3. کتاب الاخلاق

【1】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں ۔ (بخاری و مسلم) تشریح دین میں اخلاق کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ، اور انسان کی سعادت کو ان پر موقوف بتلایا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاقِ حسنہ اختیار کرے ، اور بُرے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے جن مقاصد کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ، اُن میں ایک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کو انسانوں کا تزکیہ کرنا ہے (ويزكيهم) اور اس تزکیہ میں اخلاق کی اصلاح اور درستی کی کاص اہمیت ہے ۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں کود آپ سے یہ مضمون روایت کیا گیا ہے ، کہ میں اخلاق کی اصلاح کے لئیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ یعنی اصلاحِ اخلاق کا کام میری بعثت کے اہم مقاصد اور میرے پروگرام کے خاص اجزاء میں سے ہے ۔ اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا کیوں کہ انسان کی زندگی اور اس کے نتائج میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے ، اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری کے ساتھ گزرے گی اور دوسروں کے لئے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا سامان ہو گا ، اور اس کے برعکس اگر آدمی کے اخلاق بُرے ہوں ، تو خود بھی وہ زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور جن سے اس کا واسطہ اور تعلق ہو گا ان کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی ۔ یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے وہ نقد دنیوی نتیجے ہیں جن کا ہم آپ روز مرہ مشاہدہ اور تجربے کرتے رہتے ہیں ، لیکن مرنے کے بعد والی ابدی زندگی میں ان دونوں کے نتیجے ان سے بدرجہا زیادہ اہم نکلنے والے ہیں ، آخرت میں خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور دوزخ کی آگ ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا اخلاق کی اصلاح کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں وہ دو طرح کے ہیں ۔ ایک وہ جن میں آپ نے اصولی طور پر حسنِ اخلاق پر زور دیا ہے اور اُس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان فرمایا ہے ، اور دوسرے وہ جن میں آپ نے بعض خاص کاص اخلاقِ حسنہ اختیار کرنے کی یا اسی طرح بعض مخصوص بداخلاقیوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے پہلے ہم قسم اول کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات یہاں درج کریں گے ۔

【2】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں ۔ (رواہ ابو داؤد والدارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان اور اخلاق میں ایسی نسبت ہے کہ جس کا ایمان کامل ہو گا ، اُس کے اخلاق لازماً بہت اچھے ہوں گے اور علیٰ ہذا جس کے اخلاق بہت اچھے ہوں گے اُس کا ایمان بھی بہت کامل ہو گا ۔ واضح رہے کہ ایمان کے بغیر اخلاق بلکہ کسی عمل کا حتی کے عبادات کا بھی کوئی اعتبار نہیں ٰ ہے ۔ ہر عمل اور ہر نیکی کے لیے ایمان بمنزلہ رُوح اور جان کے ہے ، اس لئے اگر کسی شخصیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے بغیر اخلاق نظر آئے تو وہ حقیقی اخلاق نہیں ہے ، بلکہ اخلاق کی صورت ہے ، اس لئے اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔

【3】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہْ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشادفرمایا قیامت کے دن مؤمن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اور بھاری چیز جو رکھی جائے گی ، وہ اس کے اچھے اخلاق ہو گے ۔ (ابو داؤد والترمذی)

【4】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے عرض کیا ، ککہ یا رسول اللہ ! انسان کو جوکچھ عطا ہوا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ “ اچھے اخلاق ” ۔ (اس کو امام بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور امام بغوی نے شرح السنہ میں اس حدیث کو اسامہ بن شریک صحابی سے روایت کیا ہے) ۔ تشریح ان حدیثوں سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہ ہو گا کہ اخلاق حسنہ کا درجہ ایمان یا ارکان سے بھی بڑھا ہوا ہے ۔ صحابہ کرامؓ جو ان ارشادات کے مخاطب تھے اُن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے یہ تو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ دین کے شعبوں میں سب سے بڑا درجہ ایماناور توحید کا ہے اور اس کے بعد ارکان کا مقام ہے پھر ان کے بعد دینی زندگی کے جو مختلف اجزاء رہتے ہیں ان میں مختلف جہات سے بعض کو بعض پر فوقیت اور امتیاز حاصل ہے اور بلا شبہ اخلاق کا مقام بہت بلندہے ۔ اور انسانوں کی سعادتاور فلاح میں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کی مقبولیت و محبوبیت میں اخلاق کو یقیناً خاصا لخاص دخل ہے ۔

【5】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ صاحب ایمان بندہ اچھے اخلاق سے اُن لوگوں کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں ، اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں ۔ (ابو داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جس بندہ کا حال یہ ہو کہ وہ عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے سچا مؤمن ہو ، اور ساتھ ہی اس کو حسن اخلاق کی دولت بھی نصیب ہو ، تو اگرچہ وہ رات کو زیادہ نفلیں نہ پڑھتا ہو ، اور کثرت سے نفلی روزے نہ رکھتا ہو ، لیکن پھر بھی وہ اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے ان شب بیداروں عبادت گذاروں کا درجہ پا لے گا جو قائل اللیل اور صائم النہار ہوں یعنی جو راتیں نفلوں میں کاٹتے ہوں اور دن کو عموماً روزہ رکھتے ہوں ۔

【6】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری وصیت مجھے کی تھی جب کہ میں نے اپنا پاؤں اپنی سواری کی رکاب میں رکھ لیا تھا ، وہ یہ تھی کہ آپ کو فرمایا : لوگوں کے لیے اپنے اخلاق کو بہتر بناؤ ، یعنی بندگانِ خدا کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ ۔ (مؤطا امام مالک) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں حضرت معاذ کو یمن کا گورنربنا کر بھیجا تھا ، مدینہ طیبہ سے اُن کو رخصت کرتے وقت آپ نے خاص اہتمام سے بہت سی نصیحتیں کیں تھی جو حضرت معاذؓ سے مختلفابواب میں مروی ہیں ۔ حضرت معاذؓ کا اشارہ اس حدیث میں اس موقع کی طرف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنی سواری پر سوار ہونے لگا ، اور اس کی رکاب میں میں نے پاؤں رکھا ، تو اُس وقت آخری نصیحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمائی تھی ، کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا ۔ واضح رہے کہ خوش اخلاقی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ جو عادی مجرم اور ظلم پیشہ بدمعاش سختی کے مستحق ہوں اور سختی کے بغیر ان کا علاج نہ ہو سکتا ہو اُن کے ساتھ بھی نرمی کی جائے ، یہ تو اپنے فرائض کی ادائگی میں کوتاہی اور مداہنت ہوگی ۔ بہر حال عدل و انصاف اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ مجرموں کی تادیب اور تعزیر کے سلسلہ میں اُن پر سختی کرنا کسی اخلاقی قانون میں بھی حسن اخلاق کے خلاف نہیں ہے ۔ ف ۔ ۔ ۔ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت معاذؓ کو یمن رخصت کرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی فرمایا تھا کہ شاید اس کے بعد مجھ سے تمہاری ملاقات نہ ہو ، اور بجائے میرے ، میری مسجد اور میری قبر پر تمہارا گزرہو ۔ اور چونکہ آپ کی عامدادت ایسی بات کرنے کی نہ تھی ، اس لیے حضرت معاذ نے اس سے یہی سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ، اور شاید اب مجھے اس دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہ ہوگی ۔ چنانچہ آپ کا یہ ارشاد سُن کر وہ رو پڑے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ان کو تسلی دی ، کہ" إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا " (اللہ کے متقی بندے جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں وہ مجھ سے قریب رہیں گے) اور یہی ہوا کہ یمن سے حضرت معاذؓ کی واپسی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں نہیں ہوئی ، اور جب آئے تو آپ کی قبر مبارک ہی کو پایا ۔

【7】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت امام مالکؒ سے روایت ہے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : میں اس واسطے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو کمال تک پہنچا دوں ۔ (امام مالکؒ نے اسکو اپنی موطا میں اسی طرح بغیر کسی صحابی کے حوالے کے روایت کیا ہے ، اور اماماحمدؒ نے اپنی مسند میں اس کو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے) ۔ تشریح اس روایت سے معلوم ہوا کہ اخلاق کی اصلاح اور مکارم اخلاق کی تکمیل آپ کے خاص مقاصد بعثت میں سے ہے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا قرآن مجید میں جس تزکیہ کو آپ کا خاص کام بتلایا گیا ہے اخلاق کی اصلاح اس کااہم جز ہے ۔

【8】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم دوستوں میں مجھے زیادہ محبوب وہ ہیں جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں ۔ (صحیح بخاری) تشریح حضرت جابرؓ کی ایک حدیث میں جس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اس طرح ہے کہ “ إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ القِيَامَةِ أَحسنكُمْ أَخْلَاقًا ” (تم دوستوں میں مجھے زیادہ محبوب وہ ہیں اور قیامت کے دن اُن ہی کی نشست بھی میرے زیادہ قریب ہوگی جن کے اخلاق تم زیادہ بہتر ہیں) گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت اورقیامت کے دن آپ کا قرب نصیب ہونے میں حسن اخلاق کی دولت کو خاص دخل ہے ۔ حسن اخلاق کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی بڑھ لیجئے اور اپنے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کیجئے ۔

【9】

خوش اخلاقی کی فضیلت و اہمیت

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کرتے تھے : “ اے میرے اللہ ! تو نے اپنے کرم سے میرے جسم کی ظاہری بناوٹ بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق بھی اچھے کر ے ” ۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن اخلاق کی دعا بہت سے موقعوں پر مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے ، انشاء اللہ کتاب الدعوات میں آپ کی وہ دعائیں نقل کی جائیں گی ۔ یہاں ان میں سے صرف ایک دعا اور بھی پڑھ لیجئے ۔ صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد کی کچھ تفضیل روایت کی گئی ہے ، اسی میں ہے کہ آپ نے دوران نماز میں جو دعائیں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے مانگیں اُن میں سے ایک دعا یہ بھی تھی ۔ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلاقِ ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلا أَنْتَ ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا ، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلا أَنْتَ اے میرے اللہ ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر ، تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی رہنمائی نہیں کر سکتا ، اور بُرے اخلاق کو میری طرف سے ہٹا دے ، ان کو تیرے سوا کوئی ہٹا بھی نہیں سکتا ۔ یہ حدیثیں حسن اخلاق کی فضیلت و اہمیت سے متعلق تھیں ، اب آگے مختلف عنوانات کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات درج ہوں گے جن میں آپ نے خاص خاص اخلاقِ حسنہ کی ترغیب دی ہے ، یا بُرے اخلاق سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے ۔

【10】

دوسروں پر رحم کھانے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں

حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں دوسرے آدمیوں کے لیے رحم نہیں اور جو دوسروں پر ترس نہیں کھاتے ۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس حدیث میں “ الناس ” کا لفظ عام ہے ، جو مومن و کافر اور متقی و فاجر سبکو شامل ہے ، اور بلا شبہ رحم سب کا حق ہے ، البتہ کافر اور فاجر کے ساتھ سچی رحمدلی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ اس کے کفر اور فجور کے انجام کا ہمارے دل میں درد ہو ، اور ہم اس سے اس کو بچانے کی کوشش کریں ، اس کے علاوہ اگر وہ کسی دنیوی اور جسمانی تکلیف میں ہو ، تو اس سے اس کو بچانے کی فکر کرنا بھی رحمدلی کا یقیناً تقاضا ہے ، اور ہم کو اس کا بھی حکم ہے ۔

【11】

دوسروں پر رحم کھانے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصرضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر بڑی رحمت والا خدا رحم کرے گا ، زمین پر رہنے بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحمت کرے گا ۔ (سنن ابی داؤد و جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ خدا کی خاص رحمت کے مستحق بس وہی نیک دل بندے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی دوسری مخلوق کے لئے رحم ہے ۔ اس حدیث میں زمین میں رہنے بسنے والی اللہ کی ساری مخلوق پر رحم کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، جس میں انسانوں کے تمام طبقوں کے علاوہ جانور بھی شامل ہیں ، آگے آنے والی حدیثوں میں اس عموم کی صراحت بھی کی گئی ہے ۔

【12】

ایک شخص پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا گیا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس اثناء میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جا رہا تھا ، اُسے سخت پیاسلگی ، چلتے چلتے اُسے ایک کنواں ملا ، وہ اس کے اندر اُترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا ، کنوئیں کے اندر سے نکل کر اُس نے دیکھا کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھا رہا ہے ، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی ، اور وہ اس کتے پر رحم کھا کر پھر اس کنوئیں میں اُترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اُس نے اُس کو اپنے منہ سے تھاما اور کنوئیں سے باہر نکل آیا ، اور اُس کتے کو وہ پانی اُس نے پلا دیا ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس رحمدلی اور اس محنت کی قدر فرمائی اور اسی عمل پر اس کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا ۔ بعض صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سُن کر دریافت کیا ، کہ : یا رسول اللہ ! کیا جانوروں کی تکلیف دور کرنے میں بھی ہمارے لئے اجر و ثواب ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح بعض اوقاتایک معمولی عمل دل کی خاص کیفیت یا خاص حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قبولیت حاصل کر لیتا ہے ، اور اس کا کرنے والا اُسی پر بخش دیا جاتا ہے ، اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اُس کی نوعیت بھی یہی ہے ۔ آپ ذرا سوچئے ! ایک شخص گرمی کے موسم میں اپنی منزل کی طرف چلا جا رہا ہے ، اُس کو پیاس لگی ہے ، اسی حالت میں اُس کو ایک کنواں نظر پڑ گیا ، لیکن پانی نکالنے کا کوئی سامان رسی ڈول وغیرہ نہیں ہے اس لئے مجبوراً یہ شخص پانی پینے کے لئے خود ہی کنوئیں میں اتر گیا ، وہیں پانی پیا اور نکل آیا ، اب اُس کی نظر ایک کتے پر پڑی ، جو پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا تھا ، اُس کو اُس کی حالت پر ترس آیا ، اور دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس کو بھی پانی پلاؤں ، اُس وقت ایک طرف اس کی اپنی حالت کا تقاضا یہ ہو گا کہ اپنا راستہ لوں اور منزل پر جلدی پہنچ کے آرام کروں ، اور دوسری طرف اُس کے جذبہ رحم کا داعیہ یہ ہو گا کہ خواہ میرا راستہ کھوٹا ہو ، اور خواہ کنوئیں سے پانی نکالنے میں مجھے کیسی ہی محنت مشقت کرنی پڑے لیکن میں اللہ کی اس مخلوق کو پیاس کی تکلیف سے نجات دوں ، اس کشمکش کے بعد جب اُس نے اپنی طبیعت کے آرام کے تقاضے کے خلاف جذبہ رحم کے تقاضے کے مطابق فیصلہ کیا اور کنوئیں میں اُتر کر موزے میں پانی بھر کر اور منہ میں موزا تھام کر محنت و مشقت سے پانی نکال کے لایا ، اور اُس پیاسے کتے کو پلایا تو اُس بندہ کی اس خاص حالت اور ادا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آ گیا ، اور اسی پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا ۔ الغرض مغفرت و مخشش کے اس فیصلہ کا تعلق صرف کتے کو پانی پلانے کے عمل ہی سے نہ سمجھنا چاہئے ، بلکہ جس خاص حالت میں اور جس جذبہ کے ساتھ اُس نے یہ عمل کیا تھا ، وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا ، اور اسی پر اس بندہ کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کر دیا ۔

【13】

اپنے پالے ہوئے جانوروں کے چارے پانی کی خبر گیری کا حکم اور انہیں تکلیف دینے کی ممانعت

عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے ، وہاں ایک اونٹ تھا ، جب اُس اونٹ نے آپ کو دیکھا ، تو ایسا ڈکرایا اور ایسی درد بھری آواز اُس نے نکالی جیسی بچے کے جدا ہونے پر اونٹنی کی آواز نکلتی ہے ، اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے قریب تشریف لے گئے ، اور آپ نے اس کی کنوتیوں پر اپنا دست شفقت پھیرا (جیسے کہ گھوڑے یا اونٹ پر پیار کرتے وقت ہاتھ پھیرا جاتا ہے) وہ اونٹ خاموش ہوگیا ۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے ؟ اس کا مالک کون ہے ؟ ایک انصاری نو جوان آئے ، اور انہوں نے عرض کیا ، حضرت ! یہ اونٹ میرا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس بیچارے بے زبان جانور کے بارہ میں تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے ، اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو ، اور زیادہ کام لے کر تم اس کو بہت دکھ پہنچاتے ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے معجزانہ طور پر پرندوں کی بولی سمجھ لیتے تھے ، جس کا ذخر قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے (وَعُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانوروں کی بات چیت معجزانہ طور پر سمجھ لیتے تھے ۔ اس حدیث میں اونٹ کی شکایت کو سمجھنے کا ، اور اس سے بعد والی حدیث میں ایک چڑیا کی شکایت کو سمجھنے کا جو ذکر ہے ، بظاہر وہ اسی قبیل سے ہے ، اور گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے ۔ حدیث کی خاص تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس کوئی جانور ہو ، اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کے کھلانے پلانے سے غافل نہ ہو ، اور اُس پر کام کا بوجھ بھی اُس کی قوت سے زیادہ نہ ڈالے ۔ دنیا نے “ انسدادِ بے رحمی ” کی ذمہ داری کو اب کچھ سمجھا ہے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب سے قریباً چودہ سو برس پہلے دنیا کو یہ سکھایا تھا ۔

【14】

چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو ستانے کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اپنے والد ماجد سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے ، اس اثناء میں ہماری نظر ایک سرخ چڑیا (غالباً نیک کنٹھ) پر پڑی ، جس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اُس کے دو بچے بھی تھے ہم نے اُن بچوں کو پکڑ لیا ، وہ چڑیا آئی اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگی ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، آپ نے فرمایا ، کس نے اس کے بچے پکڑ کر اسے ستایا ہے ؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو ۔ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی (یعنی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں چیونٹیوں کے بہت سوراخ تھے اور چیونٹیوں کی بہت کثرت تھی) ہم نے وہاں آگ لگا دی تھی ۔ آپ نے فرمایا : کس نے ان کو آپ سے جلایا ہے ؟ ہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ہی آگ لگائی ہے ۔ آپ نے فرمایا آگ کے پیدا کرنے والے خدا کے سوا کسی کے لئے یہ سزاوار نہیں ہے کہ وہ کسی جاندار کو آگ کاعذاب دے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جانوروں حتی کہ زمین کی چیونٹیوں کا بھی حق ہے کہ اُن کو بلا وجہ نہ ستایا جائے ۔

【15】

بلی کو باندھ کے بھوکا مار ڈالنے والی سنگدل عورت دوزخ میں گئی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ایک بے درد اور بے رحم عورت اس لئے جہنم میں گرائی گئی کہ اُس نے ایک بلی کو باندھ کے (بھوکا مار ڈالا) نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا اور نہ اُسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لیتی ۔ (بخاری مسلم) تشریح حضرت جابرؓ کی ایک روایت سے جو صحیح مسلم میں مروی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے درد اور بے رحم عورت بنی اسرائیل میں سے تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں یا خواب یا بیداری کے کسی اور مکاشفہ میں اس کو دوزخ میں بچشم خود مبتلائے عذاب دیکھا ۔ بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کے ساتھ بھی بے دردی اور بے رحمی کامعاملہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا

【16】

کسی بدبخت ہی کا دل رحم کے مادہ سے خالی ہوتا ہے

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے صادق و مصدوق سیدنا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ نہیں نکالا جاتا رحمت کا مادہ مگر بدبخت کے دل سے ۔ (مسنداحمد ، جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ رحم اور ترس کے مادہ سے کسی کے دل کا بالکل خالی ہونا اس بات کی نشانی ہے کہک اللہ کے نزدیک وہ بدبخت اور بے نصیب ہے کیوں کہ کسی بدبخت ہی کا دل رحمت کے مادہ سے خالی ہوتا ہے ۔

【17】

دل کی قساوت اور سختی کا علاج

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قساوت قلبی (سخت دلی) کی شکایت کی ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو ، اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو ۔ (مسند احمد) تشریح سخت دلی اور سنگ دلی ایک روحانی مرض اور انسان کی بدبختی کی نشانی ہے ، سائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل اور اپنی روح کی اس بیماری کا حال عرض کر کے آپ سے علاج دریافت کیا تھا ، آپ نے ان کو دو باتوں کی ہدایت فرمائی ، ایک یہ کہ یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو ، اور دوسرے یہ کہ بھوکے فقیر مسکین کو کھانا کھلایا کرو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس کے ایک خاص اصول پر مبنی ہے ، بلکہ کہنا چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اُس اصول کی تائید و توثیق ہوتی ہے ، وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے نفس یا قلب میں کوئی خاص کیفیت نہ ہو ، اور وہ اس کو پیداق کرنا چاہے ، تو ایک تدبیر اُس کی یہ بھی ہے کہ اُس کیفیت کے آثار اور لوازم کو وہ اختیار کر لے ، انشاء اللہ کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہو جائے گی ۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے کثرت ذکر کا طریقہ جو حضرات صوفیہ کرام میں رائج ہے ، اُس کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے ۔ بہر حال یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا ، اور مسکین کو کھانا کھلانا دراصل جذبہ رحم کے آ ثار میں سے ہے ، لیکن جب کسی کا دل اس جذبہ سے خالی ہو ، وہ اگر یہ عمل بہ تکل ہی کرنے لگے ، تو انشاء اللہ اس کے قلب میں بھی رحم کی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔

【18】

سخاوت اور بخل

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سخی بندہ اللہ سے قریب ہے (یعنی اس کو قرب خدا وندی حاصل ہے) نیز اللہ کے بندوں کے قریب ہے (یعنی اللہ کے بندے اس کی سخاوت کی صفت کی وجہ سے اس سے تعلق اور محبت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں) اور جنت سے قریب اور دوزخ سے دور ہے ۔ اور بخیل اور کنجوس آدمی اللہ سے دور ، یعنی قرب خداوندی کی نعمت سے محروم ہے ، اللہ کے بندوں سے بھی دور ہے (کیوں کہ اس کی کنجوسی کی وجہ سے وہ اس سے الگ اور بے تعلق رہتے ہیں) اور جنت سے دور اور دوزخ سے قریب ہے ، اور بلا شبہ ایک بے علم سخی اللہ تعالیٰ کو عبادت گذار کنجوس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح سخاوت ، یعنی اپنی کمائی دوسروں پر خرچ کرنا ، اور دوسروں کے کام نکالنا بھی رحم ہی کی ایک شاخ ہے ، جس طرح بخل اور کنجوسی ، یعنی دوسروں پر خرچ نہ کرنا ، اور دوسروں کے کام نہ آنا بے رحمی اور سخت دلی ہی کی ایک خاص صورت ہے ۔ ان دونوں کے بارہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنئے ۔

【19】

سخاوت اور بخل

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ارشاد ہے کہ تم دوسروں پر خرچ کرتے رہو ، میں تم پر خرچ کرتا رہوں گا ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشور ازلی ہے کہ جو بندے اپنی کمائی اور محبت دوسرے ضرورت مندوں پر صرف کرتے رہیں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے اُن کو برابر عطا فرماتا رہے گا ، اور وہ ہمیشہ فقر و فاقہ کی تکلیف سے محفوظ رکھے جائیں گے ۔

【20】

سخاوت اور بخل

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے جواب میں نہیں فرمایا ہو ۔ (بخاری و مسلم) تشریح یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ آپ نے کبھی کسی سائل کو “ نہیں ” کہہ کر واپس نہیں کیا ، بلکہ ہمیشہ ہر سائل کو دیا اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس نہ ہوا ، تو آپ نے قرض منگوا کر دیا ۔

【21】

سخاوت اور بخل

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو ، تو میری خوشی یہی ہوگی کہ مجھ پر تین راتیں بھی ایسی نہ گذریں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی ہو ، بجز اس کے کہ میں کسی قرض کی ادائیگی کے لیے اس میں سے کچھ روک لوں ۔ (بخاری و مسلم)

【22】

سخاوت اور بخل

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حرص و بخل اور ایمان کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے (یعنی بخیلی و کنجوسی اور ایمان کا کوئی جوڑ نہیں) ۔ (سنن نسائی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان کی حقیقت اور بخل کی عادت میں ایسی منافات ہے کہ جس دل کو حقیقی ایمان نصیب ہو گا اس میں بخل نہیں آ سکتا ، اور جس میں بخل دیکھا جائے تو سمجھ لیا جائے کہ اس میں ایمان کا نور نہیں ہے ۔ ذرا سا غور کرنے سے ہر ایک کی سمجھ میں یہ بات آ سکتی ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر کامل ایمان و یقین کے بعد دل میں بخل اور کنجوسی جیسی کسی خصلت کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں رہ سکتی ۔

【23】

سخاوت اور بخل

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : دھوکہ باز ، بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہ جا سکے گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں بُری خصلتیں (دھوکہ بازی ، کنجوسی اور احسان کر کے جتانا) اُن خطرناک اور تباہ کن عادات میں سے ہیں جو جنت کے راستے میں رکاوٹ بننے والی ہیں ، اس لئے جو بندے جنت کے شائق اور دوزخ سے خائف ہوں ، اُن کو چاہئے کہ ان عادتوں سے اپنی حفاظت کریں ۔

【24】

اللہ کو سب سے زیادہ عزیز بندہ ہے جو بدلہ لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کو گالیاں دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ، (اور آپ اس شخص کے مسلسل گالیاں دینے پر اور ابو بکرؓ کے صبر کرنے اور خاموش رہنے پر) تعجب اور تبسم فرما رہے تھے ، پھر جب اُس آدمی نے بہت ہی زیادہ گالیاں دی (اور زبان کو روکا ہی نہیں) تو ابو بکر نے بھی اُس کی بعض باتوں کو اُس پر اُلٹ دیا اور کچھ جواب دیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ناراضی کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر چل دئیے (حضرت ابو بکرؓ کو اس سے بہت فکر لاحق ہوئی ، اور وہ بھی معذرت کے لئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب معلوم کرنے کے لیے آپ کے پیچھے چلے) ۔ پس ابو بکرؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! (یہ کیا بات ہوئی کہ) وہ شخص مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ وہاں تشریف فرما رہے ، پھر جب میں نے کچھ جواب دیا ، تو حضور ناراض ہو کر اٹھ آئے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا جب تک تم خاموش تھے ، اور صبر کر رہے تھے تمہارے ساتھ اللہ کا ایک فرشتہ تھا ، جو تمہاری طرف سے جواب دہی کر رہا تھا ، پھر جب تم نے خود دیا ، تو (وہ فرشتہ تو چلا گیا ، اور) شیطان بیچ میں آ گیا (کیوں کہ اُسے امید ہو گئی کہ وہ لڑائی کو اور آگے بڑھا سکے گا) ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا ، اے ابو بکر ! تین باتیں ہیں جو سب کی سب بالکل حق ہیں ، پہلی بات یہ ہے کہ جس بندہ پر کوئی ظلم و زیادتی کی جائے اور وہ محض اللہ عز وجل کے لیے اس سے درگزر کرے (اور انتقام نہ لے) تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کی بھرپور مدد فرمائیں گے (دنیا اور آخرت میں اُس کو عزت دیں گے) ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص صلہ رحمی کے لیے دوسروں کو دینے کا دروازہ کھولے گا ، تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اُس کو اور بہت زیادہ دیں گے ۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ جو آدمی (ضرورت سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ) اپنی دولت بڑھانے کے لئے سوال اور گدا گری کا دروازہ کھولے گا ، تو اللہ تعالیٰ اس کی دولت کو اور زیادہ کم کر دیں گے ۔ (مسند احمد) تشریح انصاف کے ساتھ ظلم کا بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے ، لیکن فضیلت اور عزیمت کی بات یہی ہے کہ بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود محض اللہ کے لئے معاف کر دے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ چونکہ اخص الخواص میں سے تھے ، اس لئے آپ نے اُن کی طرف سے تھوڑی سی جوابدہی کو بھی پسند نہیں فرمایا ۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے : وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ (شورى 40 : 42) اور برائی کا (قانونی) بدلہ اُسی کی مثل برائی ہے (یعنی جس درجہ کی زیادتی کسی نے کی ، اُس کے بدلے میں اس کے ساتھ اسی درجہ کی زیادتی کی قانوناً اجازت ہے لیکن اللہ کا جو بندہ انتقام نہ لے اور معاف کر دے اور صلح و اصلاح کی کوشش کرے ، تو اس کا خاص اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے ۔ رحم دلی کی جڑ سے جو شاخیں پھوٹتی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مجرم اور قصور وار کو معاف کر دیا جائے ، اور اس سے انتقام نہ لیا جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بھی اس کی خاص طور سے ترغیب دیتے تھے ۔ چند ہی ورق پہلے “ کتاب الرقاق ” کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث درج ہو چکی ہے کہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے میرے رب نے نو باتوں کا خاص طور سے حکم فرمایا ہے ، اور اُن میں سے ایک بات آپ نے یہ ذکر فرمائی ، کہ مجھے حکم ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم و زیادتی کرے ، میں اُس کو معاف کر دیا کروں ۔ اس سلسلہ کی ایک دو حدیثیں یہاں اور بھی پڑھ لیجئے ۔

【25】

اللہ کو سب سے زیادہ عزیز بندہ ہے جو بدلہ لینے اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا ، پروردگار ! آپ کے بندوں میں کون آپ کی بارگاہ میں زیادہ باعزت ہیں ؟ ارشاد فرمایا : وہ بندے جو (قصوروار پر) قابو پانے کے بعد (اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود) اس کو معاف کر دیں ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح یہاں یہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ قصور وار کا قصور معاف کرنے کی اس فضیلت کا تعلق افراد و اشخاص اور ان کے ذاتی اور نجی حقوق و معاملات سے ہے ، لیکن جو جرائم اللہ تعالیٰ کے جرائم ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پر سزا مقرر ہے ، اُس سزا کے معاف کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو دنیا میں سب سے زیادہ رحمدل تھے ، آپ کا طرز عمل بھی یہی تھا کہ اپنا قصور کرنے والوں کو ہمیشہ معاف فرما دیتے تھے ۔ لیکن اللہ کی حدوں کے توڑنے والوں کو اللہ کے حکم کے مطابق ضرور سزا دیتے تھے ۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے : (۱) وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ ، إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللهِ ، فَيَنْتَقِمُ .

