93. منسوبہ کو دیکھنے اور جن اعضا کو چھپانا واجب ہے ان کا بیان

【1】

منسوبہ کو دیکھنے اور جن اعضاء کو چھپانا واجب ان کا بیان

مخطوبہ سے مراد وہ عورت ہے جس سے نکاح کا پیغام دیا گیا ہو عورت سے مراد جس کے وہ اعضاء ہیں جن جن کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ منسوبہ کو دیکھنے کا مسئلہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام شافعی حضرت امام احمد اور اکثر علماء کے نزدیک اپنی منسوبہ کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا جائز ہے خواہ منسوبہ اس بات کی اجازت دے یا نہ دے۔ حضرت امام مالک کے ہاں اپنی منسوبہ کو نکاح سے پہلے دیکھنا اسی صورت میں جائز ہے جب کہ اس کی اجازت حاصل ہو اس کی اجازت کے بغیر دیکھنا جائز نہیں ہے لیکن ایک روایت کے مطابق حضرت امام مالک کے ہاں منسوبہ کو دیکھنا مطلقا ممنوع ہے۔ اس بارے میں فقہی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ مرد اپنی منسوبہ کو دیکھنے کی بجائے کسی تجربہ کار اور معتمد عورت کو بھیج دے تاکہ وہ اس کی منسوبہ کو دیکھ کر مطلوبہ معلومات فراہم کر دے۔

【2】

اپنی منسوبہ کو دیکھ لینا مستحب ہے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں ایک انصاری عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو اس بارے میں آپ ﷺ کی کیا ہدایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس عورت کو دیکھ لو تو اچھا ہے کیونکہ بعض انصاریوں کی آنکھوں میں کچھ خرابی ہے ( مسلم) تشریح آپ ﷺ کی اس ہدایت کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ بعض انصاریوں کی آنکھ میں کچھ خرابی ہے جس سے طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ تم اپنی منسوبہ کو دیکھ کر یہ اطمینان کرلو کہ اس کی آنکھوں میں تو کوئی نقص نہیں ہے۔ علامہ نووی نے (فی اعین الانصار شیأ) کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ بعض انصاریوں کی آنکھیں کیری یا کرنجی ہوتی ہیں بہرکیف اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خیر خواہی کے نکتہ نظر سے کسی چیز کا عیب و نقصان بیان کردینا جائز ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح کا پیغام بھیجنے سے پہلے اپنی منسوبہ کو دیکھ کر مرد سے اس کے حالات بتادے نیز اس بارے میں مسئلہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اپنی منسوبہ کا صرف منہ اور اس کی ہتھیلیاں ہی دیکھنا مباح ہے اگرچہ جنسی ہیجان سے مامون نہ ہو کیونکہ اس کے لئے یہ دونوں اعضاء ستر کے حکم میں نہیں ہے۔

【3】

کسی عورت کے جسم کا حال اپنے شوہر سے بیان نہ کرو

اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی عورت اپنا برہنہ جسم کسی دوسری عورت کے برہنہ جسم سے نہ لگائے اور نہ اس عورت کے جسم کا حال اپنے خاوند کے سامنے بیان کرے ( کیونکہ اپنے خاوند کے سامنے کسی اجنبی عورت کے جسم کا حال بیان کرنا ایسا ہی ہے) جیسا کہ اس کا خاوند اس عورت کے جسم کو خود دیکھ رہا ہو ( بخاری ومسلم) تشریح کسی عورت کا اپنے جسم کو برہنہ کر کے کسی دوسری عورت کے برہنہ جسم سے مس کرنا اور پھر اس عورت کے جسم کی خصوصیات یعنی گداز پن وغیرہ اپنے شوہر کے سامنے بیان کرنا انتہائی معیوب بات ہے چناچہ آپ ﷺ نے اس سے عورتوں کو منع کیا ہے کیونکہ یہ نہ صرف بےشرمی کی بات اور غیر اخلاقی حرکت ہے بلکہ اس سے یہ بھی خطرہ ہے کہ اس کا خاوند کسی اجنبی عورت کے جسم کی پرکشش خصوصیات سن کر نفسانی ہیجان اور گندے خیالات میں مبتلا ہوجائے جو فتنہ و برائی کی جڑ ہے۔

