94. نکاح کے ولی اور عورت سے نکاح کی اجازت لینے کا بیان

【1】

نکاح کے ولی اور عورت سے نکاح کی اجازت لینے کا بیان

ولی لغوی طور پر کا رساز منتظم کو کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو کسی کام کا منتظم ہو لیکن یہاں ولی سے مراد وہ شخص ہے جو کسی عورت کے نکاح کا متولی و ذمہ دار ہوتا ہے، بایں طور کہ اس عورت کے نکاح کا اختیار اسے حاصل ہوتا ہے۔ اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ معلوم ہوگا کہ نکاح کے بارے میں ولی کی اجازت کا حاصل ہونا اور عورت کی رضا معلوم کرنا ضروری ہے۔ اس موقع پر یہ بتادینا ضروری ہے کہ ولایت یعنی کسی کے ولی ہونے کا حق کن کن لوگوں کو حاصل ہے چناچہ جاننا چاہئے کہ نکاح کے سلسلہ میں ولایت کے اختیار اس کے ان رشتہ دار کو حاصل ہوتے ہیں جو عصبہ بنفسہ ہوں اگر کئی عصبات بنفسہ ہوں تو ان میں مقدم وہ ہوگا جو وراثت میں مقدم ہو گویا اس بارے میں عصبات کی وہ ترتیب رہے گی جو وراثت میں ہوتی ہے اگر عصبات بنفسہ میں کوئی نہ ہو تو ماں کو ولایت حاصل ہوگی پھر دادی کو ( قنیہ میں اس کے برعکس ترتیب مذکور ہے) پھر بیٹی کو پھر پوتی کو پھر نواسی کو پھر پوتے کی بیٹی کو اور اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر نانا کو ولایت حاصل ہوگی پھر حقیقی بہن کو پھر سوتیلی بہن کو پھر ماں کی اولاد کو ( خواہ مرد یا عورت ہوں) پھر اسی ترتیب کے مطابق ان کی اولاد کو اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو پھر ذوی الارحام کو حاصل ہوگی ذوی الارحام میں سب سے پہلے پھوپھیاں ولی ہوں گی ان کے بعد ماموں ان کے بعد خالائیں ان کے بعد چچا کی بیٹیاں اور ان کے بعد اسی ترتیب کے مطابق ان کی اولاد اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو حق ولایت مولیٰ الموالات کو حاصل ہوگا مولیٰ الموالات کے معنی باب الفرائض میں بیان ہوچکے ہیں) اگر مولیٰ الموالات بھی نہ ہو تو پھر بادشاہ وقت ولی ہوگا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو اس کے بعد بادشاہ وقت کا کوئی نائب مثلًا قاضی بھی ولی ہوسکتا ہے بشرطیکہ بادشاہ کی طرف سے اس کو یہ اختیار دیا گیا ہو اس کے بعد قاضی کے نائبوں کو حق ولایت حاصل ہوگا بشرطیکہ اپنا نائب بنانے کی اجازت واختیار قاضی کو حاصل ہو اگر قاضی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہوگی تو پھر اس کا کوئی بھی نائب ولی نہیں ہو سکے گا۔ ولایت کا حق حاصل ہونے کے لئے آزاد ہونا عاقل ہونا بالغ ہونا اور مسلمان ہونا شرط ہے لہذا کوئی غلام کسی کا ولی نہیں ہوسکتا کوئی نابالغ کسی کا ولی نہیں ہوسکتا، کوئی دیوانہ کسی کا ولی نہیں ہوسکتا اور پاگل کسی کا ولی نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی کافر کسی مسلمان کا ولی ہوسکتا ہے، اسی طرح کوئی مسلمان بھی کی کافر کا ولی نہیں ہوسکتا الاّ یہ کہ عام سبب پایا جائے جیسے کوئی مسلمان کسی کافرہ لونڈی کا آقا ہو یا مسلمان بادشاہ یا بادشاہ کا نائب ہو تو اس صورت میں مسلمان کافر کا ولی ہوسکتا ہے۔

