34. حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گفتگو کیسی ہوتی

【1】

حضور اقدس ﷺ کی گفتگو کیسی ہوتی

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کرلیتے تھے۔

【2】

حضور اقدس ﷺ کی گفتگو کیسی ہوتی

حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں۔

【3】

حضور اقدس ﷺ کی گفتگو کیسی ہوتی

حضرت امام حسن (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے جو حضور اقدس ﷺ کے اوصاف اکثر بیان فرماتے ہیں عرض کیا کہ حضور اقدس ﷺ کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان فرمائیے، انہوں نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ (آخرت کے) غم میں متواتر مشغول رہتے۔ (ذات وصفات باری تعالیٰ یا امت کی بہبود کے) ہر وقت سوچ میں رہتے تھے ان امور کی وجہ سے کسی وجہ سے آپ ﷺ کو بےفکری اور راحت نہ ہوتی تھی (یا یہ کہ امور دینویہ کے ساتھ آپ ﷺ کو راحت نہ ملتی بلکہ دنیوی امور کے علاوہ آپ ﷺ کو راحت اور چین ملتا تھا چناچہ حدیث میں ہے کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے) اکثر اوقات خاموش رہتے تھے بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے آپ ﷺ کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی جیسا کہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ (جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے، چناچہ ملا علی قاری نے ایسی چالیس احادیث اپنی شرح میں جمع کی ہیں جو نہایت مختصر ہیں عربی حاشیہ پر نقل کردیں ہیں جو یاد کرنا چاہے اس کو دیکھ کر یاد کرلے) آپ ﷺ کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کو تاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو، آپ ﷺ سخت مزاج نہ تھے نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے اس کی مذمت نہ فرماتے تھے البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے نہ تعریف فرماتے (مذمت نہ فرماتے تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ شانہ کی نعمت ہے زیادہ تعریف نہ فرمانا اس لئے تھا کہ اس سے حرص کا شبہ ہوتا ہے البتہ اظہار رغبت یا کسی دلداری کی وجہ سے کبھی کبھی خاص خاص چیزوں کی تعریف بھی فرمائی ہے) دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ ﷺ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا (چونکہ آپ ﷺ کو ان کی پرواہ بھی نہ ہوتی تھی اس لئے کبھی دنیوی نقصان پر آپ ﷺ کو کبھی غصہ نہ آتا تھا) البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لاسکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ اس کا انتقام نہ لے لیں۔ اپنی ذات کے لئے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے نہ اس کا انتقام لیتے تھے جب کسی وجہ سے کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے (اس کی وجہ بعض علماء نے یہ بتلائی ہے کہ انگلیوں سے اشارہ تواضع کے خلاف ہے اس لئے حضور اقدس ﷺ پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے اور بعض علماء نے یہ تحریر فرمائی کہ حضور اقدس ﷺ کی عادت شریفہ انگلی سے توحید کی طرف اشارہ فرمانے کی تھی اس لئے غیر اللہ کی طرف انگلی سے اشارہ نہ فرماتے تھے) جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو ملا لیتے (کبھی گفتگو کے ساتھ ہاتھوں کو بھی حرکت فرماتے) اور کھلی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھی کے اندرونی حصہ پر مارتے اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بےتوجہی فرماتے اور یا درگزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیاء کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے۔ آپ ﷺ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی۔ اس وقت آپ ﷺ کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