84. شفعہ کا بیان

【1】

شفعہ کا بیان

شفعہ مشتق ہے شفع سے جس کے لغوی معنی ہیں ملانا اور جفت کرنا شفعہ اصطلاح فقہ میں اس ہمسائیگی یا شراکت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کسی ہمسایہ یا کسی شریک کو اس کے دوسرے ہمسایہ یا دوسرے شریک کے فروخت ہونیوالی زمین یا فروخت ہونیوالے مکان کو خریدنے کا ایک مخصوص حق حاصل ہوتا ہے اور یہ حق صرف زمین یا مکان کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے جس شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے اسے شفیع کہتے ہیں۔ اس حق کا نام شفعہ اس لئے ہے کہ یہ خاص حق فروخت ہونیوالی زمین یا مکان کو شفیع کی زمین یا مکان سے ملاتا ہے۔ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے نزدیک حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ حق شفعہ جس طرح شریک کے لئے ثابت ہے اسی طرح ہمسایہ کے لئے بھی ثابت ہے۔ ایک صحیح روایت کے مطابق حضرت امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں ہمسایہ کے حق شفعہ کے ثبوت میں احادیث منقول ہیں جو بالکل صحیح درجے کی ہیں ان کی موجودگی میں ہمسایہ کو حق شفعہ دینے سے انکار ایک بےدلیل بات ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق شفیع کے تین درجے ہیں اول خلیط فی النفس المبیع یعنی فروخت ہونیوالے مکان کی ملکیت میں کئی آدمی شریک ہوں خواہ وہ مکان ان سب شرکاء کو وراثت میں پہنچا ہو یا ان سب نے مشترک طور پر اسے خریدا ہو اور یا کسی نے ان سب کو مشترک طور پر ہبہ کیا ہو۔ دوم خلیط فی حق المبیع یعنی اس فروخت ہونیوالے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک نہ ہو بلکہ اس زمین یا مکان کے حقوق میں شریک ہو جیسے حق مرور یعنی آمدورفت کا حق حق مسیل یعنی پانی کے نک اس کا حق اور حق شرب یعنی کھیت وغیرہ کو سیراب کرنے کے لئے پانی لے جانے کی نالی وغیرہ کا حق۔ سوم جار یعنی ہمسایہ جس کا مکان فروخت ہونیوالے مکان سے متصل ہو اور ان دونوں مکانوں کی دیواریں ملی ہوئی ہوں نیز دونوں کے دروازوں کا راستہ ایک ہو۔ ان تینوں کے علاوہ اور کوئی شفیع نہیں ہوسکتا لہذا سب سے پہلے تو حق شفعہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اس فروخت ہونیوالے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک ہو اس کی موجودگی میں حق شفعہ نہ تو حقوق میں شریک کو حاصل ہوگا اور نہ ہمسایہ کو اگر یہ شریک حق شفعہ سے دست کشی اختیار کرے تو پھر حق شفعہ اس شخص کو پہنچے گا جو حقوق میں شریک ہو اور یہ بھی دست کشی اختیار کرلے تب حق شفعہ ہمسایہ کو حاصل ہوگا اور اگر یہ ہمسایہ بھی اپنے اس حق سے دست کش ہوجائے تو اس کے بعد کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔

【2】

حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے یا ہمسایہ کو بھی

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہر اس غیر منقول چیز میں حق شفعہ ثابت ہونے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے (جو شراکت میں ہو) اور شرکاء کے درمیان تقسیم نہ کی گئی ہو لہذا جب حدود مقرر ہوجائیں یعنی مشترک ملکیت کی زمین یا مکان باہم تقسیم ہوجائے اور ہر ایک حصہ کے راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ باقی نہیں رہتا یعنی اس صورت میں چونکہ شرکت باقی نہیں رہتی اس لئے کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہوتا ( بخاری) تشریح جب کسی زمین یا کسی مکان کے مشترک طور پر کئی مالک ہوں تو اس کے شرکاء کو ہر ایک کے حصے میں حق شفعہ اسی وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک کہ اس زمین یا اس مکان کی باہم تقسیم نہ ہو اگر وہ زمین یا مکان شرکاء آپس میں تقسیم کرلیں اور سب کے حصے الگ ہوجائیں اور سب حصوں کے راستے بھی جدا جدا ہوجائیں تو اس صورت میں کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں رہتا۔ اس طرح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہوگی کہ حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو حاصل نہیں ہوتا چناچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں ہمسایہ کو بھی حق شفعہ حاصل ہوتا ہے ان کی دلیل دوسری احادیث ہیں ان کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ اس زمین یا مکان کی تقسیم کے بعد شرکت کا شفعہ باقی نہیں رہتا لہذا حدیث کا یہ مفہوم مراد لینے کی صورت میں ہمسائیگی کے شفعہ کی نفی لازم نہیں آتی۔

