9. نماز کا بیان

【1】

نماز کا بیان

لغت میں صلوٰۃ دعا کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صلوٰۃ چند مخصوص اقوال و افعال کو کہتے ہیں جن کی ابتداء تکبیر سے اور انتہاء سلام پر ہوتی ہے۔ صلوٰۃ کے مادہ اشتقاق کے بارے میں کئی اقوال نقل کئے جاتے ہیں۔ نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ صلوٰۃ کا مادہ اشتقاق صلوین ہے جو سرین کی دونوں ہڈیوں کو کہتے ہیں چونکہ نماز میں ان دونوں ہڈیوں کی رکوع و سجود کے وقت زیادہ حرکت ہوتی ہے اس لئے اس مناسبت سے نماز کو صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں صلوٰۃ مصلی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ٹیڑھی لکڑی کو آگ سے سینک کر سیدھا کرنا چناچہ نماز کو صلوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسان کے مزاج میں نفس امارہ کی وجہ سے ٹیڑھا پن ہے لہٰذا جب کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے۔ تو رب قدوس کی عظمت وہیبت کی گرمی جو اس عبادت میں انتہائی قرب الٰہی کی بناء پر حاصل ہوتی ہے اس کے ٹیٹرھے پن کو ختم کردیتی ہے گویا مصلی یعنی نمازی اس مادہ اشتقاق کی رو سے اپنے نفس امارہ کو عظمت الٰہی اور ہیبت زبانی کی تپش سے سینکنے والا ہوا۔ لہٰذا جو آدمی نماز کی حرارت سے سینکا گیا اور اس کا ٹیڑھا پن نماز کی وجہ سے دور کیا گیا تو اس کو آخرت کی آگ یعنی دوزخ سے سینکنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو جس نے دنیا میں نماز کی پابندی کی اور کوئی ایسا فعل نہ کیا جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب ہو تو اسے جہنم کی آگ میں نہ ڈالے گا۔ اس اصطلاحی تعریف کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ نماز اسلام کا وہ عظیم رکن اور ستون ہے جس کی اہمیت و عظمت کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ اثر منقول ہے کہ جب نماز کا وقت آتا تو ان کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوجاتا۔ لوگوں نے پوچھا کہ امیر المومنین ! آپ کی یہ کیا حالت ہے ؟ فرماتے ہیں کہ اب اس امانت ( یہ اشارہ ہے اس آیت قرآنی کی طرف آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّه كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا) 33 ۔ الاحزاب 72) کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، پہاڑوں اور زمین پر پیش فرمایا تھا اور وہ سب اس امانت کے لینے سے ڈر گئے اور انکار کردیا۔ (احیاء العلوم) نماز کی تاکید اور اس کے فضائل سے قرآن مجید کے مبارک صفحات مالا مال ہیں، نماز کو اداء کرنے اور اس کی پابندی کرنے کے لئے جس سختی سے حکم دیا گیا ہے وہ خود اس عبادت کی اہمیت و فضیلت کی دلیل ہے۔ ایمان کے بعد شریعت نے سب سے زیادہ نماز ہی پر زور دیا ہے چناچہ قرآن کریم کی یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائے۔ آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا) 4 ۔ النساء 103) بیشک ایمان والوں پر نماز فرض ہے وقت مقرر پر۔ آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2 ۔ البقرۃ 238) نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز (عصر) کی پابندی کرو۔ آیت ( اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ ) 11 ۔ ہود 114) بیشک نیکیاں (یعنی نمازیں) برائیوں کو معاف کرا دیتی ہیں۔ آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَا ءِ وَالْمُنْكَرِ ) 29 ۔ العنکبوت 45) بیشک نماز برے اور خراب کاموں سے انسان کو بچاتی ہے۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ کے ذکر کا بڑا مرتبہ بڑا ثر ہے۔ بہر حال ! نماز ایک ایسی پسند اور محبوب عبادت ہے جس کی برکتوں اور سعادتوں سے خداوند کریم نے کسی بھی نبی کی شریعت کو محروم نہیں رکھا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان سرکار دو عالم ﷺ تک تمام رسولوں کی امت پر نماز فرض تھی۔ ہاں نماز کی کیفیت اور تعینات میں ہر امت کے لئے تغیر ہوتا رہا۔ سرکار عالم ﷺ کی امت پر ابتدائے رسالت میں دو وقت کی نماز فرض تھی ایک آفتاب کے نکلنے سے قبل اور ایک آفتاب ڈوبنے سے بعد۔ ہجرت سے ڈیڑھ برس پہلے جب سرکار دو عالم ﷺ نے معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا عظیم و افضل ترین شرف پایا تو اس مقدس اور با سعادت موقعہ پر پانچ وقت کی نماز کا عظیم و اشرف ترین تحفہ بھی عنایت فرمایا گیا۔ چناچہ فجر، ظہر، مغرب، عشاء ان پانچ وقتوں کی نماز کا فریضہ صرف اسی امت کی امتیازی خصوصیت ہے اگلی امتوں پر صرف فجر کی نماز فرض تھی نیز کسی پر ظہر کی اور کسی پر عصر کی۔ اسلام کی تمام عبادات میں صرف نماز ہی وہ عبادت ہے جس کو سب سے افضل اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ چناچہ اس پر اتفاق ہے کہ نماز اسلام کا رکن اعظم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام کا دارومدار اسی عبادت پر ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ہر مسلمان عاقل بالغ پر ہر روز پانچ وقت نماز پڑھنا فرض عین ہے امیر ہو یا فقیر، تندرست ہو یا مریض اور مقیم ہو یا مسافر ہر ایک کو پانچوں وقت ان آداب و شرائط اور طریقوں کے ساتھ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے نماز کے سلسلہ میں بتائے ہیں اللہ کے دربار میں حاضری دینا اور رب قدوس کی عظمت و بڑائی اور اپنی بےکسی و لاچاری اور عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ جب میدان کار زار میں جنگ کے شعلے بھرک رہے ہوں اور عورت سب سے زیادہ اور شدید تکلیف درد زہ میں مبتلا ہو تب بھی نماز کو چھوڑنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کی ادائیگی میں دیر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کسی عورت کے بچے کی پیدائش کے وقت بچے کا کوئی جزو نصف سے کم اس کے خاص حصے سے باہر آگیا ہو خواہ خون نکلا ہو یا نہ نکلا ہو اس وقت بھی اس کو نماز پڑھنے کا حکم ہے اور نماز میں توقف کرنا جائز نہیں ہے جو آدمی نماز کی فرضیت سے انکار کرے وہ کافر ہے اور اس کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق و فاجر ہے بلکہ بعض جلیل القدر صحابہ کرام مثلاً حضرت عمر فاروق (رض) وغیرہ نماز چھوڑنے والے کو کافر کہتے ہیں امام احمد (رح) کا بھی یہی مسلک ہے امام شافعی و امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نماز چھوڑنے کو گردن زنی قرار دیتے ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اگرچہ اس کے کفر کے قائل نہیں تاہم ان کے نزدیک بھی نماز چھوڑنے والے کے لئے سخت تعزیر ہے۔ مصنف نے یہاں کتاب الصلوٰۃ کے نام سے جو عنوان قائم فرمایا ہے اس کے تحت نماز سے متعلق وہ تمام احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے نماز کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور نماز کے جو احکام و فضائل ہیں ان کا استنباط ہوتا ہے۔

【2】

نماز کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جو ان کے درمیان ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پابندی کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھے، جمعہ کی نماز پورے آداب کے ساتھ ادا کرے اور اسی طرح رمضان کے روزے رکھے تو ان کے درمیان جو صغیرہ گناہ صادر ہوئے ہیں سب ختم ہوجاتے ہیں البتہ کبیرہ گناہ نہیں بخشے جاتے ہاں اگر اللہ چاہے تو وہ کبرہ گناہ بھی معاف فرما سکتا ہے۔ یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہوتا ہے کہ جب ہر روز کی پانچوں وقت کی نمازیں ہی تمام گناہ مٹا دیتی ہیں تو پھر یہ جمعہ وغیرہ کون سے گناہ ختم کرتے ہیں ؟ چناچہ اس خلجان کو رفع کرنے کے لئے ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ ان سب میں گناہوں کو مٹانے اور ختم کرنے کی صلاحیت ہے چناچہ اگر گناہ صغیرہ ہوتے ہیں تو یہ تینوں ان کو مٹا دیتے ہیں ورنہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے بیشمار نیکیاں لکھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے درجات میں بلندی حاصل ہوتی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے فرمایا کہ یہ تینوں صغیرہ گناہوں کے لئے کفارہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک کسی گناہ کے لئے کفارہ بن سکے تو دوسرا کفارہ ہوجاتا ہے مثلاً نماز میں کسی تقصیر اور نقصان کی وجہ سے اگر وہ نماز گناہوں کے لئے کفارہ نہ ہو سکے تو ان کو جمعہ ختم کردیتا ہے اور جمعہ میں بھی کسی تقصیر کی وجہ سے کفارہ ہونے کی صلاحیت نہ رہے تو پھر رمضان ان کے لئے کفارہ ہوجاتا ہے اور اگر سب کے سب کفارہ بننے کی صلاحیت رکھیں تو یہ سب مل کر گناہوں کو اچھی طرح مٹا دیتے ہیں اور کفارے کی زیادتی کا باعث ہوتے ہیں چناچہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کئی چراغوں کی۔ اگر کسی مکان میں ایک چراغ ہوگا تو اندھیرا تو ختم ہوجائے گا مگر روشنی کم ہوگی اور اگر چراغ زیادہ ہوں گے تو نور اور روشنی حیثیت سے زیادتی ہوگی۔

【3】

نماز کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا تم بتاؤ کہ جس کے دروازے کے آگے پانی کی نہر چلتی ہو اور وہ روز اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر میل کا کوئی شائبہ بھی رہے گا ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ نہیں ! میل بالکل باقی نہیں رہے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (تم سمجھ لو کہ) پانچوں نمازوں کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام (صغیرہ) گناہوں کو ان نمازوں کے سبب سے اسی طرح مٹا دیتا ہے (جس طرح پانی میل کو اتار دیتا ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【4】

نماز کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی (غیر) عورت کا بوسہ لے لیا پھر (احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صورت واقعہ کی خبر دی (اور آپ ﷺ سے اس کا حکم پوچھا، رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ وحی کے ذریعہ حکم الٰہی کے منتظر رہے اس اثناء میں اس آدمی نے نماز پڑھی جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ ) 11 ۔ ہود 114) اور نماز کو دن کے وقت اول و آخر اور رات کی چند ساعات میں پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں (یعنی نمازیں) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ آیت کے نازل ہونے کے بعد اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ حکم میرے لئے ہے ( یا پوری امت کے لئے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا (نہیں ! یہ حکم) میری امت کے لئے ہے۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا جواب اس طرح مذکور ہے کہ (آپ ﷺ نے فرمایا) میری امت میں سے جو آدمی اس آیت پر عمل کرے اس کے لئے (یہی حکم ہے، یعنی جو آدمی بھی برائی کے بعد بھلائی کرے گا اسے یہی سعادت حاصل ہوگی کہ اس بھلائی کے نتیجے میں اس کی برائی ختم ہوجائے گی) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جس صاحب کا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک غیر عورت کا بوسہ لے لیا تھا ان کا نام ابوالیسر تھا۔ جامع ترمذی نے ان کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ خود راوی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لئے آئی میں نے اس سے کہا کہ میرے گھر میں اس سے زیادہ اچھی کھجوریں رکھی ہوئی ہیں ( اس لئے تم وہاں چل کر دیکھ لو) چناچہ وہ میرے ہمراہ مکان میں آگئی (وہاں میں شیطان کے بہکانے میں آگیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر) اس اجنبی عورت سے بوس و کنار کیا۔ اس نے (میرے اس غلط اور نازیبا رویے پر مجھے تنبیہ کرتے ہوئے) کہا کہ بندہ خدا ! اللہ (کے قہر و غضب) سے ڈرو چناچہ (خوف اللہ سے میرا دل تھرا گیا اور) میں نہایت ہی شرمندہ و شرمسار ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ چناچہ بارگاہ رسالت میں ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ آیت کریمہ میں طرفی النھار یعنی دن کے اول و آخر سے دن کا ابتدائی حصہ اور انتہائی حصہ مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن کے اول یعنی ابتدائی حصہ سے فجر کی نماز اور آخری حصہ سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں اسی طرح زلفا من الیل یعنی رات کی چند ساعتوں سے مغرب و عشاء کا وقت مراد ہے۔ اس طرح اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوگا فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کرو، کیونکہ نیکیاں (نمازیں) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

【5】

نماز کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے ایسا فعل سرزد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے اس لئے آپ ﷺ مجھ پر حد جاری فرمائیے راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حد کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا اور نماز کا وقت آگیا۔ اس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوچکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے ایک ایسا فعل سرزد ہوگیا ہے جو مستوجب حد ہے اس لئے آپ ﷺ میرے بارے میں اللہ کا حکم نافذ فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ! پڑھی ہے ! آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے تمہاری خطاء یا فرمایا کہ تمہاری حد بخش دی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھئے کہ اس آدمی کے الفاظ اَصَبْتُ حَدًّا (یعنی مجھ سے ایسا فعل سرزد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایسے کبیرہ گناہ مثلا ًچوری وغیرہ کا ارتکاب کیا تھا جس پر حد واجب ہوتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے نماز کی وجہ سے اس کی بخشش کی خوشخبری سنا دی لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی بخش دئیے جاتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ صغیرہ سرزد ہوگیا تھا جو حقیقت میں تو ایسا نہیں تھا جس پر حد جاری ہوتی لیکن چونکہ وہ آدمی صحابیت جیسے مرتبہ پر فائز تھے جہاں معمولی سا گناہ بھی خوف الٰہی سے دل کو لرزاں کردیتا ہے اور ایک ہلکی سی معصیت بھی قلب و دماغ کے ہر گوشہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس لئے انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ مجھ سے ایک فعل سرزد ہوگیا ہے۔ جس پر از روئے شریعت حد جاری ہوجائے گی لہٰذا انہوں نے بارگاہ رسالت میں آکر اس طرح ذکر کیا جس سے بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ان سے واقعی کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے جو سخت ترین سزا یعنی حد کا مستوجب ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ حد سے ان کی مراد تعزیر تھی۔ آپ ﷺ نے اس آدمی سے اس کے گناہ کی حقیقت اس لئے دریافت نہیں فرمائی کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تھا کہ اس آدمی نے کس قسم کا گناہ کیا ہے اسی لئے آپ ﷺ نے اسے اس گناہ کی بخشش کی جو خوشخبری دی تھی اپنی طرف سے نہیں دی تھی بلکہ جب آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ اس کا گناہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر حد جاری کی جائے بلکہ ایسا گناہ ہے جو نماز کے ذریعے معاف ہوگیا ہے تو آپ ﷺ نے اسے یہ خوشخبری سنا دی۔

【6】

نماز کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنے (یعنی وقت مکروہ میں نماز نہ پڑھی جائے) میں نے کہا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا میں نے عرض کیا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے یہی باتیں بیان فرمائی تھیں اگر میں کچھ زیادہ پوچھتا تو آپ ﷺ اس سے بھی زیادہ بیان فرماتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اتنی بات معلوم ہونی چاہئے کہ بہترین و افضل اعمال کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، چناچہ اس حدیث سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب اعمال یہ تین ہیں مگر دوسری حدیثوں میں مذکور ہے کہ اسلام کے بہترین و افضل اعمال یہ ہیں کہ (غریبوں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے۔ اسلام کی تبلیغ کی جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ آرام سے بستروں میں پڑے خواب شیریں سے ہمکنار ہوں اللہ کی عبادت کی جائے اور نماز پڑھی جائے۔ اسی طرح بعض احادیث میں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا سب سے بہترین و افضل عمل یہ ہے کہ لوگ تمہاری زبان اور تمہارے ہاتھ (کی ایذا) سے محفوظ رہیں۔ نیز بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افضل ترین عمل اللہ کا ذکر کرنا ہے۔ بہر حال اسی طرح دوسری احادیث میں دیگر اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ اعمال بہترین و افضل ہیں۔ تو۔ اب ان تمام احادیث میں تطبیق اسی طرح ہوگی کہ یہ کہا جائے گا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر ایک کی رضا ورغبت اور اس کے مزاج کے مطابق جواب دیا ہے یعنی جس نے بہترین عمل کے بارے میں سوال کیا اس کو وہی عمل بتایا جسے اس کے لائق سمجھا اور جو اس کی فطرت و مزاج اور اس کے حال کے مناسب معلوم ہوا۔ چناچہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم اکثر کسی خاص چیز کے بارے میں کسی وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز تو سب سے اچھی ہے حالانکہ دل کے اندر اس کی اچھائی و فضیلت کے بارے میں یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ چیز ہمہ وقت اور ہر حال میں نیز ہر ایک کے لئے سب سے اچھی اور افضل ہوگی بلکہ دل میں یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ چیز اس خاص وقت میں اچھی اور بہتر ہے نہ کہ ہمہ وقت مثلاً خاموشی اور سکوت کا معاملہ ہے کہ جہان مناسب ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ سکوت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے یا خاموشی سے افضل کوئی چیز نہیں ہے غرض رسول اللہ ﷺ نے ہر ایک عمل کو حال اور مقام کے مناسب افضل فرمایا ہے۔ مثلاً ابتدائے اسلام میں جہاد ہی لوگوں کے حال مناسب تھا اس لئے جہاد کو فرمایا کہ یہ سب سے بہتر عمل ہے یا اسی طرح کسی آدمی کو یا کسی جماعت کو بھوکا ننگا دیکھا تو ان کی امداد و اعانت کی خاطر صدقہ خیرات کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی اور فرمایا کہ صدقہ افضل ترین عمل ہے یا نماز کو باری تعالیٰ کے قرب حقیقی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سب سے اچھا اور بہتر عمل قرار دیا۔ بہر حال۔ ان میں سے ہر ایک عمل کو افضل ترین عمل کہنے کی وجوہ اور حیثیات مختلف ہیں۔ ہر ایک کی وجہ اور حیثیت اپنی اپنی جگہ دوسرے سے افضل و اعلیٰ ہے۔

