82. شرکت اور وکالت کا بیان

【1】

شرکت اور وکالت کا بیان

لغت میں شرکت کے معنی ہیں ملانا لیکن اصطلاح شریعت میں شرکت کہتے ہیں دو آدمیوں کے درمیان ایک ایسا مثلًا تجارتی عقد و معاملہ ہونا جس میں وہ اصل اور نفع دونوں میں شریک ہوں۔ شرکت کی دو قسمیں ہیں شرکت ملک اور شرکت عقد شرکیت ملک اسے کہتے ہیں کہ دو آدمی یا کئی آدمی بذریعہ خرید یا ہبہ یا میراث کسی ایک چیز کے مالک ہوں یا دو شخص مشترک طور پر کسی مباح چیز کو حاصل کریں مثلًا دو آدمی مل کر شکار کریں اور وہ شکار دونوں کی مشترک ملکیت ہو یا دو آدمیوں کا ایک ہی جنس کا الگ الگ مال ایک دوسرے میں اس طرح مل جائے کہ ان دونوں کے مال کا امتیاز نہ ہو سکے۔ مثلا زید کا دودھ بکر کے دودھ میں مل جائے یا وہ دونوں اپنے اپنے مال کو قصدًا ایک دوسرے کے مال میں ملا دیں یہ سب شریک ملک کی صورتیں ہیں۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر شریک اپنے دوسرے شریک کے حصے میں اجنبی آدمی کی طرح ہے اور ہر شریک اپنا حصہ اپنے دوسرے شریک کی اجازت کے بغیر اس شریک کو یا کسی دوسرے شخص یعنی غیر شریک کو فروخت کرسکتا ہے البتہ آخری دونوں صورتوں میں (یعنی ایک دوسرے کے مال کے آپس میں مل جانے یا اپنے اپنے مال کو ایک دوسرے کے مال میں قصدًا ملا دینے کی صورت میں کوئی بھی شریک اپنا حصہ کسی دوسرے شخص یعنی غیرشریک کو اپنے دوسری شریک کی اجازت کے بغیر نہیں بیچ سکتا۔ شرکت عقد کا مطلب ہے شرکاء کا ایجاب و قبول کے ذریعے اپنے اپنے حقوق و اموال کو متحد کردینا اس کی صورت یہ ہے کہ مثلا ایک دوسرے سے یہ کہے کہ میں نے اپنے فلاں حقوق اور فلاں معاملات یعنی تجارت وغیرہ میں تمہیں شریک کیا اور دوسرا کہے کہ میں نے قبول کیا اس طرح شرکت عقد کا رکن تو ایجاب و قبول ہے اور اس کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ معاہدہ شرکت میں ایس کوئی دفعہ مطلقًا شامل نہ ہو جو شرکت کے بنیادی اصولوں کو فوت کر دے جیسے شرکاء میں سے کسی ایک کا فائدے میں سے کچھ حصے کو اپنے لئے متعین و مخصوص کرلینا مثلا کسی تجارت میں دو آدمی شریک ہوں اور ان میں سے کوئی ایک شریک یہ شرط عائد کر دے کہ اس تجارت سے حاصل ہونیوالے فائدے میں سے پانچ سو روپے ماہوار لیا کروں گا۔ یہ شرک مشترک ومتحد معاملات کے بالکل منافی ہے جو شرکت کے بنیادی اصول و مقاصد ہی کو فوت کردیتی ہے اس لئے معاہد شرکت میں ایس کسی دفعہ کا شامل نہ ہونا شرکت کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔ پھر شرکت عقد کی چار قسمیں ہیں (١) شرکت مفاوضہ (٢) شرکت عنان (٣) شرکت صنائع والتقبل (٤) اور شرکت وجوہ شرکت مفاوضہ تو یہ ہے کہ دو شخص یہ شرط کریں یعنی آپس میں ٹھہرا لیں کہ مال میں تصرف میں مفاوضہ میں دونوں شریک رہیں گے لیکن اس شرکت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں دین و مذہب میں بھی یکساں اور برابر ہوں یہ شرکت ایک دوسرے کی وکالت اور کفالت کو لازم کردیتی ہے یعنی شرکت مفاوضہ میں شرکاء ایک دوسرے کے وکیل اور کفیل ہوتے ہیں لہذا یہ شرکت مسلمان اور ذمی کے درمیان جائز نہیں ہوتی کیونکہ دین و مذہب کے اعتبار سے دونوں مساوی اور یکساں نہیں ہیں اسی طرح غلام اور آزاد کے درمیان اور بالغ و نابالغ کے درمیان بھی یہ شرکت جائز نہیں کیونکہ یہ تصرف میں مساوی و یکساں نہیں ہیں۔ اس شرکت کے معاہدہ و شرائط میں لفظ مفاوضت یا اس کے تمام مقتضیات کو بیان و واضح کردینا ضروری ہے اس شرکت میں عقد و معاہدہ کے وقت شرکاء کا اپنا اپنا مال دینا یا اپنے اپنے مال کو ملانا شرط نہیں ہے۔ اس شرکت میں شرکاء چونکہ ایک دوسرے کے کفیل ووکیل ہوتے ہیں اس لئے اگر اس میں کوئی بھی اپنے بال بچوں کے کھانے اور کپڑے کے علاوہ جو کچھ خریدے گا وہ تمام شرکاء کی ملکیت ہوگا۔ حضرت امام محمد کے نزدیک شرکت مفاوضت اور عنان صرف ایسے سرمایہ اور مال میں صحیح ہوسکتی ہے جو روپے اشرفی اور رائج الوقت سکوں کی شکل میں ہو ہاں سونے اور چاندی کے ڈلوں اور ٹکڑوں میں بھی جائز ہے بشرطیکہ ان کے ذریعے لین دین ہوتا ہو اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک وارث یا کسی اور ذریعے سے کسی ایسے مال کا مالک ہوا جس میں مفاوضت درست ہوسکتی ہے جیسے روپے اور اشرفی وغیرہ تو شرکت مفاوضت باطل ہو کر شرکت عنان ہوجائے گی اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک کسی ایسے مال کا وارث ہوگیا جس میں شرکت مفاوضت نہیں ہوسکتی جیسے اسباب مکان اور زمین وغیرہ تو شرکت مفاوضت باقی رہے گی۔ شرکت عنان یہ ہے کہ دو آدمی ایک خاص طور کے معاملے مثلا تجارت میں شریک ہوں اور وہ دونوں مذکورہ بالا چیزوں یعنی تصرف اور دین و مذہب وغیرہ میں یکساں و برابر ہوں یا یکساں و برابر نہ ہوں یہ شرکت ایک دوسرے کی وکالت کو تو لازم کرتی ہے مگر کفالت کو لازم نہیں کرتی۔ ہاں شرکاء ایک دوسرے کے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ کفیل وامین بھی ہوتے ہیں مگر اسی کام میں جس میں وہ شریک ہوں۔ شرکت صنائع والتقبل یہ ہے کہ دو پیشہ ور مثلا دو درزی یا دو رنگریز اس شرط پر شرکت میں کام کریں کہ دونوں شریک کام لیں گے اور دونوں اس کام کو مل جل کر کریں گے اور پھر جو اجرت حاصل ہوگی اسے دونوں تقسیم کریں گے۔ اگر ان کے معاہدہ شرکت میں یہ شرط ہو کہ کام تو دونوں ادھوں آدھ کریں گے مگر نفع میں سے ایک تو دو تہائی لے گا اور دوسرا ایک تہائی تو یہ شرط جائز ہے۔ دونوں شرکاء میں سے جو بھی کسی کا کام لے گا اس کو کرنا دونوں کے لئے ضروری ہوگا یہ نہیں کہ جس شریک نے کام لیا ہو وہی اسے کرے بھی اسی طرح ان کے یہاں کام کرانے والا دونوں شرکاء میں سے کسی سے بھی اپنا کام طلب کرسکتا ہے ایسے ہی دونوں شرکاء میں سے ہر ایک کو مساوی طور پر یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی کام کی اجرت حاصل کرلے اور ان میں سے کسی ایک کو اجرت دینے والا بری الذمہ ہوجائیگا۔ کام کے منافع اور کمائی میں دونوں شریک حصہ دار ہوں گے خواہ کام دونوں کریں یا صرف ایک کرے۔ شرکت وجوہ یہ ہے کہ ایسے دو آدمی جن کے پاس اپنا کوئی سرمایہ اور مال نہ ہو اس شرط پر مشترک کاروبار کریں کہ دونوں اپنی اپنی حیثیت اور اپنے اپنے اعتبار پر قرض سامان لا کر فروخت کریں گے اور اس کا نفع آپس میں تقسیم کریں گے۔ اگر ان دونوں کی شرکت میں مفاوضت کی شرط ہوگی تو وہ صحیح ہوجائے گی اور اگر وہ شرکت کو بلا شرط مفاوضت یعنی مطلق رکھیں گے تو ان کی یہ شرکت بطور عنان ہوگی یہ شرکت تجارت کے لئے خریدے گئے مال میں وکالت کو لازم کرتی ہے یعنی وہ اپنے یہاں فروخت کرنے کے لئے جو مال خرید کر لائیں گے اس میں وہ ایک دوسرے کے وکیل ہوں گے لہذا اگر دونوں میں یہ شرط طے پائی ہو کہ تجارت کے لئے جو مال خریدا جائے گا وہ دونوں کا آدھوں آدھ ہوگا تو اس کے نفع میں بھی دونوں آدھوں آدھ کے حقدار ہوں گے اور اگر یہ شرط طے پائے کہ جو مال خرید کر لایا جائے گا اس میں سے ایک تو نفع میں دو حصے لے لے اور دوسرا ایک حصہ لے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نفع کا استحقاق ضمان یعنی ذمہ داری کی وجہ سے ہوتا ہے اور ضمان اس خریدی ہوئی چیز کی ملک کے تابع ہے مثلا اگر ان میں سے کوئی مال کے نصف حصہ کا مالک بنا ہے تو اسے نصف قیمت ادا کرنی ہوگی اور جو دو حصوں کا مالک بنا ہے اسے دو حصوں کی قیمت ادا کرنی ہوگی اس لئے نفع بھی ملکیت کے مطابق ہی قرار پائیگا جو جتنے حصہ کا مالک بنے گا اسے اتنا ہی نفع ملے گا اور اس چیز میں شرکت جائز نہیں ہے جس میں وکالت صحیح نہ ہوتی ہو جیسے لکڑی کاٹنا گھاس کھودنا، شکار کرنا اور پانی لانا دونوں میں سے جو شخص پانی لائے گا وہی اس کا مالک ہوگا اگر دوسرا اس میں اس کی مدد کرے گا تو وہ رائج اجرتوں کے مطابق اپنی اجرت پانے کا مستحق ہوگا۔ وکالت کے معنی ہیں اپنے حقوق ومال کے تصرف یعنی لینے دینے میں کسی دوسرے کو اپنا قائم مقام بنانا وکالت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ مؤ کل یعنی کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنانیوالا) تصرف یعنی لین دین کا مالک ہو اور جس شخص کو وکیل بنایا جا رہا ہو وہ اس معاملہ کو جانتا ہو جس میں وہ وکیل بنایا گیا ہے۔ اور جو معاملہ آدمی کو خود کرنا جائز ہے اس میں دوسرے کو وکیل کرنا بھی جائز اور جو معاملہ آدمی کو خود کرنا جائز نہیں ہے اس میں وکیل کرنا بھی جائز نہیں ہے مثلا کوئی شخص شراب یا سور وغیرہ حرام چیزوں کی خریدو فروخت کے لئے کسی کو وکیل کر دے تو یہ درست نہیں ہوگا تمام حقوق کو ادا کرنے اور ان کے حاصل کرنے میں وکیل کرنا جائز ہے اسی طرح حقوق پر قبضہ کرنے کے لئے بھی وکیل کرنا جائز ہے مگر حدود اور قصاص میں جائز نہیں ہے کیونکہ ان کی انجام دہی پر باوجود مؤ کل کے اس جگہ موجود نہ ہونے کے لئے وکالت درست نہیں ہوتی۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ حقوق کی جواب دہی کے لئے وکیل کرنا فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ہے ہاں اگر مؤ کل بیمار ہو یا تین منزل کی مسافت یا اس سے زائد کی دوری پر ہو تو جائز ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کہتے ہیں کہ فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر بھی حقوق کی جاب دہی کے لئے وکیل کرنا جائز ہے شرکت اور وکالت کے بارے میں یہ چند اصول و مسائل فقہ کی کتابوں سے تلخیص کر کے لکھ دئیے ہیں مزید تفصیل کے لئے اہل علم فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔

【2】

عقود میں شرکت جائز ہے

حضرت زہرہ ابن معبد (تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ ان کو ان کے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام بازار لے جایا کرتے تھے جہاں وہ غلہ خریدا کرتے تھے چناچہ ( جب وہ غلہ خرید لیتے تو) وہاں ان کو حضرت ابن عمر اور حضرت ابن زبیر ملتے اور وہ دونوں ان سے کہتے کہ ہم کو اپنا شریک بنا لو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے تمہارے لئے برکت کی دعا کی ہے (حضرت زہرہ کہتے ہیں کہ میرے دادا ان کو شریک کرلیا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے ان کو بلا کسی نقصان و خسارہ کے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر غلہ کا فائدہ ہوتا تھا جسے وہ اپنے گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ اور ان کے حق میں آنحضرت ﷺ کے دعا کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن ہشام کی والدہ انہیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئیں تو آپ ﷺ نے ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور ان کے لئے برکت کی دعا کی (بخاری)

【3】

انصار کے مال میں مہاجرین کی شرکت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب مکہ سے مہاجرین مدینہ آئے تو انصار یعنی مدینہ کے لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں درختوں کو تقسیم نہیں کروں گا تم ہی لوگ ہماری یعنی مہاجرین کی طرف سے بھی محنت کرلیا کرو ہم پیداوار میں تمہارے شریک رہیں گے۔ انصار نے کہا کہ ہم آپ ﷺ کی اس بات کو بسروچشم قبول کرتے ہیں (بخاری) تشریح جب مکہ کے مسلمانوں پر ان کے وطن کی زمین تنگ کردی گئی اور اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم پر وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے تو چونکہ انہوں نے اپنا سارا سامان و اسباب اور مال ومتاع مکہ ہی میں چھوڑ دیا تھا اس لئے یہاں مدینہ میں ان کی معاشی زندگی کا تکفل مدینہ کے مسلمانوں نے کہ جنہیں انصار کہا جاتا ہے اپنے ذمہ لیا اس کی شکل یہ کی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کے درمین بھائی چارہ کرایا چناچہ انصار مدینہ نے اپنے تمام مال و اسباب میں مہاجرین کو برابر شریک بنا لیا۔ اسی موقع پر انصار نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو بھی ہمارے اور ہمارے مہاجربھائیوں کے درمیان تقسیم فرما دیجئے تاکہ ہم اپنے اپنے حصہ کے درختوں میں محنت مشقت کریں اور ان سے پھل پیدا کریں آپ نے ان سے فرمایا کہ میں درختوں کی تقسیم نہیں کروں گا بلکہ تمہیں لوگ ان درختوں کی دیکھ بھال کرو اور ان میں پانی وغیرہ دینے کی محنت ومشقت خود گوارہ کرلو کیونکہ تمہارے ان بیچارے مہاجرین بھائیوں سے یہ محنت ومشقت برداشت نہیں ہوگی۔ پھر جب پھل تیار ہوجائے گا تو میں تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ آپ ﷺ کے اس فیصلہ کو انصار نے رضاء ورغبت اور بسروچشم قبول کرلیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی طرف سے محنت ومشقت کرنا مستحب ہے نیز یہ حدیث بھی شرکت کے صحیح ہو نیکی دلیل ہے۔

