81. افلاس اور مہلت دینے کا بیان

【1】

افلاس اور مہلت دینے کا بیان

انسانی زندگی میں کسی ایک حالت کو قرار و دوام نہیں ہے آج کچھ ہے کل کچھ یہ روزانہ کے مشاہدہ کی بات ہے انسان کی اقتصادی و مالی زندگی کو ہی دیکھ لیجئے جس طرح ایک مفلس اور قلاش شخص راتوں رات رحمت الٰہی کے نتیجہ میں مال و زر کے خزانوں کا مالک بن جاتا ہے اسی طرح بڑے بڑے کاروباری دیکھتے ہی دیکھ تے دیوالیہ ہوجاتے ہیں جو لوگ ہر وقت لاکھوں میں کھیلتے رہتے ہیں مال و زر ہی جن کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے چشم وزدن میں وہ پائی پائی کے محتاج نظر آتے ہیں۔ یہی کائنات کا نظام ہے اور یہی تقدیر کا کھیل ہے حالات کو کسی ایک راستے پر برقرار رکھنا نہ کبھی کسی کے بس میں رہا ہے اور نہ کبھی کسی کے بس میں رہے گا۔ یہ سارے کھیل قدرت الٰہی کے پابند رہے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح پابند رہیں گے لیکن بدلے ہوئے حالات کو متوارن بنانا اور متوازن بنانے میں مدد دینا انسان کے بس میں ہے جسے وہ اختیار کر کے ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹ بھی سکتا ہے اور بدلے ہوئے حالات کو سنوارنے میں مدد بھی دے سکتا ہے چناچہ یہاں جو باب قائم کیا گیا ہے اس کے تحت نقل کی جانے والی احادیث کا یہی حاصل ہے کہ اگر کوئی شخص حالات کی تبدیلی کا شکار ہوجائے بایں طور کہ افلاس و تنگدستی اسے اپنی لپیٹ میں لے لے تو دوسرے انسانوں کا نہ صرف یہ فریضہ ہے کہ اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں بلکہ اگر اس شخص پر کسی کا کوئی حق و مطالبہ ہو اور وہ مفلس ہوجانے کی وجہ سے اس کی ادائیگی سے وقتی طور پر عاجز ہو تو صاحب حق اسے اتنی مہلت دے دے کہ جب بھی اس کے حالات سدھریں وہ اس کا حق ادا کر دے۔

【2】

مفلس ہوجانے والے کے بارے میں ایک مسئلہ

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی شخص مفلس ہوجائے اور وہ شخص (کہ جس نے اس کے ہاتھ اپنے مال بیچا تھا اس کے پاس اپنا مال بعینہ پائے تو وہ کسی دوسرے کے مقابلے میں اس مال کا زیادہ حق دار ہے۔ تشریح اس ارشاد گرامی کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ زید نے بکر سے کوئی مال خریدا مگر اس کی قیمت ابھی ادا نہیں کر پایا تھا کہ مفلس ہوگیا اور حاکم و قاضی نے بھی اس کے مفلس و دیوالیہ ہوجانے کا فیصلہ کردیا اب بکر (یعنی بیچنے والے) نے دیکھا کہ زید کے پاس اس کا بیچا ہوا مال جوں کا توں موجود ہے یعنی نہ تو وہ ظاہری طور پر ضائع و ہلاک ہوا ہے اور نہ تصرفات شرعیہ مثلًا ہبہ ووقف کے ذریعہ معنوی طو پر ختم ہوا ہے تو اس صورت میں بکر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی کی ہوئی بیع کو فسخ کر دے اور زید سے اپنا مال واپس لے لے کیونکہ دوسرے قرض خواہوں کی بہ نسبت وہ مقدم ہے لہذا بجائے اس کے کہ وہ مال دوسرے قرض خواہ زید سے لیں بکر اس کے لینے کا زیادہ حق دار ہے۔ اور اگر زید نے مال کی خریداری کے وقت قیمت کا کچھ حصہ ادا کردیا ہو اور بقیہ حصہ ادا کرنے سے پہلے مفلس ودیوالیہ ہوگیا ہو تو اس صورت میں بکر اس مال کی اتنی ہی مقدار لے جو قیمت کے بقیہ حصہ کے بقدر ہو چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا یہی مسلک ہے ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک چونکہ اس صورت میں بیچنے والے کو نہ تو بیع فسخ کردینے کا اختیار ہے اور نہ وہ مال واپس لے لینے کا حق اسے پہنچتا ہے اس لئے حنفیہ اس حدیث کو عقد بالخیار پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بیع اس شرط کے ساتھ ہوئی ہو کہ بیچنے والے کو فلاں مدت تک اس بیع کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا چناچہ بیع کے بعد اگر خریدار مفلس ودیوالیہ ہوجائے اور مدت خیار کے اندر بائع (بچنے والا) کو معلوم ہوگیا کہ خریدار مفلس و دیوالیہ ہوگیا ہے تو اب اس کے لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ بیع کو فسخ کر دے اور اپنا مال واپس لے لے۔

