80. ذخیرہ اندوزی کا بیان

【1】

احتکار کا بیان

احتکار کا معنی لغوی طور پر معنی ہیں گراں فروشی کی نیت سے غلہ کی ذخیرہ اندوزی۔ اور شریعت کی اصطلاح میں احتکار کا مفہوم ہے ہر ایسی چیز کو مہنگا بیچنے کے لئے روک رکھنا جو انسان یا حیوان کی غذائی ضرورت میں کام آتی ہو۔ مثلًا گراں بازاری کے زمانے میں جب کہ مخلوق اللہ کو غلہ وغیرہ کی زیادہ ضرورت ہو کوئی شخص غلہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھے کہ جب اور زیادہ گرانی ہوگی تو اسے بیچوں گا یہ احتکار کہلاتا ہے۔

【2】

احتکار کا شرعی حکم

شرعی نقطہ نظر سے احتکار حرام ہے اس قابل نفریں فعل میں مبتلا ہونے والا شخص شریعت کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی زمین سے پیدا شدہ غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرے یا ارزانی کے زمانہ میں غلہ خرید کر رکھ چھوڑے اور پھر اسے گرانی کے وقت بیچے تو یہ حرام نہیں ہے اسی طرح اشیاء کو روک رکھنا جو غذائی ضروریات میں استعمال نہ ہوتی ہوں حرام نہیں ہے۔ ہدایہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ انسانوں اور جانوروں کی غذائی چیزوں کا احتکار مکروہ ہے بشرطیکہ یہ احتکار ایسے شہر میں ہو جہاں اس کی وجہ سے شہر والوں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچے یعنی اگر کوئی چھوٹا شہر ہو تو وہاں احتکار کی وجہ سے چونکہ غلہ کی قلت پیدا ہوجائے گی جس کی بنا پر غلہ کی گرانی بڑھ جائے گی اور لوگوں کو نقصان پہنچے گا اس لئے ایسے شہر میں احتکار ممنوع ہوگا ہاں اگر بڑا شہر ہو اور وہاں کسی کے احتکار کی وجہ سے اہل شہر کو نقصان نہ پہنچ سکتا ہو تو پھر ایسے شہر میں احتکار ممنوع نہ ہوگا۔ اسی طرح ہدایہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص زمین کے غلہ کا احتکار کرے یا کسی اور شہر سے غلہ خرید کر لائے اور اس کو احتکار کرے تو ایسے شخص کو شرعی طور پر احتکار کرنے والا نہیں کہیں گے۔

【3】

احتکار کرنے والا گنہگار ہے

حضرت معمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص احتکار کرے وہ گنہگار ہے۔ اور حضرت عمر کی روایت (کانت اموال بنی النضیر) کو ہم انشاء اللہ باب الفئ میں نقل کریں گے

【4】

احتکار کرنے والے کے لئے وعید

حضرت عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص کہیں باہر سے شہر میں غلہ وغیرہ لاتا ہے کہ اسے موجودہ اور رائج نرخ پر فروخت کرے اور گراں فروشی کی نیت سے اس کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے یعنی اسے بغیر گناہ کے فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا کی جاتی ہے اس کے خلاف مخلوق اللہ کی پریشانیوں اور غذائی قلت سے فائدہ اٹھا کر غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور خیر و بھلائی سے دور رہتا ہے جب تک کہ وہ اس لعنت میں مبتلا رہتا ہے اس کو برکت حاصل نہیں ہوتی۔

