو دھو کر نہائے اور نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اور اگر وہ مبتد یہ ہو یعنی ایسی عورت ہو کہ پہلا ہی حیض آنے کے بعد وہ مستحاضہ ہوگئی جس کے نتیجہ میں استخاضہ کا خون برابر جاری ہوگیا تو اسے چاہئے کہ وہ حیض کی انتہائی مدت یعنی دس دن کو ایام حیض قرار دے کر ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور بعد میں نہا دھو کر نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اس صورت میں دوسرے ائمہ کے نزدیک عمل تمیز پر ہوگا یعنی اگر خون سیاہ رنگ کا ہو تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا اور اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو وہ استحاضہ کا خون کہلائے گا جیسے کہ آگے والی حدیث سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اس حدیث کے بارے میں جو آگے آرہی ہے اور جو حضرت عروہ (رض) سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دو طرق سے روایت کی گئی ہے ایک تو ان میں سے مرسل ہے اور دوسری مضطرب اور یہ عجیب بات ہے کہ خون کے رنگ میں امتیاز کی بات صرف عروہ کی روایت ہی میں مذکور ہے جس کا حال معلوم ہوچکا کہ ایک طریق سے تو وہ مرسل ہے اور دوسرے طریقے سے مضطرب لہٰذا اس حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد رکھنا گویا اس مسلک کو کمزور کرنا ہے۔ اور یہ حدیث جو اوپر گزری جس میں دنوں کا اعتبار ہے اور جو ہماری دلیل ہے صحیح ہے لہٰذا اس حدیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ بنت حبیش (رض) جنہوں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں حکم دریافت کیا تھا معتادہ تھیں۔ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کو چاہئے کہ وہ ہر فرض نماز کے لئے اپنی شرم گاہ دھو لیا کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آئے جب ہی اپنی شرم گاہ دھو لے پھر نہ دھوئے اور لنگوٹا باندھ کر جلدی جلدی وضو کرلے اس کے بعد جو خون جاری رہے گا اس میں وہ معذور ہوگی لہٰذا آخر وقت تک وہ جو چاہے پڑھے۔

【2】

مستحاضہ کا بیان

حضرت عروہ بن زبیر (رح) (تابعی) ( حضرت عروہ زبیر بن العوام کے صاحبزادے اور عظیم المرتبت تابعی ہیں ٢٢ ھ میں پیدا ہوئے) حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش سے روایت کرتے ہیں کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ جب حیض کا خون آئے جس کی پہچان یہ ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے تو اس وقت تم نماز پڑھنے سے رک جایا کرو اور جب استخاضہ کا خون آنے لگے (یعنی خون سیاہ رنگ کے علاوہ اور کسی رنگ کا ہو) تو وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو کیوں کہ (یہ حیض کا نہیں بلکہ ایک رگ کا خون ہوتا ہے۔ ) ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح اس حدیث کے بارے میں اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث ان ائمہ کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں کہ مستحاضہ ایام حیض کے سلسلہ میں تمیز پر عمل کرے کہ اگر خون کا رنگ گاڑھا سیاہ ہو تو اسے حیض کا خون قرار دے کر ان ایام میں نماز وغیرہ ترک کر دے اور اگر رنگ گاڑھا سیاہ نہ ہو تو پھر اسے استحاضہ کا خون سمجھے اور نماز روزہ کرتی رہے چناچہ اسی جگہ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث صحیح درجے کو نہیں پہنچی اس لئے اس کو کسی مسلک کی بنیاد قرار دینا اس مسلک کی کمزروری کو ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ بہر حال۔ یہاں خون کے جو رنگ بتائے گئے ہیں وہ دائمی اور کلی طور پر نہیں ہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے خون کے رنگ اکثر کے اعتبار سے بیان فرمائے ہیں کیونکہ کبھی حیض کا خون سرخ وغیرہ رنگ کا بھی ہوتا ہے حضرات حنفیہ (رح) اس حدیث کی وضاحت یہ کرتے ہیں کہ اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول یہ ہوگا کہ یہ تمیز عادت کے موافق ہو۔ یعنی جس عورت کو استخاضہ لاحق ہو اور حیض میں جب خون کا رنگ سیاہ ہوگا تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا جب اس کی عادت کے دن گزر جائیں اور ان ہی دنوں میں خون کا رنگ سیاہ بمائل سرخی وغیرہ ہو تو اس کے بعد حیض کا خون شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی عادت کے موافق خون کا رنگ اب سیاہ نہیں رہا۔

