1. کتاب الایمان

【1】

صرف وہی عمل قابلِ قبول ہے جو اللہ کے لیے ہو

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ فرماتے تھے کہ : “سب انسانی اعمال کا دارو مدار بس نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کی (اور خدا و رسول کی رضا جوئی و اطاعت کے سوا اس کی ہجرت کا اور کوئی باعث نہ تھا) تو اس کی ہجرت در حقیقت اللہ و رسول ہی کی طرف ہوئی (اور بے شک وہ اللہ و رسول کا سچا مہاجر ہے اور اس کو اس ہجرت الی اللہ والرسول کا مقرر اجر ملے گا) اور جو کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر “مہاجر” بنا تو (اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لیے نہ ہو گی ، بلکہ) فی الواقع جس دوسری غرض اور نیت سے اس نے ہجرت اختیار کی ہے عند اللہ بس اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی ۔ (بخاری و مسلم) تشریح حدیث کا جو ترجمہ اوپر کیا گیا ہے وہ خود مطلب خیز ہے اور نفسِ مفہوم کے بیان کے لیے اس کے بعد کسی مزید تشریح کی حاجت نہیں ، لیکن اس کی خصوصی اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے مطالب و فوائد پر کچھ اور بھی لکھا جائے ۔ حدیث کا اصل منشاء امت پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال کے صلاح و فساد اور مقبولیت و مردودیت کا مدار نیت پر ہے یعنی عملِ صالح وہی ہو گا اور اُسی کی اللہ کے یہاں قدر و قیمت ہو گی جو صالح نیت سے کیا گیا ہو اور جو “عملِ صالح” کسی بُری غرض اور فاسد نیت سے کیا گیا ہو وہ صالح اور مقبول نہ ہو گا ، بلکہ نیت کے مطابق فاسد اور مردود ہو گا ، اگرچہ ظاہری نظر میں “صالح” ہی معلوم ہو ۔۔۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قدر و قیمت عمل کرنے والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی ۔ ایک غلط فہمی کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ جب دار و مدار نیت ہی پر ہو تو اگر برے کام بھی کسی اچھی نیت سے کئے جائیں تو وہ اعمال صالحہ ہو جائیں گے اور ان پر بھی ثواب ملے گا مثلاً اگر کوئی شخص اس نیت سے چوری اور ڈاکہ زنی کرے کہ جو مال اس سے حاصل ہو گا اُس سے وہ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہو سکے گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ برے ہیں اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اُن میں حُسنِ نیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، وہ تو بہر حال قبیح اور موجبِ غضبِ الہی ہیں ، بلکہ ان کے ساتھ اچھی نیت کرنا اور اُن پر ثواب کی امید رکھنا شاید انکی مزید قباحت کا اور سزا میں زیادتی کا باعث ہو ، کیوں کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ ایک قسم کا تلاعب (کھیل) ہو گا ، بلکہ حدیث کا منشا “اعمال صالحہ” کے متعلق یہ جتلانا ہے کہ وہ بھی اگر کسی بری نیت سے کئے جائیں گے تو پھر “اعمال صالحہ” نہیں رہیں گے ، بلکہ بُری نیت کی وجہ سے انکا انجام بُرا ہی ہو گا ۔ مثلاً جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتا ہے جس کو ہم اعلیٰ درجہ کا عمل صالح سمجھتے ہیں وہ اگر یہ خشوع و خضوع اس لیے کرتا ہے کہ لوگ اس کی دینداری اور خدا پرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے ، تو اس حدیث کی رو سے اس کی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی ، یا مثلاً ایک شخص دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور اس کے لیے ہجرت کی ساری مشقتیں اور مصیبتیں سہتا ہے لیکن اس کی غرض اس ہجرت سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی نہیں بلکہ کوئی اور دُنیاوی غرض پوشیدہ ہے ، مثلاً دار الہجرت میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کے لیے محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت ہجرت اسلام نہ ہو گی اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہ ہو گا بلکہ اُلٹا گناہ ہو گا بس یہی ہے اس حدیث کا اصل منشاء ۔ بڑے سے بڑا عمل بھی اگر اخلاص اور للہیت سے خالی ہو گا تو وہ جہنم ہی میں لے جائے گا ۔ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے تین شخصوں کے متعلق عدالت الہیہ سے جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا ، سب سے پہلے ایسے شخص کی پیشی ہو گی جو جہاد میں شہید ہوا ہو گا ، وہ جب حاضرِ عدالت ہو گا تو اللہ تعالیٰ پہلے اس کو اپنی نعمتیں جتائے گا اور یاد دلائے گا وہ اس کو یاد آ جائیں گی پھر اس سے فرمایا جائے گا بتلا تو نے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ اور کیا عمل کئے ؟ وہ عرض کرے گا خدا وند ! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی میں جانِ عزیز تک قربان کر دی ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ تو بہادر مشہور ہو ، تو دنیا میں تیری بہادری کا چرچا ہو چکا ، پھر اللہ کے حکم سے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اسی طرح ایک “عالم دین” اور “عالمِ قرآن” حاضرِ عدالت کیا جائے گا اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے کیا اعمال کئے ؟ وہ کہے گا میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھایا ، اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے ، تو نے تو عالم ، قاری ، اور مولانا کہلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا پھر بحکمِ خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ پھر اس کے بعد ایک شخص پیش ہو گا جس کو اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہو گا ، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تو نے کیا کیا ؟ وہ عرض کرے گا کہ خدا وندا میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو ، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دُنیا تجھ کو سخی کہے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہو لیا ، پھر اس کو بھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ (مسلم) (اللہ پناہ میں رکھے نیتوں کے فساد بالخصوص ریا و نفاق سے ۔ آمین) الغرض اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل کام آئے گا جو صالح نیت سے یعنی محض رضائے الہی کے لیے کیا گیا ہو ، دین کی خاص اصطلاح میں اسی کا نام اخلاص ہے ۔ قرآن مجید میں مخلصوں اور غیر مخلصوں کی ایک مثال قرآن پاک کی ذیل کی دو آیتوں میں صدقات و خیرات کرنے والے دو قسم کے آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک وہ لوگ جو مثلاً دنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال مصارفِ خیر میں صرف کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو محض اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں ، ان دونوں گروہوں کے ظاہری عمل میں قطعی یک رنگی ہے اور ظاہر ہے کہ آنکھ ان کے درمیان کسی فرق کا حکم نہیں کر سکتی لیکن قرآن پاک بتلاتا ہے کہ چونکہ ان کی نیتیں مختلف ہیں اس لیے ان دونوں کے عمل کے نتیجے بھی مختلف ہیں ، ایک کا عمل سراسر برکت ہے اور دوسرے کا بالکل اکارت : كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗوَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے ، اور اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے پتھر کی ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی آ گئی ہو ، (اور اس پر کچھ سبزہ جم آئے) پھر اس پر زوروں کی بارش گرے جو اس کو بالکل صاف کر دے ، تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ان منکر لوگوں کو اللہ اپنی ہدایت اور اسکے میٹھے پھل سے محروم ہی رکھے گا ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ اور اُن لوگوں کی مثال جو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفسوں کو ایثار و انفاق اور راہِ خدا میں قربانی کا خوگر بنانے کے لیے اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس پھولنے پھلنے والے باغ کی سی ہے جو ٹیکری پر واقع ہو اُس پر جب زوروں کی بارش ہو تو دو گنا چوگنا پھل لائے ۔ تو اگرچہ ان دونوں نے بظاہر یکساں طور پر اپنا مال غریبوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کیا ، مگر چونکہ ایک کی نیت محض دکھاوے کی تھی اس لیے لوگوں کے دیکھ لینے یا زیادہ سے زیادہ اُن کی وقتی داد و تحسین کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہوا ، کیوں کہ اس کی غرض اس انفاق سے اس کے سوا کچھ اور تھی ہی نہیں ۔۔۔ لیکن دوسرے نے چونکہ اس ایثار و انفاق سے صرف اللہ کی رضا مندی اور اس کا فضل و کرم چاہا تھا اس لیے اللہ نے اس کو اس کی نیت کے مطابق پھل دیا ۔ بس یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے ۔ اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے ۔ یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے “عالمِ ظاہر” اور “عالم، شہادت” ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے ، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں ، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں ، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں ، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا : نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہو گا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا ، گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا ، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہو گا ، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا ۔ حدیث کی خصوصی اہمیت یہ حدیث اُن “جوامع الکلم” میں سے یعنی رسول اللہ ﷺ کے اُن مختصر ، مگر جامع اور وسیع المعنی ارشادات میں سے ہے جو مختصر ہونے کے باوجود دین کے کسی بڑے اہم حصہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں اور “دریا بکوزہ” کے مصداق ہیں ، یہاں تک کہ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ“اسلام” کا ایک تہائی حصہ اس حدیث میں آ گیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ ان ائمہ نے فرمایا مبالغہ نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے ، کیوں کہ اصولی طور پر اسلام کے تین ہی شعبے ہیں ۔ ایمان (یعنی اعتقادیات) اعمال اور اخلاص ، چوں کہ یہ حدیث اخلاص کے پورے شعبہ پر حاوی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسلام کا ایک تہائی حصہ اس میں آ گیا ۔۔۔ اور پھر اخلاص وہ چیز ہے جس کی ضرورت ہر کام میں اور ہر قدم پر ہے ، خاص کر جب بندہ کوئی اچھا سلسلہ شروع کرے خواہ وہ علمی ہو یا عملی تو وہ اس کا حاجت مند ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس کے سامنے ہو ، اس لئے بعض اکابر نے اپنی مؤلفات کو اسی حدیث سے شروع کرنا بہتر سمجھا ہے چناں چہ امام بخاری نے اپنی “جامع صحیح” کو اور ان کے بعد امام بغوی نے “مصابیح” کو اور اسی حدیث سے شروع کیا ہے ، گویا اسی کو “فاتحۃ الکتاب” بنایا ہے اور حافظ الحدیث ابن مہدیٰ سے منقول ہے کہ جو شخص کوئی دینی کتاب تصنیف کرے اچھا ہو کہ وہ اسی حدیث سے اپنی کتاب کا آغاز کرے (آگے فرمایا) اور اگر میں کوئی کتاب لکھوں تو اس کے ہر باب کو اسی حدیث پاک سے اپنی اس کتاب کا آغاز کیا ہے ، اللہ تعالیٰ بخیر اتمام کی توفیق دے اور قبول فرمائے نیز اس ناچیز کو اور کتاب کے تمام ناظرین کو اخلاص و حسنِ نیت نصیب فرمائے ۔ (اس کے بعد ایک خاص ترتیب سے وہ حدیثیں درج ہوں گی جن میں رسول اللہ ﷺ نے ایمان و اسلام کا یا ان کے ارکان اور شعبوں کا یا ان کے لوازم و شرائط کا یا ان کے برکات و ثمرات کا یا ان کے مفسدات و مناقضات کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے “حدیث جبرئیل” درج کی جا رہی ہے جو اصولی طور پر دین کے سارے شعبوں پر حاوی ہونے کی وجہ سے “ام السنہ” کہی جاتی ہے)

【2】

اسلام ، ایمان اور احسان (حدیث جبرئیل)

حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے (اسی حدیث کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلسِ مبارک میں صحابہ کا ایک مجمع تھا اور حضرت اُن سے خطاب فرما رہے تھے ۔ فتح) کہ اچانک ایک شخص سامنے سے نمودار ہوا ، جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال بہت ہی زیادہ سیاہ تھے ۔ اور اُس شخص پر سفر کا کوئی اثر بھی معلوم نہیں ہوتا تھا ، (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی بیرونی شخص نہیں ہے) اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص اس نو وارد کو پہچانتا نہ تھا (جس سے خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی باہری آدمی ہے ، تو یہ حاضرین کے حلقہ میں سے گزرتا ہوا آیا) یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ کر دو زانو اس طرح بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آنحضرت کے گھٹنوں سے ملا دئیے ، اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھ دئیے ار کہا اے محمد! مجھے بتلائیے کہ “اسلام” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا “اسلام” یہ ہے (یعنی اس کے ارکان یہ ہیں کہ دل و زبان سے) تم یہ شہادت ادا کرو کہ “اللہ” کے سوا کوئی “الہ” (کوئی ذات عبادت و بندگی کے لائق) نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، اور ماہ رمضان کے روزے رکھو ، اور اگر حج بیتُ اللہ کی تم استطاعت رکھتے ہو تو حج کرو ، اس نو وارد سائل نے آپ کا یہ جواب سن کر کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ راوئ حدیث حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ شخص پوچھتا بھی اور پھر خود تصدیق و تصویب بھی کرتا جاتا ہے ، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا اب مجھے بتلائیے کہ “ایمان” کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو اور اُس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخر یعنی روزِ قیامت کو حق جانو اور حق مانو اور ہر خیر و شر کی تقدیر کو بھی حق جانو اور حق مانو ، (یہ سن کر بھی) اس نے کہا ، آپ نے سچ کہا ۔ اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا ، مجھے بتلائیے کہ احسان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو ، کیوں کہ اگرچہ تماس کو نہیں دیکھتے ہو پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے ، پھر اُس شخص نے عرض کیا مجھے قیامت کی بابت بتلائیے (کہ وہ کب واقع ہو گی) آپ نے فرمایا کہ جس سے یہ سوال کیا جا رہا ہے وہ اس کو سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ پھر اس نے عرض کیا تو مجھے اس کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اس کی ایک نشانی تو یہ ہے کہ) لونڈی اپنی مالکہ اور آقا جو جنے گی ، (اور دوسری نشانی یہ ہے کہ) تم دیکھو گے کہ جن کے پاؤں میں جوتا اور تن پر کپڑا نہیں ہے ، اور جو تہی دست اور بکریاں چرانے والے ہیں وہ بڑی بڑی عمارتیں بنانے لگیں گے اور اس میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ، حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ باتیں کر کے یہ نو وارد شخص چلا گیا ، پھر مجھے کچھ عرصہ گزر گیا ، تو حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا ، اے عمر! کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ سوال کرنے والا شخص کون تھا ؟ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے ، تمہاری اس مجلس میں اس لیے آئے تھے کہ تم لوگوں کو تمہارا دین سکھا دیں ۔ (یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں یہی واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی مروی ہے) تشریح اس حدیث میں سائل کے سوال کے جواب میں آنحضرتﷺ نے پانچ امور کا بیان فرمایا ہے ، اسلام ، دوسرے ایمان ، تیسرے احسان ، چوتھے قیامت کے متعلق انتباہ کہک اس کا وقتِ خاص اللہ کے سوا کسی کے علم میں نہیں ، اور پانچویں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی بعض علامات ۔۔۔ ان پانچوں چیزوں کے متعلق جو کچھ اس حدیث میں بیان فرمایا ہے وہ تشریح طلب ہے ۔ اسلام ۔۔۔۔ کے اصل معنی ہیں اپنے کو کسی کے سپرد کر دینا ، اور بالکل اُسی کے تابع فرمان ہو جانا ۔۔۔ اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور اس کے رسولوں کے لائے ہوئے “دین” کا نام اسلام اسی لیے ہے کہ اُس میں بندہ اپنے آپ کو بالکل مولا کے سپرد کر دیتا ہے ، اور اس کی مکمل اطاعت کو اپنا دستور زندگی قرار دے لیتا ہے ، اور یہی اصل حقیقت “دینِ اسلام” کی اور اسی کا مطالبہ ہے ہم سے ۔ فرمایا گیا “فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا” (حج ۳۴:۲۲) (تمہارا اللہ وہی الٰہ واحد ہے ، لہذا تم اسی کے “مسلم” یعنی مطیع ہو جاؤ) اور اسی اسلام کے متعلق فرمایا گیا ہے “وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ” (نساء ۱۲۵:۴) (اور اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور وہ اس طرح “مسلم بندہ” ہو گیا) اور اسی اسلام کے متعلق اعلان فرمایا گیا ہے “وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ” (آلِ عمران ۸۵:۳) (یعنی جس نے “اسلام” کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہا تو وہ ہرگز قبول نہ ہو گا اور وہ آدمی آخرت میں بڑے گھاٹے اور ٹوٹے والوں میں سے ہو گا) بہر حال “اسلام” کی اصل روح اور حقیقت یہی ہے کہ بندہ اپنے کو کلی طور پر اللہ کے سپرد کر دے اور ہر پہلو سے اس کا مطیع فرمان بن جائے ۔ پھر انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی شریعتوں میں اس “اسلام” کے لیے کچھ مخصوص ارکان بھی ہوتے ہیں جن کی حیثیت اس “حقیقت اسلام” کے “پیکر محسوس” کی سی ہوتی ہے ، ااور اس حقیقت کا نشوونما اور اس کی تازگی بھی انہی سے ہوتی ہے ، اور وہ صرف تعبّدی امور وتے ہیں ، اور ظاہری نظر انہی “ارکان” کے ذریعہ فرق و امتیاز کرتی ہے ۔ ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے اپنا دستورِ حیات “اسلام” کو بنایا ہے ، اور ان کے درمیان جنہوں نے نہیں بنایا ۔ تو خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے “اسلام” کا جو آخری اور مکمل دستور ہمارے پاس آیا ہے اس میں توحید خداوندی اور رسالت محمدی کی شہادت ، نماز ، زکوٰۃ ، روزہ اور حج بیت اللہ کو “ارکانِ اسلام” قرار دیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے “بُنِىَ الْاِسْلَامُ عَلىٰ خَمْسٍ الخ” (یعنی اسلام کی بنیاد ان پانچ چیزوں پر ہے) بہر حال یہ پانچ چیزیں جن کو آپ نے یہاں اس حدیث میں “اسلام” کے جواب میں بیان فرمایا “ارکانِ اسلام” ہیں اور یہی گویا “اسلام” کے لیے “پیکرِ محسوس” ہیں ۔ اسی واسطے اس حدیث میں انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ ایمان ۔۔۔ کے اصل معنی کسی کے اعتبار اور اعتماد پر کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اور دین کی خاص اصطلاح میں ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبر ایسی حقیقتوں کے متعلق جو ہمارے حواس اور آلات ادراک کے حدود سے ما وراء ہوں جو کچھ بتلائیں اور ہمارے پاس جو علم اور جو ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائیں ہم ان کو سچا مان کر اس میں ان کی تصدیق کریں اور اس کو حق مان کر قبول کر لیں ۔ بہر حال شرعی ایمان کا تعلق اصولاً امور غیب ہی سے ہوتا ہے جن کو ہم اپنے آلاتِ احساس و ادراک (آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ) کے ذریعہ معلوم نہیں کر سکتے ۔ مثلاً اللہ اور اس کی صفات اور اس کے احکام اور رسولوں کی رسالت اور ان پر وحی کی آمد ، اور مبداء و معاد کے متعلق ان کی اطلاعات ، وغیرہ وغیرہ تو اس قسم کی جتنی باتیں اللہ کے رسول نے بیان فرمائیں ان سب کو ان کی سچائی کے اعتماد پر حق جان کر ماننے کا نام اصطلاح شریعت میں ایمان ہے ، اور پیغمبر کی اس قسم کی کسی ایک بات کو نہ مانن یا اس کو حق نہ سمجھنا ہی اس کی تکذیب ہے ، جو آدمی کو ایمان سے دائرہ سے نکال کر کفر کی سرحد میں داخل کر دیتی ہے پس آدمی کے مؤمن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ “كُلُّ مَا جَاءَ بِهِ الرَّسُوْلُ مِنْ عِنْدِ اللهِ” کی (یعنی تمام ان چیزوں اور حقیقتوں کی جو اللہ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے لائے) تصدیق کی جائے اور ان کو حق مان کر قبول کیا جائے ۔۔۔ لیکن ان سب چیزوں کی پوری تفصیل معلوم ہونی ضروری نہیں ہے ، بلکہ نفسِ ایمان کے لیے یہ اجمالی تصدیق بھی کافی ہے ، البتہ کچھ خاص اہل اور بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں کہ ایمانی دائرہ میں آنے کے لیے ان کی تصدیق تعین کے ساتھ ضروری ہے ، چنانچہ حدیث زیر تشریح میں ایمان سے متعلق سوال کے جعاب میں جن امور کا ذکر فرمایا گیا ہے (یعنی اللہ ، ملائکہ ، اللہ کی کتابیں ، اللہ کے رسول ، روزِ قیامت اور ہر خیر و شر کی تقدیر) تو ایمانیات میں سے یہ وہی اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر تعین کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے ، اور اسی واسطے آنحضرتﷺ نے ان کا ذکر صراحۃً اور تعین کے ساتھ فرمایا ، اور قرآنِ پاک میں بھی یہ ایمانی امور اسی تفصیل اور تعین کے ساتھ مذکور ہیں ، سورہ بقرہ کے آخری رکوع میں ارشاد ہے :آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ (۱) (بقرہ ۲۸۵:۲) وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (۲) (نساء ۱۳۶:۴) ان امورِ ششگانہ میں سے “تقدیر خیر وہ شر” کا ذکر قرآن پاک میں اگرچہ ان ایمانیات کے ساتھ ان آیات میں نہیں آیا ہے ، لیکن دوسرے موقع پر قرآن پاک نے اس کو بھی صراحۃً بیان فرمایا ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے : قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ (۳) (نساء ۷۸:۴) اور دوسری جگہ ارشاد ہے : فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا(۴) (انعام ۱۲۵:۶) اب مختصراً یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ ان سب پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟ سو اللہ پر ایمان لانے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے موجود وحدہ لا شریک خالقِ کائنات اور رب العالمین ہونے کا یقین کیا جائے ، عیب و نقص کی ہر بات سے پاک ، ار ہر صفتِ کمال سے اس کو متصف سمجھا جائے ۔ اور ملائکہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ مخلوقات میں ایک مستقل نوع کی حیثیت سے ان کے وجود کو حق مانا جائے اور یقین کیا جائے کہ وہ اللہ کی ایک پاکیزہ اور محترم مخلوق ہےبَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ (۱) (انبیاء ۲۶:۲۱) جس میں شر اور شرارت اور عصیان و بغاوت کا عنصر ہی نہیں بلکہ ان کا کام صرف اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (۲) (تحریم ۶۶:۶) ان کے متعلق کام ہیں اور ان کی ڈیوٹیاں (فرائض) ہیں جن کو وہ خوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ ملائکہ کے متعلق ایک شبہ اور اس کا ازالہ ملائکہ کے وجود پر یہ شبہ کہ اگر وہ موجود ہوتے تو نظر آتے سخت جاہلانہ شبہ ہے ۔ دنیا میں کتنی ہی چیزیں ہیں جو باوجود موجود ہونے کے ہم کو نظر نہیں آتیں ، کیا زمانہ حال کی خورد بینوں کی ایجاد سے پہلے کسی نے پانی میں ، ہوا میں اور خون کے قطرہ میں وہ جراثیم دیکھے تھے جن کو خوردبین سے آج ہر آنکھ والا دیکھ سکتا ہے اور کیا کسی آلہ سے بھی ہم اپنی روح کو دیکھ پاتے ہیں ۔ تو جس طرح ہماری آنکھ خود اپنی روح کو دیکھنے سے اور بغیر خوردبین کے پانی وغیرہ کے جراثیم دیکھنے سے عاجز ہے ، اسی طرح فرشتوں کو دیکھنے سے بھی وہ قاصر ہے ۔۔۔ اور پھر کیا اس کی کوئی دلیل ہے کہ جس چیز کو ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے وہ موجود نہیں ہو سکتی ؟ کیا ہماری آنکھوں اور ہمارے حواس نے کل عالم موجودات کا احاطہ کر لیا ہے ؟ ایسی بات خاص کر اس زمانہ میں جب کہ روز روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ، کوئی بڑا احمق ہی کہہ سکتا ہے ، دراصل انسان کا علم اور اس کے علمی ذرائع بہت ہی ناقص اور محدود ہیں ۔ اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہےوَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل ۸۵:۱۷) اور اللہ کی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یقین کیا جائے کہ اللہ پاک نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وقتاً فوقتاً ہدایت نامے بھیجے ، ان میں سب سے آخر اور سب کا خاتم قرآن مجید ہے ۔ جو پہلی سب کتابوں کا مصدق اور مہیمن بھی ہے ، یعنی اُن کتابوں میں جتنی ایسی باتیں تھیں جن کی تعلیم و تبلیغ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ضروری ہوتی ہے وہ سب اس قرآن میں لے لی گئی ہیں ، گویا یہ تمام کتبِ سماویہ کے ضروری مضامین پر حاوی اور سب سے مستغنی کر دینے والی خدا کی آخری کتاب ہے اور چونکہ وہ کتابیں اب محفوظ بھی نہیں رہیں اس لئے اب صرف یہی کتاب ہدایت ہے جو سب کے قائم مقام اور سب سے زیادہ مکمل ہے اور زمانہ آخر تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی لیے خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (حجر ۹:۱۵) اور “اللہ کے رسولوں” پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس واقعی حقیقت کا یقین کیا جائے کہ اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً اور مختلف علاقوں میں اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی “ہدایت” اور اپنی رضامندی کا دستور دے کر بھیجا ہے ، اور انہوں نے پوری امانت و دیانت کے ساتھ خدا کا وہ پیغام بندوں کو پہنچا دیا ، اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی پوری پوری کوششیں کیں ، یہ سب پیغمبر اللہ کے برگزیدہ اور صادق بندے تھے (ان میں سے چند کے نام اور کچھ حالات بھی قرآن کریم میں ہم کو بتلائے گئے ہیں اور بہت سوں کے نہیں بتلائے گئے) مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (مؤمن ۷۸:۴۰) بہر حال خدا کے ان سب رسولوں کی تصدیق کرنا اور بحیثیت پیغمبری ان کا پورا پورا احترام کرنا ایمان کے شرائط میں سے ہے ، اور اسی کے ساتھ اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ اللہ نے اس سلسلہ نبوت و رسالت کو حضرت محمدﷺ پر ختم کر دیا ، آپ خاتم الانبیاء اور خدا کے آخری رسول ہیں اور اب قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے نجات و فلاح آپ ہی کی اتباع اور آپ ہی کی ہدایت کی پیروی میں ہے ۔ صَلىَّ اللهُ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَعَلىٰ سَائِرِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَعَلىٰ كُلِّ مَنِ اتَّبَعَهُمْ بِاِحْسَانٍ اِلىٰ يَوْمِ الدِّيْنِ ۔ اور “ایمان بالیوم الآخر” یہ ہے کہ اس حقیقت کا یقین کیا جائے کہ یہ دُنیا ایک دن قطعی طور پر فنا کر دی جائے گی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی خاص قدرت سے پھر سارے مُردوں کو جِلائے گا اور یہاں جس نے جیسا کچھ کیا ہے اسی کے مطابق جزا یا سزا اس کو دی جائے گی ۔ معلوم ہونا چاہیئے کہ چوں کہ دین و مذہب کے سارے نظام کی بنیاد اس حیثیت سے جزا و سزا ہی کے عقیدہ پر ہے کہ اگر آدمی اس کا قائل نہ ہو تو پھر وہ کسی دین و مذہب اور اس کی تعلیمات و ہدایات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے ہی کی ضرورت کا قائل نہ ہو گا ، اس لیے ہر مذہب میں خواہ وہ انسانوں کا خود ساختہ ہو یا اللہ کا بھیجا ہوا ، “جزا و سزا” کو بطور بنیادی عقیدہ کے تسلیم کیا گیا ہے ۔ پھر انسانی دماغوں کے بنائے ہوئے مذاہب میں اس کی شکل تناسخ وغیرہ تجویز کی گئی ہے ، لیکن خدا کی طرف سے آئے ہوئے ادیان و مذاہب کُل کے کُل اس پر متفق ہیں کہ اس کی صورت وہی حشر و نشر کی ہو گی جو اسلام بتلاتا ہے اور قرآن پاک میں اُس پر اس قدر استدلالی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احمق اور انتہائی قسم کا ناسمجھ ہی ہو گا جو اُن قرآنی دلائل و براہین کے سامنے آ جانے کے بعد بھی حشر و نشر اور بعث بعد الموت کو ناممکن اور محال یا مستبعد بھی کہے ۔ اور “ایمان بالقدر” یہ ہے کہ پر یقین لایا جائے اور مانا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے (خواہ وہ خیر ہو یا شر) وہ سب اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہے ۔ جس کو وہ پہلے ہی طے کر چکا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ تو کچھ اور چاہتا ہو اور دُنیا کا یہ کارخانہ اُس کی منشاء کے خلاف اور اس کی مرضی کے علی الرغم چل رہا ہو ، ایسا ماننے میں خدا کی انتہائی عاجزی اور بےچارگی لازم آئے گی ۔ (۳) احسان ۔۔۔ اسلام و ایمان کے بعد سائل نے تیسرا سوال رسول اللہ ﷺ سے “احسان” کے متعلق کیا تھا کہ “مَا الْاِحْسَانُ؟” یعنی “احسان” کی کیا حقیقت ہے ؟ یہ “احسان” بھی ایمان و اسلام کی طرح خاص دینی اور بالخصوص قرآنی اصطلاح ہے ۔ فرمایا گیا ہے “بَلٰى ١ۗ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ” وہاں جس نے اپنے خدا کے سپرد کر دیا اور اس کے ساتھ “احسان” کا وصف بھی اس میں ہوا تو اس کے رب کے پاس اس کے لیے خاص (اجر ہے) ۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : “وَ مَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ” (اور اس سے اچھا دین میں کون ہو سکتا ہے جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کر دیا اور ساتھ ہی وہ محسن (یعنی صاحب احسان بھی ہے) ۔ ہماری زبان اور ہمارے محاورہ میں تو “احسان” کے معنی کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ہیں ، لیکن یہاں جس “احسان” کا ذکر ہے وہ اس کے علاوہ ایک خاص اصطلاح ہے اور اس کی حقیقت وہی ہے جو حدیث زیر تشریح میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمائی یعنی خدا کی بندگی اس طرح کرنا جیسے کہ وہ قہار و قدوس اور ذوالجلال والجبروت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور گویا ہم اس کو دیکھ رہے ہیں ۔ اس کو یوں سمجھئے کہ غلام ایک تو اپنے آقا کے احکام کی تعمیل اس وقت کرتا ہے جب کہ وہ اس کے سامنے موجود ہو اور اس کو یقین ہو کہ وہ مجھے اچھی طرح دیکھ رہا ہے اور ایک رویہ اس کا اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ آقا کی غیر موجودگی میں کام کرتا ہے ، عموماً اُن دونوں وقتوں کے طرز عمل میں فرق ہوتا ہے ، اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ جس قدر دلی دھیان اور محنت اور خوبصورتی کے ساتھ وہ آقا کی آنکھوں کے سامنے کام کرتا اور جس خوش اسلوبی سے اس وقت وظائف خدمت کو انجام دیتا ہے ، مالک کی عدم موجودگی میں اس کا حال وہ نہیں ہوتا ، یہی حال بندوں کا اپنے حقیقی مولیٰ کے ساتھ بھی ہے جس وقت بندہ یہ محسوس کرے کہ میرا وہ مولیٰ حاضر ناظر ہے ، میرے ہر کام بلکہ میری ہر ہر حرکت اور ہر ہر سکون کو وہ دیکھ رہا ہے ، تو اس کی ایک خاص کیفیت اور اس کی بندگی میں ایک خاص شان نیاز مندی ہو گی ، جو اُس وقت میں نہیں ہو سکتی جب کہ اس کا دل اس تصور اور اس احساس سے خالی ہو ۔۔ تو “احسان”یہی ہے کہ اللہ کی بندگی اس طرح کی جائے گویا کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ، اور ہم اس کے سامنے ہیں اور وہ ہم کو دیکھ رہا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا کہ : (الإِحْسَانُ) أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ احسان اس کا نام ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو گویا کہ اس کو دیکھ رہے ہو ۔ کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو مگر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے ۔ (۱) ایک انتباہ ۔۔۔ حدیث کے اس ٹکڑے کی تقریر و توضیح بہت سے حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اس کا تعلق “نماز” ہی سے ہے ، اور گویا اس کا مطلب بس یہ ہے کہ نماز پورے خصوع و خشوع سے پڑھی جائے ۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ میں اس خصوصیت کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ، حدیث میں تو “تَعْبُدَ” کا لفظ ہے جس کے معنی مطلق عبادت اور بندگی کے ہیں لہذا نماز کے ساتھ آنحضرت کے اس ارشاد کو مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ بلکہ اسی حدیث کی ایک اور روایت میں بجائے “تَعْبُدَ” کے “تَخْشىٰ” کا لفظ بھی آیا ہے یعنی (الاحسان) اَنْ تَخْشَى اللهُ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ “احسان” یہ ہے کہ تم خدا سے اس طرح ڈرو کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہو ۔ الخ اور اسی واقعہ کی ایک روایت میں اس موقع پر یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ الْاِحْسَانُ اَنْ تَعْمَلَ لِلهِ كَاَنَّكَ تَرَاهُ الخ جس کا ترجمہ یہ ہو گا کہ “احسان” اس کا نام ہے کہ تم ہر کام اللہ کے لئے اس طرح کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو الخ ۔ ان دونوں روایتوں سے یہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ “احسان” کا تعلق صرف نماز ہی سے نہیں ہے بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے ۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ہر عبادت و بندگی اور اس کے ہر حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اس طرح کی جائے اور اس کے مواخذہ سے اس طرح ڈرا جائے کہ گویا وہ ہمارے سامنے ہے اور اور ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے ۔ ۴۔ الساعۃ ۔۔۔ یعنی “قیامت” ، اسلام ، ایمان اور احسان کے متعلق سوالوں کے بعد آنحضرت ﷺ سے سائل نے عرض کیا تھا “فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ” یعنی مجھے قیامت کی بابت بتلائیے کہ کب آئیگی ؟ آپ نے جواب دیا “مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ” (یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو خود اس بارہ میں سائل سے زیادہ علم نہیں ہے) یعنی قیامت کے وقت خاص کا علم جس طرح سائل کو نہیں ہے مجھے بھی نہیں ہے ۔ اس حدیث کی ابو ہریرہؓ والی روایت میں (جو صحیح بخاری میں بھی ہے) اس موقعہ پر یہ الفاظ اور ہیں “فِىْ خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا الله إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ” (یعنی رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمانے کے بعد کہ قیامت کے بارے میں (یہ فرمانے کے بعد کہ میرا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) یہ مزید افادہ فرمایا کہ یہ (وقت قیامت تو) ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت (إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ الخ) میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ ان کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے اس کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا ۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے سوال کے جواب میں بجائے یہ فرمانے کے کہ “مجھے اس کا علم نہیں” یہ پیرایہ بیان (کہ اس بارے میں مسئول عنہ کا علم سائل سے زیادہ نہیں ہے) اس لئے اختیار فرمایا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ کسی سائل اور کسی مسئول کو بھی اس کا علم نہیں ہے ، اور آیت قرآنی تلاوت کر کے آپ نے اس کو اور زیادہ محکم فرما دیا ۔ ۵۔ علاماتِ قیامت ۔۔۔ وقت قیامت کے متعلق مذکورہ بالا جواب پانے کے بعد سائل نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ “فَاَخْبِرْنِىْ عَنْ اِمَارَاتِهَا” (مجھے قیامت کی کچھ نشانیاں ہی بتلائیے!) اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے دو خاص نشانیاں بیان فرمائیں ۔ ایک یہ کہ “لونڈی اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی” اور دوسری یہ کہ نادار اور ننگے اور بھوکے لوگ جن کا کام بکریاں چرانا ہو گا وہ بھی بڑی بڑی شاندار عمارتیں بنائیں گے ۔ پہلی جو نشانی آپ نے بیان فرمائی اس کا مطلب شارحین حدیث نے کئی طرح سے بیان کیا ہے ، راقم کے نزدیک سب سے زیادہ راجح توجیہ یہ ہے کہ قرب قیامت میں ماں باپ کی نافرمانی عام ہو جائے گی حتیٰ کہ لڑکیاں جن کی سرشت میں ماؤں کی اطاعت اور وفاداری کا عنصر بہت غالب ہوتا ہے اور جن سے ماں کے مقابلہ میں سرکشی بظاہر بہت ہی مشکل اور مستبعد ہے ، وہ بھی نہ صرف یہ کہ ماؤں کے مقابلہ میں نافرمان ہو جائیں گی بلکہ الٹی اس طرح ان پر حکومت چلائیں گی جس طرح ایک مالکہ اور رسیدہ اپنی زر خرید باندی پر حکومت کرتی ہے ۔ اسی کو حضرت نے اس عنوان سے تعبیر سے تعبیر فرمایا ہے کہ “عورت اپنی مالکہ اور آقا کو جنے گی” ۔ یعنی عورت سے جو لڑکی پیدا ہو گی وہ بڑی ہو کر خود اس ماں پر اپنی حکومت چلائے گی اور کوئی شک نہیں کہ اس نشانی کے ظہور کی ابتدا ہو چکی ہے ۔ اور دوسری جو نشانی حضرت نے بیان فرمائی کہ “بھوکے ننگے اور بکریوں کے چرانے والے اونچے اونچے محل بنوائیں گے” ۔ تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ قرب قیامت میں دنیوی دولت و بالا تری ان اراذل کے ہاتھوں میں آئے گی جو ان کے اہل نہ ہوں گے ۔ اور ان کو بس اونچے اونچے شاندار محل بنوانے سے شغف ہو گا اور اسی کو وہ سرمایہ فخر و مباہات سمجھیں گے اور اس میں اپنی اولوالعزمی دکھائیں گے اور ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں اسی مضمون کو ان الفاظ مین بیان فرمایا گیا ہے “اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلىٰ غَيْرِ اَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ” (یعنی جب حکومتی اختیارات اور مناصب و معاملات نااہلوں کے سپرد ہونے لگیں تو پھر قیامت کا انتظار کرو ۔) زیرِ تشریح حدیث کے آخر میں ہے کہ اس سائل کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ یہ سائل جبرئیل امین تھے اور اس لئے سائل بن کر آئے تھے کہ اس سوال و جواب کے ذریعے صحابہؓ کو دین کی تعلیم و تذکیر ہو جائے ۔ اس حدیث کی بعض روایات میں یہ تصریح بھی ہے کہ حضرت جبرئیل کی یہ آمد اور گفتگو رسول اللہ ﷺ کی عمر شریف کے آخری حصہ میں ہوئی تھی ۔ (فتح الباری و عمدۃ القاری) گویا تئیس سال کی مدت میں جس دین کی تعلیم مکمل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ جبرئیل کے ان سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے پورے دین کا خلاصہ اور لب لباب بیان کرا کے صحابہؓ کے علم کی تکمیل کر دی جائے اور اُن کو اس امانت کا امین بنا دیا جائے ۔ واقعہ یہ ہے کہ دین کا حاصل بس تین ہی باتیں ہیں : ۱۔ یہ کہ بندہ اپنے کو بالکل اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی بنا لے ، اور اسی کا نام اسلام ہے اور ارکان اسلام اسی حقیقت کے مظاہر ہیں ۔ ۲۔ اُن اہم غیبی حقیقتوں کو مانا جائے اور اُن پر یقین کیا جائے جو اللہ کے پیغمبروں نے بتلائیں اور جن کو ماننے کی دعوت دی اور اسی کا نام ایمان ہے ۔ ۳۔ اور اللہ نصیب فرمائے تو اسلام و ایمان کی منزلیں طے کر لینے کے بعد تیسری اور آخری تکمیلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یسا استحضار اور دل کو مراقبہ حضور و شہود کی ایسی کیفیت نصیب ہو جائے کہ اس کے احکام کی تعمیل اور اُس کی فرمانبرداری و بندگی اس طرح ہونے لگے کہ گویا اپنے پورے جمال و جلال کے ساتھ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور ہم کو دیکھ رہا ہے اور اسی کیف و حال کا نام احسان ہے ۔ اسی طرح اس سوال و جواب میں گویا پورے دین کا خلاصہ اور عطر آ گیا ، اور اس لئے اس حدیث کو علما نے “ام السنہ” بھی کہا ہے ، گویا جس طرح قرآن مجید کے تمام اہم مطلب اور مضامین پر بالا جمال حاوی ہونے کی وجہ سے سورہ فاتحہ کا نام “ام الکتاب” ہے اسی طرح یہ حدیث اپنی اس جامع حیثیت کی وجہ سے “ام السنہ” کہی جانے کی مستحق ہے اور اس کی اسی خصوصیت کی وجہ سے امام مسلم نے اپنی جلیل القدر کتاب صحیح مسلم کو مقدمہ کے بعد اسی حدیث سے شروع کیا ہے ، اور امام بغوی نے بھی اپنی دونوں تالیفوں “مصابیح” اور “شرح السنہ” کا آغاز اسی حدیث سے کیا ہے ۔ یہ حدیث حضرت عمرؓ کی روایت سے جس طرح کہ یہاں نقل کی گئی صحیح مسلم میں ہے اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری دونوں میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے بھی یہ واقعہ مروی ہے اور دوسری کتب حدیث میں اور بھی چند صحابہ کرام سے یہ واقعہ روایت کیا گیا ہے ۔

【3】

ارکانِ اسلام

حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے ، ایک اس حقیقت کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ، (کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں) اور محمد اُس کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ، دوسرے نماز قائم کرنا ، تیسرے زکوٰۃ ادا کرنا ، چوتھے حج کرنا ، پانچویں رمضان کے روزے رکھنا ”۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) نے استعارہ کے طور پر اسلام کو ایسی عمارت سے تشبیہ دی ہے ، جو چند ستونوں پر قائم ہو ، اور بتلایا ہے کہ عمارتِ اسلام ان پانچ ستونوں پر قائم ہے ، لہذا کسی مسلمان کے لئے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ ان ارکان کے ادا کرنے اور قائم کرنے میں غفلت کرے ، کیوں کہ یہ اسلام کے بنیادی ستون ہیں ۔ واضح رہے کہ اسلام کے فرائض ان ارکانِ خمسہ ہی میں منحصر نہیں ہیں ، بلکہ ان کے علاوہ اور بھی ہیں ، مثلاً جہاد فی سبیل اللہ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ ، لیکن جو اہمیت اور جو خصوصیت ان پانچ کو حاصل ہے ، وہ چونکہ اوروں میں نہیں ہے اس لئے اسلام کا رکن صرف ان ہی کو قرار دیا گیا ہے ، اور خصوصیت و اہمیت وہی ہے جو پچھلے اوراق میں “حدیث جبرئیل” کی تشریح کے ضمن میں لکھی جا چکی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ “ارکانِ خمسہ” اسلام کے لیے بمنزلہ پیکر محسوس کے ہیں ، نیز یہی وہ خاص تعبدی امور ہیں جو بالذات مطلوب و مقصود ہیں ، اور ان کی فرضیت کسی عارض کی وجہ سے ، اور کسی خاص حالت سے وابستہ نہیں ہے ، بلکہ یہ مستقل اور دوامی فرائض ہیں ، بخلاف جہاد اور امر بالمعروف کے ، کہ اُن کی یہ حیثیت نہیں ہے اور وہ خاص حالات میں اور خاص موقعوں پر فرض ہوتے ہیں۔

【4】

ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ سے (بلا خاص ضرورت کے) کچھ پوچھیں ، تو ہم کو اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھدار بدوی حضرتﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ سے کچھ پوچھے ، اور ہم سنیں ۔ تو ان ہی ایام میں ایک بدوی خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا : “اے محمدﷺ ! تمہارا ۳قاصد (یا مُبلغ) ہمارے پاس پہنچا تھا ، اس نے ہم سے بیان کیا کہ تمہارا کہنا ہے کہ اللہ نے تم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ ” حضور ﷺ نے فرمایا : “اس نے تم سے ٹھیک کہا ” ۔ اس کے بعد اُس بدوی نے کہا : “تو بتلاؤ کہ آسمان کس نے بنایا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا “اللہ نے!” اس نے کہا : “زمین کس نے بنائی؟” آپ ﷺ نے فرمایا “اللہ نے” ۔ اس نے کہا “زمین پر یہ پہاڑ کس نے کھڑے کئے ہیں ، اور ان پہاڑوں میں اور جوکچھ بنا ہے وہ کس نے بنایا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “اللہ نے!” اُ کے بعد اُس بدوی سائل نے آپ ﷺ سے کہا : “پس قسم ہے اُس ذات کی جس نے آسمان بنایا ، زمین بنائی اور اس پر پہاڑ نصب کئے ، کیا للہ ہی نے تم کو بھیجا ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “بےشک مجھے اللہ ہی نے بھیجا ہے ” ۔ پھر اس نے کہا “تمہارے اُس قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا تھا ، کہ ہم پر دن رات میں پانچ نمازیں بھی فرض ہیں ؟ ” حضور ﷺ نے فرمایا : “یہ بھی اُس نے تم سے ٹھیک کہا !” اُس بدوی نے کہا : “تو قسم ہے آپ کے بھیجنے والے کی ، کیا اللہ نے ہی آپ کو ان نمازوں کا بھی حکم دیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ اللہ ہی کا حکم ہے !” پھر بدوی نے کہا : “اور آپ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ ہمارے مالوں میں زکوٰۃ بھی مقرر کی گئی ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ بھی اس نے تم سے سچ کہا!” اعرابی نے کہا : “تو قسم ہے آپ کو بھیجنے والے کی ، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے !” پھر اُس اعرابی نے کہا ، کہ : “آپ ﷺ کے قاصد نے بیان کیا تھا کہ سال میں ماہ رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہوئے ہیں ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ بھی اُس نے سچ کہا ” اعرابی نے عرض کیا : “تو قسم ہے آپ کے بھیجنے والے کی ، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم کیا ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے !” اس کے بعد اعرابی نے کہا : “آپ ﷺ کے قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا ، کہ ہم میں سے جو حج کے لئے مکہ پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو ، اُس پر بیت اللہ کا حج بھی فرض ہے ؟” آپ ﷺ نے فرمایا : “ہاں! یہ بھی اس نے سچ کہا ” (راوی کا بیان ہے کہ) یہ سوال و جواب ختم کر کے وہ اعرابی چل دیا ، اور چلتے ہوئے اُس نے کہا : “اُس ذات کی قسم! جس نے آپ (ﷺ) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، میں ان میں نہ کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی” ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا “اگر یہ صادق ہے ، تو ضرور جنت میں جائے گا”۔ تشریح شروع حدیث میں “سوال کی ممانعت” کا جو ذکر آیا ہے ، اُس کا اشارہ قرآن پاک کی آیت : “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ” کی طرف ہے ، بات یہ ہے کہ نئے نئے سوالات کرنا انسان کی فطرت ہے ، لیکن اس عادت کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبائع کا رجحان موشگافیوں ہی کی طرف زیادہ بڑھ جاتا ہے ، اور ان میں باتوں کی کھود کرید زیادہ پیدا ہو جاتی ہے ، اور عمل اسی نسبت سے کم ، نیز اس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے ، اور بالخصوص پیغمبرِ وقت سے زیادہ سوال کرنے میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس کی جانب سے جواب ملنے کے بعد اُمت کی پابندیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ، غرض ان ہی وجوہ سے غیر ضروری سوالات کرنے کی صحابہ کرامؓ کو بھی ممانعت فرما دی گئی تھی جس کے بعد وہ بہت ہی کم سوال کرتے تھے ، اور اس کے آرزو مند رہا کرتے تھے ، کہ کوئی بدوی آئے اور وہ آپ سے کچھ پوچھے ، تو ہم کو بھی کچھ سننے کو مل جائے ، کیوں کہ بے چارے بدویوں کے لیے حضور ﷺ کے یہاں بڑی وسعت تھی ، اور اسی حدیث کی ایک روایت حضرت انسؓ ہی کی یہ تصریح بھی اس بارے میں مروی ہے کہ “بدوی آپ کے یہاں سوالات میں بڑے جری تھے ، اور جو چاہتے تھے بے دھڑک پوچھتے تھے” ۔ (فتح الباری بحوالہ صحیح ابی عوانہ) صحیح بخاری کی اسی حدیث کی روایت میں ہے کہ آخر میں چلتے ہوئے سائل نے یہ بھی بتلایا کہ میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کا ایک فرد ہوں میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ، اور میں اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ ہو کر آیا ہوں ۔ نیز بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ اُنہوں نے آ کر پہلے ہی آنحضرتﷺ سے عرض کر دیا تھا کہ : إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي المَسْأَلَةِ، فَلاَ تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ؟ فَقَالَ: «سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ» میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں ، مگر سوال میں میرا رویہ سخت ہو گا تو آپ مجھ پر خفا نہ ہوں ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ “پوچھو جو تمہارے جی میں آئے”۔ اس کے بعد وہ سوال و جواب ہوئے جو حدیث میں مذکور ہوئے ۔ اس سائل نے چلتے ہوئے آخر میں قسم کھا کر جو یہ کہا کہ : لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّکہ میں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔ تو غالباً اس کا مطلب یہی تھا کہ میں آپ کی اس تعلیم و ہدایت کا پورا پورا اتباع کروں گا اور اپنی طبیعت اور اپنے جی سے اُس میں کوئی زیادتی کمی نہیں کروں گا ، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں آپ کا یہ پیغام جوں کا توں ہی پانے اپنی قوم کو پہنچاؤں کا ، اور اپنی طرف سے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کروں گا ۔ دوسری روایت میں ہے کہ انہون نے اپنی قوم میں پہنچ کر بڑے جوش اور سرگرمی کےساتھ تبلیغ شروع کی ، بُت پرستی کے خلاف اتنی کھل کر تقریریں کیں کہ اُن کے بعض عزیزوں نے ان سے کہا کہ : يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ، اتَّقِ الْجُنُونَ اے ضمام! برص ، کوڑھ اور جنون سے ڈر (دیوتاؤں کی مخالفت سے کہیں تو کوڑھی اور دیوانا نہ بن جائے) ۔ مگر اللہ پاک نے ان کی تبلیغ میں اتنی برکت دی کہ صبح کو جو لوگ ضمام کو کوڑھ اور دماغ کی خرابی سے ڈرا رہے تھے شام کو وہ بھی بُت پرستی سے بیزار اور توحید کے حلقہ بگوش ہو گئے ، اور سارے قبیلے میں ایک متنفس بھی غیر مومن نہیں رہا ۔ فَرَضَى اللهُ عَنْهُمْ وَعَنَّا اَجْمَعِيْنَ۔

