35. کتاب قرض کے بیان میں

【1】

قراض کا بیان

زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت ہے کہ کہ عبداللہ بن عبیداللہ بیٹے حضرت عمر بن خطا کے ایک لشکر کے ساتھ نکلے جہاد کے واسطے عراق کی طرف جب لوٹے تو ابومویس اشعری کے پاس گئے جو حاکم تھے بصرے کے انہوں نے کہا مرحبا اور سہلا پھر کہا کاش میں تم کو کچھ نفع پہنچا سکتا تو پہنچاتا میرے پاس کچھ روپیہ ہے اللہ کا جس کو میں بھیجنا چاہتا ہوں حضرت عمر کے پاس تو میں وہ روپے تم کو قرض دے دیتا ہوں اس کا اسباب خرید لو عراق سے پھر مدینہ میں اس مال کو بیچ کر اصل روپیہ حضرت عمر کو دیدینا اور نفع تم لے لینا انہوں نے کہا ہم بھی یہ چاہتے ہیں ابوموسیٰ نے ایسا ہی کیا اور حضرت عمر کو لکھ بھیجا کہ ان دونوں سے اصل روپیہ وصول کرلیجئے گا جب دونوں مدینہ کو آئے انہوں نے مال بیچا اور نفع حاصل کیا پھر اصل مال لے کر حضرت عمر کے پاس گئے حضرت عمر نے پوچھا کی ابومویس نے لشکر کے سب لوگوں کو اتنا اتنا روپیہ قرض دیا تھا انہوں نے کہا نہیں حضرت عمر نے کہا پھر تم کو امیرالمومنین کا بیٹا سمجھ کر یہ روپیہ دیا ہوگا اصل روپیہ اور نفع دونوں دے دو عبداللہ تو چپ ہو رہے اور عبیداللہ نے کہا اے امیر المومنین تم کو ایسا نہیں کرنا چاہئے اگر مال تلف ہوتا یا نقصان ہوتا تو ہم ضمان دیتے حضرت عمرنے کہا نہیں دے دو عبداللہ چپ ہو رہے عبیداللہ نے پھر جواب دیا اتنے میں ایک شخص حضرت عمر کے مصاحبوں میں سے بولا اے امیر المومنین تم اس کو مضاربت کردو تو بہتر ہے حضرت عمر نے کہا میں نے کیا پھر حضرت نے اصل مال اور نصف نفع لیا اور عبداللہ اور عبیداللہ نے آدھا نفع لیا۔

【2】

قراض کا بیان

حضرت عثمان بن عفان کو مال دیا مضاربت کے طور پر تاکہ یعقوب محنت کریں اور نفع میں شریک ہوں۔

【3】

جس طرح مضاربت درست ہے اس کا بیان

کہا مالک نے مضاربت اس طور پر درست ہے کہ آدمی ایک شخص سے روپیہ لے اس شرط پر کہ محنت کرے گا لیکن اگر نقصان ہو تو اس پر ضمان نہ ہوگا اور مضاربت کا خریچ سفر کی حالت میں کھانے پینے سواری کا دستور کے موافق اسی مال میں سے دیا جائے گا نہ کہ اقامت کی حالت میں۔ کہا مالک نے اگر مضا رب رب المال کی مدد کرے یا رب المال کی دستور کے موافق بغیر شرط کے تو درست ہے۔ کہا مالک نے اگر رب المال مضا رب سے کوئی چیز خرید لے بغیر شرط کے تو کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے اگر رب المال ایک غیر شخص اور ایک اپنے غلام کو مال دے مضاربت کے طور پر اس شرط سے کہ دونوں محنت کریں درست ہے اور غلام کے حصہ کا نفع غلام کے پاس رہے گا مگر جب مولیٰ اس سے لے لے تو مولیٰ کا ہوجائے گا۔