【26】

خادم اور نوکر کو معافی دو ، اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ قصور کرے

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنے خادم (غلام یا نوکر) کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں ؟ آپ نے اُس کو کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے ۔ اُس نے پھر وہی عرض کیا ، کہ میں اپنے خادم کو کتنی دفعہ معاف کروں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ہر روز ستر دفعہ ۔ (جامع ترمذی) تشریح سوال کرنے والے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت اگر میرا خادم غلام یا نوکر بار بار قصور کرنے ، تو کہاں تک میں اس کو معاف کروں ، اور کتنی دفعہ معاف کرنے کے بعد میں اس کو سزا دوں ؟ آپ نے جواب دیا کہ : اگر بالفرض روزانہ ستر دفعہ بھی وہ قصور کرے ، تو تم اس کو معاف ہی کرتے رہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ قصور کا معاف کرنا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی حد مقرر کی جائے ، بلکہ حسن اخلاق اورترحم کا تقاضا یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ روزانہ ستر دفعہ بھی قصور کرے تو اس کو معاف ہی کر دیا جائے ۔ ف ۔ ۔ ۔ جیسا کہ بار بار لکھا جا چکا ہے ، ستر کا عدد ایسے موقعوں پر تحدید کے لئے نہیں ہوتا بلکہ صرف تکثیر کے لئے ہوتا ہے ، اور خاص کر اس حدیث میں یہ بات بہت ہی واضح ہے ۔

【27】

اللہ کو سب سے پیارا وہ بندہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ احسان کرے

حضرت انس اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال ہے (یعنی سب مخلوق کی روزی اور اُن کی ضروریات حیات کا حقیقۃً اللہ تعالیٰ ہی کفیل ہے ، جس طرح کہ کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی روزی اور اُن کی ضروریات کا مجازاً کفیل ہوتاہے) پس اللہ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت اُن بندوں سے ہے جو اس کی عیال (یعنی اس کی مخلوق) کے ساتھ احسان کریں ۔ تشریح ہماری اس دنیا کا دستور بھی یہی ہے کہ جو کوئی کسی کے اہل و عیال کے ساتھ احسان کرے اُس کے لیے دل میں خاص جگہ ہو جاتی ہے ۔ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جو کوئی اُن کی مخلوق کے ساتھ احسان کابرتاؤ کرے (جس کی مختلف صورتیں اوپر ذکر کی جا چکی ہیں) وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہو جاتا ہے ۔ ف ۔ ۔ ۔ یہ بات پہلے بھی بار بار ذکر کی جا چکی ہے اور یہاں بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس قسم کی بشارتوں کا تعلق صرف اُن بندوں سے ہوتا ہے جو کسی ایسے سنگین جرم کے مجرم نہ ہوں جو آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت سے بالکل ہی محروم کر دیتا ہو ۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ ایک بادشاہ اعلان کرتا ہے کہ جو کوئی میری رعایا کی ساتھ اچھا سلوک کرے گا وہ میری محبتکا مستحق ہو گا ، اور میں اس کو انعامات سے نوازوں گا ، تو ظاہر ہے کہ جو لوگ خود اس بادشاہ کے باغی ہوں گے یا دوسرے ناقابلِ معافی جرائم بطورپیشہ کے کرتے ہوں ، (مثلاً قتل و غارتگری ، ڈاکہ زنا وغیرہ) وہ اگر رعایا کے کچھ افراد کے ساتھ بڑے سے بڑا سلوک بھی کریں ، تب بھی وہ اس اعلان کی بنیاد پر بادشاہ کی محبت اور انعام کے مستحق نہیں ہوں گے ، اور یہی کہا جائے گا کہ اس شاہی فرمان کا تعلق ایسے باغیوں اور پیشہ ور مجرموں سے نہیں ہے ۔

【28】

صرف احسان کرنے والوں کے ساتھ ہی احسان نہ کرو

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کام کرنے والے نہ بنو کہ کہنے لگو کہ اگر اور لوگ اھسان کریں گے تو ہم بھی احسان کریں گے ، اور اگر دوسرے لوگ ظلم کا رویہ اختیار کریں گے تو ہم بھی ویسا ہی کریں گے بلکہ اپنے دلوں کو اس پر پکا کرو کہ اگر اور لوگ احسان کریں تب بھی تم احسان کرو اور اگر لوگ برا سلوک کریں تب بھی تم ظلم اور برائی کا رویہ اختیار نہ کرو (بلکہ احسان ہی کرو) ۔ (ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ دنیا میں خواہ احسان اور حسن سلوک کا چلن ہو یا ظلم اور بدسلوکی کا دور دورہ ہو ، اہلِ ایمان کو چاہئے کہ اُن کا رویہ دوسروں کے ساتھ احسان اور حسن سلوک ہی کا رہے ۔ نیز یہ احسان صرف اُن ہی لوگوں کے ساتھ نہ کیا جائے جو ہمارے ساتھ احسان کرتے ہوں ، بلکہ جو لوگ ہمارے ساتھ برا سلوک کریں ، اُن کے ساتھ بھی ہم احسان ہی کا رویہ رکھیں ۔ “ کتاب الرقاق ” کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : “ مجھے میرے پروردگار کا ھکم ہے کہ جو مجھ سے قطع رحم کرے میں اُس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ، اور جو مجھے نہ دے ، جب میرے لئے دینے کاوقت آئے تو میں اُس کو بھی دوں ” ۔

【29】

صرف احسان کرنے والوں کے ساتھ ہی احسان نہ کرو

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی نے میرے کسی امتی کی کوئی حاجت پوری کر دی اُس کا دل خوش کرنے کے لئے تو اُس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اُس نے میرے اللہ کو خوش کیا ، اور جس نے اللہ کو خوش کیا ، اللہ اُس کو جنت میں داخل فرمائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے امتیوں کے ساتھ جو خاص تعلق ہے ، اُس کا اندازہ اس حدیث سے بھی کیا جا سکتا ہے ، اس میں فرمایا گیا ہے کہ آپ کے کسی امتی کو خوش کرنے کے لئے اس کا کوئی کام کر دینا اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے والا عمل ہے ، اور اس کا صلہ اللہ تعالیٰ کی خوشی اور جنت ہے ۔

【30】

صرف احسان کرنے والوں کے ساتھ ہی احسان نہ کرو

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ کا جو بندہ بے شوہر والی اور بے سہارا کسی عورت اور کسی مسکین حاجتمند آدمی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہو ، وہ اجر و ثواب میں اُس مجاہد بندہ کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں دوڑ دھوپ کرتا ہو ۔ راوی کہتے ہیں ، اور میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ۔ اور اُس شب بیدار بندہ کی طرح ہے جو رات بھر نماز پڑھتا ہو اور تھکتا نہ ہو اور اُس دائمی روزہ دار کی طرح ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو کبھی بے روزہ کے رہتا ہی نہ ہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ اوپر کی حدیثوں سے معلوم ہوا ، احسان خواہ کسی قسم کا اور اللہ کی کسی مخلوق کے ساتھ کیا جائے وہ اللہ کو راضی کرنے والا عمل ہے ، لیکن خاص کر کسی بے سہارا عورت اور کسی مسکین بندہ کی مدد کے لئے اور اُس کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرنا اتنا اونچا عمل ہے کہ اس کے کرنے والے بندے اجر و ثواب میں اُن بندوں کے برابر ہیں جو راہِ کدا میں جہاد کرتے ہوں ، یا جو صائم النہار اور قائم اللیل ہوں ۔

【31】

چھوٹے سے چھوٹے احسان کی بھی اللہ کے نزدیک بڑی قیمت ہے

حضرت ابوذر غفاریرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی احسان کی کسی صورت اور کسی قسم کو بھی حقیر نہ سمجھے ، پس اگر اپنے بھائی کو دینے کے لئے کچھ بھی نہ پائے تو اتنا ہی کرے کہ شگفتہ روئی کے ساتھ اُس سے ملاقات کرے (یہ بھی حسن سلوک کی ایک صورت ہے) اور جب تم گوشت خریدو یا ہانڈی پکاؤ تو اُس میں شوربا بڑھا دیا کرو ، پھر چمچہ بھر اُس میں سے اپنے پڑوسی کے لئے بھی نکالا کرو ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے اعزہ و اقارب اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کیا کرے حسب استطاعت اُن کو تحفے دیا کرے ، اور اگر تحفہ دینے کے لئے کوئی زیادہ بڑھیا چیزنہ ہو تو جو کچھ میسر ہو وہی دے دے ، اور اس کو حقیر اور معمولی سمجھ کے دینے سے نہ رُکے ، اور اگر کچھ بھی میسر نہ ہو تو اتنا ہی کرے کہ شگفتہ روئی اور خندہ جبینی کے ساتھ اُن سے ملا کرے ، یہ بھی حسن سلوک کی ایک صورت ہے ، اور تحفہ تحائف کی طرح اس سے بھی باہمی محبت و تعلق میں اضافہ ہوتا ہے ۔ علاوہ ازیں غریب اور نادارآدمی بھی اتنا تو کر ہی سکتا ہے ، کہ جب کبھی گھر میں گوشت پکے تو اس میں شوربا کچھ زیادہ کر لیا جائے ، اور کسی پڑوس کے گھر بھی اس میں سے بھیج دیا جائے ۔ دراصل حسن سلوک کی ان آخری صورتوں کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مثال کے کیا ہے ، ورنہ مطلب یہ ہے کہ جس سے جو ہو سکے وہ دوسروں کے ساتھ احسان کرے ۔

【32】

چھوٹے سے چھوٹے احسان کی بھی اللہ کے نزدیک بڑی قیمت ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم حسن سلوک کی کسی صورت اور کسی قسم کو بھی حقیر مت سمجھو ، اور اُس کی ایک صورت (جس میں کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا) یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے شگفتہ روئی کے ساتھ ملو ، اور یہ بھی (حسن سلوک میں سے ہے) کہ تم اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈال دو ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں اپنے بھائی کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی ڈالنے کا ذکر بھی بطور مثال ہی کے کیا گیا ہے ، اور مقصد صرف یہ ہے کہ اپنے بھائی کی جو خدمت اور مدد تم کر سکتے ہو اور اس کو جو آرام تم پہنچا سکتے ہو ، اور جس طرح تم اس کے کام آ سکتے ہو ، اُس میں دریغ نہ کرو ، اللہ کی نظر میں یہ سب احسان ہی کی صورتیں ہیں ۔ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو کیسی محبت و مؤدت کی فضا ہو ، اور کیسا بھائی چارہ ہو ۔ ان حدیثوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی پر احسان کرنا دولتمند پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس فضیلت میں غربا بھی اپنی غربت اور ناداری کے ساتھ امیروں کے شریک ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان قیمتی ہدایات کی قدر کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ہم سب کو توفیق دے ۔

【33】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایثار کی ایک مثال

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چادر (ہدیہ کے طور پر) لے کر آئی ، اور عرض کیا کہ حضرت ! میں یہ چادر آپ کو اُڑھانا چاہتی ہوں ۔ آپ نے وہ چادر قبول فرما کر اوڑھ لی ، اور آپ کی حالت یہ تھی کہ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت تھی ۔ آپ نے صحابہ میں سے ایک صاحب نے آپ کو وہ چادر اوڑھے دیکھا تو عرض کیا ، یا رسول اللہ یہ چادر تو بہت ہی اچھی ہے ، یہ تو مجھے عنایت فرما دیجئے ۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا (اور وہ چادر اُسی وقت اتار کر ان صاحب کو دے دی) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس سے اٹھ گئے ، تو بعض ساتھیوں نے ان صاحب کو ملامت کی ، اور کہا : تم نے یہ اچھا نہیں کیا ، تم نے دیکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اس کی ضرورت تھی اور آپ نے حاجت مندی کی حالت میں یہ چادر اس خاتون سے قبول کی تھی ، اس کے باوجود تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو مانگ لیا ، حالانکہ تم جانتے ہو کہ آپ کی عادت کریمہ یہ ہے کہ جو چیز بھی آپ سے مانگی جائے ، آپ اس کو دے ہی دیتے ہیں ۔ اُن صاحب نے عرض کیا میں نے تو برکت کے خیال سے ایسا کیا ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہن لیا تھا ، اب مجھے امید ہے کہ یہی مبارک چادر میرا کفن بنے گی ۔ (صحیح بخاری) تشریح ایثار احسان کا ایک اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی ایک چیز کا خود ضرورت مند ہو ، لیکن جب کوئی دوسرا حاجتمند اُس کے سامنے آ جائے تو وہ چیز اُس کو دے دے ، اور خود تکلیف اٹھا لے ، اسی کا نام ایثار ہے ، اور بلا شبہ انسانی اخلاق میں اس کا مقام بہت بلند ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنا طرزِ عمل بھی یہی تھا ، اور دوسروں کو بھی آپ اس کی تعلیم اور ترغیب دیتے تھے ۔

【34】

ایک صحابی (ابوطلحہ) اور ان کے گھر والوں کے ایثار کا ایک سبق آموز واقعہ ، اور اس پر رسول اللہ ﷺ کی بشارت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا ، میں بڑا دکھی فقیر ہوں (مجھے بھوک بہت ستا رہی ہے) آپ نے اپنی بعض ازواج مطہرات کے پاس کہلا بھیجا (کہ اگر کھانے کی کوئی چیز ہو ، تو ایک ایسے حاجتمند کے لیے بھیج دو) وہاں سے جواب ملا ، کہ قسم اُس پاک ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے ، ہمارے ہاں اس وقت کھانے پینے کی کوئی چیز پانی کے سوا نہیں ہے ۔ پھر آپ نے اپنے کسی دوسرے گھر میں کہلا کے بھیجا ، وہاں سے بھی یہی جواب ملا ، پھر (یکے بعد دیگرے اپنے سب گھروں میں کہلا کے بھیجا اور) اُن سب کی طرف سے یہی جواب ملا (کہ اس وقت پانی کے سوا کھانے پینے کی کوئی چیز گھر میں نہیں ہے ، اپنے سب گھروں سے یہ جواب ملنے کے بعد) آپ نے صحابہ حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا : تم میں سے کون اس بندہ کو اپنا مہمان بنا سکتا ہے ، اُس پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوگی ! انصار میں سے ابو طلحہ نامی ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ان کو میں اپنا مہمان بناتا ہوں ۔ چنانچہ وہ اس حاجت مند شخص کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے کہا (اسوقت ایک مہمان کے لیے) کیا تمہارے ہاں کچھ ہے ؟ بیوی نے جواب دیا ، کہ بس اپنے بچوں کا کھانا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے (یہاں تک کہ میرے اور تمہارے کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے) ۔ ابو طلحہ نے کہا ، تو پھر ایسا کرو کہ اُن بچوں کو کسی چیز سے بہلا کے (بِلا کھلائے) سُلا دو ، اور جب ہمارا مہمان گھر میں آ جائے تو (اپنے طرزِ عمل سے) اُس پر یہ ظاہر کرنا اور ایسا دکھانا کہ (اس کے ساتھ) ہم بھی کھائیں گے ، پھر جب وہ کھانے کے لئے ہاتھ بڑھائے (اور کھانا شروع کر دے) تو تم چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے چراغ کے پاس جانا اور اُس کو گُل کر دینا (تا کہ گھر میں اندھیرا ہو جائے اور مہمان یہ نہ دیکھ سکے کہ ہم اُس کے ساتھ کھا رہے ہیں یا نہیں) چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا ، پس بیٹھے تو سب لیکن کھانا صرف مہمان ہی نے کھایا ، اور ان دونوں میاں بیوی نے بھوکے رہ کر رات گذاری ، پھر جب صھؓ ہوئی تو ابو طلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے اُن کا اور اُن کی بیوی کا نام لے کر اُن کو خوش خبری سنائی کہ ، اللہ تعالیٰ کو اپنے فلاں بندے اور فلاں بندی کا یہ عمل بہت ہی پسند آیا ، اور اللہ تعالیٰ بہت ہی خوش ہوا ۔ راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مطلب کے ادا کرنے کے لئے “ عَجِبَ اللهُ ” کا لفظ بولا تھا ، یا “ ضَحِكَ اللهُ ” کا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت اور آپ کے عملی نمونہ نے صحابہ کرامؓ میں ایثار کی یہ صفت جس درجہ میں پیدا کر دی تھی یہ واقعہ اُسکا ایک نمونہ ہے ۔ قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کی اسی صفت اور اسی سیرت کی مدح ان الفاظ میں کی گئی ہے : وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سوره حشر 9 : 59) ابو طلحہؓ انصاری کے اس عمل کو اللہ تعالیٰ کے ہاں جو غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی ، اور رضا اور پسندیدگی کا جو خاص الخاص درجہ نصیب ہوا ، اُس کو سمجھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مجاز یا استعارہ کے “ عَجِبَ ” یا “ ضَحِكَ ” کا لفظ بولا ، ورنہ ظاہر ہے کہ حیرت و تعجب کرنا اور ہنسنا ، اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے یہ دونوں صفتیں کسی بندہ ہی کی ہو سکتی ہیں ۔

【35】

مؤمن کو الفت و محبت کا مرکز ہونا چاہئے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مؤمن تو الفت و محبت کا مرکز ہے ، اور اس آدمی میں کوئی بھلائی نہیں جو دوسروں سے الفت نہیں کرتا ، اور دوسرے اس سے الفت نہیں کرتے ۔ (مسند احمد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ بندہ مؤمن کو اُنس و محبت کا مرکز ہونا چاہئے کہ وہ خود دوسروں سے محبت کرے ، اور دوسرے اس سے محبت کریں اور مانوس ہوں ، اگر کسی شخص میں یہ بات نہیں ہے تو گویا اس میں کوئی خیر نہیں ، نہ وہ دوسروں کو کوئی نفع پہنچا سکے گا او رنہ دوسرے لوگ اس سے نفع اٹھا سکیں گے ۔ اس حدیث میں اُن خشک مزاج متقثت حضرات کے لیے خاص سبق ہے جو سب سے بے تعلق رہنے ہی کو دین کا تقاضا سمجھتے ہیں اور اس لئے نہ وہ خود دوسروں سے مانوس ہوتے ہیں اور نہ دوسروں کو اپنے سے مانوس کرتے ہیں ۔ البتہ مومن کی یہ محبت و الفت اور دوسروں سے مانوس ہونا اور ان کو اپنے سے مانوسکرنا سب اللہ ہی کے لیے اور اس کے احکام کے تحت ہونا چاہئے ۔ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

【36】

اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے بغض و عداوت

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندوں کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ محبت ہے جو اللہ کے لئے ہو ، اور وہ بغض و عداوت ہے جو اللہ کے لئے ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح کسی بندہ کا یہ حالہو جانا کہ وہ صرف اللہ کے لئے محبت کرے ، اور اللہ ہی کے لیے کسی سے بغض رکھے ، بلا شبہ بہت اونچا مقام ہے ، “ کتاب الایمان ” میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے فرمایا ، کہ ایمان کی مضبوط ترین دستاویز اللہ کے لیے محبت و تعلق جوڑنا ، اور اللہ کے لیے کسی سے تعلق توڑنا ہے ۔

【37】

اللہ کے لئے محبت دراصل اللہ تعالیٰ کی تعظیم و عبادت ہے

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جس بندہ نے بھی اللہ کے لیے کسی بندہ سے محبت کی ، اُس نے اپنے رب عزوجل یہ کی عظمت و توقیر کی ۔ (مسند احمد) تشریح یعنی کسی بندہ کا کسی دوسرے بندے سے اللہ کے لئے اوراللہ کے تعلق سے محبت کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق ادا کرنا ہے اور اس طرح اس کا شمار اللہ تعالیٰ کی عبادات میں ہے ۔

【38】

اللہ کے لیے آپس میں میل محبت کرنے والے اللہ کے محبوب ہو جاتے ہیں

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میری محبت واجب ہے اُن لوگوں کے لئے جو باہم میری وجہ سے محبت کریں ، اور میری وجہ سے اور میرے تعلق سے کہیں جُڑ کر بیٹھیں اورمیری وجہ سے باہم ملاقات کریں ، اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کریں ۔ (مؤطا امام مالک) تشریح اللہ کے جن بندوں نے اپنی محبت و چاہت اور اپنے ظاہری و باطنی تعلق کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے تحت کر دیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ جس سے محبت کرتے ہیں اللہ کے لیے کرتے ہیں ، جس کے پاس بیٹھتے ہین اللہ کے لیے بیٹھتے ہیں جس سے ملتے ہیں اللہ کے لیے ملتے ہیں ، جو کچھ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہیں ، بے شک اللہ کے یہ بندے اس کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رضا اور محبت ان کو نصیب ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کے اس بشارتی منشور کا اعلانفرمایا ہے کہ میرے ان بندوں کے لیے میری محبت واجب اور مقرر ہو چکی ہے ، میں ان سے محبت کرتا ہوں ، ان سے راضی ہوں ، اور وہ میرے محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں ۔ اللهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْمُتَحَابِّينَ فِيْكَ وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِيْكَ وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيْكَ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيْكَ . (اے اللہ ! ہمیں اپنے اُن بندوں میں سے کر دیجئے جو تیرے ہی لئے آپس میں محبت کرتے ہیں ، تیرے ہی لیے باہم جُڑ کے بیٹھتے ہیں ، تیرے ہی لئے آپس میں ملتے ہیں ، اور تیری ہی رضا کے لئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں) ۔

【39】

صرف اللہ کے تعلق سے اس کے ایک بندے کی زیارت کو جانے والے شخص سے فرشتہ کی ملاقات اور اللہ کی محبت کی بشارت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ایک شخص اپنے ایک بھائی سے ، جو دوسری ایک بستی میں رہتا تھا ، ملاقات کے لئے چلا ، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ گذر پر ایک فرشتہ کو منتظر بنا کے بٹھا دیا (جب وہ شخص اس مقام سے گذرا تو ،) فرشتہ نے اُس سے پوچھا ، تمہارا کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا ، میں اس بستی میں رہنے والے اپنے ایک بھائی سے ملنے جا رہا ہوں ۔ فرشتہ نے کہا ، کیا اُس پر تمہارا کوئی احسان ہے ، اور کوئی حقِ نعمت ہے جس کوتم پورا اور پختہ کرنے کے لئے جا رہے ہو ۔ اُس بندہ نے کہا ، نہیں ! میرے جانے کا باعث اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کے لئے مجھے اس بھائی سے محبت ہے (یعنی بس اسہ للہی محبت کے تعلق اورتقاضے سے میں اس کی زیارت اور مُلاقات کے لئے جا رہا ہوں) ۔ فرشتہ نے کہا ، کہ میں تمہیں بتاتا ہوں ، کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس یہ بتانے کے لئے بھیجا ہے کہ اللہ تم سے محبت کرتا ہے جیسا کہ تم اللہ کے لئے اُس کے اس بندہ سے محبت کرتے ہو ۔ (صحیح مسلم) تشریح یہ واقعہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے ، بظاہر کسی اگلی امت کے کسی فردد کا ہے ، اوراس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کبھی کبھی فرشتے اللہ کے حکم سے کسی غیر نبی کے پاس بھی آ سکتے ہیں ، اور اس سے اس طرح کی باتیں دو بدو کر سکتے ہین ، حضرت جبرئیلؑ کا اللہ کے حکم سے حضرت مریم صدیقہ کے پاس آنا ، اور ان سے باتیں کرنا قرآن مجید میں بھی مذکور ہے ۔ حالانکہ معلوم ہے کہ حضرت مریم نبی نہ تھیں ۔ اس واقعہ کی اصل روح اور اس کے بیان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص مقصداس حقیقت کا واضح کرنا تھا کہ اللہ کے کسی بندہ کا اپنے کسی بھائی سے اللہ کے لئے محبت کرنا اور اس للہی محبت کے تقاضے سے اس سے ملاقات کرنے کے لئے جانا ایسا عمل ہے جو اس محبت کرنے والے بندے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتا ہے ، اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فرشتہ کے ذریعہ اس کو اپنی محبت کا پیغام پہنچاتا ہے ۔ فَطُوبَى لَهُمْ وَبُشْرَى لَهُمْ (ان کو مبارک ہو ان کو بشارت ہو) ۔

