92. نکاح کا بیان

【1】

نکاح کا بیان

نکاح کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت کرنے اور عقد کے معنی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا پایا جاتا ہے لہذا اصول فقہ میں نکاح کے یہی معنی یعنی جمع ہونا بمعنی مجامعت کرنا مراد لینا چاہئے بشرطیکہ ایسا کوئی قرینہ نہ ہو جو اس معنی کے خلاف دلالت کرتا ہو۔ علماء فقہ کی اصطلاح میں نکاح اس خاص عقد و معاہدہ کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان ہوتا ہے اور جس سے دونوں کے درمیان زوجیت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے نکاح کی اہمیت نکاح یعنی شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، ایک شخصی ضرورت، ایک طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ انسانی کے وجود وبقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل بھی ہے۔ نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے شریعت محمدی ﷺ تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری ہے جو نکاح سے خالی رہی ہو اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی عبادت نہیں ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک مشروع ہو اور جنت میں بھی باقی رہے سوائے نکاح اور ایمان کے چناچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت مشروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدہ کے مرد و عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے۔ چناچہ اس بارے میں اسلام نے جو شرائط مقرر کی ہیں جو احکام نافذ کئے ہیں اور جو قواعد و ضوابط وضع کئے ہیں اس باب سے ان کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نکاح کے فوائد وآفات نکاح کا جہاں سب سے بڑا عمومی فائدہ نسل انسانی کا بقاء اور باہم توالد وتناسل کا جاری رہنا ہے وہیں اس میں کچھ مخصوص فائدے اور بھی ہیں جن کو پانچ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 نکاح کرلینے سے ہیجان کم ہوجاتا ہے یہ جنسی ہیجان انسان کی اخلاقی زندگی کا ایک ہلاکت خیز مرحلہ ہوتا ہے جو اپنے سکون کی خاطر مذہب و اخلاق ہی کی نہیں شرافت و انسانیت کی بھی ساری پابندیاں توڑ ڈالنے سے گریز نہیں کرتا، مگر جب اس کو جائز ذرائع سے سکون مل جاتا ہے تو پھر یہ پابند اعتدال ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جائز ذریعہ صرف نکاح ہی ہوسکتا ہے۔ -2 نکاح کرنے سے اپنا گھر بستا ہے خانہ داری کا آرام ملتا ہے گھریلو زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور گھریلو زندگی کے اس اطمینان و سکون کے ذریعہ حیات انسانی کو فکر و عمل کے ہر موڑ پر سہارا ملتا ہے۔ -3 نکاح کے ذریعہ سے کنبہ بڑھتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو مضبوط و زبردست محسوس کرتا ہے اور معاشرہ میں اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے اپنا رعب داب قائم رکھتا ہے۔ -4 نکاح کرنے سے نفس مجاہدہ کا عادی ہوتا ہے کیونکہ گھر بار اور اہل و عیال کی خبر گیری و نگہداشت اور ان کی پرورش و پرداخت کے سلسلہ میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس مسلسل جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بےعملی اور لاپرواہی کی زندگی سے دور رہتا ہے جو اس کے لئے دنیاوی طور پر بھی نفع بخش ہے اور اس کیوجہ سے وہ دینی زندگی یعنی عبادات و طاعات میں بھی چاق و چوبند رہتا ہے۔ -5 نکاح ہی کے ذریعہ صالح و نیک بخت اولاد پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی شخص کی زندگی کا سب سے گراں مایہ سرمایہ اس کی صالح اور نیک اولاد ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا میں سکون و اطمینان اور عزت ونیک نامی کی دولت حاصل کرتا ہے بلکہ اخروی طور پر بھی فلاح وسعادت کا حصہ دار بنتا ہے۔ یہ تو نکاح کے فائدے تھے لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو نکاح کی وجہ سے بعض لوگوں کے لئے نقصان و تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور جنہیں نکاح کی آفات کہا جاتا ہے چناچہ ان کو بھی چھ نمبروں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ -1 طلب حلال سے عاجز ہونا یعنی نکاح کرنے کی وجہ سے چونکہ گھر بار کی ضروریات لاحق ہوجاتی ہیں اور طرح طرح کے فکر دامن گیر رہتے ہیں اس لئے عام طور پر طلب حلال میں وہ ذوق باقی نہیں رہتا جو ایک مجرد و تنہا زندگی میں رہتا ہے۔ -2 حرام امور میں زیادتی ہونا۔ یعنی جب بیوی کے آجانے اور بال بچوں کے ہوجانے کی وجہ سے ضروریات زندگی بڑھ جاتی ہیں تو بسا اوقات اپنی زندگی کا وجود معیار برقرار رکھنے کے لئے حرام امور کے ارتکاب تک سے گریز نہیں کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ذہن وعمل سے حلال و حرام کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے اور بلا جھجک حرام چیزوں کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔ -3 عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہونا۔ اسلام نے عورتوں کو جو بلند وبالا حقوق عطا کئے ہیں ان میں بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور حسن معاشرت کا ایک خاص درجہ ہے لیکن ایسے بہت کم لوگ ہیں جو بیوی کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوں بلکہ بدقسمتی سے چونکہ بیوی کو زیردست سمجھ لیا جاتا ہے اس لئے عورتوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ برے سلوک و برتاؤ بھی ایک ذاتی معاملہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، حالانکہ یہ چیز ایک انسانی اور معاشرتی بد اخلاقی ہی نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر بھی بڑے گناہ کی حامل ہے اور اس سے دین و دنیا دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ -4 عورتوں کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنا عام طور پر شوہر چونکہ اپنے آپ کو بیوی سے برتر سمجھتا ہے اس لئے اگر بیوی کی طرف سے ذرا سی بھی بدمزاجی ہوئی تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے اور صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے فورا چھوٹ جاتا ہے۔ -5 عورت کی ذات سے تکلیف اٹھانا بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی بدمزاجی و بداخلاقی کی وجہ سے اپنے شوہروں کے لئے تکلیف و پریشانی کا ایک مستقل سبب بن جاتی ہیں اس کی وجہ سے گھریلو ماحول غیر خوشگوار اور زندگی غیر مطمئن و اضطراب انگیز بن جاتی ہے۔ -6 بیوی بچوں کی وجہ سے حقوق اللہ کی ادائیگی سے باز رہنا یعنی ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو اپنی گھریلو زندگی کے استحکام اور بیوی بچوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی دینی زندگی کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوں جب کہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ بیوی بچوں اور گھر بار کے ہنگاموں اور مصروفیتوں میں پڑ کر دینی زندگی مضمحل وبے عمل ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو عبادات و طاعات کا خیال رہتا ہے نہ حقوق اللہ کی ادائیگی پورے طور پر ہو پاتی ہے۔ نکاح کے ان فوائد وآفات کو سامنے رکھ کر اب یہ سمجھئے کہ اگر یہ دونوں مقابل ہوں یعنی فوائد وآفات برابر، برابر ہوں، تو جس چیز سے دین کی باتوں میں زیادتی ہوتی ہو اسے ترجیح دی جائے مثلا ایک طرف تو نکاح کا یہ فائدہ ہو کہ اس کی وجہ سے جنسی ہیجان کم ہوتا ہے اور دوسری طرف نکاح کرنے سے یہ دینی نقصان سامنے ہو کہ عورت کی بدمزاجی پر صبر نہیں ہو سکے گا تو اس صورت میں نکاح کرنے ہی کو ترجیح دی جائے کیونکہ اگر نکاح نہیں کرے گا تو زنا میں مبتلا ہوجائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ چیز عورت کی بد مزاجی پر صبر نہ کرنے سے کہیں زیادہ دینی نقصان کا باعث ہے۔ نکاح کے احکام -1 حنفی مسلک کے مطابق نکاح کرنا اس صورت میں فرض ہوتا ہے جب کہ جنسی ہیجان اس درجہ غالب ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو اور بیوی کے مہر پر اور اس کے نفقہ پر قدرت حاصل نہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بجائے اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ ہوگا۔ -2 نکاح کرنا اس صورت میں واجب ہوجاتا ہے جب کہ جنسی ہیجان کا غلبہ ہو مگر اس درجہ کا غلبہ نہ ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، نیز مہر و نفقہ کی ادائیگی کی قدرت رکھتا ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کا خوف نہ ہو۔ اگر کسی شخص پر جنسی ہیجان کا غلبہ تو ہو مگر وہ مہر اور بیوی کے اخراجات کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ نکاح نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا جب کہ مہر اور نفقہ پر قادر شخص جنسی ہیجان کی صورت میں نکاح نہ کرنے سے گناہ گار ہوتا ہے۔ -3 اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت مؤ کدہ ہے اعتدال کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جنسی ہیجان کا غلبہ تو نہ ہو لیکن بیوی کے ساتھ مباشرت و مجامعت کی قدرت رکھتا ہو اور مہر و نفقہ کی ادائیگی پر بھی قادر ہو۔ لہذا اس صورت میں نکاح نہ کرنیوالا گنہگار ہوتا ہے جب کہ زنا سے بچنے اور افزائش نسل کی نیت کے ساتھ نکاح کرنیوالا اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے۔ -4 نکاح کرنا اس صورت میں مکروہ ہے جب کہ بیوی پر ظلم کرنے کا خوف ہو یعنی اگر کسی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ میرا مزاج چونکہ بہت برا اور سخت ہے اس لئے میں بیوی پر ظلم و زیادتی کروں گا تو ایسی صورت میں نکاح کرنا مکروہ ہے -5 نکاح کرنا اس صورت میں حرام ہے جبکہ بیوی پر ظلم کرنے کا یقین ہو یعنی اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ میں اپنے مزاج کی سختی وتندی کی وجہ سے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک قطعا نہیں کرسکتا بلکہ اس پر میری طرف سے ظلم ہونا بالکل یقینی چیز ہے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا اس کے لئے حرام ہوگا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت نے نکاح کے بارے میں مختلف حالات کی رعایت رکھی ہے بعض صورتوں میں تو نکاح کرنا فرض ہوجاتا ہے بعض میں واجب اور بعض میں سنت مؤ کدہ ہوتا ہے جب کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا مکروہ بھی ہوتا ہے اور بعض میں تو حرام ہوجاتا ہے لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اسی صورت کے مطابق عمل کرے جو اس کی حالت کے مطابق ہو۔ نکاح کے مستحبات جب کوئی شخص نکاح کرنا چاہے خوہ مرد ہو یا عورت تو چاہئے کہ نکاح کا پیغام دینے سے پہلے ایک دوسرے کے حالات کی اور عادات واطوار کی خوب اچھی طرح جستجو کرلی جائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی ایسی چیز معلوم ہو جو طبیعت ومزاج کے خلاف ہو نیکی وجہ سے زوجین کے درمیان ناچاقی وکشیدگی کا باعث بن جائے۔ یہ مستحب ہے کہ عمر، عزت، حسب اور مال میں بیوی خاوند سے کم ہو اور اخلاق و عادات خوش سلیقی وآداب حسن و جمال اور تقوی میں خاوند سے زیادہ ہو اور مرد کے لئے یہ بھی مسنون ہے کہ وہ جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ میں اگر اس کو پیغام دوں گا تو منظور ہوجائے گا۔ مستحب ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے گا اور نکاح کی مجلس اعلانیہ طور پر منعقد کی جائے جس میں دونوں طرف سے اعزہ و احباب نیز بعض علماء وصلحا بھی شریک۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ نکاح پڑھانے والا نیک بخت و صالح ہو اور گواہ عادل وپرہیزگارہوں۔ ایجاب و قبول اور ان کے صحیح ہونے کی شرائط نکاح ایجاب و قبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے اور ایجاب و قبول دونوں ماضی کے لفظ کے ساتھ ہونے چاہئیں (یعنی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے یہ بات سمجھی جائے کہ نکاح ہوچکا ہے) جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دیا، یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا یا ایجاب میں سے کوئی ایک ماضی کے لفظ کے ساتھ ہو جیسے عورت یہ کہے کہ مجھ سے نکاح کرلو یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ فلاں عورت سے جس کا نام یہ ہے نکاح کرلو اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے نکاح کرلیا۔ یا اس کا برعکس ہو، جیسے مرد یہ کہے کہ میں نے تمہارے ساتھ اپنا نکاح کرلیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی ہوں اور اگر مرد، عورت سے یوں کہے کہ کیا تم نے اپنے آپ کو میری زوجیت میں دیا ؟ یا کہے کہ کیا تم نے مجھے قبول کیا اور اس کے جواب میں عورت ( ہاں میں نے دیا یا ہاں میں نے قبول کیا کہنے کی بجائے) صرف یہ کہے کہ ہاں دیا۔ یا ہاں قبول کیا ( یعنی لفظ میں نہ کہے) تو اس صورت میں بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ البتہ گواہوں کے سامنے صرف یہ کہنے سے کہ ہم بیوی خاوند ہیں، نکاح نہیں ہوتا۔ جس طرح ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ استعمال کرنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب و قبول میں خاص کر نکاح اور تزوجی کا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تمہارے ساتھ تزویج کیا۔ یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے مثلا یوں کہا جائے کہ میں نے تمہارے ساتھ نکاح کیا یا تہارے ساتھ تزویج کیا یا نکاح وتزویج کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا جائے جو نکاح کا مطلب صراحۃ ادا کرتا ہو جیسے مرد یوں کہے کہ میں نے تمہیں اپنی بیوی بنا لیا یا یوں کہے کہ میں تمہارا شوہر ہوگیا یا یوں کہے کہ تم میری ہوگئیں۔ اور نکاح وتزویج یا اس کا ہم معنی لفظ صراحۃً استعمال نہ کیا جائے بلکہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جس سے کنیۃً نکاح کا مفہوم سمجھا جاتا ہو تو یہ بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ لفظ ایسا ہو جس کے ذریعہ سے کسی ذات کامل کی ملکیت فی الحال حاصل کی جاتی ہو جیسے ہبہ کا لفظ یا صدقہ کا لفظ یا تملیک کا لفظ یا بیع وشراء کا لفظ جیسے بیوی یوں کہے کہ میں نے اپنی زوجیت تمہیں ہبہ کردی، یا میں نے اپنی ذات تمہیں بطور صدقہ دیدی یا میں نے تمہیں اپنی ذات کا مالک بنادیا یا یوں کہے کہ میں نے تمہیں اس قدر روپیہ کے عوض خرید لیا اور ان سب کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے قبول کیا، لیکن اس کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ متکلم نے اس لفظ سے نکاح مراد لیا ہو اور کوئی قرینہ اس پر دلالت کرتا ہو اور اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو قبول کرنیوالے نے متکلم کی مراد کی تصدیق کردی ہو نیز گواہوں نے بھی سمجھ لیا ہو کہ اس لفظ سے مراد نکاح ہے خواہ انہوں نے کسی قرینہ سے سمجھا ہو یا بتادینے سے سمجھا ہو۔ ایجاب و قبول کے وقت عاقدین ( دولہا دولہن) میں سے ہر ایک کے لئے دوسرے کا کلام سننا ضروری ہے خواہ وہ بالاصالۃ ( یعنی خود) سنیں خواہ بالوکالۃ ( یعنی ان کے وکیل سنیں) اور خواہ بالولایۃ سنیں (یعنی ان کا ولی سنے) ایجاب و قبول کے وقت دو گواہوں کی موجودگی نکاح صحیح ہونے کی شرط ہے اور یہ گواہ خواہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں ہو، گواہوں کا آزاد ہونا ضروری ہے لونڈی یا غلام گواہوں کی گواہی معتبر نہیں ہوگی، اسی طرح گواہوں کا عاقل اور مسلمان ہونا بھی ضروری ہے مسلمانوں کی گواہی ہر حال میں کافی ہوگی خواہ وہ پرہیزگار ہوں یا فاسق ہوں اور خواہ ان پر حد قذف لگائی جا چکی ہو۔ گواہوں کا بینا ہونا یا زوجین کا رشتہ دار نہ ہونا شرط نہیں ہے، چناچہ اندھو کی گواہی اور زوجین کے رشتہ داروں کی گواہی معتبر ہوگی خواہ وہ زوجین کے یا ان میں سے کسی ایک کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، گواہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں ایجاب و قبول کے الفاظ کو ایک ساتھ سنیں اور سن کر یہ سمجھ لیں کہ نکاح ہو رہا ہے گو ان الفاظ کے معنی نہ سمجھیں ( مثلا ایجاب و قبول کسی ایسی زبان میں ہو جسے وہ نہ جانتے ہوں) اگر دونوں گواہ ایجاب و قبول کے الفاظ ایک ساتھ نہ سنیں بلکہ الگ الگ سنیں تو نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کہا کہ میری فلانا بالغ لڑکی کا نکاح فلاں شخص کے ساتھ کردو اور اس شخص نے اس لڑکی کا نکاح اس باپ اور ایک دوسرے مرد کی موجودگی میں کیا تو یہ جائز ہوگا لیکن اگر باپ موجودہ ہو تو پھر دونوں مردوں یا ایک مرد اور عورتوں کی موجودگی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوگا۔

