90. فرائض کا بیان

【1】

فرائض کا بیان

فرائض جمع ہے فریضۃ کی جو فرض سے مشتق ہے فرائض میراث کے ان حصوں کو کہتے ہیں جو قرآن و حدیث میں متعین ومقرر ہیں۔ گویا اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ جو شخص مرجائے اس کے کون کون عزیز و اقا رب اس کے وارث ہوں گے اور اس کا چھوڑا ہوا مال و اسباب ان ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگا۔ یہ باب چونکہ ایک بڑے اہم موضوع سے متعلق ہے اس لئے مناسب ہے کہ ابتدائی طور پر چند اصولی باتیں اور کچھ ضروری مسائل یکجائی انداز میں نقل کر دئیے جائیں۔

【2】

ورثاء کی ترتیب

علماء لکھتے ہیں کہ میت کے ترکہ (یعنی اس کے چھوڑے ہوئے مال و اسباب) کے ساتھ چار حق متعلق ہوتے ہیں جس کی ترتیب یہ ہے کہ (١) پہلے تو میت کی تجہیز و تکفین کی جائے یعنی اسے غسل دیا جائے پھر کفن دیا جائے اس کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھوا کر قبرستان لے جایا جائے اور پھر قبر میں دفن کیا جائے ان چیزوں میں جو کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہ اس کے ترکہ میں سے اس طرح خرچ کیا جائے کہ نہ تو تنگی کی جائے اور نہ اسراف کیا جائے۔ (٢) اس کے بعد اگر میت کے ذمہ کوئی قرض و مطالبہ ہو تو اس کی ادائیگی کی جائے۔ پھر قرض و مطالبہ کی ادائیگی کے بعد (٣) جو مال و اسباب بچے اس میں سے تہائی حصہ میں وصیت جاری کی جائے بشرطیکہ اس نے وصیت کی ہو ان تین مرحلوں کے بعد (٤) اس کا بقیہ تمام مال و اسباب اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم کیا جائے جس کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے ذوی الفروض کو ان کے مقررہ حصے دئیے جائیں اور ان کو دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ میت کے عصبات نسبی کو دیدیا جائے کیونکہ ذو الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ عصبات نسبی کا حق ہوتا ہے اور اگر میت کے وارثوں میں ذوی الفروض موجود نہیں ہوتے تو پھر اس کا تمام ترکہ عصبات نسبی کو ملتا ہے اور اگر اس کے وارثوں میں عصبات نسبی نہیں ہوتے تو ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ آزاد کرنیوالے کو ملتا ہے بشرطیکہ میت غلام رہا ہو اور اس کو آزاد کیا گیا ہو اور اگر آزاد کرنیوالا موجود نہ ہو تو پھر اس آزاد کرنیوالے کے مرد عصبات کو دیا جاتا ہے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو بھی وہ بچا ہوا ترکہ ذوی الفروض کی طرف لوٹ جائے گا علاوہ زوجین کے کیونکہ اس دوبارہ تقسیم میں ذوی الفروض میں سے زوجین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور اگر میت کے ورثاء میں نہ تو ذوی الفروض میں سے کوئی ہو اور نہ عصبات نسبی و سببی ہوں تو اس کا ترکہ ذوی الارحام کو دیا جائے اور اگر ذوی الارحام بھی نہ ہوں تو مولا موالات کو دیا جائے اور اگر کوئی مولا موالات بھی نہ ہو تو پھر وہ تمام ترکہ اس غیر شخص کو ملے گا جس کے نسب کا میت نے اقرار کیا ہو مثلا اس نے زید کے بارے میں کہا ہو کہ یہ میرے باپ کا بیٹا ہے حالانکہ زید کا یہ نسب یعنی اس میت کے باپ کا بیٹا ہونا اس اقرار کے علاوہ اور کسی صورت میں ثابت نہ ہو لیکن پھر بھی وہ میت کے ترکہ کا حقدار قرار پائیگا۔ اور اگر ایسا بھی کوئی شخص نہ ہو تو پھر وہ ترکہ اس شخص کو دیا جائے گا جس کے لئے میت نے اپنے تمام مال کی وصیت کی ہو اور اگر ایسا بھی کوئی شخص نہ ہو جس کے لئے میت نے اپنے تمام مال و اسباب کی وصیت کی ہو تو پھر اس کا سارا مال و اسباب بیت المال میں رکھا جائے گا۔ اور اگر بیت المال بھی نہ ہو تو پھر آخر میں بیت المال کے مصرف میں صرف کیا جائے یعنی مدارس ومساجد یا فقراء اور مساکین وغیرہ کو دیا جائے گا۔

【3】

ذوی الفروض کی تفصیل

ذوی الفروض بارے ہیں (1) باپ ( ٢) دادا خواہ اوپر کے درجہ کے ہوں جیسے پڑ دادا اور سکڑ دادا وغیرہ (٣) اخیافی بھائی ( اخیافی ان بھائیوں کو کہتے ہیں جن کے باپ الگ الگ ہوں اور ماں ایک ہو ( ٤) بیوی ( ٥) خاوند ( ٦) ماں (٧) جدہ (یعنی دادی یا نانی خواہ اوپر کے درجہ کی ہو جیسے پڑ دادی اور سکڑ دادی یا پڑنانی اور سکڑنانی (٨) بیٹی (٩) پوتی (١٠) حقیقی بہن (١١) سوتیلی بہن اور (١٢) اخیافی بہن۔

