1. حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

【1】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور ہم نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔

【2】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی ﷺ کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی ﷺ سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا۔ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا۔

【3】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر (رض) نے میرے والد حضرت عازب (رض) سے تیرہ درہم کے عوض ایک زین خریدی اور میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے براء سے کہہ دیجئے کہ وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچادے، انہوں نے کہا کہ پہلے آپ وہ واقعہ سنائیے جب نبی ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور آپ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ شب ہجرت ہم لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور سارا دن اور ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا، میں نے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کہیں کوئی سایہ نظر آتا ہے یا نہیں ؟ مجھے اچانک ایک چٹان نظر آئی، میں اسی کی طرف لپکا تو وہاں کچھ سایہ موجود تھا، میں نے وہ جگہ برابر کی اور نبی ﷺ کے بیٹھنے کے لئے اپنی پوستین بچھادی اور نبی ﷺ سے آکر عرض کیا یا رسول اللہ ! کچھ دیر آرام فرما لیجئے، چناچہ نبی ﷺ لیٹ گئے۔ ادھر میں یہ جائزہ لینے کے لئے نکلا کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں دکھائی دے رہا ؟ اچانک مجھے بکریوں کا ایک چرواہا مل گیا، میں نے اس سے پوچھا بیٹا ! تم کس کے ہو ؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جسے میں جانتا تھا، میں نے اس سے فرمائش کی کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، میں نے اس سے دودھ دوہ کردینے کی فرمائش کی تو اس نے اس کا بھی مثبت جواب دیا اور میرے کہنے پر اس نے ایک بکری کو قابو میں کرلیا۔ پھر میں نے اس سے بکری کے تھن پر سے غبار صاف کرنے کو کہا جو اس نے کردیا، پھر میں نے اس سے اپنے ہاتھ جھاڑنے کو کہا تاکہ وہ گردوغبار دور ہوجائے چناچہ اس نے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لئے، اس وقت میرے پاس ایک برتن تھا، جس کے منہ پر چھوٹا ساکپڑا لیپٹا ہوا تھا، اس برتن میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا اور میں نے اس پر پانی چھڑک دیا تاکہ برتن نیچے سے ٹھنڈا ہوجائے۔ اس کے بعد میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو، جب میں وہاں پہنچا تو نبی ﷺ بیدار ہوچکے تھے، میں نے نبی ﷺ سے وہ دودھ نوش فرمانے کی درخواست کی، جسے نبی ﷺ نے قبول کرلیا اور اتنا دودھ پیا کہ میں مطمئن اور خوش ہوگیا، اس کے بعد نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا اب روانگی کا وقت آگیا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہئے ؟ نبی ﷺ کے ایماء پر ہم وہاں سے روانہ ہوگئے، پوری قوم ہماری تلاش میں تھی، لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے علاوہ جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ہمیں کوئی نہ پاسکا، سراقہ کو دیکھ کر میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ جاسوس ہم تک پہنچ گیا ہے، اب کیا ہوگا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا آپ غمگین اور دل برداشتہ نہ ہوں، اللہ ہمارے ساتھ ہے، ادھر وہ ہمارے اور قریب ہوگیا اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، میں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو ہمارے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ کہہ کر میں رو پڑا۔ نبی ﷺ نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا بخدا ! میں اپنے لئے نہیں رو رہا، میں تو آپ ﷺ کے لئے رو رہا ہوں کہ اگر آپ ﷺ کو پکڑ لیا گیا تو یہ نجانے کیا سلوک کریں گے ؟ اس پر نبی ﷺ نے سراقہ کے لئے بد دعاء فرمائی کہ اے اللہ ! تو جس طرح چاہے، اس سے ہماری کفایت اور حفاظت فرما۔ اس وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں پیٹ تک زمین میں دھنس گئے، حالانکہ وہ زمین انتہائی سپات اور سخت تھی اور سراقہ اس سے نیچے گرپڑا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ ! میں جانتاہوں کہ یہ آپ کا کوئی عمل ہے، آپ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی تلاش میں اپنے پیچے آنے والے تمام لوگوں پر آپ کو مخفی رکھوں گا اور کسی کو آپ کی خبر نہ ہونے دوں گا، نیز یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر بطور نشانی کے آپ لے لیجئے، فلاں فلاں مقام پر آپ کا گذر میرے اونٹوں اور بکریوں پر ہوگا، آپ کو ان میں سے جس چیز کی جتنی ضرورت ہو، آپ لے لیجئے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں، پھر آپ ﷺ نے دعا کی اور اسے رہائی مل گئی، اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس لوٹ گیا اور ہم دونوں اپنی راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے، لوگ نبی ﷺ سے ملاقات کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے، کچھ اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر نبی ﷺ کا دیدار کرنے لگے اور راستے ہی میں بچے اور غلام مل کر زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، محمد ﷺ تشریف لے آئے۔ نبی ﷺ کی تشریف آوری پر لوگوں میں یہ جھگڑا ہونے لگا کہ نبی ﷺ کس قبیلے کے مہمان بنیں گے ؟ نبی ﷺ نے اس جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا آج رات تو میں خواجہ عبدالمطلب کے اخوال بنو نجار کا مہمان بنوں گا تاکہ ان کے لئے باعث عزت و شرف ہوجائے، چناچہ ایساہی ہوا اور جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے جہاں کا آپ کو حکم ملا۔ حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ہمارے یہاں سب سے پہلے حضرت مصعب بن زبیر (رض) اللہ عنہ جن کا تعلق بنو عبدالدار سے تھا تشریف لائے تھے، پھر بنو فہر سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم (رض) تشریف لائے اور اس کے بعد حضرت عمر فاروق (رض) بیس سواروں کے ساتھ ہمارے یہاں رونق افروز ہوگئے۔ جب حضرت عمر فاروق (رض) آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کہ نبی ﷺ کا کیا ارادہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی پیچھے پیچھے آرہے ہیں، چناچہ کچھ ہی عرصے کے بعد نبی ﷺ بھی مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہوگئے اور حضرت صدیق اکبر (رض) بھی ساتھ آئے۔ حضرت براء (رض) یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے قبل ہی میں مفصلات کی متعدد سورتیں پڑھ اور یاد کرچکا تھا، راوی حدیث اسرائیل کہتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب (رض) کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو حارثہ سے تھا۔

【4】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجتے وقت اہل مکہ سے اس برائت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کرسکے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو مسلمان ہو، جس شخص کا پیغمبر اسلام ﷺ سے کسی خاص مدت کے لئے کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں۔ جب حضرت صدیق اکبر (رض) اس پیغام کو لے کر روانہ ہوگئے اور تین دن کی مسافت طے کرچکے، تو نبی ﷺ نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ حضرت ابوبکر (رض) کے پیچھے جاؤ اور انہیں میرے پاس واپس بلا کر لاؤ اور امارت حج نہیں لیکن صرف پیغام تم نے اہل مکہ تک پہنچانا ہے، حضرت علی ﷺ روانہ ہوگئے، جب حضرت صدیق اکبر (رض) واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! کیا میرے بارے کوئی نئی بات پیش آگئی ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا آپ کے بارے تو صرف خیر ہی پیش آسکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اس پیغام کو اہل عرب کے رواج کے مطابق اہل مکہ تک یا خود میں پہنچا سکتا تھا یا میرے خاندان کا کوئی فرد، اس لئے میں نے صرف یہ ذمہ داری حضرت علی (رض) کے سپرد کردی۔

【5】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

اوسط کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر (رض) ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی ﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا اللہ سے درگذر کی درخواست کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

