91. وصیتوں کا بیان

【1】

وصیتوں کا بیان

وصایا وصیت کی جمع ہے خطایا خطیۃ کی جمع ہے وصیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے وارثوں سے یہ کہہ جائے کہ میرے مرنے کے بعد یہ فلاں فلاں کام کرنا مثلا میری طرف سے مسجد بنوا دینا، کنواں بنوا دینا، یا مدرسہ اور خانقاہ وغیرہ میں اتنا روپیہ دیدینا یا فلاں شخص کو اتنا روپیہ یا مال دے دینا یا فقراء و مساکین کو طعام وغلہ یا کپڑے تقسیم کردینا وغیرہ وغیرہ اور یا جو فرائض و واجبات مثلًا نماز اور زکوٰۃ وغیرہ اس کی غفلت کی وجہ سے قضاء ہوگئے تھے ان کے بارے میں اپنے ورثاء سے کہے کہ یہ ادا کردینا یا ان کا کفارہ دے دینا اسی طرح بعض مواقع پر وصیت نصیحت کے معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ علماء ظواہر ( یعنی وہ علماء جو بہرصورت قرآن و حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہیں) کے نزدیک وصیت کرنا واجب ہے جبکہ دوسرے تمام علماء کے ہاں پہلے تو وصیت واجب تھی یعنی اپنے اختیار سے والدین اور رشتہ داروں کے لئے اپنے مال و اسباب میں سے حصے مقرر کرنا جانا ہر مال دار پر واجب تھا لیکن جب آیت میراث نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمام حصے متعین ومقرر فرما دئے تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اسی لئے وارث کے لئے وصیت کرنا درست نہیں ہے البتہ آیت میراث کے بعد بھی تہائی مال میں وصیت کرنے کا اختیار باقی رکھا گیا تاکہ اگر کوئی شخص اپنے آخری وقت میں فی سبیل اللہ مال خرچ کر کے اپنی عمر بھی کی تقصیرات مثلا بخل وغیرہ کا کفارہ اور مکافات کرنا چاہے تو یہ سعادت حاصل کرلے یا اگر اپنے کسی دوست یا دور کے رشتہ دار یا خادم وغیرہ کو کچھ دینا چاہے تو اس تہائی میں سے دیکر اپنا دل خوش کرلے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص پر کوئی قرض وغیرہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی ادائیگی و واپسی کی وصیت کر جائے اور اس بارے میں ایک وصیت نامہ لکھ کر اس پر گواہیاں کرا لے۔

【2】

وصیت نامہ لکھ رکھنے کا حکم

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس مسلمان مرد کے مال یا آپسی تعلقات کے معاملے میں کوئی بات وصیت کے قابل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں بھی وصیت لکھ رکھے بغیر نہ گزارے (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا کوئی حق ہو یا لوگوں کا کوئی معاملہ اس کے سپرد ہو تو اسے چاہئے کہ وہ دو راتیں گزرنے سے پہلے وصیت نامہ لکھ کر رکھ لے دو راتوں سے مراد عرصہ قلیل ہے یعنی کم سے کم عرصہ بھی ایسا نہ گزرنا چاہئے کہ جس میں وصیت نامہ لکھا ہوا نہ رکھا ہو کیونکہ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، نہ معلوم کس لمحہ زندگی کا سلسلہ منقطع ہوجائے اور وصیت نامہ کی عدم موجودگی میں ورثاء کے لا علم ہو نیکی وجہ سے حق تلفی کا وبال اس دنیا سے اس کے ساتھ جائے۔ علماء ظواہر اسی حدیث کے پیش نظر وصیت کے واجب ہونے کے قائل ہیں حالانکہ یہ حدیث عمومی طور پر وصیت کے واجب ہونے پر دلالت نہیں کرتی البتہ اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص پر کسی کا قرض ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس قرض یا امانت کے بارے میں وصیت کر جائے۔ علماء لکھتے ہیں کہ جس معاملہ میں یعنی قرض اور امانت وغیرہ کے سلسلہ میں وصیت کرنا لازم ہو اس کا وصیت نامہ جلد سے جلد مرتب کرلینا مستحب ہے نیز یہ ضروری ہے کہ وصیت نامہ لکھ کر اس وصیت نامہ پر دو اشخاص کی گواہیاں ثبت کرا دی جائیں۔