【3】

مستحاضہ کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا (اور وہ معتادہ تھی) چناچہ حضرت ام سلمہ (رض) نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے فتوی پوچھا (کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ دیکھے کہ اس بیماری کے آنے سے پہلے اسے مہینے میں حیض کا خون کتنے دن رات آتا تھا (جب یہ معلوم ہوجائے تو) ہر مہنے اتنے ہی دنوں کے لئے نماز پڑھنی چھوڑ دے اور جب وہ دن گزر جائیں تو نہالے اور (پاجامہ کے اندر) کپڑے کی لنگوٹی باندھ کر نماز پڑھ لیا کرے۔ (مالک ابوداؤد، دارمی) اور نسائی نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے) ۔ تشریح مستحاضہ کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ لنگوٹ اس طرح باندھے کہ خون حتی المقدور رک سکے اگر لنگوٹ باندھنے اور احتیاط کے باوجود بھی خون آئے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نماز صحیح ہوجائے گی قضاء ضروری نہیں ہوگی یہ حکم سلسل البول کے مرض کا بھی ہے۔

【4】

مستحاضہ کا بیان

اور حضرت عدی ابن ثابت سے مروی ہے کہ ان کے والد اپنے والد سے یعنی یحییٰ ابن معین سے جو عدی کے دادا ہیں اور جن کا نام دینار ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک مستحاضہ کے بارے میں فرمایا کہ جن دنوں اسے (عادت کے موافق) حیض آتا تھا اسے چاہئے کہ ان میں نماز چھوڑ دے پھر (ان دنوں کے بعد ایک مرتبہ) نہائے اور ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز بھی پڑھے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح یہ حدیث ضعیف ہے نیز ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں فَتَوَضَّا لِوَقْتِ کُلِّ صَلٰوۃٍ یعنی مستحاضہ ہر نماز کے وقت وضو کرے۔

