86. اجارہ کا بیان

【1】

اجارہ کا بیان

اجارہ کے معنی ہیں کسی چیز کو کرایہ پر دینا اور اصطلاح شریعت میں اجارہ کا مفہوم ہے اپنی کسی چیز کی منفعت کا کسی کو مالک بنا۔ فقہی طور پر قیاس تو یہ کہتا ہے کہ اجارہ میں چونکہ منفعت معدوم ہوتی ہے اس لئے اجارہ جائز ہونا چاہئے لیکن شریعت نے لوگوں کی احتیاج و ضرورت کے پیش نظر اس کو جائز قرار دیا ہے چناچہ اجارہ حدیث وآثار سے ثابت ہے۔

【2】

اجارہ کا جواز

حضرت عبداللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ حضرت ثابت بن ضحاک نے یہ بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے مزارع سے منع فرمایا ہے اور اجارہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں مضائقہ نہیں ہے (مسلم) تشریح مزارعت سے منع فرمایا ہے میں مزارعت سے مراد مزارعت کی وہ صورتیں ہیں جس کا عدم جواز معلوم و متعین ہے اور جن کا تذکرہ گزشتہ باب کی حدیث نمبر ٣ میں (جو حضرت حنظلہ بن قیس سے منقول ہے) کیا گیا ہے۔ ٢) اور حضرت عبداللہ بن عباس راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ بھری ہوئی سینگی کھچوائی اور سینگی کھینچنے والے کو اجرت عطاء فرمائی نیز آپ ﷺ نے اپنی ناک میں دوا ڈالی (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شاخ کشی (سینگی کھینچنے) کا پیشہ اور اجارہ مباح ہے اور علاج کرنا جائز ہے۔

【3】

سرکار دو عالم نے اجرت پر بکریا چرائی ہیں

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نبی مبعوث نہیں کیا ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں یہ سن کر آپ ﷺ کے صحابہ نے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ نے بھی بکریاں چرائی ہیں فرمایا ہاں میں چند قیراط کی اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں چراتا تھا ( بخاری) تشریح منصب نبوت کے فریضہ کی ادائیگی جن اوصاف و خصوصیات کی حامل ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نبی کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے معاشرہ اور سماج سے جو قریبی ربط وتعلق رکھنا پڑتا تھا اس کے لئے چونکہ یہ ضروری تھا کہ دعوت و تبلیغ اور اصلاح اور رہنمائی کے کسی بھی موڑ پر پورے معاشرے کے افراد اور نبی کے درمیان اجنبیت اور غیریت کی دیوار حائل نہ رہے اس لئے قدرت کی طرف سے ابتداء میں نبی کو ایک ایسے تربیتی اور آزمائشی دور سے گزارا جاتا تھا جس کے بعض مرحلے بظاہر تو بہت نچلی سطح کے معلوم ہوتے تھے لیکن نتائج و اثرات کے اعتبار سے وہی مرحلے بہت ہی دور رس اور کار آمد ثابت ہوتے تھے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ بکریوں کا چرانا بھی ہے جو اگرچہ بہت معمولی درجہ کی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی بکریوں کا چرانا محبت و شفقت محنت ومشقت باہمی ربط وتعلق اور عام خیر خواہی ونگہداشت کا ایک بہترین سبق ہے جو کسی رہبرومصلح کی حیات کا ایک بنیادی وصف ہے چناچہ ہر نبی اسی لئے بکریاں چراتا تھا تاکہ اس تجربہ سے گزرنے کے بعد امت کی نگہبانی و شفقت اور معاشرے سے ربط وتعلق کا حقیقی جذبہ پوری زندگی میں سرایت کئے رہے اور قوم کی طرف سے پیش آنیوالی ہر سختی ومشقت پر صبر و تحمل کی قوت حاصل رہے نیز اس ذریعے سے وہ حقیقی خلوت و تنہائی بھی حاصل ہوجاتی تھی جو نبی کی ابتدائی زندگی کا ایک مطلوب ہوتی تھی۔ مذکورہ بالا نکتہ زیادہ واضح ہوجاتا ہے اگر یہ تجزیہ پیش نظر ہو کہ ایک رہبر اور ایک بادشاہ اپنی قوم یا اپنی رعایا کے ساتھ وہی نسبت وتعلق رکھتا ہے جو ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ رکھتا ہے۔