【7】

نماز کا بیان

اور حضرت جابر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کا چھوڑنا بندہ مومن اور کفر کے درمیان (کی دیوار کو گرا دیتا) ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح یہاں لفظ بین کا متعلق محذوف ہے یعنی اس حدیث میں یہ عبارت مقدر ہے کہ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ وُصْلَۃٌ بِیْنَ الْعَبْدِ الَمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ مومن اور کفر کے درمیان نماز بمنزلہ دیوار کے ہے کہ بندہ اس کی وجہ سے کفر تک نہیں پہنچ سکتا مگر جب نماز ترک کردی گئی تو گویا درمیان کی دیوار اٹھ گئی لہٰذا نماز چھوڑنا اس بات کا سبب ہوگا کہ نماز چھوڑنے والا مسلمان کفر تک پہنچ جائے گا۔ بہر حال۔ اس حدیث میں نماز چھوڑنے والوں کے لئے سخت تہدید ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ نماز کا چھوڑنے والا ممکن ہے کہ کافر ہوجائے کیونکہ جب اس نے اسلام و کفر کے درمیان کی دیوار کو ختم کردیا گویا وہ کفر کی حدتک پہنچ گیا ہے اور جب وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا تو ہوسکتا ہے کہ یہی ترک نماز اس کو فسق و فجور اور اللہ سے بغاوت و سرکشی میں اس حد تک دلیر کر دے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل ہوجائے۔ یہ شروع میں بتایا جا چکا ہے کہ تارک نماز کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں چناچہ اصحاب ظواہر تو یہ کہتے ہیں کہ تارک صلوۃ کافر ہوجاتا ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز چھوڑنے والا اگرچہ کافر نہیں ہوتا مگر وہ اس سرکشی و طغیانی کے پیش نظر اس قابل ہے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ جو آدمی نماز چھوڑ دے اس کو اس وقت تک جب تک کہ نماز نہ پڑھے مارنا اور قید خانہ میں ڈال دینا واجب ہے۔

【8】

نماز کا بیان

حضرت عبادہ ابن صامت (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے ان پانچوں نمازوں کے لئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے (فرائض و مستحبات کی ادائیگی کے ساتھ) اچھی طرح وضو کیا اور ان کو وقت پر پڑھا نیز ان میں رکوع و خشوع کیا (یعنی نمازیں حضوری قلب کے ساتھ پڑھیں) تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ پر ذمہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ) یہ ہے کہ وہ اس کے (صغیرہ) گناہ بخشش دے گا اور جس آدمی نے ایسا نہ کیا (یعنی اس نے مذکورہ بالا طریقے سے یا مطلق نماز نہ پڑھی) تو اللہ تعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں ہے چاہے تو بخش دے چاہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، مالک، سنن نسائی ) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں بھی یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ کو عذاب دے بلکہ اس کا دارومدار سراسر اس کی مرضی پر ہے کہ اگر وہ چاہے تو عذاب میں مبتلا کرے اور اگر چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اسے بخشش دے۔ اسی طرح یہ بھی جان لیجئے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ کے حکم سے اسے جس مدت کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کے بعد وہ اپنی سزا پوری کر کے جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہوجائے گا۔ چناچہ اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے۔

【9】

نماز کا بیان

اور حضرت ابی امامہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (مسلمانو) پانچوں وقت اپنی نمازیں پڑھو اپنے (رمضان کے مہینے) کے روزے رکھو ! اپنے مال کی زکوٰۃ دو ! اور اپنے سردار کی (جب تک کہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ کرے) اطاعت کرو ! (اگر ایسا کرو گے تو) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے (یعنی بہشت میں بلند درجات کے حقدار بنو گے) ۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ) تشریح سردار سے مراد بادشاہ، امیر اور حاکم ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بادشاہ اور امراء کے احکام کی تابعداری اور ان کے فرمان کی اطاعت کریں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کا یہ حکم اسی وقت تک رہے گا۔ جب تک کہ ان کا کوئی حکم حدود و شریعت سے باہر اور خداوند کے رسول ﷺ کے فرمان کے خلاف نہ ہو، اگر ایسا ہو کہ امراء اور سلاطین حدود شریعت سے تجاوز کر کے غلط احکام دیں یا ایسے فرمان نافذ کریں جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں تو پھر نہ صرف یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری نہیں ہے بلکہ ایسے سلاطین و امراء کو راہ راست پر لانے اور ان کو قرآن و سنت کو بتائے ہوئے راستوں پر چلنے اور ملک و قوم کو چلانے کے لئے مجبور کیا جائے۔ یا پھر سردار سے مراد علماء ہیں کہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کے علم کے حامل جب مسلمانوں کو کوئی شرعی حکم دیں اور انہیں دین و شریعت کی طرف بلائیں تو ان کی پیروی ہر ایک مسلمان پر ضروری اور لازم ہے اسی طرح سردار سے ہر وہ آدمی مراد ہوسکتا ہے جو کسی کام کے لئے حاکم اور کار ساز مقرر کیا گیا ہو یعنی اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو اپنے کسی معاملہ میں حاکم اور راہبر مقرر کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حاکم یا راہبر کے مشوروں کو مانے اور وہ جو صحیح حکم دے اس کی پابندی کرے۔

【10】

نماز کا بیان

اور حضرت عمرو ابن شعیب (رح) اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے بچے سات برس کے ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس برس کے ہوجائیں (تو نماز چھوڑ نے پر) انہیں مارو۔ نیز ان کے بسترے علیحدہ کردو (ابوداؤد) اسی طرح السنہ میں عمرو سے اور مصابیح میں سبرہ ابن معبد سے یہ روایت نقل کی گئی ہے۔ تشریح اس حدیث کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب ان کے بچے سات برس کے ہوجائیں تو اسی وقت سے ان کو نماز کی تاکید شروع کردی جاے تاکہ انہیں نماز کی عادت کم سنی سے ہی ہو جاے اور جب وہ بالغ ہونے کے قریب (یعنی دس سال کی عمر میں) پہنچ جائیں تو اگر وہ کہنے سننے کے باوجود نماز نہ پڑھیں تو انہیں تاکیدا مار مار کر نماز پڑھانی چاہئے۔ نیز جس طرح ان عمروں میں نماز کی تاکید کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح انہیں نماز کی شرائط وغیرہ بھی سکھانی چاہئے تاکہ انہیں ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ معلوم ہوجائے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جب بچے اس عمر میں پہنچ جائیں تو انہیں علیحدہ علیحدہ سلانا چاہئے یعنی اگر دو بھائی بہن یا دو اجنبی لڑکا لڑکی ایک ہی بستر میں سوتے ہوں تو اس عمر میں ان کے بستر الگ کردینے چاہیں تاکہ وہ اکٹھے نہ سو سکیں۔

【11】

نماز کا بیان

اور حضرت بریدہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے لہذا جس نے نماز چھوڑی وہ کافر ہوگیا۔ (احمد۔ ترمذی نسائی و ابن ماجہ) تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور منافقین کے درمیان امن وامان کا جو معاہدہ ہوچکا ہے کہ ہم انہیں قتل نہیں کرتے اور اسلام کے احکام ان پر نافذ نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے، جماعت میں حاضر ہونے اور اسلام کے دوسرے ظاہری احکام کی تابعداری کرنے کے سبب سے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا جس نے نماز کو جو تمام عبادتوں میں سے افضل ترین ہے ترک کردیا گویا کہ وہ کافر کے برابر ہوگیا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نماز ترک کر کے کفر کو ظاہر نہ کریں۔ اس طرح اس جملے فَقَدْ کَفَرَ کے معنی یہ ہوئے کہ (جس نے نماز چھوڑ دی) اس نے کفر کو ظاہر کردیا۔

【12】

نماز کا بیان

حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مدینہ کے کنارے میں نے ایک عورت کو گلے لگا کر سوائے صحبت کے اور سب کچھ کرلیا ہے، (یعنی صحبت تو نہیں کی لیکن بوس و کنار ہوگیا ہے اس لئے) میں حاضر ہوگیا ہوں جو کچھ آپ ﷺ چاہیں میرے بارے میں حکم فرمائیں۔ (یعنی آپ ﷺ میرے لئے جو سزا بھی تجویز فرمائیں گے مجھے منظور ہوگی) حضرت عمر (رض) نے (جو اس وقت مجلس نبوی میں حاضر تھے یہ سن کر) فرمایا اللہ نے تو تمہارے عیب کی پردہ پوشی فرمائی تھی اگر تم بھی اپنے عیب کو چھپالیتے تو (اچھا تھا) حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (اللہ کے حکم کے انتظار میں) اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چناچہ وہ آدمی کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلانے کے لئے ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا لایا آپ ﷺ نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ ) 11 ۔ ہود 114) دن کے اول و آخر اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ نصیحت، نصیحت ماننے والوں کے لئے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر فاروق (رض) یا حضرت معاذ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! کیا یہ حکم خاص طور پر اسی کے لئے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں سب لوگوں کے لئے یہی حکم ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اسی باب کی پہلی فصل کی تیسری حدیث میں بھی اس آیت کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ دن کے اول سے فجر اور آخر سے ظہر و عصر مراد ہیں اسی طرح، رات کی چند ساعتوں سے مراد مغرب و عشاء ہیں۔ حضرت ابن حجر (رح) نے لکھا ہے کہ پہلی فصل میں اسی طرح کی جو حدیث نمبر تین گزری ہے وہ تو ایک آدمی (ابوالیسر) کا واقعہ ہے اور یہ حدیث جو یہاں ذکر کی گئی ہے یہ کسی دوسرے صاحب کا واقعہ ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ یہ آیت بھی اس آدمی کے لئے دوسری مرتبہ نازل ہوئی ہو۔ مگر محققین نے لکھا ہے کہ تعدد واقعہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت بھی مکرر نازل ہوئی ہو اور نہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے وہی آیت جو پہلے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی بطور سند کے اس آدمی کے سامنے بھی تلاوت فرما دی۔

【13】

نماز کا بیان

اور حضرت ابوذر (رض) راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ جاڑے کے موسم میں جبکہ پت جھڑ کا وقت تھا باہر تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے ایک درخت کی دو شاخیں پکڑیں۔ راوی فرماتے ہیں کہ جس طرح حسب معمول پت جھڑ کے موسم میں کسی شاخ کو ہلانے سے پتے بہت زیادہ گرنے لگتے ہیں اسی طرح جب آپ ﷺ نے شاخیں پکڑیں تو ان سے پتے جھڑنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب بندہ مومن خالصًا اللہ کیلئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ بھی ایسے ہی جھڑتے ہیں، جس طرح اس درخت سے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل) تشریح خالصاً اللہ تعالیٰ کیلئے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کسی کو دکھلانے یا کسی دوسری غرض و مقصد کے لئے نہ پڑھی جائے بلکہ محض اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فرمانبرداری اور اس کی رضا کی طلب کے لئے پڑھی جائے۔

【14】

نماز کا بیان

اور حضرت زید ابن خالد جہنی (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے دو رکعت نماز ( غافل ہو کر نہیں بلکہ اس درجہ حضوری قلب کے ساتھ) پڑھیں کہ ان میں سہو نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔ (مسند احمد بن حنبل)

【15】

نماز کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن عاص (رض) راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز کا ذکر کیا ( یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لئے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی اور جو آدمی نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لئے نماز نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی، نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی بلکہ ایسا آدمی قیامت کے روز قارون، فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارمی، بیہقی) تشریح نماز کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ نماز باقاعدگی اور پوری پابندی سے پڑھی جائے۔ کبھی ناغہ نہ ہو، نیز نماز کے تمام فرائض واجبات سنن اور مستحبات اداء کئے جائیں، اس طرح جب کوئی نماز پڑھے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز کی محافظت کی اور یہ مذکورہ ثواب کا حقدار ہوگا اور جو آدمی اس کے برعکس عمل اختیار کرے گا کہ نہ تو نماز باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ پڑھے اور نہ نماز کے فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کی رعایت کرے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ان چیزوں کو ترک کرنے کی وجہ سے مذکورہ عذاب کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ نماز کی محافظت اور اس پر دوام اختیار کرنے کی کس قدر تاکید ہے اس لئے اس میں کوتاہی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اپنی بربادی کو دعوت دینا ہے۔ نیز یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ جب نماز کی محافظت نہ کرنے پر اس قدر و عید ہے کہ ایسے آدمی کا حشر مذکورہ لوگوں جیسے لعین و بدبخت کفار کے ساتھ ہونے کی خبر دی جا رہی ہے تو اس آدمی کا کیا حال ہوگا جو نماز ترک کرتا ہے اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا۔ قارون و فرعون جیسے مشہور لعین اور بدبختوں کو تو سب ہی جانتے ہیں۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا ابی بن خلف وہ مشہور مشرک ہے جو رسول اللہ ﷺ کا جانی دشمن تھا اور جسے رسول اللہ ﷺ نے جنگ احد میں اپنے دست مبارک سے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم رسید کیا تھا چناچہ اسی وجہ سے اس لعین کو امت کے بدبختوں میں سے سب سے بڑا بدبخت کہا جاتا ہے۔ آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی محافظت کرے گا یعنی پورے خلوص اور تمام فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کے ساتھ نماز ہمیشہ پابندی سے پڑھتا رہے گا تو قیامت کو وہ انبیاء کرام، صدیقین، شہداء اور صلحاء کے ہمراہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کی پابندی اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں۔

【16】

نماز کا بیان

اور حضرت عبدا اللہ شقیق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال میں صرف نماز ہی ایسا عمل تھا جس کے چھوڑنے کو رسول اللہ ﷺ کے محترم صحابہ کرام کفر سمجھتے تھے۔ (جامع ترمذی ) تشریح یہاں جو حصر کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سوائے نماز کے کسی دوسرے عمل کے چھوڑنے کو کفر نہ سمجھتے تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نہ صرف یہ کہ نماز چھوڑنا بڑے سخت گناہ کی بات تھی بلکہ وہ اسے کفر کے بہت قریب سمجھتے تھے۔

【17】

نماز کا بیان

اور حضرت ابودرداء (رض) فرماتے ہیں کہ میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے مجھے یہ وصیت (فرمائی تھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا خواہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تمہیں جلا کیوں نہ دیا جائے اور جان بوجھ کر فرض نماز نہ چھوڑنا جس نے قصدًا نماز چھوڑ دی تو اس سے ذمہ بری ہوگیا نیز کبھی شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابودرداء (رض) کو افضل بات کی تعلیم دی کہ اگر تم ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیئے جاؤ تو شرک نہ کرنا، ورنہ تو جبر کی حالت میں جب کہ گردن تلوار کی زد میں ہو تو دل میں ایمان و ایقان کی پوری دولت لئے زبان سے کلمہ کفر ادا کرلینا جائز ہے۔ ذمہ کے بری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے قصدًا نماز ترک کردی تو گویا اس نے اسلام کے ایک بڑے اور بنیادی قانون و حکم سے بغاوت کی جس کی بناء پر اسلام کا عہد اس سے ختم ہوگیا اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اس مطلب کی وضاحت کرنے کے بعد کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد ازراہ تغلیظ یعنی نماز چھوڑنے والے کے لئے انتہائی تہدید اور تنبیہ ہے۔ یا پھر (اس سے ذمہ بری ہوا) کی مراد یہ ہے کہ ایمان لانے اور اسلام کی اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اسلام نے اس کے جان و مال کی حفاظت کی جو ضمانت لی تھی اور اسلامی اسٹیٹ میں اسے جو امان حاصل تھا اب وہ نماز کے ترک کی وجہ سے اسلام کی امان اور ضمانت سے نکل گیا۔ شراب کو تمام برائیوں کی کنجی اس لے فرمایا گیا ہے کہ شراب بنیادی طور پر انسان کے دل و دماغ اور ذہن و فکر کو بالکل ماؤف کردیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شراب پینے والا آدمی جب نشہ کی وجہ سے اپنی عقل سے ہاتھ دھو لیتا ہے تو دنیا بھر کی برائیاں اس سے سرزد ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے۔