【2】

نکاح سے پہلے عورت کی اجازت حاصل کرلینی چاہئے

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایم (یعنی بیوہ بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے اسی طرح کنواری عورت (یعنی کنواری بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس کنواری عورت کی اجازت کیسے حاصل ہوگی ( کیونکہ کنواری عورت تو بہت شرم وحیا کرتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح کہ وہ چپکی رہے یعنی کوئی کنواری عورت اپنے نکاح کی اجات مانگے جانے پر اگر بسب شرم و حیاء زبان سے ہاں نہ کرے بلکہ خاموش رہے تو اس کی یہ خاموشی بھی اس کی اجازت سمجھی جائے گی ( بخاری ومسلم) تشریح ایم اس عورت کو کہتے ہیں جس کا خاوند نہ ہو خواہ وہ باکرہ ہو (پہلے کبھی اس کی شادی نہ ہوئی ہو) خواہ ثیب ہو کہ پہلے اس کی شادی ہوچکی ہو اور پھر یا تو اس کا خاوند مرگیا ہو یا اس نے طلاق دیدی ہو) لیکن یہاں ایم سے مراد ثیب بالغہ ہے یعنی وہ عورت جو بالغہ ہو اور اس کا پہلا شوہر یا تو مرگیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو۔ عورت سے اس کے نکاح کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں حدیث نے باکرہ کنواری اور ثیب بیوہ کا ذکر اس فرق کے ساتھ کیا ہے کہ ثیب کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا کہ جب تک اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے اور باکرہ کے بارے میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے لہذا حکم اور اجازت کا یہ فرق اس لئے ظاہر کیا گیا ہے کہ ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں زیادہ شرم و حیاء نہیں کرتی بلکہ وہ خود کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے یا کم سے کم صریح اشارات کے ذریعہ اپنی خواہش کا ازخود اظہار کردیتی ہے اور اس بارے میں کوئی خاص جھجک نہیں ہوتی اس کے برخلاف باکرہ یعنی کنواری عورت چونکہ بہت زیادہ شرم و حیاء کرتی ہے اس لئے وہ نہ تو کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے اور نہ صریح اشارات کے ذریعہ ہی اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے ہاں جب اس کے نکاح کی اجازت اس سے لی جائے تو وہ اپنی رضا مندی و اجازت دیتی ہے بلکہ زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ طلب اجازت کے وقت وہ زبان سے اجازت دینا بھی شرم کے خلاف سمجھتی ہے اور اپنی خاموشی و سکوت کے ذریعہ ہی اپنی رضا مندی کا اظہار کردیتی ہے۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حکم یا اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہوتا لیکن فقہاء کے یہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ تمام عورتوں کی چار قسمیں ہیں اول ثیب بالغہ یعنی وہ بیوہ عورت جو بالغ ہو ایسی عورت کے بارے متفقہ طور پر تمام علماء کا قول یہ ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ وہ عاقلہ ہو یعنی دیوانی نہ ہو اگر عاقلہ نہ ہوگی تو ولی کی اجازت سے اس کا نکاح ہوجائے گا۔ دوم باکرہ صغیرہ یعنی وہ کنواری لڑکی جو نابالغ ہو، اس کے بارے میں بھی تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ اس کے نکاح کے لئے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا ولی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرسکتا ہے۔ سوم ثیب صغیرہ یعنی وہ بیوہ جو بالغ نہ ہو اس کے بارے میں حنفی علماء کا تو یہ قول ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر ہوسکتا ہے لیکن شافعی علماء کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ چہارم باکرہ بالغہ یعنی وہ کنواری جو بالغہ ہو، اس کے بارے میں حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں لیکن شافعی علماء کے نزدیک جائز ہے۔ گویا تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ حنفی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار صغر پر ہے یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کردینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ کمسن یعنی نابالغ ہو خواہ وہ باکرہ کنواری ہو یا ثیب بیوہ ہو جب کہ شافعی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار بکارت پر ہے یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کردینے کا حق اس صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ باکرہ ہو خواہ بالغ ہو یا نابالغ ہو۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک بالغہ پر محمول ہے خواہ وہ ثیب ہو یا باکرہ ہو اور آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی حدیث (ولا تنکح البکر حتی تستاذن) (کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے) شوافع کے قول کے خلاف ایک واضح دلیل ہے۔ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایم یعنی وہ عورت جو بیوہ بالغہ اور عاقلہ ہو اپنے نکاح کے معاملہ میں اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی جو بالغ ہو بھی اس کی حق دار ہے کہ اس کے نکاح کی اس سے اجازت حاصل کی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان سے اجازت دے بلکہ اس کی شرم و حیاء کے پیش نظر اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت کے لئے کافی ہے) ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے بارے میں اپنے والی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے بھی اس کے نکاح کی اجازت حاصل کی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے۔ اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ثیب اپنے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے اور کنواری لڑکی بھی اس کا باپ اس کے نکاح کے بارے میں اجازت حاصل کرے اور اس کی اجازت اس کا چپ رہنا ہے ( مسلم) تشریح اپنے ولی سے زیادہ خود اختیار رکھتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ عورت اپنے نکاح کی اجازت دینے یا نہ دینے کے معاملے میں بالکل خود مختار ہے اور یہ کہ جب تک وہ خود اپنی زبان سے اجازت نہ دے دے اس کا نکاح نہیں ہوگا بخلاف کنواری عورت کے کہ اس کے لئے زبان سے اجازت دینا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ خاموشی کے ذریعہ بھی اپنی اجازت کا اظہار کرسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں باقی تفصیل و تشریح وہی ہے جو اس سے پہلے ذکر کی گئی ہے۔ یہاں جو کئی رواتیں نقل کی گئی ہیں ان میں صرف تھوڑا سا اختلاف ہے مفہوم و معنی کے اعتبار سے تمام روایتیں تقریبًا یکساں ہیں۔