【6】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو منبر رسول پر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، نبی ﷺ کا ذکر کر کے حضرت صدیق اکبر (رض) پر گریہ طاری ہوگیا اور وہ روپڑے، پھر جب حالت سنبھلی تو فرمایا کہ میں گذشتہ سال اسی جگہ پر نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ سے اس کے عفو اور عافیت کا سوال کیا کرو اور دنیا و آخرت میں یقین کی دعا مانگا کرو۔

【7】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوبکر صدیق (رض) اللہ عنہ سے مروی کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔

【8】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جو میں نماز میں مانگ لیا کروں ؟ نبی ﷺ نے انہیں یہ دعاء تلقین فرمائی کہ اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا، اس لئے خاص اپنے فضل سے میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

【9】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد ایک دن حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت عباس (رض) نبی ﷺ کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت صدیق اکبر (رض) علنہ کے یہاں تشریف لائے، اس وقت ان دونوں کا مطالب ارض فدک اور خیبر کا حصہ تھا، ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سننے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد ﷺ اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔

【10】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس منبر رسول ﷺ پر حضرت صدیق اکبر (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آج ہی کے دن گذشتہ سال میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا اور یہ کہہ کر آپ رو پڑے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، تھوڑی دیر کے بعد فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کلمہ توحید و اخلاص کے بعد تمہیں عافیت جیسی کوئی دوسری نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔

【11】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر (رض) نے شب ہجرت کی یاد تازہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس وقت ہم لوگ غارثور میں تھے، میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیا تو نیچے سے ہم نظر آجائیں گے، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا ابوبکر ! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا " اللہ " ہو۔

【12】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دجال کا خروج مشرق کے ایک علاقے سے ہوگا جس کا نام خراسان ہوگا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمان کی طرح محسوس ہوں گے۔

【13】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بخیل کوئی دھوکہ باز، کوئی خیانت کرنے والا اور کوئی بداخلاق شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے کھٹکھٹانے والے لوگ غلام ہوں گے لیکن اس سے مراد وہ غلام ہیں جو اللہ اور اپنے آقاؤں کے معاملے میں اچھے ثابت ہوں یعنی حقوق اللہ کی بھی فکر کرتے ہوں اور اپنے آقا کی خدمت میں بھی کسی قسم کی کمی نہ کرتے ہوں اور ان کے حقوق بھی مکمل طور پر ادا کرتے ہوں۔

【14】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ابوالطفیل کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت فاطمہ (رض) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس ایک قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا کہ نبی ﷺ کے وارث آپ ہیں یا نبی ﷺ کے اہل خانہ ؟ انہوں نے جواباً فرمایا کہ نبی ﷺ کے اہل خانہ ہی ان کے وارث ہیں، حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا تو پھر نبی ﷺ کا حصہ کہاں ہے ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے جواب دیا کہ میں نے خود جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوئی چیز کھلاتا ہے، پھر انہیں اپنے پاس بلالیتا ہے تو اس کا نظم ونسق اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو خلیفہ وقت ہو، اس لئے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس مال کو مسلمانوں میں تقسیم کردوں، یہ تمام تفصیل سن کر حضرت فاطمہ (رض) نے فرمایا کہ نبی ﷺ سے آپ نے جو سنا ہے، آپ اسے زیادہ جانتے ہیں، چناچہ اس کے بعد انہوں نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔

【15】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ ﷺ نے صبح فجر کی نماز پڑھائی اور نماز پڑھا کر چاشت کے وقت تک اپنے مصلی پر ہی بیٹھے رہے، چاشت کے وقت نبی ﷺ کے چہرہ مبارک پر ضحک کے آثار نمودار ہوئے، لیکن آپ ﷺ اپنی جگہ ہی تشریف فرما رہے، تآنکہ طہر، عصر اور مغرب بھی پڑھ لی، اس دوران آپ ﷺ نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حتیٰ کہ عشاء کی نماز بھی پڑھ لی، اس کے بعد آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے کہا کہ آپ نبی ﷺ سے آج کے احوال سے متعلق کیوں نہیں دریافت کرتے ؟ آج تو نبی ﷺ نے ایسا کام کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا ؟ چناچہ حضرت صدیق اکبر (رض) گئے اور نبی ﷺ سے اس دن کے متعلق دریافت کیا، نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ! میں بتاتا ہوں۔ دراصل آج میرے سامنے دنیا و آخرت کے وہ نمام امور پیش کئے گئے جو آئندہ رونما ہونے والے ہیں، چناچہ مجھے دکھایا گیا کہ تمام اولین و آخرین ایک ٹیلے پر جمع ہیں، لوگ پسینے سے تنگ آکر بہت گھبرائے ہوئے ہیں، اسی حال میں وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں اور پسینہ گویا ان کے منہ میں لگام کی طرح ہے، وہ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) سے کہتے ہیں کہ اے آدم ! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا برگزیدہ بنایا ہے اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے انہیں جواب دیا کہ میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے اپنے باپ آدم کے بعد دوسرے باپ ابوالبشر ثانی حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، چناچہ وہ سب لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کردیجئے، اللہ نے آپ کو بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، آپ کی دعاؤں کو قبول کیا ہے اور زمین پر کسی کافر کا گھر باقی نہیں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ چناچہ وہ سب لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، البتہ تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے ان سے براہ راست کلام فرمایا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی معزرت کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ وہ پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کردیتے تھے اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم اس ہستی کے پاس جاؤ جو تمام اولاد آدم کی سردار ہے وہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی قبر قیامت کے دن سب سے پہلے کھولی گئی، تم محمد ﷺ کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کریں گے۔ چنانچہ نبی ﷺ بارگاہ الٰہی میں جاتے ہیں، ادھر سے حضرت جبرائیل بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوتے ہیں، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میرے پیغمبر کو آنے کی اجازت دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی دو ، چناچہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یہ پیغام نبی ﷺ کو پہنچاتے ہیں جسے سن کر نبی ﷺ سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور متواتر ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، ایک ہفتہ گذرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد ﷺ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے ہم اسے سننے کے لئے تیار ہیں، آپ جس کی سفارش کریں گے، اس کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔ یہ سن کر نبی ﷺ سر اٹھاتے ہیں اور جوں ہی اپنے رب کے رخ تاباں پر نظر پڑتی ہے، اسی وقت دوبارہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور مزید ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے اس کی شنوائی ہوگی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہوگی، نبی ﷺ سجدہ ریز ہی رہنا چاہیں گے لیکن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آکر بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کے قلب منور ایسی دعاؤں کا دروازہ کھولتا ہے جو اب سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا تھا۔ چناچہ اس کے بعد نبی ﷺ فرماتے ہیں پروردگار ! تو نے مجھے اولاد آدم کا سردار بنا کر پیدا کیا اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین میرے لئے کھولی گئی، میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے والے اتنے زیادہ ہیں جو صنعاء اور ایلہ کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ جگہ کو پر کئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہا جائے کہ صدیقین کو بلاؤ وہ آکر سفارش کریں گے پھر کہا جائے گا کہ دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کو بلاؤ چناچہ بعض انبیاء (علیہم السلام) تو ایسے آئیں گے جن کے ساتھ اہل ایمان کی ایک بڑی جماعت ہوگی، بعض کے ساتھ پانچ چھ آدمی ہوں گے بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوگا، پھر شہداء کو بلانے کا حکم ہوگا چناچہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے۔ جب شہداء بھی سفارش کر چکیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں ارحم الرحمین ہوں، جنت میں وہ تمام لوگ داخل ہوجائیں جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، چناچہ ایسے تمام لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو ! جہنم میں کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہے جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہو ؟ تلاش کرنے پر انہیں ایک آدمی ملے گا، اسی کو بارگاہ الٰہی میں پیش کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا کبھی تو نے کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے ؟ وہ جواب میں کہے گا نہیں ! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں بیع وشراء اور تجارت کے درمیان غریبوں سے نرمی کرلیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس طرح یہ میرے بندوں سے نرمی کرتا تھا، تم بھی اس سے نرمی کرو، چناچہ اسے بخش دیا جائے گا۔ اس کے بعد فرشتے جہنم سے ایک اور آدمی کو نکال کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی پوچھیں گے کہ تو نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہے ؟ وہ کہے گا کہ نہیں ! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مرجاؤں تو مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کا سرمہ بنانا اور سمندر کے پاس جا کر اس راکھ کو ہوا میں بکھیر دینا، اس طرح رب العالمین مجھ پر قادر نہ ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ؟ وہ جواب دے گا تیرے خوف کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا ملک دیکھو، تمہیں وہ اس اس جیسے دس ملکوں کی حکومت ہم نے عطاء کردی، وہ کہے گا کہ پروردگار ! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے کیوں مذاق کرتا ہے ؟ اس بات پر مجھے چاشت کے وقت ہنسی آئی تھی اور میں ہنس پڑا تھا۔