【40】

اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کا قیامت کے دن خاص امتیاز

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے خوش نصیب بھی ہیں جو نبی یا شہید تو نہیں ہیں ، لیکن قیامت کے دن بہت سے انبیاء اور شہداء ان کے خاص مقامِ قرب کی وجہ سے ان پر رشک کریں گے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ہمیں بتلا دیجئے ، کہ وہ کون بندے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : وہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے بغیر کسی رشتہ اور قرابت کے اور بغیر کسی مالی لین دین کے روح خداوندی کی وجہ سے باہم محبت کی ۔ پس قسم ہے خدا کی ، ان کے چہرے قیامت کے دن نورانی ہوں گے بلکہ سراسر نور ہوں گے ، اور وہ نور کے منبروں پر ہوں گے ، اور عام انسانوں کو جس وقت خوفو ہراس ہو گا اس وقت وہ بے خوف اور مطمئن ہوں گے ، اور جس وقت عام انسان مبتلائے غم ہوں گے وہ اس وقت بے غم ہوں گے ، اور اس موقع پر آپ نے یہ آیت پڑھی : “ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ” (معلوم ہونا چاہئے کہ جو اللہ کے دوست اور اس سے خاص تعلق رکھنے والے ہیں ، اُن کو خوف و غم نہ ہو گا) ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس دنیا میں خونی رشتہ اور قرابت کی وجہ سے محبت و تعلق کا ہونا ایک ایسی عمومی اور فطری بات ہے جو انسانوں کے علاوہ عام جانوروں بلکہ درندوں میں بھی موجود ہے ، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کی مالی امدادکرتا ہے ، اس کو ہدیے اور تحفے دیتا ہے تو اُس میں اُس محسن کی محبت پیداہو جانابھی ایک ایسی فطری بات ہے جو کافروں ، مشرکوں اور فاسقوں فاجروں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ لیکن کسی رشتہ اور قرابت کے بغیر اور کسی مالی لین دین اور کسی ہدیے اور تحفے کے بغیر محض اللہ کے دین کے تعلق سے کسی سے محبت کرنا ایک ایسی ایمانی صفت ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر و قیمت ہے اور اس کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کا خاص محبوب و مقرب بن جاتا ہے ، اور قیامت میں اس پر اللہ تعالیٰ کی ایسی نوازشیں ہوں گی کہ انبیاء اور شہداء اس پر رشک کریں گے ۔ اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ لوگ اس درجہ اور مرتبہ میں انبیاء و شہداء سے افضل اور بلند تر ہوں گے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم درجے کے کسی آدمی کو کسی خاص اچھی حالت میں دیکھ کر اس سے اونچے درجے والوں کو بھی اس پر رشک آنے لگتا ہے ، یہ بات عقل و منطق کے لحاظ سے اگرچہ بہت سوں کو مستبعد معلوم ہوگی ، لیکن واقعات کی دنیا میں بکثرت ایسا ہوتا رہتا ہے ، اس لیے جو کچھ کہا گیا ہے یہ زبردستی کی تاویل نہیں ہے ، بلکہ واقعی حقیقت ہے ۔ یہ بندگانِ خدا جن کے مقام قرب پر انبیاء و شہداء کو رشک آئے گا ۔ حدیث میں ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے : “ هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوْا بِرُوْحِ اللهِ ” اس لفظ رُوْح کو “ ر ” کے پیش کے ساتھ رُوْح بھی پڑھا گیا ہے ، اور زبر کے ساتھ رَوْح بھی ۔ ہمارے نزدیک دونوں صورتوں میں اس سے اللہ کا دین مراد ہے ، اور مطلب یہی ہے کہ یہ وہ بندگانِ خدا ہوں گے جنہوں نے اس دنیوی زندگی میں اللہ کے دین کے تعلق سے باہم محبت و الفت کی ۔ دین اُس اُخروی زندگی کے لئے جو اصل زندگی ہے بمنزلہ روح کے بھی ہے ، اور وہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت اور رحمت بھی ہے ، اور روح کے معنی رحمت ، نعمت اور راحت کے ہیں ۔ الغرض اس لفظ کو خواہ ر کے پیش کے ساتھ پڑھا جائے یا زبر کے ساتھ ، ہر حال میں مطلب ایک ہی ہو گا ۔ حدیث کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے ، کہ اللہ کے دین کے تعلق سے باہم محبت کرنے والے ان بندگانِ خدا پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص الخاص انعام یہ ہو گا کہ قیامت کے دن جب کہ عام انسانوں پر خوف اور غم چھایا ہوا ہو گا ، ان کے دلوں پر خوف اور غم کا کوئی اثر نہ ہو گا ، اور یہ بالکل مطمئن اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے شاداں و فرحاں ہوں گے ۔ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

【41】

اللہ کے لیے محبت کرنے والے قیامت کے دن عرش کے سایہ میں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ قیامت کے دن اللہ تعالیی ارشاد فرمائیں گے کہ کہاں ہیں میرے وہ بندے جو میری عظمت و جلال کی وجہ سے آپس میں الفت و محبت رکھتے تھے ؟ آج جب کہ میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے ، میں اپنے ان بندوں کو اپنے سایہ میں جگہ دوں گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح اللہ تعالیی خبیر و بصیر ہے ، کائنات کا کوئی ذرہ اس کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہے ، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ، کہ میرے وہ بندے کہاں ہیں ؟ دراصل استفہام و استفسار کے لیے نہ ہو گا ، بلکہ میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پکار علیٰ رؤس الاشہاد اس کے لئے بلند ہوگی کہ اُن بندگانِ خدا کی یہ مقبولیت و محبوبیت سارے اہلِ محشر اور تمام اولین و آخرین کے سامنے ظاہر ہو جائے ، اور سب سُن لیں اور دیکھ لیں کہ اللہ کے لئے محبت کرنے والوں کا مقام اور مرتبہ اللہ کے یہاں کیا ہے ۔ اور حدیث میں اللہ کے سایہ سے مراد غالباً اس کے عرش کاسایہ ہے ، جیسا کہ بعض دوسری حدیثوں میں تصریح بھی ہے ۔

【42】

محبت ذریعہ قرب و معیت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ، حضور کیا فرماتے ہیں ایسے شخص کے بارے میں جس کو ایک جماعت سے محبت ہے لیکن وہ ان کے ساتھ نہیں ہو سکا َ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جو آدمی جس سے محبت رکھتا ہے اس کے ساتھ ہی ہے ۔ (یا یہ کہ آخرت میں اس کے ساتھ کر دیا جائے گا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح سائل کا مقصد بظاہر یہ دریافت کرنا تھا کہ جو شخص اللہ کے کسی خاص صاسلح اور متقی بندہ سے یا اہلِ صلاح و تقویٰ کے کسی گروہ سے محبت رکھتا ہو لیکن عمل اور سیرت میں بالکل ان کے قدم بقدم اور ان کے درجہ کا نہ ہو ، بلکہ ان سے کچھ پیچھے ہو ، تو اس کا انجام کیا ہو گا ؟ اور اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہو گا کہ یہ شخص عمل میں کچھ پیچھے ہونے کے باوجود اُن بندگانِ خدا کے ساتھ کر دیا جائے گا جن کے ساتھ اس کو اللہ کے لئے اور دین کے تعلق سے محبت تھی ۔ اس سے اگلی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سوال کے الفاظ زیادہ واضح ہیں ۔

【43】

محبت ذریعہ قرب و معیت

حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ ، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ابوذر نے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ایک آدمی ہے اس کو اللہ کے خاص بندوں سے محبت ہے لیکن وہ اس سے عاجز ہے کہ ان کے سے عمل کر سکے (تو اس بے چارہ کا انجام کیا ہو گا ؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوذر ! تم کو جس سے محبت ہوگی تم اسی کے ساتھ ہو گے ۔ ابوذر نے عرض کیا ۔ حضرت ! مجھے تو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا پس تم ان ہی کے پاس اور ان ہی کے ساتھ رہو گے جن سے تم کو محبت ہے ۔ یہ جواب سُن کر ابوذر نے پھر اپنی بات دُہرائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں پھر وہی ارشاد فرمایا جو پہلی دفعہ ارشاد فرمایا تھا ۔ (سنن ابی داؤد)

【44】

محبت ذریعہ قرب و معیت

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت ! قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے فرمایا : وائے برحال تو (تو قیامت کا وقت اور اس کے آنے کی خاص گھڑی دریافت کرنا چاہتا ہے ، بتلا) تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ اُس نے عرض کیا ، میں نے اس کے لیے کوئی خاص تیاری تو نہیں کی (جو آپ کے سامنے ذکر کرنے کے لائق اور بھروسہ کے قابل ہو) البتہ (توفیقِ الہٰی سے مجھے یہ ضرور نصیب ہے کہ) مجھے محبت ہے اللہ سے اور اس کے رسول سے ۔ آپ نے فرمایا : تجھ کو جس سے محبت ہے تو ان ہی کے ساتھ ہے اور تجھ کو اُن کی معیت نصیب ہوگی ۔ حدیث کے راوی حضرت انسؓ اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد فرماتے ہیں کہ : میں نے نہیں دیکھا مسلمانوں کو (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو) کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کو کسی چیز سے اتنی خوشی ہوئی ہو جتنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت سے ہوئی ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اسی حدیث کی ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا آخری فقرہ اس طرح بھی نقل کیا گیا ہے ۔ فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْءٍ ، فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ » « فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَّاهُمْ ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ أَعْمَالِهِمْ » ہم لوگوں کو (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو) کبھی کسی بات سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی کہ آپ کے اس ارشاد سے ہوئی کہ « أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ » (تم جس سے محبت کرتے ہو اُسی کے ساتھ ہو) پس میں بحمد اللہ محبت رکھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابو بکرؓ اور عمرؓ سے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اپنی اس محبت ہی کی وجہ سے مجھے ان کا ساتھ نصیب ہو گا ، اگرچہ میرے اعمال اُن حضرات کے سے نہیں ہیں ۔ ناظرین کو ان حدیثوں کے متعلق دو باتیں خاص طور سے سمجھ لینی چاہئیں : محبت کی وجہ سے معیت کا مطلب اول یہ کہ ساتھ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محبت کی وجہ سے محب و محبوب کا درجہ اور مرتبہ بالکل ایک ہو جائے گا ، اور دونوں کے ساتھ بالکل یکساں معاملہ ہو گا ، بلکہ یہ ساتھ ہونا اپنے اپنے حال اور اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے ایسا ہی ہو گا جیسا کہ دنیا میں بھی خادم اپنے مخدوموں کے ساتھ اور تابع اپنے متبوعوں کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ اور بلا شبہ یہ بھی بہت بڑا شرف اور بہت بڑی نعمت ہے ۔ محبت کے لیے اطاعت لازم دوسری بات یہ ہے کہ محبت کے لئے اطاعت لازم ہے ، یہ ناممکن ہے کہ کسی کو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہو ، اور اس کی زندگی بغاوت اور معصیت کی ہو ۔ پس جو لوگ آزادی اور بے فکری کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، وہ اگر اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ کریں تو جھوٹے ہیں ، اور اگر واقعہ میں وہ خود بھی اپنے کو اہل محبت میں سے سمجھیں تو بڑے فریب میں مبتلا ہیں ۔ حضرت رابعہ نے ایسے ہی مدعیان محبت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے ، اور بالکل صحیح فرمایا ہے : تَعْصِي الْإِلَهَ وَأَنْتَ تُظْهِرُ حُبَّهُ . . . عَارٌ عَلَيْكَ إِذَا فَعَلْتَ شَنِيعُ لَوْ كَانَ حُبُّكَ صَادِقًا لَأَطَعْتَهُ . . . إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ أَحَبَّ مُطِيعُ (یعنی اے محبت کے جھوٹے مدعی ! تو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے ، عقل و قیاس کے لحاظ سے یہ بات بہت ہی عجیب ہے ، اگر تو دعویٰ محبت میں سچا ہوتا ، تو اس کی فرمانبرداری کرتا ، کیوں کہ ہر محب اپنے محبوب کی بات دل و جان سے مانا کرتا ہے) بہر حال اللہ و رسول کی محبت کے لئے ان کی اطاعت لازم ہے ، بلکہ حق یہ ہے کہ کامل اطاعت محبت ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ ع عاشقی چیست بگو بندہ جاناں بودن اور اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والوں کو انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کی معیت و رفاقت کی بشارت خود قرآن مجید میں بھی دی گئی ہے ۔ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا (النساء 69 : 4) پس اس آیت اور مندرجہ بالا احادیث کے مضمون میں گویا تعبیر اور عنوان ہی کا فرق ہے ۔ یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ اس حدیث سے اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔ جس کو حافظ ابن کثیر نے سورہ نساء کی اس آیت کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں ابن مردویہ اور طبرانی کی سند سے نقل کیا ہے ۔ ۔ ۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ : ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اپنی بیوی ، اپنی اولاد ، اور اپنی جان سے بھی زیادہ حضور سے محبت ہے ، اور میرا حال یہ ہے کہ میں اپنے گھر پر ہوتا ہوں اور حضور مجھے یاد آجاتے ہیں تو اس وقت تک مجھے صبر اور قرار نہیں آتا نہیں آتا جب تک حاضر خدمت ہو کر ایک نظر دیکھ نہ لوں اور جب میں اپنے مرنے کا اور حضور کی وفات کا خیال کرتا ہوں تو میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ وفات کے بعد حضور تو جنت میں پہنچ کر انبیاء علیہم السلام کے بلند مقام پر پہنچا دئیے جائیں گے اور میں اگر اللہ کی رحمت سے جنت میں بھی گیا تو میری رسائی اس عالی مقام تک تو نہ ہو سکے گی ، اس لئے آخرت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے بظاہر محرومی ہی رہے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کی اس بات کا کوئی جواب اپنی طرف سے نہیں دیا ، یہاں تک کہ سورہ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی : وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا (النساء ع 7) اور جو لوگ فرمانبرداری کریں اللہ کی اور اس کے رسول کی ، پس وہ اللہ کے ان خاص مقرب بندوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا خاص انعام ہے یعنی انبیاء صدیقین ، شہداء اور صالحین ، اور یہ سب بڑے ہی اچھے رفیق ہوں گے ۔ گویا اس آیت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبِ صادق کو اور دوسرے تمام اہلِ محبت کو خوش خبری سنائی کہ جب تم کو سچی محبت ہے تو تم اللہ و رسول کی فرمانبرداری ضرور کرو گے ، اور پھر تم کو جنت میں اللہ کے خاص مقرر بندوں کی معیت اور رفاقت بھی نصیب ہوگی ۔ چونکہ محبت کے بارے میں بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے اور وہ ناواقفی اور کم غوری کی وجہ سے محبت و اطاعت کے باہمی لزوم کو پیشِ نظر نہیں رکھتے ، اس لئے اس موقع پر تھوڑی سی تفصیل ضروری سمجھی گئی اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا حُبَّكَ وَحُبَّ رَسُوْلِكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنَا حُبُّهُ عِنْدَكَ . ۔ . (اے اللہ ! ہم کو اپنی اور اپنے رسول کی محبت عطا فرما ، اورجن بندوں کی محبت تیرے نزدیک ہمارے لئے نفع بخش ہو ، اُن سب کی محبت ہم کو عطا فرما) ۔

【45】

مسلمانوں میں باہم کیسی محبت و مؤدّت اور کیسا تعلق ہونا چاہئے

حضرت انعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے ، محبت کرنے اور شفقت و مہربانی کرنے میں تم جسم انسانی کی طرح دیکھو گے کہ جب اُس کے کسی ایک عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضاء بھی بخار اور بے خوابی میں اسکے شریک حال ہو جاتے ہیں ۔ (بخاری و مسلم) تشریح دینی اخوت اور اسلامی ہمدردی و غمخواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعٰلمین ہیں ، اور آپ کی تعلیم ساری دنیا کے لئے آبِ رحمت ہے ، آپ نے اللہ تعالیٰ کی عام مخلوق اور عام انسانوں کے ساتھ ترحم اور حسن سلوک کے بارے میں اپنے ماننے والوں کو جو ہدایات دی ہیں اور جو نصیحتیں فرمائی ہیں ، اُن میں سے بعض گذشتہ اوراق میں درج کی جا چکی ہیں ، لیکن آپ کو اللہ کا پیغمبر ماننے والی امت چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دینی رشتہ کے ذریعہ ایک برادری بنا دی گئی ہے ، اور اب رہتی دنیا تک اس برادری ہی کو نبوت کی نیابت اور نمایندگی کرنی ہے ، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ امت کے مختلف افراد اور عناصر دینی اخوت ، للہی محبت ، مخلصانہ ہمدردی و خیر خواہی اور بے غرضانہ تعاون کے ذریعہ ایک وحدت بنے رہیں ، اور ان کے دل آپس میں پوری طرح جڑے رہیں ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں اس پر خاص الخاص زور دیا ہے ۔ اس سلسلہ کے آپ کے زیادہ تر ارشادات تو وہ ہیں جن جا “ معاشرت ” کے ابواب میں درج ہونا زیادہ مناسب ہو گا ، لیکن دو ایک حدیثوں کا یہاں “ اخلاق ” کے سلسلہ ہی میں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ مجھ پر ایمان لانے والوں میں باہم ایسی محبت و مؤدت ، ایسی ہمدردی اور ایسا دلی تعلق ہونا چاہئے کہ دیکھنے والی ہر آنکھ اُن کو اس حا میں دیکھے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی مصیبت میں مبتلا ہو ، تو سب اس کو اپنی مصیبت سمجھیں ، اور سب اس کی فکر اور بے چینی میں شریک ہوں اور اگر ایمان دعوے کے باوجود یہ بات نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ حقیقی اور کامل ایمان نصیب نہیں ہے ۔ ایمان والوں کی یہی صفت قرآن مجید “ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ” کے مختصر الفاظ میں بیان کی گئی ہے ۔

【46】

مسلمانوں میں باہم کیسی محبت و مؤدّت اور کیسا تعلق ہونا چاہئے

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : کہ ایمان والوں کا تعلق دوسرے ایمان والوں سے ایک مضبوط عمارت کے اجزاء کا سا ہونا چاہئے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں (اور اُن کے جڑے رہنے سے عمارت کھڑی رہتی ہے) پھر آپ نے (ایمان والوں کے اس باہمی تعلق کا نمونہ دکھانے کے لئے) اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں (اور بتایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم ملکر ایک ایسی مضبوط دیوار بن جانا چاہئے جس کی اینٹیں باہم پیوستہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں اور کہیں ان میں کوئی خلا نہ ہو ۔ (بخاری ومسلم)

【47】

باہم نفرت و عداوت ، بغض و حسد اور بد گمانی و شماتت کی ممانعت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ تم دوسروں کے متعلق بدگمانی سے بچو ، کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ، تم کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو ، اور جاسوسوں کی طرح راز دارانہ طریقے سے کسی کے عیب معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کیا کرو ، اور نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو ، نہ آپس میں حسد کرو ، نہ بغض و کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو ، بلکہ اے اللہ کے بندو ! اللہ کے حکم کے مطابق بھائی بھائی بن کر رہو (بخاری و مسلم) تشریح مندرجہ بالا حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح مسلمانوں کو باہم محبت و ہمدردی کا برتاؤ کرنے اور ایک جسم و جان بن کر رہنے کی تاکید فرمائی ہے ، اسی طرح اس کے خلاف برتاؤ کرنے ، مثلاً ایک دوسرے کے ساتھ بد گمانی رکھنے ، بدگوئی کرنے ، بے تعلق رہنے ، اس کی مصیبت پر خوش ہونے ، اس کو ایذا پہنچانے ، اور حسد یا کینہ رکھنے کی سخت مذمت اور انتہائی تاکیدوں کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے ۔ اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات یہ ہیں : تشریح ۔ ۔ ۔ اس حدیث میں جن جن چیزوں سے ممانعت فرمائی گئی ہے ، یہ سب وہ ہیں جو دلوں میں بغض و عداوت پیدا کر کے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہیں ۔ سب سے پہلے آپ نے بدگمانی کا ذکر فرمایا ، یہ ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے ، جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو اُس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے اس کا ذرا سا اختلاف ہو اُس کے ہر کام میں اس کو بدنیتی ہی بد نیتی معلوم ہوتی ہے ، پھر محض اس وہم اور بدگمانی کی بنا پر وہ اس کی طرف بہت سی ان ہونی باتیں منسوب کرنے لگتا ہے پھر اس کا اثر قدرتی طور پر ظاہری برتاؤ پر بھی پڑتا ہے ، پھر اس دوسرے شخص کی طرف سے بھی اس کا ردِّ عمل ہوتا ہے ، اور اس طرح دل پھٹ جاتے ہیں ، اور تعلقات ہمیشہ کے لیے خراب ہو جاتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بدگمانی کو “ أَكْذَبُ الحَدِيثِ ” فرمایا ہے ، یعنی سب سے جھوٹی بات ، بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے خلاف زبان سے اگر جھوٹی بات ہی جائے تو اس کا سخت گناہ ہونا ہر مسلمان جانتا ہے ، لیکن کسی کے متعلق بدگمانی کو اتنی بُری بات نہیں سمجھا جاتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ فرمایا کہ یہ بدگمانی بھی بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا جھوٹ ہے ، اور دل کا یہ گناہ زبان والے جھوٹ سے کم نہیں ہے ۔ اور جس حدیث میں بدگمانی کی شناعت اور قباحت کو ان الفاط سے ظاہر فرمایا گیا ہے ، اُسی طرح ایک دوسری حدیث میں نیک گمانی کو بہترین عبادت بتایا گیاہے ، ارشاد ہے : " حُسْنَ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ " (رواه احمد وابوداؤد عن ابى هريرة) " پھر بدگمانی کے بعد اور جن جن بُری عادتوں سے اس حدیث میں ممانعت فرمائی گئی ہے ۔ یعنی کسی کی کمزوریوں کی ٹوہ میں رہنا ، دوسروں میں عیبوں کا تجسس کرنا ، ایک دوسرے پر رفعت حاصل کرنے اور بڑھنے کی کوشش کرنا ، کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر اُس پرحسد کرنا ، اور اس کی خوش حالی کو ٹھنڈی آنکھ نہ دیکھ سکنا ، وغیرہ وغیرہ ۔ ان سب کا حال بھی یہی ہے ، کہ ان سے دلوں میں نفرت و عداوت کا بیج پڑتا ہے ، اور ایمانی تعلق جس محبت و ہمدردی اور جس اخوت و یگانگت کو چاہتا ہے اس کا امکان بھی باقی نہیں رہتا ۔ حدیث کے آخر میں جو فرمایا گیا ہے “ اے اللہ کے بندو ! بھائی بھائی ہو کر رہو ! ” اس میں اشارہ ہے کہ جب تم اپنے دلوں اور سینوں کو نفرت و عداوت پیدا کرنے والی ان بری عادتوں سے صاف رکھو گے تب ہی تم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہ سکو گے ۔

【48】

اہل ایمان کو ستانے والوں اور رسوا کرنے والوں کو سخت تنبیہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے (اور جب وہ اس کی مدد و اعانت کا محتاج ہو ، تو اس کی مدد کرے) اور اُس کو بے مدد کے نہ چھوڑے ، اور اس کو حقیر نہ جانے ، اور نہ اُس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے (کیا خبر کہ اس کے دل میں تقویٰ ہو ، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک مکرم اور محترم ہو) پھر آپ نے تین بار اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : تقویٰ یہاں ہوتا ہے (ہو سکتا ہے کہ تم کسی کو اُس کے ظاہری حال سے معمولی آدمی سمجھو ، اور اپنے دل کے تقوے کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک محترم ہو ، اس لئے کبھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو) آدمی کے برا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے ، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لئے قابل احترام ہے ، اُس کا خون ، اس کا مال ، اور اس کی آبرو (اس لئے ناحق اُس کا خون گرانا ، اس کا مال لینا ، اور اس کی آبرو ریزی کرنا ، یہ سب حرام ہیں) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں ہر مسلمان پر اس کے دوسرے مسلمان بھائی کا ایک یہ حق بھی بتایا گیا ہے کہ جب وہ اس کی مدد کا محتاج ہو ، تو یہ اس کی مدد کرے ، لیکن یہ اُسی صورت میں ہے جب کہ وہ حق پر ہو اور مظلوم ہو ۔ ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارا بھائی اگر مظلوم ہو تو اُس کی مدد کرو ، اور اگر ظالم ہو تو اس کو ظلم سے روکو ، اُس کو ظلم سے روکنا ہی اُس کی مدد کرنا ہے ۔

【49】

ایمان والے بندوں کو ستانے والوں اور رُسوا کرنے والوں کو سخت تنبیہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے ، اور آپ نے بلند آواز سے پکارا اور فرمایا ، اے وہ لوگو جو زبان سے اسلام لائے ہو اور ان کے دلوں میں ابھی ایمان پوری طرح اترا نہیں ہے ، مسلمان بندوں کو ستانے سے اور ان کو عار دلانے اور شرمندہ کرنے ، اور اُن کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے پڑنے سے باز رہو ، کیوں کہ اللہ کا قانون ہے کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کے چھپے عیبوں کے پیچھے پڑے گا اور اس کو رسوا کرنا چاہے گا ، تو اللہ تعالیٰ اُس کے عیوب کے پیچھے پڑے گا ، اور جس کے عیوب کے پیچھے اللہ تعالیٰ پڑے گا ، وہ اس کو ضرور رسوا کرے گا (اور وہ رسوا ہو کے رہے گا) اگرچہ اپنے گھر کے اندر ہی ہو ۔ (جامع ترمذی) تشریح جب حقیقی ایمان کسی کے دل میں اتر جاتا ہے تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی پر اپنے انجام کی فکر غالب ہو اتی ہے ، اور وہ اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کے بارہ میں محتاط ہو جاتا ہے ، خاص کر اللہ کے جو بندے سچے ایمان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑ چکے ہوں ان کے بارے میں اور بھی زیادہ محتاط ہو جاتا ہے ، اُن کو ستانے ، اُن کو دل دکھانے ، ان کی پچھلی برائیوں کا ذکر کر کے اُن کو شرمندہ کرنے اور ان کی زندگی کے چھپے ہوئے کمزور پہلوؤں کی وہ لگانے سے باز رہتا ہے لیکن اگر دل میں ایمان کی حقیقت نہ اُتری ہو ، اور صرف زبان سے اسلام کی باتیں ہوں تو آدمی کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے وہ اپنی فکر کے بجائے دوسروں کے عیب ڈھونڈتا ہے ، خاص کر اللہ کے اُن بندوں کے پیچھے پڑتا ہے جو اللہ کے ساتھ ایمان اور عبدیت کا تعلق قائم کر چکے ہوتے ہیں ، اُن کو لوگوں کی نظروں سے گرانا چاہتا ہے ، اُن کی غلطیوں کی تشہیر کرتا ہے ، اُن کو بدنام اور ذلیل کرنا چاہتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ایسے لوگوں کو آگاہ کیا ہے ، کہ وہ اس حرکت سے باز آئیں ، اللہ کے ایمان والے بندوں کو بدنام کرنے اور اُن کے مقام کو گرانے اور اُن کے چھپے ہوئے کمزور پہلوؤں کو اچھالنے کے مشغلہ کو ترک کریں ، ورنہ آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی وہ ذلیل کئے جائیں گے اور ذلت و رسوائی کی مار اُن پر ضرور پڑے گی ، اگر بالفرض ذلت و رسوائی سے بچنے کے لئے وہ خانہ نشین ہو کے بھی بیٹھیں گے تو اللہ اُن کو اُن کے گھر کی چہار دیواری ہی میں رسوا کرے گا ۔ چوں خدا خواہد کہ پردہ کس دردمیلش اندر طعنہ باکاں برد