【3】

مفلس ہوجانے والے کی امداد کرنے کا حکم

اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم کے زمانے میں ایک شخص پھلوں کے سخت نقصان میں مبتلا ہوگیا جو اس نے خریدے تھے اور اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرضدار ہوگیا اس کی حالت دیکھ کر رسول کریم نے لوگوں سے فرمایا کہ صدقہ کے ذریعہ اس کی مدد کرو (تا کہ یہ قرض کے بوجھ سے ہلکا ہو) لوگوں نے صدقہ کے ذریعہ اس کی مدد کی مگر لوگوں کی مدد بھی اس کے قرض کی پوری ادائیگی کے لئے کافی نہ ہوسکی اس کے بعد آپ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں اس سے جو کچھ بھی حاصل ہو بس وہ لے لو اس سے اس کے علاوہ اور کچھ تمہیں نہیں ملے گا۔ تشریح اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت کے زمانے میں ایک شخص نے ایک پھل دار درخت خریدا اور درخت پر لگے ہوئے پھل ابھی اس کے تصرف میں نہیں آئے تھے سوء اتفاق سے ان پر آفت نازل ہوئی اور وہ سب جھڑ گئے ادھر اس نے اس کی قیمت بھی ادا نہیں کی تھی چناچہ جب بیچنے والے نے قیمت کا مطالبہ کیا تو اس نے لوگوں سے قرض لے کر وہ قیمت ادا کی اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرض دار ہوگیا۔ آنحضرت نے جب اس کی پریشان حالی دیکھی تو لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا کہ وہ صدقہ و خیرات کے ذریعہ ہی اس کی مدد کریں تاکہ وہ قرض کے بار سے ہلکا ہوجائے۔ لوگوں نے اس کی مدد کی مگر ان کی مدد بھی اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوسکی۔ لوگوں کی مدد سے جتنا قرض وہ ادا کرسکتا تھا اتنا ادا کردیا بقیہ قرض کی ادائیگی سے جب وہ بالکل ہیں عاجز ہوگیا تو آنحضرت نے قرض خواہوں سے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو حدیث کے آخر میں نقل کئے گئے ہیں۔ چنانچہ قرض خواہوں سے آنحضرت کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب اس شخص کا افلاس بالکل ظاہر ہوگیا ہے اور اس کی خستہ حالی عیاں ہوچکی ہے تو اب تمہارے لئے یہ قطعًا مناسب نہیں ہے کہ تم اسے پریشان کرو اسے ڈراؤ دھمکاؤ یا اسے قید وبند کی مصیبت میں مبتلا کرو بلکہ اس صورت میں تم لوگوں پر واجب ہے کہ اسے مہلت دے دو جب دیکھو کہ اس کے پاس ادائیگی قرض کا کچھ سامان فراہم ہوگیا ہے اس وقت مطالبہ کرنا اور اس سے اپنا قرض واپس لے لینا آپ کے ارشاد کا یہ مطلب قطعًا نہیں تھا کہ قرضدار کے ذمہ سے قرض خواہوں کا حق ہی سرے سے ساقط ہوگیا ہے بلکہ جیسا کہ ابھی بتایا گیا اس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ قرض دار کو مہلت مل جائے۔

【4】

وصولئی قرض میں در گذر کرنے کا اجر

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ایک شخص تھا جو لوگوں سے قرض لین دین کا معاملہ کرتا تھا (یعنی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا) اور اس نے اپنے کارندے سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب کسی تنگدست کے پاس (قرض وصول کرنے جاؤ) تو اس سے در گذر کرو شاید اللہ تعالیٰ ہم سے در گذر فرمائے۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی (یعنی اس کا انتقال ہو) تو اللہ تعالیٰ نے اس سے در گذر فرمایا (اور اس کے گناہوں پر مؤ اخذہ نہیں کیا) (٤) اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے تو اسے چاہئے کہ وہ مفلس و تنگدست سے اپنا قرض وصول کرنے میں تاخیر کرے یا اس کو معاف کر دے (یعنی اپنا پورا قرض یا جس قدر ممکن ہو معاف کردیے۔ تشریح یوں تو فرض اعمال نفل اعمال سے ستر درجے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں لیکن بعض مسائل و معاملات میں نفل اعمال فرض اعمال سے زیادہ فضیلت کے رکھتے ہیں انہیں میں سے ایک تو تنگدست و مفلس کو اپنا حق (مثلًا قرض وغیرہ) معاف کردینا ہے کہ یہ اگرچہ مستحب ہے لیکن مفلس و تنگدست کو قرض وغیرہ ادا کرنے میں مہلت دینے سے افضل ہے جو واجب ہے دوسرے سلام کرنے میں پہل کرنا سنت ہے لیکن یہ افضل ہے سلام کا جواب دینے سے جو فرض ہے تیسرے وقت سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے لیکن یہ افضل ہے وقت شروع ہوجانے کے بعد وضو کرنے سے جو فرض ہے۔ (٥) اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ فرماتے تھے جو شخص اپنا مطالبہ وصول کرنے میں مفلس کو مہلت دے یا اس کو اپنا پورا مطالبہ یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے گا۔ (مسلم) ٦) اور حضرت ابوالیسر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم ﷺ فرماتے تھے جو شخص تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا (یعنی قیامت کے دن اسے گرمی کی تپش اور اس دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے گا (مسلم) تشریح امام احمد، ابن ماجہ اور حاکم نے آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ جو شخص مفلس وتنگدست کو مہلت دے تو ادائیگی کا دن آنے تک اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے اور اس کی ادائیگی کا دن آنے تک ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے تو اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کی دگنی مقدار کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ اس روایت کو تمثیلی طور پر یوں سمجھئے کہ مثلًا ایک شخص نے کسی کو دو مہینے کے وعدے پر ایک سو روپے قرض دیئے اور دو مہینے کے بعد اس کی مفلسی و تنگدستی کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک مہینے کی مہلت دیدی تو اسے پورے مہینے اس طرح کا ثواب ملتا رہے گا کہ گویا وہ ہر دن ایک سو روپیہ صدقہ و خیرات کرتا ہے اسی طرح ایک مہینے کی مدت گزر جانے کے بعد دوبارہ مہلت دینے میں ایسا ہی ثواب ملتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب تیسری مرتبہ مہلت دے گا تو اسے ہر دن ایسا ثواب ملے گا جیسے کہ وہ ہر دن دو سو روپے صدقہ و خیرات کرتا ہے۔

【5】

خوبی کے ساتھ قرض ادا کرنیوالا بہترین شخص ہے

اور حضرت أبورافع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اور پھر جب آپ ﷺ کے پاس زکوٰۃ کے اونٹ آئے تو ابورافع کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس شخص کو کہ جس سے آپ ﷺ نے اونٹ قرض لیا تھا ایسا ہی ایک اونٹ دیدوں میں نے عرض کیا کہ مجھے ایسا ہی اونٹ کوئی نظر نہیں آ رہا ہے البتہ ایک اونٹ ہے جو اس کے اونٹ سے اچھا ہے اور ساتویں برس میں لگا ہے (لہذا میں اس کے اونٹ سے اچھا اونٹ کیسے دیدوں) آپ ﷺ نے فرمایا اسے اچھا ہی اونٹ دیدو کیونکہ لوگوں میں بہترین وہی شخص ہے جو ادائیگی قرض میں سب سے اچھا ہو ( مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانور کا قرض لینا جائز ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور اکثر علماء کا مسلک ہے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ کے نزیدک یہ جائز نہیں ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے واضح ہوا کہ جو چیز قرض لی ہے اس کی واپسی میں اس کی بہ نست اچھی چیز دینا مستحب بھی ہے اور عالی ہمتی بھی بشرطیکہ قرض لیتے وقت اس کی شرط نہ کی گئی ہو۔

