310. حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

【1】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ کی خدمت اقدس میں ایک مرتبہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی کو چھنک آئی، نبی ﷺ نے یرحمک اللہ کہہ کر اسے جواب دیا، اس نے دوبارہ چھینک ماری تو نبی ﷺ نے فرمایا اس شخص کو زکام ہے۔

【2】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا کہ میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی طاقت نہیں رکھتا، نبی ﷺ نے فرمایا تجھے اس کی توفیق نہ ہو، چناچہ اس کے بعد اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہیں جاسکا۔

【3】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی (مہمان ظاہر کر کے) کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کرسکے، میں نے اس کا پیچھا کر کے اس کی سواری کو بٹھایا اور اس کی گردن اڑادی، نبی ﷺ نے اس کا سازوسامان مجھے بطور انعام کے دے دیا۔

【4】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد اس وقت پڑھتے جب اس کا کنارہ غروب ہوجاتا تھا۔

【5】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے پوچھا کہ حدیبیہ کے دن آپ نے کس چیز پر نبی ﷺ سے بیعت کی تھی ؟ انہوں نے فرمایا موت پر بیعت کی تھی۔

【6】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت جابر (رض) اور حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جہاد میں شریک تھے، اسی دوران ہمارے پاس نبی ﷺ کا ایک قاصد آیا اور کہنے لگا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے تم عورتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔

【7】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ سفر کرتا رہا ہوں میں نے آپ کو نماز عصر یا فجر کے بعد کبھی بھی نوافل پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

【8】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ہوازن کے خلاف جہاد میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، نبی ﷺ نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی مہمان ظاہر کر کے کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہوا تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کرسکے، نبی ﷺ کے صحابہ میں سے قبیلہ اسلم کا ایک آدمی بہترین قسم کی خاکستیری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے لگ گیا، میں بھی دوڑتا ہوا نکلا اور اسے پکڑ لیا، اونٹنی کا سر اونٹ کے سرین کے پاس تھا اور میں اونٹنی کے سرین کے پاس، میں تھوڑا سا آگے بڑھ کر اونٹ کے سرین کے قریب ہوگیا، پھر تھوڑا سا قریب ہو کر اس کے اونٹ کی لگام پکڑ لی، میں نے اس کی سواری کو بٹھایا اور جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے اس کی گردن اڑادی، میں اس کی سواری اور اس کے سازوسامان کو لے کر ہانکتا ہوا نبی ﷺ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں نبی ﷺ سے آمنا سامنا ہوگیا، نبی ﷺ نے فرمایا اس شخص کو کس نے قتل کیا ؟ لوگوں نے کہا ابن اکوع نے، نبی ﷺ نے فرمایا اس کا سازوسامان بھی اسی کا ہوگیا۔

【9】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر کے ساتھ نکلے جنہیں نبی ﷺ نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو حضرت صدیق اکبر نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کردیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہوگیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا حضرت صدیق اکبر کے پہ اس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی حضرت صدیق اکبر نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی ﷺ سے میری ملاقات ہوگئی، نبی ﷺ مجھ سے فرمانے لگے سلمہ ! وہ عورت مجھے ہبہ کردو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہوگئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی ﷺ سے ملاقات ہوئی تو نبی ﷺ نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا ہے، لیکن یا رسول اللہ ! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی ﷺ نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی ﷺ نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان سے قیدیوں کو چھڑا لیا۔