【4】

مزدور کو اس کی مزدروی نہ دینے والے کے لئے وعید

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کرایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی) (بخاری) تشریح اس حدیث میں ایسے تین اشخاص کی نشان دہی کی گئی ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب کا خاص طور سے نشانہ ہوں گے ان میں سے پہلا شخص تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر یعنی اس کی قسم کھا کر کوئی عہد و معاہدہ کرتا ہے اور پھر اس کو توڑ ڈالتا ہے یوں تو عہد معاہدہ کی پاسداری بہرصورت ایک ضروری چیز ہے کیونکہ انسان کی شرافت و انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ جو عہد و معاہدہ کے نام پر کیا جاتا ہے تو پھر اس کی تکمیل کہیں زیادہ ضروری ہوجاتی ہے اس لئے جو شخص اللہ کے نام پر کئے ہوئے عہد و معاہدہ کو توڑتا ہے وہ بجا طور پر غضب الٰہی کا مستحق ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو کسی آزاد انسان کو بیچ ڈالے شرف انسانی کی توہین اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک انسان اپنے ہی جیسے ایک دوسرے آزاد انسان کو ایک بازاری مال بنا دے اور اس کی کی خریدو فروخت کرے چناچہ ایسے شخص کو بھی قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہونا پڑے گا۔ اس بارے میں یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں اس کا مول کھانے کی قید محض زیادتی تنبیہ کے لئے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی آزاد انسان کو فروخت کرنا ہی ایک بڑے گناہ کی بات ہے خواہ اس کا مول کھائے یا نہ کھائے۔ اگر اس کا مول نہیں کھائے گا تب بھی گنہگار ہوگا اور اس وعید میں داخل ہوگا۔ تیسرا شخص وہ ہے جو کسی مزدور کو اپنے کسی کام کی تکمیل کے لئے مزدوری پر لگائے اور اپنا وہ کام پورا کرانے کے بعد اس کی مزدروی نہ دے یہ ایک انتہائی قابل نفریں فعل ہے کسی شخص کی محنت اس کی زندگی کا ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے جسے حاصل کر کے اس کی اجرت نہ دینا شیوؤ انسانیت کے خلاف ہے یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ کوئی غریب اپنا پیٹ بھرنے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر کے کسی کے یہاں محنت کرائی مگر اس کی محنت کی اجرت اسے نہ دی جائے چناچہ ایسے شخص کے بارے میں بھی کہ جو مزدور کی نہ دے اللہ تعالیٰ نے یہ آگاہی دی ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن اپنے اس انسانی ظلم کی ضرور سزا پائے گا۔

【5】

جھاڑ پھونک کرنیوالا اپنے عمل کی اجرت لے سکتا ہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت ایک ایسے گاؤں سے گزری جس میں کسی شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس رکھا تھا چناچہ اس بستی کا ایک شخص ان صحابہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنیوالا بھی ہے کیونکہ ہماری بستی میں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے ؟ (اگر ایسا کوئی شخص ہے تو وہ میرے ساتھ چل کر اس شخص پر دم کر دے) چناچہ ان میں سے ایک صحابی تشریف لے گئے اور انہوں نے بکریوں کے عوض سورت فاتحہ پڑھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میں اس شخص پر اس شرط کے ساتھ جھاڑ پھونک کروں گا کہ میں اس کے عوض اتنی بکریاں لوں گا اسے بستی والوں نے منظور کرلیا لہذا ان صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کیونکہ منقول ہے کہ (فاتحۃ الکتاب شفاء من السم) یعنی سورت فاتحہ زہر کے لئے شفاء ہے لہذا وہ شخص اچھا ہوگیا پھر جب وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان ساتھیوں نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے یہاں تک وہ سب صحابہ مدینہ پہنچے اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! فلاں صحابی نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے ( بخاری) ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرلو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔ تشریح لفظ (سلیم) اور لفظ (لدیغ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی سانپ کا ڈسا ہوا چناچہ روایت کے الفاظ (لدیغ) أو (سلیم) میں او سلیم راوی کے لفظی شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی راوی نے یہ دونوں لفظ نقل کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ مجھے یہ صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر لفظ لدیغ کہا گیا تھا یا لفظ سلیم اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ اکثر وبیشتر لفظ لدیغ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے بچھو کاٹ لے اور سلم کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے سانپ ڈس لے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس موقع پر راوی کو معنی کے اعتبار سے شک ہوا ہے کہ یا تو وہ شخص بچھو کا کاٹا ہوا تھا یا سانپ کا ڈسا ہوا تھا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ جن صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا وہ حضرت ابوسعید خدری تھے اور صحابہ کی وہ جماعت تیس نفوس پر مشتمل تھی اسی اعتبار سے سورت فاتحہ پڑھنے والے صحابی نے تیس بکریاں لی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان بکریوں میں اپنا حصہ لگانے کے لئے اس واسطے فرمایا تاکہ وہ صحابہ خوش بھی ہوں اور یہ بھی جان لیں کہ سروۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عوض حاصل ہونیوالی بکریاں بلا شک وشبہ حلال ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیتوں اور ذکر اللہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز ہے چناچہ عامل روحانیات یعنی قرآن کریم کی آیتوں اور دیگر منقول دعا وعملیات کے ذریعے علاج کرنیوالے اپنے عمل یعنی تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی جو اجرت لیتے ہیں اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ تلاوت قرآن کی اجرت لینا جائز ہے کیونکہ ان دونوں میں فرق ہے اور وہ یہ کہ تلاوت قرآن ایک عبادت ہے اور عبادت کی قیمت لینا قطعًا جائز نہیں ہے اور کسی مریض و دکھی شخص پر قرآن پڑھ کر دم کرنا اور اس کی برکت سے شفاء حاصل ہوجانا عبادت نہیں ہے لہذا اس کی اجرت لینا جائز ہے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ مصحف یعنی قرآن کریم کو کتابی صورت میں بیچنا اس کو خریدنا اجرت پر اس کی کتابت کرنا اور دین کی دوسری کتابوں کو مزدوری پر لکھنا جائز ہے۔ اسی طرح متاخرین یعنی بعد کے علماء نے قرآن کریم کی تعلیم کو بھی اس پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم قرآن کی اجرت لینا جائز ہے جب کہ متقدمین یعنی پہلے زمانے کے علماء جیسے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ وغیرہ نے تعلیم قرآن کی اجرت لینے کو حرام کہا ہے۔

【6】

جس طرح غیرشرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے

حضرت خارجہ بن صلت اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ رسول کریم ﷺ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ہمارا گزر عرب کے ایک قبیلے پر ہوا جس کے کچھ لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم اس شخص (یعنی رسول کریم ﷺ کے پاس سے بھلائی (یعنی قرآن پاک اور ذکر اللہ) لے کر آئے ہو تو کیا تمہارے پاس کوئی دوا یا جھاڑ پھونک بھی ہے ؟ کیونکہ ہمارے ہاں ایک شخص پاگل ہوگیا ہے جو بیڑیوں میں جکڑا پڑا ہے ہم نے کہا ہاں (ہمارے پاس ایسا عمل ہے جس سے ہم اس کا علاج کرسکتے ہیں) چناچہ وہ اس پاگل کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاس لائے اور میں نے اس پر تین دن تک صبح وشام سورت فاتحہ اس طرح پڑھی کہ (پڑھتے وقت) اپنا تھوک جمع کرتا رہتا اور پھر (پڑھنے کے بعد) اس پر تھوک دیتا راوی کہتے ہیں کہ میرے چچا نے فرمایا کہ اس کے بعد (وہ اتنی جلدی اچھا ہوگیا) گویا اسے بندھی ہوئی رسی سے کھول دیا گیا ہے پھر انہوں نے مجھے اس کی اجرت کے طور پر کوئی چیز دی تو میں نے کہا کہ یہ چیز اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک کہ میں اس کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے نہ پوچھ لوں چناچہ ( میں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے اسے کھالو کیونکہ قسم ہے اپنی زندگی کی جو شخص باطل منتر کی اجرت کھاتا ہے وہ برا کرتا ہے تم نے تو حق اور سچے منتر کی اجرت کھائی ہے ( احمد ابوداؤد) تشریح باطل منتر ایسی جھاڑ پھونک کو کہتے ہیں جس میں ستاروں اور ارواح خبیثہ جنات اور اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کا ذکر ہو اور ان میں سے مدد مانگی جاتی ہو چناچہ ایسے عملیات جو غیر اللہ کے ذکر یا غیر اللہ سے مدد مانگنے کی وجہ سے غیر شرعی ہوں جس طرح ان کو اختیار کرنا ناجائز ہے اسی طرح ان کی اجرت کھانا بھی حرام ہے۔ حق منتر ایسی جھاڑ پھونک اور عملیات کو کہتے ہیں جن میں ذکر اللہ اور قرآن کریم کی آیتیں ہوں خواہ ان کا تعلق پڑھ کر دم کرنے سے ہو یا تعویذ وغیرہ لکھ کردینے سے ہو۔ حدیث کے الفاظ فلعمری (یعنی قسم ہے اپنی زندگی کی) سے یہ اشکال واقع ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسری چیزوں کی قسم کھانا منع ہے پھر آپ ﷺ نے اپنی زندگی کی قسم کس طرح کھائی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ فلعمری سے قسم مراد نہیں ہے بلکہ دراصل یہ اہل عرب کے کلام کا ایک خاص لفظ ہے جو اکثر وبیشتر دوران گفتگو ان کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس قسم کی قسمیں کھانے کی اجازت حاصل ہو لہذا اس کا تعلق ان چیزوں سے ہوگا جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ مختص ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے لئے تو جائز تھیں دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے۔

【7】

مزدور کو اس کی مزدوری دینے میں تاخیر نہ کرو

اور حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیدو یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کرچکے تو اس کی مزدوری فورًا دیدو اس میں تاخیر نہ کرو (ابن ماجہ) اور حضرت حسین بن علی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے سائل کے بارے میں فرمایا کہ وہ بہرصورت دئیے جانے کا مستحق ہے اگرچہ گھوڑے پر آئے ( احمد ابوداؤد) اور مصابیح میں کہا گیا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے) تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ تعلیم دینا ہے کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ کرنا چاہئے اگرچہ وہ گھوڑے پر چڑھ کر بھی مانگنے آئے تو اس کا سوال پورا کیا جائے۔ چناچہ قاضی نے کہا ہے کہ سائل کو خالی نہ پھیرو اگرچہ ایسی حالت میں تمہارے پاس مانگنے آئے جو اس کے مستغنی ہونے پر دلالت کرے کیونکہ تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اسے سوال کرنے کی حاجت نہ ہوتی تو وہ اپنا دست سوال دراز کر کے تمہارے آگے اپنے آپ کو ذلیل و خوار کیوں کرتا۔ یہ حدیث بظاہر اس باب سے کوئی مناسب نہیں رکھتی سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ سائل کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ گویا اس کے سوالی کی اجرت ہے لہذا اس مناسبت سے اس حدیث کو باب الاجرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث کی اسناد میں علاء نے نقل کیا ہے چناچہ حضرت امام احمد نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے اور کہا ہے کہ یہ بازار میں گشت کرتی ہے۔ امام ابوداؤد نے البتہ اس بارے میں سکوت اختیار کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث قابل استدلال ہے مصابیح میں اس حدیث کو مرسل کہا گیا ہے لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ مسند ہے چناچہ مصابیح کے بعض نسخوں میں لفظ مرسل مذکور بھی نہیں ہے۔

【8】

مزدروی کے سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر

حضرت عتبہ بن منذر کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے طسم پڑھی اور جب آپ ﷺ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے اور پیٹ بھرنے کے لئے اپنے آپ کو آٹھ سال یا دس سال تک مزدوری میں دے رکھا تھا ( احمد ابن ماجہ) تشریح طسم یعنی سورت قصص میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ مدین پہنچے وہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) سے ان کی ملاقات ہوئی پھر ان کی صاحبزادی سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نکاح ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے عوض میں اپنے آپ کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی مزدوری میں دیا چناچہ آنحضرت ﷺ اس سورت کی تلاوت کے وقت جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس تذکرہ پر پہنچے تو آپ ﷺ نے مذکورہ بالا کلام ارشاد فرمایا۔ شرم گاہ بچانے سے مراد نکاح ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی صاحبزادی سے اس معاہدہ پر نکاح کیا کہ میں آٹھ یا دس سال تک تمہاری بکریاں چراؤں گا گویا اتنی مدت تک بکریاں چرانے کو انہوں نے اپنی بیوی کا مہر قرار دیا چناچہ ان کی شریعت میں یہ جائز تھا کہ آذاد شخص کی خدمت کو اس کی بیوی کا مہر قرار دیا جاسکتا تھا۔ لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس معاملے میں یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کا مہر تو کچھ اور مقرر کیا ہوگا اور بکریاں چرانے کی یہ خدمت بطریق احسان قبول کی ہوگی۔

【9】

خاوند کی خدمت بیوی کا مہر ہوسکتا ہے یا نہیں؟

اس بارے میں علماء کا فقہی اختلاف ہے چناچہ حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے کہ کسی عورت کا نکاح اس چیز کے عوض کیا جائے کہ اس کا آزاد خاوند مثلا ایک سال تک اس کی خدمت کرے گا ہاں یہ جائز ہے کہ عورت کا نکاح اس چیز کے عوض میں کیا جائے کہ اس کے خاوند کا غلام مثلا ایک سال تک اس کی خدمت کرے گا۔ شافعی علماء کے نزدیک بعض کاموں کی مزدوری و خدمت کے عوض نکاح کرنا درست ہے جب کہ مستاجر لہ وہ ( وہ کام جو اجیر ومزدور انجام دے) اور مخدوم فیہ (وہ خدمت جو انجام دی جائے) معلوم و متعین چیز ہو

【10】

دین کی تعلیم دینے کی اجرت لینے کا مسئلہ

اور حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شخص نے مجھے بطور تحفہ ایک کمان بھیجی ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہیں میں کتاب و قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں (اس کمان کو قبول کرلینے میں اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے) کہ کمان کوئی مال نہیں ہے۔ چناچہ اس کمان کے ذریعے اللہ کے راستہ (یعنی جہاد) میں تیر اندازی کروں گا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے کو آگ کا طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کرلو ( ابوداؤد ابن ماجہ) تشریح کمان کوئی مال نہیں ہے سے حضرت عبادہ کی یہ مراد تھی کہ کمان ایسی چیز نہیں ہے جسے مال یا اجرت شمار کیا جائے بلکہ یہ تو لڑائی کا ایک سامان ہے جسے میں اللہ کی راہ میں استعمال کروں گا بایں طور کہ جہاد میں اس کے ذریعے تیر اندازی کروں گا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں متنبہ فرمایا کہ یہ کمان اگرچہ تمہیں کلام اللہ کی تعلیم کی اجرت کے طو پر نہیں ملی ہے اور نہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے اجرت شمار کیا جاسکے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ تمہارے اس اخلاص کو ختم کردیگی جو تمہاری خدمت تعلیم کا محور تھا جس سے سرشار ہو کر تم نے ان لوگوں کو قرآن ودین کی تعلیم دی تھی لہذا تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم اسے قبول نہ کرو جو علماء قرآن ودین کی علیم دینے کی اجرت لینے کو حرام کہتے ہیں وہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے استدلال کرتے ہیں۔