【4】

معاملات میں وکیل بنانا جائز ہے

اور حضرت عروہ بن الجعد بارقی کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں ایک دینار دیا تاکہ وہ آپ ﷺ کے لئے ایک بکری خرید لائیں چناچہ انہوں نے ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں اور پھر ان میں سے ایک بکری کو ایک دینار کے عوض کسی کے ہاتھ بیچ دیا اس طرح انہوں نے آنحضرت ﷺ کو ایک بکری دی اور ایک دینار بھی دیا۔ رسول کریم ﷺ نے ان کی اس ذہانت سو خوش ہو کر ان کے خریدو فروخت کے معاملات میں برکت کی دعا فرمائی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ اگر وہ مٹی خرید لیتے تو اس میں بھی انہیں فائدہ ہوتا (بخاری) تشریح ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تجارتی معاملات میں وکالت جائز ہے اسی طرح ان تمام چیزوں میں بھی کسی کو اپنا وکیل بنانا درست ہے جن میں نیابت اور قائم مقامی چلتی ہو۔ اگر کوئی شخص کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر بیچے تو بیع منعقد ہوجاتی ہے لیکن اس کا صحیح ہونا مال کے مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے اگر مال کا مالک اجازت دے دے گا تو بیع صحیح ہوجائے گی۔ یہ حنفیہ کا مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک مالک کی اجازت کے بغیر اس کا مال بیچنا سرے سے جائز ہی نہیں ہے اگرچہ بعد میں مالک کی اجازت بھی حاصل کیوں نہ ہوجائے۔

【5】

امانت دار شرکاء اللہ تعالیٰ محافظ رہتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں دو شریکوں کے درمیان ایک تیسرا نگہبان ہوں جب تک کہ ان میں سے کوئی اپنے دوسرے شریک کے ساتھ خیانت نہیں کرتا۔ اور جب وہ خیانت و بددیانتی پر اتر آتے ہیں تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں (ابوداؤد) اور رزین نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور پھر ان کے درمیان شیطان آجاتا ہے۔ تشریح میں دو شریکوں کے درمیان ایک تیسرا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ شرکاء جب تک دیانت امانت اور ایمان داری کے ساتھ باہم شریک رہتے ہیں میری محافظت و برکت کا سایہ ان پر رہتا ہے بایں طور کہ میں انہیں ہر نقصان و تباہی سے محفوظ رکھتا ہوں ان کے مال پر کوئی آفت نازل نہیں کرتا ان کے رزق میں وسعت بخشتا ہوں ان کے معاملات میں خیر و بھلائی برقرار رکھتا ہوں ان کے مال پر کوئی آفت نازل نہیں کرتا ان کے رزق میں وسعت بخشتا ہوں ان کے معاملات میں خیر و بھلائی برقرار رکھتا ہوں اور ہر موقع پر ان کی مدد ونصرت کرتا ہوں۔ ان کے درمیان سے ہٹ آتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ جب شرکاء میں بددیانتی کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرنے لگتے ہیں تو میری محافظت و برکت کا سایہ ان سے ہٹ جاتا ہے اور اس کے بجائے شیطان اپنا تسلط جما لیتا ہے جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ شرکاء مکمل نقصان و تباہی کے کنارے پہنچ جاتے ہیں اور ان کے مال ورزق سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معاملات بطور خاص تجارت وغیرہ میں شرکت مستحب ہے کیونکہ اس کیوجہ سے کاروبار اور مال و سرمایہ میں اللہ تعالیٰ کی وہ برکت نازل ہوتی ہے جو تنہا کاروبار کرنے والے کو حاصل نہیں ہوتی اس لئے کہ جب کسی کاروبار میں دو آدمی شریک ہوتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے شریک کے مال کی حفاظت و نگرانی میں کوشاں رہتا ہے اور یہ معلوم ہی ہے کہ کوئی بندہ جب تک اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور خیر خواہی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے۔

【6】

خائن سے انتقام کا جذبہ تمہیں خیانت پر نہ اکسادے

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے تمہیں امین بنایا ہے اس کی امانت اس تک پہنچا دو جو شخص تمہارے ساتھ خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ( ترمذی ابن ماجہ دارمی) تشریح قاضی کہتے ہیں کہ حدیث کی آخری ہدایت سے مراد یہ ہے کہ خائن نے تمہارے ساتھ جو معاملہ کیا ہے وہی معاملہ تم اس کے ساتھ نہ کرو یعنی اگر کسی شخص نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے تو تم بھی اس کے ساتھ خیانت نہ کرو کیونکہ اگر تم بھی خیانت کرو گے تو پھر جس طرح وہ خائن ہے اسی طرح تم بھی خائن قرار دیئے جاؤ گے۔ ہاں اس سے وہ شخص مستثنی ہے جو ظالم (کسی کا مال لے کر مکر جانیوالا) سے اپنے حق کے بقدر اس کا مال لے لے، کیونکہ وہ تو اپنا حق اس سے لیتا ہو جو کوئی عدو ان یعنی ظلم و زیادتی نہیں ہے جب کہ خیانت ایک صریح عدوان ظلم ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی حق مثلا مال کسی کے ذمہ واجب ہو اور اس کا مال اس صاحب حق کی دسترس میں ہو تو وہ اپنے مال کے بقدر اس کے مال میں سے لے لے بشرطیکہ جو مال کی دسترس میں ہے وہ اس مال کی جنس سے ہو جو مال والے کے ذمہ ہے مثلا زید کے دس روپے بکر کے ذمہ واجب ہیں اور بکر کے کچھ روپے زید کی دسترس میں ہیں تو اب زید کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان روپوں میں سے اپنے دس روپے لے لے۔

