97. مباشرت کا بیان

【1】

مباشرت کے سلسلہ میں یہود کے ایک غلط خیال کی تردید

حضرت جابر کہتے ہیں کہ یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنی عورت کے پیچھے کی طرف سے اس کے اگلے حصہ (یعنی شرم گاہ) میں جماع کرتا ہے تو اس کے بھینگا بچہ پیدا ہوتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ) 2 ۔ البقرۃ 223) ( تمہاری عورتیں یعنی تمہاری بیویاں اور لونڈیاں) تماری کھیتی ہیں لہذا تمہیں اختیار ہے کہ ان کے پاس جس طرح چاہو آؤ ( اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے) تشریح یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص عورت سے اس طرح جماع کرے کہ اس کے پیچھے کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر اس کے اگلے حصہ یعنی شرم گاہ میں اپنا عضو داخل کرے تو اس کی وجہ سے بھینگا بچہ پیدا ہوگا چناچہ ان کے اس غلط خیال اور وہم کی تردید کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں کہ جس طرح تمہارے کھیتوں میں تمہارے لئے فصل پیدا ہوتی ہے اسی طرح تمہاری بیویوں کے ذریعے تمہاری اولاد پیدا ہوتی ہے اس لئے تم اپنی کھیتی میں آنے میں خود مختار ہو کہ جس طرح چاہو آؤ خواہ لیٹ کر خواہ بیٹھ کر خواہ کھڑے ہو کر خواہ پیچھے ہو کر اور خواہ آگے ہو کر جس طرح بھی تمہارا جی چاہے ان سے جماع کرو کسی صورت میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جماع بہرصورت عورت کے اگلے حصے یعنی شرمگاہ ہی میں کیا جائے کیونکہ جس اعتبار سے عورت کو کھیتی کہا گیا ہے اس کا اطلاق عورت کی شرم گاہ ہی پر ہوسکتا ہے مقعد پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا بایں وجہ کہ مقعد اولاد پیدا ہونے کی جگہ نہیں ہے بلکہ پاخانہ کی جگہ ہے اس لئے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پیچھے کے حصہ میں بدفعلی یعنی اغلام کرنا صرف اسلام ہی نہیں بلکہ ہر دین میں حرام ہے۔