【4】

جس طرح مضاربت درست ہے اس کا بیان

کہا مالک نے مضاربت در نہیں درست ہے مگر سونے چاندی اور اسباب میں درست نہیں کیونکہ اسباب میں مضارب دو طرح پر ہوگی ایک یہ کہ رب المال مضارب کو اسباب دے اور کہے اس کو بیچ کر اس کے داموں میں مضاربت کر یہ درست نہیں کیونکہ اس میں رب المال کا ایک خاص فائدہ ہوا وہ یہ کہ اس کا اسباب بغیر وقت کے بک گیا دوسری شکل یہ ہے کہ رب المال مضارب کو اسباب میں دے کر یہ کہے اس اسباب کے بدلے میں اور اسباب خرید کر کے تجارت کر جب معاملہ ختم کرنا منظور ہو تو جیسا اسباب میں نے دیا ہے ویسا ہی اسباب خرید کر کے دینا جو بچ رہے وہ ہم تم بانٹ لیں گے یہ بھی درست نہیں کیوکنہ اس میں دھوکا ہے شاید جس وقت یہ اسباب رب المال نے مضارب کو دیا ہے گراں ہو پھر جس وقت ارزاں خریدے تو مضارب راس المال میں سے نفع کمالے گا شاید جس وقت رب المال نے دیا ہے اس وقت ارزاں ہو۔ پھر معاملہ ختم ہوتے وقت گراں ہوجائے تو مضارب کا صل اور نفع سب اس کی خرید میں صرف ہوجائے اور مضارب کی کوشش اور محنت برباد ہوجائے اس پر بھی اگر کوئی اس طرح مضاربت کرے تو پہلے مضارب کو اس اسباب کے بیچنے کے دستور کے موافق اجرت دلا کر جس روز سے راس المال نقد ہوا ہے مضارب قائم کریں گے پھر معاملہ ختم ہوتے وقت بھی اس قدر نقد کو راس المال سمجھیں۔

【5】

جس طرح مضاربت درست ہے اس کا بیان

کہا مالک نے اگر مضارب اسباب خرید کر کے ایک شہر میں لے گیا وہاں نہ بکا اور نقصان سمجھ کو دوسرے شہر کو لے گیا وہاں پر نقصان سے بکا اور راس المال سب کرایہ پر صرف ہوگیا بلکہ اور کچھ کرایہ باقی رہ گیا تو مضارب اس کو اپنی ذات سے ادا کرے رب المال سے نہیں لے سکتا۔

【6】

جس طور سے مضاربت درست نہیں اس کا بیان

کہا مالک نے اگر ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو پھر قرضدار یہ کہے قرضخواہ سے تو اپنا روپیہ مضاربت کے طور پر رہنے دے میرے پاس تو یہ درست نہیں بلکہ قرض خواہ کو چاہیے کہ اپنا روپیہ وصول کرلے پھر اختیار ہے خواہ مضاربت کے طور پردے یا اپنے پاس رکھ چوڑے کیونکہ قبل روپیہ وصول کرنے کے اس کو مضاربت کردینے میں ربا کا شبہ ہے گویا قرضدار نے مہلت لے کر قرض میں زیادتی کی۔ کہا مالک نے ایک شخص نے دوسرے کو روپیہ دیا مضاربت کے طور پر پھر اس میں سے کچھ روپیہ تلف ہوگیا قبل تجارت شروع کرنے کے پھر مضا رب نے جس قدر روپیہ بچا تھا اس میں تجارت کرکے نفع کمایا اب مضا رب یہ چاہے کہ رائس المال اسی کو قرار دے جو بچ رہا تھا بعد نقصان کے اور جس قدر اس سے زیادہ ہو اس کو نفع سمجھ کر آدھوں آدھ بانٹ لے تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ رائس المال کی تکمیل کرکے جو کچھ بچے گا اس کو شرط کے موافق تقسیم کرلیں گے۔ کہا مالک نے مضاربت درست نہیں مگر چاندی اور سونے میں اور اسباب وغیرہ میں درست نہیں لیکن قراض اور بیوع میں اگر فساد قلیل ہو اور فسخ ان کا دشوار ہو تو جائز ہوجائیں گے برخلاف ربا کے کہ وہ قلیل وکثیر حرام ہے کسی طرح جائز نہیں کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے اگر تم توبہ کرو ربا سے تو تم کو اس مال ملے گا نہ ظلم کرو نہ ظلم کئے جاؤ۔