【10】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر میرے چچا نے مرحب یہودی کو مقابلے کی دعوت دی، مرحب کہنے لگا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جس وقت جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے، میرے چچا عامر نے بھی یہ رجزیہ اشعار پڑھے خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ سے مسلح اور بےخوف جنگ میں گھسنے والا ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ عامر اور مرحب دونوں ضربیں مختلف طور پر پڑنے لگیں۔ مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر لگی اور عامر نے نیچے سے مرحب کو تلوار ماری تو حضرت عامر کی اپنی تلوار خود انہی کو لگ گئی جس سے ان کی شہ رگ کٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نکلا تو میں نے نبی ﷺ کریم کے چند صحابہ کو دیکھا وہ کہنے لگے حضرت عامر کا عمل ضائع ہوگیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خود مار ڈالا ہے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر نبی ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! عامر کا عمل ضائع ہوگیا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کس نے کہا ہے ؟ میں نے عرض کیا آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے۔ آپ نے فرمایا جس نے بھی کہا ہے غلط کہا ہے بلکہ عامر کے لئے دگنا اجر ہے۔ جس وقت عامر، رسول اللہ کے ساتھ خیبر کی طرف نکل پڑے، انہوں نے رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کردیئے۔ اللہ کی قسم ! اگر اللہ کی مدد نہ ہوتی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے، یہ لوگ ہم پر سرکشی کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ جب بھی کسی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس کا حصہ بننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اور ہم (اے اللہ) تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں اور تو ہمیں ثابت قدم رکھ جب ہم دشمن سے ملیں اور (اے اللہ) ہم پر سکینت نازل فرما۔ (جب یہ رجزیہ اشعار سنے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں عامر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا تیرا رب تیری مغفت فرمائے، راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی انسان کے لئے خاص طور پر مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور شہادت کا درجہ حاصل کرتا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اپنے اونٹ پر تھے انہوں نے یہ سن کر بلند آواز سے پکارا اے اللہ کے نبی ﷺ ! آپ نے ہمیں عامر سے کیوں نہ فائدہ حاصل کرنے دیا، پھر عامر آگے بڑھ کر شہید ہوگئے۔ پھر آپ نے مجھے حضرت علی کی طرف بھیجا۔ آپ نے فرمایا میں جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت رکھتے ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی کو پکڑ کر (سہارا دے کر) آپ کی خدمت میں لے آیا کیونکہ علی کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ نے حضرت علی کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔ آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا اور مرحب یہ کہتا ہوا نکلا۔ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ پھر حضرت علی نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرف جو جنگلوں میں ڈرانی صورت ہوتا ہے میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ، اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہوگیا اور خیبر حضرت علی کے ہاتھوں فتح ہوگیا۔