【3】

بیوہ اپنی مرضی کے خلاف ہوجانیوالے نکاح کو رد کرسکتی ہے

اور حضرت خنساء بنت خذام سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح ان کی اجازت حاصل کئے بغیر) کردیا جب کہ وہ بیوہ اور بالغہ تھیں چناچہ انہوں نے اس عقد کو ناپسند کیا اور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنا معاملہ لے کر حاضر ہوئیں لہذا آپ ﷺ نے ان کا نکاح یعنی ان کے والد کے نکاح کرنے کو رد کردیا (بخاری) اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے ان کا نکاح جو ان کے والد نے کیا تھا رد کردیا۔

【4】

آنحضرت ﷺ سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے اس وقت نکاح کیا جب کہ ان کی عمر سات سال کی تھی اور جب وہ آنحضرت ﷺ کے گھر بھیجی گئیں تو ان کی عمر نو سال کی تھی اور ان کے کھیلنے کے لئے) کھلونے ان کے ساتھ تھے اور جب آنحضرت ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت عائشہ (رض) ہمیشہ کے لئے جدا ہوئے تو اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی (مسلم) تشریح یہ حدیث حضرت عائشہ کی ابتدائی زندگی کے تین اہم موڑ اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کی رفاقت کی مدت کو ظاہر کرتی ہے۔ چناچہ سات سال کی عمر میں حضرت عائشہ نبی کریم ﷺ کی زوجیت میں آئیں نو سال کی عمر میں رخصت ہو کر آستانہ نبوت میں لائی گئیں اور نو سال کی رفاقت کے بعد جب کہ ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی آنحضرت ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ نو سال کی عمر بچپن کی عمر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ جب آنحضرت ﷺ کے ہاں تشریف لائیں تو ان کے ساتھ وہ کھلونے بھی آئے جن سے وہ اپنے گھر کھیلا کرتی تھیں اور یہ کھلونے بھی کیا تھے وہ گڑیاں تھیں جو عام طور پر بچیوں کا سب سے محبوب کھلونا ہوتی ہیں۔ چناچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب ان گڑیوں کو دیکھا تو ان پر اظہار ناپسندیدگی نہیں کیا لہذا اس سے یہ معلوم ہوا کہ گڑیوں کا بنانا جائز ہے اور بچیوں کو گڑیوں سے کھیلنا مباح ہے، اس کا سبب علماء نے یہ لکھا ہے کہ گڑیوں سے کھیلنا دراصل بچیوں کے لئے ایک سبق بھی ہے جس سے وہ اولاد کی پرورش سینا پرونا اور گھر کی اصلاح و انتظام کی تربیت حاصل کرتی ہیں تاہم اس بارے میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کا ہے اور اس وقت تک تصویر کی حرمت نازل نہیں ہوئی ہوگی۔ جب کہ علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت عائشہ اپنے ساتھ پڑیاں لے کر آئی تھیں ان میں صورتیں بنی ہوئی نہیں تھیں جو تصویروں میں ہوتی ہیں اور حرام ہیں بلکہ کپڑوں اور چیتھڑوں کو لپیٹ کر بغیر صورتوں کے یوں ہی بنائی گئی تھیں۔

