98. مہر کا بیان

【1】

مہرکا بیان

مہر حقوق زوجیت حاصل ہونے کے اس معاوضہ کو کہتے ہیں جو عورت کو اس کے شوہر کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ مہر کے نہ دینے کی نیت نہ ہونا نکاح کے صحیح ہونے کی ایک شرط ہے یعنی اگر کوئی شخص نکاح کے وقت یہ نیت کرلے کہ مہر دیا ہی نہ جائے گا تو اس کا نکاح صحیح نہ ہوگا۔ نکاح کے وقت مہر کا ذکر کرنا نکاح صحیح ہونے کے لئے شرط نہیں ہے اگر مہر کا ذکر نہ کیا جائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا اور شوہر پر مہر مثل واجب ہوگا۔ مہر کی مقدار نہ تو شریعت نے مہر کے لئے کسی خاص مقدار کو متعین کر کے اسے واجب قرار دیا ہے اور نہ اس کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اسے شوہر کی حیثیت و استطاعت پر موقوف رکھا ہے کہ جو شخص جس قدر مہر دینے کی استطاعت رکھتا ہو اسی قدر مقرر کرے البتہ مہر کی کم سے کم ایک حد ضرور مقرر کی گئی ہے تاکہ کوئی شخص اس سے کم مہر نہ باندھے، چناچہ حنفیہ کے مسلک میں مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم (٦٢ ء 30 گرام چاندی) ہے اگر کسی شخص نے اتنا مہر باندھا جو دس درہم یعنی (٦٢ ء ٣٠ گرام چاندی) کی قیمت سے کم ہو تو مہر صحیح نہیں ہوگا۔ حضرت امام مالک کے نزدیک کم سے کم مہر کی آخری حد چوتھائی دینار ہے اور حضرت امام شافعی وحضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ جو بھی چیز ثمن یعنی قیمت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو اس کا مہر باندھنا جائز ہے۔ ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہر ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ کے علاوہ تمام ازواج مطہرات اور حضرت فاطمۃ کے علاوہ تمام صاحبزادیوں کا مہر پانچ سو درہم چاندی کی مقدار ١٥٧٥ ماشہ یعنی ایک کلو ٥٣٠ گرام ہوتی ہے۔ آجکل کے نرخ کے مطابق ایک کلو ٥٣٠ گرام چاندی کی قیمت تقریبا ٩١٨ روپے ہوتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ کا مہر چار ہزار درہم یا چار سو دینار تھا، چار ہزار درہم بارہ ہزار چھ سو ماشہ یعنی بارہ کلو ٢٤٧ گرام چاندی کے بقدر ہوتے ہیں اور چاندی کے موجودہ نرخ کے مطابق اس کی قیمت سات ہزار تین سو اڑتالیس (٧٣٤٨) روپیہ ہوتی ہے۔ حضرت فاطمہ زہراء کا مہر چار سو مثقال نقرہ تھا، چار سو مثقال اٹھارہ سو ماشہ یعنی ایک کلو ٧٥٠ گرام چاندی کے بقدر ہوتے ہیں اور چاندی کے موجودہ نرخ کے مطابق اس کی قیمت ایک ہزار پچاس روپیہ ہوتی ہے۔ اس قدر چاندی کے ساتھ روپے کی یہ مطابقت آج کل کے دور میں درست نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں روپے کی قیمت بہت زیادہ گر چکی ہے۔ ہاں ہر زمانے میں چاندی کی قیمت معلوم کر کے روپے کی تعیین کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ( از اصغر۔ م) ۔