【2】

جوانوں کو نکاح کرنے کا حکم

حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے جوانوں کے گروہ ! تم میں سے جو شخص مجامعت کے لوازمات (یعنی بیوی بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے) کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے ( یعنی نکاح کرلینے سے اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور انسان حرام کاری سے بچتا ہے) اور جو شخص جماع کے لوازمات کی استطاعت نہ رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ رکھنا اس کے لئے خصی کرنے کا فائدہ دے گا (یعنی جس طرح خصی ہوجانے سے جنسی ہیجان ختم ہوجاتا ہے اسی طرح روزہ رکھنے سے بھی جنسی ہیجان ختم ہوجاتا ہے (بخاری ومسلم) تشریح اس خطاب عام کے ذریعہ نبی کریم ﷺ نے جوانوں کو نکاح کی ترغیب دلاتے ہوئے نکاح کے دو بڑے فائدے ظاہر فرمائے ہیں ایک تو یہ کہ انسان نکاح کرنے سے اجنبی عورتوں کی طرف نظر بازی سے بچتا ہے اور دوسری طرف حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے۔ جوانی کی حد انسان بالغ ہونے کے بعد جوان کہلاتا ہے لیکن جوانی کی یہ حد کہاں تک ہے ؟ اس میں اختلاف ہے چناچہ امام شافعی کے نزدیک جوانی کی حد تیس برس کی عمر تک ہے جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک انسان چالیس برس کی عمر تک جوان کہلانے کا مستحق رہتا ہے۔

【3】

تبتل کی ممانعت

اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کو تبتل (یعنی نکاح ترک کرنے) سے منع کردیا تھا اگر آنحضرت ﷺ ان کو تبتل کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی خصی ہوجاتے ( بخاری ومسلم) تشریح تبتل کے معنی ہیں عورتوں سے انقطاع اور ترک نکاح، نصاری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین) کے ہاں تبتل ایک اچھا اور پسندیدہ فعل ہے کیونکہ ان کے نزدیک دینداری کی آخری حد یہ ہے کہ انسان عورتوں سے اجتناب کرے اور نکاح وغیرہ سے پرہیز کرے۔ لیکن جس طرح عیسائیت یا بعض دوسرے مذاہب میں نکاح کو ترک کردینا اور لذائذ زندگی سے کنارہ کش ہوجانا عبادت اور نیکی وتقوی کی آخری حد سمجھا جاتا ہے اس طرح کی کوئی بات اسلام میں نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ نے نکاح کو انسانی زندگی کے لئے ایک ضرورت قرار دے کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ لذائذ زندگی سے مکمل کنارہ کشی اور خود ساختہ تکالیف برداشت کرنا عبادت نہیں ہے بلکہ رہبانیت ہے جسے اس دین فطرت میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے۔ ہاں امام شافعی اتنا ضرور کہتے ہیں کہ بغیر نکاح زندگی گزارنا افضل ہے لیکن امام شافعی کا یہ قول بھی نکاح کے بارے میں شریعت اسلامیہ کے بنیادی منشاء کے منافی نہیں ہے کیونکہ اول تو اس کا تعلق صرف فضیلت سے ہے اور دوسرے یہ کہ یہ فضیلت بھی نفس نکاح یعنی کرنے یا نہ کرنے) کے بارے میں نہیں ہے بلکہ صرف تخلی للعبادۃ (یعنی عبادت کے لئے مجرد رہنا) کے نکتہ نظر سے ہے گویا امام شافعی کا مقصد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ عبادات میں مشغول رہنا نکاح کی مشغولیت سے افضل ہے۔ چناچہ ملا علی قاری نے مرقات میں امام شافعی کی دلیلیں نقل کرنے کے بعد امام اعظم ابوحنیفہ کی بہت سی دلیلیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ تجرد بغیر نکاح رہنے کے مقابلہ میں تاہل نکاح کرنا ہی افضل ہے۔ بہرکیف حضرت عثمان بن مظعون نے جب آنحضرت ﷺ سے تبتل کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا کیونکہ اسلام مسلمانوں کے ہاں نکاح کے ذریعہ افزائش نسل کو پسند کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ اللہ کے حقیقی نام لیوا موجود رہیں اور وہ ہمیشہ کفر و باطل کے خلاف جہاد کرتے رہیں۔ اسی سلسلہ میں حدیث کے راوی حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے یہ کہا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دیدیتے تو ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے تاکہ ہمیں عورتوں کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہمیں عورتوں سے متعلق کسی برائی میں مبتلا ہونے کا خوف رہتا۔ طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع کے مناسب تو یہ تھا کہ حضرت سعد یہ کہتے کہ آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو تبتل کی اجازت دیدیتے تو ہم بھی تبتل کرتے۔ مگر حضرت سعد نے یہ کہنے کی بجائے یہ کہا کہ ہم سب اپنے آپ کو خصی کر ڈالتے لہذا حضرت سعد نے یہ بات دراصل بطور مبالغہ کہی یعنی اپنی اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آنحضرت ﷺ حضرت عثمان کو اجازت دے دیتے تو ہم بھی تبتل میں اتنا مبالغہ اور اتنی سخت کوشش کرتے کہ آخر کار خصی کی مانند ہوجاتے۔ گویا اس جملہ سے حضرت سعد کی مراد حقیقۃً خصی ہوجانا نہیں تھا کیونکہ یہ فعل یعنی اپنے آپ کو خصی کر ڈالنا جائز نہیں ہے۔ اور علامہ نووی کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ بات اس وجہ سے کی کہ ان کا گمان یہ تھا کہ خصی ہوجانا جائز ہے حالانکہ انکا یہ گمان حقیقت و واقعہ کے خلاف تھا کیونکہ خصی ہوجانا انسان کے لئے حرام ہے خواہ چھوٹی عمر کا ہو یا بڑی عمر کا اس موقع پر جانوروں کے بارے میں جان لینا چاہئے کہ ہر اس جانور کو خصی کرنا حرام جو غیر ماکول یعنی کھایا نہ جاتا ہو اور جو جانور کھایا جاتا ہے اس کو خصی کرنا چھوٹی عمر میں تو جائز ہے لیکن بڑی عمر میں حرام ہے۔ جانوروں کو خصی کرنے کے بارے میں مذکورہ بالا تفصل علامہ نووی شافعی نے لکھی ہے جب کہ فقہ حنفی کی کتابوں اور مختار اور ہدایہ میں بڑی عمر اور چھوٹی عمر کی تفصیل کے بغیرصرف یہ لکھا ہے کہ جانوروں کو خصی کرنا جائز ہے۔