【18】

نماز کے اوقات کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ظہر کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے اور اس کا آخری وقت جب تک ہے کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر ہوجائے عصر کے آنے کے وقت تک۔ اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہوجائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہوجائے اور نماز عشاء کا وقت ٹھیک آدھی رات تک ہے اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکل آئے اور جب سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح اس سے پہلے کہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے نماز کے اوقات کے بارے میں عرض کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اصطلاحی الفاظ کے معنی بیان کر دے جائیں جن کو سمجھنے کے بعد مقصد تک پہنچے میں بڑی آسانی ہوجائے گی۔ زوال۔۔۔ آفتاب کے ڈھلنے کو کہتے جسے ہماری عرف میں دوپہر ڈھلنا کہا جاتا ہے۔ سایہ اصلی۔۔۔ اس سایہ کو کہتے ہیں جو زوال کے وقت باقی رہتا ہے۔ یہ سایہ ہر شہر کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کسی جگہ بڑا ہوتا ہے، کسی جگہ چھوٹا ہوتا ہے اور کہیں بالکل نہیں ہوتا، جیسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں۔ زوال اور سایہ اصلی کے پہچاننے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ ایک سیدھی لکڑی ہموار زمین پر گاڑی جائے اور جہاں تک اس کا سایہ پہنچے اس مقام پر ایک نشان بنادیا جائے پھر دیکھا جائے کہ وہ سایہ اس نشان کے آگے بڑھتا ہے یا پیچھے ہٹتا ہے۔ اگر آگے بڑھتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی زوال نہیں ہو اور اگر پیچھے ہٹے تو زوال ہوگیا۔ اگر یکساں رہے نہ پیچھے ہٹے نہ آگے بڑھے تو ٹھیک دوپہر کا وقت ہے اس کو استواء کہتے ہیں۔ ایک مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔ دو مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس سے دو گنا ہوجائے۔ ان اصطلاحی تعریفات کو سمجھنے کے بعد اب حدیث کی طرف آئیے سرکار دو عالم ﷺ نے اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے پہلے ظہر کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے وقت نماز کی تعلیم کے سلسلے میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو یہی نماز پڑھائی تھی، یہی وجہ ہے کہ نماز ظہر کی نماز کو پیشین کہا جاتا ہے۔ نماز ظہر کا اول وقت اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب کہ آسمان کہ درمیان آفتاب مغرب کی طرف تھوڑا سامائل ہوتا ہے جس کو زوال کہتے ہیں اور اس کا آخری وقت وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر علاوہ سایہ اصلی کے ہوجاتا ہے۔ سایہ اصلی کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ وہ سایہ ہوتا ہے جو زوال کے وقت ہوتا ہے یعنی اکثر مقامات پر جب کہ آفتاب سمت راس پر نہیں آتا وہاں ٹھیک دوپہر کے وقت ہر چیز کا تھوڑا سا سایہ ہوتا ہے اس سائے کو چھوڑ کر جب تک کسی چیز کے طول کے برابر سایہ رہے گا ظہر کا وقت باقی رہے گا۔ مالم یحضر العصر (عصر کا وقت آنے تک) یہ جملہ دراصل پہلے جملہ کی تاکید ہے کیونکہ جب ایک مثل تک سایہ پہنچ گیا تو وقت ظہر ختم ہوگیا۔ اور عصر کا وقت شروع ہوگیا چونکہ اس جملے کا مطلب پہلے ہی جملے سے ادا ہوگیا تھا اس لئے یہی کہا جائے گا کہ یہ جملہ پہلے جملے کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے ہاں اتنی بات اور کہی جاسکتی ہے کہ یہ جملہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیان وقت مشترک نہیں ہے جیسا کہ امام مالک (رح) کا مسلک ہے۔ عصر کے وقت کی ابتداء تو معلوم ہوگئی کہ جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا عصر کا وقت شروع ہوجائے گا۔ آخری وقت کی بات یہ ہے کہ جب تک آفتاب زرد نہیں ہوجاتا عصر کا وقت بلا کراہیت باقی رہتا ہے چناچہ حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے۔ البتہ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک وقت جو از باقی رہتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفتاب کی زردی سے کیا مراد ہے تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ آفتاب کے زرد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اتنا بدل جائے کہ اس کی طرف نظر اٹھانے سے آنکھوں میں خیرگی نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غروب آفتاب کی جو شعاعیں دیوار وغیرہ پڑتی ہیں اس میں تغیر ہوجائے۔ لگے ہاتھوں اتنی بات اور جانتے چلئے کہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نیز حضرت امام زفر (رح) وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک باقی رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے چناچہ ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا آخری وقت ایک مثل تک رہتا ہے۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ (رح) کا تعلق ہے تو ایک روایت کے مطابق ان کا بھی وہی مسلک ہے جو جمہور علماء کا ہے بلکہ بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ امام اعظم کا فتویٰ بھی اسی مسلک پر ہے۔ چناچہ درمختار میں بہت سی کتابوں کے حوالوں سے اسی مسلک کو ترجیح دی گئی ہے۔ مگر ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ان کے دلائل ہدایہ وغیر میں مذکور ہیں۔ بہر حال علماء نے اس سلسلہ میں ایک صاف اور سیدھی راہ نکالی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ ظہر کی نماز تو ایک مثل کے اندر اندر پڑھ لی جاے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہوجائیں۔ مغرب کا وقت آفتاب چھپنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور شفق غائب ہوجانے کے وقت ختم ہوجاتا ہے۔ اکثر ائمہ کے نزدیک شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو آفتاب چھپنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے چناچہ اہل لغت کا کہنا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم اور علماء کی ایک دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ شفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی ختم ہونے کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ اہل لغت و دیگر ائمہ کے قول کے مطابق حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہ ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے چناچہ شرح وقایہ میں فتوی اسی قول پر مذکور ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مغرب کی نماز تو سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی جائے اور عشاء کی نماز سفیدی غائب ہونے کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہوں۔ عشاء کے بارے میں مختار مسلک اور فیصلہ یہ ہے کہ اس کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ٹھیک آدھی رات تک بلا کراہت باقی رہتا ہے البتہ وقت جو طلوع فجر سے پہلے تک رہتا ہے۔ فجر کا وقت طلوع صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ بظاہر تو حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلوع صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک تمام وقت نماز فجر کے لئے مختار ہے مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت مختار اسفار تک ہے اس کے بعد وقت جواز رہتا ہے۔ نماز کے اوقات کی تفصیل جان لینے کے بعد اب حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بھی سمجھ لیجئے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب کہ سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج نکلنے کی جگہ شیطان کے دونوں سینگ ہیں کہ سورج اس کے اندر سے طلوع ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب خود ایک روایت نے بتادیا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت شیطان آفتاب کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور اپنا سر آفتاب کے نزدیک کرلیتا ہے اسی طرح غروب آفتاب کے وقت کرتا ہے اس کے اس طرز عمل کا سبب یہ ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ان کفار کے اس طرز عمل کے ذریعہ وہ اپنا گمان یہ رکھتا ہے کہ لوگ میری عبادت کر رہے ہیں اسی طرح وہ اپنے تابعداروں کے ذہن میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ یہ لوگ آفتاب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہیں بلکہ درحقیقت میری عبادت کر رہے ہیں اور میرے سامنے ماتھے ٹیکتے ہیں۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز نہ پڑھا کریں تاکہ مسلمانوں کی عبادت شیطان کو پوجنے والوں کی عبادت کے اوقات میں نہ ہو۔

【19】

نماز کے اوقات کا بیان

اور حضرت بریدہ (رض) راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز کا وقت دریافت کیا (کہ نماز کا اوّل و آخر وقت کیا ہے) آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ دنوں میں تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تاکہ میں تمہیں نماز کے اوقات دکھا دوں) چناچہ جب سورج ڈھل گیا آپ ﷺ نے حضرت بلال (رض) کو (اذان کا) حکم دیا، حضرت بلال (رض) نے اذان دی۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں (تکبیر کہنے کا، حکم دیا، انہوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی) پھر آپ ﷺ نے عصر کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج بلند اور سفید و صاف تھا (اور عصر کی نماز پڑھائی، پھر مغرب کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج غروب ہی ہوا تھا، (اور مغرب کی نماز پڑھائی) پھر عشاء کی اقامت کا حکم دیا جب کہ شفق غائب ہوئی تھی اور عشاء کی نماز پڑھائی) پھر فجر نمودار ہوتے ہیں آپ ﷺ نے تمام نمازیں اوّل وقت پڑھا کر دکھا دیں کہ نمازوں کا اول وقت یہ ہے) پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ ﷺ نے بلال (رض) کو ظہر کو ٹھنڈا کر کے اذان دینے کا حکم دیا اور خوب ٹھنڈا کر کہ ظہر کی نماز کو پڑھایا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا لیکن کل کے وقت سے دیر کر کے نماز پڑھائی اور مغرب کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے (یعنی شفق غائب ہونے کے قریب) پڑھائی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے پر پڑھائی اور فجر کی نماز خوب روشنی ہوجانے پر پڑھائی اور اس کے بعد فرمایا نماز کے اوقات دریافت کرنے والا آدمی کہاں ہے ؟ اس آدمی نے سامنے (آکر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ! آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری نماز کے اوقات ان اوقات کے درمیان ہیں جو تم ان دنوں میں) دیکھ چکے ہو۔ (صحیح مسلم) تشریح سائل کا مطلب یہ تھا کہ نمازوں کے اوقات کے سلسلہ میں یہ بتادیا جائے کہ نماز کا اوّل وقت کیا ہوتا ہے اور آخر وقت کون سا ہوتا ہے ؟ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے نمازوں کے اوقات کو زبانی سمجھانے سے زیادہ بہتر یہ سمجھا کہ اسے عملی طور پر دیکھا جائے تاکہ اوقات اس کے ذہن نشین ہو سکیں اس لئے آپ ﷺ نے اسے نماز کا اوّل و آخر دونوں وقت بتانے کے لئے پہلے دن تو نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھیں۔ حدیث میں پہلے ظہر کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ ﷺ نے بلال (رض) کو اذان دینے کا حکم دیا چناچہ انہوں نے اذان دی پھر آپ ﷺ نے اقامت کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی۔ اس کے بعد عصر کا ذکر کیا گیا ہے لیکن نہ تو عصر کی نماز کا وقت ذکر کیا گیا ہے اور نہ عصر ہی اور نہ اس کے بعد کی اذانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معروف ہے۔ دوسرے دن آپ ﷺ نے ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا یعنی پہلے روز کے مقابلے میں دوسرے دن ظہر کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھی کہ گرمی کی شدت اور تپش کی سختی جاتی رہی تھی۔ عصر کی نماز آپ ﷺ نے پہلے روز کی تاخیر کے مقابلے میں زیادہ تاخیر سے یعنی دو مثلین کے بعد پڑھائی لیکن پہلے روز کی تاخیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عصر کی نماز میں پہلے روز تاخیر کی گئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز ظہر سے تاخیر کی گئی تھی۔ دوسرے روز آپ ﷺ نے تمام نمازوں کو تاخیر سے یعنی ان کے آخری اوقات میں ادا کیا جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا۔ مگر آپ ﷺ نے عشاء کو آخر وقت تک موخر نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ ﷺ عشاء کو اس کے آخر وقت مختار یعنی آدھی رات تک موخر کرتے تو اس سے لوگوں کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی ہوتی اور اگر آپ ﷺ عشاء سے پہلے سو رہتے تو مناسب نہ ہوتا کیونکہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا مکروہ ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے ان دو دنوں میں ہمارے ساتھ نماز پڑھ کر یہ دیکھ لیا ہے کہ نمازوں کا اوّل وقت کیا ہے اور آخری وقت کیا ہے لہٰذا شروع سے لے کر آخر تک اوّل وقت بھی ہے اور اوسط بھی اور آخر وقت بھی ہے لہٰذا اس کے درمیان تم جب چاہو نماز پڑھ سکتے ہو۔ آخر وقت سے مراد وقت مختار ہے نہ کہ وقت جواز۔ اس لئے کہ نمازوں کے جو آخری وقت آپ ﷺ نے بیان فرمائے ہیں۔ ان کے بعد بھی نماز کا وقت باقی رہتا ہے تاہم وہ وقت جواز ہوتا ہے وقت مختار نہیں ہوتا۔

【20】

نماز کے اوقات کا بیان

حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے (نماز کی کیفیت اور اوقات بتانے کے لئے) امام بن کر خانہ کعبہ کے نزدیک مجھے دو مرتبہ (دو روز) نماز پڑھائی چناچہ (پہلے روز جس وقت سورج ڈھل گیا اور سایہ تسمے کے مانند تھا تو مجھے ظہر کی نماز پڑھائی اور جب ہر چیز کا سایہ (علاوہ سایہ اصلی کے) اس کے برابر ہوگیا تو مجھے عصر کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار روز افطار کرتا ہے (یعنی سورج چھپنے کے بعد) تو مجھے مغرب کی نماز پڑھائی اور شفق غائب ہونے کے وقت مجھے عشاء کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار کے لئے کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے (یعنی صبح صادق کے بعد) تو مجھے فجر کی نماز پڑھائی۔ اور جب اگلا روز ہوا تو انہوں نے مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سایہ ایک مثل ( کے قریب ہوگیا اور مجھے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہوجاتا ہے اور مجھے مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار افطار کرتا ہے اور مجھے عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ تہائی رات ہوگئی تھی اور مجھے فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ خوب روشنی ہوگئی اور پھر (جبریل (علیہ السلام) نے) میری طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اے محمد ﷺ ! یہ وقت آپ ﷺ سے پہلے کے نبیوں (کی نماز) کا ہے اور نماز انہیں دو وقتوں کے درمیان ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح جگہ اور وقت کے اعتبار سے سایہ اصلی مختلف ہوتا ہے چناچہ بعض جگہ تو سایہ زیادہ ہوتا ہے اور بعض جگہ کم ہوتا ہے اور بعض وقت سایہ اصلی ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مکہ معظمہ میں انیسویں سرطان کو سایہ اصلی نہیں ہوتا۔ اس لئے سرکار دو عالم ﷺ نے پہلے روز کی نماز طہر کی وقت کے بارے میں فرمایا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے پہلے دن مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ان دنوں میں مکہ معظمہ میں سایۂ اصلی جوتوں کے تسموں کی چوڑائی کے برابر تھا گویا وہ ظہر کا اوّل وقت تھا۔

【21】

نماز کے اوقات کا بیان

حضرت ابن شہاب ( اسم گرامی محمد بن عبداللہ بن شہاب ہے زہری کی نسبت سے مشہور ہیں۔ آپ کی وفات ماہ رمضان ١٢٤ ھ میں ہوئی آپ جلیل القدر تابعی تھے) راوی ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے (ایک روز) عصر کی نماز (وقت مختار سے کچھ) تاخیر کر کے پڑھی حضرت عروہ نے (جب یہ دیکھا تو) کہا کہ سمجھ لیجئے ! حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر (اوّل وقت) نماز پڑھائی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا عروہ ! ذرا سوچ سمجھ کر کہو کیا کہتے ہو ؟ عروہ نے کہا، میں نے حضرت ابومسعود (رض) کے صاحبزادے حضرت بشیر (رح) سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت ابومسعود (رض) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) آکر میرے امام بنے اور میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، (راوی فرماتے ہیں کہ) رسول اللہ ﷺ نے پانچ نمازیں انگلیوں پر گن کر بتائیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عروہ کا یہ مقصد تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کو یہ یاد دلائیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی امامت کے بارے میں جو حدیث وارد ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو پہلے دن اول وقت نمازیں پڑھائی تھیں تو اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کو اوّل وقت پڑھنا افضل ہے اس لئے آپ علیہ الرحمۃ نے اس وقت نماز میں تاخیر کر کے (اگرچہ یہ تاخیر زیادہ نہیں تھی) فضیلت کی سعادت کو کیوں ترک کیا ؟۔ حضرت عمر (رض) نے جواب میں جو یہ کہا کہ عروہ ! ذرا سوچ سمجھ کر کہو کیا کہتے ہو ؟ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو بیان کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ اہم اور عظیم چیز ہے حدیث کو بیان کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز حدیث کو بغیر سند کے بیان نہ کرنا چاہئے اس لئے سوچ سمجھ کر حدیث بیان کرو اور اس کی سند کے ساتھ بیان کرو۔ حضرت عروہ کی جلالت شان اور رفعت علم و فضل کا گو تقاضا تو یہ تھا کہ ان سے اس قسم کی بات نہ کہی جاتی مگر چونکہ روایت حدیث کی عظمت شان پیش نظر تھی اس لئے انہیں اس طرف توجہ دلائی گئی اور پھر عروہ نے بھی روایت حدیث کی اسی عظمت کے پیش نظر حضرت عمر (رض) کے توجہ دلانے کو نہ صرف یہ کہ اپنے علم و فضل کے منافی نہ سمجھا بلکہ اسے خیر و برکت کا باعث جان کر اس پر متنبہ ہوئے اور حدیث کی پوری سند یوں بیان کر کے اپنی قوت حفظ و ذہانت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات واضح کردی کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اس کی صداقت کا میں یقینی علم رکھتا ہوں کیونکہ یہ وہ روایت ہے جس کو میں نے بشیر سے سنا ہے اور انہوں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابومسعود (رض) سے سنا اور انہوں نے خود رسول اللہ ﷺ کی لسان مقدس سے سنا ہے۔ اس حدیث میں راوی نے نماز کے اوقات تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب کو چونکہ اوقات کی پوری تفصیل معلوم تھی اس لئے یہاں تو صرف صورت واقعہ بیان کئے گئے ہیں ہاں دوسری روایات میں اوقات کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔

【22】

نماز کے اوقات کا بیان

اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے عاملوں (یعنی اسلامی سلطنت کے حکام) کے پاس یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ تمہارے سب کاموں میں مہتم بالشان کام میرے نزدیک نماز کا پڑھنا ہے لہٰذا جس نے اس کی محافظت کی (یعنی ارکان و شرائط کے ساتھ نماز پڑھی اور اس پر نگہبانی رکھی (یعنی اسے ہمیشہ اداء کرتا رہا اور ریاء و نمائش کے سبب اسے باطل نہ کیا) تو گویا اس نے اپنے دین (کے بقیہ امور کی نگہبانی و محافظت کی اور جس نے اسے ضائع کردیا تو وہ اس چیز کو جو نماز کے علاوہ ہے بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔ پھر یہ لکھا کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے سے لے کر ایک مثل سایہ تک (علاوہ سایہ اصلی کے) پڑھا کرو اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھا کرو کہ سورج اونچا اور سفید رہے اور سورج ڈوبنے میں) اتنا وقت رہے کہ کوئی سوار سورج ڈوبنے سے پہلے دو یا تین میل کا سفر طے کرسکے اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھا کرو اور عشاء کی نماز شفق غائب ہونے کے وقت سے تہائی رات تک پڑھا کرو اور جو آدمی (عشاء سے پہلے) سو جائے (تو اللہ کرے) ان کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ ہو (تین مرتبہ یہ دعا کی اور لکھا ہے کہ) صبح کی نماز ایسے وقت پڑھو جب کہ ستارے گنجان چمکتے ہوئے ہوں (یعنی تاریکی میں پڑھو۔ (مالک) تشریح چونکہ نماز دین کا ستون اور بنیاد ہے نیز یہی وہ عبادت ہے جو برائیوں سے روکتی اور بھلائی وسعادت کے راستہ پر لگاتی ہے اس لئے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ جس نے نماز کی محافظت کی گویا اس نے دین کے تمام امور کی محافظت کی۔ اسی طرح فرمایا کہ جس نے نماز کو ضائع کیا یعنی نماز یا تو بالکل پڑھی ہی نہیں اور اگر پڑھی تو شرائط و واجبات کا قطعًا لحاظ نہ کیا تو وہ نماز کے علاوہ دیگر واجبات و مستحبات اور دینی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے کیونکہ نماز ہی عبادات کی اصل ہے جب اس نے اسی کا خیال نہ رکھا تو اس سے دوسرے امور دین کے خیال رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ حضرت عمر (رض) کا یہ حکم کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے کے وقت یعنی اس کے فورا بعد (کہ وہ ظہر کا اول وقت ہوگا) پڑھو۔ ان مقامات کے لئے ہے جہاں سایہ اصلی اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سایہ اصلی مقامات اور وقت کے اعتبار سے ہوتا ہے کہ کہیں تو زیادہ ہوتا ہے اور کہیں کم ہوتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے عشاء سے پہلے سونے والے کے بارے میں تین مرتبہ بد دعا تاکید و تہدید کے لئے فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عشاء سے پہلے نماز پڑھے بغیر جو آدمی سو جائے اللہ اس کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ کرے وہ بےآرامی و بےقراری میں مبتلا رہے۔ چنانچہ حضرت ابن حجر شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا حرام ہے مگر حنفیہ کے نزدیک یہ حکم تفصیل پر محمول ہے یعنی اگر کوئی نماز کا وقت شروع ہوجانے کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے سوئے اور اسے اس بات کا گمان بھی ہو کہ میں نماز کے آخر وقت تک سوتا ہی رہوں گا تو اس کے لئے یہ سونا جائز نہ ہوگا۔ اور اگر اسے اپنے اوپر کامل اعتماد ہو کہ میں بغیر جگائے ایسے وقت اٹھ جاؤں گا کہ وقت کے اندر اندر پوری نماز پڑھ لوں گا تو اس کے لئے سونا جائز ہوگا۔ مذکورہ بالا حکم وقت شروع ہوجانے کے بعد سونے کے سلسلہ میں ہے لیکن وقت شروع ہونے سے پہلے سونے کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے، چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس بارے میں بھی وہی پہلی تفصیل کی جائے گی۔ اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وقت شروع ہونے سے پہلے سو جانا مطلق حرام نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی آدمی وقت شروع ہونے سے پہلے نماز کے لئے مکلف نہیں ہوتا۔