【3】

حق شفعہ صرف زمین اور مکان کے ساتھ مخصوص ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے یہ حکم صادر فرمایا کہ ہر ایسی مشترک زمین میں شفعہ ثابت ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو خواہ وہ گھر ہو یا باغ ہو نیز ایسی مشترک زمین کے کسی بھی شریک کو اپنا حصہ بیچنا حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو مطلع نہ کر دے اطلاع کے بعد وہ دو سرا شریک چاہے تو وہ حصہ خود خرید لے اور چاہے تو چھوڑ دے یعنی کسی دوسرے کو بیچنے کی اجازت دیدے اور اگر کسی شریک نے اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دئیے بغیر اپنا حصہ بیچ دیا تو وہ دوسرا شریک اس بات کا حقدار ہے کہ وہ اس فروخت شدہ حصہ کو خرید لے (مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حق شفعہ صرف غیرمنقولہ جائیداد (یعنی زمین مکان اور باغ کے ساتھ مخصص ہے اشیاء منقولہ جیسے اسباب اور جانور وغیرہ میں شفعہ کا حق نہیں ہوتا چناچہ تمام علماء کا متفقہ طور پر یہی مسلک ہے پھر حق شفعہ صرف مسلمان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ مسلمان اور ذمی کے درمیان بھی شفعہ کا حق جاری ہوتا ہے (ذمی اس غیر مسلم کو کہتے ہیں جو جزیہ یعنی اپنے جان ومال اور اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کا ایک مخصوص ٹیکس ادا کر کے اسلامی سلطنت کا اطاعت گزار شہری ہو)

【4】

مشترک زمین یا مکان کے کسی حصہ کے فروختگی کے وقت دوسرے شریک کو اطلاع دینا ضروری ہے

ارشاد گرامی کے الفاظ (لا یحل لہ) الخ (کسی بھی شریک کو اپنا حصہ بیچنا حلال نہیں ہے الخ) سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر کسی مشترک زمین یا مکان کا کوئی حصہ دار اپنا حصہ بیچنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فروختگی کے ارادے کے وقت ہی اپنے دوسرے حصہ دار کو اس کی اطلاع دیدے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہے تو اس حصہ کو خرید لے ورنہ عدم اطلاع کی صورت میں اس دوسرے حصہ دار کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ بذریعہ شفعہ اس حصہ کو حاصل کرلے۔

【5】

ہمسایہ کو حق شفعہ حاصل ہونیکی دلیل

اور حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہمسایہ اپنے قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہمسایہ شفعہ کا زیادہ حق دار ہے اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شفعہ کا حق صرف اسی ہمسایہ کو ہوتا ہے کہ جو نزدیک اور متصل ہو۔ یہ حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ حنفیہ کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ حق شفعہ صرف شریک ہی کو حاصل نہیں ہوتا بلکہ ہمسایہ کو بھی حاصل ہوتا ہے۔

【6】

ہمسائیگی کا حق

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے ( بخاری ومسلم) تشریح منع نہ کرنے کا یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ لکڑی گاڑنے کی وجہ سے کوئی نقصان وضرر نہ پہنچتا ہو حضرت امام احمد اور محدثین کے نزدیک مذکورہ بالا حکم وجوب کے طور پر ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حکم استحباب کے طور پر ہے۔