【4】

عورتوں اور مردوں کے لئے چند ہدایات

اور حضرت ابوسعید راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی مرد کسی دوسرے مرد کے ستر کی طرف نہ دیکھے کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نہ دیکھے دو برہنہ مرد ایک کپڑے میں جمع نہ ہوں اور نہ دو برہنہ عورتیں ایک کپڑے میں جمع ہوں ( مسلم) تشریح شریعت نے مرد و عورت کے جسم کے جن حصوں اور اعضاء کو باہم دیکھنے اور چھونے کی ممانعت کی ہے ان کو ستر کہا جاتا ہے اور جسم کے ان حصوں کو عام نظروں سے چھپانا ڈھانکنا ضروری ہے اس بارے میں جو فقہی تفصیل ہے وہ اس طرح ہے کہ مرد کا ستر اس کے جسم کا وہ حصہ ہے جو زیرناف سے گھٹنوں کے نیچے تک ہوتا ہے اس کے جسم کے اس حصہ کو بلا ضرورت دیکھنا نہ تو کسی مرد کے لئے جائز ہے اور نہ کسی عورت کے لئے ہاں اس مرد کی بیوی یا لونڈی دیکھ سکتی ہے، مرد کے جسم کے اس حصہ کے علاوہ بقیہ حصوں کو دیکھنا مرد کے لئے بھی جائز ہے اور عورت کے لئے بھی بشرطیکہ عورت جنسی ہیجان سے مامون ہو اگر عورت جنسی ہیجان سے مامون نہ ہو تو پھر وہ غیر مرد کے جسم کے کسی بھی حصہ کو مطلقًا نہ دیکھے۔ اسی طرح عورت کا ستر عورت کے حق میں اس کے جسم کا زیر ناف سے زانوں تک کا حصہ ہے لہذا عورت کے جسم کے اس حصہ کو بلا ضرورت دیکھنا عورت کے لئے بھی جائز نہیں ہے جب کہ عورت کا ستر اجنبی مرد کے حق میں اس کا پورا جسم ہے، یعنی مرد کے لئے کسی اجنبی عورت کے جسم کے کسی بھی حصہ پر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے ہاں ایک روایت کے مطابق عورت کا چہرہ، اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر اس کے ستر میں داخل نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی اجنبی عورت کا ان اعضاء کا دیکھنا غیر مرد کے لئے جائز ہے بشرطیکہ وہ مرد جنسی ہیجان سے مامون ہو اگر جنسی ہیجان سے مامون نہ ہو تو پھر اس کے لئے ان اعضاء کا دیکھنا بھی جائز نہیں ہوگا۔ البتہ کسی خاص ضرورت کے وقت دیکھنا جائز ہوگا خواہ جنسی ہیجان سے مامون ہو یا مثلا گواہ کسی معاملہ میں گواہی کے وقت یا حاکم کسی معاملہ کے فیصلہ کے وقت ہر حالت میں ان اعضاء کو دیکھ سکتا ہے اسی طرح عورت کے ان اعضاء یعنی چہرہ اور ہاتھ پیر کو چھونا غیر مرد کے لئے جائز نہیں ہے اگرچہ وہ جنسی ہیجان سے مامون ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ عورت جوان ہو ہاں اگر عورت اتنی عمر رسیدہ ہو کہ نفسانی خواہش اس کی طرف مائل ہی نہ ہوتی ہو یا اتنا بڈھا ہو کہ خود بھی اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو اور اس عورت کے نفس کی طرف سے بھی مطمئن ہو تو اس صورت میں ان اعضاء کو چھونا جائز ہوگا۔ مرد کو اپنی بیوی کے جسم کا ہر حصہ دیکھنا جائز ہے اسی طرح اپنی اس لونڈی کا پورا جسم دیکھنا جائز ہے جس سے مجامعت حلال ہو۔ عورت کا ستر اس کے محرم کے حق میں اس کی پیٹھ، پیٹ اور زیرناف سے گھٹنوں کے نیچے تک کا حصہ ہے۔ لہذا کسی عورت کے جسم کے ان حصوں اور اعضاء کو دیکھنا اور چھونا اس کے محرم کے لئے جائز نہیں ہے اگرچہ وہ جنسی ہیجان سے مامون ہی کیوں نہ ہو چونکہ عورت کا سر چنڈلی بازو اور سینا اس کے محرم کے میں ستر نہیں ہے اس لئے ان اعضاء کو محرم دیکھ سکتا ہے بشرطیکہ جنسی ہیجان سے مامون ہو۔ مرد کے حق میں غیر کی لونڈی کا ستر اس کی محرمہ کے ستر کی مانند ہے یعنی پیٹھ، پیٹ اور زیر ناف سے گھٹنوں کے نیچے تک کا حصہ لہذا غیر کی لونڈی کے جسم کے ان حصوں اور اعضاء کو جو اس کے ستر کے حکم میں ہے دیکھنے اور چھونے کے بارے میں وہی تفصیل ہے جو اپنی محرمہ کے جسم کے مستور حصوں کو دیکھنے اور چھونے کی ہے۔ خوبصورت مرد کو نفسانی خواہش کے ساتھ دیکھنا یا اس کو ہاتھ لگانا حرام ہے کسی عورت کو اس سے نکاح کے ارادہ کے وقت یا کسی لونڈی کو اس کی خریداری کے وقت نفسانی خواہش کے خوف کے باوجود دیکھنا یا ہاتھ لگانا جائز ہے۔ غلام اپنی مالکہ یعنی مالک کی بیوی کے حق میں اجنبی مرد کی طرح ہے یعنی جس طرح اس کے لئے اجنبی مرد سے پردہ کرنا ضروری ہے اسی طرح غلام سے بھی پردہ کرنا چاہئے ایسے ہی ہیجڑا اور خواجہ سرا بھی مرد کی مانند ہے۔ علماء فقہ لکھتے ہیں کہ اجنبی عورت پر نظر ڈالنا حرام ہے خواہ یہ نظر ڈالنا نفسانی خواہش کے تحت ہو یا اس کے بغیر۔ دو برہنہ مرد ایک کپڑے میں جمع نہ ہوں کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ دو ننگے مردوں کا ایک کپڑے میں یکجا ہونا یا دو ننگی عورتوں کا ایک کپڑے میں اکٹھا ہونا اگرچہ بحسب عادت کسی برائی کا محل نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود یہ حرام اور مکروہ ہے کیونکہ یہ چیز بہرحال شرم وحیا کے منافی ہے۔