【11】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ کے زمانے میں نبی ﷺ کے ساتھ آرہے تھے، میں اور نبی ﷺ کا غلام رباح نبی ﷺ کے پیچھے روانہ ہوئے، میں حضرت طلحۃ بن عبیداللہ کا گھوڑا لے کر نکلا، ارادہ یہ تھا کہ اسے اونٹ کے ساتھ شامل کر دوں گا، لیکن منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ نے نبی ﷺ کے اونٹوں پر حملہ کیا اور چرواہے کو قتل کردیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر ان اونٹوں کو بھگا کرلے گیا، حضرت سلمہ کہتے ہیں میں نے کہا اے رباح ! یہ گھوڑا پکڑ اور اسے حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے، پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا، یا صباحاہ پھر (اس کے بعد) میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا : میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آکر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوجاتا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کردیئے۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا اور وہ رسول اللہ کی سواری کا ہو ایسا نہیں ہوا کہ جسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہونے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے، سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آگئے اور عیینہ بن بدر فزاری بھی ان کے پاس آگیا، سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا، فزاری کہنے لگا کہ یہ کون آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے ؟ لوگوں نے کہا : اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے، اللہ کی قسم ! اندھیری رات سے ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ فزاری کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے ماردیں، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہیں) ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں، تو میں نے ان سے کہا : کیا تم مجھے پہچانتے ہو ؟ انہوں نے کہا تم کون ہو ؟ میں نے جواب میں کہا : میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں ماردو اور تم میں سے کوئی مجھے مار نہیں سکتا، ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے، (پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور) میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا نہیں تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے حضرت اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے حضرت ابوقتاد تھے اور ان کے پیچھے حضرت مقداد بن اسود کندی تھے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی (یہ دیکھتے ہی) وہ لٹیرے بھاگ پڑے، میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نہ آجائیں، اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ ! اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو، میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا، اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا اور عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کردیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران رسول اللہ کے شہسوار حضرت ابوقتادہ آگئے (جب انہوں نے یہ منظر دیکھا) تو حضرت ابوقتادہ نے عبدالرحمن فزاری کو بھی برچھی مار کر قتل کردیا میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے حضرت محمد ﷺ کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گردو غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے سورج غروب ہونے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا، اس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اس گھاٹی سے پانی پئیں کیو کہ وہ پیاسے تھے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا اور میں ان کے پیچھے دوڑتا ہو اچلا آرہا تھا، بالآخر میں نے ان کو پانی سے ہٹایا، وہ اس سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکے، پر وہ کسی اور گھاٹی کی طرف نکلے، میں بھی ان کے پیچھے بھاگا اور ان میں سے ایک آدمی کو پا کر میں نے اس کے شانے کی ہڈی میں ایک تیر مارا، میں نے کہا پکڑ اس کو اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن کمینوں کی بربادی کا دن ہے، وہ کہنے لگا اس کی ماں اس پر روئے کیا یہ وہی اکوع تو نہیں جو صبح کو میرے ساتھ تھا، میں نے کہا : ہاں ! اے اپنی جان کے دشمن جو صبح کے وقت تیرے ساتھ تھا اور اسے ایک تیرے دے مارا، پھر انہوں نے دو گھوڑے ایک گھاٹی پر چھوڑ دیئے تو میں ان دونوں گھوڑوں کو ہنکا کر رسول اللہ کی طرف لے آیا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ وہاں عامر سے میری ملاقات ہوئی، ان کے پاس ایک چھاگل (چمڑے کا توشہ دان) تھا جس میں دودھ تھا اور ایک مشکیزے میں پان تھا، پانی سے میں نے وضو کیا اور دودھ پی لیا پھر میں رسول اللہ کی خدمت میں آیا اور آپ اسی پانی والی جگہ پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگادیا تھا اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ اونٹ اور وہ تمام چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھین لی تھیں اور سب نیزے اور چادریں لے لیں اور حضرت بلال نے ان اونٹوں میں جو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے ایک اونٹ کو ذبح کیا اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ کے لئے بھونا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں لشکر میں سو آدمیوں کا انتخاب کروں اور پھر میں ان لٹیروں کا مقابلہ کروں اور جب تک میں ان کو قتل نہ کر ڈالوں اس وقت تک نہ چھوڑوں کہ وہ جا کر اپنی قوم کو خبر دیں، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر رسول اللہ ہنس پڑے یہاں تک کہ آگ کی روشنی میں آپ کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں، آپ نے فرمایا : اے سلمہ ! کیا تو یہ کرسکتا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو بزرگی عطا فرمائی، آپ نے فرمایا : اب تو وہ غطفان کے علاقہ میں ہوں گے اسی دوران علاقہ غطفان سے ایک آدمی آیا اور وہ کہنے لگا کہ فلاں آدمی نے ان کے لئے ایک اونٹ ذبح کیا تھا اور ابھی اس اونٹ کی کھال ہی اتار پائے تھے کہ انہوں نے کچھ غبار دیکھا تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آگئے وہ لوگ وہاں (غطفان) سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے تو جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے بہترین سواروں میں سے بہتر سوار حضرت قتادہ ہیں پیادوں میں سے بہتر حضرت سلمہ ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو حصے عطا فرمائے اور ایک سوار کا حصہ اور ایک پیادہ کا حصہ اور دونوں حصے اکٹھے مجھے عطا فرمائے پھر رسول اللہ ﷺ نے عضباء اونٹنی پر مجھے اپنے پیچھے بٹھایا اور ہم سب مدینہ منورہ واپس آگئے۔ دوران سفر انصار کا ایک آدمی جس سے دوڑنے میں کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا، وہ کہنے لگا، کیا کوئی مدینہ تک میرے ساتھ دوڑ لگانے والا ہے ؟ وہ بار بار یہی کہتا رہا، جب میں نے اس کا چیلنج سنا تو میں نے کہا، کیا تجھے کسی بزرگ کی بزرگی کا لحاظ نہیں اور کیا تو کسی بزرگ سے ڈرتا نہیں ؟ اس انصاری شخص نے کہا، نہیں سوائے رسول اللہ کے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے اجازت عطا فرمائی تاکہ میں اس آدمی سے دوڑ لگاؤں، آپ نے فرمایا : (اچھا) اگر تو چاہتا ہے، تو حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس انصاری سے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا پھر میں کود پڑا اور دوڑنے لگا اور پھر جب ایک یا دو چڑھائی باقی رہ گئی تو میں نے سانس لیا پھر میں اس کے پیچھے دوڑا پھر جب ایک یا دو چڑھا باقی رہ گئی تو پھر میں نے سانس لیا پھر میں دوڑا یہاں تک کہ اس انصاری سے جا کر مل گیا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور میں نے کہا، اللہ کی قسم ! میں آگے بڑھ گیا اور پھر اس سے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا، اس پر وہ ہنس پڑا کہنے لگا کہ میں بھی یہی سمجھتا ہوں، حتی کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

【12】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب نماز عشاء اور ات کا کھانا جمع ہوجائیں تو پہلے کھانا کھالیا کرو۔

【13】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمارے اوپر تلوار سونتے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

【14】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمہ بن اکوع کے ساتھ مسجد میں آتا تھا، وہ اس ستون کے پاس نماز پڑھتے تھے جو مصحف کے قریب تھا اور فرماتے تھے کہ میں نے نبی ﷺ کو اہتمام کے ساتھ اس ستون کے قریب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت منبر اور قبلہ کے درمیان سے بکری گذر سکتی تھی۔