【5】

ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت

حضرت ابو ایوبؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے ، کہ ایک بدوی سامنے آ کھڑا ہوا ، اور اس نے آپ کے ناقہ کی مُہار پکڑ لی پھر کہا اے اللہ کے رسول! (یا آپ کا نام لے کر کہا کہ اے محمد!) مجھے وہ بات بتاؤ جو جنت سے مجھے قریب اور آتش دوزخ سے دور کر دے ؟ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ رُک گئے (یعنی آپ نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے اپنی ناقہ کو روک لیا) پھر اپنے رفقاء کی طرف آپ نے دیکھا اور (اُن کو متوجہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ اس کو اچھی توفیق ملی (یا فرمایا کہ اس کو خوب ہدایت ملی) پھر آپ نے اس اعرابی سائل سے فرمایا کہ “ہاں ! ذرا پھر کہنا تم نے کس طرح کہا؟” سائل نے اپنا وہی سوال پھر دُہرایا (مجھے وہ بات بتا دو ، جو جنت سے مجھے نزدیک اور دوزخ سے دور کر دے) حضور ﷺ نے فرمایا “عبادت اور بندگی کرتے رہو صرف اللہ کی اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ کسی طرح بھی شریک نہ کرو ، اور نماز قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو ، اور صلہ رحمی کرو ۔ (یعنی اپنے اہل قرابت کے ساتھ حسبِ مراتب اچھا سلوک رکھو ، اور اُنکے حقوق ادا کرو) یہ بات ختم فرما کر حضرت نے اس بدوی سے فرمایا کہ “اب ہماری ناقہ کی مہار چھوڑ دو” ۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جنت سے قریب اور جہنم سے بعید کرنے والے اعمال میں سے صرف اللہ کی خالص عبادت ، اقامتِ صلوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی ہی کا ذکر فرمایا ۔ حتیٰ کہ روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں کیا ، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی کے لیے بس یہی چار باتیں کافی ہیں ، اور ان کے علاوہ جو فرائض و واجبات ہیں وہ غیر ضروری یا غیر اہم ہیں ۔ ایسا سمجھنا اور احادیث میں اس قسم کی موشگافیاں پیدا کرنا فی الحقیقت سلامتِ فہم اور خوش مذاقی سے بہت دور ہے ۔ حدیث کے طالبعلم کو یہ اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ امت کے لیے ایک شفیق معلم اور مشفق مربی ہیں آپ کوئی مصنف اور مؤلف نہیں ہیں ۔ اور شفیق معلم کا طریقہ یہی ہوتا ہے اور یہی اُس کے لیے صحیح بھی ہے کہ وہ جس موقع پر جس بات کی تلقین و تعلیم زیادہ مناسب سمجھتا ہے بس اُس وقت اُتنی ہی بات بتلاتا ہے ۔ یہ طریقہ “مصنفوں” کا ہے کہ جہاں وہ جس موضوع پر کلام کرتے ہیں اُسکے تمام اطراف و جوانب اور مالہ وما علیہ کو اسی جگہ بیان کرتے ہیں کسی شفیق و معلم مربی کی تعلیم و تلقین میں بھی مصنفین و اربابِ فنون کا یہی طرز بیان تلاش کرنا درحقیقت خود اپنی بدذوقی ہے ۔ پس روزہ ، حج اور جہاد وغیرہ کا اس حدیث میں جو ذکر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اُس وقت اس سائل کو ان ہی چار باتوں کی تذکیر و ترغیب کی خاص ضرورت تھی ، اور شاید اس کا سبب یہ ہو کہ عموماً ان ہی چار چیزوں میں لوگوں سے کوتاہی زیادہ ہوتی ہے ، یعنی اقامتِ صلوٰۃ ، ادائے زکوٰۃ اور صلہ رحمی میں غفلت و کوتاہی اور اللہ کے ساتھ شرک کا خطرہ دوسری قسم کی کوتاہیوں سے زیادہ رہتا ہے ۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزہ اور حج جن پر فرض ہے اُن میں اُن کے تارک اتنے نہیں ہیں جتنے نماز و زکوٰۃ اور صلہ رحمی وغیرہ حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت کرنے والے ہیں یا جو کسی قسم کے جلی یا خفی شرک میں ملوث ہیں ۔ ایسے آدمی تو شائد تلاش کرنے سے بھی نہ مل سکیں جو مماز و زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے تو کما حقہ پابند ہوں لیکن روزہ اور حج باوجود فرضیت کے ادا نہ کرتے ہوں ، لیکن آپ ایسوں کو گن بھی نہیں سکتے جو رمضان آنے پر روزے تو رکھ لیتے ہیں ، مگر نماز کے پابند نہیں ، یا اگرچہ حج تو انہوں نے کر لیا ہے لیکن زکوٰۃ اور صلہ رحم جیسے حقوق عباد کے معاملے میں وہ سخت کوتاہ کار ہیں ۔ الغرض بہت ممکن ہے کہ اسی وجہ سے آنحضرتﷺ نے اس وقت صرف ان ہی چار باتوں کی تلقین پر اکتفا فرمایا ہو ۔ واللہ اعلم ۔ صحیح مسلم ہی کی اسی حدیث کی دوسری رووایت کے آخر میں ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ جب وہ اعرابی چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ “اگر یہ مضبوطی سے ان احکام پر عمل کرتا رہا تو یقیناً جنت میں جائے گا”۔ اس حدیث کی روایت میں تین جگہ راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا ہے : ۱۔ ایک یہ کہ ناقہ کی مہار کے لئے اُوپر کے راوی نے “خطام” کا لفظ بولا تھا یا “زمام” کا ۔ ۲۔ دوسرے یہ کہ سائل نے آنحضرتﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے “یا رسول اللہ” کہا تھا یا “یا محمد!” ۔ ۳۔ تیسرے یہ کہ حضور ﷺ نے اُس کی بابت صحابہؓ سے “لَقَدْ وُفِّقَ” کہا تھا یا “لَقَدْ هُدِى” ۔ راوی کے اس اظہارِ شک سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے راویانِ حدیث نقل حدیث و روایت میں کس درجہ محتاط اور خدا ترس تھے ، کہ تین جگہ صرف لفظوں میں ان کو شک ہے کہ اوپر کے راوی نے یہ لفظ بولا تھا یا یہ لفظ ، تو اپنے اس شک کو بھی ظاہر کر دیا ، حالاں کہ تینوں جگہ معنی میں خفیف سی کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوتی تھی ۔ ف : اس حدیث سے آنحضرتﷺ کی شفقتِ پیغمبرانہ کا بھی کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ آپ سفر میں ہیں ، ناقہ پر سوار چلے جا رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کا سفر یقیناً کسی دینی مہم ہی کے سلسلے کا سفر ہو گا) اثناء راہ میں ایک بالکل نا آشنا بدوی سامنے آ کر ناقہ کی مُہار پکڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ “مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کرنے والی بات بتلاؤ” ۔ آپ ﷺ اُس کے اس طرز عمل سے ناراض نہیں ہوتے ، بلکہ اُس کی دینی حرص کی ہمت افزائی فرماتے ہیں ، اور اپنے رفقاء سفر کو متوجہ کر کے ارشاد فرماتے ہیں ، کہ “اس کو اچھی توفیق ملی” ۔ پھر اپنے ان رفیقوں کو بھی سائل کی زبان ہی سے اس کا سوال سُنوانے کے لئے اُس سے فرماتے ہیں ۔ “ذرا پھر کہو ، تم نے کیسے کہا؟” اس کے بعد جواب دیتے ہیں اور آخر میں فرماتے ہیں “دَعِ النَّاقَةَ” (اچھا اب ہماری ناقہ کی مُہار چھوڑ دو) اللہ اکبر! پیغمبری کیا ہے ، شفقت و رحمت کا ایک مجسم پیکر ہے ۔ (فصلى الله تعالى عليه وسلم سعة رحمته ورافته) مگر یہاں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سائل “اعرابی” تھا ۔ ع “موسیا آداب دانا دیگر اند”

【6】

ارکانِ اسلام پر جنت کی بشارت

حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص جو علاقہ نجد کا رہنے والا تھا ، اور اُسکے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے(کچھ کہتا ہوا) رسول اللہ ﷺ کی طرف کو آیا ، ہم اُس کی بھنبھناہٹ (گونج) تو سنتے تھے مگر (آواز صاف نہ ہونے کی وجہ سے اور شاید فاصلے کی زیادتی بھی اس کی وجہ ہو) ہم اُس کی بات کو سمجھ نہیں رہے تھے ، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے قریب آ گیا ، اب وہ سوال کرتا ہے ، اسلام کے بارے میں (یعنی اُس نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ “مجھے اسلام کے وہ خاص احکام بتلائیے جن پر عمل کرنا بحیثیت مسلمان کے میرے لئے اور ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے”) آپ ﷺ نے فرمایا “پانچ تو نمازیں ہیں دن رات میں (جو فرض کی گئی ہیں اور اسلام میں یہ سب سے اہم اور اول فریضہ ہے) ” اُس نے عرض کیا کہ “کیا ان کے علاوہ اور کوئی نماز بھی میرے لئے لازم ہو گی؟” آپ ﷺ نے فرمایا “نہیں! (فرض تو بس یہی پانچ نمازیں ہیں) مگر تمہیں حق ہے اپنی طرف سے اور اپنے دل کی خوشی سے (ان پانچ فرضوں کے علاوہ) اور بھی زائد نمازیں پڑھو (اور مزید ثواب حاصل کرو) ” پھر آپ ﷺ نے فرمایا “اور سال میں پورے مہینے رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں (اور یہ اسلام کا دوسرا عمومی فریضہ ہے) ” ۔ اُس نے عرض کیا “کیا رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بھی میرے لئے لازم ہو گا ؟” آپ ﷺ نے فرمایا “نہیں! (فرض تو بس رمضان ہی کے روزے ہیں) مگر تمہیں حق ہے کہ اپنے دل کی خوشی سے تم اور نفلی روزے رکھو (اور اللہ تعالیٰ کا مزید قرب اور ثواب حاصل کرو) ”راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اُس شخص سے فریضہ زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا ، اس پر بھی اس نے یہی کہا کہ “کیا زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ ادا کرنا بھی میرے لئے ضروری ہو گا ؟” آپ ﷺ نے فرمایا “نہیں! (فرض تو بس زکوٰۃ ہی ہیں) مگر تمہیں حق ہے کہ اپنے دل کی خوشی سے تم نفلی صدقے دو (اور مزید ثواب حاصل کرو) ” ۔ راوی حدیث طلحہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ سوال کرنے والا شخص واپس لوٹ گیا اور وہ کہتا جا رہا تھا کہ (مجھے جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے بتلایا ہے) میں اُس میں (اپنی طرف سے) کوئی زیادتی کمی نہیں کروں گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے (اُس کی یہ بات سُن کر) فرمایا “فلاح پا لی اس نے اگر یہ سچا ہے” ۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث میں بھی ارکان اسلام میں سے آخری رکن “حج” کا ذکر نہیں ہے ، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ واقعہ حج فرض ہونے سے پہلے کا ہو ، حج کی فرضیت کا حکم بنا بر قولِ مشہور ۸ ؁ھ یا ۹ ؁ھ میں آیاہے ، پس ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہو ۔ اور دوسری بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تو اس موقعہ پر حج کا اور اسلام کے دوسرے احکام کا بھی ذکر فرمایا ہو ، مگر روایت کے وقت صحابیؓ نے اختصار کر دیا ہو ، اور واقعہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ، چناں چہ اسی حدیث کی صحیح بخاری کی ایک روایت میں نماز ، اور زکوٰۃ کے ذکر کے بعد راوی حدیث طلحہ بن عبیداللہؓ کی طرف سے یہالفاظ بھی روایت کئے گئے ہیں ، “فَأَخْبَرَهُ عَنْ شَرَائِعِ الإِسْلاَمِ” رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو اسلام کے احکام بتلائے ۔)

【7】

ارکانِ اسلام کی دعوت میں ترتیب و تدریج

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا ، تو (رخصت کرتے ہوئے) اُن سے فرمایا : “تم وہاں اہلِ کتاب میں سے ایک قوم کے پاس پہنچو گے ، پس جب تم اُن کے پاس جاؤ ، تو (سب سے پہلے) اُن کو اس کی دعوت دینا ، کہ وہ شہادت دیں (یعنی دل و زبان سے قبول کریں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، پس اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں ، اور شہادت ادا کریں ، تو پھر تم اُن کو بتلانا ، کہ اللہ نے دن رات میں تم پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں ؟ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری اطاعت کریں ، تو اس کے بعد تم اُن کو بتلانا ، کہ اللہ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے ، جو قوم کے مالداروں سے لی جائے گی ، اور اسی کے فقراء و مساکین کو دے دی جائے گی ، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مال لیں ، تو پھر (زکوٰۃ وصول کرتے وقت چھانٹ چھانٹ کے) ان کے نفیس نفیس اموال نہ لینا ، اور مظلوم کی بد دُعا سے بہت بچنا ، کیوں کہ اُس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے”۔ (بخاری و مسلم) تشریح امام بخاری وغیرہ بعض علماء کی تحقیق کے مطابق ۱۰ ؁ھ میں ، اور اکثر علماءِ سیر و اہلِ مغازی کے نزدیک ۹ ؁ھ میں ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تھا ، اور رخصت کرتے وقت ، اہلِ یمن کو اسلام کی دعوت دینے کے متعلق آپ نے ان کو یہ ہدایات دی تھیں ۔۔۔ بعض لوگوں کو اس حدیث میں بھی یہ اشکال ہوا ہے کہ اس میں حضور ﷺ نے صرف نماز اور زکوٰۃ کا ذکر فرمایا ، حالانکہ اُس وقت روزہ اور حج کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا ۔ شارحین نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں ، اس ناچیز کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قرینِ قیاس توجیہ یہ ہے کہ حضرت معاذ کو آپ ﷺ نے جو یہ ہدایت دی ، اس سے آپ کا مقصد اسلام کے ان تمام احکام و فرائض کو بتلانا نہ تھا جو اسلام لانے کے بعد ایک مسلمان پر عائد ہوتے ہیں ، بلکہ آپ کا مقصد و مطلب صرف یہ تھا کہ دین کی دعوت اور اسلام کی تعلیم میں داعی اور معلم کو جو ترتیب اور تدریج اختیار کرنی چاہئے وہ حضرت معاذؓ کو بتلا دیں ، اوعر وہ یہ ہے کہ ایک دم سارے اسلامی احکام و مطالبات اور شریعت کے تمام اوامر و نواہی لوگوں کے سامنے نہ رکھے جائیں ، اس صورت میں اسلام کو قبول کرنا اُن کے لئے بڑا مشکل ہو گا ، بلکہ سب سے پہلے اُن کے سامنے توحید و رسالت کو پیش کیا جائے ، جب وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتلایا جائے کہ ا للہ تعالیٰ جو ہمارا اور تمہارا واحد رَب اور لا شریک مالک و مولیٰ ہے ، اس نے ہم سب پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے ، پھر جب وہ اس کو مان لیں ، تو ان کو بتلایا جائے ، کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مالوں میں زکوٰۃ بھی فرض کی ہے ، جو قوم کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور اُس کے حاجت مند طبقہ میں تقسیم کر دی جائے گی ۔ بہر حال حضرت معاذؓ کو یہ ہدایت دینے سے حضور ﷺ کا مقصد دعوت و تعلیم میں ترتیب و تدریج کا حکیمانہ اصول ان کو بتلانا تھا ، باقی اسلام کے ضروری احکام اور ارکان حضرت معاذؓ کو معلوم ہی تھے ، اس لئے اس موقع پر سب کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ علاوہ ازیں اس میں بھی شبہ نہیں ، کہ اسلام کے ارکان و فرائض میں نماز اور زکوٰۃ ہی سب سے زیادہ اہم ہیں ، اور قرآن مجید میں انہی دو پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ، کہ جو شخص ان دو کو ادا کرنے لگے ، اُس کے لئے باقی تمام ارکان و فرائض کا ادا کرنا آسان ہو جاتا ہے ، جیسا کہ تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے ، نیز نفسِ انسانی کی طبیعت میں ان دونوں کو بہت خاص دخل ہے ۔ اور غالباًٍ اسی واسطے کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر صرف ان ہی دو رکنوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔۔۔ مثلاً سورہ بینہ میں فرمایا گیا :۔ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ اور سورہ توبہ میں فرمایا گیا : فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ حدیث آگے آنے والی ہے :۔ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ , وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۔۔ پس ان آیات و احادیث میں ارکانِ اسلام میں سے صرف نماز اور زکوٰۃ ہی کے ذکر کی ایک توجیہ یہ بھی ہے ۔ واللہ اعلم اسلام کی دعوت و تعلیم کے متعلق یہ ہدایت دینے کے بعد آنحضرتﷺ نے حجرت معاذؓ کو ایک نصیحت فرمائی ، کہ جب زکوٰۃ کی وسولی کا وقت آئے ، تو ایسا نہ کیا جائے کہ لوگوں کے اموال (مثلاً پیداوار ، اور چوپایوں) میں سے بہتر بہتر زکوٰۃ میں لینے کے لئے چھانٹ لئے جائیں ، بلکہ جیسا مال ہو اسی کے اوسط سے زکوٰۃ وصول کی جائے ۔ سب سے آخری نصیحت آپ نے یہ فرمائی کی دیکھو ! مظلوم کی بددُعا سے بچنا (مطلب یہ ہے کہ تم ایک علاقے کے حاکم بن کر جا رہے ہو ، دیکھو کبھی کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا) کیوں کہ مظلوم کی دُعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہے ، وہ قبول ہو کے رہتی ہے ۔ بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگامِ دُعا کردن اجابت از درحق بہرِ استقبال می آید بلکہ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے ۔ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا فَفُجُورُهُ عَلَى نَفْسِهِ مظلوم کی دُعا قبول ہی ہوتی ہے ، اگرچہ وہ بدکار بھی ہو، تو اس کی بدکاری کا وبال اس کی ذات پر ہے ۔ (فتح و عمدہ) (یعنی فسق و فجور کے باوجود ظالم کے حق میں اُس کی بددعا قبول ہوتی ہے) ۔ اور مسند احمد ہی میں حضرت انسؓ کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں :۔ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ، وَإِنْ كَانَ كَافِرًا لَيْسَ دُوْنَهُ حِجَابٌ مظلوم کی بددُعا قبول ہوتی ہے ، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ، اس کے لئے کوئی روک نہیں ہے ۔ (عمدہ) ف :۔۔۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ، اور آُپ کی لائی ہوئی شریعت پر چلنا اگلے پیغمبروں اور اگلی کتابوں کے ماننے والے اہلِ کتاب کے لئے بھی ضروری ہے ۔ اور اپنے سابقپ ادیان پر قائم رہنا اب اُن کی نجات کے لئے کافی نہیں ۔ ہمارے اس زمانہ میں مسلمان کہلانے والوں میں سے بعض لکھے پڑھے جو اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ “یہود و نصاریٰ جیسی امتیں ان پرانی شریعتوں پر چل کر بھی اللہ کی رضا اور نجات حاصل کر سکتی ہیں اور ان کے لئے شریعتِ اسلام کا اتباع ضروری نہیں” ۔ وہ یا تو دین اور اصولِ دین سے جاہل ہیں یا دراصل منافق ہین ، آئندہ حدیث میں یہی مسئلہ اور زیادہ صراحت اور وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے ۔

【8】

اللہ کے رسول ﷺ پر جو شخص ایمان نہ لائے ، اور اُن کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے ، وہ نجات نہیں پا سکتا

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : “قسم اُس ذاتِ پاک کی ، جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ، اس اُمت کا (یعنی اس دور کا) جو کوئی بھی یہودی یا نصرانی میری خبر سُن لے (یعنی میری نبوت و رسالت کی دعوت اُس تک پہنچ جائے) اور پھر وہ مجھ پر اور میرے لائے ہوئے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائے ، تو ضرور وہ دوزخیوں میں ہو گا” ۔ (رواہ مسلم) تشریح اس حدیث میں یہودی اوعر نصرانی کا ذکر صرف تمثیل کے طور پر اوعر یہ ظاہر کرنے کے واسطے کیا گیا ہے کہ جب یہود و نصاریٰ جیسے مسلّم اہلِ کتاب بھی خاتم الانبیاء پر ایمان لائے بغیر اور ان کی شریعت کو قبول کئے بغیر نجات نہیں پا سکتے ، تو دوسرے کافروں ، مشرکوں کا انجام اسی سے سمجھ لیا جائے ۔ بہر حال حدیث کا مضمون عام ہے ، اور مطلب یہ ہے ، کہ اس دورِ محمدی میں (جو حضور ﷺ کی بعثت سے شروع ہوا ہے ، اور قیامت تک جاری رہے گا) جس شخص کو آپ کی نبوت و رسالت کی دعوت پہنچ جائے ، اور وہ آپ پر ایمان نہ لائے ، اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے اور اسی حال میں مر جائے ، تو وہ دوزخ میں جائے گا ، اگرچہ وہ کسی سابق پیغمبر کے دین اور اس کی کتاب و شریعت کا ماننے والا کوئی یہودی یا نصرانی ہی کیوں نہ ہو ، الغرض خاتم الانبیاءﷺ کی بعثت کے بعد آپ پر ایمان لائے اور آپ کی شریعت کو قبول کئے بغیر نجات ممکن نہیں ، ہاں جس بےچارہ کو آپ کی نبوت کی اطلاع اور اسلام کی دعوت ہی نہ پہنچی وہ معذور ہے ۔ یہ مسئلہ دین اسلام کے قطعیات اور بدیہیات میں سے ہے جس میں شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کی حیثیت کو نہ سمجھنے ہی سے ہو سکتا ہے ۔

【9】

اللہ کے رسول ﷺ پر جو شخص ایمان نہ لائے ، اور اُن کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہ بنائے ، وہ نجات نہیں پا سکتا

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا ، کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے سوال کیا ، کہ “یا رسول اللہ! ایک نصرانی شخص ہے جو انجیل کے موافق عمل کرتا ہے ، اور اسی طرح ایک یہودی شخص ہے ، جو تورات کے احکام پر چلتا ہے ، اور وہ اللہ پر اس کے رسول پر ایمان بھی رکھتا ہے ، مگر اس کے باوجود وہ آپ کے دین اور آپ کی شریعت پر نہیں چلتا ، تو فرمائیے کہ اس کا کیا حکم ہے ؟” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “جس یہودی یا نصرانی نے میری بات کو سُن لیا (یعنی میری دعوت اُس تک پہنچ گئی) اور اس کے بعد بھی اس نے میری پیروی اختیار نہیں کی ، تو وہ دوزخ میں جانے والا ہے”۔ (دار قطنی) تشریح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ والی اوپر کی حدیث سے بھی زیادہ واضح ہے ، اس میں تصریح ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی اللہ کو اور اس کے رسول کو مانتا بھی ہو (یعنی توحید کا قائل اور رسول اللہ ﷺ کی بھی تصدیق کرتا ہو) مگر پیروی آپ کی لائی ہوئی شریعت کے بجائے تورات اور انجیل ہی کی کرتا ہو ، اور اسی کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھتا ہو ، تو وہ نجات نہیں پا سکے گا”۔ اسی حقیقت کا اعلان قرآن مجید کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے ۔ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (آل عمران ۳۱:۳) اے نبی (جو لوگ آپ کی شریعت کا اتباع اختیار کئے بغیر اللہ کو چاہتے ہیں ، اور اس کی بخشش حاصل کر سکنے کی خام خیالی میں مبتلا ہیں ، اُن سے) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم واقعۃً اللہ کو چاہتے ہو ، تو (اس کے سوا اب اُس کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ) میری شریعت کی پیروی اختیار کرو (اگر ایسا کرو گے ، تو) اللہ تم سے محبت کرے گا ، اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ (اور اگر تم میری پیروی اختیار نہیں کرو گے ، تو اللہ کی محبت اور مغفرت کے تم مستحق نہیں ہو سکو گے) ۔

【10】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

اعمش تابعی نے اپنے استاذ ابو صالح سے اس شک کے ساتھ نقل کیا کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا تھا ، یا (ابو سعید خدریؓ سے) کہ غزوہ تبوک کے دنوں میں (جب سامانِ خوراک ختم ہو گیا ، اور) لوگوں کو بھوک نے ستایا ، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ، کہ : “حضرت! اگر اجازت دیں ، تو ہم پانی لانے والے اپنے اونٹوں کو ذبخ کر لیں ، پھر ان کو کھا بھی لیں ، اور ان سے روغن بھی حاصل کر لیں”۔ حضور نے فرمایا : “اچھا کر لو!” راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمرؓ آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ! اگر آپ نے ایسا کیا (یعنی لوگوں کو اگر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دے دی ، اور لوگوں نے ذبح کر ڈالے) تو سواریاں کم ہو جائیں گی (لہذا ایسا تو نہ کیا جائے) “البتہ لوگوں کو آپ ان کے بچے کچھے سامانِ خوراک کے ساتھ بلا لیجئے ، پھر ان کے واسطے اللہ سے اسی میں برکت کر دینے کی دُعا کیجئے ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی میں برکت فرما دے گا” ۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا “ہاں ٹھیک ہے” ۔ چنانچہ آپ نے چمڑے کا بڑا دسترخوان طلب فرمایا ، پس وہ بچھا دیا گیا ، پھر آپ نے لوگوں سے اُن کا بچا کچھا سامانِ خوراک منگوایا ، پس کوئی آدمی مٹھی چینا کے دانے ہی لئے آ رہا ہے ، کوئی ایک مٹھی کھجوریں لا رہا ہے ، اور کوئی روٹی کا ایک ٹکڑا ہی لیے چلا آ رہا ہے ، حتیٰ کہ دسترخوان پر تھوڑی سی مقدار میں یہ چیزیں جمع ہو گئیں ، راوی کہتے ہیں ، کہ رسول اللہ (ﷺ) نے پھر برکت کی دُعا فرمائی ، اس کے بعد فرمایا : “اب تم سب اس میں سے اپنے اپنے برتنوں میں بھر لو”۔ چنانچہ سب نے اپنے اپنے برتن بھر لیے ، حتی کے (قریباً ۳۰ ہزار کے لشکر میں) لوگوں نے ایک برتن بھی بغیر بھرے ہوئے نہیں چھوڑا ، راوی کہتے ہیں ، کہ پھر سب نے کھایا ، حتی کے خوب سیر ہو گئے ، اور کچھ فاضل بھی بچ رہا ، اس پر رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا : “میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور میں اللہ کا رسول ہوں ، نہیں ہے کوئی بندہ جو بغیر کسی شک شبہ کے کامل یقین و اذعان کے ساتھ ان دو شہادتوں کے ساتھ اللہ کے سامنے جائے ، پھر وہ جنت سے روکا جائے”۔ تشریح حدیث کا مضمون ظاہر ہے ، جس مقصد سے اس حدیث کو یہاں در کیا گیا ہے اس کا تعلق حدیث کے صرف آخری جز سے ہے ، جس میں رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ کی توحید اور اپنی رسالت کی شہادت ادا کر کے اعلان فرمایا ہے کہ جو شخص بھی ان دو شہادتوں کو مخلصانہ طور پر ادا کرے ، اور شک شبہ کی کوئی بیماری اُس کے دل دماغ کو نہ ہو ، اور اسی ایمانی حال میں اُس کو موت آئے ، تو وہ جنت میں ضرور جائے گا ۔ جو لوگ قرآن و حدیث کے محاورہ اور طرز بیان سے کچھ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر “اللہ کی توحید و رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی شہادت” ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینا ، اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اپنا دین بنا لینا ہوتا ہے اور اسی لئے ان دو شہادتوں کے ادا کرنے کا مطلب ہمیشہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کر لیا ، اور اسلام کو اپنا دینا بنا لیا ۔ پس رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے ہے ، کہ جو شخص “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” کی شہادت ادا کر کے میری ایمانی دعوت کو قبول کر لے ، اور اسلام کو اپنا دین بنا لے ، اور اس بارے میں وہ مخلص اور صاحب یقین ہو ، تو اگر اسی حال میں وہ مر جائے گا ، تو جنت میں ضرور جائے گا ۔ پس اگر کوئی شخص “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ ” کا اقرار کرے لیکن اسلام کو اپنا دین نہ بنائے بلکہ کسی اور دین و مذہب پر قائم رہے ، یا توحید و رسالت کے علاوہ دوسرے ایمانیات کا انکار کرے مثلاً قیامت کو یا قرآن مجید کو نہ مانے تو وہ ہرگز اس بشارت کا مستحق نہ ہو گا ۔ الغرض اس حدیث میں توحید و روسالت کی شہادت ادا کرنے کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی ایمانی دعوت کو قبول کرنا اور اسلام کو اپنا دین بنانا ہے ، اسی طرح جن حدیثوں میں صرف توحید پر ، اور صرف “ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کے اقرار پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ، ان کا مطلب بھی یہی ہے ، دراصل یہ سب رسول اللہ ﷺ کی دعوت ایمان کو قبول کر لینے اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کے بعد مشہور و معروف عنوانات ہیں ، ان شاء اللہ اس کی کچھ مزید تفصیل اگلی حدیثوں کی تشریح میں بھی کی جائے گی ۔ اس حدیث سے ضمنی طور پر اور بھی چند سبق ملتے ہیں: ۱۔ اگر کوئی بڑا ، حتیٰ کہ اللہ کا نبی و رسول بھی کسی معاملہ میں اپنی رائے ظاہر کرے ، اور کسی صاحبِ رائے خادم کو اس میں مضرت کا کوئی پہلو نظر آئے ، تو وہ ادب کے ساتھ اپنی رائے اور اپنا مشورہ پیش کرنے سے دریغ نہ کرے ، اور اس بڑے کو چاہئے کہ وہ اس پر غور کرے ، اور اگر وہی رائے بہتر اور انسب معلومہو ، تو اپنی رائے سے رجوع کرنے اور اس کو اختیار کرنے میں ادنیٰ تامل نہ کرے ۔ ۲۔ دُعا کا قبول ہونا ، اور بالخصوص اس قبولیت کا خرقِ عادت کی شکل میں ظاہر ہونا اللہ کی نشانیوں اور مقبولیت اور تعلق باللہ کی خاص علامتوں میں (۱) سے ہے ، جس سے مؤمنین کے انشراح صدر اور اطمینان قلبی میں ترقی ہونا برحق بلکہ نبوت کی میراث ہے (جیسا کہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے کلمہ شہادت پڑھنے سے ظاہر ہے) پس جن لوگوں کو اس طرح کے انعاماتِ الہیہ کے تذکرہ سے بجائے انشراح کے انقباض ہوتا ہے ، یا جو اس قسم کے خوارق کو طنز و تضحیک اور استخفاف و استحقار کے لائق سمجھتے ہیں ، ان کے دل ایک بڑی بیماری کے بیمار ہیں ۔

【11】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، کہ : “جو کوئی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے ، اور محمد اس کے رسول ہیں ، تو اللہ نے اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے” ۔ تشریح جیسا کہ اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں تفصیل سے بتلایا جا چکا ہے ، اس حدیث میں بھی “توحید و رسالت کی شہادت” مراد ، دعوت اسلام کو قبول کرنا اور اس پر چلنا ہے ، اسی کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ” کی شہادت پورے اسلام کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ جس نے یہ شہادت سوچ سمجھ کے ادا کی ، درحقیقت اس نے پورے اسلام کو اپنا دین بنا لیا ، اب اگر بالفرض اس سے بہ تقاضائے بشریت کوئی کوتاہی بھی ہو گی تو اس کا ایمانی شعور ، کفارہ اور توبہ وغیرہ کے مقررہ طریقوں سے اس کی تلافی کرنے پر اس کو مجبور کرے گا ، اور اس لئے ان شاء اللہ وہ عذاب دوزخ سے محفوظ ہی رہے گا ۔

【12】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے ، کہ ایک دفعہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری پر تھا اور میرے اور آپ ﷺ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کے سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی (یعنی میں حضور ﷺ کے پیچھے بالکل ملا ہوا بیٹھا تھا کہ چلتے ہی چلتے) آپ ﷺ نے مجھے پکارا ، اور فرمایا : معاذ بن جبل! ۔۔۔ میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” (یعنی میں حاضر ہوں ، ارشاد فرمائیں) ۔۔۔ پھر کچھ دیرچلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : “معاذ بن جبل!” میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : “معاذ بن جبل!” میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” (اس تیسری دفعہ میں) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “تم جانتے ہو ، کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟” میں نے عرض کیا : “اللہ و رسول ﷺ کو ہی زیادہ علم ہے” ارشاد فرمایا : “اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت و بندگی کریں ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں” پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : “معاذ بن جبل!” میں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” آپ ﷺ نے فرمایا : “تم جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا یہ حق ادا کریں ، تو پھر اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟” میں نے عرض کیا : “اللہ و رسول ﷺ کو ہی زیادہ علم ہے” آپ ﷺ نے فرمایا : “یہ کہ انہیں عذاب میں نہ ڈالے”۔ تشریح حضرت معاذؓ نے اصل حدیث بیان کرنے سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ ایک ہی سواری آپ کے پیچھے بالکل آپ سے مل کر بیٹھنے کو جس خاص انداز سے بیان کیا ہے ، اس کی چند وجہیں ہو سکتی ہیں : ایک یہ کہ حضور ﷺ کی جو خاص شفقت اور عنایت حضرت معاذؓ پر تھی ، اور بارگاہِ نبویﷺ میں جو خاص مقامِ قرب ان کو حاصل تھا ، وہ سامعین کے پیشِ نظر رہے ، تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذؓ سے ایک ایسی بات کیوں فرمائی ، جس کی عوام مسلمین میں اشاعت کے آپ روادار نہ تھے ، جیسا کہ اگلی روایت میں تصریح ہے ۔ دوسری بات اس کی توجیہ میں یہ بھی کہی جا سکتی ہے ، کہ ممکن ہے حضرت معاذؓ کا مقصد اس تفصیل کے بیان کرنے سے اس حدیث کے بارے میں اپنا اتقان بھی ظاہر کرنا ہو ، یعنی لوگوں پر یہ واضح کرنا ہو کہ مجھے یہ حدیث ایسی یاد ہے ، کہ اُس وقت کی یہ جزئی باتیں بھی مجھے محفوظ ہیں ۔ اور تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ، کہ جس طرح عشاق و محبین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ محبت کی یادگار صحبتوں کو والہانہ انداز میں اور مزے لے لے کر تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، اسی جذبے کے ما تحت حضرت معاذؓ نے حضور ﷺ کے ساتھ اہپنے سوار ہونے کی یہ تفصیل بیان کی ہو ۔ ۲۔ حضور ﷺ نے تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضرت معاذؓ کو تین دفعہ مخاطب کیا ، اور پھر جو کچھ آپ فرمانا چاہتے تھے اس کا ایک حصہ آپ نے تیسری دفعہ فرمایا ، اور دوسرا جز کچھ دیر توقف کے بعد چوتھی دفعہ فرمایا ۔۔۔ اس کی توجیہ میں شارحین نے لکھا ہے ، کہ غالباً آنحضرتﷺ اس طرح حضرت معاذؓ کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ فرمانا چاہتے تھے ، تا کہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر پوری رغبت و توجہ اور غور و تامل کے ساتھ آپ کا ارشاد سنیں ۔۔۔ دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ حضور ﷺ کو اس میں تردد اور توقف تھا ، کہ حضرت معاذؓ سے بھی یہ بات بیان کر دی جائے یا نہ کی جائے ، اس وجہ سے آپ نے ابتداء میں تو تین دفعہ توقف فرمایا ، اور جب بیان فرما دینے ہی کے متعلق آپ کا شرح صدر ہو گیا تب آپ نے بیان فرمایا ۔۔۔ لیکن راقم کے نزدیک ان دونوں توجیہوں میں تکلف ہے ، اور زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے ، کہ حضور ﷺ پر اس وقت کوئی خاص استغراقی حالت طاری تھی ، آپ حضرت معاذؓ کو مخاطب کرتے تھے ، اور کچھ فرمانے سے پہلے پھر اسی کیفیت میں استغراق ہو جاتا تھا ، اس وجہ سے درمیان میں یہ وقفے ہوئے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ ۳۔ اصل حدیث کا حاصل صرف یہ ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے ، کہ وہ اس کی عبادت اور بندگی کریں ، اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شرین نہ کریں ، اور جب وہ اللہ کا یہ حق ادا کریں گے ، تو االلہ تعالیٰ نے ان کا یہ حق اپنے پر مقرر کر لیا ہے کہ وہ ان کو عذاب میں نہ ڈالے گا ۔ اس حدیث میں “اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے” سے مراد بھی درحقیقت دینِ توحید (یعنی اسلام) کو اختیار کرنا ، اور اس پر چلنا ہے ، اور چونکہ اس وقت اسلام و کفر کے درمیان سب سے بڑا اور واضح فرق و امتیاز توحید اور شرک ہی کا تھا ، اس لئے اس حدیث میں (اور بعض ، اور حدیثوں میں بھی) اسی عنوان کو اختیار کیا گیا ہے ، نیز یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ کی عبادت و بندگی کرنا ، اور شرک سے بچنا اسلام کی رُوح ، اور اس کا مرکزی مسئلہ ہے ، اس لئے بھی کبھی کبھی اسلام کے لیے یہ عنوان اختیار کر لیا جاتا ہے ، اس بات کی تائید (کہ اس حدیث میں اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے سے مراد دین اسلام قبول کرنا ہے) اس سے بھی ہوتی ہے ، کہ صحیحین (بخاری و مسلم) ہی میں حضرت معاذؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں (جو اگلے ہی نمبر پر ذکر کی جارہی ہے) توحید و رسالت دونوں پر ایمان لانے اور دونوں کی شہادت ادا کرنے کا ذکر ہے ، اور ایک روایت میں شہادت توحید و رسالت کے علاوہ نماز اور روزہ کا بھی ذکر ہے ۔

【13】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت انس بن مالکؓ راوی ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ حضرت معاذؓ کو جب کہ وہ حضور کے ساتھ ایک ہی کجاوے پر سوار تھے ، پکارا اور فرمایا : “یا معاذ!” انہوں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” حضور نے پکارا: “یا معاذ!” انہوں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” حضور نے پکارا : “یا معاذ!” انہوں نے عرض کیا : “لبیک یا رسول اللہ (ﷺ) وسعدیک” ۔ تین دفعہ ایسا ہوا ، پھر حضور نے (اس آخری دفعہ میں فرمایا) “جو کوئی سچے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور محمد اس کے رسول ہیں ، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے” ۔ حضرت معاذؓ نے (یہ خوش خبری سن کر) عرض کیا : “کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ کر دوں ، تا کہ وہ سب خوش ہو جائیں ؟”۔ حضور نے فرمایا : “پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے”۔ پھر حضرت معاذؓ نے کتمانِ علم کے گناہ کے خوف سے اپنے آخری وقت میں یہ حدیث لوگوں سے بیان کی ۔ تشریح ان دونوں روایتوں (۱۲ ، ۱۳) کے ابتدائی تمہیدی حصے کی مطابقت و یکسانیت سے ظاہر ہے کہ ان دونوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے ، اور فرق صرف یہ ہے کہ پہلی روایت میں دعوتِ اسلام قبول کرنے کے لئے اللہ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا عنوان استعمال کیا گیا ہے ، اور دوسری میں اسی حقیقت کو توحید و رسالت کی شہادت کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اسی بشارت کی تیسری روایت میں حضرت معاذؓ نے توحید کے ساتھ نماز اور روزہ کا بھی ذکر کیا ہے ، یہ روایت “مشکوٰۃ” میں “مسند احمد” کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں : مَنْ لَقِيَ اللهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا يُصَلِّي الْخَمْسَ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ غُفِرَ لَهُ " قُلْتُ: أَفَلَا أُبَشِّرُهُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: " دَعْهُمْ يَعْمَلُوا جو شخص اللہ کے سامنے اس حال میں جائے گا ، کہ شرک سے اُس کا دامن پاک ہو ، اور وہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہو ، اور روزے رکھتا ہو تو وہ بخش ہی دیا جائے گا (معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا : حضور ﷺ! اجازت ہو تو میں سب کو یہ بشارت سُنا دوں ؟ آپ نے فرمایا : “جانے دو ، انہیں عمل کرنے دو!” ان تینوں روایتوں کا عنوان اگرچہ مختلف ہے ، اور ظاہری الفاظ میں اجمالی و تفصیل کا کسی قدر فرق ہے ۔ لیکن درحقیقت ہر روایت کا مطلب یہ ہی ہے کہ جو کوئی دعوتِ ایمان و اسلام کو قبول کر لے گا (جس کے بنیادی اصول و احکام ، شرک سے بچنا ، توحید و رسالت کی شہادت دینا ، اور نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا) تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی نجات کا حتمی وعدہ ہے ۔ پس جو لوگ اس قسم کی روایات سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں ، کہ توحید و رسالت کی شہادت ادا کرنے اور شرک سے بچنے کے بعد آدمی خواہ کیسا ہی بدعقیدہ اور بد عمل کیوں نہ ہو ، بہر حال وہ اللہ کے عذاب سے مامون و محفوظ ہی رہے گا ، اور دوزخ کی آگ اس کو چھو ہی نہ سکے گی ، وہ ان بشارتی حدیثوں کا صحیح مفہوم اور مدعا سمجھنے سے محروم ہیں ، نیز دوسرے ابواب کی جو سینکڑوں حدیثیں (بلکہ قرآن کی آیتیں بھی) ان کی اس خام خیالی کے صریح خلاف ہیں ، وہ ان سے منحرف ہیں ۔ (اعاذنا الله من ذالك)

【14】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : “لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کی شہادت دینا ، جنت کی کنجی ہے ۔ (مسند احمد) تشریح اس حدیث میں بھی صرف شہادتِ توحید کا ذکر ہے ، اور یہ بھی دعوتِ ایمان کو قبول کر لینے ، اور اسلام کو اپنا دین بنا لینے کی ایک تعبیر ہے ، اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اردو محاورہ میں اسلام قبول کرنے کو “کلمہ پڑھ لینے” سے بھی تعبیر کر دیتے ہیں ۔ جس ماحول اور جس فضا کے رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشادات ہیں ، اس میں مسلمان بھی غیر مسلم کافر و مشرک بھی “توحید و رسالت کی شہادت” اور “لا الہ الا اللہ کی شہادت” کا مطلب ایمان لانا ، اور اسلام قبول کرنا ہی سمجھتے تھے۔

【15】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت ابو ذر غفاریؓ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ میں (ایک دن) حضورکی خدمت میں پہنچا ، تو آپ اس وقت سفید کپڑا اوڑھے سوئے ہوئے تھے ، پھر (کچھ دیر بعد) میں حاضر ہوا ، تو آپ بیدار ہو چکے تھے ، اس وقت آپ نے فرمایا : “جو کوئی بندہ لا الہ الا اللہ کہے اور پھر اسی پر اس کو موت آ جائے ، تو وہ جنت میں ضرور جائے گا” ۔ ابو ذر کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا : “اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو ؟” آپ نے ارشاد فرمایا : “ہاں اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو!” (ابو ذر کہتے ہیں) میں نے پھر عرض کیا : “اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟” آپ نے پھر ارشاد فرمایا : “(ہاں!)اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو” (ابوذرؓ کہتے ہیں) میں نے (پھر تعجب سے) عرض کیا ، کہ : (یا رسول اللہ! لا الہ الا اللہ کی شہادت دینے والا جنت میں ضرور جائے گا) اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ ۔ آپ نے پھر ارشاد فرمایا : “(ہاں!)ابو ذر کے علی الرغم ّ(۱) (وہ جنت میں جائے گا) اگرچہ اس نے زنا کیا ہو ، اور اگرچہ اس نے چوری کی ہو!”۔ تشریح اس حدیث میں بھی “لا الہ الا اللہ” کہتے سے مراد پورے دینِ توحید (یعنی اسلام) پر ایمان لانا ، اور اس کو اختیار کرنا ہے ، اور بے شک جو شخص اس دینِ توحید پر صدقِ دل سے ایمان رکھتا ہو گا ، وہ ضرور جنت میں جائے گا ، اب اگر بالفرض ایمان کے باوجود اس نے گناہ بھی کئے ہوں گے ، تو اگر کسی وجہ سے وہ معافی کا مستحق ہو گا ، تو اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما کے بغیر کسی عذاب ہی کے اُس کو جنت می داخل کر دے گا اور اگر وہ معافی کا مستحق نہ ہو گا تو گناہوں کی سزا پانے کے بعد وہ جنت میں جا سکے گا ، بہرحال دین اسلام پر صدق دل سے ایمان رکھنے والا ہر شخص جنت میں ضرور جائے گا ، اگرچہ دوزخ میں گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ہی جائے ۔ حضرت ابو ذرؓ کی اس روایت کا مطلب اور مفاد یہی ہے ۔ حضرت ابو ذرؓ نے جو بار بار اپنا سوال دُہرایا ، تو اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ چوری اور زنا کو سخت ناپاک گناہ جاننے کی وجہ سے اُن کو اس پر تعجب تھا ، کہ ایسے ناپاک گناہ کرنے والے بھی جنت میں جا سکیں گے ، گویا اُس وقت تک انہیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا ، آج ہم جیسوں کو حضرت ابو ذرؓ کے اس تعجب اور اس سوال کی وجہ سمجھنا اس لئے مشکل ہو گیا ہے کہ ہم نے اسلام ہی میں آنکھ کھولی ہے ، اور یہ موٹی موٹی باتیں ہم کو گھروں ہی میں معلوم ہو جاتی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

【16】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت عثمان بن عفانؓ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو شخص اس حال میں مرا ، کہ وہ یقین کے ساتھ جانتا تھا ، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، تو وہ جنت میں جائے گا ” ۔ تشریح اس حدیث میں بھی “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” پر یقین ہونے سے مراد وہی دینِ توحید پر ایمان رکھنا ہے ، اور دخولِ جنت کے وعدہ کا مطلب بھی وہی ہے ، جو اوپر مذکور ہوا ، کہ اپنے پورے اعمالنامہ کے تقاضے کے مطابق اللہ کی رحمت سے ابتداء ہی میں ، یا گناہوں کی کچھ سزا بھگت کر ہر صاحبِ ایمان جنت میں ضرور جائے گا ۔

【17】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

عتبان بن مالکؓ سے روایت ہے (اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحابؓ میں سے ہیں ، جو انصار میں سے غزوہ بدر میں شریک تھے) کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا ، کہ : “میری نگاہ میں فرق آ گیا ہے (یعنی مجھے کم دکھائی دینے لگا ہے) اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں ، سو جب بارشیں ہوتی ہیں اور میرے اور میری قوم والوں کے درمیان جو نالہ ہے ، وہ بہنے لگتا ہے ، تو میں ان کی مسجد تک جا کر نماز نہیں پڑھا سکتا اور یا رسول اللہ ﷺ ! میری یہ خواہش ہے ، کہ حضور میرے یہاں تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں ، تا کہ میں اُسی جگہ کو اپنی مستقل نماز گاہ بنا لوں”۔ کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا : “ان شاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کروں گا” ۔ (عتبان کہتے ہیں) کہ صبح ہی کو جب کچھ دن چڑھا تھا رسول اللہ اور ابو بکرؓ میرے یہاں پہنچ گئے ، اور رسول اللہ ﷺ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ، میں نے آپ کو اجازت دی ، پس جب آپ گھر میں تشریف لائے ، تو بیٹھے نہیں ، اور مجھ سے فرمایا : “تم اپنے گھر میں سے کون سی جگہ پسند کرتے ہو ، کہ میں وہاں نماز پڑھوں ؟ ” کہتے ہیں کہ میں نے گھر کی ایک جانب کی طرف اشارہ کر دیا ، پس رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے ، اور اللہ اکبر کہہ کر آپ نے نماز شروع کر دی ، ہم بھی صف باندھ کے آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے ، پس آپ نے دو رکعتیں پڑھیں ، اور سلام پھیر دیا ، (عتبان کہتے ہیں) اور ہم نے آپ کو خزیرہ (۱) کھانے کے لئے روک لیا ، جو آپ کے واسطے ہم نے تیار کیا تھا ، اور (آپ کی اطلاع پا کے) محلہ والوں میں سے بھی چند آدمی آ کے جڑ گئے ، پس انہی میں سے کسی کہنے والے نے کہا ، کہ مالک بن دخیشن (یا ابنِ دخشن) کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے جواب دیا ، کہ “وہ تو منافق ہے ، اللہ اور اس کے رسول سے اُسے محبت ہی نہیں ہے”۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “یہ مت کہو ! کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کا قائل ہے ، اور اس سے وہ اللہ کی رضا ہی چاہتا ہے”۔ اس کہنے والے شخص نے کہا ، کہ “اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے ، ہم تو اُس کا رخ اور اُس کی خیر خواہی منافقوں کی طرف دیکھتے ہیں”۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “یقیناً اللہ عز وجل نے دوزخ کی آگ پر اُس شخص کو حرام کر دیا ہے ، جس نے اخلاص کے ساتھ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کہا ہو ، اور اُس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالی کی رضا مندی حاصل کرنا ہی ہو ” تشریح اس حدیث میں بھی “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کہنے والے پر آتشِ دوزخ حرام ہونے کا مطلب وہی ہے ، جو اسی مضمون کی سابقہ احادیث کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے ۔ بلکہ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں بجائے “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ” کے “يشهد ان لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وانى رَسُولُ اللهِ ” ہے اور مراد ان دونوں ہی عنوانوں سے دعوتِ اسلام کو قبول کرنا اور دین اسلام کو بحیثیت دین کے اختیار کر لینا ہے ، دراصل جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے عہدِ نبوی میں اسلام قبول کرنے اور اسلام کو اختیار کرنے کی یہ عام تعبیر رتھی ۔ یہاں ایک بات یہ بھی ملحوظ رکھنی چاہیے ، کہ جن صحابی نے مالک بنِ دخشن کو منافق کہا تھا ، اُن کی نظر میں بھی مالک بنِ دخشن میں نفاق یا فسق و فجور کی کوئی بات اس کے سوا نہ تھی ، کہ اُن کے خیال میں مالک بنِ دخشن ، منافقین سے تعلقات اور میل ملاقات رکھتے تھے ۔ اس سے ایک طرف تو صحابہ کرامؓ کے ایمانی جذبے کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ وہ اتنہ سی بات سے بھی اس قدر ناراض ہوتے تھے ، اور اس کو منافقت سمجھتے تھے ۔ اور دوسری طرف آنحضرتﷺ کی تنبیہ سے سبق ملتا ہے کہ جن لوگوں میں اس طرح کی کچھ کمزوریاں ہوں ، مگر اپنے ایمان اور توحید و رسالت کی شہادت میں وہ مخلص ہوں ، تو ان کے بارے میں ایسی بدگمانیاں اور اتنی سخت باتیں کرنی جائز نہیں ، بلکہ ایمان کا پہلو زیادہ قابلِ لحاظ اور واجب الاحترام ہے ۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہ مالک بن دخیشن بھی رسول اللہ ﷺ کے اُن صحابہ میں سے ہیں ، جو عام غزوات میں حتی کہ بدر میں بھی شریک رہے ہیں ، ممکن ہے کہ منافقین سے تعلقات رکھنے میں ، حاطب بنِ ابھی بلتعہؓ کی طرح ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوں ۔ واللہ اعلم ۔

【18】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ ﷺ (کی خدمت میں حاضر تھے ، اور) آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے ، اور حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ بھی ہمارے ساتھ ہی اس مجلس میں تھے ، کہ آنحضرتﷺ ہمارے درمیان سے اٹھے (اور کسی طرف کو نکل گئے) اور پھر آپ کی واپسی میں بہت دیر ہو گئی ، تو ہمیں ڈر ہوا ، کہیں ہم سے علیحدہ آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے ، (یعنی ہماری عدم موجودگی میں کسی دشمن وغیرہ سے آپ کو کوئی ایذا نہ پہنچ جائے) ۔ پس اس خیال سے ہمیں سخت گھبراہٹ اور فکر لاحق ہوئی ، اور ہم لوگ (آپ کی جستجو میں) نکل کھڑے ہوئے ، اور سب سے پہلے میں ہی گھبرا کے حضور کی تلاش میں نکلا ، یہاں تک کہ انصار کے خاندان بھی النجار کے ایک باغ پر پہنچ گیا ، جو چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا ،اور میں نے اس کے چاروں طرف چکر لگایا ، کہ اندر جانے کے لئے مجھے راستہ مل جائے ، لیکن نہیں ملا ، پھر مجھے پانی کی ایک گول (چھوٹی سی نہری) نظر پڑی ، جو باہر کے ایک کنوئیں سے باغ کے اندر جاتی تھی (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں) میں سمٹ اور سکڑ کر اس میں سے باغ کے اندر گھس گیا ، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا پہنچا ، حضور نے فرمایا : “ابو ہریرہ!” میں نے عرض کیا “ہاں ! یا رسول اللہ میں ہی ہوں” آپ نے فرمایا “تم کیسے آئے ؟” میں نے عرض کیا : “یا رسول اللہ! آپ ہمارے درمیان تشریف رکھتے تھے ، پھر وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے ، اور جب دیر تک آپ کی واپسی نہیں ہوئی تو ہمیں خطرہ ہوا ، کہ مبادا ہم سے علیحدہ آپ کو کوئی ایذا پہنچائی جائے ، اسی خطرے سے گھبرا کے ہم سب چل پڑے ، اور سب سے پہلے گھبرا کے میں ہی نکلا تھا، یہاں تک کہ میں اس باغ تک پہنچا ، اور (جب مجھے کوئی دراوزہ نہیں ملا ، تو) لومڑی کی طرح سمٹ سکڑ کے ، میں (اس گول میں سے کسی طرح) گھس آیا ہوں اور دوسرے لوگ نھی میرے پیچھے آ رہے ہیں” ۔ پھر حضور ﷺ نے اپنے نعلین مبارک مجھے عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ “میرے یہ جوتے لے کر جاؤ ، اور اس باغ سے نکل کے جو آدمی بھی تمہیں ایسا ملے ، جو دل کے پورے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہو ، اس کو جنت کی خوشخبری سنا دو”۔ (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ، میں وہاں سے چلا) تو سب سے پہلے میری ملاقات حضرت عمرؓ سے ہوئی ، انہوں نے مجھ سے پوچھا : “ابو ہریرہؓ ! تمہارے ہاتھ میں یہ دو جوتیاں کیسی ہیں؟” ۔ میں نے کہا : “یہ حضور (ﷺ) کے نعلین مبارک ہیں ، حضور ﷺ نے مجھے یہ دے کر بھیجا ہے ، کہ جو کوئی بھی دل سے “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دینے والا مجھے ملے ، میں اس کو جنت کی خوشخبری سنا دوں” ۔ (ابو ہریرہؓ کہتے ہیں ، کہ) پس عمرؓ نے میرے سینے پر ایک ہاتھ مارا جس میں اپنی سرینوں کے بل پیچھے کو گر پڑا ، اور مجھ سے انہوں نے کہا : “پیچھے کو لوٹو” ۔میں روتا ہوا حضور ﷺ کے پاس واپس آیا ، اور عمرؓ بھی میرے پیچھے پیچھے آئے ، رسول اللہ ﷺ نے (مجھے اس حالت میں دیکھ کر) پوچھا : “ابو ہریرہ تمہیں کیا ہوا ؟” میں نے عرض کیا کہ : عمرؓ مجھے ملے تھے ، حضور ﷺ نے مجھے جو پیغام دے کر بھیجا تھا ، میں نے وہ انہیں بتلایا ، تو انہوں نے میرے سینے پر ایک ایسی ضرب لگائی جس سے میں اپنی سرینوں کے بل گر پڑا ، اور مجھ سے کہا ، کہ پیچھے کو لوٹو” رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا : “عمر! تم نے ایسا کیو ں کیا ؟” انہوں نے عرض کیا : حضور ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! کیا آپ نے ابو ہریرہؓ کو اپنے نعلین مبارک دے کر اس لئے بھیجا تھا ، کہ جو کوئی بھی دل کے یقین کے ساتھ “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دینے والا ان کو ملے ، وہ اس کو جنت کی بشارت دے دیں ؟” حضور ﷺ نے فرمایا : “ہاں ! میں نے ہی یہ کہہ کر بھیجا تھا” ۔ عمرؓ نے عرض کیا : “حضور ! ایسا نہ کیجئے ، مجھے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ بس اس شہادت ہی پر بھروسہ کر کے (سعی و عمل سے بے پرواہ ہو کے) نہ بیٹھ جائیں ، لہذا انہیں اسی طرح عمل کرنے دیجئے ۔” حضور ﷺ نے فرمایا : “تو جانے دو!”۔ تشریح اس حدیث میں چند چیزیں وضاحت طلب ہیں: ۱۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر حضرت ابو ہریرہؓ کو اپنی نعلین مبارک کیوں عطا فرمائیں ؟ شارحین نے اس کی توجیہ میں اگرچہ کئی باتیں کہی ہیں ، لیکن ان سب میں زیادہ قرین قیاس یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو آپ نے جس بشارتِ عظمیٰ کے اعلان کے لئے بھیجا تھا ، اس کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے آپ نے اپنی کوئی خاص نشانی بھی اُن کے ساتھ کر دینا مناسب سمجھا اور اس وقت آپ کے پاس ایسی چیز جو اس مقصد کے لیے آپ ان کو دے سکتے تھے ، یہ نعلین مبارک ہی تھیں ، اس لئے وہی آپ نے اُن کو عطا فرما دیں ۔ واللہ اعلم ۔ ۲۔ حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کے ساتھ جو سختی کا معاملہ فرمایا ، اس کی صحیح نوعیت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمرؓ کی اُس امتیازی حیثیت کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے ، جو صحابہ کرامؓ کی جماعت میں اُن کو حاصل تھی ، یعنی وہ (اور حضرت ابو بکرؓ بھی) حضور (ﷺ) کے خاص شریک کار ، محرمِ راز ، مشیرِ خصوصی ، اور گویا آپ کے وزیر نائب تھے اورع صحابہ کرامؓ عام طور سے اُن کے اس امتیازی مقام کو پہچانتے تھے اورع جس طرح ہر جماعت اور ہر خاندان کا بڑا ، اپنے چھوٹوں کو تنبیہ اور سرزنش کا حق رکھتا ہے ، اسی طرح حضرت عمرؓ بھی یہ حق رکھتے تھے اور بسا اوقات حسبِ ضرورت اس حق کو آپ استعمال بھی فرماتے تھے ، اورع واقعہ یہ ہے کہ چھوٹوں کی اصلاح و تربیت کے لیے بڑوں کے واسطے اس حق کا ماننا ضروری بھی ہے ، پس حضرت عمرؓ نے اس واقعہ میں حضرت ابو رہریرہؓ کے ساتھ جو تشدد کیا ، وہ درحقیقت اسی قبیل سے ہے ، اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابتداءً ان سے واپس ہونے کو کہا ہو گا ، لیکن وہ چونکہ تمام اہلِ ایمان کے لئے ایک بشارتِ عظمیٰ کا پروانہ لے کر آ رہے تھے ، اور اُن کے نزدیک یہ ایک بڑی سعادت تھی جو انہیں حاصل ہو رہی تھی ، اس لئے انہوں نے واپس ہونے سے انکار کیا ہو گا ، اور بالآخر حضرت عمرؓ نے ان کو واپس لوٹانے کے لئے اس جبر و تشدد سے کام لیا ہو گا ، کیوں کہ ان کو مقامِ نبوت اور شئونِ نبوت کی پوری شناسائی کی وجہ سے اس کا کامل یقین تھا ، کہ اس بشارتِ عامہ کا مضر پہلو جب حضور ﷺ کے سامنے آئے گا ، تو آپ بھی اس کو خلافِ مصلحت ہی سمجھیں گے ، اور ابو ہریرہؓ کو اس کی عام اشاعت سے منع فرما دیں گے ، چناں چہ ایسا ہی ہوا ۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے ، کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو بھی ایسی ہی بشارت سنائی تھی (وہ حدیث اوپر گزر چکی ہے) اس وقت حضرت معاذؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی تھی ، کہ وہ سب مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنا دیں ، تو حضور نے اجازت نہیں دی تھی ، اور اجازت نہ دینے کی وجہ یہی بیان فرمائی تھی کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے دینی ترقیوں سے رہ جائیں گے ۔ ۳۔ اس حدیث میں بھی صرف “لا الہ الا اللہ” کی شہادت پر جنت کی خوشخبری دی گئی ہے ، سو اس کی عام توجیہ تو وہی ہے ، جو مندرجہ بالا احادیث کے ذیل میں ذکر کی جا چکی ہے ۔ ما سوا اُسکے ، اس حدیث کے الفاظ میں اس احتمال کی بھی کافی گنجائش ہے ، کہ حضور ﷺ کا مطلب اس ارشاد سے صرف یہ ہو کہ جو کوئی “لا الہ الا اللہ” کی شہادت دے ، یعنی صدق دل سے دینِ توحید (اسلام) پر ایمان لائے ، اس کو خوشخبری دے دی جائے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا ، اگرچہ گناہوں کی سزا پزنے کے بعد ہی جائے ، اس صورت میں کوئی اشکال نہیں رہتا ۔ اس کے سوا ایک خاص نکتہ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے ، کہ مقربین بارگاہِ قدس پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے بے پناہ قہر و جلال اور شانِ غضب و انتقام کا جب خاص انکشاف ہوتا ہے ، تو اُن پر ہیبت اور خوف کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور اُس وقت کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ شاید کسی بھی نافرمان کی نجات نہ ہو سکے گی ، اور اُس خاص حال میں اُن کے ارشادات اِس طرح کے ہوتے ہیں ، کہ جو یہ گناہ کرے گا جنت میں نہیں جا سکے گا ، جو وہ گناہ کرے گا ، جنت کی ہوا بھی نہیں پا سکے گا ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور اسی طرح جب دوسرے بعض اوقات میں اُن پر اللہ تعالیٰ کی شان رحمت اور اس کے بے حساب اور بے اندازہ فضل و کرم کا انکشاف ہوتا ہے ، تو اُن پر رجا اور امیدِ رحمت کا غلبہ ہو جاتا ہے ، اور اُس عالم میں اُن کا ادراک و احساس یہ ہوتا ہے کہ جس میں کچھ بھی ذرہ خیر ہو گا وہ بخشا ہی جائے گا ، اور ایسے ہی احوال میں اُن حضرات کی زبانوں سے اس طرح کی عام بشارتیں نکلتی ہیں ۔۔۔ اسی نکتے کو عارف شیرازیؒ نے اس طرح ادا کیا ہے ۔ ؎ بہ تہدید گر برکشد تیغ حکم بمانند کروبیاں صم و بکم وگردردہد یک صلائے کرم عزازیل گوید نصیبے برم پس حدیث مندرجہ بالا کے بارے میں یہ بھی بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جس وقت بنی النجار کے اس باغ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے ہوں ، تو اس وقت آپ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں شئونِ رحمت اور تجلیاتِ کرم کے مراقبے و مشاہدے میں مستغرق ہوں ، اور اسی حالت میں آپ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو بطور نشانی اپنی نعلینِ مبارک عطا فرما کر ہر شاہدِ توحید کو جنت کی خوشخبری سنا دینے کا حکم دے فیا ہو ، لیکن حجرت عمرؓ چونکہ اس پوری حقیقت کے رازداں اور ان احوال و کیفیات کے اُتار چڑھاؤ سے باخبر تھے ، اس لئے انہوں نے حضور ﷺ سے براہِ راست مراجعت و تحقیق تک حضرت ابو ہریرہؓ کو اس کے اعلانِ عام سے روکا ہو ، دوسرے طور پر اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ حضرت عمرؓ پر اُس وقت رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک کی اس خاص کیفیت (یعنی غلبہ رجا و رحمت) کا انکشاف منجانب اللہ ہو چکا تھا ، اور اُن کو اپنے نورِ فراست سے اس بات کا یقین تھا ، کہ جب آنحضرتﷺ پر اس کیفیت کا غلبہ نہیں رہے گا ، اور اس اعلان کا دوسرا پہلو آپ کے سامنے رکھا جائے گا ، تو خود آپ اُس کو منع فرما دیں گے ، جیسا کہ ظہور میں آیا ۔۔۔ اس طرحکے مواقع پر صحیح حقیقت کا ادراک و انکشاف حضرت عمرؓ کی امتیازی فضیلت ہے ، جس کو حدیثِ نبوی میں “مقام محدثیت” سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ایک اور اصولی بات جس سے اس طرح کی بہت سی حدیثوں کا اشکال حل ہو جاتا ہے اس قسم کی آیات اور احادیث پر غور کرتے وقت ایک اصولی بات یہ بھی ملحوظ رکھنے کے قابل ہے کہ اس قسم کی بشارتوں میں متکلم کا مقصد اور مطمح نظر کسی عمل خیر کی ذات خاصیت اور اس کا اصلی اثر بتلانا ہوتا ہے ، قطع نظر اس سے کہ اگر دوسرے اعمال کا تقاضا اس کے خلاف ہو ، تو پھر انجام کیا ہو گا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ طب کی کتابوں میں اسی اصول پر دواؤں کے خواص بیان کئے جاتے ہیں ، مثلاًً لکھا جاتا ہے ، کہ جو شخص اطریفل استعمال کرتا رہے گا ، وہ ہمیشہ نزلہ سے محفوظ رہے گا ، اب اس سے یہ سمجھ لینا کہ جو شخص اطریفل کھانے کے ساتھ ساتھ تیل ، ترشی وغیرہ انتہائی درجے کی نزلہ پیدا کرنے والی چیزیں بھی برابر کھاتا رہے ، اس کو بھی کبھی نزلہ نہیں ہو گا ، سخت نافہمی اور اطبا کے طرزِ کلام سے ناواقفی ہے ۔ اس اصول کی روشنی میں اس قسم کی حدیثوں کا مدعا صرف اتنا ہی ہے کہ توحید و رسالت کی شہادت کا ذاتی اقتضاء یہی ہے کہ ایسا آدمی عذاب دوزخ سے محفوظ رہے ، اور جنت میں جائے ، لیکن اگر اس نے اپنی بدبختی سے کچھ ایسے بداعمال بھی کئے ہیں جن کا ذاتی اقتضاء قرآن و حدیث میں عذاب پانا ، اور دوزخ میں جانا ہی بتلایا گیا ہے ، تو ظاہر ہے کہ وہ بھی اپنا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہی دکھائیں گے ۔ اگر یہ چھوٹا سا نکتہ ملحوظ رکھا جائے ، تو وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب کے سلسلہ کی صدہا حدیثوں کے بارے میں لوگوں کو غلط فہمی اور اس کی وجہ سے جو الجھن ہوتی ہے ، وہ ان شاء اللہ نہ ہو گی ۔

【19】

سچا ایمان و اسلام نجات کی ضمانت ہے

حضرت انسؓ سے مروی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : “دوزخ میں سے وہ سب لوگ نکال لئے جائیں گے جنہوں نے “لا الہ الا اللہ” کہا ، اور ان کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی بھلائی تھی ، پھر وہ لوگ بھی نکال لئے جائیں گے جنہوں نے “لا الہ الا اللہ” کہا اور ان کے دل میں گیہوں کے دانے برابر بھی بھلائی تھی اور اس کے بعد وہ لوگ بھی نکلا لئے جائیں گے جنہوں نے “لا الہ الا اللہ” کہا ، اور ان کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی تھی”۔ تشریح کے علاوہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت ابو موسیٰ وغیرہ متعدد صحابہ کرامؓ سے روایت کیا گیا ہے ، بہر حال فنِ حدیث کی معرفت اوعر علوم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کے نزدیک یہ مضمون آنحضرتﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے ، بلکہ صحیحین میں حضرت ابو سعید حدریؓ کی جو مفصل روایت ہے ، اُس میں صراحت کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ جو گنہگار مسلمان دوزخ میں دالے جائیں گے ، اُن کے حق میں نجات یافتہ مومنین اللہ تعالیٰ سے بڑے الحاح کے ساتھ عفو درگزر اور بخشش و کرم کی استدعا کریں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ اُن کی اس اتدعا و التجا کو قبول فرما کر اُنہی کو اجازت دیدیں گے ، کہ جاؤ جس میں ایک دینار برابر بھی خیر تمہیں نظر آئے اس کو نکال لو ، چنانچہ ایک بہت کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، پھر ان کو اجازت دی جائے گی کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن میں نصف دینار کے برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے چنانچہ ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، پھر حکم ہو گا کہ جاؤ ایسے لوگوں کو بھی نکال لو جن کے اندر ذرہ برابر خیر بھی تمہیں نظر آئے ، چنانچہ بہت بڑی تعداد اس درجے لوگوں کی بھی نکال لی جائے گی ، اور اس کے بعد یہ سفارش کرنے والے خود عرض کریں گے : رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيْهَا خَيْرًا (خدا وند! اب دوزخ میں ہم نے کچھ بھی خیر رکھنے والا کوئی آدمی نہیں چھوڑا ہے) ۔۔۔ اس کے بعد حق تعالیٰ کا ارشاد ہو گا :۔ “شَفَعَتِ الْمَلٰئِكَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّوْنَ وَلَمْ يَبْقَ اِلَّا اَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا لَمْ يَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ” (فرشتوں کی بھی سفارش ہو چکی ، اور نبیوں کی بھی سفارش ہو چکی ، اور مومنین کی بھی سفارش ہو چکی اور ان کی سفارشیں بھی قبول کی جا چکیں ، اور اب بس ارحم الراحمین ہی کی باری رہ گئی ہے ، پھر اللہ تعالیٰ خود اپنی مغفرت و رحمت کے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو بھی دوزخ سے نکالیں گے ، جنہوں نے کبھی کوئی نیک عمل کیا ہی نہ ہو گا) ۔ آگے حضرت ابو سعیدؓ کی اسی حدیث کے آخر میں ان لوگوں کے متعلق یہ بھی ہے کہ : هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنَ النَّارِ بِغَيْرِ عَمَلٍ عَمِلُوهُ وَلَا خَيْرٍ قَدَّمُوهُ (یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے چھوڑے ہوئے ہوں گے اللہ اُن کو جنت میں داخل کرے گا بغیر عمل کے ، جو انہوں نے کیا ہو ، اور بغیر خیر کے جو انہوں نے پیش کیا ہو) ۔ گویا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے پاس بہت ہی ضعیف اور نہایت ہی خفی ایمان کے سوا عملِ صالح اور خیر کا کوئی سرمایہ بالکل نہ ہو گا ، مگر اللہ تعالیٰ بالآخر اُن کو بھی اپنے رحم و کرم سے دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کر دیں گے ۔ اس مسئلہ میں اسلام کی ابتدائی صدیوں میں مرجیہ اور خوارج نے افراط اور تفریط کی راہ اختیار کی تھی ، اور آج کل بھی بعض حلقوں کا رجحان افراط کی طرف اور بعض کا تفریط کی طرف ہو رہا ہے۔ اس لیے ہم نے حدیث کی نفسِ تشریح سے زیادہ چند سطریں لکھنی ضروری سمجھیں ۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

【20】

اسلام لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں

حضرت عمرو بن العاضؓ سے مروی ہے ، کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام لانے کا خیال میرے دل میں ڈالا ، تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور میں نے عرض کیا ، اپنا ہاتھ بڑھائیے تا کہ میں آپ سے بیعت کروں ، پس آپ نے اپنا داہنا ہاتھ آگے کر دیا ، پس میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، تو آپ نے فرمایا : عمرو! تمہیں کیا ہوا ؟ (یعنی تم نے اپنا ہاتھ کیوں کھینچ لیا؟) میں نے عرض کیا : میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ، آپ نے فرمایا : تم کیا شرط لگانا چاہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا : یہ کہ میری خطائیں بخش دی جائیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اے عمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے ، کہ اسلام قبول کرنا پہلے سب گناہوں کو ڈھا دیتا ہے ، اور ہجرت بھی پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج بھی پہلے گناہوں کو زائل کر دیتا ہے ۔ تشریح آنحضرتﷺ نے گناہوں کی مغفرت کے بارے میں اسلام کے علاوہ ہجرت اور حج کی تاثیر کا ذکر اس موقع پر یہ ظاہر کرنے کے لیے فرمایا کہ اسلام تو اسلام ، اس کے بعض اعمال میں بھی گناہوں سے پاک صاف کر دینے کی خاصیت ہے ۔۔۔ لیکن دو باتیں یہاں خاص طور قابلِ لحاظ ہیں ، ایک یہ کہ اسلام لانے اور ہجرت یا حج کرنے کی یہ تاثیر اس صورت میں ہے جبکہ یہ کام صدقِ نیت اور اخلاص کے ساتھ کئے جائیں ، دوسرے یہ کہ دلائلِ شرعیہ سے یہ بات اپنی جگہ ثابت شدہ ہے ، کہ اگر کسی کے ذمے اللہ کے بندوں کے حقوق ہیں ، خصوصاً مالی حقوق تو اسلام یا ہجرت یا حج سے وہ معاف نہیں ہوتے ، اُن کا معاملہ حقداروں ہی سے صاف کرنا ضروری ہے ۔ کفر و شرک کی زندگی سے تائب ہو کر اسلام قبول کرنے والوں کے پچھلے گناہوں کی معافی کا وعدہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے ، ارشاد ہے : قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ اے رسول ! اُن لوگوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا ، کہ اگر وہ باز آ جائیں ، تو اُن کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔

【21】

اسلام لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے ، کہ : “جب بندہ اسلام قبول کر لیتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہوتا ہے ، تو جو برائیاں اس نے پہلے کی ہوتی ہیں ، اللہ اسلام کی برکت سے ان سب کو معاف کر دیتا ہے اور اس کے بعد اس کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب یہ رہتا ہے کہ ایک نیکی پر دس گنے سے لیکر سات سو گنے تک ثواب دیا جاتا ہے اور برائی کرنے پر وہ اسی ایک بُرائی کی سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی درگزر فرمائے اور معاف ہی فرما دے”۔ (بخاری) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین (اسلام) کو اپنا دین بنانے سے ، اور مسلمان ہو جانے سے پچھلے گناہ معاف ہونے کی یہ شرط ہے کہ اسلام کا حسن بھی زندگی میں آ جائے (یعنی اس کا قلب و باطن نورِ اسلام سے منور اور قالب و ظاہر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے مُزین اور آراستہ ہو جائے ۔) “فَحسُن اِسْلَامُهُ” کا یہی مطلب ہے ، پس اگر کسی شخص کی زندگی اسلام میں آ جانے کے بعد بھی نورِ اسلام اور اسلام کے حسن سے خالی رہی ، اور اس کے ظاہر و باطن پر اسلام کا رنگ نہیں چڑھا ، تو پچھلے سب گناہوں سے معافی کا یہ اعلان اُس کے لئے نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ بھی اس حدیث سے معلوم ہوا ، کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک دئیے جانے کا انعامی قانون بھی اُنہی بندوں کے لئے ہے جنہوں نے اسلام کا کچھ حسن اپنے اندر پیدا کر لیا ہو ، اور اس حسن کی کمی بیشی کے حساب سے ہی نیکیوں کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک ملے گا ۔

【22】

ایمان لانے کے بعد جوجان و مال معصوم و محفوظ ہو جاتے ہیں

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک کہ وہ “لا الہ الا اللہ ” کے قائل نہ ہو جائیں ، پس جو شخص “لا الہ الا اللہ” کا قائل ہو گیا اس نے اپنے مال اور اپنی جان کو محفوظ کر لیا ، سوائے اس کے حق کے اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے ” ۔ (بخاری و مسلم) تشریح حضرت عمرؓ سے اس حدیث کی روایت اس مکالمہ کے ضمن میں آتی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ادائیگی زکوٰۃ سے انکار کرنے والے بعض قبائل کے خلاف جنگ کرنے کے بارے میں اُن کے اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے درمیان ہوا تھا ۔ اس حدیث میں بھی “لا الہ الا اللہ” کہنے سے مراد ، دعوتِ اسلام کا قبول کرنا ہے ، اور جس طرح مذکورہ سابق احادیث میں اسلام قبول کرنے کا اُخروی نتیجہ عذابِ دوزخ سے نجات اور حصول جنت بتایا گیا ہے ، اسی طرح اس حدیث میں قبول اسلام کا ایک دنیوی اور قانون نتیجہ جان و مال کا محفوظ و مامون ہو جانا بتلایا گیا ہے ۔ نیز اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے اسلامی جنگ کے متعلق ایک نہایت اہم اور اصولی اعلان بھی فرمایا ہے ، اور وہ یہ کہ ہماری جنگ کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ، کہ اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کے رستے پر لگایا جائے ، اور اُن کو عذابِ ابدی سے نجات دلائی جائے ، لہذا جو کوئی اللہ کے دین کو قبول کر لے ، اور اللہ ہی کی بندگی کا اقرار کر کے اس کے مقرر کئے ہوئے طریقہ زندگی (دینِ اسلام) کو اپنا دین بنا لے ، اس کے جان و مال کو ہماری طرف سے بالکل امن ہے ۔ “إِلَّا بِحَقِّهِ” کا مطلب یہ ہے کہ البتہ اگر اس نے اسلام اختیار کرنے کے بعد کوئی ایسا جُرم کیا ، کہ خود اللہ کے قانون کا تقاضا اس کو جانی یا مالی سزا دینے کا ہوا ، تو خدا وندی حکم کے مطابق اس کو سزا دی جائے گی ، اور “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کہنے اور مسلمان کہلانے کی وجہ سے وہ اس قانونی سزا سے نہیں بچ سکے گا ۔ “وحسابه على اللَّهُ” کا مطلب یہ ہے ، کہ جو شخص کلمہ اسلام پڑھ کے اپنا ایمان لانا ہمارے سامنے ظاہر کرے گا ، ہم اس کو مومن اور مسلم تسلیم کر کے اس کے خلاف جنگ بند کر دیں گے ، اور اس کے ساتھ ایمان و اسلام ہی کا معاملہ کریں گے ، لیکن اگر فی الواقع اس کی نیت میں کوئی بُرائی اور اس کے دل میں کوئی کھوٹ ہو گی ، تو اس کا حساب آخرت میں اللہ تعالیٰ پر ہے ، جو عَالِمُ الْغَيْبِ اور عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ہے ، وہ ہی اس سے حساب کر لے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث قریب قریب انہی الفاظ میں صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ اور طارق اشجعیؓ سے بھی روایت کی گئی ہے ، اور بعض دوسرے صحابہ کرامؓ نے اس مضمون کو کسی قدر تفصیل سے بھی روایت کیا ہے ، جس سے اس حدیث کے مضمون کی بھی اور زیادہ وضاحت ہو جاتی ہے ، ہم اُن میں سے بعض روایات ذیل میں درج بھی کرتے ہیں ۔

【23】

ایمان لانے کے بعد جوجان و مال معصوم و محفوظ ہو جاتے ہیں

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے اُس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک کہ وہ “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کی شہادت دیں ، اور مجھ پر اور جو ہدایت میں لے کر آیا ہوں اس پر ایمان لے آٗئیں ، سو جب وہ ایسا کر لیں ، تو انہوں نے اپنے جان و مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا ، سوائے اس کے حق کے اور اُن کا حساب اللہ کے سپرد ہے ”۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کی شہادت کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانے کا بھی ذكر ہے ، یہ بھی اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ اس سے پہلی حدیث میں “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کے قائل ہونے کا جو ذکر ہے ، اس سے دعوتِ اسلام کا قبول کرنا ہی مراد ہے ۔

【24】

ایمان لانے کے بعد جوجان و مال معصوم و محفوظ ہو جاتے ہیں

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “مجھے حکم ہے کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں اس وقت تک کہ وہ اس بات کی شہادت ادا کریں (یعنی اس کا اقرار و اعلان کریں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور محمد اللہ کے پیغمبر ہیں ، اور نماز قائم کرنے لگیں ، اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں ، پس جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگیں تو انہوں نے اپنے جان و مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا سوائے حق اسلام کے ، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے ”۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث میں توحید و رسالت کی شہادت کے علاوہ نماز قائم کرنے ، اور زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی ذکر ہے ۔۔۔ اور درحقیقت ان دو رکنوں کا ذکر بھی صرف تمثیل اور نشانی کے طور پر کیا گیا ہے ، ورنہ یہاں بھی مُراد یہی ہے کہ اللہ کے دین پر ایمان لے آئیں ، اور دعوتِ اسلام کو قبول کر لیں ، جس کو حضرت ابو ہریرہؓ کی مندرجہ بالا حدیث میں “وَيُؤْمِنُوْا بِىْ وَبِمَا جِئْتُ بِهِ” (اور مجھ پر ایمان لائیں ، اور جو ہدایت میں لایا ہوں اس پر ایمان لائیں) کے مختصر ، مگر جامع الفاظ میں ادا کیا گیا ہے ۔

【25】

ایمان لانے کے بعد جوجان و مال معصوم و محفوظ ہو جاتے ہیں

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “مجھے حکم دیا گیا ہے ، کہ میں لوگوں سے جنگ جاری رکھوں ، یہاں تک کہ وہ “لا الہ الا اللہ” کے قائل ہو جائیں ، پس جب وہ “لا الہ الا اللہ” کے قائل ہو جائیں اور ہماری نمازیں پڑھنے لگیں ، اور (اپنی نمازوں میں) ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کرنے لگیں ، اور ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں ، تو اُن کے خون اور اُن کے مال ہم پر حرام ہو گئے سوائے اس کے حق کے ، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے ”۔ (بخاری) تشریح اس حدیث میں شہادتِ توحید کے ساتھ نماز پڑھنے اور نماز میں قبلہ اسلام کی طرف رخ کرنے اور اہلِ اسلام کا ذبیحہ کھانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ، در حقیقت ان تمام چیزوں کا ذکر بھی بطور علامات اور نشانیوں ہی کے کیا گیا ہے ، اور اصل مقصد اس حدیث کا بھی احادیث مندرجہ بالا کی طرح صرف اتنا ہی ہے ، کہ ہماری جنگ جس کسی سے بھی ہے صرف دین کی خاطر ، اور لوگوں کو کفر و شرک کی گمراہی سے نکال کر راہِ حق پر لانے کے لئے ہے ، پس جو لوگ بے راہ روی چھوڑ کر اللہ کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ اختیار کر لیں اور دینِ حق کی دعوت کو قبول کر لیں ، اُ کے جان و مال سے تعرض کرنا ہمارے لئے حرام ہے اور چونکہ اس زمانہ اور اس ماحول میں ایمان و اسلام کی ظاہری علامات یہی تھیں ، کہ آدمی مسلمانوں کے طریقے پر نماز پڑھنے لگے ، اور نماز میں کعبہ کی طرف رُخ کرنے لگے ، اور مسلمانوں کے ذبیحہ سے پرہیز نہ کرے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے علامات ہی کے طور پر ان چیزوں کا بھی ذکر کر دیا ۔ اور اسی حدیث کی سنن ابی داؤد میں “وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ” کی جگہ آخری الفاظ یہ ہیں “لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِيْن وَعَلَيْهِمْ مَّا عَلَى الْمُسْلِمِيْن” جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دعوتِ اسلام کو قبول کر لیں ، نہ صرف یہ کہ ہماری جنگ ان کے خلاف ختم ہو جائے گی ، اور ان کے جان و مال کو امان حاصل ہو جائے گی ، بلکہ پھر وہ تمام حقوق اور ذمہ داریوں میں بالکل ہمارے برابر ہوں گے ۔ ان حدیثوں کے بارے میں ایک شبہ اور اس کا جواب ان احادیث پر سرسری نظر میں ایک شبہ ہوتا ہے ، بعض شارحینِ حدیث نے خود ہی اس کو ذکر کر کے مختلف جوابات بھی دئیے ہیں ، وہ شبہ یہ ہے ، کہ اسلام میں جزیہ اور مناسب شرائط کے ساتھ مصالحت کا اصول بھی مسلم ہے ، اور ان دونوں صورتوں پر بھی جنگ ختم ہو جاتی ہے ، لیکن ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ صرف اُس وقت شروع کی جائے گی ، جب کہ لوگ دعوتِ اسلام قبول کر لیں ۔ راقم سطور کے نزدیک اس کا جواب یہ ہے ، کہ ان احادیث کا مقصد اور موضوع ، جنگ کو روک دینے اور اُس کو ختم کر دینے کی صورتیں بتلانا نہیں ہے ، بلکہ ان ارشادات میں حضور ﷺ کا مطمح نظر صرف دو چیزوں کو واضح کرنا ہے ، ایک یہ کہ ہماری جنگ کی غایت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ لوگ اللہ ہی کی عبادت کرنے لگیں اور اس کی متعین کی ہوئی سیدھی راہ پر چلنے لگیں ، یعنی دعوتِ اسلام کو قبول کر لیں ، اور دوسرے یہ کہ جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں گے ، اُن کے جان و مال کو ہماری طرف سے قطعی امن ہو گا ، بلکہ حقوق اور ذمہ داریوں میں وہ دوسرے مسلمانوں کے بالکل مساوی ہوں گے ۔ رہا جزیہ یا کاص حالات میں کاص شرائط کے ساتھ مصالحت ، سو اگرچہ یہ بھی جنگ ختم کر دینے کی صورتیں ہیں ، لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ اسلامی جنگ کی اصل غایت نہیں ہیں ، بلکہ چونکہ ان کے ذریعے اصل مقصد یعنی دعوتِ اسلام کے لئے ایک پر امن راہ کھل جاتی ہے ، اس لئے ان پر جنگ روک دی جاتی ہے ۔

【26】

ایمان و اسلام کی چند ظاہری نشانیاں

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جو کوئی ہماری سی نماز پڑھے ، اور ہمارے قبلہ کی طرف رُخ کرے ، اور ہمارا ذبیحہ کھائے ، پس یہ وہ مسلم ہے جس کے لئے اللہ کی امان ہے اور اللہ کے رسول کی امان ہے ، سو تم اللہ کے عہد نہ توڑو ، اس کی امان کے بارے میں ”۔ (بخاری) تشریح اس حدیث کا مقصد سمجھنے کے لئے یہ حقیقت پیشِ نظر رکھ لینی چاہئے ، کہ حضور ﷺ کے عہدِ مسعود میں جب دعوتِ اسلام طاقت اور قوت کے ساتھ بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی ، تو بکثرت ایسے واقعات پیش آتے تھے کہ بعض لوگ اسلام قبول کر لیتے تھے ، لیکن خاص حالات میں ان کے متعلق اس شبہ کی گنجائش رہتی تھی ، کہ شاید انھوں نے حقیقی طور پر اور دل سے اسلام کو اختیار نہیں کیا ہے ، پس رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا خاص تعلق ایسے ہی لوگوں سے ہے ، اور آپ کا مقصد صحابہ کرامؓ کو یہ جتلانا ہے ، کہ جس شخص میں تم اسلام قبول کرنے کی یہ ظاہری اور موٹی موٹی علامتیں دیکھو ، کہ وہ اسلامی طریقے پر نماز پڑھتا ہے ، اور نماز میں قبلہ مسلمین کی طرف ہی رُخ کرتا ہے ، اور اہل اسلام کا ذبیحہ کھاتا ہے ، تو اس کو مسلمان ہی سمجھو ، اور اس کے جان و مال کو اللہ اور اس کے رسول کی امان میں سمجھو ، یعنی خواہ مخواہ اس قسم کی کسی بدگمانی کی بناء پر کہ اس کے دل میں اسلام نہیں ہے ، بلکہ اس نے صرف منافقانہ طور پر ان اسلامی شعائر کو اختیار کر لیا ہے ، اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرو ، بہر حال اس حدیث کا مقصد اسی بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کرنا ہے ۔ پس بعض لوگوں کا اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالنا مقصدِ حدیث سے ناواقفی اور سخت جاہلانہ گمراہی ہے کہ جس شخص میں اسلام کی یہ ظاہری علامتیں موجود ہوں (یعنی نماز پڑھنا ، قبلہ کی طرف رُخ کرنا اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھانا) پھر خواہ وہ کیسے ہی خلافِ اسلام عقائد و خیالات رکھے ، اور خواہ کیسے ہی کافرانہ و مشرکانہ اعمال کرے ، بہر حال وہ مسلمان ہی رہتا ہے ۔ دراصل اس قسم کے لوگوں سے اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں ہے ، اور ایسے لوگوں کو مسلمان قرار دینے کا مطلب تو یہ ہو گا کہ اسلام صرف ان ظاہری اعمال اور علامات ہی کا نام ہے ، اور ایمان و اعتقاد کی اس میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ، اور ظاہر ہے کہ اسلام کے بارے میں اس سے زیادہ جہالت اور گمراہی کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی ۔

【27】

مسلمان کسی گناہ اور بدعملی کی وجہ سے کافر نہیں ہو جاتا

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “تین باتیں اصولِ اسلام میں داخل ہیں : ایک یہ کہ جو شخص کلمہ لا الہ الا اللہ کا قائل ہو ، اس کے بارے میں زبان کو روکا جائے ، یعنی کسی گناہ کی وجہ سے اُس کی تکفیر نہ کی جائے ، اور کسی بدعملی کی وجہ سے اُس کو خارج از اسلام قرار نہ دیا جائے ۔۔۔ دوسری چیز (اصولِ اسلام میں سے) جہاد ہے ، وہ اُس وقت سے جاری ہے ، جب مجھے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ، اور اُس آخری زمانہ تک جاری رہے گا ، جب کہ اس اُمت کا آخری طبقہ دجال سے جنگ کرے گا (مسلمانوں کے حکمراں خواہ ظالم ہوں یا منصف ، جہاد بہر حال جاری رہے گا) کسی ظالم حکومت کا ظلم اور عادل حکمران کا عدل اس کو ختم نہیں کرے گا ، اور (اصولِ اسلام میں سے تیسری چیز) تقدیر پر ایمان لانا ہے”۔ (ابو داؤد) تشریح اس حدیث میں تین باتوں کو اصولِ اسلام میں سے بتلایا گیا ہے ، اول یہ کہ کسی گناہ اور بدعملی کی وجہ سے کسی ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے ، اور اس کے خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ نہ دیا جائے ، جو کلمہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا قائل ہو ۔ اس کے بارے میں ایک بات تو یہ ملحوظ رکھنے کی ہے کہ کلمہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کے قائل ہونے کا مطلب وہی ہے جو پہلے بھی بار بار بیان کیا جا چکا ہے ، یعنی رسول اللہ ﷺ کی دینی دعوت کو قبول کر کے مسلمان ہو جانا ، پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ عہدِ نبوی میں کلمہ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا قائل ہو جانا ، اسلام قبول کر لینے کا عنوان تھا ، خود ہماری زبان اُردو میں بھی اسی محاورہ کے مطابق “کلمہ پڑھ لینے” مطلب اسلام قبول کر لینا سمجھا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہاں یہ قابلِ لحاظ ہے کہ اس حدیث میں کسی گناہ اور بدعملی کی وجہ سے “کلمہ گو” کی تکفیر سے منع فرمایا گیا ہے ، گویا رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے امت کو اس غلطی اور گمراہی سے بچانے کی کوشش فرمائی ہے ، جس میں معتزلہ اور خوارج مبتلا ہوئے ، وہ صرف معاصی اور بد اعمالیوں کی بناء پر بھی آدمی کو اسلام کو سے خارج قرار دیتے ہین ، اور اہل سنت کا مسلک اس حدیث نبوی کے مطابق یہی ہے کہ کوئی مسلمان صرف اپنی بدعملی اور اپنے معاصی کی وجہ سے اسلام سے نہیں نکلتا اور کافر نہیں ہو جاتا ۔ الغرض حدیث کے اس جز کا مقصد و مدعا یہی ہے ، کہ جب ایک شخص کلمہ پڑھ کر ایمان لے آیا ، اور اسلام کو اس نے اپنا دین بنا لیا ، تو اس کے بعد اگر اس سے گناہ سرزد ہوں ، اور وہ بد اعمالیوں میں مبتلا دیکھا جائے تو صرف عمل کی اس خرابی کی وجہ سے اس کو کافر اور خارج از اسلام نہ قرار دیا جائے ، پس ایسے لوگوں سے اس حدیث کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، جو کسی ایسی چیز کا انکار کر کے خود ایمان و اسلام کے دائرے سے نکل جائیں جس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی شرط ہے ۔ فرض کیجئے کہ کوئی شخص جو کلمہ پڑھ چکا ہے ، اور اپنے کو مسلمان کہتا ہے ، قرآن مجید کے کتاب اللہ ہونے سے منکر ہے ، یا قیامت اور آخرت کا انکار کرتا ہے ، یا خدائی کا یا نبوت کا دعویدار ہے ، تو ظاہر ہے کہ وہ مسلمان نہیں رہے گا ، اور اس کو لازماً کافر اور خارج از اسلام قرار دیا جائے گا ۔ لیکن یہ تکفیر کسی بدعملی اور فسق و فجور کی وجہ سے نہ ہو گی ، بلکہ اصولِ دین کے انکار کی وجہ سے ہو گی ۔ بہر حال ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے وہ ملحوظ رہنا چاہئے ، بعض لوگ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے اس حدیث کو بہت غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اس حدیث میں جہاد کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ : میری بعثت سے لے کر وہ اس وقت تک جاری رہے گا جب کہ میری اُمت کا آخری طبقہ دجال کے خلاف جہاد کرے گا ، کسی ظالم کا ظلم اور منصف کا عدل و انصاف اسکو ختم نہیں کرے گا ۔ اس آخری فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کی حکومت کا نظام غلط ہاتھوں میں ہو اور حکمران غلط قسم کے اور ظالم ہوں ، تب بھی جہاد ساقط نہ ہو گا اور کسی کے لئے یہ عذر کرنا صحیح نہ ہو گا کہ ہم ان غلط کار حاکموں کی ماتحتی میں جہاد نہیں کریں گے ، بلکہ حکومت پر تسلط خواہ اچھوں کا ہو یا بُروں گا بہر حال ان کی ماتحتی میں جہاد کرنا ہو گا ۔

【28】

دین و ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : “ایمان کے ستر سے بھی کچھ اوپر شاخیں ہیں اور ان میں سب سے اعلیٰ اور افضل تو “لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کا قائل ہونا ، یعنی توحید کی شہادت دینا ہے اور ان میں ادنیٰ درجے کی چیز اذیت اور تکلیف دینے والی چیزوں کا راستے سے ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے”۔ تشریح اس حدیث میں ایمان کے شعبوں کے لیے “ستر سے کچھ اوپر” کا جو عدد استعمال کیا گیا ہے ، اس کے متعلق بعض شارحین نے لکھا ہے کہ : “اس سے غالباً صرف کثرت مراد ہے ، اور اہل عرب صرف مبالغہ اور کثرت کے لئے بھی ستر کا لفظ عام طور سے بولتے ہیں ، اور ستر پر “جو کچھ اور” اضافہ اس حدیث میں کیا گیا ہے ، یہ غالباًٍٍ اور زیادہ مبالغہ پیدا کرنے کے لیے ہے (۱) ” ۔۔۔ لیکن بعض حضڑت نے “بِضْعٌ وَسَبْعُونَ” کے لفظ سے خاص عدد ستتر بھی سمجھا ہے ، اس بنیاد پر کہ لفظ بِضْعٌ خاص سات کے عدد کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ، اور پھر ان حضرات نے اپنے اس خیال کے مطابق ایمان کے ان ستتر شعبوں کو متعین کرنے کی بھی کوشش کی ہے (۲) ، لیکن ان میں غور کرنے کے بعد یہی رائے قائم ہوتی ہے کہ یہ محض تخمینے ہیں جن میں بہت کچھ رد و قدح کی گنجائش ہے ، ہے ، اس لیے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کا منشا “بِضْعٌ وَسَبْعُونَ” کے لفظ سے کوئی خاص عدد معین کرنا نہیں ہے ، بلکہ محاورہ عرب کے مطابق صرف کثرت اور بہتات مُراد ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بہت زیادہ شعبے ہیں ۔ اور ایک قرینہ اس کا یہ بھی ہے کہ اگر “بِضْعٌ وَسَبْعُونَ” سے آپ کا مطلب کوئی معین عدد نہیں ہوتا تو پھر آپ اس ابہام و اجمال پر اکتفا نہ فرماتے ، بلکہ اُن کی تفصیل بھی فرماتے ، جیسا کہ موقع اور مقام کا تقاضا تھا ۔ ایمان کے شعبوں سے مُراد وہ تمام اعمال و اخلاق اور ظاہری و باطنی وہ سب احوال ہیں جو کسی دل میں ایمان کے آ جانے کے بعد اُس کے نتیجہ اور ثمرہ کے طور پر اس میں پیدا ہو جانے چاہئیں ، جیسے کہ سرسبز و شاداب درخت میں برگ و بار نکلتے ہیں ، اس طرح گویا تمام اعمالِ خیر و اخلاق حسنہ اور احوال صالحہ ایمان کے شعبے ہین ، البتہ ان کے درجے مختلف ہیں ۔ اس حدیث میں ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ “لا الہ الا اللہ” یعنی توحید کی شہادت کو بتلایا گیا ہے ، اور اس کے مقابلے میں ادنیٰ درجے کی چیز راستے سے تکلیف پہنچانے والی چیزوں کے ہٹانے کو قرار دیا ہے ، اب ان کے درمیان جس قدر بھی اُمور ، خیر کا تصور کیاجا سکتا ہے وہ سب ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں ہیں ، خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ، اور ظاہر ہے کہ ان کا عدد سینکڑوں تک پہنچے گا ۔ حدیث کے آخر میں حیا کے متعلق جو خصوصیت سے یہ فرمایا گیا ہے کہ “وہ ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے” تو اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ جس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا ، اس وقت کسی سے حیا میں کوئی کوتاہی ظاہر ہوئی تھی اس کی اصلاح کے لیے آپ نے یہ خصوصی انتباہ فرمایا ، جیسا کہ صاحبِ حکمت معلمین و مصلحین کا طریقہ ہوتا ہے ، یا حیا کے متعلق خصوصیت سے یہ تنبیہ اس لیے فرمائی گئی ، کہ انسانی اخلاق میں حیا کا مقام نہایت بلند ہے ، اور حیا ہی وہ خصلت ہے جو آدمی کو بہت سے معاصی اور بہت سی برائیوں سے روکتی ہے ، اور اس وجہ سے ایمان اور حیا کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ حیا صرف اپنے ہم جنسوں ہی سے نہیں کی جاتی ، بلکہ سب سے زیادہ جس کی حیا ہم کو ہونی چاہئے وہ ہمارا خالق و پروردگار حق تعالیٰ ہے ، عام لوگ بڑا بے حیا اور بے ادب اُس کو سمجھتے ہیں جو اپنے بڑوں کا پاس لحاظ نہ کرے ، اور ان کے سامنے بے حیائی کے کام اور بُری باتیں کرے ، لیکن فی الحقیقت سب سے بڑا بےحیا وہ بدبخت انسان ہے جو اپنے مولا سے نہیں شرماتا ، اور یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت مجھے اور میرے فعلوں کو بے حجاب دیکھتا اور میری باتوں کو بلا واسطہ سنتا ہے ، اس کے سامنے وہ بُرے کام اور نا روا حرکتیں کرتا ہے ۔ پس اگر آدمی میں حیا کا خُلق پوری طرح بیدار اور کار فرما ہو ، تو نہ صرف یہ کہ اس کے ہم جنسوں کی نظروں میں اس کی زندگی پاکیزہ اور سُتھری ہو گی ، بلکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی معصیات کا صدور بھی بہت کم ہو گا ۔ جامع ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ» قَالُوا: إِنَّا نَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ , فَقَالَ: لَيْسَ ذَالِكَ وَلَكِنَّ الْاِسْتَحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ اَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا حَوَى , وَالْبَطْنَ وَمَا وَعَى , وَتَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَاءَ , فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسے اُس سے حیا کرنی چاہئے مخاطبین نے عرض کیا : الحمد للہ ہم خدا سے حیا کرتے ہین ، آپ نے فرمایا : یہ نہیں ! بلکہ اللہ تعالیہٰ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں اُن سب کی نگہداشت کرو ، اور پیٹ کی اور جو کچھ اُس میں بھرا ہوا ہے اس سب کی نگرانی کرو (یعنی بُرے خیالات سے دماغ کی ، اور حرام و ناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو) اور موت ، اور موت کے بعد قبر میں تمہاری جو حالت ہونی ہے اُس کو یاد رکھو ، جس نے یہ سب کچھ کیا ، سمجھو کہ اللہ سے حیا کرنے کا حق اُس نے ادا کیا ۔ (ترمذی)

【29】

ایمان کے بعض آثار و ثمرات

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ : جب تم کو اپنے اچھے عمل سے مسرت ہو اور برے کام سے رنج و قلق ہو ، تو تم مومن ہو ۔ (مسند احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان کے خاص آثار اور علامات میں سے یہ ہے کہ آدمی جب کوئی نیک عمل کرے ، تو اس کے دل کو فرحت و مسرت ہو اور جب اس سے کوئی برا کام سرزد ہو جائے تو اس کو رنج و غم ہو ، جب تک آدمی کے ضمیر میں یہ حس باقی رہے ، سمجھنا چاہئے کہ ایمانی روح زندہ ہے اور یہ احساس اسکا ثمرہ ہے ۔

【30】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت عباس بن عبد المطلبؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا ہے ، آپ فرماتے تھے کہ ایمان کا مزہ اُس نے چکھا ، اور اس کی لذت اسے ملی ، جو اللہ کو اپنا رب ، اسلام کو اپنا دین ، اور محمدﷺ کو اپنا رسول اور ہادی ماننے پر دل سے راضی وہ گیا ۔ (مسلم) تشریح اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ جس طرح لذیذ اور ذائقہ دار مادی غذاؤں میں ایک لذت ہوتی ہے ، جس کو صرف وہی آدمی پا سکتا ہے جس کی قوتِ ذائقہ کسی بیماری کی وجہ سے ماؤف اور خراب نہ ہوئی ہو ، اسی طرح ایمان میں ایک خاص لذت اور حلاوت ہے ، لیکن وہ اُن ہی خوش قسمت لوگوں کو حاصل ہو سکتی ہے جنہوں نے پوری خوش دلی اور رضائے قلبی کے ساتھ اللہ کو اپنا مالک اور پروردگار ، اور حضرت محمدﷺ کو نبی و رسول اور اسلام کو اپنا دین اور زندگی کا دستور بنا لیا ہو ، اور اللہ کی بندگی ، حضرت محمدﷺ کی اطاعت اور طریقہ اسلام کی پیروی کو اُن کے دل نے اپنا لیا ہو ، یعنی اللہ اور اسلام کے ساتھ اُن کا تعلق محض رسمی اور موروثی یا محض عقلی اور دماغی نہ ہو ، بلکہ اُن کے ساتھ دلی گرویدگی ہو ، اسی حچیث میں “رضا” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، جس کو یہ نصیب نہیں ، یقیناً ایمانی لذت و حلاوت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور اس کا ایمان کامل نہیں ۔

【31】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایمان کی حلاوت اسی کو نصیب ہو گی ، جس میں تین باتیں پائی جائیں گی : ایک یہ کہ اللہ و رسول کی محبت اُس کو تمام ما سوا سے زیادہ ہو ، دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی اس کو محبت ہو صرف اللہ ہی کے لیے ہو ، اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹنے سے اس کو اتنی نفرت اور ایسی اذیت ہو جیسی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث کا مضمون بھی قریب قریب ہی ہے ، جو اس سے پہلی والی حدیث کا تھا ، صرف تعبیر کا تھوڑا سا فرق ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ ایمان کی حلاوت اسی آدمی کو حاصل ہو سکتی ہے جو اللہ و رسول کی محبت میں ایسا سرشار ہو کہ ہر چیز سے زیادہ اس کو اللہ و رسول کی محبت ہو اور اس محبت کا اس کے دل پر ایسا قبضہ اور تسلط ہو کہ اگر کسی اور سے وہ محبت بھی کرے تو اللہ ہی کے لیے کرے اور اللہ کا دین اسلام اُس کو اتنا عزیز اور پیارا ہو کہ اس سے پھرنے اور اس کو چھوڑنے کا خیال اس کے لیے آگ میں گر جانے کے برابر تکلیف دہ ہو ۔