【5】

اجنبی عورت کے ساتھ خلوت گزینی کی ممانعت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خبردار کوئی مرد کسی ثیب عورت کے ساتھ شب نہ گزارے الاّ یہ کہ وہ مرد منکوح یعنی خاوند ہو یا محرم ہو ( مسلم ٩) تشریح یہاں رات گزرانے سے مراد تنہائی میں ملنا ہے لہذا اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مرد کسی اجنبی ثیب عورت کے ساتھ کسی جگہ تنہائی میں اکٹھا نہ ہو خواہ رات ہو یا دن ہو۔ ثیب اس عورت کو کہتے میں جس سے جماع ہوچکا ہو یا جو خاوند کرچکی ہو لیکن یہاں ثیب سے مراد جوان عورت ہے خواہ وہ کنواری ہو یا غیر کنواری ہو محرم سے مراد ہے جس سے نکاح کرنا ابدی طور پر ناجائز ہو جیسے بیٹا بھائی اور داماد وغیرہ اگرچہ یہ محرمیت دودھ کے رشتہ ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو۔ اور حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اجنبی عورتوں کے نزدیک جانے سے اجتناب کرو جبکہ وہ تنہائی میں ہوں یا ننگی کھلی بیٹھی ہوں ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! حمو کے بارے میں آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا خیال ہے ؟ کی ا ان کے لئے بھی یہ ممانعت ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ حمو تو موت ہے (بخاری ومسلم تشریح حمو شوہر کے قرابت داروں کو کہتے ہیں جیسے بھائی یعنی عورت کا دیور وغیرہ ہاں شوہر کا باپ اور شوہر کا بیٹا حمو میں داخل نہیں ہے۔ حمو تو موت ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت انسانی کی ظاہری اور دنیوی زندگی کو ہلاک کردیتی ہے اس طرح حمو کا تنہائی میں غیر محرم عورت کے پاس جانا اس کی دینی اور اخلاقی زندگی کو ہلاکت و تباہی کے راستہ پر ڈال دیتا ہے کیونکہ عام طور پر لوگ غیر محرم عورتوں کے ساتھ حمو کے خلط ملط کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے ان کے عورتوں کے پاس آتے جاتے رہنے اور ان کے ساتھ بےمحابا نشست و برخواست رکھنے کی وجہ سے ان کا کسی برائی میں مبتلا ہوجانا زیادہ مشکل نہیں رہتا اس کی وجہ سے فتنے سر ابھارتے ہیں اور نفس برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ جملہ الحمو الموت ( یعنی حمو تو موت ہے لفظ موت کا ذکر دراصل اس محاورہ کی بنیاد پر جو اہل عرب کے ہاں عام طور پر کسی خطرناک چیز سے خوف دلانے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اہل عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ شیر مرگ ہے یا بادشاہ آگ ہے۔ چناچہ ان جملوں کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ شیر کے قریب جانا موت کی آغوش میں چلا جانا ہے یا بادشاہ کی قربت آگ کی قربت کی مانند ہے لہذا ان سے بچنا چاہئے۔

【6】

معالج عورت کا جسم دیکھ سکتا ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ نے رسول کریم ﷺ سے سینگی کھچوانے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے حضرت ابوطیبہ کو سینگی کھینچنے کا حکم دیا حضرت جابر کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت ابوطیبہ کو سینگی کھینچنے کا حکم دینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت ام سلمہ کے دودھ شریک بھائی تھے یا ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے ( مسلم ٩ تشریح حضرت جابر کا اپنے گمان کا اظہار کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ام سلمہ کو سینگی کھچوانے کی ضروری حاجت نہیں تھی کیونکہ ضرورت کے وقت اجنبی مرد کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ کسی عورت کے سینگی کھینچے اور فصد کھولے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بھی معالج علاج معالجہ کے وقت عورت کے پورے جسم کو دیکھ سکتا ہے۔

【7】

کسی اجنبی عورت پر اچانک نظرپڑجانے کا مسئلہ

اور حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے کسی اجنبی عورت پر ناگہاں نظر پڑجانے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں اپنی نظر فورًا پھیر لوں (مسلم تشریح اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھتا نہ رہے بلکہ فورًا اپنی نظر پھیر لے اور پھر دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھے، کیونکہ پہلی نظر جو بلا قصد و ارادہ پڑی ہے معاف ہے مگر فی الفور نظر پھیرلینا چونکہ واجب ہے اس لئے پہلی نظر کے بعد اس عورت کی طرف دیکھتے رہنا گناہ کی بات ہے چناچہ قرآن کریم کی اس آیت میں بھی یہی حکم ہے آیت (قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ) ( 24 ۔ النور 30) مؤمنوں سے کہدیجئے کہ اپنی نظریں پست کریں، ، ہاں کسی ضرورت کے وقت مثلا نکاح وغیرہ کے لئے پہلی نظر کے بعد بھی دیکھنا جائز ہے اگر کسی عورت کے جسم کے کسی حصے پر زخم وغیرہ ہو یا فصد کھلوانی ہو اور یا جسم کا کوئی حصہ کسی مرض کی وجہ سے معالج کو دیکھنا ہو تو وہ اپنے جسم کے صرف اسی حصہ کو دکھائے جہاں زخم ہو یا جس جگہ فصد کھلوانی ہو اور یا جس حصہ کو دکھانا ضروری ہو اور جس کے باقی حصہ کو کپڑے سے چھپائے رکھے۔

【8】

کسی اجنبی عورت کو دیکھ کر برا خیال پیدا ہو تو بیوی کے پاس چلے جانا چاہئے

اور حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورت شیطان کی صورت میں آتی ہے اور شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ لہذا جب تم میں سے کسی کو کوئی اجنبی عورت اچھی لگے اور وہ اس کے دل میں گھر کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ وہ فورًا اپنی بیوی کے پاس چلا جائے اور اس سے مباشرت کرلے کیونکہ یہ مباشرت اس چیز کو ختم کر دے گی جو اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے ( یعنی جنسی خواہش (مسلم تشریح عورت شیطان کی صورت میں آتی ہے الخ یہ دراصل گندے خیالات، برے وسوسوں اور گمراہی میں مبتلا کرنے کے سلسلہ میں عورت کو شیطان کے ساتھ مشابہت دینے کا ایک اسلوب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شیطان انسانوں کے دل و دماغ میں برے خیالات ڈال کر گمراہ کرتا ہے اسی طرح عورت کا جمال مرد کی نظر کو اپنا اسیربنا کر اس کے دل کو بری خواہشات اور گندے خیالات کی گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے لہذا اجنبی عورت کو دیکھنا فتنہ و شر کا باعث بن جاتا ہے اس سے علماء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ عورت کو تو یہ چاہئے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے اور کسی ضرورت کے تحت باہر نکلے تو بناؤ سنگار کر کے نہ نکلے اور مرد کو یہ چاہئے کہ وہ اجنبی عورت کی طرف نہ دیکھے اور نہ اس کے کپڑوں کی طرف نظر کرے۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا جاتا ہے کہ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ مرد اپنی بیوی کو مباشرت کے لئے دن میں اپنے پاس بلا لے اگرچہ بیوی کسی ایسے کام میں مشغول ہو جس کو اس وقت چھوڑ دینا ممکن ہو کیونکہ بسا اوقات مرد پر جنسی ہیجان کا غلبہ ہوتا ہے کہ مباشرت میں تاخیر اس کے دل میں اور دماغ میں یا جسم کی کسی تکلیف ومرض کا باعث بن جاتی ہے۔