【7】

راستے کے سلسلے میں ایک ہدایت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب راستہ کی بابت تم میں اختلاف ہوجائے تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ متعین کردو (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی افتادہ زمین پر راستہ بنا ہو اور وہاں کچھ لوگ عمارت بنانا چاہیں تو بہتری ہی ہے کہ آپس کے اتفاق و اتحاد سے مناسب راستہ کے لائق زمین کا کچھ حصہ چھوڑ کر اس کے ارد گرد عمارت بنا لی جائے لیکن اگر راستہ کے لئے زمین کی کسی مقدار پر اتفاق نہ ہو اور آپس میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اس صورت میں واضح ہدایت یہ ہے کہ راستہ کے لئے چوڑائی میں سات ہاتھ زمین متعین کردی جائے اور اس سات کے اندر کوئی کچھ نہ بنائے۔ مذکورہ بالا حدیث کی مراد تو یہ ہے کہ لیکن اس بارے میں ایک یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اگر کوئی چلتا ہوا راستہ سات ہاتھ سے زائد چوڑا ہو تو اس صورت میں کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے وہ اس پورے زائد حصے یا اس میں سے کچھ پر قابض ہوجائے اور یہ کہے کہ راستہ کی سات ہاتھ چوڑائی کافی ہے۔

【8】

غیرمنقولہ جائداد کو بلا ضرورت بیچنا مناسب نہیں ہے

حضرت سعید بن حریث کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو شخص اپنا مکان یا زمین فروخت کرے تو مناسب یہ ہے کہ اس کی قیمت میں برکت نہ ہو الاّ یہ کہ وہ اس قیمت کو اس ہی جیسی جائیداد کی خریداری میں صرف کرے (ابن ماجہ دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ غیرمنقولہ جائیداد مثلا مکانات اور زمین کو بلا ضرورت بیچنا اور اس سے حاصل ہونیوالی قیمت سے منقولہ اشیاء خریدنا غیرمستحب اور غیر مناسب ہے کیونکہ غیرمنقولہ جائیداد میں منافع بھی بہت ہیں اور اس کے اتلاف و نقصان کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں جیسے اسے کوئی چور چرا نہیں سکتا اور کوئی لٹیرا لوٹ کر نہیں جاسکتا بخلاف اشیاء منقولہ کے کہ ان کی چوری کا ہر وقت خوف رہتا ہے لہذا عقل و دانش کا تقاضہ یہی ہونا چاہئے کہ بلا ضرورت غیرمنقولہ جائیداد کو فروخت نہ کیا جائے اگر فروخت ہی کیا جائے تو اس کی قیمت کو دوسرے مکانات و زمین کی خریداری میں صرف کیا جائے۔

【9】

ہمسایہ کو حق شفعہ حاصل ہوتا ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہمسایہ اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کے شفعہ کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے اور ہمسایہ شفعہ کا اس صورت میں حق دار ہے جب کہ دونوں کا راستہ ایک ہو ( احمد ترمذی ابوداؤد ابن ماجہ)

【10】

شفعہ کا تعلق ہر غیرمنقولہ جائیداد سے ہے

اور حضرت ابن عباس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو فروخت کی جانیوالی جائیداد میں شریک ہو شفعہ کا حق رکھتا ہے اور شفعہ کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جو غیرمنقولہ جائیداد ہو جیسے زمین اور باغ وغیرہ) اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن ابی ملیکہ نے بھی نبی کریم ﷺ سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور وہی زیادہ صحیح ہے۔

【11】

بیری کا درخت کاٹنے پر وعید

اور حضرت عبداللہ ابن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا امام ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مختصر ہے جس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص جنگل میں بیری کے کسی ایسے درخت کو کہ جس کے سایہ میں مسافر اور جانور پناہ حاصل کرتے ہیں ازراہ ظلم و زیادتی اور بغیرحق کے کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا۔ تشریح جملہ غشمًا وظلمًا بغیر حق میں لفظ ظلم اور بغیر حق لفظ غشمًا کی تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا ہے یا پھر یہ کہ لفظ ظلم تو غشما کی تاکید کے طور پر لیکن بغیر حق سے مراد شفعہ ہے۔ ابوداؤد کی کتاب مرقات الصعود میں لکھا ہے کہ طبرانی نے اپنی کتاب اوسط میں یہ وضاحت کی ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لئے یہ وعید ہے بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل کی وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہ ظلم و زیادتی کاٹ ڈالے۔