【32】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اس کو اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ میری محبت نہ ہو ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان کی تکمیل جب ہی ہو سکتی ہے اور ایک مسلمان پورا مومن تب ہی ہو سکتا ہے ، کہ دنیا کے تمام دوسرے آدمیوں سے حتیٰ کہ اپنے ماں باپ ، اور اپنی اولاد سے بھی زیادہ اس کو رسول اللہ ﷺ کی محبت ہو ۔ اس سے پہلی حدیث میں تمام ما سوا سے زیادہ اللہ و رسول کی محبت اور اسلام کی محبت کو “حلاوت ایمانی” حاصل ہونے کی شرط بتلایا گیا تھا ، اور اس حدیث میں صرف رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔۔۔ بات یہ ہے کہ اللہ و رسول کی اور اسلام کی محبت میں باہم ایسا تعلق ہے کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہو کر ہرگز نہیں پائی جا سکتیں ، اللہ تعالیٰ سے اور اسلام سے صحیح محبت بغیر رسول کی محبت کے ناممکن ہے ، اور اسی طرح اللہ کی اور اسلام کی محبت کے بغیر رسول اللہ ﷺ کی محبت کو تصور نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ اللہ کے رسول سے جو محبت بحیثیت رسول کے ہو گی ، وہ درحقیقت اللہ ہی کی وجہ سے اور اللہ ہی کے تعلق سے ہو گی ، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام سے بھی پوری محبت ہو گی ، اس لیے اس حدیث میں کمالِ ایمان کی شرط کے طور پر صرف رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ذکر کر دیا گیا ہے لیکن مطلب وہی ہے کہ ایمانی انوار و برکات صرف اُن ہی خوش نصیبوں کو حاصل ہو سکتے ہیں ، جن کے دلوں پر اللہ و رسول کی اور اسلام کی محبت کا ایسا غلبہ ہو کہ دوسری تمام محبتیں اس سے دبی ہوئی ہوں ۔ ان حدیثوں میں اللہ و رسول کی محبت کا جو مطالبہ کیا گیا ہے ، اس کی مراد متعین کرنے میں شارحین حدیث کا کلام کچھ مختلف سا ہو گیا ہے ، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لیے ان کا مطلب و مقصد سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے ، حالانکہ جو حقیقت ان حدیثوں میں بیان کی گئی ہے وہ بالکل صاف اور سادہ ہے ، محبت ایک معروف لفظ ہے ، اور اس کے معنی بھی معروف و معلوم ہیں ، اور وہی یہاں بھی مراد ہیں ، البتہ اللہ و رسول کے ساتھ اہل ایمان کو جو محبت ہوتی ہے وہ ماں باپ اور بیوی بچوں کی محبت کی طرح خونی رشتوں یا دوسرے طبعی اسباب کی وجہ سے نہیں ہوتی ، بلکہ وہ روحانی اور عقلی وجہ سے ہوتی ہے ، اور جب وہ کامل ہو جاتی ہے تو اس کے سوا دوسری وہ تمام محبتیں جو طبعی یا نفسانی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہیں اس سے مغلوب ہو جاتی ہیں ، اور اس بات کو ہر وہ شخص سمجھ سکتا ہے ، جس کو اللہ نے اس کا کوئی حصہ نصیب فرمایا ہو ۔ الغرض ان احادیث میں محبت سے مراد دل کی وہی خاص کیفیت ہے جس کو محبت کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے ، اور اسی کا ہم سے مطالبہ ہے ، اور وہی گویا ہمارے ایمان کی جان ہے ، قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے کہ : وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ ایمان والے سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں ۔(بقرہ : ۲ ، ۱۶۵) اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَؒ۰۰۲۴ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے ماں باپ ، تمہاری اولاد ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، اور تمہارا کنبہ ، قبیلہ اور تمہارا وہ مال و دولت جس کو تم نے محنت سے کمایا ہے ، اور تمہاری وہ چلی ہوئی تجارت جس کی کسد بازاری سے تم ڈرتے ہو ، اور تمہارے رہنے کے وہ اچھے مکانات جو تم کو پسند ہیں (پس اگر دنیا کی یہ محبوب و مرغوب چیزیں) اللہ ، اللہ کے رسول اور اللہ کے دین کی راہ کی جدو جہد سے زیادہ تم کو محبوب ہیں ، تو انتظار کرو ، تا آنکہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور فیصلہ نافذ کرے ، اور یاد رکھو کہ اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے ۔ (توبہ ۲۴:۹) پس قرآن مجید کی اس پُر جلال آیت کا تقاضا اور مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایمان والوں کو اپنی تمام قابلِ محبت چیزوں سے زیادہ ، اللہ و رسول کی اور اس کے دین کی محبت ہونی چاہیے ! اس کے بغیر اللہ کی رضا اور اس کی خاص ہدایت حاصل نہیں ہو سکتی ، اور ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ جس کو یہ دولت نصیب ہو جائے اس کے لیے ایمان کے سارے تقاضوں کا پورا کرنا اور اللہ و رسول کے احکام پر چلنا نہ صرف یہ کہ آسان ہو جاتا ہے بلکہ اس راہ میں جانِ عزیز تک دے دینے میں بھی وہ ایک لذت محسوس کرے گا ، اور اس کے برخلاف جس کے دل پر اللہ و رسول کی محبت کا ایسا غلبہ نہ ہو گا ، اس کے لیے روز مرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہو گی اور جتنا کچھ وہ کرے گا بھی ، تو اُس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابندیاں کی سی ہو گی ، پس اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ، جب تک اللہ و رسول کی محبت دوسری ساری چاہتوں اور محبتوں پر غالب نہ ہو جائے ، ایمان کا اصل مقام نصیب نہیں ہو سکتا ، اور ایمان کی حلاوت حاصل نہیں ہو سکتی ۔

【33】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اس کی ہوائے نفس میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہو جائے ۔ (شرح السنہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ حقیقی ایمان جب ہی حاصل ہو سکتا ہے اور ایمانی برکات تب ہی نصیب ہو سکتی ہیں ، کہ آدمی کے نفسی میلانات اور اس کی جی کی چاہتیں کلی طور پر ہدایاتِ نبوی کے تابع اور ماتحت ہو جائیں۔ “هوى” (یعنی خواہشات نفس) اور “هدى” (یعنی انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی ہدایات) یہی دو چیزیں ہیں جن پر خیر و شر کے سارے سلسلہ کی بنیاد ہے اور جن سے انسانوں کی سعادت یا شقاوت وابستہ ہے ، ہر گمراہی اور بدعملی اتباع ھوی کا نتیجہ ہے جس طرح کہ ہر خیر اور ہر نیکی اتباع ھدیٰ سے پیدا ہوتی ہے ، لہذا حقیقی ایمان جب ہی نصیب ہو سکتا ہے کہ هوى کو (یعنی اپنے نفس کی چاہتوں کو) ھدی کے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایات و تعلیم کے) تابع کر دیا جائے اور جس نے ھدیٰ کو چھوڑ کر ھویٰ کی غلامی اختیار کی اور بجائے ربانی ہدایت کے وہ نفسانی خواہشات کے تابع ہو گیا ، تو گویا خود ہی اس نے مقصدِ ایمان کو پامال کر دیا ۔ قرآن پاک مین ایسوں ہی کے متعلق فرمایا گیا ہے ، کہ انہوں نے خواہشاتِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے : اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ١ؕ (فرقان ۴۳:۲۵) کیا تم نے اُن بدبختوں کو دیکھا ، جنہوں نے اپنے نفس کی خواہشوں کو اپنا معبود بنا لیا ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَؒ۰۰۵۰ (قصص ۵۰:۲۸) جو شخص اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنے جی کی چاہت پر چلے اس سے زیادہ گمراہ اور غلط اور کون ہو سکتا ہے ، اللہ ظالم لوگوں کو اپنی راہ پر نہیں لگاتا ۔

【34】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت انسؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : “تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے” ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان کے اصل مقام تک پہنچنے کے لیے اور اس کی خاص برکتیں حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی خود غرضی سے پاک ہو اور اس کے دل میں اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے اتنی خیر خواہی ہو ، کہ جو نعمت اور جو بھلائی اور بہتری وہ اپنے لیے چاہے ، وہی دوسرے بھائیوں کے لیے بھی چاہے اور جو بات اور جو حال وہ اپنے لیے پسند نہ کرے ، اس کو کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہ کرے ، اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔ اسی حدیث میں ابن حبان کی روایت میں “لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ” کی جگہ “لاَ يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيْقَةَ الْاِيْمَان” روایت کیا گیا ہے ، اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس حدیث میں اور اس جیسی دوسری حدیثوں میں بھی “لاَ يُؤْمِنُ” کے لفظ سے ایمان کی قطعی نفی مراد نہیں ہے ، بلکہ کمال کی نفی مقصود ہے ۔ اور اس طرح ناقص کو کالمعدوم قرار دے کر اس کی نفی کر دینا قریباً ہر زبان کا عام محاورہ ہے ، مثلاً ہماری اردو زبان میں بھی کسی برے اور غلط آدمی کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ “اس میں تو انسانیت ہی نہیں ہے” یا کہہ دیتے کہ “وہ سرے سے آدمی ہی نہیں ہے” ۔ حالانکہ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ اچھا اور معقول آدمی نہیں ہے ۔ پس اسی طرح بہت سی حدیثوں میں بھی ایمان کے نقص کو “لاَ إِيْمَانَ” یا “لاَ يُؤْمِنُ” کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اور تربیت و نصیحت (جو ان حدیثوں کا مقصد ہے) اُس کے لیے یہی طرزِ بیان مناسب تر اور بہتر بھی ہے ۔۔۔ ایسے موقع پر منطقیوں والی موشگافیاں کرنا مزاجِ نبوت سے نا آشنائی کی دلیل اور بڑی ہی بد ذوقی کی بات ہے ۔

【35】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے افضل ایمان کے متعلق سوال کیا (یعنی پوچھا کہ : ایمان کا اعلیٰ اور افضل درجہ کیا ہے ؟ اور وہ کون سے اعمال و اخلاق ہیں جن کے ذریعہ اس کو حاصل کیا جا سکتا ہے) تو آپ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔ یہ کہ : بس اللہ ہی کے لیے کسی سے تمہاری محبت ہو ، اور اللہ ہی کے واسطے بغض و عداوت ہو (یعنی دوستی اور دشمنی جس سے بھی ہو ، صرف اللہ کے واسطے ہو) اور دوسرے یہ کہ اپنی زبان کو تم اللہ کی یاد میں لگائے رکھو ۔ حضرت معاذؓ نے عرض کیا : اور کیا یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا : اور یہ کہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی وہی چاہو ، اور وہی پسند کرو ، جو اپنے لئے پسند کرتے اور چاہتے ہو ، اور ان کے لیے بھی اُن چیزوں کو ناپسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو ۔ (مسند احمد) تشریح حضرت معاذؓ کے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں تین چیزوں کو ذکر فرمایا ہے ، اور بتلایا ہے کہ کامل ایمان جب نصیب ہو گا ، جب کہ یہ تین باتیں پیدا ہو جائیں ۔ ایک اللہ ہی کے لیے دوستی اور دشمنی ، دوسرے زبان کا یادِ الہی میں مشغول رکھنا ، تیسرے بندگانِ خدا کی ایسی خیر خواہی کہ جو اپنے لیے چاہے ، وہ سب کے لیے چاہے اور جو اپنے لیے نہ چاہے وہ کسی کے لیے نہ چاہے ۔

【36】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ ہی کے لیے کسی سے محبت کی اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کی ، اور اللہ ہی کے لیے دیا (جس کو جو کچھ دیا) اور اللہ ہی کے واسطے منع کیا ، اور نہ دیا (جس کو منع کرنا اور نہ دینا عند اللہ بہتر سمجھا) تو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی ۔ (رواہ ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے حرکات و سکنات اور اپنے جذبات کو اسی مرضی الہی کے تابع کر دیا کہ وہ جس سے تعلق جوڑتا ہے اللہ ہی کی رضا کے لیے جوڑتا ہے ، اور جس سے توڑتا ہے اللہ ہی کے لیے توڑتا ہے جس کو دیتا ہے اللہ ہی کے لیے دیتا ہے اور جس کے دینے سے ہاتھ روکتا ہے صرف اللہ ہی کی خوشنودی کے لیے روکتا ہے ، غرض جس کے ایجابی اور سلبی قلبی رجحانات اور جذبات مثلاً محبت اور عداوت ، اور اسی طرح مثبت و منفی اور ظاہری افعال و حرکات مثلاً کسی کو کچھ چینا یا نہ دینا ، یہ سب اللہ ہی کے واسطے ہونے لگیں ، اور بجز رضاء الہی کے کوئی اور محرک اور داعیہ اس کے اعمال و افعال کے لیے نہ رہے ، الغرض تعلق باللہ اور کامل عبدیت کا یہ مقام جس کو حاصل ہو جائے اس کا ایمان کامل ہو گیا ۔

【37】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر غفاریؓ سے فرمایا : “بتلاؤ ایمان کی کون سی دست آویز زیادہ مضبوط ہے ؟” (یعنی ایمان کے شعبوں میں سے کون سا شعبہ زیادہ پائیدار ہے) ابو ذر نےعرض کیا ، کہ “اللہ و رسول ہی کو زیادہ علم ہے” (لہذا حضور ﷺ ہی ارشاد فرمائیں) آپ منے فرمایا : “اللہ کے لیے باہم تعلق و تعاون ، اور اللہ واسطے کی کسی سے محبت اور اللہ ہی کے واسطے کسی سے بغض و عداوت” ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمانی اعمال و احوال میں سب سے زیادہ جاندار اور پائیدار عمل اور حال یہ ہے کہ بندہ کا دنیا میں جس کے ساتھ جو برتاؤ ہو ، خواہ موالات ہو ترکِ موالات ، محبت ہو یا عداوت ، وہ اپنے نفس کے تقاضے سے اور کسی نفسانی جذبہسے نہ ہو ، بلکہصرف اللہ کے لیے اور اسی کے حکم کے ما تحت ہو ۔

【38】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک کہ صاحب ایمان نہ ہو جاؤ اور تم پورے مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم میں باہم محبت نہ ہو ، کیا میں تم کو ایک ایسی بات نہ بتلا دوں ، کہ اگر اس پر عمل کرنے لگو ، تو تم میں باہمی محبت پیدا ہو جائے ، وہ بات یہ ہے کہ تم اپنے درمیان سلام کا رواج پھیلاؤ ، اور اس کو عام کرو ”۔ (رواہ مسلم) تشریح اوپر کی حدیثوں سے معلوم ہوا تھا کہ بندہ کے ایمان کی تکمیل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کو اللہ و رسول کے ساتھ اور ان کے دین کے ساتھ تمام ما سوا سے زیادہ محبت ہو ، اور ان کے سوا جس سے بھی محبت ہو ان ہی کے تعلق سے اور ان ہی کے واسطے ہو ، اور یہ کہ بندہ کا دل خود غرضی سے بالکل پاک صاف ہو ، اور اس کا حال یہ ہو کہ جو اپنے لیے چاہے وہی اللہ کے دوسرے بندوں کے لیے بھی چاہے ، اور جس چیز کو اپنے لیے پسند نہ کرے اس کو کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہ کرے ۔۔۔۔ اب اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والی کسی قوم اور کسی معاشرہ کے ایمان کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اُن میں باہم محبت و مودت ہو ، اگر ان کے دل ایک دوسرے کی محبت سے خالی ہین ، تو سمجھنا چاہیے کہ وہ حقیقتِ ایمان اور اس کے برکات و ثمرات سے بے نصیب ہیں ۔

【39】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ “مسلم وہ ہے جس کی درازیوں اور دست دارزیوں سے مسلمان محفوظ رہیں ، اور مومن وہ ہے جس کی طرف سے اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں لوگوں کو کوئی خوف و خطرہ نہ ہو ”۔ (ترمذی ، نسائی) تشریح اس حدیث میں صرف زبان اور ہاتھ سے ایذا رسانی کا ذکر اس لیے فرمایا گیا ہے کہ بیشتر ایذاؤں کا تعلق ان ہی دو سے ہوتا ہے ، ورنہ مقصد اور مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ لوگوں کو اس سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے ۔ ابن حبان کی اسی حدیث کی روایت میں “مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ” کے بجائے “مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ” وارد ہوا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو تمام بنی نوع انسان کے لیے پُرامن اور بے آزار ہونا چاہئے ۔ لیکن واضح رہے کہ اس حدیث میں جس ایذا رسانی کو منافی اسلام بتلایا گیا ہے ، وہ وہ ہے جو بغیر کسی صحیح وجہ اور معقول سبب کے ہو ، ورنہ بشرطِ قدرت مجرموں کو سزا دینا ، اور ظالموں کی زیادتیوں اور مفسدوں کی فساد انگیزیوں کو بزور دفع کرنا تو مسلمانوں کا فرضِ منصبی ہے ، اگر ایسا نہ کیا جائے ، تو دنیا امن و راحت سے محروم ہو جائے ۔

【40】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

ابو شریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “قسم اللہ کی وہ مومن نہیں ، قسم اللہ کی وہ مومن نہیں ، قسم اللہ کی وہ مومن نہیں ،”۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کون مومن نہیں ؟ آپ نے فرمایا “وہ آدمی جس کے پڑوسی اُس کی شرارتوں اور آفتوں سے خائف رہتے ہوں”۔ (بخاری) تشریح یعنی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک اور ایسا شریفانہ برتاؤ کہ اُن کو ہماری طرف پورا اطمینان رہے ، اور ہماری جانب سے کسی ظلم اور شرارت کا اندیشہ اُن کے دلوں میں نہ رہے ، یہ ایمان کے اُن شرائط اور لوازم میں سے ہے جن کے بغیر ایمان گویا کالعدم ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : وَاَحْسِنْ اِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا (مسند احمد ، ترمذى) اپنے پڑوسی کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو تب تم ایمان والے ہو ۔ ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے : مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِي جَارَهُ (بخارى و مسلم) جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو (اور اس لئے اللہ کی رضا اور آخرت میں فلاح چاہتا ہو) تو اُسے لازم ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو نہ ستائے ۔

【41】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ “وہ شخص مومن نہیں ہے کہ جو خود شکم سیر ہو کر کھائے اور اس کے برابر میں رہنے والا اس کا پڑوسی فاقہ سے ہو ” ۔ تشریح یعنی اپنے پڑوسی کی بھوک اور فاقہ سے بے نیاز اور لاپروا ہو کر اپنا پیٹ بھرنے والا آدمی (اگرچہ وہ ستر پشتوں کا مسلمان ہو) حقیقتِ ایمان سے بے نصیب ہے ، اور سنگدلی اور خود غرضی کی یہ کیفیت شانِ ایمان کے بالکل منافی ہے ۔ (ہم مسلمانوں کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اور عام بندگانِ خدا کے ساتھ جو معاملہ اور برتاؤ ہے اس کو سامنے رکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ان ارشادات کی روشنی میں ذرا ہم اپنے ایمانوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ کی ان احادیث کی رو سے ہمارا مقام کیا ہے اور ہم کہاں ہیں) ۔

【42】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “مسلمانوں میں زیادہ کامل ایمان اُس کا ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں”۔ (ابو داؤد ، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ کمال ایمان کا انحصار حسنِ اخلاق پر ہے ، پس اخلاق میں جو جتنا بلند ہو گا ، اسی قدر اس کا ایمان کامل ہو گا ، یا اسی کو یوں کہہ لیجئے کہ حسنِ اخلاق کمالِ ایمان کا لازمی نتیجہ اور ثمرہ ہے ، لہذا جس شخص کا ایمان جتنا کامل ہو گا ، اسی کی نسبت سے اسکے اخلاق بلند ہوں گے ۔ یہ نہں ہو سکتا کہ کسی شخص کو ایمان کی حقیقت تو نصیب ہو ، لیکن اُس کے اخلاق اچھے نہ ہوں ۔

【43】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “آدمی کے اسلام کی خوبی اور اس کے کمال میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں کا تارک ہو” ۔ (رواہ ابن ماجہ ، ترمذی ، شعب الایمان للبیھقی) تشریح انسان اشرف المخلوقات ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت قیمتی بنایا ہے ، اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کو اس وقت کا اور صلاحیتوں کا جو سرمایا دیا گیا ہے ، وہ اس کو بالکل ضائع نہ کرے ، بلکہ صحیح طور سے اس کو استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ ترقی اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور قُرب حاصل کرے ۔۔۔ یہی دین کی تمام تعلیمات کا حاصل اور لبِ لباب ہے ، اور یہی ایمان و اسلام کا مقصد ہے ، اس لیے جو خوش نصیب یہ چاہے کہ اُس کو ایمان کا کمال حاصل ہو اور اُس کے اسلام کے حسن پر کوئی داغ دھبہ نہ ہو ، تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ کھلے گناہوں اور بداخلاقیوں کے علاوہ تمام فضول اور غیر مفید کاموں اور باتوں سے بھی اپنے کو بچائے رکھے ، اور اپنے وقت اور اپنی تمام خداداد قوتوں اور صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو ، یعنی جو معاد یا معاش کے لحاظ سے ضروری یا مفید ہوں ۔۔۔ یہی اس حدیث کا مطلب ہے ۔ جو لوگ غفلت سے لایعنی باتوں اور بے حاصل چیزوں میں اپنا وقت اوراپنی قوتیں صرف کرتے ہیں ، وہ نادان جانتے نہیں کہ اللہ نے ان کو کتنا قیمتی بنایا ہے ، اور وہ اپنے کیسے بیش بہا خزانہ کو مٹی میں ملاتے ہیں ، اس حقیقت کو جنہوں نے سمجھ لیا ہے ، بس وہی دانا اور عارف ہیں ۔

【44】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “اللہ نے جو پیغمبر بھی مجھ سے پہلے کس امت میں بھیجا تو اس کے کچھ حواری اور لائق اصحاب ہوتے تھے ، جو اس کے طریقے پر چلتے ، اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے ، پھر ایسا ہوتا تھا کہ ان کے نالائق پسماندگان ان کے جانشین ہوتے تھے ، اور ان کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ کہتے تھے اور خود وہ کام نہیں کرتے تھے ، یا مطلب یہ ہے کہ کرنے کے جو کام ، وہ نہیں کرتے تھے ان کے متعلق لوگوں سے کہتے تھے ، کہ ہم کرتے ہیں ، گویا اپنی مشخییت اور اپنا تقدس قائم رکھنے کے لیے وہ جھوٹ بھی بولتے اور جن کاموں کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ، ان کو کرتے تھے (یعنی اپنے پیغمبر کی سنتوں اور اس کے اوامر و احکام پر تو وہ عامل نہ تھے ، مگر وہ معصیات و بدعات جن کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا ان کو خوب کرتے تھے) تو جس نے ان کے خلاف اپنے دست و بازو سے جہاد کیا وہ مومن ہے ، اور جس نے (بدرجہ مجبوری) صرف زبان ہی سے ان کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے ، اور جس نے (جہاد باللسان سے بھی عاجز رہ کر) صرف دل ہی سے ان کے خلاف جہاد کیا (یعنی دل میں ان سے نفرت کی اور ان کے خلاف غیظ و غضب رکھا) تو وہ بھی مومن ہے ، لیکن اسکے بغیر رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں ہے” ۔ تشریح حدیث کا مطلب اور اس کی روح یہی ہے کہ انبیاءؑ اور بزرگان دین کے جانشینوں اور نام لیواؤں میں جو غلط کار اور بدکردار ہوں ، جو دوسروں کو تو اعمالِ خیر کی دعوت دیتے ہوں ، لیکن خود بےعمل اور بد عمل ہوں ، ان کے خلاف حسبِ استطاعت ہاتھ سے یا زبان سے جہاد کرنا اور کم از کم دل میں اس جہاد کا جذبہ رکھنا ایمان کے خاص شرائط اور لوازم میں سے ہے ، اور جو شخص اپنے دل میں بھی اس جہاد کا جذبہ نہ رکھتا ہو ، اس کا دل ایمان کی حرارت اور اس کے سوز سے گویا بالکل ہی خالی ہے ۔۔۔ لَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ کا یہی مطلب ہے ، اور اگلی حدیث میں اسی کو “أَضْعَفُ الْإِيمَانِ” (ایمان کا ضعیف ترین درجہ) فرمایا گیا ہے ۔ ملحوظ رہے کہ اس حدیث میں انبیاء علیہم السلام اور بزرگانِ دین کے ناخلف اور نالائق جانشینوں کے خلاف جہاد کا جو حکم ہے ، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کو درست کرنے کی اور صحیح راستے پر لانے کی کوشش کی جائے اور اگر اس سے مایوسی ہو تو ان کے برے اثرات سے اللہ کے بندوں کو بچانے کے لئے ان کی جھوٹی مشخیت اور ان کے موروثی اثر و اقتدار کو ختم کرنے کی جدو جہد کی جائے ۔

【45】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی تم میں سے کوئی بری اور خلاف شرع بات دیکھے ، تو لازم ہے کہ اگر طاقت رکھتا ہو ، تو اپنے ہاتھ سے (یعنی زور و قوت سے) اس کو بدلنے کی (یعنی درست کرنے کی) کوشش کرے ، اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو ، تو پھر اپنی زبان سے اس کو بدلنے کی کوشش کرے ، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل ہی سے اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے ۔ (مسلم) تشریح اس سے پہلی حدیث میں ایک خاص طبقے کی بدکاری اور بدکرداری کے خلاف حسب استطاعت جدو جہد کو لازمہ ایمان قرار دیا گیا تھا ، اور اس حدیث میں ہر برائی اور ہر شرارت کو روکنے اور اس کو بدل ڈالنے کی بقدر استطاعت سعی و کوشش کا عام حکم فرمایا گیا ہے ، اور اوپر والی حدیث کی طرح یہاں بھی اس کے تین درجے بتلائے گئے ہیں ۔ ۱۔ اگر طاقت و اقتدار حاصل ہو اور اس کے ذریعہ اس برائی کو روکا جا سکتا ہو ، تو طاقت استعمال کر کے اس کو روکا جائے ۔ ۲۔ اگر طاقت و اقتدار اپنے ہاتھ میں نہیں ہے تو زبانی افہام و تفہیم اور پند و نصیحت ہی سے اس کو روکنے کی اور اصلاح کی کوشش کی جائے ۔ ۳۔ اگر حالات ایسے ناموافق ہیں اور اہلِ دین اس قدر کمزور پوزیشن میں ہیں کہ اس برائی کے خلاف زبان کھولنے کی بھی گنجائش نہیں ہے ، تو آخری درجہ یہ ہے کہ دل میں اس کو برا سمجھا جائے اور اس کو مٹانے اور بدل کا جذبہ دل میں رکھا جائے ، جس کا فطری نتیجہ کم از کم یہ ہو گا کہ دل اللہ تعالیٰ سے اس کے مٹانے کی دعا کرتا رہے گا ، اور تدبیریں بھی سوچا کرے گا ۔ اس آخری درجے کو حدیث میں “أَضْعَفُ الْإِيمَانِ” فرمایا گیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمان کا وہ آخری کمزور درجہ ہے ، کہ اس کے بعد کوئی اور درجہ ایمان کا ہے ہی نہیں ، یہی بات پہلی حدیث میں دوسرے لفظوں میں فرمائی گئی تھی ۔ اس حدیث کی رو سے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جو برائیاں اس کے سامنے اس قسم کی ہوں ، جو زور و قوت سے روکی جا سکتی ہوں ، تو اگر اس کو وہ زور قوت حاصل ہو تو اس کو استعمال کر کے وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کرے ، اور اگر زور قوت ہاتھ سے خالی ہو تو پھر زبانی افہام و تفہیم سے کام لے ، اور اگر حالات میں اس کی بھی گنجائش نہ ہو تو پھر کم از کم دل میں اس کے خلاف جذبہ اور سوزش ہی رکھے ۔

【46】

ایمان کے تکمیلی عناصر اور خاص شرائط و لوازم

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطبہ دیا ہو ، اور اس میں یہ نہ ارشاد فرمایا ہو کہ : “جس میں امانت کی خصلت نہیں اُس میں ایمان نہیں ، اور جس میں عہد کی پابندی نہیں ، اس میں دین نہیں” ۔ (شعب الایمان للبیھقی) تشریح یعنی امانت داری اور عہد کی پابندی سے کسی آدمی کا خالی ہونا دین و ایمان کی حقیقت سے اس کی محرومی اور بے نصیبی کی دلیل ہے ، کیوں کہ امانت اور ایفاء عہد ایمان و اسلام کے لوازم میں سے ہیں ۔۔۔ جیسا کہ پہلے بھی بعض حدیثوں کی تشریح میں لکھا جا چکا ہے ، اس طرح کی حدیثوں کا مقصد و منشا یہ نہیں ہوتا کہ ایسا شخص اسلام کے دائرے سے بالکل نکلا گیا ، اور اب اُس پر بجائے اسلام کے کفر کے احکام جاری ہوں گے ، بلکہ مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص ایمان کی اصل حقیقت اور اس کے نور سے بے نصیب ہے ، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایمان بہت ہی ناقص درجے کا ، اوربے جان ہے ۔

【47】

ایمان میں خرابی ڈالنے والے اخلاق و اعمال

بہز بن حکیم اپنے والد حکیم کے واسطے سے اپنے دادا معاویہ بن حیدہ قشیری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ “غصہ ایمان کو ایسا خراب کر دیتا ہے جیسے کہ ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے”۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح در حقیقت غصہ ایسی ہی ایمان سوز چیز ہے ، جب آدمی پر غصہ سوار ہوتا ہے تو اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے وہ تجاوز کر جاتا ہے ، اور اس سے وہ باتیں اور وہ حرکتیں سرزد ہوتی ہیں جو اُس کے دین کو برباد کر دیتی ہیں اور اللہ کی نظر سے اُس کو گرا دیتی ہیں ۔

【48】

ایمان میں خرابی ڈالنے والے اخلاق و اعمال

اوس بن شرحبیل سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کے لئے ، اور اس کا ساتھ دینے کے لئے چلا اور اُس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے نکل گیا ۔ تشریح جب ظلم کا ساتھ دینا ، اور ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اُس کی کسی قسم کی مدد کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو اسلام سے نکل جانے والا قرار دیا ہے ، تو سمجھا جا سکتا ہے کہ خود ظلم ایمان و اسلام کے کس قدر منافی ہے ، اور اللہ و رسول کے نزدیک ظالموں کا کیا درجہ ہے ۔

【49】

ایمان میں خرابی ڈالنے والے اخلاق و اعمال

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “مومن لعن طعن کرنے والا نہیں ہوتا ، اور نہ فحش گو اور بدکلام ہوتا ہے”۔ (ترمذی و شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ بدکلامی اور فحش گوئی اور دوسروں کے خلاف زبان درازی ، یہ عادتیں ایمان کے منافی ہیں ، اور مسلمان کو ان سے پاک ہونا چاہئے ۔

【50】

ایمان میں خرابی ڈالنے والے اخلاق و اعمال

حضرت صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا ، کہ : کیا مسلمان بزدل ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، “ہاں ,! (مسلمان میں یہ کمزوری ہو سکتی ہے) ” ۔ پھر عرض کیا گیا : کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : “ہاں ,! (مسلمان میں یہ کمزوری ہو سکتی ہے) ” ۔ پھر عرض کیا گیا : کیا مسلمان کذاب (یعنی بہت جھوٹا) ہو سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا “نہیں ! (یعنی ایمان کے ساتھ بیباکانہ جھوٹ کی ناپاک عادت جمع نہیں ہو سکتی ، اور ایمان جھوٹ کو برداشت نہیں کر سکتا) ”۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ بخل اور بزدلی اگرچہ بُری عادتیں ہیں ، لیکن یہ دونوں انسان کی کچھ ایسی فطری کمزوریاں ہیں ، کہ ایک مسلمان میں بھی یہ ہو سکتی ہیں ، لیکن جھوٹ کی عادت میں اور ایمان میں ایسی منافات ہے ، کہ یہ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ۔

【51】

ایمان میں خرابی ڈالنے والے اخلاق و اعمال

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہیں زنا کرتا کوئی زناکار ، جس وقت وہ زنا کرتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو ، اور نہیں چوری کرتا کوئی چور جس وقت وہ چوری کرتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو ، اور نہیں شراب پیتا کوئی شرابی جب کہ وہ شراب پیتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو ، اور نہیں لُوٹتا لُوٹ کا کوئی مال کہ لوگ اُس کی طرف آنکھیں اٹھا اٹھا کر اس کی لوٹ مار کو دیکھتے ہوں جب کہ وہ لوٹتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو ، اور نہیں خیانت کرتا کوئی خیانت کرنے والا جب کہ وہ خیانت کرتا ہے اور وہ اس وقت مومن ہو ، پس (اے ایمان والو! ان منافی ایمان حرکات سے) اپنے کو بچاؤ ! بچاؤ ۔ (بخاری و مسلم) تشریح یہ حدیث بخاری و مسلم ہی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے بھی آئی ہے ، اور اس میں زنا ، چوری ، شراب نوشی ، لوٹ مار اور خیانت کے علاوہ قتل ناحق کا بھی ذکر ہے ، یعنی اس میں ان الفاظ کا اور اضافہ ہے : “وَلَا يَقْتُلُ حِينَ يَقْتُلْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ ” (یعنی نہیں قتل کرتا کوئی قتل کرنے والا کسی کو جب کہ وہ قتل کرتا ہے ، اور وہ اس وقت مومن ہو)۔ (بخاری و مسلم) تشریح ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ زنا ، چوری ، شراب نوشی ، قتل و غارت گری ، اور خیانت ، یہ سب حرکتیں ایمان کے قطعاً منافی ہیں ، اور جس وقت کوئی شخص یہ حرکتیں کرتا ہے اُس وقت اس کے دل مین ایمان کا نور بالکل نہیں رہتا ، یہ مطلب نہیں ہے ، کہ وہ اسلام کے دائرہ سے بالکل نکل کر کافروں مین شامل ہو جاتا ہے ۔۔۔ خود امام بخاریؒ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے : لَا يَكُوْنُ هَذَا مُؤْمِنًا تَامًّا وَلَا يَكُوْنُ لَهُ نُوْرُ الْاِيْمَانِ (صحيح البخارى كتاب الايمان) ان گناہوں کا کرنے والا جس وقت کہ یہ گناہ کرتا ہے اُس وقت وہ پورا مومن نہیں ہوتا ، اور اس میں ایمان کا نور نہیں رہتا ۔ اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ ایمان دل کی جس خاص کیفیت کا نام ہے ، وہ اگر جاندار اور بیدار ہو ، اور دل اُس کے نور سے روشن ہو تو ہرگز آدمی سے ایسا کوئی گناہ نہیں ہو سکتا ، ایسے ناپاک گناہوں کے لیے آدمی کا قدم اس وقت اٹھ سکتا ہے جب کہ دل میں ایمان کی شمع روشن نہ ہو ، اور وہ خاص ایمانی کیفیت غائب ہو گئی ہو ، یا کسی وجہ سے بے جان اور مضمحل ہو گئی ہو جو آدمی کو گناہوں سے بچانے والی طاقت ہے ۔ بہر حال حدیث پڑھنے والے کو یہ اصولی بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اس قسم کی حدیثیں جن میں خاص خاص بداعمالیوں اور بداخلاقیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے ، کہ جو لوگ ان کے مُرتکب ہوں ان میں ایمان نہیں ، یا یہ کہ وہ مومن نہیں ، اور اسی طرح وہ ھدیثیں جن میں بعض اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے ، کہ جو شخص ان کا تارک ہو وہ ایمان سے خالی اور بے نصیب ہے ، یا یہ کہ وہ مومن نہیں ہے ، ان کا مقصد و منشا یہ نہیں ہوتا کہ وہ شخص دائرہ اسلام سے بالکل نکل گیا ، اور اب اس پر اسلام کے بجائے کفر کے احکام جاری ہوں گے ، اور آخرت میں اس کے ساتھ ٹھیٹ کافروں والا معاملہ ہو گا ، بلکہ مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص اُس حقیقی ایمان سے محروم اور بے نصیب ہے جو مسلمانوں کی اصلی شان ہے ، اور جو اللہ کو محبوب ہے اور اس کے لیے نحوی ترکیب میں “کاملا” یا “تاما” جیسے الفاظ مقدر ماننے کی بالکل ضرورت نہین ، بلکہ ایسا کرنا ایک قسم کی بدذوقی ہے ، ہر زبان کا یہ عام محاورہ ہے کہ اگر کسی میں کوئی صفت بہت ناقص اور کمزور درجہ کی ہو تو اُس کو کالعدم قرار دے کر اس کی مطلق نفی کر دی جاتی ہے خاص کر دعوت و خطابت اور ترغیب و ترہیب میں یہی طرزِ بیان زیادہ موزوں ، اور زیادہ مفید مطلب ہوتا ہے ۔ مثلاً یہی حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے زنا اور چوری اور خونِ ناحق وغیرہ گناہوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ “ان کا کرنے والا جس وقت یہ ناپاک کام کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا” اگر بجائے اس کے آپ یوں فرماتے کہ “اس وقت اُس کا ایمان کامل نہیں ہوتا” تو اس میں کوئی زور اور وزن نہ ہوتا ، ارو ترہیب و تخویف جو حدیث کا مقصد ہے وہ بالکل فوت ہو جاتا ، یا مثلاً چند صفحے پہلے یہ حدیث گذر چکی ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اکثر خطبات میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ “لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ ” (جس میں امانت نہیں ، اُس میں ایمان نہیں ، اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا دین میں حصہ نہیں) اب اگر بجائے اس کے صریح الفاظ میں یہ فرمایا جاتا کہ “جس میں امانت نہیں وہ مومن کامل نہیں اور جو عہد کا پابند نہٰں وہ پورا دیندار نہیں” تو ظاہر ہے کہ اس میں وہ زور اور اثر بالکل نہ ہوتا ، جو حدیث کے موجودہ الفاظ میں ہے ، بہر حال دعوت و موعظت اور انذار و ترہیب ، جو ان حدیثوں کا اصل مقصد ہے اُس کے لیے یہی طرز بیان صحیح اور زیادہ موزوں و خوبصورت ہے ۔ پس ان حدیثوں کو “کفر کے فتوے” اور فقہ کے “قانونی فیصلے” سمجھنا اور اس بنیاد پر ان گناہوں کے مُرتکبین کو ملّتِ اسلام سے خارج قرار دینا (جیسا کہ معتزلہ اور خوارج نے کیا ہے) ان حدیثوں کے اصل مقصد اور رسول اللہ ﷺ کے طرزِ کلام کی خصوصیات سے ناواقفی اور نا آشنائی کا نتیجہ ہے ۔ (۱)

【52】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چار عادتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ چاروں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے اور جس میں اُن چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اُس کا ھال یہ ہے کہ اُس میں نفاق کی ایک خصلت ہے ، اور وہ اسی حال میں رہے گا ، جب تک کہ اپس عادت کو چھوڑ نہ دے ۔ وہ چاروں عادتیں یہ ہیں کہ جب اُس کو کسی امانت کا امین بنایا جائے ، رتو اُس میں خیانت کرے ، اور جب باتیں کرے تو جھوٹ بولے ، اور جب عہد معاہدہ کرے تو اُس کی خلاف فرزی کرے ، اور جب کسی سے جھگڑا اور اختلاف ہو تو بدزبانی کرے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح حقیقی اور اصلی نفاق ، انسان کی جس بدترین حالت کا نام ہے ، وہ تو یہ ہے کہ آدمی نے دل سے تو اسلام کو قبول کیا نہ ہو (بلکہ دل سے اُس کا منکر اور مخالف ہو) لیکن کسی وجہ سے وہ اپنے کو مومن و مولم ظاہر کرتا ہو ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عبداللہ ابن اُبی وغیرہ مشہور منافقین کا حال تھا ، یہ نفاق دراصل بدترین اور ذلیل ترین قسم کا کفر ہے ، اور ان ہی منافقین کے بارہ میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ، کہ : اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ضرور بالضرور یہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ڈالے جائیں گے ۔ لیکن بعض بُری عادتیں اور بد خصلتیں بھی ایسی ہیں ، جن کو ان منافقین سے خاص نسبت اور مناسبت ہے اور وہ دراصل اُن ہی کی عادتیں اور خصلتیں ہیں ، اور کسی صاحبِ ایمان میں ان کی پرچھائیں بھی نہیں ہونی چاہئے ۔ پس اگر بدقسمتی سے کسی مسلمان میں ان میں سے کوئی عادت ہو تو یہ سمجھا جائے گا کہ اُس میں یہ منافقانہ داعت ہے ، اور اگر کسی میں بدبختی سے منافقوں والی وہ ساری عادتیں جمع ہو جائیں ، تو سمجھا جائے گا کہ وہ شخص اپنی سیرت میں پورا منافق ہے ۔ الغرض ایک نفاق تو ایمان و عقیدے کا نفاق ہے ، جو کفر کی بدترین قسم ہے ، لیکن اُس کے علاوہ کسی شخص کی سیرت کا منافقوں والی سیرت ہونا بھی ایک قسم کا نفاق ہے ، مگر وہ عقیدے کا نہیں بلکہ سیرت اور کردار کا نفاق ہے اور ایک مسلمان کے لئے جس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ کفر و شرک اور اعتقادی نفاق کی نجاست سے بچے ، اُسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ منافقانہ سیرت اور منافقانہ اعمال و اخلاق کی گندگی سے بھی اپنے کو محفوظ رکھے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خصائل نفاق میں سے چار کی ذکر فرمایا ہے : ۱۔ خیانت ، ۲۔ جھوٹ ، ۳۔ عہد شکنی ، ۴۔ بدزبانی ، اور ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو ، اُس کو سمجھنا شاہئے کہ اُس میں ایک منافقانہ خصلت ہے اور جس میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہوں ، وہ اپنی سیرت میں خالص منافق ہے ۔

【53】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس حال میں مرا ، کہ نہ تو اُس نے اور نہ اپنے جی میں اُس کی تجویزیں سوچیں اور تمنا کی ، تو وہ نفاق کی ایک صفت پر مرا ۔ (مسلم) تشریح یعنی ایسی زندگی جس میں دعوائے ایمان کے باوجود نہ کبھی راہ خدا میں جہاد کی نوبت آئے اور نہ دل میں اُس کا شوق اور اُس کی تمنا ہو ، یہ منافقوں کی زندگی ہے ، اور جو اسی حال میں اس دُنیا سے جائے گا وہ نفاق کی ایک صفت کے ساتھ جائے گا ۔

【54】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ : یہ تو منافق والی نماز ہے کہ بےپروائی سے بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ جب وہ زرد ہو گیا ، اور اس کے غروب کا وقت قریب آ گیا تو نماز کو کھڑا ہوا ، اور چڑیا کی طرح چار چونچیں مار کے ختم کر دی ، اور اللہ کا ذکر بھی اُس میں بہت تھوڑا کیا ۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ مومن کی شان تو یہ ہے کہ شوق کی بے چینی سے نماز کے وقت کا منتظر رہے ، اور جب وقت آئے تو خوشی اور مستعدی سے نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس وقت مجھے مالک الملک کے دربارِ عالی کی حضور نصیب ہے ، پورے اطمینان اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے ، اور قیام و قعود اور رکوع و سجود میں خوب اللہ کو یاد کرے ، اور اس سے اپنے دل کو شاد کرے ، لیکن منافقوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز اُن کے لیے ایک بوجھ ہوتی ہے ، وقت آ جانے پر بھی اُس کو ٹالتے رہتے ہیں ، مثلاً عصر کی نماز کے لیے اُس وقت اُٹھتے ہیں جب سورج بالکل ڈوبنے کے قریب ہو جاتا ہے ، اور بس چڑیا کی سی چار چونچیں مار کے نماز پوری کر دیتے ہیں ، اور اللہ کا نام بھی بس برائے نام ہی لیتے ہیں ، پس یہ نماز منافق کی نماز ہے اور جو کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے وہ مخلص مؤمنوں والی نہیں ، بلکہ منافقوں والی نماز پڑھتا ہے ۔

【55】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ : جو شخص مسجد میں ہو ، اور اذان ہو جائے اور وہ اس کے بعد بھی بلا کسی خاص ضرورت کے مسجد سے باہر چلا جائے اور نماز میں شرکت کے لئے واپسی کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو ، تو وہ منافق ہے ۔ (ابنِ ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ منافقانہ طرزِ عمل ہے ، پس ایسا کرنے والا اگر عقیدے کا منافق نہیں ہے تو وہ “منافق عملی” ہے ۔

【56】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل کے برے خیالات اور وسوسوں کو معاف کر دیا ہے ، اُن پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا ، جب تک اُن پر عمل نہ ہو اور زبان سے نہ کہا جائے ۔ تشریح انسان کے دل میں بعض اوقات بڑے گندے خیالات اور خطرات آتے ہیں ، اور کبھی کبھی منکرانہ اور ملحدانہ سوالات و اعتراضات بھی دل و دماغ کو پریشان کرتے ہیں ، اس حدیث میں اطمینان دلایا گیا ہے کہ یہ خیالات اور وساوس جب تک کہ صرف خیالات اور وساوس ہیں ، ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے ، ہاں ! جب یہی خیالات ، خطرات و وساوس کی حد سے بڑھ کر اُس شخص کا قول یا عمل بن جائیں ، تو پھر اُن پر مواخذہ اور محاسبہ ہو گا ۔

【57】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ : “کبھی کبھی میرے دل میں ایسے بُرے خیالات آتے ہیں کہ جل کر کوئلہ ہو جانا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اُن کو زبان سے نکالوں ؟” آپ نے ارشاد فرمایا : “اللہ کی حمد اور اس کا شکر ہے جس نے اُس کے معاملہ کو وسوسہ کی طرف لوٹا دیا ہے” ۔ (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ غمگین اور فکر مند ہونے کی بات نہیں ، بلکہ اس پر اللہ کا شکر کرو کہ اُس کے فضل و کرم اور اُس کی دستگیری نے تمہارے دل کو اُن برے خیالات کے قبول کرنے اور اپنانے سے بچا لیا ہے ، اور بات وسوسہ کی حد سے آگے نہیں بڑھنے دی ہے ۔

【58】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کے اصحاب میں سے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے دریافت کیا کہ ہمارا حال یہ ہے کہ بعض اوقات ہم اپنے دلوں میں ایسے بُرے خیالات اور وسوسے پاتے ہیں کہ اُن کو زبان سے کہنا بھی بہت بُرا اور بہت بھاری معلوم ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا واقعی تمہاری یہ حالت ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : ہاں ! یہی حال ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ : یہ تو خالص ایمان ہے ۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی یہ کیفیت کہ وہ دین و شریعت کے خلاف وساوس سے اتنا گھبرائے اور ان کو اتنا بُرا سمجھے کہ زبان سے ادا کرنا بھی اس کو گراں ہو ، یہ خالص ایمانی کیفیت ہے ۔

【59】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا ؟ (یہاں تک کہ یہی سوال وہ اللہ کے متعلق بھی دل میں ڈالتا ہے ، کہ جب ہر چیز کا کوئی پیدا کرنے والا ہے تو پھر) اللہ کا پیدا کرنے والا کون ہے ؟ پس سوال کا سلسلہ جب یہانتک پہنچے تو چاہئے کہ بندہ اللہ سے پناہ مانگے اور رُک جائے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے وسوسے اور سوالات شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، اور جب شیطان کسی کے دل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ جاہلانہ اور احمقانہ سوال ڈالے تو اُس کا سیدھا اور آسان علاج یہ ہے کہ بندہ شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے ، اور خیال کو اس طرف سے پھیر لے یعنی اس مسئلہ کو قابل تعجہ اور لائق غور ہی نہ سمجھے ، اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اللہ جب اُس ہستی کا نام ہے جس کا وجود اُس کی ذاتی صفت ہے ، اور جو تمام موجودات کو وجود بخشنے والا ہے ، اُس کے متعلق یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔

【60】

بعض منافقانہ اعمال و عادات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ : لوگوں میں ہمیشہ فضول سوالات اور چون و چرا کا سلسلہ جاری رہے گا ، یہاں تک کہ یہ احمقانہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اللہ نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے ، تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ پس جس کو اس سے سابقہ پڑے وہ یہ کہہ کر بات ختم کر دے ، کہ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر میرا ایمان ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ مومن کا رویہ ان سوالات اور وساوس کے بارے میں یہ ہونا چاہئے کہ وہ سوال کرنے والے آدمی سے یا وسوسہ ڈالنے والے شیطان سے اور اپنے نفس سے صاف کہہ دے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان کی روشنی مجھے نصیب ہو چکی ہے ، اس لئے میرے لئے یہ سوال بالکل قابل غور نہیں ، جس طرح کسی آنکھوں والے کے لئے یہ سوال قابلِ غور نہیں کہ سورج میں روشنی ہے یا نہیں ؟

【61】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

سفیان بن عبد اللہ ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ دے عرض کیا ، کہ : “یا رسول اللہ! اسلام کے بارے میں مجھے کوئی ایسی جامع اور شافی بات بتائیے کہ آپ کے بعد پھر میں کسی سے اس بارے میں کچھ نہ پوچھوں” آپ نے ارشاف فرمایا : “کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر پوری طرح اور ٹھیک ٹھیک اُس پر قائم رہو ”۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کو اپنا الہ اور رب مان کر اپنے کو بس اُس کا بندہ بنا دو ، اور پھر اس ایمان اور عبدیت کے تقاضوں کے مطابق ٹھیک ٹھیک چلنا اپنی زنگی کا دستور بنا لو ، بس یہی کافی ہے ۔ یہ حدیث “جوامع الکلم” میں سے ہے ، رسول اللہ ﷺ کے جواب کے ان دو لفظوں میں اسلام کا پورا خلاصہ آ گیا ہے “ایمان باللہ اور اس پر استقامت” ہی اسلام کی غرض و غایت ، بلکہ اُس کی روح ہے ۔ “ایمان باللہ” کا مطلب تو کتاب کے بالکل شروع میں حدیث جبرئیل کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے ، اور استقامت کے معنی ہیں بلا افراط و تفریط اور بغیر کسی کجی اور انحراف کے اللہ کی مقرر کی ہوئی “صراط مستقیم” پر قائم رہنا ، ار ہمیشہ اُس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتے رہنا گویا تمام اوامر و نواہی اور جملہ احکام خداوندی کے صحیح مکمل اور دائمی اتباع کا نام استقامت ہے ، اور ظاہر ہے کہ بندوں کے لیے اس سے آگے کوئی مقام نہیں ہے ، اسی لئے بعض اکابر صرفیہ نے فرمایا ہے : الْاِسْتِقَامَةُ خَيْرٌ مِنْ اَلْفِ كَرَامَةیعنی استقامت ہزاروں کرامتوں سے بہتر اور بالا تر ہے ۔ بہر حال استقامت وہ چیز ہے کہ اس کی تعلیم کے بعد کسی اور سبق کے لینے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور بس وہی انسان کے لیے کافی ہے ، قرآن مجید میں بھی کئی جگہ انسان کی سوادت اور فلاح کو ایمان باللہ اور استقامت ہی سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ اُن میں سے ایک آیت یہ ہے : اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَۚ۰۰۱۳ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۴ (الاحقاف : ۴۶: ۱۳ ، ۱۴) بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہی ہے (اور ہم اسی کے بندے ہیں) اور پھر وہ اس پر مستقیم رہے تو انہیں کوئی خوف و خطر نہیں ، اور نہ اُن کو رنج و غم ہو گا وہ سب جنتی ہیں ، اپنے اعمال کے بدلہ میں وہ جنت ہی میں ہمیشہ رہیں گے ۔ بلکہ “اِرْجَاعُ السُّنَّةِ اِلَى الْكِتَاب ” کے اصول پر کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سفیان بن عبداللہ ثقفی کو یہ جواب شاید ایسی ہی آیات کی روشنی میں دیا ہو گا ۔ (۱)

【62】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

حضرت تمیم داری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین نام ہے “خلوص اور وفاداری” کا ۔ ہم نے عرض کیا کہ “کس کے ساتھ خلوص (۲) اور وفا داری؟” ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ ، اللہ کی کتاب کے ساتھ ، اللہ کے رسول کے ساتھ ، مسلمانوں کے سرداروں ، پیشواؤں کے ساتھ اور اُن کے عوام کے ساتھ (مسلم) تشریح یہ حدیث بھی “جوامع الکلم” میں سے ہے ، امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ کل مقاصدِ دین کو یہ حدیث جامع ہے ، اور اس پر عمل کر لینا گویا دین کے پورے منشا کو ادا کر دینا ہے ، کیوں کہ دین کاکوئی شعبہ اور کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اس حدیث کے مضمون سے باہر رہ گیا ہو ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ، کہ اس حدیث میں اللہ ، کتاب اللہ ، رسول اللہ ، ائمہ امت و پیشوایانِ ملت ، اور عوام مسلمانوں کے ساتھ خلوص و وفاداری کو دین بتلایا گیا ہے ، اور یہی کُل دین ہے ، کیوں کہ اللہ کے ساتھ اخلاص و وفاداری کا مطلب یہ ہے کہ اُس پر ایمان لایا جائے ، ممکن حد تک اُس کی معرفت حاصل کی جائے ، اُس کے ساتھ انتہائی محبت کی جائے ، اُس کی اطاعت و عبادت کی جائے ، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے ، اور مالک و مقتدر جانتے ہوئے اُس سے ڈرا جائے ، غرض پورے اخلاص و وفا کے ساتھ عبدیت کا حق ادا کیا جائے ۔ اور کتاب اللہ کے ساتھ وفاداری یہ ہے کہ اُس پر ایمان لایا جائے ، اُس کا حقِ عظمت ادا کیا جائے ، اُس کا علم حاصل کیا جائے ، اُس کا علم پھیلایا جائے ، اُس پر عمل کیا جائے ۔ علیٰ ھذا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خلوص و وفا یہ ہے کہ اُن کی تصدیق کی جائے ، تعظیم و توقیر کی جائے ، اُن سے ان کی تعلیمات اور ان کی سنتوں سے محبت کی جائے ، اور دل و جان سے اُن کی پیروی و غلامی میں اپنی نجات سمجھی جائے ۔ اور ائمہ مسلمین (یعنی مسلمانوں کے سرداروں اور پیشواؤں ، حاکموں اور رہنماؤں) کے ساتھ خلوص و وفاداری یہ ہے کہ اُن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اُن کی مدد کی جائے ، اُن کے ساتھ نیک گمان رکھا جائے ، اور اگر اُن سے کوئی غفلت اور غلطی ہوتی نظر آئے تو بہتر طریقہ پر اُس کی اصلاح اور درستگی کی کوشش کی جائے ، اچھے مشوروں سے دریغ نہ کیا جائے ، اورع معروف کی حد تک اُن کی بات مانی جائے ۔ اور عام مسلمانوں کے ساتھ خلوص و وفا یہ ہے کہ اُن کی ہمدردی و خیر خواہی کا پورا پورا خیال رکھا جائے ، اُن کا نفع اپنا نفع اور اُن کا نقصان اپنا نقصان سمجھا جائے ، جائز اور ممکن خدمت اور مدد سے دریغ نہ کیا جائے ۔ الغرض علیٰ فرقِ مراتب اُن کے جو حقوق عظمت و شفقت اور خدمت و تعاون کے مقرر ہیں اُن کو ادا کیا جائے ۔ اس تفصیل سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے ، کہ یہ حدیث کس طرح پورے دین کو حاوی ہے اور دین کے تمام شعبوں کو اِن مختصر لفظوں میں کس طرح ادا کر دیا گیا ہے ۔ اور اس پر صحیح طور سے عمل کرنا گویا پورے دین پر عمل کرنا ہے ۔ تقدیر کا ماننا بھی شرطِ ایمان ہے (حدیث جبرئیل کے ضمن میں اور بعض اور حدیثوں میں بھی تقدیر کا ذکر پہلے آچکا ہے ، اور اجمالاً معلوم ہو چکا ہے کہ تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروریات میں سے ہے ، لیکن یہاں تقدیر کے متعلق چند حدیثیں مستقل طور سے ذکر کی جائیں گی ، جن سے اس اہم مسئلہ کی اہمیت اور کچھ تفصیلات بھی معلوم ہوں گی) ۔