【3】

اپنے ترکہ کے تہائی حصہ میں وصیت کی جاسکتی ہے

اور سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال اتنا سخت بیمار ہوا کہ موت کے کنارہ پر پہنچ گیا چناچہ جب رسول کریم ﷺ میری عیادت کے لئے میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس بہت مال ہے مگر ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے تو کیا میں اپنے سارے مال کے بارے میں وصیت کر جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں پھر میں نے عرض کیا کہ کیا دو تہائی مال کے بارے میں وصیت کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا نصف کے لئے فرمایا نہیں، میں نے پوچھا کہ ایک تہائی کے لئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے اور یاد رکھو اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار وخوش حال چھوڑ جاؤ گے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں جان لو تم اپنے مال کا جو بھی حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے جذبہ سے خرچ کرو گے تو تمہیں اس کے خرچ کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تمہیں اس لقمہ کا بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ تک لے جاؤ گے ( بخاری ومسلم) تشریح میرا کوئی وارث نہیں ہے سے حضرت سعد کی مراد یہ تھی کہ ذوی الفروض سے میرا کوئی وارث نہیں ہے یا یہ کہ ایسے وارثوں میں سے کہ جن کے بارے میں مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میرا مال ضائع کردیں گے علاوہ ایک بیٹی کے اور کوئی وارث نہیں ہے، حضرت سعد کے اس جملہ کی یہ تاویل اس لئے کی گئی ہے کہ حضرت سعد کے کئی عصبی وارث تھے۔ یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ مال جمع کرنا مباح ہے وہیں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وارثوں کے حق میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس میت کے وارث موجود ہوں تو اس کی وصیت اس کے تہائی مال سے زائد میں جاری نہیں ہوتی، البتہ اگر وہ ورثاء اپنی اجازت و خوشی سے چاہیں تو ایک تہائی سے زائد میں بھی بلکہ سارے ہی مال میں وصیت جاری ہوسکتی ہے بشرطیکہ سب وارث عاقل و بالغ اور موجود ہوں اور جس میت کا کوئی وارث نہ ہو تو اس صورت میں بھی اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ اس کی وصیت بھی ایک تہائی سے زائد میں جاری نہیں ہوسکتی۔ البتہ حضرت امام اعظم اور ان کے متبعین علماء اس صورت میں ایک تہائی سے زائد میں بھی وصیت جاری کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں نیز حضرت امام احمد اور حضرت اسحق کا بھی یہی قول ہے۔ اس حدیث میں اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان کے حق میں ہمیشہ خیر خواہی کا جذبہ رکھا جائے اور وارثوں کے تئیں شفقت و محبت ہی کے طریقے کو اختیار کیا جائے علاوہ ازیں اس حدیث سے اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ اپنا مال غیروں کو دینے سے افضل یہ ہے کہ اس کو اپنے قرابتداروں پر خرچ کیا جائے دوم یہ کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی طلب پیش نظر ہو اور سوم یہ کہ اگر کسی مباح کام میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی نیت کرلی جائے تو وہ مباح کام بھی طاعت و عبادت بن جاتا ہے چناچہ بیوی اگرچہ جسمانی و دنیوی لذت و راحت کا ذریعہ ہے اور خوشی ومسرت کے وقت اس کے منہ میں نوالہ دینا محض ایک خوش طبعی ہے جس کا طاعت و عبادت اور امور آخرت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے یہ بتایا کہ اگر بیوی کے منہ میں نوالہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی طلب کی نیت ہو تو اس میں ثواب ملتا ہے لہذا اس کے علاوہ دوسری حالتوں میں تو بطریق اولی ثواب ملے گا۔ الفصل الثانی حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو رسول کریم ﷺ مجھے پوچھنے آئے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کتنے مال کی وصیت کا تم نے ارادہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنے کا ارادہ کرلیا ہے آپ نے فرمایا اولاد کے لئے کیا چھوڑا میں نے عرض کیا کہ وہ خود مال دارخوشحال ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وصیت کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے مال کے دسویں حصہ کے بارے میں وصیت کردو حضرت سعد کہتے ہیں کہ جب میں آپ ﷺ کی بتائی ہوئی اس مقدار کو بار بار کم کہتا رہا تو میرے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ اچھا تہائی مال کے بارے میں وصیت کردو اگرچہ یہ تہائی بھی بہت ہے ( ترمذی)