【4】

ذوی الفروض کے حصے

میت کے ترکہ میں باپ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے جب کہ میت کا بیٹا یا پوتا اور یا پڑپوتا بھی موجود ہو اور اگر یہ نہ ہوں بلکہ بیٹی یا پوتی اور یا پڑپوتی موجود ہو تو باپ کو چھٹا حصہ بھی ملے گا اور وہ عصبہ بھی ہوگا اور اگر نہ تو بیٹا یا پوتا اور پڑپوتا ہو اور نہ بیٹی یا پوتی اور یا پڑپوتی ہو تو باپ صرف عصبہ ہوگا حاصل یہ ہے کہ پہلی صورت میں تو باپ صرف صاحب فرض ہوتا ہے اور دوسری صورت میں صاحب فرض بھی ہوتا ہے اور عصبہ بھی اور تیسری صورت میں صرف عصبہ ہوتا ہے۔ اگر میت کا باپ موجود نہ ہو تو مذکوربہ بالا تینوں صورتوں میں اس کا دادا باپ کی مانند ہوگا اور اگر میت کے باپ اور دادا دونوں زندہ ہوں تو پھر دادا محروم ہوگا یعنی اسے میت کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ اخیافی بھائی اور اخیافی بہن کو میراث کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ ایک ہو اور اگر وہ دو یا دو سے زائد ہوں تو ان کے لئے تہائی حصہ ہے جو مرد و عورت پر برابر تقسیم ہوگا اور اگر میت کا باپ یا دادا زندہ ہو یا اس کا بیٹا یا بیٹے کی اولاد موجود ہو تو پھر اخیافی بھائی بہن محروم ہونگے۔ اگر بیوی مرجائے اور اس کا بیٹا بیٹی نہ ہو اور بیٹے کی اولاد بھی نہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے شوہر کو نصف حصہ ملے گا اور اگر بیٹا بیٹی یا بیٹے کی اولاد موجود ہو تو شوہر کو چوتھا حصہ ملے گا۔ اگر خاوند مرجائے اور نہ تو اس کے بیٹے بیٹی ہوں اور نہ بیٹے کی اولاد ہو تو اس کے ترکہ میں سے بیوی کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر میت کے بیٹا بیٹی یا بیٹے کی اولاد موجود ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر میت کی ایک ہی بیوی ہو تو اس کو بھی وہی حصہ ملے گا جو ذکر کیا گیا ہو اور اگر ایک سے زائد یعنی دو یا تین اور چار بیویاں ہوں تب بھی یہی حصہ ملے گا فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ایک بیوی ہوگی تو مذکورہ بالا حصہ کی وہ تنہا حق دار ہوگی اور ایک سے زائد بیویاں ہوں گی تو وہ اس حصہ کو باہم تقسیم کرلیں گی۔ میت کے ترکہ میں سے ماں کو چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ میت کے بیٹا بیٹی یا پوتا یا اس کی اولاد یا بہن یا دو بھائی اور دو بہن یا دو سے زائد بھائی اور بہن خواہ حقیقی بھائی بہن ہوں یا سوتیلے اور اخیافی ہوں موجود ہوں اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوگا تو ماں کو کل ترکہ میں سے تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر ماں کے ساتھ باپ اور خاوند بھی ہو تو اس صورت میں باپ اور خاوند یا بیوی کا حصہ دے کر جو باقی بچے گا اس میں سے ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور اگر مذکورہ بالا صورت میں بیوی یا خاوند کے ساتھ باپ کے بجائے دادا موجود ہو تو پھر ماں کو تمام ترکہ کا تہائی حصہ ملے گا کیونکہ اس صورت میں دادا باپ کا قائم مقام نہیں ہوتا۔ دادی اور نانی کا چھٹا حصہ ہوتا ہے خواہ وہ ایک ہوں یا کئی ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صرف ایک دادی یا صرف ایک نانی ہوگی تو وہ میت کے ترکہ کے چھٹے حصہ کی تنہا حق دار ہوگی اور اگر ایک سے زائد ہوں گی مثلا ایک دادی اور ایک نانی ہو یا دو دادی یا دو نانی ہوں تو وہ سب اس چھٹے حصہ کو باہم برابر تقسیم کرلیں گی بشرطیکہ وہ سب درجہ میں برابر ہوں اور اگر درجہ میں برابر نہ ہوں بلکہ درجہ میں متفاوت ہوں جیسے ایک دادی ہو اور ایک پڑدادی ہو یا ایک نانی ہو اور ایک پڑنانی ہو تو دور کے درجہ والی یعنی پڑنانی) قریب کے درجہ والی یعنی نانی کے سامنے محروم ہوگی اسی طرح ماں کی موجودگی میں تمام ہی جدات یعنی دادی ونانی وغیرہ محروم ہوتی ہیں نیز دادا کی موجودگی میں باپ کی دادیاں محروم ہوتی ہیں لیکن دادا کی بیوی یعنی باپ کی ماں محروم نہیں ہوتی۔ میت کی بیٹی میراث سے کبھی محروم نہیں ہوتی اگر اس کا بھائی یعنی میت کا بیٹا موجود ہوتا ہے تو وہ عصبہ بن جاتی ہے ورنہ ذوی الفروض رہتی ہے چناچہ بیٹی کے میراث پانے کی دو تین صورتیں ہوتی ہے۔ اول یہ کہ صرف ایک بیٹی ہو اور اس کے ساتھ اس کا کوئی حقیقی یا سوتیلا بھائی نہ ہو تو میت کے ترکہ میں سے اس کو نصف حصہ ملتا ہے اور اگر کوئی دوسرا وارث بھی نہ ہو تو باقی نصف حصہ بھی اسی کو مل جاتا ہے دوم یہ کہ اگر دو بیٹیاں ہوں یا دو سے زائد ہوں اور ان کے ساتھ ان کا کوئی حقیقی یا سوتیلا بھائی نہ ہو تو ان بیٹیوں کے ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا جسے وہ سب آپس میں برابر تقسیم کرلیں گی۔ سوم یہ کہ اگر بیٹیوں کے ساتھ میت کا بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں بیٹی کا کوئی حصہ مقرر نہیں بلکہ وہ عصبہ بن جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں سے جس قدر بیٹے کو ملے گا اس کا آدھا ہر ایک بیٹی کو ملے گا خواہ ایک بیٹی ہو یا دو چار بیٹیاں ہوں چناچہ اگر کسی میت کے متعدد بیٹے اور متعدد بیٹیاں ہوں تو ان میں ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ اگر میت کے بیٹی بیٹا یا پوتا موجود نہ ہو صرف ایک پوتی ہو تو اس کو ترکہ میں سے نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ پوتیاں ہوں تو ان کو کل ترکہ میں سے دو تہائی دیا جائے گا۔ جسے وہ سب آپس میں برابر تقسیم کرلیں گی اگر میت کے بیٹا پوتا یا پڑپوتا موجود نہ ہو بلکہ صرف ایک بیٹی ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا خواہ ایک پوتی ہو یا متعدد پوتیاں ہوں اور اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہوں گی تو اس صورت میں پوتی کو چھٹاحصہ ملے گا خواہ ایک پوتی ہو یا متعد پوتیاں ہوں اور اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہوں گی تو اس صورت میں پوتی بالکل محروم رہے گی ہاں اگر پوتی کے ساتھ میت کا پوتا بھی موجود ہو خواہ وہ نیچے ہی کے درجہ کا کیوں نہ ہو یعنی پوتا اور خواہ یہ پوتا اس پڑپوتی کا حقیقی بھائی ہو یا سوتیلا بھائی ہو اور یا چچا زاد بھائی ہو تو پھر چاہے میت کی ایک ہی بیٹی ہو یا متعدد بیٹیاں ہوں وہ پوتی عصبہ ہوجائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے گا یہ پوتی اور پوتا آپس میں بطور عصوبت تقسیم کریں گے یعنی پوتے کو دو حصے اور پوتی کو ایک حصہ ملے گا لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر میت کا بیٹا موجود ہوگا تو پھر یہ پوتی ہر حال میں بالکل محروم رہے گی نیز اگر نہ تو میت کی اولاد موجود ہو اور نہ میت کے بیٹے کی اولاد موجود ہو تو مذکوربہ بالا تمام صورتوں میں میت کی پوتی اس کی پوتی کے قائم مقام ہوگی اور اگر بیٹی موجود ہے تو بیٹی کی اولاد محروم رہے گی اور اگر پوتی موجود ہے تو پوتی کی اولاد محروم قرار پائیگی۔ اگر میت کی اولاد موجود ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد موجود ہو (خواہ وہ نیچے ہی کے درجہ کی کیوں نہ ہو) تو اخیافی بہن بھائی محروم قرار پاتے ہیں اسی طرح اگر میت کا باپ یا دادا موجود ہو تو اخیافی بہن بھائی محروم ہوتے ہیں۔ اگر میت کے کوئی بیٹا یا بیٹی یا پوتا پوتی اور یا پڑپوتا پڑپوتی موجود نہ ہو بلکہ صرف ایک حقیقی بہن ہو تو وہ ہر حال میں بیٹی کے قائم مقام ہوگی یعنی اگر ایک بہن ہوگی تو اسے میت کے کل ترکہ میں سے نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں گی تو انہیں کل ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا جسے وہ آپس میں برابر تقسیم کرلیں گی مذکورہ بالا صورت میں سوتیلی بہن کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ حقیقی بہن موجود نہ ہو۔ اگر میت کی بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی اور سکڑپوتی موجود ہو (خواہ ایک ہو یا زیادہ ہوں) تو اس صورت میں حقیقی بہن اور اگر حقیقی بہن نہ ہو تو سوتیلی بہن عصبہ ہوجاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ اس بہن کو مل جائے گا۔ اگر میت کے حقیقی بھائی ایک یا زیادہ موجود ہو تو حقیقی بہن اس کے ساتھ مل کر عصبہ بن جائے گی اور اگر بھائی حقیقی نہ ہو بلکہ سوتیلا ہو تو حقیقی بہن اس سوتیلے بھائی کی موجودگی میں ذوی الفروض میں شامل ہوگی۔ اگر میت کے ایک حقیقی بھائی ہو اور اس کے ساتھ ہی سوتیلے بھائی بہن بھی ہوں تو اس حقیقی بھائی کی موجودگی میں وہ سوتیلے بھائی بہن محروم ہوں گے۔ اگر میت کی ایک حقیقی بہن موجود ہو تو اس کی موجودگی میں سوتیلی بہن کو چھٹا حصہ ملے گا خواہ وہ ایک ہو یا ایک سے زائد ہوں اور اگر حقیقی بہنیں ایک سے زائد ہوں تو پھر سوتیلی بہن ساقط ہوجائے گی اسے کچھ نہیں ملے گا ہاں اگر سوتیلی بہن کے ساتھ سوتیلا بھائی ہو تو پھر یہ سوتیلی بہن محروم نہیں ہوگی بلکہ خواہ ایک حقیقی بہن ہو ایک سے زائد ہوں اور خواہ ایک بھی نہ ہو ہر صورت میں سوتیلی بہن سوتیلے بھائی کے ساتھ عصبہ ہوجائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذوی الفروض کو دینے کے بعد میت کے ترکہ میں سے جو کچھ بھی بچے گا وہ سب ان سوتیلے بہن بھائی کے درمیان بطور عصوبت تقسیم ہوجائے گا اور اگر میت کی حقیقی بہن میت کی بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی اور یا سکڑپوتی کے ساتھ عصبہ ہوجائے گی تو اس صورت میں سوتیلا بھائی اور سوتیلی بہن بالکل محروم رہیں گے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر میت کے بیٹا یا پوتا یا پڑپوتا اور یا سکڑپوتا موجود ہوگا تو میت کا حقیقی بھائی حقیقی بہن اور سوتیلے بھائی بہن محروم رہیں گے اسی طرح میت کے باپ یا دادا کی موجودگی میں بھی میت کے حقیقی اور سوتیلے بہن بھائی محروم رہیں گے۔

【5】

عصبات کی تفصیل

میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ عصبات میں تقسیم ہوگا گویا ذوی الفروض پہلے درجہ کے وارث ہیں اور عصبات دوسرے درجہ کے وارث ہیں چناچہ عصبات کے بھی درجے ہیں اول بیٹا پوتا پڑپوتا سکڑپوتا یا اس کے نیچے کے درجہ ہے دوم باپ دادا پڑ دادا یا اس کے اوپر کے درجہ کے) سوم حقیقی اور سوتیلے بھائی اور ان کے لڑکے اگرچہ نیچے کے درجے کے ہوں چہارم میت کے چچا میت کے باپ کے چچا میت کے دادا کے چچا اور ان چچاؤں کے بیٹے پوتے پڑوتے اور سکڑوتے۔ اب ان چاروں درجوں کی ترتیب یہ ہوگی ان چاروں درجوں میں مقدم بیٹے ہیں پھر پوتے پھر پڑپوتے پھر سکڑوتے پھر باپ پھر دادا پھر پڑ دادا پھر سکڑ دادا پھر بھائی پھر بہن پھر بھتیجے (اگرچہ نیچے تک) پھر چچا پھر چچا کی اولاد لہذا جب ان چاروں درجوں میں سے پہلے درجہ کا کوئی عصبہ موجود ہوگا تو باقی تینوں درجوں کے عصبات بالکل محروم قرار پائیں گے۔ اسی طرح اگر پہلے درجہ کا کوئی عصبہ یعنی بیٹا یا پوتا یا پڑوتا اور یا سکڑوتا موجود نہ ہوگا اور دوسرے درجہ کا کوئی عصبہ موجود ہوگا تو باقی دو درجوں کے عصبات بالکل محروم ہوجائیں گے اور اگر نہ تو پہلے درجہ کے عصبات میں سے کوئی موجود اور نہ دوسرے درجہ کے عصبات میں سے بلکہ تیسرے درجہ کے عصبات میں سے کوئی موجود ہو تو پھر چوتھے درجہ کے عصبات بالکل محروم رہیں گے۔ ایسے ہی ان چاروں درجوں میں سے ہر درجہ میں قریب کا عصبہ بعید کے عصبہ پر مقدم ہوگا یعنی قریب کے عصبہ کی موجودگی میں بعید کے عصبہ کو کچھ نہیں ملے گا۔ مثلا میت کے بیٹا بھی موجود ہو اور پوتا بھی موجود ہو اور یہ دونوں ہی درجہ اول کے عصبہ ہیں مگر اس صورت میں قریب کا عصبہ یعنی بیٹا مقدم ہوگا کہ اسے میت کا ترکہ ملے گا اور بعید کا عصبہ یعنی پوتا محروم ہوجائے گا اسی طرح حقیقی عصبہ سوتیلے عصبہ پر مقدم ہوگا اور میت کے چچاؤں کے پوتے میت کے باپ کے چچاؤں پر مقدم ہوں گے۔ اور میت کے باپ کے چچاؤں کے پوتے میت کے دادا کے چچاؤں پر مقدم ہوں گے۔