【7】

جس طور سے مضاربت درست نہیں اس کا بیان

کہا مالک نے اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا پھر اصل مال یا نفع میں سے لونڈی خرید کر اس سے وطی کی اور وہ حاملہ ہوگئی اب مال میں نقصان ہوا تو مضارب کے ذاتی مال میں سے اس لونڈی کی قیمت لے کر نقصان کو پورا کریں گے جو کچھ بچ رہے گا وہ شرط کے موافق مضارب اور رب المال کا ہوگا اگر اس سے بھی نقصان پورا نہ ہو تو لونڈی کو بیچ کر نقصان پورا کریں گے۔ کہا مالک نے اگر مضارب نے یہ قصور کیا کہ اسباب خریدنے میں انپی طرف سے خواہ مخواہ اس کی قیمت بڑھا دی تو رب المال کو اختیار ہے چاہے اس اسباب کو رہنے دے اور جس قدر مضارب نے راس المال سے زیادہ دیا ہے وہ ادا کردے چاہے مضارب کا شریک ہوجائے اس مال میں کہا مالک نے اگر مضارب نے مال مضاربت کسی اور کو مضاربت کے طور پر دیا بغیر رب المال کے پوچھے ہوئے تو وہ مال کا ضامن ہوجائے گا اگر اس میں نقصان ہو تو مضارب اپنی ذات سے ادا کرے گا اگر نفع ہو تو رب المال اپنا راس المال اور نفع شرط کے موافق لے لے گ بعد اس کے جو بچ رہے گا اس میں مضارب اور مضارب کا شریک ہوں گے۔ کہا مالک نے اگر مضارب مال مضاربت میں سلف کر کے کوئی اسباب اپنے لئے خریدے اگر اس میں نفع ہوگا تو مضارب اور رب المال شرط کے موافق اس میں شریک ہوں گے اگر نقصان ہوگا تو مضارب کو نقصان کا ضمان دینا ہوگا کہا مالک نے اگر مضارب نے مال مضاربت میں سلف کر کے اپنے لئے کوئی اسباب خریدا تو رب المال کو اختیار ہے خواہ اس مال میں شریک ہوجائے یا اس مال کو چھوڑ دے اور اپنا راس المال مضارب سے پھیر لے اسی طرح جو مضارب قصور کرے تو رب المال کو اپنا مال پھیر لینے کا اختیار ہے۔

【8】

مضارب مال مضاربت میں سے کتنا خرچ کرسکتا ہے

کہا مالک نے اگر مال مضارب بہت ہو خرچہ اٹھا سکتا ہو تو مضارب کو درست ہے کہ سفر کی حالت میں اپنا کپڑا موافق دستور کے اسی مال میں سے کرے یا کسی شخص کو محنت مزدوری کے لئے نوکر رکھے جب اکیلے اس سے محنت نہ ہوسکتی ہو اور بعض کام ایسے ہیں جن کو مضارب خود نہیں کرسکتا جیسے قرضداروں سے تقاضا کرنا اسباب کی باندھا بوندھی اور اس کو اٹھاکر لے چلنا البتہ جب تک مضارب اپنے شہر میں رہے تو مضارب کے مال میں سے کھانا کپڑا نہ کرے۔ کہا مالک نے اگر مضارب سفر میں اپنا ذاتی مال بھی لے کر گیا تو سفر کا خرچ حصہ رسد دونوں مال پر ڈالے۔

【9】

مضارتب میں جو شرط اس کا بیان

کہا مالک نے اگر کوئی شخص دوسرے کو اپنا مال مضاربت کے طور پردے اور یہ شرط لگائے کہ فلاں فلاں قسم کا اسباب نہ خریدنا تو اس میں کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے اگر یہ شرط لگائے کہ فلاں ہی قسم کا مال خریدنا تو مکررہ ہے۔ مگر جب وہ اسباب کثرت سے ہر فصل میں بازار میں رہتا ہو تو کچھ قباحت نہیں۔ کہا مالک نے اگر رب المال مضاربت میں کچھ خاص نفع اپنے لئے مقرر کرے اگرچہ ایک درہم ہو تو درست نہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ مضا رب کے واسطے آدھا یا تہائی یا پاؤ نفع ٹھہرائے اور باقی اپنے لئے۔