【7】

آنحضرت ﷺ کا وکیل

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے خیبر جانے کا ارادہ کیا تو رخصت ہونے کے ارادہ سے) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور عرض کیا کہ میں نے خیبر جانے کا ارادہ کرلیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم خیبر میں میرے وکیل کے پاس جاؤ تو اس سے پندرہ وسق (کھجوریں) لے لینا اگر وہ تم سے کوئی نشانی مانگے تو اپنا ہاتھ اس کے حلق پر رکھ دینا ( ابوداؤد) تشریح آنحضرت ﷺ نے جس شخص کو خیبر میں اپنا وکیل مقرر کر رکھا تھا اسے یہ ہدایت دے رکھی ہوگی کہ اگر کوئی شخص میری طرف سے کچھ مانگنے آئے اور تم اس سے میرا فرستادہ ہونے کی کوئی نشانی و علامت طلب کرو اور وہ اپنا ہاتھ تمہارے حلق پر رکھ دے تو سمجھ لینا کہ اس شخص کو میں نے بھیجا ہے چناچہ آپ ﷺ نے حضرت جابر کو یہی نشانی سکھا کر بھیجا تاکہ وکیل اس نشانی کے ذریعہ ان کو پندرہ وسق کھجوریں دیدے۔

【8】

شرکت مضاربت میں خیر و بھلائی

حضرت صہیب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن میں برکت یعنی بہت زیادہ خیر و بھلائی) حاصل ہوتی وعدہ پر بیچنا یعنی خریدار کو ادائیگی قیمت میں مہلت دینا ٢ مضاربت ٣ گیہوں میں جو ملانا گھر کے خرچ کے لئے بیچنے کے لئے نہیں (ابن ماجہ) تشریح مضاربت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا مال تجارت کے لئے دے اور وہ اپنی محنت سے کاروبار کرے پھر اس کا روبار سے جو نفع حاصل ہو وہ دونوں آپس میں تقسیم کرلیں۔ گھرکے خرچ کے لئے گیہوں میں جو ملانا ایک فائدہ مند چیز ہے کیونکہ اس طرح گھر کی غذائی ضرورت کی تکمیل کفایت کے ساتھ ہوجاتی ہے البتہ بیچے جانیوالے گیہوں میں جو ملا دینا مطلقًا ممنوع ہے کیونکہ یہ گناہ و فریب ہے۔ ایک واقعہ اور حضرت حکیم ابن حزام کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں ایک دینار دیکر بھیجا تاکہ وہ اس دینار سے آپ ﷺ کے لئے قربانی کا جانور خرید لیں چناچہ انہوں نے اس دینار کے عوض ایک مینڈھا یا دنبہ خریدا اور پھر اسے دو دینار میں بیچ دیا اس سے فارغ ہو کر انہوں نے قربانی کا جانور ایک دینار میں خریدا اور اس جانور کے ساتھ وہ دینار بھی لا کر آنحضرت ﷺ کو دیدیا جو پہلے خریدے گئے جانور کی وصول شدہ قیمت میں سے بچ گیا تھا آنحضرت ﷺ نے اس دینار کو تو صدقہ کردیا اور حضرت حکیم ابن حزام کے حق میں یہ دعا فرمائی کہ اللہ ان کی تجارت میں برکت عطاء فرمائے (ترمذی ابوداؤد)

【9】

شرکت ووکالت کے کچھ مسائل

شرکت و وکالت کے بارے میں کچھ اصولی باتیں باب کی ابتداء میں اور پھر کچھ مسائل احادیث کی تشریحات میں بیان ہوچکے ہیں چونکہ باب ختم ہو رہا ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس موضوع سے متعلق کچھ اور ضروری مسائل یکجا طور پر ذکر کر دئیے جائیں۔