【9】

اپنی منسوبہ کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا مستحب ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ نکاح کا پیغام بھیجے تو اگر وہ اس عورت کے ان اعضاء کو دیکھنے پر قادر ہو جو اس کو نکاح کی رغبت دلاتے ہیں (یعنی ہاتھ اور چہرہ تو ایک نظر دیکھ لے ( ابوداؤد) تشریح جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ اپنی منسوبہ کو نکاح کا پیغام بھیجنے سے پہلے ایک نظر دیکھ لینا مستحب ہے کیونکہ اگر وہ عورت پسند آگئی اور طبیعت کو بھا گئی تو اس نکاح کے بعد وہ اس عورت کیوجہ سے بدکاری سے بچا رہے گا جو نکاح کا اصل مقصود ہے اس موقع پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ایک موقع پر جو یہ فرمایا گیا ہے کہ کسی عورت سے اس کے حسن و جمال کی وجہ سے نکاح نہ کیا جائے تو اس حکم کا یہ مقصد نہیں ہے کہ حسن و جمال کو ملحوظ ہی نہ رکھا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی حسین و جمیل عورت سے نکاح کرنے میں کوئی دینی نقصان و فساد ہو تو اس دینی نقصان کوتاہی سے بالکل صرف نظر کر کے اس سے محض اس بناء پر نکاح نہ کیا جائے کہ وہ حسن و جمال کی حامل ہے۔ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کا ارادہ کیا تو رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم نے اس عورت کو دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس عورت کو ایک نظر دیکھ لو کیونکہ دیکھ لینا بہت مناسب و بہتر ہے ( احمد ترمذی نسائی (ابن ماجہ دارمی) تشریح یعنی اگر تم اپنی منسوبہ کو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد اس سے نکاح کرو گے تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت، الفت بہت زیادہ ہوگی کیونکہ جب منسوبہ کو دیکھ لینے کے بعد نکاح ہوتا ہے تو عام طور پر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا اور نہ اپنے اس انتخاب پر کوئی شرمندگی و پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔

【10】

کسی اجنبی عورت پر نظرپڑجائے تو فورا اپنی بیوی سے تسکین حاصل کرلو

اور حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کی نظر ایک عورت پر پڑی تو وہ آپ ﷺ کو اچھی لگی چناچہ آپ ﷺ فورًا ام المؤمنین حضرت سودہ کے پاس تشریف لائے وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور چند عورتیں ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ان عورتوں نے خلوت کردی (یعنی حضرت سودہ کے پاس سے اٹھ کر باہر آگئیں) پھر آپ ﷺ نے اپنی ضرورت پوری کی (یعنی حضرت سودہ سے مجامعت فرمائی) اور فرمایا کہ جس مرد کی کسی ایسی عورت پر نظرپڑ جائے جو اسے اچھی لگے تو اسے چاہئے کہ وہ فورًا اپنی بیوی کے پاس چلا جائے اور اس کے ذریعہ جنسی تسکین حاصل کرلے تاکہ اس کی جنسی خواہش پوری ہوجائے اور برے خیالات میں مبتلا نہ ہو کیونکہ اس کی بیوی کے پاس بھی وہی چیز ہے جو اس عورت کے پاس ہے ( دارمی) تشریح اس عورت پر آنحضرت کی نظر پڑجانا ایک اتفاقی امر تھا جس پر کوئی اختیار نہیں تھا اور پھر اس عورت کا آپ ﷺ کی نظر میں اچھا لگنا انسانی طبیعت وجبلت کا تقاضا تھا جو ایک فطری امر ہے۔

【11】

عورت بیگانی نظروں سے چھپنے کی چیز ہے

اور حضرت ابن مسعود راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے چناچہ جب کوئی عورت اپنے پردہ سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو مردوں کی نظر میں اچھا کر کے دکھاتا ہے ( ترمذی) تشریح المرأۃ عورۃ۔ کا لفظی ترجمہ ہے عورت ستر ہے یعنی جس طرح ستر (شرمگاہ) کو عام نظروں سے چھپاتی ہے اسی طرح عورت بھی ایک ایسی چیز ہے جس کو بیگانے مرد کی نظروں سے چھپ کر پردہ میں رہنا چاہئے اور جس طرح سب کے سامنے ستر کو کھولنا ایک برا فعل سمجھا جاتا ہے اسی طرح عورت کا بھی لوگوں کے سامنے آنا برا ہے۔

【12】

کسی عورت پر اتفاقی نظر پڑجانے کے بعد دوسری نظر ڈالنا جائز نہیں ہے

اور حضرت بریدہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ علی نظر پڑجانے کے بعد پھر نظر نہ ڈالو (یعنی اگر کسی عورت پر ناگہاں ظر پڑجائے تو پھر اس کے بعد دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو) کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر تو جائز ہے ( جبکہ اس میں قصد و ارادہ کو قطعًا داخل نہ ہو) مگر دوسری نظر جائز نہیں ہے ( احمد ترمذی ابوداؤد دارمی)