【23】

نماز کے اوقات کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز ظہر کا اندازہ گرمیوں میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑوں میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح دونوں موسم میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ سردی کے موسم میں سایہ اصلی زیادہ ہوتا ہے اور گرمی کے موسم میں سایہ اصلی کم ہوتا ہے خصوصاً حرمین میں ورنہ یہ دونوں وقت برابر ہیں یہ حدیث بہر صورت زوال کے بعد ظہر کی نماز کو تاخیر کرنے پر دلالت کرتی ہے قدم سے مراد ہر آدمی کے قد کا سا تو اں حصہ ہے چناچہ اس اعتبار سے کہ ہر آدمی کے قد کا طول اس کے سات قدم (یعنی سات پاؤں) کے برابر ہوتا ہے ہر چیز کا طول سات قدم مقرر ہے۔

【24】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

ارشاد ربانی ہے آیت (فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰت) 2 ۔ البقرۃ 148) یعنی بھلائیوں میں جلدی کرو۔ آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کے بارے میں اصل یہی ہے کہ اسے جلدی یعنی اوّل وقت ادا کرلیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ آیت کا مفہوم تو یہی ہے کہ بھلائی کے تمام کاموں کو جن میں نماز بھی شامل ہے جلدی کر ڈالنا بہتر اور مناسب ہے مگر جن مواقع کے لئے شارع (علیہ السلام) نے تاخیر کا حکم فرمایا ہے وہاں تاخیر کرنا اولیٰ و افضل ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک تمام نمازوں کو ان کے اوّل وقت میں ادا کرنا مطلقا مستحب ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ سردی کے موسم میں تو ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھ لینی چاہئے مگر گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح فجر کی نماز ہر موسم میں اجالے میں پڑھنی چاہئے اور عشاء کی نماز تاخیر کے ساتھ پڑھنی چاہئے نیز عصر کی نماز بھی تاخیر کر کے پڑھنی چاہئے مگر اس میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ آفتاب متغیر ہوجائے نمازوں کو جلدی پڑھنے کی حدیہ ہے کہ ان کے اوّل وقت کے پہلے نصف حصہ میں ادا کی جائیں۔

【25】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

حضرت سیار ابن سلامہ (رح) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد (ہم دونوں) حضرت ابوبرزہ اسلمی (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کس طرح (یعنی کس کس وقت) پڑھتے تھے، انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز جسے پہلی نماز کہا جاتا ہے سورج ڈھلنے کے وقت پڑھتے تھے اور عصر کی نماز (ایسے وقت) پڑھتے تھے کہ ہم میں سے کوئی نماز پڑھ کر مدینہ کے کنارے اپنے مکان پر جا کر سورج روشن ہوتے ہوئے ( یعنی اس کے متغیر ہونے سے پہلے) واپس آجاتا تھا۔ سیار فرماتے ہیں کہ مغرب کے بارے میں ابوبرزہ (رض) نے جو کچھ بتایا تھا وہ میں بھول گیا اور (ابوبرزہ (رض) کہتے تھے کہ عشاء کی نماز جسے تم عتمہ کہتے ہو رسول اللہ ﷺ تاخیر سے پڑھنے کو بہتر سمجھتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد (دنیاوی) باتیں کرنے کو آپ ﷺ مکروہ سمجھتے تھے اور صبح کو نماز ایسے وقت پڑھ ( کر فارغ ہو) لیتے تھے کہ ہر آدمی اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا اور (نماز میں) ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھ لیا کرتے تھے، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تہائی رات تک عشاء میں دیر کرنے میں تامل نہ فرماتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں ظہر کے بارے میں جو وقت ذکر گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سردی کے موسم میں ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھتے ہوں گے کیونکہ یہ قولا اور فعلا ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ﷺ گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ عتمہ اس تاریکی کو کہتے ہیں جو شفق غائب ہونے کے بعد ہوتی ہے چناچہ پہلے عرب میں عتمہ عشاء کو کہتے تھے مگر بعد میں رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو منع کردیا کہ عشاء کو عتمہ نہ کہا جائے۔ یہاں تاخیر سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ عشاء کی نماز تہائی رات تک تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ عشاء کی نماز کے بعد دنیا کی باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اعمال کا خاتمہ عبادت اور ذکر اللہ پر ہونا چاہئے کیونکہ نیند بمنزلہ موت ہے۔ شرح السنۃ میں منقول ہے کہ عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے اور بعض حضرات نے سونے کی اجازت دی ہے چناچہ حضرت عمر فاروق (رض) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عشاء سے پہلے سوتے اور بعض علماء کے نزدیک صرف رمضان میں عشاء سے پہلے سونا جائز ہے۔ حضرت امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ عشاء کی نماز کا وقت سونے کی نذر ہوجائے گا تو سونا مکروہ نہیں ہے۔ عشاء کے بعد باتوں میں مشغول ہونے کو علماء کی ایک جماعت نے مکروہ کہا ہے چناچہ حضرت سعید ابن مسیب کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک بغیر عشاء کی نماز پڑھے سو رہنا اس سے بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد کوئی آدمی لغو کلام اور دنیاوی باتوں میں مشغول ہو۔ بعض علماء نے عشاء کے بعد علم کی باتیں کرنے کی اجازت دی ہے اسی طرح ضرورت اور حاجت کے سلسلے میں یا گھر والوں اور مہمان کے ساتھ باتیں کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (ملا علی قاری) حضرت شٰخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں جائز ہیں، یعنی اگر کوئی آدمی عشاء کی نماز سے پہلے سستی اور کاہلی کو دور کرنے اور نشاط و تازگی حاصل کرنے کے لئے سونا چاہے تو اس کے لئے سونا جائز ہے، اسی طرح عشاء کی نماز کے بعد ایسی باتیں کرنا جو ضروری ہوں اور بےمعنی نہ ہوں جائز ہے۔

【26】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت محمد بن ابن عمرو ابن حسن ابن علی (رح) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) سے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز دوپہر ڈھلے پڑھتے تھے اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج زنار (یعنی روشن) ہوتا تھا اور مغرب کی نماز آفتاب غروب ہونے کے بعد پڑھتے تھے اور عشاء کی نماز میں جب لوگ زیادہ آجاتے تو جلدی ہی پڑھ لیتے تھے اور جب لوگ کم ہوتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح عشاء کی نماز کے بارے میں یہاں وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر لوگ زیادہ آجاتے تو آپ ﷺ نماز جلدی پڑھ لیتے اور اگر کم آتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعت کی کثرت کی پیش نظر نماز کو اوّل وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین نے اوّل وقت نماز پڑھنے کا التزام اسی لئے نہیں کیا ہے کہ تاخیر سے نماز پڑھنے میں جماعت میں کثرت ہوجاتی ہے نہ یہ کہ ان حضرات کے نزدیک اوّل وقت افضل نہیں ہے۔ اوّل وقت تو بہر صورت افضل ہے لیکن بعض خارجی عوارض جیسے جماعت کی کثرت وغیرہ کی بناء پر تاخیر ہی اولیٰ ہوتی ہے۔ صبح کی نماز تاریکی میں پڑھنے کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ صحابہ کرام رات بھر سونے کے بجائے ذکر و عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صبح سویرے ہی مسجد میں موجود رہتے تھے اس لئے آپ ﷺ جماعت کی کثرت کے پیش نظر جلدی پڑھ لیتے تھے۔ آخر میں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ مستقلاً تاریکی ہی میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور اگر بفرض محال اسے مان بھی لیا جاے تو یہ ثابت ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز روشنی میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حنفیہ کے نزدیک فعل کے مقابلے میں امر (یعنی حکم) کو ترجیح دی جاتی ہے۔

【27】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھتے ہوئے گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرلیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حنفیہ کے نزدیک چونکہ نمازی اپنے پہنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرسکتا ہے اس لئے یہ حضرات اس حدیث کو اپنے مسلک کی دلیل میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کے لئے پہنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرنا درست ہے۔ حضرات شوافع کے نزدیک چونکہ ایسے کپڑے پر جو نمازی کے ہلنے سے حرکت کرتے ہوں سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے وہ ان کے بدن پر نہیں ہوتے تھے بلکہ گرمی سے بچاؤ کی خاطر انہیں علیحدہ فرش پر بچھائے رکھتے تھے۔ اس حدیث کو مصنف مشکوٰۃ نے باب تعجیل الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ زمین پر گرمی کی تپش اوّل وقت ہی رہتی ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ گرمی کے موسم میں بھی ظہر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ بات اس حدیث سے معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بسا اوقات (بلکہ زیادہ گرمی کے موسم میں) اوّل وقت کی بہ نسبت بعد میں زیادہ گرمی ہوجاتی ہے۔

【28】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں ابوسعید (رض) سے منقول ہے کہ ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھا کرو ( یعنی ابوہریرہ (رض) کی روایت میں تو بالصلوٰۃ کا لفظ آیا ہے اور ابوسعید کی روایت میں بالظہر کا لفظ آیا ہے نیز اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے اور (دوزخ کی) آگ نے اپنے رب سے شکایۃ عرض کیا کہ میرے پروردگا ! میرے بعض (شعلے) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ہے۔ اب وہ ایک سانس جاڑے میں لیتی ہے اور ایک سانس گرمی میں۔ گرمی میں جس وقت تمہیں زیادہ گرمی معلوم ہوتی ہے اور جاڑے میں جس وقت تمہیں زیادہ سردی معلوم ہوتی ہے (تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں لیتی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جس وقت تم گرمی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا گرم سانس ہوتا ہے اور جس وقت تم سردی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا ٹھنڈا سانس ہوتا ہے۔ تشریح پروردگار سے دوزخ کی آگ کی نے یہ شکایت کی کہ میرے بعض (شعلے) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ کنایہ ہے اجزاء آگ کی کثرت سے اور آپس کے اختلاط سے یعنی آگے کے شعلے اتنے زیادہ ہوتے ہیں اور اس شدت سے بھڑکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ دوسرے شعلے کو فنا کر گھاٹ اتار کر اس کی جگہ بھی خود لے لے۔ چناچہ پروردگار نے اسے سانس لینے کی اجازت دے دی یعنی سانس سے مراد شعلے کو دبانا اور اس کا دوزخ سے باہر نکلنا ہے۔ جس طرح کہ جاندار سانس لیتا ہے تو ہوا باہر نکلتی ہے۔ بہر حال ایسے وقت باوجود یہ کہ مشقت بہت ہوتی ہے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسے سخت وقت میں جب کہ گرمی اپنی شدت پر ہوتی ہے دل و دماغ تپش کی وجہ سے بےچین ہوتے ہیں نیز خشوع اور سکون وا طمینان حاصل نہیں ہوتا جو نماز کی روح ہیں۔ اس موقع پر عقلی طور پر چند اشکال پیدا ہوتے ہیں ان کی وضاحت کر دینی ضروری ہے۔ پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ گرمی اور سردی کی شدت زمین کی حرکت، عرض البلد اور آفتاب کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے یہاں یہ کیسے کہا گیا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے ؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہاں دوزخ کی بھاپ کو گرمی کی شدت کا سبب بتایا گیا ہے نہ کہ اصل گرمی کا۔ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ گرمی اور سردی کی شدت بھی آفتاب کے قرب و بعد کی بناء پر ہوتی ہے کیونکہ اس کے باوجود ہوسکتا ہے کہ دوزخ کا سانس اس میں مزید شدت پیدا کرتا ہو لہٰذا اس کا انکار مخبر صادق کی خبر کے ہوتے ہوئے طریقہ اسلام کے منافی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اتنی بات تو طے ہے کہ زمین میں حرارت کی علت سورج کا مقابلہ اور اس کی شعاعیں پڑنا ہے اور یہ کہیں ثابت نہیں ہوا ہے کہ سورج دوزخ نہیں ہے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ہمارے نظام کی دوزخ یہی ہو جسے ہم سورج کہتے ہیں کیونکہ سورج میں ناریت کا تموج اور اشتعال اس قدر ہے کہ دوزخ کی تمام صفات اس پر منطبق ہوتی ہیں اور اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ سورج دوزخ نہیں ہے تو یہ بالکل بعید اور ناممکن نہیں ہے کہ دوزخ علیحدہ ہو اور اس کی گرمی کا اثر زمین پر پڑتا ہو۔ دوسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ نے شکایت کیسے کی کیونکہ دوزخ بےزبان ہے اور بےزبان اظہار مدعا کیسے کرسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح زبان کے لئے تلفظ ضروری نہیں ہے اسی طرح تلفظ کے لئے زبان بھی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر جانوروں کی زبان ہوتی ہے مگر وہ تلفظ نہیں کرتے ایسے ہی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے زبان نہیں ہوتی مگر وہ بات کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ اشکال پیدا کرنا کہ بغیر زبان کے بات کرنا ناممکن ہے کم فہمی کی بات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی یہ پوچھنے بیٹھ جائے کہ زبان سے بات کیوں کی جاتی ہے اس سے سننے کا کام کیوں نہیں لیا جاتا ؟ آنکھ سے دیکھتے اور کان سے سنتے کیوں ہو ان سے بات کیوں نہیں کرتے جب کہ یہ سب اعضاء بظاہر ایک ہی مادہ سے بنتے ہیں جو نطفہ ہے تو ہر ایک قوت کی تخصیص کی وجہ ایک خاص چیز سے کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ یہ صانع مطلق کی قدرت ہے کہ بولنا زبان سے مختص کیا، دیکھنا آنکھ سے اور سننا کان سے ورنہ یہ سب اعضاء گوشت کا ایک حصہ ہونے میں برابر ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ کیا صانع مطلق کی یہ قدرت نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنی ایک مخلوق کو گویائی کی قوت دے دے اور جب کہ حکماء کی ایک جماعت تو یہ بھی کہتی ہے کہ اجرام فلکیہ میں نفوس ہیں اور ان میں احساس و ادراک کی قوت ہے تو اس صورت میں بولنا بعید ہے ؟۔ تیسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ جاندار نہیں ہے وہ سانس کیسے لیتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دوزخ میں نفس ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے اور جب مذکورہ بالا بحث کی رو سے اس سے تکلم ثابت ہوسکتا ہے تو سانس لینے میں کیا اشکال باقی رہ جائے گا !۔ چوتھا اشکال یہ ہے کہ آگ کے ٹھنڈا سانس لینے کے کیا معنی ؟۔ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ آگ سے مراد اس کی جگہ یعنی دوزخ ہے اور اس میں ایک طبقہ زمہریر بھی ہے۔ پانجواں اشکال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کے مفہوم کے مطابق تو یہ چاہئے تھا کہ سخت سردی کے موسم میں فجر کو بھی تاخیر سے پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سردی میں صبح کو سورج نکلتے تک اسی شدت کے ساتھ رہتی ہے اگر طلوع آفتاب تک نماز میں تاخیر کی جاتی ہے تو وہاں سرے سے وقت ہی جاتا رہتا۔ بہر حال۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود صحابہ بھی گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ چناچہ صحیح البخاری کی ایک روایت میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز (تاخیر سے) ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے زمین پر پڑنے لگتے تھے۔ اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ٹیلے چونکہ پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے ان کے سائے زمین پر بہت دیر کے بعد پڑتے ہیں بخلاف دراز چیزوں مثلاً مینار وغیرہ کے ان کے سائے جلدی ہی پڑنے لگتے ہیں۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز کے لئے دیواروں کے سائے میں ہو کر جاتے تھے۔ اور دیواروں کے بارے میں تحقیق ہوچکی ہے کہ اس وقت دیواریں عام طور پر سات سات گز کی ہوتی تھی۔ لہٰذا ان کے سائے میں چلنا اس وقت کار آمد ہوتا ہوگا جب کہ سورج کافی نیچے ہوتا ہو۔ بعض حضرات نے تاخیر کی حد آدھا وقت مقرر کی ہے یعنی کچھ علماء یہ فرماتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز آدھے وقت تک مؤخر کر کے پڑھنی چاہئے۔ بعض شوافع حضرات حدیث سے ثابت شدہ ابراد (یعنی نماز کو ٹھنڈا کر کے) کا محمول وقت زوال کو بتاتے ہیں یعنی ان کا کہنا یہ ہے کہ اس ابراد کا مقصد نماز ظہر میں اتنی تاخیر نہیں ہے جو حنفیہ بتاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت استواء کی شدید گرمی سے بچنے کے لئے زوال کی وقت ظہر کی نماز پڑھنی چاہئے۔ ان حضرت کی یہ تاویل نہ صرف یہ کہ بعیداز مفہوم ہے بلکہ خلاف مشاہدہ بھی ہے کیونکہ وقت استواء کے مقابلہ میں زوال کے وقت گرمی کی شدت میں کمی آجانے کا خیال تجربہ و مشاہدہ ہے۔ ہدایہ میں مذکور ہے کہ جن شہروں میں گرمی کی شدت آفتاب کے ایک مثل سایہ پہنچنے کے وقت ہوتی ہے وہاں تو ابراد کا مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ نماز ایک مثل سایہ ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ الحاصل۔ ظہر کی نماز کو ابراد میں یعنی ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے بارے میں بہت زیادہ حد یثیں وارد ہیں جن سے متفقہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کر کے پڑھنا ہی افضل و اولیٰ ہے۔ جہاں تک حدیث حباب (رض) کا تعلق ہے جس میں مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے گرمی کے موسم میں دوپہر کی شدت کے بارے میں شکایت کی تو آپ ﷺ نے ہماری درخواست قبول نہیں کی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو پورے وقت تک موخر کرنے کی درخواست کی تھی اس لئے آپ ﷺ نے اسے قبول نہیں فرمائی کہ اگر اتنی تاخیر کی جائے گی تو نماز کا وقت بھی نکل جائے گا۔ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ابراد رخصت ہے اور وہ بھی سب کے لئے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لئے ہے جو جماعت کے لئے مسجدوں میں جانے کے لئے مشقت و محنت کا سامنا کرتے ہیں۔ جو لوگ تنہا نماز پڑھتے ہوں یا اپنے پڑوس و محلہ کی مسجد میں نماز کے لئے آتے ہوں ان کے لئے میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے کہ وہ اول وقت سے تاخیر نہ کریں، یہ قول ظاہر حدیث کے خلاف ہے اس لئے اس کی اتباع نہیں کی جاسکتی۔ حضرت امام ترمذی (رح) نے ایک حدیث نقل کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں بھی باوجود یہ کہ سب یکجا رہتے تھے ابراء کا حکم فرمایا کرتے تھے، نیز امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ جو آدمی گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے ظہر کی نماز کو تاخیر سے پڑھنے کے لئے کہتا ہے اس مسلک کی اتباع سنت کی وجہ سے اولیٰ و افضل ہے۔