【6】

قرض خواہ تقاضہ کرسکتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے اس اونٹ کا تقاضہ کیا (جو آپ ﷺ نے اس سے بطور قرض لیا تھا) اور تقاضہ بھی بڑی سخت کلامی کے ساتھ کیا آپ ﷺ کے صحابہ نے جب اس کو اس سخت کلامی اور آداب نبوت کے خلاف اس کی حرکت پر سزا دینی چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو کیونکہ جس کا حق ہے اسے کہنے کا اختیار ہے البتہ ایسا کرو کہ ایک اونٹ خرید کر اسے دیدو تاکہ اس کا مطالبہ ادا ہوجائے اور اسے پھر کچھ کہنے کا حق نہ رہے) صاحبہ نے عرض کیا کہ اس نے آپ ﷺ کو بطور قرض جو اونٹ دیا تھا اس کی عمر کا کوئی اونٹ نہیں مل رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ عمر کا مل رہا ہے یعنی اس کا اونٹ چھوٹا اور کمتر تھا اور ہمیں جو اونٹ مل رہا ہے وہ اس کے اونٹ سے بڑا اور اچھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا جو اونٹ تمہیں مل رہا ہے اسی کو خرید لو (اگرچہ وہ اس کے اونٹ کی بہ نسبت بڑا اور اچھا ہے) اور اسے دیدو یاد رکھو تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرض ادا کرنے میں اچھا ہو ( بخاری ومسلم) تشریح آپ ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضہ کرنے والا اور پھر تقاضہ میں سخت کلامی کرنیوالا کوئی کافر رہا ہوگا خواہ وہ یہودی ہو یا کوئی اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ شاید کوئی اجڈ گنوار و دیہاتی ہوگا جو مجلس نبوت اور مقام نبوت کے آداب سے مطلقًا بےبہرہ تھا جسے یہ سلیقہ بھی نہیں تھا کہ کس سے کس طرح بات کی جاتی ہے اس کے برعکس سرکار دو عالم ﷺ نے اس کی باتوں کو جس عالی ظرفی اور خوش اخلاقی کے ساتھ برداشت کیا وہ صرف نبوت ہی کا خاصہ ہوسکتا ہے۔ جس کا حق ہے اسے کہنے کا اختیار ہے، کے بارے میں ابن ملک فرماتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد قرض ہے یعنی اگر کسی شخص کا کسی پر قرض ہو اور وہ قرض دار ادائیگی قرض میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس سے سختی کے ساتھ تقاضہ کرے اس پر اظہار ناراضگی کرے اور اگر وہ پھر بھی قرض ادا نہ کرے تو حاکم و عدالت کی طرف رجوع کرے۔

【7】

ادائیگی قرض پر قادر ہونے کے باوجود قرض ادانہ کرنا ظلم ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا صاحب استطاعت کا ادائیگی قرض میں تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو صاحب استطاعت کے حوالہ کیا جائے تو اسے اس حوالہ کو قبول کرلینا چاہئے ( بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کوئی چیز خریدے اور اس کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود قیمت ادا نہ کرے یا کسی کا قرض دار ہو اور ادائیگی قرض پر قادر ہونے کے باوجود (قرض ادا کرنے میں تاخیر کرے تو یہ ظلم ہے) بلکہ بعض علماء نے تو یہ لکھا ہے کہ یہ فسق ہے اور اس کی وجہ سے ایسے شخص کی گواہی رد ہوتی ہے اگرچہ یہ نادہندگی ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ظاہر ہوئی ہو لیکن بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ اس شخص کی گواہی قابل رد ہے جو صاحب استطاعت ہونیکے باوجود بار بار نادہندگی میں مبتلا ہو اور ادائیگی میں تاخیر کرنا اس کی عادت بن چکی ہو۔ حدیث کے دوسرے جزء اور جب تم سے کسی کو صاحب استطاعت کے حوالہ کیا جائے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مثلًا کسی شخص کا کسی پر قرض ہو اور وہ قرض دار ادائیگی قرض پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے کسی مالدار شخص سے یہ کہے کہ تم میرا قرض ادا کردینا تو قرض خواہ کو چاہئے کہ وہ قرضدار کی اس بات کو فورًا قبول کرلے تاکہ اس کا مال ضائع نہ ہو یہ حکم استحباب کے طور پر ہے لیکن بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حکم بطریق وجوب ہے جب کہ کچھ علماء اس حکم کو بطریق اباحت کہتے ہیں

【8】

قرض خواہ وقرض دار کا تنازعہ ختم کرنا جائز ہے

اور حضرت کعب ابن مالک کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں (ایک دن) انہوں نے مسجد نبوی ﷺ میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضہ کیا یہاں تک کہ جب دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور رسول کریم ﷺ نے جو اس وقت اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے ان دونوں کی آوازیں سنیں تو حجرہ سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا چناچہ آپ ﷺ نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کعب کعب بن مالک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ حاضر ہوں آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا نصف حصہ معاف کردو کعب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے معاف کیا اس کے بعد آپ ﷺ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا کہ اب اٹھ جاؤ اور باقی قرض ادا کردو (بخاری) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں کسی سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز ہے نیز حقدار سے سفارش کرنا جھگڑنے والوں میں صلح صفائی کرانا اور کسی کی سفارش قبول کرنا بشرطیکہ اس سفارش کا تعلق کسی معصیت و برائی سے نہ ہو جائز ہے۔