【5】

کمسن لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا

حضرت ابوموسی نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ( احمد ترمذی) تشریح حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا جب کہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا ہے چناچہ وہ کہتے ہیں کہ نکاح اسی وقت صحیح ہوتا ہے جب کہ ولی عقد کرے اور عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوتا عورت خواہ اصیلہ ہو یا وکیلہ ہو۔ علامہ سیوطی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نابالغہ اور غیر عاقلہ پر محمول نہ ماننے بلکہ رکھنے کی صورت میں) جمہور علماء نے نفی صحت پر اور امام ابوحنیفہ نے نفی کمال پر محمول کیا ہے۔ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس عورت نے اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کیا تو اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، پھر اگر شوہر نے اس کے ساتھ مجامعت کی تو وہ مہر کی حق دار ہوگی کیونکہ شوہر نے اس کی شرم گاہ سے فائدہ اٹھایا ہے اور اگر کسی عورت کے ولی باہم اختلاف کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی بادشاہ ہے ( احمد ترمذی) تشریح اس کا نکاح باطل ہے، یہ الفاظ آپ ﷺ نے تین بار ارشاد فرما کر گویا ولی کی اجازت کے بغیر ہونیوالے نکاح پر متنبہ کیا اور اس بات کی تاکید فرمائی کہ نکاح کے معاملہ میں ولی کی اجازت ومرضی کو بنیادی درجہ حاصل ہونا چاہئے، اس طرح یہ حدیث اور اسی مضمون کی دوسری حدیثیں ارشاد گرامی (الایم احق بنفسہا من ولیہا) (ایم کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے) کے معارض و برعکس ہیں اس لئے حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر کفو سے نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے یا یہ کہ جو کمسن لڑکی یا لونڈی اور یا مکاتبہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا نکاح باطل ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث یہ دونوں فنی طور پر اس درجہ کی نہیں ہیں کہ انہیں کسی مسلک کے خلاف بطور دلیل اختیار کیا جاسکے کیونکہ ان دونوں حدیثوں کے صحیح ہونے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی عورت کے ولی آپس میں اختلاف و نزاع کرتے ہیں اور کسی فیصلہ پر متفق نہیں ہو پاتے توہ سب کالعدم ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں ولایت کا حق بادشاہ وقت کو حاصل ہوتا ہے ورنہ تو یہ معلوم ہی ہے کہ ولی کی موجودگی میں بادشاہ کو ولایت کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

【6】

بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا

اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہ عورتیں زنا میں مبتلا ہوتی ہیں جو بغیر گواہوں کے اپنا نکاح کرتی ہیں اس روایت کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرت ابن عباس پر موقوف ہے یعنی یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابن عباس کا قول ہے (ترمذی) تشریح نکاح کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے منعقد ہو چناچہ اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ بغیر گواہوں کے نکاح صحیح نہیں ہوتا۔ تمام ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے اور صحابہ وتابعین سے بھی یہی منقول ہے۔

【7】

نکاح کی طلب اجات کے وقت عورت کی خاموشی ہی اس کی رضا ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بالغہ کنواری عورت سے اس کے نکاح کے بارے میں اجازت حاصل کی جائے اور اگر وہ طلب اجازت کے وقت خاموش رہے تو اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو اس پر جبر نہ کیا جائے ( ترمذی ابوداؤد، نسائی) دارمی نے اس روایت کو حضرت ابوموسی سے نقل کیا ہے۔ تشریح شادی بیاہ کا معاملہ انسانی زندگی کا بڑا اہم موڑ ہوتا ہے اس موڑ پر زوجین کی مرضی و خواہش کے علی الرغم والدین اور ولی و سرپرست کا کوئی بھی فیصلہ اور اس میں ادنیٰ درجہ کی کوتاہی اور غیر دانشمندی زوجین کی پوری زندگی کو جہنم بنا دیتی ہے۔ اس لئے شریعت نے ہر بالغ مسلمان کو خواہ مرد ہو یا عورت یہ حق دیا ہے کہ وہ اس مرحلہ پر اپنی مرضی و خواہش اور اپنی پسند و ناپسند کا پورا پورا اظہار کرے۔ خاص طور پر عورتوں کے بارے میں ان کے ماں باپ اور ولی سرپرست پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی ذاتی پسند و ناپسند ہی کو مدار قرار نہ دیں بلکہ عورت کو خود بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیں اور اس کی اجازت ومرضی ہی کو اصل فیصلہ سمجھیں۔ پھر اس کی اجازت کے بارے میں یہ آسانی بھی دی گئی ہے کہ اگر کوئی عورت شرم وحیا کی وجہ سے اپنی اجازت ومرضی کا زبان سے اظہار نہیں کرسکتی تو اس کی خاموشی ہی کو اس کی اجازت سمجھا جائے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ عورت کی خاموشی کو اس کی اجازت کا قائم مقام ہونا صرف اس کے ولی کے حق میں ہے یعنی عورت اگر اپنے ولی کی طلب اجازت کے موقع پر خاموش رہے تو اس کی خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائے گی اور اگر ولی کے علاوہ کوئی اور اجازت طلب کرے تو اس صورت میں عورت کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ زبان سے اجازت دے۔