【2】

مہر کی کم سے کم مقدار کیا ہونی چاہئے

اور حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک دن ایک عورت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنے آپ کو آپ ﷺ کے لئے ہبہ کردیا یہ کہہ کر وہ عورت دیر تک کھڑی رہی یہاں تکہ کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ابھی آپ ﷺ خاموش ہی تھے کہ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ اس عورت کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوں تو اس سے میرا نکاح کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے تم اس عورت کو مہر میں دے سکو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اس تہبند کے علاوہ جسے میں باندھے ہوئے ہوں میرے پاس کوئی اور چیز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ کوئی چیز ڈھونڈ لاؤ ! اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ جب صحابی نے بہت تلاش کیا اور انہیں کوئی چیز نہیں ملی تو پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں قرآن میں سے کچھ یاد ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہے اس کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا تم اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرو (بخاری ومسلم) تشریح آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں یہ حکم تھا کہ اگر کوئی عورت اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کے لئے ہبہ کردیتی تھی اور آپ ﷺ اس کے ہبہ کو قبول کرلیتے تھے تو وہ عورت آنحضرت ﷺ کے لئے حلال ہوجاتی تھی اور آپ ﷺ پر اس کا کچھ مہر واجب نہیں ہوتا تھا۔ یہ اور کسی کے لئے نہ آپ ﷺ کے وقت میں جائز تھا اور نہ اب جائز ہے بلکہ یہ آپ ﷺ کے خصائص میں سے تھا یعنی صرف آپ ﷺ ہی کے لئے جائز تھا چناچہ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ اور اگر کوئی مؤمن عورت اپنے تئیں پیغمبر ﷺ کو ہبہ کر دے یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) اور پیغمبر ﷺ بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ عورت حلال ہے لیکن اے محمد یہ اجازت صرف آپ ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک بغیر مہر کے لفظ ہبہ کے ذریعہ نکاح کا جواز صرف آنحضرت ﷺ کے لئے تھا یہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے جب کہ حنفی مسلک یہ ہے کہ لفظ ہبہ کے ذریعہ نکاح کرنا تو سب کے لئے جائز ہے مگر اس صورت میں مہر کا واجب نہ ہونا صرف آنحضرت ﷺ کے لئے تھا لہذا اگر کوئی عورت اپنے آپ کو کسی شخص کے لئے ہبہ کرے اور وہ شخص اس ہبہ کو قبول کرلے تو اس ہبہ کے ذریعہ دونوں کے درمیان نکاح صحیح ہوجائے گا اور اس شخص پر مہر مثل واجب ہوگا اگرچہ وہ عورت مہر کا کوئی ذکر نہ کرے یا مہر کی نفی ہی کیوں نہ کر دے لہذا حنفی مسلک کے مطابق مذکورہ بالا آیت کے الفاظ (خَالِصَةً لَّكَ ) 33 ۔ الاحزاب 50) کے معنی ہیں کہ اپنے آپ کو ہبہ کردینے والی عورت کا مہر واجب ہوئے بغیر حلال ہونا صرف آپ ﷺ کے لئے ہے۔ (ولو خاتما من حدید) ( اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو) سے معلوم ہوا کہ ازقسم مال کسی بھی چیز کا مہرباندھنا جائز ہے خواہ وہ چیز کتنی ہی کم تر کیوں نہ ہو بشرطیکہ مرد و عورت دونوں اس پر راضی ہوں چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے اس بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا جو مسلک ہے وہ ابتدائے باب میں ذکر کیا جا چکا ہے حنفیہ کی دلیل حضرت جابر کی یہ روایت ہے جس کو دارقطنی نے نقل کیا ہے کہ حدیث (لا تنکحوا النساء الا الاکفاء) الخ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کا نکاح ان کے کفو ہی سے کیا جائے گا اور عورتوں کا نکاح ان کے ولی کریں اور دس درہم سے کم مہر کا اعتبار نہیں ہے۔ نیز حنفی مسلک کی تائید دارقطنی اور بیہقی ہی میں منقول حضرت علی کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ دس درہم سے کم کا مہر معتبر نہیں) حضرت سہیل کی اس روایت کو حنفیہ نے مہر معجل پر محمول کیا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ ازواج مطہرات کے مقررہ مہر میں سے کچھ حصہ علی الفور عین جماع کرنے سے پہلے دیدیتے تھے اسی لئے آپ ﷺ نے ان صحابی کو بھی یہ حکم فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی بھی چیز خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو مل جائے تو لے آؤ تاکہ نکاح کے بعد اس عورت کو مہر کے طور پر کچھ نہ کچھ دے سکو۔ اسی بناء پر بعض علماء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک اس کے مہر میں سے کچھ نہ کچھ اسے دے دیا جائے چناچہ حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت زہری اور حضرت قتادہ کا یہی مسلک تھا ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے نکاح کیا تو آنحضرت ﷺ نے انہیں حضرت فاطمہ کے پاس اس وقت تک جانے سے ممانعت کردی جب تک کہ وہ حضرت فاطمہ کو ان کے مہر میں سے کچھ نہ دیدیں حضرت علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس وقت تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم فاطمہ کو اپنی زرہ دیدو حضرت علی نے حضرت فاطمہ کو اپنی زرہ دیدی اور اس کے بعد ان کے پاس گئے اور یہ معلوم ہے کہ حضرت فاطمہ کا مہر چار سو مثقال چاندی کا تھا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اس مقررہ مہر سے ایک زرہ کی بقدر دینے کا حکم دیا تھا لہذا ان حضرات کے نزدیک مقررہ مہر میں سے علی الفور یعنی جماع سے قبل کچھ دیدینا واجب ہے جب کہ حنفیہ کے ہاں یہ مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا، چناچہ بعض ائمہ نے اسے جائز رکھا ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں یعنی تعلیم قرآن کو مہر قرار دے کے نکاح کرلینے کی صورت میں نکاح تو صحیح ہوجاتا ہے مگر خاوند پر مہر مثل واجب ہوتا ہے اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو ارشاد گرامی (بما معک) الخ میں حرف با بدل کے لئے نہیں ہے بلکہ سببیت کے اظہار کے لئے ہے یعنی اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہے اس کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا گویا تمہیں قرآن کا یاد ہونا اس عورت کے ساتھ ہوا تھا تو قبولیت اسلام ان کے نکاح کا سبب تھا اسے مہر قرار نہیں دیا گیا تھا۔ تم اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرو یہ حکم بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطریق استحباب تھا لہذا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا تھا۔