【63】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

ابن الدیلمی سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں (مشہور صحابی رسول) ابی بن کعبؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، کہ : تقدیر کے متعلق میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہو گیا ہے ، لہذا آپ اس کے متعلق کچھ بیان فرمائیں ، شاید اللہ تعالیٰ اس خلجان کو میرے دل سے دور کر دے (اور مجھے اس مسئلہ میں اطمینان نصیب ہو جائے) ۔ انہوں نے فرمایا : سنو! اگر اللہ تعالیٰ اپنے زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو عذاسب میں ڈال دے ، تو وہ اپنے اس فعل میں ظالم نہ ہو گا اور اگر وہ ان سب کو اپنی رحمت سے نوازے ، تو اس کی یہ رحمت اُن کے اعمال سے بہتر ہو گی ، (یعنی ان پر یہ اس کا محض فضل و احسان ہو گا ، اُن کے اعمال کا واجب حق نہ ہو گا اور سنو ! تقدیر پر ایمان لانا اس قدر ضروری ہے ، کہ اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا راہِ خدا میں خرچ کر دو ، تو اللہ کے یہاں وہ قبول نہ ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لاؤ ، اور تمہارا پختہ اعتقاد یہ نہ ہو کہ جو کچھ تمہیں پیش آتا ہے ، تم کسی طرح اُس سے چھوٹ نہیں سکتے تھے ، اور جو حالات تم پر پیش نہیں آتے وہ تم پر آ ہی نہیں سکتے تھے (یعنی جو کچھ ، ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر اور مقرر ہو چکا ہے اور اس مقررہ پروگرام میں ذرہ برابر تبدیلی بھی ممکن نہیں ہے) اور اگر تم اس کے خلاف اعتقاد رکھتے ہوئے مر گئے ، تو یقیناً تم دوزخ میں جاؤ گے ۔ ابن الدیلمی کہتے ہیں ، کہ ابی بن کعب سے یہ سننے کے بعد میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو انہوں نے بھی مجھ سے یہی فرمایا ، اس کے بعد میں حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو انہوں نے بھی مجھ سے یہی فرمایا ، پھر میں زید بن ثابت کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو انہوں نے یہی بات رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے طور پر مجھ سے بیان فرمائی (مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن ماجہ) تشریح تقدیر کے متعلق ایک عام وسوسہ جس کو شیطان کبھی کبھی بعض ایمان والوں کے قلوب میں بھی ڈالتا ہے ، یہی ہے کہ جب سب کچھ اللہ ہی کی تقدیر سے ہو رہا ہے تو پھر دنیا میں کوئی اچھے حال میں اور کوئی بُرے حال میں کیوں ہے ، اور آخرت میں کیوں کسی کو جنت میں اور کسی کو دوزخ میں ڈالا جائے گا ! ۔۔۔ اگر کسی صاحب ایمان کے دل میں کبھی یہ وسوسہ آئے ، تو اس کے دفع کرنے کی آسان اور مختصر تدبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوسارے عالم کا خالق و مالک ہونے کی حیثیت سے تمام بندوں اور ساری مخلوقات پرجو کامل اختیار حاصل ہے اُس کی یاد تازہ کر لی جائے ، اور سوچا جائے کہ ایسا لا شریک مالک الملک اور عدم محض سے وجود میں لانے والا خالق و صانع اپنی جس مخلوق کے ساتھ جو معاملہ بھی کرے ، بلا شبہ وہ اُس کا حقدار ہے ، وہ سب کو عذاب میں مبتل کرے ، تو کسی قانون سے اُس کو ظالم نہیں کہا جا سکتا اور اگر سب کو رحمت سے نوازے ، تو یہ رحمت اُس کی محض بخشش ہی ہو گی ، کیوں کہ جو نیکو کار لوگ نیک اعمال کرتے ہیں ان کی توفیق دینے والا ، اور اعمال کرانے والا بھی وہی ہے ۔ بہر حال مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اس خاص حیثیت کو اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ، تو مؤمن کے دل سے تو یہ شبہ بالکل جاتا رہے گا اور اُس کو اطمینان ہو جائے گا ۔ ابن الدیلمی بحمد اللہ چونکہ سچے مؤمن تھے ، اور اللہ تعالیٰ کی اس شان پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ، اس لیے ان صحابہ کرامؓ نے اسی کی یاد ہانی کے ذریعہ ان کے وسوسہ کا علاج کیا اور انہیں یہ بھی بتلادیا کہ تقدیر پر ایمان و اعتقاد اتنا ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص اس عقیدے کے بغیر پہاڑ کے برابر سونا بھی راہِ خدا میں خرچ کرے ،تو اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں ، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہو گا ۔ بہر حال یہ ملحوظ رہنا چاہیے ، کہ اس طریقہ سے صرف اہلِ ایمان ہی کے اس قسم کے وسوسے کا علاج کیا جا سکتا ہے دوسرے لوگوں کی طرف سے تقدیر کے متعلق جو شبہات کئے جاتے ہیں ان کے جواب کا طریقہ دوسرا ہے ، اس کے معلوم کرنے کے لیے علم کلام کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، اور کچھ مختصر اشارات ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ صفحات میں کئے جائیں گے ۔

【64】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

ابو خزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : کیا ارشاد ہے اس بارہ میں کہ جھاڑ پھونک کے وہ طریقے جن کو ہم دکھ درد میں استعمال کرتے ہیں ، یا دوائیں جن سے ہم اپنا علاج کرتے ہین ، یا مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچنے کی وہ تدبیریں جن کو ہم اپنے بچاؤ کے لیے استعمال کرتے ہیں ، کیا یہ چیزیں اللہ کی قضاء و قدر کو لوٹا دیتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سب چیزیں بھی اللہ کی تقدیر سے ہے ۔ (مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ ﷺ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جن مقاصد کے حاصل کرنے کے لیے جو تدبیریں اور کوششیں کرتے ہیں ، اور اس سلسلہ میں جن اسباب کا استعمال کرتے ہیں ، وہ سب بھی اللہ کی قضاء و قدر کے ماتحت ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی یہ مقدر اور مقرر ہوتا ہے کہ فلاں شخص پر فلاں بیماری آئے گی اور فلاں قسم کے جھاڑ پھونک ، یا فلاں دوا کے استعمال سے وہ اچھا ہو جائے گا ۔۔۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس نہایت مختصر دو لفظی جواب سے مسئلہ تقدیر کے متعلق بہت سے شبہات اور سوالات کا جواب ہو جاتا ہے ۔

【65】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تم میں سے ہر ایک کا ٹھکانا دوزخ کا اور جنت کا لکھا جا چکا ہے (مطلب یہ ہے کہ جو شخص دوزخ میں یا جنت میں جہاں بھی جائے گا ، اس کی وہ جگہ پہلے سے مقدر اور مقرر ہو چکی ہے“ ۔ صحابہ نے عرض کیا : تو کیا ہم اپنے اس نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں ، اور سعی و عمل چھوڑ نہ دیں (مطلب یہ ہے کہ جب سب کچھ پہلے ہی سے طے شدہ اور لکھا ہوا ہے تو پھر ہم سعی و عمل کی درد سری کیوں مول لیں) ۔ آپ نے فرمایا ”نہیں ! عمل کئے جاؤ ، کیوں کہ ہر ایک کو اسی کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے ، پس جو کوئی نیک بختوں میں سے ہے تو اُس کو سعادت اور نیک بختی کے کاموں کی توفیق ملتی ہے ، اور جو کوئی بدبختوں میں سے ہے اُس کو شقاوت اور بدبختی والے اعمالِ بد ہی کی توفیق ملتی ہے ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی : فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى، وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى، وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى (والليل) جس نے راہِ خدا میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھ بات کی تصدیق کی (یعنی دعوتِ اسلام کو قبول کیا) تو اُسکو ہم چین و راحت کی زندگی یعنی جنت حاصل کرنے کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل سے کام لیا ، اور مغرور و بے پرواہ رہا ، اور اچھی بات کو یعنی دعوتِ ایمان کو جھٹلایا ، تو اس کے واسطے ہم تکلیف کی اور دشواری والی زندگی (یعنی دوزخ) کی طرف چلنا آسان کر دیں گے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ ہر شخص کے لیے اُس کا آخری ٹھکانہ دوزخ یاجنت میں پہلے سے مقرر ہو چکا ہے ، لیکن اچھے یا برے اعمال سے وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی پہلے سے مقدر ہے اور تقدیر الہی میں یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ جو جنت میں جائے گا ، وہ اپنے فلاں فلاں اعمالِ خیر کے راستے جائے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ اپنی فلاں فلاں بد اعمالیوں کی وجہ سے جائے گا ، پس جنتیوں کے اعمالِ خیر اور دوزخیوں کے لیے اعمالِ بد بھی مقدور و مقرر ہیں ، اور اس لئے ناگزیر ہیں ، حضور ﷺ کے اس جواب کا ما حصل بھی قریب قریب وہی ہے ، جو اوپر والی حدیث میں آپ کے جواب کا تھا ۔ ابھی عنقریب اس مضمون کی کچھ اور وضاحت اور تفصیل بھی کی جائے گی ۔

【66】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”ہر چیز تقدیر سے ہی ، یہاں تک کہ آدمی کا ناکارہ اور ناقابل ہونا ، اور قابل و ہوشیار ہونا بھی تقدیر ہی سے ہے ۔“ تشریح مطلب یہ ہے کہ آدمی کی صفات قابلیت و ناقابلیت ، صلاحیت و عدم صلاحیت ، اور عقلمندی و بےوقوفی وغیرہ بھی اللہ کی تقدیر ہی سے ہیں ، الغرض اس دنیا میں جو کوئی جیسا ، اور جس حالت میں ہے وہ اللہ کی قضاء و قدر کے ماتحت ہے ۔

【67】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ (مسجد نبوی میں بیٹھے) قضاو قدر کے مسئلہ میں بحث مباحثہ کر رہے تھے ، کہ اسی حال میں رسول اللہ ﷺ باہر سے تشریف لے آئے (اور ہم کو یہ بحث کرتے دیکھا) تو آپ بہت برافروختہ اور غضب ناک ہوئے ، یہاں تک کہ چہرہ مبارک سُرخ ہو گیا ، اور اس قدر سُرخ ہوا ، کہ معلوم ہوتا تھا آپ کے رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے ہم سے فرمایا : کیا تم کو یہی حکم کیا گیا ہے ، کیا میں تمہارے لئے یہی پیام لایا ہوں (کہ تم قضاء و قدر کے جیسے اہم اور نازک مسئلوں میں بحث کرو) ۔ خبردار ! تم سے پہلی امتیں اُسی وقت ہلاک ہوئیں جب اُنہوں نے اس مسئلہ میں حجت اور بحث کو اپنا طریقہ بنا لیا ، میں تم کو قسم دیتا ہوں ، میں تم پر لازم کرتا ہوں ، کہ اس مسئلہ میں ہرگز حجت اور بحث نہ کیا کرو ۔ تشریح قضاء و قدر کا مسئلہ بلا شبہ مشکل و نازک مسئلہ ہے ، لہذا مؤمن کو چاہئے کہ اگر یہ مسئلہ اس کی سمجھ میں نہ آئے ، تو بحث اور حجت نہ کرے ، بلکہ اپنے دل و دماغ کو اس پر مطمئن کر لے کہ اللہ کے صادق و مصدوق رسول نے اس مسئلہ کو اسی طرح بیان فرمایا ہے ، لہذا ہم اس پر ایمان لائے ۔ تقدیر کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے ، اس لیے اس کو نازک اور مشکل ہونا ہی چاہئے ، ہمارا حال تو یہ ہے کہ اسی دنیا کے بہت سے معاملات اور بہت سے رازوں کو ہم میں سے بہت سے نہیں سمجھ سکتے ، پس جب اللہ کے سچے پیغمبر (علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے ایک حقیقت بیان فرما دیا (جس کا پوری طرح سمجھ لینا سب کے لیے آسان نہیں ہے) تو جن لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے ، اُن کے لیے بھی ایمان لائے کے بعد صحیح طریق کار یہی ہے کہ وہ اُس کے بارے میں کوئی بحث اور کٹ حجتی نہ کریں ، بلکہ اپنے قول اور اپنے ذہن کی نا رسائی کا اعتراف کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے سخت غصہ اور جلال کی وجہ غالباً یہ تھی ،کہ حضرات آپ کی تعلیم و تربیت میں تھے اور آپ براہِ راست دین حاصل کر رہے تھے ، ان کو جب آپ نے اس غلطی میں مبتلا دیکھا ، تو قلبی تعلق رکھنے والے معلم و مربی کی طرٖح آپ کو سخت غصہ آیا ۔ اس موقع پر آپ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ : ”تم سے پہلی امتیں اسی وقت ہلاک ہوئیں جب کہ انہوں نے اس مسئلہ میں حجت و بحث کا طریقہ اختیار کیا“ ۔ تو یہاں امتوں کے ہلاک ہونے سے مراد غالباً ان کی گمراہی ہے ، قرآن و حدیث میں ہلاکت کا لفظ گمراہی کے لیے بکثرت استعمال ہوا ہے ، اس بنا پر آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اگلی امتوں میں اعتقادی گمراہیاں اُس وقت آئیں ، جب کہ انہوں نے اس مسئلہ کو حجت و بحث کا موضوع بنایا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ امتِ محمدیہ میں بھی اعتقادی گمراہیوں کا سلسلہ اسی مسئلہ سے شروع ہوا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ اس حدیث میں ممانعت حجت اور نزاع سے فرمائی گئی ہے ، پس اگر کوئی شخص تقدیر کے مسئلہ پر ایک مؤمن کی طرح قطعی ایمان رکھتے ہوئے صرف اطمینان قلبی کے لیے اس مسئلہ کے بارے میں کسی اہل سے سوال کرے تو اس کی ممانعت نہیں ہے ۔ اس سے پہلی دو حدیثوں میں خود رسول اللہ ﷺ نے بعض صحابہ کرامؓ کے سوال کے جواب ہی میں اس مسئلہ کے بعض پہلوؤں کو خود سمجھایا ہے ۔

【68】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی ہیں ، اور فرمایا ، کہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ تشریح اس حدیث میں چند چیزیں غور طلب ہیں : اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے تقدیر لکھنے سے کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ تو ہے نہیں ، کہ جس طرح ہم انسان ہاتھ میں قلم لے کے کاغذ یا تختی پر کچھ لکھتے ہیں ، ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے لکھا ہو ، ایسا خیال کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ اقدس میں ناواقفی ہے ، در اصل اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات کی حقیقت اور کیفتیت کے ادراک سے ہم قاصر ہیں ، اور چونکہ اس کے لیے الگ کوئی زبان اور لغت نہیں ہے ، اس لئے مجبوراً انہیں الفاظ سے اس کے افعال و صفات کی تعبیر کرتے ہیں جو دراصل ہمارے افعال و صفات کے لئے وضع کئے گئے ہیں ، ورنہ اُسکے اور ہمارے افعال و صفات کی حقیقت اور کیفیت میں اتنا ہی فرق ہے ، جتنا کہ اس کی عالی ذات اور ہماری ذاتوں میں ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس حدیث میں جس کتابت تقدیر کا ذکر کیا گیا ہے ، اس کی حقیقت اور نوعیت کیا ہے ، علاوہ ازیں یہ بھی واقعہ ہے کہ عربی زبان میں کسی چیز کے طے کر دینے اور معین و مقرر کر دینے کو بھی کتابت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید میں اسی معنی کے اعتبار سے روزہ کی فرضیت کو “كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ” سے اور قصاص کے حکم کو “كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ”سے تعبیر کیا گیا ہے ، پس اگر حدیث مذکور میں بھی کتابت سے یہی مراد ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں معین کیں ، اور جو کچھ ہونا ہے اُس کو مقرر فرمایا ۔ (۱) اس معنی کا ایک قرینہ یہ بھی ہے ، کہ بعض روایات میں بجائے ”کُتِبَ“ کے ”قَدَّرَ“ کا لفظ بھی آیا ہے ۔ اس موقع پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے ، کہ کتابت تقدیر کے سلسلے کی بعض غیر معتبر روایتوں میں قلم اور لوح وغیرہ سے متعلق جو تفصیلات نقل کی گئی ہیں ، وہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی صحیح احادیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔(۲) دوسری بات اس حدیث سے متعلق یہ بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ پچاس ہزار برس سے مراد بہت طویل زمانہ بھی ہو سکتا ہے ، عربی زبان اور عربی محاورے میں یہ استعمال شائع ذائع ہے ۔ حدیث کے آخر میں فرمایا گیا ہے ، کہ : ”جس طرح ہماری قوتِ خیالیہ میں ہزاروں چیزوں کی صورتیں ، اور ان کے متعلق معلومات جمع رہتی ہیں ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عرش کی قوتوں میں سے کسی خاص قوت میں (جس کو ہماری قوتِ خیالیہ کے مشابہ سمجھنا چاہیے) “ تمام مخلوقات اور ان کے تمام احوال اور حرکات و سکنات کو ، غرض جو کچھ عالم وجود میں آنے والا ہے اس سب کو عرش کی اس قوت میں ثبت فرما دیا ، گویا دنیا کے پردے پر جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ سب عرش کی اس قوت میں اسی طرح موجودہ محفوظ ہے جس طرح ہمارے خیال میں لاکھوں صورتیں اور ان کے متعلق معلومات ہوتے ہیں ۔ شاہ صاحبؒ کے نزدیک تمام مخلوقات کی تقدیر لکھنے سے یہی مراد ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔

【69】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے صادق و مصدوق پیغمبر ﷺ نے ہم سے بیان فرمایا : ”تم میں سے ہر ایک کا مادہ تخلیق اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس روز تک نطفہ کی شکل میں جمع رہتا ہے (یعنی پہلے چلہ میں کوئی غیر معمولی تغیر نہیں ہوتا ، صرف خون میں کچھ غلظت آ جاتی ہے ، اس کو ”نطفہ“ کہا گیا ہے ۔ (۱) پھر اس کے بعد اتنی ہی مدت منجمد خون کی شکل میں رہتا ہے ، پھر اتنے ہی دنوں وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے (اور اسی مدت میں اعضاء کی تشکیل اور ہڈیوں کی بناوٹ بھی شروع ہو جاتی ہے) پھر اللہ تعالیٰ (مندرجہ ذیل) چار باتیں لے کر ایک فرشتہ کو بھیجتا ہے ، یہ فرشتہ اس کے اعمال اس کی مدت عمر اور وقت موت ، اور س کا رزق لکھتا ہے ، اور یہ کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ، پھر س میں روح ڈالی جاتی ہے ۔ پس قسم اُس ذات کی جس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جنتیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، پھر نوشتہ تقدیر آگے آ جاتا ہے ، اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے ، اور انجام کار دوزخ میں چلا جاتا ہے اور (اسی طرح کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ) تم میں سے کوئی دوزخیوں کے سے عمل کرنے لگتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، پھر نوشتہ تقدیر آگے آ جاتا ہے اور وہ جنتیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور جنت میں پہنچ جاتا ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث میں دو مضمون بیان فرمائے گئے یہں ، شروع میں تو تخلیق انسانی کے ان چند مرحلوں کا ذکر کا ذکر ہے جس سے انسان نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے ، (اور غالباً ان مرحلوں کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پر پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے ، جس میں اس کے اعمال ، اس کی مدتِ حیات اور وقتِ موت ، اور روزی اور نیک بختی یا بد بختی کی تفصیل ہوتی ہے ، حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے ، کہ حضور ﷺ کا کاص منشاء اسی نوشتہ کے متعلق یہ بیان فرمانا ہے ، کیہ یہ ایسا قطعی اور اٹل ہوتا ہے کہ ایک شخص جو اس نوشتہ میں دوزخیوں میں لکھا ہوتا ہے ، بسا اوقات وہ ایک مدت تک جنتیوں کی سی پاکبازانہ زندگی گزارتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ جنت سے بہت ہی قریب ہوتا جاتا ہے لیکن پھر ایک دم اُس کے رویہ میں تبدیلی ہوتی ہے ، اور وہ دوزخ میں لے جانے والے بُرے اعمال کرنے لگتا ہے ، اور اسی حال میں مر کر بالآخر دوزخ میں چلا جاتا ہے ، اور اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی جو فرشتہ کے نوشتہ میں اہل جنت میں لکھا ہوتا ہے ، وہ ایک عرصہ تک دوزخیوں کی سی زندگی گزارتا رہتا ہے ، اور دوزخ کے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان گویا ایک ہاتھ سے زیادہ فاصلہ نہیں رہتا لیکن پھر ایک دم وہ سنبھل جاتا ہے ، اور اہلِ جنت کے اعمالِ صالحہ کرنے لگتا ہے ، اور اسی حال میں مر کر جنت میں چلا جاتا ہے ۔ اس حدیث کا خاص سبق یہ ہے کہ کسی کو بد اعمالیوں میں مبتلا دیکھ کر اس کے قطعی دوزخی ہونے کا حکم نہ لگانا چاہئے ، کیا معلوم زندگی کے باقی حصے میں اس کا رخ اور رویہ کیا ہونے والا ہے ، اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آج اعمالِ خیر کی توفیق کسی کو مل رہی ہے تو اس پر اس کو مطمئن نہ ہو جانا چاہئے ، بلکہ برابر حسن خاتمہ کے لیے فکر مند رہنا چاہیے ۔

【70】

ایمان و اسلام کا خلاصہ اور اس کا عطر

حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”بنی آدم کے تمام قلوب اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ، ایک دل کی طرح ، وہ جس طرح (اور جس طرف) چاہتا ہے اس کو پھیر دیتا ہے“۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اے دلوں کے پھیرنے والے ، ہمارے دل اپنی اطاعت وبندگی کی طرف پھیر دے “۔ تشریح ابھی اوپر بتلایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات کو سمجھنے کے لئے چوں کہ الگ کوئی زبان نہیں ہے ، اس لئے مجبوراً اس کے لئے بھی ان ہی الفاظ و محاورات کا استعمال کیا جاتا ہے ، جو دراصل انسانی افعال و صفات کے لیے وضع کئے گئے ہیں ، چنانچہ اس حدیث میں جو کہا گیا ہے ، کہ بنی آدم کے قلوب اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ، تو اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کے اختیار اور اس کے قبضہ تصرف میں تصرف میں ہیں ، وہی جدھر چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے ۔ اور حدیث کی یہ تعبیر بالکل ایسی ہے جیسے کہ ہمارے محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص تو بالکل میری مٹھی میں ہے ۔ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ بالکل میرے اختیار میں ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمارے دلوں کو بھی اللہ ہی جدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے ۔ مندرجہ بالا حدیثوں سےتقدری کے متعلق چند باتیں معلوم ہوئیں : ۱۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کی تقدیریں مقدر فرما دیں ، اور جو کچھ ہونا ہے گویا وہ سب بالتفصیل لکھ دیا ۔ ۲۔ انسان جب رحم مادر میں ہوتا ہے اور اس پر تین چلے گزر جاتے ہیں ، اور نفخ روح کا وقت آتا ہے تو اللہ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ اس کے متعلق چار باتیں لکھتا ہے ۔اس کی مدتِ عمر ، اس کے اعمال ، اس کا رزق اور اس کا نیک بخت یا بدبخت ہونا ۔ ۳۔ ہمارے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ دراصل تقدیر الہی کے یہ مختلف درجےاور مختلف مظاہر ہیں ، اور حقیقی ازلی تقدیر ان سے سابق ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تقدیر الہی کے ان مختلف مدارج اور مظاہر کو بہت سلجھا کر بیان فرمایا ہے ، ذیل میں ہم ان کے کلام کا خلاصہ درج کرتے ہیں : تقدیر کے مختلف مدارج ۱۔ ازل میں جب کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ بھی نہ تھا ، زمین و آسمان ، ہوا پانی ، عرش و کرسی میں سے کوئی چیز بھی پیدا نہ کی گئی تھی (كَاَنَّ اللهُ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْئٌ) تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو بعد میں پیدا ہونے والی اس ساری کائنات کا پورا پورا علم تھا ۔ پس اس دور ازل ہی میں اس نے ارادہ اور فیصلہ کیا ، کہ اس تفصیل اور ترتیب کے مطابق جو میرے علم میں ہے ، میں عالم کو پیدا کروں گا اور اس میں یہ یہ واقعات پیش آئیں گے ۔ الغرض آئندہ وجود میں آنے والے کے متعلق جو تفصیل و ترتیب اس کے ازلی علم میں تھی ، اس نے ازل ہی میں طے فرمایا ، کہ میں اس سب کو وجود میں لاؤں گا ۔ پس یہ طے فرمانا ہی تقیر کا پہلا مرتبہ اور پہلا ظہور ہے ۔ ۲۔ پھر ایک وقت آیا ، جب کہ پانی اور عرش پیدا کئے جا چکے تھے ، مگر زمین و آسمان پیدا نہ ہوئے تھے ۔ (بلکہ حدیث نمبر ۶۸ کی تصریح کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار برس پہلے) اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں پہلی ازلی تقدیر کے مطابق لکھ دیں ۔ (جسکی حقیقت حضرت شاہ ولی الہ کے نزدیک یہ ہے کہ عرش کی قوتِ خیالیہ میں تمام مخلوق کی تفصیلی تقدیر منعکس کر دی اور اس طرح عرش اس تقدیر کا حامل ہو گیا) یہ تقدیر کا دوسرا درجہ اور دوسرا ظہور ہوا ۔ ۳۔ پھر ہر انسان کی تخلیق جب رحم مادر میں شروع ہوتی ہے ، اور تین چلے گزر جانے پر جب اُس میں روح ڈالنے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ اللہ تعالیٰ ہی سے علم حاصل کر کے اس کے متعلق ایک تقدیری نوشتہ مرتب کرتا ہے ، جس میں اس کی مدتِ حیات ، اعمال ، رزق اور شقاوت یا سعادت کی تفصیل ہوتی ہے ، یہ نوشتہ تقدیر کا تیسرا درجہ اور تیسرا ظہور ہے ۔ ۴۔ پھر انسان جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے وہ اس کو کرتا ہے ، جیسا کہ حدیث نمبر ۷۰ میں فرمایا ، کہ انسانوں کے سب دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں ، وہ جدھر چاہتا ہے انہیں پھیرتا ہے ، پس یہ تقدیر کا چوتھا درجہ اور چوتھا ظہور ہے ۔ اگر اس تفصیل کو ملحوظ رکھا جائے تو تقدیر کے سلسلہ کی مختلف احادیث کے مطالب و محامل کے سمجھنے میں ان شاء اللہ مشکل پیش نہ آئے گی ۔ مسئلہ تقدیر سے متعلق بعض شبہات کا ازالہ بہت سے لوگوں کو کم فہمی سے تقدیر کے متعلق جو شبہات ہوتے ہیں ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً اُن کے متعلق بھی کچھ عرض کر دیا جائے ۔ اس مسئلہ میں مندرجہ ذیل تین اشکال مشہور ہیں ۔ اول ۔۔۔یہ کہ دنیا میں اچھا بُرا جو کچھ ہوتا ہے ، اگر یہ سب اللہ ہی کی تقدیر سے ہے ، اور اللہ ہی نے اس کو مقدر کیا ہے تو پھر اچھائیوں کے ساتھ تمام بُرائیوں کی ذمہ داری بھی (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ پر آئے گی ۔ دوسرا ۔۔۔ یہ کہ جب سب کچھ پہلے سے من جانب اللہ مقدور ہو چکا ہے ، اور اس کی تقدیر اٹل ہے ، تو بندے اسی کے مطابق کرنے پر مجبور ہیں ، لہذا انہیں کوئی جزا سزا نہ ملنی چاہئے ۔ تیسرا ۔۔۔ شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ ہونا ہے جب وہ سب پہلے سے مقدر ہی ہو چکا ہے اور اس کے خلاف کچھ ہو ہی نہیں سکتا ہے ، تو پھر کسی مقصد کے لئے کچھ کرنے دھرنے کی ضرورت ہی نہیں لہذا دنیا یا آخرت کے کسی کام کے لیے محنت اور کوشش فضول ہے ۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا ، کہ یہ تینوں شبہے تقدیر کے غلط اور ناقص تصور سے پیدا ہوتے ہیں ۔ عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ کی تقدیر اس کے علم ازلی کے مطابق ، اور اس کارخانہ عالم میں جو کچھ جس طرح اور جس صفت کے ساتھ اور جس سلسلہ سے ہو رہا ہے وہ بالکل اسی طرح ، اور اسی صفت اور اسی سلسلہ کے ساتھ اس کے علم ازلی میں تھا ، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدر فرما دیا ہے ۔ اور ہم میں سے جو شخص بھی اپنے اعمال و افعال پر غور کرے گا ، وہ بغیر کسی شک شبہ کے اس حقیقت کو محسوس کرے گا کہ اس دنیا میں ہم جو بھی اچھے یا برے عمل کرتے ہیں ، وہ اپنے ارادے اور اختیار سے کرتے ہیں ، ہر کام کے کرنے کے وقت اگر ہم غور کریں تو بدیہی اور یقینی طور پر محسوس ہو گا کہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ چاہیں تو اس کو کریں اور چاہیں تو نہ کریں ، پھر اس قدرت کے باوجود ہم اپنے خداد ارادے اور اختیار سے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اسی فیصلے کے مطابق عمل ہوتا ہے پس اس عالم میں جس طرح ہم اپنے ارادہ اور اختیار سے اپنے تمام کام کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کو ازل میں اسی طرح ان کا علم تھا اور پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مقدر فرمایا اور اس پورے سلسلے کے وجود کا فیصلہ فرما دیا ۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے صرف ہمارے اعمال ہی کو مقدر نہیں فرمایا ہے بلکہ جس ارادہ اور اختیار سے ہم عمل کرتے ہیں وہ بھی تقدیر میں آ چکا ہے ، گویا تقدیر میں صرف یہی نہیں ہے ، کہ فلاں شخص فلاں اچھا یا بُرا کام کرے گا ، بلکہ تقدیر میں یہ پوری بات ہے ، کہ فلاں شخص اپنے ارادہ و اختیار سے ایسا کرے گا ، پھر اس سے یہ نتائج پیدا ہوں گے ، پھر اس کو یہ جزا یا سزا ملے گی ۔ الغرض ہم کو اعمال میں جو ایک گونہ خود اختیاری اور خود ارادیت حاصل ہے ، جس کی بناء پر ہم کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں ، وہ بھی تقدیر میں ہے ، اور ہمارے اعمال کی ذمہ داری اسی پر ہے ، اور اسی کی بناء پر انسان مکلف ہے ، اور اسی پر جزا و سزا کی بنیاد ہے ۔ بہر حال تقدیر نے اس خود اختیاری اور خود ارادیت کو باطل اور ختم نہیں کیا ، بلکہ اس کو اور زیادہ ثابت اور مستحکم کر دیا ہے ، لہذا تقدیر کی وجہ سے نہ تو ہم مجبور ہیں ، اور نہ ہمارے اعمال کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے ۔ ایسے ہی جن مقاصد کے لئے ہم جو کوششیں اور جو تدبیریں اس دُنیا میں کرتے ہیں ، تقدیر میں بھی ہمارے ان مقاصد کو ان ہی تدبیروں اور کوششوں سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ الغرض تقدیر میں صرف یہ نہیں ہے کہ فلاں شخص کو فلاں فلاں چیز حاصل ہو جائے گی ، بلکہ جس کوشش اور جس تدبیر سے وہ چیز اس دُنیا میں حاصل ہونے والی ہوتی ہے ، تقدیر میں بھی وہ اسی تدبیر سے بندھی ہوئی ہے ۔ بہر حال جیسا کہ عرض کیا گیا تقدیر میں اسباب و مُسببات کا پورا سلسلہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ اس دنیا میں ہے ۔ پس یہ خیال کرنا کہ تقدیر مٰں جو کچھ ہے وہ آپ سے آپ مل جائے گا ، اور اس بناء پر اس عالم اسباب کی کوششوں اور تدبیروں سے دست بردار ہونا دراصل تقدیر کی حقیقت سے ناواقفی ہے ۔ حدیث نمبر ۶۴ ، ۶۵ میں بعض صحابہؓ کے سوالات کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کا حاصل بھی یہی ہے ۔ الغرض اگر تقدیر کی پوری حقیقت سامنے رکھ لی جائے ، تو ان شاء اللہ اس قسم کا کوئی شبہ بھی پیدانہ ہو گا ۔ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

【71】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

حضرت براء بن عازب سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، کہ آپ نے (ایک سلسلہ کلام میں مردہ کے سوال و جواب اور عالمِ برزخ یعنی قبر کے ثواب و عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے) فرمایا : (اللہ کا مؤمن بندہ اس دنیا سے منتقل ہو کر جب عالم برزخ میں پہنچتا ہے ، یعنی قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تو) اس کے پاس اللہ کے دو فرشتے آتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہیں ، پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ، پھر پوچھتے ہیں ، کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے ، پھر پوچھتے ہیں ، کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (نبی کی حیثیت سے) کھڑا کیا گیا تھا (یعنی حضرت محمد ﷺ) ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے سچے رسول ہیں ، وہ فرشتے کہتے ہیں کہ تمہیں یہ بات کس نے بتلائی ؟ (یعنی ان کے رسول ہونے کا علم کس ذریعہ سے ہوا ؟) وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی (اس نے مجھے بتلایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں) تو میں ایمان لایا ، اور میں نے ان کی تصدیق کی (رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ) مؤمن بندہ کا یہی جواب ہے ، جس کے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو سچی پکی بات (یعنی صحیح عقیدہ اور صحیح جواب) کی برکت سے ثابت رکھے گا ، دنیا میں اور آخرت میں ۔ یعنی وہ گمراہی سے ، اور اس کے نتیجہ میں آنے والے عذاب سے محفوظ رکھے جائیں گے ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مؤمن بندہ فرشتوں کے مذکورہ بالا سوالات کے جب اس طرح ٹھیک ٹھیک جوابات دے دیتا ہے)“ تو ایک ندا دینے والا آسمان سے نداس دیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان سے اعلان کرایا جاتا ہے) کہ میرے بندے نے ٹھیک بات کہی ، اور صحیح صحیح جوابات دئیے ، لہذا اس کے لئے جنت کا فرش کرو ، اور جنت کا اس کو لباس پہناؤ اور جنت کی طرف اس کے لئے ایک دروازہ کھول دو ، چناں چہ وہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے ، اور اس سے جنت کی خوشگوار ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں ، اور جنت میں اس کے لئے منتہائے نظر تک کشادگی کر دی جاتی ہے (یعنی پردے اس طرح اٹھا فئیے جاتے ہیں کہ جہاں تک اس کی نگاہ جائے ، وہ جنت کی بہاروں اور اس کے نظاروں سے لذت اور فرحت حاصل کرتا رہے ۔) (یہ حال تو رسول اللہ ﷺ نے مرنے والے سچے اہل ایمان کا بیان فرمایا) ، اس کے بعد ایمان نہ لانے والے (کافر) کی موت کا ذخر آپ نے کیا ، اور فرمایا : (مرنے کے بعد) اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ، اور اس کے پاس بھی دو فرشتے اسٓتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہین ، اور اس سے بھی پوچھتے ہیں ، کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ (خدا ناشناس) کہتا ہے : ”ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا“ پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ دین تیرا کیا تھا ؟ وہ کہتا ہے کہ ”ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا“ ۔ پھر فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ یہ آدمی جو تمہارے اندر (بحیثیت نبی کے) مبعوث ہوا تھا ، تمہارا اس کے بارے میں کیا خیال تھا ؟ وہ پھر بھی یہی کہتا ہے : ”ہائے ہائے میں کچھ نہیں جانتا“ ۔ (اس سوال و جواب کے بعد) آسمان سے ایک ندا دینے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکارتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا (یعنی اس نے فرشتوں کے سوال کے جواب میں اپنا بالکل انجان اور بے جُرم ہونا ظاہر کیا یہ اس نے جھوٹ بولا ، کیوں کہ واقعے میں وہ اللہ کی توحید کا ، اس کے دین اسلام کا اور اس کے رسول برحق کا منکر تھا) پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی ندا کرے گا کہ اس کے لئے دوزخ کا فرش کرو ، اور دوزخ کا اس کو لباس پہناؤ ، اور اس کے لئے دوزخ کا ایک دروازہ کھول دو (چناں چہ یہ سب کچب کر دیا جائے گا) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ، کہ : ”(دوزخ کے اس دروازے سے) اس کو برابر دوزخ کی گرمی اور دوزخ کی لپیٹیں اور جلانے جھلسانے والی ہوائیں اس کے پاس آتی رہیں گی اور اس قبر اس پر نہایت تنگ کر دی جائے گی ، جس کی وجہ سے (اتنا دباؤ پڑے گا ، کہ) اس کے سینے کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جائیں گی ، پھر اس کو عذاب دینے کے لئے ایک ایسا فرشتہ اس پر مسلط کیا جائے گا ، جو نہ کچھ دیکھے گا ، نہ سنے گا ، اس کے پاس لوہے کی ایسی مونگری ہو گی ، کہ اگر اس کی ضرب کسی پہاڑ پر لگائی جائے تو وہ بھی مٹی کا ڈھیر ہو جائے ، وہ فرشتہ اس مونگری سے اس پر ایک ضرب لگائے گا ، جس سے وہ اس طرح چیخے گا ، جس کو جن و انس کے علاوہ وہ سب چیزیں سنیں گی ، جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہیں ، اس ضرب سے وہ کاک ہو جائے گا ، اس کے بعد اس میں پھر روح ڈالی جائے گی ۔ (مسند احمد ، ابو داؤد) تشریح مرنے کے بعد برزخ (۱)، قیامت ، آخرت چند اصولی باتیں ما بعد الموت کے سلسلہ کی حدیثیں پڑھنے اور اُن کے مطالب سمجھنے سے پہلے چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں ، ان باتوں کے مستحضر کر لینے کے بعد ان حدیثوں کے مضامین کے متعلق وہ وساوس ، اور شبہات ان شاء اللہ پیدا نہ ہوں گے ، جو حقیقت نا شناسی کی وجہ سے بہت سے دلوں میں اس زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ۱۔ انبیاء علیہم السلام کا خاص کام (جس کے لیے وہ مبعوث ہوتے ہیں) ہمیں ان باتوں کا بتلانا ہے ، جن کے ہم ضرورت مند تو ہیں لیکن اپنے عقل و حواس سے بطور خود ہم ان کو نہیں جان سکتے ، یعنی وہ ہماری عقل کی دسترس سے باہر ہیں ۔ ۲۔ انبیاء علیہم السلام کے لیے یقینی علم کا ایک خاص ذریعہ جو دسرے عام انسانوں کے پاس نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کی وحی ہے ، ان کو اسی ذریعہ سے ان چیزوں کا علم ہوتا ہے ، جس کو ہم اپنی آنکھوں کانوں سے اور اپنی عقل و فہم سے دریافت نہیں کر سکتے ، جس طرح دوربین رکھنے والا آدمی بہت دور کی وہ چیزیں دیکھ لیتا ہے ، جن کو عام آدمی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے۔ ۳۔ کسی نبی کو نبی مان لینے ، اور اس پر ایمان لانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم نے اس بات کو تسلیم کر لیا ، اور پورے یقین کے ساتھ ان کو مان لیا اور قبول کر لیا ، کہ وہ ایسی جو بات بتلاتا ہے جس کو ہم خود نہیں جانتے ، اور نہیں دیکھتے ، وہ اللہ کی وحی سے اس کا علم حاصل کر کے ہمیں بتلاتا ہے ، اور وہ سب حرف بحرف صحیح ہے ، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ ۴۔ انبیاء علیہم السلام کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے ، جو عقلاً ناممکن اور محال ہو ، ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری عقل اور ہمارے حواس بطور خود اس کو سمجھ لینے سے عاجز اور قاصر ہوں ، بلکہ ایسا ہونا ضروری ہے ، اگر انبیاء علیہم السلام صرف وہی باتیں بتلائیں جن کو ہم خود ہی غور و فکر سے معلوم کر سکتے ہوں ، تو پھر ان کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ ۵۔ انبیاء علیہم السلام نے مابعد یعنی عالم برزخ (عالمِ قبر) اور عالم آخرت کے متعلق جو کچھ بتلایا ہے اس میں کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو عقلاً ناممکن اور محال ہو ، ہاں ایسی چیزیں ضرور ہیں جن کو ہم اپنے غور و فکر سے از خود نہیں جان سکتے اور اس دنیا میں ان چیزوں کے نمونے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان کو اس طرح سمجھ بھی نہیں سکتے ، جس طرح اس دنیا کی دیکھی بھالی چیزوں کو سمجھ لیتے ہیں ۔ ۶۔ علم کے جو عام فطری ذریعے اور وسیلے ہمیں دئیے گئے ہیں ، مثلاً آنکھ ، ناک ، کان ، عقل و فہم ، ظاہر ہے کہ ان طاقت اور ان کا دائرہ عمل بہت محدود ہے ، اور ہم دیکھتے ہیں کہ جدید آلات کی خارجی مدد سے ان کے ذریعہ بہت سی وہ چیزیں ہمارے علم میں آ جاتی ہیں جن کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا ۔ مثلاً : پانی میں یا خون میں جو جراثیم پائے جاتے ہیں ، اب خوردبین کی مدد سے آنکھ ان کو دیکھ لیتی ہے ، ریڈیو کی مدد سے کان ہزاروں میل دور کی آواز سن لیتے ہیں ، اسی طرح کتابی معلومات کی مدد سے پڑھے لکھے انسان کی عقل اس سے زیادہ سوچ لیتی ہے ، جتنا کہ آنکھ کان کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات کی مدد سے سوچ سکتی تھی ۔ اس تجربے سے معلوم ہوا کہ کسی حقیقت کا صرف اس بنیاد پر انکار کر دینا کہ آج ہم اس کو نہیں دیکھتے ، نہیں سنتے ، یا ہماری عقل اس کو نہیں سمجھتی ، بڑی بے عقلی کی بات ہے ۔ وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ۷۔ انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ایک جسم جو ظاہر ہے اور نظر آتا ہے ، دوسری روھ جو اگرچہ آنکھوں سے نظر نہیں آتی ، لیکن اس کے ہونے کا ہم سب کو یقین ہے ، پھر انسان کے ان دونوں جزوں کا باہمی تعلق اس دنیا میں اس طرح ہے کہ تکلیف و مصیبت ، یا راحت و لذت کی جو کیفیت یہاں آتی ہے وہ براہ راست جسم پر آتی ہے ، اور روح اس سے تبعاً متاثر ہوتی ہے ، مثلاً انسان کو چوٹ لگتی ہے ، وہ زخمی ہوتا ہے ، یا مثلاً وہ کہیں آگ سے جل جاتا ہے تو ظاہر کہ چوٹ اور آگ کا تعلق براہ راست اس کے جسم سے ہوتا ہے ، لیکن اس کے اثر سے روح کو بھی دکھ ہوتا ہے ، اسی طرح کھانے پینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ بھی راہ راست جسم ہی کو ہوتی ہے ، لیکن روح بھی اس سے لذت حاصل کرتی ہے ۔ الغرض اس دنیا میں انسان کے وجود اور اس کے حالات میں گویا جسم اصل ہے اور روح اس کے تابع ہے ، لیکن قرآن و حدیث میں عالمِ برزخ کے متعلق جو کچھ بتلایا گیا ہے اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں معاملہ اس کے برعکس ہوگا ، یعنی اس عالم میں جس پر جو اچھی بری واردات ہو گی وہ براہ راست اس کی روح پر ہو گی ، اور جسم اس سے تبعاً متاثر ہو گا ، اللہ تعالیٰ نے (شاید اسی لیے کہ اس حقیقت کا سمجھنا ہمارے لئے آسان ہو جائے) اس دنیا میں بھی اس کا ایک نمونہ پیدا کر دیا ہے ، اور وہ عالم رؤیا یعنی خواب ہے ، عقل و ہوش رکھنے والا ہر انسان اپنی زندگی میں بار بار ایسے خواب دیکھتا ہے جن میں اس کو بڑی لذت ملتی ہے ، یا بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ لیکن خواب میں یہ لذت یا تکلیف براہ راست در اصل روح کے لیے ہوتی ہے اور جسم تبعاً اس سے متاثر ہوتا ہے یعنی خواب میں آدمی مثلاً جب یہ دیکھتا ہے کہ کوئی لذیذ کھانا کھا رہا ہے ، تو صرف یہی نہیں دیکھتا کہ میری روح ہی کھا رہی ہے ، یا خیالی قوت ہی کھا رہی ہے ، بلکہ اس وقت وہ یہی دیکھتا ہے کہ بیداری کی طرح وہ اپنے اس جسم والے منہ سے کھا رہا ہے جس سے روزانہ کھایا کرتا ہے ۔ اسی طرح خوابمیں اگر وہ یہ دیکھتا ہے کہ کسی نے اس کو مارا ، تو وہ یہ نہیں دیکھتا ، کہ اس کی روح کو مارا گیا ، بلکہ وہ اس وقت یہی دیکھتا ہے کہ مار اس کے جسم پر پڑی ہے اور اس کے جسم پر اس وقت ویسی ہی چوٹ لگی ، جس بیداری میں مار پڑنے سے لگتی ہے ، حالاں کہ واقعہ میں جو کچھ گزرتا ہے وہ خواب میں در اصل روح پر گزرتا ہے اور جسم اس سے تبعاً متاثر ہوتا ہے ، البتہ کبھی کبھی جسم کا یہ تاثر اتنا محسوس ہو جاتا ہے کہ آدمی بیدار ہونے کے بعد جس پر اس کے نشانات اور اثرات پاتا ہے ۔الغرض نیند کی حالت میں اچھے یا برے خواب دیکھنے والے شخص پر جو کچھ گذرتا ہے اس کی نوعیت یہی ہے کہ وہ براہ راست اور اصلی طور پر روح پر گزرتا ہے ، اور جسم پر اس کا اثر تبعاً پڑتا ہے ، اسی لیے خواب دیکھنے والے کے قریب والا آدمی بھی اس کے جسم پر کوئی واردات گزرتے ہوئے نہیں دیکھتا ، کیوں کہ ہم اس دنیا میں کسی انسان کے ان ہی حالات کو دیکھ سکتے ہین جن کا تعلق براہ راست اس کے جسم سے ہو ۔ پس عالم برزخ میں (یعنی مرنے کے بعد سے قیامت تک کے دور میں) اچھے برے انسانوں پر جو کچھ گزرنے والا ہے (جس کی بعض تفصیلات آگے آنے والی حدیثوں میں رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہیں) اس کی نوعیت بھی یہی ہے کہ وہ اصلی طور پر اور براہ راست روح پر گزرے گا اور جسم تبعاسً اس میں شریک ہو گا ، اور عالم رؤیا (خواب) کے تجربات کی روشنی میں اس کو سمجھ لینا کسی سمجھنے والے آدمی کے لئے زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ امید ہے کہ اس دنیا ، اور عالم برزخ کے اس فرق کو جان لینے کے بعد وہ عامیانہ اور جاہلانہ شبہے اور وسوسے پیدا نہ ہوں گے ، جو قبر کے سوال و جواب اور عذاب و ثواب کی حدیثوں کے متعلق بعض ضعیف الایمان اور کم عقل لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں ۔

【72】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ (مرنے کے بعد) بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے ، اور اس کے ساتھ (یعنی اس کے جنازے کے ساتھ آنے والے) واپس چل دیتے ہں ، (اور ابھی وہ اتنے قریب ہوتے ہیں کہ) ان کی جوتیوں کی چاپ وہ سن رہا ہوتا ہے تو اسی وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہیں ، پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ ان کا یہ سوال رسول اللہ ﷺ کے متعلق ہوتا ہے ۔ پس جو سچا مؤمن ہوتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ (میں گواہی دیتا رہا ہوں ، اور اب بھی) میں گواہی دیتا ہوں ، کہ وہ اللہ کےبندے ، اور اس کے رسولِ برحق ہیں ، (یہ جواب سن کے) فرشتے اس سے کہتے ہیں (ایمان نہ لانے کی صورت میں) دوزخ میں جو تمہاری جگہ ہونے والی تھی ، ذرا اس کو دیکھ لو ، اب اللہ نے بجائے اس کے ، تمہارے لئے جنت میں ایک جگہ عطا فرمائی ہے (اور وہ یہ ہے) اس کو بھی دیکھ لو (یعنی دوزخ اور جنت کے دونوں مقام اس کے سامنے کر دئیے جائیں گے) چناں چہ وہ دونوں کو ایک ساتھ دیکھے گا ۔ اور جو منافق اور کافر ہوتا ہے ، تو اسی طرح (مرنے کے بعد) اس سے بھی (رسول اللہ ﷺ) کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اس شخص کے بارےمیں تم کیا کہتے تھے ؟ (اور اس کو کیا اور کیسا سمجھتے تھے ؟) پس وہ منافق اور کافر کہتا ہے کہ میں ان کے بارے میں خود تو کچھ جانتا نہیں ، دوسرے لوگ جو کہا کرتے تھے ، وہی میں بھی کہتا تھا(اس کے اس جواب پر) اس کو کہا جائے گا ، کہ تو نے نہ تو خود جانا اور نہ (جان کر ایمان لانے والوں کی) تو نے پیروی کی ، اور لوہے کے گرزوں سے اس کو مارا جائے گا ، جس سے وہ اس طرح چیخے گا کہ جن و انس کے علاوہ اس کے آس پاس کی ہر چیز اس کا چیخنا سنے گی ۔ (بخاری و مسلم) تشریح پہلی حدیث سے معلوم ہوا تھا ، کہ مرنے والے سے فرشتے تین سوال کرتے ہیں ، اور اس دوسری حدیث میں صرف ایک ہی سوال کا ذکر کیا گیا ہے ، اصل بات یہ ہے کہ یہ سوال چوں کہ باقی دونوں سوالوں پر بھی حاوی ہے ، اور اس کے جواب سے ان دونوں سوالوں کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے ، اس لئے بعض حدیثوں میں صرف اسی ایک سوال کا ذکر کر دیا جاتا ہے ، قرآن و حدیث کا طریق بیان یہی ہے کہ ایک واقعہ کو کبھی تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے اور کبھی صرف اس کے بعض اجزاء ہی بیان کر دئیے جاتے ہیں ۔ یہ اصولی بات پہلے بھی ذکر کی گئی ہے ، اور اب پھر اس کو یاد دلایا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں تصنیفی مقالات نہیں ہیں ، بلکہ عموماً مجلسی ارشادات ہیں ، اور کسی معلم اور مربی کے مجلسی ارشادات میں ایسا ہونا کہ کبھی ایک بات کو پوری تفصیل سے بیان کیا جائے ، اور کبھی اس کے صرف بعض اجزاء کا ذکر کر دیا جائے ، بالکل صحیح اور فطری بات ہے ۔ حضرت انس والی اس دوسری حدیث میں اس سوال جواب کے سلسلے میں قبر کا لفظ بھی آیا ہے اور اسی طرح بعض اور حدیثوں میں بھی قبر کا ذکر ہے ، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ سوال و جواب صرف ان ہی مُردوں سے مخصوص ہے ، جو قبروں میں دفن ہوتے ہیں ، دراصل قبر کا ذکر ان حدیثوں میں صرف اس لئے کر دیا گیا ہے کہ وہاں مُردوں کو قبروں ہی میں دفن کرنے کا عام رواج تھا ، اور لوگ صرف اسی طریقے کو جانتے تھے ، ورنہ اللہ کے فرشتوں کی طرف سے یہ سوال و جواب ہر مُردے والے سے ہوتا ہے ، خواہ اس کا جسم قبر میں دفن کیا جائے ، خواہ دریا میں بہایا جائے ، خواہ آگ میں جلایا جائے ، خواہ گوشت خور جانوروں کے پیٹ میں چلا جائے ۔ اور جیسا کہ اوپر بتلایا جا چکا ہے یہ سب کچھ براہ راست اور اصلی طور سے روح کے ساتھ ہوتا ہے اور جسم خواہ کہیں ہو ، اور کسی حال میں ہو ، وہ تبعاً اس سے متاثر ہوتا ہے ، اور خواب کی مثال اس کے سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔ اور خواب ہی کی مثال سے اس شبہ کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مردہ دو چار دن تک ہمارے سامنے پڑا رہتا ہے اور اس سوال و جواب کی آواز اس کی لاش سے کوئی نہیں سنتا ، اور نہ اس پر عذاب یا ثواب کا کوئی اثر معلوم ہوتا ہے ۔ پس یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ خواب میں ایک آدمی پر سب کچھ گذر جاتا ہے ، وہ بات چیت کرتا ہے ،کھاتا ہے ، پیتا ہے ، لیکن اس کے برابر والوں کو کچھ بھی نہیں نظر آتا ۔ اسی قسم کے عامیانہ اور جاہلانہ شبہوں میں سے قبر کے اس سوال و جواب پر ایک شبہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ قبر میں جانے کے لئے جب کوئی اور راستہ اور کوئی چھوٹے سے چھوٹا روزن بھی نہیں ہوتا ، تو فرشتے اس میں جاتے کس طرح ہیں ؟ یہ شبہ دراصل ان حقیقت ناشناسوں کو ہوتا ہے جو فرشتوں کو شاید اپنی طرح گوشت پوست سے بنی ہوئی مادی مخلوق سمجھتے ہیں ، اصل واقعہ یہ ہے کہ فرشتوں کے کہیں پہنچنے کے لئے دروازے یا کھڑکی کی ضرورت نہیں ، ہماری نگاہیں یا آفتاب کی شعاعیں جس طرح شیشوں میں سے نکل جاتی ہیں اسی طرح فرشتے اپنے وجود کی لطافت اور اللہ کی دی ہوئی قدرت سے پتھروں میں سے بھی پار ہو جاتے ہیں ۔ سبحانہ تعالیٰ شانہ ۔

【73】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ تم میں سے کوئی جب مر جاتا ہے تو ہر صبح و شام اس کے سامنے اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے ، اگر وہ جنتیوں میں سے ہے ، تو جنتیوں کے مقام میں سے (اس کا جو مقام ہونے والا ہوتا ہے وہ ہر صبح و شام اس کے سامنے کیا جاتا ہے ، اور اس کو دکھلایا جاتا ہے) اور اگر وہ مرنے والا دوزخیوں میں سے ہوتا ہے تو (اسی طرح صبح و شام) دوزخیوں کے مقامات میں سے (اس کا مقام اس کے سامنے کیا جاتا ہے) اور کہا جاتا ہے کہ یہ ہونے والا تیرا مستقل ٹھکانا (اور یہ اس وقت ہو گا) جب کہ اللہ تجھے اپنی طرف اٹھائے گا قیامت کے دن ۔ (بخاری و مسلم) تشریح قبر میں روزانہ صبح و شام جنتیوں کو اپنا مقام دیکھ کر جو غیر معمولی لذت و مسرت حاصل ہوا کرے گی ، اور دوزخیوں کو دوزک کو اپنا ٹھکانا دیکھ کر روزانہ صبح شام جو رنج و غم مزید ہوا کرے گا ، اس دنیا میں کوئی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اہل جنت میں شامل فرمائے ۔

【74】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (کہ ان کا حال یہ تھا) کہ جب وہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو بہت روتے ، یہاں تک کہ آنسوؤں سے ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی ، ان سے پوچھا گیا (یہ کیا بات ہے) کہ آپ جنت و دوزخ کو یاد کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کی وجہ سے اس قدر روتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا ، کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ ، : قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ، پس اگر بندہ اس سے نجات پا گیا ، تو آگے کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہیں ، اور اگر قبر کی منزل سے بندہ نجات نہ پا سکا ، تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے اور زیادہ سخت اور کٹھن ہیں ۔ نیز رسول اللہ ﷺ یہ بھی فرماتے تھے ، کہ : نہیں دیکھا میں نے کوئی منظر مگر یہ کہ قبر کا منظر اس سے زیادہ خوفناک اور شدید ہے (ترمذی ، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب کسی قبر سے میرا گذر ہوتا ہے ، تو قبر کے بارے میں حضور ﷺ کے یہ ارشادات یاد آ جاتے ہیں ، اور فکر و غم میں مبتلا کر کے مجھے رُلاتے ہیں ۔

【75】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

حضرت عثمانؓ ہی سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تھا ، کہ جب میت کے دفن سے فارغ ہو جاتے ، تو قبر کے پاس کھڑے ہوتے اور فرماتے ، کہ : اپنے اس بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دُعا کرو ، اور یہ بھی استدعا کرو ، کہ اللہ تعالیٰ اس کو سوالوں کے جواب میں ثابت قدم رکھے ، کیوں کہ اس وقت اس سے پوچھ گچھ ہو گی ۔

【76】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ جب (مشہور انصاری صحابی) سعد بن معاذ کی وفات ہوئی تو ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اُن کے جنازے پر گئے ، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائی ، اور ان کو قبر میں اتار کر جب قبر برابر کر دی گئی ، تو رسول اللہ ﷺ نے سبحان اللہ ، سبحان اللہ کہا (آپ کو دیکھ کر آپ کی اتباع میں) ہم بھی دیر تک سبحان اللہ ، سبحان اللہ کہتے رہے ، پھر آپ نے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہنا شروع کیا ، تو ہم بھی آپ کے اتباع میں اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہنے لگے ۔ پھر آپ سے پوچھا گیا کہ : ”یا رسول اللہ! اس وقت آپ کی اس تسبیح اور تکبیر کا کیا خاص سبب تھا ؟ “آپ نے فرمایا کہ : ”اللہ کے اس نیک بندے پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی (جس سے اس کو تکلیف تھی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تنگی کی اس کیفیت کو دور فرما کر کشادگی پیدا فرما دی ، اور اس کی تکلیف دور کر دی ۔ (مسند احمد) تشریح یہ سعد بن معاذ انصاریؓ رسول اللہ ﷺ کے مشہور اور ممتاز اصحاب کرام میں سے تھے ، غزوہ بدر کی شرکت کی فضیلت اور سعادت بھی نہیں حاصل تھی ، ۵ ھ ؁ میں ان کا وصال ہوا ، اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا : ”ستر ہزار فرشتوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی ، اور آسمان کے دروازے ان کے لئے کھولے گئے ۔ باوجود اس کے قبر کی تنگی کی تکلیف سے ان کو بھی واسطہ پڑا (اگرچہ فوراً ہی وہ اٹھا لی گئی) ۔ اس سے ہم جیسوں کے لیے بڑا انتباہ اور بڑا سبق ہے ۔ اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنَا اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا !

【77】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے ، کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا ، اور اس میں اس آزمائش کا ذکر فرمایا ، جس میں مرنے والا آدمی مبتلا ہوتا ہے تو جب آپ نے اس کا ذکر فرمایا ، تو خوف و دہشت سے سب مسلمان چیخ اٹھے اور ایک کہرام مچ گیا (بخاری)

【78】

عالم برزخ (عالمِ قبر)

حضرت زید بن ثابت انصاری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب کہ رسول اللہ ﷺ اپنی خچری پر سوار قبیلہ بنی نجار کے ایک باغ میں سے گزر رہے تھے ، اچانک آپ کی خچری راستے سے ہٹی اور ٹیڑھی ہوئی (اور اس کی ایسی حالت ہوئی) کہ قریب تھا کہ آپ کو گرا دے ، اچانک نظر پڑی تو دیکھا کہوہاں چھ یا پانچ قبریں ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان قبر کے مردوں سے کون واقف ہے ؟ (یعنی تم میں کوئی ہے جو ان لوگوں کو جانتا ہو ، جو ان قبروں میں مدفون ہیں) ساتھیوں میں سے ایک شخص نے کہا : میں جانتا ہوں ، آپ نے فرمایا یہ لوگ کس زمانے میں مرے تھے ؟ اس شخص نے عرض کیا : زمانہ شرک میں ۔ آپ نے فرمایا : یہ لوگ اپنی قبروں میں عذاب میں مبتلا ہیں ، اگر یہ خوف کہ تم مردوں کو دفن نہ کر سکو گے ، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ قبر کے عذاب میں جتنا کچھ میں سن رہا ہوں وہ اس میں سے کچھ تم کو بھی سُنا دے ۔ یہ فرمانے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے ، اور فرمایا : (دوزخ کے عذاب سے اللہ سے پناہ مانگو : سب کی زبان سے نکلا : ہم دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو ۔ سب نے کہا : ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ، آپ نے فرمایا : سب فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو ، ظاہری فتنوں سے بھی ، اور باطنی فتنوں سے بھی ۔ سب نے کہا : ہم سب ظاہری و باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، کہ : دجال کے (عظیم ترین) فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو ۔ سب نے کہ : ”ہم دجالی فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں“ ۔ (مسلم) تشریح اس سلسلہ کی بعض حدیثوں سے پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برزخ (قبر) کے عذاب کو جن و انس سے مخفی رکھا ہے ، اُن کو اس کا بالکل پتہ نہیں چلتا ، لیکن ان کے علاوہ دوسری مخلوقات کو اس کا ادراک و احساس کچھ ہوتا ہے ، اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ بنی نجار کے اس باغ میں جن لوگوں کی وہ چند قبریں تھیں ان پر جو عذاب ہو رہا تھا ، رسول اللہ ﷺ کے اصحاب و رفقاء کو اگرچہ اس کا کوئی احساس نہیں ہوا ۔ لیکن جس خچری پر آپ سوار تھے ، اس کو اس کا احساس ہوا اور اس پر اثر پڑا ۔ اس کی حکمت ظاہر ہے ، مرنے والوں پر مرنے کے بعد جو کچھ گذرتا ہے ، اگر ہم سب بھی اس کو دیکھ یا سن لیا کرتے ، تو ”ایمان بالغیب“ نہ رہتا اور دنیا کا یہ نظام بھی نہ چل سکتا ، جس وقت ہمارے سامنے ہمارا کوئی عزیز سخت تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو ، ہم سے اس وقت کوئی کام نہیں ہو سکتا ، اگر کہیں قبروں کا عذاب ہم پر منکشف ہو جایا کرتا ، تو کسی اور کام کا کیا ذکر ، مائیں بچوں بچوں کو دودھ بھی نہ پلا سکتیں ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ ان قبر والوں پر جو عذاب ہو رہا تھا ، اس کی وجہ سے جو چیخ پکار ان قبروں میں مچی ہوئی تھی ، جس کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ والے صحابہ کرامؓ بالکل نہیں سن رہے تھے ، خود آپ اس کو سن رہے تھے ۔ یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ وحی کا فرشتہ جب وحی لے کر آتا تھا ، تو بسا اوقات صحابہ کرامؓ بھی اس وقت آپ کے قریب ہوتے تھے ، لیکن آنے والے فرشتے کو ان کی آنکھیں عام طور سے نہیں دیکھ سکتی تھیں ، نہ وہ اس کی آواز سنتے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھتے اور اس کی آواز سنتے تھے ، اہل مکاشفہ تو اس صورت حال کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ، لیکن ہم جیسے عام بھی اس کو خواب والی مثال ہی سے کچھ سمجھ سکتے ہیں ۔ (۱) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ : لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ (یعنی اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم مردوں کو دفن نہ کر سکو گے ، تو میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکرتا ، کہ قبر کے عذاب میں سے جتنا کچھ میں سن رہا ہوں ، اس میں سے کچھ وہ تم کو بھی سنا دیتے) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر کے عذاب کی جو کیفیت اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرما دی ہے ، اور عذاب اور عذاب دئیے جانے والوں کی چیخ و پکار ، جو میں سن رہا ہوں ، اگر اللہ تعالیٰ وہ تمہیں بھی سنوا دے ، تو اس کا خطرہ ہے کہ تمہیں موت سے اتنی دہشت ہو جائے کہ مردوں کو دفن و کفن کا انتظام بھی نہ کر سکو ، اس لیے میں اللہ سے دعا نہیں کرتا ، کہ وہ تمہیں بھی سنا دے ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو تعوذ (اللہ سے پناہ مانگنے) کی طرف متوجہ کیا ۔ اس میں اس کی تعلیم ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ وہ قبر کے عذاب کو جاننے اور دیکھنے کی فکر کے بجائے اس سے بچنے کی فکر کریں ، اور اس سے ۔۔۔ اور ہر قسم کے عذاب اور فتنہ سے بچانے والا بس اللہ ہی ہے ، لہذا اس سے برابر پناہ مانگتے رہیں ، دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگیں عذابِ قبر سے پناہ مانگیں ، ظاہر و باطن کے سب فتنوں سے پناہ مانگیں خاص کر دجال کے عظیم فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں ۔ اور کفر و شرک اور ان سب فتنوں اور معصیتوں سے بچنے کی فکر رکھیں جو عذاب کو لانے والے ہیں ۔ اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَنَعُوْذُبِكَ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ ۔

【79】

قیامت

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ”میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں“ ۔ تشریح یعنی آنحضرتﷺ نے کلمہ شہادت والی انگلی ، اور اس کے برابر والی بیچ کی انگلی ملا کر فرمایا : میری بعثت میں اور قیامت میں اتنا قرب اور اتصال ہے جتنا کہ ان دو انگلیوں میں ۔ اس سے غالباً آپ کا مطلب یہ تھا ، کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے جتنے دور مقرر کئے تھے وہ سب ختم ہو گئے ، اب یہ دور اس کا آخری دور ہے جو میری بعثت سے شروع ہوا ہے ، اور قیامت پر ختم ہو گا ، میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ، نہ کوئی نئی امت پیدا ہو گی ، اس لئے اس کو بہت دور سمجھ کر اس کی طرف سے بے فکر اور بے پروا نہ ہونا چاہئے ۔

【80】

قیامت

انسؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، کہ : ”اس دنیا کی مثال اس کپڑے کی سی ہے جو اول سے آخر تک پھاڑ دیا گیا اور بس سرے پر ایک دھاگے سے وہ جڑا رہ گیا ، اور یہ آخری دھاگا بھی بس عنقریب ٹوٹنا ہی چاہتا ہے “۔ (شعب الایمان) تشریح پہلی حدیث کی طرح اس حدیث میں بھی قیامت کا قریب ہونا بیان فرمایا گیا ہے ، اور مقصد یہی ہے کہ قیامت کو بہت دور سمجھ کے اس کی طرف سے غفلت نہ کی جائے ، بلکہ اس کو بہت قریب اور ناگہانی پیش آنے والا ایک عظیم حادثہ یقین کرتے ہوئے ہر وقت اس کی فکر اور اس کے لئے تیاری کی جائے ۔

【81】

قیامت

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ اپنی وفات شریف سے ایک مہینہ پہلے فرماتے تھے ، کہ : ”تم لوگ مجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہو ، اور اس کا (یعنی اس کے معین وقت کا) علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے ، اور میں اللہ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ روئے زمین پر کوئی متنفس ایسا نہیں ہے کہ اس پر سو سال گذریں اور وہ اس وقت تک زندہ باقی رہے “ ۔ تشریح قرآن پاک سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے اور حدیثوں سے بھی ، کہ بہت سے لوگ رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے متعلق دریافت کرتے تھے ، کہ وہ کب آئے گی ؟ آپ ہمیشہ اس کے جواب میں وہی فرماتے تھے جو اس حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا ، یعنی یہ کہ اس کے مقررہ وقت کا علم اللہ ہی کو ہے ، یعنی وہی جانتا ہے ، کہ کس سن کے کس مہینے کی کس تاریخ کو آئے گی ، اس کا علم اس نے کسی اور کو نہیں دیا ہے ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس جواب کے علاوہ اور اصل سوال سے زائد ایک بات یہ بھی فرمائی ہے کہ ـ اس وقت جو لوگ روئے زمین پر زندہ ہیں ، وہ سب سو سال کے اندر اندر ختم ہو جائیں گے ۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کبریٰ جس میں یہ سارا عالم ختم ہو جائے گا ، اس کا معین وقت تو مجھے معلوم نہیں ، بس اللہ ہی کو اس کا علم ہے ، ہاں ! اللہ نے مجھے اس کی اطلاع دی ہے کہ اس نسل اور اس قرن کا خاتمہ سو سال تک ہو جائے گا ، اور جو لوگ اس وقت زندہ ہیں ، وہ سو سال پورے ہونے تک ختم ہو جائیں گے ، اس لئے یوں سمجھو کہ تمہاری قیامت تو اس صدی کے اندر ہی اندر آ جائے گی ۔

【82】

قیامت

حضرت انسؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ (ایسا برا وقت نہ آ جائے کہ) بالکل نہ کہا جائے دنیا میں اللہ اللہ ۔ اور اسی حدیث کو بعض راویوں نے اسی طرح نقل کیا ہے کہ : ”قیامت نہیں قائم ہو گی کسی ایسے شخص پر ، جو کہتا ہو اللہ اللہ“ ۔ (۱) تشریح یہ ہے کہ قیامت اس وقت آئے گی جب کہ دنیا اللہ کی یاد سے اور اللہ کو یاد کرنے والوں سے بالکل ہی خالی ہو جائے گی اور اللہ کی عبادت اور فرمانبرداری ، اور اللہ کے ساتھ بندگی کے صحیح تعلق کا دنیا سے بالکل خاتمہ ہو جائے گا ۔ جب ایسا وقت آئے گا اس وقت یہ پورا عالم فنا کر دیا جائے گا ، گویا اللہ کا ذکر اور اللہ کے ساتھ بندگی کا صحیح تعلق اس عالم کی روح اور اس کے باقی رہنے کے لئے وجہ جواز ہے ، جس دن ہماری یہ دنیا اس سے بالکل خالی ہو جائے گی ، اسی دن اپنے پیدا کرنے والے اور چلانے والے کے حکمسے توڑ پھوڑ کے برابر کر دی جائے گی ۔

【83】

قیامت

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، کہ : ”قیامت نہیں قائم ہو گی ، مگر بدترین آدمیوں پر“ ۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ سے تعلق رکھنے والے اچھے لوگ جب سب ختم ہو جائیں گے اور یہ دنیا جب صرف بدکرداروں اور خدا فراموشوں ہی کی دنیا رہ جائے گی ، تب اللہ کے حکم سے قیامت آ جائے گی ۔

【84】

قیامت

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”(قیامت سے پہلے) دجال کا خروج ہو گا ، اور وہ ٹھہرے گا چالیس تک “ (اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابی عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ) میں نہیں جانتا کہ حضور(ﷺ) کا مطلب چالیس سے چالیس دن تھے ، یا چالیس مہینے ، یا چالیس سال ۔ آگے حدیث بیان کرتے ہیں ، کہ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو (اس دنیا میں) بھیجیں گے ، گویا کہ وہ عروہ بن مسعود ہیں (یعنی ان کی شکل و صورت عروہ بن مسعود ثقفی سے بہت ملتی جلتی ہو گی) وہ دجال کو تلاش کریں گے (اور اس کا تعاقب کریں گے ، اور اس کو پا کر) اس کا خاتمہ کر دیں گے ۔ پھر (دجال کا خاتمہ کر دینے کے بعد) سات سال تک وہ اس دنیا کے لوگوں اور ان کے ساتھ رہیں گے (اور ان کی برکت سے لوگوں میں ایسا اتحاد و اتفاق ہو جائے گا ، کہ) دو آدمی بھی ایسے نہیں رہیں گے جن میں باہم عداوت اور دشمنی ہو ، پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے (ایک خاص قسم کی) ٹھنڈی ہوا چلائے گا ، جس کا اثر یہ ہو گا ، کہ روئے زمین پر کوئی ایسا باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی نیکی ہو ، یا فرمایا : کہ ذرہ برابر ایمان ہو ، (بہر حال اس ہوا سے تمام اہل ایمان ، اور اہلِ خیر ختم ہو جائیں گے)(۱) یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی پہاڑکے اندر چلا جائے گا ، تو یہ ہوا وہیں پہنچ کر اس کا خاتمہ کرے گی ، آنحضرتﷺ نے فرمایا ، کہ اس کے بعد صرف خراب آدمی ہی دنیا میں رہ جائیں گےئ (جن کے دل ایمان اور نیکی سے بالکل خالی ہوں گے) ان میں پرندوں والی تیزی اور پھرتی ، اور درندوں والا ذہن جمع ہو گا (اس کا مطلب بظاہر یہ ہے ، کہ ان میں ظلم اور سفاکی تو درندوں کی سی ہو گی ، اور اپنے ظالمانہ مقاصد اور اپنی ناپاک خواہشات کو پورا کرنے میں وہ ہلکے پھلکے برق رفتار پرندوں کی طرح تیز رو ، اور پھرتیلے ہوں گے) نیکی اور بھلائی سے وہ مانوس نہ ہوں گے اور برائی کو وہ برائی نہ سمجھیں گے ، (نہ اس کی مذمت کرین گے) پس شیطان ایک شکل بنا کر ان کے سامنے آئے گا ، اور ان سے کہے گا ، کیا تم شرم و حیا نہیں کرو گے ، وہ کہیں گے کہ تم ہم کو کیا حکم دیتے ہو ؟ (یعنی تم جو کہو ، وہ ہم کریں) پس شیطان انہیں بتوں کی پرستش کا حکم دے گا (اور وہ اس کا اتباع کریں گے) اور وہ اس حال میں ہوں گے ، کہ رزق کی افراط اور بارش ہو گی ، اور دنیوی زندگی بطاہر بڑی اچھی (عیش و نشاط والی زندگی ہو گی) ۔ پھر صور پھونکا جائے گا ، پس جو کوئی اس کو سُنے گا ، اس کی جانب گردن ایک طرف کو جھک جائے گی اور ایک طرف کو اٹھ جائے گی (یعنی سر جسم پر سیدھا قائم نہ رہےگا ، بلکہ ادھر یا ادھر کو لٹک جائے گا ، جیسا کہ اس شخص کا حال ہو جاتا ہے جس پر اچانک کوئی ایسا دورہ پڑے جس سے اس کے رگ پٹھے بےکار اور بے جان ہو جائیں) اور سب سے پہلے جو شخص صور کی آواز سنے گا (اور جس پر سب سے پہلے اس کا اثر پڑے گا)وہ ایک آدمی ہو گا ، جو اپنے اونٹ کے حوض کو مٹی سے درست کر رہا ہو گا ، پس وہ بے ہوش اور بے جان ہو کر گر جائے گا (یعنی مر جائے گا) اور دوسرے سب لوگ بھی اسی طرح بے جان ہو کر گر جائیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ (ایک ہلکی سی) بارش بھیجے گا ، گویا کہ وہ شبنم ہے ، اس کے اثر سے انسانوں کے جسموں میں روئیدگی آ جائے گی پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا ۔ تو ایک دم سب کے سب کھڑے ہوں گے دیکھتے ہوں گے ، پھر کہا جائے گا ، کہ اے لوگو! اپنے مالک اور رب کی طرف چلو (اور فرشتوں کو حکم ہو گا ، کہ) انہیں (حساب کے میدان میں) کھڑا کرو ، ان سے پوچھا جائے گا (اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہو گا) پھر حکمہو گا ، کہ ان میں سے دوزخ کی فوج نکالو ، عرض کیا جائے گا ، کہ کتنےمیں سے کتنے ؟ حکم ہو گا ، کہ ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ ہو گا وہ دن ، جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہیہے دن سخت مصیبت اور مشقت کا ۔ (مسلم) تشریح اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خروج دجال سے لے کر حشر تک کے بلکہ میدانِ حساب میں جمع ہونے تک کے ، بعض واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے ، اس طرح کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ،جن میں قیامت سے پہلے ہونے والے بعض اہم واقعات ، اور قیامت اور اس کے بعد کی منزلوں کا بیان اس سے بھی زیادہ اجمال کے ساتھ ، یا اس سے کچھ زیادہ تفصیل سے کیا گیا ہے ، ان سب حدیثوں کے متعلق یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سینکڑوں ، ہزاروں سال کی مدت میں ہونے والے واقعات کا بہت ہی مجمل بیان ان میں کیا گیا ہے ، جو لوگ اس نکتہ کو ملحوظ رکھیں گے ، ان شاء اللہ وہ ان حدیثوں کے بارے میں بہت سے شبہات اور وساوس سے محفوظ ہو جائیں گے ۔ حدیث کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے ، کہ فرشتوں کو بتلایا جائے گا ، کہ ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم والے ہیں ، دنیا میں مؤمنین اور غیر مؤمنین کا جو تناسب ہے ، اور جو اکثر زمانوں میں رہا ہے ، اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اہل جہنم کی یہ تعداد ۱۰۰۰/۹۹۹ مستبعد نہیں معلوم ہوتی ، تاہم بعض شارحین نے لکھا ہے ، کہ ان ۹۹۹ فی ہزار میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہو گی ، جو اگرچہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دوزخ کے اہل ہوں گے ، لیکن اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے یا شافعین کی سفارش سے آخر میں وہ نجات پا جائیں گے ۔ اَللَّهُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتُكَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِنَا وَرَحْمَتَكَ اَرْجَى عِنْدَنَا مِنْ اَعْمَالِنَا ۔

【85】

قیامت

ابو سعید خدری سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میں کیونکر خوش اور بے غم ہو کر رہ سکتا ہوں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے ، کہ صور والا فرشتہ صور کو اپنے منہ میں لئے ہوئے ہے ، اور اپنا کان اس نے لگا رکھا ہے اور اس کی پیشانی خمیدہ اور جھکی ہوئی ہے ، وہ انتظار کر رہا ہے کہ کب اس کو صُور کے پھونک دینے کا حکم ہو ، اور وہ پھونک دے ، (یعنی جب مجھے اس واقعہ کا علم ہے ، تو میں کیسے اس دنیا میں اطمینان سے اور خوشی سے رہ سکتا ہوں)“ صحابہؓ نے عرض کیا : ”یا رسول اللہ! تو ہمیں آپ کا کیا حکم ہے ، (ان کا مطلب یہ تھا ، کہ جب معاملہ اتنا خطرناک ہے ، تو ہماری رہنمائی فرمائیے ، کہ قیامت کی ہولناکیوں اور سختیوں سے بچنے کے لئے ہم کیا کریں؟) “ آپ نے ارشاد فرمایا : کہتے رہا کرو “حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ” ۔ (ترمذی)

【86】

قیامت

رزین عُقیلی سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے (ایک دفعہ) عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ کیسے پیدا کرے گا ، اور (اس عالم میں) اس کی مخلوق میں اس کی کیا نشانی ہے (اور کیا دلیل اور مثال ہے) آپ نے فرمایا : ”کیا تمہارے لئے ایسا کبھی نہیں ہوا ، کہ تم اپنی قوم کی وادی پر ایسی حالت میں کذرے ہو جب کہ وہ (پانی نہ برسنے کی وجہ سے) سبزے سے خالی اور خشک ہو ، اور پھر کبھی ایسی حالت میں گذرے ہو کہ (جپانی برس جانے کی وجہ سے) ہری لہلہا رہی ہو ۔ (ابو رزین کہتے ہیں) میں نے عرض کیا ، ہاں ! “ (ایسا ہوا ہے ، اور میں نے یہ دونوں منظر دیکھے ہیں) ۔ آپ نے فرمایا ”حیات بعد الموت کو سمجھنے کے لئے) یہی اللہ کی نشانی ہے ، اس کی مخلوق میں ، ایسے ہی زندہ کر دے گا اللہ مُردوں کو“ ۔ (رزین)

【87】

قیامت

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے رویت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “جس شخص کی یہ خوشی ہو ، یعنی جو یہ چاہے کہ قیامت کا منظر وہ اس طرح دیکھے ، کہ گویا سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ، تو قرآن مجید کی سورۃ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَإِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْاور وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ پڑھے ”۔

【88】

قیامت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورہ زلزال کی یہ آیت تلاوت فرمائی “يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا” (جس کا مطلب ہے کہ قیامت کے دن زمین اپنی سب خبریں بیان کرے گی) پھر حاضرین سے فرمایا ، کیا تم جانتے ہو ، کہ زمین کی خبریں کیا ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے ، آپ نے فرمایا : اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندہ اور ہر بندی کے متعلق شہادت دے گی ، کہ اس نے فلاں دن میرے اوپر فلاں کام کیا تھا ، اور فلاں دن فلاں عمل کیا تھا ، پس یہ ہیں زمیں کی خبریں (جو قیامت کے دن وہ بیان کرے گی) ۔ (مسند احمد و ترمذی) تشریح گویا انسان جو عمل زمین کے جس حصے پر کرتا ہے زمین کا وہ حصہ اس کو محفوظ رکھتا ہے ، اور قیامت تک محفوظ رکھے گا اور اللہ کے سامنے اس کی شہادت ادا کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس دن اس پر اس وقت کی رسوائیوں سے حفاظت فرمائے ۔ اس قسم کی چیزوں پر یقین لانا ایمان والوں کے لئے تو پہلے بھی مشکل نہ تھا ۔ لیکن اب تو ریکارڈ وغیرہ کی ایجادوں نے ان باتوں کا سمجھنا ، اور ان پر یقین کرنا سب کے لئے آسان کر دیا ہے ۔ صدق الله عز وجل سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ

【89】

قیامت

حضرت مقداد سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، ”قیامت کے دن سورج مخلوق سے بہت قریب ہو جائے گا ، یہاں تک کہ ان سے صرف ایک میل کے بقدر رہ جائے گا اور (اس کی گرمی سے) لوگ بقدر اپنے اعمال کے پسینہ پسینہ ہو جائیں گے (یعنی جس کے اعمال جتنے برے ہوں گے ، اسی قدر اس کو پسینہ زیادہ چھوٹے گا) پس بعض وہ ہوں گے جن کا پسینہ ان کے ٹخنوں تک آئے گا اور بعض کا پسینہ ان کے گھٹنوں تک ہو گا ، اور بعض کا ان کے کولھوں کے اوپر تک (یعنی کمر تک) اور بعض وہ ہوں گے جن کا پسینہ ان کے منہ میں جا رہا ہو گا ، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے دہن مبارک کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے دکھایا (کہ ان کا پسینہ یہاں تک پہنچ رہا ہو گا اور ان کے اس منہ میں جا رہا ہو گا) “ ۔ (مسلم) تشریح قیامت اور آخرت میں پیش آنے والے ان واقعات کی جو واقعی نوعیت ہو گی اس کا اس دنیا میں صحیح تصور نہیں کیا جا سکتا ، پورا انکشاف بس اسی وقت ہو گا ، جب کہ یہ حقائق سامنے آئیں گے ۔

【90】

قیامت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ ”قیامت کے دن سب آدمی تین قسموں اور تین گروہوں میں اٹھائے جائیں گے ، ایک قسم پیدل چلنے والے ، اور ایک قسم سوار ، اور ایک قسم منہ کے بل چلنے والے “۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! یہ (تیسرے گروہ والے) منہ کے بل کس طرح چل سکیں گے؟ آپ نے فرمایا : ”جساللہ نے انہیں پاؤں کے بل چلایا ہے ، وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ ان کو منہ کے بل چلائے“ ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لوگ اپنے منہ کے ذریعے ہیزمین کے ہر ٹیلے ٹھیرے ، اور ہر کانٹے سے بچیں گے ۔ (ترمذی) تشریح حدیث میں جن تین گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے شارحین حدیث نے ان کی تفصیل اس طرح کی ہے ، کہ پیدل چلنے والا گروہ عام اہلِ ایمان کا ہو گا ، اور دوسرا گروہ جو سواریوں پر ہو گا ، وہ خاص مقربین اور عبادِ صالحین کا گروہ ہو گا ، جن کا وہاں شروع ہی سے اعزاز و اکرام ہوگا ، اور سر کے بل ، اور منہ کے بل چلنے والے وہ بد نصیب ہوں گے ، جنہوں نے اس دنیوی زندگی میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق سیدھا چلنا قبول نہیں کیا ، اور مرتے دم تک وہ الٹے ہی چلتے رہے ۔ قیامت کے دن اس کی پہلی سزا انہیں یہ ملے گی ، کہ سیدھے پاؤں پر چلنے کے بجائے وہاں وہ الٹے منہ کے اور سر کے بل چلائے جائیں گے ، یہاں تک کہ جس طرح اس دنیا میں چلنے والے راستے کی اونچ نیچ سے ، اور جھاڑیوں اور کانٹوں سے اپنے پاؤں کے ذریعہ بچ کر نکلتے ہیں ، اسی طرح قیامت میں یہ سر کے بل چلنے والے وہاں کے راستے کی اونچ نیچ سے ، اور وہاں کے کانٹوں سے اپنے سروں اور چہروں ہی کے ذریعہ بچ کر نکلیں گے ، یعنی یہاں پر جو کام پاؤں سے کئے جاتے ہیں ، وہاں وہ سبکام خدا کے ان مجرموں کو سر سے اور منہ سے کرنے پڑیں گے ۔ اَللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْهُمْ

【91】

قیامت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جو شخص بھی مرے گا ، اس کو (مرنے کے بعد اپنی زندگی پر) ندامت اور پشیمانی ضرور ہو گی “ ۔ عرض کیا گیا کہ : حضرت! اس کو ندامت کیوں ہو گی ؟ اور اس کا کیا سبب ہو گا ؟ آپ نے فرمایا ، اگر وہ مرنے والا نیکو کار ہو گا ، تو اس کو تو اس کی ندامت اور حسرت ہو گی ، کہ اس نے نیکوکاری میں اور زیادہ ترقی کیوں نہیں کی (اور جو حسنات وہ کما کے لایا ہے اس سے زیادہ کیوں نہیں کما کے لایا) اور اگر وہ بدکار ہو گا ، تو اس کو اس کی ندامت و حسرت ہو گی ، کہ وہ بدکاری سے باز کیوں نہیں رہا “۔ (ترمذی)

【92】

اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ

ابن حاتم سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : “(قیامت میں) تم میں سے ہر شخص سے اس کا پروردگار اس طرح بلا واسطہ اور دو بدو کلام فرمائے گا ، کہ نہ درمیان میں کوئی ترجمان ہو گا ، نہ کوئی پردہ حائل ہو گا (اس وقت بندہ کی یہ کیفیت ہو گی کہ وہ حیرت اور بے بسی سے ادھر اُدھر دیکھے گا)۔ پس جب نظر کرے گا اپنی داہنی جانب ، تو سوائے اپنے اعمال کے کچھ اس کو نظر نہ آئے گا ، اور ایسے ہی جب نظر آئے گا بائیں جانب تو سوائے اپنے اعمال کے کچھ اسے نظر نہ آئے گا ۔ اور جب سامنے نظر دوڑائے گا ، تو اپنے رو برو آگ ہی آگ دیکھے گا ، پس اے لوگوں! دوزخ کی اس آگ سے بچو ، اگرچہ خشک کھجور کے ایک خشک ٹکڑے ہی کے ذریعہ اس سے بچنے کی فکر کرو ” ۔ تشریح قرآن مجید میں اور احادیث میں بھی جہاں جہاں قیامت کے حساب اور وہان کے ہولناک منظروں کا اور دوزخ کے لرزہ خیز عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ اس لئے ہے کہ بندے اس سے خبردار ہو کر اپنے کو اس سے بچانے کی فکر کریں ، اس حدیث میں تو آخر میں صراحت کے ساتھ اس مقصد کو بیان بھی فرما دیا گیا ہے لیکنک جن حدیثوں میں اس مقصد کی تصریح نہ بھی کی گئی ہو ، ان کا مقصد بھی یہی سمجھنا چاہئے اور اس سلسلہ کی تمام آیات و احادیث سے ہم کو یہی سبق لینا چاہئے ۔

【93】

اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہتے ہیں ، کہ بعض صحابہؓ نےعرض کیا ، “یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟“ آپ نے فرمایا ”کیا دوپہر کے وقت میں آفتاب کے دیکھنے میں ، جب کہ وہ بدلی میں بھی نہ ہو ، تم میں کوئی کشمکش ہوتی ہے ؟“ انہوں نے عرض کیا ، ”نہیں !“ پھر آپ نے فرمایا ”کیا چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں، جب کہ وہ بدلی میں بھی نہ ہو ، تم میں کوئی کشمکش اور کوئی رد و کد ہوتی ہے ؟“ انہوں نے عرض کیا ”نہیں!“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی ، جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جس طرح چاند اور سورج کو بلا کسی کشمکش اور بغیر کسی اختلاف اور نزاع کے دیکھتے ہو ، اسی طرح قیامت میں اپنے پروردگار کو دیکھو گے”۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ قیامت میں جب اللہ سے ایک بندہ کا سامنا ہو گا ، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا ، اے فلانے کیا میں نے دنیا میں تجھے عزت نہیں دی تھی ، کیا تجھے تیری قوم میں سرداری نہیں دی تھی ، کیا تجھے بیوی نہیں عطا کی تھی ، اور کیا تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ (سواریوں) کو مسخر نہیں کیا تھا ، اور کیا میں نے تجھے چھوڑے نہیں رکھا تھا ، کہ تو ریاست اور سرداری کے ، اور مالِ غنیمت میں سے چوتھائی وصول کرے ، وہ بندہ عرض کرے گا ، ہاں! اے پروردگار آپ نے یہ سب کچھ مجھے عطا فرمایا تھا ، پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا ، تو کیا تجھے اس کا خیال اور گمان تھا ، کہ تو ایک دن میرے سامنےا ٓئے گا ؟ وہ عرض کرے گا ، میں یہ خیال نہیں کرتا تھا ، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، آج میں تجھے اپنے رحم و کرم سے اسی طرح بُھلاتا ہوں جس طرح تو نے مجھے بھلائے رکھا تھا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے دوسرے ایک بندہ کا سامنا ہو گا ، اور اس سے بھی حق تعالیٰ اسی طرح فرمائے گا ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ تیسرے ایک بندہ سے ملے گا ، اور اس سے بھی اسی طرح فرمائے گا ، یہ بندہ عرض کرے گا ، کہ اے پروردگار میں تجھ پر ایمان لایا ، اور تیری کتاب پر ، اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا ، اور میں نے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے ، اور صدقہ بھی ادا کیا (اور اس کے علاوہ بھی) وہ بندہ خوب اپنے اچھے کارنامے بیان کرے گا ، جہاں تک بھی بیان کر سکے گا ، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، یہاں ٹھہر! پھر اس سے کہا جائے گا ، کہ ہم ابھی تجھ پر ایک گواہ قائم کرتے ہیں ، اور وہ اپنے جی میں سوچے گا ، کہ وہ کون ہو گا جو مجھ پر گواہی دے گا ، پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اس کی ران کو حکم دیا جائے گا ، کہ بول! تو اس کی ران اور اس کا وگوشت اور اس کی ہڈیاں اُس کے اعمال کی گواہی دیں گے ، اور اللہ تعالیٰ یہ اسلئے کرے گا ، کہ اس کا عذر باقی نہ رہے ، اور یہ منافق ہو گا ، اور اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہو گا ۔ (مسلم) تشریح پوچھنے والوں نے رسول اللہ ﷺ سے صرف اتنا پوچھا تھا ، کہ کیا قیامت میں ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکیں گے ؟ آپ نے چاند اور سورج کی مثال دے کر یہ سمجھا دینا چاہا ، کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ کا دیکھنا اتنے واضح طریقے پر ہو گا جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو گی ، نیز یہ بھی آپ نے واضح فرمایا کہ جس طرح چاند اور سورج کو مشرق و مغرب کے کروڑوں آدمی بیک وقت دیکھتے ہیں ، اور بالکل یکساں طور پر دیکھتے ہیں ، اور ان کے درمیان کوئی کشمکش نہیں ہوتی ، اسی طرح قیامت میں سب اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھ سکیں گے ۔ پھر مزید برآن آپ نے یہ بھی فرما دیا ، کہ بعض لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بڑی بڑی نعمتیں دے رکھی ہیں ، اور وہ اللہ تعالیٰ کو بالکل بھولے ہوئے ہیں ، اور آخرت کی پیشی سے بالکل بے فکر ہو گئے ہیں ، جب قیامت میں اللہ تعالیٰ سے ان کا سامنا ہو گا ، اور اللہ تعالیٰ ان سے باز پرس کرے گا ، تو اس دن وہ کیسے لا جواب ، اور کیسے ذلیل و خوار ہوں گے ، اور ان میں سے جو دیدہ ور اور بے حیا منافق اس وقت غلط بیانی کریں گے ، اللہ تعالیٰ خود انہیں کے اعضاء سے اور انہیں کے گوشت اور انہیں کی ہڈیوں سے ان کے خلاف گواہی دلوا کر ان پر حجت قائم فرما دیں گے ، اور اس طرح علی رؤس الاشھاد ان کے جھوٹ ، اور ان کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ جائے گا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اصل سوال سے زائد یہ بیان ، سوال کرنے والے صحابہ کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ، کہ قیامت میں صرف اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ہی نہ ہو گا بلکہ حق تعالیٰ نے جو نعمتیں جس کو دی ہین اس وقت وہ ان کی بابت پوچھ گچھ بھی کرے گا ۔ (ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ) اور جن لوگوں نے اللہ کے احکام سے بے پروا ہو کر آخرت کی پیشی سے بے فکر رہ کر ان نعمتوں کو دنیا میں استعمال کیا ہو گا ، وہ اس دن سیاہ ہوں گے ، اور وہاں کسی کی مکاری اور عیاری بالکل پردہ پوشی نہ کر سکے گا ۔

【94】

اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت میں اللہ تعالیٰ ایمان والے اپنے بندے کو (اپنی رحمت سے) قریب کرے گا ، اور اس پر اپنا خاص پردہ ڈالے گا ، اور دوسروں سے اس کو پردہ میں کر لے گا ، پھر اس سے پوچھے گا ، کہ کیا تو پہچانتا ہے فلاں گناہ ، فلاں گناہ! (یعنی کیا تجھے یاد ہے ، کہ تو نے یہ یہ گناہ کئے تھے؟) وہ عرض کرے گا ہاں ! اے پروردگار ! مجھے یاد ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہوں کا اس سے اقرار کرا لے گا ، اور وہ اپنے جی میں خیال کرے گا کہ میں تو ہلاک ہوا (یعنی اس کو خیال ہو گا ، کہ جب اتنے میرے گناہ ہیں ، تو اب میں کیسے چھٹکارا پا سکوں گا) پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں کو چھپایا تھا ، اور آج میں ان کو بخشتا ہوں اور معافی دیتا ہوں ، پھر اس کا نیکیوں والا اعمال نامہ اس کے حوالے کر دیا جائے گا (یعنی اہلِ محشر کے سامنے صرف نیکیوں والا ہی اعمال نامہ آئے گا ، اور گناہوں معاملہ اللہ تعالیٰ پردہ ہی پردہ میں ختم کر دیں گے) لیکن اہلِ کفر اور منافقین کا معاملہ یہ ہو گا ، کہ ان کے متعلق برسر عام پکارا جائے گا ، کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اللہ پر جھوٹی جھوٹی باتیں باندھیں (یعنی غلط اور بے اصل خیالات کو اللہ کی طرف نسبت دے کر اپنا دین و مذہب بنایا) خبردار اللہ کی لعنت ہے ایسے ظالموں پر ۔

【95】

اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ انہیں ایک دفعہ دوزخ کا خیال آیا ، اور وہ رونے لگیں ، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ، تمہیں کس چیز نے رلایا ؟ عرض کیا ، مجھےدوزخ یاد آئی ، اور اسی کے خوف نے مجھے رلایا ہے ، تو کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد رکھیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”تین جگہ تو کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا (اور کسی کی خبر نہیں لے گا) ایک وزنِ اعمال کے وقت ، جب تک کہ یہ نہ معلوم ہو جائے ، کہ اس کے اعمال کا وز ہلکا ہے یا بھاری ، اور دوسرے اعمالناموں کے ملنے کے وقت جب کہ مرد مؤمن داہنے ہاتھ میں اپنا اعمال نامہ پا کر خوشی خوشی دوسرے سے کہے گا ، کہ پڑھو میرا اعمال نامہ ، یہاں تک کہ معلوم ہو جائے ، کہ کس ہاتھ میں دیا جاتا ہے اس کا اعمال نامہ ، آیا داہنے ہاتھ میں ، یا پیچھے کی جانب سے بائیں ہاتھ میں ، اور تیسرے پُل صراط پر جب کہ وہ رکھا جائے گا ، جہنم کے اوپر (اور حکم دیا جائے گا سب کو اس پر سے گزرنے کا) ۔ (ابو داؤد) تشریح رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ یہ تین وقت ایتے نفسا نفسی کے ہوں گے کہ ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہو گی ، اور کوئی کسی دوسرے کی مدد نہ کر سکے گا ، ایک وزن اعمال کا وقت ، جب تک کہ نتیجہ معلوم نہ ہو جائے گا ، اور دوسرا وہ وقت جب لوگ اپنے اپنے اعمال ناموں کے منتظر ہوں گے ، اور ہر ایک اس فکر میں غرق ہو گا ، کہ اس کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے یا بائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے ، وہ مغفرت اور رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے ، یا لعنت اور عذاب کا ، اور تیسرے اس وقت جب کہ صراط کا پل جہنم پر لگا دیا جائے گا اور اس پر سے گزرنے کا حکم ہو گا ، تو یہ تین وقت ایسے نفسا نفسی کے ہوں گے کہ ہر ایک اپنی ہی فکر میں ڈوبا ہو گا ، اور کوئی کسی کی خبر نہ لے سکے گا ۔ اس حدیث کی روح اور رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا منشاء بس یہی ہے ، کہ ہر شخص آخرت کی فکر کرے ، اور کوئی کسی دوسرے کے بھروسہ نہ رہے ۔

【96】

قیامت میں حقوق العباد کا انصاف

عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ھاضر ہوا ، اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا ، پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ! میرے پاس کچھ غلام ہیں (جن کی حالت یہ ہے کہ بسا اوقات وہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں ، میری چیزوں میں خیانتیں بھی کرتے ہیں ، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں (ان کی ان حرکتوں پر) کبھی انہیں گالیاں دیتا ہوں اور کبھی مارتا بھی ہوں ، پس کیا حال ہو گا میرا قیامت کے دن ان کی وجہ سے (یعنی اللہ تعالیٰ میرا اور ان کا فیصلہ کس طرح فرمائے گا) رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا : کہ ”تمہارے ان غلاموں نے تمہاری جو خیانت اور نافرمانی کی ہو گی ، اور تم سے جو جو جھوٹ بولے ہون گے ، اور پھر تم نے ان کو جو سزائیں دی ہوں گی ، قیامت کے دن ان سب کا پورا پورا حساب کیا جائے گا ، پس اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں کے بقدر ہی ہو گی تو معاملہ برابر پر ختم ہو جائے گا ، نہ تم کو کچھ ملے گا اور نہ تمہیں کچھ دینا پڑے گا ، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں سے کم ثابت ہو گی تو تمہارا فاضل حق تمہیں وہاں ملے گا ، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں سے زیادہ ثابت ہو گی تو تم سے اس کا بدلہ اور قصاص ان کو دلوایا جائے گا (جب اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کا یہ جواب سُنا) تو آپ کے پاس سے ایک طرف کو ہٹ کر رونے اور چلانے لگا (یعنی قیامت کے اس محاسبہ اور پھر وہاں کے عذاب کے خوف سے جب اس پر گریہ غالب ہوا تو وہ ادب کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے اٹھ گیا ، اور ایک طرف کو ہٹ کر بے اختیار رونے اور چلانے لگا) ۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر اس سے فرمایا ، کیا تم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے : وَنَضَعُ المَوَازِينَ القِسْطَ لِيَوْمِ القِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ اور ہم قائم کریں گے قیامت کے دن انصاف کی میزانیں ، پس نہیں ظلم ہو گا ، کسی نفس پر کچھ بھی ، اور اگر ہو گا کسی کا عمل ، یا حق ، رائی کے ایک دانے کے برابر ھاضر کریں گے ہم اس کو بھی ، اور کافی ہیں ہم حساب کرنے والے ۔ اس شخص نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! (یہ سب کچھ سننے کے بعد) میں اپنے لئے اور ان کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں سمجھتا ، کہ (لوجہ اللہ آزاد کر کے) ان کو اپنے سے الگ کر دوں ، میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان کو آزاد کر دیا اور اب وہ آزاد ہیں ۔ تشریح ایمان کی یہی شان ہے ، اور سچے ایمان والوں کا طرزِ عمل یہی ہونا چاہئے کہ جس چیز میں آخرت کا خطرہ نظر آئے اس سے بچا جائے ، اگرچہ دنیوی نقطہ نظر سے اس میں اپنا کتنا ہی نقصان ہو ۔

【97】

میزانِ اعمال میں اللہ کے نام کا وزن

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میری امت میں سے ایک شخص کو ساری مخلوق کے روبرو الگ نکالے گا ، اور اس کے سامنے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے ، جن میں ہر دفتر کی لمبائی گویا حد نظر تک ہو گی ، (یہ دفتر اس کے اعمال نامے ہوں گے) پھر اس سے فرمایا جائے گا ، کہ (تیرے جو اعمال ان دفتروں میں لکھے ہوئے ہیں) کیا ان میں سے کسی کا تجھے انکار ہے ؟ کیا تیرے اعمال کی نگرانی کرنے والے ، اور لکھنے والے میرے فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے (اور غلط طور پر کوئی گناہ تیرے اعمال نامے میں لکھ دیا ہے) ۔ وہ عرض کرے گا نہیں پروردگار! (مجھ پر کسی نے ظلم نہیںکیا ہے ، بلکہ یہ سب میرے کئے ہوئے اعمال ہیں) ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، تو کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے ، وہ عرض کرے گا ، خدا وندا میرے پاس کوئی عذر بھی نہیں (یہاں تک کہ سوال و جواب سے خوس اس شخص کو اور دوسرے لوگوں کو بھی خیال ہو گا کہ یہ بندہ اب گرفت اور عذاب سے کہاں بچ سکے گا ، لیکن ارحم الراحمین کی رحمت کا اس طرح ظہور ہو گا کہ) اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائیں گے ، ہاں ! ہمارے پاس تیری ایک خاص نیکی بھی ہے ، اور آج تیرے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہو گا (اور اس نیکی کے فائدہ سے تجھے محروم نہیں کیا جائے گا) ۔ یہ فرما کر کاغذ کا ایک پرزہ نکالا جائے گا ۔ اس میں لکھا ہو گا “أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ” اور اس بندے سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے وزن کے پاس حاضر ہو (یعنی چل کر اپنے سامنے وزن کرا) وہ عرض کرے گا ، خدا وندا ! ان دفتروں کے سامنے اس پرزہ کی کیا حقیقت ہے ، اور ان سے اس کو کیا نسبت ہے (یعنی میں وہاں جا کر کیا دیکھوں گا ، اور کیا کروں گا ، نتیجہ تو معلوم ہی ہے ، کہاں اتنے بڑے بڑے ننانوے دفتر ، اور کہاں یہ ذرا سا پرزہ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، نہیں تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا (بلکہ پورا پورا انصاف کیا جائے گا ، جس پرزہ کو تو معمولی اور بےوزن سمجھ رہا ہے تیرے سامنے اس کا بھی وزن کیا جائے گا اور آج اس کا ، اور اس میں لکھئے ہوئے ایمانی کلمہ کا وزن ظاہر ہو گا اور اس کا تجھے پورا پورا فائدہ پہنچایا جائے گا ، اس لئے مایوس نہ ہو ، اور میزان کے پاس جا کر وزن کو دیکھ) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ ننانوے دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے ، اور کاغذ کا وہ پرزہ دوسرے پلڑے میں ، پس ہلکے ثابت ہوں گے وہ دفتر اور بھاری رہے گا وہ پرزہ ، اور کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی ، اللہ کے نام کے مقابلے میں۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) تشریح بعض شارحین نے اس حدیث کی توجیہ میں لکھا ہے کہ یہ شہادت کا وہ کلمہ ہو گا جو کفر و شرک سے نکلنے کے لیے اور ایمان و اسلام میں آنے کے لیے پہلی دفعہ دل و زبان سے پڑھا گیا ہو گا ، قیامت میں وزن اعمال کے وقتاس کا یہ اثر ظاہر ہو گا ، کہ ساری عمر کے پہلے گناہ اس کے اثر سے بے وزن اور بے اثر ہو جائیں گے پہلے بھی ایک حدیث گذر چکی ہے : “أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ” (یعنی اسلام قبول کرنے سے وہ سارے گناہ ختم ہو جاتے ہیں جو پہلی زندگی میں آدمی نے کئےہوں) ۔ اور ایکدوسری توجیہ اس حدیث کی یہ بھی کی گئی ہے کہ یہ معاملہ اس شخص کا ہو گا جو مدت دراز تک غفلت اور بے پروائی سے گناہ پر گناہ کرتا رہا اور دفتر کے دفتر لکھے جاتے رہے ، پھر اللہ نے اسے توفیق دی اور اس نے دل کی گہرائی سے اور پورے اخلاص سے اس کلمہ شہادت اور کلمہ ایمانکے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی ایمانی نسبت کو درست کر لیا ، اور اسی پر اس کو موت آ گئی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔

【98】

آسان حساب

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا : اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا (اے اللہ! میرا حساب آسان فرما) میں نے عرض کیا ”حضرت! آسان حساب کا کیا مطلب ہے ؟“ آپ نے فرمایا : ”آسان حساب یہ ہے کہ بندہ کے اعمال نامہ پر نظر ڈالی جائے اور اس سے درگذر کی جائے (یعنی کوئی پوچھ گچھ ، اور جرح نہ کی جائے) بات یہ ہے کہ جس کے حساب میں اس دن جرح کی جائے گی ، اے عائشہ (اس کی خیر نہیں) وہ ہلاک ہو جائے گا“ ۔ (مسند احمد)

【99】

ایمان والوں کے لیے قیامت کا دن کیسا ہلکا اور مختصر ہو گا

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ”مجھے بتائیے کہ قیامت کے دن جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ : اس دن لوگ کھڑے ہوں گے رب العالمین کے حضور میں ، تو اس دن کس کو کھڑے رہنے کی طاقت اور قدرت ہو گی (اور کون اس پورے دن کھڑا رہ سکے گا جس کے متعلق قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ (وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”سچے ایمان والوں کے حق میں یہ کھڑا ہونا بہت ہلکا اور خفیف کر دیا جائے گا ، یہاں تک کہ ان کے لئے بس ایک فرض نماز کی طرح ہو جائے گا“ ۔ (البعث و النشور للبیھقی) تشریح رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ابو سعید خدری کو جو جواب دیا اس کا اشارہ قرآن میں بھی موجود ہے سورہ مدثر میں فرمایا گیا ہے کہ : فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ (8) فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (9) عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ (10) تو جب صور پھونک دیا جائے گا تو وہدن بڑا سخت ہو گا ایمان نہ لانے والوں کے لئے آسان نہ ہو گا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سخت اور بھاری دن ایمان والوں کے حق میں سخت اور بھاری نہ ہو گا بلکہ آسان اور ہلکا کر دیا جائے گا ۔

【100】

راتوں کو اللہ کے لیے جاگنے والوں کا جنت میں بے حساب داخلہ

اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : قیامت کے دن سب لوگ (زندہ کئےجانے کے بعد) ایک وسیع اور ہموار میدان میں جمع کئے جائیں گے (یعنی سب میدانِ حشر میں جمع ہو جائیں گے) پھر اللہ کا منادی پکارے گا ، کہ کہاں ہیں وہ بندے جن کے پہلو راتوں کو بستروں سے الگ رہتے تھے (یعنی اپنے بستر چھوڑ کر جو راتوں کو تہجد پڑھتے تھے) پس وہ اس پکار پر کھڑے ہوجائیں گے ، اور ان کی تعداد زیادہ نہ ہو گی ، پھر وہ اللہ کے حکم سے بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جائیں گے اس کے بعد باقی تمام لوگوں کے لئے حکم ہو گا کہ وہ حساب کے لئے حاضر ہوں ۔ (شعب الایمان للبیھقی)

【101】

امت محمدیہﷺ کی بہت بڑی تعدادکا حساب کے بغیر جنت میں داخلہ

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے سنا ، آپ فرماتے تھے کہ ”میرے پروردگار نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری اُمت میں سے ستر ہزار کو وہ بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں بھیجے گا ، اور ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہی ہزار ہوں گے ۔ اور تین حثیےاور میرے پروردگار کے حثیات میں سے (میری امت میں سے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں بھیجے جائیں گے) “۔ تشریح جب دونوں ہاتھ بھر کر کسی کو کوئی چیز دی جائے ، تو عربی میں اُس کو حثیہ کہتے ہیں ، جس کو اردو اور ہندی میں لپ بھر کے دینا کہتے ہیں ، تو حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی امت میں سے ستر ہزار کو بلا حساب اور بلا عذاب جنت میں داخل کرے گا ، اور پھر ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہی اور اسی طرح بلا حساب و عذاب جنت میں جائیں گے ۔ اور اس سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص شانِ رحمت سے اس امت کی بہت بڑی تعداد کو تین دفعہ کر کے اور جنت میں بھیجے گا ، اور یہ سب وہی ہوں گے جو بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔ سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ انتباہ ۔۔۔ اس قسم کی حدیثوں کی پوری حقیقت اسی وقت کھلے گی ، جب یہ سب باتیں عملی طور پر سامنے آئیں گی ، اس دنیا میں تو ہمارا علم و ادراک اتنا ناقص ہے کہ بہت سے ان واقعات کو صحیح طور پر سمجھنے سے بھی ہم قاصر رہتے ہیں ، جن کی خبریں ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں ، مگر اس قسم کے واقعات کا بھی ہم نے تجربہ اور مشاہدہ کیا ہوا نہیں ہوتا ۔ وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ العِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا.