【8】

غلام کا نکاح اس کے آقا کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں ہوتا

اور حضرت جابر نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے وہ زانی ہے ( ترمذی، ابوداؤد، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ مملوک کا نکاح مالک کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں ہوتا لہذا اگر کوئی مملوک اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گا اور اس نکاح کے بعد منکوحہ سے مجامعت کرے گا تو یہ فعل حرام ہوگا اور وہ زنا کار کہلائے گا چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے کہ غلام کا نکاح اس کے آقا کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہوتا اور نکاح کے بعد اگر آقا اجازت دے دے تب بھی وہ عقد صحیح نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ آقا کی اجازت کے بغیر نکاح تو ہوجاتا ہے مگر اس کا نافذ ہونا یعنی صحیح ہونا آقا کی اجازت پر موقوف رہتا ہے کہ جب آقا اجازت دے دے گا تو صحیح ہوجائے گا جیسا کہ فضولی کے نکاح کا حکم ہے۔

【9】

بالغہ اپنے نکاح کے معاملہ میں خود مختارہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن ایک کنواری عورت جو بالغ تھی) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے یہ بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کردیا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہے چناچہ نبی کریم ﷺ نے اسے اختیار دیدیا کہ چاہے تو وہ نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کر دے ( ابوداؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نکاح کے معاملہ میں عورت پر جبر کرے اگرچہ وہ باکرہ ہی کیوں نہ ہو اور ولی خواہ باپ دادا ہو یا اور کوئی عزیز چناچہ حنفیہ کا یہی مسلک ہے۔ اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جو عورت کنواری نہ ہو گو وہ بالغ ہو تو ولی کو اس کا نکاح کرنے کے معاملہ میں اس پر جبر کرنے کا حق نہیں ہے لیکن عورت کنواری ہو اس کی اجازت کے بجز نکاح کردینے کا اختیار ولی کو حاصل ہے اگرچہ وہ عورت بالغہ ہی کیوں نہ ہو۔

【10】

بالغہ عورت کا نکاح ولی کرنا مستحب ہے

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ عورت خود اپنا نکاح کرے کیونکہ وہ عورت زنا میں مبتلا رہتی ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے ( ابن ماجہ) تشریح عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے حنفیہ کے نزدیک اس ممانعت کا تعلق یا تو اس عورت سے ہے جس کو ولایت حاصل نہ ہو یا پھر یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے کیونکہ اگرچہ بالغہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر خود کرلے یا کسی کو بھی اپنا وکیل بنا لے۔ لیکن اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ اپنے نکاح کا معاملہ اپنے ولی ہی کو سپرد کر دے چناچہ اگر کسی عورت کا ولی موجود ہو تو اس عورت کا نکاح اسی کو کرنا مستحب ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے اگر کسی کا کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو پھر اس کا ولی قاضی ہوتا ہے۔ لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بہتر اور مناسب بات یہ ہے کہ جس عورت کا ولی موجود ہو تو کوئی دوسری عورت اس کا نکاح نہ کرے بلکہ وہ ولی خود کرے اور اگر ولی موجود نہ ہو تو پھر قاضی کو حق ولایت حاصل ہوگا جو اس عورت کا نکاح کرے گا نہ عورت خود اپنا نکاح کرے حنفیہ کے نزدیک مراد یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر نکاح نہ کرے۔ اس طرح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب حنفیہ کی مراد کی روشنی میں تو یہ ہوگا کہ جو عورت اس شوہر سے مجامعت کریگی جس سے اس نے بغیر گواہوں کے اور اس کے غیرکفو ہونے کے باوجود نکاح کیا ہے تو اس کی مجامعت زنا کے حکم میں ہوگی اور حضرت امام شافعی کی مراد کی روشنی میں یہ مطلب ہوگا کہ جو عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح کریگی تو وہ جب بھی اپنے اس شوہر سے مجامعت کریگی گویا زنا کا ارتکاب کریگی کیونکہ امام شافعی کے نزدیک جس طرح کسی عورت کو کسی دوسری عورت کا عقد کرنے کی ولایت حاصل نہیں ہوتی اسی طرح کوئی عورت خود اپنا عقد نکاح کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتی۔ چناچہ شوافع کے ہاں عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح صحیح نہیں ہوتا۔