【15】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ہے، پھر انہوں نے حدیبیہ، ذات قرد اور غزوہ خیبر کا تذکرہ کیا، راوی کہتے ہیں کہ بقیہ غزوات کے نام میں بھول گیا۔

【16】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میرے پاس میرے چچا عامر آئے اور کہنے لگے کہ اپنا ہتھیار مجھے دے دو ، میں نے انہیں وہ دے دیا، پھر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ہتھیار مہیا کیجئے، نبی ﷺ نے پوچھا تمہارا اپنا ہتھیار کہا گیا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے اپنے چچا عامر کو دے دیا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا اس کے علاوہ مجھے تمہارے متعلق کوئی تشبیہ نہیں یاد آرہی کہ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا کہ مجھے اپنا بھائی دے دو جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہے، پھر نبی ﷺ نے اپنی کمان، ڈھال اور اپنے ترکش سے تین تیر نکال کر مرحمت فرما دیئے۔

【17】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے جنگل میں رہنے کی اجازت مانگی تو نبی ﷺ نے انہیں اجازت دے دی۔

【18】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے پھر ہم لوگ اس وقت واپس آتے تھے کہ جب ہمیں باغات میں اتنا بھی سایہ نہ ملتا کہ کوئی شخص وہاں سایہ حاصل کرسکتا۔

【19】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ بعض اوقات میں شکار میں مشغول ہوتا ہوں کیا میں اپنی قمیص میں ہی نماز پڑھ سکتا ہوں ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اسے بٹن لگا لیا کرو، اگرچہ کانٹا ہی ملے۔

【20】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو جب بھی کسی دعاء کا آغاز کرتے ہوئے سنا تو اس کے آغاز میں یہی کہتے ہوئے سنا " سبحان ربی الاعلی العلی الوہاب

【21】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پر درخت کے نیچے دوسرے لوگوں کے ساتھ نبی ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی دوبارہ گذرا تو نبی ﷺ نے فرمایا سلمہ ! بیعت کرو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں بیعت کرچکا ہوں، نبی ﷺ نے فرمایا دوبارہ سہی، چناچہ میں نے دوبارہ بیعت کرلی۔

【22】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پر دوسرے لوگوں کے ساتھ نبی ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا، جب نبی ﷺ کے پاس سے لوگ چھٹ گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا ابن اکوع ! تم کیوں نہیں بیعت کر رہے ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں بیعت کرچکا ہوں نبی ﷺ نے فرمایا دوبارہ سہی راوی نے پوچھا کہ اس دن آپ نے کس چیز پر نبی ﷺ سے بیعت کی تھی ؟ انہوں نے فرمایا موت پر۔

【23】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد اس وقت پڑھتے جب اس کا کنارہ غروب ہوجاتا تھا۔

【24】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

عبدالرحمن بن رزین کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی حج کے ارادے سے جا رہے تھے، راستے میں مقام ربذہ میں پڑاؤ کیا، کسی نے بتایا کہ یہاں نبی ﷺ کے ایک صحابی حضرت سلمہ بن اکوع بھی رہتے ہیں، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں سلام کیا، پھر ہم نے ان سے کچھ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے اس ہاتھ سے نبی ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی ہے، یہ کہہ کر انہوں نے اپنی بھری ہوئی ہتھیلی باہر نکالی ہم نے کھڑے ہو کر ان کی دونوں ہتھیلیوں کو بوسہ دیا۔

【25】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ اوطاس کے سال صرف تین دن کے لئے متعہ کی رخصت دی تھی اس کے بعد اس کی ممانعت فرما دی تھی۔

【26】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ منورہ آئے، تو حضرت بریدہ بن حصیب سے ملاقات ہوئی وہ کہنے لگے اے سلمہ ! کیا تم اپنی ہجرت سے پیٹھ پھیر چکے ہو ؟ (کہ صحراء میں رہنا شروع کردیا ہے) انہوں نے بتایا کہ مجھے نبی ﷺ کی طرف سے اجازت ہے، میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے قبیلہ اسلم ! دیہات میں رہو اور صاف ستھری آب وہوا پاؤ اور گھاٹیوں میں رہو، لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں اس سے ہماری ہجرت کو نقصان نہ پہنچے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا تم جہاں بھی رہو گے مہاجر ہی رہو گے۔

【27】

حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی ﷺ نے فرمایا تم لوگ ہمارا دیہات اور ہم تمہارا شہر ہیں۔