【2】

عزل کا مسئلہ

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن کریم نازل ہوتا رہتا تھا یعنی نزول کا سلسلہ جاری تھا مگر اس بارے میں کوئی ممانعت نازل نہیں ہوئی۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ ہمارے اس فعل کی اطلاع آنحضرت ﷺ کو تھی مگر آپ ﷺ نے ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا۔ تشریح عزل کا مطلب یہ ہے کہ عورت سے اس طرح جماع کیا جائے کہ مرد جب منزل ہونے لگے تو وہ اپنا عضو مخصوص عورت کی شرم گاہ سے باہر نکال کر مادہ کا باہر ہی اخراج کر دے۔ اس طریقہ سے مادہ منویہ چونکہ اندر نہیں پہنچتا اس لئے عورت حاملہ ہونے سے بچ جاتی ہے۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عزل جائز ہے اور بعض حضرات جن میں کچھ صحابہ بھی شامل ہیں اس کو ناجائز کہتے ہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ عزل کرنا جائز ہے چناچہ درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی خاص مصلحت یا عذر کی بناء پر عزل کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اپنی لونڈی سے عزل کرنا تو اس کی اجازت کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی جائز ہوگا اسی طرح اگر کسی دوسرے کی لونڈی اپنے نکاح میں ہو تو اس کے مالک کی اجازت حاصل کرنے کے بعد اس سے عزل کرنا جائز ہوگا۔ حضرت امام شافعی کے بارے میں سید نے یہ لکھا ہے کہ ان کے نزدیک بھی اپنی آزاد منکوحہ سے اس کی اجازت کے بعد ہی عزل کرنا جائز ہے لیکن لونڈی خواہ اپنی مملوکہ ہو یا منکوحہ ہو اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل کرنا جائز ہے۔ اور امام نووی نے جو شافعی المسلک ہیں) یہ لکھا ہے کہ ہمارے یعنی شوافع کے نزدیک عزل کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ انقطاع نسل کا سبب ہے۔ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے پاس لونڈی ہے جو ہماری خدمت کرتی ہے اور میں اس سے جماع بھی کرتا ہوں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہو تو عزل کرلیا کرو لیکن اس لونڈی کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہوچکی ہے وہ ضرور پیدا ہوگی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک وہ شخص نہیں آیا اور پھر جب آیا تو کہنے لگا کہ میری لونڈی حاملہ ہوگئی ہے آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں نے تو تمہیں پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ اس کے ذریعہ جو چیز پیدا ہونی مقدر ہوچکی ہے وہ ضرور پیدا ہوگی (مسلم) تشریح علامہ نووی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عزل کرنے کے باوجود اگر حمل ٹھہر جائے تو اس کا نسب ثابت ہوگا اور علامہ ابن ہمام نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اگر کسی شخص نے عورت کی اجازت کے بعد یا اس کی اجازت کے بغیر عزل کیا اور اس کے باوجود اس عورت کے حمل ٹھہر گیا تو آیا اس شخص کے لئے اس حمل سے انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ حمل میرا نہیں ہے) جائز ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں تفصیل ہے، چناچہ علماء کا قول ہے کہ اگر اس شخص نے عزل کرنے کے بعد دخول نہیں کیا تھا یا دخول کیا تھا مگر اس سے پہلے پیشاب نہیں کیا تھا تو پھر اس کے لئے اس حمل سے انکار کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس بات کا قوی احتمال ہوسکتا ہے کہ اس کے ذکر میں منی کا کوئی قطرہ باقی رہ گیا ہو اور وہ اب دخول کی صورت میں عورت کے رحم میں چلا گیا ہو اسی طرح حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہ مسلک ہے کہ اگر کسی شخص نے مثلا جماع سے فارغ ہونے کے بعد پیشاب کرنے سے پہلے غسل جنابت کیا اور اس کے بعد جب اس نے پیشاب کیا تو منی کا کوئی قطرہ نکل آیا تو اس صورت میں اس پر واجب ہوگا کہ وہ اب پھر غسل کرے۔ اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ بنی المصطلق کی جنگ میں گئے تو عرب قوم میں سے کچھ لونڈی غلام ہمارے ساتھ آئے، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور مجرد رہنا ہمارے لئے سخت مشکل ہوگیا اور ان لونڈیوں سے جو ہمارے ہاتھ لگی تھیں ہہم نے عزل کرنا چاہا) تاکہ ان کے حمل نہ ٹھہر جائے) آخر ہم نے عزل کا ارادہ کرلیا مگر پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول کریم ﷺ ہمارے درمیان ہیں تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟ چناچہ ہم نے آپ سے اس کے بارے میں دریافت تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے اس لئے کے قیامت تک جو جان پیدا ہو نیوالی ہے وہ تو پیدا ہو کر رہے گی ( بخاری ومسلم) تشریح امام نووی کہتے ہیں کہ سبیا من العرب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل عرب پر بھی رق جاری ہوتا ہے جب کہ وہ مشرک ہوں (یعنی جس طرح غیرعرب مشرک و کافر جنگ میں پکڑ لئے جانے کے بعد غلام و لونڈی بنائے جاسکتے ہیں اسی طرح اگر وہ مشرک و کافر جن کا تعلق عرب نسل سے ہو کسی جنگ میں بطور قیدی ہاتھ لگیں تو وہ بھی مسلمانوں کے حق میں لونڈی غلام ہوجاتے ہیں کیونکہ یہاں جن لونڈی غلاموں کا ہاتھ لگنا ذکر کیا گیا ہے ان کا تعلق بنی المصطلق سے تھا جو قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ تھی اور قبیلہ خزاعہ والے اہل عرب میں سے تھے چناچہ حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ (ما علیکم ان لا تفعلوا) میں حروف الف کے زبر کے ساتھ یعنی (ان) بھی صحیح ہے اور الف کے زیر کے ساتھ یعنی ان بھی صحیح ہے اس جملہ کے معنی نووی نے یہ بیان کئے ہیں کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ جب یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو پیدا کرنا مقدر کردیا ہے تو وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گا اس لئے تم عزل کرو یا عزل نہ کرو پیدا ہونوالی جان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا اگر اسے دنیا میں آنا ہے تو تم لاکھ عزل کرلو ضبط ولادت کے لاکھ طریق آزما لو وہ اس دنیا میں آ کر رہے گی اور اگر اس کا پیدا ہونا مقدر نہیں ہے تو پھر اگر عزل نہ کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں حاصل یہ کہ تمہارا عزل کرنا کوئی فائدہ مند چیز نہیں ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث عزل کے عدم جواز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور بعض علماء کہتے ہیں کہ (ان لا تفعلوا) میں حرف، لا، زائد ہے اس صورت میں اس جملہ کے یہ معنی ہوں گے کہ عزل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اس اعتبار سے یہ حدیث عزل کے جائز ہونے کی دلیل ہوگی۔ اور حضرت ابوسعید خدری راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا (کہ عزل کرنا جائز ہے یا نہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا منی کے ہر پانی سے بچہ بنتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو پیدا ہونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی ( مسلم) تشریح بظاہر اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ سوال اور جواب میں کوئی مطابقت نہیں ہے حالانکہ اگر حدیث کے حقیقی مفہوم پر نظر ہو تو یہ اشکال پیدا ہونے کا کوئی محل ہی نہیں رہ جاتا کیونکہ سوال کا مقصد یہ تھا کہ عزل کرنے کی اجازت مل جائے تاکہ عورت کے ہاں ولادت ہونے کا کوئی خوف نہ رہے، سوال کے اسی حقیقی مفہوم کے پیش نظر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تم لوگ تو یہ سمجھتے ہو کہ مرد کی منی کا عورت کے رحم میں گرنا عورت کے ہاں ولادت ہونے کا سبب ہے اور عزل کرلینا ولادت نہ ہونے کا سبب ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منی کے ہر پانی سے بچہ نہیں بنتا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مرد کی منی عورت کے رحم تک پہنچ جاتی ہے مگر اس سے بچہ نہیں بنتا اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ عزل کرتے ہیں مگر اس کے باوجود عورت حاملہ ہوجاتی ہے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا حاملہ ہونا مرد کے مادہ تولید کے اندر کرنے پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے، اسی طرح عورت کا حاملہ نہ ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ ہی پر موقوف ہے عزل پر موقوف نہیں ہے۔ ہاں یہ ثابت ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تولد و تناسل کا ایک نظام مقرر کردیا ہے کہ مرد کے نطفہ سے بچہ کی تولید ہوتی ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ عزل کرنے کی صورت میں بھی نطفہ کا کوئی حصہ بلا اختیار عورت کے رحم میں چلا جائے اور اس سے بچہ بن جائے بلکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کسی بچہ کا پیدا ہونا تقدیر الٰہی میں ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت حاصل ہے کہ وہ اس بچہ کو بغیر نطفہ کے بھی پیدا کر دے۔ بظاہر یہ احادیث عزل کے جائز نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں لیکن ان کا حقیقی مفہوم ومنشاء اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزل کرنا پسندیدہ نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، اس مسئلہ میں حنفیہ اور دوسرے علماء کا جو فقہی مسلک ہے اس کا بیان حضرت جابر کی روایت کی تشریح میں گزر چکا ہے۔ اور حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنی عورت سے عزل کرتا ہوں آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے شیر خوار بچہ کی وجہ سے ڈرتا ہوں کہ کہیں مدت رضاعت میں وہ حاملہ نہ ہوجائے اور اس حالت میں بچہ کو دودھ پلانا نقصان پہنچ جائے گا) رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ نقصان پہنچاتا تو روم وفارس والوں کو ضرور نقصان پہنچاتا (مسلم) تشریح لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مدت رضاعت میں جماع اور پھر حمل ٹھہرنے سے چونکہ عورت کے دودھ میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اس لئے اس دودھ کو پینے سے شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچتا ہے اس کے علاوہ ایسی حالت میں عورت کا دودھ بھی کم ہوجاتا ہے اس کا حاصل یہ تھا کہ اسی خوف کی بناء پر اس شخص نے آنحضرت ﷺ سے عزل کی اجازت چاہی اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے جو فرمایا اس کا حاصل یہ تھا کہ اگر مدت رضاعت میں جماع کرنا اور حمل ٹھہر جانا شیرخواربچہ کو نقصان دہ ہوتا تو یہ روم وفارس والوں کو ضرور نقصان پہنچاتا کیونکہ وہ اس کے عادی ہیں اور جب ان کی یہ عادت ان کے لئے نقصان دہ نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ مدت رضاعت میں حمل ٹھہر جانا نقصان دہ نہیں ہے لہذا عزل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور حمل ٹھہر جانے کے خوف کی وجہ سے عزل نہ کرو گویا آپ ﷺ کا یہ ارشاد عزل کی کراہت و ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور حضرت جدامہ بنت وہب کہتی ہیں کہ ایک دن میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت لوگوں کی ایک جماعت وہاں موجود تھی اور آپ ﷺ ان کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے کہ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو غیلہ سے منع کردوں لیکن پھر میں نے دیکھا کہ روم وفارس کے لوگ اپنی اولاد کی موجودگی میں غیلہ کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تو میں نے اس ارادہ کو ترک کردیا) پھر لوگوں نے آپ ﷺ سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا کہ اس کا کیا حکم ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ عزل کرنا تو پوشیدہ طور پر زندہ گاڑ دینا ہے اور یہ ایک بری عادت ہے جو اس آیت کریمہ (وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُى ِلَتْ ) 81 ۔ التکویر 8) ( اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی) کے حکم میں داخل ہے۔ (مسلم) تشریح غیلہ کے معنی ہیں حمل کی حالت میں بچہ کو دودھ پلانا اور نہایہ میں لکھا ہے کہ غیلہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے چناچہ اہل عرب غیلہ یعنی ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرنے) احتراز کرتے تھے اور اس کیوجہ ان کا یہ گمان تھا کہ اس صورت میں شیر خوار بچہ کو نقصان پہنچتا ہے اسی لئے آنحضرت ﷺ نے بھی یہ ارادہ فرمایا کہ لوگوں کو ایام رضاعت میں اپنی بیوی کے پاس جانے سے منع کردیں لیکن جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ روم وفارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا تو آپ ﷺ نے ممانعت کا ارادہ ترک فرما دیا۔ واد کے معنی ہیں زندہ در گور کرنا، جیتا گاڑ دینا، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب تنگدستی کے خوف اور عار کی وجہ سے اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان والدین سے سخت باز پرس کی جائے گی جو اپنے ہاتھوں اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے عزل کو بھی واد خفی یعنی پوشیدہ زندہ گاڑ دینے سے تعبیر فرمایا۔ اس طرح یہ حدیث منسوخ ہے یا آپ نے یہ بات محض تہدید و تنبیہ کے طور پر فرمائی ہے یا پھر یہ کہ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ عزل نہ کرنا ہی اولی اور زیادہ بہتر ہے۔ ان حضرات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی ایک مجلس منعقد تھی۔ حاضرین میں حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسے جلیل القدر صحابہ کے علاوہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے۔ عزل کے سلسلہ میں مباحثہ ہو رہا تھا صحابہ کی رائے تھی کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ایک صحابی نے یہ کہا کہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عزل کرنا مودۃ (چھوٹی مؤدۃ ہے یعنی جس طرح اپنی اولاد کو زندہ گاڑ دینا مؤدۃ کبری ہے اسی طرح عزل کرنا مؤدۃ صغری ہے حضرت علی نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس سلسلہ میں حاصل کلام یہ ہے کہ جب تک بچہ میں جان نہ پڑے مؤدۃ کے مفہوم کا اطلاق نہیں ہوگا یعنی اگر جان پڑھ جانے کے بعد اسقاط حمل کرایا جائے یا زندہ پیدا ہونے کے بعد اسے جیتا جاگتا گاڑ دیا جائے تو اس کو مؤدۃ کہا جائے گا۔ حضرت علی کا یہ جواب سن کر حضرت عمر نے فرمایا علی ! اللہ تعالیٰ تمہاری عمر دراز کرے تم نے سچ کہا ہے چناچہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ جب تک بچہ میں جان نہ پڑے اسقاط حمل جائز ہے اور قرار حمل کے بعد ایک سو بیس دن میں حمل کے اندر جان پڑتی ہے گویا قرار حمل کے بعد ایک سو بیس دن کے اندر اندر تو اسقاط حمل جائز ہے اس کے بعد جائز نہیں ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی عزل کے حرام ہونے پر دلالت نہیں کرتا البتہ اس کے مکروہ ہونے پر ضرور دلالت کرتا ہے بایں معنی کہ عزل کرنا واد حقیقی یعنی واقعۃً زندہ درگور کردینے کے حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ واد حقیق کا مطلب ہوتا ہے ایک جان کو ہلاک کردینا جب کہ عزل میں یہ صورت نہیں ہوتی البتہ عزل کرنا واد حقیقی کے مشابہ یقینا ہے اسی واسطے اس کو پوشیدہ زندہ گاڑ دی نا فرمایا گیا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ عزل کے ذریعہ چونکہ اپنے مادہ تولید نطفہ کو ضائع کیا جاتا ہے اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ مادۃ تولید اللہ تعالیٰ نے بچہ پیدا ہونے کے لئے مہیا کیا ہے اس لئے یہ فعل یعنی عزل کرنا اپنے بچہ کو ہلاک کرنے یا اس کو زندہ درگور کردینے کے مشابہ ہے۔ علامہ ابن ہمام کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے بارے میں یہ صحیح روایت منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ عزل مؤدۃ صغری ہے۔ نیز حضرت ابوامامہ کے بارے میں یہ منقول ہے کہ جب ان سے عزل کا حکم پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے کسی مسلمان کو عزل کرتے نہیں دیکھا سنا اس سے معلوم ہوا کہ عزل کرنا پسندیدہ نہیں ہے) اسی طرح حضرت ابن عمر سے یہ منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق نے بعض لوگوں کو عزل کرنے پر مارا ہے اور حضرت عثمان غنی کے بارے میں یہ منقول ہے کہ وہ عزل کرنے سے منع کرتے تھے۔ ان تمام روایات سے عزل کی ممانعت ثابت ہوتی ہے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے،