【16】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔ ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ لیکن تم اسے اس کے صحیح مطلب پر محمول نہیں کرتے۔ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا نیز میں نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا کہ جھوٹ سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ ایمان سے الگ ہے۔

【17】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

اوسط کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی ﷺ کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ روپڑے، پھر فرمایا سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی اور اللہ سے عافیت کی دعاء مانگا کرو کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، پھر فرمایا کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

【18】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جس وقت حضور نبی مکرم، سرور دو عالم ﷺ کا وصال ہوا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) مدینہ منورہ کے قریبی علاقے میں تھے، وہ نبی ﷺ کے انتقال کی خبر سنتے ہی تشریف لائے، نبی ﷺ کے روئے انور سے کپڑا ہٹایا، اسے بوسہ دیا اور فرمایا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ زندگی میں اور اس دنیوی زندگی کے بعد بھی کتنے پاکیزہ ہیں، رب کعبہ کی قسم ! محمد ﷺ ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت فاروق اعظم (رض) تیزی کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں تمام انصار مسئلہ خلافت طے کرنے کے لئے جمع تھے، یہ دونوں حضرات وہاں پہنچے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے گفتگو شروع کی، اس دوران انہوں نے قرآن کریم کی وہ تمام آیات اور نبی ﷺ کی وہ تمام احادیث جو انصار کی فضیلت سے تعلق رکھتی تھیں، سب بیان کردیں اور فرمایا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اگر لوگ ایک راستے پر چلتے اور انصار دوسرے پر تو نبی ﷺ انصار کا راستہ اختیار کرتے۔ پھر حضرت سعد بن عبادہ (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سعد ! آپ بھی جانتے ہیں کہ ایک مجلس میں جس میں آپ بھی موجود تھے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ خلافت کے حقدار قریش ہوں گے، لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو بدکار ہوں گے وہ بدکاروں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے فرمایا آپ سچ کہتے ہیں، اب ہم وزیر ہوں گے اور آپ امیر یعنی خلیفہ۔

【19】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ یار سول اللہ ! ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے ؟ فرمایا نہیں ! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر عمل کا کیا فائدہ ؟ فرمایا جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے اسباب مہیا کردئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کردیا جاتا ہے۔ (فائدہ : اس حدیث کا تعلق مسئلہ تقدیر سے ہے، اس کی مکمل وضاحت کے لئے ہماری کتاب الطریق الاسلم الی شرح مسند الامام الاعظم کا مطالعہ کیجئے )

【20】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام عنہم غمگین رہنے لگے بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس نے گھیرنا شروع کردیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اسی تناظر میں ایک دن میں کسی ٹیلے کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حضرت عمر فاروق (رض) کا گذر ہوا، انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن مجھے پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ یہاں سے گذر کر گئے ہیں یا انہوں نے مجھے سلام کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق (رض) یہاں سے ہو کر سیدھے حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ آپ کو ایک حیرانگی کی بات بتاؤں ؟ میں ابھی حضرت عثمان (رض) کے پاس سے گذرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا ؟ یہ خلافت صدیقی کا واقعہ ہے، اس مناسبت سے تھوڑی دیر بعد سامنے سے حضرت صدیق اکبر (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) آتے ہوئے دکھائی دئیے، ان دونوں نے آتے ہی مجھے سلام کیا۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میرے پاس ابھی تمہارے بھائی عمر آئے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا آپ کے پاس سے گذر ہوا، انہوں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے کہا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا، حضرت عمر (رض) کہنے لگے کیوں نہیں ! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے ایسا کیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ اے بنو امیہ ! آپ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتے ہیں، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھے آپ کے گذرنے کا احساس ہوا اور نہ ہی مجھے آپ کے سلام کرنے کی خبر ہوسکی۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا عثمان ٹھیک کہہ رہے ہیں، اچھا یہ بتائیے کہ آپ کس سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! حضرت صدیق اکبر (رض) نے پوچھا کہ آپ کن خیالات میں مستغرق تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنے پاس بلا لیا اور میں آپ ﷺ سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس حادثہ سے صحیح سالم نجات پانے کا کیا راستہ ہوگا ؟ حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نبی ﷺ سے معلوم کرچکا ہوں، یہ سن کر میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہی اس سوال کے زیادہ حقدار تھے، اس لئے اب مجھے بھی اس کا جواب بتادیجئے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ! اس حادثہ جانکاہ سے نجات کا راستہ کیا ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص میری طرف سے وہ کلمہ توحید قبول کرلے جو میں نے اپنے چچا خواجہ ابوطالب پر پیش کیا تھا اور انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کردیا تھا، وہ کلمہ ہی ہر شخص کے لئے نجات کا راستہ اور سبب ہے۔

【21】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت یزید بن ابی سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا صدیق اکبر (رض) نے جب شام کی طرف روانہ فرمایا تو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا یزید ! تمہاری کچھ رشتہ داریاں ہیں، ہوسکتا ہے کہ تم امیر لشکر ہونے کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دو ، مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ اسی چیز کا اندیشہ ہے، کیونکہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے کسی اجتماعی معاملے کا ذمہ دار بنے اور وہ دوسروں سے مخصوص کر کے کسی منصب پر کسی شخص کو مقرر کردے، اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ اس کا کوئی فرض اور کوئی نفلی عبادت قبول نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اسے جہنم میں داخل کردے۔ اور جو شخص کسی کو اللہ کے نام پر حفاظت دینے کا وعدہ کرلے اور اس کے بعد ناحق اللہ کے نام پر دی جانے والے اس حفاظت کے وعدے کو توڑ دیتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہے یا یہ فرمایا کہ اللہ اس سے بری ہے۔

【22】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت میں ستر ہزار آدمی ایسے بھی عطاء کئے گئے ہیں جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے، ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے اور ان کے دل ہر طرح کی بیماری سے پاک ہونے میں ایک شخص کے دل کی طرح ہوں گے۔ میں اپنے رب سے اس تعداد میں اضافے کی درخواست کی تو اس نے میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار کا اضافہ کردیا (گویا اب ستر ہزار میں سے ہر ایک کو ستر ہزار سے ضرب دے کر جو تعداد حاصل ہوگی، وہ سب جنت میں مذکورہ طریقے کے مطابق داخل ہوں گے) حضرت صدیق اکبر (رض) فرماتے ہیں کہ میری رائے کے مطابق یہ وہ لوگ ہوں گے جو بستیوں میں رہتے ہیں یا کسی دیہات کے کناروں پر آباد ہوتے ہیں۔