【11】

اولاد کے تئیں باپ کے فرائض

اور حضرت ابوسعید اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو چاہئے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے نیک ادب سکھائے (یعنی اسے شریعت کے احکام و آداب و زندگی کے بہترین طریقے سکھائے تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و سربلند ہو) اور پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر لڑکا بالغ ہو اور غیر مستطیع ہو اور اس کا باپ اس اس کا نکاح کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکا برائی میں مبتلا ہوجائے یعنی جنسی بےراہ روی کا شکار ہوجائے) تو اس کا گناہ باپ پر ہوگا۔ تشریح صالح معاشرہ کی حقیقی بنیاد وہ نوخیز ذہن ہیں جو اپنے والدین اور سرپرست کی آغوش پرورش میں اعمال و کردار کی بنیادی تربیت حاصل کرتے ہیں اگر اس بنیادی تربیت کا فقدان ہوتا ہے تو کائنات انسانی کا ہر طبقہ بھیانک قسم کی برائیوں سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ آگے چل کر یہی نوخیز معاشرہ کا فعال جزء بنتے ہیں اور ان کا ایک ایک فعل و عمل اپنے اثرات پیدا کرتا ہے۔ آج کے دور میں فحاشی و بےحیائی اور جنسی بےراہ روی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ جو بھی نئی نسل سامنے آتی ہے وہ اعمال و کردار اور ذہن و عقیدہ کی اس بنیادی تربیت سے یکسر محروم رہتی ہے جو والدین اور سرپرستوں کے زیرسایہ ملنی چاہئے۔ اسی لئے یہ حدیث اس اہم نکتہ کی طرف متنبہ کر رہی ہے اور والدین کو ان کے اس فریضہ سے آگاہ کر رہی ہے کہ جب ان کے لڑا پیدا ہو تو پہلے وہ اس کا اچھا نام رکھیں کیونکہ اچھا نام پوری زندگی پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے پھر جب وہ ہوش سنبھا لے تو اس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں بایں طور کہ اسے دین کی تعلیم دلوائیں اسلامی احکام و آداب سے روشناس کرائیں اور اسے زندگی کے اعلی اصول اور اچھے طریقوں کے سانچے میں ڈھا لیں تاکہ سب سے پہلے تو اس کا قلب و دماغ نیکی و برائی کے امتیاز کو جان لے اور پھر اس کا کردار اس پختگی کے حامل ہوجائے جو زندگی کے ہر راستہ پر اسے نیکی و بھلائی ہی کی طرف لے جائے۔ جب تعلیم و تربیت کا یہ مرحلہ گزر جائے اور وہ لڑکا بالغ ہوجائے تو اس کے بعد والدین کا بڑا فریضہ یہ ہے کہ اس کی شادی کی طرف فورًا متوجہ ہوں تاکہ وہ مرد زندگی کی وجہ سے جنسی جذبات کی مغلوبیت کا شکار ہو کر برائیوں کے راستہ پر نہ لگ جائے چناچہ اس فریضہ کی اہمیت کو بتانے اور اس بات کو بتانے اور اس بات کی تاکید کے لئے بطور زجر وتہدید یہ فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص نے اپنے بالغ لڑکے کی شادی نہیں کی اور وہ لڑکا جنسی بےراہ روی کا شکار ہو کر بدکاری میں مبتلا ہوگیا تو اس کا گناہ اور وبال باپ پر ہوگا۔ اس بارے میں غلام اور لونڈی کا بھی وہی حکم ہے جو لڑکے کا ہے۔

【12】

لڑکی کے بالغ ہوتے ہی اس کا نکاح کردو

اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت انس بن مالک جناب رسول کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا تورات میں لکھا ہوا ہے کہ جس شخص کی لڑکی کی عمر بارہ سال کی ہوجائے اور وہ کفو پانے کے باوجود اس کا نکاح نہ کرے اور پھر وہ لڑکی برائی یعنی بدکاری وغیرہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