【102】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

انس سے روایت ہے کہتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس اثنا میں کہ میں جنت میں چلا جا رہا تھا ، میرا گذر ایک (عجیب و غریب) نہر پر ہوا ، اس کے دونوں جانب ”در مجوف“ سے (یعنی اندر سے خالی کئے ہوئے موتیوں سے) تیار کئے ہوئے قبے تھے ، میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟جبرئیل نے بتلایا یہ وہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا فرمایا ہے ، میں نے دیکھا کہ اس کی مٹی (جو اس کی تہہ میں تھی) وہ نہایت مہکنے والے مشک کی طرح خوشبو دار تھی ۔ (بخاری) تشریح حدیثوں میں آخرت کی جن چیزوں کا نام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ان میں سے یہ تین چیزیں بھی ہیں ، ایک حوضِ کوثر ، دوسری صِراط اور تیسری میزان ۔ پھر کوثر کر بعض احادیث میں حوض کے لفظ سے بھی ذکر کیا گیا ہے اور بعض میں نہر کے لفظ سے ۔ پھر بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوثر جنت کے اندر واقع ہے ، اور اکثر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہاس کا محل وقوع جنت سے باہر ہے اور اہل ایمان جنت میں جانے سے پہلے اس حوض پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں باریاب ہو کر آپ کے دستِ کرم سے اس کا نہایت سفید و شفاف اور بے انتہا لذیذہ و شیریں پانی نوش جان کریں گے ، اور تحقیق یہ ہے کہ کوثر کا اصل مرکزی چشمہ جنت کے اندر ہے ، اور جنت کے طور و عرض میں اس کی شاخیں نہروں کی شکل میں ہرطرف جاری ہین ۔ اور جس کو حوضِ کوثر کہا جاتا ہے وہ سینکڑوں میل کے طول و عرض میں ایک نہایت حسین و جمیل تالاب ہے جو جنت سے باہر ہے لیکن اس کا تعلق اسی جنت کے اندر کے چشمہ سے ہے ، گویا اس میں جو پانی ہو گا وہ جنت ہی کے اس چشمہ سے نہروںکے ذریعہ آئے گا ۔ آج کل کے متمدن شہروں میں واٹر ورکس جو نظام ہے اس نے کوثر کی اس نوعیت کا سمجھنا الحمد للہ سب کے لیے آسان کر دیا ہے ۔ یہاں ایک چیز بھی قابلِ لحاظ ہے کہ حوض کے لفظ سے عموماً لوگوں کا ذہن اسی قسم کے حوضوں کی طرف جاتا ہے جس قسم کے حوض انہوں نے عموماً دنیا میں دیکھے ہوتے ہیں ، لیکن حوض کوثر اپنی معنوی کیفیات اور اپنی خوش منظری میں تو دنیا کے حوضوں سے اتنا ممتاز اور فائق ہو گا ہی جتنا کہ جنت کی کسی چیز کو دنیا کی چیزوں کے مقابلے میں ہونا چاہئے ، مگر اس کے علاوہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا رقبہ اور علاقہ بھی اتنا ہو گا ، کہ ایک راہروا سکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک کی مسافت ایک مہینے میں طے کر سکے گا اور ایک حدیث میں اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کا فاصلہ عدن اور عمان کے فاصلے کے برابر بتلایا گیا ہے ۔ بہر حال آخرت کی چیزوں کے متعلق احادیث میں جو کچھ ذکر کیا جاتا ہے اس کی روشنی میں بھی ان چیزوں کا صحیح تصور اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا ، ان چیزوں کی جو واقعی نوعیت اور صورت ہے وہ صحیح طور پر تو سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو گی ۔ یہی بات صراط اور میزان وغیرہ کے بارے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے ۔ تشریح ۔۔۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جنت میں سیر کرتے ہوئے نہر کوثر پر گذرنے کا جو واقعہ ذکر فرمایا ہے ، غالباً یہ شب معراج کا ہے ، اور حضرت جبرئیل نے رسول اللہ ﷺ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جو یہ فرمایا کہ ”یہ وہ کوثر ہے جو آپ کے رب نے آپ کو عطا کیا ہے“ ۔ تو یہ قرآن مجید کی آیت “إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الكَوْثَرَ”کی طرف اشارہ ہے ، اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ”ہم نے آپ کو کوثر دیا“ کوثر کے اصل معنی خیر کثیر کے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو خیر کے جو خزانے عطا فرمائے ، مثلاً قرآن و شریعت اور اعلیٰ روحانی صفات ، اور دنیا اور آخرت میں آپ کی رفعتِ شان وغیرہ ، سو یہ سب بھی کوثر کے عموم میں اگرچہ داخل ہیں ، لیکن جنت کی یہ نہر اور اس سے متعلق وہ حوض جو میدانِ حشر میں ہو گا (جس سے اللہ کے بےشمار بندے سیراب ہوں گے) لفظِ کوثر کا خاص مصداق ہیں ، یا یوں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و ایمان کے سلسلہ کی جو بیش بہا نعمتیں عطا فرمائی تھیں ، جو آپ کے ذریعے سے اللہ کے بے شمار بندوں تک پہنچیں ، آخرت میں ان کا ظہور اس نہر کوثر اور حوضِ کوثر کی شکل میں ہو گا ، جن سے اللہ کے بے شمار بندے فیضیاب اور سیراب ہوں گے ۔

【103】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے حوض کی مسافت ایک مہینہ کی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ نے جو حوضِ کوثر مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس قدر طویل و عریض ہے کہ اس کی ایک جانب سے دوسری جانب تک ایک مہینہ کی مسافت ہے) اور اس کے زاویے (یعنی گوشے) بالکل برابر ہیں (اس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ وہ مربع ہے ، اس کا طول و عرض یکساں ہے) اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہے ، اور اس کی خوشبو مشک سے بھی بہتر ہے ، اور اس کے کوزے آسمان کے تاروں کی طرح ہیں (غالباًاس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان کے ستارے جیسے حسین اور چمکدار ہیں ، اور ان کی کثرت کی وجہ سے جس طرح انہیں گنا نہیں جا سکتا ، اسی طرح میرے حوض کے کوزے بھی بے شمار اور حسین اور چمکدار ہیں) جو اس کا پانی پئیے گا ، وہ کبھی پیاس میں مبتلا نہیں ہو گا ۔ (بخاری و مسلم)

【104】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں حوض کوثر پر تمہارا میرِ ساماں ہوں (اور تم سے آگے جا کے تمہاری پیاس کا انتظام کرنے والا ہوں) جو میرے پاس پہنچے گا ، وہ آبِ کوثر سے پئیے گا ، اور جو اس کو پی لے گا پھر کبھی وہ پیاس میں مبتلا نہ ہو گا ، اور وہاں کچھ لوگ جن کو میں بھی پہچانوں گا ، اور وہ بھی مجھے پہنچانیں گے میری طرف آئیں گے ، لیکن میرے اور ان کے درمیان رکاوٹ ڈال دی جائے گی (اور انہیں میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا) تو میں کہوں گا کہ یہ آدمی تو میرے ہیں ، پس مجھے جواب دیا جائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا نئی نئی باتیں نکالیں (اور کیا کیا رخنے ڈالے) تو میں کہوں گا کہ بربادی اور دوری ہو ان کے لئے جنہوں نے میرے بعد دین میں فرق ڈالا اور اس کو گڑ بڑ کیا ۔ (بخاری و مسلم) تشریح حدیث میں جن لوگوں کے متعلق خبر دی گئی ہے کہ وہ حوض کوثر پر رسول اللہصﷺ کے پاس جانے سے روک دئیے جائیں گے ، اس کا تعین مشکل ہے ، کہ یہ کون اور کس طبقے کے لوگ ہوں گے اور نہ اس کا معلوم کرنا ہمارے لیے ضروری ہے ، اس حدیث کا خاص سبق ہمارے لیے تو بس یہ ہے کہ اگر ہم کوثر پر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے آرزو مند ہیں تو مضبوطی سے اس دین پر قائم رہیں ، جو رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے لائے تھے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی ایجاد اور کوئی رد و بدل نہ کریں ۔

【105】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

ثوبان سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میرے حوض کی مسافت (اتنی ہے جتنی کہ) عَدَن سے عمانِ بلقاء تک ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اورشہد سے زیادہ شیریں ہے ، اور اس کے گلاس گنتی میں آسمان کے ستاروں کی طرح (بےشمار) ہیں (اس کے پانی کی یہ صفت ہے کہ) جو اس میں سے ایک دفعہ پی لے گا ، اسے اس کے بعد کبھی پیاس کی تکلیف نہیں ہو گی ، اس حوض پر سب لوگوں سے پہلے میرے پاس پہنچنے والے فقراء مہاجرین ہوں گے ، پریشان و پراگندہ سروں والے ، میلے کچیلے کپڑوں والے ، جن کا نکاح خوش حال و خوش عیش عورتوں سے نہیں ہو سکتا ، اور جن کے لیے دورازے نہیں کھولے جاتے (یعنی جن کو خوس آمدید نہیں کہا جاتا) ۔ (احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ) تشریح عَدَن مشہور مقام ہے ، اور عمان بھی شام کے علاقہ کا مشہور شہر ہے ، بلقاء عمان کے قریب ایک بستی تھی ، بطور امتیاز اور نشانی کے اس حدیث میں ”عمان بلقاء“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں عدن اور بلقاء کے قریب والے عمان کے درمیان جتنا فاصلہ ہے ، آخرت میں حوض کوثر کی مسافت اتنی ہو گی ، اور واضح رہے کہ یہ بھی کوئی ناپی ہوئی مسافت نہیں ہے ، کہ ٹھیک اتنے ہی میل اور اتنے ہی فرلانگ اور اتنے ہی فٹ ہوں ۔ بلکہ حوض کی وسعت کو سمجھانے کے لیے عرف کے مطابق یہ ایک تقریبی بات کہی گئی ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ حوض کی مسافت سینکڑوں میل کی ہو گی ۔ آخر میں فرمایا گیا کہ سب سے پہلے حوض پر پہنچنے والے اور اس سے سیراب ہونے والے وہ غریب مہاجرین ہوں گے جو اپنے فقر و تنگدستی اور دنیا کی بے رغبتی کی وجہ سے اس حال میں رہتے ہیں کہ ، ان کے سروں کے بال بنے سنورے نہیں رہتے ، بلکہ بکھرے ہوئے اور الجھے ہوئے رہتے ہیں اور کپڑے بھی ان کے اچھے اجلے نہیں رہتے ، بلکہ میلے کچیلے رہتے ہیں ، جو اگر نکاح کرنا چاہیں تو ان کی اس حالت کی وجہ سے خوش عیش اور خوش حال گھرانوں کی بیٹیاں ان کے نکاحوں میں نہ دی جائیں ، اور وہ کسی کے گھر پر جائیں ، تو ان کے میلے کچیلے کپڑے ، اور ان کی شکل و صورت کی وجہ سے کوئی ان کے لیے اپنا دروازہ نہ کھولے ، اور ان کی خوش آمدید نہ کہے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے جن بندوں کا حال یہ ہو ، کہ دنیا کی بےرغبتی اور دین میں انہماک اور فکر آخرت کے غلبہ کی وجہ سے اس دنیا میں وہ غریب و تنگدست ہو کر رہیں ، نہ اپنی صورتوں کے بناؤ سنگار کی فکر رکھیں ، نہ لباس پوشاک کی ، وہ اپنی غربت اور دینوی عیش کی اس قربانی کی وجہ سے آخرت کے انعامات میں مقدم اور فائق رہیں گے ، ہمارے اس زمانہ کے جو حضرات اس طرزِ عمل کو کسی غلط فہمی کی وجہ سے ’تقثف‘ اور رہبانیت پسندی اور دین کے غلط تصور کا نتیجہ سمجھتے ہیں ، چاہیے کہ وہ اس قوم کی حدیثوں پر غور کریں ۔ ہر زمانہ کے کچھ امراض ہوتے ہٰن جس طرح پہلے کسی زمانہ میں واقعی رہبانیت اور ترک دنیا کی غلط اور غیر اسلامی صورتوں کو اسلام کا پسندیدہ زُہد بعض حلقوں میں سمجھا اور سمجھایا جاتا تھا ، اسی طرح ہمارے اس زمانے میں (شاید اس کے ردِ عمل میں) بعض حلقوں کا مستقل رجحان یہ ہے کہ اسلام کو اور اس کی تعلیمات کو اس دور کے مادہ پرستانہ اور نفس پرستانہ تقاضوں سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جائے ۔ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

【106】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

حضرت سمرہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آخرت میں ہر نبی کا ایک حوض ہو گا ، اور ان کے درمیان اس پر فخر ہو گا کہ ان میں سے کس کے پاس پینے والے زیادہ آتے ہیں ،اور میں امید رکھتا ہوں کہ سب سے زیادہ لوگ پینے کے لیے میرے پاس آئیں گے (اور میرے حوض سے سیراب ہوں گے) ۔ (ترمذی)

【107】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

حضرت انس (خادم رسول ﷺ) روایت ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ قیامت کے روز آپ میری سفارش فرمائیے گا ! آپ نے فرمایا ، کہ میں تمہارا یہ کام کروں گا ، میں نے عرض کیا تو (قیامت کے روز) میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ آپ نے فرمایا سب سے پہلے جب تمہیں میری تلاش ہو ، تو صراط پر مجھے دیکھنا میں نے عرض کیا اگر میںآپ کو صراط پر نہ پا سکوں ، تو پھر کہاں تلاش کروں ؟ آپ نے فرمایا ، تو پھر مجھے میزان کے پاس تلاش کرنا ! میں نے عرض کیا ، اور اگر میں میزان کے پاس بھی آپ کو نہ پا سکوں ، تو پھر کہاں تلاش کروں ؟ آپ نے فرمایا ، تو پھر مجھے حوض کے پاس دیکھنا ! کیوں کہ میں اس وقت ان تین مقامات سے دور کہیں نہ جاؤں گا ۔ (ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخرت کی شفاعت ایسی چیز ہے جس کی رسول ﷺ سے درخواست کی جا سکتی ہے اور اگرچہ اس حدیث میں حضور نے اپنے ملنے کے مقامات حضرت انسؓ کو بتلائے ہیں ، لیکن دراصل شفاعت کے سب حاجت مندوں کے لیے حضور نے اپنے ملنے کے یہ پتے بتلائے ہیں ۔

【108】

حوض وکثر ، صراط اور میزان

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ قیامت کے دن صراط پر اہلِ ایمان کا شعار (یعنی ان کا امتیازی وظیفہ) یہ دعائی کلمہ ہو گا ۔”رب سلم سلم“ (اے ہمارے پروردگار ہمیں سلامت رکھ ، اور سلامتی کے ساتھ پار لگا) ۔

【109】

شفاعت

انسؓ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: جب قیامت کا دن ہو گا (اور سب اولین و آخرین میدانِ حشر میں جمع ہوں گے) تو لوگوں میں سخت اضطراب اور اژدحام کی کیفیت ہو گی ، پس وہ لوگ (یعنی اہلِ محشر کے کچھ نمائندے) آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے ، کہ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے (کہ ہمیں اس حالت سے چھٹکارا ملے) آدم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق اور اس مرتبہ کا نہیں ہوں ، لیکن تم کو چاہئے کہ ابراہیم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں (شاید وہ تمہارے کام آ سکیں) پس وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان کےسامنے شفاعت کا اپنا سوال رکھیں گے وہ بھی فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں ، لیکن تمہیں موسیٰ کے پاس جانا چاہیے وہ اللہ کے کلیم ہیں (جنہیں اللہ نے بلا واسطہ اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا ہے) شاید وہ تمہارا کام کر سکیں، پس وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے (اور اپنی وہی عرض ان کے سامنے رکھیں گے) وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں ، لیکن تمہیں عیسیٰ کے پاس جانا چاہیے وہ کلمۃ اللہ ہیں (یعنی اللہ نے ان کو انسانی پیدائش کے عام مقررہ اسباب کے بغیر صرف اپنے حکم سے پیدا کیا ہے ، اور ان کو غیر معمولی قسم کی روح اور روحانیت بخشی ہے) تم ان کی خدمت میں جاؤ شاید وہ تمہارے لئے حق تعالیٰ سے عرض کرنے کی جرأت کر سکیں، پس یہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے (اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے) وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اور اس مرتبہ کا نہیں ہوں ، تم کو (اللہ کے آخری نبی) محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے (رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ) پھر وہ لوگ میرے پاس آئیں گے ، (اور شفاعت کے لیے مجھ سے کہیں گے) پس میں کہوں گا ، کہ میں اس کام کا ہوں (اور یہ میرا ہی کام ہے) پس میں اپنے رب کریم کی بارگاہِ خاص میں حاضری کی اجازت طلب کروں گا ، مجھے اجازت دے دی جائے گی (میں وہاں حاضر ہو جاؤں گا) اور اللہ تعالیٰ اس وقت مجھے اپنی خاص تعریفیں اپنی حمد کے لیے الہام فرمائیں گے (جو اس وقت مجھے معلوم نہیں ہیں) تو اس وقت میں انہی الہامی محامد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا ، اور اس کے آگے سجدہ میں گر جاؤں گا (مسند احمد کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ےہ کہ آپ وہاں ایک ہفتہ تک سجدہ میں پڑے رہیں گے ، اس کے بعد) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو فرمایا جائے گا ، کہ اے محمد! سر اُٹھاؤ ، اورجو کہنا ہو کہو ، تمہاری سنی جائے گی ، اور جو مانگنا ہو مانگو تم کو دیا جائے گا ، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو ، تمہاری مانی جائے گی ، پس میں کہوں گا اے پروردگار! میری امت ، میری امت ! (یعنی میری امت پر آج رحم فرمایا جائے اور اس کو بخش دیا جائے) پس مجھ سے کہا جائے گا ، جاؤ اور جس کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ، اس کو نکال لو ، پس میں جاؤں گا ، اور ایسا کروں گا (یعنی جن کے دل میں جَو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ، اس کو نکال لاؤں گا) اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کرم کی طرف لوٹوں گا اور پھر ان ہی الہامی محامد کے ذریعے اس کی حمد و ثنا کروں گا ، اور اس کے آگے پھر سجدہ میں گر جاؤں گا ۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمایا جائے گا ، اسے محمد! سر اُٹھاؤ ، اور جو کہنا ہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، اور جو مانگنا ہو مانگو تم کو دیا جائے گا ، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو ، تمہاری شفاعت مانی جائے گی ، پس میں عرض کروں گا اے پروردگار! میری امت ، میری امت! تو مجھ سے فرمایا جائے گا ، کہ جاؤ اور جن کے دل میں ایک ذرہ کے بقدر (یا فرمایا ، کہ رائی کے دانہ کے بقدر) بھی ایمان ہو ، ان کو بھی نکال لو ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ، کہ میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا (یعنی جن کے دلوں میں ذرہ برابر ، یا رائی کے دانہ کے برابر نورِ ایمان ہو گا ، ان کو بھی نکال لاؤں گا) اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کرم کی طرف پھر لوٹوں گا اور پھر ان ہی الہامی محامد کے ذریعہ اُس کی حمد و ثنا کروں گ ، اور اس کے آگے پھر سجدہ میں گر جاؤں گا پس مجھ سے فرمایا جائے گا ، اے محمد ! اپنا سر اٹھاؤ ، اور جو کہنا ہو کہو تمہاری سنی جائے گی ، اور جو مانگنا چاہو مانگو ، تم کو دیا جائے گا ، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو ، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ، پس میں عرض کروں گا میرے رب ! میری امت ، میری امت! پس مجھ سے فرمایا جائے گا ، جاؤ اور جن کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کمتر بھی ایمان ہو ، ان کو بھی نکال لو ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پس میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا (یعنی جن کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کمتر بھی ایمان کا نور ہو گا ، ان کو بھی نکال لاؤں گا) اور اس کے بعد چوتھی دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کرم کی طرف لوٹ آؤں گا ، اور ان ہی الہامی محامد کے ذریعے اس کی حمد کروں گا پھر اس کے آگے سجدہ میں گر جاؤں گا ، پس مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد! اپنا سر سجدہ سے اٹھاؤ ، اور جو کہنا ہو کہا ، تمہاری سنی جائے گی ، اور جو مانگنا چاہو مانگو تم کو دیا جائے گا ، اور جو سفارش کرنا چاہو کرو ، تمہاری سفارش مانی جائے گی ، پس میں عرض کروں گا کہ اے پروردگار! مجھے اجازت دیجئے کہ ان سب کے حق میں جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، یہ کام تمہارا نہیں ہے ، لیکن میری عزت و جلال اور میری عظمت و کبریائی کی قسم ، میں خود دوزخ سے ان سب کو نکال لوں گا ، جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو ۔ (بخاری و مسلم) تشریح شفاعت محشر میں پیش آنے والے جن واقعات کی اطلاع احادیث میں صراحت کے ساتھ دی گئی ہے اور جن پر ایک مومن کو یقین لانا ضروری ہے ، ان میں سے ایک رسول اللہ ﷺ کی شفاعت بھی ہے ، شفاعت کے متعلق حدیثیں اتنی کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ سب ملا کر تواتر کی حد کو پہنچ جاتی ہیں ۔ پھر شفاعت کی ان حدیثوں کے مجموعہ سے سمجھ کر شارحین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کئی قسم کی ہو گی ، اور بار بار ہو گی ، سب سے پہلے جب کہ سارے اہلِ محشر اللہ کے جلال سے سراسیمہ اور خوفزدہ ہوں گے اور کسی کو لب ہلانے کی جرأت نہیں ہو گی ، اور آدمؑ سے لیکر عیسیٰؑ تک تمام اولولعزم پیغمبر بھی ”نفسی نفسی“ کے عالم میں ہوں گے اور کسی کے لیے شفاعت کی جرأت نہ کر سکیں گے ، تو اس وقت عام اہلِ محشر کی درخواست پر ، اور ان کی تکلیف سے متاثر ہو کر رسول اللہ نیاز مندی اور حسن ادب کے ساتھ (جو آپ کے شایان شان ہے) بارگاہِ رب العزت میں اہل محشر کے لیے سفارش کریں گے ، کہ ان کو اس کی فکر اور بےچینی کی حالت سے نجات دی جائے ، اور ان کا حساب کتاب اور فیصلہ فرما دیا جائے ۔ بارگاہِ جلالت میں اس دن یہ سب سے پہلی شفاعت ہو گی ، اور یہ شفاعت صرف آپ ہی فرمائیں گے ۔ اس کے بعد ہی حساب اور فیصلہ کا کام شروع ہو جائے گا ، یہ شفاعت جیسا کہ عرض کیا گیا عام اہلِ محشر کے لیے ہو گی ، اس لیے اس کو ”شفاعت عظمیٰ“ بھی کہتے ہیں ، اس کے بعد آپ اپنی امت کے مختلف درجہ کے ان گنہگاروں کے بارے میں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے سزاوار ہوں گے ، یا جو جہنم میں ڈالے جا چکے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ ان کو معاف کر دیا جائے ، اور جہنم سے ان کو نکالنے کی اجازت دے دی جائے ، آپ کی یہ شفاعت بھی قبول ہو گی ، اور اس کی وجہ سے خطا کار امتیوں کی بہت بڑی تعداد جہنم سے نکالی جائے گی ، اس کے علاوہ کچھ صالحین امت کے لیے آپ اس کی بھیشفاعت کریں گے کہ ان کے لیے بغیر حساب کے داخلہ جنت کا حکم دے دیا جائے ۔ اسی طرح اپنے بہت سے امتیوں کے حق میں آپ ترقی درجات کی بھی اللہ تعالیٰ سے استدعا کریں گے ، حدیثوں میں شفاعت کے ان تمام اقسام اور واقعات کی تفصیل وارد ہوئی ہے ۔ پھر حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ شفاعت کا دروازہ کھل جانے کے بعد اور انبیاء علیہم السلام ، ملائکہ عظام اور اللہ کے دوسرے صالح اور مقرب بندے بھی اپنے سے تعلق رکھنے والے اہلِ ایمان کے حق میں شفارشیں کریں گے ، یہاں تک کہ کم عمر میں فوت ہونے والے اہلِ ایمان کے معصوم بچے بھی اپنے ماں باپ کے لئے سفارشیں کریں گے ، اسی طرح بعض اعمال صالحہ بھی اپنے عاملوں کے لیے سفارش کریں گے ۔ اور یہ سفارشیں بھی قبول فرمائی جائیں گی ، اور بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہو گی جن کی نجات اور بخشش ان ہی سفارشوں ہی کے بہانہ ہو گی ۔ مگر لحاظ رہے کہ یہ سب شفاعتیں اللہ کے اذن سے اور اس کی مرضی اور اجازت سے ہوں گی ، ورنہ کسی نبی اور کسی فرشتہ کی بھی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی ایک آدمی کو بھی دوزخ سے نکال سکے ۔ یا اس کا اذن اور ایما پائے بغیر کسی کے حق میں سفارش کے لیے زبان کھول سکے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ، إِلَّا بِإِذْنِهِ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کی سفارش کر سکے ۔ دوسرے موقع پر فرمایا گیا : وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى اور وہ نہیں سفارش کر سکیں گے مگر صرف اس کے لیے جس کے لیے اس کی رضا ہو ۔ بلکہ علماء کرام نے جیسا کہ فرمایا ہے ، شفاعت در اصل شفاعت کرنے والوں کی عظمت و مقبولیت کے اظہار کے لیے اور ان کے اکرام و اعزاز کے واسطے ہو گی ، ورنہ حق تعالیٰ کے کاموں اور اس کے فیصلوں میں دخل دینے کی کسے مجال ہے ۔ “يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ، وَيَحْكُمُ مَا يُرِيدُ”اس کی شان یہ ہے ۔ اس تمہید کے بعد ذیل میں بابِ شفاعت کی حدیثیں پڑھیئے! اس حدیث میں چند باتیں تشریح طلب ہیں : ۱۔ حدیث میں جو کے برابر ، رائی کے دانہ کے برابر ، اور رائی کے دانہ سے کم سے کمتر ، دل میں ایمان ہونے کا جو ذکر ہے ، اس سے مراد نورِ ایمان اور ثمرات ایمان کے خاص خاص درجے ہیں ۔ جن کا ادراک ہم کو تو نہیں ہوتا ، لیکن حضور ﷺ کی بصیرت اس وقت اس کا ادراک کر لے گی ، اور آپ ان درجوں والوں کو اللہ کے حکم سے نکال لائیں گے ۔ ۲۔ حدیث کے آخری حصے میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لیے تین دفعہ شفاعت فرمانے کے بعد چوتھی دفعہ حق تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ مجھے ان لوگوں کے بارے میں اجازت دی جائے جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہو ، اس کا مطلب بظاہر یہ ہے جن لوگوں نے آپ کی دعوتِ توحید کو تو قبول کر لیا ، اور ایمان لے آئے ، لیکن دوزخ سے نجات پانے اور جنت میں جانے کے لیے جو اور اعمال کرنا چاہئے تھے ، وہ انہوں نے بالکل نہیں کئے ، تو مطلب یہ ہواکہ رسول اللہ ﷺ آخر میں ایسے لوگوں کو بھی دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کرنے کی اجازت چاہیں گے جن کے پاس کسی درجہ کا مجرد ایمان اور توحید اعتقاد تو ہو گا لیکن عمل خیر سے وہ بالکل خالی ہوں گے (بخاری و مسلم ہی کی ابو سعید خدریؓ کی حدیث میں غالباً اسی گروہ کے حق میں “لَمْ يَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ” کے الفاظ آئے ہیں ، جن کا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ہو گا) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے “لَيْسَ ذَالِكَ لَكَ” یعنی ان مسکینوں کو جہنم سے نکالنے کا کام میں نے آپ کے لیے نہیں رکھا ، یا مطلب یہ ہے کہ آپ کے لیے یہ سزا وار اور مناسب نہیں ہے ، بلکہ یہ کام میری عزت و جلال اور میری عظمت و کبریائی اور شان “فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ” کے لیے ہی سزاوار ہے ، اس لیے اس کو میں خود ہی کروں گا ۔ اس عاجز کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لا کر احکام کی تعمیل بالکل نہیں کی ، ایسوں کو دوزخ سے نکالنا پیغمبر کے لئے مناسب نہیں ہے ، اس درجہ کا عفو و درگزر اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ۴۔ معلوم ہوتا ہے اس روایت میں آدمؑ کے بعد اور ابراہیمؑ سے پہلے اہلِ محشر کے نوح علیہ السلام کی خدمت میں بھی حاضر ہونے کا ذکر ہے جو اس میں نہیں ہے ۔ نیز اس میں صرف اپنی امت کے حق میں رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا ذکر ہے ، حالانکہ قرین قیاس یہ ہے کہ پہلے آپ عام اہلِ محشر کے لیے حساب اور فیصلہ کی شفاعت فرمائیں گے جس کو “شفاعتِ کبریٰ” کہتے ہیں ، پھر جب حساب کے نتیجہ میں بہت سے آپ کے امتی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دوزخ کی طرف بھیج دئیے جائیں گے ، تو آپ ان کو دوزخ سے نکالنے اور جنت میں داخل کرانے کے لئے شفاعت فرمائیں گے ۔ واللہ اعلم ۔ ۴۔ اہلِ محشر کے جو نمائندے کسی شفیع کی تلاش میں نکلیں گے ، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے دل میں یہی ڈالے گا ، کہ وہ پہلے آدم علیہ السلام کی خدمت میں اور پھر ان کی رہنمائی اور مشورہ سے نوح علیہ السلام کی خدمت میںإ اور پھر اسی طرح ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں یہ سب منجانب اللہ اس دن اس لئے ہو گا کہ عملی طور پر سب کو معلوم ہو جائے کہ اس شفاعت کا منصب اور “مقام محمود” اس کے آخری نبی کے لیے مخصوص ہے ۔ بہر حال اس دن یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور رفعتِ مقام کے برسرِ محشر اظہار کے لئے ہو گا ۔

【110】

شفاعت

عمران بن حصین سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ایک گروہ میری امت میں سے میری شفاعت سے دوزخ سے نکالا جائے گا ، جن کو ”جہنمیوں “ کے نام سے یاد کیا جائے گا ۔ (بخاری) تشریح ان کی توہین و تنقیص نہ ہو گی ، بلکہ جہنم سے نکالے جانے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑ جائے گا ، جو ان کے لئے خوشی کا باعث ہو گا ، کیوں کہ یہ اللہ کے کرم کو یاد دلائے گا ۔

【111】

شفاعت

حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے کہتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا پیغام لے کر آیا ، اس میں میرے رب نے مجھے اختیار دیا کہ میں ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کر لوں ، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ میری نصف امت کو جنت میں داخل فرما دیں ، یا یہ کہ مجھے شفاعت کا موقع ملے ، تو میں نے حقِ شفاعت کو اختیار کر لیا اور میری شفاعت ان لوگوں کے لیے ہو گی ، جو (ایمان اور توحید کی میری دعوت کو قبول کر کے) اس حال میں مرے ، کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے تھے ۔

【112】

شفاعت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : قیامت کے دن میری شفاعت سے بہرہ مند وہی ہوں گے جنہوں نے خلوصِ قلب سے لا الہ الا اللہ کہا ہو ۔ (بخاری) تشریح اس حدیث کا بھی مطلب وہی ہے جو اوپر والی حدیث میں دوسرے لفظوں میں فرمایا گیا ، یعنی جو شرک کی بیماری میں مبتلا ہو گا اس کو شفاعت سے فائدہ نہ ہو گا ، ہاں اگر شرک سے پاک ہو گیا ہے ، اور دوسرے قسم کے گناہ ہیں ، تو اس کو رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے فائدہ ہو گا ۔

【113】

شفاعت

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے حق میں ہو گی جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہوں گے ، (ترمذی و ابو داؤد) اس حدیث کو ابن ماجہ نے بجائے حضرت انسؓ کے حضرت جابر سے روایت کیا ہے ۔ تشریح اس قسم کی حدیثوں سے نڈر اور بے خوف ہو کر گناہوں پر اور زیادہ جری ہو جانابڑا کمینہ پن ہے ، حضور ﷺ کے اس قسم کے ارشادات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے شامتِ نفس سے گناہ ہو جائیں ، وہ بھی مایوس اور نا امید نہ ہوں ، میں ان کی شفاعت کروں گا اس لئے وہ شفاعت کا استحقاق پیدا کرنے کے لیے اللہ کے ساتھ اپنے بندگی کے تعلق کو ، اور میرے امتی ہونے کے تعلق کو درست کرنے کی فکر کریں ۔

【114】

شفاعت

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی : “رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي” (میرے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے ، یعنی ان کی وجہ سے بہت سے آدمی گمراہ ہوئے ، پس جو لوگ میری پیروی کریں وہی میرے ہیں ، پس ان کے لیے تو میں تجھ سے عرض کرتا ہوں کہ ان کو تو بخش ہی دے) اور عیسیٰ کا یہ قول بھی تلاوت فرمایا ، جو قرآن پاک میں ہے : “إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ” (اے اللہ! اگر میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں ، تو یہ آپ کے بندے ہیں، یعنی آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے) یہ دونوں آیتیں تلاوت فرما کر رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو یاد کیا ، اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ، اور کہا : ”اے میرے اللہ! میری امت ، میری امت ! اور آپ اس دعا میں روئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کو فرمایا ، تم محمد کے پاس جاؤ ۔ اور اگرچہ تمہارا رب سب کچھ خوب جانتا ہے مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پوچھو ، کہ ان کے اس رونے کا کیا سبب ہے ۔ پس جبرئیل آپ کے پاس آئے ، اور آپ سے پوچھا ، آپ نے جبرئیل کو وہ بتلا دیا جو اللہ سے عرض کیا تھا (یعنی یہ کہ اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے ، جبرئیل نے جا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا) تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل کو فرمایا ، کہ محمد کے پاس جاؤ ، اور ان کو ہماری طرف سے کہو ، کہ تمہاری امت کے بارہ میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گ اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے“۔ (مسلم) تشریح حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کی دو آیتوں کی تلاوت فرمائی ، ایک سورہ ابراہیم کی آیت ، جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے متعلق ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم اور اپنی امت کے بارے میں عرض کیا ، کہ “فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي، وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” (یعنی ان میں سے جن لوگوں نے میری بات مانی وہ تو میرے ہیں (اور میں ان کے لیے آپ سے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں) اور جنہوں نے میری نافرمانی کی ، تو آپ غفور رحیم ہیں ، چاہیں تو ان کو بھی بخش سکتے ہیں) ۔ اور دوسری آیت سورہ مائدہ کی ، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ذکر ہے ، کہ وہ اپنے گمراہ امتیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے ، کہ “إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ” (اگر آپ ان کو عذاب دیں ، تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور آپ کو عذاب دینے کا پورا حق ہے ، اور اگر آپ ان کو بخش دیں تو آپ غالب ہیں (سب کچھ کر سکتے ہیں) اور حکیم ہیں (جو کچھ کریں گے حکمت کے مطابق ہی ہو گا) ۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ کے دونوں جلیل القدر پیغمبروں نے پورے ادب ، اور بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی اپنی امتوں کے خطاکار لوگوں کے لیے دے لفظوں میں سفارش کی ہے ۔ ان آیتوں کی تلاوت نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی امت کا مسئلہ یاد دلایا ، اور آپ نے ہاتھ اٹھا کر اور رو کر بارگاہِ الہی میں اپنی فکر کو عرض کیا ، جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا ، کہ آپ کی امت کا مسئلہ آپ کی مرضی اور خوشی کے مطابق ہی طے کر دیا جائے گا اور اس معاملہ کی وجہ سے آپ کو رنجیدہ اور غمگین ہونا نہیں پڑے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر پیغمبر کو اپنی امت کے ، بلکہ ہر مقتدا کو اپنے متبعین اور منتسبین کے ساتھ ایک خاص قسم کی شفقت کا تعلق ہوتا ہے جس طرح کہ ہر شخص کو اپنی اولاد کے ساتھ ایک خاص تعلق ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں کے ساتھ نہیں ہوتا ، اور اس تعلق کی وجہ سے ان کی قدرتی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے عذاسب سے چھٹکارا پائیں ، اور اس شفقت اور رأفت میں رسول اللہ ﷺ سب پیغمبروں سے بڑھے ہوئے ہیں اور اس لیے قدرتی طور پر آپ کی یہ بڑی خواہش ہے ، جو مختلف موقعوں پر بار بار آپ سے ظاہر ہوئی کہ آپ کی امت دوزخ میں نہ جائے ، اور جن کی بدعملی اس درجہ کی ہو ، کہ ان کا دوزخ میں ڈالا جانا ، اور کچھ عذاب پانا ناگزری ہو ان کو کچھ سزا پانے کے بعد نکال لیا جائے ، چنانچہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خواہش کو پورا فرمائیں گے ، اور آپ کی شفاعت سے بہت سے لوگ جہنم سے بچ جائیں گے ، اور بہت سے ڈالے جانے کے بعد نکال لئے جائیں گے ۔ شفاعت کے سلسلے کی حدیثوں میں صحیح مسلم کی یہ حدیث ہم جیسے خطاکاروں ، گنہگاروں کے لیے بڑا سہارا ہے اور اس میں بڑی بشارت ہے ، بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ے جبرئیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سن کر فرمایا : میں تو جب مطمئن اور خوش ہوں گا جب میرا کوئی امتی بھی دوزخ میں نہیں رہے گا ۔ ع بریں مژدہ گرجاں فشانم رواست ف ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو بطور خود سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود رونے کا سبب پوچھنے کے لیے حضرت جبرئیل کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجنا صرف آپ کے اکرام و اعزاز کے طور پر تھا ، کہ اپنے مقربین کے ساتھ بادشاہوں کا یہی طرز ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【115】

شفاعت

حضرت عثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”قیامت میں تین طرح کے لوگ (خصوصیت سے) شفاعت کریں گے ، انبیاءؑ ، پھر دین کا علم رکھنے والے ، اور پھر شہداء “۔ (ابن ماجہ) تشریح حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تین گروہوں سے باہر کا کوئی شخص کسی کی سفارش نہیں کر سکے گا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ خاص شفاعت انہی تین گروہ والوں کی ہو گی ، لیکن ان کے علاوہ بعض ان صالحین کو بھی اذن شفاعت ملے گا جو ان تینوں میں سے کسی گروہ میں بھی نہیں ہوں گے ، بلکہ جیسا کہ دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے چھوٹے بچے بھی اپنے ماں باپ کی سفارش کریں گے ، اور اعمالِ صالحہ کی بھی شفاعت کریں گے ۔

【116】

شفاعت

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، کہ : میری امت میں بعض افراد وہ ہوں گے ، جو جماعتوں اور قوموں کی شفاعت کریں گے (یعنی ان کا مقام یہ ہو گا ، کہ اللہ تعالیٰ ان کو قوموں کی شفاعت کی اجازت دے گا اور قوموں کے حق میں ان کی سفارش قبول فرمائے گا) اور بعض وہ ہوں گے جو عصبہ (یعنی دس سے چالیس تک کی تعداد والی کسی پارٹی) کے بارے میں شفاعت کریں گے ، اور بعض وہ ہوں گے جو ایک آدمی کی سفارش کر سکیں گے (اور اللہ تعالیٰ ان سب کی شفاعتیں قبول فرمائے گا) یہاں تک کہ سب جنت میں پہنچ جائیں گے ۔ (ترمذی)

【117】

شفاعت

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : آخرت میں صف باندھے کھڑے کیے جائیں گے اہلِ دوزخ (یعنی اہلِ ایمان میں سے کچھ گنہگار لوگ جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دوزخ میں سزا پانے کے مستحق ہوں گے ، وہ آخرت میں کسی موقع پر صف باندھے کھڑے ہوں گے) پس ایک شخص اہلِ جنت میں اس کے پاس سے گذرے گا ، تو صف والوں میں سے ایک شخص اس گذرنے والے جنتی کو پکار کر کہے گا اے فلاں! کیا تم مجھے نہیں پہچانتے ؟ میں وہ ہوں ، کہ ایک دفعہ میں نے تم کو پانی پلایا تھا (یا شربت وغیرہ ، پینے کی کوئی اچھی چیز پلائی تھی) اور اسی صف والوں میں سے کوئی اور کہے گا ، کہ میں نے تمہیں وضو کے لیے پانی دیا تھا ، پس یہ شخص ان لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سفارش کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرا دے گا ۔ (ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا ، کہ دنیا میں صالحین سے محبت اور قربت کا تعلق اپنی عملی کوتاہیوں کے باوجود بھی ان شاء اللہ بہت کچھ کام آنے والا ہے ، بشرطیکہ ایمان نصیب ہو ، افسوس! ان چیزوں میں جس طرح بہت سے جاہل عوام سخت غلو اور افراط میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوئے ہیں ، اسی طرح ہمارے زمانے کے بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے سخت تفریط میں مبتلا ہیں ۔ جنت اور اس کی نعمتیں ! عالمِ آخرت کی جن حقیقتوں پر ایمان لانا ایک مومن کے لیے ضروری ہے اور جن پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مومن و مسلم نہیں ہو سکتا ، ان ہی میں سے جنت و دوزخ بھی ہیں ، اور یہی دونوں مقام انسانوں کا آخری اور پھر ابدی ٹھکانا ہیں ، قرآن مجید میں بھی جنت اور اس کی نعمتوں کا اور دوزخ اور اس کی تکلیفوں کا ذخر اتنی کثرت سے کیا گیا ہے اور ان دونوں کے متعلق اتنا کچھ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر اس سلسلے کی سب آیتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو صرف انہی سے اچھی خاصی ایک کتاب تیار ہو جائے ۔ اسی طرح کتبِ حدیث میں بھی جنت و دوزخ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی صدہا حدیثیں محفوظ ہیں جن سے ان دونوں کے متعلق کافی معلومات مل جاتی ہیں ، پھر بھی یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ قرآن مجید میں اور اسی طرح احادیث میں جنت و دوزخ کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا گیا ہے اس کی پوری اور اصلی حقیقت کا علم وہان پہنچ کر ، اور مشاہدہ کے بعد ہی حاصل ہو سکے گا ، جنت تو جنت ہے ، اگر کوئی شخص ہماری اس دنیا ہی کے کسی بارونق شہر کے بازاروں کا اور وہاں کے باغوں اورگلزاروں کا ذکر ہمارے سامنے کرے ، تو اس کے بیان سے جو تصور ہمارے ذہنوں میں قائم ہوتا ہے ، ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ وہ اصل کے مقابلہ میں ہمیشہ بہت ناقص ہوتا ہے ، بہر حال اس نفل الامری حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرآن و حدیث میں جنت یا دوزخ کے بیان کو پڑھنا چاہیے ۔ دراصل آیات یا احادیث میں جنت اور دوزخ کا جو ذخر فرمایا گیا ہے ، اس کا یہ مقصد ہی نہیں ہے ، کہ لوگوں کے سامنے وہاں کا مکمل جغرافیہ اور وہاں کے احوال کا پورا نقشہ آ جائے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں میں دوزخ اور اس کے عذاب کا خوف پیدا ہو ، اور وہ ان برائیوں سے بچیں جو دوزخ میں لے جانے والی ہیں اور جنت اور اس کی بہاروں اور لذتوں کا شوق ابھرے ، تا کہ وہ اچھے اعمال اختیار کریں ، جو جنت میں پہنچانے والے ہیں ، اور وہاں کی نعمتوں کا مستحق بنانے والے ہیں ، پس اس سلسلہ کی آیات اور احادیث کا اصلی حق یہی ہے کہ ان کے پڑھنے اور سننے سے شوق اورخوف کی یہ کیفیتیں پیدا ہوں ۔

【118】

شفاعت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نہ دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے سنا ہے ، اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی ان کا خطرہ یا خیال ہی گذرا ہے ، اور اگر تم چاہو تو پڑھو قرآن کی یہ آیت “فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی بھی ان نعمتوں کو نہیں جانتا جو ان بندوں کے لیے (جو راہ خدا میں اپنا محبوب مال خرچ کرنے والے ہیں ، اور راتوں کو عبادتِ خداوندی میں مصروف رہنے والے ہیں) چھپا کے اور محفوظ کر کے رکھی گئی ہیں جن میں ان کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک کا سامان ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح یہ حدیثِ قدسی ہے ، رسول اللہ ﷺ جب کوئی بات اس تصریح کے ساتھ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (اور وہ قرآن مجید کی آیت نہ ہو) تو ایسی حدیث کو “حدیث قدسی” کہتے ہیں ، یہ حدیث شریف بھی اسی قسم کی ہے ، اس میں اللہ کے بندوں کے لیے بشارت اور خوشی کا ایک عام اور ظاہر پہلو تو یہ ہے کہ دارِ آخرت میں ان کو ایسی اعلیٰ قسم کی نعمتیں ملیں گی جو دنیا میں کبھی کسی کو نصیب نہیں ہوئیں ، بلکہ کسی آنکھ نے بھی ان کو نہیں دیکھا ، اور نہ کسی کان نے ان کا حال سنا ، اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا ، اور بشارت و مسرت کا دوسرا خاص پہلو ، محبت و شفقتاور عنایت و کرم سے بھرے ہوئے رب کریم کے انالفاظ میں ہے کہ ”“ (میں نے اپنے بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر کے رکھی ہوئی ہے ، الخ) قربان ہوں بندے اپنے رب کریم کے اس کرم پر ۔

【119】

شفاعت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ”جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے“ ۔ (بخاری و مسلم) تشریح عرب کا یہ رواج تھا ، کہ جب چند سواروں کا قافلہ چلتا ، تو جو سوار منزل پر اترتے وقت جہاں قیام کرنا چاہتا ، وہاں اپنا کوڑا ڈال دیتا ، پھر وہ جگہ اس کی سمجھی جاتی ، اور کوئی دوسرا اس پر قبضہ نہ کرتا، تو اس حدیث میں کوڑے کی جگہ سے مراد دراصل اتنی مختصر سی جگہ ہے ، جو کوڑے ڈال دینے سے کوڑا والے سوار کے لیے مخصوص ہو جاتی ہے ، جس میں وہ اپنا بستر لگفا لے ، یا خیمہ ڈال لے ، تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جنت کی تھوڑی سے تھوڑی جگہ بھی دنیا و ما فیہا سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہے ۔ اور اس میں کیا شبہ ہے ، دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے فانی ہے اور جنت اور اس کی ہر نعمت باقی ہے ، اور فانی اور باقی کا کیا مقابلہ ۔