【50】

حسد کے بارے میں خاص انتباہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : تم حسد کے مرض سے بچو ، حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح تجربہ بھی شاہد ہے کہ جس کے دل میں حسد کی آگ بھڑکتی ہے وہ اسی کے درپے رہتا ہے کہ جس کی خوشحالی پر اس کو حسد ہے کسی طرح اس کو کوئی نقصان پہنچائے ، اس کو بے آبرو کرے ، پھر اگر کچھ بس نہیں چلتا ، تو اس کی غیبت ہی کر کے دل کی آگ بجھانا چاہتا ہے ، اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حدیثوں سے معلوم ہوا ہے اس کا کم از کم یہ نتیجہ تو ضرور ہی ہو گا کہ قیامت میں اس غیبت کرنے والے حاسد کی نیکیاں اس محسود بندے کو دلا دی جائیں گی ۔ نیکیوں کو حسد کے کھا جانے کی یہ آسان توجیہ ہے ۔

【51】

حسد کے بارے میں خاص انتباہ

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ اگلی امتوں کی مہلک بیماری یعنی حسد و بغض تمہاری طرف چلی آ رہی ہے ، یہ بالکل صفایا کر دینے والی اور مونڈ دینے والی ہے (پھر اپنا مقصدواضح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا) میرے اس کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بالوں کو مونڈنے والی ہے ، بلکہ یہ مونڈتی ہے اور بالکل صفایا کر دیتی ہے دین کا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح صحابہ کرامؓ کے متعلق اللہ علیم و خبیر کی یہ شہادت قرآن مجید میں محفوظ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر شفیق اور مہربان ہیں “ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ” دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص کرم نے ان کے دل ملا دئیے ہیں ، اور وہ پُرانے جھگڑوں کو بالکل بُھلا کر آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ہیں ۔ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (آل عمران 103 : 3) ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے ، کہ اللہ کا یہ خاص انعام ہے ، کہ اُس نے تم پر ایمان لانے والون کے دل ملا دئیے ہیں ، اگر تم اس مقصد کے لئے دنیا کی ساری دولت اور سارے خزانے بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دلوں میں یہ الفت و محبت پیدا نہ کر سکتے ۔ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال 63 : 8) بہر حال قرآن مجید کی ان واضح شہادتوں سے معلوم ہوا کہ جہاں تک صحابہ کرامؓ کا تعلق ہے ان کے دل ایک دوسرے کی محبت و الفت سے بھر دئیے گئے تھے ، اور ان میں باہم بغض و حسد کا نام و نشان بھی نہ تھا ، اس لئے اس حدیث “ دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ : الْحَسَدُ ، وَالْبَغْضَاءُ ” کا منشا یہی ہو سکتا ہے کہ بعد کے دوروں میں بغض و حسد کی جو مہلک بیماری مسلمانوں میں آنے والی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ منکشف ہوئی ، اور آپ نے امت کو اس آنے والی بلا سے خبر دار کیا اور بتلایا کہ بغض و حسد کی جس مہلک بیماری نے اگلی بہت سے امتوں کے دین و ایمان کو برباد کیا وہ میری امت کی طرف بھی چلی آ رہی ہے ، لہٰذا اللہ کے بندے ہوشیار رہیں ، اور اس لعنت سے اپنے دلوں اور سینوں کی حفاظت کی فکر کریں ۔

【52】

بغض اور کینہ کی نحوست

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر ہفتہ میں دو دن دو شنبہ اور پنجشنبہ کو لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں ، تو ہر بندہ مؤمن کی معافی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ، سوائے اُن دو آدمیوں کے جو ایک دوسرے سے کینہ رکھتے ہوں ، پس اُن کے بارے میں حکم دے دیا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑے رکھو (یعنی ان کی معافی نہ لکھو) جب تک کہ یہ آپس کے اس کینہ اور باہم دشمنی سے باز نہ آئیں اور دلوں کو صاف نہ کر لیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کی تشریح ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس کو امام منذری نے ترغیب و ترہیب میں اوسط طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے ، اس میں فرمایا گیا ہے ، کہ ہر دوشنبہ اور پنج شنبہ کو لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو جس نے توبہ کی ہوتی ہے اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے ، لیکن باہم کینہ رکھنے والوں کے اعمال اُن کے کینہ کے سبب لوٹا دئیے جاتے ہیں (یعنی ان کی معافی اور توبہ کی قبولیت کا فیصلہ بھی نہیں کیا جاتا) جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آئیں ۔ اس مضمون کی چند اور حدیثیں بھی ہیں ، ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس مسلمان کے دل میں دوسرے مسلمان بھائی کے لیے کینہ ہو گا جب تک وہ اس کینہ سے اپنے دل اور سینے کو صاف پاک نہ کر لے ، اس وقت تک وہ اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق نہ ہو گا ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَلِإِخْوانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونا بِالْإِيمانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

【53】

شماتت کی سزا

حضرت واثلہ ابنالاسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے کسی بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کرو (اگر ایسا کرو گے تو ہو سکتا ہے کہ) اللہ اُس کو اس مصیبت سے نجات دے دے اور تم کو مبتلا کر دے ۔ (جامع ترمذی) تشریح جب دو آدمیوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے ، اور وہ ترقی کر کے دشمنی اور عداوت کی حد تک پہنچ جاتا ہے تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک کے مبتلائے مصیبت ہونے سے دوسرے کو خوشی ہوتی ہے ، اس کو شماتت کہتے ہیں ، حسد اور بغض کی طرح یہ خبیث بھی عادت بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والی ہے ، اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات دنیا ہی میں اس کی سزا اس طرح دے دیتے ہیں کہ مصیبت زدہ کو مصیبت سے نجات دے کر اس پر خوش ہونے والے کو مبتلائے مصیبت کر دیتے ہیں ۔

【54】

نرم مزاجی اور درشت خوئی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے (نرمی اور مہربانی کرنا اُس کی ذاتی صفت ہے) اور نرمی اورمہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے (یعنی اس کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے بندے بھی آپس میں نرمی اورمہربانی کا برتاؤ کریں) اور نرمی پر وہ اتنا دیتا ہے جتنا کہ درشتی اور سختی پر نہیں دیتا ہے ، اور جتنا کہ نرمی کے ماسوا کسی چیز پر بھی نہیں دیتا ۔ (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کے سلسلہ میں جن باتوں پر خاص طور سے زور دیا ہے ، اور آپ کی اخلاقی تعلیم میں جن کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور درشتی اور سختی کا رویہ اختیار نہ کرے ، اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات یہاں پڑھیئے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ بعض لوگ اپنے مزاج اور معاملہ اور برتاؤ میں سخت ہوتے ہیں ، اور بعض لوگ نرم اور مہربان ، اور ناآشنایانِ حقیقت سمجھتے ہیں کہ سخت گیری سے آدمی وہ حاصل کر لیتا ہے جو نرمی سے حاصل نہیں کر سکتا ، گویا ایسے لوگوں کے خیال میں سخت گیری کار براری کا وسیلہ اور مقاصد میں کامیابی کی کنجی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد میں اس غلط خیال کی بھی اصلاح فرمائی ہے ۔ سب سے پہلے توآپ نے نرم خوئی کی عظمت اور رفعت یہ بیان فرمائی ، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے ، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ محبوب ہے کہ اس کے بندوں کا باہمی معاملہ اور برتاؤ بھی مرمی کا ہو ۔ پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ مقاصد کا پورا ہونا نہ ہونا ، اورکسی چیز کا ملنا تو اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر موقوف ہے ، جو کچھ ہوتا ہے اسی کے فیصلہ اور اسی کی مشیت سے ہوتا ہے ، اور اس کا قانون یہ ہے کہ وہ نرمی پر اس قدر دیتا ہے جس قدر کہ سختی پرنہیں دیتا ، بلکہ نرمی کے علاوہ کسی چیز پر بھی اللہ تعالیٰ اتنا نہیں دیتا جتنا کہ نرمی پر دیتا ہے ، اس لیے اپنے منافع اور مصالح کے نقطہ نظر سے بھی اپنے تعلقات اورمعاملات میں آدمی کو نرمی اور مہربانی ہی کا رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ دوسرے لفطوں میں اسی کو یوں کہہ لیجئے کہ جو شخص چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر مہربان ہو ، اور اس کے کام پورے کرے ، اس کو چاہئے کہ وہ دوسروں کے حق میں مہربان ہو ، اور بجائے سخت گیری کے نرمی کو اپنا اصول اور اپنا طریقہ بنائے ۔

【55】

نرم مزاجی اور درشت خوئی

حضرت جریر سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو آدمی نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ نرمی کی صفت اتنی بڑی خیر ہے اور اس کا درجہ اتنا بلند ہے کہ جو شخص اس سے محروم رہا ، گویا وہ اچھائی اور بھلائی سے یکسر محروم اور خالی ہاتھ رہا ، یا یوں کہا جائے کہ انسان کی اکثر اچھائیوں اور بھلائیوں کی جڑ بنیاد اور ان کا سرچشمہ چونکہ اس کی نرم مزاجی ہے لہذا جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہر قسم کے خیر اور ہر اچھائی اور بھلائی سے محروم رہے گا ۔

【56】

نرم مزاجی اور درشت خوئی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نرمی کی خصلت کا اپنا حصہ مل گیا اس کو دنیا اور آخرت کے خیر میں سے حصہ مل گیا اور جس کو نرمی نصیب نہیں ہوئی ، وہ دنیا اور آخرت میں خیر کے حصے سے محروم رہا ۔

【57】

نرم مزاجی اور درشت خوئی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں ارادہ کرتا اللہ تعالیٰ کسی گھر کے لوگوں کے لئے نرمی کی صفت عطا کرنے کا ، مگر ان کو نفع پہنچاتا ہے اس کے ذریعہ ، اور نہیں محروم کرتا کسی گھر کے لوگوں کو نرمی کی صفت سے مگر یہ کہ ضرر پہنچاتا ان کو ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عام سنت اور اس کا کلی قانون ہے کہ جس گھر کے لوگوں کو وہ نرمی کی خصلت عطا فرماتا ہے ان کے لیے یہ نرمی بہت سی منفعتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنتی ہے ، اور جن لوگوں کو وہ اس اچھی خصلت سے محروم رکھتا ہے ان کے لیے یہ محرومی بہت سے نقصانات اور بہت سی زحمتوں کا سبب بنتی ہے ۔ انسان کی خصلتوں میں نرمی اور سختی کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کے استعمال کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے جس شخص کے مزاج اور رویہ میں سختی ہوگی وہ اپنے گھر والوں ، بیوی بچوں ، عزیزوں قریبوں کے لیے سخت ہو گا ، پڑوسیوں کے حق میں سخت ہو گا ، اگر استاد ہے تو شاگردوں کے حق میں سخت ہو گا ، اسی طرح اگر حاکم اور افسر ہے تو محکوموں اور ماتحتوں کے حق میں سخت ہو گا ، غرضیکہ زندگی میں جہاں جہاں اور جن جن سے اس کا واسطہ پڑے گا ان کے ساتھ اس کا رویہ سخت ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی زندگی خود اس کے لئے اور اس سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مستقل عذاب ہوگی ۔ اور اس کے برعکس جس بندہ کے مزاج اور رویہ میں نرمی ہوگی وہ گھر والوں پڑوسیوں ، افسروں ، ماتحتوں ، شاگردوں ، استادوں ، اپنوں ، بیگانوں ، غرض کہ سب کے ساتھ نرم ہو گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس نرمی کی بدولت وہ خود بھی راحت سے رہے گا اور دوسروں کے لئے بھی راحت اور سکون کا باعث ہو گا ، پھر یہ نرمی باہم محبت و مؤدت پیدا کرے گی اور اکرام و احترام اورخیر خواہی کے جذبات کو ابھورے گی ، اور اس کے برعکس درشت مزاجی اور رتندخوئی دلوں میں بغض و عداوت پیدا کرے گی ، اور حسد و بد خواہی اور جنگ و جدل کے منحوس جذبات کو بھڑکائے گی ۔ سختی اور نرمی کے یہ تو چند وہ دنیوی نتائج ہیں جن کا ہم روز مرہ اپنی زندگیوں میں اور اپنے ماحول میں تجربہ اور مشاہدہ کرتے رہتے ہیں (اور تھوڑے سے غور و فکر سے بہت سے ان بڑے اور دور رس نتائج کو بھی سمجھ سکتے ہیں) ان کے علاوہ اس نرم مزاجی اور درشت خوئی کے جو بے حد عظیم الشان اخروی نتائج آخرت کی زندگی میں سامنے آنے والے ہیں ، ان کا تجربہ اور مشاہدہ تو اپنے وقت پر ہی ہو گا ، لیکن اس دنیوی زندگی میں آخرت کے نفع و نقصان اور ثواب و عذاب کو جتنا کچھ ہم جان اور سمجھ سکتے ہیں ، اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سلسلہ کے ارشادات ہمارے لئے کافی ہیں ۔

【58】

نرم مزاجی اور درشت خوئی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں تم کو ایسے شخص کی خبر نہ دوں جو دوزخ کی آگ کے لئے حرام ہے ، اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے ؟ (سنو میں بتاتا ہوں ، دوزخ کی آگ حرام ہے) ہر ایسے شخص پر جو مزاج کا تیز نہ ہو ، نرم ہو ، لوگوں سے قریب ہونے والا ہو ، نرم خو ہو ۔ تشریح اس حدیث میں یہ هَيِّنٍ لَيْنٍ قَرِيبٍ سَهْلٍ چاروں لفظ قریب المعنیٰ ہیں ، اور نرم مزاجی کے مختلف پہلوؤں کی یہ ترجمانی کرتے ہیں ۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ جو آدمی اپنے مزاج اور رویہ میں نرم ہو ، اور نرم خوئی کی وجہ سے لوگوں سے خوب ملتا جلتا ہو ، دور دور اور الگ الگ نہ رہتا ہو ، اور لوگ بھی اس کی اس اچھی اور شیریں خصلت کی وجہ سے اُس سے بے تکلف اور محبت سے ملتے ہوں ، جس سے بات اور معاملہ کرتا ہو ، نرمی اور مہربانی سے کرتا ہو ، ایسا شخص جنتی ہے ، اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے ۔ شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں بار بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید کے نصوص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل تعلیم و تربیت سے صحابہ کرامؓ کے ذہن میں چونکہ یہ بات پوری طرح راسخ ہو چکی تھی (اور دین کی صرف ضروری درجہ کی بھی واقفیت رکھنے والا ہر شخص آج بھی اتنی بات جانتا ہے) کہ اس قسم کی بشارتوں کا تعلق صرف ان ہی لوگوں سے ہے جو ایمان رکھتے ہوں ، اور دین کے لازمی مطالبات ادا کرتے ہوں ، اس لئے اس قسم کی بشارتوں کے ساتھ عموماً اس شرط کو الفاظ میں ذکر نہیں کیا جاتا ۔ (اور بشارت کے موضوع کے لیے یہی مناسب ہے) لیکن ذہنوں میں یہ شرط ملحوظ اورمحفوظ رہنی چاہئے ، یہ ایک مسلمہ ایمانی حقیقت ہے کہ ایمان کے بغیر اللہ کے یہاں اعمال اور اخلاق کی کوئی قیمت نہیں ۔

【59】

نرم مزاجی اور درشت خوئی

حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ سخت گو اور درشت خو آدمی جنت میں نہیں جائے گا ۔ (ابو داؤد) تشریح حدیثوں میں کبھی کبھی کسی برے عمل یا بری عادت کی برائی بیان کرنے کے لیے اور لوگوں کو اس سے بچانے کے لیے یہ اندازِ بیان بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ “ اس عمل یا عادت ، والا آدمی جنت میں نہ جا سکے گا ” اور مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ عمل اور یہ عادت ، شانِ ایمان کے خلاف اور جنت کے راستہ میں رکاوٹ بننے والی ہے ، اس لئے جنت کے طلب گار اہلِ ایمان کو اس سے پورے اہتمام سے بچنا چاہئے ۔ حارثہ بن وہب کی اس حدیث کا مقصد بھی یہی ہے کہ سخت گوئی اور درشت خوئی ایمان کے منافی اور جنت کا راستہ روکنے والی نہایت منحوس عادتیں ہیں جو کسی مسلمان میں نہ ہونی چاہئیں ، اور ان ناپاک عادتوں والے لوگ سچے مومنین کی طرح اور اُن کے ساتھ جنت میں نہ جا سکیں گے ۔

【60】

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم مزاجی

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا ، اور میں نو عمر لڑکا تھا ، اس لئے میرا ہر کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے بالکل مطابق نہیں ہوتا تھا ، (یعنی نو عمری کی وجہ سے بہت سی کوتاہیاں بھی ہو جاتی تھیں) لیکن دسسال کی اس مدت میں کبھی آپ نے اُف کہہ کے بھی مجھے نہیں ڈانٹا ، اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا ؟ یا کیوں نہیں کیا ؟ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت حضرت انس کی عمر تقریباً دس سال کی تھی ، ان کی والدہ ام سلیم نے اُن کو مستقلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دے دیا ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری روزِ حیات تک یہ آپ کی خدمت میں رہے ، اُن ہی کا یہ بیان ہے کہ نو عمری اور لڑکپن کی وجہ سے آپ کے کاموں میں مجھ سے بہت سی کوتاہیاں بھی ہو جاتی تھیں ، لیکن کبھی آپ نے مجھے کسی غلطی اور قصور پر اُفتک نہیں کہا ، اور کبھی مجھ پر غصہ نہیں فرمایا ۔ بلا شبہ یہ بہت بڑی اور بہت مشکلبات ہے ، لیکن ہم امتیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ یہی ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نرم مزاجیاور بردباری کا کوئی حصہ ہم کو بھی نصیب فرمائے ۔

【61】

حلم و بردباری یعنی غصہ نہ کرنا اور غصہ کو پی جانا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، کہ حضرت ! مجھے کوئی وصیت فرمائیے ۔ آپ نے ارشادفرمایا ، کہ غصہ مت کیا کرو ، اُس شخص نے پھر اپنی وہی درخواست کئی بار دہرائی ، کہ حضرت مجھے اور وصیت فرمائیے ، مگر آپ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو ۔ (صحیح بخاری) تشریح حلم و بردباری یعنی غصہ نہ کرنا اور غصہ کو پی جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جن اخلاقکی تاکید و اہتمام کے ساتھ تعلیم دی ہے اُن میں سے ایک حلم و بردباری بھی ہے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وصیت کی درخواست کرنے والے یہ صاحب کچھ غیر معمولی قسم کے تیز مزاج اور مغلوب الغضب تھے ، اور اس وجہ سے اُن کے لیے مناسب ترین اور مفید ترین وصیت اور نصیحت یہی ہو سکتی تھی کہ “ غصہ نہ کیا کرو ” اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار ان کو یہی ایک نصیحت فرمائی ۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ بری عادتوں میں غصہ نہایت ہی خطرناک اور بہت ہی بدانجام عادت ہے ۔ غصہ کی حالت میں آدمی کو نہ اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رہتا ہے نہ اپنے نفع اور نقصان کا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ انسان پرشیطان کا قابو جیسا غصہ کی حالت میں چلتا ہے ایسا شاید کسی دوسری حالت میں نہیں چلتا ، گویا اس وقت انسان اپنے بس میں نہیں ہوتا ، بلکہ شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے ، حد یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں آدمی کبھی کبھی کفریہ کلمات بھی بکنے لگتا ہے ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے “ غصہ دین و ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح کہ ایلوا شہد کو خراب اور بالکل ہی کڑواکر دیتا ہے ” ۔ (یہ حدیث “ کتاب الایمان ” میں درج کی جا چکی ہے) ۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت اور سخت مذمت کی گئی ہے اس سے مراد وہی غصہ ہے جو نفسیانیت کی وجہ سے ہو اور جس سے مغلوب ہو کر آدمی اللہ تعالیٰ کی حدود اور شریعت کے احکام کا پابند نہ رہے ، لیکن جو غصہ اللہ کے لیے اور حق کی بنیاد پر ہو ، اور اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو ، بلکہ بندہ اس میں حدود اللہ کا پورا پابند رہے ، تو وہ کمال ایمان کی نشانی اور جلالِ خداوندی کا عکس ہے ۔

【62】

غصہ میں نفس پر قابو رکھنے والا حقیقی پہلوان ہے

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پہلوان اور طاقت ور وہ نہیں ہے جو مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان اور شہ زور در حقیقت وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے ۔ (بخاری و مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ آدمی کا سب سے بڑا اور بہت ہی مشکل سے زیر ہرنے والا دشمن اس کا نفس ہے ، جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ : “ اَعْدىٰ عَدُوِّكَ نَفْسُكَ الَّتِىْ بَيْنَ جَنْبَيْكَ ” (تیرا سخت ترین دشمن خود تیرا نفس ہے) اور معلوم ہے کہ خاص کر غصہ کے وقت اس کا قابو میں رکھنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا گیا ہے کہ طاقت ور اور پہلوان کہلانے کا اصلی حقدار وہی مردِ خدا ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے ، اور نفسانیت اس سے کوئی بیجا حرکت اور کوئی غلط کام نہ کرا سکے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ بندہ کے دل میں وہ کیفیت ہی پیدا نہ ہو جس کو غیظ ، غضب اور غصہ کے لفظوں سے تعبیر کیا جاتا ہے (کیوں کہ کسی سخت ناگوار بات پر دل میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا تو بالکل فطری بات ہے ، اور اس سے انبیاء علیہم السلام بھی مستثنیٰ نہیں ہیں) البتہ مطالبہ یہ ہے کہ اس کیفیت کے وقت بھی نفس پر پورا قابو رہے ایسا نہ ہو کہ اس سے مغلوب ہو کر آدمی وہ حرکتیں کرنے لگے جو شانِ بندگی کے خلاف ہوں ۔

【63】

غصہ کے وقت کیا کیا جائے

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چاہئے کہ بیٹھ جائے ، پس اگر بیٹھنے سے غصہ فرو ہو جائے تو فبہا اور اگر پھر بھی غصہ باقی رہے تو چاہئے کہ لیٹ جائے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کے فرو کرنے کی یہ ایک نفسیاتی تدبیر بتلائی ہے جو بلا شبہ نہایت کارگر ہے ، علاوہ اس کے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ غصہ میں آدمی سے بیجا حرکتیں اور جو لغویات سرزد ہو سکتی ہیں ، کسی جگہ جم کر بیٹھ جانے سے اُن کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے ، اور پھر لیٹ جانے سے ان کا امکان اور کم سے کمتر ہو جاتا ہے ۔

【64】

غصہ کے وقت کیا کیا جائے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ لوگوں کو دین سکھاؤ ، دین کی تعلیم دو ، اور تعلیم میں آسانی پیدا کرو ، دشواری پیدا نہ کرو ، اور جب تم سے کسی کو غصہ آئے تو چاہئے کہ وہ اس وقت خاموشی اختیار کر لے ، یہ آخری بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ (مسند احمد و معجم کبیر للطبرانی) تشریح غصہ کے بُرے نتیجوں سے اپنی حفاظت کرنے کے لیے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دوسری تدبیر ہے کہ جب غصہ آئے تو آدمی خاموش رہنے کا فیصلہ کر لے ، ظاہر ہے کہ پھر غصہ دل ہی میں گھٹ کر رہ جائے گا ، اور بات آگے نہ بڑھے گی ۔

【65】

غصہ کے وقت کیا کیا جائے

عطیہ بن سعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے (یعنی غصہ میں حدود سے تجاوز شیطان کے اثر سے ہوتا ہے) اور شیطان کی آفرینش آگ سے ہوئی ہے (یعنی شیطان اپنی اصل کے لحاظ سے آتشی ہے) اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے ، لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے ، تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کر لے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح غصہ کو فرو کرنے کی یہ خاص الخاص تدبیر ہے ، اور پہلی تدبیروں سے بھی زیادہ کارگر ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ غصہ کی حدت اور تیزی کی حالت میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آ جائے ، اور اسی وقت اُٹھ کے اچھی طرح پورے آداب کے لحاظ کے ساتھ وضو کر لیا جائے تو غصہ کی حدت میں فوراً سکعن پیدا ہو جائے گا ۔ اور بالکل ایسا محسوس ہو گا کہ وضو کا پانی براہ راست غصہ کی بھڑکتی ہوئی آگ پر پڑا ۔

【66】

اللہ کے لئے غصہ کو پی جانے کی فضیلت اور اُس کا صلہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ کسی بندہ نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جو اللہ کے نزدیک غصہ کے اُس گھونٹ سے افضل ہو ، جسے کوئی بندہ اللہ کی رضا کی خاطر پی جائے ۔ (مسند احمد) تشریح غصہ کو پی جانا جس طرح اُردو زبان کا محاورہ ہے اسی طرح عربی زبان کا بھی یہی محاورہ ہے ، بلکہ اُردو میں یہ محاورہ غالباً عربی ہی سے آیا ہے ۔ حدیث کا مطلب یہی ہے کہ پینے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا پینا اللہ کی رضا کا باعث ہو سکتا ہے ، لیکن ان سب میں افضل ترین اللہ کی رضا جوئی کی خاطر غصہ کو پی جانا ہے ۔ جن خوش خصال اور پاکیزہ صفات بندوں کے لئے جنت آراستہ کی گئی ہے ، قرآن مجید میں اُن کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ : وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ غصہ کو پی جانے والے اور دوسرے کی زیادتی یا دوسرے کے قصور کو معاف کر دینے والے

【67】

اللہ کے لئے غصہ کو پی جانے کی فضیلت اور اُس کا صلہ

سہل بن معاذ اپنے والد ماجد حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جو شخص پی جائے غصہ کو درانحالیکہ اس میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ اپنے غصہ کے تقاضے کو وہ نافذ اور پورا کر سکتا ہے (لیکن اس کے باوجود محض اللہ کے لئے اپنے غصہ کو پی جاتا ہے ، اور جس پر اس کو غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہیں دیتا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اس کو بلائیں گے ، اور اس کو اختیار دیں گے کہ حورانِ جنت میں سے جس حور کو چاہے اپنے لئے انتخاب کر لے (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح تجربہ شاہد ہے کہ غصہ کی شدت کے وقت آدمی کے دل کی انتہائی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے غصہ کے تقاضے کو پورا کر ڈالے ، پس جو بندہ قدرت کے باوجود محض اللہ کی رضا کے لئے اپنے دل کی اس انتہائی خواہش کو دنیا میں قربان کرے گا ، اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کی جزا اس شکل میں عطا فرمائیں گے ، کہ ساری مخلوق کے سامنے اس کا بلا کر فرمایا جائے گا کہ اپنے دل کی چاہت کی اس قربانی کے بدلے آج حوارنِ جنت میں سے جو حور چاہو اپنے لئے انتخاب کر لو ۔