【10】

مضارب مال مضاربت میں سے کتنا خرچ کرسکتا ہے

کہا مالک نے مضارب کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مضاربت کے مال میں سے کچھ ہبہ کرے یا کسی فقیر کو دے یا کسی احسان کا بدلہ ادا کرے اگر اور لوگ بھی اپنا کھانا ہے کر آئیں تو مضارب بھی اپنا کھانا لاکر ان میں شریک ہوسکتا ہے جب کہ دیدہ و دانستہ ضرورت سے زیادہ نہ لائے اگر ایسا کرے گا تو رب المال سے اجازت لینا ضروری ہے اگر رب المال نے اجازت نہ دی تو جس قدر زیادہ اس نے صرف کیا ہے اس کو مجرا کر دے۔

【11】

مضارب قرض پر مال بیچے تو کیا حکم ہے

کہا مالک نے اگر مضارب نے مال مضاربت کے بدلے میں ایک اسباب خریدا پھر اس اسباب کو قرض بیچا نفع پر ابھی قرض وصول نہیں ہوا تھا کہ مضارب مرگیا تو مضارب کے وارثوں کو اختیار ہوگا چاہے اس قرض کو وصول کر کے مضارب کے قائم مقام ہوجائیں چاہے اس قرض کا مقابلہ رب المال سے کروا کر آپ الگ ہوجائیں اس صورت میں ان کو کچھ نہ ملے گا۔ اگر وارثوں نے تقاضا کر کے اس قرض کو وصول کیا تو اپنا نفع اور خرچ مضارب کی مانند اس میں سے لیں یہ جب ہے کہ وارث معتبر ہوں اگر ان کا اعتبار نہ ہو تو ایک معتبر شخص کو مقرر کر کے قرضہ اور نفع وصول کروا دیں جب وصول ہوجائے تو وہ مضارب کے مثل ہوں گے۔

【12】

جو شرط مضاربت میں درست نہیں اس کا بیان

کہا مالک نے رب المال کو یہ درست نہیں کہ نفع میں سے کچھ خاص اپنے لئے نکال لے نہ مضاربت کو درست ہے اور مضاربت کے ساتھ یہ درست نہیں کہ کسی بیع یا کرائے یا قرض یا اور کوئی احسان کی شرط ہو البتہ یہ درست ہے کہ بلاشرط ایک دوسرے کی مدد کرے موافق دستور کے اور یہ درست نہیں کہ کوئی ان میں سے دوسرے پر زیادتی کی شرط کرلے خواہ وہ زیادتی سونے یا چاندی یا طعام اور کسی قسم سے ہو اگر مضاربت میں ایسی شرطیں ہوں تو وہ اجارہ ہوجائے گا پھر اجارہ درست نہیں مگر معین معلوم اجرت کے بدلے میں اور مضاربت کو درست نہیں کہ کسی کے احسان کا بدلہ مضاربت میں سے ادا کرے نہ یہ درست ہے کہ مضاربت کے مال کو تولیہ کے طور پردے یا آپ لے۔ اگر مال میں نفع ہو تو دونوں نفع کو بانٹ لیں گے اپنی شرط کے موافق اگر نفع نہ ہو یا نقصان ہو تو مضا رب پر ضمان نہ ہوگا نہ اپنے خرچ کا نہ نقصان کا بلکہ مالک کا ہوگا۔ اور مضاربت درست ہے جب رب المال اور مضا رب راضی ہوجائیں نفع کے تقسیم کرنے پر آدھوں آدھ یا دوتہائی رب المال کا اور ایک تہائی مضا رب کا یا تین ربع رب المال کے ایک ربع مضا رب کا یا اس سے کم یا زیادہ۔ کہا مالک نے مضا رب اگر یہ شرط کرنے کہ اتنے برس تک رائس المال مجھ سے واپس نہ لیا جائے یا رب المال یہ شرط کرے کہ اتنے برس تک مضا رب رائس المال نہ دے تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ مضاربت میں میعاد نہیں ہوسکتی جب رب المال اپنا روپیہ مضا رب کے حوالے کرے اور مضا رب کو اس میں تجارت کرنا اچھا معلوم نہ ہو اگر وہ روپیہ بجنسہ اسی طرح موجود ہے تو رب المال اپنا روپیہ لے لے اگر مضا رب ان روپوں کے بدلے میں کوئی اسباب خرید کرچکا تو رب المال اس اسباب کو نہیں لے سکتا نہ مضا رب دے سکتا ہے جب تک اس اسباب کو بیچ کر نقد روپیہ نہ کرلے۔ کہا مالک نے رب المال مضا رب سے یہ شرط کرلے کہ زکوٰۃ اپنے نفع کے حصہ میں سے دینا تو درست نہیں نہ رب المال کو یہ شرط لگانا درست ہے کہ مضا رب خواہ مخواہ فلانے ہی شخص سے اسباب خریدے۔ کہا مالک نے اگر رب المال مضا رب پر ضمان کی شرط کرلے تو درست نہیں اس صورت میں اگر نفع ہو تو مضا رب کو شرط سے زیادہ اس وجہ سے نقصان کا تاوان لیا تھا نہ ملے گا اگر مال تلف ہوا یا اس میں نقصان ہو تو مضارب پر تاوان نہ ہوگا گو اس نے تاوان کی شرط لگائی ہو۔