【29】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج اونچا اور زندہ (یعنی روشن) ہوتا تھا اور کوئی جانے والا عوالی جا کر واپس آجایا کرتا تھا اور سورج اونچا ہی رہتا تھا اور بعض عوالی مدینہ سے چار میل تقریباً چار میل کے فاصلے پر ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح عوالی عالیہ کی جمع ہے، مدینہ شہر کے باہر بلندی پر جو بستیاں ہیں انہیں عوالی کہا جاتا ہے۔ مسجد بنی قریظہ بھی اسی طرف ہے۔

【30】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ (عصر کی نماز جو آخر وقت میں پڑھی جاتی ہے) منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے جب سورج زرد ہو کر شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (چھپنے کے قریب) ہوجاتا ہے تو جلدی سے اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر بھی اس نماز میں قدرے کم ہی کرتا ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح ٹھونگیں مارنے کا مطلب یہ ہے وہ بغیر طمانیت و سکون کے اس طرح جلدی جلدی سجدے کرتا ہے جیسے جانور دانہ چگتا ہے عصر کی نماز میں سجدے آٹھ ہوتے ہیں مگر یہاں چار اس لئے فرمائے ہیں کہ جب اس نے پہلا سجدہ کر کے اچھی طرح سر نہیں اٹھایا تو گویا دونوں سجدے ایک سجدہ کے حکم میں آگئے یا دونوں سجدوں کو ایک ہی رکن مانتے (سمجھتے) ہوئے بجائے آٹھ کے چار کا ذکر فرمایا ہے۔ یہاں صرف عصر کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے دوسری نمازوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اور یوں تو سب ہی نمازوں میں ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بری بات ہے مگر دوسری نمازوں کی بہ نسبت اس نماز کو دل جمعی اور سکون خاطر کے ساتھ نہ پڑھنا اور اس کے ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بہت ہی بری بات ہے۔ مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے عصر کی نماز کو سورج کے زرد ہونے تک موخر کیا تو اس نے اپنے آپ کو منافقین کے مشابہ ظاہر کیا کیونکہ منافق نماز کی صحت و تکمیل کا کوئی خیال نہیں کرتا وہ تو صرف ظاہری طور پر مسلمان بن کر تلوار سے بچنے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور اسے نماز میں اتنی زیادہ تاخیر کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ اسے اجر وثواب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ منافقین کی عملاً و فعلاً مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز کو وقت مختار میں پڑھ لیا کریں۔

【31】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کی نماز عصر قضا ہوگئی تو گویا کہ مال اس کے اہل و عیال سب لٹ گئے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کی عصر کی نماز قضا ہوجائے تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس کا گھر بار اور مال و اولاد سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ یا ان میں کمی واقع ہوجائے لہذا جس طرح کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی تباہی و بربادی سے ڈرتا رہتا ہے جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ یہاں بھی صرف نماز عصر کے ذکر کی وجہ سے یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اس کو چھوڑنا دوسری نمازوں کو چھوڑنے کے مقابلے میں زیادہ سخت گناہ ہے۔

【32】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت بریدہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے عصر کی نماز چھوڑ دی (گویا) اس کے تمام (نیک) اعمال برباد ہوگئے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے تمام نیک اعمال برباد ہوجائیں گے، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ تمام اعمال کے برباد ہوجانے کی بدبختی تو صرف اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو مرتد مرتا ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی تو اس نماز کی وجہ سے اسے جو اجر وثواب ملتا اور اس کی نیکیوں میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ اس سے محروم رہا یا یہ کہ اس دن کے اعمال میں جو کمال اسے نماز عصر کی بناء پر حاصل ہوتا وہ ضائع ہوگیا جس سے اس کے اعمال میں کمی واقع ہوگئی۔ حنفیہ کے نزدیک صرف مرتد ہوجانے سے تمام اعمال باطل ہوجاتے ہیں ان کے نزدیک موت کی قید نہیں ہے حتی کہ اگر کسی آدمی پر حج واجب تھا اور وہ حج کرنے کے بعد (نعوذ با اللہ) مرتد ہوگیا پھر بعد میں اللہ نے اسے ہدایت بخشی اور وہ اسلام میں داخل ہوگیا تو اسے حج دوبارہ کرنا ہوگا معتزلہ کے نزدیک کبیرہ گناہوں کے صدور سے بھی اعمال باطل ہوجاتے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔

【33】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت رافع ابن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز (ایسے وقت) پڑھتے تھے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد کوئی اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مغرب کی نماز ایسے (اول) وقت پڑھ لیتے تھے کہ نماز پڑھ کر واپس آنے کے بعد اگر کوئی آدمی تیر پھینکتا تو وہ یہ دیکھ لیتا تھا کہ وہ تیر جا کر کہاں گرا ہے۔ بہر حال۔ تمام علماء کے نزدیک بالاتفاق مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا مستحب ہے۔

【34】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عشاء کی نماز شفق کے غائب ہونے کے بعد سے اول تہائی رات تک پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پہلے عرب میں لوگ عشاء کو عتمہ کہتے تھے مگر آنحضور ﷺ نے جب عشاء کو عتمہ کہنے سے منع کردیا تو یہ نام ترک کردیا گیا، مگر یہاں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے عشاء کو عتمہ ہی کہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اس وقت تک حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو یہ معلوم نہیں ہوا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کو عتمہ کہنے سے منع کردیا ہے۔ عشاء کے وقت کے سلسلے میں بھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تہائی رات تک تو وقت مختار ہے اور طلوع صبح سے پہلے پہلے تک وقت جواز رہتا ہے۔

【35】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ (جب) رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تھے تو (وہ) عورتیں (جو آپ کے ہمراہ نماز پڑھتی تھیں) چادروں میں لپٹی ہوئی واپس چلی جاتی تھیں اور اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی شناخت نہیں کرسکتا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【36】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت قتادہ (رض) حضرت انس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت زید ابن ثابت (رض) نے (روزہ رکھنے کے لئے) سحری کھائی۔ سحری سے فراغت کے بعد رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور نماز پڑھی (قتادہ فرماتے ہیں کہ) ہم نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ ان دونوں کے سحری سے فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنے وقت کا وقفہ تھا۔ حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ اتنے وقت کا وقفہ تھا کہ ایک آدمی پچاس (متوسط) آیتیں پڑھ لے۔ (صحیح البخاری ) تشریح علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں وقت کا جو اندازہ بیان کیا گیا ہے اس پر عام مسلمان کو عمل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل براہ راست بارگاہ الوہیت سے مطلع ہوجانے کے بعد تھا۔ دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ تو دین کے معاملہ میں معصوم عن الخطا تھے کہ آپ سے کسی دینی معمولی لغزش کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ ہر ایک کو کہاں نصیب !۔

【37】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب کہ تمہارے امراء (احکام) نماز کو وقت مختار سے ٹال کر، یا وقت مختار سے مؤخر کر کے پڑھیں گے۔ میں نے عرض کیا، ایسے وقت کے لئے آپ ﷺ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا۔ اس وقت تم اپنی نماز کو وقت پر پڑھ لو پھر اگر ان کے ساتھ بھی نماز مل جائے تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم) تشریح حدیث کے الفاظ (او کانوا یوخرون عن وقتھا) لفظ اور اوی کا شک ہے یعنی حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا ہے کہ اس سے پہلے کے راوی نے لفظ یمیتون کہا ہے یا یو خرون۔ ویسے معنی کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے اس وقت تم کیا کرو گے جب کہ تم یہ دیکھو گے کہ وہ آدمی جو تمہارا حاکم و سردار ہوگا نماز میں سستی و کاہلی کرے گا نماز کو اس کے اول وقت میں نہ پڑھے گا بلکہ غیر مختار طور پر مؤخر کرے گا اور چونکہ وہ تمہارا حاکم ہوگا اس لئے اس پر قادر نہیں ہو سکو گے کہ اس کی مخالفت کر کے اسے سیدھی راہ پر لگا دو تمہیں یہ خوف ہوگا کہ اگر نماز اس کے ہمراہ پڑھتے ہو تو اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت ہاتھ سے جاتی ہے اور اگر اس کی مخالفت کرتے ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کی طرف سے تکلیف و ایذاء پہنچنے کا بلکہ جماعت کی فضیلت سے محروم ہونے کا بھی خدشہ رہے گا۔ چناچہ حضرت ابوذر (رض) نے لگے ہاتھوں ایسے موقع کے لئے حکم بھی پوچھ لیا کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو مجھے کیا طریقہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں یہ سیدھا راستہ بتادیا کہ جب بھی ایسا موقع ہو تو کم سے کم تم اپنی نماز تو صحیح وقت پر ادا کر ہی لینا پھر اس کے بعد اگر تمہیں اتفاق سے ان کی نماز میں بھی شامل ہوجانے کا موقع مل جائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لینا تمہاری یہ نماز نفل ہوجائے گی، اس طرح تمہیں دوہرا ثواب مل جائے گا۔ چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام نماز میں تاخیر کرے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ اول وقت اپنی نماز ادا کرلیں پھر بعد میں امام کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیں تاکہ اس طرح وقت اور جماعت دونوں کی فضیلت پاسکیں لیکن یہ جان لینا چاہئے کہ یہ حکم صرف ظہر اور عشاء کے بارے میں ہے۔ کیونکہ فجر اور عصر میں تو فرض ادا کرلینے کے بعد نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے اور مغرب کی چونکہ تین رکعت فرض ہیں اور تین رکعت نفل مشروع نہیں ہے اس لئے مغرب میں بھی یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک حدیث کے اطلاق کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ضرورت کی بناء پر ہے کہ امراء و حکام کے ہمراہ چونکہ نماز نہ پڑھنے اور ان کے خلاف کرنے کی وجہ سے فتنے و فساد میں مبتلا ہونے کا خدشہ تھا اس لئے آپ ﷺ نے ظہر اور عشاء کی قید نہیں لگائی کہ مکروہات کا ارتکاب اس سے بہتر ہے کہ فتنہ و فساد کو جنم دیا جائے پھر یہ کہ اسے مواقع پر مکروہات بھی مباح ہوجاتے ہیں۔ آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوذر (رض) سے جو یہ فرمایا تھا وہ محض پیش بندی کے طور پر نہیں فرمایا تھا بلکہ در اصل آپ ﷺ نے معجزے کے طور پر آئندہ پیش آنے والے یقینی حالات کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ چناچہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بنی امیہ کے دور میں یہ پیشین گوئی پوری صداقت کے ساتھ صحیح ہوئی کہ اس زمانے کے امراء و حکام نماز میں انتہائی سستی و کاہلی کرتے تھے اور نماز کو وقت مختار سے مؤخر کر کے پڑھا کرتے تھے۔

【38】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس آدمی نے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے صبح کی نماز کو پا لیا اور جس نے آفتاب غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے عصر کی نماز کو پالیا (یعنی اس کی نماز ضائع نہیں ہوگی لہٰذا اسے چاہئے کہ بقیہ رکعتیں پڑھ کر نماز پوری کرلے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی عصر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھنے کھڑا ہوا، ابھی اس نے ایک ہی رکعت نماز پڑھ پائی تھی۔ کہ سورج ڈوب گیا اسی طرح ایک آدمی فجر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھنے کھڑا ہوا حتی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد سورج نکل آیا تو اس حدیث کی رو سے دونوں کی نمازیں صحیح ہوجائیں گی۔ مگر اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے چناچہ اکثر علماء کے نزدیک اس حدیث کے مطابق آفتاب کے طلوع و غروب کی بناء پر فجر، عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور ان کے متبعین فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز میں تو یہ شکل صحیح ہے کہ غروب آفتاب کی بناء پر عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن فجر کے بارے میں معاملہ بالکل مختلف ہوگا بایں طور کہ طلوع آفتاب کے بعد فجر کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اس طرح یہ حدیث چونکہ حضرت امام اعظم (رح) کے خلاف ہوگی اس لئے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس حدیث اور ان احادیث میں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت نماز خواہ نفل ہوں یا فرض پڑھنا ممنوع ہے۔ تعارض واقع ہو رہا ہے اس لئے ہم نے اصول فقہ کے اس قاعدے کے مطابق کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو تو حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جب دو حدیثوں میں تعارض ہو تو قیاس کا سہارا لینا چاہئے، قیاس پر عمل کیا ہے چناچہ قیاس نے اس حدیث کے حکم کو تو نماز عصر میں ترجیح دی اور احادیث نہی کو فجر کی نماز میں ترجیح دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر میں طلوع آفتاب تک پورا وقت کامل ہوتا ہے لہٰذا طلوع آفتاب سے پہلے پہلے جب نماز شروع کی جاتی ہے تو وہ اسی صفت کمال کے ساتھ واجب ہوتی ہے جس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ابتداء صفت کمال سے ہوئی ہے اسی طرح اختتام بھی صفت کمال کے ساتھ یعنی وقت کے اندر اندر ہو۔ مگر جب ایک رکعت کے بعد آفتاب طلوع ہوگیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت ختم ہوجانے کی وجہ سے نماز میں نقصان پیدا ہوگیا لہٰذا یہ نماز جس طرح صفت کمال کے ساتھ واجب ہوئی تھی اس طرح اداء نہیں ہوئی اور جب صفت کمال کے ساتھ ادا نہیں ہوئی تو گویا پوری نماز باطل ہوگئی۔ اس کے برعکس عصر میں دوسری شکل ہے وہ یہ کہ عصر میں غروب آفتاب تک پورا وقت کامل نہیں ہوتا یعنی جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہوجائے اس وقت تک تو وقت مختار یا وقت کامل رہتا ہے مگر آفتاب کے زرد ہوجانے کے بعد آخر میں وقت مکروہ ہوجاتا ہے لہٰذا عصر کی نماز جب بالکل وقت آخر یعنی ناقص میں شروع کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی ابتداء چونکہ وقت ناقص میں ہوئی اس لئے اس کا وجوب بھی صفت نقصان کے ساتھ ہو لہٰذا اس کا اختتام جب غروب آفتاب پر ہوگا تو کہا جائے گا کہ غروب آفتاب سے نماز میں نقصان پیدا ہوجانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوئی۔ کیونکہ جس طرح اس کی ابتداء وقت ناقص میں ہوئی تھی اسی طرح اس کی انتہاء بھی وقت ناقص میں ہوئی گویا جس صفت کے ساتھ نماز واجب ہوئی تھی اسی صفت کے ساتھ (یعنی ناقص سے) ادا ہوئی۔ جن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب اور نصف النہار کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ان کے بارے میں حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق نوافل کے ساتھ ہے یعنی اگر کوئی آدمی ان تینوں اوقات میں نفل نماز پڑھنا چاہئے تو اس کے لئے یہ جائز نہ ہوگا البتہ فرض نمازیں ان تینوں اوقات میں بھی جائز ہوں گی لیکن احادیث کے الفاظ امام شافعی (رح) کے مسلک کی تائید نہیں کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں فرض و نفل کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ عمومی طور پر تمام نمازوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ لہٰذا اگر اس بارے میں کسی نماز کی تخصیص کی جاتی ہے تو یہی کہنا پڑے گا کہ یہ حدیث کے ظاہری منشاء اور مفہوم کے سراسر خلاف ہے۔ ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی تو بیشک اس نے نماز کا وقت پا لیا اگرچہ وہ وقت نماز کے مناسب نہیں تھا لیکن پھر وہ وقت نماز کے مناسب اس لئے ہوگیا کہ ایک رکعت کی مقدار وقت بہر حال باقی رہا تھا لہٰذا وہ نماز اس آدمی کے لئے لازم ہوگی۔

【39】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی آدمی آفتاب غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پالے تو اسے نماز پوری کر لینی چاہئے اور اگر آفتاب نکلنے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔ (صحیح البخاری ) تشریح اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔ حنفیہ تو اس جملے کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی نماز کا اعادہ کرے یعنی اس کی قضاء پڑھے اور شوافع کے نزدیک وہی معنی ہیں جو اس سے پہلی حدیث میں ذکر کئے گئے ہیںَ

【40】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر) سو جائے (اور وہ نماز رہ جائے) تو اس کا بدل یہی ہے کہ جس وقت یاد آئے پڑھ لے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نماز کے پڑھ لینے کے سوا اس کا اور کوئی بدل نہیں ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اگر کوئی آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا نماز کے وقت ایسا غافل ہو کر سو جائے کہ نماز کا وقت نکل جائے اور نماز نہ پڑھ سکے تو اس کا کفارہ صرف یہی ہے کہ اسے جب بھی یاد آجائے یا جب بھی سو کر اٹھے نماز قضاء پڑھ لے۔ یہ نہیں کہ جس طرح بغیر عذر کے رمضان کے روزے چھوڑنے کا کفارہ صدقہ وغیرہ ہوتا ہے نماز کے ترک کرنے پر بھی کفارہ کے طور پر کئی پڑھنی پڑیں گی یا صدقہ وغیرہ دینا ہوگا۔ ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو نماز پڑھنے سے رہ گئی ہو وہ جب بھی یاد آئے اس کے پڑھنے میں تاخیر وغیرہ کرنی چاہئے۔

【41】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوقتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوتے میں نماز کا رہ جانا قصور میں شمار نہیں بلکہ قصور تو جاگتے میں (شمار) ہوتا ہے (کہ وہ اس طرح سویا) لہٰذا جب تم میں سے کوئی پڑھنے سے رہ جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر) سو جائے تو جس وقت بھی یاد آئے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20 ۔ طہ 14) (مجھے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لیا کرو) ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز سے پہلے غافل ہو کر سو جائے تو اس حالت میں نماز کی تاخیر کے قصور کی نسبت سونے والے کی طرف نہیں ہوتی کیونکہ وہ سونے کی حالت میں مکلف نہیں ہے بلکہ مجبور ہے البتہ اس کی طرف قصور کی نسبت جاگنے کی حالت میں ہوگی کہ اس نے ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھے بغیر سو گیا مثلاً وقت سے پہلے سو گیا تو اس میں اس کی خطا ہے ایسے ہی اس نے ایسے کام کئے جو نیند کا سبب ہیں مثلاً لیٹ گیا یا شطرنج کے کھیل یا ایسے دوسرے کاموں میں مشغول رہا جو نسیان و بھول کا باعث ہوتے ہیں تو اس میں اس کا قصور ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز کا یاد کرنا بمنزلہ اللہ کے یاد کرنے کے ہے اس لئے نماز یاد کرنے کو اللہ نے اپنا یاد کرنا قرار دے کر فرمایا کہ جب مجھے یاد کرو یعنی نماز جب تمہیں یاد آئے کہ وہ میرے یاد کرنے کا سبب ہے تو پڑھ لیا کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ لذکری کے معنی یہ ہیں کہ میں جب تمہیں نماز یاد دلادوں اور اس وقت نماز پڑھ لیا کرو تمہارا کچھ قصور نہیں۔

