85. مساقات اور مزارعات کا بیان

【1】

خیبر کی زمین کا بند وبست

حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کی کھجوروں کے درخت اور وہاں کی زمین اس شرط پر خیبر کے یہودیوں کے حوالہ کردی کہ وہ اس میں اپنی جان اور اپنا مال لگائیں اور اس کا آدھا پھل رسول کریم ﷺ کے لئے ہوگا ( مسلم) اور بخاری کی روایت میں یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کو یعنی وہاں کی زمین اور درخت کو اس شرط پر خیبر کے یہودیوں کے حوالہ کردیا تھا کہ وہ اس میں محنت کریں اور کاشت کاری کریں اور پھر اس کی پیداوار کا آدھا حصہ یہودیوں کا حق ہوگا اور آدھا حصہ آنحضرت ﷺ لے لیں گے۔ تشریح خیبر ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ سے تقریبا ٦٠ میل شمالی میں ایک حرے کے درمیان واقع ہے پہلے یہ ایک مشہور مقام رہ چکا ہے جہاں یہودیوں کی بود باش تھی لیکن اب یہ بستی چند گاؤں کا مجموعہ ہے چونکہ اس کی آب وہوا اچھی نہیں ہے اس لئے یہاں لوگ اقامت اختیار کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اس کے علاقہ میں کھجور وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے۔ بہرحال یہ حدیث علاوہ امام اعظم ابوحنیفہ کے تمام علماء کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ مساقات ومزارعت جائز ہے حضرت امام اعظم یہ فرماتے ہیں کہ خیبر کی زمین اور درختوں کو وہاں کے یہودیوں کو دینا مساقات ومزارعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ کیونکہ خیبر کی زمین اور وہاں کے درخت آنحضرت ﷺ کی ملکیت میں نہیں تھے کہ آپ ﷺ بطور مساقات ومزارعت وہاں کے یہودیوں کو دیتے بلکہ وہ زمین بھی یہودیوں ہی کی ملکیت تھی اور وہاں کے درختوں کے مالک بھی یہودی ہی تھے۔ آپ ﷺ نے ان کی املاک کو انہیں کے حوالے کیا اور اس کی پیداوار کا نصف بطور خراج اپنے لئے مقرر فرمایا چناچہ خراج کی دو قسمیں ہیں (١) خراج مؤظف (٢) خراج مقاسمت۔ خراج مؤظف کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اسلامی مملکت کی طرف سے جن لوگوں پر خراج عائد کیا جاتا ہے ان سے سربراہ مملکت ہر سال کچھ مال لینا مقرر کرلیتا ہے جیسا کہ اہل نجران سے ہر سال بارہ سو حلے یعنی جوڑے لئے جاتے تھے۔ خراج مقاسمت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن لوگوں پر خراج عائد کیا جاتا ہے ان کی زمین کی پیداوار ان لوگوں اور اسلامی حکومت کی درمیان کسی مقررہ مقدار میں تقسیم ہوتی ہے جیسا کہ اہل خیبر کے ساتھ ہوا کہ ان کی زمین اور درختوں کی نصف پیداوار آنحضرت ﷺ لے لیتے تھے

【2】

مخابرت کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ ہم لوگ مخابرت کیا کرتے تھے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ جب حضرت رافع ابن خدیج نے یہ بتایا کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے تو ہم نے اس وجہ سے اسے ترک کردیا (مسلم) تشریح مخابرت اس مزارعت کو کہتے ہیں کہ جس کا ذکر اوپر کی حدیث میں ہوا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ مزارعت ممنوع ہے اس لئے یہ حدیث ان کی دلیل ہے۔