【4】

دیندار عورت سے نکاح کرنا بہتر ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اول اس کا مالدار ہونا دوم اس کا حسب نسب والی ہونا سوم اس کا حسین و جمیل ہونا اور چہارم اس کا دین دار ہونا لہذا دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ ( بخاری ومسلم) تشریح حسب ونسب والی سے مراد وہ عورت ہے جو نہ صرف اپنی ذات میں شرف و بلندی اور وجاہت رکھتی ہو بلکہ وہ جس خاندان و قبیلہ کی فرد ہو وہ خاندان و قبیلہ بھی عزت و وجاہت اور شرف و بلندی کا حامل ہو چناچہ انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی عورت سے بیاہ کرے جو باحیثیت و باعزت خاندان و قبیلہ کی فرد ہو تاکہ اس عورت کی وجہ سے اپنی اولاد کے نسب میں شرف و بلندی کا امتیاز حاصل ہو۔ بہرکیف حدیث کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ عورت سے نکاح کرنے کے سلسلہ میں مذکورہ چار چیزوں کو بطور خاص ملحوظ رکھتے ہیں کہ کوئی شخص تو مالدار عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ بعض لوگ اچھے حسب ونسب کی عورت کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایک حسین و جمیل عورت ان کی رفیقہ حیات بنے اور کچھ نیک بندے دین دار عورت کو ترجیح دیتے ہیں لہذا دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ وہ دین دار عورت ہی کو اپنے نکاح کے لئے پسند کرے کیونکہ اس میں دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی بھی سعادت ہے۔ اور خاک آلودہ ہوں تیرے دونوں ہاتھ ویسے تو یہ جملہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے ذلت و خواری اور ہلاکت کی بددعا کے لئے کنایہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس جملہ سے یہ بددعا مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دینے کی ترغیب دلانا ہے۔

【5】

قریش کی نیک بخت عورتوں کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹوں پر سوار ہونیوالی بہترین عورتیں قریش کی ہیں جو چھوٹے بچوں پر بہت شفیق ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے اس مال کی جو ان کے قبضہ میں ہوتا ہے بہت زیادہ حفاظت کرتی ہیں ( بخاری ومسلم) تشریح اونٹوں پر سوار ہونیوالی عورتوں سے مراد عرب کی عورتیں کیونکہ عرب کی عورتیں عام طور پر اونٹ کی سواری کی عادی ہوتی تھیں لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عرب کی عورتوں میں بہترین عورتیں قریش کی نیک بخت عورتیں ہیں۔

【6】

عورتوں کا فتنہ زیادہ نقصان دہ ہے

اور حضرت حضرت اسامہ ابن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد ایسا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے جو مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنہ سے زیادہ ضرر رساں ہو۔ ( بخاری ومسلم) تشریح مردوں کے حق میں عورتوں کے فتنے کو سب سے زیادہ ضرررساں اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اول تو مردوں کی طبائع عام طور پر عورتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہیں دوسرے یہ کہ مرد عام طور پر عورتوں کی خواہشات کے زیادہ پابند ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حارم امور میں گرفتار ہوتے ہیں اور عورتوں ہی کی وجہ سے آپس کے لڑائی جھگڑے نفرت و عداوت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چناچہ اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ عورتیں ہی ہیں جن کی بےجا نازبرداریاں مردوں کو دنیا داری کی طرف راغب کرتی ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ دنیاداری سے زیادہ اور کون سی چیز ضرررساں ہوسکتی ہے کیونکہ سرکار دوعالم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ حب الدنیا رأس کل خطیئۃ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ ارشاد گرامی اپنے بعد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عورتوں کے فتنے آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کم تھے اور ان کا زیادہ ظہور آپ ﷺ کے بعد ہوا کیونکہ اس وقت حق کا غلبہ تھا اور نیکی کی طاقت تمام برائیوں کو دبائے ہوئے تھی جب کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آہستہ آہستہ باطل کی قوت بڑھتی گئی اور برائیوں کا غلبہ ہوتا گیا۔