【13】

اپنی لونڈی کا نکاح کردینے کے بعد اسے اپنے لئے حرام سمجھو

اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کر دے تو پھر اس لونڈی کی شرمگاہ کو نہ دیکھو کیونکہ نکاح کے بعد وہ اپنے آقا کے لئے حرام ہوجاتی ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو وہ اس لونڈی کے جسم کے اس حصہ کو نہ دیکھے جو ناف کے نیچے سے زانو کے اوپر تک ہے ( ابوداؤد) تشریح جب اپنے غلام کے ساتھ نکاح کردینے کی صورت میں یہ حکم ہے تو پھر کسی دوسرے کے غلام کے ساتھ اپنی لونڈی کا نکاح کردینے کی صورت میں یہ حکم بطریق اولی ہوگا کہ اس لونڈی کو اپنے لئے بالکل حرام سمجھا جائے۔ لہذا اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جب اس لونڈی کو بیاہ دیا جائے تو پھر اس کے جسم کی اس حد کو دیکھنا حرام ہوگا جو ناف اور زانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ اس بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ بیاہ ہوجانے کے بعد لونڈی اپنے آقا کے حق میں کسی غیر کی لونڈی کی مانند ہوجاتی ہے اور غیر کی لونڈی کے جسم کے مستور حصہ کی تفصیل اور اس کا حکم پیچھے حضرت ابوسعد کی روایت کی تشریح میں گزر چکا ہے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ بیاہ ہوجانے کے بعد لونڈی کا سر عین اس کے جسم کا مستور حصہ) مرد کے ستر کی مانند ہے دونوں کے دلائل فقہ کی بڑی کتابوں میں مذکور ہیں۔

【14】

ران، جسم کا مستور حصہ ہے

اور حضرت جرہد کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ ران ستر ہے ( یعنی ران جسم کا وہ حصہ ہے جسے چھپا ہوا ہونا چاہئے ( ترمذی ابوداؤد) تشریح کتاب اسد الغابہ۔ میں یہ لکھا ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ مسجد میں حضرت جرہد کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ ان کی ران کھلی ہوئی ہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی ران ڈھانک لو کیونکہ ران ستر ہے۔ لہذا یہ ارشاد گرامی ان علماء کے مسلک کے خلاف دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ران ستر نہیں ہے، چناچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ان کے نزدیک ران ستر میں داخل نہیں ہے۔ اور حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ علی اپنی ران کو لوگوں کے سامنے مت کھو لو اور نہ زندہ شخص کی ران دیکھو اور نہ مردے کی ران دیکھو ( ابوداؤد ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ستر کے حکم میں زندہ اور مردہ دونوں برابر ہیں یعنی جس طرح زندہ شخص کے جسم کے ان حصوں کو دیکھنا ممنوع ہے جن کا چھپانا جانا شرعی طور پر ضروری ہے اسی طرح مردہ کے جسم کے ان حصوں کو دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ اور حضرت محمد بن جحش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ حضرت معمر کے پاس سے اس حال میں گزرے کہ ان کی دونوں رانیں کھلی ہوئی تھیں چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ معمر اپنی رانوں کو چھپالو کیونکہ ران ستر ہے ( شرح السنۃ)

【15】

بغیر ضرورت تنہائی میں بھی ستر کھولنا اچھا نہیں ہے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم برہنہ ہونے سے اجتناب کرو اگرچہ تنہائی کیوں نہ ہو) کیونکہ پاخانہ اور اپنی بیوی سے مجامعت کے اوقات کے علاوہ تمہارے ساتھ ہر وقت وہ فرشتے ہوتے ہیں جو تمہارے اعمال لکھنے پر مامور ہیں لہذا تم ان فرشتوں سے حیاء کرو اور ان کی تعظیم کرو ( ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ تم ہر وقت اپنے ستر کو چھپائے رکھو اچھے کام کرتے رہو اور بری باتوں اور فحش اعمال سے اجتناب کرتے رہو تاکہ ان فرشتوں کی شان میں حیاء سوزی نہ ہو و اور ان کی تعظیم و تکریم میں کوئی فرق نہ آئے ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ضررت مثلا مجامعت یا رفع حاجت وغیرہ کے علاوہ ستر کو کھولنا جائز نہیں ہے کیونکہ بڑی بےشرمی اور بےغیرتی کی بات ہے۔

【16】

عورت، مرد کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں؟

اور حضرت ام المؤمنین ام سلمہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رسول کریم ﷺ کے پاس موجود تھیں کہ اچانک ابن ام مکتوم جو ایک نابینا صحابی تھے آگئے، آنحضرت ﷺ نے ابن ام مکتوم کو دیکھ کر ان دونوں ازواج مطہرات سے فرمایا کہ ان سے چھپ جاؤ ام سلمہ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ حکم سن کر میں نے عرض کیا کہ کیا وہ نابینا نہیں ہے ؟ وہ ہمیں نہیں دیکھ سکتے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی اندھی ہو ؟ کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو یعنی اگر وہ اندھے ہیں تو تم تو اندھی نہیں ہو) احمد، ترمذی، ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مرد کا اجنبی یعنی غیرمحرم عورت کو دیکھنا حرام ہے اسی طرح عورت کا اجنبی مرد کو دیکھنا بھی حرام ہے لیکن علماء یہ لکھتے ہیں کہ یہ تو یہ ارشاد گرامی ورع اور تقوی پر محمول ہے یا یہ کہ اس سے آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ عورت مرد کو بطور اختلاط نہ دیکھے یعنی ایسا ہونا چاہئے کہ دو اجنبی مرد و عورت ایک جگہ باہم ہوں اور دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کریں اور عورت مرد کو شوق ودل چسپی کے ساتھ غور سے دیکھے، چناچہ اس بارے میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے۔ لیکن ناف سے زانوں تک کے حصہ پر نظر ڈالنا جائز نہیں ہے اس مسئلہ کی دلیل میں حضرت عائشہ کا یہ قول ہے کہ جب حبشی نیزہ بازی کر رہے تھے تو میں ان کو دیکھ رہی تھی حضرت عائشہ کی حبشیوں کو دیکھنا ٩ ھ کی بات ہے جب کہ حضرت عائشہ کی عمر ١٦ سال کی تھی اور پردہ کا حکم نافذ ہوچکا تھا لہذا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا مرد کو دیکھنا جائز ہے علاوہ اس کے جسم کے اس مذکورہ حصہ کے جو ستر میں داخل ہے لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اجازت اس صورت میں ہے جب کہ جنسی خواہش سے مامون ہو اگر جنسی خواہش سے مامون نہ ہو تو پھر مرد کو بالکل نہ دیکھے۔