【23】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص برے اعمال کرے گا، اسے دنیا میں ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا۔

【24】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عثمان غنی (رض) نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام عنہم غمگین رہنے لگے، بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس گھیرنا شروع کردیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی جس کا ترجمہ حدیث نمبر 21 کے ذیل میں گزر چکا ہے۔

【25】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد حضرت فاطمۃ الزہراء (رض) نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے درخواست کی کہ مال غنیمت میں سے نبی ﷺ کا جو ترکہ بنتا ہے، اس کی میراث تقسیم کردیں، حضرت صدیق اکبر (رض) نے ان سے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ (رض) کا اپنے ذہن میں اس پر کچھ بوجھ محسوس ہوا، چناچہ انہوں نے اس معاملے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے بات کرنا ہی چھوڑ دی اور یہ سلسلہ حضرت فاطمہ الزہرا (رض) کی وفات تک رہا، یاد رہے کہ حضرت فاطمہ (رض) نبی ﷺ کے بعد صرف چھ ماہ ہی زندہ رہیں۔ اصل میں حضرت فاطمہ (رض) ارض خیبر وفدک میں سے نبی ﷺ کے ترکہ کا مطالبہ کر رہی تھیں، نیز صدقات مدینہ میں سے بھی اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی تھیں، حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس مطالبے کو پورا کرنے سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی ﷺ جس طرح جو کام کرتے تھے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتا بلکہ اسی طرح عمل کروں گا جیسے نبی ﷺ فرماتے تھے، اس لئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں نے نبی ﷺ کے کسی عمل اور طریقے کو چھوڑا تو میں بہک جاؤں گا۔ بعد میں حضرت عمر فاروق (رض) نے صدقات مدینہ کا انتظام حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) کے حوالے کردیا تھا، جس میں حضرت علی (رض) حضرت عباس (رض) پر غالب آگئے، جبکہ خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر فاروق (رض) نے خلاف کے زیر انتظام ہی رکھیں اور فرمایا کہ یہ نبی ﷺ کا صدقہ ہیں اور اس کا مصرف پیش آمدہ حقوق اور مشکل حالات ہیں اور ان کی ذمہ داری وہی سنبھالے گا جو خلیفہ ہو، یہی وجہ ہے کہ آج تک ان دونوں کی یہی صورت حال ہے۔

【26】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عائشہ صدیقہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر (رض) اس دنیوی فانی زندگی کے آخری لمحات گذار رہے تھے تو میں نے ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ ایسے خوبصورت چہرے والا ہے کہ جس کے روئے انور کی برکت سے طلب باران کی جاتی ہے، یتیموں کا سہارا اور بیواؤں کا محافظ ہے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا بخدا ! یہ رسول اللہ ﷺ کی ہی شان ہے۔

【27】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے یہ حدیث سنائی کہ جب نبی ﷺ کا وصال ہوگیا تو لوگوں کے علم میں یہ بات نہ تھی کہ نبی ﷺ کی قبر مبارک کہاں بنائی جائے ؟ حتی کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کی قبر وہیں بنائی جاتی ہے جہاں ان کا انتقال ہوتا ہے، چناچہ صحابہ کرام (رض) نے نبی ﷺ کا بستر مبارک اٹھا کر اس کے نیچے قبر مبارک کھودی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔

【28】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یار سول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جو میں نماز میں مانگ لیا کروں ؟ نبی ﷺ نے انہیں یہ دعاء تلقین فرمائی کہ اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا، اس لئے خاص اپنے فضل سے میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھ پر رحم فرما، بیشک تو بڑ ا بخشنے والا، مہربان ہے۔

【29】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ یاد رکھو ! جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔ یاد رکھو ! کہ میں نے نبی ﷺ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔

【30】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ یاد رکھو ! جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔

【31】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا۔

【32】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی دھوکہ باز، کوئی بخیل، کوئی احسان جتانے والا اور کوئی بداخلاق جنت میں داخل نہ ہوگا اور جنت کا دروازہ سب سے پہلے جو شخص بجائے گا وہ غلام ہوگا، بشرطیکہ وہ اللہ کی اطاعت بھی کرتا ہو اور اپنے آقا کی بھی اطاعت کرتا ہو۔

【33】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

عمرو بن حریث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) کچھ بیمار ہوگئے، جب صحت یاب ہوئے تو لوگوں سے ملنے باہر تشریف لائے لوگوں سے معذرت کی اور فرمایا ہم تو صرف خیر ہی چاہتے ہیں، پھر فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ہم سے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے کہ دجال ایک مشرقی علاقے سے خروج کرے گا جس کا نام " خراسان " ہوگا اور اس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے چپٹی کمانوں کی طرح ہوں گے۔

【34】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

اوسط کہتے ہیں کہ خلافت کے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی ﷺ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، پھر فرمایا میں اللہ سے درگذر اور عافیت کی درخواست کرتا ہوں، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی جنت میں ہوگی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، قطع تعلقی مت کرو، ایک دوسرے سے منہ مت پھیرو اور اے اللہ کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

【35】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ حضرات شیخین عنہما نے انہیں یہ خوشخبری دی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح نازل ہوا ہے، اسی طرح اس کی تلاوت پر مضبوطی سے جما رہے، اسے چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ابن ام عبد یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت پر کرے۔ حضرت عمر فاروق (رض) سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، البتہ اس میں غضایا رطبا دونوں الفاظ آئے ہیں۔

【36】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے اس چیز کی بڑی تمنا تھی کہ کاش ! میں نبی ﷺ کے وصال سے پہلے یہ دریافت کرلیتا کہ شیطان ہمارے دلوں میں جو وساوس اور خیالات ڈالتا ہے، ان سے ہمیں کیا چیز بچا سکتی ہے ؟ یہ سن کر حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ میں یہ سوال نبی ﷺ سے پوچھ چکا ہوں، جس کا جواب نبی ﷺ نے یوں دیا تھا کہ تم وہی کلمہ توحید کہتے رہو جو میں نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کردیا تھا، اس کلمہ کی کثرت ہی تمہیں ان وساوس سے نجات دلا دے گی۔

【37】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

خواجہ حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگو ! انسان کو دنیا میں ایمان اور عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، اس لئے اللہ سے ان دونوں چیزوں کی دعاء کرتے رہا کرو۔

【38】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ صحابہ کرام عنہم نے نبی ﷺ کے وصال کے بعد جب قبر مبارک کی کھدوائی کا ارادہ کیا اور معلوم ہوا کہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ اور حضرت ابوطلحہ (رض) جن کا اصل نام زید بن سہل تھا اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں، تو حضرت عباس (رض) نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو حضرت ابوعبیدہ (رض) کے پاس بھیجا اور دوسرے کو ابوطلحہ (رض) اللہ عنہ کے پاس اور دعاء کی کہ اے اللہ ! اپنے پیغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرمالے، چناچہ حضرت ابوطلحہ (رض) اللہ عنہ کے پاس جانے والے آدمی کو حضرت ابوطلحہ (رض) اللہ عنہ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آگیا، اس طرح نبی ﷺ کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔

【39】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عقبہ بن حارث (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کے وصال مبارک کے چند دن بعد عصر کی نماز پڑھ کر سیدنا صدیق اکبر (رض) کے ساتھ مسجد نبوی سے نکلا، حضرت علی (رض) بھی سیدنا سدیق اکبر (رض) کی ایک جانب تھے، حضرت صدیق اکبر (رض) کا گذر حضرت امام حسن (رض) کے پاس سے ہوا جو اپنے ہم جو لیوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے انہیں اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمانے لگے میرے باپ قربان ہوں، یہ تو پورا پورا نبی ﷺ کے مشابہہ ہے علی کے مشابہہ تھوڑی ہے اور حضرت علی (رض) اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔

【40】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنی دیر میں ماعز بن مالک آگئے اور ایک مرتبہ بدکاری کا اعتراف نبی ﷺ کے سامنے کیا، نبی ﷺ نے انہیں واپس بھیج دیا، دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا، تیسری مرتبہ جب نبی ﷺ نے انہیں واپس بھیجا تو میں نے ان سے کہا اگر تم نے چوتھی مرتبہ بھی اعتراف کرلیا تو نبی ﷺ تمہیں رجم کی سزا دیں گے، تاہم انہوں نے چوتھی مرتبہ آکر بھی اعتراف جرم کرلیا، نبی ﷺ نے انہیں روک لیا اور لوگوں سے ان کے متعلق دریافت کیا، لوگوں نے بتایا کہ ہمیں تو ان کے بارے میں خیر ہی کا علم ہے، بہرحال ! ضابطے کے مطابق نبی ﷺ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دے دیا۔

【41】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت رافع طائی جو غزوہ ذات السلاسل میں حضرت صدیق اکبر (رض) کے رفیق تھے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے انصار کی بیعت کے بارے میں کہی جانے والی باتوں کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے وہ باتیں بیان فرمائیں جو انصار نے کہی تھیں، یا جو خود انہوں نے فرمائی تھیں، یا جو حضرت عمر فاروق (رض) نے انصار سے کی تھیں ور انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ نبی ﷺ کے حکم سے آپ کے مرض الوفات میں وہ لوگ میری امامت میں نماز ادا کرتے رہے ہیں، اس پر تمام انصار نے میری بیعت کرلی اور میں نے اسے ان کی طرف سے قبول کرلیا، بعد میں مجھے اندیشہ ہو کہ کہیں یہ کسی امتحان کا سبب نہ بن جائے چناچہ اس کے بعد فتنہ ارتداد پیش آکر رہا۔

【42】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت وحشی بن حرب (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مرتدین سے قتال کے لئے حضرت خالد بن ولید (رض) کے اعزاز میں خصوصی طور پر جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ کا بہترین بندہ اور اپنے قبیلہ کا بہترین فرد خالد بن ولید ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جو اللہ نے کفار و منافقین کے خلاف میان سے نکال کر سونت لی ہے۔

【43】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

اوسط کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے وصال کے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ حاضر ہوا، تو میں نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے پایا، انہوں نے فرمایا کہ اس جگہ گذشتہ سال نبی ﷺ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، یہ کہہ کر آپ رو پڑے، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر فرمایا لوگو ! اللہ سے درگذر کی درخواست کیا کرو، کیونکہ ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر نعمت کسی کو نہیں دی گئی، اسی طرح کفر کے بعد شک سے بدترین چیز کسی کو نہیں دی گئی، سچائی کو اختیار کرو کیونکہ سچائی کا تعلق نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ بولنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ جھوٹ کا تعلق گناہ سے ہے اور یہ دونوں چیزیں جہنم میں ہوں گی۔

【44】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عائشہ صدیقہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر (رض) کی اس دنیوی زندگی کے آخری لمحات قریب آئے، تو انہوں نے پوچھا کہ آج کون سا دن ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ پیر کا دن ہے، فرمایا اگر میں آج ہی رات دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو کل کا انتظار نہ کرنا بلکہ رات ہی کو دفن کردینا کیونکہ مجھے وہ دن اور رات زیادہ محبوب ہے جو نبی ﷺ کے زیادہ قریب ہو۔

【45】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے وصال کے پورے ایک سال بعد حضرت صدیق اکبر (رض) ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گذشتہ سال نبی ﷺ بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی سچائی اور نیکی کو اختیار کرو اور یہ دونوں چیزیں جنت میں ہوں گی، جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔

【46】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا۔ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرما دے گا، اس کے بعد نبی ﷺ نے یہ دو آیتیں پڑھیں " جو شخص کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے، پھر اللہ سے معافی مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا مہربان پائے گا " اور " وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا اپنے اوپر ظلم کریں۔۔۔۔ "۔ ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے، البتہ اس میں امام شعبہ (رح) کا یہ قول منقول ہے کہ نبی ﷺ نے ان دو میں سے کسی ایک آیت کی تلاوت فرمائی۔ ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠؁) 4 ۔ النسآء :110) ۔ یا۔ ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ١٣٥؁) 3 ۔ آل عمران :135)

【47】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) ہمارے سامنے خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ گذشتہ سال ہمارے درمیان اسی طرح نبی ﷺ کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ لوگوں کے درمیان ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت تقسیم نہیں کی گئی، یاد رکھو ! سچائی جنت میں ہے اور جھوٹ اور گناہ جہنم میں۔

【48】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ جب حضور نبی مکرم، سرور دو عالم ﷺ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرکے آرہے تھے تو راستے میں آپ ﷺ کو پیاس لگی، اتفاقا وہاں سے بکریوں کے ایک چرواہے کا گذر ہوا، حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک پیالہ لے کر اس میں نبی ﷺ کے لئے تھوڑا سا دودھ دوہا اور اسے لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی ﷺ نے اسے نوش فرمایا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔

【49】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر عنہ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جو میں صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت پڑھ لیا کروں، نبی ﷺ نے یہ دعاء سکھائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک ! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتاہوں۔ یہی حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں مذکور ہے۔

【50】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبرعنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا اے لوگو ! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5 ۔ المآئدہ :105) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ اور تم اسے اس صحیح محمل پر محمود نہیں کرتے، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔

【51】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوبرزہ اسلمی (رض) سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی شان میں گستاخی کی اور انتہائی سخت کلمات کہے، میں نے عرض کیا کہ میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ حضرت صدیق اکبر عنہ نے مجھے پیار سے جھڑک کر فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد یہ بات کسی کے لئے نہیں ہے۔ (شان رسالت میں گستاخی کی سزا تو یہی ہے البتہ ہم اپنے لئے اس کی اجازت نہیں دیں گے)

【52】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عائشہ صدیقہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن حضرت فاطمہ عنہا نے نبی ﷺ کی مدینہ، فدک اور خیبر کے خمس کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت صدیق اکبر عنہ کے یہاں ایک خادم بھیجا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا اور میں اس میں اسی طرح کام کروں گا جیسے نبی ﷺ نے کیا تھا، گویا حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس میں سے کچھ بھی حضرت فاطمہ عنہا کو دینے سے انکار کردیا جس سے حضرت فاطمہ (رض) کی طبیعت میں (فطرت انسانی کی بناء پر) ایک بوجھ آیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے سے یرے نزدیک نبی ﷺ کے رشتہ دار زیادہ محبوب ہیں، لیکن اس مال کے حوالے سے میرے اور آپ کے درمیان جو اختلاف رائے ہے، اس میں حق سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اور میں نے نبی ﷺ کو جس طرح کوئی کام کرتے ہوئے سنا ہے، میں اسی طرح اس کام کو کرنا ترک نہیں کروں گا۔

【53】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی نبی ﷺ سے کوئی حدیث سنتا تھا تو اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا تھا، مجھے اس سے فائدہ پہنچاتا تھا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھ سے نبی ﷺ کی کوئی حدیث بیان کرتا تو میں اس سے اس پر قسم لیتا، جب وہ قسم کھا لیتا کہ یہ حدیث اس نے نبی ﷺ سے سنی ہے تب کہیں جا کر میں اس کی بات کو سچا تسلیم کرتا تھا۔ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے اور وہ یہ حدیث بیان کرنے میں سچے ہیں کہ انہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو یقینا معاف فرمادے گا، پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی " اور وہ لوگ کہ جب وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا اپنی جان پر ظلم کریں۔۔۔۔ "