【3】

اپنی بیوی کی پوشیدہ باتوں کو افشاء کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت ایک روایت میں یوں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک باعتبار مرتبہ کے سب سے برا شخص وہ ہوگا جو اپنی بیوی سے ہم بستر ہو اور اس کی بیوی ہم آغوش ہو اور پھر وہ اس کی پوشیدہ باتیں ظاہر کرتا پھرے ( بخاری ومسلم) تشریح علامہ طیبی (ان اعظم الامانۃ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت بڑی امانت کہ جس میں خیانت کرنیوالے سے قیامت کے دن سخت باز پرس ہوگی شوہر وبیوی کے درمیان جنسی معاملات اور نجی امور سے متعلق باتیں ہیں یعنی خاوند بیوی کے درمیان جنسی افعال اور راز و نیاز کی باتیں ایک بہت بڑی امانت ہے جس کی حفاظت ہر شوہر کی ذمہ داری ہے جو شوہر اس امانت کی حفاظت نہیں کرے گا بایں طور کہ وہ اپنی بیوی سے ہمبستری کے بعد اس کے راز افشاء کرے گا اس سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور اشرف کے قول کے مطابق اس ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت میں خیانت اس شخص کی خیانت ہوگی جو اپنی بیوی سے ہمبستری کرے اور پھر اس کے راز کو افشاء کرے۔ اور افشاء کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان راز و نیاز کی جو باتیں ہوئی ہوں اور جنسیات سے متعلق جو افعال ہوئے ہوں ان کو لوگوں سے کہتا پھرے جیسا کہ بےحیاء لوگوں کی عادت ہے یا اپنی بیوی کے کسی عیب کو بیان کرتا پھرے اور یا یہ کہ اپنی بیویوں کی ان خوبیوں اور اوصاف کو ذکر کرتا پھرے جن کو چھپانا شرعًا اخلاقًا اور عرفًا واجب ہے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ خاوند و بیوی میں سے ہر ایک اپنے دوسرے کے افعال و اقوال کا امین ہے لہذا ان میں سے جو بھی اپنے دوسرے کے ان افعال و اقوال کو ظاہر کرے گا جن کو ظاہر کرنا وہ دوسرا ناپسند کرتا ہو تو وہ خیانت کرنیوالا کہلائے گا۔ بہرکیف حدیث کا حاصل یہ ہے کہ خاوند و بیوی کے درمیان جنسی معاملات اور ذاتی امور سے متعلق جو باتیں ہوتی ہیں یا جو افعال ہوتے ہیں ان کو غیروں کے سامنے بیان کرنا یا ایک دوسرے کے عیوب وغیرہ کو ظاہر کرنا اخلاقی نکتہ نظر ہی سے معیوب نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر آخرت میں مؤخذاہ الٰہی کا موجب ہے۔ اس سلسلہ میں ایک سبق آموز واقعہ بیان کرنا فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب علم و دانش نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کے عیوب کیونکر ذکر کروں (یعنی اگر میں طلاق کی وجہ بیان کروں تو گویا میں اس کے عیوب کو جو طلاق کی وجہ ہیں تمہارے سامنے بیان کرو دوں اور یہ مجھے گوارا نہیں ہے کہ جب تک وہ میری بیوی ہے اس کے عیوب دوسروں کے سامنے آئیں) پھر جب اس نے طلاق دیدی تو پھر کچھ اور لوگوں نے پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی کو طلاق کیوں دی ؟ اس نے کہا کہ میں ایک اجنبی عورت کے عیوب کیسے ظاہر کروں یعنی اگر میں طلاق کی وجہ بیان کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک اجنبی عورت کے عیوب تمہارے سامنے بیان کر دوں اور اسے میں مطلقًا مناسب نہیں سمجھتا) بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ خاوند و بیوی کے لئے ایک دوسرے کی باتوں کو ظاہر کرنے کی یہ ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ اس کا کوئی فائدہ اور مقصد نہ ہو، ہاں اگر اس کا کوئی فائدہ یا اس کی کوئی معقول وجہ ہو تو پھر یہ ممانعت نہیں ہوگی مثلا اگر عورت کا دعوی ہو کہ اس کا خاوند اس کی جنسی خواہش کی تسکین کا اہل نہیں ہے، یا بیوی یہ شکایت کرے کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ بیزاری اور لاپرواہی کا برتاؤ کرتا ہے تو اس صورت میں بیوی کے لئے ان چیزوں کا ذکر کرنا غیر پسندیدہ نہیں ہوگا جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (لا یحب اللہ الجہر بالسوء من القول الا من ظلم) (اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی بری بات کو اعلانیہ بیان کیا جائے ہاں اگر کسی پر ظلم کیا گیا ہے تو وہ اسے اعلانیہ بھی بیان کرسکتا ہے)

【4】

ایام حیض میں اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤ اور نہ بیوی کے ساتھ بد فعلی کرو