【6】

ذوی الارحام کی تفصیل

جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا کہ میت کے وارثوں میں سب سے پہلا درجہ ذوی الفروض کا ہے اور دوسرا درجہ عصبات کا ہے اب یہ سمجھئے کہ اگر کسی میت کے وارثوں میں نہ تو ذوی الفروض ہوں اور نہ عصبات ہوں تو پھر اس کا ترکہ ذوی الارحام کو ملے گا گویا ذوی الارحام کو ملے گا گویا ذوی الارحام کے وارثوں کا تیسرا درجہ ہے چناچہ جس طرح عصبات کے چار درجے ہیں اسی طرح ذوی الارحام کے بھی چار درجے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ اول میت کی بیٹی پوتی اور پڑوتی خواہ اس سے نیچے کے درجہ کی اولاد یعنی میت کے نواسہ نواسی میت کے بیٹے کا نواسہ نواسی میت کے نواسے کا بیٹا بیٹی کی نواسی کا بیٹا بیٹی اور میت کے پوتے کے نواسہ نواسی وغیرہ۔ دوم دادا فاسد دادی فاسدہ اور نانی فاسدہ ( خواہ یہ سب اوپر کے درجہ کے ہوں) اس موقع پر یہ سمجھ لیجئے کہ دادا فاسد اس دادا کو کہتے ہیں جس کے اور میت کے درمیان عورت کا واسطہ جیسے میت کا نانا اور میت کی دادی یا نانی کا باپ اور دادی فاسدہ اور نانی فاسدہ اس دادی یا نانی کو کہتے ہیں جس کے اور میت کے درمیان دادا فاسد کا واسطہ ہو جیسے نانا کی ماں اور دادی یا نانی کے باپ کی ماں یہ سب ذوی الارحام ہیں جب کہ دادا صحیح اور دادی ونانی صحیحہ ذوی الفروض ہیں چناچہ دادا صحیح اس کو کہتے ہیں جس کے اور میت کے درمیان عورت کا واسطہ نہ ہو جیسے دادا اور پڑ دادا یا اس سے اوپر کے درجہ کے اور دادی ونانی صحیحہ اس دادی یا نانی کو کہتے ہیں جس کے اور میت کے درمیان دادا فاسد کا واسطہ نہ ہو جیسے دادی یا پڑ دادی اور نانی یا پڑنانی (یا اس سے اوپر کے درجہ کی) سوم حقیقی بہنوں کی اولاد سوتیلی بہنوں کی اولاد اخیافی بہنوں کی اولاد اخیافی بھائی کی اولاد حقیقی بھائی کی بیٹیاں اور سوتیلے بھائی کی بیٹیاں۔ چہارم پھوپیاں خواہ حقیقی ہوں یا سوتیلی اور اخیافی ہوں اخیافی چچا ماموں اور خالائیں۔ ذوی الارحام کے یہ چار درجے ہیں اور عصبات کی طرح ان کی ترتیب بھی یہ ہے کہ اگر ان چاروں درجوں میں سے اول درجہ کے ذوی الارحام وارث موجود ہوں گے یا ان کی اولاد خواہ وہ کتنے ہی نیچے کے درجہ کی ہو موجود ہوگی تو باقی تینوں درجوں کے ذوی الارحام محروم ہوں گے اسی طرح درجہ دوم کے ذوی الارحام ورثاء کی موجودگی میں سوم اور چہارم درجہ کے اور تیسرے درجہ کے ذوی الارحام کی موجودگی میں چوتھے درجہ کے ذوی الارحام محروم ہوں گے نیز عصبات کیطرح ذوی الارحام میں بھی اس کے ہر درجہ میں قریب کا ذی رحم بعید کے ذی رحم پر مقدم ہوگا

【7】

میراث پانے سے محروم کردینے والی چیزیں

اللہ تعالیٰ نے میت کا مال و اسباب اس کے موجودہ ورثاء کو متعینہ حصوں اور مقررہ ضابطوں کے تحت دینے کا جو حکم دیا ہے اس میں دراصل میت اور اس کے ورثاء کے درمیان ایک خاص علاقہ تعلق اور رشتہ داری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چناچہ اگر کوئی ایسی بات پیش آجائے جس سے نہ صرف یہ کہ میت اور اس کے وارث کے درمیان کسی خاص علاقہ وتعلق کا اظہار نہ ہوتا ہو بلکہ وہ ایک قسم کی جدائی علیحدگی اور نفرت ثابت کرنے کا ذریعہ بن جائے تو وہ وارث میراث میت کا حق دار نہیں ہوگا اور اسے کوئی میراث نہیں ملے گی۔ لہذا ایسی چار چیزیں ہیں جو کسی شخص کو میراث پانے سے محروم کردیتی ہیں ان چار چیزوں کی تفصیل یہ ہے کہ ١) غلامی نہ تو کسی غلام کا وارث کوئی آزاد شخص ہوتا ہے اور نہ خود غلام کسی آزاد شخص کا وارث بن سکتا ہے کیونکہ غلام شرعی طور پر کسی چیز کا مالک ہونے کی قابلیت ہی نہیں رکھتا اور نہ کوئی چیز اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ ٢) قتل اگر کوئی بالغ وارث اپنے مورث کو قتل کر دے تو وہ وارث میراث پانے سے بالکل محروم ہوجائے گا لیکن یہاں قتل سے مراد وہ قتل ہے جس کی وجہ سے قاتل پر قصاص یا کفارہ واجب ہوتا ہے چناچہ قتل کی پانچ قسمیں ہیں (جن کی تفصیل انشاء اللہ اپنے موقع پر آئے گی) ان میں سے چار قسمیں ایسی ہیں کہ کسی میں قصاص واجب ہوتا ہے اور کسی میں کفارہ اور دیت لہذا ان چاروں صورتوں میں حنفی مسلک کے مطابق قاتل میراث سے محروم ہوجاتا ہے۔ جبکہ وہ اپنے مورث کو ناحق قتل کرے ہاں اگر وارث اپنے مورث کو ظلمًا قتل نہ کرے بلکہ دفاع کرتے ہوئے مورث پر وار کرے اور مورث مارا جائے مثلا مورث ناحق اس وارث پر حملہ کرے اور پھر وارث اپنے کو بچانے کے لئے مورث پر وار کرے اور اس کے وار کے نتیجے میں مورث مارا جائے یا مورث پر شرعا کسی وجہ سے بطور سزا قتل واجب ہو مثلًا قصاص کے طور پر) یا اس پر کوئی حد جاری کی جانی ضرور ہو اور بادشاہ یا قاضی کے حکم سے وارث نے اس مورث کو قتل کیا یا اس پر حد جاری کی اور وہ مرگیا تو اس صورت میں بھی وارث میراث سے محروم نہیں ہوگا۔ قتل کی پانچ قسموں میں ایک قسم (قتل بالتسبب) ہے قتل کی اس قسم پر نہ قصاص لازم آتا ہے اور نہ کفارہ بلکہ صرف دیت واجب ہوتی ہے چناچہ اس قسم کے قتل میں بھی قاتل میراث سے محروم نہیں ہوتا۔ قتل بالتسبب کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی زمین میں مالک کی اجازت کے بغیر پتھر رکھ دے یا کنواں کھود دے اور پتھر سے ٹھوکر کھا کر یا کنویں میں گر کر کوئی شخص مرجائے تو اس شخص پر دیت واجب ہوتی ہے۔ اسی طرح حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ یا مجنوں اپنے مورث کو قتل کر دے تو وہ میراث سے محروم نہیں ہوتا کیونکہ نابالغ اور مجنوں کے اکثر افعال پر شرعی طور پر کوئی سزا واجب نہیں ہوتی۔ ٣) اختلاف مذہب دو مذہبوں کا اختلاف میراث سے محروم کردیتا ہے یعنی اگر وارث مسلمان ہے اور مورث غیر مسلم ہے ( خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی اور یہودی وغیرہ ہو) تو اس کی میراث مسلمان کو نہیں ملے گی اسی طرح اگر وارث غیر مسلم ہے اور مورث مسلمان ہے تو اس کی میراث غیر مسلم کو نہیں ملے گی۔ ٤) اختلاف دارین یعنی ممالک وطن کا اختلاف میت اور وارث کے ملک وطن کے ملک و وطن کا مختلف ہونا میراث سے محروم کردیتا ہے مثلا ایک شخص دار الاسلام میں رہتا ہے اور ایک شخص دار الحرب میں تو دونوں ایک دوسرے کی میراث سے محروم رہیں گے۔ لیکن یہ حکم غیر مسلم کے لئے ہے۔ مسلمان مورث ووارث اگر اختلاف دارین بھی رکھ تے ہوں گے تب بھی ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوں گے۔

【8】

میت کا ترکہ اس کے ورثاء کا حق ہے

حضرت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کے حق میں خود ان سے بھی زیادہ عزیز ہوں یعنی دین و دنیا کے ہر معاملہ میں ایک مسلمان اپنے اوپر خود جتنا شفیق و مہربان ہوسکتا ہے میں اس پر اس سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہوں اسی لئے ان کے قرضوں کو ادا کرنے میں زیادہ حق دار ہوں لہذا جو شخص یعنی مسلمان مرجائے اور اس پر قرض ہو اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہوسکتا ہو تو اس کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو شخص اتنا مال چھوڑ جائے جو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کی کی ہوئی وصیت کی شرعی تکمیل کے بعد بھی بچ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص قرض دار یا عیال دار مرجائے اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کے قرض کی ادائیگی ہو سکے یا اس کے عیال کی پرورش ہو سکے تو اس کا وکیل یا وصی میرے پاس آئے میں اس کا انتظام کروں گا یعنی میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اس کے عیال کی نگہداشت وغم خواری کروں گا۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا ہے اور جو بھاری چیز یعنی قرض اور عیال چھوڑ کر مرے تو اس کا انتظام کرنا میرے ذمہ ہے ( بخاری ومسلم) تشریح شروع میں آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ اگر کوئی شخص مرتا جس کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کے ترکہ میں اتنا مال نہ ہوتا جو اس قرض کی ادائیگی کے لئے کافی ہوتا ہے تو آپ ﷺ اس کے جنازہ کی نماز پڑھنے سے احتراز فرماتے لیکن جب حق تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی اور آپ ﷺ کو کشائش مال کی نعمت میسر ہوئی تو آپ ﷺ نے یہ معمول بنا لیا کہ جو شخص قرضدار مرجاتا آپ ﷺ اس کا قرض ادا کرتے اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھتے۔ یہ بات حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس روایت سے مفہوم ہوتی ہے جو باب الافلاس والانظار کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے اور یہ گویا آنحضرت ﷺ کے اس بےپناہ جذبہ شفقت و مہربانی اور کمال رحمت ہمدردی کا مظہر ہے جو آپ ﷺ تمام مسلمانوں کے تئیں رکھتے تھے۔