【5】

مستحاضہ کا بیان

اور حضرت حمنہ بنت جحش (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت سے استحاضہ کا خون آتا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تاکہ آپ ﷺ کو اس کی خبر دوں اور اس کا حکم پوچھوں چناچہ میں اپنی بہن زینب بنت جحش (رض) کے مکان میں سرکار دو عالم ﷺ سے ملی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت سے آتا ہے جس نے مجھے نماز روزے سے بھی روک رکھا ہے اس کے بارے میں آپ ﷺ کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لئے روئی کو بیان کرتا ہوں کیونکہ وہ خون کو لے جاتی ہے (یعنی خون نکلنے کی جگہ روئی رکھ لو تاکہ وہ باہر نہ نکلے) حمنہ نے کہا کہ وہ تو (اس سے نہیں رکے گا کیونکہ) بہت زیاد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا (روئی رکھ کر) اس پر لگام کی طرح کپڑا (یعنی لنگوٹ) باندھ لو۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ) زیادہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا پھر لنگوٹ کے نیچے) ایک کپڑا رکھ لو۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ بہت ہی زیادہ ہے یہاں تک کہ خون بارش کی (دھار) کی طرح آتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو میں تمہیں دو باتوں کا حکم کرتا ہوں ان میں سے تم جس ایک کو بھی اختیار کرلو گی دوسری کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر تمہارے اندر دونوں (پر عمل کرنے) کی طاقت ہوگی تو تم خود ہی دانا ہو (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو) چناچہ آپ ﷺ نے حمنہ سے کہا کہ یہ استحاضہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) چھ یا سات روز (کیونکہ غیب کا علم اللہ کو ہے) حیض کے ایام قرار دو اور پھر (مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد) غسل کرلو اور جب تم جان لو کہ میں پاک و صاف ہوگئی ہوں تو تیس دن رات (ایام حیض سات دن قرار دینے کی شکل میں) یا چوبیس دن رات (ایام حیض چھ دن قرار دینے کی شکل میں) نماز پڑھتی رہا کرو اور اسی طرح مہینے رمضان وغیرہ کے) روزے بھی رکھتی رہا کرو چناچہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت پر ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں تم بھی ہر مہینہ اسی طرح کرتی رہا کرو کہ چھ دن یا سات دن تو حیض کے ایام قرار دو اور بقیہ دن طہر یعنی پاکی کے ایام قرار دو ) تمہارے لئے یہ کافی ہوگا۔ اور اگر تمہارے اندر اتنی طاقت ہو کہ ظہر کے وقت میں تاخیر کر کے اس میں نہا لو اور عصر میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھ لو اور پھر مغرب کا وقت آخیر کر کے نہا لو اور عشاء میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکھٹی پڑھ لو اور نماز فجر کے لئے (علیحدہ) نہا لو تو اسی طرح کرلیا کرو ( جن دنوں میں نماز پڑھو ان دنوں میں نفل اور فرض جیسے بھی چاہو) روزے رکھ لیا کرو اور اگر تم میں اس کی طاقت ہو تو (اس طرح کرتی رہا کرو) پھر سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا ان دونوں باتوں میں سے آخری بات مجھے بہت پسند ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) تشریح یوں تو استحاضہ کا خون آنا مرض کی بناء پر ہوتا ہے تاہم رسول اللہ ﷺ نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے کہ یہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بہکانے اور عبادت کے اندر خلل ڈالنے کے لئے شیطان کو موقع ملتا ہے چناچہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکی و صفائی اور نماز وغیرہ میں فساد کا بیج بوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے استخاضہ کی حقیقت بیان فرما کر سائلہ کو دو ایسے حکم دئیے جن پر عمل کرنے سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ان میں سے آپ ﷺ نے ایک حکم تو یہ دیا کہ فَتَحَیْضِی سِتَّتِ اَیَّامٍ اَوْسَبْعَۃَ َایَّامٍ یعنی چھ روز یا سات روز حیض کے ایام قرار دو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہر مہینے اپنی اوپر یہی عادت کے مطابق چھ دن یا سات دن تک حیض کے احکام جاری رکھ۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائلہ معتادہ تھی اور وہ حیض کے ایام بھول گئی تھی یعنی اسے یہ یاد نہیں رہا تھا کہ حیض کا خون ہر مہینے چھ دن آتا تھا یا ساتھ دن آتا تھا، اس لئے آپ ﷺ نے اسے فرمایا کہ تم اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اگر تمہارا یقین یہ کہتا ہو کہ عادت چھ دن کی تھی تو اس صورت میں چھ دن حیض کے ایام قرار دو اگر اس بات کا گمان غالب ہو کہ عادت سات دن کی تھی تو پھر سات دن حیض کے ایام قرار دو پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے فی علم اللہ فرما کر اس بات کا اشارہ کردیا کہ تم بہر حال اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اس بات کا علم بہر صورت اللہ تعالیٰ کو ہے، کہ تمہاری عادت کیا تھی کیونکہ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو وہی ہے۔ یا پھر ستۃ ایام اوسبعۃ ایام او اگر شک کے لئے ہو تو فی علم اللہ راوی کا قول ہوگا جو وا اللہ اعلم کے معنی میں ہوگا۔ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے تو ستۃ ایام فرمایا ہے یا سبعہ ایام اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ نے سائلہ سے جو یہ فرمایا کہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت میں ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں۔ تم بھی اسی طرح ہر مہینہ کرتی رہا کرو۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جیسے تمہاری طرح وہ عورتیں جو اپنی عادت کے دن بھول جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے ایام ٹھہراتی ہیں تم اسی طرح اپنے ایام قرار دو یعنی اگر ان کے حیض کا وقت اول مہینہ ہے تو ایام حیض اول مہینے کو قرار دو اور اگر ان کے حیض کا وقت مہینے کے درمیان میں ہو تو تم بھی ایام حیض درمیان مہینے کو قرار دو اسی طرح اگر ان کے حیض کا وقت آخر مہینہ میں ہو تو تم آخر مہینے کو ایام حیض قرار دو ۔ بہرحال۔ پہلے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنے حیض کی مدت خواہ وہ سات دن ہو یا چھ دن پوری کر کے اس کے بعد نہا ڈالو اور پھر ہر نماز کے لئے غسل کیا کرو۔ دوسرا حکم آپ ﷺ نے یہ دیا کہ دو نمازوں کے درمیان ایسے وقت غسل کرلیا کرو کہ ایک نماز کا انتہائی وقت ہوا اور دوسری نماز کا ابتدائی وقت پھر اس کے بعد دونوں کو اکٹھی پڑھ لیا کرو اس طرح ظہر اور مغرب کو تاخیر کے ساتھ پڑھنے کے لئے جو کہا گیا ہے اس میں دو احتمال ہیں۔ اول تو اس تاخیر کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھی جائے مثلاً ظہر اور عصر دونوں وقت کی نماز عصر ہی کے وقت میں پڑھی جائے۔ اسی طرح مغرب کی اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی جائی جیسا کہ حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کہ مطابق مسافر دو نمازوں کو اس طرح جمع کر کے پڑھ سکتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ظہر کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عشاء کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے جیسا کہ حنفی مسلک میں مسافر کے لئے جمع بین الصلوتین کی یہی تاویل کی جاتی ہے اور اسے جمع صوری کہتے ہیں۔ چناچہ اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اسی مقصد و مراد کی وضاحت کر رہی ہے۔ پس اس دوسرے حکم کا حاصل یہ ہے کہ روزانہ ایک غسل تو ظہر و عصر کے لئے کیا جائے اور ایک غسل مغرب و عشاء کے لئے اسی طرح ایک غسل فجر کے لئے کیا جائے۔ یہ بات سمجھ لیجئے کہ پہلے حکم کا خلاصہ کرتے ہوئے جو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نماز کے لئے غسل کیا جائے۔ اس کی صراحت حدیث میں تو نہیں ہے لیکن ارشاد گرامی ان قویت علی ان تو خرین الخ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اس عبارت سے سائلہ کا ہر نماز کے لئے غسل سے عاجز ہونا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہی مسلک حضرت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ ، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابن زبیر (رض) وغیرہ کا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کا مسلک یہ ہے کہ دو نمازیں ایک غسل کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اور یہی مسلک اس حدیث سے زیادہ قریب اور مطابق ہے کیونکہ اس میں زیادہ آسانی ہے بہ نسبت اس کے کہ ہر نماز کے لئے غسل کیا جائے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے کہ ھذا اعجب الامرین الی یعنی دونوں نمازوں کے لئے غسل کرنا مجھے دوسرے امر یعنی ہر نماز کے لئے غسل سے زیادہ پسند ہے۔ اور اس دوسرے حکم کو پسند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ ﷺ امت کے لئے وہی چیز پسند فرماتے تھے جو آسان اور سہل العمل ہو۔ جہاں تک حنفیہ کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے یا یہ کہ دونوں صورتوں میں غسل کا حکم معالجہ پر معمول ہے یعنی آپ ﷺ نے غسل کا حکم اس لئے دیا ہے تاکہ خون کی کثرت اور اس کی شدت ختم ہوجائے۔