【54】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت زید بن ثابت (رض) اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے مجھے جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے حفاظ کی خبر بھجوائی اور مجھ سے فرمایا کہ زید ! تم ایک سمجھ دار نوجوان ہو، ہم تمہیں کسی غلط کام کے ساتھ متہم بھی نہیں پاتے، تم نبی ﷺ کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہو، اس لئے قرآن کریم کو مختلف جگہوں سے تلاش کر کے یکجا اکٹھا کرو۔

【55】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عائشہ صدیقہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کے وصال مبارک کے بعد ایک دن حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت عباس (رض) اللہ عنہ نبی ﷺ کی میراث کا مطالبہ لے کر حضرت صدیق اکبر کے یہاں تشریف لائے اس وقت ان دونوں کا مطالبہ ارض فدک اور خیبر کا حصہ تھا، ان دونوں بزرگوں کی گفتگو سننے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے، البتہ آل محمد ﷺ اس مال میں سے کھا سکتی ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ کو جیسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں اس طریقے کو کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔

【56】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ابن ابی ملیکہ (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ کو یا خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلیفہ رسول اللہ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔

【57】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوسلمہ (رح) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ عنہا نے حضرت صدیق اکبر سے پوچھا کہ جب آپ اس دنیا سے کوچ فرمائیں گے تو آپ کو وارث کون ہوگا ؟ فرمایا میرے بیوی بچے، حضرت فاطمہ عنہا نے پوچھا کہ پھر ہم کیوں نبی ﷺ کے وارث نہیں ؟ فرمایا میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی ﷺ کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، البتہ نبی ﷺ جن کی عیال داری اور نگہبانی فرماتے تھے میں ان کی عیال داری اور کفالت کرتا رہوں گا اور جس پر نبی ﷺ خرچ فرماتے تھے میں اس پر خرچ کرتا رہوں گا۔

【58】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوبرزہ اسلمی (رض) اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ کے ساتھ کسی کام میں مشغول تھے، حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ کو اسی دوران ایک مسلمان پر کسی وجہ سے غصہ آگیا اور وہ غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا، جب میں نے صورت حال دیکھی تو عرض کیا یا خیفۃ رسول اللہ ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ جب میں نے قتل کا نام لیا تو انہوں گفتگو کا عنوان اور موضوع ہی بدل دیا۔ جب ہم لوگ وہاں سے فراغت کے بعد منتشر ہوگئے تو حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ نے ایک قاصد کے ذریعے مجھے بھیجا اور فرمایا ابوبرزہ ! تم کیا کہہ رہے تھے ؟ میں نے عرض کیا واللہ مجھے یاد نہیں ہے۔ فرمایا یاد کرو جب تم نے مجھے ایک شخص پر غصہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا تو تم نے کہا تھا یا خلیفۃ رسول اللہ ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ یاد آیا ؟ کیا تم واقعی ایسا کر گزرتے ؟ میں نے قسم کھا کر عرض کیا جی ہاں ! اگر آپ اب بھی مجھے یہ حکم دیں تو میں اسے پورا کر گذروں، فرمایا افسوس ! اللہ کی قسم ! حضور ﷺ کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں ہے۔

【59】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوبکر صد یق (رض) اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمای مسواک منہ کی پاکیزگی اور پروردگار کی خوشنودی کا سبب ہے۔

【60】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعاء سکھا دیجئے جو میں صبح وشام پڑھ لیا کروں، نبی ﷺ نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک ! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور انہیں حکم دیا کہ صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعاء پڑھ لیا کریں۔

【61】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ابن ابی ملیکہ (رح) عليه کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) کو یا خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا گیا تو آپ (رض) نے فرمایا کہ میں خلیفۃ اللہ نہیں ہوں بلکہ خلہیفہ رسول اللہ ہوں اور میں اسی درجے پر راضی ہوں۔

【62】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابن ابی ملیکہ (رح) عليه سے مروی ہے کہ حضرت صدیق اکبر (رض) کے ہاتھ سے اگر اونٹنی کی لگام چھوٹ کر گرجاتی، تو آپ اپنی اونٹنی کے اگلے پاؤں پر ہاتھ مارتے، وہ بیٹھ جاتی تو خود اس کی لگام اٹھاتے، ہم عرض کرتے کہ آپ ہمیں کیوں نہیں حکم دیتے کہ ہم آپ کو پکڑادیں ؟ فرماتے میرے محبوب ﷺ نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کروں۔

【63】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے وصال کے پورے ایک سال بعد حضرت صدیق اکبر (رض) ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ گذشتہ سال نبی ﷺ بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ اللہ سے عافیت کا سوال کیا کرو، کیونکہ کسی انسان کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی، سچائی اور نیکی اختیار کرو کیونکہ یہ دونوں جنت میں ہوں گی اور جھوٹ اور گناہ سے بچو کیونکہ یہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔

【64】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ " لا الہ الا اللہ " نہ کہہ لیں، لیکن جب وہ یہ کلمہ کہہ لیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں اگر کوئی حق ان کی طرف متوجہ ہو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، باقی ان کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہے۔ جب فتنہ ارتداد پیش آیا تو حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کس طرح قتال کرسکتے ہیں جب کہ آپ نے بھی نبی ﷺ کی یہ حدیث سن رکھی ہے ؟ فرمایا بخدا ! میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق نہیں کروں گا اور جو ان دونوں کے درمیان تفریق کرے گا، میں اس سے ضرور قتال کروں گا، حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم بھی ان کے ساتھ اس قتال میں شریک ہوگئے تب ہمیں جا کر احساس ہوا کہ اسی میں رشد و ہدایت تھی۔

【65】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا، تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی ؟ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ابوبکر ! اللہ آپ کی بخشش فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے ؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے ؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے ؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے ؟ عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا یہی تو بدلہ ہے۔

【66】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر عنہ نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا، تو کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی ؟ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ابوبکر ! اللہ آپ پر رحم فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے ؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے ؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے ؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے ؟ عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا یہی تو بدلہ ہے۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک مرتبہ نبی ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس آیت کے بعد کیا بہتری باقی رہ جاتی ہے پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔

【67】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

ابوبکر بن ابی زہیر کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری خواہشات اور اہل کتاب کی خواہشات کا کوئی اعتبار نہیں، جو برا عمل کرے گا، اس کا بدلہ پائے گا، تو حضرت صدیق اکبر رضي اللہ عنہ نے عرض کیا یار سول اللہ ! کیا ہمیں ہر برے عمل کی سزا دی جائے گی ؟ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ابوبکر ! اللہ آپ پر رحم فرمائے ؟ کیا آپ بیمار نہیں ہوتے ؟ کیا آپ پریشان نہیں ہوتے ؟ کیا آپ غمگین نہیں ہوتے ؟ کیا آپ رنج و تکلیف کا شکار نہیں ہوتے ؟ یہی تو بدلہ ہے۔