【68】

اللہ کے لئے غصہ کو پی جانے کی فضیلت اور اُس کا صلہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو کوئی (دوسروں کی بدگوئی وغیرہ بُری باتوں سے) اپنی زبان روکے گا اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا (یعنی اس کے عیوب اور اس کی برائیاں دوسروں پر نہیں کھلنے دے گا) اور جو کوئی اپنے غصہ کو روکے گا ، اور پی جائے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنے عذاب کو روکے گا ، اور وہ عذاب سے بچ جائے گا ، اور جو بندہ اپنی تقصیر کی معذرت اللہ کے حضور میں کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی معذرت قبول فرمائے گا (اور اس کو معاف فرما دے گا) ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

【69】

حلم و برد باری اللہ کی محبوب صفات میں سے ہے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کے سردار اشج سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کو محبوب اور پیاری ہیں ، ایک بردباری (غصہ سے مغلوب نہ ہونا) اور دوسرے جلدی نہ کرنا (صحیح مسلم) تشریح قبیلہ عبدالقیس کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ آیا ، اس وفد کے سارے لوگ اپنی سواریوں سے کود کود کر جلدی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے ، لیکن رئیس وفد جن کا نام منذر اور عرف اشج تھا ، انہوں نے یہ جلد بازی نہیں کی ، بلکہ اتر کے پہلے سارے سامان کو یکجا اور محفوظ کیا ، پھر غسل کیا اور کپڑے تبدیل کئے ، اور اس کے بعد متانت اور وقار کے ساتھ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس رویہ کو پسند فرمایا ، اور اسی موقع پر ان سے یہ ارشاد فرمایاکہ تم میں یہ دو خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری اور محبوب ہیں ، ایک حلم (بردباری) یعنی غصہ سے مغلوب نہ ہونا ، اور غصہ کے وقت اعتدال پر قائم رہنا ، اور دوسری اناۃ یعنی کاموں میں جلد بازی اور بے صبری نہ کرنا ، بلکہ ہر کام کو متانت اور وقار کے ساتھ اطمینان سے انجام دینا ۔

【70】

اطمینان و متانت سے کام کرنے کی فضیلت اور جلد بازی کی ممانعت

حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ کاموں کو متانت اور اطمینان سے انجام دینا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح یعنی ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت ایک محمود عادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نصیب ہوتی ہے اور اس کے برعکس جلد بازی ایک بُری عادت ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے ۔

【71】

ہر کام متانت اور وقار کے ساتھ انجام دینے کی فضیلت اور ترغیب

عبداللہ بن سرجسرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اچھی سیرت ، اور اطمینان و وقار سے اپنے کام انجام دینے کی عادت اور میانہ روی ایک حصہ ہے نبوت کے چوبیش حصوں میں سے ۔ (جامع ترمذی) تشریح حدیث کا اصل مقصد ان تینوں چیزوں کی اہمیتبیان کرنا اور ان کی ترغیب دینا ہے ۔ اور نبوت کے حصوں میں سے ہونے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ پیغمبر کی زندگی جن محاسن اور کمالات سے مکمل اور مزین ہوتی ہے یہ تینوں اوصاف ان کا چوبیسواں حصہ ہیں ، یا یہ کہ انسانی سیرت کی تعمیر کے سلسلہ میں انبیاء علیہم السلام جن خصائل کی تعلیم دیتے اور تلقین فرماتے ہیں ، ان کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ یہ تین چیزیں ہیں ، یعنی اچھی سیرت اور اطمینان و وقار سے اپنے کام انجام دینے کی عادت ، اور میانہ روی ۔ میانہ روی “ میانہ روی ” ہم نے حدیث کے لفظ اقتصاد کا ترجمہ کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کام اور ہر حال میں افراط و تفریط سے بچا جائے ، اور اعتدال کی روش اختیار کی جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں اس چیز پر خاص طور سے زور دیا ہے ، یہاں تک کہ عبادت جیسے بہترین انسانی عمل میں بھی آپ نے اعتدال و میانہ روی کی تاکید فرمائی ہے ۔ بعض صحابہ نے بہت زیادہ عبادت گذاری کا ارادہ کیا ، یعنی دن کو ہمیشہ روزہ رکھنے اور پوری رات جاگ کر نمازیں پڑھنے کا منصوبہ بنایا ، تو آپ نے ان کو سخت تنبیہ فرمائی اور اس سے منع فرما دیا ۔ اسی طرح بعض صحابہ نے جب اپنا پورا مال راہ خدا میں صرف کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ، تو آپ نے ان کو اس سے روک دیا ، اور صرف ایک تہائی کی اجازت دی ۔ بہر حال اقتصاد کا مطلب یہی اعتدال کی چال ہے ۔ “ کتاب الرقاق ” کی متعدد حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے “ الْاِقْتِصَادُ فِى الْفَقْرِ وَالْغِنى ” کی ترغیب اور تاکید آپ پڑھ چکے ہیں ، اس کا مطلب یہی ہے کہ تنگدستی اور فراخ دستی دونوں حالتوں میں آدمی اعتدال کی درمیانی چال چلے ، اسی کو اس حدیث میں نبوت کا ایک جز بتایا گیا ہے ۔

【72】

خوش کلامی اور بد زبانی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور انہوں نے (نفس کی خباثت ، اور شرارت سے السلام علیکم کے بجائے) کہا “ السَّامُ عَلَيْكُمْ ” (جو دراصل ایک گالی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ تم کو موت آئے) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے (ان کی اس گستاخی کی سُن لیا اور سمجھ لیا اور) جواب میں فرمایا کہ تم ہی کو آئے ، اور تم پر خدا کی لعنت اور اس کا غضب ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے عائشہ (ایسی سختی نہیں !) زبان کو روکو ، نرمی کا رویہ اختیار کرو اور سختی اور بد زبانی سے اپنے کو بچاؤ ۔ (صحیح بخاری) تشریح خوش کلامی اور بد زبانی انسان کی اخلاقی زندگی کے جن پہلوؤں سے اس کے ابنائے جنس کا سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے ، اور جن کے اثرات اور نتائج بھی بہت دور رس ہوتے ہیں ، ان میں سے اس کی زبان کی شیرینی یا تلخی اور نرمی یا سختی بھی ہے ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین و متعلقین کو شیریں گفتاری اور خوش کلامی کی بڑی تاکید فرماتے ، اور بدزبانی اور سخت کلامی سے شدت کے ساتھ منع فرماتے تھے ، یہاں تک کہ بُری بات کے جواب میں بھی بری بات کہنے کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے ، ذیل کی چند حدیثیں پڑھئے : تشریح ۔ ۔ ۔ گویا آپ نے ان یہودیوں کی ایسی سخت گستاخی کے جواب میں بھی سختی کو پسند نہیں فرمایا ، اور نرمی ہی کو اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ۔

【73】

خوش کلامی اور بد زبانی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ مؤمن بندہ نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت کرنے والا اور نہ بد گو اور نہ گالی بکنے والا ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ مؤمن کا مقام یہ ہے اور اس کا شیوہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کی زبان سے لعن طعن اور گالی گلوج نہ نکل ، کتاب الایمان میں وہ حدیث گذر چکی ہے جس میں اختلاف و نزاع کے وقت گالیاں بکنے کو منافق کی نشانی بتلایا گیا ہے ۔

【74】

خوش کلامی اور بد زبانی

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اجازت چاہی ، آپ نے (ہم لوگوں سے) فرمایا کہ یہ اپنے قبیلہ کا بُرا فرزند ہے ، یا فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا بُرا آدمی ہے ، پھر آپ نے فرمایا کہ اس کو آنے کی اجازت دے دو ، پھر جب وہ آ گیا تو آپ نے اُس کے ساتھ گفتگو بہت نرمی سے فرمائی (جب وہ چلا گیا) تو حضرت عائشہؓ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے تو اس شخص سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی ، اور پہلے آپ نے اسی کے بارے میں وہ بات فرمائی تھی (کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے) آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے بدترین آدمی قیامت کے دن وہ ہو گا ، جس کی بدزبانی اور سخت کلامی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں (یعنی اس سے ملنے اور بات کرنے سے گریز کریں) (صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی شریر اور بُرا بھی ہو ، جب بھی اُس سے بات نرمی سے اور شریفانہ طریقہ ہی سے کرنی چاہئے ، ورنہ بدزبانی اور سخت کلامی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایسے شخص سے ملنے اور بات کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں ، اور جس شخص کا یہ حال ہو ، وہ اللہ کے نزدیک بہت برا آدمی ہے اور قیامت کے دن اُس کا حال بہت برا ہو گا ۔ اس حدیث کے بارے میں چند باتیں سمجھ لینی چاہئیں : ۱ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے آنے سے پہلے اُس کے بُرے آدمی ہونے کی اطلاع اپنے پاس والوں کو غالباً اس لیے دی تھی کہ وہ اس کے سامنے محتاط ہو کر بات کریں ، اور کوئی ایسی بات نہ کر بیٹھیں جو کسی شریر اور برے آدمی کے سامنے نہ کرنی چاہئے ، اور ایسی کسی مصلحت سے کسی شخص کی برائی سے دوسروں کو خبردار کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے ، بلکہ اس کا حکم ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اذكروا الفاجر بما فيه لكى يحذره الناس ” (فاجر و بدکار آدمی میں جو برائی ہے اُس کا لوگوں سے ذکر کر دو ، تا کہ اللہ کے بندے اس کے شر سے محفوظ رہ سکیں) ۔ (کنز العمال) ۲ ۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس آدمی کا شریر اور بُرا ہونا معلوم ہو اُس سے بھی گفتگو نرمی ہی سے کرنی چاہئے ، بلکہ اسی واقعہ کی صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں : “ فَلَمَّا جَلَسَ تَطَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ وَانْبَسَطَ إِلَيْهِ ” جس کا مطلب یہ ہوا کہ آُ نے اُس آدمی سے شگفتگی اور خندہ روئی کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ جن لوگوں کی برائی اور بدکرداری ہم جانتے ہوں اُن سے اچھی طرح ملنا بھی نہ چاہئے صحیح نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے خود امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے ۔ “ إِنَّا لَنَكْشِرُ فِي وُجُوهِ أَقْوَامٍ ، وَإِنَّ قُلُوبَنَا لَتَلْعَنُهُمْ ” یعنی ہم بہت سے ایسے لوگوں سے بھی ہنس کرملتے اور بولتے ہیں ، جن کے احوال اور اعمال کے لحاظ سے ہمارے دل ان پر لعنت کرتے ہیں ۔ ۳ ۔ اس حدیث کی ابو داؤد کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ، کہ جس آدمی کے بارے میں آپ نے خود فرمایا تھا کہ یہ بہت برا آدمی ہے ، اُس سے آپ نے ایسی بشاشت اور شگفتگی کے ساتھ کیوں ملاقات اور بات چیت فرمائی ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا “ يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ ” یعنی اے عائشہؓ ! اللہ تعالیٰ بدزبان اور فحش گو آدمی کو دوست نہیں رکھتا ۔ مطلب یہ ہے کہ بدزبانی کی عادت اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم کر دیتی ہے ، لہذا میں کیسے اس کا مرتکب ہو سکتا ہوں ۔

【75】

خوش کلامی اور بد زبانی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ٰ ، کہ آپ نے ارشاد فرمایا : کہ اچھی اور میٹھی بات بھی ایک صدقہ ہے (یعنی نیکی کی ایک قسم ہے ، جس پر بندہ اجر کا مستحق ہوتا ہے) ۔ (صحیح بخاری) تشریح یہ دراصل ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے ، امام بخاری نے اس پوری حدیث کو بھی روایت کیا ہے ، اور ایک جگہ تعلیقاً صرف اتنا ہی ٹکڑا نقل کیا ہے ، مطلب ظاہر ہے ۔ کسی کے ساتھ اچھی بات شیریں انداز میں کرنا اس کے دل کی خوشی کا باعث ہوتا ہے اور اللہ کے کسی بندہ کے دل کو خوش کرنا بلا شبہ بڑی نیکی ہے ، کہنے والے نے تو یوں تک کہہ دیا ہے “ دل بدست آور کہ حجِ اکبر است ”

【76】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت ! مجھے ایسا عمل بتا دیجئے کہ جس کی وجہ سے میں جنت میں پہنچ جاؤں ، اور دوزخ سے دور کر دیا جاؤں ، آپ نے فرمایا ، تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے ، لیکن (بڑی اور بھاری ہونے کے باوجود) وہ اس بندے کے لئے آسان ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ اس کو آسان کر دے (اور توفیق دے دے) ۔ لو سنو ! (سب سے مقدم بات تو یہ ہے کہ دین کے ان بنیادی مطالبوں کو فکر اور اہتمام سے ادا کرو) اللہ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور اچھے طریقے (اور دل کی توجہ کے ساتھ) نماز ادا کیا کرو ، اور زکوٰۃ دیا کرو اور رمضانکے روزے رکھا کرو ، اور بیت اللہ کا حج کرو ۔ پھر فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے دروازے بھی بتا دوں ؟ (گویا جو کچھ اب تک آپ نے بتلایا یہ تو اسلام کے ارکان اور فرائض تھے ، اس کے بعد آپ نے فرمایا ، کہ تم چاہو تو میں تمہیں خیر کے اور دروازے بتلاؤں ! غالباً اس سے آپ کی مراد نفل عبادات تھیں ، چنانچہ حضرت معاذؓ کی طلب دیکھ کرآپ نے اُن سے فرمایا) روزہ (گناہوں سے اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی) سپر اور ڈھال ہے ، اور صدقہ گناہ کو (اور گناہ سے پیدا ہونے والی آگ کو) اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ، اور رات کے درمیانی حصے کی نماز (یعنی نمازِ تہجد کا بھی یہی حال ہے ، اور ابوابِ خیر میں اس کا خاص الخاص مقام ہے) اس کے بعد آپ نے (تہجد اور صدقہ کی فضیلت کے سلسلہ میں) سورہ سجدہ کی یہ آیت پڑھی : (1) تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ پھر آپ نے فرمایا ، کیا میں تمہیں معاملہ کا (یعنی دین کا) سر اور اس کا عُمود یعنی ستون اور اس کی بلند چوٹی بتا دوں ؟ (معاذؓکہتے ہیں) میں نے عرض کیا ، حضرت ضرور بتا دیں ! آپ نے فرمایا ، دین کا سر ، یا سرا اسلام ہے ، اور اس کا ستون نماز ہے ، اور اس کی بلند چوٹی جہاد ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا ، کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتا دوں جس پر گویا ان سب کا مدار ہے (اور جس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں ، معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا حضرت وہ چیز بھی ضرور بتلا دیجئے ! پس آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا ، اس کو روکو (یعنی اپنی زبان قابو میں رکھو ، یہ چلنے میں بیباک اور بے احتیاط نہ ہو ، معاذ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا ، حضرت ! ہم جو باتیں کرتے ہیں ، کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہو گا ؟ آپ نے عرض فرمایا ، اے معاذ ! تجھے تیری ماں روئے (عربی محاورہ کے مطابق یہاں یہ پیار کا کلمہ ہے) آدمیوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل ، یا فرمایا کہ ان کی ناکوں کے بل (زیادہ تر) ان کی زبانوں کی بیباکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح دنیا میں جھگڑے اور فسادات زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں ہی سے پیدا ہوتے ہیں ، اور جو بڑے بڑے گناہ آدمیوں سے بکثرت سرزد ہوتے ہیں ان کا تعلق بھی بیشتر زبان ہی سے ہوتا ہے ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بڑی تاکید فرماتے تھے ، کہ زبان کو قابو میں رکھا جائے ، اور ہر قسم کی بری باتوں سے بلکہ بے ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے بھی زبان کو روکا جائے ، اور جب بات کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو اور بات سے کسی خیر اور نفع کی امید نہ ہو ، تو خاموش ہی رہا جائے ، یہ تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان اہم تعلیمات میں سے ہے جن پر آپ نے نجات کا دارو مدار بتلایا ہے ، اور بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ، روزہ ، حج اور جہاد جیسی عبادات کی نورانیت اور ان کا حسن و قبول بھی زبان کی اسی احتیاط پر موقوف ہے ۔ اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات “ کتاب الرقاق ” میں گذر چکے ہیں ، چند حدیثیں یہاں اور درج کی جاتی ہیں : تشریح ۔ ۔ ۔ اس حدیث میں ارکانِ اسلام کے بعد آپ نے ابوابِ خیر کے عنوان سے روزہ اور صدقہ کا جو ذکر فرمایا ہے ، اس عاجز کے نزدیک اس سے مراد نفلی روزہ اور نفلی صدقہ ہے ، اور اسی لئے آپ نے اس کے ساتھ نمازِ تہجد کا ذکر فرمایا ہے جو نفل نمازوں میں سب سے افضل ہے ۔ پھر آپ نے اسلام کو “ راس الامر ” یعنی دین کا سر بتلایا ہے ، بظاہر یہاں اسلام سے مراد اسلام قبول کرنا اور اس کو اپنا دین بنانا ہے ، اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سارے اچھے عمل کرے ، اور اس کے اخلاق و معاملات بھی اچھے ہوں لیکن وہ اسلام کو اپنا دین نہ بنائے تو اس کی مثال ایک ایسے جسم کی سی ہے جس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ سب درست ہوں لیکن سر کٹ گیا ہو ، پھر نماز کو آپ نے دین کا ستون بتلایا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی مکان بغیر ستون کے قائم نہیں رہ سکتا ، اسی طرح بغیر نماز کے دین کا قیام نہیں ، پھر آپ نے جہاد کو دین کی بلند ترین چوٹی فرمایا ، ظاہر ہے کہ دین کی بلندی اور رفعت جہاد ہی پر موقوف ہے ۔ حدیث کا سب سے آخری جز جس کی وجہ سے یہاں ایک حدیث کو درج کیا گیا ہے ، یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ان سب چیزوں کا دار و مدار اس پر ہے کہ آدمی اپنی زبان کی حفاظت کرے ، یعنی زبان کی بیباکیاں ان سب اعمالِ حسنہ کو بے وزن اور بے نور کر دیتی ہیں ۔ پھر جب حضرت معاذ کو یہ سن کر تعجب ہوا ، اور انہوں نے دریافت کیا کہ کیا باتوں پر بھی ہماری پکڑ ہوگی ؟ تو آپ نے فرمایا آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان ہی کی بے احتیاطیوں اور بے باکیوں کی وجہ سے ڈالے جائیں گے ۔ آج بھی ہر دیکھنے والا بچشم خود دیکھ سکتا ہے کہ جو بڑے بڑے گناہ و باکی طرح عام ہیں اور جن سے بچنے والے بہت ہی کم ہیں ، ان کا تعلق زیادہ تر زبان و دہن ہی سے ہے ؎ ہر چہ بر آدمی برسد ز زیاں ہمہ از آفت زبان برسد

【77】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشادفرمایا کہ جب آدمی صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں کہ (خدا کی بندی ہم پر رحم کر) اور ہمارے بارے میں خدا سے ڈر ، کیوں کہ ہم تو تیرے ہی ساتھ بندھے ہوئے ہیں ، تو ٹھیک رہی تو ہم ٹھیک رہیں گے ، اور اگر تو نے غلط روی اختیار کی ، تو ہم بھی غلط روی کریں گے (اور پھر اس کا خمیازہ بھگتیں گے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح اوپر والی حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ انسان کے ظاہری اعضا میں سے زیادہ تر زبان ہی کی غلط روی لوگوں کے جہنم میں ڈالے جانے کا باعث ہوگی ۔ اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ زبان کی اسی خاص نوعیت کی وجہ سے ہر روز انسان کے سارے اعضاء بزبانِ قال پوری عاجزی اور لجاجت کے ساتھ زبان سے درخواست کرتے ہیں کہ خدا کی بندی ہماری صلاح و فلاح اور ہمارے انجام کی اچھائی برائی تجھ سے ہی وابستہ ہے اس لئے ہم پر رحم کر اور خدا سے بے خوف ہو کر بیباکانہ نہ چل ، ورنہ تیرے ساتھ ہم بھی اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ ایک دوسری مشہور حدیث میں اعضاء انسانی میں سے قلب کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ “ إِذَا صَلُحَ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ” (جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے تمام جسم اور اس کے سارے اعضاء کا صلاح و فساد اس کے قلب کے صلاح و فساد سے وابستہ ہے) لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے ، اصل تو قلب ہی ہے لیکن ظاہری اعضاء میں چونکہ زبان ہی اس کی خاص ترجمان ہے ، اس لئے دونوں کی نوعیت یہی ہے ، کہ اگر یہ ٹھیک ہیں تو خیریت ہے اوراگر ان میں فساد اور کجی ہے تو پھر انسان کی خیریت نہیں ۔

【78】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جو شخص ذمہ لے لے اپنی زبان اور اپنی شرمگاہ کا (کہ یہ دونوں غلط استعمال نہ ہوں گی) میں اُس کے لئے ذمہ داری لیتا ہوں جنت کی ۔ (صحیح بخاری) تشریح انسانی اعضاء میں زبان کے علاوہ غلط استعمال سے جس عضو کی حفاظت کو خاص اہمیت حاصل ہے وہ انسان کی شرم گاہ ہے ، اس لئے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو بندہ اس کا ذمہ لے لے کہ وہ غلط استعمال سے اپنی زبان کی بھی حفاظتکرے گا ، اور شہوت نفس کو بھی خداکے احکام کا پابند رکھے گا ، میں اس کے لیے اللہ کی طرف سے جنت کا ذمہ لے سکتا ہوں ۔ یہاں پھر یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کے مخاطب وہ اہل ایمان ہوتے تھے جو آپ ہی کی تعلیم و تلقین سے اس بنیادی حقیقت کو جان چکے تھے ، کہ اس قسم کے وعدوں کا تعلق صرف اُن لوگوں سے ہے جو صاحب ایمان اور ایمان کے بنیادی مطالبات کو بھی ادا کرتے ہوں ۔

【79】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت سفیان بن عبد الللہ ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : حضرت ! میرے بارے میں جن باتوں کا حضور کو خطرہ ہو سکتا ہے ان میں زیادہ خطرناک اور خوفناک کیا ہے ؟ سفیان کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی زبانِ مبارک پکڑ کے فرمایا کہ : سب سے زیادہ خطرہ اس سے ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ تم سے کسی اور برائی کا تو زیادہ خطرہ نہیں ہے ، البتہ یہ خطرہ ہے کہ تمہاری زبان بے جا چلے ، لہذا اس کے بارے میں ہوشیار اور محتاط رہو ۔ ہو سکتا ہے کہ سوال کرنے والے سفیان بن عبداللہ ثقفی کی زبان میں کچھ تیزی ہو ، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا ہو ۔ واللہ اعلم ۔

【80】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو چُپ رہا وہ نجات پا گیا ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، مسند دارمی ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے بری باتوں اور فضول باتوں سے زبان کو روکا ، وہ ہلاکت کے غار میں گرنے سے بچ گیا ، ابھی حضرت معاذؓ کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گذر چکا ہے کہ آدمی جہنم میں زیادہ تر زبان ہی کی بیباکیوں کی وجہ سے اوندھے منہ گرائے جائیں گے ۔

【81】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور میں نے عرض کیا ، کہ حضرت (مجھے بتا دیجئے کہ) نجات حاصل کرنے کا گُر کیا ہے (اور نجات حاصل کرنے کے لئے مجھے کیا کیا کام کرنے چاہئیں ؟) آپ نے ارشاد فرمایا اپنی زبان پرقابو رکھو (وہ بے جا نہ چلے) اور چاہئے کہ تمہارے گھر میں تمہارے لئے گنجائش ہو ، اور اپنے گناہوں پر اللہ کے حضور میں رویا کرو ۔ (جامع ترمذی) تشریح زبان پر قابو رکھنے اور اپنے گناہوں پر رونے کا مطلب تو ظاہر ہے ، لیکن ان دو کے علاوہ تیسری نصیحت جو آپ نے یہ فرمائی کہ “ تمہارے گھر میں تمہارے لئے گنجائش ہونی چاہئے ” اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باہر کو کوئی کام نہ ہو تو آوارہ گردوں اور بے فکروں کی طرح باہر نہ گھوما کرو ، بلکہ اپنے گھر میں اور بال بچوں میں رہ کر گھر کے کام کاج دیکھا کرو ، اور اللہ کی عبادت کیا کرو ۔ تجربہ شاہد ہے کہ بے ضرورت باہر گھومنا سینکڑوں برائیوں اور فتنوں کا سبب بن جاتا ہے ۔

【82】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا : کہ میں تمہیں ایسی دو خصلتیں بتا دوں جو پیٹھ پر بہت ہلکی ہیں (ان کے اختیار کرنے میں آدمی پر کچھ زیادہ بوجھ نہیں پڑتا) اور للہ کی میزان میں وہ بہت بھاری ہوں گی ؟ ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ، کہ یا رسول اللہ ! وہ دونوں خصلتیں ضرور بتلا دیجیے ! آپ نے فرمایا ، زیادہ خاموش رہنے کی عادت ، اور حسن اخلاق ، قسم اُس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، مخلوقات کے اعمال میں یہ دونوں چیزیں بے مثل ہیں ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے ، زیادہ خاموش رہنے کا مطلب یہی ہے کہ بے ضرورت نامناسب اور ناپسندیدہ باتوں سے آدمی اپنی زبان روکے رہے ، جس شخص کا یہ طرز عمل ہو گا ، قدرتی طور پر وہ کم بولنے والا اور زیادہ خاموش رہنے والا ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی ضرورت تھی ، کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے آپ کو ہدایات دینی تھیں ، اور آپ اس ضرورت سے بولنے میں کوئی کمی نہ کرتے تھے ، بتانے کی ہر چھوٹی بڑٰ بات بتلاتے تھے ، لیکن اس کے باوجود آپ کے دیکھنے والے صحابہ کرامؓ نے آپ کا حال یہ بیان فرمایا کہ “ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلَ الصَّمْتِ (1) ” (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خاموش رہتے تھے) ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ “ وَلَا يَتَكَلَّمُ اِلَّا فِيْمَا يَرْجُوْ ثَوَابَهُ (2) ” (آپ صرف وہی بات کرتے تھے جس پر آپ کو ثواب کی امید ہوتی تھی) ۔