【9】

ادائیگی قرض میں تاخیر کرنیوالوں کے لئے ایک عبرتناک واقعہ

اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا، صحابہ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ جنازہ کی نماز پڑھ لیجئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر قرض تو نہیں ہے صحابہ نے کہا کہ نہیں چناچہ آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر قرض تو نہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ کچھ چھوڑ کر بھی مرا ہے یا نہیں صحابہ نے عرض کیا کہ تین دینار اس نے چھوڑے ہیں یہ سن کر آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس پر قرض تو نہیں ہے صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں تین دینار اس پر قرض ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کچھ چھوڑ کر بھی مرا ہے یا نہیں عرض کیا گیا کہ کچھ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ابوقتادہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ یا رسول اللہ آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھ لیجئے اس کا قرض میں ادا کر دوں گا تب آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی (بخاری) تشریح ہوسکتا ہے کہ تینوں جنازے ایک ہی دن اور ایک ہی مجلس میں لائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ الگ الگ دن اور الگ الگ مجلس میں یہ جنازے لائے گئے ہوں۔ دوسرے شخص پر جو فرض تھا اس کی مقدار انہیں تین دینار کے برابر رہی ہوگی جو وہ چھوڑ کر مرا تھا اس لئے جب آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوگیا کہ اس شخص پر جتنا قرض ہے اس کی ادائیگی کے بقدر اثاثہ چھوڑ کر مرا ہے تو آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ تیسرا چونکہ اپنے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال چھوڑ کر نہیں مرا تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا اس انکار کی وجہ یا تو یہ تھی کہ اس سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ قرض سے پرہیز کریں اور اگر بدرجہ مجبوری قرض لیں تو اس کی ادائیگی میں تاخیر و تقصیر سے باز رہیں یا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھنا اس لئے مناسب نہیں سمجھا کہ میں اس کے لئے دعا کروں اور دعا قبول نہ ہو کیونکہ اس پر لوگوں کا حق تھا جس سے بری الذمہ ہوئے بغیر وہ مرگیا تھا۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ میت کی طرف سے ضامن ہونا جائز ہے خواہ میت نے ادائیگی قرض کے لئے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو چناچہ حضرت امام شافعی اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے بخلاف حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔ بعض حنفی علماء کہتے ہیں کہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نے اس حدیث سے اس بات کا استدلال کیا ہے کہ اس میت کی طرف سے کفالت جائز ہے جس نے کچھ بھی مال نہ چھوڑا ہو اور اس پر قرض ہو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر میت کی طرف سے کفالت جائز نہ ہوتی تو آنحضرت ﷺ اس تیسرے جنازہ کی نماز نہ پڑھتے۔ لیکن حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مفلس میت کی طرف سے کفالت صحیح نہیں ہے کیونکہ مفلس میت کی طرف سے کفالت دراصل دین ساقط کی کفالت ہے اور یہ بالکل صاف مسئلہ ہے کہ دین ساقط کی کفالت باطل ہے۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت ابوقتادہ نے میت کی طرف سے اس کے قرض کی کفالت کی اور آنحضرت ﷺ نے ابوقتادہ کی کفالت کو تسلیم کر کے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی تو اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ سے صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ ابوقتادہ نے اس شخص کی زندگی ہی میں اس کی طرف سے کفالت کرلی ہوگی اس موقع پر تو انہوں نے صرف آپ ﷺ کے سامنے اس بات کا اقرار و اظہار کیا کہ میں اس کی کفالت پہلے ہی کرچکا ہوں اب میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان کے اس اقرار و اظہار پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ابوقتادہ نے اس وقت میت کی طرف سے کفالت کی نہیں تھی بلکہ ازراہ احسان وتبرع یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اس کا قرض ادا کر دوں گا۔

【10】

قرض کو ادا کرنے کی نیت رکھنے والے کی اللہ تعالیٰ مدد کرتے ہیں

حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کا مال لے اور اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی کسی ضرورت و احتیاج ہی کی بناء پر قرض لے اور قرض کی ادائیگی کا ارادہ بھی رکھتا ہو اور اس کو ادا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہو) تو اللہ تعالیٰ اس سے وہ مال ادا کرا دیتا ہے (یعنی قرض کو ادا کرنے کی نیت رکھنے والے کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے بایں طور کہ یا تو دنیا میں قرض ادا کرنے کی استطاعت دے دیتا ہے یا آخرت میں حقدار کو راضی کردیتا ہے) اور جو شخص لوگوں کا مال لے اور ضائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی احتیاج و ضرورت کے بغیر کسی سے قرض لے اور پھر اس قرض کی ادائیگی کی نیت بھی نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کو ضائع کردیتا ہے ( یعنی جو شخص کسی سے قرض لے اور اس قرض کو نہ ادا کرے اور نہ ادا کرنے کی نیت رکھے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ادائیگی قرض پر اس کی مدد نہیں کرتا اور اس کے رزق میں وسعت وفراخی عطاء نہیں کرتا بلکہ اس کا مال تلف وضائع بھی کردیتا ہے کیونکہ وہ ایک مسلمان کا مال ضائع کرنے کی نیت رکھتا ہے ( بخاری)

【11】

اللہ تعالیٰ حقوق العباد معاف نہیں کرتا

اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اس حال میں کہ میں صبر کرنیوالا اور ثواب کا خواہش مند ہوں (یعنی میں دکھانے سنانے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اور ثواب کی طلب میں جہاد کروں) اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپر رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقینًا معاف کر دے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا مجھ سے جبرائیل نے یہی کہا ہے (مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخت اور کٹھن ہے اللہ تعالیٰ اپنے حقوق یعنی عبادات و طاعات میں کوتاہی اور گناہ و معصیت کو معاف کردیتا ہے مگر بندوں کے حقوق یعنی قرض وغیرہ کو معاف نہیں کرتا نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ تک اللہ تعالیٰ کا صرف وہی پیغام نہیں پہنچاتے تھے جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی دیگر ہدایات و احکام پہنچاتے رہتے تھے۔ ١٤) اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شہید کے تمام (صغیرہ اور کبیرہ) گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں مگر دین یعنی حقوق کی معافی نہیں ہوتی (مسلم) تشریح دین سے مراد حقوق العباد ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر بندہ کا کوئی حق ہو یعنی خواہ اس کے ذمہ کسی کا مال ہو یا اس نے کسی کا ناحق خون کیا ہو یا کسی کی آبروریزی کی ہو یا کسی کو برا کہا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو تو اگر وہ شخص شہید بھی ہوجائے تب بھی یہ چیزیں معاف نہیں کی جائیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق کسی حال میں معاف نہیں کرتا۔ لیکن ابن مالک کہتے ہیں کہ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس حدیث کا تعلق شہداء بر یعنی بری جنگ میں شہید ہونیوالوں سے ہے بحری جنگ میں شہید ہونیوالے اس سے مستثنی ہیں کیونکہ ابن ماجہ نے ابوامامہ کی یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بحری جنگ میں شہید ہونیوالوں کے تمام گناہ حتی کہ دین (یعنی حقوق العباد) بھی بخشے جاتے ہیں۔