【17】

خلوت میں بھی اپنا ستر چھپائے رکھو

اور حضرت بہز بن حکیم اپنے والد حضرت حکیم سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن حیدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنا ستر چھپائے رکھو علاوہ اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے (کہ ان کے سامنے اپنا ستر چھپانا ضروری نہیں ہے) حضرت معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے بتائیے کہ آدمی جب خلوت تنہائی میں ہو تو کیا وہاں بھی اپنا ستر چھپائے رکھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لائق تر ہے کہ اس سے شرم کی جائے (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح آپ ﷺ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ خلوت میں اگرچہ کوئی موجود نہیں ہوتا لیکن اس وقت بھی اپنا ستر کھولنا مناسب نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ تو بہرصورت دیکھتا ہے جو انسانوں سے زیادہ اس بات کا لائق ہے کہ اس سے شرم و حیاء کی جائے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ خلوت میں بھی ستر کو چھپائے رکھنا واجب ہے ہاں کسی ضرورت کی بناء پر کھولنا جائز ہے۔ حدیث میں ستر کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں بیوی اور لونڈی کا جو استثناء کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے سامنے اپنا ستر چھپانا ضروری نہیں ہے تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ملک اور نکاح جانبین یعنی مرد و عورت کے لئے ایک دوسرے کے ستر کی طرف دیکھنے کو مباح کردیتے ہیں۔

【18】

اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہو

اور حضرت عمر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب بھی کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں یک جا ہوتا ہے تو وہاں ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ( ترمذی) تشریح جب دو اجنبی مرد و عورت کہیں خلوت میں جمع ہوتے ہیں تو وہاں شیطان فورًا پہنچ جاتا ہے جو ان دونوں کے جنسی جذبات کو برانگیختہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ان پر جنسی ہیجان کا غلبہ ہوجاتا ہے اور وہ بدرکای میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تم کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں یکجا ہونے کا کوئی موقع ہی نہ آنے دو کہ شیطان تمہارے درمیان آجائے اور تمہیں برائی کے راستہ پر لگا دے۔ اور حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ان عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جاؤ جن کے خاوند موجود نہ ہوں کیونکہ تہارے جسموں میں خون دوڑنے کی جگہ شیطان دوڑتا رہتا ہے یعنی شطیان کا بہکاوا اور اس کا تصرف انسان کے تمام رگ و پوست میں سرایت کرتا ہے ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا شیطان آپ ﷺ کے جسم میں بھی دوڑتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میرے جسم میں بھی دوڑتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے شیطان کے مقابلہ پر میری اعانت فرمائی ہے چناچہ میں اس سے محفوظ رہتا ہوں (ترمذی) تشریح یوں تو کسی غیرمحرم عورت کے پاس تنہائی میں جانا اس کے ساتھ اختلاط رکھنا ممنوع ہے لیکن اس حدیث میں ان عورتوں کا کہ جن کے خاوند گھر پر موجود نہ ہوں مثلًا باہر سفر میں گئے ہوں خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر شادی کے بعد چونکہ عورتوں کے جنسی جذبات بیدار ہوجاتے ہیں اور ان پر نفسانی خواہش کا غلبہ رہتا ہے اس لئے ان کے خاوند کی غیر موجودگی میں ان کے پاس تنہائی میں غیرمحرم مرد کا جانا برائی میں مبتلا ہوجانے کے بہت زیادہ احتمال رکھتا ہے۔ لفظ مجری الدم کا ترجمہ حضرت شیخ عبد الحق دہلوی نے خون دوڑنے کی جگہ یعنی رگ کیا ہے جیسا کہ یہاں نقل کیا گیا ہے لیکن ملا علی قاری نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ تمہارے اندر شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح تمہاری رگوں میں خون دوڑتا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا، ، یعنی جس طرح تمہاری رگوں میں خون دوڑتا رہتا ہے اور تم اسے دیکھ نہیں پاتے ایسے ہی تم پر شیطان اس طرح مسلط اور چھپا ہوا ہے کہ باوجودیکہ وہ تم پر اپنا تصرف کرتا رہتا ہے لیکن تم اسے دیکھ نہیں پاتے مآل کار اور نتیجہ کے اعتبار سے دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ لفظ اسلم مضارع متکلم کے صیغہ کے ساتھ منقول ہے اور بعض روایتوں میں صیغہ ماضی کے ساتھ بھی نقل ہوا ہے اور یہ دونوں صحیح ہیں چناچہ مضارع متکلم کا ترجمہ تو وہی ہے جو یہاں نقل کیا گیا اور اگر اسے صیغہ ماضی کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے مقابلہ پر میری اعانت فرمائی ہے چونکہ وہ شیطان میرے حق میں مسلمان یعنی مطیع و مغلوب ہوگیا ہے۔