【6】

مستحاضہ کا بیان

حضرت اسماء بنت عمیس (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فاطمہ (رض) بنت ابی حبیش کو (پہلی مرتبہ) اتنی مدت سے استحاضہ آرہا ہے اس لئے وہ (یہ خیال کر کے کہ شاید یہ بھی حیض کے حکم میں ہو) نماز نہیں پڑھ رہی۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ ! یہ نماز کا چھوڑنا تو شیطانی اثر ہے ؟ اسے چاہئے کہ ایک ٹب میں پانی ڈال کر بیٹھ جائے جس وقت پانی پر زردی معلوم ہونے لگے تو ظہر اور عصر کے لئے ایک غسل کرے اور مغرب و عشاء کے لئے ایک غسل کرلے اور فجر کے لئے علیحدہ ایک غسل کرے (اور جب ضرورت ہو تو عصر اور عشاء کے لئے) ان کے درمیان وضو کرے۔ (یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ مجاہد نے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب فاطمہ بنت ابی حییش کو (ہر نماز کے لئے) غسل کرنا دشوار معلوم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو (ایک غسل سے) دو نمازیں اکٹھی پڑھنے کا حکم دیا) ۔ تشریح جب ظہر کا وقت بالکل آخر ہوجاتا ہے تو آفتاب پر قدرے زردی آجاتی ہے بلکہ زوال کے بعد تغیر ہونا شروع ہوجاتا ہے چناچہ آپ ﷺ نے ٹب میں دیکھنے کے لئے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ زردی پانی سے آسانی سے معلوم ہوجاتی ہے وہ زردی بڑھتے بڑھتے مغرب کے قریب پوری ہوجاتی ہے اس وقت نماز پڑھنی مکروہ ہے لیکن آپ ﷺ نے جس زردی کے بارے میں فرمایا ہے یہ اس زردی کے علاوہ ہے جو عصر کے بعد ہوتی ہے اور وہ نماز کے لئے کراہت کا وقت ہوتا ہے۔