【13】

مضاربت میں بضاعۃ کا بیان

کہا مالک نے اگر مضارب نے رب المال سے قرض لیا، یا رب المال نے مضارب سے لیا یا رب المال نے مضارب کو کچھ مال بضاعۃ کے طور پر دیا کہ اس کو بیچ لاؤ یا کچھ روپیہ دیا کہ اس کا مال خرید کر لاؤ اگر یہ معاملے صرف محبت کی وجہ سے ہوں یا خفیف ہونے کے سبب سے مضارب کے معاملے کو اس میں کچھ دخل نہ ہو یعنی اگر مضاربت کا معاملہ نہ ہوتا جب بھی یہ کام ایک دوسرے کا کردیتا تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں اہل علم اس سے منع کرتے ہیں۔

【14】

مضاربت میں قرض کا بیان

کہا مالک نے ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو قرض خواہ مقروض سے کہے تو میرا روپیہ اپنے پاس رہنے دے۔ مضاربت کے طور پر تو یہ درست نہیں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ قرض خواہ اپنا قرض وصول کر کے پھر چاہے تو مضاربت کے طور پردے یا نہ دے۔ کہا مالک نے اگر مضارب رب المال سے یہ کہے میرے پاس سب روپیہ مضاربت کا جمع ہے مگر تو اس روپے کو مجھے قرض دے دے تو یہ درست نہیں بلکہ مالک کو چاہیے کہ روپیہ اپنا لے کر پھر چاہے قرض دے

【15】

مضاربت میں حساب کا بیان

کہا مالک نے اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا پھر رب المال کی غیر حاضری میں یہ چاہے کہ نفع میں سے اپنا حصہ لے لے تو یہ درست نہیں جب تک کہ رب المال موجود نہ ہو اگر لے لے گا تو وہ اس کا ضامن رہے گا کہا مالک نے مضارب اور رب المال کو درست نہیں کہ نفع کا حساب لگائیں اور مال موجود نہ ہو بلکہ مال سامنے لانا چاہیے۔ پہلے رب المال اپنا راس المال لے لے پھر نفع کو شرط کے موافق تقسیم کر لیں کہا مالک نے اگر مضارب نے کوئی اسباب خریدا اور مضارب کے قرض خواہوں نے اس کو پکڑ کر کہا کہ اس مال کو بیچ کر جتنا حصہ نفع میں تیرا ہے وہ ہم لے لیں گے اور رب المال وہاں موجود نہیں تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ رب المال جب موجود ہو تو وہ اپنا راس المال لے کر پھر نفع کو تقسیم کر دے۔ کہا مالک نے اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا پھر راس المال جد کر کے نفع کو گواہوں کے سامنے تقسیم کیا تو یہ درست نہیں اگر کچھ لے بھی لے تو پھیر دے جب رب المال آئے تو وہ اپنا راس المال لے کر باقی مال تقسیم کردے۔ کہا مالک نے اگر مضارب نے تجارت کر کے نفع کمایا پھر رب المال کے نفع کا حصہ لے کر آیا اور کہا کہ یہ تیرا حصہ ہے نفع کا اور میں نے بھی اسی قدر لے لیا اور راس المال تیرا میرے پاس موجود ہے تو یہ درست نہیں بلکہ کل مال اور اصل اور نفع مالک کے سامنے لے کر آئے پھر اس کو اختیار ہے اپنا راس المال لے کر رکھ چھوڑے یا پھر مضارب کے حوالے کردے۔

