12. حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

【1】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر (رض) کچھ مہمانوں کو لے کر آئے، خود انہوں نے شام کا وقت نبی ﷺ کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا، انہوں نے کہا نہیں ! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کردیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کردیا، اس پر وہ ناراض ہوگئے اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھالی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکر (رض) نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہوگیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے اضافہ ہوجاتا تھا، حضرت ابوبکر (رض) نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا اے بنو فراس کی بہن ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے کہا اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ! یہ تو اصل مقدار سے بھی زیادہ ہوگیا ہے، چناچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی ﷺ کو بھی بھجوایا اور راوی نے ذکر کیا کہ نبی ﷺ نے بھی اس کھانے کو تناول فرمایا۔

【2】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ہم ایک سو تیس آدمی تھے، نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے ؟ ایک آدمی کے پاس سے ایک صاع آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، اتنی دیر میں ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا مشرک ایک بکری ہانکتا ہوا لایا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ یہ بیچنے کے لئے لائے ہو یا ہدیہ کے طور پر لائے ہو ؟ اس نے کہا کہ بیچنے کے لئے، نبی ﷺ نے اس سے وہ بکری خرید لی اور اسے بھی تیار کیا جانے لگا۔ نبی ﷺ نے اس موقع پر یہ حکم بھی دیا کہ اس کی کلیجی بھون لی جائے، بخدا ! ہم ایک سو تیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے نبی ﷺ نے کلیجی کی بوٹی کاٹ کر نہ دی ہو، جو موجود تھے انہیں اسی وقت اور جو موجود نہیں تھے ان کے لئے بچا کر رکھ لی، پھر دو بڑے پیالوں میں کھانا نکالا، ہم سب نے کھایا اور خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پیالوں میں پھر بھی کچھ بچ گیا، ہم نے اسے اپنے اونٹ پر لاد لیا۔

【3】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن (رض) سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے، حضرت صدیق اکبر (رض) اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی ﷺ دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔

【4】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ عائشہ صدیقہ (رض) کو اپنے پیچھے بٹھا کر تنعیم لے جاؤں اور انہیں عمرہ کرا لاؤں۔

【5】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے رب نے میری امت میں سے مجھے ستر ہزار ایسے افراد عطاء کئے ہیں جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوں گے، حضرت عمر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے اس سے زائد کی درخواست نہیں کی ؟ فرمایا میں نے درخواست کی تھی جس پر اللہ نے مجھے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار عطاء فرما دیئے، حضرت عمر (رض) نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے اس سے زائد کی درخواست نہیں کی ؟ فرمایا میں نے درخواست کی تھی جس پر اللہ نے مجھے اتنے اور افراد عطاء فرمائے، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے، جس کی وضاحت کرتے ہوئے راوی کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

【6】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ بندے ! تو نے لوگوں کا مال کہاں اڑایا ؟ وہ عرض کرے گا پروردگار ! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہوگیا یہ سن کر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا۔

【7】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ بندے ! تو نے لوگوں سے قرض لے کر ان کا مال کہاں اڑایا ؟ وہ عرض کرے گا پروردگار ! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے لیا تھا لیکن میں اسے کھا سکا اور نہ پی سکا، میں اسے پہن بھی نہیں سکا اور یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہوگیا یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ آج تمہاری طرف تمہارا قرض ادا کروں، پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا اور وہ اللہ کے فضل سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔

【8】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی پر سوار ہو، پیچھے اپنی بہن کو بٹھاؤ جب تنعیم کے ٹیلے سے اترو تو عمرہ کرا لاؤ، یہ موقع لیلۃ الصدر کا تھا۔

【9】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی پر سوار ہو، پیچھے اپنی بہن کو بٹھاؤ، جب تنعیم کے ٹیلے سے اترو تلبیہ و احرام کر کے واپس آجاؤ یعنی عمرہ کرا لاؤ، کہ یہ مقبول عمرہ ہوگا۔

【10】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ہم ایک سو تیس آدمی تھے، نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے ؟ ایک آدمی کے پاس سے ایک صاع آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، اتنی دیر میں ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا مشرک ایک بکری ہانکتا ہوا لایا، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ یہ بیچنے کے لئے لائے ہو یا ہدیہ کے طور پر لائے ہو ؟ اس نے کہا کہ بیچنے کے لئے، نبی ﷺ نے اس سے وہ بکری خرید لی اور اسے بھی تیار کیا جانے لگا۔ نبی ﷺ نے اس موقع پر یہ حکم بھی دیا کہ اس کی کلیجی بھون لی جائے، بخدا ! ہم ایک سو تیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے نبی ﷺ نے کلیجی کی بوٹی کاٹ کر نہ دی ہو، جو موجود تھے انہیں اسی وقت اور جو موجود نہیں تھے ان کے لئے بچا کر رکھ لی، پھر دو بڑے پیالوں میں کھانا نکالا، ہم سب نے کھایا اور خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پیالوں میں پھر بھی کچھ بچ گیا، ہم نے اسے اپنے اونٹ پر لاد لیا۔

【11】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن (رض) سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے، حضرت صدیق اکبر (رض) اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی ﷺ دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن (رض) کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا، اس دن حضرت صدیق اکبر (رض) نے شام کا وقت نبی ﷺ کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے ؟ انہوں نے فرمایا کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا، انہوں نے کہا نہیں ! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کردیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کردیا، میں جا کر ایک جگہ چھپ گیا، حضرت صدیق اکبر (رض) نے مجھے سخت سست کہتے ہوئے آوازیں دیں، پھر مہمانوں سے فرمایا کھاؤ، تم نے اچھا نہیں کیا اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھالی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکر (رض) نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہوگیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے مزید اضافہ ہوجاتا تھا، حتی کہ وہ سب سیراب ہوگئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا، حضرت ابوبکر (رض) نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا اے بنو فراس کی بہن ! یہ کیا ماجرا ہے ؟ انہوں نے کہا اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ! یہ تو اصل مقدار سے بھی تین گنا زیادہ ہوگیا ہے، چناچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی ﷺ کو بھی بھجوایا اور راوی نے ذکر کیا کہ ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک معاہدہ تھا، اس کی مدت ختم ہوگئی، ہم نے بارہ آدمیوں کو چوہدری مقرر کیا جن میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھے، جن کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے، التبہ یہ واضح ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھے اور ان سب نے بھی اس کھانے کو کھایا۔

【12】

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) کی مرویات

حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے، حضرت صدیق اکبر (رض) اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی ﷺ دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن (رض) کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین، (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا۔