【9】

میت کا ترکہ پہلے ذوی الفروض کو دو

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میراث کے حصے جو قرآن کریم میں متعین کئے گئے ہیں حصہ داروں کو دو پھر جو کچھ بچے وہ میت کے اس مرد وارث عصبہ کا حق ہے جو میت کا سب سے قریبی عزیز ہو (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ میت کا ترکہ سب سے پہلے ان لوگوں کو دو جن کے حصے قرآن کریم میں مقرر ہیں کہ جنہیں ذوی الفروض کہا جاتا ہے ان کو معینہ حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے وہ عصبات کو دو اور پھر عصبات میں مقدم وہ عصبہ ہیں جو میت کا سب سے قریبی عزیز ہو چناچہ قریب کے عصبہ کی موجودگی میں بعید کا عصبہ میت کے ترکہ کا وارث نہیں ہوتا ابتداء باب میں ذوی الفروض اور عصبات کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔ حدیث کے آخری الفظ رجل ذکر میں لفظ ذکر تاکید کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ خنثی سے احتراز ہوجائے۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ ارشاد گرامی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض وارث بعض دوسرے وارثوں کے حق میں حاجب یعنی میراث سے روکنے والے) ہوتے ہیں چناچہ حجب یعنی میراث سے روکنا دو طرح سے ہوتا ہے اول حجب نقصان دوم حجب حرمان اس موقع پر اجمالی طور پر ان دونوں کی یہ تعریف جان لیجئے کہ بعض وارث ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دوسرے وارثوں کا حصہ کم ہوجاتا ہے۔ مثلا جب میت کے اولاد نہ ہو تو میت کی ماں کو ترکہ میں سے ایک تہائی ملتا ہے۔ اور اگر میت کی اولاد موجود ہو تو میت کی ماں کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے اس کو حجب نقصان کہتے ہیں اسی طرح بعض وارث ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے بعض عزیزوں کو میراث میں سے کچھ بھی نہیں ملتا مثلا میت کے بیٹے کے موجودگی میں بھائی میراث سے بالکل محروم رہ جاتا ہے۔ اس کو حجب حرمان کہتے ہیں

【10】

اختلاف مذہب میراث سے محروم کردیتا ہے۔

اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہ تو مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوتا ہے (بخاری ومسلم) تشریح علامہ نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اس بات پر تو تمام مسلمانوں کا اتفاق واجماع ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا یعنی اگر مورث مسلمان ہو اور وارث کافر ہو تو مسلمان مورث کے مرنے کے بعد اس کا کافر وارث میراث سے محروم رہے گا۔ لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے یا نہیں چناچہ اکثر علماء تو یہ کہتے ہیں کہ جس طرح کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔ اسی طرح مسلمان بھی کافر کا وارث نہیں ہوتا مگر صحابہ اور تابعین میں سے بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے چناچہ حضرت امام مالک کا بھی یہی مسلک ہے۔ اسی طرح اس بات پر بھی تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کافر کی طرح مرتد بھی مسلمان کا وارث نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ مسلمان مرتد کا وارث ہوتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت ربیعہ اور حضرت ابن ابی لیلی وغیرہ تو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بھی مرتد کا وارث نہیں ہوتا، حضرت امام ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ مرتد نے اپنے ارتداد کی زندگی میں جو کچھ کمایا ہے وہ بیت المال میں جائے گا اور حالت اسلام میں جو کچھ کمایا ہے وہ اس کے مسلمان ورثاء کو ملے گا۔

【11】

آزاد کرنیوالا غلام کا وارث ہوتا ہے

اور حضرت انس نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قوم کا مولیٰ اسی قوم میں سے ہے (بخاری) تشریح ارشاد گرامی میں مولیٰ سے مراد آزاد کرنیوالا ہے گویا اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ آزاد شدہ غلام کا وارث وہ شخص ہوتا ہے جس نے اسے آزاد کیا ہے اس کے برخلاف آزاد شدہ غلام اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث نہیں ہوگا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مولیٰ سے مراد آزاد شدہ غلام ہے یعنی جس قبلہ وفرد سے کسی غلام کو آزاد کیا گیا ہو تو اس آزاد شدہ غلام کا وہی حکم ہوگا جو اس کو آزاد کرنیوالے قبیلے یا فرد کا ہوگا مثلًا بنی ہاشم سید نے کسی غلام کو آزاد کیا تو اب وہ آزاد شدہ غلام زکوٰۃ کے باب میں بنی ہاشم ہی کا سا حکم رکھے گا کہ جس طرح بنی ہاشم پر زکوٰۃ کا مال حرام ہے اسی طرح اس آزاد شدہ غلام پر بھی زکوٰۃ کا مال حرام ہوگا۔

【12】

بھانجا ماموں کے ترکہ کا وارث ہوتا ہے

اور حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی قوم کا بھانجا اسی قوم میں سے ہے ( بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ بھانجا اپنے ماموں کا وارث ہوتا ہے اور یہ ذوی الارحام میں سے ہے، چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کے نزدیک ذوی الارحام میت کے وارث ہوتے ہیں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ذوی الارحام کو میت کے ترکہ میں سے میراث اسی صورت میں ملتی ہے جب کہ میت کے ذوی الفروض اور عصبات موجود نہ ہوں ان دونوں کی موجودگی میں ذوی الارحام کو کچھ نہیں ملتا۔ اس کی تفصیل ابتداء میں گزر چکی ہے۔ بہرحال حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے ذوی الارحام کے وارث ہونے پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عائشہ کی روایت (انما الولاء) الخ باب السلم سے پہلے باب میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت براء کی روایت (الخالۃ بمنزلۃ الام) الخ انشاء اللہ باب بلوغ الصغیر وحضانۃ میں ذکر کی جائے گی۔

【13】

مسلم، غیرمسلم کا اور غیرمسلم، مسلم کا وارث نہیں ہوتا

حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دو مختلف مذہب کے لوگوں کے درمیان وارثت قائم نہیں ہوتی (ابوداؤد ابن ماجہ) امام ترمذی نے اس روایت کو حضرت جابر سے نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ نہ تو مسلمان غیر مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے اور نہ غیر مسلمان، مسلمان کا وارث بن سکتا ہے۔

【14】

اپنے مورث کا قاتل میراث سے محروم ہوجاتا ہے

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قتل کرنیوالا وارث نہیں ہوسکتا ( ترمذی ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے مورث کو ناحق قتل کر دے وہ اس کی میراث پانے سے محروم ہوجاتا ہے چناچہ اس بارے میں تفصیل ابتداء باب میں گزر چکی ہے۔

【15】

جدہ کا چھٹا حصہ ہے

اور حضرت بریدہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے جدہ کا چھٹا حصہ مقرر کیا ہے جب کہ ماں اسے محجوب نہ کر دے ( ابوداؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر میت کی ماں زندہ ہوگی تو اس کی وجہ سے میت کی جدہ محروم ہوجائے گی ہاں اگر میت کی ماں زندہ نہ ہوگی تو اس کے ترکہ میں سے جدہ کو چھٹا حصہ ملے گا۔ یہاں جدہ کے عام معنی یعنی دادی اور نانی دونوں مراد ہیں۔

【16】

زندہ پیدا ہونیوالا بچہ کا وارث ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر بچہ نے کوئی آواز نکالی ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اسے وارث قرار دیا جائے ( ابن ماجہ دارمی) تشریح آواز نکالنے سے مراد علامت زندگی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ سے آدھے سے زیادہ نکلا اور اس میں زندگی کی کوئی علامت پائی گئی بایں طور کہ اس کے منہ سے آواز نکلی یا سانس لیا یا چھینکا اور یا اس کا کوئی عضو ہلا اور پھر وہ مرگیا تو اس بچہ کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کو وارث قرار دے کر اس کا ورثہ بھی تقسیم کیا جائے۔ اب اس حدیث کی وضاحت کی روشنی میں یہ مسئلہ جان لیجئے کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کا وارث ماں کے پیٹ میں ہو تو اس کی میراث رکھ چھوڑی جائے پھر اگر وہ زندہ پیدا ہوا تو وہ وارث قرار پائیگا اور اس کی میراث اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجائے گی اور اگر وہ زندہ پیدا نہ ہوا تو پھر وارث نہیں ہوگا اور وہ میراث دوسرے وارثوں کو مل جائے گی۔

【17】

ابتداء اسلام کا ایک حکم

اور حضرت کثیر بن عبداللہ اپنے والد (حضرت عبداللہ تابعی) اور وہ کثیر کے دادا (یعنی اپنے والد حضرت عمرو بن عوف مزنی صحابی) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی قوم کا مولیٰ اسی قوم میں سے ہے کسی قوم کا حلیف اسی قوم میں سے ہے اور کسی قوم کا بھانجا اسی قوم میں سے ہے (دارمی) تشریح پہلی فصل میں حضرت انس کی جو روایت نمبر (٤) گرزی ہے اس کی تشریح میں مولیٰ کی وضاحت کی جا چکی ہے کسی قوم کا حلیف اسی قوم میں سے ہے کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے اہل عرب میں یہ دستور تھا کہ دو شخص آپس میں قسم وحلف کے ذریعے یہ باہمی عہد و اقرار کرلیتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے رنج و راحت اور موت وحیات میں شریک رہیں گے ایک کا خون دوسرے کا خون ہوگا ایک کی صلح دوسرے کی صلح ہوگی اور ایک کی جنگ دوسرے کی جنگ ہوگی ہم میں سے کسی پر کوئی تاوان لازم ہوگا تو دوسرا ادا کرے گا اسی طرح ایک دوسرے کی میراث کے بارے میں بھی ایک دوسرا یہ اقرار کرتا تھا کہ میں تمہارا وارث ہوں گا اور تم میرے وارث ہو گے چناچہ میراث کے سلسلہ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا مگر جب قرآن کریم میں وراثت کا ایک واضح ضابطہ نازل کیا گیا اور ورثاء اور ان کے حصے میں متعین و مقرر کر دئیے گئے تو یہ پرانا دستور بھی ختم ہوگیا اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی منسوخ ہوگیا اور کسی قوم کا بھانجا اسی قوم میں سے اس کی وضاحت بھی حضرت انس ہی کی روایت نمبر (٥) کی تشریح کے تحت کی جا چکی ہے۔