【3】

اجرت یا لگان پر زمین دینے کا ذکر

اور حضرت حنظلہ ابن قیس تابعی حضرت رافع بن خدیج صحابی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی رافع نے فرمایا کہ مجھے میرے دو چچاؤں نے بتایا کہ کہ نبی کریم ﷺ کے مانے میں صحابہ کرام نالیوں پر ہونیوالی پیداوار کے عوض اپنی زمین اجرت پر دیا کرتے تھے (یعنی صحابہ اپنی زمین کو کسی دوسرے شخص کو اس شرط کے ساتھ اجرت پر دیدیا کرتے تھے کہ وہ شخص اپنی محنت اور اپنا تخم لگا کر اس میں کاشت کرے اور اس زمین کی پانی کی نالیوں کے کناروں پر جو کچھ پیدا ہوگا وہ اس زمین کی اجرت میں مالک کا حق ہوگا اور اس کے علاوہ باقی زمین کی پیداوار کاشت کرنے والے کا حق ہوگا یا اپنی زمین کو اس قطعہ کی پیداوار کے عوض اجرت پر دیتے تھے جسے مالک اپنے لئے علیحدہ کرلیتا تھا (یعنی زمین کو اجرت پر دینے کی دوسری صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنی زمین جب کسی کو کاشت کے لئے دیتے تو اس کا کوئی قطعہ اپنے لئے متعین کردیتے تھے اور یہ طے ہوجاتا تھا کہ کاشت کرنیوالا اپنی محنت اور اپنا تخم لگا کر پوری زمین پر کاشت کرے پھر اس متعین قطعہ کی جو کچھ پیداوار ہوگی وہ تو مالک لے لے گا اور باقی زمین کی پیداوار کاشت کرنیوالا لے گا چناچہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں اس سے منع فرمایا کیونہ اس میں نقصان اور فریب میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا تھا) حدیث کے راوی حضرت حنظلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت رافع سے پوچھا کہ درہم و دینار کے عوض مزارعت کا کیا حکم ہے (یعنی اپنی زمین کسی کو کاشت کرنے کے لئے دیدی جائے اور اس کے عوض بطور لگان روپے لئے جائیں تو کیا حکم ہے حضرت رافع نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور جس چیز سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے (یعنی مزارعت کی مذکورہ دونوں صورتیں) وہ ایسی چیز ہے کہ اگر حرام و حلال کی سمجھ رکھنے والا شخص اس میں غور کرے تو نقصان پہنچنے کے خوف سے اسے پسند نہ کرے ( بخاری ومسلم) تشریح اپنی زمین کو کاشت کے لئے دینے کی جو دو صورتیں ذکر کی گئی ہیں اور جن سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے وہ ان علماء کے نزدیک بھی محل نہی ہیں جو مزارعت کے جواز کے قائل ہیں۔ مزارعت کے سلسلے میں چونکہ مختلف احادیث منقول ہیں اس لئے جو علماء مزارعت کو جائز کہتے ہیں وہ بھی اپنے مسلک کو حدیث سے ثابت کرتے ہیں اور وہ علماء بھی حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں جن کے نزدیک مزارعت جائز نہیں ہے گویا دونوں طرف کے علماء کے لئے تاویل کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے اکثر علماء مزارعت کو جائز کہتے ہیں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اس کے عدم جواز کے قائل ہیں لیکن حنفیہ کے دو جلیل القدر ائمہ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد چونکہ جواز ہی کے قائل ہیں پھر یہ کہ دفع ضرورت کی مصلحت بھی پیش نظر ہے اس لئے حنفی مسلک میں بھی فتوی اسی بات پر ہے کہ مزارعت جائز ہے۔

【4】

مزارعت کی ایک ممنوع صورت

اور حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ ہم اکثر مدینہ والے کاشتکاری کیا کرتے تھے اور ہم میں سے بعض لوگ اپنی زمین کو بٹائی پر کاشت کرنے کے لئے کسی دوسرے کو دیدیا کرتے تھے اور اس سے یہ کہ دیتے تھے کہ تم اس پوری زمین پر کاشت کرو اس کے عوض میں اس زمین کا یہ قطعہ میرے لئے ہے یعنی اس قطعہ کی پیدوار میں لے لوں گا اور یہ قطعہ تہارے لئے ہے ( یعنی اس دوسرے قطعہ کی پیداوار تم لے لینا) اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ایک قطعہ میں پیداوار ہوجاتی تھی لیکن دوسرے قطعہ میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا تھا چناچہ رسول کریم ﷺ نے مزارعت کی اس صورت سے منع فرمایا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ایک شخص کو تو زمین کی پوری پیداوار مل جاتی تھی اور دوسرے شخص کا حق بالکل ضائع ہوجاتا تھا ( بخاری ومسلم)

