88. عطایا کا بیان

【1】

عطایا کا بیان

عطایا لفظ عطیہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں بخشش یعنی اپنی کسی چیز کی ملکیت اور اس کے حق تصرف کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کردینا یا کسی کو اپنی کوئی چیز بلا کسی عوض دے دینا چناچہ اس باب میں عطاء و بخشش کی تمام قسموں مثلًا وقف ہبہ عمری اور رقبی کا ذکر کیا جائے گا۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ عطایا سے مراد امراء و سلاطین اور سربراہان مملکت کی بخششیں اور ان کے انعام ہیں۔ امام غزالی نے منہاج العابدین میں لکھا ہے کہ امراء و سلاطین کی بخششوں اور سرکاری انعامات کو قبول کرنے کے سلسلے میں میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ بعض علاء تو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بخشش انعام کسی ایسے مال کی صورت میں ہو جس کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو تو اسے قبول کرلینا درست ہے لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ جب تک اس مال کے حلال ہوجانے کا یقین نہ ہو تو اسے قبول نہ کرنا ہی اولی ہے اور زیادہ بہتر ہے کیونکہ موجودہ زمانے میں سلاطین کے پاس اور سرکاری خزانوں میں اکثر وبیشتر غیرشرعی ذرائع سے حاصل ہونیوالا مال وزر ہوتا ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ غنی اور فقیر (یعنی مستطیع ومفلس) دونوں کے لئے امراء و سلاطین کے صلے (تحفے وہدایا) حلال ہیں جب کہ ان کا مال حرام ہونا تحقیقی طور پر ثابت نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کا تحفہ قبول فرمایا تھا اور ایک یہودی سے قرض لیا تھا باوجود یہ کہ یہودیوں کے بارے میں قرآن کریم نے آیت (اکالون للسحت) ( حرام مال کھانیوالے) فرمایا ہے۔ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ جس مال کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو وہ فقیر (مفلس) کے لئے تو حلال ہے لیکن غنی مستطیع کے لئے حلال نہیں ہے۔ آخر میں خلاصہ طے طور پر یہ مسئلہ جان لیجئے کہ جو شخص مفلس ونادار ہو اس کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ سلاطین کا مال قبول کرے کیونکہ اگر وہ مال سلطان کی ذاتی ملکیت میں سے ہے تو اس کو لے لینا بلاشبہ درست ہے اور اگر وہ مال فئی مال غنیمت خراج یا عشر میں سے ہے تو پھر مفلس اس کا حقدار ہی ہے اسی طرح ایسے مال میں جو فئی اور خراج عشر میں حاصل ہوا ہو اہل علم کا بھی حق ہے کہ اسے وہ مال لے لینا چاہئے چناچہ منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ جو شخص برضا ورغبت اسلام میں داخل ہوا اور اس نے قرآن یاد کیا تو وہ بیت المال سے ہر سال دو سو درہم لینے کا حق دار ہے اگر وہ اپنے اس حق کو دنیا میں نہیں لے گا تو وہ یعنی اس کا اجر اسے عقبی میں مل جائے گا۔ لہذا ثابت ہوا کہ مفلس اور عالم دین کو بیت المال سے اپنا حق لے لینا چاہئے۔

【2】

حضرت عمر کی طرف سے اپنی خیبر کی زمین کا وقف نامہ

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ خیبر کی کچھ زمین کہ جس میں کھجوریں پیدا ہوتی تھیں حضرت عمر کو مال غنیمت کے حصے کے طور پر ملی تو وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے خیبر میں اپنے حصے کی ایسی زمین پائی ہے کہ اس سے زیادہ بہتر و عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا ہے اور اب میں چاہتا ہوں کہ اس زمین کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں دیدوں اس لئے) آپ ﷺ مجھے حکم فرمائیے ( کہ میں اس بارے میں کیا کروں) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو تو اصل زمین کو وقف کردو اور اس سے جو کچھ پیدا ہو اسے بطور صدقہ تقسیم کردو چناچہ حضرت عمر نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ اللہ کی راہ میں دیدیا یعنی اسے وقف کردیا کہ اصل زمین کو نہ تو فروخت کیا جائے نہ ہبہ کیا جائے اور نہ اسے کسی کی میراث قرار دی جائے اور اس کی پیداوار کو بطور صدقہ اس طرح صرف کیا جائے کہ اس سے فقیروں قربتداروں کو نفع پہنچایا جائے غلاموں کی مدد کی جائے یعنی جس طرح مکاتب کو زکوٰۃ دیدی جاتی ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنے مالک کو بدل کتابت دے کر آزاد ہوجائے اسی طرح اس زمین کی پیداوار سے بھی مکاتب کی اعانت کی جائے اللہ کی راہ میں یعنی غازیوں اور حاجیوں پر خرچ کیا جائے مسافروں کی ضرورتیں پوری کی جائیں باوجودیکہ وہ اپنے وطن میں مال و زر کے مالک ہوں) اور مہمانوں کی مہمانداری کی جائے اور اس زمین کا متولی بھی بقدر حاجت اس میں سے کھائے یا اپنے اہل و عیال کو کہ جو مستطیع نہ ہونے کی وجہ سے اس کے زیر کفالت ہوں کھلائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے بشرطیکہ وہ متولی اس وقف کی آمدنی سے مالدار نہ بنے یعنی جو شخص اس زمین کی دیکھ بھال کرنے اور اس کی پیداوار کو مذکورہ بالا لوگوں پر خرچ کرنے کی ذمہ داری پر بطور متولی معمور کیا جائے اگر وہ بھی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے اس زمین کی پیداوار اور آمدنی میں سے کچھ لے لیا کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہاں البتہ اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اس زمین کے ذریعے مالدار ومتمول بن جائے چناچہ ابن سیرین نے غیرمتمول کا مطلب یہی بیان کیا ہے کہ وہ متولی اس زمین کو اپنے لئے مال و زر جمع کرنے کا ذریعہ نہ بن جائے ( بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث وقف کے صحیح ہونے کی دلیل ہے چناچہ تمام مسلمانوں کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوئی جائیداد مثلا زمین ومکان وغیرہ کسی نیک مقصد اور اچھے کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی راہ میں وقف کردیتا ہے تو یہ جائز ہے اور وہ وقف کرنیوالا بیشمار اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وقف جائیداد نہ فروخت کی جاسکتی ہے اور نہ ہبہ ہوسکتی ہے اور نہ کسی کی میراث بن سکتی ہے۔ یہ حدیث وقف کو بھی ظاہر کرتی ہے کیونکہ وقف ایک صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب وقف کرنیوالے کو برابر ملتا رہتا ہے۔ خیبر ایک بستی کا نام ہے جو مدینہ سے تقریبا ٦٠ میل شمال میں ایک حرے کے درمیان واقع ہے اس علاقے میں کھجور وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اس بستی پر مسلمانوں نے عنوۃ یعنی بزور طاقت فتح اور غلبہ حاصل کیا تھا اسی موقع پر غانمین یعنی مال غنیمت لینے والے اس کی زمین و باغات کے مالک قرار پائے اور انہوں نے اسے آپس میں تقسم کیا جس کا ایک حصہ حضرت عمر فاروق کو بھی ملا اپنے اسی حصے کی زمین کو انہوں نے اللہ کی راہ میں وقف کردیا شرح السن میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وقف کرنیوالے کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے اس وقف سے بقدر ضرورت نفع حاصل کرے بایں طور کہ اس آمدنی کا کچھ حصہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی پر خرچ کرے یا اس سے فائدہ اٹھائے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کے مذکورہ وقف نامہ کی شرائط کی گویا توثیق فرما کر وقف کی آمدنی میں سے بقدر ضرورت حصہ اس شخص کے لئے مباح قرار دیا جو اس کا متولی ہو اور یہ بالکل ظاہر بات ہے کہ وقف کرنیوالا اپنے وقف کا متولی ہوتا ہے۔ نیز اس بات کی دلیل یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر یہ فرمایا کہ ایسا کوئی شخص ہے جو بیر رومہ مدینہ کا ایک کنواں جو ایک یہودی کی ملکیت تھا) خریدے جو شخص اس کنویں کو خرید کر عام مسلمانوں کے لئے وقف کر دے گا تو اس کنویں میں اس شخص کا ڈول مسلمانوں کے ڈول کی طرح ہوگا یعنی جس طرح عام مسلمان اس کنویں سے پانی حاصل کریں گے اسی طرح وہ شخص بھی اس سے پانی حاصل کرتا رہے گا چناچہ حضرت عثمان غنی نے اس کنویں کو خرید لیا اور عام مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔

【3】

عمری جائز ہے

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا عمری جائز ہے (بخاری ومسلم) تشریح آپ کا لین دین معاشرہ انسانی کے باہمی ربط وتعلق کے استحکام کا ذریعہ ہے آپس کے تعلقات ایک دوسرے سے محبت اور باہمی ارتباط کی خوشگواری وپائیداری آپس کے ہدایا وتحائف پر بھی منحصر ہوتی ہے کیونکہ اس ذریعہ فطرت انسانی ایک خاص قسم کی محبت ومسرت اور جذبہ ممنونیت سے سرشار ہوتی ہے۔ یہ آپس کا لین دین کئی طریقوں سے ہوتا ہے ہدیہ وتحفہ اور ہبہ کے ساتھ ساتھ ایک صورت عمری بھی ہے جو بظاہر ہبہ کی ایک شاخ ہے چناچہ حدیث بالا اسی کے جواز کو ظاہر کر رہی ہے۔

【4】

عمری کیا ہے

ابتداء باب کے حاشیہ میں عمری کے معنی بیان کئے جا چکے ہیں چناچہ اس موقع پر بھی جان لیجیے کہ عمری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تمہیں تمہاری زندگی تک کے لئے دیا یہ جائز ہے اس صورت میں جب تک وہ شخص جس کو مکان دیا گیا ہے زندہ ہے اس سے وہ مکان واپس نہیں لیا جاسکتا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد وہ مکان واپس لیا جاسکتا ہے یا نہیں اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ عمری کی تین صورتیں ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ کوئی شخص مثلا اپنا مکان کسی کو دے اور یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تمہیں دیدیا جب تک تم زندہ رہو گے یہ تمہاری ملکیت میں رہے گا تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں اور اولاد کا ہوجائے گا اس صورت کے بارے میں تمام علماء کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ یہ ہبہ ہے اس صورت میں مکان مالک کی ملکیت سے نکل جاتا ہے اور جس شخص کو دیا گیا ہے اس کی ملکیت میں آجاتا ہے اس شخص کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء اس مکان کے مالک ہوجاتے ہیں اگر ورثاء نہ ہوں تو بیت المال میں داخل ہوجاتا ہے۔ عمری کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ دینے والا بلا کسی قید وشرط کے یعنی مطلقا یہ کہے کہ یہ مکان تمہاری زندگی تک تمہارا ہے اس صورت کے بارے میں علماء کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا بھی حکم وہی ہے جو پہلی صورت کا حکم ہے چناچہ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے اور بعد اس کے وارثوں کا حق نہیں ہوتا بلکہ اصل مالک یعنی جس نے اس شخص کو دیا تھا کی ملکیت میں واپس آجاتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دینے والا یوں کہے کہ یہ مکان تمہاری زندگی تک تمہارا ہے تمہارے مرنے کے بعد میری اور میرے وارثوں کی ملکیت میں آجائے گا اس صورت کے بارے میں بھی زیادہ صحیح یہی بات ہے کہ اس کا حکم بھی وہی ہے جو پہلی صورت ہے حنفیہ کے نزدیک یہ شرط کہ تمہارے مرنے کے بعد میری اور میرے وارثوں کی ملکیت میں آجائے گا فاسد ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ کسی فاسد شرط کی وجہ سے فاسد نہیں ہوتا۔ حضرت امام شافعی کا بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے لیکن حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ عمری کی یہ صورت ایک فاسد شرط کی وجہ سے فاسد ہے۔ عمری کے بارے میں حضرت امام مالک کا یہ قول ہے کہ اس کی تمام صورتوں میں بنیادی مقصد دی جانیوالی چیز کی منفعت کا مالک کرنا ہوتا ہے۔

【5】

عمری معمرلہ کے ورثاء کی ملکیت بن جاتا ہے

اور حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا عمری اپنے مالک یعنی معمرلہ کے ورثاء کی میراث ہوجاتا ہے ( مسلم) تشریح معمرلہ اس شخص کو کہتے ہیں جسے بطور عمری کوئی چیز دی جاتی ہے چناچہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو مثلا کوئی مکان بطور عمری دیا جاتا ہے وہ مکان اس کی زندگی تک تو اس کی ملکیت رہتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت بن جاتا ہے گویا یہ حدیث اپنے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے جمہور علماء کے مسلک کی دلیل ہے۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص اور اس کے ورثاء کو کوئی چیز بطور عمری دی جاتی ہے تو وہ عمری اسی شخص کا ہوجاتا ہے جسے وہ دیا گیا ہے (یعنی وہ چیز اس کی ملکیت ہوجاتی ہے) عمری دینے والے کی ملکیت میں واپس نہیں آتا کیونکہ دینے والے نے اس طرح دیا ہے کہ اس میں میراث جاری ہوجاتی ہے (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو چیز کسی شخص کو بطور عمری دی جاتی ہے وہ اس شخص کی ہوجاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کی ملکیت میں چلی جاتی ہے دینے والے کی ملکیت میں واپس نہیں آتی۔ حضرت ابوہریرہ کی جو روایت (٢) اوپر گزری ہے اس کی تشریح کے ضمن میں عمری کی تین صورتیں بیان کی گئی تھیں اس حدیث میں انہیں سے پہلی صورت کا بیان ہے اس بارے میں جو فقہی اختلاف ہے اس کی تفصیل وہاں ذکر کی جا چکی ہے

【6】

مسلک جمہور کے خلاف حضرت جابر کی روایت اور اس کی تاویل

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے عمری کی جس صورت کو جائز قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ مالک یعنی دینے والا یوں کہے کہ یہ چیز تمہاری زندگی تک تمہاری ہے اور تمہارے مرنے کے بعد تمہارے ورثاء کی ہے اور اگر صرف یوں کہے کہ یہ عمری تمہاری زندگی تک تمہارے لئے ہے تو اس صورت میں اس شخص کے مرنے کے بعد وہ عمری مالک یعنی دینے والے کی ملکیت میں واپس آجائے گا ( بخاری ومسلم) تشریح یہ حدیث بظاہر جمہور علماء کے مسلک کے خلاف ہے اور جمہور علماء کا مسلک حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کی تشریح میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ لہذا جمہور علماء اس حدیث کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع نہیں ہے یعنی یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نہیں ہے بلکہ خود حضرت جابر کا اپنا قول ہے جو ان کی اپنی رائے اور اپنے اجتہاد پر مبنی ہے اس صورت میں اس قول کا جمہور علماء کے مسلک پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

【7】

عمری اور قبی سے آنحضرت ﷺ کی ممانعت اور اس کی وضاحت

حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ رقبی کرو اور نہ عمری کرو کیونکہ جو چیز یعنی مثلا مکان یا زمین) بطور رقبی یا بطور عمری دی جاتی ہے وہ اس کے ورثاء کی ملکیت میں چلی جاتی ہے ( ابوداؤد) تشریح عمری کی طرح رقبی بھی ہبہ ہی کی ایک شاخ ہے اس کی وضاحت بھی ابتداء باب کے حاشیہ میں کی جا چکی ہے چناچہ رقبی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے یہ کہے کہ میں اپنا مکان تمہیں اس شرط کے ساتھ دیتا ہوں کہ اگر میں تم سے پہلے مرگیا تو یہ مکان تمہاری ملکیت میں رہے گا اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو پھر یہ میری ملکیت میں آجائے گا رقبی مشتق ہے ارقاب سے جو مراقبہ کے معنی میں ہے گویا رقبی میں ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا ہے۔ اس حدیث میں عمری اور رقبی سے منع کیا گیا ہے اور اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ تم جو چیز بطور عمری یا رقبی کسی کو دیتے ہو وہ اس شخص کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور تمہاری ملکیت چونکہ کلیۃً ختم ہوجاتی ہے اس لئے اس شخص کے مرنے کے بعد وہ چیز اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوجاتی ہے لہذا تم اپنے مال کو بطور عمری یا رقبی اپنی ملکیت سے نکال کر اپنا نقصان نہ کرو۔ اب رہی یہ بات کہ جب پہلے ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ عمری اور رقبی جائز ہیں تو پھر اس ممانعت کا محمول کیا ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو یہ ممانعت اس وقت فرمائی گئی ہوگی جب یہ دونوں جائز نہیں تھے اس صورت میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ عمری اور رقبی اگرچہ مصلحت کے خلاف ہیں لیکن جب یہ وقوع پذیر ہوجاتے ہیں (یعنی کسی کو کوئی چیز بطور عمری یا رقبی دیدی جاتی ہے) تو شرعی طور پر یہ صحیح ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز نہ صرف اس کی ملکیت میں آجاتی ہے کہ جس کو دی گئی ہے بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں پہنچ جاتی ہے اس صورت میں اس حدیث کو منسوخ قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ عمری کے بارے میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ حنفیہ کے ہاں جائز ہے لیکن رقبی کے بارے میں ملا علی قاری یہ لکھتے ہیں کہ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کے نزدیک تو جائز نہیں ہے لیکن حضرت امام ابویوسف کے قول کے مطابق جائز ہے۔ حنفی علماء میں سے بعض شارحین حدیث نے اس حدیث کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ یہ نہی (ممانعت) ارشادی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنا مال کسی مدت متعینہ تک کے لئے ہبہ نہ کرو کہ جب وہ مدت پوری ہوجائے تو اپنا مال واپس لے لو کیونہ جب تم اپنی کوئی چیز کسی کو دیدو تو وہ تمہاری ملکیت سے نکل گئی اب وہ تمہاری ملکیت میں نہیں آئے گی خواہ تم وہ چیز ہبہ کی صراحت کر کے دو یا عمری اور رقبی کے طور پر دو ۔

【8】

عمری اور رقبی جائز ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے مال اپنے پاس رکھو ان میں نقصان پیدا نہ کرو کیونکہ جو شخص کسی کو اپنی کوئی چیز عمری کے طور پر دیتا ہے تو وہ چیز یعنی مکان یا زمین کہ جو بطور عمری دی گئی ہے زندگی وموت دونوں حالت میں اس شخص کی ملکیت رہتی ہے جسے وہ چیز بطور عمری دی گئی ہے بایں طور کہ جب تک وہ زندہ رہتا ہے تو خود اس چیز کا مالک رہتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد پھر اس کی اولاد مالک ہوجاتی ہے (مسلم) تشریح اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر عمری کے جواز میں اشکال پیدا ہوسکتا ہے لیکن دوسری فصل کی حدیث نمبر ٦ کی وضاحت اگر پیش نظر رہے تو یہ اشکال ختم ہوجائے گا کیونکہ اس حدیث کی تاویل بھی وہی ہے جو اس حدیث کی بیان کی گئی ہے۔

【9】

خوشبودار پھول کا تحفہ واپس نہ کرو

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو خوشبودار پھول تحفہ کے طور پر دیا جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے کیونکہ اول تو وہ سبکسار (یعنی بہت ہلکا احسان) ہے اور دوسرے یہ کہ وہ ایک اچھی خوشبو ہے ( مسلم) تشریح یہی حکم کہ اسے واپس نہ کیا جائے ہر اس تحفہ کا ہے جو بظاہر کم تر ہونے کی وجہ سے زیادہ احسان نہ رکھتا ہو مگر نفع وخوشگواری کے اعتبار سے بہت مفید اور نافع ہو تاکہ جس شخص نے وہ تحفہ دیا ہے اس کی دل شکنی نہ ہو ٢) اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ خوشبو کے تحفے کو واپس نہیں کیا کرتے تھے ( بخاری)

【10】

کسی کو کوئی چیز دے کر پھر واپس لے لینا ایک بری مثال ہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے ہبہ کو واپس لینے والا یعنی کسی کو کوئی چیز بطور ہدیہ وتحفہ دے کر پھر اسے واپس لے لینے والا) اس کتے کی طرح ہے جو اپنی قے چاٹتا ہے اور ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم کسی بری مثال سے تشبیہ دئیے جائیں ( بخاری) تشریح حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ملت اور ہماری قوم جس عزوشرف کی حامل ہے اور اس انسانیت کے جن اعلی اصول اور شرافت وتہذیب کے جس بلند معیار سے کے نوازا گیا ہے اس کے پیش نظر ہماری ملت وقوم کے کسی بھی فرد کے لئے یہ بات قطعًا مناسب نہیں ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام کرے جو اس کے ملی شرف اور اس کی قومی عظمت کے منافی ہو اور اس کی وجہ سے اس پر کوئی بری مثال چسپاں کی جائے۔ اس سے گویا آپ ﷺ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ کسی کو کوئی چیز بطور ہدیہ وتحفہ دے کر واپس لینا چونکہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کتا اپنی قے چالٹ لیتا ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی کوئی چیز ہدیہ کرے اور پھر اسے واپس لے لے اور اس طرح اس پر یہ بری مثال چسپاں کی جانے لگے۔ یہ تو حدیث کی وضاحت اور اس سے پیدا ہونیوالا ایک اخلاقی اور نفسیاتی پہلو تھا لیکن اس کا فقہی اور شرعی پہلو یہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق کسی کو کوئی چیز بطور ہبہ یا بطور صدقہ دینا اور پھر لینے والے کے قبضے میں اس چیز کے چلے جانے کے بعد اس کو واپس لے لینا جائز تو ہے مگر مکروہ ہے البتہ بعض صورتوں میں جائز نہیں ہے جس کی تفصیل دوسری فصل کی پہلی حدیث کے ضمن میں ذکر کی جائے گی اور اس بارے میں ایک حدیث بھی منقول ہے۔ یہاں مذکور بہ حدیث کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کراہت پر محمول ہے اور اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ کسی کوئی چیز دے کر واپس لے لینا بےمروتی اور غیرپسندیدہ بات ہے لیکن بقیہ تینوں ائمہ یعنی حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل کے نزدیک چونکہ یہ حدیث حرمت پر محمول ہے اس لئے ان تینوں کا مسلک یہ ہے کہ ہدیہ اور صدقہ دے کر واپس لے لینا جائز نہیں ہے البتہ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو کوئی چیز ہبہ کرے تو وہ اس سے واپس لے سکتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد کا قول بھی یہی ہے اور آگے آنیوالی بعض احادیث بھی ان پر دلالت کرتی ہیں لیکن ان احادیث کے جو معنی حنفیہ نے مراد لئے ہیں وہ بھی آگے مذکور ہوں گے۔

【11】

کوئی چیز دینے میں اولاد کے درمیان فرق وامتیاز نہ کرو

اور حضرت نعمان بن بشیر کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے والد حضرت بشیر انہیں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے (نعمان) کو ایک غلام عطاء کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر نعمان سے بھی اس غلام کو واپس لے لو ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے نعمان کے والد سے فرمایا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تہارے سب بیٹے تمہاری نظر میں نیکی کے اعتبار سے یکساں ہوں (یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو، کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہاری نظر میں نیکی کے اعتبار سے یکساں ہوں یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں اور سب ہی تمہاری فرمانبرداری اور تمہاری تعظیم کریں انہوں نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس صورت میں (جب کہ تم نے اپنے تمام بیٹوں سے اپنے تئیں یکساں اچھے سلوک کے خواہشمند ہو تو) صرف اپنے ایک بیٹے (نعمان) کو غلام نہ دو ۔ ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ حضرت نعمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے ایک چیز دی تو عمرہ بنت رواحہ میری والدہ نے میرے والد حضرت بشیر سے کہا کہ میں اس پر اس وقت تک رضا مند نہیں ہوں جب تک کہ تم اس ہبہ پر رسول کریم ﷺ کو گواہ نہ بنا لو چناچہ حضرت بشیر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو جو عمرہ بنت رواحہ کے بطن سے ہے ایک چیز دی ہے اور عمرہ بنت رواحہ نے مجھ سے کہا کہ میں اس ہبہ پر آپ ﷺ کو گواہ بنا لوں۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ جس طرح تم نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے کیا اسی طرح اپنے سب بیٹوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو حضرت نعمان کہتے ہیں کہ میرے والد (آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی سن کر) واپس آئے اور مجھے جو چیز دی تھی وہ واپس لے لی۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت بشیر کی یہ بات سن کر فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا ( بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے درمیان فرق و امتیاز کرنا انتہائی نامناسب ہے چناچہ ارشاد گرامی کی روشنی میں یہ مستحب ہے کہ کوئی چیز اپنے کسی ایک بیٹے بیٹی کو نہ دی جائے بلکہ وہ چیز برابری کے طور پر سب بیٹے بیٹیوں کو دی جائے۔ حضرت بشیر کو آنحضرت ﷺ کا یہ حکم کہ اس غلام کو واپس لے لو اولویت پر محمول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس غلام کو واپس لے لینا ہی اولی اور زیادہ بہتر ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد میں بعضوں کو کچھ دی تو اس کا ہبہ صحیح ہوگا مگر کراہت کے ساتھ۔ اس کے برعکس حضرت امام احمد ثوری اور اسحق وغیرہ کے نزدیک یہ حرام ہے آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی حدیث (لا اشہد علی جور) (میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا) ان حضرات کی دلیل ہے جب کہ اول الذکر یعنی حضرت امام ابوحنیفہ آپ ﷺ کے الفاظ مبارک سے استدلال کرتے ہیں جو ایک روایت میں منقول ہیں کہ (فاشہد علی ہذا غیری) (یعنی آپ ﷺ نے بشیر سے کہا کہ تم اس بارے میں میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر یہ ہبہ (یعنی حضرت بشیر کا اپنے ایک بیٹے کو غلام دینا) حرام یا باطل ہوتا تو آپ ﷺ یہ نہ فرماتے کہ کسی اور کو گواہ بنا لو کیونکہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بشیر کا یہ ہبہ بہرحال صحیح اور جائز تھا لیکن چونکہ غیرپسندیدہ اور مکروہ تھا اس لئے آپ ﷺ نے خود گواہ بننا مناسب نہیں سمجھا اور یہ فرما دیا کہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔

【12】

ہبہ واپس لے لینا مناسب نہیں ہے

حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص اپنا ہبہ واپس نہ لے (یعنی ہبہ واپس لے لینا مناسب نہیں ہے) ہاں باپ بیٹے سے ہبہ واپس لے سکتا ہے (نسائی ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث امام شافعی کی دلیل ہے کیونکہ ان کے ہاں ہبہ واپس لے لینا جائز نہیں ہے لیکن باپ اپنے بیٹے سے اپنا ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ حضرت امام اعظم فرماتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے سے اپنا ہبہ واپس لے سکتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی باپ ضرورت و حاجت کے وقت اپنی اولاد کے مال و زر میں سے کچھ لے کر اپنے اوپر صرف کرسکتا ہے اسی طرح جو چیز اس نے اپنے بیٹے کو بطور ہبہ دی ہے بوقت ضرورت اس کو لے کر اپنے مصرف میں لاسکتا ہے۔

【13】

سات صورتوں میں ہبہ واپس لے لینا جائز نہیں ہے

یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں ہبہ واپس لے لینا جائز ہے لیکن مکروہ ہے چناچہ جن احادیث سے ہبہ واپس لے لینے کا عدم جواز معلوم ہوتا ہے وہ ان کو کراہت پر محمول کرتے ہیں ہاں ہبہ کی سات صورتیں ایسی ہیں جن میں امام اعظم کے نزدیک بھی اپنا ہبہ واپس لے لینا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ فقہ کی بعض کتابوں میں سات حرفوں کے اس مجموعے (دمع خزقہ) سے ان ساتوں صورتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بایں طور کہ اس مجموعہ کا ہر حرف ایک صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی تفصیلی وضاحت یہ ہے کہ حرف دال سے مراد زیادتی متصلہ ہے یعنی جس ہبہ میں کسی چیز کا اضافہ ہوگیا ہو یا اس میں کوئی چیز ملا لی گئی ہو تو اس ہبہ کی واپس درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس صورت کو یوں سمجھئے کہ زید نے بکر کو زمین کا ایک ایسا قطعہ ہبہ کردیا جس میں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ درخت وغیرہ تھے اب بکر نے اس زمین میں کوئی عمارت بنالی یا اس میں کوئی درخت وغیرہ لگا لئے تو اس صورت میں ہبہ کرنیوالے یعنی زید کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ اپنا ہبہ یعنی اس زمین کو واپس لے لے۔ حرف میم واہب یا موہوب لہ کی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ فرض کیجئے حسن نے نعیم کو اپنی کوئی چیز ہبہ کردی اور پھر حسن مرگیا تو اب حسن کے ورثاء کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ موہوب لہ یعنی نعیم سے اس چیز کی واپسی کا مطالبہ کریں جو حسن نے اس کو ہبہ کی تھی یا اگر نعیم مرجائے تو واہب یعنی حسن کو یہ حق نہیں پہنچے گا کہ وہ نعیم کے ورثاء سے اس چیز کے بارے میں کسی قسم کا کوئی مطالبہ کرے جو اس نے نعیم کو ہبہ کردی تھی۔ حرف ع سے اشارہ ہے کہ ہبہ بالعوض کی طرف یعنی اگر کوئی شخص کسی کو اپنی کوئی چیز کسی چیز کے عوض میں ہبہ کرے تو واہب کو اپنے اس ہبہ کو واپس لے لینے کا حق نہیں پہنچتا۔ حرف خ سے اشارہ ہے خروج کی طرف یعنی اگر موہوب موہوب لہ کی ملکیت سے نکل گئی بایں طور کہ اس نے وہ چیز یا تو کسی کے ہاتھ فروخت کردی یا کسی کو دے ڈالی تو اس صورت میں واہب موہوب لہ سے اس چیز کا تقاضہ کر کے نہیں لے سکتا۔ حرف ز سے زوجین کی طرف اشارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو یا بیوی اپنے خاوند کو کوئی چیز ہبہ کر دے تو وہ ایک دوسرے سے اس چیز کو واپس نہیں لے سکتے۔ حرف ق سے قرابت (رشتہ داری) کی طرف اشارہ ہے اور قرابت بھی وہ جس میں محرمیت ہو یعنی اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو یا کوئی بیٹا اپنے باپ کو یا ماں کو یا دادا کو یا نانا کو یا بھائی کو یا بہن کو اور یا کسی بھی ایسے عزیز کو کہ جس سے محرمیت کی قرابت ہو اپنی کوئی چیز ہبہ کر دے تو اس ہبہ کو واپس لے لینا اس کے لئے جائز نہیں ہوگا۔ اور حرف ز سے موہوب کے ہلاک وضائع ہوجانے کی طرف اشارہ ہے یعنی اگر موہوب وہ چیز جو ہبہ کی گئی تھی) موہوب لہ کے پاس سے ہلاک یا ضائع ہوگئے تو واہب کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ موہوب لہ سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرے۔

【14】

کسی کو کوئی چیز دے کر پھر واپس لے لینا مروت کے خلاف ہے

اور حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کسی شخص کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ یعنی ازاراہ مروت یہ بات مناسب نہیں ہے) کہ وہ کسی کو اپنی کوئی چیز دے اور پھر اس کو واپس لے لے البتہ باپ اپنی اس چیز کو واپس لے سکتا ہے جو وہ اپنے بیٹے کو دے اور جو شخص کسی کو کچھ دے کر پھر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال اس کتے کی سی ہے جس نے پیٹ بھر کر کھایا اور جب اس کا پیٹ بھر گیا تو قے کر ڈالی اور پھر اس قے کو چاٹنے لگا (ابوداؤد ترمذی نسائی وغیرہ ذلک)

【15】

تحفہ کا بدلہ تحفہ

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول کریم ﷺ کے لئے بطور ہدیہ ایک جوان اونٹنی لے کر آیا چناچہ آپ ﷺ نے بھی اس دیہاتی کو اس ایک اونٹنی کے بدلے میں چھ جوان اونٹنیاں عطا فرمائیں لیکن وہ دیہاتی پھر بھی خوش نہ ہوا۔ جب آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی جیسا کہ آپ ﷺ کا معمول تھا آپ ﷺ جب خطبہ دیتے یا کوئی بات شروع کرتے تو پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان فرماتے) بعد ازاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں شخص بطور ہدیہ میرے لئے ایک اونٹنی لایا تھا میں نے بھی اس کے بدل میں اس کو چھ اونٹنیاں دیں مگر وہ پھر بھی ناخوش رہا چناچہ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ اب میں قریشی ثقفی اور دوسی کے علاوہ اور کسی کا کوئی ہدیہ قبول نہ کروں (ترمذی ابوداؤد نسائی) تشریح اگر آپ کسی کو اپنی کوئی چیز بطور ہدیہ وتحفہ دیں تو اس کے عوض و بدلہ کی توقع رکھنا آپ کے خلوص کے منافی ہوگا لیکن اگر آپ کو کوئی شخص اپنی کوئی چیز بطور تحفہ وہدیہ دے تو کسی بھی صورت میں آپ کی طرف سے اس کے بدلے کی ادائیگی آپ کی عالی ہمتی، بلند حوصلگی اور آپس کے احساس مروت و محبت کے عین مطابق ہوگا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کو جب کوئی صحابی اپنی کوئی چیز بطور ہدیہ دیتے تھے تو اس کا بدلہ ملنے کی ہلکی سی خواہش بھی ان کے ذہن میں نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان کا ہدیہ سراپا خلوص اور ہمہ تن نیاز مندی کا ایک اظہار محبت ہوتا تھا جو اپنے دامن میں کسی مادی خواہش کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں آنے دیتا تھا لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی شخص آپ ﷺ کی خدمت میں کوئی چیز بطور ہدیہ پیش کرتا تو آپ ﷺ کسی نہ کسی صورت میں اس کو اس کا بدلہ اس سے کہیں زیادہ کر کے عطا فرماتے تھے اور آپ ﷺ کا یہ معمول صرف آپ ﷺ کے جذبہ سخاوت وفیاضی اور آپ ﷺ کی عالی ہمتی نیز باہمی ربط وتعلق کے ایک عظیم جذبہ کا مظہر ہوتا تھا۔ چنانچہ جب ایک دیہاتی آپ ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک اونٹنی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے حسب معمول اس کے ہدیہ سے کئی گنا زیادہ بدلہ یعنی چھ جوان اونٹنیاں اسے دیں مگر اس پر بھی وہ خوش نہیں ہوا یہ بات یقینًا بڑی عجیب تھی ایک تو اس وجہ سے کہ بظاہر وہ اپنے ہدیہ میں گویا مخلص نہیں تھا اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں اونٹنی اس لئے لے کر آیا تھا کہ آپ ﷺ اسے بدلہ دیں اور بدلہ بھی ایسا کہ جو اس کی خواہش کے مطابق ہو چناچہ جب آپ ﷺ نے اسے چھ اونٹنیاں دیں تو وہ اس پر خوش نہیں ہوا اور اس طرح اس نے دنیاوی مال میں اپنے جذبہ حرص کا اظہار کیا چناچہ اس کی یہ بات آنحضرت ﷺ کو اتنی ناگوار ہوئی کہ آپ ﷺ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ میں نے قریشی انصاری ثقفی اور دوسی کے علاوہ اور کسی کا ہدیہ قبول نہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ قریشی ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کا تعلق قبیلہ قریش سے ہے اور انصاری سے مراد انصار مدینہ ہیں، ثقفی اور دوسی دو قبیلوں کے نام ہیں۔ آپ ﷺ نے ان قبیلوں کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا اور ان کا استثناء کیا کہ قبیلے عالی ہمتی بلند حوصلگی اور سخاوت وفیاضی میں امتیازی حیثیت کے مالک تھے اور حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کو کوئی چیز بطور ہدیہ دی جائے اور وہ اس کا بدلہ دینے پر قادر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اس کا بدلہ دے اور جو شخص بدلہ دینے پر قادر نہ ہو تو وہ ہدیہ دینے والے کی تعریف و توصیف کرے اور اس کے دئیے ہوئے ہدیہ کا اظہار کرے) کیونکہ جس شخص نے اپنے محسن کی تعریف کی اس نے گویا اس کا شکر ادا کیا (یعنی فی الجملہ اس کا بدلہ اتارا) اور جس شخص نے کسی کا احسان چھپایا یعنی نہ تو اس نے کچھ دے کر اور نہ تعریف کر کے اس کا بدلہ اتارا تو اس نے کفران نعمت کیا اور یاد رکھو جو شخص اپنے آپ کو کسی ایسی چیز سے آراستہ کرے جو اسے نہیں دی گئی ہے تو اس کی مثال جھوٹ موٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی سی ہے ( ترمذی ابوداؤد) تشریح محسن کی تعریف کرنے کو اس کا شکر ادا کرنے کا قائم مقام اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ تعریف دراصل شکر ہی کی ایک شاخ ہے کیونکہ شکر کا مفہوم ہے دل میں محبت رکھنا زبان سے تعریف کرنا اور ہاتھ پاؤں سے خدمت کرنا۔ حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے اندر کسی ایسے دینی یا دنیاوی کمال وصفت کا اظہار کرے درحقیقت اس میں نہیں ہے تو وہ جھوٹ موٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی مانند ہے۔ جھوٹ موٹ کے دو کپڑے پہننے والے سے مراد وہ شخص ہے جو علماء اور صلحاء کا لباس پہن کر اپنے آپ کو عالم و صالح ظاہر کرے حالانکہ واقعہ کے اعتبار سے نہ وہ عالم ہو اور نہ صالح ہو۔ اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو کوئی ایسا پیراہن پہنے جس کی آستینوں کے نیچے مزید دو آستینیں لگائے تاکہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ اس نے دو پیراہن پہن رکھے ہیں۔ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ عرب میں ایک شخص تھا جو انتہائی نفیس قسم کے دو کپڑے پہنتا تھا تاکہ لوگ اسے عزت دار اور باحیثیت سمجھیں اور جب وہ کوئی جھوٹی گواہی دے تو اس کی اس ظاہری پوشاک کو دیکھ کر اسے جھوٹا نہ سمجھیں۔ آپ ﷺ نے اسی شخص کے ساتھ اس شخص کو تشبیہ دی جو اپنے آپ کو کسی ایسے کمال کا حامل ظاہر کرے جو اس کے اندر نام ونشان کو بھی موجود نہ ہو۔

【16】

محسن کے لئے دعاء اجروخیر

اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرے جزاک اللہ خیرًا (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اس کا بہتربدلہ دے) تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی (ترمذی) تشریح کامل تعریف کی یعنی اس نے اپنے محسن کے حق میں یہ دعائیہ الفاظ کہہ کر گویا اس کے تئیں ادائیگی شکر کا حق ادا کردیا کیونکہ اس نے اپنے محسن کا بدلہ اتارنے اور اس کی تعریف کرنے میں اپنے قصور و کوتاہی کا اعتراف اور اپنے عاجز ہونے کا اقرار کر کے اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دیا کہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں پورا پورا اجر عطاء فرمائے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اجر سے بہتر اجر کون دے سکتا ہے۔

【17】

راہ استقامت کا سنگ میل

جلیل القدر بزرگ اور شیخ باکمال حضرت عبد الوہاب متقی فرمایا کرتے تھے کہ صوفی کو چاہئے کہ وہ مخلوق اللہ کے دینے یا نہ دینے دونوں ہی صورتوں میں دائرہ استقامت سے نہ نکلے اور نہ راہ حق سے قدم کو بھٹکنے دے اگر کوئی فاسق ونااہل شخص اسے کچھ (بطور ہدیہ) دے تو وہ اس کی اتنی تعریف نہ کرے کہ اسے صالح اور ولی کی صف میں کھڑا کر دے بلکہ اس کے حق میں یہ دعائیہ الفاظ کہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جزاء خیر عطا کرے اور اگر اسے کسی صالح و متقی شخص سے کوئی رنج و تکلف پہنچے تو محض اس کی وجہ سے اس کے صلاح وتقوی کی نفی نہ کرے اور اسے برا بھلا نہ کہے بلکہ اس کے حق میں یہ دعائیہ الفاظ کہے کہ غفر اللہ لہ ولنا (یعنی اللہ تعالیٰ اسے اور ہمیں مغفرت و بخشش سے نوازے) اہل استقامت کا یہی طریقہ ہے اور یہی ان کی راہ عمل ہے۔

【18】

انسان کا شکرادا نہ کرنیوالا اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کا شاکر نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا (احمد ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے شکر کی ادائیگی کی تکمیل اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی تابعداری کی جائے بایں طور کہ اس نے ان انسانوں کا جو کہ اس تک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے پہنچنے کا ظاہری واسطہ اور وسیلہ بنے ہیں شکر ادا کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کی پیروی کی جائے لہذا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی تابعداری نہیں کی اور اس کے حکم کی پیروی نہیں کی بایں معنی کہ اس نے ان لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا جن کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں اسے دی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کر ادا نہیں کیا۔ یا پھر اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے محسن کا شکر ادا نہیں کرتا اور اپنے ساتھ کئے گے احسان اور اچھے سلوک کا اقرار نہیں کرتا وہ کفران نعمت کی اپنی اس عادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

【19】

شکران نعمت کی اہمیت

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ (مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ تشریف لے آئے تو ایک دن مہاجرین کی ایک جماعت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ہم نے ایسی کوئی قوم نہیں دیکھی جو زیادہ مالداری میں بہت زیادہ خرچ کرنے اور کم مالداری میں بہت اچھی خدمت اور مدد کرنے کے وصف میں اس قوم سے بہتر ہو جس میں ہم آ کر اترے ہیں انہوں نے (یعنی انصار نے) ہمیں محنت سے سبکدوش کردیا اور تمام تر منفعت میں ہمیں شریک کرلیا ہے اور اب ان کے اس جذبے سخاوت اور ایثار کو دیکھتے ہوئے ہمیں تو یہ اندیشہ ہے کہ تمام تر ثواب کہیں انہی کے حصہ میں نہ آجائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تمام تر ثواب انہی کے حصہ میں نہیں آئے گا جب تک کہ تم ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو گے اور ان کی تعریف یعنی شکرانہ نعمت ادا کرتے رہو گے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ تشریح جب نبی کریم ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں اقامت اختیار فرمائی اور آپ ﷺ کے ساتھ ہی مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مدینہ میں اقامت گزیں ہوئی تو مدینہ کے رہنے والوں یعنی انصار نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اور ایثار وسخاوت نیز اخوت و محبت کی جو عظیم روایت قائم کی بلا مبالغہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے انصار مدینہ نے مہاجرین مکہ کے لئے اپنے دیدہ ودل ہی فرش راہ نہیں کئے بلکہ اپنے خون پسینہ کی گاڑھی کمائی بھی ان کے لئے وقف کردی انہوں نے اپنی زمین اپنے باغات اور اپنے مکانات آدھوں آدھ ان میں تقسیم کر دئیے ان کی خدمت گزاری اور خاطر تواضع میں شرافت انسانی کی ساری بلندیوں کو پیچھے چھوڑ دیا چناچہ ان کے اسی طرز عمل اور ان کے بےپایاں احسانات نے مہاجرین کو اتنا متاثر کیا کہ وہ باقاعدہ بارگاہ رسالت میں اپنا یہ اندیشہ لے کر حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ انصار کہیں سارا ثواب ہی نہ لے بیٹھیں کیونکہ ہم نے تو آج تک ان سے زیادہ ایثار پسند مخیر و سخی اور احسان کرنیوالی کوئی قوم نہیں دیکھی ہے انہوں نے مال و زر کی کمی بیشی سے بےنیاز ہو کر ہماری خاطرداری کی ہے جس کے پاس زیادہ مال تھا اس نے ہم پر اتنا ہی زیادہ خرچ کیا جس کے پاس کم مال تھا اس نے اسی کے مطابق ہماری اعانت کی گویا جس کی جتنی استطاعت تھی اس نے اسی حیثیت سے ہماری مہمانداری وغم خواری کی یہاں تک کہ انہوں نے حصول معاش میں ہمیں محنت ومشقت سے بھی باز رکھا بایں طور کہ کھیتی باڑی کی محنت باغات اور درختوں کی دیکھ بھال کی صعوبت اور مکانات بنانے کی مشقت انہوں نے خود اپنے ذمہ لی مگر منفعت و پیداوار میں ہمیں برابر کا شریک رکھا ہے کہ وہ اپنی زمین اور اپنے باغات میں اپنی محنت سے جو کچھ کرتے ہیں آدھا ہمیں تقسیم کردیتے ہیں چناچہ اب تو ڈرنے لگے ہیں کہ یہ ہمارا ثواب خود ہی حاصل نہ کریں اور یہ اندیشہ ہے کہ ہماری ہجرت اور ہماری عبادتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کہیں ان کے اعانات کی بےپناہ زیادتی کی وجہ سے ان کے نامہ اعمال میں لکھ دے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بہت وسیع ہے اس کے ہاں اجر کی کمی نہیں ہے تمہیں تمہاری عبادت کا ثواب ملے گا اور انصار کو ان کی مددگاری اور ان کے ایثار وسخاوت کا اجر دیا جائے گا تاوقتیکہ تم ان کے لئے بھلائی کی دعا کرتے رہو کیونکہ ان کے حق میں تمہاری یہی دعا ان کے احسان کا بدلہ ہوجائے گی اور تمہاری عبادتوں کا ثواب تمہیں ہی ملتا رہے گا۔

【20】

آپس میں بطورتحفہ لین دین عداوتوں کو دور کرتا ہے

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آپس میں تحفہ کا لین دین کیا کرو کیونکہ تحفہ کا لینا دینا کینوں کو دور کرتا ہے ( ترمذی تشریح مطلب یہ ہے کہ آپس میں تحفہ کے لین دی سے باہمی بغض و عداوت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں اور اس کے بجائے آپس کی الفت و محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ مشکوک ہے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوۃ کو اس حدیث کے مآخذ کا علم نہیں ہوسکا تھا چناچہ بعد میں کسی نے الترمذی بڑھا دیا

【21】

کمترچیز کے تحفہ کا لینا دیناحقیر نہ سمجھو

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آپس میں تحفہ دیا لیا کرو کیونہ تحفہ سینے کی کدورت کو دور کرتا ہے اور یاد رکھو کوئی ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسایہ کے واسطے کسی کمتر چیز کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ( ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنے ہمسایہ کو کسی کمتر اور تھوڑی سی چیز کے بطور تحفہ بھیجنے کو اس ہمسایہ کے حق میں حقیر نہ سمجھے بلکہ جو بھیجنا چاہے اسے بھیجدے خوہ وہ کتنی ہی کمتر اور تھوڑی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح جس ہمسایہ کو تحفہ بھیجا گیا ہو اس کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے ہمسایہ کے کسی تحفہ کو حقیر سمجھے بلکہ اس کے پاس جو بھی تحفہ آئے اسے رغبت وبشاشت کے ساتھ قبول کرلے اگرچہ وہ کتنی ہی تھوڑی اور کیسی ہی خراب کیوں نہ ہو۔ اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جنہیں قبول کرنے سے انکار نہ کرنا چاہئے (١) تکیہ (٢) تیل (٣) دودھ۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ نیز کہا جاتا ہے کہ تیل سے آنحضرت ﷺ کی مراد خوشبو تھی۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مہمان کو تواضع کے طور پر تکیہ دے یا تیل دے اور یا پینے کے لئے دودھ دے تو اس مہمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ دھن یعنی تیل سے مراد خوشبو ہے جیسا کہ ترجمہ میں ذکر کیا گیا لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ دھن سے مراد تیل ہی ہے کیونکہ اس زمانہ میں بھی اہل عرب اپنے سروں میں عمومیت کے ساتھ تیل لگایا کرتے تھے۔

【22】

خوشبودار پھول کا تحفہ واپس نہ کرو

اور حضرت ابوعثمان نہدی تابعی کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو خوشبودار پھول بطور تحفہ وہدیہ دیا جائے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار نہ کرے کیونکہ وہ پھول جنت سے آیا ہے اس روایت کو امام ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح وہ پھول جنت سے آیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ خوشبودار پھول کی ایک فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس کی جڑ جنت سے آئی ہے اس طرح اس میں سے جو خوشبو آتی ہے وہ گویا جنت کی خوشبو ہے پھر یہ کہ پھول کا تحفہ بہت سبکسار (یعنی بہت کم احسان رکھتا ہے) جیسا کہ گذشتہ صفحات میں اس کی وضاحت بیان کی جا چکی ہے۔ لہذا جب کسی کو خوشبو دار پھول دیا جائے تو اسے قبول کرنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔

【23】

اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ ترجیحی سلوک مناسب نہیں ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ (ایک صحابی) حضرت بشیر کی بیوی نے ان سے کہا کہ تم میرے بیٹے نعمان کو اپنا غلام ہبہ کردو اور اس پر میرے اطمینان کے لئے رسول اللہ ﷺ کو گواہ بنا لو چناچہ حضرت بشیر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں کی بیٹی یعنی عمرہ بنت رواحہ نے جو میری بیوی ہے مجھ سے یہ خواہش کی ہے کہ میں اس کے بیٹے (نعمان) کو اپنا غلام ہبہ کر دوں نیز اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں میرے اطمینان کے لئے رسول اللہ ﷺ کو گواہ بنا لوں ! آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا اس بیٹے کے اور بھائی بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے ان سب کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے جس طرح اس بیٹے نعمان کو دیا ہے انہوں نے کہا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا یہ مناسب نہیں ہے اور میں صرف حق بات پر گواہ بنتا ہوں۔ (مسلم) تشریح حق سے مراد یا تو یہ ہے کہ میں صرف اسی معاملہ میں گواہ بنتا ہوں جو بلا شک و شبہ اور بلا کراہت خالص طور پر حق اور صحیح ہو یا پھر یہ کہ آپ ﷺ نے عمومی طور پر یہ فرمایا کہ میں حق پر گواہ بنتا ہوں باطل پر گواہ نہیں بنتا بہرکیف اس سلسلے میں تفصیلی بحث پہلی فصل کی حدیث نمبر ٤ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔

【24】

آنحضرت ﷺ نئے پھل کا ہدیہ کس طرح قبول کرتے تھے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو جب کوئی نیا پھل پیش کیا جاتا تو پہلے اس پھل کو قبول فرما کر اپنی آنکھوں اور ہونٹوں پر رکھتے پھر یہ فرماتے اے اللہ ! جس طرح تو نے ہمیں اس پھل کی ابتداء دکھائی اسی طرح اس کی انتہاء بھی دکھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ وہ پھل کسی اس بچے کو دیدیتے جو آپ ﷺ کے پاس ہوتا ( بیہقی) تشریح تازہ پھل کو اپنی آنکھوں پر رکھنے سے آپ ﷺ کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ایک تازہ نعمت کی تعظیم ہوتا تھا انتہاء کا تعلق اگر دنیا سے ہے تو پھر یہ دعا درازی عمر کے لئے ہوگی اور اگر اس کا تعلق عقبی سے ہے تو اس سے اس طرف اشارہ ہوگا کہ آخرت کے آگے دنیا کی کیا حقیقت ہے بڑی نعمت تو آخرت کے نعمت ہے اس طرح اس دعا کا مطلب یہ ہوگا کہ اے اللہ جس طرح تو نے ہمیں اس دنیا کی نعمت عطا کی ہے اسی طرح آخرت کی نعمت بھی کہ حقیقی نعمت وہی ہے عطا فرما۔