【18】

ماموں اپنے بھانجے کا ذی رحم وارث ہوتا ہے

اور حضرت مقدام کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں ہر مؤمن کے حق میں خود اس سے زیادہ عزیز وخیر خواہ ہیں لہذا جو شخص اپنے ذمہ عیال یا قرض چھوڑ کر مرے تو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کے عیال کی پرورش میرے ذمہ ہے اور جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔ اور میں اس شخص کا کار ساز یعنی منتظم ہوں جس کا کوئی کار ساز نہیں چناچہ میں اس کے مال کا وارث ہوتا ہوں اور اس کے قیدی کو نجات دلاتا ہوں یعنی اس کی زندگی میں اس پر جو خون بہا لازم ہوا تھا اور وہ خون بہا ادا کرنے سے پہلے مرگیا تو اس کی وجہ سے چونکہ اس کا نفس عالم برزخ میں قیدی کیطرح سختیوں میں مبتلا ہے اس لئے میں اس کا خون بہا اپنے پاس سے ادا کر کے اسے نجات دلاتا ہوں اور ماموں اس شخص کا وارث ہوتا ہے جس کا کوئی وارث نہیں وہ میت کی میراث پاتا ہے اور اس کے قیدی کو نجات دلاتا ہے (یعنی جش شخص کے ذوی الفروض اور عصبی وارث نہیں ہوتے اس کا ماموں کہ جو اس کے ذوی الارحام میں سے ہے اس کا وارث ہوتا ہے چناچہ وہ میت کا ترکہ پاتا ہے اور اس پر جو خون بہا وغیرہ لازم تھا اس کو ادا کر کے اس کی روح کو عالم برزخ کے عذاب سے نجات دلاتا ہے) ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں اس شخص کا وارث ہوتا ہوں جس کا کوئی وارث نہیں چناچہ میں اس کی طرف سے اس کا خون بہا ادا کرتا ہوں اور اس کا وارث ہوجاتا ہوں یعنی اس کا ترکہ اپنی نگرانی میں لے کر بیت المال میں داخل کردیتا ہوں اور جس شخص کا ذوی الفروض وعصبات میں سے) کوئی وارث نہیں ہوتا تو ذوی الارحام میں سے) اس کا ماموں اس کا وارث ہوتا ہے جو اس کی طرف سے خون بہا ادا کرتا ہے اور اس کی میراث پاتا ہے ( ابوداؤد)

【19】

عورت کن تین آدمیوں کی میراث پاتی ہے

اور حضرت واثلہ بن اسقع کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت تین آدمیوں کی میراث لیتی ہے ایک تو وہ اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی دوسرے اپنے لقیط کی اور تیسرے اپنے بچے کی جس کی وجہ سے لعان ہوا ( ترمذی ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح اپنے آزاد کئے ہوئے غلام کی سے مراد یہ ہے کہ مثلًا ایک عورت نے کسی غلام کو آزاد کیا اور وہ آزاد شدہ غلام اس حالت میں مرا کہ اس کا کوئی نسبی عصبہ نہیں تھا تو جس طرح ایک مرد اس صورت میں اپنے آزاد شدہ غلام کا وارث ہوتا ہے اسی طرح یہ عورت بھی اپنے اس آزاد شدہ غلام کی میراث پائیگی۔ دوسرے اپنے لقیط کی سے مراد یہ ہے کہ مثلا کسی عورت نے کہیں راستہ میں پڑا ہوا کوئی بچہ پایا اور اسے پالا پوسا تو اب یہ عورت اس کی وارث ہوگی کہ اس لقیط کے مرنے کے بعد اس کی میراث پائیگی چناچہ حضرت اسحق بن راہویہ کا یہی مسلک ہے۔ لیکن علماء کا یہ مسلک ہے کہ ملتقط (یعنی لقیط کو اٹھانیوالا) حق ولاء نہیں رکھتا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت کسی بچہ کو اٹھا لے اور اسے پالے پوسے تو وہ اس کی وارث نہیں ہوتی کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد گرامی حدیث (لا ولاء لہا الولا ولاء العتاقۃ) کے ذریعہ لقیط کے حق ولاء کو آزاد کرنیوالے کے ساتھ مختص کیا ہے چناچہ ان علماء کے نزدیک یہ حکم کہ عورت اپنے لقیط کی وارث ہوتی ہے منسوخ ہے۔ البتہ قاضی نے اس حکم کا جو مطلب بیان کیا ہے اس کے پیش نظر اس کو منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ قاضی کہتے ہیں کہ اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ لقیط کا چھوڑا ہوا مال و اسباب بیت المال کا حق ہے ہاں جس عورت نے لقیط کو اٹھایا اور اسے پالا پوسا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں اس بات کی زیادہ مستحق اور اولی ہے کہ بیت المال کی طرف سے وہ مال جو اس لقیط نے چھوڑا ہے اس عورت پر صرف کیا جائے۔ لعان اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے یا جو بچہ پیدا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ کہے کہ یہ میرا نہیں ہے اور وہ اس کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے پر لعنت ملامت کریں اس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ باب اللعان میں آئگا لہذا جس بچہ کے پیدا ہونے میں لعان ہوا ہے اس بچہ کا نسب باپ سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ وہ بچہ اور باپ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں کیونکہ وارثت کا تعلق نسب سے ہوتا ہے جو اس صورت میں منتفی ہوتا ہے البتہ اس بچہ کا نسب چونکہ ماں سے ثابت ہوتا ہے اس لئے وہ بچہ اور ماں آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔ ولد الزنا کا بھی یہی حکم ہے

【20】

ولد الزنا کا حکم

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب اور حضرت شعیب اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کرے تو اس کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوگا وہ ولد الزنا (حرامی) کہلائے گا وہ بچہ نہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ اس کی میراث کسی کو ملے گی ( ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالا بچہ نہ تو زنا کرنے والے کا وارث ہوتا ہے اور نہ اس کے اقرباء کی کوئی میراث اسے ملتی ہے کیونکہ وراثت نسب کی وجہ سے ہوتی ہے جب کہ ولد الزنا اور زنا کرنیوالے کے درمیان نسب کا کوئی وجود نہیں ہوتا اسی طرح زنا کرنیوالا بھی اپنے ولد الزنا کا وارث نہیں ہوتا اور نہ اس کے اقرباء اس کی میراث پاتے ہیں اس کے برعکس ولد الزنا کی ماں اس کی وارث ہوتی ہے اور ولد الزنا اپنی ماں کی میراث پاتا ہے۔

【21】

آزاد شدہ غلام کی میراث

اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا ایک آزاد کیا ہوا غلام مرگیا اور اس نے کچھ مال چھوڑا لیکن نہ تو اس نے کوئی ناطے دار چھوڑا اور نہ فرزند جو اس کے ترکہ کا وارث ہوتا) چناچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کا چھوڑا ہوا مال اس کی بستی کے کسی آدمی کو دیدو (ابوداؤد ترمذی) تشریح چونکہ اس آزاد شدہ غلام نے کوئی وارث نہیں چھوڑا تھا اس لئے اس کے ترکہ کا حقدار بیت المال تھا اور بیت المال کا مصرف چونکہ فقراء اور مساکین ہوتے ہیں اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس کے مال کو اس کی بستی کے کسی محتاج و مستحق کو دیدینا مناسب سمجھا

【22】

انبیاء کسی کے وارث نہیں ہوتے

یہ بات پہلے ہوچکی ہے کہ آزاد شدہ غلام کے اگر عصبات نسبی نہیں ہوتے تو اس کا حق ولاء اس کو آزاد کرنیوالے کو پہنچتا ہے یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کے آزاد کرنیوالا اس کی میراث کا مالک بنتا ہے۔ اس قاعدہ کے مطابق جب آنحضرت ﷺ کا آزاد کردہ غلام مرگیا اور اس کا کوئی نسبی دار نہیں تھا تو اس کی میراث آنحضرت ﷺ کو ملنی چاہئے تھی لیکن انبیاء چونکہ کسی کے وارث نہیں ہوتے اور نہ کوئی شخص انبیاء کا وارث ہوتا ہے اس لئے اس آزاد شدہ غلام کی میراث آپ ﷺ نے خود نہیں لی بیت المال کے مصرف میں دیدی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء کسی کے وارث کیوں نہیں ہوتے اور ان کی میراث کسی کو کیوں نہیں ملتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) دنیا کی بےثباتی دنیا کے مال و اسباب سے بےتعلقی اور دنیا کی خواہشات سے اجتناب کی صرف تعلیم ہی نہیں دیتے تھے بلکہ اپنی تعلیم پر خود عمل بھی کرتے تھے اور دنیا داری کی کوئی چیز ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتی تھی چناچہ ان کی حقیقت شناس نظر پر چونکہ غفلت کا پردہ نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کے حقیقی مالک و متصرف ہونے کا مشاہدہ اور کامل یقین ان کو حاصل ہوتا تھا دنیا کے مال و اسباب کے مستعار ہونے اور دنیا میں انسان کی مسافرانہ حالت کا نقشہ ان کے پیش نظر رہتا تھا اس لئے انہیں نہ تو دنیا کے مال و اسباب اور یہاں کے سازوسامان سے کوئی دلچسپی ہوتی تھی اور نہ انہیں یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہمارے فلاں عزیز و رشتہ دار کا متروکہ ہمیں مل جائے اور نہ ہی اس دنیا سے رخصت ہونے کے وقت انہیں اپنے مال و اسباب کے چھوٹنے کا کوئی افسوس ہوتا تھا کیونکہ اول تو انبیاء کے پاس دنیا کا مال و اسباب ہوتا ہی کیا تھا اور جو کچھ تھوڑا بہت ہوتا بھی تھا تو اس سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی لہذا انبیاء کی اس شان کے پیش نظر قانون الٰہی نے یہ فیصلہ نافذ کیا انبیاء اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جو تھوڑا بہت سامان و اسباب چھوڑ جاتے وہ بھی کسی کی وراثت نہیں ہوگا اور نہ انبیاء اپنی زندگی میں اپنے اقرباء کی میراث سے کوئی حصہ لیں گے چناچہ آنحضرت ﷺ نے تمام انبیاء کی شان ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ نحن معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ یعنی ہم نبیوں کے مال و اسباب میں میراث جاری نہیں ہوتی ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے

【23】

جس کا کوئی بھی وارث نہ ہو اس کا ترکہ بیت المال کے مصرف میں دیدیا جائے

اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص مرگیا تو اس کی میراث نبی کریم ﷺ کے پاس لائی گئی آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا کوئی وارث تلاش کرو (یعنی پہلے تو ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی وارث ڈھونڈو اگر ان میں سے کوئی وارث نہ ملے تو) چاہے کوئی ذی رحم ہی وارث ہو چناچہ تلاش کے بعد نہ تو ذوی الفروض وعصبات میں سے کوئی وارث پایا گیا اور نہ ذی رحم اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قبیلہ خزاعہ کے کسی بڑے بوڑھے کو دیدو (ابوداؤد) اور ابوداؤد ہی کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قبیلہ خزاعہ کے کسی بوڑھے کو دیکھو ( اور اس کو یہ میراث دیدو) تشریح اس حدیث کی وضاحت بھی وہی ہے جو اوپر کی حدیث میں کی گئی ہے کہ اس شخص کا چونکہ کوئی بھی وارث نہیں تھا اس لئے اس کے ترکہ بیت المال میں داخل کیا جاتا لہذا آپ ﷺ نے یہ مناسب سمجھا کہ اس کا ترکہ اس کے قبیلہ کے کسی بڑے بوڑھے کو دیدیا جائے کیونکہ ایسا شخص بیت المال کا مصرف بھی ہے اور اس کے قبیلہ کا ایک فرد ہونے اور اپنے بڑھاپے کی وجہ سے اس کا سب سے زیادہ مستحق بھی ہے۔ میت کے قرض کی ادائیگی اس کی وصیت کی تعمیل پر مقدم ہے اور حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ ایک دین انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم اس آیت کو پڑھتے ہو (مِّنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوْصُوْنَ بِھَا اَوْ دَيْنٍ ) 4 ۔ النساء 12) جب کہ نبی کریم ﷺ نے وصیت پوری کرنے سے پہلے قرض ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ ﷺ نے یہ حکم بھی صادر فرمایا ہے کہ حقیقی بھائی وارث ہوتے ہیں نہ کہ سوتیلے بھائی (یعنی حقیقی بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے بھائیوں کو کچھ نہیں ملتا) اور یہ کہ آدمی اپنے حقیقی بھائی کا وارث ہوتا ہے نہ کہ سوتیلے بھائی کا یہ جملہ پہلے جملہ کی تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا ہے (ترمذی ابن ماجہ) اور دارمی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ بھائی جو ماں میں بھی شریک ہوں یعنی باپ اور ماں دونوں میں شریک ہوں کہ جنہیں حقیقی بھائی کہتے ہیں) وارث ہوتے ہیں نہ کہ وہ بھائی جو صرف باپ میں شریک ہوں یعنی سوتیلے بھائی آگے حدیث کے وہی الفاظ ہیں جو اوپر نقل ہوئے) تشریح حدیث میں مذکورہ آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اگر میت نے کوئی وصیت کی ہے تو اس کو پوری کرنے کے بعد اور اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد اس کے ورثاء کو اس کی میراث تقسیم کی جائے گی۔ گویا آیت کریمہ میں بظاہر وصیت کی تعمیل کو قرض کی ادائیگی پر مقدم کیا گیا ہے جب کہ آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ وصیت کی تعمیل سے پہلے قرض ادا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ چناچہ اسی بارے میں حضرت علی نے لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ آیت پڑھتے ہو کیا اس کی مراد بھی سمجھتے ہو یا نہیں ؟ گویا اس طرح حضرت علی نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ یہ نہ سمجھ لینا کہ قرآن کریم کی اس آیت اور آنحضرت ﷺ کے فعل میں کوئی تضاد نظر آتا ہے۔ یا یہ کہ آیت کریمہ میں چونکہ وصیت کو مقدم کیا گیا ہے اس لئے وصیت کی تعمیل قرض کی ادائیگی پر مقدم ہے بلکہ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آیت میں الفاظ کے اعتبار سے قرض کی ادائیگی کو اگرچہ بعد میں ذکر کیا گیا ہے لیکن حقیقت اور حکم کے اعتبار سے یہی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے حکم کے ذریہ اس کو واضح کردیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ پھر آیت کریمہ میں وصیت کا ذکر پہلے کیوں ہے ؟ تو اس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ میت کی وصیت کی تعمیل چونکہ گراں گزر سکتی ہے اور اس میں کوتاہی ہوسکتی ہے اس لئے وصیت کے ذکر کو مقدم کر کے یہ آگاہی دی گئی ہے کہ میت کی تعمیل کو آسان اور غیر ضروری نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک اہم اور ضروری چیز سمجھ کر پورا کیا جائے

【24】

آیت میراث کا شان نزول

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد بن ربیع کی زوجہ اپنی دونوں بیٹیوں کو جو حضرت سعد بن ربیع سے تھیں لے کر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ یہ دونوں بیٹیاں سعد بن ربیع کی ہیں ان کا باپ جو غزوہ احد کے دن آپ کے ہمراہ تھا میدان جنگ میں شہید ہوگیا اور ان کا مال ان کے چچا نے لے لیا ہے (یعنی ان کے باپ کا جو ترکہ ان لڑکیوں کو پہنچتا وہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق سعد کے بھائی نے لے لیا ہے) اور ان کے لئے کچھ بھی مال نہیں چھوڑا ہے اب تاوقتیکہ ان کے پاس مال نہ ہو ان سے کوئی نکاح کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کچھ دنوں کے لئے صبر کرو) ان لڑکیوں کے معاملہ کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرے گا (یعنی ان کے بارے میں جب کوئی وحی نازل ہوگی تو فیصلہ ہوگا) چناچہ کچھ دنوں کے بعد آیت میراث یعنی (يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ الخ) 4 ۔ النساء 11) نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے کسی کو ان لڑکیوں کے چچا کے پاس بھیجا اور بلا کر کہا کہ سعد کی بیٹیوں کو سعد کے ترکہ میں سے دو تہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دیدو اور جو کچھ باقی بچے وہ تمہارا ہے (احمد ترمذی ابوداؤد ابن ماجہ) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے) تشریح آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے اور اسلام کا اجالا پھیلنے سے پہلے زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ میت کا ترکہ صرف وہی مرد لیتے تھے جو پورے مرد جوان اور میدان جنگ میں جانے کے قابل ہوں عورتوں، بچوں، ضعیفوں کو میراث نہیں ملتی تھی، مفلس و بےکس بیوہ، معصوم و یتیم بچے اور قابل رحم لڑکیاں روتی چلاتی رہ جائیں مگر ان کی پرواہ کئے بغیر جوان اور قوی و مال دار چچا اور بھائی آتے اور میت کا سب مال لے جاتے۔ ظلم وستم کا یہ طریقہ رائج تھا کہ آنحضرت ﷺ بیواؤں، یتیموں، مسکینوں لڑکیوں اور لا چاروں کے ماواؤ وملجا اور ان کے ہمدرد وغمسار بن کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اسلام کا نور ہر ظلم ہر ستم ہر برائی اور ہر ناانصافی کے اندھیرے کو مٹاتا رہا یہاں تک کہ میراث کے معاملہ میں میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافی کو ختم کرنے کا وقت بھی آپہنچا چناچہ عورتوں کے حق میں اس صریح ظلم کے خاتمہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ایک صحابی حضرت اوس ابن ثابت انصاری کا انتقال ہوا انہوں نے پسماندگان میں ایک زوجہ ام کمحہ اور تین لڑکیاں چھوڑیں (بعض روایات میں یہ ہے کہ دو بیٹیاں اور ایک چھوٹا لڑکا تھا) حضرت اوس نے اپنے مال و اسباب کا جن دو آدمیوں کو کار پرداز اور وصی بنایا تھا انہوں نے زمانہ جاہلیت کے رائج طریقے کے مطابق اوس کا کل مال ان کے چچا زاد بھائی ( یا بعض روایات کے مطابق ان کے دو حقیقی بھائیوں) خالد اور عرفطہ کو دیدیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اوس کی بےکس بیوہ اور ان کی معصوم بچیاں ؟ روتی رہ گئیں مگر انہیں کچھ نہ ملا ظاہر ہے کہ ایسے بےکس و لاچار اور غریب مسلمانوں کا ہمدرد و مددگار اور چارہ گر رحمت دو عالم ﷺ کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا وہ پریشان حال اور گھبرائی ہوئی دربار رسالت میں دوڑی آئیں اور عرض کیا کہ شوہر کے کار پردازوں نے نہ مجھ کو کچھ دیا نہ میری بیٹیوں کو جو کچھ تھا خالد اور عرفطہ کو دے کر یکسو ہوگئے، اب ہمارا کیا ہوگا یہ حال زار سن کر آپ ﷺ کو بہت افسوس ہوا مگر فوری طور پر آپ ﷺ کچھ نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ آپ ﷺ خود مختار حاکم اور اللہ کی خدائی میں شریک تو تھے نہیں اس لئے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کیسے فرما سکتے تھے، تاہم آپ ﷺ نے اوس کی زوجہ کو تسلی دے کر فرمایا کہ اب تو اپنے گھر لوٹ جاؤ اور اس معاملہ میں جب تک اللہ کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر ہو انتظار اور صبر کرو، چناچہ آپ ﷺ احکم الحاکمین کے حکم و فیصلہ کے انتظار میں تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ (لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَا ءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا) (4 ۔ النساء 7) (مردوں کے لئے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں خواہ وہ چیز قلیل ہو یا کثیر ہو حصہ قطعی ہے) اس آیت کے نازل ہونے سے یہ معلوم ہوگیا کہ میراث کے معاملہ میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ آج تک جو ناانصافی ہو رہی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے اور ترکہ و میراث میں صرف مردوں ہی کا حق نہیں ہے بلکہ عورتوں کا بھی حق ہے، لیکن بہرحال آیت مجمل تھی کہ اس میں صرف عورتوں کا حق ثابت کیا گیا تھا۔ ابھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ترکہ میں مردوں کا کیا حصہ ہے اور عورتوں کو کتنا حصہ ملے گا۔ اسی لئے اس حکم الٰہی کے نزول کے بعد آپ ﷺ نے اوس کے کارپردازوں کے پاس کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ نے میراث میں عورتوں کا بھی حق مقرر فرما دیا ہے لیکن ابھی تک مقدار اور حصہ مقرر نہیں فرمایا اس لئے تم اوس کے مال کو حفاظت سے رکھنا اس میں سے ایک حبہ بھی خرچ نہ کرنا عنقریب ہی کوئی ایسا حکم نازل ہونیوالا ہے جس میں حصوں کا تعین کیا جائے گا چناچہ اس قصہ کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ واقعہ پیش آیا جو مذکورہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ قبیلہ خزرج کے ایک جلیل القدر انصاری صحابی حضرت سعد بن ربیع ٣ ھ میں احد کی مشہور لڑائی میں بارے زخم کھا کر شہید ہوگئے ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی نے زمانہ جاہلیت کے رائج دستور کے مطابق حضرت سعد کے کل مال پر قبضہ کرلیا اور زوجہ اور دونوں بیٹیاں محروم رہ گئیں اس طرح حضرت سعد کی زوجہ اور دربار رسالت میں حاضر ہوئیں اور اس ناانصافی کے خلاف مرافعہ پیش کیا، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کچھ دن صبر کرو اللہ تعالیٰ عنقریب آخری اور قطعی فیصلہ صادر فرمانیوالا ہے چناچہ کچھ دنوں کے بعد یہ آیت میراث نازل ہوئی۔ (یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین) (آخری رکوع تک النساء ٤ ١١) (یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہے) اس آخری فیصلہ کے بعد جب تمام ورثاء کے حصوں کا تعین ہوگیا تو آپ ﷺ نے سعد بن ربیع کے بھائی کے پاس کہلا بھیجا کہ حکم الٰہی کے پیش نظر اپنے بھائی کے ترکہ میں سے دو تہائی لڑکیوں کو دیدو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو اس کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ تم لے لو۔ یعنی سعد نے جو کچھ چھوڑا ہے پہلے اس کے چوبیس حصے کرلو پھر ان چوبیس حصوں میں سے آٹھ آٹھ حصے دونوں لڑکیوں کو دو تین حصے ان کی ماں کو دو اور باقی پانچ حصے تم لے لو اس طرح اس تقسیم کو یوں ظاہر کریں گے۔