【10】

شراکتی جماعت

کسی تجارتی کاروبار یا معاملہ میں جو لوگ شریک وحصہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی دو شکلیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کاروباریا معاملہ کا ہر شریک مالک و متصرف یا صرف متصرف ہوتا ہے اس طرح اس کاروبار یا معاملہ میں جملہ شرکاء کے باہمی مشورے پر عمل درآمد ہوتا ہے اسی شکل کی وہ چار قسمیں شرکت مفاوضہ شرکت عنان شرکت صنائع والتقبل اور شرکت وجوہ ہیں جن کا بیان باب کی ابتداء میں ہوچکا ہے۔ شرکاء کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ چند افراد کی ایک جماعت کسی تجارتی معاملہ میں شریک وحصہ دار ہو اور وہ تمام افراد کسی قانونی نظام اور مقررہ قواعد و ضوابط کے پابند ماتحت ہوں اور ان میں سے ہر ایک شریک اپنے آپ کو مالکانہ حیثیت سے علیحدہ تصور کرے اس شکل کو موجودہ دور کے مشترک تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ -1 ایسے کسی بھی مشترکہ تجارتی ادارے یا کمپنی کا نظم ونسق چلانے قانون پر عملدرآمد کرنے اور اجرائے کار کے لئے شرکاء ہی میں سے یا ان کے علاوہ لوگوں میں سے ایک شخص یا کئی آدمیوں کو جملہ شرکاء کے مشورہ سے منتخب کیا جائے۔ -2 کوئی بھی شریک بانصر اور تصرف کا حق نہیں رکھتا البتہ حق ملک ہر شریک کو حاصل ہوتا ہے۔ -3 جملہ شرکاء کی جماعت بہیئت مجموعی مالک و متصرف ہوگی اور یہ ہئیت مجموعی خواہ باتفاق کل حاصل ہو یا بکثرت آراء۔ -4 کوئی بھی شریک اپنے مشترک تجارتی ادارہ کا اجیر وملازم بن سکتا ہے -5 کوئی بھی شریک علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا البتہ اپنا حصہ بذریعہ ہبہ یا بذریعہ بیع منتقل کرسکتا ہے -6 جب تعداد شرکاء محدود ومکمل ہوجائے اور کوئی شریک اپنا حصہ بیچے تو دوسرے شرکاء مقدم سمجھے جائیں۔ -7 اگر کوئی حصہ میراث یا بیع وغیرہ کے ذریعہ تقسیم ہوجائے تو کارکنان کمپنی اس بات پر مجبور ہوں گے کہ اس حصہ کے جملہ ورثاء یا حقداروں سے لین دین کرنے میں جو کچھ زحمت ہو اسے برداشت کریں اس حصہ کے جملہ ورثاء یا شرکاء خواہ مل کرداد وستد (لین دین) کریں یا کسی ایک کو وکیل بنادیں ایسے حصہ کے جملہ شرکاء کا مجموعہ ایک ذات کے برابر سمجھا جائے گا۔ شرکاء کمپنی کاروبار چلانے کے لئے جو قانون مرتب ونافذ کریں گے ان کی پابندی تمام شرکاء پر ضروری ہوگی البتہ خلاف شرع قانون بنانا معصیت و گناہ اور اس کی پابندی ناجائز ہے۔ -9 ایسے جملہ قانون جو کسی نظم ونسق کی حالت کے لئے وضع کئے جائیں صرف مباحات سے متعلق رہیں گے منصوصات شرعیہ میں اثر انداز نہیں ہونگے۔ -10 یہ شرط کہ شرکاء ذاتی طور پر کسی دین اور نقصان کے ذمہ دار نہیں صرف اس صورت میں معتبر ہے جب کہ اس کا اعلان کیا جا چکا ہو۔ فسخ شراکت جو تجارتی کاروبار یا کوئی معاملہ دو فریق کے زیر شرکت ہو اس کو فسخ کردینے یعنی شرکت کو ختم کردینے کی دو صورتیں ہیں اول یہ کہ شرکت کو ختم کردینے پر دونوں فریق راضی ہیں دوم یہ کہ ایک فرق علیحدگی چاہے جیسے وہ مرگیا یا مجنوں ہوگیا یا کسی مطالبے میں مال دینا پڑا جس سے سرمایہ قائم نہیں رہ سکتا یا علیحدگی کی کوئی اور وجہ ہو ان تمام صورتوں میں شرکت ختم ہو کر تقسم عمل میں آجائے گی اگرچہ میت کے ورثاء اور مجنوں کے اولیاء شراکت کو باقی رکھنا چاہیں۔ فسخ شراکت میں فقہی ہدایت یہ ہے کہ -1 پہلے تمام مطالبات ادا کئے جائیں -2 ان معاہدوں کی تکمیل کا انتظام بھی ہوجائے جو شراکت کے ذمہ تھے -3 وہ تمام حقوق جو اصل وہم میں معتبر سمجھے گئے ہیں مثل اموال قیمتی کے تقسم ہوں گے -4 جو مطالبات دوسروں پر واجب ہیں اور جن کا وصول ہونا باقی ہے وہ بوقت وصول بقدر حصہ ملا کریں گے اور ہر شریک دوسرے کا وکیل سمجھا جائے گا تاکہ تقاضہ اور وصول کرتا رہے -5 فسخ شراکت کی دوسری صورت میں ان دو چیزوں کا لحاظ ضروری ہے اول یہ کہ شراکت سے علیحدگی اختیار کرنے والا فریق یا اس کے قائم مقام ذمہ داریوں کے بارے میں سبکدوش نہیں ہو سکیں گے۔ دوم یہ کہ جملہ حقوق معتبر مثل دکان ونام وغیرہ میں فریق خارج کو کوئی حق نہیں دیا جائے گا۔ -6 شراکتی جماعتوں یعنی مشترک تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر اس ادارہ یا کمپنی کے مقررہ قانون کے حکم یا حاکم کے حکم کے بغیر ایسے انفساخ کا اثر نہیں پڑھ سکتا کیونکہ کسی شریک کی موت جنون کا افلاس وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔

【11】

فسخ شرکت کی صورت میں تقسیم کی ترتیب

جب شراکت ختم ہوجائے اور فریقین کے درمیان سرمایہ و اموال کی تقسیم ہونے لگے تو ان امور کی ترتیب اور ان کا لحاظ ضروری ہے۔ -1 جو مطالبات شراکت کے ذمہ ہوں ان کی ادائیگی یا جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی تکمیل کا انتظام پیش نظر رہے -2 جملہ حقوق معتبرہ اور اموال قیمتی کی قیمت متعین کردی جائے اور درصورت اختلاف ونزاع قرعہ سے فیصلہ کرنا شرعا جائز ہے۔ -3 فریق خارج کو کوئی حق آئندہ نہ دلایا جائے گا گو ذمہ داری کے بار سے وہ سبکدوش نہیں ہے۔ -4 شراکت کے جو مطالبات دوسروں کے ذمہ ہوں ان میں حسب دستور وکالت رہے گی وصول ہونے پر بقدر حصہ تقسیم کرنا چاہئے۔

【12】

وکالت کے احکام

وکالت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وکیل اور مؤ کل مجنوں نابالغ غلام اور محجور نہ ہو -2 کسی اسی چیز میں وکیل بنانا جائز نہیں جو کسی کی مملوک نہ ہو جیسے جنگ کی گھاس یا لکڑیا جمع کرنا دریا سے پانی لانا، غوطہ لگا کر موتی نکالنا یا صدقہ لینے کے لئے وکیل بنانا۔ -3 جائز ہے کہ وکیل چاہے تو مفت خدمات انجام دے چاہے اپنی اجرت وصول کرلے اور چاہے نفع میں شریک ہو۔ -4 ہر ایسے تصرف میں جس کی نسبت اپنی اور مؤ کل دونوں کی طرف کرسکتا ہے وکیل مثل اصل کے مدعی اور مدعا علیہ بن سکتا ہے جیسے خریدو فروخت اور ہر ایسے امر میں جس کی نسبت اپنی طرف نہیں کرسکتا وکیل کو حقوق عقد سے کوئی واسطہ نہیں جیسے نکاح، طلاق -5 وکیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی ذات کے لئے مالکانہ تصرف کرے کیونکہ وہ صرف امین ہے -6 مؤ کل اپنے وکیل کو تصرف سے پہلے معزول کرسکتا ہے تصرف کے بعد اسے و کیل کے انجام دئیے ہوئے کام کو قبول و تسلیم کرلینے کے علاوہ اور کوئی حق حاصل نہیں -7 وکیل کو حق ہے کہ وہ مؤ کل کے لئے جو مال لایا ہے اس کے دام وصول کئے بغیر اس کے حوالے نہ کرے مگر دے کر واپس نہیں کرسکتا۔ -8 جب کہ وکیل دام وصول کرنے کے لئے مال نہ روکے امین ہے اور روکنے کے بعد ضامن ہوجائے گا۔ -9 وکیل کو جائز نہیں کہ جس چیز کے لئے وکیل بنایا گیا ہے اس کا معاملہ اپنی ذات کے لئے کرے۔ مسئلہ -1 زید نے اپنے نوکر سے کسی دکان سے کوئی چیز منگوائی اور نوکر وہ چیز دکاندار سے ادھارلے آیا تو وہ دکاندار زید سے قیمت کا تقاضہ نہیں کرسکتا بلکہ اسی نوکر سے تقاضہ کرے اور وہ نوکر زید سے تقاضا کرے۔ بشرطیکہ زید نے قیمت اسے نہ دی ہو اسی طرح اگر زید نے اپنی کوئی چیز اپنے نوکر سے بکوائی تو زید کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ خریدار سے تقاضہ کرے یا اس سے قیمت وصول کرے کیونکہ خریدار نے جس شخص سے وہ چیز حاصل کی ہے اسی کو قیمت ادا کرے گا ہاں اگر خریدار زید کو ازخود قیمت دیدے تو یہ جائز ہے مطلب یہ کہ اگر خریدار زید کو قمیت نہ دے تو زید زبردستی نہیں کرسکتا۔ -2 زید نے اپنے نوکر سے ایک من گیہوں منگوایا تھا مگر وہ ڈیڑھ من اٹھا لایا تو زید کو پورا ڈیڑھ من لینا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ نہ لے تو آدھ من نوکر کو لینا پڑے گا۔ -3 زید نے کسی سے کہا کہ فلاں بکری جو فلاں کے پاس ہے تم جا کر اس کو پندرہ روپے میں لے آؤ تو اب وہ شخص وہی بکری خود اپنے لئے نہیں خرید سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز خاص کر کے وکیل کو بتادی جائے اس وقت وکیل کو خود اپنے لئے اس کو خریدنا جائز نہیں ہے البتہ مؤ کل نے جو دام بتائے ہیں اس سے زیادہ میں اگر وکیل اپنے لئے خریدے تو جائز ہے اور اگر مؤ کل نے کچھ دام نہ بتائے ہوں صرف خریدنے کے لئے کہا ہو تو پھر کسی صورت میں بھی وہ چیز وکیل اپنے لئے نہیں خرید سکتا۔ -4 زید کے وکیل نے زید کے لئے ایک بکری خریدی پھر ابھی وکیل زید کو دینے نہ پایا تھا کہ بکری مرگئی یا چوری ہوگئی تو اس بکری کے دام زید ہی کو دینا پڑیں گے۔ اگر زید وکیل سے یہ کہے کہ تم نے وہ بکری میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے خریدی تھی تو زید کی اس بات کا اعتبار نہیں ہوگا بشرطیکہ زید نے اس بکری کے دام وکیل کو پہلے ہی دیدئیے ہوں ہاں اگر اس نے دام پہلے نہیں دئیے تھے تو اس صورت میں اگر زید قسم کھا کر وکیل سے یہ کہے کہ تم نے وہ بکری اپنے لئے خریدی تھی تب اس کی بات کا اعتبار ہوگا اور اس بکری کا نقصان وکیل کو برداشت کرنا ہوگا اور اگر زید قسم نہ کھا سکے تو پھر وکیل ہی کی بات کا اعتبار کرنا ہوگا۔ -5 زید کا نوکر اگر کوئی چیز گراں خرید لائے تو اگر تھوڑا ہی فرق ہو تو وہ چیز زید کو لینی پڑے گی اور اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی اور اگر بہت زیادہ گراں خرید لاتا ہے کہ وہ چیز اتنی قیمت میں کوئی نہیں خرید سکتا تو اس کا لینا واجب نہیں ہے اگر زید وہ چیز نہ لے تو خود نوکر اس چیز کا ذمہ دار ہوگا۔ -6 زید نے اپنی کوئی چیز بکر کو دی کہ وہ اسے فروخت کر دے تو بکر کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو خود لے لیوے اور اس کے دام زید کو دیدے۔ اسی طرح اگر زید نے بکر سے کہا کہ فلاں کی چیز مجھے خرید لاؤ تو بکر کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اپنی چیز زید کو لا کر دیدے اور اس سے اس کی قیمت وصول کرلے اگر بکر اپنی چیز دینا یا خود لینا چاہے تو زید سے صاف صاف کہدے کہ یہ چیز میں لیتا ہوں مجھ کو دیدو یا یوں کہدے کہ یہ میری چیز لے لو اور اتنی قیمت مجھے دیدو بغیربتلائے ہوئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ -7 زید نے اپنے نوکر سے بکری کا گوشت منگوایا اور وہ بھینس کا لے آیا تو زید کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو لے چاہے نہ لے اسی طرح زید نے نوکر سے آلو منگوائے اور وہ بھنڈی لے آیا تو اس کا لینا ضروری نہیں ہے اگر زید لینے سے انکار کر دے تو نوکر کو خود لینا پڑے گا۔ -8 زید نے دو آدمیوں کو بھیجا کہ بازار جا کر فلاں چیز لے آؤ تو اس چیز کی خریداری کے وقت ان دونوں آدمیوں کو موجود رہنا ضروری ہے صرف ایک آدمی کو خریدنا جائز نہیں ہے۔ اگر ایک ہی آدمی خریداری کرے تو بیع موقوف رہے گی۔ اگر زید صرف ایک آدمی کی خریداری کو منظور کرلے گا تو صحیح ہوجائے گا۔ -9 زید نے کسی شخص سے کہا کہ بازار سے فلاں چیز خرید لاؤ مگر اس شخص نے وہ چیز خود نہیں خریدی بلکہ کسی دوسرے سے خریدنے کے لئے کہ دیا تو اب اس چیز کو لینا زید پر واجب نہیں رہے گا چاہے وہ لے لے چاہے لینے سے انکار کردے دونوں اختیار ہیں البتہ اگر وہ شخص خود خریدے تو پھر زید کو لینا پڑے گا۔