【16】

مضاربت کے مختلف مسائل کا بیان

کہا مالک نے اگر مضارب نے اسباب خریا اور رب المال نے کہا اس کو بیچ ڈال مضارب نے کہا ابھی اس کا بیچنا مناسب نہیں ہے تو اور تجارت پیشہ سے جو اس امر میں مہارت رکھتے ہوں پوچھیں گے اگر وہ بیچنے کی رائے دیں گے تو بیع کر ڈالیں گے ورنہ انتظار کریں۔ کہا مالک نے اگر مضارب نے مال مضاربت میں تجارت شروع کی پھر رب المال نے اپنا مال مانگا اس نے کہا میرے پاس پورا مال موجود ہے جب وہ لینے گیا تو مضارب نے کہا کچھ مال میرے پاس تلف ہوگیا پہلے میں نے اس واسطے کہہ دیا تھا کہ تو اپنے مال کو میرے پاس رہنے دے تو مضارب کے اس قول کا اعتبار نہ ہوگا مگر جب وہ دلیل قائم کرے۔ کہا مالک نے اسی طرح اگر مضارب بولا میں نے اتنا نفع کمایا ہے جب مالک نے مال اور نفع طلب کیا تو کہنے لگا نفع نہیں ہوا اس کی بات کا اعتبار نہ ہوگا جب تک دلیل نہ لائے۔ کہا مالک نے اگر مضارب نے نفع کمایا پھر رب المال کہنے لگا کہ دو حصے نفع کے میرے لئے ٹھہرے تھے اور ایک حصہ تیرے لئے اور مضارب نے کہا میرے لئے دو حصے ٹھہرے تھے اور ایک حصہ تیرے لئے تو مضارب کا قول قسم سے قبول ہوگا مگر جب دستور کے خلاف ہو تو رواج کے موافق حکم ہوگا۔ کہا مالک نے زید نے عمرو کو سو دینار مضاربت کے طور پر دیئے عمرو نے اس کے عوض میں اسباب خریدا جب بائع (بچنے والا) کو دینے لگا تو معلوا ہوا وہ سو دینار چوری ہوگئے اب رب المال کہتا ہے تو اس مال کو بیچ اگر اس میں نفع ہو تو میرا ہے اور جو نقصان ہو تجھ پر ہے کیونکہ تو نے میرا مال تلف کیا مضارب کہتا ہے تو اپنے پاس سے اس اسباب کی قیمت دے کیونکہ میں نے اس کو تیرے مال کے بدلے میں خریدا ہے تو مضارب کو حکم ہوگا اس اسباب کی قیمت بائع (بچنے والا) کو ادا کرے اور رب المال سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو سو دینار مضارب کو پھر دے دے تاکہ مضاربت بحال رہے نہیں تو اس اسباب سے تجھ کو کچھ تعلق نہ ہوگا۔ اگر رب المال نے سو دینار پھر دے دیئے تو مضاربت اپنے حال پر قائم رہے گی ورنہ وہ اسباب مضارب کا ہوجائے گا۔ کہا مالک نے جب رب المال اور مضارب الگ ہوجائیں (یعنی معاملہ مضاربت ختم ہوجائے) لیکن مضارب کے پاس مال مضاربت میں سے کوئی پھٹی پرانی مشک یا پھٹا پرانا کپڑا وغیرہ رہ جائے اگر وہ شئے کم قیمت حقیر ہے تو مضارب ہی کی ہوجائے گی اس کے پھیرنے کا حکم نہ ہوگا اگر وہ شئے قیمت دار ہو جیسے کوئی جانور یا اونٹ یا عمدہ کپڑا یمن کا تو اس کا پھیرنا ضروری ہے مگر جب رب المال سے معاف کرالے۔