【83】

کم بولنا اور بری اور فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا

عمران بن حطان تابعی سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضرت ابوذر غفاریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو میں نے اُن کو مسجد میں اس حالت میں دیکھا کہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے بالکل اکیلے بیٹھے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اے ابوذر ! یہ تنہائی ار یکسوئی کیسی ہے ؟ (یعنی آپ نے اس طرح بالکل اکیلے اور سب سے الگ تھلگ رہنا کیوں اختیار فرمایا ہے !) انہوں نے جواب دیا ، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے کہ “ برے ساتھیوں کی ہمنشینی سے اکیلے رہنا اچھا ہے ، اور اچھے ساتھی کے ساتھ بیٹھنا تنہائی سے بہتر ہے ، اور کسی کو اچھی باتیں بتانا خاموش رہنے سے بہتر ہے ، اور بُری باتیں بتانے سے بہتر خاموش رہنا ہے ۔ ” (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث میں یہ بات زیادہ صراحت و وضاحت کے ساتھ آ گئی ہے کہ خاموشی کی جو افضلیت ہے وہ بُری باتیں کرنے کے مقابلے میں ہے ، ورنہ اچھی باتیں کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے ، اسی طرح یہ بات بھی صراحت سے آ گئی ہے کہ بُرے لوگوں کے ساتھ اختلاط و ہمنشینی سے بہتر تنہائی ہے ، لیکن صلحا کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے ۔ ف ۔ ۔ ۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کے بندوں کی طبیعتیں اور ان کی استعدادیں اور ان کے رجحانات بہت مختلف ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں اتنی حکیمانہ وسعت اور ایسی جامعیت ہے کہ مختلف طبائع اور مختلف رجحانات رکھنے والے بندگانِ خدا اپنی اپنی طبیعت اور اپنے اپنے ذوق و رجحان کے مطابق آپ کی اتباع کر کے اللہ کے قرب و رضا کے اعلیٰ کے اعلیٰ مقامات حاصل کر سکتے ہیں ۔ مثلاً بعض لوگوں کا مزاج اور ذوق ایسا ہوتا ہے کہ جس قسم کے لوگوں کو وہ پسند نہ کریں اُن سے ملنا جلنا اُن کے لئے شاق اور گراں ہوتا ہے ، اور وہ ایسے لوگوں سے اختلاط رکھنے میں اپنا نقصان محسوس کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم اور رہنمائی موجود ہے جس کا ذکر حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس حدیث میں فرمایا اور جس پر خود ان کا عمل تھا ۔ اور بعض لوگ اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے ایسے ہوتے ہین کہ جن لوگوں کے احوال اور چال چلن کو وہ پسند نہ کریں اُن کی بھی اصلاح اور درستی کے لئے اُن سے ملنا جلنا اور ان کے بُرے اثرات سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے اُن کے ساتھ اختلاط رکھنا اور مختلف صورتوں سے اُن کی خدمتیں کرنا اُن کے لئے شاق نہیں ہوتا ، بلکہ ان کو اس سے مناسبت ہوتی ہے ، اُن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیثوں میں (جو اپنے موقع پر آئیں گی) اسی طرز عمل کی رہنمائی فرمائی ہے ، اور اکثر صحابہ کرامؓ جو حضرت ابوذر کی طرح تنہائی پسند نہیں تھے ، ان کا طرز عمل وہی تھا پس صحابہ کرامؓ کی سیرت کے بعض پہلوؤں میں اور اسی طرح زمانہ ما بعد کے اہل ایمان اور اہل صلاح کے مختلف طبقوں کے طرز عمل میں جو اس طرح کی رنگا رنگی کہیں کہیں نظر آتی ہے اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی طبیعتوں اور مزاجی مناسبتوں کے قدرتی فرق اور رسول اللہ کی تعلیم و تربیت کی جامعیت اور کاملیت کا وہ قدرتی نتیجہ ہے ۔ جو لوگ اپنی تنگ نظری سے سب کو ایک ہی حال اور بالکل ایک ہی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں درحقیقت انہوں نے دین کی وسعت ، تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جامعیت و کاملیت اور اللہ تعالیٰ کی تکوینی و تشریعی حکمت پر غور نہیں کیا ہے ۔

【84】

ترک مالا یعنی

حضرت علی بن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی کی اسلامیت کے حسن و کمال میں سے یہ بھی ہے کہ جو بات اُس کے لئے ضروری اور مفید نہ ہو اس کو چھوڑ دے ۔ (اس حدیث کو امام مالکؒ نے مؤطا میں اور امام احمدؒ نے اپنی مسند میں حضرت علی بن الحسینؓ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے سنن میں مسنداً حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے ، اور امام ترمذی نے جامع میں ، اور بیہقی نے شعب الایمان میں اس حدیث کو اسی طرح مرسلاً و مسنداً ان دونوں بزرگوں سے روایت کیا ہے) ۔ تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بے ضرورت اور بے فائدہ باتیں نہ کرنا اور لغو و فضول مشغلوں سے اپنے کو محفوظ رکھنا کمال ایمان کا تقاضا اور آدمی کے اسلام کی رونق و زینت سے ہے ، اسی خصلت کا مختصر اصطلاحی عنوان “ ترکل مالا یعنی ” ہے

【85】

چغل خوری

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ چغلخور آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جن بری عادتوں کا تعلق زبان سے ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو سنگین جُرم اور گناہِ عظیم قرار دیا ہے ، اور جن سے بچنے اور پرہیز کرنے کی آپ نے سخت ترین تاکید فرمائی ہے ، اُن میں سے ایک چغلخوری بھی ہے ۔ یعنی کسی کی ایسی بات دوسرے کو پہنچانا جو اُس شخص کی طرف سے اس دوسرے آدمی کو بدگمان اور ناراض کر کے باہمی تعلقات کو خراب کر دے ، اسی بری عادت کا نام چغلخوری ہے ۔ چونکہ آپس کے تعلقات کی درستی و خوشگواری اور حسنِ معاشرت اور باہم میل و محبت تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد میں سے ہے (یہاں تک کہ ایک حدیث میں بعض حیثیتوں سے اس کو عبادات سے بھی اہم قرار دیا گیا ہے) اس لئے جو چیز باہمی تعلقات کو خراب کر کے بغض و عداوت ار مخالفت و منافرت پیدا کرے ، ظاہر ہے کہ وہ بدترین درجہ کی معصیت ہوگی ۔ بہر حال چغلخوری کو رسول اللہ نے اسی لئے سخت ترین گناہوں میں سے بتلایا ہے ، اور آخرت میں سامنے آنے والے اس کے برے انجام سے پوری طرح ڈرایا ہے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ چغلخوری کی عادت ان سنگین گناہوں میں سے ہے جو جنت کے داخلہ میں رکاوٹ بننے والے ہیں ، اور کوئی آدمی اس گندی اور شیطانی عادت کے ساتھ جنت میں نہ جا سکے گا ، ہاں اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کسی کو معاف کر کے یا اس جرم کی سزا دے کے اس کو پاک کر دے تو اس کے بعد داخلہ ہو سکے گا ۔

【86】

چغل خوری

عبدالرحمٰن بن غنم اور اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آئے ، اور بدترین بندے وہ ہیں جو چغلیاں کھانے والے ، دوستوں میں جدائی ڈالنے والے ہیں ، اور جو اس کے طالب اور ساعی رہتے ہیں کہ اللہ کے پاک دامن بندوں کو کسی گناہ میں ملوث یا کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا کریں ۔ (مسند احمد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث میں اللہ کے اچھے بندوں کی یعنی اللہ والوں کی نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ اُن کے دیکھنے سے خدا یاد آئے ، اور بدترین انسان اُن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جو عادۃً چغلخور ہوں اور چغلیاں کھا کھا کے دوستوں میں پھوٹ ڈلوانا جن کی عادت اور جن کا دلچسپ مشغلہ ہو ، اور جو بندگانِ خدا کو بدنام اور پریشان کرنے کے درپے رہتے ہوں ۔ پس آدمی کو چاہئے کہ وہ صحبت و محبت کے لئے ایسے بندگانِ خدا کو تلاش کرے جن کے دیکھنے سے دل کی غفلت دور ہو ، اور اللہ کی یاد آئے ، اور جن کے پاس بیٹھنے سے قلب میں زندگی اور بیداری پیدا ہو ، اور اس کے برخلاف جو ناخدا شناس اور موذی لوگ دوسروں کی بُرائی کے درپے رہتے ہوں ، اور ان کو بدنام کرنا اور نقصان پہنچانا جن کا خاص مشغلہ ہو اُن سے بچے اور اُن کے برے اثرات سے اپنے کو بچانے کی فکر کرتا رہے ۔

【87】

چغل خوری

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی دوسرے کی بات مجھے نہ پہنچایا کرے ، میں چاہتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آؤں تو میرا دل (سب کی طرف سے صاف) اور بے روگ ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے ذریعہ امت کو سبق دیا کہ دوسروں کے متعلق ایسی باتیں سننے سے بھی آدمی کو پرہیز کرنا چاہئے جن سے اس کے دل میں بدگمانی کی کدورت اور رنجش وغیرہ پیدا ہونے کا امکان ہو (لیکن واضح رہے کہ جن موقعوں پر شرعی ضرورت اور دینی مصلحت کا تقاضا ایسی باتیں کہنے یا سننے کا ہو وہ مواقع اس سے مستثنیٰ ہوں گے) ۔

【88】

غیبت اور بہتان

حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے وہ لوگو ! جو زبان سے ایمان لائے ہو ، اور ایمان ابھی ان کے دلوں میں نہیں اترا ہے ، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو ، اور ان کے چھپے ہوئے عیبوں کے پیچھے نہ پڑا کرو (یعنی ان کی چھپی ہوئی کمزوریوں کی ٹوہ لگانے اور ان کی تشہیر کرنے میں دلچسپی نہ لیا کرو) کیوں کہ جو ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی ہو گا ، اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ معاملہ ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو اس کے گھر میں ذلیل کر دے گا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح جس قسم کے مفاسد اور جو خطرناک نتیجے چغلخوری سے پیدا ہوتے ہیں وہی بلکہ اُنسے بھی کچھ زیادہ سنگین قسم کے نتیجے غیبت کرنے اور کسی پر بہتان لگانے سے پیدا ہوتے ہین ۔ غیبت یہ ہے کہ کسی بھائی کی ایسی بات یا اس کے کسی ایسے فعل یا حال کا ذکر کیا جائے جس کے ذکر سے اس کو ناگواری اور اذیت ہو ، اور جس کی وجہ سے وہ شخص حقیر و ذلیل یا مجرم سمجھا جائے ۔ چونکہ غیبت سے ایک شخص کی رسوائی اور بے آبروئی ہوتی ہے ، اور اس کو روحانی تکلیف پہنچتی ہے ، اور دلوں میں فتنہ و فساد کا بیج پڑتا ہے ، جس کے نتائج بعض حالتوں میں بڑے خطرناک اور دور رس نکلتے ہیں ۔ اس لئے غیبت کو بھی سخت ترین گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی انتہائی شناعت اور گندگی کو ذہن نشین کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں “ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے ” سے اس کو تشبیہ دی گئی ہے ۔ بہر حال غیبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں نہایت ذلیل اور گھنونی بداخلاقی اور گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے ۔ اور بہتان کا درجہ اس سے بھی۹ آگے ہے ، بہتان اس کا نام ہے کہ اللہ کے کسی بندہ کی طرف ایسی کسی برائی اور بداخلاقی کی نسبت کی جائے جس سے وہ بالکل بری اور پاک ہو ، ظاہر ہے کہ یہ بڑی شقاوت کی بات ہے ، اور ایسا کرنے والے اللہ کے اور اس کے بندوں کے سخت ترین مجرم ہیں اس تمہید کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چند حدیثیں پڑھیئے : تشریح ۔ ۔ ۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی غیبت اور اس کے عیوب اور کمزوریوں کی تشہیر میں دلچسپی لینا دراصل ایک ایسی منافقانہ حرکت ہے جو صرف ایسے ہی لوگوں سے سرزد ہو سکتی ہے جو صرف زبان کے مسلمان ہوں ، اور ایمان نے اُن کے دلوں میں گھر نہ کیا ہو ۔

【89】

غیبت اور بہتان

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا : کہ جب مجھے معراج ہوئی تو (ملاء اعلیٰ کے اس سفر میں) میرا گذر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن سُرخ تانبے کے سے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور اپنے سینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کر رہے تھے ، میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں ؟ جبرئیل نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی میں لوگوں کے گوشت کھایا کرتے تھے (یعنی اللہ کے بندوں کی غیبتیں کیا کرتے تھے) اور ان کی آبروؤں سے کھیلتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح نُحاس کے اصل معنی تانبے کے ہیں ، اور آگ جب بالکل سرخ ہو تو اس کو بھی نُحاس کہا جاتا ہے ، اس حدیث میں “ نُحاس کے ناخنوں ” کا جو ذکر ہے بظاہر اس سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کے ناخن جہنم کی آگ میں تَپے ہوئے سُرخ تانبے کے یا تانبے کے سے تھے ، اور یہ انہی ناخنوں سے اپنے چہرے اور اپنے سینوں کو نوچ نوچ کے زخمی کر رہے تھے ۔ ان کے لئے عالمِبرزخ میں خاص طور سے یہ سزا اس لئے تجویز کی گئی کہ دنیوی زندگی میں یہ مجرمین اللہ کے بندوں کا گوشت نوچا کرتے تھے ، یعنی غیبتیں کیا کرتے تھے ، اور یہ اُن کا محبوب مشغلہ تھا ۔

【90】

غیبت اور بہتان

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : غیبت زنا سے بھی زیادہ سخت اور سنگین ہے ۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت ! غیبت زنا سے زیادہ سنگین کیونکر ہے ؟ آپ نے فرمایا (بات یہ ہے کہ) آدمی اگر بدبختی سے زنا کر لیتا ہے تو صرف توبہ کرنے سے اس کی معافی اور مغفرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے ، مگر غیبت کرنے والے کو جب تک خود وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے ، اس کی معافی اور بخشش اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوگی ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

【91】

غیبت اور بہتان

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کس کو کہتے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے ۔ آپ نے فرمایا : تمہارا اپنے کسی بھائی کو اس طرح ذکر کرنا جس سے اس کو ناگواری ہو (بس یہی غیبت ہے) کسی نے عرض کیا کہ حضرت ! اگر میں اپنے بھائی کی کوئی ایسی برائی ذکر کروں جو واقعۃً اس میں ہو (تو کیا یہ غیبت ہے ؟) آپ نے ارشاد فرمایا : غیبت جب ہی ہوگی جب کہ وہ بُرائی اس میں موجود ہو ، اور اگر اس میں وہ برائی اور عیب موجود ہی نہیں ہے (جو تم نے اس کی نسبت کر کے ذکر کیا) تو پھر تو یہ بہتان ہوا (اور یہ غیبت سے بھی زیادہ سخت اور سنگین ہے) ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے غیبت کی حقیقت اور غیبت اور بہتان کا فرق واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے ، اوریہ بھی کہ بہتان غیبت سے زیادہ سنگین قسم کا جرم ہے ف ۔ ۔ ۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خیر خواہی یا کسی مضرت اور مفسدہ کے انسداد کے لیے کسی شخص یا گروہ کی واقعی بُرائی دوسروں کے سامنے بیان کرنا ضروری ہو جائے ، یا اس کے علاوہ ایسے ہی کسی شرعی ، اخلاقی یا تمدنی مقصد کا حاصل ہونا اس پر موقوف ہو ، تو پھر اس شخص یا گروہ کی بُرائی کا بیان کرنا اس غیبت میں داخل نہ ہو گا جو شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے جو شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے بلکہ بعض حالتوں میں تو یہ کارِ ثواب ہو گا ۔ چنانچہ حاکم کے سامنے ظالم کے خلاف گواہی دینا یا کسی پیشہ ور دھوکے باز کی حالت سے لوگوں کو باخبر کرنا ، تا کہ وہ اس کے دھوکے میں نہ آئیں ، اور حضرات محدثین کا غیر ثقہ اور غیر عادل راویوں پر جرح کرنا ، اور دین و شریعت کے محافظ علماء حق کا اہل باطل کی غلطیوں پر لوگوں کو مطلع کرنا یہ سب اسی قبیل سے ہے ۔

【92】

دو رخے پن کی ممانعت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم قیامت کے دن سب سے بُرے حال میں اس آدمی کو پاؤ گے جو کچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے ، اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور ۔ (صحیح بخاری ومسلم) تشریح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دو آدمیوں یا گروہوں میں اختلاف اور نزاع ہو تو وہ ہر فریق سے مل کر دوسرے کے خلاف باتیں کرتے ہیں ، اسی طرح بعض لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب کسی سے ملتے ہیں ، تو اس کے ساتھ اپنے حسنِ تعلق کا اظہار کرتے ہیں ، اور پیچھے اس کی برائی اور بدخواہی کی باتیں کرتے ہیں ، ایسے آدمی کو اردو زبان میں “ دو رُخا ” کہتے ہیں ، اور عربی میں “ ذو الوجہین ” کہا جاتا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ طرز عمل ایک طرح کی منافقت اور ایک قسم کی دھوکہ بازی ہے ، جس سے بچنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو سخت تاکید فرمائی ہے ، اور بتلایا ہے کہ یہ سخت گناہ کی بات ہے ، اور ایسے لوگ سخت ترین عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ قیامت میں ایسا آدمی جس بدترین حالت میں دیکھا جائے گا اس کی کچھ تفصیل اس سے اگلی حدیث سے معلوم ہو سکتی ہے ۔

【93】

دو رخے پن کی ممانعت

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دنیا میں جو شخص دو رخا ہو گا (اور منافقوں کی طرح مختلف لوگوں سے مختلف قسم کی باتیں کرے گا) قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اچھے اعمال اور اچھے اخلاق جن پر آخرت میں ثواب کے وعدے ہیں مختلف قسم کے ہیں ، اور ان کے درجے بھی مختلف ہیں ، اسی طرح بُرے اعمال اور بُرے اخلاق جن پر عذاب کی وعیدیں ہیں ، وہ بھی مختلف قسم کے اور مختلف درجے کے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و حکمت سے ہر نیکی اور بدی کا ثواب و عذاب اس کے مناسب مقرر فرمایا ہے ، پس دو رخا پن (جو ایک طرح کی منافقت ہے) اس کی سزا یہ مقرر فرمائی گئی ہے کہ ایسے آدمی کے منہ میں وہاں آگ کی دو زبانیں ہوں گی ۔ اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا ۔ واضح رہے کہ جانوروں میں سے بعضے سانپوں کی دو زبانیں ہوتی ہیں ۔ یہاں یہ بات ہمارے لئے سوچنے سمجھنے کی ہے کہ بعض بد اعمالیوں اور بداخلاقیاں حقیقت میں نہایت خطرناک اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت سنگین ہیں ، لیکن ہم لوگ ان کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور ان سے بچنے کی جتنی فکر کرنی چاہئے اتنی فکر نہیں کرتے ، ایسی ہی برائیوں کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : “ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ ” (تم اس کو معمولی اور ہلکی بات سمجھتے ہو ، حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت سنگین اور بہت بڑی بات ہے) ۔ یہ بُری عادت (دو رُخا پن) بھی اسی قبیل سے ہے ، ہم مٰں سے بہت سے اس کو معمولی بات سمجھتے ہیں ، اور اس سے بچنے کی فکر نہیں کرتے ، حالانکہ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنا سنگین اور خطرناک گناہ ہے اور آخرت میں اس پر کتنا سخت عذاب ہونے والا ہے ۔

【94】

صدق و امانت اور کذب و خیانت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم سچائی کو لازم پکڑو ، اور ہمیشہ سچ ہی بولو ، کیوں کہ سچ بولنا نیکی کے راستے پر ڈال دیتا ہے ، اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے ، اور آدمی جب ہمیشہ سچ ہی بولتا ہے ، اور سچائی ہی کو اختیار کر لیتا ہے تو وہ مقام صدیقیت تک پہنچ جاتا ہے ، اور اللہ کے یہاں صدیقین میں لکھ لیا جاتا ہے ، اور جھوٹ سے ہمیشہ بچتے رہو ، کیوں کہ جھوٹ بولنے کی عادت آدمی کو بدکاری کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور بدکاری اس کو دوزخ تک پہنچا دیتی ہے اور آدمی جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے اور جھوٹ کو اختیار کر لیتا ہے ، تو انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے یہاں کذابین لکھ لیا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں جن اخلاق حسنہ پر بہت زور دیا اور جن کو لازمہ ایمان و اسلام قرار دیا ہے ان میں سچائی اور امانت داری کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی یہ حدیث “ کتاب الایمان ” میں گذر چکی ہے کہ امانت میں خیانت کرنا اور عہد کو توڑنا ، نفاق کی خاص علامات میں سے ہے ، اور جس شخص میں یہ برائیاں جمع ہوں وہ منافق ہے ۔ اسی طرح یہ حدیث بھی وہاں ذکر کی جا چکی ہے کہ “ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں ” اور یہ کہ “ مومن جھوٹ بولنے کا عادی نہیں ہو سکتا ” ۔ اب یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات در کئے جاتے ہیں جن میں آپ نے براہ راست سچائی اور امانتداری پر قائم رہنے اور جھوٹ اور خیانت سے پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ سچ بولنا بذات خود بھی نیک عبادت ہے ، اور اس کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ آدمی کو زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں بھی نیک کردار اور صالح بنا کر جنت کا مستحق بنا دیتی ہے اور ہمیشہ سچ بولنے والا آدمی مقام صدیقیت تک پہنچ جاتا ہے ، اسی طرح جھوٹ بولنا بذات خود بھی ایک خبیث خصلت ہے ، اور اس کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ آدمی کے اندر فسق و فجور کا میلان پیدا کر کے اس کی پوری زندگی کو بدکاری کی زندگی بنا کر دوزخ تک پہنچا دیتی ہے ، نیز جھوٹ کی عادت ڈال لینے والا آدمی کذابیت کے درجے تک پہنچ کر پورا لعنتی بن جاتا ہے ۔

【95】

صدق و امانت اور کذب و خیانت

عبدالرحمٰن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ کے صحابہؓ وضو کا پانی لے لے کر (اپنے چہروں اور جسموں پر) ملنے لگے ، آپ نے فرمایا : “ تم کو کیا چیز اس فعل پر آمادہ کرتی ہے ، اور کون سا جذبہ تم سے یہ کام کراتا ہے ؟ ” انہوں نے عرض کیا کہ : “ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ” ان کا یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کی یہ خوشی ہو ، اور وہ یہ چاہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول سے حقیقی محبت ہو ، یا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہئے کہ جب وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو ادنیٰ خیانت کے بغیر اس کو ادا کر دے اور جس کے پڑوس میں اس کا رہنا ہو ، اس کے ساتھ بہتر سلوک کرے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کی محبت اور ان کے ساتھ سچے تعلق کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ سچ بولے ، امانتداری کو شعار بنمائے اور جھوٹ اور خیانت سے کامل پرہیز کرے ، اگر یہ نہیں تو محبت کا دعویٰ ایک بے جا جسارت اور ایک طرح کا نفاق ہے ۔

【96】

صدق و امانت اور کذب و خیانت

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم چھ باتوں کے ضامن ہو جاؤ اور ان کی ذمہ داری لے لو تو میں تمہارے لئے جنت کی ذمہ داری لیتا ہوں (وہ چھ باتیں یہ ہیں) جب بات کرو تو ہمیشہ سچ بولو ، جب کسی سے وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو ، جب کوئی امانت سپرد کی جائے تو اس کو ٹھیک ٹھیک ادا کرو ، اور حرام کاری سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ، اور جن چیزوں کی طرف نظر کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ان کی طرف سے آنکھیں بن کرو ، یعنی کوشش کرو کہ ان پر نظر نہ پڑے ، اور جن موقعوں پر ہاتھ روکنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں ہاتھ روک لو (یعنی ناحق کسی کو نہ مارو نہ ستاؤ ، نہ کسی کی کوئی چیز چھیننے کے لئے ہاتھ بڑھاؤ وغیرہ وغیرہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لے آیا ہے اور فرائض و ارکان ادا کرتا ہے اور مذکورہ بالا چھ بنیادی اخلاق (صدق و امانت وغیرہ) کا بھی اپنے کو پابند بنا لیتا ہے تو پھر یقیناً وہ جنتی ہے ، اور اس کے لئے اللہ اور رسول کی طرف سے جنت کی ضمانت اور بشارت ہے ۔

【97】

تجارت میں صدق و امانت

حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سچا اور امانت دار سودا گر انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، مسند دارمی ، سنن دار قطنی) تشریح اس حدیث نے واضح طور پر یہ بھی بتایا ہے کہ قرب خداوندی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات ھاصل کرنے کے لئے بھی دنیا اور مشاغل دنیا چھوڑنا ضروری نہیں ، بلکہ ایک سودا گر بازار میں بیٹھ کر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف فرمانبرداری اور صدق و امانت جیسے دینی قوانین کی پابندی کے ذریعے حضرت انبیاء اور صدیقین و شہداء کی معیت اور رفاقت تک حاصل کر سکتا ہے ۔

【98】

تجارت میں صدق و امانت

حضرت عبید بن رفاعہ اے نے والد ماجد حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کی کہ آپ نے ارشاد فرمایا : کہ تاجر لوگ قیامت کے دن بدکار اٹھائے جائیں گے (یعنی عام تاجروں کا حشر بدکاروں کا سا ہو گا) سوائے ان (خدا ترس اور خدا پرست) تاجروں کے جنہوں نے اپنی تجارت میں تقویٰ اور حسنِ سلوک اور سچائی کو برتا ہو گا ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی ابن ماجہ ، مسند دارمی)

【99】

جھوٹ اور خیانت ایمان کے منافی ہیں

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ مومن کی طبیعت اور فطرت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے ، سوائے خیانت اور جھوٹ کے ۔ (مسند احمد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ مومن اگر واقعی مومن ہو ، تو جھوٹ اور خیانت کی اس کی فطرت میں گنجائش نہیں ہو سکتی ، دورسری برائیاں اور کمزوریاں اس میں ہو سکتی ہیں لیکن خیانت اور جھوٹ جیسی خالص منافقانہ عادتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں ، پساگر کسی میں یہ بری عادتیں موجود ہوں ، تو اسے سمجھنا چاہئے کہ اس کو ایمان کی حقیقت ابھی نصیب نہیں ہوئی ہے ، اور اگر اپنی اس محرومی پر وہ مطمئن نہیں رہنا چاہتا ہے ، تو اس کو ان خلاف ایمان عادتوں سے اپنی زندگی کو پاک رکھنا چاہئے ۔

【100】

جھوٹ کی گندگی اور سڑاہند

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح جس طرح اسی مادی عالم کی مادی چیزوں میں خوشبو اور بدبو ہوتی ہے ، اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے ، جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بدبو کو محسوس کرتے ہیں ، اور کبھی کبھی وہ اللہ کے بندے بھی اس کو محسوس کرتے ہیں جن کی روحانیت ان کی مادیت پر غالب آ جاتی ہے ۔