【5】

حاکم اپنی طرف سے نرخ مقرر نہ کرے

اور حضرت انس کہتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ کے زمانہ میں غلہ کا نرخ مہنگا ہوگیا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے لئے نرخ مقرر فرما دیجئے یعنی تاجروں کو حکم دیدیجئے کہ وہ اس نرخ سے غلہ فروخت کیا کریں۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا اللہ ہی تنگی پیدا کرنے والا اللہ ہی فراخی دینے والا اور اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ میں اس بات کا امیدوار اور خواہشمند ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر تم میں سے کسی کے خون اور مال کا کوئی مطالبہ نہ ہو۔ تشریح اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے کا مطلب یہ ہے کہ گرانی اور ارزانی اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے نرخ جس کا ظاہری سبب بنتا ہے چناچہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کبھی تو نرخوں میں کمی اور ارزانی کے ذریعے لوگوں کے رزق میں وسعت و فراخی پیدا کرتا ہے اسی کو بعض لوگ نرخ آسمانی سے تعبیر کرتے ہیں لہذا جب گراں بازاری کا دور ہو اور نرخوں میں اضافے ہوجائیں تو اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے اپنے عقائد و اعمال میں درستی اور اصلاحی کر کے اللہ کی رضا و خو شنودی کا سامان کیا جائے تاکہ وہ اپنے بندوں سے خوش ہو اور ان پر ارزانی وسعت رزق کی رحمت نازل فرمائے۔ حدیث کے آخری جزء میں اس بات کا امیدوار اور خواہشمند ہوں سے دراصل اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ سرکار و حکومت کی طرف سے نرخ مقرر کیا جانا ممنوع ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کے معاملات میں بیجا دخل اندازی ہوتی ہے اور ان کے مال میں ان کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا لازم آتا ہے جو ظلم کی ایک صورت ہے پھر نرخ مقرر کرنے کا ایک برا نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے بسا اوقات لوگ کاروبار بند کردیتے ہیں اور تجارتی زندگی میں اضمحلال پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے قحط وقت تک نوبت آجاتی ہے انجام کار جو چیز مخلوق اللہ کی بھلائی کے لئے اختیار کی جاتی ہے وہی ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لہذا آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نرخ مقرر کر کے لوگوں کو تکلیف و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور تاجروں پر کوئی نرخ لازم نہ کیا جائے بلکہ اس کی بجائے تاجروں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مخلوق اللہ کے ساتھ ہمدردی و انصاف اور خیر خواہی کا معاملہ کریں اور ان کے ضمیر و احساس کو اس طرح بیدار کیا جائے کہ دراز جو نرخوں میں کمی کر کے لوگوں کی پریشانی و مصیبت دور کریں۔

【6】

غلہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے لئے موعظت وعبرت

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم یہ فرماتے تھے کہ جو شخص غلہ روک کر گراں نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جذام و افلاس میں مبتلا کردیتا ہے۔ تشریح اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوق اللہ اور خاص طور پر مسلمانوں کو تکلیف و نقصان میں ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جسمانی و مالی بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے اور جو شخص انہیں نفع و فائدہ پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے جسم و مال میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے۔ (٥) اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روک رکھا گویا وہ اللہ سے بیزار ہوا اور اللہ اس سے بیزار ہوا۔ تشریح وہ اللہ سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد توڑ ڈالا جو اس نے احکام شریعت کی بجاآوری اور مخلوق اللہ کے ساتھ ہمدردی و شفقت کے سلسلے میں باندھا ہے۔ اسی طرح اور اللہ اس سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے اس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق اللہ کی پریشانی و تکلیف کا سامان کیا تو اللہ نے اس پر سے اپنی حفاظت اٹھا لی اور اس کو اپنا نظر کرم و عنایت سے دور کردیا۔ (٦) اور حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا بندہ برا ہے اگر اللہ تعالیٰ نرخوں میں ارزانی کرتا ہے تو وہ سنجیدہ ہوتا ہے اور اگر نرخوں کو گراں کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ (٧) اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو چالیس روز تک روکے رکھا اور پھر اسے اللہ کی راہ میں خیرات کردیا تو وہ اس کے لئے کفارہ نہیں ہوگا۔ تشریح یہ گویا اس شخص کے لئے وعید و سزا ہے جو چالیس دن تک گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو روکے رکھے کہ نہ تو اسے بازار میں لا کر بیچے اور نہ اس کے ذریعہ مخلوق اللہ کی غذائی ضروریات کو پورا کرے اور جو شخص اس سے کم مدت کے لئے احتکار کرے اس کے لئے بھی سزا ہے مگر اس سے کم درجہ کی۔