【7】

عورت کے فتنہ سے بچو

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنیا شیریں اور سبز جاذب نظر ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا کا خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہ ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس دنیا میں کس طرح عمل کرتے ہو لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں کے فتنہ سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی کی صورت میں تھا ( مسلم) تشریح دنیا شیریں اور سبز ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شیرنی طبیعت کے لئے ایک مرغوب چیز ہوتی ہے اور اس طرح سبز چیز آنکھوں کو بہت بھاتی ہے اسی طرح دنیا بھی دل کو بہت پیاری لگتی ہے اور آنکھوں کو بھی بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا کا خلیفہ بنایا ہے الخ، کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہی اس کا حقیقی مالک وحاکم ہے تمہیں اس نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر گویا اس دنیا کے تصرفات میں تمہیں اپنا وکیل بنایا ہے لہذا اللہ تعالیٰ تمہیں ہر وقت دیکھتا ہے کہ تم اس زمین پر اس کے بار خلافت کو کس طرح اٹھا رہے ہو اور اپنی عملی زندگی کے ذریعہ تصرفات دنیا میں حق وکالت کس طرح ادا کر رہے ہو ؟ یا اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کا خلیفہ وارث بنایا ہے، لہذا ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب تمہیں دیدیا ہے اور اب وہ تمہیں دیکھتا ہے کہ تم اپنے اسلاف کے احوال و کوائف سے کس طرح عبرت پکڑتے ہو اور ان کے اموال و میراث میں کس طرح تصرف و انتظام کرتے ہو۔ دنیا سے بچو الخ، کا مطلب یہ ہے کہ دنیا مکروفریب کا بچھا ہوا ایک جال ہے اس جال سے حتی الامکان بچتے رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جال میں پھنس کر دنیا کے ظاہری مال وجاہ پر اپنی دینداری گنوا بیٹھو کیونکہ دنیا کو ثبات نہیں ہے یہ ایک فنا ہو جانیوالی چیز ہے پھر اس فناء کے بعد کل جب تم ہمیشہ کی زندگی کے لئے اٹھائے جاؤ گے تو اس کی حلال چیزوں کا حساب دینا ہوگا اور اس کی حرام چیزوں پر عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے۔ اسی طرح عورتوں کے مکروفریب سے بھی بچتے رہو، کیونکہ ایک مشت خاک کا یہ دل فریب مجسمہ جہاں نیک عورت کی صورت میں اللہ کی ایک نعمت ہے وہیں بری عورت کے روپ میں فتنہ عالم بھی ہے ایسا نہ ہو کہ بری عورتوں کی مکاریاں یا اپنی بیویوں کی بےجانازبرداریاں تمہیں ممنوع و حرام چیزوں کی طرف مائل کردیں اور ان کی وجہ سے تم تباہی و ہلاکت کی کھائیوں میں دکھیل دئیے جاؤ۔ بنی اسرائیل پر تباہی کے دروازے کھولنے والا پہلا فتنہ عورت تباہیوں کے دروازے کھلنے کا پہلا سبب اور ذریعہ بنا۔ چناچہ اس کی تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ایک شخص جس کا نام بلعم بن باعور تھا۔ بہت مستجاب الدعوات تھا، اسے اسم اعظم یاد تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی ہر دعا مقبول کرا لیتا تھا، چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جباروں سے لڑنے کے لئے علاقہ شام میں واقع بنی کنعان کے ایک حصہ میں خیمہ زن ہوئے تو بلعم کی قوم کے لوگ بلعم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے پیروکاروں کا ایک عظیم لشکر لے کر ہمیں قتل کرنے اور اس علاقہ سے نکالنے کے لئے آئے ہیں تم ان کے لئے کوئی ایسی بددعا کرو کہ وہ یہاں سے واپس بھاگ جائیں۔ بلعم نے جواب دیا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم وہ نہیں جانتے بھلا میں اللہ کے پیغمبر (علیہ السلام) اور اس کے ماننے والوں کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں ؟ اگر میں ان کے لئے بددعا کرتا ہوں تو میری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی۔ جب اس قوم کے لوگوں نے بہت منت سماجت کی اور وہ بددعا کرنے پر اصرار کرتے رہے تو بلعم نے کہا کہ اچھا میں استخارہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا حکم ہوتا ہے پھر اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ بلعم کا یہ معمول تھا کہ وہ بغیر استخارہ کوئی بھی کام نہیں کرتا تھا چناچہ اس نے جب استخارہ کیا تو خواب میں اسے ہدایت کی گئی کہ پیغمبر اور مؤمنوں کے حق میں ہرگز بددعا مت کرنا ! بلعم نے اس خواب سے اپنی قوم کو مطلع کیا اور بددعا نہ کرنے کے لئے اپنے ارادہ کا پھر اظہار کیا قوم کے لوگوں نے غور و فکر کے بعد ایک طریقہ اختیار کیا کہ اور وہ یہ کہ وہ لوگ اپنے ساتھ بیش قیمت تحفے لے کر بلعم کے پاس آئے اور پھر اس کے سامنے بہت ہی زیادہ منت سماجت کی، روئے گڑگڑائے اور اسے اتنا مجبور کیا کہ آخر کار وہ ان کے جال میں پھنس ہی گیا چناچہ وہ بددعا کرنے کی غرض سے اپنے گدھے پر سوار ہو کر جستان پہاڑ کی طرف چلا جس کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا لشکر مقیم تھا، راستہ میں کئی مرتبہ گدھا گرا جسے وہ مار مار کر اٹھاتا رہا یہاں تک کہ جب یہ سلسلہ دراز ہوا اور بلعم بھی اپنے گدھے کو مار مار کر اٹھاتا ہوا پریشان ہوگیا تو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے گدھے کو گویائی عطاء کی چناچہ گدھا بولا کہ نادان بلعم ! تجھ پر افسوس ہے کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ تو کہاں جا رہا ہے تو مجھے آگے چلانے کی کوشش کر رہا ہے اور ملائکہ میرے آگے آ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں بلعم نے جب چشم حیرت سے گدھے کو بولتے دیکھا تو بجائے اس کے کہ اس تنبیہ پر اپنے ارادہ سے باز آجاتا گدھے کو وہیں چھوڑا پیادہ یا پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں بددعا کرنے لگا مگر یہاں بھی قدرت الٰہی نے اپنا یہ کرشمہ دکھایا کہ بلعم اپنی بددعا میں جب بھی حضرت موسیٰ اور ان کے لشکر کا نام لینا چاہتا اس کی زبان سے بنی اسرائیل کے بجائے بلعم کی قوم کا نام نکلتا۔ یہ سن کر اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ بلعم یہ کیا حرکت ہے بنی اسرائیل کی بجائے ہمارے حق میں بددعا کر رہے ہو ؟ بلعم نے کہا کہ اب میں کیا کروں یہ حق تعالیٰ میرے قصد و ارادہ کے بغیر میری زبان سے تمہارا نام نکلوا رہا ہے۔ لیکن بلعم پھر بھی اپنی بددعا سے باز نہ آیا اور اپنی سی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ عذاب الٰہی کی وجہ سے بلعم کی زبان اس کے منہ سے نکل کر سینہ پر آ پڑی پھر تو گویا بلعم کی عقل بالکل ہی ماری گئی اور دیوانہ وار کہنے لگا کہ لو اب تو میری دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہوگئی اس لئے اب ہمیں بنی اسرائیل کی تباہی کے لئے کوئی دوسرا جال تیار کرنا پڑے گا۔ پھر اس نے مشورہ دیا کہ تم لوگ اپنی اپنی عورتوں کو اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور ان کے ہاتھو میں کچھ چیزیں دے کر ان چیزوں کو فروخت کرنے کے بہانہ سے عورتوں کو بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان سے کہ دو کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کوئی شخص تمہیں اپنے پاس بلائے تو انکار نہ کرنا یاد رکھو اگر بنی اسرائیل میں سے ایک بھی شخص کسی عورت کے ساتھ بدکاری میں مبتلا ہوگیا تو تہاری ساری کوششیں کامیاب ہوجائیں گی۔ چناچہ بلعم کی قوم نے اس مشورہ پر عمل کیا اور اپنی عورتوں کو بنا سنوار کر بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دیا وہ عورتیں جب لشکر میں پہنچیں اور ان میں سے ایک عورت جس کا نام کسی بنت صور تھا، بنی اسرائیل کے ایک سردار زمزم بن شلوم نامی کے سامنے سے گزری تو وہ اس عورت کے حسن و جمال کا اسیر ہوگیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس لے گیا اور ان سے کہنے لگا کہ کیا آپ اس عورت کو میرے لئے حرام قرار دیتے ہیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ ہاں، اس عورت کے پاس ہرگز مت جانا تو زمزم نے کہا کہ میں اس بارے میں آپ کا حکم نہیں مانوں گا چناچہ وہ اس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا اور وہاں اس کے ساتھ منہ کالا کیا بس پھر کیا تھا حکم الٰہی نے قہر کی شکل اختیار کرلی اور اس سردار کی شامت عمل سے ایک ایسی وبا پورے لشکر پر نازل ہوئی کہ آن کی آن میں ستر ہزار آدمی ہلاک و تباہ ہوگئے ادھر جب فحاص کو کہ جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کا پوتا اور ایک قوی ہیکل آدمی تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نگہبان تھا یہ معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سردار کی شامت عمل نے قہر الٰہی کو دعوتی دیدی ہے تو فورًا اپنا ہتھیار لے کر زمزم کے خیمہ میں داخل ہوا اور پلک جھپکتے ہی زمزم اور اس عورت کا کام تمام کر ڈالا اور پھر بولا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی شخص کی وجہ سے ہم سب کو ہلاک وتباہ کردیا ہے چناچہ ان دونوں کے قتل ہوتے ہی وہ وباء جو عذاب الٰہی کی صورت میں نازل ہوئی تھی ختم ہوگئی۔