【25】

بیٹی پوتی اور بہن کے حصے

اور حضرت ہزیل بن شرحبیل تابعی کہتے ہیں کہ حضرت ابوموسی صحابی سے یہ سوال کیا گیا کہ مثلا زید مرگیا اور اس کے وارثوں میں ایک بیٹی ایک پوتی اور ایک بہن ہے تو زید کی میراث کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا حضرت ابوموسی نے جواب دیا کہ زید کا ترکہ آدھا بیٹی کو اور آدھا بہن کو ملے گا پوتی محروم رہے گی پھر حضرت ابوموسی نے سوال کرنیوالے سے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس جاؤ اور ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھو وہ بھی میرے اس جواب سے اتفاق کریں گے ( یعنی اس مسئلہ کا جو جواب میں نے دیا ہے یہی جواب وہ بھی دیں گے) چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی یہ مسئلہ پوچھا گیا اور اس کا جو جواب حضرت ابوموسی نے دیا تھا وہ بھی انہیں بتایا گیا حضرت عبداللہ بن مسعود نے (مسئلہ اور حضرت ابوموسی کا جواب سن کر) کہا کہ ایسی صورت میں (یعنی ابوموسی نے جو فتوی دیا ہے وہی فتوی اگر میں بھی دوں تو) میں گمراہ سمجھا جاؤں گا اور اپنے کو راہ ہدایت پر نہ پاؤں گا لہذا اس مسئلہ میں، میں وہی فیصلہ دوں گا جو رسول کریم ﷺ کے حکم کے مطابق ہے اور وہ یہ ہے کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور دو تہائی پورا کرنے کے لئے پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا ( یعنی میت کے ترکہ میں سے دو یا دو سے زائد بیٹیوں کو تہائی ملتا ہے اب چونکہ بیٹی ایک ہے اور اس کو آدھا حصہ ملا ہے تو پوتی کو چھٹا حصہ دے کردو تہائی پورا کردیا جائے گا اور جو کچھ باقی بچے (یعنی ایک تہائی) وہ بہن کا ہے یعنی اس حدیث بیٹوں کی موجودگی میں بہن کو عصبہ قرار دو کے مطابق بہن عصبہ ہو کر باقی ماندہ ترکہ لے لے گی چناچہ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے) راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا یہ جواب سن کر ہم حضرت ابوموسی کے پاس آئے اور انہیں حضرت ابن مسعود کے جواب سے آگاہ کیا حضرت ابوموسی نے فرمایا کہ مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے کیونکہ ابن مسعود نے جو فتوی دیا ہے وہی صحیح اور حق ہے لہذا جب تک تمہارے درمیان یہ عالم (ابن مسعود) موجود ہیں مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھا کرو (بخاری) تشریح حضرت عبداللہ بن مسعود کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ میت کے کل ترکہ کے چھ حصے کر کے اس طرح تقسیم کرو کہ یعنی لڑکی کو تین حصے پوتی کو ایک حصہ اور بہن کو دو حصے دو ۔

【26】

دادا کا حصہ

اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا پوتا مرگیا ہے اس کے ترکہ میں سے مجھے کتنا ملے گا آپ ﷺ نے فرمایا چھٹا حصہ جب وہ یہ جواب سن کر) واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ تمہیں چھٹا حصہ اور ملے گا پھر جب وہ واپس ہوا تو آپ ﷺ نے بلایا اور کہا کہ یہ آخر کا چھٹا حصہ تمہارا رزق ہے (احمد ترمذی ابوداؤد) اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تشریح یہ آخر کا چھٹا حصہ تمہارا رزق ہے کا مطلب یہ ہے کہ پہلا چھٹاحصہ تو تمہارے ذی فرض ہونے کی وجہ سے تمہیں ملا اور یہ دوسرا چھٹا تمہارے عصبہ ہونے کی حیثیت سے تمہیں ملا ہے اس طرح اس شخص کو گویا کل ترکہ میں سے تہائی ملا مگر آپ ﷺ نے یکبارگی اسے تہائی نہیں دیا تاکہ وہ یہ گمان نہ کرلے کہ پوتے کے ترکہ میں سے دادا کا حصہ ذی فرض ہونے کی حیثیت سے تہائی ہی ہوتا ہے۔ یہ تو حدیث کی وضاحت تھی اب مسئلہ کی نوعیت سمجھئے جو یہ تھی کہ ایک شخص کا انتقال ہوا جس کے وارثوں میں دو بیٹیاں تھیں اور ایک یہ سال یعنی دادا تھا چناچہ میت کے ترکہ میں سے اس کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی ملا باقی ایک تہائی میں سے آدھا یعنی کل ترکہ کا چھٹا حصہ تو دادا کو ذی فرض ہونے کی حیثیت سے ملا اور جو آدھا یعنی کل ترکہ کا چھٹا بچا وہ بھی دادا ہی کو عصبہ ہو نیکی وجہ سے مل گیا گویا ترکہ کی تقسیم یوں ہوئی۔

【27】

جدہ کا حصہ

اور حضرت قبصہ بن ذویب کہتے ہیں کہ ایک متوفی شخص کی جدہ حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے اپنی میراث دلوائے جانے کا مطالبہ کیا حضرت ابوبکر نے اس سے فرمایا کہ کتاب اللہ میں تمہارے لئے کوئی حصہ مقرر نہیں ہے اور نہ سنت رسول اللہ ﷺ میں تمہارے لئے کوئی حصہ مقرر کیا گیا ہے ( یعنی علماء صحابہ سے) پوچھوں گا ( شاید ان میں سے کسی کو جدہ کے حصہ کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا کوئی ارشاد معلوم ہوا) چناچہ حضرت ابوبکر نے لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں ایک دن رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے جدہ کو چھٹا حصہ دلوایا حضرت ابوبکر نے حضرت مغیرہ سے کہا کہ تمہارے علاوہ کوئی اور شخص بھی تمہارے ساتھ تھا ؟ یعنی حضرت ابوبکر نے بطور احتیاط ان سے پوچھا کہ تمہارے علاوہ کسی اور شخص نے بھی رسول کریم ﷺ سے یہ حکم سنا یا دیکھا ہے) چناچہ ایک اور صحابی حضرت محمد بن مسلمہ نے حضرت مغیرہ کے قول کی تائید کی یعنی انہوں نے وہی کہا جو حضرت مغیرہ نے کہا تھا کہ حضرت ابوبکر کو جب اطمینان ہوگیا کہ میت کے ترکہ میں سے جدہ کا بھی حصہ ہے تو انہوں نے اس جدہ کو میت کے ترکہ میں سے چھٹا حصہ دیئے جانے کا فیصلہ کردیا۔ پھر دوسری جدہ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے ان سے اپنی میراث دلوائے جانے کا مطالبہ کیا حضرت عمر نے کہا وہی چھٹا حصہ تمہارے لئے بھی ہے اگر تم دو ہو تو وہ چھٹا حصہ تم دونوں کے درمیان مشترک ہے اور اگر تم میں سے کوئی ایک ہے تو وہ چھٹا حصہ اس ایک کے لئے ہوگا۔ (مالک احمد ترمذی ابوداؤد دارمی ابن ماجہ) تشریح جدہ دادی کو بھی کہتے ہیں اور نانی کو بھی کہتے ہیں چناچہ حضرت ابوبکر کی خدمت میں جو عورت آئی تھی وہ تو میت کی نانی تھی اور حضرت عمر کی خدمت میں جو عورت آئی تھی وہ اس میت کی دادی تھی جیسا کہ ایک اور روایت میں یہ وضاحت موجود ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں جدہ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے خواہ ایک ہو یا کئی ہوں، اگر ایک جدہ ہوگی تو وہ اس چھٹے حصہ کی تنہا مالک ہوگی اور اگر کئی ہوں گی تو اس چھٹے حصہ کو سب آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیں گی چناچہ حضرت ابوبکر نے وہ چھٹا حصہ تنہا ایک جدہ یعنی نانی کو دیئے جانے کا حکم دیا کیونکہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ میت کی دوسری جدہ یعنی دادی بھی موجود ہے لیکن حضرت عمر کو جب یہ معلوم ہوا کہ میت کی دوسری جدہ بھی ہے تو انہوں نے یہ حکم دیا کہ اس چھٹے حصہ میں دونوں جدہ شریک ہوں۔