【5】

کسی کو اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے بطور رعایت دینا بہتر ہے

اور حضرت عمرو ابن دینار تابعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس تابعی سے کہا کہ اگر آپ مزارعت کو ترک کردیتے تو بہتر تھا کیونکہ علماء کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس نے کہا کہ عمرو ! میں اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے لوگوں کو دیتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں اور سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباس نے مجھے بتایا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع نہیں فرمایا ہے لیکن آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ اپنے کسی بھائی کو اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے دیدینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر اس زمین کا کوئی لگان وغیرہ متعین کر کے لے لیا جائے (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ مزارعت میں تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ دیا جاتا ہے اور کچھ لیا جاتا ہے یعنی اپنی زمین دی جاتی ہے اور اس کے عوض اس کی پیداوار میں سے کچھ حصہ متعین کر کے لیا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر کسی کے ساتھ احسان کیا جائے بایں طور کہ اسے اپنی زمین بغیر کچھ لئے بطور رعایت دی جائے تو وہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ بہتر ہے۔

【6】

اپنی زمین کو بے کار نہ چھوڑو

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس زمین ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس میں خود کاشت کرے یا خود کاشت نہ کرسکے) تو اپنے کسی بھائی کو عاریۃً دیدے اور اگر یہ دونوں ہی باتیں پسند نہ ہوں تو پھر چاہئے کہ اپنی زمین اپنے پاس رکھے ( بخاری ومسلم) تشریح شیخ مظہر فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے پیش نظر انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے مال سے نفع حاصل کرے لہذا جس شخص کے پاس زمین ہو اسے چاہئے کہ وہ اس میں خود کھیتی باڑی کرے تاکہ اس سے پیداوار ہو اور اس کی وجہ سے اسے نفع ہو اور اگر کی وجہ سے وہ خود کاشت نہ کرسکتا ہو تو پھر وہ اس زمین کو اپنے کسی مستحق مسلمان بھائی کو عاریۃ دیدے تاکہ وہ اس میں محنت مشقت کر کے اپنا پیٹ بھرے اس صورت میں انسانی اخلاق و ہمدردی کا ایک تقاضہ بھی پورا ہوگا اور اسے ثواب بھی ملے گا لیکن اگر وہ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت پسند نہ کرے تو پھر اپنی زمین کو اپنے پاس رہنے دے یہ آخری حکم گویا ان دونوں صورتوں کو ترک کرنے اور مزارعت کو اختیار کرنے پر ازراہ تنبیہہ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص نہ تو اپنی زمین سے مالی فائدہ حاصل کرے کہ اس پر خود کاشت کرے اور نہ کسی مسلمان بھائی کو عاریۃ دے کر اس سے روحانی نفع حاصل کرے تو پھر بہتر یہی ہے کہ وہ اس زمین کو یوں ہی چھوڑ دے کسی کو بطور مزارعت نہ دے نیز اس میں ایسے لوگوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو اپنے مال سے نہ تو خود ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ دوسرے کو نفع پہچاتے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تو پھر چاہئے کہ اپنی زمین اپنے پاس رکھے کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص اس کی زمین عاریۃ قبول کرنے سے انکار کر دے تو اپنی زمین اپنے پاس رہنے دے اس صورت میں یہ حکم اباحت کے طور پر ہوگا۔

