504. حضرت مالک بن صعصعہ (رض) کی حدیثیں

【1】

حضرت مالک بن صعصعہ (رض) کی حدیثیں

حضرت مالک بن صعصعہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ میں بیت اللہ کے قریب سونے اور جاگنے کے درمیان تھا کہ تین میں سے ایک آدمی دو آدمیوں کے درمیان آگے آیا، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا، اس نے سینے سے لے کر پیٹ تک میرا جسم چاک کیا اور دل کو آب زم زم سے دھویا اور اسے حکمت و ایمان سے لبریز کردیا گیا، پھر میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ہم آسمان دنیا پر پہنچے، پوچھا گیا کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جبریل ! پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے بتایا محمد ﷺ ! پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں ! فرشتوں نے کہا خوش آمدید ! ایک بہترین آنے والا آیا، وہاں میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو خوش آمدید، ایک بہترین آنے والا آیا۔ دوسرے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت یحییٰ و عیسی (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بیٹے کی بجائے بھائی کہا، تیسرے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بیٹے کی بجائے بھائی کہا، چوتھے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بھائی کہا، پانچویں آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں بھی بھائی کہا، چھٹے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی بھائی کہا، جب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مل کر آگے بڑھا تو وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ پروردگار ! یہ نوجوان جسے آپ نے میرے بعد مبعوث فرمایا : اس کی امت میری امت سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوگی، پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے اور وہاں بھی یہی سوال جواب ہوئے، وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو۔ پھر میرے سامنے بیت المعمور کو پیش کیا گیا، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں بتایا کہ یہ بیت المعمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب ایک مرتبہ باہر آجاتے ہیں تو دوبارہ کبھی داخل ہونے کی نوبت نہیں آتی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہی کو پیش کیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور اس کی جڑ میں چار نہریں جاری تھیں جن میں دو نہریں باطنی اور دو ظاہری تھیں، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا باطنی نہریں تو جنت میں ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ سے پچاس نمازیں فرض قرار دی گئیں، میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا تو وہ کہنے لگے کہ کیا معاملہ ہوا ؟ میں نے بتایا کہ مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں لوگوں کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں، میں نے بنی اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزمایا تھا، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، اس لئے آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور ان سے درخواست کیجئے کہ اس تعداد میں کمی کردیں، چناچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا اور ان سے تخفیف کی درخواست کی تو پروردگار نے ان کی تعداد چالیس مقرر کردی، پھر دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذر ہوا تو یہی سوال جواب ہوئے اور دس نمازیں مزید کم ہوگئیں، اسی طرح دس دس کم ہوتے ہوتے آخری مرتبہ پانچ کم ہوئیں اور صرف پانچ نمازیں رہ گئیں، اس مرتبہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تخفیف کرانے کا مشورہ دیا لیکن نبی ﷺ نے فرمایا اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ کتنی مرتبہ اس کے پاس جاؤں، اسی اثناء میں آواز آئی کہ میں نے اپنا فریضہ مقرر کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا عطا کروں گا۔ 17988 ۔ حضرت مالک بن صعصعہ (رض) سے رموی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ میں بیت اللہ کے قریب سونے اور جاگنے کے درمیان تھا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا ہم ساتویں آسمان پر پہنچے، پوچھا گیا کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جبریل ! پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے بتایا محمد ﷺ ، پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں ! فرشتوں نے کہا خوش آمدید، ایک بہترین آنے والا آیا، وہاں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو خوش آمدید، ایک بہترین آنے والا آیا، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہی کو پیش کیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور اس کی جڑ میں چار نہریں جاری تھیں جن میں سے دو نہریں باطنی اور دو ظاہری تھیں، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ باطنی نہریں تو جنت میں ہیں اور ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے جن میں سے ایک شراب کا تھا اور دوسرا دودھ کا، میں نے دودھ والا برتن پکڑ لیا، تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ فطرت سلیمہ تک پہنچ گئے۔

【2】

حضرت مالک بن صعصعہ (رض) کی حدیثیں

حضرت مالک بن صعصعہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ میں بیت اللہ کے قریب سونے اور جاگنے کے درمیان تھا کہ تین میں سے ایک آدمی دو آدمیوں کے درمیان آگے آیا، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا، اس نے سینے سے لے کر پیٹ تک میرا جسم چاک کیا اور دل کو آب زم زم سے دھویا اور اسے حکمت و ایمان سے لبریز کردیا گیا، پھر میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا جس کا ایک قدم منتہائے نظر پر پڑتا تھا اور میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ ہم آسمان دنیا پر پہنچے، پوچھا گیا کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جبریل ! پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے ؟ انہوں نے بتایا محمد ﷺ ! پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں ! فرشتوں نے کہا خوش آمدید ! ایک بہترین آنے والا آیا، وہاں میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو خوش آمدید، ایک بہترین آنے والا آیا۔ دوسرے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت یحییٰ و عیسی (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بیٹے کی بجائے بھائی کہا، تیسرے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بیٹے کی بجائے بھائی کہا، چوتھے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی بھائی کہا، پانچویں آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، انہوں بھی بھائی کہا، چھٹے آسمان پر بھی یہی سوال و جواب ہوئے اور وہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی بھائی کہا، جب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مل کر آگے بڑھا تو وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ پروردگار ! یہ نوجوان جسے آپ نے میرے بعد مبعوث فرمایا : اس کی امت میری امت سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوگی، پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے اور وہاں بھی یہی سوال جواب ہوئے، وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا خوش آمدید ہو بیٹے کو اور نبی کو۔ پھر میرے سامنے بیت المعمور کو پیش کیا گیا، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں بتایا کہ یہ بیت المعمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب ایک مرتبہ باہر آجاتے ہیں تو دوبارہ کبھی داخل ہونے کی نوبت نہیں آتی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہی کو پیش کیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے تھے اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور اس کی جڑ میں چار نہریں جاری تھیں جن میں دو نہریں باطنی اور دو ظاہری تھیں، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا باطنی نہریں تو جنت میں ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے سامنے ایک برتن شراب کا اور ایک برتن دودھ کا پیش کیا گیا اور ایک برتن شہد کا، میں نے دودھ والا برتن لے لیا، تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ یہی فطرت صحیحہ ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض قرار دی گئیں، میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا تو وہ کہنے لگے کہ کیا معاملہ ہوا ؟ میں نے بتایا کہ مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں لوگوں کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں، میں نے بنی اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزمایا تھا، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، اس لئے آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور ان سے درخواست کیجئے کہ اس کی تعداد میں کمی کردیں، چناچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا اور ان سے تخفیف کی درخواست کی تو پروردگار نے ان کی تعداد چالیس مقرر کردی، پھر دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذر ہوا تو یہی سوال جواب ہوئے اور دس نمازیں مزید کم ہوگئیں، اسی طرح دس دس کم ہوتے ہوتے آخری مرتبہ پانچ کم ہوئیں اور صرف پانچ نمازیں رہ گئیں، اس مرتبہ بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تخفیف کرانے کا مشورہ دیا لیکن نبی ﷺ نے فرمایا اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ کتنی مرتبہ اس کے پاس جاؤں، اسی اثناء میں آواز آئی کہ میں نے اپنا فریضہ مقرر کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا عطا کروں گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے معمولی فرق کے ساتھ بھی مروی ہے۔