【8】

وہ تین چزیں جن میں نحوست ہوتی ہے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورت گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورتوں میں، مکان میں اور جانور میں ( بخاری ومسلم) تشریح شوم ضد ہے یمن کی جس کے معنی ہیں بےبرکتی اور اسی کو نحوست کہتے ہیں، لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی تو تفصیل کے ساتھ سمجھ لیجئے کہ نحوست سے کیا مراد ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ گھر کی نحوست سے گھر کی تنگی اور بری ہمسائیگی مراد ہے یعنی جو گھر تنگ و تاریک ہو اور اس کا پڑوس برا ہو تو وہ گھر تکلیف و پریشانی کا باعث ہوجاتا ہے عورت کی نحوست سے مہر کی زیادتی اور اس کی بدمزاجی و زبان درازی اور بانجھ پن مراد ہے یعنی جس عورت کا مہر زیادہ مقرر کیا گیا ہو وہ بد مزاجی وتند خو زبان دراز ہو اور یہ کہ بانجھ ہو تو ایسی عورت راحت و سکون کی بجائے اذیت وکوفت کا ذریعہ بن جاتی ہے اسی طرح گھوڑے کی نحوست سے اس کا شوخ ہونا مٹھا قدم ہونا اور اس پر وار ہو کر جہاد نہ کیا جانا مرا ہے یعنی جو گھوڑأ ایسا ہو کہ اپنی خوشی کی وجہ سے پریشان کرتا ہو، سست رفتار ہوا اور مٹھا ہو اور اس پر سوار ہو کر جہاد کرنے کی بھی نوبت نہ آئی ہو تو وہ گھوڑا اپنے مالک کے لئے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ کچھ علماء یہ کہتے ہیں کہ ان تین چیزوں میں نحوست کے اظہار کرنے کا مقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ اگر بالفرض کسی چیز میں نحوس کا ہونا اپنی کوئی حقیقت رکھتا تو ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی گویا اس تشریح سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ کسی چیز میں نحوست کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا چناچہ یہ کہنا کہ فلاں چیز منحوس ہے یا فلاں چیز میں نحوست ہے صرف ایک واہمہ کے درجہ کی چیز ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر واقعۃً نحوست کسی چیز میں ہوا کرتی تو ان تین چیزوں میں ضرور ہوتی کیونکہ یہ تین چیزیں نحوست کے قابل ہوسکتی تھی۔ چناچہ یہ ارشاد ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظربد تھی یعنی کائنات کی ہر جنبش و حرکت اور یہاں کا ذرہ ذرہ پابند تقدیر ہے اس عالم میں صرف وہی ظہور میں آتا ہے جو پہلے سے مقدر ہوچکا ہو کوئی چیز تقدیر سے باہر نہیں ہے اور اگر بفرض محال کوئی چیز مقدرات کے دائرہ سے باہر ہوتی تو وہ نظربد ہے ( کہ جسے عام طور پر نظر لگنا کہتے ہیں) لہذا جس طرح اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ نظربد تقدیر کے دائرہ کار سے باہر ہے اسی طرح مذکورہ بالا تینوں چیزوں کے ساتھ نحوس کا ذکر کرنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ان تین چیزوں میں نحوست ہوتی ہے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہنا وہ ناپسند کرتا ہو یا کسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہوجائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ دے۔ حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یہ ارشاد گرامی طیرۃ منہی عنہا ( بد شگونی لینے کی ممانعت کے منافی نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبز قدم ہے تو یہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