【120】

شفاعت

حضرت انسؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : راہ خدا میں ایک دف عہ صبح کا نکلنا یا شام کا نکلنا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے ، اور اگر اہلِ جنت کی بیویوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو ان دونوں کے درمیان (یعنی جنت سے لے کر زمین تک) روشنی ہی روشنی ہو جائے ، اور مہک اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے سر کی صرف اوڑھنی بھی دنیا وما فیہا سے بہتر ہے ۔ (بخاری) تشریح حدیث کے ابتدائی حصے میں راہِ خدامیں نکلنے کی یعنی خدمتِ دین کے کسی سلسلہ میں سفر کرنے اور چلنے پھرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ایک دفعہ صبح کا یا شام کا نکلنا بھی دنیا وما فیہا سے بہتر ہے ، اور یہاں صبح شام کا ذکر غالباً صرف اس لیے کردیا گیا ہے کہ صبح یا شام ہی کو سفر پر روانہ ہونے کا دستور تھا ، ورنہ اگر کوئی شخص مثلاً دن کے درمیانی حصے میں خدمتِ دین کے کسی سلسلے میں جائے ، تو یقیناً اس کے اس جانے کی بھی وہی فضیلت ہے پھر حدیث کے دوسرے حصے میں اہلِ جنت کی جنتی بیویوں کے غیر معمولی حسن و جمال اور ان کے لباس کی قدر و قیمت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اور اس موقع پر اس کے ذکر کرنے کا مقصد غالباً اہلِ ایمانکو خدمتِ دین کے سلسلے کے کاموں کے لیے گھر چھوڑ کر نکلنے کی ترغیب دینا ، اور یہ بتلانا ہے کہاگر تم اپنے گھروں اور گھر والیوں کوعارضی طور پر چھوڑ کر تھوڑے سے وقت کے لیے بھی راہِ خدامیں نکلو گے تو جنت میں ایسی بیویاں ہمیشہ ہمیشہ تمہاری رفیق اور زندگی کی شریک رہیں گی ، جن کے حسن و جمال کا یہ عالم ہے کہ اگر ان میں سے کوئی اس زمین کی طرف ذرا جھانکے تو زمین اور آسمان کے درمیان کی ساری فضا روشن اور معطر ہو جائے ، اور جن کا لباس اس قدر قیمتی ہے ، کہ صرف سر کی اوڑھنی اس دنیا وما فیہا سے بہتر اور بیش قیمت ہے ۔

【121】

شفاعت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جنت میں ایک ایسادرخت ہے کہ سوار اس کے سایے میں سو سال چلے اور پھر بھی اس کو پار نہ کر سکے ، اور جنت میں تم میں سے کسی کی کمان کے بقدر جگہ بھی اس ساری کائنات سے بہتر ہے ، جس پر آفتاب طلوع ہوتاہے ، یا غروب ہوتا ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح حدیث کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں اور لذتوں کے مقابلے میں جنت اور اس کی نعمتوں کی بالاتری بیان فرما کے اس کا شوق دلوں میں پیدا کرنا ہے ، اس سلسلہ میں پہلی بات یہ بیا ن فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اور راحت کے جو سامان اپنے بندوں کے لیے جنت میں پیدا کیے ہیں ، ان میں سے ایک جنت کے وہ طویل و عریض سایہ دار درخت ہیں جن کا سایہ اتنے وسیع رقبہ پر پڑتا ہے ، کہ سوار سو سال میں بھی اس کو طے نہیں کر سکتا ، اور دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ جنت میں ایک کمان کی جگہ دنیا وما فیہا سے بہتر ہے ، ابھی اوپر عرب کے اس دستور کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ کوئی سوار جب کہیں اترنا چاہتا تھا کہ جب کوئی پیدل آدمی کسی جگہ منزل کرنا چاہتا تھا ، تو وہ اپنی کمان وہاں ڈال دیتا تھا ، اور اس طرح وہ جگہ اس کے لئے مخصوص ہو جاتی تھی ، پس اس حدیث میں کمان کی جگہ سے مراد گویا ایک آدمی کی منزل ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ ایک پیادہ مسافر کمان ڈال کر جتنی جگہ کا مستحق ہو جاتا ہے ، جنت کی اتنی مختصر سی جگہ بھی اس دنیا کی اس ساری کائنات سے زیادہ قیمتی اور بہتر ہے ، جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے ۔

【122】

شفاعت

جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :”اہلِ جنت جنت میں کھائیں گے بھی اور پئیں گے بھی ، لیکن نہ تو انہیں تھوک آئے گا ، اور نہ پیشاب پاخانہ ہو گا ، اور نہ ان کی ناک سے ریزش آئے گی ۔ بعض صحابہؓ نے عرض کیا ، تو کھانے کا کیا ہو گا ؟ (یعنی جب پیشاب پاخانہ کچھ بھی نہ ہو گا تو جو کچھ کھایا جائے گا وہ آخر کہاں جائے گا ؟) آپ نے فرمایا کہ ڈکار اور پسینہ مشک کے پسینہ کی طرح (یعنی غذا کا جو اثر نکلنا ہو گا ، وہ انہی دو طریقوں سے نکل جایا کرے گا) اور ان اہلِ جنت کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کی حمد و تسبیح اس طرح جاری ہو گی ، جس طرح تمہارا سانس جاری رہتا ہے “۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ جنت کی ہر غذا کثیف مادہ سے پاک ایسی لطیف اور نورانی ہو گی ، کہ پیٹ میں اس کا کوئی فضلہ تیار نہیں ہو گا ، بس ایک خوشگوار ڈکار کے آنے سے معدہ خالی اور ہلکا ہو جایا کرے گا ، اور کچھ پسینے کےراستے نکلا جایا کرے گا ، لیکن اس پسینہ میں بھی مشک کی سی خوشبو ہو گی ، اور اس دنیا میں جس طرح آپ سے آپ ہمارے اندر سے باہر ، اور باہر سے اندر سانس کی آمدورفت ہے ، جنت میں اسی طرح اللہ کا ذکر جاری ہو گا ، اور سبحان اللہ والحمدللہ ، یا سبحان اللہ وبحمدہ سانس کی طرح ہر دم جاری رہے گا ۔

【123】

شفاعت

حضرت ابو سعیدؓ اور ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، یہ دونوں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا جنت میں جنتیوں کو مخاطب کر کے پکارے گا ، کہ یہاں صحت ہی تمہارا حق ہے ، اور تندرستی ہی تمہارے لئے مقدر ہے ، اس لیے اب تم کبھی بیمار نہ پڑو گے ، اور یہاں تمہارے لئے زندگی اور حیات ہی ہے ، اس لئے اب تمہیں موت کبھی نہ آئے گی ، اور تمہارے واسطے جوانی اور شباب ہی ہے ، اس لئے اب کبھی تمہیں بڑھاپا نہیں آئے گا ، اور تمہارے واسطے یہاں چین اور عیش ہی ہے ، اس لئے اب کبھی تمہیں کوئی تنگی اور تکلیف نہ ہو گی ۔ (مسلم) تشریح جنت صرف آرام اور راحت کا گھر ہے ، اس لئے وہاں کسی تکلیف کا ، اور کسی تکلیف دہ حالت کا گذر نہ ہو گا ، نہ وہاں بیماری ہو گی ، نہ موت آئے گی ، نہ بڑھاپا کسی کو ستائے گا ، نہ کسی اور قسم کی کوئی تنگی اور پریشانی کسی کو لاحق ہو گی ، اور جنتی بندے جب جنت میں پہنچیں گے تو شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابدی حیات اور ابدی راحت کی یہ بشارت سنا کر ان کو مطمئن کر دیا جائے گا ۔

【124】

شفاعت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا ، کہ مخلوق کس چیز سے پیدا کی گئی ؟ آپ نے فرمایا پانی سے پھر ہم نے عرض کیا ، کہ جنت کس چیز سے بنی (یعنی اس کی تعمیر پتھروں سے ہوئی یا انیٹوں سے ، یا کس چیز سے ؟) آپ نے فرمایا ، اس کی تعمیر اس طرح ہے ، کہ ایک اینٹ سونے کی ، اور ایک اینٹ چاندی کی ، اور اس کا مسالہ (جس سے اینٹوں کو جوڑا گیا ہے) تیز خوشبودار مشک ہے ، اور وہاں کے سنگریزے جو بچھے ہوئے ہیں وہ موتی اور یاقوت ہین ، اور وہاں کی خاک گویا زعفران ہے ، جو لوگ اس جنت میں پہنچیں گے ، ہمیشہ عیش اور چین سے رہیں گے ، اور کوئی تنگی ، تکلیف ، ان کو نہ ہو گی ۔ اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ، وہاں ان کو موت نہیں آئے گی ، اور کبھی ان کے کپڑے پرانے اور خستہ نہ ہوں گے ، اور ان کی جوانی کبھی زائل نہ ہو گی ۔ (رواہ احمد والترمذی والدارمی) تشریح حضرت ابو ہریرہؓ کے پہلے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ عام مخلوق پانی سے پیدا کی گئی ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے پہلے پانی پیدا کیا ، اور پھر سے اور مخلوق وجود میں آئی ۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : “وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ” اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : “وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ” جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر جاندار پانی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ پھر دوسرے سوال کے جواب میں جنت کی تعمیر اور وہاں کے فرش اور وہاں کی خاک کے متعلق جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ، اس کی اصلی حقیقت اور کیفیت مشاہدے ہی سے معلوم ہو گی ، البتہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جنت کی تعمیر اس طر ح نہیں ہوئی ہے کہ کسی عملے نے اسے بنایا ہو ، جس طرح ہماری اس دنیا میں عمارتیں بنتی ہیں ، بلکہ جنت اور اس کی ہر چیز معماروں اور صناعوں کے توسط کے بغیر اللہ کے حکم سے بنی ہے ، جس طرح زمین و آسمان اور آسمان کے ستارے ، آفتاب و ماہتاب وغیرہ سب براہ راست اللہ کے حکم سےبنے ہیں ۔ “إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ”

【125】

اہل جنت کے لیے حق تعالیٰ کی دائمی رضا

حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ : (جنتی جب جنت میں پہنچ جائیں گے اور وہاں کی نعمتیں ان کو عطا ہو جائیں گی تو) اللہ تعالیٰ ان کو مخاطب کر کے فرمائیں گے ، کہ اے اہلِ جنت ! وہ عرض کریں گے ، کہ اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں ، حاضر ہین ، آُ کی بارگاہ قدس میں ، اور ساری خیر اور سب بھلائی آپ ہی کے قبضے میں ہے (جس کو چاہیں عطا فرمائیں ، یا عطا نہ فرمائیں) پھر اللہ تعالیٰ ان بندوں سے فرمائیں گے ، تم خوش ہو ؟ (یعنی جنت اور جو نعمتیں جنت میں تم کو دی گئی ، تم ان سے راضی ہو ؟) یہ جنتی بندے عرض کریں گے ، اے پروردگار! جب آپ نے ہمیں یہاں وہ کچھ نصیب فرمایا جو اپنی کسی مخلوق کو نہیں دیا تھا (یعنی آپ کی بخشش ، اور آپ کے کرم سے جب یہاں ہمیں وہ نعمتیں اور وہ راحتیں اور لذتیں نصیب ہیں ، جو دنیا میں کسی بڑے سے بڑے کو بھی نصیب نہیں تھیں) تو ہم کیوں راضی اور خوش نہ ہوں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، کیا میں تمہیں اس سب سے اعلیٰ و افضل ایک چیز اور دوں! وہ بندے عرض کریں گے کہ خداودا! وہ کیا چیز ہے ، جو اس جنت اور اس کی ان نعمتوں سے بھی افضل ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، میں تم کو اب اپنی دائمی اور ابدی رضا مندی ، اور خوشنودی کا تحفہ دیتا ہوں ، اس کے بعد اب میں کبھی تم پر ناراض نہ ہوں گے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح جنت اور اس کی ساری نعمتیں عطا فرمانے کے بعد اس رب کریم کا اپنے بندوں سے پوچھنا ، کہ “تم راضی ہو ، خوش اور مطمئن ہو ؟ “ بجائے خود کتنی بڑی نعمت ہے اور پھر دائمی رضا کا تحفہ ، اور کبھی ناراض نہ ہونے کا اعلان ، کتنا بڑا انعام اور احسان ے ، اس سے جو لذت اور مسرت اہلِ جنت کو اس وقت حاصل ہو گی ، اگر اس کا ایک ذرہ اس دنیا میں ہم پر منکشف کر دیا جائے ، تو دنیا کی کسی لذت اور مسرت کی چاہت ہمارے دلوں میں نے رہے ، بے شک ، شے شک اللہ کی رضا ، جنت اور اس کی ساری نعمتوں سے بہت ہی اعلیٰ و بالا ہے ، “وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ” اور لذت و مسرت میں اعلان رضا سے بڑھ کر صرف “دیدارِ الہٰی ہے ”۔

【126】

جنت میں دیدارِ الہٰی

حضرت صہیبؓ رومی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے ، تو اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرمائیں گے ، کیا تم چاہتے ہو میں تم کو ایک چیز مزید عطا کروں ؟ (یعنی تم کو جو کچھ اب تک عطا ہوا ، اس پر مزید اور اس سے سوا ایک خاص چیز اور عنایت کروں) ۔ وہ بندے عرض کریں گے ، آپ نے ہمارے چہرے روشن کئے (یعنی سرخروئی اور خوبروئی عطا فرمائی) اور دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کیا (اب اس کے آگے اور کیا چیز ہو سکتی ہے جس کی ہم خواہش کریں) ۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ان بندوں کے اس جواب کے بعد یکا یک حجاب اٹھ جائے گا (یعنی ان کا آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا جائے گا) پس وہ روئے حق ، اور جمالِ الہٰی کو بے پردہ دیکھیں گے ، پس ان کا حال یہ ہو گا (اور وہ محسوس کریں گے) کہ جو کچھ اب تک انہیںملا تھا ،اس سب سے زیادہ محبوب اور پیاری چیز ان کے لئے یہی دیدار کی نعمت ہے ، یہ بیان فرما کے آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی : “لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ” (جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھی بندگی والی زندگی گزاری ، ان کے لیے اچھی جگہ ہے (یعنی جنت وما فیہا) اور اس پر مزید ایک نعمت (یعنی دیدارِ حق) ۔ (مسلم) تشریح حق تعالیٰ کا دیدار وہ سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اہل جنت کو نوازا جائے گا ، اور اللہ تعالیٰ نے جن کو عقلِ صحیح اور ذوق سلیم عطا کیا ہے ، وہ اگر خعس اپنے سجداسن میں غور کریں ، تو اس نعمت کی خواہش اور تمنا وہ ضرور اپنے میں پائیں گے ، اور کیوں نہ ہو جو بندہ اپنے خالق اور رب کی بےشمار نعمتیں اس دنیا میں پا رہا ہے ، اور پھر جنت میں پہنچ کر اس سے لاکھوں گنی نعمتیں پائے گا ، لازماً اس کے دل میں یہ تمنا اور تڑپ پیدا ہو گی کہ کسی طرح میں اپنے اس محسن اور کریم رب کو دیکھ پاتا ، جس نے مجھے وجود بخشا ، اور جو اس طرح مجھ پر اپنی نعمتیں انڈیل رہا ہے ۔ پس اگر اسے کبھی بھی یہ نظارہ نصیب نہ ہو ، تو یقیناً اس کی لذت و مسرت اور اس کے عیش میں بڑی تشنگی رہے گی ، اور اللہ تعالیٰ جس بندہ سے راضی ہو کر اس کو جنت میں پہنچائیں گے اس کو ہرگز اس سے تشنہ اور محروم نہیں رکھیں گے ۔ اہلِ ایمانکے لیے قرآن مجید میں بھی اس نعمتِ عظمیٰ کی بشارت سنائی گئی ہے ، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں صاف صاف اس کی خوش خبری دی ہے ، اور تمام اہلِ ایمان نے بغیر کسی تردد کے اس پر یقین کیا ہے ، لیکن بعض ایسے طبقے اور ایسے لوگ جو آخرت کی چیزوںکو بھی اس دنیا کے انداز سے سوچتے ہین ، اوریہاں کے اپنے محدود علم و تجربے کو، علم و تجربے کاآخری اور انتہائی درجہ سمجھتے ہیں ، انہیں اس مسئلہ میں شبہات پیش آتے ہیں ، وہ سوچتے ہین کہ دیکھا تو اس چیز کو جا سکتا ہے جو جسم ہو اور اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے ، نہ اس کا کوئ رنگ ہے ، اور نہ اس کے لیے آگے یا پیچھے کی کوئی جہت ہے ، تو پھر اس کو دیکھا کیونکر جا سکتا ہے! حالانکہ یہ سراسر مغالطہ ہے ، اگر اہلِ حق کا عقیدہ یہ ہوتا ، کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار دنیا کی انہی آنکھوں سے ہو گا ، جو صرف جسم کی ، اور کسی رنگ دار چیز ہی کو دیکھ سکتی ہیں ، اور جن کی بینائی صرف اس چیز کاادراک کر سکتی ہے ، جو ان کی سیدھ میں یعنی سامنے ہو ، تو بے شک ان منکرین کا یہ سوچنا کسی درجہ میں صحیح ہوتا ، لیکن نہ قرآن و حدیث نے یہ بتلایا ہے ، اور نہ اہلِ حق کا یہ عقیدہ ہے ۔ اہلِ حق ، اہل السنۃ والجماعۃ جو قرآن و حدیث کے اتباع میں اس کے قائل ہیں ، کہ جنت میں حق تعالیٰ کا دیدار ان بندوں کو نصیب ہو گا جو اس نعمتِ عظمیٰ کے مستحق ہوں گے ، وہ اس کے بھی قائل ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو بہت سی ایسی قوتیں عطا فرمائین گے ، جو اس دنیا میں کسی کو عطا نہیں ہوئیں ، اور انہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسی آنکھیں عطا ہوں گی ، جن کی بینائی کی قوت اتنی محدود اور کمزور نہ ہو گی ، جتنی کہ اس دنیا میں ہماری آنکھوں کی ہے ، اور ان ہی آنکھوں سے اہلِ جنت کو اپنے اس رب قدوس کا دیدار نصیب ہو گا ، جو نہ جسم ہے ، نہ اس کا کوئی رنگ ہے اور نہ اس کے لیے کوئی جہت ہے ، بلکہ وہ ان سب چیزوں سے وراء الوراء ہے ، وہ نور ہے ، سراسر نور ہے اور سارے انوار کا سرچشمہ ہے ۔ اس توضیح کے بعد بھی رؤیت باری کے مسئلہ میں جن لوگوں کو عقلی استحالہ کا وسوسہ ہو ، انہیں ذرا دیر کے لیے اس پر غور کرنا چاہیے کہ اپنی مخلوقات کو اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے ، یا نہیں ؟ اگر دیکھنا صرف ان ہی ذرائع سے ، اور ان ہی شرائط کے ساتھ ہو سکتا ہے جن سے ہم دیکھتے ہیں ، تو پھر تو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بھی کسی کو نہ دیکھ سکتا ہو ، کیوں کہ نہ اس کی آنکھ ہے ، اور نہ کوئ مخلوق اس کی نسبت سے کسی جہت میں ہے ۔ پس جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کے بغیر دیکھتا ہے ، اور ہماری آنکھیں جن چیزوں کو کسی طرح ، اور کسی حال نہیں دیکھ سکتیں ، وہ ان کو بھی دیکھتا ہے اور بغیر مقابلہ اور جہت کے دیکھتا ہے ، انہیں رؤیتِ باری کے مسئلہ میں بھی اس قسم کا کوئی وسوسہ نہ ہونا چاہئے ، اور اللہ و رسول کی اطلاعات اور بشارات پر یقین کرتے ہوئے سمجھ لینا چاہئے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور رحمت سے ایسی آنکھیں نصیب فرمائیں گے ، جو حق تعالیٰ شانہ کے جمال کے نظارہ کی لذت بھی حاصل کر سکیں گی ۔ قرآن پاک میں اہلِ ایمان کو بشارت سنائی گئی ہے ، کہ “وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ” (مطلب یہ ہے کہ اہلِ جنت کے چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے ، وہ خوش و خرم اور شاد ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے) ۔ اور اس کے بالمقابل دوسرے موقع پر مکذبین اور منکرین کے بارے میں فرمایا گیا ہے “إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ” (یعنی یہ بدنصیب لوگ اس دن اپنے رب سے روک دئیے جائیں گے ، اس کی زیارت اور اس کے دید سے محروم رکھے جائیں گے) ۔ جنت میں حق تعالیٰ کی رؤیت سے متعلق رسول اللہ ﷺ سے جو احادیث مروی ہیں ، وہ سب مل کر حد تواتر کو پہنچ جاتی ہیں ، اور ایک مومن کے یقین کے لیے بالکل کافی ہیں ، ذیل میں ان میں سے صرف چند حدیثیں درج کی جاتی ہیں : آنکھوں سے پردہ اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دفعۃً ان کی آنکھوں کو بینائی کی ایسی طاقت عطا فرما دے گا ، کہ وہ روئے حق کا نظارہ کر سکیں گے ۔ واللہ اعلم ۔ رسول اللہ ﷺ نے آخر میں جو آیت تلاوت فرمائی ، اس کے ذریعہ یہ بتلایا ہے کہ اس آیت میں “زِيَادَةٌ” سے مراد حق تعالیٰ کے دیدار کی نعمت ہے ، جو جنت اور نعمائے جنت کے علاوہ اور ان سے سوا ہے ۔

【127】

جنت میں دیدارِ الہٰی

جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ (ایک رات کو) ہم رسول اللہ ﷺ کے پس بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے چاند کی طرف دیکھا ، اور یہ چودھویں رات تھی (اور چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ ، اور بھرپور نکلا ہوا تھا) پھر آپ نے ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا ، کہ : ”یقیناً تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے، جیسے کہ اس چاند کو دیکھ رہے ہو ، تمہیں اس کے دیکھنے میں کوئی کشمکش نہیں کرنی پڑے گی ، اور کوئی زحمت نہ ہو گی ، پس اگر تم یہ کر سکو ، کہ طلوع آفتاب سے پہلی نماز ، اور غروب آفتاب سے پہلی والی نماز کے مقابلے میں کوئی چیز کبھی تم پر غالب نہ آئے (یعنی کوئی مشغلہ اور کوئی دلچسپی اور آرام طلبی ان نمازوں کے وقت میں تمہیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے) تو لازماً ایسا کرو (پھر ان شاء اللہ دیدارِ حق اور نظارہ جمالِ الہٰی کی نعمت ضرور تم کو نصیب ہو گی) اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی : “وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا” ۔ (اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو (یعنی اس کی تعریف بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو) سورج کے نکلنے سے پہلے ، اور اس کے ڈوبنے سے پہلے“۔ (بخاری و مسلم) تشریح دنیا میں جب کسی حسین و جمیل چیز کے دیکھنے والے لاکھوں کروڑوں جمع ہو جائیں اور سب اس کے دیکھنے کے انتہائی درجہ میں مشتاق ہوں ، تو ایسے موقعوں پر عموماً بڑی کشمکش اور بڑی زحمت ہوتی ہے ، اور اس چیز کو اچھی طرح دیکھنا بھی مشکل ہوتا ہے ، لیکن چاند کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو مشرق و مغرب کے آدمی بغیر کسی کشمکش اور زحمت کے ، اور پورے اطمینان سے بیک وقت دیکھ سکتے ہیں ، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی مثال سے سمجھایا ، کہ جنت میں حق تعالیٰ کا دیدار اسی طرح بیک وقت اس کے بے شمار خوش نصیب بندوں کو نصیب ہو گا ، اور کسی کو کشمکش اور زحمت سے سابقہ نہیں پڑے گا ، سب کی آنکھیں بڑے سکون و اطمینا سے وہاں جمالِ حق کے نظارہ کی لذت حاصل کریں گی ۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ ۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے عمل کی طرف بھی توجہ دلائی جو بندہ کو اس نعمت (دیدارِ حق) کا مستحق بنانے میں خاص اثر رکھتا ہے ، یعنی فکر و عصر کی نمازوں کا خصوصیت سے ایسا اہتمام ، کہ کوئی مشغولیت اور کوئی دلچسپی ان نمازوں کے وقت میں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے ، اگرچہ فرض تو پانچ نمازیں ہیں ، لیکن نصوص کتاب و سنت ہی سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دو نمازوں کو خاص اہمیت اور فضیلت حاصل ہے ،رسول اللہ ﷺ نے قرآنی آیت : “وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا” پڑھ کر ، ان دو نمازوں کی اسی خصوصیت اور فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔

【128】

جنت میں دیدارِ الہٰی

ابو رزین عقیلی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا قیامت میں ہم میں سے ہر ایک اپنے رب کو اکیلا (بغیر بھیڑ بھاڑ اور کشمکش کے) دیکھ سکے گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! دیکھ سکے گا ، میں نے عرض کیا : اور کیا اس کی کوئی نشانی اور مثال (ہماری اس دنیا میں بھی ہے) آپ نے فرمایا : اے ابو رزین ! کیا چودھویں رات کو تم میں سے ہر ایک چاند کو بجائے خود اور اکیلا بغیر بھیڑ بھاڑ کے نہیں دیکھتا؟ میں نے عرض کیا کہ : ہاں بے شک چاند کو تو ہم سب ہی اسی طرح دیکھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ : وہ تو اللہ کی مخلوق ہے ، اور اللہ تو بڑی جلالت والا اور نہایت عظمت والا ہے (پھر اس کے لیے کیا چیز مشکل ہے) ۔ (ابو دؤد)

【129】

دوزخ اور اس کا عذاب

ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : تمہاری اس دنیا کی آگ دوزخ کی آگ سے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! یہی (دنیا کی آگ) کافی تھی ؟ آپ نے فرمایا : ”دوزخ کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں انہتر (۶۹) درجہ بڑھا دی گئی ہے ، اور ہر درجہ کی حرارت آتش دنیا کی حرارت کے برابر ہے “۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح جس طرح جنت کے متعلق قرآن پاک کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعلیٰ درجے کی ایسی لذتیں اور راحتیں ہیں ، کہ دنیا کی بڑی لذتوں اور راحتوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں ، اور پھر وہ سب ابدی اور غیر فانی ہیں ، اسی طرح دوزخ کے متعلق قرآن و حدیث میں جو کچھ بتلایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ایسی تکلیفیں اور ایسے دکھ ہیں کہ دنیا کے بڑے سے بڑے دکھوں اور بڑی سے بڑی تکلیفوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں ۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے الفاظ سے جنت کے عیش و راحت اور دوزخ کے دُکھ اور عذاب کا جو تصور اور جو نقشہ ہمارے ذہنوں میں قائم ہوتا ہے وہ بھی اصل حقیقت سے بہت ناقص اور کمتر ہے ، اور یہ اس لیے کہ ہماری زبان کے سارے الفاظ ہماری اس دنیا کی چیزوں کے لیے وضع کئے گئے ہیں ، مثلاً سیب یا انگور کے لفظوں سے ہمارا ذہن بس اسی قسم کے سیبوں یا انگوروں کی طرف جا سکتا ہے جن کو ہم نے دیکھا اور چکھا ہے ہم جنت کے ان سیبوں اور انگوروں کی اصل حقیقت اور کیفیت کا تصور کیسے کر سکتے ہیں ۔ جو اپنی خوبیوں میں یہاں کے سیبوں اور انگوروں سے ہزاروں درجہ زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے ، اور جن کا کوئی نمونہ ہم نے یہاں نہیں دیکھا ۔ اسی طرح مثلاً سانپ اور بچھو کے لفظ سے ہمارا ذہن اسی قسم کے سانپوں اور بچھوؤں کی طرف جا سکتا ہے جو ہم نے اس دنیا میں دیکھے ہیں ، دوزخ کے ان سانپوں اور بچھوؤں کا پورا نقشہ ہمارے ذہنوں میں کیسے آسکتا ہے جو اپنی جسامت اور خوف ناکی اور زہریلے پن میں یہاں کے ان سانپوں اور بچھوؤں سے ہزاروں درجہ بڑھے ہوئے ہوں گے ، اور کبھی ہم نے ان کی تصویر تک نہیں دیکھی ہے ۔ بہر حال قرآن و حدیث کے الفاظ سے بھی جنت و دوزخ کی چیزوں کی اصل کیفیت ، اور اصل حقیقت کو ہم یہاں پورے طور پر نہیں سمجھ سکتے ، بس وہاں پہنچ کر ہی معلوم ہو گا ، کہ جنت کے عیش و راحت کے بارے میں جو کچھ ہم نے جانا اور سمجھا تھا ، ہمارا وہ علم بڑا ہی ناقص تھا ، اور جنت میں تو اس سے ہزاروں درجہ عیش و راحت ہے ، اور دوزخ کے دکھ اور عذاب کے بارے میں جو کچھ ہم نے سمجھا تھا اصل حقیقت کے مقابلے میں وہ بھی بہت ہی ناقص تھا ، اور یہاں تو ہمار ے سمجھے ہوئے سے ہزاروں گنا زیادہ دکھ اور عذاب ہے ۔ اور جیسا کہ اس سے پہلے جنت کے بیان میں بتلایا جا چکا ہے ، دوزخ اور جنت کے متعلق جو کچھ قرآن و حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے اس کا یہ مقصد ہے ہی نہیں ، کہ جو کچھ وہاں پر پیش آنے والا ہے ، اس کو ہم یہاں پوری طرح سمجھ لیں اور جان لیں ، اور وہاں کے حالات کا صحیح نقشہ ہمارے سامنے آ جائے ، بلکہ اس بیان کا اصل مقصد تبشیر اور انزار ہے ، یعنی جنت کا شوق اور دوزخ کا خوف دلا کر اللہ کی رضا والی اور دوزخ سے بچا کر جنت میں پہنچانے والی زندگی پر اللہ کے بندوں کو آمادہ کرنا ، اور اس مقصد کے لیے جنت و دوزخ سے متعلق قرآن و حدیث کا یہ بیان بالکل کافی ہے ، پس اس سلسلے کی آیات و احادیث پر غور کرتے وقت ہمیں اسی خاص مقصد کو سامنے رکھنا چاہے ۔ تشریح ۔۔۔ اس دنیا کی آگ کی قسموں میں بھی درجہ حرارت میں بعض بعض سے بہت بڑھی ہوئی ہیں ، مثلاً لکڑی کی آگ میں گھاس پھونس کی آگ سے زیادہ گرمی ہوتی ہے اور مثلاً پتھر کے کوئلے کی آگ میں لکڑی کی آگ کے مقابلے میں بہت زیادہ حرارت ہوتی ہے اور بعض بموں سے جو آگ پیدا ہوتی ہے ، وہ درجہ حرارت میں ان سے بدرجہا بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اب تو آلات سے معلوم کرنا بھی آسان ہو گیا ہے کہ ایک آگ دوسری آگ کے مقابلہ میں کتنے درجہ کم یا زیادہ گرم ہے ، پس اب حدیث کے اس مضمون کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا ، کہ ”دوزخ کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں سر درجہ زیادہ حرارت اپنے اندر رکھتی ہے“ ۔ اور جیسا کہ پہلے بھی کئی بار شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں بتلایا گیا ہے کہ عربی زبان میں ایسے موقعوں پر ستر کا عدد کسی چیز کی صرف زیادتی اور کثرت ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، پس ہو سکتا ہے ، کہ اس حدیث میں بھی یہ عدد اسی محاورے کے مطابق استعمال کیا گیا ہو ، اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ دوزخ کی آگ اپنی گرمی ، اور جلانے کی صفت میں دنیا کی آگ سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ آگے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب دوزخ کی آگ کا یہ حال بیان فرمایا تو کسی صحابی نے عرض کیا ، کہ یا رسول اللہ! دنیا کی آگ کی حرارت ہی کافی تھی ، اس پر آپ نے اور زیادہ واضح لفظوں میں پھر پہلے ہی مضمون کو دہرایا ، اس کے علاوہ کوئی اور جواب نہیں دیا ، غالباً اس طریق جواب سے آپ نے اس پر متنبہ فرمایا ، کہ ہمیں اللہ کے افعال اور اس کے فیصلوں کے بارے میں ایسے سوالات نہیں کرنا چاہئیں ، جو کچھ اس نے کیا ہے ، اور جو کچھ وہ کرے گا ، وہی ٹھیک ہے ۔

【130】

دوزخ اور اس کا عذاب

نعما ن بن بشیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ دوزخیوں میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ شخص ہو گا ، جس کی چپلیں اور ان چپلوں کے تسمے آگ کے ہوں گے ، ان کی گرمی سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا اور جوش مارے گا ، جس طرح چولہے پر دیگچی کھولتی ہے ۔ اور اس میں جوش آتا ہے وہ نہیں خیال کرے گا ، کہ کوئی شخص اس سے زیادہ سخت عذاب میں بھی ہے (یعنی وہ اپنے ہی کو سب سے زیادہ سخت عذاب میں سمجھے گا) حالانکہ وہ دوزخیوں میں سب سے ہلکے عذاب والا ہو گا ۔ (بخاری و مسلم)

【131】

دوزخ اور اس کا عذاب

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن اہلِ دوزخ میں سے (یعنی ان لوگوں میں سے جو اپنے کفر و شرک کی وجہ سے یا فسق و فجور کی وجہ سے دوزخ میں جانے والے ہوں گے) ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے اپنی دنیا کی زندگی نہایت عیش و آرام کے ساتھ گزاری ہو گی ، اور پھر اس کو دوزخ کی آگ میں ایک غوطہ دلایا جائے گا (یعنی جس طرح کپڑے کو رنگتے وقت رنگ میں ڈال کر اور بس ایک ڈوب دے کر نکال لیتے ہیں ، اسی طرح اس شخص کو دوزخ کی آگ میں ڈال کر فوراً نکال لیا جائے گا) پھر اس سے کہا جائے گا ، کہ آدم کے فرزند ! کیا تو نے کبھی خیریت اور اچھی حالت بھی دیکھی ہے ، اور کیا کبھی عیش و آرام کا کوئی دور تجھ پر گذرا ہے ؟ وہ کہے گا کبھی نہیں ، قسم خدا کی اے پروردگار ! اور ایک شخص اہلِ جنت میں سے (یعنی ان خوش نصیب بندوں میں سے جو اپنی ایمان والی زندگی کی وجہ سے جنت کے مستحق ہوں گے) ایسا لایا جائے گا جس کی زندگی دنیا میں سب سے زیادہ تکلیف میں اور دکھ میں گزری ہو گی ، اور اس کو ایک غوطہ جنت میں دیا جائے گا (یعنی جنت کی فضاؤں اور ہواؤں میں پہنچا کر فوراً نکال لیا جائے گا) اور اس سے کہا جائے گا ، کہ اے آدم کے فرزند ! کیا کبھی تو نے کوئی دکھ دیکھا ۔ اور کیا تجھ پر کوئی دور شدت اور تکلیف کا گزرا ہے ، پس وہ کہے گا نہیں ، خدا کی قسم اے میرے پروردگار ! مجھ پر کبھی کوئی تکلیف نہیں گذری ، اور میں نے کبھی کسی تکلیف کا منہ نہیں دیکھا ! (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ دوزخ کا عذاب اتنا سخت ہے کہ اس کا ایک لمحہ عمر بھر کے عیش و راحت کو بھلا دے گا ، اور جنت میں وہ راحت اور عیش ہے کہ اس میں قدم رکھتے ہی آدمی عمر بھر کے سارے دکھ اور ساری کلفتیں بھول جائے گا ۔

【132】

دوزخ اور اس کا عذاب

سمرہ بن جندب سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : دوزخیوں میں سے بعض وہ ہوں گے کہ جن کو پکڑے گی آگ ان کے ٹخنوں تک ، اور بعض وہ ہوں گے کہ جن کو پکڑے گی آگ ان کے زانوؤں تک ، اور بعض وہ ہوں گے کہ جن کو پکڑے گی آگ ان کے کمرتک ، اور بعض وہ ہوں گے کہ جن کو پکڑے گی آگ ان کے ہنسلی تک ۔ (مسلم) تشریح حدیث کا مقصد یہ ہے کہ دوزخ میں سب ایک درجہ میں اور ایک ہی حال میں نہیں ہوں گے ، بلکہ جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے ان کے عذاب میں کمی بیشی ہو گی ، مثلاً کچھ لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ آگ ان کے صرف ٹخنوں تک پہنچے گی ،اور کچھ لوگوں پر عذاب ان سے زیادہ ہو گا ، اور آگ ان کے زانوؤں تک پہنچے گی ، اور کچھ لوگوں پر اس سے زیادہ ہو گا ، اور آگ ان کی کمر تک پہنچا کرے گی ، اور کچھ لوگان سے بھی سخت تر اور بدتر حالت میں رہیں گے ، اور آگ ان کی گردن تک پہنچے گی ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا

【133】

دوزخ اور اس کا عذاب

عبداللہ بن الحارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ : جہنم میں سانپ ہیں ، جو اپنی جسامت میں بختی اونٹوں کے برابر ہیں (جو جثّہ میں عام اونٹوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں) اور وہ اس قدر زہریلے ہیں کہ ان میں کا کوئی سانپ جس دوزخی کو ایک دفعہ ڈسے گا ، تو چالیس سال کی مدت تک وہ اس کے زہر کا اثر پائے گا (اور تڑپے گا) اور اسی طرح دوزخ میں بچھو ہیں ، جو (اپنی جسامت میں) پالان بندھے خچروں کی مانند ہیں (وہ بھی ایسے ہی زہریلے ہیں کہ) ان میں سے کوئی کسی دوزخی کو ایک دفعہ ڈنک مارے گا ، تو چالیس سال تک وہ اس کے زہر کی تکلیف پائے گا (مسند احمد)

【134】

دوزخ اور اس کا عذاب

ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ : غساق (یعنی وہ سڑی ہوئی پیپ جو جہنمیوں کے زخموں سے نکلے گی اور جس کے متعلق قرآن مجید میں بتلایا گیا ہے کہ وہی انتہائی بھوک میں ان کی غذا ہو گی ، وہ اس قدر بدبودار ہو گی کہ) اگر اس کا ایک ڈول اس دنیا پر بہا دیا جائے ، تو ساری دنیا (اس کی سڑاہند سے) بدبودار ہو جائے (ترمذی)

【135】

دوزخ اور اس کا عذاب

عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : “اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ” (اللہ سے ڈرو ، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اور فیصلہ کر لو کہ ہرگز نہ مرو گے ، مگر اس حال میں کہ تم مسلم (اللہ کے فرمانبردار بندے) ہو گے) (اور اللہ سے اس کے عذاب سے ڈرنے کے سلسلے میں) آپ نے بیان فرمایا کہ “زَّقُّوم” (جس کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ جہنم میں پیدا ہونے والا ایک درخت ہے ، اور وہ دوزخیوں کی خوراک بنے گا) اگر اس کا ایک قطرہ اس دنیا میں ٹپک جائے ، تو زمین پر بسنے والوں کے سارے سامانِ زندگی کو خراب کر دے ، پس کیا گزرے گی اس شخص پر جس کا کھانا وہی زقوم ہو گا (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ زقوم اس قدر گندی اور زہریلی چیز ہے ، کہ اگر اس کا ایک قطرہ ہماری اس دنیا میں ٹپک جائے تو یہاں کی تمام چیزیں اس کی بدبو اور گندگی اور زہریلے پن سے متاثر ہو جائیں ، اور ہمارے کھانے پینے کی ساری چیزیں خراب ہو جائیں ، پس سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ زقوم جس کو کھانا پڑے گا اس پر کیا گزرے گی ۔

【136】

دوزخ اور اس کا عذاب

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے ایک خطاب میں) فرمایا کہ: اے لوگو (اللہ اور اس کے عذاب کے خوف سے) خوب روؤ ، اوراگر تم یہ نہ کر سکو ، یعنی اگر حقیقی گریہ کی کیفیت تم پر طاری نہ ہو (کیوں کہ وہ ایسی اختیاری چیز نہیں ہے کہ آدمی جب چاہے اس کو اپنے اندر پیدا کر سکے) تو پھر (اللہ کے قہر اور اس کے عذاب کا خیال کر کے) تکل سے روؤ ، اور رونے کی شکل بناؤ ، کیوں کہ دوزخی دوزخ میں اتنا روئیں گے کہ ان کے چہروں پر ان کے آنسو ایسے بہیں گے ، کہ گویا وہ (بہتی ہوئی) نالیاں ہیں ، یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے ، اور پھر (آنسوؤں کی جگہ) خون بہے گا اور پھر (اس خون بہنے سے) آنکھوں میں زخم پڑ جائیں گے (اور پھر ان زخموں سے اور زیادہ خون جاری ہو گا ، اور ان دوزخیوں کے ان آنسوؤں اور خونوں کی مجموعی مقدار اتنی ہو گی کہ اگر کشتیاں اس میں چلائی جائیں تو خوب چلیں۔ (شرح السنہ) تشریح حدیث کا مقصد یہ ہے کہ دوزخ میں اتنا دکھ اور ایسا عذاب ہو گا ، کہ آنکھیں آنسوؤں کا ذخیرہ ختم کر کے خون روئیں گی ، اور اس مسلسل رونے سے ان میں زخم پڑ جائیں گے ، پس وہاں کے اس دکھ اور عذاب سے ، اور آنسوؤں کا اور خون کا دریا بہانے والے اس رونے سے بچنے کے لیے آدمیوں کو چاہئے ، کہ وہ یہاں اپنے اندر خدا کا خوف پیدا کریں ، اور روئیں ، دوسری ایک حدیث میں ہے کہ “لَا يَلِجُ النَّارَ أَحَدٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ، حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ” (۱) (یعنی جو یہاں اللہ کے خوف سے روئے گا ، وہ ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا) بہرحال اللہ کے خوف سے رونا اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت ہی بنانا ، اللہ کے رحم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا خاص ذریعہ ہے ، اور دوزخ کے عذاب سے بچانے والے خاص اعمال میں سے ہے ۔

【137】

دوزخ اور اس کا عذاب

نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ (اپنے ایک خطاب میں) فرماتے تھے : میں نے تمہیں آتش دوزخ سے خبردار کردیا ہے ، میں نے تمہیں دوزخ کے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے ۔ آپ یہی کلمہ بار بار فرماتے تھے (آگے حدیث کے راوی نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ آپ یہ بات اتنی بلند آواز سے فرماتے) کہ اگر آپ اس جگہ ہوتے جہاں پر اس وقت میں ہوں (اور یہاں سے فرماتے) تو بازار والے بھی آپ کے اس ارشاد کو سن لیتے ، اور (اس وقت آپ پر خود فراموشی کی ایک خاص کیفیت طاری تھی) یہاں تک کہ آپ کی کمبلی جو اس وقت آپ اوڑھے ہوئے تھے ، آپ کے قدموں کے پاس آ گری ۔ (دارمی) تشریح بعض خطابات کے وقت حضور ﷺ کی کوئی خاص کیفیت ہوتی تھی ، صحابہ کرامؓ اس کی کوشش فرماتے تھے کہ ان خطابات کی روایت کے وقت اس خاص کیفیت کو بھی کسی طرح نقل کر دیں ، چنانچہ حضرت نعماب بن بشیر نے اس حدیث کے بیان میں جو اتنی تفصیل کی تو اس سے ان کا مقصد یہی تھا ۔ کہ لوگوں کو یہ بات بتلا دیں کہ اس خطاب کے وقت آپ کی یہ خاص حالت تھی ، اور دوسروں کو دوزخ سے ڈراتے ہوئے آپ خود اتنے متاثر ہوتے تھے ۔

【138】

جنت اور دوزخ کے بارے میں ایک اہم انتباہ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”دوزخ شہوات و لذات سے گھیر دی گئی ہے اور جنت سختیوں اور مشقتوں سے گھری ہوئی ہے“ ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ معاصی ، یعنی جو اعمال انسان کو دوزخ میں پہنچانے والے ہیں ، ان میں عموماً نفس کی شہوت و لذت کا بڑا سامان ہے ، اور طاعات یعنی جو اعمال انسان کو جنت کا مستحق بنانے والے ہیں وہ عموماً نفسِ انسانی کے لیے شاق اور گراں ہیں پس جو شخص نفس کی خواہشوں سے مغلوب ہو کر معاصی کا ارتکاب کرے گا ، اس کا ٹھکانا دوزخ ہو گا ، اور اللہ کا جو بندہ اللہ کی فرمانبرداری کی مشقتوں کو برداشت کرے گا ، اور خواہشات والی ”خوشگوار اور لذیذ“ زندگی کے بجائے احکام الہٰی کی اطاعت والی مجاہدہ کی زندگی گزارے گا ، وہ جنت میں اپنا مقام حاصل کر لے گا ۔ اس سے اگلی حدیث میں اسی حقیقت کو ایک اور عنوان سے ، اور کسی قدر تفصیل سے بیا فرمایا گیا ہے ۔

【139】

جنت اور دوزخ کے بارے میں ایک اہم انتباہ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ : جب اللہ نے جنت کو بنایا ، تو اپنے مقرب فرشتے جبرئیل سے فرمایا کہ تم جاؤ اور اس کو دیکھو (کہ ہم نے اس کو کیسا بنایا ہے ، اور اس میں کیسی کیسی نعمتیں پیدا کیں ہیں) چنانچہ وہ گئے ، اور انہوں نے جا کر جنت کو اوعر راحت و لذت کے ان سامانوں کو دیکھا ، جو اللہ تعالیٰ نے اہلِ جنت کے لیے اس میں تیار کئے ہیں ، اور پھر حق تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ، کہ خداوندا ! آپ کی عزت و عظمت کی قسم (آپ نے جنت کو ایسا حسین بنایا ہے اور اس میں راحت و لذت کے ایسے ایسے سامان پیدا کئے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ) جو کوئی بھی اس کا حال سن پائے گا ، وہ اس میں ضرور پہنچے گا (یعنی اس کا حال سن کر وہ دل و جان سے اس کا طالب بن جائے گا ، اور پھر اس میں پہنچنے کے لئے جو اچھے اعمال کرنے چاہئیں وہ پویر مستعدی کے ساتھ وہی اعمال کرے گا ، اور جن برے کاموں سے بچنا چاہئے ان سے پوری طرح بچے گا اور اس طرح اس میں پہنچ ہی جائے گا) پھر اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو سختیوں اور مشقتوں سے گھیر دیا (یعنی جنت کے گرد شرعی احکام کی پابندی کا باڑہ لگا دیا ، جو طبیعت اور نفس کے لئے بہت شاق اور گراں ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں پہنچنے کے لئے احکام کی اطاعت کی گھاٹی کو عبور کرنے کی شرط لگا دی ، جس میں طبیعتوں کو اور نفسوں کو بڑی سختی اور دشواری محسوس ہوتی ہے) اور پھر جبرئیل سے فرمایا ، کہ اب پھر جاؤ ، اور پھر اس جنت کو (اور اس کے گردا گرد لگائی ہوئی باڑہ کو) دیکھو ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرماتے ہیں کہ وہ پھر گئے ، اور جا کر پھر جنت کو دیکھا اور اس مرتبہ آ کر فرمایا : خداوندا قسم آپ کی عزت و عظمت کی ، اب تو مجھے یہ ڈر ہے کہ اس میں کوئی بھی نہ جا سکے گا (مطلب یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے شرعی احکام کی پابندی کی گھاٹی کو عبور کرنے کی جو شرط آپ کی طرف سے لگائی گئی ہے ، وہ نفس اور نفسانی خواہشات رکھنے والے انسان کے لئے اتنی شاق ، اور اس قدر دشوار ہے کہ اس کو کوئی بھی پورا نہ کر سکے گا ، اس لئے مجھے ڈر ہے کہ اب اس جنت کو شاید کوئی بھی حاصل نہ کر سکے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے جب دوزخ کو بنایا تو پھر جبرئیل سے فرمایا کہ : جاؤ اور ہماری بنائی ہوئی دوزخ کو (اور اس میں انواع و اقسام کے عذاب کے جو سامان پیدا کئے ہیں ، ان کو) دیکھو ، چنانچہ وہ گئے اور جا کر اس کو دیکھا ، اور آ کر عرض کیا ، خداوندا ! آپ کی عزت کی قسم (آپ نے دوزخ کو تو ایسا بنایا ہے ، کہ میرا خیال ہے کہ) جو کوئی بھی اس کا حال سنے گا وہ کبھی بھی اس میں نہ جائے گا (یعنی ایسے کاموں کے پاس نہیں جائے گا جو آدمی کو دوزخ میں پہنچانے والے ہیں) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو شہوات اور نفسانی لذات سے گھیر دیا (مطلب یہ ہے کہ نفسانی خواہشات والے وہ اعمال جن میں انسان کی طبیعتاور نفس کے لئے بڑی کشش ہے ، جہنم کے گرد اُن کی باڑہ لگا دی ، اور اس طرح جہنم کی طرف جانے کے لئے بڑی کشش پیدا ہو گئی) اور پھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل سے فرمایا : اب پھر جا کر اس دوزخ کو دیکھو ۔ رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ جبرئیل پھر گئے اور جا کر اس کو اور اس کے گرد شہوات و لذات کی جو باڑہ لگائی گئی تھی ، اس کو) دیکھا اور آ کر عرض کیا : خدا وندا ! آپ کی عزت و جلال کی قسم ! اب تو مجھے یہ ڈر ہے کہ سب انسان اسی میں نہ پہنچ جائیں (مطلب یہ ہے کہ ج شہوات و لذات سے آپ نے جہنم کو گھیر دیا ہے ان میں نفس رکھنے والے انسانوں کے لئے اتنی زبردست کشش ہے کہ ان سے رکنا بہت مشکل ہے اور اس لئے خطرہ ہے کہ بے چاری ساری اولادِ آدم نفسانی لذات و شہوات کی کشش سے مغلوب ہو کر دوزخ ہی میں نہ پہنچ جائے) ۔ (ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی) تشریح حدیث کا اصل مقصد اور اس میں ہمارے لئے خاص سبق یہ ہے کہ نفسانی خواہشات جو بظاہر بڑی لذیذ اور بڑی مرغوب ہیں ۔ ہم جان لیں کہ ان کا انجام دوزخ کا دردناک عذاب ہے ، جس کا ایک لمحہ زندگی بھر کے عیشوں کو بھلادے گا ، اور احکامِ الہٰی کی پابندی والی زندگی جس میں ہمارے نفسوں کو گرانی اور سختی محسوس ہوتی ہے اس کا انجام اور منتہی جنت ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عیش و راحت کے وہ سامان ہیں جن کی دنیا کے کسی انسان کو ہوا بھی نہیں لگی ہے ۔

【140】

جنت اور دوزخ کے بارے میں ایک اہم انتباہ

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں نے نہیں دیکھی دوزخ کی طرح کی کوئی خوفناک بلا ، ک ہ سوتا ہو اس سے بھاگنے والا ، اور نہیں دیکھی میں نے جنت کی طرح کی کوئی مرغوب و محبوب چیز ، کہ سوتا ہو اس کا چاہنے والا ۔ (ترمذی) تشریح انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی بلا سے مثلاً اپنی طرف آنے والے کسی خوفناک درندے سے ، یا اپنا تعاقب کرنے والے کسی سخت ظالم اور طاقتور دشمن سے جان بچانے کے لیے بھاگتا ہے ، تو بس بھاگا ہی چلا جاتا ہے ، اور جب تک کہ اطمینان نہ ہو جائے ، نہ سوتا ہے اور نہ آرام کرتا ہے ، اسی طرح جب کسی انتہائی محبوب و مرغوب چیز کے حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرتا ہے تو اثناء راہ میں نہ تو سوتا ہے ، نہ چین سے بیٹھتا ہے ۔ لیکن دوزخ اور جنت کے بارے میں انسانوں کا عجب حال ہے ، دوزخ سے بڑھ کر کوئی خوفناک بلا نہیں ، مگر جن کو اس سے بچنے کے لئے بھاگنا چاہئے ، وہ غفلت کی نیند سوتے ہیں ، اور جنت جس کے حاصل کرنے کے لئے دل و جان سے جدو جہد کرنا چاہئے ، اس کے چاہنے والے بھی محو خواب ہیں ۔ پردے غفلت کے پڑ گئے ہیں ، بلا کی نیندیں امنڈ رہی ہیں کچھ ایسے سوئے ہیں سونے والے ، کہ حشر تک جاگنا قسم ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پہلی جلد ختم ہوئی ۔ فَالْحَمْدُ لِلهِ الَّذِىْ بِعِزَّتِهِ وَجَلَالِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ اللہ تعالیٰ باقی جلدوں کی بھی تکمیل اور اشاعت کی توفیق دے بندہ ناچیز محمد منظور نعمانی عفا اللہ عنہ