【12】

قرض دار کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت ﷺ کا اجتناب

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ ﷺ پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے ؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہوسکتا ہے تو آپ ﷺ اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ ﷺ اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے اور مشرکین و کفار سے جنگ کے بعد غنیمت کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی) تو آپ ﷺ ایک دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین ودنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو ( اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے میں، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے (بخاری ومسلم) تشریح میں (دین ودنیا کے تمام امور میں) مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز و محبوب رکھیں آپ ﷺ کے حکم اور آپ ﷺ کی خواہش کو اپنے نفس کے حکم اور اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھیں آپ ﷺ کے حق کو اپنی جانوں کے حق سے مقدم جانیں اور ان کے قلوب اپنی جانوں کی شفقت و محبت سے زیادہ آنحضرت ﷺ کی شفقت و محبت سے لبریز ہوں اسی طرح آنحضرت ﷺ کی شان رحمت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی ذات پر جتنا شفیق و مہربان ہوسکتا ہے آنحضرت ﷺ اس کے حق میں اس سے کہیں زیادہ شفیق و مہربان ہیں ایک مسلمان کی جان اس کی عزت وآبرو اور اس کا دین آنحضرت ﷺ کو جتنا زیادہ عزیز و محبوب ہے اتنا خود اس کو نہیں ہے چناچہ مسلمانوں پر یہ مال و زبر کے دروازے کھول دیئے تو آپ ﷺ کو یہ ہرگز گوارا نہیں ہوا کہ اس مال و زر کو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رکھیں بلکہ آپ ﷺ نے خود تو سختی و تنگدستی کی سابقہ حالت پر ہی قناعت کی اور سارا مال و زر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کردیا۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ اب جب کہ اللہ نے مال و زر کے خزانے میرے تصرف میں دے دئیے ہیں تو میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ مسلمانوں کا مال وعزت و آبرو کا تحفظ کروں لہذا مسلمانوں کے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال نہیں چھوڑ گیا ہے تو اس کا قرض میں ادا کروں گا۔ بعض حضرات تو یہ فرماتے تھے کہ آنحضرت ﷺ مردوں کے قرض کی ادائیگی بیت المال سے فرمایا کرتے تھے اور یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے لیکن بعض علماء کا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ ان کا قرض اپنے مال میں سے ادا کرتے تھے۔ اسی طرح بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مردوں کی طرف سے قرض کی ادائیگی آنحضرت ﷺ پر واجب تھی اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ ان کا قرض ادا کرنا آپ ﷺ پر واجب نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ تبرعًا یعنی ازراہ احسان و شفقت ان کے قرض کی ادائیگی کرتے تھے۔

【13】

دیوالیہ کا حکم

حضرت ابی خلدہ زرقی کہتے ہیں ہم حضرت ابوہریرہ (رض) کے پاس اپنے ایک ساتھی کا معاملہ لے کر آئے جو مفلس ہوگیا تھا ( مگر اس کے پاس لوگوں کا وہ سامان موجود تھا جس کی قیمت اس نے ادا نہیں کی تھی) ہم نے حضرت ابوہریرہ (رض) پوچھا کہ اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ اس شخص کا معاملہ بالکل اس شخص جیسا ہے کہ جس کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ جو شخص مرجائے یا مفلس ہوجائے اور اس کے ذمے لوگوں کے مطالبات ہوں) تو جس شخص کا مال اس کے پاس ہے وہی شخص اس مال کا زیادہ حقدار ہے بشرطیکہ وہ مال جوں کا توں موجود ہو۔ اس کی وضاحت کے لئے اسی باب کی پہلی فصل میں حدیث نمبر ١ دیکھئے ! (شافعی ابن ماجہ)

【14】

قرض دار کی روح قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہوجائے ( یعنی جب کوئی شخص قرضدار مرتا ہے تو اس کی روح اس وقت تک بندگان صالح کی جماعت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہوجائے ( شافعی احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی) تشریح بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ جو قرض اپنی ادائیگی کے وقت تک مؤمن کی روح کو جنت اور بندگان صالح کی جماعت میں داخل ہونے سے روکتا ہے وہ قرض وہ ہے جو بلا ضرورت واقعی مال و زر کی صورت میں کسی سے لیا گیا ہو اور وہ مال و زر واہیات اور فضول کاموں میں خرچ کیا گیا ہو اور اسے اسراف کے طور پر لٹایا گیا ہو ہاں جس شخص نے اپنی واقعی ضرورت کے لئے مثلًا حقوق واجبہ کی تکمیل یا کسی کے مالی مطالبہ کی ادائیگی کے بقدر ضرورت روپیہ یا مال قرض لیا ہو اور پھر قرض دار اس کو ادا کرنے سے پہلے مرگیا ہو تو ایسا قرض اس کو جنت اور بندگان صالح کی جماعت میں داخل ہونے سے انشاء اللہ نہیں روکے گا مگر ایسے قرض کے بارے میں سلطان وقت یعنی حاکم (یا قرضدار کے متعلقین میں مستطیع لوگوں) کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ اس کا قرض ادا کردیں اور اگر کوئی بھی اس کا قرض ادا نہیں کرے گا تو پر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں قرض خواہوں کو راضی کر دے گا تاکہ وہ اس قرض دار سے آخرت میں کوئی مطالبہ نہ کریں۔

【15】

قرض دار کی روح قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے

اور حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے محبوس کردیا جائے گا ( یعنی جنت میں داخل ہونے اور بندگان صالح کی صحبت میں پہنچنے سے روک دیا جائے گا) چناچہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا (شرح السنۃ) منقول ہے کہ حضرت معاذ بن جبل قرض لیا کرتے تھے ایک مرتبہ ان کے قرض خواہ اپنے قرض کی وصولی کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے معاذ کا سارا مال و اسباب ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے بیچ ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاذ مفلس ہوگئے یہ حدیث مرسل ہے اور یہ الفاظ مصابیح کے نقل کردہ ہیں مشکوۃ کے مؤلف کہتے ہیں کہ) مجھے یہ روایت اصول یعنی صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں ملی ہے البتہ یہ روایت منتقی میں ملی ہے اور وہ بھی اس طرح ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ایک سخی جوان تھا اور اپنی سخاوت کی وجہ سے کوئی مال و اسباب اپنے پاس نہیں رکھتے تھے ( کیونکہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ سب دوسروں کو دیدیا کرتے تھے) اسی وجہ سے وہ ہمیشہ قرض لیتے رہتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مال و اسباب قرض کی نذر کردیا۔ پھر وہ ایک دن آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کی خواہش کی کہ آپ ﷺ ان کے قرض خواہوں سے سفارش کردیں کہ وہ سارا قرض یا قرض کا کچھ حصہ معاف کردیں) چناچہ آپ ﷺ نے ان کے قرض خواہوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی مگر انہوں نے کچھ بھی معاف نہیں کیا اور اگر وہ کسی کا قرض معاف کرسکتے تو آنحضرت ﷺ کی وجہ سے معاذ کا قرض ضرور معاف کردیتے ( لہذا جب انہوں نے معاف کرنے سے صاف انکار کردیا تو آنحضرت ﷺ نے ان قرض خواہوں کے مطالبات پورے کرنے کے لئے معاذ کا سارا مال و اسباب بیچ دیا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے معاذ مفلس ہوگئے سعید نے اس روایت کو اپنی سنن میں بطریق ارسال نقل کیا ہے ( شرح السنۃ) تشریح اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس شخص کو نہ تو جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی اور نہ نیک بخت لوگوں کی صحبت میں اسے جانے دیا جائے گا اور اس طرح جب وہ یہ دیکھے گا کہ تمام ہی نیک بخت لوگ تو جنت میں جا رہے ہیں اور میں ایسا بدبخت ہوں کہ ان کی رفاقت و صحبت کی سعادت سے بھی محروم ہوں نیز اسے کوئی ایسا سفارشی بھی نظر نہیں آئیگا جو اسے اس قید تنہائی سے نجات دلائے تو وہ اپنی تنہائی اور اس قید کی وحشت سے مضطرب ہو کر بارگاہ الٰہی میں شکوہ کرے گا چناچہ جب تک وہ قرض کی وجہ سے چھٹکارا نہ پا جائے گا بایں طور کہ یا تو وہ اس قرض کے عوض میں اپنی نیکیاں قرض خواہوں کو دے دے یا قرض خواہوں کے گناہوں کو ان کے قرض کے عوض اپنے اوپر لاد لے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے قرض خواہوں کو راضی کر دے اور وہ اپنا حق معاف کردیں اس وقت تک وہ اسی تنہائی میں رہے گا گویا یہ تنہائی بھی اس کے لئے ایک عذاب کے درجے کی چیز ہوگی جس سے وہ سخت رنج واذیت محسوس کریگا۔ ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے اپنی قبر میں قید کیا جائے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی قید تنہائی کا شکوہ کریگا۔ اصول ان کتابوں کو کہتے ہیں جن میں حدیثیں سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں منتقی ابن تیمی کی ایک کتاب کا نام ہے لہذا مشکوۃ کے مؤلف روایت کے الفاظ لم اجد الخ کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مصابیح کے مصنف نے یہ روایت وروی ان معاذا کان الخ جن الفاظ میں نقل کی ہے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مجھے اصول کی کتابوں میں نہیں ملی ہے بلکہ یہ روایت منتقی میں منقول ہے اور وہ بھی ان الفاظ میں وعن عبدالرحمن الخ۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ منتقی کے ہیں اور ان کو یہاں مؤلف مشکوۃ نے اس لئے نقل کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حدیث اگرچہ اصول کی ان کتابوں میں نہیں ہے جنہیں مؤلف نے دیکھا ہے لیکن منتقی میں موجود ہے لہذا یہ روایت اگر اصول کی کتابوں میں نہ ہوتی تو صاحب منتقی اس کو اپنی کتاب میں نقل نہ کرتے

【16】

بلاعذر قرض ادا نہ کرنیوالا مستطیع شخص قابل ملامت ہے

اور حضرت شرید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مستطیع شخص کا ادائیگی قرض میں تاخیر کرنا اس کی بےآبروئی اور اسے سزا دینے کو حلال کرنا ہے ابن مبارک فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی بےآبروئی کا حلال ہونا یہ ہے کہ اسے ملامت کی جائے اور اسے سزا دینا یہ ہے کہ اس کو قید کردیا جائے ( ابوداؤد نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص صاحب استطاعت اور مالدار ہونے کے باوجود بلاعذر اپنے قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرے تو اس کی آبروریزی بھی مباح ہے اور اس کو سزا دینا بھی درست ہے کیونکہ اس کی طرف سے بلاعذر ادائیگی قرض میں ٹال مٹول اور تاخیر ایک طرح کا ظلم ہے۔ آبروریزی کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے سرزنش کی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے اور اس کو سزا دینے کا مطلب یہ ہے کہ حاکم و عدالت سے چارہ جوئی کر کے اسے قید خانہ میں ڈلوا دیا جائے۔

【17】

قرض دار مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت کا انکار

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ ﷺ اس کی نماز پڑھیں آپ ﷺ نے جنازہ لانے والوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اس ساتھی پر قرض بھی ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں، آپ ﷺ نے پھر پوچھا کہ کیا یہ شخص اپنے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال چھوڑ گیا ہے جواب دیا گیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر تم لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھ لو میں نہیں پڑھوں گا حضرت علی نے یہ سن کر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس کے قرض کی ادائیگی میں اپنے ذمہ لیتا ہوں اس کے بعد آنحضرت ﷺ آگے بڑھے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ ایک روایت میں جو اسی مضمون کی منقول ہے (مگر اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں) یہ الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جان کو دوزخ کی آگ سے اسی طرح نجات دے جس طرح تم نے اپنے ایک مسلمان بھائی کی جان کو قرض کے بوجھ سے نجات دی ( یاد رکھو) جو بھی مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کا قرض ادا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جان کو نجات دے گا (شرح السنۃ)

【18】

قرض کے بوجھ سے ہلکا ہو کر مرنے والے کے لئے بشارت

اور حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اس حالت میں مرے کہ وہ تکبر خیانت اور قرض سے پاک ہو تو وہ مقبول بندوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا (ترمذی ابن ماجہ دارمی)