【9】

اپنے نکاح کے لئے کنواری عورت کو ترجیح دو

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک جہاد میں ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے چناچہ جب ہم ( جہاد سے) واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میری نئی شادی ہوئی تھی ( کہ میں جہاد میں چلا گیا اب اگر حکم ہو تو میں آگے چلا جاؤں تاکہ اپنے گھر جلد سے جلد پہنچ سکوں) آپ ﷺ نے فرمایا تم نے نکاح کیا ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا بیوی کنواری تھی یا بیوہ تھی ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ تھی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو تم نے کنواری سے کیوں نکاح نہیں کیا ؟ تاکہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی پھر جب ہم مدینہ پہنچ گئے اور ہم سب نے اپنے اپنے گھروں میں جانے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ٹہر جاؤ ہم رات میں (یعنی شام کے وقت) گھروں میں داخل ہوں گے تاکہ جس عورت کے بال پراگندہ ہوں وہ کنگھی چوٹی کرلے اور وہ عورت جس کا خاوند موجود نہیں تھا ( بلکہ ہمارے ساتھ جہاد میں گیا تھا) اپنے زائد بال صاف کرلے (بخاری ومسلم) تشریح تم اس کے ساتھ کھیلتے الخ، سے آپ کی بےتکلفی اور کمال الفت ورغبت مراد ہے مطلب یہ ہے کہ کنواری عورت سے نکاح کرنے میں آپس کی زندگی زیادہ الفت ورغبت کے ساتھ گزرتی ہے اور بےتکلفی اور چاہت زیادہ ہوتی ہے اس کے برخلاف بیوہ عورت جب کسی دوسرے کی زوجیت میں آتی ہے چونکہ اس کا دل پہلے خاوند کی یاد کی کسک محسوس کرتا ہے دوسرے یہ کہ اگر رہن سہن اور میل ملاپ میں اس دوسرے خاوند کو اپنے پہلے خاوند کی طرح نہیں پاتی تو اس کی طبیعت اچاٹ ہوجاتی ہے ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اتنی زیادہ بےتکلف اور خوش مزاج ثابت نہیں ہوتی جتنی ایک کنواری عورت ہوتی ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں میں جانے میں جلدی نہ کرو بلکہ کچھ دیر توقف کرو تاکہ تمہاری بیویاں رات سے پہلے اپنا بناؤ سنگھار کر کے تمہاری مجامعت کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں اور جب تم رات میں ان کے پاس پہنچو تو تمہیں کسی قسم کا کوئی تکدر اور کوئی بےلطفی نہ ہو۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ دوسری حدیثوں میں تو اپنے گھر واپس آنیوالے مسافر کو رات کے وقت گھر میں داخل ہونے سے منع فرمایا گیا ہے جب کہ یہاں رات کے وقت گھروں میں داخل ہونے کو فرمایا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گھر لوٹنے والے مسافر کو رات کے وقت گھر میں داخل ہونے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بغیر اطلاع کے یکایک گھر میں چلا جائے اور اگر گھر والوں کو پہلے سے اطلاع ہو جیسا کہ اس موقع پر ہوا تو اس صورت میں رات کے وقت اپنے گھر میں داخل ہونا ممنوع نہیں ہوگا۔

【10】

وہ تین شخص جن کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسے تین شخص ہیں جن کی مدد اللہ پر اس کے وعدہ کے مطابق واجب ہے ایک تو وہ مکاتب جو اپنا بدل کتابت ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو دوسرا وہ نکاح کرنیوالا شخص جو حرام کاری سے بچنے کی نیت رکھتا ہو اور تیسرا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنیوالا۔ تشریح مکاتب اس غلام کو کہتے تھے جس کا آقا اس سے یہ کہہ دیتا تھا کہ اگر تم مجھے اتنا روپیہ کما کر دیدو گے تو تم آزاد ہوجاؤ گے۔ اسی طرح روپیہ کی وہ مقدار جو اس غلام کا آقا آزادی کے لئے ضروری قرار دیتا تھا بدل کتابت کہلاتی تھی۔

【11】

عورت کے ولی کے لئے ایک ضروری ہدایت

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس شخص کی دینداری اور اس کے اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام منظور کر کے اس سے نکاح کردو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوجائے گا ( ترمذی) تشریح یہ ارشاد گرامی دراصل عورتوں کے سرپرست اور ولیوں سے ایک خطاب اور ان کے لئے ایک ضروری ہدایت ہے کہ اگر کوئی دیندار اور اچھے اخلاق واطوار کا حامل شخص تمہاری بیٹی یا تمہاری بہن وغیرہ سے نکاح کا پیغام بھیجے تو منظور کرلو اور اس سے نکاح کردو اگر ایسا نہ کرو گے بلکہ ایسے شخص کے پیغام کو نظر انداز کر کے کسی مالدار یا ثروت دار شخص کے پیغام کی انتظار میں رہو گے جیسا کہ اکثر دینداروں کی عادت ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اکثر عورتیں بغیر خاوند کے بیٹھی رہ جائیں گی اور اکثر مرد بغیر بیوی کے پڑے رہیں گے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بدکاری اور برائیوں کا عام چلن ہوجائے گا بلکہ ان عورتوں کے سرپرست اور ولی بڑی بری قسم کی عار و غیرت میں مبتلا ہوں گے پھر جو لوگ ان کو عار اور غیرت دلائیں گے وہ ان سے لڑنے جھگڑنے لگیں گے آخرکار اس برائی وفحاشی اور لڑائی جھگڑے سے ایک ہمہ گیر فتنہ و فساد کی شکل پیدا ہوجائے گی۔ طیبی کہتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کفائت زوجین میں سے ایک دوسرے کا کفو ہونے کا لحاظ صرف دین کے وصف میں کیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کا کفو صرف دین میں ہوسکتا ہے جبکہ علماء کی اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ ان چاروں اوصاف میں ایک دوسرے کا کفو شریک ہونے کا لحاظ کیا جائے (١) دین حریت نسب پیشہ چناچہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہ کیا جائے نہ کسی غیر معلوم النسب سے کیا جائے۔ اور کسی سودا گر یا اچھے پیشے والے کی بیٹی کا نکاح کسی حرام یا مکروہ پیشہ والے سے نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر کسی عورت کا ولی اور خود وہ عورت کسی غیرکفو والے سے نکاح کرنے پر راضی ہوجائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا۔

【12】

محبت کرنیوالی عورت سے نکاح کرو

اور حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے محبت کرنیوالی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ( ابوداؤد نسائی) تشریح منکوحہ عورت میں مذکورہ بالا دو صفتوں کو ساتھ ساتھ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کسی عورت کے ہاں بچے تو بہت پیدا ہوتے ہوں مگر وہ اپنے خاوند سے محبت کم کرتی ہو تو اس صورت میں خاوند کو اس کی طرف رغبت کم ہوگی اور اگر کوئی عورت خاوند سے محبت تو بہت کرے مگر اس کے یہاں بچے زیادہ نہ ہوں تو اس صورت میں مطلوب حاصل نہیں ہوگا اور مطلوب امت محمدیہ ﷺ کی کثرت سے جو ظاہر ہے کہ زیادہ بچے ہونے کی صورت میں ممکن ہے اگر مسلمان عورتوں کے ہاں زیادہ بچے ہوں گے تو امت میں کثرت ہوگی جو پیغمبر اسلام ﷺ کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نکاح سے پہلے یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ کون سی عورت اپنی آئندہ زندگی میں ان اوصاف کی حامل ثابت ہوسکتی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ کسی خاندان و کنبہ کا عام مشاہدہ اس کی کسی عورت کے لئے ان صفتوں کا معیار بن سکتا ہے چناچہ ان اکثر لڑکیوں میں یہ صفتیں موجود ہوسکتی ہیں جن کے خاندان و قرابت داروں میں ان صفتوں کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے عام طور پر چونکہ اقرباء کے طبعی اوصاف ایک دوسرے میں سرایت کئے ہوتے ہیں اور عادت ومزاج میں کسی خاندان و کنبہ کا ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ یکسانیت رکھتا ہے اس لئے کسی خاندان کی لڑکی کے بارے میں اس کے خاندان کے عام مشاہدہ کے پیش نظر ان اوصاف کا اندازہ لگا لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ بہرکیف اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنیوالی اور بچے پیدا کرنیوالی عورت سے نکاح کرنا مستحب ہے نیز یہ کہ زیادہ بچے ہونا بہتر اور پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے آنحضرت ﷺ کا مقصد یعنی امت کی زیادتی و کثرت کا فخر حاصل ہوتا ہے ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نکاح کرنے سے مراد یہ تعلیم دینا ہے کہ تمہاری جن بیویوں میں یہ اوصاف موجود ہوں ان کے ساتھ زوجیت کے تعلق کو ہمیشہ قائم رکھو اور اس بات کی کوشش کرو کہ آپس میں کبھی کوئی تفرقہ اور جدائی نہ ہو۔