【28】

باپ کی موجودگی میں دادی کو چھٹا صہ دلوائے جانے کا ایک خاص واقعہ

اور حضرت ابن مسعود (رض) مروی ہے کہ انہوں نے اس جدہ کے بارے میں جس کا بیٹا موجود ہو یہ کہا کہ میراث دلوائی جانے والی وہ پہلی جدہ تھی جسے رسول کریم ﷺ نے اس کے بیٹے کی موجودگی میں اسے چھٹا حصہ دلوایا تھا اور اس کا بیٹا زندہ تھا (ترمذی دارمی) اور امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ تشریح صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص دادی اور باپ چھوڑ کر مرا تو آنحضرت ﷺ نے اس کے ترکہ میں سے دادی کو چھٹا حصہ دلوایا باوجودیکہ اس کا بیٹا یعنی میت کا باپ موجود تھا۔ حالانکہ علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر میت کا باپ موجود ہو تو اس کے ترکہ میں سے دادی کو کچھ نہیں ملتا گویا دادی اپنے بیٹے یعنی میت کے باپ کی موجودگی میں پوتے کے ترکہ سے محروم رہتی ہے مذکورہ بالا حدیث پر علماء نے اس لئے عمل نہیں کیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے جس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا دلیل کے طور پر صحیح حدیث ہی اختیار کی جاسکتی ہے یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک خاص صورت تھی جس میں آپ نے جدہ کو اس کے بیٹے یعنی میت کے باپ کی موجودگی میں تبرعًا یعنی ازارہ احسان حصہ دلوایا تھا بطریق میراث نہیں دلوایا تھا

【29】

خون بہا کا مال مقتول ورثاء کو ملتا ہے

اور حضرت ضحاک بن سفیان سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں لکھا کہ اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے خاوند کے خون بہا میں سے میراث دی جائے امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ( ترمذی ابواداؤد) تشریح اشیم ضبابی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قتل کر دئے گئے تھے لیکن یہ قتل قصدًا نہیں ہوا تھا بلکہ خطاء ہوا تھا چناچہ جس شخص کی خطاء اور غلطی سے وہ قتل ہوگئے تھے اس پر خون بہا واجب ہوا اور جب اس نے خون بہا ادا کیا تو آپ ﷺ نے ضحاک کو لکھا کہ مقتول یعنی اشیم ضبابی کے خون بہا کے طور پر جو مال حاصل ہوا ہے اس میں سے اس کی بیوی کو میراث دیدی جائے۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بابت کی دلیل ہے کہ دیت پہلے تو مقتول کے لئے واجب ہوتی ہے پھر اس دیت میں حاصل ہونیوالا مال مقتول کی دوسری املاک کی طرح اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتا ہے چناچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے۔ منقول ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے کہ عورت اپنے خاوند کی دیت میں حاصل ہونیوالے مال کی وارث نہیں ہوتی چناچہ حضرت ضحاک نے ان کے سامنے یہ حدیث بیان کی اور یہ ثابت کیا کہ خاوند کی دیت میں حاصل ہونیوالے مال میں سے اس کی بیوی کو میراث ملتی ہے۔

【30】

موالی آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے

اور حضرت تمیم داری کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ اس مشرک کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لایا ہو یعنی وہ مسلمان اس نو مسلم کا مولیٰ ہوتا ہے یا نہیں ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کے ہاتھ پر وہ مشرک اسلام لایا ہے اس کی زندگی میں اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے اور مرنے کے بعد بھی سب سے زیادہ حقدار وہی ہے یعنی وہ مسلمان اس نو مسلم کا مولیٰ ہے ( ترمذی ابن ماجہ دارمی) تشریح حضرت تمیم داری ایک جلیل القدر اور مشہور صحابی ہیں یہ پہلے عیسائی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت بخشی اور ٩ ھ میں مشرف باسلام ہوئے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی زندگی خوف اللہ اور عبادت گزاری سے اس قدر معمور ہوئی کہ شب بیداری جیسے عظیم وصف میں امتیازی حیثیت کے مالک ہوئے رات میں ایک رکعت میں پورا قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردیتے اتفاق سے ایک رات تہجد کی نماز نہ پڑھ سکے تو اپنے نفس کو اس کی اس طرح سزا دی کہ پورے ایک برس تک مسلسل سوئے نہیں حضرت تمیم داری کو ایک تاریخی امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مسجد میں چراغ روشن کیا ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہے تو وہ مسلمان اس نو مسلم کا مولیٰ ہوجاتا ہے چناچہ ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا کہ موالی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ وہ سب سے زیادہ حقدار ہے کی مراد یہ ہے کہ مسلمان کرنیوالے پر یہ حق سب سے زیادہ ہے کہ وہ اس نو مسلم کی زندگی میں تو اس کی اعانت و خیرخواہی کرے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی نماز جنازہ پڑھے۔

【31】

آزاد شدہ غلم اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث ہوتا ہے یا نہیں؟

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ ایک شخص مرگیا جس نے اپنے ایک غلام کے علاوہ کہ جسے وہ آزاد کرچکا تھا اور کوئی وارث نہیں چھوڑا چناچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا اس کا کوئی وارث ہے یا نہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کوئی وارث نہیں ہے البتہ ایک غلام ہے جسے اس نے آزاد کیا تھا آنحضرت ﷺ نے اس میت کی میراث اس کے آزاد کردہ غلام ہی کو دلوا دی۔ تشریح چونکہ آزاد شدہ غلام اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث نہیں ہوتا اس لئے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس آزاد شدہ غلام کو اس کے آزاد کرنیوالے کی میراث ازراہ تبرع (احسان کے طور پر) دلوائی تھی جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث نمبر ١٤ میں گزرا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک لاوارث میت کی میراث کے بارے میں فرمایا کہ اس کی میراث اس کی بستی کے کسی شخص کو دیدو چناچہ اس موقع پر جو وضاحت کی گئی تھی وہی وضاحت یہاں بھی ہے۔ حضرت شریح اور حضرت طاؤس نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ جس طرح آزاد کرنیوالا اپنے آزاد کردہ غلام کا وارث ہوتا ہے اسی طرح آزاد شدہ غلام بھی اپنے آزاد کرنیوالے کا وارث ہوسکتا ہے۔

【32】

ولاء کی وراثت کا مسئلہ

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مال کا وارث ہوتا ہے وہ ولاء کا بھی وارث ہوتا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہے۔ تشریح آزاد شدہ غلام کے مال کو ولاء کہتے ہیں لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص مثلا زید کا باپ مرگیا پھر اس کے بعد اس کے باپ کا آزاد کردہ غلام یا اس کے باپ کا آزاد کردہ غلام مرا تو اب یہ شخص یعنی زید اس کے مال کا وارث ہوگا کیونکہ جس طرح یہ اپنے باپ کی دیگر املاک کا وارث ہوتا ہے اسی طرح اپنے باپ کے ولاء کا بھی وارث ہے لیکن یہ حکم صرف عصبہ کے ساتھ مخصوص ہے یعنی جو عصبہ وارث مثلا بیٹا بنفسہ ہونے کی حیثیت سے میت کے مال کا وارث ہوتا ہے وہی عصبہ ولاء کا وارث ہوگا لہذا آزاد کرنیوالے کی بیٹی اپنے باپ کے ولاء کی وارث نہیں ہوگی کیونکہ اگرچہ وہ اپنے باپ کے مال کی وارث ہوتی ہے مگر عصبہ نہیں ہوتی بلکہ عصبہ بنفسہ تو صرف مرد ہوتے ہیں عورتیں عصبہ بنفسہ نہیں ہوتیں ہاں عورت ایسے آزاد شدہ غلام کے مال کی تو وارث ہوتی ہے جسے اس نے خود آزاد کیا ہو یا اس کو اس کے آزاد کردہ غلام نے آزاد کیا ہو۔

【33】

اسلام لانے سے پہلے جو میراث تقسیم ہوچکی ہے اسلام لانے کے بعد اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوگی

حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو میراث زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوچکی ہے وہ زمانہ جاہلیت ہی کی تقسیم کے مطابق رہے گی اور جس میراث نے اسلام کا زمانہ پایا وہ اسلام ہی کے مطابق تقسیم ہوگی ( ابن ماجہ) تشریح اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو میراث زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوچکی ہے اب اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوگی جس کو جتنا مل چکا ہے وہ اتنے ہی کا مالک رہے گا اگر اس زمانہ میں کسی کے پاس زیادہ چلا گیا ہے تو اب اس کی واپسی ضروری نہیں ہے اور اگر کسی کو کم حصہ ملا ہے تو اسے باقی کے مطابق کا حق پہنچتا ہے ہاں اسلام لانے کے بعد جو بھی میراث تقسیم ہوگی اسلامی احکام و قواعد کے مطابق ہی تقسیم ہوگی۔

【34】

پھوپھیوں کے وارث نہ ہونے کے بارے میں حضرت عمرکا تعجب

اور حضرت محمد بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے سنا جو اکثریہ کہا کرتے تھے کہ حضرت عمر فاروق فرماتے تھے کہ پھوپھی کے بارے میں تعجب ہے کہ اس کا بھتیجا تو اس کا وارث ہوجاتا ہے مگر وہ اپنے بھتیجے کی وارث نہیں ہوتی ( مالک) تشریح حضرت عمر کا یہ تعجب محض عقل و قیاس کی بنیاد پر ہے ورنہ اگر بجاآوری حکم کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے یا یہ بات پیش نظر ہو کہ اس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تو تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی شخص کی پھوپھی مرجائے تو وہ اپنی پھوپھی کا وارث ہوسکتا ہے اس کے برعکس اگر وہ شخص مرجائے تو اس کی پھوپھی اس کی وارث نہیں ہوسکتی چناچہ حدیث کا یہ مفہوم اور حضرت عمر کا یہ تعجب ان علماء کے مسلک کے مطابق ہے جن کے نزدیک ذوی الارحام میت کے وارث نہیں ہوتے جب کہ پھوپھی ذوی الارحام میں سے ہونے کی وجہ سے ان علماء کے نزدیک اپنے بھتیجے کی وارث ہوسکتی ہے جو ذوی الارحام کو علم فرائض میں مذکورہ تفصیل کے مطابق میت کا وارث قرار دیتے ہیں۔

【35】

فرائض کا علم سیکھنے کا حکم

اور حضرت عمر فاروق سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ فرائض کے احکام و مسائل سیکھو نیز حضرت بن مسعود نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے طلاق اور حج کے احکام و مسائل بھی سیکھو انہوں نے کہا کہ اس کا سیکھنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ علم تمہاری دینی ضروریات میں سے ہے ( دارمی)