【13】

وکیل کی برطرفی

وکیل کو قبل تصرف برطرف کردینے کا ہر وقت اختیار ہے مثلا زید نے کسی سے کہا تھا کہ مجھے ایک بکری کی ضرورت ہے کہیں مل جائے تو لے لینا پھر منع کردیا کہ میں نے تم سے جو بکری خریدنے کے لئے کہا تھا اب نہ خریدنا اس کے باوجود وہ شخص بکری خرید لے تو زید کے لئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ بکری لے لے کیونکہ منع کرنے کے بعد اس شخص کو زید کے لئے بکری خریدنے کا اختیار نہیں رہا تھا۔ ہاں اگر اس نے بکری خرید لی اور پھر اس کے بعد زید نے منع کیا تو اس صورت میں زید پر واجب ہوگا کہ وہ بکری لے لے اور اس کی قیمت ادا کر دے۔ اور اگر یہ صورت ہو کہ زید نے خود اس کو منع نہیں کیا بلکہ خط لکھ کر بھیجا یا آدمی بھیج کر اطلاع دی کہ اب میرے لئے بکری نہ خریدنا تب بھی وہ شخص وکالت سے برطرف ہوگیا اور اگر زید نے برطرفی کی اطلاع نہیں دی بلکہ کسی اور آدمی نے اس سے کہہ دیا کہ زید نے تمہیں وکالت سے برطرف کردیا ہے اس کے لئے نہ خریدنا تو اس صورت میں اگر اطلاع دینے والے دو آدمی ہوں یا ایک ہی آدمی نے اطلاع دی مگر وہ معتبر اور پابند شرع ہے تو اس اطلاع پر بھی برطرفی عمل میں آجائیگی اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ شخص وکالت سے برطرف نہیں ہوگا اگر اس نے بکری خرید لی تو زید کو لینی پڑیگی۔