307. حضرت عتبان بن مالک کی مرویات

【1】

حضرت عتبان بن مالک کی مرویات

حضرت عتبان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے چاشت کی نماز پڑھی، جس وقت آپ نے سلام پھیرا، ہم بھی سلام پھیر کر فارغ ہوگئے، یہ نماز نبی ﷺ نے ان کی مسجد میں پڑھی تھی۔

【2】

حضرت عتبان بن مالک کی مرویات

حضرت عتبان بن مالک کی بینائی انتہائی کمزور تھی (تقریبا نابینا تھے) انہوں نے نبی ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتے ہیں، نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ! تو نبی ﷺ نے انہیں عدم حاضری کی رخصت نہ دی۔

【3】

حضرت عتبان بن مالک کی مرویات

حضرت عتبان (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری نظر کمزور ہے اور میرے اور آپ کے درمیان یہ وادی اور ظلمت بھی حائل ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کرلوں، نبی ﷺ نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا، چناچہ ایک دن حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے ساتھ نبی ﷺ تشریف لے آئے، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی ﷺ کی زیارت کے لئے آنے لگے، لیکن ایک آدمی " جس کا نام مالک بن وخش تھا " آنے سے رہ گیا اور لوگ اس پر نفاق کا طعنہ اور الزام پہلے ہی سے لگاتے تھے۔ لوگ کھانے کے وقت تک رکے رہے اور آپس میں باتیں کرنے لگے، باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ اسے پتہ بھی ہے کہ نبی ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں لیکن وہ محض اپنے نفاق کی وجہ سے ہی پیچھے رہ گیا ہے، اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہو کر فرمانے لگے افسوس ! کیا وہ خلوص جل کے ساتھ " لا الہ اللہ " کی گواہی نہیں دیتا ؟ جو شخص اس کلمے کی گواہی دیتا ہے، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ حرام قرار دے دی ہے۔

【4】

حضرت عتبان بن مالک کی مرویات

حضرت عتبان (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میری قوم کی مسجد اور میرے درمیان سیلاب حائل ہوجاتا ہے، آپ کسی وقت تشریف لا کر میرے گھر میں نماز پڑھ دیں تو میں اسے ہی اپنے لئے جائے نماز منتخب کرلوں، نبی ﷺ نے مجھ سے ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا، چناچہ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ نبی ﷺ تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہو کر فرمایا تم کس جگہ کو جائے نماز بنانا چاہتے ہو ؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کردیا، نبی ﷺ کھڑے ہوگئے، ہم نے ان کے پیچھے صف بندی کرلی اور نبی ﷺ نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں، ہم نے نبی ﷺ کریم صلی اللہ علیہ کو کھانے پر روک لیا، انصار کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو وہ نبی ﷺ کی زیارت کے لئے آنے لگے، سارا گھر بھر گیا، ایک آدمی کہنے لگا کہ مالک بن دخشم کہاں ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، نبی ﷺ نے فرمایا ایسے نہ کہو، وہ اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے، اس نے کہا کہ ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ اس کی توجہ اور باتیں منافقین کی طرف مائل ہوتی ہیں، نبی ﷺ نے پھر وہی جملہ دہرایا، دوسرے آدمی نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! اس پر نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کی رضا کے لئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوا قیامت کے دن آئے گا، اللہ نے اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے، محمود کہتے ہیں کہ یہ حدیث جب میں نے ایک جماعت کے سامنے بیان کی جن میں ایوب بھی تھے، تو وہ کہنے لگے میں نہیں سمجھتا کہ نبی ﷺ نے یہ فرمایا ہوگا، میں نے کہا کہ جس وقت میں مدینہ منورہ پہنچا اور حضرت عتبان (رض) زندہ ہوئے تو میں ان سے یہ سوال ضرور کروں گا، چناچہ میں وہاں پہنچا تو وہ نابینا ہوچکے تھے اور اپنی قوم کی امامت فرماتے تھے، میں نے ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں مجھے یہ حدیث اس طرح سنا دی جیسے پہلے سنائی تھی اور یہ بدری صحابی تھے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

【5】

حضرت عتبان بن مالک کی مرویات

ابوبکر بن انس کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب شام سے واپس آئے، میں ان کے ہمراہ تھا، تو ہماری ملاقات محمود بن ربیع سے ہوگئی انہوں نے میرے والد صاحب کو حضرت عتبان (رض) کے حوالے سے حدیث سنائی والد صاحب نے فرمایا بیٹے ! اس حدیث کو یاد کرلو کہ یہ حدیث کا خزانہ ہے واپسی پر جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے حضرت عتبان (رض) سے اس کے متعلق پوچھا کہ وہ اس وقت حیات تھے لیکن انتہائی بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے، انہوں نے فرمایا ہاں !