【19】

بالکل مفلسی کی حالت میں قرض دارمرنا ایک بڑا گناہ ہے

اور حضرت ابوموسی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کبیرہ گناہ کہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ اللہ سے ملے یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہو اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہوجائے ( احمد ابوداؤد) تشریح بالکل مفلسی کی حالت میں قرض کا بوجھ لے کر مرنے کے گناہ کو گناہ کبیرہ کے بعد کا درجہ اس لئے دیا گیا ہے کہ گناہ کبیرہ تو بذات خود ممنوع ہے لیکن قرض لینا بذات خود ممنوع نہیں ہے کہ وہ گناہ کبیرہ ہو بلکہ بعض احادیث میں تو (اپنی واقعی ضروریات کی تکمیل کے لئے) قرض لینے کو مستحب کہا گیا ہے چناچہ بعض مواقع پر قرض کی جو ممانعت منقول ہے وہ اس عارض کی بناء پر ہے کہ بسا اوقات قرض لینے میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں یعنی قرض لینے والا جب قرض کی ادائیگی نہیں کرتا تو قرض خواہ کا مال بلاوجہ ضائع ہوجاتا ہے اس صورت میں قرض لینا گناہ بن جاتا ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں منقول گناہ کبیرہ کی اگر یہ وضاحت کردی جائے کہ ایسے گناہ کبیرہ جو مشہور ہیں جیسے شرک اور زنا وغیر ہما تو مطلب یہ ہوگا کہ باکل مفلسی کی حالت میں قرض دار مرنے کے گناہ کا درجہ مشہور کبیرہ گناہ جیسے شرک وغیرہ کے بعد ہے اس صورت میں یہ بھی مشہور کبیرہ گناہوں کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کے زمرہ میں آجائے گا

【20】

حرام چیزوں میں صلح ناجائز ہے

اور حضرت عمر بن عوف مزنی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے ہاں وہ صلح جائز نہیں ہے جو حلال چیز کو حرام یا حرام چیز کو حلال کر دے اور مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں ( یعنی مسلمان صلح وجنگ یا ان کے علاوہ دوسرے معاملات میں آپس میں جو شرطیں یعنی عہد و پیمان کرتے ہیں ان کی پاسداری و پابندی ضروری ہے) ہاں اس شرط کی پابندی جائز نہیں ہے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے (ترمذی ابن ماجہ) تشریح ناجائز صلح کی مثال یہ ہے کہ مثلًا کوئی شخص اس بات پر صلح کرے کہ میں بیوی کی سوکن سے جماع نہیں کروں گا یہ صلح درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا لازم آتا ہے جو بالکل جائز اور حلال ہے اسی طرح وہ صلح بھی جائز نہیں ہے جو حرام چیز کو حلال کر دے مثلًا کوئی اس بات پر صلح کرے کہ میں شراب پیوں گا یا سور کھاؤں گا اس میں ایک چیز کو اپنے لئے حلال سمجھ لینا ہے جو قطعًا حرام ہے۔ جس طرح کی پاسداری و پابندی جائز نہیں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ مثلًا کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ شرط وعہد کرلے کہ میں اپنی لونڈی سے جماع نہیں کروں گا اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینے کی شرط ہے جو حلال ہے یا مثلًا کوئی اس بات کی شرط کرے کہ میں اپنی بیوی کی موجودگی میں اس کی بہن سے شادی کرلوں گا اس شرط وعہد کی پاسداری بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے لئے حلال قرار دے لینا لازم آتا ہے جو قطعًا حرام ہے۔ بظاہر یہ حدیث اس باب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لیکن چونکہ مؤلف کتاب نے اس حدیث کو یہاں نقل کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ خریدو فروخت کے معاملات میں مفلس ودیوالیہ ہوجانے کے وقت اکثر صلح و شرائط کی نوبت آتی ہے اس لئے اس مناسبت سے اس حدیث کو یہاں نقل کیا ہے

【21】

آنحضرت کا پائجامہ خریدنا

حضرت سوید بن قیس کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی نے مقام ہجر سے ( جو مدینہ کے قریب واقع ہے) بیچنے کے لئے کپڑا لیا اور اسے لے کر مکہ میں آئے رسول اللہ ﷺ (کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہم بیچنے کے لئے کپڑا لے کر مکہ آئے ہیں تو آپ ﷺ بہ نفس نفیس چل کر (بغیر سواری کے) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ خریدا چناچہ جب ہم نے وہ پائجامہ آپ ﷺ کو بیچا تو آپ ﷺ نے اس شخص سے کہ جو اس جگہ اجرت پر لوگوں کے اسباب تولا کرتا تھا فرمایا کہ تم میرے چاندی کے یہ ٹکڑے) تول دو تاکہ میں یہ ٹکڑے اس پائجامہ کی قیمت کے طور پر دیدوں) اور جتنے ٹکڑوں کی بات طے ہوئی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی تول دینا) احمد ابوداؤد) تشریح ابولیلی نے اپنی سند میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وہ پائجامہ چار درہم کے عوض خرید فرمایا تھا احادیث سے صرف آپ ﷺ کا پائجامہ خریدنا ثابت ہوتا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ نے وہ پائجامہ پہنا بھی تھا۔ اس حدیث میں جہاں آنحضرت ﷺ کی تواضع و انکساری کا بیان ہے کہ آپ ﷺ پائجامہ خریدنے کے لئے بہ نفس نفیس تشریف لے گئے تھے وہیں اس حدیث سے آپ ﷺ کے کمال اخلاق و کرم فرمائی کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے پائجامہ بیچنے والے کو طے شدہ قیمت سے زائد مال عنایت فرمایا۔ یہ حدیث بھی بظاہر اس باب کے موضوع سے متعلق نہیں ہے الاّ یہ کہ یہ کہا جائے کہ بعض وقت بیچنے والے کے افلاس اور اس کی خستہ حالت کی وجہ سے اس کو ازراہ احسان و بھلائی متعینہ قیمت سے کچھ زائد بھی دیدیا جائے اس مناسبت سے یہ حدیث یہاں نقل کی گئی ہے۔