【68】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر (رض) نے ان کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر فرمایا کہ یہ زکوٰۃ کے مقررہ اصول ہیں جو خود نبی ﷺ نے مسلمانوں کے لئے مقرر فرمائے ہیں، یہ وہی اصول ہیں جن کا حکم اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیا تھا، ان اصولوں کے مطابق جب مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے تو انہیں زکوٰۃ ادا کردینی چاہئے اور جس سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جائے وہ زیادہ نہ دے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پچیس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری واجب ہوگی، جب اونٹوں کی تعداد پچیس ہوجائے تو ایک بنت مخاض (جو اونٹنی دوسرے سال میں لگ گئی ہو) واجب ہوگی اور یہی تعداد ٣٥ اونٹوں تک رہے گی، اگر کسی کے پاس بنت مخاض نہ ہو تو وہ ایک ابن لبون مذکر (جو تیسرے سال میں لگ گیا ہو) دے دے، جب اونٹوں کی تعداد ٣٦ ہوجائے تو اس میں ٤٥ تک ایک بنت لبون واجب ہوگی، جب اونٹوں کی تعداد ٤٦ ہوجائے تو اس میں ایک حقہ (چوتھے سال میں لگ جانے والی اونٹنی) کا وجوب ہوگا جس کے پاس رات کو نر جانور آسکے۔ یہ حکم ساٹھ تک رہے گا، جب یہ تعداد ٦١ ہوجائے تو ٧٥ تک اس میں ایک جذعہ (جو پانچویں سال میں لگ جائے) واجب ہوگا، جب یہ تعداد ٧٦ ہوجائے تو ٩٠ تک اس میں دو بنت لبون واجب ہوں گی، جب یہ تعداد ١٩ ہوجائے تو ١٢٠ تک اس میں دو ایسے حقے ہوں گے جن کے پاس نر جانور آسکے، جب یہ تعداد ١٢٠ سے تجاوز کر جائے تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ واجب ہوگا۔ اور اگر زکوٰۃ کے اونٹوں کی عمریں مختلف ہوں تو جس شخص پر زکوٰۃ میں جذعہ واجب ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو، حقہ ہو تو اس سے وہی قبول کرلیا جائے گا اور اگر اس کے پاس صرف جذعہ ہو تو اس سے وہ لے کر زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے دے اور اگر اسی مذکورہ شخص کے پاس بنت لبون ہو تو اس سے وہ لے کردو بکریاں " بشرطیکہ آسانی سے ممکن ہو " یا بیس درہم وصول کئے جائیں۔ اگر کسی شخص پر بنت لبون واجب ہو مگر اس کے پاس حقہ ہو تو اس سے وہ لے کر اسے زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے دے اور اگر اسی مذکورہ شخص کے پاس بنت مخاض ہو تو اس سے وہی لے کر وہ بکریاں بشرط آسانی یا بیس درہم بھی وصول کئے جائیں اور اگر کسی شخص پر بنت مخاض واجب ہو اور اس کے پاس صرف ابن لبون مذکر ہو تو اسی کو قبول کرلیا جائے اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں لی جائے گی اور اگر کسی شکص کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اس پر بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہے ہاں ! البتہ اگر مالک کچھ دینا چاہے تو اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ سائمہ (خود چر کر اپنا پیٹ بھرنے والی) بکریوں میں زکوٰۃ کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب بکریوں کی تعداد چالیس ہوجائے ایک سو بیس تک اس میں صرف ایک بکری واجب ہوگی، ١٢٠ سے زائد ہونے پر ٢٠٠ تک دو بکریاں واجب ہوں گی، ٢٠٠ سے زائد ہونے پر ٣٠٠ تک تین بکریاں واجب ہوں گی، اس کے بعد ہر سو میں ایک بکری دینا واجب ہوگی۔ یاد رہے کہ زکوٰۃ میں انتہائی بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے، اسی طرح خوب عمدہ جانور بھی نہ لیا جائے ہاں ! اگر زکوٰۃ دینے والا اپنی مرضی سے دینا چاہے تو اور بات ہے، نیز زکوٰۃ سے بچنے کے لئے متفرق جانوروں کو جمع اور اکٹھے جانوروں کو متفرق نہ کیا جائے اور یہ کہ اگر دو قسم کے جانور ہوں (مثلا بکریاں بھی اور اونٹ بھی) تو ان دونوں کے درمیاں برابری سے زکوٰۃ تقسیم ہوجائے گی، نیز یہ کہ اگر کسی شخص کی سائمہ بکریوں کی تعداد ٤٠ سے کم ہو تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے الاّ یہ کہ اس کا مالک خود دینا چاہے، نیز چاندی کے ڈھلے ہوئے سکوں میں ربع عشر واجب ہوگا، سو اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک سو نوے درہم ہوں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے الاّ یہ کہ اس کا مالک خود زکوٰۃ دینا چاہے۔

【69】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

عبدالرزاق کہتے ہیں کہ اہل مکہ کہا کرتے تھے ابن جریج نے نماز حضرت عطاء بن ابی رباح سے سیکھی ہے، عطاء نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے، حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے اپنے نانا حضرت صدیق اکبر رضي اللہ عنہ سے اور حضرت صدیق اکبر (رض) نے جناب رسول اللہ ﷺ سے سیکھی ہے، عبدالرزاق کہتے ہیں کہ میں نے ابن جریج سے بڑھ کر بہتر نماز پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔

【70】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں کہ میری بیٹی حفصہ (رض) کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ (رض) یا حذیفہ (رض) فوت ہوگئے اور وہ بیوہ ہوگئی، یہ بدری صحابی تھے اور مدینہ منورہ میں فوت ہوگئے تھے، میں حضرت عثمان (رض) سے ملا اور ان کے سامنے اپنی بیٹی سے نکاح کی پیشکش رکھی انہوں نے مجھ سے سوچنے کی مہلت مانگی اور چند روز بعد کہہ دیا کہ آج کل میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس کے بعد میں حضرت ابوبکر (رض) سے ملا اور ان سے بھی یہی کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ (رض) کا نکاح آپ سے کردوں، لیکن انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، مجھے ان پر حضرت عثمان (رض) کی نسبت زیادہ غصہ آیا۔ چند دن گزرنے کے بعد نبی ﷺ نے حفصہ (رض) کے ساتھ اپنے لئے پیغام نکاح بھیج دیا، چناچہ میں نے حضرت حفصہ (رض) کا نکاح نبی ﷺ سے کردیا، اتفاقاً ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ شاید آپ کو اس بات پر غصہ آیا ہوگا کہ آپ نے مجھے حفصہ (رض) سے نکاح کی پیشکش کی اور میں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ؟ میں نے کہا ہاں ! ایسا ہی ہے، انہوں نے فرمایا کہ دراصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے مجھے یہ پیشکش کی تھی تو مجھے اسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں تھا، البتہ میں نے نبی ﷺ کو حفصہ (رض) کا ذکر کرتے ہوئے سنا تھا، میں نبی ﷺ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر نبی ﷺ انہیں چھوڑ دیتے تو میں ضرور ان سے نکاح کرلیتا۔

【71】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بد اخلاق شخص جنت میں نہ جائے گا، اس پر ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ یار سول اللہ ! کیا آپ ہی نے ہمیں نہیں بتایا کہ سب سے زیادہ غلام اور یتیم اس امت میں ہی ہوں گے ؟ (یعنی ان کے ساتھ بد اخلاق کا ہوجانا ممکن ہی نہیں بلکہ واقع بھی ہے) فرمایا کیوں نہیں ! فرمایا کیوں نہیں ! البتہ تم ان کی عزت اسی طرح کرو جیسے اپنی اولاد کی عزت کرتے ہو اور جو خود کھاتے ہو اسی میں سے انہیں بھی کھلایا کرو، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! اس کا دنیا میں ہمیں کیا فائدہ ہوگا ؟ فرمایا وہ نیک گھوڑا جسے تم تیار کرتے ہو، اس پر تم اللہ کے راستہ میں جہاد کرسکتے ہو اور تمہارا غلام تمہاری کفایت کرسکتا ہے، یاد رکھو ! اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو وہ تمہارا بھائی ہے، یہ بات آپ ﷺ نے دو مرتبہ دہرائی۔