【4】

وارث کے حق میں وصیت درست نہیں

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیدیا ہے لہذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے ( ابوداؤد، ابن ماجہ) اور امام ترمذی نے یہ مزید نقل کیا ہے کہ بچہ صاحب فراش کیلئے ہے اور زنا کرنیوالے کے لئے پتھر ہے، نیز ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور حضرت ابن عباس نے نبی کریم ﷺ سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا) کہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے مگر جب کہ وارث چاہیں، یہ حدیث منقطع ہے اور یہ مصابیح کے الفاظ ہیں۔ اور دارقطنی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہوتی مگر جب کہ وارث چاہیں۔ تشریح اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ورثاء کے لئے حصے متعین ومقرر فرما دیئے ہیں خواہ وہ کسی وارث کے حق میں یہ وصیت کر بھی جائے کہ اسے دوسرے وارثوں سے اتنا زیادہ حصہ دیا جائے تو شرعی طور پر اس کا کچھ اعتبار نہیں ہاں اگر تمام ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور وہ برضاء ورغبت کسی وارث کو میت کی وصیت کے مطابق اس کے حصے سے زیادہ دیدیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں آیت میراث نازل ہونے سے پہلے اپنے اقرباء کے حق میں وصیت کر جانا واجب تھا مگر جب آیت میراث نازل ہوئی اور تمام ورثاء کے حصے متعین و مقرر ہوگئے تو وصیت کا واجب ہونا منسوخ ہوگیا۔ فراض ویسے تو عورت کو کہتے ہیں لیکن یہاں (الولد للفراش) میں فراش سے مراد صاحب فراش یعنی عورت کا مالک ہے۔ حدیث گرامی کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور اس کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوجائے تو اس بچہ کا نسب زنا کرنے والے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ وہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے خواہ وہ صاحب فراش زنا کرانے والی عورت کا خاوند ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں) اس کا آقا ہو اور یا وہ شخص جس نے شبہ میں مبتلا ہو کر اس عورت سے صحبت کرلی تھی۔ اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے یہ جملہ زنا کرنیوالے کی محرومی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جیسا کہ ہماری عام بول چال میں کسی ایسے شخص کے بارے میں کہ جسے کچھ نہیں ملتا کہہ دیا کرتے ہیں کہ اسے خاک پتھر ملے گا، لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے بچہ کا نسب چونکہ زنا کرنیوالے سے قائم نہیں ہوتا اس لئے ولد الزنا کی میراث میں سے اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ یا پھر یہ کہ یہاں پتھر سے مراد سنگسار کرنا ہے کہ اس زنا کرنیوالے کو اگر وہ شادی شدہ تھا سنگسار کردیا جائے گا ) ۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس بدکاری میں مبتلا ہونیوالوں کا حساب و کتاب اللہ پر ہے کہ وہ ہر ایک کو ان کے کرتوت کے مطابق بدلہ دے گا۔ ویسے یہ جملہ ایک دوسرے معنی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تو یہاں ہم زنا کرنیوالوں کو سزا دیتے ہیں بایں طور کہ ان پر حد جاری کرتے ہیں اب رہا وہاں یعنی آخرت کا معاملہ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومنشاء پر موقوف ہے چاہے تو مؤ اخذہ کرے اور چاہے تو اپنے بےپایاں رحم و کرم کے صدقہ میں انہیں بخش دے۔ مذکورہ بالا عبارت کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص زنا کرے یا کسی اور گناہ میں مبتلا ہو اور اس پر کوئی حد قائم نہ ہو یعنی دنیا میں اسے کوئی سزا نہ دی جائے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔

【5】

کسی دوسرے کے حق میں وصیت کرکے اپنے ورثاء کا نقصان نہ پہنچاؤ

اور حضرت ابوہریرہ رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا مرد اور عورت ساٹھ برس تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں مگر جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وصیت کے ذریعہ وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں لہذا ان کے لئے دوزخ ضروری ہوجاتی ہے، اس کے بعد حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ آیت کریمہ پڑھی ( وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِھَا اَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَا رٍّ ) 4 ۔ النساء 12) (یعنی ورثاء اپنے حصے کی وصیت پوری کرنے کے بعد جس کی وصیت کی جائے یا دین کے بعد بشرطیکہ وصیت کرنیوالا کسی کو ضرر نہ پہنچائے،۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ آیت ارشاد ربانی ( ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ) 9 ۔ التوبہ 89) (اور یہ بڑی کامیابی ہے) تک تلاوت کی ہے (ترمذی ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث حقوق العباد کی اہمیت ظاہر کرتی ہے کہ جو لوگ اپنی ساری زندگی عبادت الٰہی میں گزار دیتے ہیں مگر حقوق العباد کو نقصان پہنچانے سے اجتناب نہیں کرتے وہ اپنی تمام عبادتوں کے باوجود اللہ کی ناراضگی کا مورد بن جاتے ہیں چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ساٹھ سال تک عبادت کرتے ہیں مگر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ وبال اپنے سر لے لیتے ہیں کہ وہ اپنے مال میں تہائی سے زیادہ کی وصیت کسی غیر شخص کے حق میں کر جاتے ہیں یا اپنا سارا مال کسی ایک وارث کو ہبہ کردیتے تاکہ دوسرے وارثوں کو کچھ نہ ملے اور اس طرح وہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو وہ اتنے طویل عرصہ کی اپنی عبادتوں کے باوجود اپنے آپ کو دوزخ کے عذاب کا سزا وار بنا لیتے ہیں کیونکہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچانا حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کی وجہ سے غیر مناسب و ناجائز ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی اور اس کی مقررہ ہدایات سے تجاوز بھی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے آنحضرت ﷺ کا ارشاد بیان کرنے کے بعد بطور تائید مذکورہ بالا آیت کریمہ پڑھی کیونکہ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مورث کو چاہئے کہ وہ اپنے مال کے تہائی حصہ سے زائد کے بارے میں وصیت کر کے اپنے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے۔