【12】

ہرغیرمنقول جائیداد میں شفعہ ہے خواہ وہ تقسیم ہوسکتی ہے یا ناقبال تقسیم ہو

حضرت عثمان ابن عفان فرماتے ہیں کہ جب زمین میں حدیں قائم ہوجائیں یعنی مشترک زمین شرکاء میں باہم تقسیم ہوجائے اور ہر ایک کے حصے الگ الگ ہوجائیں تو شرکت کا شفعہ باقی نہیں رہتا اور نہ کنویں میں شفعہ کا حق حاصل ہوتا ہے اور نہ نر کھجور کے درخت میں۔ (مالک) تشریح کنواں ایک ایسی چیز ہے جو تقسیم کا احتمال نہیں رکھتا اور چونکہ شفعہ کا حق اسی زمین میں حاصل ہوتا ہے جو تقسیم کا احتمال رکھتی ہو اس لئے کنویں میں شفعہ نہیں ہوتا چناچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن حنفیہ کے نزدیک شفعہ ہر زمین میں ثابت ہے خواہ وہ تقسیم کا احتمال رکھتی ہو جیسے مکانات اور باغات وغیرہ یا تقسیم کا احتمال نہ رکھے جیسے کنواں حمام اور چکی وغیرہ حنفیہ کی دلیل آنحضرت ﷺ کا یہ واضح ارشاد گرامی ہے کہ (الشفعۃ فی کل چیز یعنی) شفعہ ہر غیرمنقولہ چیز میں ہے۔ اور نہ نر کھجور کے درخت میں یعنی مثلا چند لوگوں کو کھجور کے کچھ درخت مشترک طور پر وراثت میں حاصل ہوئے جنہیں انہوں نے آپس میں تقسیم کرلیا لیکن ان میں ایک نر درخت بھی تھا جس کے پھول لے کر سب ہی لوگ اپنے اپنے کھجور کے درختوں پر ڈالتے تھے اب ان ہی میں کا ایک شخص اپنے حصے کے کھجور کے درختوں کے ساتھ اس نر درخت کے اپنے حقوق بھی فروخت کرے تو شرکاء کو اس فروخت میں شفعہ کا حق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو وہ کوئی زمین ہے اور نہ اس کو تقسیم کرلینا ممکن ہے۔

【13】

مساقات اور مزارعت کا بیان

مساقات کی صورت یہ ہے کہ مثلا زید اپنا باغ یا اپنے کچھ درخت بکر کو اس شرط کے ساتھ دے کہ تم ان درختوں کو سیراب کرنا ان کی دیکھ بھال کرنا پھر ان پر جو پھل آئیں گے ان کو آدھوں آدھ یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ جو بھی مقدار مقرر ہو آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ مزارعت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا زید اپنی زمین بکر کو اس شرط کے ساتھ دے کہ تم اس کو جوتنا بونا اس کی جو پیداوار ہوگی اسے آدھوں آدھ یا تہائی اور یا چوتھائی جو بھی مقدار مقرر ہو آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ گویا مساقات اور مزارعت دونوں کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی بٹائی پر دینا فرق صرف اتنا ہے کہ مساقات کا تعلق تو درختوں سے ہوتا ہے اور مزارعت کا تعلق زمین سے ہے ان دونوں کا فقہی حکم بھی ایک ہے مساقات اور مزارعت یعنی اپنے درختوں یا زمین کوئی بٹائی پر دینا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک فاسد ہے جب کہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نیز دوسرے علماء کے نزدیک یہ جائز ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل یہ ہے کہ یہ ایک ایسا اجارہ ہے جس میں اجر مجہول اور معدوم ہوتا ہے پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ سے مخابرت مزارعت کی نہی ثابت ہے لیکن فتوی چونکہ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے قول پر ہے اس لئے حنفیہ کے ہاں بھی مساقات اور مزارعت جائز ہے۔