【3】

ازواج مطہرات کے مہر کی مقدار

اور حضرت ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کا کتنا مہر مقرر کیا تھا ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی ازواج کے لئے بارہ اوقیہ اور ایک نش کا مہر مقرر فرمایا تھا۔ پھر حضرت عائشہ نے پوچھا کہ جانتے ہو نش کسے کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں انہوں نے فرمایا کہ ایک نش آدھے اوقیہ کے برابر ہوتا ہے اس طرح بارہ اوقیہ ایک نش کی مجموعی مقدار پانچ سو درہم کے برابر ہوئی کیونکہ ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتا ہے) اس روایت کو مسلم نے نقل کیا اور شرح السنہ اور اصول کی تمام کتابوں میں لفظ نش نون کے پیش کے ساتھ یعنی نش منقول ہے اصول حدیث کی ان کتابوں کو کہتے ہیں جن میں تمام احادیث سند کے ساتھ لکھی گئی ہیں ( تشریح پانچ سو درہم کے موجودہ وزن اور موجودہ حیثیت کی تفصیل ابتداء باب میں بیان کی جا چکی ہے اس حدیث سے شوافع یہ استدلال کرتے ہیں کہ پانچ سو درہم کا مہرباندھنا مستحب ہے۔ یہاں ایک خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ کی تمام ازواج مطہرات کی مقدار پانچ سو درہم بتائی ہے حالانکہ حضرت ام حبیبہ کا مہر چار ہزار درہم یا چار سو دینار تھا اور حضرت ام حبیبہ بھی آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے تمام ازواج مطہرات کے مہر کی مقدار بتائی ہے جن کا مہر خود آنحضرت ﷺ نے مقرر فرما دیا تھا جب کہ حضرت ام حبیبہ کا مہر حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے باندھا تھا۔

【4】

بھاری مہر کی ممانعت

حضرت عمر بن خطاب کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا خبردار ! عورتوں کا بھاری مہر نہ باندھو اگر بھاری مہر باندھنا دنیا میں بزرگی و عظمت کا سبب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقوی کا موجب ہوتا تو یقینا نبی کریم ﷺ اس کے زیادہ مستحق تھے ( آپ ﷺ بھاری سے بھاری مہر باندھتے) مگر میں نہیں جانتا کہ رسول کریم ﷺ نے بارے اوقیہ سے زیادہ مہر پر اپنی ازواج مطہرات سے نکاح کیا ہو یا اس سے زیادہ مہر پر اپنی صاحبزادیوں کا نکاح کرایا ہو ( احمد ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی) تشریح تقوی سے مراد زیادہ تقوی ہے اور آیت کریمہ ( اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ) 49 ۔ الحجرات 13) ( یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے بڑے مرتبے والا وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو کہ بموجب اللہ تعالیٰ کے نزدیک امتیاز عطا کرنیوالی بزرگی فضیلت کا مستحق بناتا ہے حاصل یہ کہ بھاری مہر باندھنے سے نہ صرف یہ کہ دنیا میں کوئی عظمت و بزرگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک امتیازی بزرگی و فضیلت کا درجہ حاصل نہیں ہوگا اور جب اس کی وجہ سے نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے اور نہ دین کا کوئی نفع تو پھر اس لا حاصل چیز کو کیوں اختیار کیا جائے ازواج مطہرات کے مہر کے سلسلہ میں تین روایتیں ہیں جو بظاہر متضاد معلوم ہوتی ہیں ایک تو حضرت عائشہ کی روایت ہے دوسری روایت یہ ہے کہ جس میں بارہ اوقیہ یعنی چار سو اسی درہم کی مقدار ذکر کی گئی ہے اور ایک روایت آگے آئے گی جس میں حضرت ام حبیبہ کے مہر کی مقدار چار ہزار درہم ذکر ہوگی ان تینوں روایتوں میں سے حضرت ام حبیبہ کے مہر والی روایت کو مستثنی سمجھنا چاہئے کیونکہ ان کا مہر آنحضرت ﷺ نے مقرر نہیں کیا تھا بلکہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے باندھا تھا اور نجاشی بادشاہ نے بھی اتنا زیادہ مہر محض آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم کے پیش نظر باندھا تھا۔ اب رہی حضرت عائشہ اور حضرت عمر کی روایتیں تو دونوں کے درمیان بھی درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے مہر کی اصل مقدار کی وضاحت کرتے ہوئے اوقیہ کے ساتھ کسر یعنی آدھے اوقیہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور حضرت عمر نے صرف اوقیہ کا ذکر کیا کسر کو چھوڑ دیا اس کے علاوہ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت عمر نے بارہ اوقیہ سے زیادہ کی نفی اپنے علم کے مطابق کی ہے یعنی حضرت عمر کو صرف بارہ اوقیہ ہی کا علم ہوگا اور حضرت عائشہ نے جو ایک نش آدھا اوقیہ زیادہ ذکر کیا ہے وہ حضرت عمر کے علم میں نہیں آیا ہوگا۔ یہ بات ملحوظ ہے کہ حضرت عمر نے یہاں صرف اولی اور افضل کو بیان کیا ہے یعنی ان کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ زیادہ بہتر اور افضل و اولی یہ ہے کہ مہر کم ہی باندھا جائے جس کی مسنون مقدار بارہ اوقیہ ہے ورنہ تو جہاں تک جواز کا تعلق ہے یہ بتایا جا ہی چکا ہے کہ اس سے زیادہ مہر باندھنا بھی جائز ہے۔

【5】

مہر میں کچھ حصلہ علی الفور دیدینا بہتر ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کے مہر میں سے کچھ حصہ بطور مہر معجل دیدیا مثلا دونوں ہاتھ بھر کر ستو یا کھجوریں دیدیں تو اس نے اس عورت کو اپنے لئے حلال کرلیا ہے ( ابوداؤد) اور حضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے ایک جوڑی جوتی پر ایک شخص سے نکاح کیا تو رسول کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کیا تم اپنی مالداری کے باوجود اپنے آپ کو ایک جوڑا جوتی کے بدلے حوالے کردینے پر راضی ہوگئیں یعنی اس کے باوجود کہ تم خود مالدار اور باحیثیت خاتون ہو کیا صرف ایک جوڑا جوتی کے بدلے اپنے آپ کو حوالے کردینے پر راضی ہو ( اس عورت نے کہا کہ ہاں میں راضی ہوں آپ ﷺ نے یہ جواب سن کر اس کو جائز رکھا (ترمذی) تشریح رفع تعارض کے پیش نظر اس حدیث کو بھی مہر معجل پر محمول کیا جائے گا لیکن اس کی یہ توضیح زیادہ مناسب ہے کہ جب اس عورت نے ایک جوڑا جوتی کے عوض نکاح کیا تو اس کا نکاح صحیح ہوگیا اور اسے اپنے مہر مثل کے مطالبہ کا حق حاصل ہوگیا جب وہ ایک جوڑا جوتی پر راضی ہوگئی تو گویا وہ اپنے مہر مثل میں سے ایک جوڑا جوتی سے زیادہ کے حق کے دستبردار ہوگئی لہذا رسول کریم ﷺ نے اس کو جائز رکھا اور چونکہ اس صورت میں اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے یہ حدیث حضرت امام شافعی وغیرہ کے مسلک کی دلیل نہیں ہوسکتی اور ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔

【6】

مہرمثل و اجب ہونے کی ایک صورت

اور حضرت علقمہ حضرت بن مسعود کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ ان سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کا کچھ مہر مقرر نہیں کیا اور پھر اس نے ابھی دخول نہیں کیا تھا یعنی نہ تو اپنی بیوی کے ساتھ جماع کیا تھا اور نہ خلوت صحیحہ ہوئی تھی۔ کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ابن مسعود نے ایک مہینہ تک اس مسئلہ پر غور و فکر کیا اور پھر اپنے اجتہاد کی بنیاد پر فرمایا کہ اس عورت کو وہ مہر ملے گا جو اس کے خاندان کی عورتوں کا ہے (یعنی اش شخص کی بیوہ کو مہر دیا جائے گا) نہ اس میں کوئی کمی ہوگی نہ زیادتی اور اس عورت پر شوہر کی وفات کی عدت بھی واجب ہوگی اور اس کو میراث بھی ملے گی۔ یہ سن کر حضرت معقل بن سنان اشجعی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں یہی حکم دیا تھا جو اس وقت آپ نے بیان کیا ہے حضرت ابن مسعود یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے۔ (ترمذی ابوداؤد نسائی دارمی) تشریح حضرت ابن مسعود کو اللہ تعالیٰ نے علم و فضل ذہانت و ذکاوت اور دینی فہم و فراست کی دولت بڑی فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی تھی کسی بھی الجھے ہوئے مسئلے کو اپنی بےپناہ قوت اجتہاد کے ذریعہ اس طرح حل فرما دیتے تھے کہ وہ قرآن و حدیث کے بالکل مطابق ہوتا انہوں نے اپنی قوت اجتہاد سے اس کا شرعی فیصلہ سنایا تو ایک صحابی حضرت معقل نے علی الاعلان یہ شہادت دی کہ حضرت ابن مسعود کا یہ فیصلہ آنحضرت ﷺ کے حکم کے عین مطابق ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی اسی قسم کے ایک معاملہ میں ایسا ہی فیصلہ صادر فرمایا تھا چناچہ حضرت ابن مسعود نے اپنی اس بات پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار فرمایا کہ حق تعالیٰ نے میری رہبری فرمائی اور میرا یہ فیصلہ آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق ہوا۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں حضرت علی اور صحابہ کی ایک جماعت کا یہ مسلک تھا کہ اس صورت میں عورت عدم دخول کی وجہ سے مہر کی حق دار نہیں ہوتی ہاں اس پر عدت واجب ہوتی ہے اور اسے شوہر کی میراث بھی ملتی ہے اس بارے میں حضرت امام شافعی کے دو قول ہیں ایک تو حضرت علی کے موافق ہے اور دوسرا قول حضرت ابن مسعود کے مطابق ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا مسلک وہی ہے جو حضرت ابن مسعود نے بیان کی ہے۔ مہر مثل کسے کہتے ہیں ؟ مہر مثل عورت کے اس مہر کو کہتے ہیں جو اس کے باپ کے خاندان کی ان عورتوں کا ہو جو ان باتوں میں اس کے مثل ہوں عمر، جمال، زمانہ، عقل، دینداری، بکارت و ثیوبت، علم و ادب اور اخلاق و عادات۔

【7】

ام حبیبہ سے آنحضرت ﷺ کے نکاح کی تفصیل اور ان کے مہر کی مقدار۔

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ پہلے عبداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں پھر جب ملک حبشہ میں عبداللہ کا انتقال ہوگیا تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کا نکاح نبی کریم ﷺ کے ساتھ کردیا اور نجاشی نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے ام حبیبہ کا مہر چار ہار مقرر کیا ایک اور روایت میں چار ہزار درہم کے الفاظ ہیں (یعنی یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں درہم کا لفظ نہیں ہے بلکہ صرف چار ہزار کا ذکر ہے جب کہ ایک دوسری روایت میں چار ہزار کے ساتھ درہم کا لفظ بھی ہے اور یہی مراد ہے اور نجاشی نے نکاح کے بعد ام حبیبہ کو شرحبیل ابن حسنہ کے ہمراہ آنحضرت ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ (ابوداؤد نسائی) تشریح حضرت ام حبیبہ کے پہلے شوہر کا نام مشکوۃ کے تمام نسخوں میں عبداللہ بن جحش ہی لکھا ہوا ہے حالانکہ یہ نام غلط ہے صحیح نام عبیداللہ بن جحش (تصغیر کے صیغہ کے ساتھ) ہے چناچہ سنن ابوداؤد اور اصول وغیرہ میں اسی طرح لکھا ہوا ہے۔ حضرت ام حبیبہ کا اصل نام رملہ تھا یہ حضرت ابوسفیان کی صاحبزادی اور حضرت معاویہ کی بہن تھی۔ پہلے ان کی شادی عبیداللہ بن جحش کے ساتھ ہوئی تھی عبیداللہ نے اسلام قبول کرلیا تھا اور ام حبیبہ کے ساتھ مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔ پھر وہاں پہنچ کر مرتد ہوگئے یعنی اسلام ترک کر کے عیسائی ہوگئے اور وہیں مرگئے ام حبیبہ اسلام پر ثابت قدم رہیں پھر آنحضرت ﷺ نے عمرو بن امیہ ضمری کو حبشہ کے بادشاہ اصحمہ جن کا لقب نجاشی تھا کے پاس یہ حکم دے کر بھیجا کہ وہ ام حبیہ کو آپ ﷺ کے نکاح کا پیغام دیں چناچہ نجاشی نے آنحضرت ﷺ کا یہ حکم آپ کی اپنی ایک لونڈی ابراہہ کے ذریعہ حضرت ام حبیبہ کی خدمت میں بھیجا ابراہہ نے ان سے کہا کہ مجھے بادشاہ نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور کہا ہے کہ مجھے رسول کریم ﷺ کا یہ حکم ملا ہے کہ آپ سے رسول کریم ﷺ کا نکاح کر دوں حضرت ام حبیبہ نے یہ پیغام بطیب خاطر قبول کیا اور فورا ایک آدمی کو حضرت خالد بن سعید کے پاس بھیج کر ان کو اپنا وکیل مقرر کیا جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے اور ساتھ ہی ابراہہ کو یہ خوشخبری سنانے کے عوض دو کپڑے اور چاندی کی ایک انگوٹھی عطا کی پھر جب شام ہوئی تو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابوطالب کو اور ان تمام مسلمانوں کو جو اس وقت حبشہ میں موجود تھے جمع ہونے کا حکم دیا جب سب لوگ جمع ہوگئے تو نجاشی نے یہ خطبہ پڑھا۔ پھر یہ الفاظ کہے بعد ازاں میں نے اس چیز کو قبول کیا جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اور میں نے چار سو دینا مہر مقرر کیا اس کے بعد انہوں نے وہ چار سو دینار لوگوں کے سامنے پیش کردیئے اس کے بعد حضرت خالد بن سعید نے یہ خطبہ پڑھا پھر یہ الفاظ کہے بعد ازاں میں نے اس چیز کو قبول کیا جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے اور میں نے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے آنحضرت ﷺ کا نکاح کردیا اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو یہ نکاح مبارک کرے۔ اس ایجاب و قبول کے بعد مہر کے وہ چار سو دینار حضرت خالد بن سعید کو دے دیئے گئے جنہیں انہوں نے رکھ لیا پھر جب لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو ناشی نے کہا کہ ابھی آپ لوگ بیٹھے رہیں کیونکہ نکاح کے وقت کھانا کھلانا انبیاء کی سنت ہے چناچہ انہوں نے کھانا منگوایا اور سب لوگ کھانا کھا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے یہ سن ٧ ھ کا واقعہ ہے اس وقت حضرت ام حبیبہ کے والد ابوسفیان مشرک تھے اور آنحضرت ﷺ کے سخت دشمن تھے پھر بعد میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔

【8】

قبولیت اسلام مہرکا قائم مقام

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ابوطلحہ نے جب ام سلیم سے نکاح کیا تو قبولیت اسلام آپس میں مہر قرار پایا۔ ام سلیم نے ابوطلحہ سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اور پھر جب ابوطلحہ نے ام سلیم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو ام سلیم نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو میں تم سے نکاح کرلوں گی۔ اور تم سے مہر نہیں لوں گی) چناچہ ابوطلحہ نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام قبول کرلینا ہی آپس میں مہر قرار پایا ( نسائی) تشریح حضرت ام سلیم ملحان کی بیٹی اور حضرت انس بن مالک کی ماں ہیں۔ پہلے ان کی شادی مالک بن نضر کے ساتھ ہوئی تھی جس سے حضرت انس پیدا ہوئے مالک کو قبولیت اسلام کی توفیق نہیں ہوئی اور وہ حالت شرک میں مارا گیا پھر ام سلیم نے اسلام قبول کرلیا اور ابوطلحہ نے جو اس وقت مشرک تھے ان کو اپنے نکاح کا پیغام دیا ام سلیم سے ان کا نکاح ہوگیا۔ لہذا حدیث کے الفاظ اور اسلام قبول کرلینا ہی مہر قرار پایا کی وضاحت حنفیہ کے مسلک کے مطابق یہ ہے کہ ام سلیم کے ساتھ ابوطلحہ کا نکاح تو مہر کے ساتھ ہی ہوا لیکن ام سلیم نے اپنے وعدہ کے مطابق ابوطلحہ کے اسلام لانے کی وجہ سے اپنا مہر بخش دیا گویا ابوطلحہ کا اسلام قبول کرنا ان کے آپس کے نکاح کا سبب ہوا نہ یہ کہ قبولیت اسلام ان کا مہر تھا ہاں دوسرے ائمہ اس حدیث کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ کا اسلام قبول کرنا ہی ان کا مہر تھا۔