【7】

زارعت میں مشغولیت کی وجہ سے جہاد ترک کرنے پروعید

منقول ہے کہ حضرت ابوامامہ نے ایک جگہ) ہل اور کھیتی باڑی کا کچھ دیگر سامان دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ سامان جس گھر میں داخل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گھر میں ذلت داخل کردیتا ہے ( بخاری) تشریح اس حدیث سے اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے نزدیک زراعت کا پیشہ ناپسندیدہ یا معیوب تھا یا اس سے آپ ﷺ کا مقصد کھیتی باڑی کرنیوالوں کی مذمت کرنا تھا بلکہ درحقیقت اس ارشاد گرامی کا منشاء جہاد کی ترغیب دینا ہے اور یہ آگاہ کرنا ہے کہ زراعت میں مشغول ہو کر جہاد کو ترک نہ کردیا جائے اگر کوئی شخص اپنی معاشی ضروریات کی جائز و حلال تکمیل کے لئے زراعت کے پیشے کو اختیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ کوئی غیرپسندیدہ بات نہیں ہے اور نہ ایسا شخص اس وعید میں داخل ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو دشمنان دین کے قریب یا ان کے ملک کی سرحدوں سے متصل اقامت پذیر ہوں کہ اگر ایسے لوگ اپنی تمام تر توجہ زراعت کی طرف مبذول کر کے جہاد کی ضرورت و اہمیت کو فراموش کردیں گے تو دشمن ان پر غالب آجائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوجائیں گے۔

【8】

کسی کی زمین میں بلا اجازت کاشت نہ کرو

حضرت رافع بن خدیج نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی کی زمین میں اس کی اجازت کے بغیر (یعنی مالک کی رضا اور حکم کے بغیر) کاشت کرے تو اس کے لئے اس زمین کی پیداوار میں سے علاوہ اس کے کہ جو اس نے خرچ کیا ہے اور کچھ نہیں ہوگا ( ترمذی ابوداود) امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی کی زمین میں مالک کی اجازت ومرضی کے بغیر اگر کوئی شخص کاشت کرے تو اس زمین میں ساری پیداوار زمین کے مالک ہی کو ملے گی ہاں کاشت کرنیوالے نے اپنا جو تخم اس کاشت میں لگایا ہوگا وہ اسے مل جائے گا اس کے علاوہ اور کچھ اسے نہیں ملے گا چناچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے۔ لیکن دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں زمین کی پیداوار کاشت کرنیوالے ہی کو ملے گی البتہ اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ زمین کا نقصان اس کے مالک کو ادا کرے حنفیہ کے بعض علماء نے بھی اسی قول کو ذکر کیا ہے اور ابن مالک نے یہ کہا ہے کہ ایسے شخص پر زمین پر قبضہ کے دن سے اس کی کاشت کے دن سے زمین خالی ہونے کے دن تک اس زمین کا معاوضہ واجب ہوگا اور اس کی جو کچھ پیداوار ہوگی وہ اس شخص کی ہوگی۔

【9】

مزارعت کا ثبوت

حضرت قیس بن اسلم حضرت ابوجعفر (یعنی امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا مدینہ میں مہاجرین کا کوئی ایسا گھر نہ تھا جو تہائی اور چوتھائی پر (کی بٹائی پر) کی تھی نہ کرتا ہو۔ حضرت علی حضرت سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاص حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عمر بن عبدالعزیز قاسم عروہ حضرت ابوبکر کی والد حضرت عمر کی اولاد حضرت علی کی اولاد اور ابن سیرین یہ سب کھیتی کرتے تھے حضرت عبدالرحمن بن اسود تابعی کا بیان ہے کہ میں حضرت عبدالرحمن بن یزید کی شرکت میں مزارعت کیا کرتا تھا۔ نیز حضرت عمر نے لوگوں سے اس شرط پر مزارعت کا معاملہ کیا تھا کہ اگر عمر تخم اپنے پاس سے دیں گے تو پیداوار کا نصف حصہ ان کا ہوگا اور اگر وہ لوگ بیج دیں گے تو پیداوار میں اس کے مطابق ان کا حصہ ہوگا (یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی جو بھی مقرر ہوتا ہو) بخاری) تشریح میرک شاہ نے کہا ہے کہ خود بخاری کی عبارت اور اس کی شرحوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوجفعر کی عبارت لفظ والربع پر ختم ہوگئی ہے اس کے آگے وزارع سے آخر تک ساری عبارت خود بخاری کی ہے اور یہ سب آثار (یعنی صحابی یا تابعی کے اقوال) ہیں جن کو بخاری نے چونکہ بغیر اسناد نقل کیا ہے اس لئے معلق ہیں چناچہ مؤلف مشکوۃ کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ روایت کے آخر میں رواہ بخاری تعلیقا ( اس روایت کو بخاری نے بطریق تعلیق نقل کیا ہے) لکھتے۔