【13】

کنواری سے نکاح کرنا زیادہ بہتر ہے

اور حضرت عبدالرحمن بن سالم بن عتبہ بن عویمر بن ساعدہ انصاری اپنے والد حضرت سالم اور وہ عبدالرحمن کے دادا یعنی حضرت عتبہ تابعی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہیں کنواری عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے کیونکہ وہ شیریں دہن ہوتی ہیں یعنی کنواری عورتیں شیریں زبان وخوش کلام ہوتی ہیں کہ وہ بد زبانی فحش گوئی میں مبتلا نہیں ہوتیں) اور زیاد بچے پیدا کرنیوالی ہوتی ہیں نیز وہ تھوڑے پر بھی راضی رہتی ہیں (یعنی تھوڑا مال و اسباب پانے پر بھی راضی رہتی ہیں) اس روایت کو ابن ماجہ نے بطریق ارسال نقل کیا ہے ؟ تشریح اس ارشاد گرامی کے ذریعہ کنواری عورتوں کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بیوہ عورتوں میں نہیں پائی جاتیں مثلا کنواری عورت زیادہ بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتی ہے کیونکہ اس کے رحم میں حرارت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کا رحم مرد کا مادہ تولید بہت جلد قبول کرلیتا ہے لیکن یہ چیز محض ظاہری اسباب کے درجہ کی ہے جو حکم الٰہی کے بغیر کوئی اہمیت نہیں رکھتی، کنواری عورتوں کی ایک نفسیاتی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ تھوڑے سے مال و اسباب پر بھی راضی وخوش رہتی ہیں ان کا شوہر انہیں جو کچھ دے دیتا ہے اسی کو برضا ورغبت قبول کرلیتی ہیں اور اس پر قانع رہتی ہیں کیونکہ وہ بیوہ عورت کی طرح پہلے سے کسی خاوند کا کچھ دیکھے ہوئے تو ہوتی نہیں کہ انہیں کمی بیشی کا احساس ہو اور وہ اپنے شوہر سے زیادہ مال و اسباب کا مطالبہ کریں۔

【14】

نکاح کی ایک خصوصیت

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے شخص تو نے نکاح کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ہوگی جو دو محبت کرنیوالوں کے درمیان محبت کو زیادہ کرے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قراب کے بےپناہ محبت والفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہوں اس درجہ کی محبت والفت پیدا کر دے۔

【15】

آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی فضیلت

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اس بات کا خواہشمند ہو کہ وہ زنا کی نجاست سے پاکی کی حالت میں اور پاکیزہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہئے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔ تشریح اس کی وجہ عام طور پر آزاد عورتیں لونڈیوں کی بہ نسبت زیادہ پاک و پاکیزہ ہوتی ہیں اس لئے ان کی پاکیزگی مخالطت و مباشرت کے ذریعہ ان کی شوہروں میں سرایت کرتی ہے پھر یہ کہ آزاد عورتیں اپنی اولاد کو جو ادب وسلیقہ اور تہذیب سکھا سکتی ہیں وہ لونڈیوں کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ جب وہ خود بھی کمتر و پست حیثیت ہوتی ہیں تو اپنی اولاد کو ادب وتہذیب اور اخلاق سے کیسے مزین کرسکتی ہیں۔

【16】

نیک بخت بیوی کی خصوصیت

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مؤمن اللہ تعالیٰ کے تقوی کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لئے منتخب کرتا ہے وہ نیک بخت و خوب صورت بیوی ایسی بیوی کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر شوہر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے جب وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اپنے حسن اور پاکیزگی اور اپنی خوشی سلیقگی وپاک سیرتی سے) اس کا دل خوش کرتی ہے جب وہ اس کو قسم دیتا ہے تو اس قسم کو پورا کرتی ہے اور جب اس کا خاوند موجود نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کی بارے میں یہ خیرخواہی کرتی ہے کہ اس کو ضائع وخراب ہونے سے بچاتی ہے اور اس میں کوئی خیانت نہیں کرتی) مذکورہ بالا تینوں حدیثیں ابن ماجہ نے نقل کی ہیں۔ تشریح اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کو اور ممنوعات سے بچنے کو تقوی کہتے ہیں لہذا ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نیک و صالح بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور ممنوعات سے اجتناب کے بعد اپنی دینی اور دنیاوی بھلائی کے لئے جو سب سے بہتر چیز پسند کرتا ہے وہ نیک بخت وخوب صورت بیوی ہے۔ وہ اس کی تعمیل کرتی ہے، کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو گناہ و معصیت کا باعث نہیں ہوتیں یعنی وہ اپنے شوہر کی انہیں باتوں اور انہی احکام کی تعمیل کرتی ہے جو شریعت کے خلاف اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہیں ہوتے، یہ قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ شریعت کا یہ حکم ہے کہ مخلوق یعنی کسی شخص کا کوئی بھی ایسا حکم تعمیل نہ کرنا چاہئے جو خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق ہو۔ وہ اس کی قسم کو پورا کرتی ہے، کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش ومرضی پر اپنے شوہر کی خواہش ومرضی کو مقدم رکھتی ہے مثلا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اپنی خواہش کو چھوڑ کر وہ اپنے شوہر کی قسم ومرضی کے مطابق وہی کام کرتی ہے یا جب اس کا شوہر اس کو کسی ایسے کام کے نہ کرنی کی قسم دیتا ہے جو اس کی خواہش کے مطابق ہے تو وہ اپنی خواہش کی پرواہ کئے بغیر اپنے شوہر کی قسم ومرضی کی مطابق اس کام کو ترک کردیتی ہے۔

【17】

نکاح آدھا دین ہے

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس بندہ نے نکاح کیا اس نے اپنا آدھا دین پورا کرلیا اب اسے چاہئے کہ باقی آدھے کے بارے میں اللہ سے ڈرے۔ تشریح انسان کے جسم میں دو چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر دین میں فساد و نقصان کا سبب بنتی ہی یعنی شرمگاہ اور پیٹ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شخص نے نکاح کر کے شرمگاہ کے فتنہ و فساد سے نجات پائی تو اب اسے چاہئے کہ پیٹ کے فتنے و فساد کو دور کرنے کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے یعنی حلال کمائی اور حلال رزق ہی کے ذریعہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھرے تاکہ دین کی بھلائی پوری حاصل ہو۔

【18】

کون سا نکاح رکت ہے؟

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ بہت زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو محنت کے لحاظ سے آسان ہو یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔ تشریح محنت کے لحاظ سے آسان نکاح، سے مراد وہ نکاح ہے جس میں بیوی کا مہر کم ہو اور عورت زیادہ مال و اسباب اور حیثیت سے زیادہ ضروریات زندگی یعنی روٹی کپڑا طلب کر کے مرد کو پریشان نہ کرے بلکہ مشورہ کی طرف سے جو کچھ اور جیسا کیسا مل جائے برضا ورغبت اسی پر قانع رہے۔