【22】

قرض کی واپسی میں غیر مشرو ط زیادتی جائز ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر میرا کچھ قرض تھا چناچہ جب آپ ﷺ نے وہ قرض واپس کیا تو مجھے کچھ زیادہ دیا (ابوداؤد) تشریح ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کا کوئی مطالبہ (مثلا قرض وغیرہ) ادا کرے اور اپنی طرف سے کچھ زیادہ بھی دیدے بشرطیکہ وہ زیادتی سرے سے مشروط نہ ہو تو یہ درست ہے۔ اس زیادتی کو سود نہیں کہیں گے۔ کیونکہ سود تو اس زیادتی کو کہتے ہیں کہ جو قرض خواہ قرض دیتے وقت مشروط کر دے مثلا ایک سو روپیہ ایک متعین مدت کے وعدے سے بطور قرض کسی کو دے اور یہ شرط عائد کر دے کہ اس قرض کی واپس کے وقت دس روپیہ مزید لوں گا یہ قطعًا حرام ہے۔

【23】

ادائیگی قرض کا جلد انتظام کرو

اور حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے ایک موقع پر چالیس ہزار (درہم) قرض لئے تھے پھر جب آپ ﷺ کے پاس ایک بڑی مقدار میں مال آیا تو آپ ﷺ نے مجھے (وہ سب مال یا اس مال میں سے میرے قرض کے بقدر) دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور تمہارے اموال میں برکت عطاء فرمائے قرض کا بدلہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ (جب قرض مل جائے تو) شکر وثنا کی جائے اور جلد سے جلد اس کی ادائیگی کا انتظام کیا جائے ( نسائی)

【24】

مہلت دینے والے کو ثواب

اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کا کسی پر کوئی حق (یعنی قرضہ وغیرہ) ہو اور وہ اس کو وصول کرنے میں تاخیر کرے یعنی قرض دار کو مہلت دے تو اسے دی ہوئی مہلت کے ہر دن کے بدلے صدقہ کا ثواب ملے گا (احمد)

【25】

دین میراث پر مقدم ہے

اور حضرت سعد بن اطول کہتے ہیں کہ جب میرا بھائی مرا تو اس نے تین سو دینار اور چھوٹے چھوٹے لڑکے چھوڑے تھے چناچہ میں نے چاہا کہ ان تین سو دیناروں کو اس کے چھوٹے بچوں پر خرچ کر دوں اور اس کا قرض ادا نہ کروں لیکن رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے عالم برزخ میں محبوس کردیا گیا ہے جس کے سبب وہ وہاں کی نعمتوں اور صلحاء کی صحبت سے محروم ہے لہذا تم اس کا قرض ادا کردو حضرت سعد کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی میں گھر آیا اور اپنے بھائی کا قرض ادا کیا پھر میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنے بھائی کا قرض ادا کردیا ہے اب کسی کا کوئی مطالبہ باقی نہیں ہے ہاں ایک عورت باقی رہ گئی ہے جو دو دینار کا دعوی کر رہی ہے لیکن اس کا گواہ نہیں ہے آپ ﷺ نے فرمایا اس کو بھی دو دینار دے دو وہ سچی عورت ہے ( احمد) تشریح یا تو آپ ﷺ کو سعد کے بھائی کے قرض کا حال بغیر وحی کے کسی اور ذریعے سے معلوم ہوا ہوگا اس لئے آپ ﷺ نے سعد کو اس کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا کیونکہ حاکم کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی معلومات پر اعتماد کرتے ہوئے حکم جاری کر دے یا پھر آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے اس کے قرض کا حال معلوم ہوا ہوگا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین میراث پر مقدم ہے یعنی مرنیوالے کے مال و زر میں سے پہلے لوگوں کے وہ مطالبات ادا کئے جائیں جو اپنے ذمہ چھوڑ گیا ہو اس کے بعد جو کچھ بچے وہ وارثوں میں تقسم کیا جائے۔

【26】

بار بار کی شہادت بھی قرض کا کفارہ نہیں ہوسکتی

اور حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ مسجد نبوی ﷺ کے قریب اس صحن میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے ہمارے درمیان رسول کریم ﷺ تشریف فرما تھے اچانک آپ ﷺ نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور ادھر دیکھا پھر اپنی نظر جھکالی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر انتہائی تعجب کے عالم میں فرمایا کہ سبحان اللہ سبحان اللہ کس قدر سختی نازل ہوئی ہے راوی کہتے ہیں کہ ہم خاموش رہے یعنی ہم نے آپ ﷺ سے کوئی سوال نہیں کیا) یہاں تک کہ وہ پورا دن گزرا پوری رات گزری اور ہمیں اچھائی کے علاوہ کوئی سخت بات نظر نہیں آئی یعنی صحابہ آپ ﷺ کے اس ارشاد سے یہ سمجھے کہ شاید اسی وقت کوئی عذاب نازل ہونیوالا ہے یا کوئی سخت مصیبت آنیوالی ہے مگر وہ پورا دن گزر گیا پوری رات گزر گئی نہ کوئی عذاب نازل ہونیوالا ہے یا کوئی سخت مصیبت مگر وہ پورا دن گزر گیا پوری رات گزر گئی نہ کوئی عذاب نازل ہوا اور نہ کوئی مصیبت پیش آئی تاآنکہ صبح ہوگئی حدیث کے راوی محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی ہے اور جس کا اظہار آپ ﷺ نے اتنے تعجب کے ساتھ کل فرمایا تھا آپ ﷺ نے فرمایا دین یعنی قرض وغیرہ کے بارے میں وہ سختی نازل ہوئی ہے قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں یعنی جہاد کرتے ہوئے مارا جائے اور پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں مارا جائے اور پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں مارا جائے اور پھر زندہ ہو اور اس پر قرض ہو تو وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ کردیا جائے یعنی اگر کوئی قرض دار بار بار بھی اللہ کی راہ میں مارا جائے تو یہ بار بار کی شہادت بھی اس کے قرض کا کفارہ نہیں ہوسکتی) اس روایت کو امام احمد نے نقل کیا ہے نیز شرح السنہ میں بھی اسی طرح کی حدیث منقول ہے ( جس کا مضمون تو یہی ہے مگر الفاظ دوسرے ہیں) تشریح اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ جنازہ کی نماز مسجد میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ مسجد سے باہر دوسری جگہ پڑھتے تھے۔