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر یہ آیت نازل کی گئی (نِسَا ؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ) 2 ۔ البقرۃ 223) ( تماری عورتیں تمہاری کھیتیاں پس آؤ تم اپنی کھیتیوں میں الخ) لہذا تم جس طرح چاہو ان سے مجامعت کرو خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ یا پیچھے سے اگلی جانب آؤ لیکن مقعد میں دخول کرنے سے اجتناب کرو اور حیض کی حالت میں جماع نہ کرو (ترمذی ابن ماجہ دارمی) تشریح لفظ اقبل (خواہ آگے سے اگلی جانب میں آؤ) اور ادبر ( یا پیچھے سے اگلی جانب میں آؤ) یہ دونوں لفظ آیت کریمہ کے الفاظ (فا توا حرثکم) 2 ۔ البقرۃ 223) کی تفسیر وبیان میں ہیں، یعنی ان دونوں الفاظ کے ذریعہ یہ وضاحتی تنبیہ کی گئی ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خواہ آگے کی طرف سے آؤ یا پیچھے کی طرف سے آؤ مگر دخول بہرصورت اگلے حصے یعنی شرمگاہ ہی میں کرو چناچہ بدفعلی کرنا یعنی مقعد میں دخول کرنا قطعی حرام ہے اسی طرح حیض کی حالت میں اگلے حصہ میں بھی دخول کرنا حرام ہے۔ اور حضرت خزیمہ بن ثابت کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے حیاء نہیں کرتا تم عورتوں کی مقعد میں بدفعلی نہ کرو ( احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی) تشریح حیاء اس تغیر کو کہتے ہیں جو عیب لگنے اور برا کہے جانے کے خوف سے انسان میں واقع ہوتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی تغیر کا واقع ہونا محال ہے اس لئے یہاں حیاء سے حقیقی حیاء مراد نہیں ہے بلکہ مجازی حیاء یعنی ترک کرنا مراد ہے جو حیاء کا مقصد ہے اس طرح ( اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْى) 2 ۔ البقرۃ 26) کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے اور اس کے اظہار کو ترک نہیں کرتا لہذا حدیث میں اس بات کو ما بعد کے مضمون (عورت کے ساتھ بدفعلی کی ممانعت) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ذکر کرنا گویا اس فعل بد کی انتہائی برائی اور اس کے حرام ہونے پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ بات اتنی ناپسندیدہ اور مکروہ ہے کہ اس کو زبان پر لانا اور اس کا ذکر کرنا بھی شرم وحیا کے منافی ہے اگرچہ اس کا ذکر کرنا اس سے روکنے ہی کی وجہ سے کیوں نہ ہو لیکن چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے اور شرعی مسئلہ کو بیان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اس لئے سن لو کہ عورتوں کے ساتھ ان کی مقعد میں بدفعلی کرنا حرام ہے اس لئے اجتناب کرو اس سے معلوم ہوا کہ جب عورتوں کے ساتھ بدفعلی کرنا حرام ہے تو مردوں کے ساتھ یہ فعل بطریقہ اولی حرام ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہ فعل بد کرے تو وہ زانی کے حکم میں ہوگا اور اگر اپنی بیوی یا اپنی لونڈی کے ساتھ کرے تو وہ حرام کا مرتکب ہوا لیکن اس کی پاداش میں اسے سنگسار نہیں کیا جائے گا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی البتہ اسے کوئی سزا ضرور دی جائے گی۔ اور نووی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام کے ساتھ اغلام کرے تو وہ اجنبی کے ساتھ بدفعلی کرنے والے کے حکم میں ہوگا نیز حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس فعل بد پر فاعل اور مفعول یعنی یہ فعل بد کرنیوالا اور کر انیوالا دونوں مستوجب تعزیر ہوتے ہیں کہ ان دونوں کو ان کے حال کے مناسب کوئی سزا دی جائے گی ہاں اگر مفعول یعنی جس کے ساتھ یہ بدفعلی کی گئی ہے) چھوٹا ہو یا دیوانہ ہو یا اس کے ساتھ زبردستی یہ فعل بد کیا گیا ہو تو اسے سزا نہیں دی جائے گی۔

【5】

اپنی بیوی کے ساتھ بد فعلی کرنیوالا ملعون

اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنی عورت کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے ( ابوداؤد، احمد) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی عورت کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھتا ( ترمذی) اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت و شفقت کی نظر سے نہیں دیکھتا جو مرد یا عورت کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے ( ترمذی)

【6】

غیلہ کی ممانعت

اور حضرت اسماء بنت یزید (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم اپنی اولاد کو مخفی طور پر قتل نہ کرو کیونکہ غیل سوار پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے گھوڑے سے گرا دیتا ہے ( ابوداؤد) تشریح اپنی اولاد کو مخفی طور پر قتل نہ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ غیلہ کے ذریعہ اولاد کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ حمل کی حالت میں دودھ پلانے یا مدت رضاعت میں جماع کرنے کو غیلہ کہتے ہیں لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ غیلہ کی وجہ سے بچہ کے مزاج میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے قوی ضعیف ہوجاتے ہیں اور اس خرابی و ضعف کا اثر اس کے بالغ ہونے کے بعد تک رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہونے کے بعد جب میدان کارزار میں جاتا ہے تو دشمن کے مقابلہ میں سست اور کمزور پڑجاتا ہے اور گھوڑے سے گرپڑتا ہے اور یہ چیز اس کے حق میں ایسی ہے جیسا کہ اسے مقابلہ سے پہلے ہی قتل کردیا گیا ہو لہذا غیلہ نہ کرو تاکہ غیلہ کی وجہ سے اپنے بچے کے قتل ہوجانے کا باعث نہ بنو۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہو کہ بچہ پر غیلہ کا اثر پڑتا ہے جبکہ اس سے پہلے گزرنے والی بعض احادیث سے یہ معلوم ہوا تھا کہ غیلہ بچہ پر اثرانداز نہیں ہوتا ؟ اس کا جواب طیبی نے یہ دیا ہے کہ گزشتہ احادیث میں بچہ پر غیلہ کے اثرانداز ہونے کی نفی زمانہ جاہلیت کے اس اعتقاد کی تردید کے لئے تھے کہ لوگ غیلہ ہی کو حقیقی مؤثر سمجھتے تھے۔ اور اس حدیث کے ذریعہ غیلہ کے اثرانداز ہونے کا جو اثبات کیا گیا ہے وہ اس بات کے پیش نظر ہے کہ غیلہ فی الجملہ سبب بنتا ہے اور مؤثرحقیقی حق تعالیٰ کی مرضی اور اس کا حکم ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں غیلہ کی جو ممانعت بیان کی گئی ہے وہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور آپ ﷺ کا گزشتہ ارشاد (لقد ہممت) الخ ( حدیث نمبر ٧) تحریم پر محمول ہے اسی طرح دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد باقی نہیں رہے گا اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے) ان دونوں کی بنیاد آپ ﷺ کا اجتہاد تھا یعنی جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ عرب کے لوگ جب غیلہ کرتے ہیں تو ان کے بچے ضعیف و کمزور ہوجاتے ہیں تو آپ ﷺ نے غیلہ سے منع کیا مگر جب بعد میں آپ ﷺ نے روم وفارس کے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہاں غیلہ کی وجہ سے بچہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو آپ ﷺ نے غیلہ کی ممانعت کو ختم کردیا چناچہ حضرت جدامہ کی روایت نمبر ٧ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔

【7】

عزل کا مشروط جواز

اور حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حرۃ آزاد عورت) کے ساتھ اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے ( ابن ماجہ) تشریح آزاد عورت سے جماع کے وقت اگر عزل کیا جائے تو اس سے اجازت لینی ضروری ہے اس کی اجازت حاصل کئے بغیر عزل نہ کیا جائے کیونکہ عزل کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بچہ نہیں ہوتا بلکہ عورت کی جنسی لذت میں کمی بھی ہوجاتی ہے اور ان دونوں چیزوں سے آزاد عورت کا حق متعلق ہے کہ اگر عورت بچہ کی پیدائش چاہتی ہے تو مرد کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ عورت کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دے اسی طرح عورت اگر عزل کی وجہ سے اپنی جنسی لذت میں کمی محسوس کرتی ہے تو یہ اس کے ساتھ بےانصافی ہے اس لئے ضروری ہے کہ عزل کے لئے عورت کی اجازت حاصل کرلی جائے اگر وہ اجازت دے تو عزل کیا جائے اور اگر اجازت نہ دے تو عزل نہ کیا جائے گویا یہ حدیث آزاد عورت کی اجازت کی شرط کے ساتھ اور لونڈی کی اجازت کے بغیر بھی عزل کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے کہ جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔

【8】

لونڈی آزاد ہونے کے بعد اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہے

حضرت عروہ ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ان یعنی (حضرت عائشہ) سے بریرہ کے بارے میں فرمایا کہ اسے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کردو اور بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت نے اسے اختیار دے دیا تھا اور بریرہ نے اس اختیار کے مطابق اپنے آپ کو اپنے خاوند سے علیحدہ کرلیا تھا۔ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا تو آپ ﷺ اسے یہ اختیار نہ دیتے ( بخاری ومسلم) تشریح بریرہ کا مذکورہ بالا واقعہ تفصیلی طور پر کتاب البیوع میں گزر چکا ہے یہ بطور لونڈی ایک یہودی کی ملکیت میں تھیں پھر حضرت عائشہ نے ان کو خرید کر آزاد کردیا تھا چناچہ بریرہ کی خریداری کے وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ (رض) فرمایا کہ پہلے اسے اس کے مالکوں سے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کردو آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت عائشہ نے اسے خریدا اور پھر آزاد کردیا، بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے بریرہ کو یہ اختیار دیدیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد اگر چاہو تو تم اپنے خاوند کے نکاح میں حسب سابق رہو اور اگر اس کے نکاح میں رہنا نہ چاہو تو اس سے علیحدہ ہوجاؤ، اس اختیار کے پیش نظر بریرہ نے علیحدگی کو اختیار کیا اور اپنے خاوند سے قطع تعلق کرلیا۔ حدیث کا آخری جملہ (ولو کان حرا) الخ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا الخ بظاہر حضرت عروہ کا اپنا قول معلوم ہوتا ہے اور ائمہ ثلثہ یعنی حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ لونڈی کو آزاد ہونے کے بعد اپنے نکاح کو باقی یا فسخ کرنے کا اختیار اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ اس کا خاوند غلام ہوتا کہ وہ آزاد ہوجانے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہنے کو عار محسوس نہ کرے، اگر اس کا خاوند غلام نہ ہو تو پھر اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا لیکن حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اسے بہرصورت یہ اختیار حاصل ہوتا ہے، خواہ اس کا شوہر غلام ہو یا آزاد ہو۔ دونوں طرف کے علماء کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ آزاد ہوں تو تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا اسی طرح اگر شوہر آزاد ہوجائے تو اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ خواہ اس کی بیوی آزاد ہو یا لونڈی ہو۔ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام تھا جس کو مغیث کہا جاتا تھا میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ منظر ہے جب وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں روتا پھرتا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر اس کی داڑھی پر گرتے تھے چناچہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس سے فرمایا کہ عباس کیا تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ کو کتنا چاہتا ہے اور بریرہ مغیث سے کتنا نفرت کرتی ہے ؟ پھر آپ ﷺ نے بریرہ سے بھی فرمایا کہ بریرہ کاش تم مغیث سے رجوع کرتیں (یعنی مغیث سے دوبارہ نکاح کرلیتیں) بریرہ نے عرض کیا کہ یا رسو اللہ ﷺ کیا آپ مجھے بطور وجوب اس کا حکم دے رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ بریرہ میں تو سفارش کر رہا ہوں یعنی بطور وجوب نہیں بلکہ بطریق استحباب تمہیں حکم دے رہا ہوں بریرہ نے کہا کہ مجھے اس سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (یعنی مجھے اس کے پاس رہنا منظور نہیں ہے) (بخاری) تشریح چونکہ بعض روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغیث یعنی بریرہ کا شوہر آزد تھا اس لئے اگر اس حدیث کے ابتدائی جملہ کی یہ وضاحت کی جائے کہ مغیث بد صورتی میں ایک سیاہ فام غلام کی مانند تھا یا یہ کہ مغیث پہلے تو غلام تھا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن پھر آزاد کیا گیا اور وہ آزاد ہوگیا تو اس صورت میں رواتیوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردار حاکم کو اپی رعایا سے کسی کے حق میں جائز کام کی سفارش کرنا ایک اچھی بات ہے اسی طرح حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اپنے سردار حاکم کی سفارش کو قبول کرنا واجب نہیں ہے اور نہ اس سفارش کو نہ ماننے کی وجہ سے اس سے سردار حاکم کو کوئی مؤ اخذہ کرنے کا حق حاصل ہے نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی سے اس کی بدصورتی و بدخلقی کی وجہ سے تعلق نہ رکھنا جائز ہے۔