【6】

جائز وصیت کر جانیوالے کے لئے بشارت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص وصیت کر کے مرا یعنی جس شخص نے اپنی موت کے وقت اپنے مال کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں مثلا فقراء کو دینے کی وصیت کی) تو وہ راہ مستقیم اور پسندیدہ طریقہ پر اور تقوی و شہادت پر مرا یعنی متقیوں اور شہیدوں میں داخل ہوا اور اس حال میں مرا کہ اس کی مغفرت کی گئی ( ابن ماجہ)

【7】

کافروں کو اعمال نیک کا ثواب نہیں پہنچتا

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور شعیب اپنے دادا (حضرت عبداللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ عاص بن وائل نے یہ وصیت کی تھی کی میری طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں چناچہ پچاس غلام تو ان کے بیٹے ہشام نے آزاد کردیئے پھر جب ان کے دوسرے بیٹے عمرو نے یہ ارادہ کیا کہ باقی پچاس غلام اس وقت تک آزاد نہیں کروں گا جب تک کہ رسول کریم ﷺ سے نہ پوچھ لوں کہ آیا اپنے دل میں سوچا کہ میں یہ پچاس غلام اس وقت تک آزاد کرنا جائز اور مفید بھی ہے یا نہیں ؟ چناچہ عمرو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے باپ عاص نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں لہذا ہشام نے پچاس غلام آزاد کر دئیے ہیں ان پر یعنی ہشام ہی کے ذمہ یا میرے ذمہ پچاس غلام باقی رہ گئے ہیں تو کیا میں اپنے باپ کی طرف سے وہ باقی پچاس غلام آزاد کر دوں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ تمہارے باپ عاص) اگر مسلمان ہوتے اور تم ان کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا ان کی طرف سے صدقہ کرتے یا ان کی طرف سے حج کرتے تو ان کو اس کا ثواب پہنچتا ( ابوداؤد) تشریح عاص بن وائل نے اسلام کا زمانہ پایا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ اسلام کی دولت سے بہرہ ور نہیں ہو سکے اور کفر ہی کی حالت میں مرگئے ان کے دو بیٹے تھے ایک حضرت ہشام بن عاص اور دوسرے حضرت عمرو بن عاص ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے راستہ پر گامزن کیا چناچہ یہ دونوں مشرف باسلام ہوئے اور رسول کریم ﷺ کے صحابی ہونے کا اعزاز پایا (رضی اللہ عنہما) آنحضرت ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے والد عاص اگر مسلمان ہوتے اور اسلام ہی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوتے تو ان کی طرف سے جو بھی عباد دین کی جاتی اس کا ثواب انہیں پہنچتا لیکن چونکہ وہ مسلمان نہیں ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے تو اب تم ان کی طرف سے کوئی بھی عبادت کرو یا کوئی بھی نیک کام کرو اس کا ثواب انہیں نہیں پہنچے گا۔ لہذا حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ وغیرہ کافر کے لئے فائدہ مند نہیں ہے اور نہ اس کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات ملتی ہے جب کہ یہ مسلمان کے لئے مفید ہے۔

【8】

وارثوں کا حق مارنے والے کے لئے وعید

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا (ابن ماجہ) اور بیہقی نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) نقل کیا ہے۔ تشریح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو جنت کا وارث بنانے کا وعدہ بایں طور کیا ہے کہ (یرثون الفردوس) یعنی وہ مؤمن بہشت کے وارث ہوں گے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اسی کے پیش نظر فرمایا کہ جو شخص ناجائز طور پر اپنے وارث کو میراث سے محروم کر دے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت کی وارثت سے محروم رکھے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص ابتداء ہی میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا۔