【42】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہوجائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہوجائے اور تیسری بےخاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔ (جامع ترمذی ) تشریح لسان نبوت سے حضرت علی المرتضیٰ کو تین کاموں میں تاخیر نہ کرنے کی نصیحت فرمائی جا رہی ہے۔ پہلے تو نماز کے بارے میں فرمایا کہ جب نماز کا وقت مختار ہوجائے تو اس میں تاخیر نہ کرنی چاہئے بلکہ سب سے پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کوئی دوسرا کام کرو۔ دوسرے نمبر پر جنازے کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس وقت جنازہ تیار ہوجائے تو اس کی نماز اور تدفین میں قطعاً تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ علامہ اشرف (رح) کا قول علامہ طیبی شافعی (رح) نقل کرتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنازے کی نماز اوقات مکروہہ ( یعنی آفتاب نکلنے ڈوبنے کے وقت اور نصف الہنار کے وقت) میں پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے آجائے تو پھر ان اوقات میں نماز پڑھنی مکروہ ہوگی۔ یہی سجدہ تلاوت کا حکم ہے بہر حال ان تینوں اوقات مکروہہ کے علاوہ تمام اوقات میں حتی کہ فجر کی نماز سے پہلے و بعد میں اور عصر کی نماز کے بعد بھی یہ دونوں چیزیں یعنی نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت مطلقاً مکروہ نہیں ہیں۔ تیسری چیز آپ ﷺ نے یہ فرمائی کہ بےخاوند عورت کا کفو یعنی ہم قوم مرد جب بھی مل جائے اس کے نکاح میں تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ ایم بےخاوند عورت کو کہتے ہیں خواہ وہ کنواری ہو یا مطلقہ، بیوہ ہو مگر علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ ایم اس کو فرماتے ہیں جس کا زوج (یعنی جوڑہ) نہ ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور عورت خواہ ثیبہ ہو یا باکرہ !۔ کفو کا مطلب یہ ہے کہ مرد ان جملہ اوصاف میں عورت کے ہم پلہ و برابر ہو۔ (١) نسب۔ (٢) اسلام (٣) حریت۔ (٤) دیانت۔ (٥) مال۔ (٦) پیشہ۔ اس موقعہ پر حدیث کی مناسبت سے ایک تکلیف دہ صورت حال کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلا دینا ضروری ہے۔ آج کل یہ عام رواج سا ہوتا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں بہت تاخیر کی جاتی ہے اکثر تاخیر تو تہذیب جدید کی اتباع اور رسم و رواج کی پابندی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے حکم و فرمان کے سراسر خلاف ہے لڑکیوں کی فطرت اور ان کے جذبات کا گلا گھونٹ کر ان پر ظلم کے مترادف بھی ہے چناچہ اس کے نتائج آج کل جس انداز سے سامنے آرہے ہیں اسے ہر آدمی جانتا ہے کہ زنا کی لعنت عام ہوگئی ہے، بےحیائی و بےغیرتی کا دور دورہ ہے اور اخلاق و کردار انتہائی پستیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ پھر نہ صرف یہ کہ کنواری لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے بلکہ اگر کوئی عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہے تو اس کے دوبارہ نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اس طرح اس بےچاری کے تمام جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی پوری زندگی کو حرمان و یاس، رنج و الم اور حسرت و بےکیفی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ جو آدمی کسی معمولی سنت کا بھی انکار کرے یا اس کی تحقیر کرے تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور یہ سبھی لوگ جانتے ہی کہ عورت کا نکاح کرنا پیغمبر اسلام ﷺ کی وہ عظیم و مشہور سنت ہے جس کی تاکید بیشمار احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن۔ افسوس ہے کہ مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سے محبت کا اقرار کرتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺ کی اس سنت پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ کوئی آدمی تو اپنی مجبوریوں کی آڑ لے کر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتا ہے، کوئی تہذیب جدید اور فیشن کا دلدادہ ہو کر اس سعادت سے محروم رہتا ہے اور کوئی آدمی طعن وتشنیع کے خوف سے بیوہ کی شادی کرنے سے معذوری ظاہر کرتا ہے گویا وہ لوگوں کے طعن وتشنیع کو رسول اللہ ﷺ کے حکم اور آپ ﷺ کی سنت پر ترجیح دیتا ہے حالانکہ دانش مندی کا تقاضتا تو یہ ہے گویا وہ لوگوں کے اس طعن وتشنیع کو اپنے لئے باعث سعادت اور قابل فخر جانے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اللہ کے نیک بندوں کے اچھے کاموں پر ہمیشہ ہی لوگوں نے طعن وتشنیع کی ہے مگر ان لوگوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک کاموں میں کبھی کوتاہی یا قصور نہیں کیا۔ اس موقعہ پر ایک بزرگ کی دلچسپ حکایت سن لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ نے اپنی لڑکی کا نکاح اپنے ایک مرید سے جو اس لڑکی کے مناسب و لائق تھا کردیا اور اس کی خبر کو کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی سے بھی پوشیدہ رکھا۔ بعد میں جب ان کی بیوی کو یہ معلوم ہوا تو جزبر ہوئی اور ان سے کہنے لگی کہ آپ نے اس کا بھی خیال کیا کہ آپ کے اس طرز عمل سے آپ کی ناک کٹ گئی اور پھر جیسا کہ ان ناقص العقل والدین عورتوں کی عادت ہے اس بےچارے بزرگ کو لاکھ صلواتیں سنائیں۔ وہ بزرگ یہ سمجھ کر کہ عورتوں کے منہ لگنا خواہ مخواہ اپنی عقل خراب کرنا ہے۔ خاموش ہوگئے پھر باہر آکر انہوں نے مریدوں سے پوچھا کہ کیوں بھائیو میرے منہ پر ناک بھی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے تعجب سے کہا کہ ہاں کیوں نہیں ہے ! وہ کہنے لگے کہ میری بیوی تو کہتی ہے کہ میری ناک کٹ گئی ١۔ وہ عورت جس کا نکاح ہوا، مگر یا تو خاوند مرگیا یا خاوند نے طلاق دے دی ہو۔ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کو چاہئے کہ نیک کام کرنے میں کسی طعن وتشنیع کا خیال نہ کرے کیونکہ حقیقت میں جو بات بری نہیں ہوتی وہ کسی کے کہہ دینے سے بری نہیں ہوجاتی اور نہ اس کام کو کرنے والے کی ذات و آدمییت کو کوئی بٹہ لگتا ہے۔ حضرت مولانا الشاہ عبدالقادر (رح) نے آیت (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ ) 24 ۔ النور 32) کے ضمن میں اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا علی ! تین کاموں میں دیر نہ کرو۔ (١) فرض نماز کی ادائیگی میں جب کہ اس کا وقت ہوجائے۔ (٢) جنازے میں جب کہ موجود ہو۔ (٣) بیوہ عورت (کے نکاح میں) جب کہ اس کی ذات (و مرتبہ) کا مرد مل جائے۔ جو شخص (بیوہ کو) دوسرا خاوند کرنے میں عیب لگائے (تو سمجھو کہ) اس کا ایمان سلامت نہیں ہے اور جو لونڈی و غلام نیک ہوں (یعنی شادی کردینے کے بعد ان کے مفرور ہوجانے کا خوف نہ ہو اور تمہیں اعتماد ہو کہ یہ نیک بخت ہیں شادی کے بعد ہمارا کام نہیں چھوڑیں گے) تو ان کا بھی نکاح کردو۔

【43】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کو اول وقت ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی معافی کا سبب ہے۔ (جامع ترمذی ) تشریح اول وقت سے مراد اول وقت مختار ہے اور اس کی قید لگانے کی ضرورت یوں ہوئی کہ حنفیہ کے نزدیک بعض نمازوں میں تاخیر کی جاتی ہے جیسے فجر کی نماز میں اور گرمی میں ظہر کو مؤخر کر کے پڑھنا ہی مستحب ہے لہٰذا یہ نمازیں مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کا اول وقت مختار نہیں ہے بلکہ ان میں تاخیر ہی مختار ہے۔ آخر وقت سے مراد وقت مکروہ ہے مثلاً عصر کی نماز میں سورج کا متغیر ہوجانا یا عشاء کی نماز میں وقت کا آدھی رات سے زیادہ گزر جانا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آخر وقت میں نماز کی فرضیت تو بہر حال ادا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس وقت نماز پڑھنے والا ترک نماز کے گناہ سے تو بچ ہی جاتا ہے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔

【44】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ام فردہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ (ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے) کون سا عمل افضل ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز کو اس کے اول وقت میں پڑھنا۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) اور حضرت امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف حضرت عبداللہ ابن عمر عمری سے روایت کی جاتی ہے۔ اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد افضل ترین عمل یہی ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں جماعت کے ساتھ پڑھا جائے۔ کتاب الصلوٰۃ کی حدیث نمبر پانچ کے فائدہ کے ضمن میں بتایا جا چکا ہے کہ افضل اعمال کے سلسلے میں بہت زیادہ حدیثیں وارد ہیں۔ جن میں مختلف اعمال کو افضل کہا گیا ہے۔ وہاں اس کی بھی وضاحت کردی گئی تھی کہ جن جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہ اپنے اپنے موقع و مناسبت کی بناء پر یقینا افضل ہیں۔ چنانچہ یہاں پھر سمجھ لیجئے کہ دوسری احادیث میں جن اعمال کو افضل کہا گیا ہے وہاں ا فضیلت اضافی مراد ہے یعنی بعض اعمال بعض حیثیت سے افضل ہیں اور بعض اعمال کو دوسری وجوہ اور حیثیت سے دوسرے اعمال پر فضیلت حاصل ہے لیکن نماز علی الا طلاق یعنی بہمہ وجوہ ایمان کے بعد اعمال سے افضل و اشرف ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے راوی صرف ایک یعنی عبدا اللہ ابن عمر عمری ہیں اور وہ بھی محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔ عبداللہ ابن عمر عمری کے بارے میں غالباً پہلے بھی کسی حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق (رض) کے خاندان سے ہیں اس لئے انہیں عمری کہا جاتا ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے عبداللہ ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر فاروق۔ بہر حال ترمذی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث مرتبہ صحت کو نہیں پہنچتی حالانکہ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

【45】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی نماز آخر وقت میں دو دفعہ بھی نہیں پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دے دی۔ (جامع ترمذی ) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نمازوں کو ان کے مختار اوقات میں پڑھا کرتے تھے۔ مکروہ اوقات میں نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک مرتبہ بیان جواز کے لئے آپ ﷺ نے نماز آخر وقت میں پڑھی تھی تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ نماز کا آخری وقت یہ ہے اور وقت کے اس حصے تک نماز جائز ہوسکتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے اس نماز کو شمار نہیں کیا ہے جو آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ہمراہ آخر وقت میں پڑھی تھی کیونکہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے وقت معلوم کرنے کے لئے آخر وقت نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک سائل کو ایک دن اول وقت میں اور ایک دن آخر وقت میں پڑھ کر دکھائی تھی اسے بھی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے شمار نہیں کیا ہے اس لئے کہ تعلیم پر محمول ہے۔

【46】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوایوب (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے لوگ اگر مغرب کی نماز کو (اس قدر) دیر کر کے نہ پڑھا کریں کہ ستارے جگمگانے لگیں تو ہمیشہ بھلائی، یا فرمایا کہ فطرت (یعنی اسلام کے طریقے) پر رہیں گے، (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو دارمی نے حضرت عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب کے وقت فقط ستارے نظر آجانے سے کراہیت نہیں آتی البتہ ستارے گنجان ہو کر جگمگانے لگتے ہیں تو جب وقت مکروہ ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی تھی اور وہ بھی بیان جواز کے لئے ورنہ تو آپ ﷺ ہمیشہ اول وقت ہی مغرب کی نماز ادا فرماتے تھے۔

【47】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت کے لوگوں کی تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتا تو انہیں (وجوب کے طریقہ پر) یہ حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک یا آدھی رات تک مؤخر کر کے پڑھیں۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)

【48】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

حضرت معاذ ابن جبل (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس نماز (یعنی عشاء کی نماز) کو دیر کر کے پڑھا کرو کیونکہ تمہیں دوسری امتوں پر اس نماز کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ (ابوداؤد) تشریح اس سے پہلے باب المواقیت کی حدیث نمبر تین میں گزر چکا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کو پانچوں وقت کی نماز پڑھائی اور کہا کہ (ھذا وقت الانبیاء من قبلک) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) بھی عشاء کی نماز پڑھتے تھے مگر جو حدیث یہاں ذکر کی گئی ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز صرف اسی امت پر فرض ہے پہلی امتوں پر فرض نہیں تھی۔ لہٰذا محدثین نے ان دونوں حدیثوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ پہلی امتوں میں عشاء کی نماز صرف پیغمبر و رسول ہی پڑھتے تھے۔ کیونکہ یہ نماز ان کی امتوں پر واجب نہیں تھی بلکہ انہیں پر واجب تھی جیسا کہ بعض علماء کے قول کے مطابق تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ پر واجب تھی مگر آپ ﷺ کی امت پر واجب نہیں ہے اس لئے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ارشاد ھذا وقت الانبیاء سے پہلی امتوں پر عشاء کا وجوب ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ یہ نماز انبیاء (علیہ السلام) ہی پڑھتے تھے اور اس کو حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پہلے انبیاء (علیہم السلام) بھی عشاء کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز پہلی امتوں کے لوگ نہیں پڑھتے تھے اور یہ نماز اسی امت کے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسطرح ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔ آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ ھذا وقت الانبیاء من قبلک میں لفظ ھذا سے فجر کے وقت اسفار کی طرف اشارہ ہے کہ بخلاف دوسرے اوقات کے اس میں تمام انبیاء شریک ہیں۔

【49】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت نعمان ابن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں اس نماز یعنی دوسری عشاء کے وقت کو خوب جانتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ اس نماز کو تیسری تاریخ کے چاند چھپنے کے وقت پڑھا کرتے تھے۔ (ابوداؤد، دارمی) تشریح تیسری تاریخ کی شب میں چاند رات کے تقریباً پانچویں حصہ میں غروب ہوتا ہے، اس طرح یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر ہی سے پڑھنا مستحب ہے۔ عشاء کی نماز کو دوسری عشاء اس لئے کہا گیا ہے کہ بسا اوقات مغرب کو بھی عشاء کہا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ دوسری عشاء ہوئی۔

【50】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت رافع ابن خدیج (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فجر کی نماز اجالے میں پڑھو کیونکہ اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے اور سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ (فانہ اعظم للاجر) (یعنی اجالے میں نماز پڑھنے سے بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے ) ۔ نہیں ہیں۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی) تشریح اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں شروع کرنی چاہئے چناچہ حنفیہ کا ظاہری مسلک یہی ہے کہ فجر کی نماز کی ابتداء و اختتام دونوں ہی اسفار میں ہوں۔ مگر حضرت امام طحاوی (رح) جو حنفی مسلک کے ایک جلیل القدر امام ہیں فرماتے ہیں کہ ابتداء تو غلس (اندھیرے) میں ہونی چاہئے اور اختتام اسفار میں اور اس کا طریقہ یہ ہو کہ قرأت اتنی طویل کی جائے کہ پڑھتے پڑھتے اجالا پھیل جائے۔ چناچہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ امام طحاوی (رح) کی یہ تاویل اولیٰ اور احسن ہے کیونکہ اس طرح ان تمام احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے جن میں سے بعض تو غلس میں نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسفار میں نماز پڑھنا افضل ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔ ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق کی وجہ خود ایک حدیث بھی ہے جو شرح السنہ میں منقول ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں موسم کا اعتبار ہوگا یعنی جاڑے کے موسم میں تو غلس میں نماز پڑھنا بہتر ہوگا اور گرمی کے موسم میں اسفار کرنا بہتر ہگا۔ چناچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں الحدیث ( قَالَ مُعَاذٌ بَعْثَنِیْ رَسُوْلُ اللہ ﷺ اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اِذَا کَانَ فِی الشِّتَاءِ فَغَلِّسْ بِالفَجْرِ وَاطِلٍ القِرَآءَ ۃُ قَدْرَ مَا یُطِیْقُ النَّاسُ وَلَا تُمِلَّھُمْ وَاِذَا کَانَ فِی الصَّیْفِ فَاسْفِرْ بِالفَجْرِ فَاِنَ اللَّیْلِ قَصِیْرٌ وَالنَّاسُ نِیَامٌ فَاَ مْھِلْھُمْ حَتّٰی اَدْرَکُوْا یَعْنِی الصَّلٰوۃَ ) ۔ حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن بھیجا تو یہ (بھی) فرمایا کہ جب سردی کا موسم ہو تو فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں پڑھنا اور قرأت طویل کرنا (مگر اتنی کہ) لوگوں پر بھاری نہ ہو کہ وہ تنگ ہوجائیں اور جب گرمی کا موسم ہو تو فجر کی نماز اسفار (اجالے) میں پڑھنا کیونکہ (گرمی) میں رات چھوٹی ہونے کیوجہ سے لوگ سوئے رہتے ہیں اس لئے انہیں اتنا موقع دو کہ وہ نماز میں شریک ہو سکیں۔ بہر حال علماء حنفیہ کے نزدیک اسفار کی حد یہ ہے کہ طلوع آفتاب میں اتنا وقت رہے کہ اس میں قرأت مسنون (جو چالیس سے ساٹھ یا سو آیتوں تک ہے) ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکے۔ اور نماز کے بعد اگر طہارت میں کوئی خلل معلوم ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وضو اور مذکورہ بالا طریقہ پر نماز کا اعادہ ممکن ہو سکے۔