【72】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے میرے پاس جنگ یمامہ کے شہداء کی خبر دے کر قاصد کو بھیجا، میں جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں حضرت عمر فاروق (رض) بھی موجود تھے، حضرت صدیق اکبر (رض) نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمر (رض) میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں بڑی سخت معرکہ آرائی ہوئے ہے اور مسلمانوں میں سے جو قراءت ہے وہ بڑی تعداد میں شہید ہوگئے ہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف جگہوں میں قراء کرام یونہی شہید ہوتے رہے تو قرآن کریم کہیں ضائع نہ ہوجائے کہ اس کا کوئی حافظ ہی نہ رہے، اس لئے میری رائے یہ ہوئی کہ میں آپ کو جمع قرآن کا مشورہ دوں، میں نے عمر (رض) سے کہا کہ جو کام نبی ﷺ نے نہیں کیا، میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں ؟ لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ بخدا ! یہ کام سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ مجھ سے مسلسل اس پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس مسئلے پر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی شرح صدر عطاء فرمادیا اور اس سلسلے میں میری بھی وہی رائے ہوگئی جو عمر (رض) کی تھی۔ حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق (رض) بھی وہاں موجود تھے لیکن حضرت صدیق اکبر (رض) کے ادب سے بولتے نہ تھے، حضرت صدیق اکبر (رض) ہی نے فرمایا کہ آپ ایک سمجھدار نوجوان ہیں اور نبی ﷺ کے کاتب وحی بھی رہ چکے ہیں، اس لئے جمع قرآن کا یہ کام آپ سرانجام دیں۔ حضرت زید (رض) فرماتے ہیں بخدا ! اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے منتقل کرنے کا حکم دے دیتے تو وہ مجھ پر جمع قرآن کے اس حکم سے زیادہ بھاری نہ ہوتا، چناچہ میں نے بھی ان سے یہی کہا کہ جو کام نبی ﷺ نے نہیں کیا، آپ وہ کام کیوں کررہے ہیں ؟ (لیکن جب میرا بھی شرح صدر ہوگیا تو میں نے یہ کام شروع کیا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا)

【73】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب نبی ﷺ کی روح مبارک پرواز کرگئی اور حضرت صدیق اکبر (رض) خلیفہ منتخب ہوگئے، تو حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) کے درمیان نبی ﷺ کے ترکہ میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی ﷺ جو چیز چھوڑ کر گئے ہیں اور آپ ﷺ نے اسے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا۔ جب حضرت عمر فاروق (رض) خلیفہ منتخب ہوئے تو وہ دونوں حضرات ان کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے لیکن انہوں نے یہی فرمایا کہ جس چیز کو حضرت صدیق اکبر (رض) نے نہیں ہلایا، میں بھی اسے نہیں ہلاؤں گا، جب خلافت حضرت عثمان غنی (رض) کے سپرد ہوئی تو وہ دونوں حضرت عثمان (رض) کے پاس بھی آئے۔ حضرت عثمان (رض) نے ان کا موقف سن کر خاموشی اختیار کی اور سر جھکالیا، حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں حضرت عثمان (رض) اسے حکومت کی تحویل میں نہ لے لیں چناچہ میں اپنے والد حضرت عباس (رض) کے دونوں کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا اور ان سے کہا اباجان ! میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اسے علی (رض) کے حوالے کر دیجئے چناچہ انہوں نے اسے حضرت علی (رض) کے حوالے کردیا۔

【74】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا فاروق اعظم (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی (رض) اور حضرت عباس (رض) آگئے، ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، حضرت عمر (رض) نے فرمایا عباس (رض) ! رک جائیے، مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ آپ کے بھتیجے تھے اس لئے آپ کو نصف مال ملنا چاہئے اور اے علی (رض) ! مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ آپ کی رائے یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادی آپ کے نکاح میں تھیں اور ان کا آدھا حصہ بنتا تھا۔ اور نبی و کے ہاتھوں میں جو کچھ تھا، وہ میرے پاس موجد ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ نبی ﷺ کا اس میں کیا طریقہ کار تھا ؟ نبی ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ مقرر ہوئے، انہوں نے وہی کیا جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، حضرت ابوبکر (رض) کے بعد مجھے خلیفہ بنایا گیا، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرح نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) نے کیا، میں اسی طرح کرنے کی پوری کوشش کرتا رہوں گا۔ پھر فرمایا کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ حدیث سنائی اور اپنے سچے ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ان کا ترکہ فقراء مسلمین اور مساکین میں تقسیم ہوتا ہے اور مجھ سے حضرت صدیق اکبر (رض) نے یہ حدیث بھی بیان کی اور اپنے سچا ہونے پر اللہ کی قسم بھی کھائی کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی نبی اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے کسی امتی کی اقتداء نہیں کرلیتا۔ بہرحال ! نبی ﷺ کے پاس جو کچھ تھا، وہ یہ موجود ہے اور ہم نے نبی ﷺ کے طریقہ کار کو بھی دیکھا ہے، اب اگر آپ دونوں چاہتے ہیں کہ میں یہ اوقاف آپ کے حوالے کردوں اور آپ اس میں اسی طریقے سے کام کریں گے جیسے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کرتے رہے تو میں اسے آپ کے حوالے کردیتا ہوں۔ یہ سن کر وہ دونوں کچھ دیر کے لئے خلوت میں چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو حضرت عباس (رض) نے فرمایا کہ آپ یہ اوقاف علی کے حوالے کردیں، میں اپنے دل کی خوشی سے اس بات کی اجازت دیتا ہوں۔

【75】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضرت فاطمہ (رض) ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) اور حضرت عمر فاروق (رض) کے پاس آئیں اور ان سے نبی ﷺ کی میراث کا مطالبہ کیا، دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے مال میں وراثت جاری نہیں ہوگی۔

【76】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

قیس بن ابی حازم (رح) کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے وصال مبارک کے ایک مہینے بعد حضرت صدیق اکبر (رض) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں میں منادی کردی گئی کہ نماز تیار ہے اور یہ نبی ﷺ کے وصال کے بعد وہ پہلی نماز تھی جس کے لئے مسلمانوں میں " الصلوۃ جامعۃ " کہہ کر منادی کی گئی تھی، چناچہ لوگ جمع ہوگئے، حضرت صدیق اکبر (رض) منبر پر رونق افروز ہوئے، یہ آپ کا پہلا خطبہ تھا جو آپ نے اہل اسلام کے سامنے ارشاد فرمایا : اس خطبے میں آپ (رض) نے پہلے اللہ کی حمد وثناء کی، پھر فرمایا لوگو ! میری خواہش تھی کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کام کو سنبھال لیتا، اگر آپ مجھے نبی ﷺ کی سنت پر رکھ کر دیکھنا چاہیں گے تو میرے اندر اس پر پورا اترنے کی طاقت نہیں ہے۔ نبی ﷺ تو شیطان کے حملوں سے محفوط تھے اور ان پر تو آسمان سے وحی کا نزول ہوتا تھا (اس لئے میں ان کے برابر کہاں ہوسکتا ہوں ؟ )

【77】

حضرت صدیق اکبر (رض) کی مرویات

حضرت صدیق اکبر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے مجھے صبح وشام اور بستر پر لیٹتے وقت یہ دعاء پڑھنے کا حکم دیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ ! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کے پالنہار اور مالک ! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہوسکتا، تو اکیلا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، میں اپنی ذات کے شر، شیطان کے شر اور اس کے شرک سے، خود اپنی جان پر کسی گناہ کا بوجھ لادنے سے یا کسی مسلمان کو اس میں کھینچ کر مبتلا کرنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں