33. کتاب مدبر کے بیان میں

【1】

مدبرہ کی اولاد کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے بعد اس کے اس کی اولاد پیدا ہو پھر وہ لونڈی مولیٰ کے سامنے مرجائے تو اس کی اولاد اپنی ماں کی طرح مدبر رہے گی جب مولیٰ مرجائے گا اور ثلث مال میں گنجائش ہو تو آزاد ہوجائے گی۔ کہا مالک نے ہر عورت کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہوگی اگر وہ مدبر ہے یا مکاتبہ ہے یا معتقہ الی اجل ہے یا مخدمہ ہے یا معتقہ البعض ہے یا گرو ہے یا ام ولد ہے۔ ہر ایک کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہوگی وہ آزاد تو وہ آزاد اور وہ لونی ہوجائے گی تو وہ بھی مملوک ہوجائے گی۔ کہا مالک نے اگر لونڈی حالت حمل میں مدبر ہوئی تو اس کا بچہ بھی مدبر ہوجائے گا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنی حاملہ لونڈی کو آزاد کردیا اور اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ حاملہ ہے تو اس کا بچہ بھی آزاد ہوجائے گا۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر ایک شخص حاملہ لونڈی کو بیچے تو وہ لونڈی اور اس کے پیٹ کا بچہ مشتری (خریدنے والا) کا ہوگا خواہ مشتری (خریدنے والا) نے اس کی شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔ کہا مالک نے اسی طرح بائعے کے لئے درست نہیں کہ لونڈی کو بیچے اور اس کا حمل بیچے کیونکہ اس میں دھوکا ہے شاید بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص پیٹ کے بچے کو بیچے اس کی بیع درست نہیں۔ کہا مالک نے اگر مدبر اپنے مولیٰ سے کہے تو مجھے ابھی آزاد کر دے میں تجھے پچاس دینار قسط وار دیتا ہوں مولیٰ کہے اچھا تو آزاد ہے تو مجھے پچاس دینار پانچ برس میں دے دینا ہر سال دس دینار کے حساب سے مدبر اس پر راضی ہوجائے بعد اس کے دو تین دن میں مولیٰ مرجائے تو وہ آزاد ہوجائے گا اور پچاس دینار اس پر قرض رہیں گے اور اس کی گواہی جائز ہوجائے گی اور اس کی حرمت اور میراث اور حدود پورے ہوجائیں گے اور مولیٰ کے مرجانے سے ان پچاس دینار میں کچھ کمی نہ ہوگی۔

【2】

مدبر کے احکام کا بیان

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مدبر کرے پھر مرجائے اور اس کا مال کچھ موجود ہو کچھ غالب ہو جس قدر موجود ہو اس کے ثلث میں سے مدبر کو روک رکھیں گے اور اس کی کمائی کو بھی جمع کرتے جائیں گے یہاں تک کہ جو مال غائب ہے وہ بھی نکل آئے پھر اگر مولیٰ کے کل مال کے ثلث میں سے مدبر آزاد ہو سکے گا تو آزاد ہوجائے اور مدبر کا مال اور کمائی اسی کو ملے گی اور جو ثلث میں سے کل آزاد نہ ہو سکے گا تو ثلث ہی کی مقدار آزاد ہوجائے گا اس کا مال اسی کے پاس رہے گا۔ کہا مالک نے آزادی کی جتنی وصیتیں ہیں صحت میں ہوں یا مرض میں ان میں رجوع اور تغیر کرسکتا ہے مگر تدبیر میں جب کسی کو مدبر کردیا اب اس کے فسخ کا اختیار نہ ہوگا۔ کہا مالک نے جس لونڈی کے آزاد کرنے کی وصیت کی اور اس کو مدبر نہ کیا تو اس کی اولاد اپنی ماں کے ساتھ آزاد نہ ہوگی اس لئے کہ مولیٰ کا اس وصیت کے بدل ڈالنے کا اختیار تھا نہ ان کی ماں کے لئے آزادی ثابت ہوئی تھی بلکہ یہ ایسا ہے کوئی کہے اگر فلانی لونڈی میرے مرنے تک رہے تو وہ آزاد ہے پھر وہ اس کے مرنے تک رہی تو آزاد ہوجائے گی مگر مولیٰ کو اختیار ہے کہ موت سے پیشتر اس کو یا اس کی اولاد کو بیچے تو آزادی کی وصیت اور تدبیر کی وصیت میں سنت قدیمہ کی رو سے بہت فرق ہے اگر وصیت مثل تدبیر کے ہوتی تو کوئی شخص اپنی وصیت میں تغیر و تبدل کا اختیار نہ رکھتا۔ کہا مالک نے جو شخص اپنے چند غلاموں کو صحت کی حالت میں مدبر کرے اور سوا ان کے کچھ مال نہ رکھتا ہو اگر اس نے اس طرح مدبر کیا کہ پہلے ایک کو پھر دوسرے کو تو جس کو پہلے مدبر کیا وہ ثلث مال میں سے آزاد ہوجائے گا پھر دوسرا پھر تیسرا اسی طرح جب تک ثلث مال میں گنجائش ہو اگر سب کو ایک ساتھ مدبر کیا ہے ایک ہی کلام میں تو ہر ایک ثلث آزاد ہوجائے گا جب سب کو بیماری میں مدبر کیا۔

【3】

مدبر کرنے کی وصیت کا بیان

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور سوا اس کے کچھ مال نہ تھا پھر مولیٰ مرگیا اور مدبر کے پاس مال ہے تو ثلث مدبر آزاد ہوجائے گا اور مال اس کا اسی کے پاس رہے گا۔ کہا مالک نے جس مدبر کو مولیٰ مکاتب کر دے پھر مولیٰ مرجائے اور سوا اس کے کچھ مال نہ چھوڑے تو اس کا ایک ثلث آزاد ہوجائے گا اور بدل کتابت میں سے بھی ایک ثلث گھٹ جائے گا اور دو ثلث مدبر کو ادا کرنا ہوں گے۔

【4】

لونڈی کو جب مدبر کر دے اس سے صحبت کرنے کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی لونڈیوں کو مدبر کیا اور اس سے صحبت بھی کرتے تھے۔

【5】

لونڈی کو جب مدبر کر دے اس سے صحبت کرنے کا بیان

سعید بن مسیب کہتے تھے جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے تو اس سے وطی کرسکتا ہے مگر بیع یا ہبہ نہیں کرسکتا اور اس کی اولاد بھی مثل اپنی ماں کے ہوں گی۔

【6】

مدبر کے بیچنے کا بیان

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مدبر کو مولیٰ نہ بیچے اور نہ کسی طرح سے اس کی ملک منتقل کرے اور مولیٰ اگر قرضدار ہوجائے تو اس کے قرضخواہ مدبر کو بیچ نہیں سکتے جب تک اس کا مولیٰ زندہ ہے اگر مرجائے اور قرض دار نہ ہو تو ثلث مال میں کل مدبر آزاد ہوجائے گا کیونکہ اگر کل مال میں سے آزاد ہو تو سراسر مولیٰ کا فائدہ ہے کہ زندگی بھر اس سے خدمت لی پھر مرتے وقت آزادی کو بھی ثواب کما لیا اور ورثاء کا بالکل نقصان ہے اگر سوا اس مدبیر کے مولیٰ کا کچھ مال نہ ہو تو ثلث مدبر آزاد ہوجائے گا اور دو ثلث وارثوں کا حق ہوگا اگر مدبر کا مولیٰ مرجائے اور اس قدر مقروض ہو کہ مدبر کی کل قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ تو مدبر کو بیچیں گے کیونکہ مدبر جب آزاد ہوتا ہے کہ ثلث مال میں گنجائش ہو اگر قرضہ غلام کے نصف قیمت کے برابر ہو تو نصف مدبر کو قرضہ ادا کرنے کے لئے بیچیں گے اور نصف جو باقی ہے اس کا ایک ثلث آزاد ہوجائے گا۔ کہا مالک نے مدبر کا بیچنا درست نہیں اور نہ کسی کو اس کا خریدنا درست ہے مگر مدبر اپنا آپ مولیٰ سے خرید سکتا ہے یہ جائز ہے اور یہ بھی جائز کہ کوئی شخص مدبیر کے مولیٰ کو کچھ مالک دے تاکہ وہ اپنے مدبر کو آزاد کر دے مگر ولاء اس کے مولیٰ کو ملے گی جس نے اس کو مدبر کیا تھا۔ کہا مالک نے جو غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور یہ شخص ان میں سے اپنے حصے کو مدبر کر دے تو اس کی قیمت لگا دیں گے اگر جس شخص نے مدبر کیا ہے اس نے دوسرے شریک کا بھی حصہ خرید لیا تو کل غلام مدبر ہوجائے گا اگر نہ خریدا تو اس کی تدبیر باطل ہوجائے گی مگی جس صورت میں جس نے مدبر نہیں کیا وہ اپنے شریک سے قیمت لینے پر راضی ہوجائے اور قیمت لے لے تو غلام مدبر ہوجائے گا۔ کہا مالک نے اگر نصرانی اپنے نصرانی غلام کو مدبر کرے بعد اس کے غلام مسلمان ہوجائے تو اس کو مولیٰ سے الگ کردیں گے۔

【7】

مدبر کسی شخص کو زخمی کرے تو کیا کرنا چاہئے۔

عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا کہ جب مدبر کسی شخص وہ اس سے خدمت لے اپنے زخم کی دیت کے بدلے میں جب اس کی دیت ادا ہوجائے اور مولیٰ نہ مرا ہو تو پھر اپنے مولیٰ کے پاس چلا آئے۔ کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مدبر اگر کسی شخص کو زخمی کرے پھر اس کا مولیٰ مرجائے اور سوائے اس کے اور کچھ مال نہ ہو تو ثلث مدبر آزاد ہوجائے گا پھر زخم کی دیت کے تین حصے کریں گے ایک حصہ تو مدبر کے اس ثلث پر ڈالا جائے گا جو آزاد ہوگیا اور دو حصے ان دو ثلث پر واقع ہوں گے جو ورثہ کے ہاتھ میں ہیں اب ورثاء کو اختیار ہوگا اگر چاہیں تو ان دو ثلث کو بھی مدبر کے مجروح کے حوالہ کریں اگر چاہیں تو دیت کے دو ثلث ادا کریں اور مدبر کے دو ثلث رکھ چھوڑیں کیونکہ اس زخم کی دیت غلام کی جنایت کے سبب سے ہے اور سید پر دین نہیں ہے تو غلام کے اس قصور سے سید نے جو کام کیا تھا آزادی یا تدبیر باطل نہ ہوگا۔ اگر مولیٰ اس صورت میں قرضدار بھی ہو تو مدبر میں سے موافق دیت کے اور قرضہ کے بیچ کے پہلے دیت کو ادا کریں گے پھر دین کو ادا کریں گے پھر جو کچھ حصہ غلام کا بیچ رہے گا اس کا ثلث آزاد ہوجائے گا اور دو ثلث اس کے وارثوں کو ملیں گے کیونکہ غلام کی جنایت کا تاوان مولیٰ کے قرض پر مقدم ہے اس کی مثال یہ ہے ایک شخص مرگیا اور ایک غلام مدبر چھوڑ گیا جس کی قیمت ڈیڑھ سو دینار ہے اور اس غلام نے ایک شخص کو زخمی کیا تھا جس کے زخم کی دیت پچاس دینار ہے اور سید پر بھی پچاس دینار کا قرض ہے تو پہلے مدبر کی قیمت میں سے دیت کے پچاس دینار ادا کریں گے پھر قرض کے پچاس دینار ادا کریں گے اب جو کچھ بچ رہا اس کا ایک ثلث آزاد ہوجائے گا اور دو ثلث وارثوں کو ملیں گے تو دیت قرض سے مقدم ہے اور جو وصیت ہے مال تو تدبیر جائز نہ ہوگی۔ جب سید پر دین ہو جو ہو بلکہ تدبیر ایک وصیت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (من بعد وصیہ یوصی بھا او دین) اور دین مقدم ہے وصیت پر اجمالا۔ کہا مالک نے اگر مدبر ثلث مال میں سے آزاد ہوسکتا ہے تو آزاد ہوجائے گا اور زخم کی دیت اس پر دین رہے گی اگرچہ یہ پوری دیت ہو بعد آزادی کے اس سے مؤ اخذہ کیا جائے گا جب سید پر کچھ دین نہ ہو۔ کہا مالک نے مدبر جب کسی شخص کو زخمی کرے اور مولیٰ اس کو مجروح کے حوالے کر دے پر مولیٰ قرضدار ہو کر مرجائے اور سوائے اس کے کچھ مال نہ چھوڑے پھر وارث یہ کہیں کہ ہم مدبر کو مجروح کے حوالے کرتے ہیں اور قرضخواہ یہ کہے کہ مدبر اگر مجھ کو ملے تو دیت سے زیادہ میں قیمت دیتا ہوں اس صورت میں وہ مدبر قرضخواہ کے حوالے کیا جائے گا اور جس قدر قرضخواہ نے دیت سے زیادہ دیا ہے اتنا قرضہ مولیٰ کے ذمے سے ساقط ہوگا اگر دیت سے زیادہ نہ دے تو قرضخواہ اس مدبر کو نہ لے سکے گا۔ کہا مالک نے اگر مدبر مالدار ہو اور کسی شخص کو زخمی کرے پھر مولیٰ دیت دینے سے انکار کرے تو جو شخص زخمی ہوا ہے وہ مدبر کا مال اپنی دیت میں لے گا اگر اس کی دیت اسی مال میں پوری ہوگئی تو مدبر اس کے مولیٰ کے حوالے کرے گا ورنہ جس قدر دیت باقی رہ گئی ہے اسی قدر خدمت مدبر سے لے گا۔

【8】

ام ولد کسی شخص کو زخم کرے تو کیا کرنا چاہئے۔

کہا مالک نے اگر ام ولد کسی شخص کو زخمی کرے تو دیت اس کے مولیٰ کو دینا ہوگی مگر جس صورت میں دیت ام ولد کی قیمت سے زیادہ ہو تو مولیٰ پر لازم نہیں کہ کہ ام ولد کی قیمت سے زیادہ دے اس لئے کہ اگر کوئی لونڈی یا غلام جنایت کرے تو مولیٰ اس پر اس سے زیادہ لازم نہیں کہ اس لونڈی یا غلام کو صاحب جنایت کے حوالے کرے اگرچہ دیت کتنی ہی اس لونڈی یا غلام کی قیمت سے زیادہ ہو اب یہاں پر ام ولد کا مولیٰ یہ تو نہیں کرسکتا کہ ام ولد صاحب جنایت کے حوالے کرے اس لئے کہ ام ولد کی بیع یا ہبہ اور کسی طور سے نقل ملک درست نہیں بلکہ خلاف ہے سنت قدیمہ کے جب ایسا ہوا تو قیمت ام ولد کی خود ام ولد کے قائم مقام ہے اس سے زیادہ مولیٰ پر لازم نہیں یہ میں نے بہت اچھا سنا مولیٰ پر ام ولد کی قیمت سے زیادہ جنایت میں دینا لازم نہیں۔