【51】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

حضرت رافع ابن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور پھر وہ دس حصوں پر تقسیم کیا جاتا، اس کے بعد اسے پکایا جاتا اور پھر ہم سورج چھپنے سے پہلے اس پکے ہوئے گوشت کو کھا کر فارغ ہوجایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بظاہر اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر کی نماز جلدی یعنی ایک مثل سایہ ہونے کے وقت یا اس سے تھوڑی دیر کے بعد پڑھی جاتی ہوگی جیسا کہ آئمہ ثلثہ اور صاحبین کا مسلک ہے اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام اعظم (رح) کا بھی یہی مسلک ہے اور بعض حضرات نے فتوی بھی اسی روایت پر دیا ہے مگر حضرت امام اعظم (رح) کا مشہور مسلک یہ ہے کہ عصر کا وقت دو مثل سائے کے بعد ہوتا ہے چناچہ ان کی طرف سے اس حدیث کی یہ تاویل کی جائے گی کہ ہوسکتا ہے کہ گرمیوں میں ایسا ہوتا ہو کیونکہ اس وقت دن بڑا ہوتا ہے۔ نیز حضرت ابن ہمام (رح) نے ہدایہ کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر عصر کی نماز سورج کے متغیر ہونے سے پہلے پڑھی جائے تو غروب آفتاب تک بقیہ وقت میں حدیث میں مذکورہ عمل جیسا عمل بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے چناچہ جن لوگوں نے امراء و حکام کے ہمراہ کھانا پکانے والے ماہرین کو سفر میں کھانا پکاتے ہوئے دیکھا ہوگا وہ اسے بعید نہیں جانیں گے۔

【52】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لئے بہت دیر تک بیٹھے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ تہائی یا اس سے بھی زیادہ رات جانے کے بعد تشریف لائے اور ہمیں معلوم نہیں کہ آپ ﷺ گھر کے کام میں مشغول رہے تھے (کہ عادت کے مطابق سویرے نماز پڑھنے تشریف نہیں لائے) یا اس کے علاوہ (آپ ﷺ کی ذات اقدس کو کوئی عذر پیش آگیا تھا) آنحضور ﷺ نے آکر فرمایا تم لوگ نماز کا انتظار کر رہے تھے (اور تمہارے لئے یہ مناسب بھی تھا کیونکہ) نماز کا انتظار تو تم ہی لوگ کیا کرتے ہو۔ تمہارے سوا کسی اور دین والوں نے نماز کا انتظار نہیں کیا۔ اور اگر مجھے اپنی امت پر گراں گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس نماز کو ہمیشہ اسی وقت پڑھا کرتا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (تکبیر کا) حکم دیا اس نے تکبیر کہی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سوا کسی بھی دین کے لوگ (یعنی یہود و نصاری) عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ نماز تو صرف اسی امت کے ساتھ مخصوص فرمائی گئی ہے اور کسی امت کو نصیب نہیں ہوئی ہے لہٰذا تم اس وقت جب کہ آرام کرنے کا وقت ہے اپنے نفس پر قابو پا کر اور مشقت اٹھا کر نماز کا جتنا زیادہ انتظار کرو گے اتنا ہی زیادہ ثواب پاؤ گے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عشاء کی نماز تہائی رات کے وقت پڑھنا افضل ہے جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک ہے مگر جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے عمل کا تعلق ہے تو یہ بھی ثابت ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا اکثر حصہ اول وقت جمع ہوجاتا تھا تو آپ ﷺ اول وقت ہی نماز پڑھ لیتے تھے اور جو حضرات تاخیر سے جمع ہوتے تھے وہ دیر سے پڑھتے تھے چناچہ حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا مسلک بھی یہی ہے کہ جو نمازی اوّل وقت جمع ہوجائیں اول وقت نماز پڑھ لیں اور جو نمازی تاخیر سے جمع ہوں وہ دیر کر کے پڑھیں۔

【53】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت جابر ابن سمرہ (رض) نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری نمازوں کے قریب قریب (اوقات میں) نماز پڑھا کرتے تھے مگر عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ دیر کر کے پڑھتے تھے اور ہلکی نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح نہی کے باوجود حضرت جابر (رض) نے عشاء کو عتمہ اس لئے کہا ہے کہ شاید اس وقت تک ان کو نہی کا حکم معلوم نہیں ہوا ہوگا یا پھر یہ نام چونکہ اہل عرب میں پہلے سے جانا پہچانا جاتا تھا اس لئے انہوں نے یہ سوچ کر کہ اس نام سے لوگ اس نماز کو اچھی طرح پہچان لیں گے عتمہ ہی کہا۔ بہر حال یہ حدیث بھی اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا ہی افضل و مستحب ہے۔ ہلکی نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھا کرتے تھے مگر علامہ ابن حجر (رح) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نماز میں چھوٹی چھوٹی سورتیں اس وقت پڑھتے تھے جب کہ امامت فرماتے اور ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت مد نظر ہوتی۔ اور ویسے بھی یہ بات باعتبار اکثر کے فرمائی گئی ہے کیونکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی دونوں رکعتوں میں سورت اعراف بھی پڑھی ہے۔ اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کا اتنی بڑی بڑی سورتیں پڑھنا بھی لوگوں پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ یعنی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسا کیف و سرور محسوس ہوتا تھا کہ طویل قرأت بھی انہیں ہلکی ہی معلوم ہوتی تھی اور ازراہ شوق طویل قرأت میں زیادتی کے طالب رہتے تھے اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کی امامت میں یہ بات حاصل ہونا مشکل ہے۔

【54】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ ہم (ایک دن) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جماعت کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھنے گئے۔ (اتفاق سے اس روز) رسول اللہ ﷺ آدھی رات کے قریب تک تشریف نہ لائے (بعد ازاں آکر ہم سے) ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا، چناچہ ہم اپنی جگہوں (سے اٹھے نہیں بلکہ وہیں) پر بیٹھے رہے (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لئے ہیں اور (تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمہارا یہ سارا وقت نماز ہی میں شمار کیا جائے گا (یعنی تمہیں اس انتظار کی وجہ سے برابر نماز پڑھنے کا ثواب ملتا رہے گا) اور اگر مجھے ضعیفوں کی کمزوری اور بیماروں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو میں ہمیشہ یہ نماز آدھی رات تک دیر کر کے پڑھا کرتا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی) تشریح جیسا کہ پہلے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرز چکا ہے کہ (مسلمانوں کے علاوہ) کسی بھی دوسرے دین کے لوگ عشاء کی نماز کا انتظار نہیں کرتے، لہٰذا اس ارشاد کی روشنی میں حدیث کے الفاظ دوسرے لوگوں نے نماز پڑھ کر اپنے اپنے بستر سنبھال لئے ہیں، کی تشریح یہ کی جائے گی کہ دوسرے دین کے لوگ (مثلاً یہود و نصاری) تو شام کی نماز پڑھ کر یا اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر کے اپنے اپنے بستروں پر جا کر نیند کی آغوش میں پہنچ گئے مگر چونکہ تمہارے نصیب میں اس نماز کی سعادت و فضیلت لکھی ہوئی ہے۔ اس لئے تم اب اس سعادت و فضیلت کی تکمیل کی خاطر نماز کی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہو۔ اور چونکہ تم اپنا آرام اپنی نیند اور اپنا چین سب اپنے پروردگار کی عبادت کے انتظار میں لٹا چکے ہو اس لئے تمہارا پروردگار بھی اس محنت و مشقت کا صلہ اس طرح تمہیں دے گا کہ تمہارے اس انتظار کے ایک ایک لمحے کو سراپا عبادت و باعث سعادت بنا دے گا بایں طور پر کہ تمہارا یہ جتنا وقت انتظار میں گزرا ہے یا جتنا وقت گزرے گا تو سمجھو کہ وہ نماز ہی میں گزرا ہے یا گزرے گا یعنی جتنا ثواب نماز پڑھنے کا ملتا ہے اتنا ہی ثواب اس انتظار کا بھی ملے گا۔ یا پھر اس جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے محلوں کے مسلمان جو اس مسجد میں حاضر نہیں ہیں عشاء کی نماز پڑھ کر سو رہے ہیں اور تم لوگ اب تک نماز عشاء کے انتظار میں یہاں بیٹھے ہو اس طرح ان مسلمانوں کے مقابلے میں تم زیادہ ثواب و فضیلت کے حقدار بنو گے، یہی معنی ما بعد کے الفاظ ( وانکم لن ترالو الخ) کے زیادہ قریب اور مناسب ہیں۔ بہر حال۔ یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز میں آدھی رات تک تاخیر جائز ہے بلکہ عبادت کے سلسلے میں زیادہ محنت و مشقت اٹھانے کی وجہ سے مستحب اور افضل ہے۔

【55】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت ام سلمہ (رض) نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز (گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں میں) تم سے بہت زیادہ جلدی پڑھتے تھے اور تم عصر کی نماز پڑھنے میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ جلدی کرتے ہو۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ) تشریح حضرت ام سلمہ (رض) کا مقصد اتباع سنت پر لوگوں کو رغبت دلانا اور متوجہ کرنا ہے کہ ہر جگہ اور ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے میں ہی بھلائی وسعادت ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عصر کی نماز میں تاخیر کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک ہے۔

【56】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ظہر کی) گرمی کے موسم میں ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھ لیتے تھے۔ (سنن نسائی) تشریح ظہر کے وقت کے سلسلے میں احادیث میں جو تعارض ہے کہ بعض حدیثوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز دیر (لیٹ) کر کے پڑھتے تھے اور بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جلدی پڑھ لیتے تھے۔ اس حدیث سے یہ تعارض ختم ہوجاتا ہے بایں طور کہ گرمی کے موسم میں تو آپ ﷺ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھا کرتے تھے اور سردی کے موسم میں جلدی پڑھتے تھے۔

【57】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عبادہ ابن صامت (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد عنقریب تم پر ایسے (لوگ) حاکم ہوں گے جنہیں دنیا کے چیزیں (یعنی خواہشات نفسانی) وقت (مستحب) پر نماز پڑھنے سے باز رکھیں گی، یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جائے گا (یعنی وقت کراہت آجائے گا) لہٰذا تم اپنی نمازیں وقت پر پڑھتے رہنا (خواہ تنہا ہی کیوں نہ پڑھنی پڑے) ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا پھر (دوبارہ) ان کے ساتھ بھی نماز پڑھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! (ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرنا تاکہ ثواب بھی زیادہ ملے اور حکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے فتنہ و فساد بھی پیدا نہ ہو) ۔ (سنن ابوداؤد)

【58】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت قبیصہ ابن وقاص (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بعد تم پر ایسے حاکم ہوں گے جو نماز (وقت مستحب سے) تاخیر کر کے پڑھیں گے اور وہ نماز تمہارے لئے تو مفید ہوگی اور ان کے لئے وبال ہوگی لہٰذا جب تک وہ قبلہ (یعنی کعبتہ اللہ) کی طرف نماز پڑھتے ہیں تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہنا۔ (ابوداؤد) تشریح فائدہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وقت مستحب کی فضیلت حاصل کرنے کی خاطر ان کی نماز سے پہلے نماز پڑھ لی۔ اور پھر اس کے بعد ان کے ساتھ بھی پڑھی تو یہ دوسری نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی جس کی وجہ سے تمہیں بہت زیادہ ثواب ملے گا اور اگر ان کی نماز سے پہلے نماز نہ پڑھی بلکہ ان کے ہمراہ پڑھی تو اس کے لئے تم پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ وقت مکروہ میں تمہارا نماز پڑھنا فتنے کے خوف اور فساد کے دفعیہ کی غرض سے ہوگا۔ اسی طرح وبال کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز ان کے لئے مواخذہ کا باعث ہوگی کہ جب وہ وقت مختار میں نماز ادا کرنے پر قادر تھے تو وقت سے تاخیر کر کے غیر مطلوب وقت میں نماز کیوں پڑھی اور پھر یہ کہ امور دنیا نے انہیں امور عقبی کی انجام دہی سے باز رکھا جو یقینًا کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں۔

【59】

جلدی نماز پڑھنے کا بیان

اور حضرت عبیداللہ ابن عدی ابن خیار کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرت عثمان غنی (رض) کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ وہ (اپنی شہادت سے پہلے بغاوت کے ایام میں اپنے مکان کے اندر) محصور تھے چناچہ (عبیدا اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) سے) میں نے عرض کیا کہ آپ ہم سب کے امام (اور امیر) ہیں اور آپ پر جو کچھ مصائب و پریشانیاں) نازل ہوئی ہیں وہ آپ بھی دیکھ رہے ہیں اور (ہمارا حال یہ ہے کہ) ہمیں فتنے و فساد کا ایک امام نماز پڑھاتا ہے (جس کے پیچھے نماز پڑھنا) گناہ سمجھتے ہیں، (یہ سن کر) حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ نماز پڑھنا لوگوں کے تمام اعمال سے بہتر و افضل ہے۔ لہٰذا جب لوگ نیکی و بھلائی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی و بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔ (صحیح البخاری ) تشریح فتنہ و فساد کے امام سے مراد باغیوں کا سردار ہے جس کا نام کنانۃ ابن بشیر تھا۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نیکیوں میں تو شریک رہو یعنی اگر وہ نیک کام کریں تو تم بھی ان کے ساتھ مل کر وہی نیک کام کرو البتہ ان کی بدی میں شریک نہ رہو۔ اور نماز کا پڑھنا نیک ہی عمل ہے اس لئے باغیوں کے سردار کے پیچھے تمام پڑھ سکتے ہو اسے گناہ کی بات نہ سمجھو۔ حضرت عثمان غنی (رض) کے اس ارشاد سے ان کے عدل و انصاف اور ان کے حلم و بردباری کے عظیم وصف پر روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سخت موقعہ پر جب کہ باغیوں نے اپنے ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے انہیں مکان میں محصور کر رکھا تھا اور ان کے اوپر تکالیف و پریشانیوں کے پہاڑ توڑ رہے تھے تو انہوں نے اس وقت بھی ان کی نیکی اور بھلائی کو از راہ بغض و انتقام برائی سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے اچھا ہی کہا۔ یہ ارشاد اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ہر نیک و بد آدمی کے پیچھے نماز جائز ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔

【60】

نماز کے فضائل کا بیان

حضرت عمارہ ابن رویبہ (رض) ( حضرت عمیرہ رویبہ کے صاحبزادے اور قبیلہ بنی جثم بن ثقیف سے ہیں اور کوفی ہیں ١٢) ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے سورج نکلنے اور چھپنے سے پہلے ( دو نمازیں) یعنی فجر اور عصر کی پڑھیں تو وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ (رواہ صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں کو پابندی سے پڑھتا رہے تو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا۔ بظاہر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو آدمی ان دونوں نمازوں پر مداومت کرے گا، وہ دوسری نمازوں کو چھوڑنے یا دوسرے گناہوں کے صدور کے سبب دوززخ میں داخل نہیں کیا جائے گا حالانکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ نمازیں صغیرہ گناہوں کا کفارہ تو ہوجاتی ہیں۔ کبیرہ گناہوں کا نہیں ہوتیں۔ چناچہ علامہ طیبی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ صبح کا وقت عام طور پر آرام کا ہوتا ہے اسی طرح شام کا تجار وغیرہ کی مشغولیت کا ہوتا ہے لہٰذا جو آدمی ان دونوں موانع کے باجود ان دونوں نمازوں کی مخافظت کرتا ہے تو وہ بزبان حال اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دوسرے اعمال میں بھی کمی زیادتی کرنے والا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَا ءِ وَالْمُنْكَرِ ) 29 ۔ العنکبوت 45) (بےشک نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے) لہٰذا اس بناء پر وہ بخشش کی سعادت سے نوازا جائے گا اور دوزخ میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ اور ظاہر یہ ہے کہ اس حدیث سے ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت کے بیان میں مبالغہ مراد ہے کہ ان دونوں نمازوں کی فضیلت و عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی محافظت کرنے والا آدمی دوزخ میں داخل نہ کیا جائے گا اور باوجودیکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے ہر عمل پر جزاء و سزا کا ترتب کرتا ہے مگر وہ چاہے تو ان دونوں نمازوں کے ادا کرنے کے سبب وہ گناہ جو اس کے بندوں سے سرزد ہوئے ہوں بخش سکتا ہے

【61】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت ابوموسی (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی ٹھنڈے وقت کی دونوں نمازیں (یعنی فجر و عشاء) پڑھتا رہا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

【62】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس (آسمان سے) فرشتے رات دن آتے رہتے ہیں ( جو تمہارے اعمال لکھتے ہیں اور انہیں بارگاہ الوہیت میں پہنچاتے ہیں) اور فجر و عصر کی نماز میں سب جمع ہوتے ہیں اور جو فرشتے تمہارے پاس رہتے ہیں وہ (جس وقت) آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال جاننے کے باوجود ان سے (بندوں کے احوال و اعمال) پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ پروردگار ! ہم نے تیرے بندوں کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے اعمال کو لکھنے اور انہیں اللہ تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے (فرشتوں کی دو جماعتیں بندوں کے ہمراہ رہتی ہیں۔ ایک جماعت تو دن کے اعمال لکھتی ہے اور پھر عصر کے بعد واپس جا کر بارگاہ الوہیت میں اپنی رپورٹ پیش کردیتی ہے۔ دوسری جماعت رات کے اعمال لکھتی ہے۔ یہ فجر کی نماز کے بعد واپس جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بندوں کے رات کے اعمال کی رپورٹ دیتی ہے چناچہ دن اور رات میں دو وقت ایسے ہوتے ہیں جب کہ یہ دونوں جماعتیں جمع ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ تو فجر کے وقت جب کہ رات کے فرشتے واپس جاتے ہیں اور دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پر اتے ہیں۔ اسی طرح دوسری مرتبہ ان دونوں جماعتوں کا اجتماع عصر کے وقت ہوتا ہے جب کہ دن کے فرشتے اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس جاتے ہیں اور رات کے فرشتے اپنے کام پر حاضر ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور اس کا علم زمین و آسمان کے ذرے ذرے کو محیط ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کے رہنے والوں کے ایک ایک عمل کو جانتا ہے مگر جب فرشتے بندوں کے اعمال کی رپورٹ لے کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں تو ان سے پوچھتا ہے کہ جب تم اپنی ڈیوٹی پوری کر کے واپس لوٹ رہے تھے تو بتاؤ کہ اس وقت میرے بندے کیا کر رہے تھے ؟ اور اس کا یہ پوچھنا (نعوذ با اللہ) علم حاصل کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس سوال سے اس کا مقصد فرشتوں کے سامنے اپنی بندوں کی فضیلت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو بھیجنا چاہا تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تھا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ پروردگار کیا تو ایسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو دنیا میں فساد اور خون ریزی و غارت گری کا بازار گرم کرے گی۔ اور پھر انہوں نے اپنی برتری و بڑائی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیری عبادت کے لئے تو ہم ہی کافی ہیں اور ہم ہی تیری عبادت و پرستش کر بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان سے یہ سوال کر کے ان پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ دیکھو ! جس مخلوق کے بارے میں تمہارا یہ خیال تھا کہ دہ دنیا میں سوائے فتنہ و فساد پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کرے گی اب تم خود یکھ آئے ہو کہ وہ میری عبادت اور میری پرستش کس پابندی اور کس ذوق و شوق سے کرتی ہے۔ بہر حال ! اس حدیث کے ذریعے رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو رغبت دلا رہے ہیں کہ ان دونوں اوقات میں ہمیشہ پابندی سے نماز پڑھتے رہو تاکہ وہ فرشتے اللہ کے سامنے تمہارے اچھے اور بہتر اعمال ہی پیش کرتے رہیں اور رب قدوس تمہاری فضیلت و بڑائی اسی طرح فرشتوں کے سامنے ظاہر کرتا رہے۔

