1. حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیہ کا بیان

【1】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نہ بہت لمبے قد کے تھے نہ پستہ قد (جس کو ٹھگنا کہتے ہیں) بلکہ آپ کا قد مبارک درمیانہ تھا اور نیز رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونہ کی طرح، نہ بالکل گندم گوں کہ سانولا بن جائے (بلکہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن پرنور اور کچھ ملاحت لئے ہوئے تھے) حضور اقدس ﷺ کے بال نہ بالکل سیدھے تھے نہ بالکل پیچدار (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن تھا) چالیس برس کی عمر ہوجانے پر حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ ﷺ کو نبی بنایا پھر آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں دس سال قیام فرمایا اور دس سال مدینہ منورہ میں رہے اور ساٹھ سے کچھ اوپر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دے دی اور آپ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔

【2】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ درمیانہ قد تھے، نہ زیادہ طویل نہ کچھ ٹھگنے، نہایت خوبصورت معتدل بدن والے، حضور ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے نہ بالکل سیدھے (بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن تھا) نیز آپ گندمی رنگ کے تھے۔ جب حضور ﷺ راستہ چلتے تو آگے کو جھکے ہوئے چلتے۔

【3】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ایک مرد میانہ قد تھے۔ (قدرے درازی مائل جیسا کہ پہلے گزرچکا) آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان قدرے اوروں سے زیادہ فاصلہ تھا۔ (جس سے سینہ مبارک چوڑا ہونا بھی معلوم ہوگیا) گنجان بالوں والے، جو کان کی لو تک ہوتے تھے، آپ ﷺ پر ایک سرخ دھاری کا جوڑا یعنی لنگی اور چادر تھی۔ میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔

【4】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت براء (رض) ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ میں نے کسی پٹھوں والے کو سرخ جوڑے میں حضور اقدس ﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا، آپ ﷺ کے بال مونڈھوں تک رہے ہیں، آپ ﷺ کے بال کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کا حصہ ذرا زیادہ چوڑا تھا۔ اور آپ ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے نہ ٹھگنے۔

【5】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت علی (رض) فرماتے ہیں، کہ حضور اقدس ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے، نہ کوتاہ قد، ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں پُر گوشت تھے (یہ صفات مردوں کے لئے محمود ہیں اس لئے کہ قوت اور شجاعت کی علامت ہیں۔ عورتوں کے لئے مذموم ہیں) حضور ﷺ کا سر مبارک بھی بڑا تھا۔ اور اعضاء کے جوڑ کی ہڈیاں بھی بڑی تھیں۔ سینہ سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک باریک دھاری تھی۔ جب حضور اقدس ﷺ چلتے تھے گویا کہ کسی اونچی جگہ سے نیچے کو اتر رہے ہیں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ جیسا نہ حضور سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔

【6】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

ابراہیم بن محمد جو حضرت علی (رض) کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) جب حضور ﷺ کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے، کہ حضور ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے۔ حضور ﷺ کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے۔ بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے، نہ آپ ﷺ موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لانبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا) حضور ﷺ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ حضور ﷺ کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلا کہنیاں اور گھٹنے) اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُر گوشت تھی، آپ ﷺ کے بدن مبارک پر (معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہوجاتے ہیں حضور اقدس ﷺ کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے) آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی آپ ﷺ کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے۔ جب آپ ﷺ تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے (یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہوجاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے ) ۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بھی فرمایا ہے کہ جب آپ ﷺ توجہ فرماتے تو تمام چہرہ مبارک سے فرماتے، کن اکھیوں سے نہیں ملاحظہ فرماتے تھے۔ مگر یہ مطلب اچھا نہیں آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ ﷺ ختم کرنے والے تھے نبیوں کے، آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی دل والے تھے۔ اور سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے۔ اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے۔ (غرض آپ ﷺ دل و زبان، طبیعت، خاندان اوصاف ذاتی اور نسبتی ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے) آپ ﷺ کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا۔ (یعنی آپ ﷺ کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول وہلہ میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا) اول تو جمال و خوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے شوق افزوں مانع عرض تمنا آداب حسن بارہا دل نے اٹھائے ایسی لذت کے مزے اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا۔ اس کے علاوہ حضور اقدس ﷺ کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا۔ اور جو شخص پہچان کر میل جول کرتا تھا وہ (آپ ﷺ کے اخلاق کریمہ و اوصاف جمیلہ کا گھائل ہو کر) آپ ﷺ کو محبوب بنا لیتا تھا۔ آپ ﷺ کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ جیسا باجمال وباکمال نہ حضور ﷺ سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔ ﷺ

【7】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے حضور اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک دریافت کیا اور وہ حضور ﷺ کے حلیہ مبارک کو بہت ہی کثرت سے اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے۔ مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ ان اوصاف جمیلہ میں سے کچھ میرے سامنے بھی ذکر کریں تاکہ میں ان کے بیان کو اپنے لئے حجت اور سند بناؤں۔ (اور ان اوصاف جمیلہ کو ذہن نشین کرنے اور ممکن ہو سکے تو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کروں، حضرت حسن (رض) تعالہ عنہ کی عمر حضور اکرم ﷺ کے وصال کے وقت سات سال کی تھی۔ اس لئے حضور اکرم ﷺ کے اوصاف جمیلہ میں اپنی کمسنی کی وجہ سے تامل اور کمال تحفظ کا موقع نہیں ملا تھا) ماموں جان نے حضور اکرم ﷺ کے حلیہ شریف کے متعلق یہ فرمایا کہ آپ ﷺ خود اپنی ذات وصفات کے اعتبار سے شاندار تھے۔ اور دوسروں کی نظروں میں بھی بڑے رتبہ والے تھے، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک ماہ بدر کی طرح چمکتا تھا۔ آپ ﷺ کا قد مبارک بالکل متوسط قد والے آدمی سے کسی قدر طویل تھا۔ لیکن لمبے قد والے سے پست تھا، سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے۔ اگر سر کے بالوں میں اتفاقا خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے، ورنہ آپ ﷺ خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے (یہ مشہور ترجمہ ہے اس بناء پر یہ اشکال پیش آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا قصداً مانگ نکالنا روایات سے ثابت ہے۔ اس اشکال کے جواب میں علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس کو ابتدائے زمانہ پر حمل کیا جائے کہ اول حضور ﷺ کو اہتمام نہیں تھا، لیکن بندہ ناچیز کے نزدیک یہ جواب اس لئے مشکل ہے کہ حضور ﷺ کی عادت شریفہ مشرکین کی مخالفت اور اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے مانگ نہ نکالنے کی تھی، اس کے بعد پھر مانگ نکالنی شروع فرمادی، اس لئے اچھا ترجمہ جس کو بعض علماء نے ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ اگر بسہولت مانگ نکل آتی تو نکال لیتے اور اگر کسی وجہ سے بسہولت نہ نکلتی اور کنگھی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو اس وقت نہ نکالتے، کسی دوسرے وقت جب کنگھی وغیرہ موجود ہوتی نکال لیتے)

【8】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں، کہ حضور اکرم ﷺ فراخ دہن تھے، آپ ﷺ کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے، ایڑی مبارک پر بہت کم گوشت تھا۔

【9】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

حضرت جابر (رض) ہی سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں، کہ میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور اقدس ﷺ کو دیکھ رہا تھا۔ حضور ﷺ اس وقت سرخ جوڑا زیب تن فرما تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپ ﷺ کو، بالآخر میں نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ حضور اکرم ﷺ چاند سے کہیں زیادہ جمیل و حسین اور منور ہیں۔

【10】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

ابو اسحاق کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت براء (رض) پوچھا کہ کیا حضور اقدس ﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح شفاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ بدر کی طرح روشن گولائی لئے ہوئے تھا۔

【11】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں، کہ حضور اقدس ﷺ اس قدر صاف شفاف حسین و خوبصورت تھے کہ گویا کہ چاندی سے آپ ﷺ کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بال مبارک قدرے خمدار گھونگریالے تھے۔

【12】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

جابر بن عبداللہ (رض) حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں، کہ مجھ پر سب انبیاء علیہم الصلوہ والسلام پیش کئے گئے یعنی مجھے دکھائے گئے۔ پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو میں نے دیکھا تو وہ ذرا پتلے دبلے بدن کے آدمی تھے گویا کہ قبیلہ شنوئیہ کے لوگوں میں سے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان سب لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں عروہ بن مسعود ان سے زیادہ ملتے جلتے معلوم ہوئے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا تو میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں سے میں خود ہی ان کے ساتھ مشابہ ہوں، ایسے ہی جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے ساتھ زیاہ مشابہ ان لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں وہ دحیہ کلبی ہیں۔

【13】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

سعید جریری (رح) کہتے ہیں کہ میں نے ابوالطفیل (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا، کہ حضور اقدس ﷺ کو دیکھنے والوں میں اب روئے زمین پر میرے سوا کوئی نہیں رہا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے حضور ﷺ کا کچھ حلیہ بیان کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ سفید رنگ تھے۔ ملاحت کے ساتھ یعنی سرخی مائل اور معتدل جسم والے تھے۔

【14】

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ کا بیان

ابن عباس (رض) فرماتے ہیں، کہ حضور اقدس ﷺ کے اگلے دانت مبارک کچھ کشادہ تھے یعنی ان میں کسی قدر ریخیں تھیں گنجان نہ تھے جب حضور اقدس ﷺ تکلم فرماتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