【19】

غلام، اپنی مالکہ کے حق میں اجنبی مرد کی طرح ہے

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے اس وقت حضرت فاطمہ کی خدمت میں وہ غلام بھی موجود تھا جو ان کو آنحضرت ﷺ نے عطا کیا تھا اور حضرت فاطمہ کے جسم پر ایک ایسا چھوٹا کپڑا تھا کہ جب وہ اس سے اپنے سر کو چھپاتیں تو پاؤں کھل جاتے اور جب اس سے اپنے پاؤں کو چھپاتیں تو ان کا سر کھلا رہ جاتا تھا، چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت فاطمہ کو اس پریشانی میں دیکھا کہ وہ شرم وحیاء کی وجہ سے اپنے پورے جسم کو چھپانے کی غیر معمولی کوشش میں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں تو فرمایا کہ فاطمہ اتنا کیوں پریشان ہوتی ہو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ جس سے تم اتنا شرما رہی ہو وہ کوئی غیر نہیں ہے بلکہ تمہارا باپ ہے یا تمہارا غلام۔ ( ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے حضرت امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کا غلام اس کا محرم ہے یعنی پردہ وغیرہ کے بارے میں جو محرم کا حکم ہے وہی اس کے غلام کا ہے جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک غلام اپنی مالکہ کے حق میں اجنبی مرد کی طرح ہوتا ہے لہذا غلام کے لئے اپنی مالکہ کے جسم کے صرف انہی حصوں کی طرف نظر اٹھانا جائز ہے جن حصوں کی طرف ایک اجنبی مرد نظر اٹھا سکتا ہے یعنی چہرہ اور ہاتھ پاؤں۔ حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کے بارے میں حضرت امام شافعی کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ حضرت امام شافعی جو بات کہتے ہیں وہ اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ غلام جو حضرت فاطمہ کے پاس تھا اس وقت نابالغ ہو۔

【20】

عورتوں میں مخنث کے آنے کی ممانعت

ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ ان کے پاس تشریف فرما تھے اور گھر میں ایک مخنث بھی موجود تھا وہ مخنث حضرت عبداللہ بن امیہ سے کہ جو حضرت ام سلمہ کے بھائی تھے کہنے لگا کہ عبداللہ اگر اللہ تعالیٰ نے کل آپ لوگوں کو طائف پر فتح بخشی تو میں آپ کو غیلان کی بیٹی دکھلاؤں گا جو چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ جاتی ہے رسول کریم ﷺ نے جب اس مخنث کی بات سنی تو فرمایا کہ یہ مخنث تمہارے پاس نہ آیا کریں ( بخاری ومسلم) تشریح لفظ مخنث نون کے زیر کے ساتھ یعنی مخنث بھی لکھا پڑا جاتا ہے اور نون کے زبر کے ساتھ مخنث بھی استعمال ہوتا ہے لیکن زیادہ صحیح زیر کے ساتھ یعنی مخنث ہی ہے جب کہ مشہور زبر کے ساتھ یعنی عام طور پر مخنث لکھا پڑھا جاتا ہے مخنث اس شخص کو کہتے ہیں جو عادات واطوار بول چال اور حرکات و سکنات میں عورتوں کے مشابہ ہو جس کو ہمارے ہاں زنانہ اور زنخا کہتے ہیں۔ یہ مشابہت کبھی تو خلقی طور پر ہوتی ہے اور کبھی مصنوعی طور پر اختیار کی جاتی ہے خلقی طور پر جو مشابہت ہوتی ہے اس میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ ایک قدرتی چیز ہوتی ہے جس میں انسانی اختیار کو دخل نہیں ہوتا۔ ہاں جو مشابہت مصنوعی ہوتی ہے کہ بعض مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کرلیتے ہیں اور اپنے رہن سہن عادات واطوار اور بول چال میں اپنے آپ کو بالکل عورت ظاہر کرتے ہیں یہ بہت برائی اور گناہ کی بات ہے ایسے لوگ لعنت کے مستحق ہیں کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ان عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو جو مردوں کے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ یہاں حدیث میں جس مخنث کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام ہئیت تھا بعض نے اس کا نام ماطع لکھا ہے اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ پہلے آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں آیا جایا کرتا تھا کیونکہ ازواج مطہرات کا یہ گمان تھا کہ یہ خلقی طور پر اوصاف مردانگی سے عاری اور جذبات نفسانی سے خالی ہے اسے عورتوں کی طرف نہ کوئی رغبت و حاجت ہے اور نہ جنسیات سے اسے کوئی دلچسپی ہے بلکہ یہ آیت (غیر اولی الاربۃ) میں سے ہے جن کا ذکر قرآن مجید نے کیا ہے اور کہا ہے کہ ان سے پردہ کرنا عورتوں کے لئے واجب نہیں ہے مگر جب آنحضرت ﷺ نے اس کی یہ بات سنی جو جنسی معاملات میں اس کی دلچسپی کی مظہر تھی تو آپ ﷺ کو اندازہ ہوگیا کہ مخنث آیت (غیر اولی الاربۃ) میں سے نہیں ہے بلکہ اولی الاربۃ میں سے ہیں اور جنسیات کی طرف خواہش ورغبت رکھتے ہیں لہذا آپ ﷺ نے فورا منع کردیا کہ اب مخنث گھروں میں داخل نہ ہوا کریں اور عورتوں کے پاس آیا جایا نہ کریں۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ مخنث کے لئے گھروں میں داخل ہونے اور عورتوں کے پاس آنے جانے کی ممانعت ہے بلکہ خصی اور مجبوب کا بھی یہی حکم ہے اور پردہ وغیرہ کے سلسلہ میں تینوں ان مردوں کی مانند ہیں جن سے پردہ کرنا عورتوں پر واجب ہے۔ جو چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ جاتی ہے اس بات سے اس مخنث کا مقصد غیلان کی بیٹی تھی کہ جس کا نام بادیہ تھا کہ فربہی و تنومدی کو بیان کرنا تھا کیونکہ عام طور پر جس شخص کا جسم فربہ ہوتا ہے اس کے پیٹ پر چار شکن پڑے ہوتے ہیں جو سامنے سے چار ہی نظر آتے ہیں مگر پیچھے سے دیکھنے پر وہ آٹھ نظر آتے ہیں بایں طور کہ ان چاروں شکنوں کے سرے دونووں پہلوں کی طرف نمایاں ہوتے ہیں لہذا مخنث نے جو یہ بات کہی تو اس کی مراد یہی تھی کہ غیلان کی بیٹی جب آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار شکن نظر آتے ہیں اور جب وہ پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو پیچھے آٹھ شکن معلوم ہوتے ہیں جو دراصل پیٹ کے ان چاروں شکنوں کے وہ دونوں طرف کے سرے ہوتے ہیں جو دونوں پہلوں کی طرف نمایاں ہوتے ہیں حاصل یہ ہے کہ عرب کے لوگ چونکہ فربہ جسم والی عورتوں کی طرف زیادہ میلان رکھتے تھے اس لئے اس مخنث نے غیلان کی بیٹی کی فربہی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ طرز تعبیرا اختیار کیا۔