【63】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت جندب قسری راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ (دنیا و آخرت میں) اللہ تعالیٰ کے عہد وامان میں ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے عہد میں کچھ مواخذہ کرے کیونکہ جس سے اس نے عہد وامان میں مواخذہ کیا تو (اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ) کہ اسے پکڑ کر دوزخ کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔ (صحیح مسلم) اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قسری کے بجائے قشیری ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ تعالیٰ کے عہد وامان میں ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس آدمی سے بدسلوکی نہ کریں، اس کو قتل نہ کریں۔ اس کا مال نہ چھینیں، اس کی غیبت نہ کریں اور اس کو بےآبروئی نہ کریں۔ اگر کسی آدمی نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی یا اس کے ساتھ کوئی ایسا رویہ اختیار کیا جو اس کی جان و مال اور اس کی آبرو کے لئے نقصان دہ ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے عہد وامان میں خلل ڈالا لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے آدمی سے سخت مواخذہ کرے گا اور جس بدنصیب سے اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کیا اس کے لئے نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہوگا۔ یا پھر عہد وامان سے مراد نماز ہے کہ صبح کی نماز پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں امن دینے کا وعدہ کرلیا ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صبح کی نماز ہرگز قضا نہ کریں ورنہ ان کے اور پروردگار کے درمیان جو عہد ہے وہ ٹوٹ جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ مواخذہ کرے گا اور اس کے مواخذے سے بچانے کی کوئی ہمت بھی نہیں کرسکتا۔

【64】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر لوگوں کو اذان کہنے اور (نماز میں) پہلی صف میں کھڑے ہونے کا ثواب معلوم ہوجائے اور بغیر قرعہ ڈالے انہیں یہ حاصل نہ ہو سکے تو وہ ضرور قرعہ ہی ڈالیں (یعنی اگر لوگ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کے لئے آپس میں نزاع کریں اور قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ کس کا نام نکلتا ہے تو یہ مناسب ہے) اور اگر ظہر کی نماز کے لئے جلدی آنے کا ثواب جان لیں تو اس نماز میں دوڑتے ہوئے آیا کریں اور اگر عشاء و صبح کی نماز کی فضیلت معلوم ہوجائے (تو فوت نہ ہونے کی حالت میں بھی ان نمازوں کے لئے) سرین کے بل چل کر آئیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اگر تھجیر کے معنی وہی لئے جائیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی ظہر کی نماز کے لئے جلدی آنا، تو اس فضیلت کا تعلق گرمی کے علاوہ دوسرے موسموں کی ظہر کی نماز سے ہوگا کیونکہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھنا مستحب ہے۔ یا پھر تہجیر کے معنی طاعت کی طرف جلدی کرنا، ہوں گے اور بعض حضرات نے اس کے معنی نماز جمعہ کے لئے دوپہر کو جانا بھی لکھے ہیں۔ وا اللہ اعلم۔ سرین کے بل چل کر آنے، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پاؤں سے چلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے اس طرح گھسٹتا ہوا آئے جس طرح ضعیف و معذور چل کر آتے ہیں۔

【65】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافقین پر عشاء اور فجر سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں۔ اگر دونوں کے ثواب وہ جان لیں تو سرین کے بل چلتے ہوئے آیا کریں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح منافقین کے مزاج میں عبادت کے سلسلے میں کسل و سستی بہت ہوتی ہے پھر جو نمازیں وہ پڑھتے ہیں وہ بھی محض اپنی جان بچانے اور مسلمانوں کو دکھانے سنانے کے لئے پڑھتے ہیں۔ فجر اور عشاء یہ دو وقت ایسے ہیں جو اول تو آرام و استراحت اور نیند کی لذت حاصل کرنے کے ہیں۔ نیز جاڑوں کے موسم میں سردی کے ہیں دوسرے یہ کہ ان اوقات میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کوئی کسی کو کم ہی پہچانتا ہے اس لئے یہ دونوں نمازیں ان بدبختوں پر بہت گراں ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ مخلص و صادق مومنین کو چاہئے کہ وہ اس خصلت سے بچیں تاکہ منافقین کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔

【66】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت عثمان غنی (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے نصف رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور جس آدمی نے صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی تو گویا اس نے تمام رات کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم) تشریح اگر حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صبح کی نماز کا ثواب عشاء کی نماز کے ثواب سے زیادہ ہے کہ جب ہی تو کہا گیا ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے والا، نصف رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے والا پوری رات تک نماز پڑھنے والے کے برابر ہوتا ہے۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت سے پڑھی تو اسے آدھی رات تک نماز پڑھنے کا ثواب ملا پھر فجر کی نماز بھی جماعت سے ادا کرلی تو بقیہ نصف رات تک کا ثواب مل گیا اس طرح دونوں نمازوں کے پڑھنے سے پوری رات تک عبادت کرنے والے کے ثواب کا وہ حقدار ہوگیا۔

【67】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دیہاتی لوگ نماز مغرب کے نام لینے میں تم پر غالب نہ آجائیں راوی فرماتے ہیں کہ دیہاتی لوگ ( مغرب کو) عشاء کہتے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نماز عشاء کے نام لینے میں بھی دیہاتی لوگ تم پر غالب نہ آجائیں۔ اس نماز کا نام کتاب اللہ میں عشاء ہے (چنانچہ ارشاد ربانی ہے آیت ( وَمِنْ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَا ءِ ) 24 ۔ النور 58) اور وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے اس نماز میں تاخیر کردیتے تھے۔ (صحیح مسلم) تشریح دیہاتی لوگوں سے مراد ایام جاہلیت کے دیہاتی لوگ ہیں جو مغرب کو تو عشاء کہتے تھے اور عشاء کو عتمہ، چناچہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا کہ یہ نام نہ لئے جائیں کیونکہ اس میں ان کا غالب ہونا لازم آتا ہے اس لئے کہ جب ان لوگوں کا رکھا نام استعمال کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے ان کی زبان کو اپنایا جس کی بناء پر وہ تم پر غالب رہے لہٰذا تم وہی نام استعمال کرو جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں یعنی مغرب اور عشاء۔ لہٰذا۔ بظاہر تو اس نہی کا تعلق دیہاتی لوگوں سے ہے کہ وہ غالب نہ ہوں لیکن حقیقت میں اس نہی کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے کہ وہ ان نمازوں کے ناموں کے سلسلے میں دیہاتی لوگوں کی موافقت نہ کریں تاکہ مسلمانوں پر ان کا غالب ہونا لازم نہ آئے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان اور اپنا کلام اصطلاح شریعت کے مطابق درست کریں اور جو باتیں کفار و فجار کی زبان زد ہوں ان سے پرہیز کریں۔ نہی اور علت نہی بیان فرمانے کے بعد فَاِنَّھَا بِحَلَابِ الْاِبِلِ کہہ کر آپ ﷺ نے عشاء کو عتمہ کہنے کی وجہ کی طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے۔ تعتم صحیح روایت میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ عتمہ تاریکی کو کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دیہاتی لوگ اونٹنیوں کے دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کو تاریکی میں پڑھتے تھے بایں طور پر کہ وہ شفق غائب ہونے کے بعد دودھ شروع کرتے تھے پھر اس کے بعد عشاء پڑھتے۔ ایک دوسری روایت میں یہ لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ مذکور ہے جس کے معنی یہ ہوں گے۔ اونٹنیوں کا دودھ دوہنے کی وجہ سے عشاء کی نماز تاریکی میں پڑھی جاتی تھی۔ بہر حال ایام جاہلیت میں عرب کے لوگ عتمہ تاریکی کو کہتے تھے۔ جب اسلام کی مقدس روشنی نے عرب کی سر زمین کو کفر و شرک کے اندھیروں سے صاف کیا اور نمازیں مشروع ہوئیں تو عشاء کی نماز کو دیہاتی لوگ صلوۃ العتمہ کہنے لگے چناچہ اس نام سے مسلمانوں کو روکا گیا اور اہل جاہلیت سے مشابہت کی بناء پر اس نام کو مکروہ قرار دے دیا گیا۔ یہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ جن روایتوں میں بجائے عشاء کی عتمہ کا لفظ آیا ہے وہ روایتیں اس نہی سے قبل کی ہوں گی۔

【68】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ خندق کے روز فرماتے تھے کہ (کافروں نے) ہمیں درمیانی نماز یعنی عصر کے پڑھنے سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں میں آگ بھرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح غزوہ خندق کو غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں جو ٤ ھ یا ٥ ھ میں ہوا تھا۔ اس جنگ کو غزوہ خندق اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسی غزوہ کے موقعہ پر حضرت سلمان فارسی (رض) کے مشورہ سے دشمنوں سے بچاؤ کی خاطر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی۔ خندق کھود نے میں تمام مسلمانوں کے ہمراہ خود سرکار دو عالم ﷺ (فداہ ابی وامی) بھی بنفس نفیس شریک تھے۔ جس طرح دیگر مخلص مومنین دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر اللہ کے دین کی حفاظت اور اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے مشن کی کامیابی کے لئے اس محنت و مشقت میں مصروف رہتے تھے اسی طرح آقائے نامدار سرور کائنات فخر دو عالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ بھی بڑی بڑی تکالیف برداشت فرما کر مصائب و رنج اٹھا کر بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ کر سردی کی شدید پریشانی اور زمین کو کھودنے پتھر اکھاڑنے کی سخت محنت جھیل کر اپنے جانثار رفقاء کے ہمراہ خندق کھودتے تھے۔ اسی جنگ میں بسبب تردد اور تیر اندازی رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں قضا گئی تھیں انہیں میں عصر کی نماز بھی تھی رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے یہ بد دعا فرمائی جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح ان کفار و مشرکین نے ہماری نمازیں قضا کرا کر ہمیں سخت روحانی تکلیف و ازیت میں مبتلا کیا ہے، اللہ کرے وہ بھی دنیا و آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں۔ ایک معمولی سا خلجان یہاں واقع ہوسکتا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر آپ ﷺ کی ذات اقدس کو جبکہ کفار کی جانب سے بےانتہا تکلیف پہنچائی گئی تو آپ ﷺ نے وہاں بددعا نہیں کی اور یہاں بدعا فرمائی اس کی وجہ کیا ہے ؟۔ اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کا معاملہ تھا وہاں آپ ﷺ کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ اپنے نفس کے معاملہ میں کسی کے لئے بددعا نہ کریں مگر یہاں نماز کا سوال تھا جس کا تعلق آپ ﷺ کی ذات سے نہ تھا بلکہ حقوق اللہ سے تھا اس لئے آپ ﷺ نے بد دع فرمائی۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صلوٰۃ وسطی عصر کی نماز ہے چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم میں سے اکثر جلیل القدر حضرات، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم وغیرہ کا قول یہی ہے لہٰذا قرآن شریف کی آیت کریمہ آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2 ۔ البقرۃ 238) (یعنی محافظت کرو تم سب نمازوں کی اور درمیانی نماز کی) میں وسطی سے عصر کی نماز ہی مراد لی جائے گی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کے تعین میں اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اختلاف رہا ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت تک ان حضرات تک رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث (جو آئندہ فصل میں آرہی ہے) نہیں پہنچی ہوگی جس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ سے عصر کی نماز مراد ہے۔ اس لئے وہ حضرات اپنے اجتہاد اور رائے کی بناء پر اس کے تعین میں اختلاف کرتے ہوں گے چناچہ اس حدیث کے صحت کے بعد یہ متعین ہوگیا کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ وا اللہ اعلم۔

【69】

نماز کے فضائل کا بیان

حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت سمرہ ابن جندب (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا درمیانی نماز (یعنی قرآن مجید میں جو والصلوۃ الوسطی مذکور ہے وہ) عصر کی نماز ہے۔ (جامع ترمذی ) تشریح صلوٰۃ وسطیٰ ( یعنی درمیانی نماز) سے عصر کی نماز اس لئے مراد لی جاتی ہے کہ یہی نماز دن کی دونوں نمازوں (یعنی فجر اور ظہر) اور رات کی دونوں نمازوں) یعنی مغرب و عشاء کے درمیان آتی ہے) ۔

【70】

نماز کے فضائل کا بیان

حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے قول آیت ( اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا) 17 ۔ الاسراء 78) (یعنی فجر کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے) کی تفسیر میں فرماتے تھے کہ صبح کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے حاضر (یعنی جمع) ہوتے ہیں۔ (جامع ترمذی ) تشریح آیت ( اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا) 17 ۔ الاسراء 78) کے معنی قرأت قرآن فجر ہیں اور اس سے مراد فجر کی نماز ہے۔ اسے قرآن اس لئے کہا ہے کہ قرأت نماز کا ایک رکن ہے جیسے کہ بعض مقامات پر نماز کو سجدہ یا رکوع کہا گیا ہے۔ بہر حال۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں مشہود سے مراد یہ ہے کہ بندوں کے دن اور رات کے اعمال لکھنے والے فرشتے اس نماز میں جمع ہوتے ہیں جیسا کہ اسی باب کی حدیث نمبر تین میں اس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔

【71】

نماز کے فضائل کا بیان

حضرت زید ابن ثابت (رض) اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) دونوں فرماتے ہیں کہ صلوٰۃ وسطی (یعنی درمیانی نماز) ظہر کی نماز ہے۔ اس روایت کو امام مالک (رح) نے صرف حضرت زید (رض) سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی (رح) نے دونوں (یعنی حضرت زید و حضرت عائشہ) سے بطریق تعلیق یعنی بلا سند روایت کیا ہے۔ تشریح حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت زید ابن ثابت (رض) صلوٰۃ وسطی سے ظہر کی نماز اس لئے مراد لیتے تھے کہ یہ نماز دن کے درمیانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے۔

【72】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز سویرے ( یعنی دن ڈھلتے ہی) پڑھ لیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر ان تمام نمازوں میں جو وہ پڑھتے تھے ظہر کی نماز سے زیادہ سخت کوئی نماز نہ تھی چناچہ یہ آیت نازل ہوئی (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی) 2 ۔ البقرۃ 238) یعنی ! تم سب نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی محافظت کرو۔ اور حضرت زید ابن ثابت (رض) فرمایا کرتے تھے کہ ظہر کی نماز سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور بعد بھی دو نمازیں ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری جز سے راوی کا مقصد یہ ہے کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ لہٰذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زید (رض) کا یہ ثابت کرنا کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے ان کا اپنا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس لئے ان کا یہ قول رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے متعارض نہیں ہے کیونکہ آپ ﷺ نے تو صراحت کے ساتھ فرما دیا ہے۔ کہ درمانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔

【73】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت ابن عباس (رض) دونوں کہا کرتے تھے کہ درمیانی نماز (سے مراد) صبح کی نماز ہے۔ (موطا امام مالک) اور یہ روایت حضرت امام ترمذی (رح) نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر (رض) سے بطریق تعلیق نقل کی ہے۔ تشریح یہ بھی ان دونوں حضرات کا اپنا اجتہاد ہے کہ ان حضرات تک رسول اللہ ﷺ کی حدیث نہ پہنچی ہوگی اس لئے انہوں نے بطریق احتمال کہا کہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے۔ بہر حال۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہی ہے یہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے مگر حضرت امام نووی (رح) جو شافعی المسلک ہیں فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث منقول ہیں کہ درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے۔ گو حضرت ماوردی (رح) نے جو شوافع کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت امام شافعی (رح) نے یہ تصریح کردی ہے کہ صبح کی نماز درمیانی نماز ہے۔ تاہم ان صحیح احادیث کو دیکھتے ہوئے جن سے بصراحت ثابت ہے کہ عصر کی نماز ہی درمیانی نماز ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شافعی مسلک میں بھی یہی ہوگا کیونکہ حضرت امام شافعی (رح) نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ اگر تم ایسی حدیث پاؤ جس کے برخلاف میں نے حکم دے رکھا ہو تو میرا صحیح مسلک وہی سمجھنا جو صحیح حدیث سے ثابت اور میرا پہلا حکم دیوار پر پھینک مارنا ۔

【74】

نماز کے فضائل کا بیان

اور حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی صبح کی نماز کے لئے جاتا ہے وہ گویا وہ ایمان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے اور جو آدمی صبح بازار جاتا ہے تو گویا وہ شیطان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے۔ (ابن ماجہ) تشریح علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے لشکر اور شیطان کو بیان کرنے کے لئے تمثیل ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز پڑھنے کے لئے صبح سویرے مسجد کی طرف چلتا ہے تو گویا وہ ایمان کا جھنڈا اٹھا کر شیطان سے جنگ کرنے کے لئے چلتا ہے جس طرح غازی اور مجاہدین دشمناں اسلام سے برسر پیکار ہونے کے لئے اسلامی جھنڈا لے کر چلتے ہیں لہٰذا صبح سویرے فجر کی نماز کو جانے والا آدمی اللہ تعالیٰ کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے اور جو آدمی صبح سویرے حصول دنیا کے چکر میں بازار کی طرف چلتا ہے تو وہ شیطان کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے۔ بایں طور کہ وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نماز کو جانے کی بجائے شیطان کی خواہش پر عمل کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے دین کو کمزور کر کے شیطان کی پیروی اور تابعداری کا جھنڈا اٹھا کر اس کی شان و شوکت بڑھاتا ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ یہ تمثیل اس آدمی کے حق میں ہے جو فجر کی نماز اور وظائف پڑھے بغیر بازار جاتا ہے۔ ہاں اگر کوئی آدمی نماز و تلاوت اور وظائف سے فارغ ہو کر حلال رزق طلب کرنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے سامان حیثیت کی فراہمی کی خاطر بازار جاتا ہے تو وہ اس تمثیل کی رو سے شیطان کے لشکر کا فرد نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے لشکر کا فرد ہوتا ہے۔