【9】

مملوک خاوند وبیوی کو آزاد کرنا ہو تو پہلے خاوند کو آزاد کیا جائے

حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دو مملوکوں کو آزاد کرنے کا ارادہ کیا جو آپس میں خاوند بیوی تھے تو نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا آپ نے انہیں عورت سے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا (تا کہ عورت کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار باقی نہ رہے) (ابوداؤد، نسائی) تشریح اگر حضرت عائشہ پہلے عورت کو آزاد کرتیں تو وہ آزاد ہونے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہتی اس صورت میں اسے یہ اختیار حاصل ہوجاتا کہ اگر وہ چاہتی تو اپنا نکاح باقی رکھتی اور اگر اسے شوہر کے ساتھ رہنا گوارہ نہ ہوتا تو نکاح فسخ کردیتی ( جیسا کہ ائمہ ثلاثہ کا مسلک ہے اور جس کی تفصیل ابھی پیچھے گزری ہے) چناچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ کو پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ اختیار نہ رہے اور مرد کی دل شکنی نہ ہو۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم اس لئے دیا کہ مرد عورت کی بہ نسبت زیادہ کامل اور افضل ہوتا ہے لہذا اس کو مقدم رکھنا چاہئے، یا پھر یہ کہ آپ ﷺ اس بات کو محسوس کرتے تھے کہ مرد تو لونڈی بیوی کو گوارا کرلیتا ہے لیکن عورت اگر کسی غلام کے نکاح میں ہوتی ہے تو پھر اکثر اس سے بیزار رہتی ہے اور ہمہ وقت ذہنی اذیت وکوفت میں مبتلا رہتی ہے اس لئے آپ ﷺ نے پہلے مرد کو آزاد کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کی بیوی اپنے شوہر کی طرف سے کسی بیزاری میں مبتلا نہ ہو۔

【10】

اگر لونڈی اپنی مرضی سے نکاح کرے تو آزاد ہونے کے بعد فسخ نکاح کا اختیار اسے حصل نہیں ہوتا

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ بریرہ اس حال میں آزاد ہوئی تھی کہ وہ مغیث کے نکاح میں تھی چناچہ رسول کریم ﷺ نے اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار دیدیا لیکن یہ بھی فرما دیا کہ اگر تیرا شوہر تجھ سے جماع کرے گا تو تجھے یہ اختیار حاصل رہے گا کیونکہ اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ تو اس کی زوجیت پر راضی ہے (ابوداؤد) تشریح ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کسی لونڈی نے اپنے مالک کی رضا مندی سے اپنا نکاح کیا یا اس کے مالک نے اس کا نکاح اس کی رضامندی سے یا اس کی رضامندی کے بغیر کردیا اور پھر وہ لونڈی آزاد ہوگئی تو اس کو اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے خواہ اس کا خاوند ہو یا غلام ہو اور اگر لونڈی اپنے مالک کی رضا مندی و اجازت کے بغیر اپنا نکاح خود کرے اور پھر اس کا مالک اس کو آزاد کر دے تو آزاد ہوتے ہی اس کا نکاح منعقد یعنی صحیح ہوجاتا ہے لیکن اسے مذکورہ اختیار حاصل نہیں رہتا۔ ائمہ ثلاثہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر لونڈی کسی آزاد کے نکاح میں ہو تو آزاد ہونے کے بعد اس لونڈی کو اپنے نکاح کے باقی یا فسخ کردینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ بریرہ کے خاوند کے بارے میں متعارض روایتیں منقول ہیں۔ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ (رض) یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت بریرہ کو اس حال میں اختیار دیا تاکہ اس کا شوہر غلام تھا لیکن بخاری ومسلم ہی میں یہ بھی منقول ہے کہ جب بریرہ کو آزاد کیا گیا تو اس کا شوہر ایک آزاد مرد تھا۔ اسی طرح کی روایت سنن اربعہ یعنی ابوداؤد ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے بھی نقل کی ہے نیز ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے، لہذا ائمہ ثلاثہ نے تو پہلی روایت کو ترجیح دی ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو راجح قرار دیا ہے۔ ملا علی قاری نے ابن ہمام کے اس قول کو مرقاۃ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، یہاں طوالت کے خوف سے اس کا خلاصہ نقل کردیا گیا ہے۔