【21】

برہنگی کی ممانعت

اور حضرت مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ ایک دن اپنی کسی ضرورت کے تحت میں نے ایک بڑا بھاری پتھر اٹھایا اور اسے لے کر چلا تو راستہ میں میرا کپڑا یعنی تہبند میرے بدن سے گرپڑا جس کی وجہ سے میرا ستر کھل گیا مگر میں بوجھ کی وجہ سے فوری طور پر اپنے کپڑے کو اٹھا نہیں سکا اور اسی دوران رسول کریم ﷺ نے مجھے برہنگی کی حالت میں دیکھ لیا چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فورا اپنا کپڑا اٹھاؤ اور ستر پوشی کرو اور پھر آپ ﷺ نے یہ عام حکم دیا کہ ننگے نہ چلا کرو (مسلم)

【22】

شرم وحیا کا انتہائی درجہ

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ستر کی طرف کبھی نظر نہیں اٹھائی یا یہ فرمایا کہ میں نے آپ ﷺ کا ستر کبھی نہیں دیکھا ( ابن ماجہ) تشریح حرف او دراصل راوی کے اس شک کو ظاہر کرتا ہے کہ روایت میں (ما نظرت) میں نے کبھی نظر نہیں اٹھائی کے الفاظ ہیں یا (ما رایت) میں نے کبھی نہیں دیکھا کے الفاظ نقل ہوئے ہیں بہرحال ان دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ان کے مفہوم و مطلب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک روایت میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ ہیں کہ نہ تو آنحضرت ﷺ نے میرا ستر کبھی دیکھا اور نہ کبھی میں نے آنحضرت ﷺ کا ستر دیکھا۔ ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ اگرچہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا ستر دیکھ سکتے ہیں لیکن آداب زندگی اور شرم وحیا کا انتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہر اور بیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کا ستر نہ دیکھیں۔

【23】

حسین عورت کی طرف اچانک نظر اٹھ جانے کے بد پھر فوا اپنی نظرپھیرلینے کا اجر

اور حضرت ابوامامہ نبی کریم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کی نظر پہلی مرتبہ (بلا قصدوارادہ) کسی عورت کے حسن و جمال کی طرف اٹھ جائے اور پھر فورًا اپنی نظر پھیر لینے کا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک عبادت پیدا کر دے گا جس سے وہ شخص لذت حاصل کرے گا ( احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے چونکہ اپنے رب کی فرمانبرداری میں ایک حسن و جمال کی طرف اٹھی ہوئی نظر کو فورًا پھیرلیا اور اس طرح اس نے گویا اپنے جما لیاتی ذوق کو تسکین پہنچانے کی بجائے اپنے پروردگار کے حکم کے سامنے اپنے نفس کی خواہش کو پامال کردیا اس لئے حق تعالیٰ اس کے اس فعل (نظر پھیر لینے) کو ایسی عبادت میں تبدیل کر دے گا جس کی وجہ سے وہ اپنے قلب و دماغ میں حکم الٰہی کی تعمیل کے نتیجہ میں حاصل ہونیوالے مخصوص سکون قلب کی لذت محسوس کرے گا اور یہ لذت دراصل اس تلخی کا بدلہ ہوگی جو اس نے اپنے نفس کی خواہش پر صبر و ضبط کر کے برداشت کی تھی۔

【24】

ممنوع النظرچیز کی طرف قصدا دیکھنے والے کے لئے وعید

اور حضرت حسن بصری نے بطریق ارسال روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے صحابہ سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص پر کہ جس نے (بلا عذر و بغیر اضطرار) دیکھا اور اس پر کہ جس کو دیکھا گیا اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو (بیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس شخص پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو اس چیز کی طرف قصد و ارادہ دیکھے جس کو دیکھنا جائز نہیں ہے وہ چیز خواہ کوئی اجنبی عورت ہو یا کسی کا ستر ہو یا اور کوئی ممنوع النظر چیز ہو۔ اسی طرح اس کو بھی مستحق لعنت قرار دیا گیا ہے جس کو دیکھا جائے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس نے بغیر عذر اور اضطرار کے قصدًا اپنے آپ کو دکھایا ہو مثلًا کوئی عورت اپنے اپ کو قصدًا کسی اجنبی مرد کو دکھائے تو اس صورت میں وہ بھی اس لعنت میں داخل ہوگی ہاں اگر کسی عورت کو کسی اجنبی مرد نے اس طرح دیکھا کہ اس میں اس عورت کے قصد و ارادہ کو قطعًا دخل نہ ہو تو وہ بھی اس لعنت کا مورد نہیں بنے گی۔