【101】

جو تمہیں سچا سمجھے اس سے جھوٹ بولنا بڑی سخت خیانت ہے

سفیان بن اسید حضرمی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے آپ فرماتے تھے : یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات بیانکرو ، درانحالیکہ وہ تم کو اس بیان میں سچا سمجھتا ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جھوٹ اگرچہ بہرحال گناہ اور بہت سنگین گناہ لیکن بعض خاص صورتوں میں اس کی سنگینی اور بھی بڑھ جاتی ہے ، ان ہی صورتوں مین سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص تم پر پورا بھروسہ اور اعتبار کرے اور تم کو بالکل سچا سمجھے اورتم اس کو اعتبار اور حسن ظن سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس سے جھوٹ بولو ، اور اس کو دھوکا دو ۔

【102】

جھوٹی گواہی

خریم بن فاتک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز پڑھی ، جب آپ اس سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے ، اور فرمایا کہ : جھوٹی گواہی اشراک باللہ کے برابر کر دی گئی ، یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ، اور قرآن مجید (سورہ حج) کی یہ آیت تلاوت فرمائی : “ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ” (بتوں کی ، یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو ، صرف ایک اللہکے ہو کر کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرتے ہوئے) ۔ (سنن ابی داؤد ، ابن ماجہ) تشریح ابھی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہر جھوٹ گناہ ہے لیکن اس کی بعض قسمیں اور صورتیں بہت ہی بڑا گناہ ہیں ، ان ہی میں سے ایک یہ ہے کہ کسی قضیہ اور معاملہ میں جھوٹی گواہی دی جائے ، اور اس جھوٹی گواہی کے ذریعے کسی اللہ کے بندے کو نقصان پہنچایا جائے ۔ سورہ حج کی مذکورہ بالا آیت میں جھوٹ کی اسی قسم کو شرک اور بت پرستی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، اور دونوں سے بچنے کی تاکید کے لیے ایک ہی لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید کے اس طرز بیان کا حوالہ دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ ارشاد فرمایا کہ جھوٹی گواہی اپنی گندگی میں اور اللہ کی ناراضی اور لعنت کا باعث ہونے میں شرک باللہ کے ساتھ جوڑ دی گئی ہے ، اور یہ بات آپ نے تین بار ارشاد فرمائی ۔ اور جامع ترمذی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دن صحابہؓ سے ارشاد فرمایا ، اور تین دفعہ ارشاد فرمایا : “ کیا میں تم لوگوں کو بتاؤں کہ سب سے بڑے گناہ کون کون سے ہیں ؟ ” پھر آپ نے فرمایا “ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور معاملات میں جھوٹی گواہی دینا اور جھوٹ بولنا ” راوی کا بیان ہے کہ پہلے آپ سہارا لگائے بیٹھے تھے لیکن پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ، اور بار بار آپ نے اس ارشاد کو دہرایا ، یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ کاش اب آپ خاموش ہو جاتے یعنی اس وقت آپ پر ایک ایسی کیفیت طاری تھی اور آپ ایسے جوش سے فرما رہے تھے کہ ہم محسوس کر رہے تھے کہ آپ کے قلب مبارک پر اس وقت بڑا بوجھ ہے ، اس لئے جی چاہتا تھا کہ اس وقت آپ خاموش ہو جائیں ، اور اپنے دل پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں ۔

【103】

جھوٹی قسم

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے حاکم کے کے سامنے جھوٹی قسم کھائی تا کہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال مار لے ، تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اس کی پیشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک اور ناراض ہوں گے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【104】

جھوٹی قسم

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق ناجائز طور پر مار لیا ، تو اللہ نے ایسے آدمی کے لئے دوزخ واجب کر دی ہے اور جنت کو اس پر حرام کر دیا ہے ، حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اگرچہ وہ کوئی معمولی ہی چیز ہو (یعنی اگر کسی نے کسی کی بہت معمولی سی چیز قسم کھا کر ناجائز طور سے حاصل کر لی ، تو کیا اس صورت میں بھی دوزخ اس کے لیے واجب اور جنت اس کے لیے حرام ہوگی ؟) آپ نے ارشاد فرمایا : ہاں اگرچہ جنگلی درخت پیلو کی ٹہنی ہی ہو ۔ تشریح یعنی اگر بالکل معمولی اور بالکل بے حیثیت قسم کی کوئی چیز بھی جھوٹی قسم کھا کر کوئی حاصل کرے گا تو وہ بھی دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔

【105】

جھوٹی قسم

اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی کا مال جھوٹی قسم کھا کر مار لے گا وہ اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہو گا ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح ان تینوں حدیثوں میں اس شخص کا انجام بیان کیا گیا ہے کہ جو کسی معاملہ اور مقدمہ میں جھوٹی قسم کھا کر دوسرے فریق کا مال مار لے ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ والی پہلی حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب خدا کے دربار میں اس کی پیشی ہوگی تو اس شخص پر اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہو گا ۔ ۔ ۔ نعوذ باللہ من غضبہ وعقابہ ۔ اور حضرت ابو امامہؓ والی دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے شخص پر جنت حرام ہے اور دوزخ کا اس کے لیے لازمی اور قطعی فیصلہ ہے ۔ اور اشعث بن قیس کی اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن کوڑھی ہو کر خدا کے سامنے پیش ہو گا ۔ اللہ کی پناہ ! کتنی سخت ہیں تینوں سزائیں اور ظاہر ہے کہ ان میں باہم کوئی منافات اور تضادات نہیں ہے لہذا اگر یہ شخص اس گناہ عظیم سے توبہ اور تلافی کر کے اس دنیا سے نہیں گیا ہے ، تو پھر ان حدیثوں کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو یہ سب کچھ پیش آئے گا ، اور وہ یہ سارے عذاب چکھے گا ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ حاکم کی عدالت میں خدا کی قسم کھا کر ، اور خدا کو گویا اپنا گواہ قرار دے کر جھوٹ بولنا ، اور کسی بندے کا مال مارنے کے لیے یا اس کو بے آبرو کرنے کے لئے خدا کے پاک نام کو استعمال کرنا ، ہے بھی ایسا بڑا گناہ کہ اس کی سزا جتنی بھی سخت دی جائے عین حکمت ہے ۔

【106】

جھوٹی قسم

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ ان سے ہمکلام ہو گا ، نہ ان پر عنایت کی نظر کرے گا ، اور نہ گناہوں اور گندگیوں سے ان کو پاک کرے گا ، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔ ابوذر غفاریؓ نے عرض کیا : یہ لوگ تو نامراد ہوئے اور ٹوٹے میں پڑے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تین کون کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اپنا تہبند حد سے نیچے لٹکانے والا (جیسا کہ متکبروں اور مغروروں کا طریقہ ہے) اور احسان جتانے والا اور جھوٹی قسمیں کھا کے اپنا سودا چلانے والا ۔ (صحیح مسلم) تشریح جس طرح حاکم اور پنچ کے کے سامنے کسی معاملے میں جھوٹی قسم کھانا اللہ تعالیٰ کے پاک نام کا نہایت غلط اور ناپاک استعمال ہے اسی طرح سودے کو بیچنے کے لئے گاہک کے سامنے جھوٹی قسم کھا کے اس کو یقین دلانا بھی اسم الٰہی کا نہایت بے محل استعمال اور بڑی دنی حرکت ہے ، اس لئے یہ بھی جھوٹ کی نہایت سنگین قسم ہے اور قیامت میں ایسے شخص کو درد ناک عذاب دیا جائے گا ، اور اپنی اس ذلیل بدکرداری کی وجہ سے یہ کذاب تاجر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ہم کلامی اور اس کی نظر کرم اور گناہوں کی بخشش سے محروم رہے گا ۔

【107】

جھوٹ کی بعض خفی قسمیں

عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے ، میری والدہ نے مجھے پکارا اور کہا بڑھ کے آ ، میں تجھے کچھ دوں گی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ماں سے فرمایا : تم نے اس بچے کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ میری ماں نے عرض کیا میں نے اس کو ایک کھجور دینے کا ارادہ کیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یاد رکھو اگر اس کہنے کے بعد اس بچے کو کوئی چیز بھی نہ دیتیں ، تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا ۔ (سنن ابی داؤد ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح جھوٹ کی چند سنگین قسموں کا ذخر وت اوپر ہو چکا ، لیکن بعض جھوٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو بہت سے لوگ جھوٹ ہی نہیں سمجھتے ، حالانکہ وہ بھی جھوٹ ہی میں داخل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے بھی پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی ہے ذیل کی حدیثوں میں جھوٹ کی بعض ایسی ہی صورتوں کا ذکر ہے : تشریح ۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا اصل منشاء یہ ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لئے بھی جھوٹ کا استعمال نہ کیا جائے ، کیوں کہ مسلمان کی زبان جھوٹ سے آلودہ ہونی ہی نہیں چاہئے علاوہ ازیں اس کی ایک بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ ماں باپ اگر بچوں سے جھوٹ بولیں گے اگرچہ ان کا مقصد صرف بہلاوا ہی ہو ، پھر بھی بچے اُن سے جھوٹ بولنا سیکھیں گے ، اور جھوٹ بولنے میں وہ کوئی قباحت نہ سمجھیں گے ۔

【108】

جھوٹ کی بعض خفی قسمیں

بہز بن حکیم بواسطہ اپنے والد معاویہ کے اپنے دادا حیدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے ، اس پر افسوس ! اس پر افسوس ! ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ صرف لطفِ صحبت اور ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی بری بات اور بری عادت ہے ، اگرچہ اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا لیکن اولاً تو خود بولنے والے کی زبان جھوٹ سے آلودہ ہوتی ہے ، دوسرے باتوں سے اہل ایمان کے دل میں جو نفرت ہونی چاہئے اس میں بھی کمی آتی ہے ، اور تیسری خرابی یہ ہے کہ لوگوں میں جھوٹی باتیں کرنے کی جرأت اس سے پیدا ہوتی اور جھوٹ کے رواج کو مدد ملتی ہے ۔

【109】

جھوٹ کی بعض خفی قسمیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ آدمی کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بیان کرتا پھرے ۔ (صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان کرتے پھرنا بھی ایک درجے کا جھوٹ ہے اور جس طرح جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی عادت رکھنے والا آدمی قابلِ اعتبار نہیں ہوتا اسی طرح یہ آدمی بھی لائق اعتماد نہیں رہتا ۔ بہر حال مؤمن کو چاہئے کہ وہ خفی قسم کے ان سب جھوٹوں سے بھی اپنی زبان کی حفاظت کرے ۔

【110】

خیانت کی بعض خفی قسمیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ابوالہیثم بن التیہان سے فرمایا : ججس سے کسی معاملے میں مشورہ کیا جائے وہ اس میں امین ہے اور اس کے سپرد امانت کی جاتی ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح جس طرح بعض جھوٹ اس قسم کے ہیں کہ بہت سے لوگ ان کو جھوٹ ہی نہیں سمجھتے اسی طرح خیانت کی بھی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ ان کو خیانت ہی نہیں جانتے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بھی امت کو واضح طور پر آگاہی دی ہے ، اس سلسلے میں ذیل کی حدیثیں پڑھئے : تشریح ۔ ۔ ۔ ابو الہیثم بن التیہان نے ایک معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ چاہا تھا ، اس موقع پر آپ نے اُن سے یہ ارشاد فرمایا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ جس سے کسی معاملہ میں مشورہ لیا جائے اسے چاہئے کہ وہ محسوس کرے کہ مشورہ چاہنے والے نے اس کواعتماد اور بھروسے کے قابل سمجھ کراس سے مشورہ چاہا ہے اور اپنی ایک امانت اس کے سپرد کی ہے ، لہٰذا اسے چاہئے کہ حقِ امانت اداکرنے میں کوتاہی نہ کرے ، یعنی اچھی طرح سوچ سمجھ کر مشورہ دے اور پھر اس کی بات کو راز میں رکھے ، اگر ایسا نہیں کرے گا تو ایک درجے کی خیانت کا مجرم ہو گا ۔

【111】

خیانت کی بعض خفی قسمیں

حضرت جابر بن عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا : جب کوئی شخص اپنی کوئی بات کہے اور پھر ادھر ادھر دیکھے تو وہ امانت ہے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تم سے بات کرے اور وہ زبانی تم سے نہ کہے اس کو راز رکھنا ، لیکن اس کے کسی طریقے سے تمہیں محسوس ہو کہ وہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی یہ بات عام لوگوں کے علم میں آئے ، تو پھر اس کی یہ بات امانتہی ہے اور امانت کی طرح تم کو اس کی حفاظت کرنی چاہئے ، اگر ایسا نہ کیا اور دوسروں کو تم نے پہنچا دیا ، تو تمہاری طرف سے یہ امانت میں خیانت ہوگی ، اور تمہیں خدا کے سامنے اس کا جواب دینا ہو گا ۔ لیکن ایک دوسری حدیث میں صاف فرمایا گیا ہے کہ : اگر کسی بندے کے ناحق قتل یا اس کی آبرو ریزی یا اس کو مالی نقصان پہنچانے کی سازش تمہارے علم میں آئے تو پھر ہرگز اس کو راز میں نہ رکھو بلکہ متعلقہ آدمیوں کو اس سے مطلع کردو ۔ وہ حدیث بھی یہیں پڑھ لیجئے ۔

【112】

خیانت کی بعض خفی قسمیں

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نشستیں امانت داری کے ساتھ ہوں (یعنی کسی مجلس میں رازداری کے ساتھ جو مشورہ یا فیصلہ ہو ، اہلِ مجلس امانت سمجھ کر اس کو راز میں رکھیں) لیکن تین مجلسیں اس سے مستثنیٰ ہیں : ایک وہ جس کا تعلق کسی کے خون ناحق کی سازش سے ہو ، دوسرے وہ جس کا تعلق کسی کی عصمت و عفت لوٹنے کے مشورے سے ہو ، تیسرے وہ جس کا تعلق بغیر کسی حق کے کسی کا مال چھیننے سے ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح ان باتوں کو بھی صرف مثال سمجھنا چاہئے ، ورنہ منشاء یہ ہے کہ اگر کسی مجلس میں کسی معصیت اور ظلم کے لئے کوئی سازش اور کوئی مشورہ کیا جائے اور تم کو بھی اس میں شریک کیا جائے ، تو پھر ہرگز اس کو راز میں نہ رکھو ، بلکہ اس صورت میں تمہاری دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ظلم و معصیت کے اس منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے جن کو اس سے باخبر کرنا ضروری سمجھو ، ان کو ضرور باخبر کر دو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو اللہ کے حق میں بھی خیانت ہوگی اور بندوں کے حق میں بھی ۔

【113】

اختلاف اور فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اپنی طرف سے کچھ کہہ دینا جھوٹ نہیں

ام کلثوم (بنت عقبی بن ابی معیط) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ آدمی جھوٹا اور گنہگار نہیں ہے جو باہم لڑنے والے آدمیوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس سلسلے میں (ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو) خیر اور بھلائی کی باتیں پہنچائے اور (اچھا تاثر ڈالنے والی) اچھی باتیں کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو شخصوں یا دو پارٹیوں کے درمیان سخت نزع اور رنجش ہے ، اور ہر فریق دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ، اور پھر اس کے نتیجے میں بڑے بڑے شر اور فتنے پیدا ہوتے ہیں ، کبھی کبھی تو خون خرابہ اور قتل و غارت اور آبرو ریزی تک نوبت پہنچ جاتی ہے ، اور عداوت کے جوش میں ہر طرف سے ظلم اور تعدی کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے ان حالات میں اگر کوئی مخلص اور بے غرض بندہ ان دونوں برسرجنگ فریقوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے ، اور اس کے لیے وہ ضرورت محسوس کرے کہ ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو ایسی خیر اندیشی کے باتیں پہنچائی جائیں جن سے جنگ و عداوت کی آگ مجھے اور خوش گمانی اور مصالحت کی فضا پیدا ہو ، تو اس مقصد کے لیے اگر اللہ کا وہ بندہ ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو ایسی خوش کن اور صلح جویانہ باتیں بھی پہنچائے جو واقعے میں اس فریق نے نہ کہی ہوں ، اس مخلص بندے کا ایسا کرنا اس جھوٹ میں شمار نہ ہو گا ، جو معصیت اور گناہ کبیرہ ہے ، بس یہی اس حدیث کا منشاء ہے ۔ ۔ اور یہی مطلب ہے حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے اس مقولے کا : “ دروغ مصلحت آمیز بہ ار راستی فتنہ انگیز ”

【114】

ایفاء وعدہ اور وعدہ خلافی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو اس کو پورا نہ کرے اور جب اس کو کسی چیز کا امین بنا دیا جائے تو خیانت کرے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح وعدہ کر کے پورا کرنا درحقیقت سچائی ہی کی ایک وعملی قسم ہے اور وعدہ خلافی ایک طرح کا عملی جھوٹ ہے ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اخلاقی تعلیم میں وعدہ خلافی سے بچنے اور ہمیشہ وعدہ پورا کرنے کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے ۔ چند ہی صفحے پہلے وہ حدیث گزر چکی ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اچھے اخلاق کا ذکر کر کے فرمایا ، کہ جو شخص ان باتوں کی پابندی کی ذمہ داری لے میں اس کے لئے جنت کا ذمہ لیتا ہوں اور ان میں آپ نے ایفاء وعدہ کو بھی گنایا ۔ اور “ کتاب الایمان ” میں “ شعب الایمان ” کے حوالے سے حضرت انسؓ کی وہ حدیث گزر چکی ہے ، جس میں فرمایا گیا ہے ، کہ جو شخص اپنے کئے وہد کا پابند نہیں ، اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں ۔ اب چند حدیثیں اس سلسلہ کی یہاں اور بھی درج کی جاتی ہیں : تشریح ۔ ۔ ۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے “ کتاب الایمان ” میں بھی گذر چکی ہے ، اور وہاں پوری تفصیل سے بتایا جا چکا ہے کہ ان باتوں کے منافق کی نشانی ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ وہاں کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹ ، خیانت اور وعدہ خلافی دراصل یہ منافقوں کے اخلاق ہیں ، اور جس شخص میں یہ بری عادتیں موجود ہوں اور وہ خواہ عقیدہ کا منافق نہ ہو لیکن عمل اور سیرت میں منافق ہے ۔ اس حدیث کی صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : “ وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ ” یعنی وہ آدمی اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزہ رکھتا ہو اور اپنے کو مسلمان بھی کہتا اور سمجھتا ہو پھر بھی ان بداخلاقیوں کی وجہ سے وہ ایک قسم کا منافق ہی ہے ۔ بہر حال اس حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی نشانی اور ایک منافقانہ خصلت بتلایا گیا ہے ۔

【115】

ایفاء وعدہ اور وعدہ خلافی

حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ وعدہ بھی ایک طرح کا قرض ہے (لہذاس اس کو ادا کرنا چاہئے) ۔ (معجم اوسط للطبرانی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو کچھ دینے کا یا اس کے ساتھ کوئی سلوک کرنے کا یا اسی طرح کا کوئی اور وعدہ کیا گیا ہے تو وعدہ کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اس کو اپنے پر قرض سمجھے ، اور اس کو پورا کرنے کی فکر کرے ، لیکن اگر بالفرض کسی بُرے کام میں ساتھ دینے کا ، یا کسی اور ایسے کام کے کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جو شرعاً صحیح نہیں ہے ، یا اس سے کسی دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے ، تو اس وعدہ کا پورا کرنا ضروری نہ ہو گا ، بلکہ اس کے خلاف ہی کرنا ضروری ہو گا ، اوراس وعدہ خلافی میں کوئی گناہ نہ ہوگا ، بلکہ اتباع شریعت کا ثواب ہو گا ۔

【116】

ایفاء وعدہ اور وعدہ خلافی

عبداللہ بن ابی الحمساء سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے (یعنی آپ کے نبی ہونے سے پہلے) آپ سے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا (پھر جو کچھ مجھے دینا تھا اس کا کچھ حصہ تو میں نے وہیں دے دیا) اور کچھ اداکرنا باقی رہ گیا ، تو میں نے آپ سے وعدہ کیا کہ میں اسی جگہ لے کر آتا ہوں پھر میں بھول گیا اور تین دن کے بعد مجھے یاد آیا (میں اسی وقت لے کر پہنچا) تو دیکھا ، کہ آپ اسی جگہ موجود ہیں ، آپ نے فرمایا ، کہ تم نے مجھے بڑی مشکل میں ڈالا ، اور بڑی زحمت دی ، میں تمہارے انتظار میں تین دن سے یہیں ہوں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح گویا نبی ہونے سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدہ کی ایسی پابندی فرماتے تھے کہ تین دن تک ایک جگہ رہ کر ایک شخص کا انتظار فرماتے رہے ، واضح رہے کہ وعدہ کی اس حد تک پابندی کرنا شرعاً ضروری نہیں ہے ، (جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث سے معلوم بھی ہو جائے گا) لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں جو “ خلق عظیم ” ودیعت فرمایا تھا ، اس کا تقاضا یہی تھا ۔

【117】

ایفاء وعدہ اور وعدہ خلافی

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے کسی دوسرے شخص سے (کسی جگہ آ کر ملنے کا) وعدہ کیا ، پھر نماز کے وقت تک اُن میں سے ایک نہیں آیا (اور دوسرا وقت معین پر مقرر جگہ پر پہنچ گیا ، اور نہ آنے والے کا انتظار کرتا رہا ، یہاں تک کہ نماز کا وقت آ گیا) اور یہ پہنچ جانے والا نماز پڑھنے کے لئے مقررہ جگہ سے چلا گیا ، تو اس کو کوئی گناہ نہ ہو گا ۔ (رزین) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب وعدہ کے مطابق یہ شخص مقررہ جگہ پر پہنچ گیا ، اور کچھ دیر تک دوسرے آدمی کا انتظار بھی کرتا رہا ، تو اس نے اپنا حق ادا کر دیا ، اب اگر نماز کا وقت آ جانے پر یہ شخص نماز پڑھنے کے لئے چلا جائے ، یا اپنی کسی دوسری ضرورت سے چلا جائے ، تو اس پر وعدہ خلافی کا الزام نہیں آئے گا ، اور یہ گناہ گار نہیں ہو گا ۔

【118】

ایفاء وعدہ اور وعدہ خلافی

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ، جب کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی سے آنے کا وعدہ کیا ، اور اس کی نیت یہی تھی کہ وہ وعدہ پورا کرے گا ، لیکن (کسی وجہ سے) وہ مقررہ وقت پر آیا نہیں ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص نے کوئی وعدہ کیا ہے اور نیت اس کو پورا کرنے کی ہی تھی ، لیکن کسی وجہ سے وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا تو عنداللہ گناہگار نہ ہو گا ، لیکن اگر نیت ہی وعدہ پورا کرنے کی نہ تھی ، اور اس کا یہ وعدہ ایک طرح کا فریب تھا ، تو اس کے گناہ ہونے میں شبہ نہیں ۔

【119】

تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر

حضرت عیاض بن حماز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی اور حکم بھیجا ہے کہ تواضع اور خاکساری اختیار کرو جس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ کوئی کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرے ، اور کسی کے مقابلہ میں فخر نہ کرے ۔ تشریح تواضع یعنی فروتنی اور خاکساری اُن خاص اخلاق میں سے ہے جن کی قرآن و حدیث میں بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے ، اور بڑی ترغیب دی گئی ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بندہ ہے اور بندہ کا حسن و کمال یہی ہے کہ اُس کے عمل سے بندگی اور نیاز مندی ظاہر ہو ، اور تواضع اور خاکساری بندگی اور عبدیت ہی کا مظہرہے ، جیسے کہ اس کے بالکل برعکس تکبر کبریائی کا مظہر ہے ، اور اسی لئے وہ شان بندگی کے قطعاً خلاف اور صرف خدا ہی کے لئے زیبا ہے ۔

【120】

تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک دن خطبہ میں برسرِ منبر فرمایا : لوگو ! فروتنی اور خاکساری اختیار کرو ، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے ، جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے (یعنی اللہ کا حکم سمجھ کر اوراس کی رضا حاصل کرنے کے لیے) خاکساریکارویہ اختیار کیا (اور بندگانِ خدا کے مقابلہ میں اپنے کو اونچا کرنے کے بجائے نیچا رکھنے کی کوشش کی) تو اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے خیال اور اپنی نگاہ میں تو چھوٹا ہو گا ، لیکن عام بندگانِ خدا کی نگاہوں میں اونچا ہو گا ۔ اور جو کوئی تکبر اور بڑائی کا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو نیچے گرا دے گا ، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ عام لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل و حقیر ہو جائے گا ، اگرچہ خود اپنے خیال میں بڑا ہو گا ، لیکن دوسروں کی نظر میں وہ کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ ذلیل اور نے وقعت ہو جائے گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی)

【121】

تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر

حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تم کو بتاؤں کہ جنتی کون ہے ؟ ہر وہ شخص جو (معاملہ اور برتاؤ میں اکھڑ اور سخت نہ ہو ، بلکہ) عاجزوں کمزوروں کا سا اس کا رویہ ہو ، اور اس لئے لوگ اس کو کمزور سمجھتے ہوں (اور اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ایسا ہو کہ) اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے ، تو اللہ اس کی قسم پوری کر دکھائے ۔ اور کیا میں تم کو بتاؤں کہ دوزخی کون ہے ؟ ہر اکھڑ ، بدخو اور مغرور شخص ۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث میں اہل جنت کی صفت “ ضعیف ، متضعف ” بتلائی گئی ہے ، اس سے مراد وہ ضعف و کمزوری نہیں ہے جو قوت و طاقت کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے ، کیوں کہ وہ ضعف و کمزوری کوئی قابل تعریف صفت نہیں ہے ، بلکہ ایک حدیث میں تو صراحۃً فرمایا گیا ہے کہ ۔ “ الْمُؤْمِنُ الْقَوِىُّ خَيْرٌ وَاَحَبُّ اِلَى تَعَالَى مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيْفِ ” (طاقتور مسلمان خدا کے نزدیک کمزور مسلمان سے زیادہ بہتر اور محبوب ہے) ۔ بلکہ جیسا کہ ترجمہ میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، یہاں ضعیف و متضعف سے مراد وہ شریف الطبع متواضع اور نرم خو شخص ہے جو معاملہ اور برتاؤ میں عاجزوں اور کمزوروں کی طرح دوسروں سے دب جائے ، اور اس لئے لوگ اسے کمزور سمجھیں اور دبا لیا کریں ۔ اسی لئے اس حدیث میں ضعیف و متضعف کے مقابلہ میں عتل ، جواظ ، متکبر کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ، بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تواضع و نرمی اور عاجزی اہل جنت کی صفت ہے ، اور غرور استکبار اور اکھڑ پن دوزخیوں کے اوصاف ہیں ۔ اس حدیث میں جنتیوں کی صفت میں “ ضعیف و متضعف ” کے ساتھ ایک بات یہ بھی فرمائی گئی ہے کہ اگر وہ بندہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری کر دے ۔ بظاہر اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس طرف اشارہ فرمانا ہے کہ جب کوئی بندہ ! اللہ کے لئے اپنی خودی کو مٹا کر اُس کے بندوں کے ساتھ عاجزی اور فروتنی کا رویہ اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم کی لاج رکھے گا ، اور اس کی بات کو پورا کر دکھائے گا ، یا یہ کہ اگر وہ بندہ کسی خاص معاملہ میں اللہ کو قسم دے کر اُس سے کوئی خاص دعا کرے گا ، تو اللہ اُس کی دعا ضرور قبول کرے گا ۔

【122】

تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا ، جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا ۔ (مسلم و بخاری) تشریح کبریائی اور بڑائی دراصل صرف اس ذات پاک کا حق ہے جس کے ہاتھ میں سب کی موت و حیات اور عزت و ذلت ہے ، جس کے لئے کبھی فنا نہیں ، اور اس کے علاوہ سب کے لئے فنا ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے ۔ وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اور اسی کے لئے کبریائی اور بڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہی ہے زبردست اور حکمت والا ۔ پس اب جو بر خود غلط انسان کبریائی اور بڑائی کا دعویدار ہو ، اور اللہ کے بندوں کے ساتھ غرور تکبر اس کا رویہ ہو ، وہ گویا اپنی حقیقت بھول کر اللہ تعالیٰ کا حریف بنتا ہے ، اس لئے وہ بہت ہی بڑا مجرم ہے ، اور اس کا جرم نہایت ہی سنگین ہے ، اور اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا ہے ، کہ اپنی اس فرعونی صفت کی وجہ سے وہ جنت میں نہ جا سکے گا ۔ یہ اصولی بات پوری تفصیل سے پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ جن حدیثوں میں کسی بدعملی یا بداخلاقی کا انجام یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کا مرتکب جنت میں نہ جا سکے گا ، ان کا مطلب عموماً یہ ہوتا ہے کہ یہ بدعملی یا بداخلاقی اپنی اصل تاثیر کے لحاظ سے جنت سے محروم کر دینے والی اور دوزخ میں پہنچانے والی ہے ۔ یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کے مرتکب سچے ایمان والوں کے ساتھ اور ان کی طرح سیدھے جنت میں نہ جا سکیں گے ، بلکہ اُن کو جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا ، اس لیے اس حدیث کا مطلب بھی اس اصول کی روشنی میں یہی سمجھنا چاہئے کہ غرور و تکبر اپنی اصلیت کے لحاظ سے جنت سے دور کر کے دوزخ میں ڈلوانے والی خصلت ہے ، یا یہ کہ مغرور اور متکبر شخص سیدھا جنت میں نہ جا سکے گا ، بلکہ اس کو دوزخ میں اپنے غرور و تکبر کی سزا بھگتنی پڑے گی ، اور جب وہاں آگ میں تپا کے اُس کے تکبر کے مادہ کو جلا دیا جائے گا اور غرور کی گندگی سے اس کو پاک و صاف کر دیا جائے گا تو اگر وہ صاحب ایمان ہے تو اس کے بعد جنت میں جا سکے گا ۔

【123】

تواضع و خاکساری اور غرورو تکبر

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین آدمی جن سے اللہ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا ، اور ان کا تزکیہ نہیں کرے گا ، اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کی طرف نگاہ بھی نہیں کرے گا ، اور ان کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے ، ایک بوڑھا زانی ، دوسرا جھوٹا فرمانروا ، اور تیسرا نادار و غریب متکبر ۔ (صحیح مسلم)

【124】

شرم و حیا

زید بن طلحہ سے روایت ہے وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے ، اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے ۔ (موطا امام مالک ، سنن ابن ماجہ و شعب الایمان للبیہقی) تشریح حیا کی خاص اہمیت اور اس کے معنی کی وسعت جائے گا ۔ اس حدیث میں اسی قسم کے تین مجرموں کے حق میں اعلان فرمایا گیا ہے کہ ان بدبختوں بدنصیبوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم کلام نہ ہو گا ، اور اُن کا تزکیہ بھی نہ فرمائے گا ، اور آخرت میں یہ مجرم رب کریم کی نظر کرم سے بھی قطعی محروم رہیں گے ۔ ایک بوڑھا زناکار ، دوسرا جھوٹافرمانروا ، تیسرا ناداری کی حالت میں تکبر کرنے والا ۔ اور یہ اس لئے کہ جوانی کی حالت میں اگر کوئی شخص زنا کا مرتکب ہوا ، تو اس کا یہ گناہ کبیرہ ہونے کے باوجود قابلِ درگزر بھی ہو سکتا ہے ، کیوں کہ جوانی کی حالت میں شہوت سے مغلوب ہونا ایک فطری کمزوری ہے ، لیکن اگر کوئی بوڑھا بڑھاپے میں یہ حرکت کرے ، تو یہ اس کی طبیعت کی سخت خباثت کی نشانی ہے ، اسی طرح اگر کوئی بے چارہ عام آدمی اپنی ضرورت نکالنے کے لیے جھوٹ بول جائے ، تو اس کا گناہ بھی کبیرہ ہونے کے باوجود قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن ایک صاحب اقتدار حکمران اگر جھوٹ بولتا ہے ، تو یہ اس کی طبیعت کی انتہائی گندگی اور خدا سے بے خوفی کی نشانی ہے ۔ ایسے ہی کوئی دولت مند اگر تکبر کرے تو انسان کی عام فطرت کے لحاظ سے کچھ زیادہ مستبعد نہیں ۔ ع “ چو بدولت برسی مست نہ گردی مردی ” لیکن گھر میں فقر و فاقہ کے باوجود اگر کوئی شخص غرور و تکبر کی چال چلتا ہے تو بلا شبہ اس کی انتہائی دنائت اور کمینہ پن ہے ۔ الغرض تینوں قسم کے یہ مجرم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی سے اور اس کی نظرِ کرم سے تزکیہ سے محروم رہیں گے ، تزکیہ نہ کئے جانے کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ ان کے گناہ معاف نہیں کئے جائیں گے ، اور صرف عقیدہ یا بعض اعمال صالحہ کی بنیاد پر ان کو مومنین صالحین کے ساتھ شمار نہ کیا جائے گا ، بلکہ ان کو سزا بھگتنی ہی بڑے گی ۔ واللہ اعلم ۔ شرم و حیا شرم و حیا ایک ایسا اہم فطری اور بنیادی وصف ہے جس کو انسا کی سیرت سازی میں بہت زیادہ دخل ہے ، یہی وہ وصف اور خلق ہے جو آدمی کو بہت سے بُرے کاموں اور بری باتوں سے روکتا ، اور فواحش و منکرات سے اس کو بچاتا ہے ا ، اور اچھے اور شریفانہ کاموں کے لیے آمادہ کرتا ہے ، الغرض شرم و حیا انسان کی بہت سی خوبیوں کی جڑ بنیاد اور فواحش و منکرات سے اس کی محافظ ہے ، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم و تربیت میں اس پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ اس سلسلہ کے آپ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے ، اور اس وصف کو اپنے اندر پیدا کرنے اور ترقی دینے کی کوشش کیجئے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر دین اور ہر شریعت میں اخلاق انسانی کے کسی خاص پہلو پر نسبتاً زیادہ زور دیا جاتا ہے ، اور انسانی زندگی میں اسی کو نمایاں اور غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور شریعت میں رحمدلی اور عفو و درگزر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے (یہاں تک کہ مسیحی تعلیمات کا مطالعہ کرنے والے کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ رحمدلی اور وعفو و درگزر ہی گویا ان کی شریعت کا مرکزی نقطہ اور ان کی تعلیم کی روح ہے) اسی طرح اسلام یعنی حضرت محمد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت اور تعلیم میں حیا پر خاص زور دیا گیا ہے ۔ یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیا کا مفہوم بہت وسیع ہے ، ہمارے عرف اور محاورہ میں تو حیا کا تقاضا اتنا ہی سمجھا جاتا ہے کہ آدمی فواحش سے بچے یعنی شرمناک باتیں اور شرمناک کام کرنے سے پرہیز کرے ، لیکن قرآن و حدیث کے استعمالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا طبیعتِ انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو انقباض اور اس کے ارتکاب سے اذیت ہو ، پھر قرآن و حدیث ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حیا کا تعلق صرف اپنے ابناء جنس ہی سے نہیں ہے ، بلکہ حیا کا سب سے زیادہ مستحق وہ خالق و مالک ہے جس نے بندہ کو وجود بخشا اور جس کی پروردگاری سے وہ ہر آن حصہ پا رہا ہے ، اور جس کی نگاہ سے اس کا کوئی عمل اور کوئی حال چھپا نہیں ہے ، اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ شرم و حیا کرنے والے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیا اپنے ماں باپ کی ، اور اپنے بڑوں اور محسنوں کی ہوتی ہے ، اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سب بڑوں سے بڑا ، اور سب محسنوں کا محسن ہے ، لہذا بندہ کو سب سے زیادہ شرم و حیا اسی کی ہونی چاہئے ، اور اس حیا کا تقاضا یہ ہو گا کہ جو کام اور جو بات بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے حکم کے خلاف ہو ، آدمی کی طبیعت اس سے خود انقباض اور اذیت محسوس کرے اور اس سے باز رہے ، اور جب بندہ کا یہ حال ہو جائے تو اس کی زندگی جیسی پاک اور اس کی سیرت جیسی پسندیدہ اور اللہ کی مرضی کے مطابق ہوگی ظاہر ہے ۔ (اس حدیث کو امام مالکؒ نے موطا میں زید بن طلحہ تابعی سے مرسلاً روایت کیا ہے (یعنی ان صحابی کا ذکر نہیں کیا ، جن سے یہ حدیث زید بن طلحہ کو پہنچی تھی) لیکن ابن ماجہ اور بیہقی نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابیوں حضرت انسؓ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے) ۔

【125】

شرم و حیا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ، انصار میں سے ایک شخص پر ہوا ، اور وہ اس وقت اپنے بھائی کو حیا کے بارہ میں کچھ نصیحت و ملامت کر رہا تھا ، تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیوں کہ حیا تو ایمان کا جز یا ایمان کا پھل ہے ۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انصار میں سے کوئی صاحب تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا کا وصف خاص طور سے عطا فرمایا تھا ، جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے معاملات میں نرم ہوں گے ، سخت گیری کے ساتھ لوگوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی نہ کرتے ہوں گے ، اور بہت سے موقعوں پر اسی شرم و حیا کی وجہ سے کھل کر باتیں بھی نہ کر پاتے ہوں گے ، جیسا کہ اہلِ حیا کا عموماً حال ہوتا ہے ، اور اُن کے کوئی بھائی تھے ، جو ان کی اس حالت اور روش کو پسند نہیں کرتے تھے ، ایک دن یہ بھائی ان صاحب حیا بھائی کو اس پر ملامت اور سرزنش کر رہے تھے کہ تم اس قدر شرم و حیا کیوں کرتے ہو ، اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دونوں بھائیوں پر گذر ہوا ، اور آپ نے ان کی باتیں سن کر ملامت و نصیحت کرنے والے بھائی سے ارشاد فرمایا کہ اپنے ان بھائی کو ان کے حال پہ چھوڑ دو ، ان کا یہ حال تو بڑا مبارک حال ہے ، شرم و حیا تو ایمان کی ایک شاخ یا ایمان کا پھل ہے اگر اس کی وجہ سے بالفرض دنیا کے مفادات کچھ فوت بھی ہوتے ہوں ، تو آخرت کے درجے بے انتہا بڑھتے ہیں ۔

【126】

شرم و حیا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (یا ایمان کا ثمرہ ہے) اور ایمان کا مقام جنت ہے ، اور بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے ، اور بدی دوزخ میں لے جانے والی ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح اس حدیث میں اور اس سے پہلی حدیث میں بھی جو “ الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ ” فرمایا گیا ہے ، بظاہر اس کامطلب یہی ہے کہ شرم و حیا شجر ایمان کی خاص شاخ یا اس کا ثمرہ ہے ، صحیحین کی ایک دوسری حدیث میں (جو کتاب الایمان میں گذر چکی ہے) فرمایا گیا ہے “ الْحَيَاءُشُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ ” (اور حیا ایمان ہی کی ایک شاخ ہے) بہر حال حیا اور ایمان میں ایک خاص نسبت اور خاص رشتہ ہے ، اور یہ سب اُسی کی تعبیریں ہیں ۔ اور اسی کی ایک تعبیر وہ بھی ہے جو اس سے بعد والی حدیث میں آ رہی ہے ۔

【127】

شرم و حیا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ حیا اور ایمان یہ دونوں ہمیشہ ساتھ اور اکٹھے ہی رہتے ہیں ، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اُٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مطلب یہ ہے کہ ایمان اور حیا میں ایسا گہرا تعلق ہے کہ اگر کسی آدمی یا کسی قوم میں سے ان دونوں میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھ جائے گا ، الغرض کسی شخص یا جماعت میں حیا اور ایمان یا تو دونوں ہوں گے یا دونوں میں سے ایک بھی نہ ہو گا ۔

【128】

شرم و حیا

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حیا صرف خیر ہی کو لاتی ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض اوقات سرسری نظر میں یہشبہ ہوتا ہے کہ شرم و حیا کی وجہ سے آدمی کو کبھی کبھی نقصان بھی پہنچ جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسی شبہ کا ازالہ فرمایا ہے ، اور آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کے نتیجہ میں کبھی کوئی نقصان کا شبہ ہوتا ہے وہاں بھی اگر ایمانی اور اسلامی وسیع نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بجائے نقصان کے نفع ہی نفع نظر آئے گا ۔ یہاں بعض لوگوں کو ایک اور بھی شبہ ہوتا ہے اور وہ شبہ یہ کہ شرم و حیا کی زیادتی بعض اوقات دینی فرائض ادا کرنے سے بھی رکاوٹ بن جاتی ہے ، مثلاً جس آدمی میں شرم و حیا کا مادہ زیادہ ہو وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فرائض ادا کرنے ، اور اللہ کے بندوں کو نصیحت کرنے اور مجرموں کو سزا دینے جیسے اعلیٰ دینی کاموں میں بھی ڈھیلا اور کمزور ہوتا ہے لیکن یہ شبہ ایک مغالطہ پر مبنی ہے ، انسان کی طبیعت کی جو کیفیت اس قسم کے کاموں کے انجام دینے میں رکاوٹ بنتی ہے وہ دراصل حیا نہیں ہوتی ، بلکہ وہ اس آدمی کی ایک فطری اور طبعی کمزوری ہوتی ہے ، لوگ ناواقفی سے اس میں اور حیا میں فرق نہیں کر پاتے ۔

【129】

شرم و حیا

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگلی نبوت کی باتوں میں سے لوگوں نے جو کچھ پایا ہے اس میں ایک یہ مقولہ بھی ہے کہ “ جب تم میں شرم و حیا نہ ہو ، تو پھر جو چاہو کرو ” ۔ (صحیح بخاری) تشریح انبیائے سابقین کی پوری تعلیمات اگرچہ محفوظ نہیں رہیں ، لیکن ان کی کچھ سچی پکی باتیں ضربُ المثل کی طرح ایسی مقبول عام اور مشہور عام ہو گئیں کہ سینکڑوں ہزاروں برس گذرنے پر بھی وہ محفوظ اور زبان زد خلائق رہیں ، اُنہیں میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک بطورِ ضرب المثل لوگوں کی زبان پر چڑھی ہوئی تھی “ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ ” جس کو فارسی میں کہا جاتا ہے “ بے حیا باش دہرچہ خواہی کُن ” ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تصدیق فرمائی کہ یہ حکیمانہ اور ناصحانہ مقولہ اگلی نبوت کی تعلیمات میں سے ہے ۔

【130】

شرم و حیا

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی اُس سے حیا کرنی چاہئے ۔ مخاطبین نے عرض کیا ، الحمدللہ ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، یہ نہیں (یعنی حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں ہے جتنا کہ تم سمجھ رہے ہو) بلکہ اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار و خیالات ہیں اُن سب کی نگہداشت کرو ، اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہے اس سب کی نگرانی کرو (یعنی برے خیالات سے دماغ کی ، اور حرام و ناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو) اور موت اور موت کے بعد قبر میں جو حالت ہونی ہے اس کو یاد کرو اور جو شخص آخرت کو اپنا مقصد بنائے ، وہ دنیا کی آرائش و عشرتسے دستبردار ہو جائے گا ، اور اس چند روزہ زندگی کے عیش کے مقابلہ میں آگے آنے والی زندگی کی کامیابی کو اپنے لئے پسند اور اختیار کرے گا ، پس جس نے یہسب کچھ یا ، سمجھو کہ اللہ سے حیا کرنے کا حق اُس نے ادا کیا ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس سلسلہ کی پہلی حدیث کی تشریح میں حیا کے معنی کی وسعت کی طرف جو اشارہ کیا گیا تھا ، ترمذی کی اس حدیث سے اس کی توثیق ہی نہیں ، بلکہ مزید توضیح و تشریح بھی ہو جاتی ہے ، نیز حدیث کے آخری حصہ سے ایک اصولی بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اللہ سے حیا کرنے کا حق وہی بندے ادا کر سکتے ہیں جن کی نظر میں اس دنیا اور اس کے عیش و عشرت کی کوئی قیمت نہ ہو ، اور دنیا کو ٹھکرا کے آخرت کو انہوں نے اپنا مطمح نظر بنا لیا ہو ، اور موت اور موت کے بعد کی منزلیں ان کو ہمہ وقت یاد رہتی ہوں ، اور جس کا یہ حال نہ ہو وہ خواہ کیسی ہی باتیں بناتا ہو ، اس حدیث کا فیصلہ ہے کہ اس نے اللہ سے حیا کا حق ادانہیں کیا ۔

【131】

قناعت و استغناء اور حرص و طمع

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کامیاب اور بامراد ہو وہ بندہ جس کو حقیقتِ اسلام نصیب ہوئی ، اور اس کو روزی بھی بقدر کفاف ملی ، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قدر قلیل روزی پر قانع بھی بنا دیا ۔ (صحیح مسلم) تشریح جن اخلاق کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس دنیا میں بھی بہت بلند ہو جاتا ہے اور دل کی بے چینی اور کڑھن کے سخت عذاب سے بھی اس کو نجات مل جاتی ہے ، ان میں سے ایک قناعت اور استغناء بھی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملے اس پر وہ راضی اور مطمئن ہو جائے اور زیادہ کی حرص و لالچ نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قناعت کی یہ دولت عطا فرمائے ، بلا شبہ اس کو بڑی دولت عطا ہوئی ، اور بڑی نعمت سے نوازا گیا ۔ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے : تشریح ۔ ۔ ۔ بلا شبہ جس بندہ کو ایمان کی دولت نصیب ہو ، اور ساتھ ہی اس دنیا میں گذارے کا کچھ ضروری سامان بھی ، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو قناعت اور طمانیت کی دولت بھی نصیب فرما دے ، تو اس کی زندگی بڑی مبارک اور بڑی خوشگوار ہے اور اس پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہے ۔ یہ قناعت اور دل کی طمانیت وہ کیمیا ہے جس سے فقیر کی زندگی بادشاہ کی زندگی سے زیادہ لذیذ اور پُر مسرت بن جاتی ہے ۔ ایں کیمیائے ہستی قاروں کند گدارا آدمی کے پاس اگر دولت کے ڈھیر ہوں ، لیکن اس میں اور زیادہ کے لئے طمع اور حرص ہو ، اور وہ اس میں اجافہ ہی کی فکر اور کوشش میں لگا رہے ، اور “ هل من مزيد ” ہی کے پھیر میں پڑا رہے تو اسے کبھی قلبی سکون نصیب نہ ہو گا ، اور وہ دل کا فقیر ہی رہے گا برخلاف اس کے اگر آدمی کے پاس صرف جینے کا مختصر سامان ہو ، مگر وہ اس پر مطمئن اور قانع ہو تو فقر و افلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا ، اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور آسودگی کی زندگی ہوگی ۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں ارشاد فرمایاہے ۔

【132】

قناعت و استغناء اور حرص و طمع

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دولت مندی مال و اسباب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اصلی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے ۔ (صحیح بخاری)

【133】

قناعت و استغناء اور حرص و طمع

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مجھ سے ارشاد فرمایا : ابوذر ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مال زیادہ ہونے کا نام تونگری ہے ؟ میں نے عرض کیا ، ہاں حضور ! (ایسا ہی سمجھاجاتا ہے) پھر آپ نے فرمایا : کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ مال کم ہونے کا نام فقیری اور محتاجی ہے ؟ میں نے عرض کیا ، ہاں حضور ! (ایسا ہی خیال کیا جاتا ہے) یہ بات آپ نے مجھ سے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ، اصلی دولتمندی دل کے اندر ہوتی ہے ، اور اصلی محتاجی اور فقیری بھی دل ہی میں ہوتی ہے ۔ (معجم کبیر للطبرانی) تشریح حقیقت یہی ہے کہ تونگری اور محتاجی ، خوشحالی اور بدحالی کا تعلق روپیہ ، پیسہ سے زیادہ آدمی کے دل سے ہے ، اگر دل غنی اوربے نیاز ہے ، تو آدمی نچنت اور خوشحال ہے اور اگر دل حرص و طمع کا گرفتار ہے ، تو دولت کے ڈھیروں کے باوجود وہ خوشحالی سے محروم اور محتاج و پریشان حال ہے ، سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور قول ہے : تونگری بدل ست نہ بہ مال

【134】

صبر و قناعت اللہ کی وسیع ترین اور عظیم ترین نعمت ہے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے ایک دفعہ کچھ طلب کیا ، آپ نے انکو عطا فرما دیا ، (لیکن ان کی مانگ ختم نہیں ہوئی) اور انہوں نے پھر طلب کیا ، آپ نے پھر ان کو عطا فرما دیا ، یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا وہ سب ختم ہوگیا ، اور کچھ نہ رہا ، آپ نے ان انصاریوں سے فرمایا ، سنو ! جو مال و دولت بھی میرے پاس ہو گا اور کہیں سے آئے گا ، میں اس کو تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا اور اپنے پاس ذخیرہ جمع نہیں کروں گا (بلکہ تم کو دیتا رہوں گا ، لیکن یہ بات خوب سمجھ لو ، کہ اس طرح مانگ مانگ کر حاصل کرنے سے آسودگی اور خوش عیشی حاصل نہیں ہوگی ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ) جو کوئی خود عفیف بننا چاہتا ہے یعنی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے اپنے کو بچانا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور سوال کی ذلت سے اس کو بچا دیتا ہے ، اور جو کوئی بندوں کے سامنے اپنی محتاجی ظاہر کرنے سے بچنا چاہتا ہے ، یعنی اپنے کو بندوں کا محتاج اور نیاز مند بنانا نہیں چاہتا ، تو اللہ تعالیٰ اس کو بندوں سے بے نیاز کر دیتا ہے ، اور جو کوئی کسی کٹھن موقع پر اپنی طبیعت کو مضبوط کر کے صبر کرنا چاہتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے (اور صبر کی حقیقت اس کو نصیب ہو جاتی ہے) اور کسی بندہ کو بھی صبر سے زیادہ وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح س حدیث کا خاص سبق یہی ہے کہ بندہ اگر چاہتا ہے کہ وہ دوسرے بندوں کا محتاج نہ ہو ، اور ان کے سامنے اس کو دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے ، اور مصائب و مشکلات اس کو اپنی جگہ سے ہٹا نہ سکیں ، تو اسے چاہئے کہ اپنی استطاعت کی حد تک وہ خود ایسا بننے کی کوشش کرے ، اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی پوری پوری مدد فرمائے گا اور یہ سب چیزیں اس کو نصیب ہو جائیں گے ۔ حدیث کے آخری حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ “ کسی بندے کو صبر سے زیادہ وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ” ۔ واقعہ یہی ہے کہ “ صبر ” دل کی جس کیفیت کا نام ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نہایت وسیع اور نہایت عظیم نعمت ہے ، اسی لیے قرآن مجید کی آیت “ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ” میں صبر کو صلوٰۃ یعنی نماز پر بھی مقدم کیا گیا ہے ۔

【135】

دولت کی حرص کے بارے میں حکیم بن حزام کو حضور ﷺ کی نصیحت اور ان پر اسکا مثالی اثر

حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مال طلب کیا ، آپ نے مجھے عطا فرما دیا ، میں نے پھر مانگا آپ نے پھر عطا فرما دیا ، پھر آپ نے مجھے نصیحت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ : اے حکیم ! یہ مال سب کو بھلی لگنے والی اور لذیذ و شیریں چیز ہے ، پس جو شخص اس کو بغیر حرص اور طمع کے سیر چشمی اور نفس کی فیاضی کے ساتھ لے اس کے واسطے اس میں برکت دی جائے گی ۔ اور جو شخص دل کے لالچ کے ساتھ لے گا اس کے واسطے اس میں برکت نہیں ہوگی اور اس کا حال جوع البقر کے اس مریض کا سا ہو گا جو کھائے اور پیٹ نہ بھرے ۔ اور اور والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے (یعنی دینے والے کا مقام اونچا ہے اور ہاتھ پھیلا کر لینا ایک گھٹیا بات ہے لہذا جہاں تک ہو سکے اس سے بچنا چاہئے ۔ حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سُن کر) میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے اب آپ کے بعد مرتے دم تک میں کسی سے کچھ نہ لوں گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اسی حدیث کی صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو عہد کیا تھا اس کو پھر ایسا نباہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں (جب کہ سب ہی کو وظیفے اور عطیے دئیے جاتے تھے) ان کو بھی بُلا کر بار بار کچھ وظیفہ یا عطیہ دینا چاہا لیکن یہ لینے پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ اور فتح الباری میں حافظ ابنِ حجر نے مسند اسحاق بن راہویہ کے کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ شیخین کے بعد حضرت عثمان اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے زمانہ خلافت و امارت میں بھی انہوں نے کبھی کوئی وظیفہ یا عطیہ قبول نہیں کیا ، یہاں تک کہ حضرت معاویہؓ کے دورِ امارت میں ایک سو بیس سال کی عمر میں ۵۴؁ھ میں وفات پائی ۔

【136】

حرص و طمع کی تباہ کاریوں اور بد انجامیوں کے متعلق انتباہ

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا اور اس میں ارشاد فرمایا : کہ حرص و طمع سے بچو کیوں کہ تم سے پہلی قومیں اسی حرص سے تباہ ہوئیں ، اسی نے ان کو بخل کرنے کو کہا تو انہوں نے بخل اختیار کیا اسی نے ان کو قطع رحمی یعنی حقوق قرابت کی پامالی کے لیے کہا تو انہوں نے قطع رحمی اختیار کی ، اس نے ان کو بدکاری کے لیے کہا تو انہوں نے بدکاریاں کیں ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یعنی حرص و طمع صرف ایک بُری خصلت ہی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسانی معاشرہ میں دوسری بھی نہایت تباہ کن خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو بالآخر قوموں کو لے ڈوبتی ہیں ، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس خطرناک اور تباہ کن جذبہ سے اپنے دلوں اور سینوں کی پوری پوری حفاظت کریں ۔

【137】

حرص انسان کی بد ترین خصلتوں میں سے ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ ، انسان میں سب سے بُری بات کڑھا دینے والی حرص اور گھبرا دینے والی بزدلی ہے ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ حقیقت ہے کہ حریص اور لالچی آدمی ہر وقت اس غم میں گھلتا اور کڑھتا رہتا ہے ، کہ یہ نہیں ملا ، وہ نہیں ملا ، فلاں کے پاس یہ ہے اور میرے پاس یہ نہیں ہے ، اسی طرح زیادہ بزدل آدمی خواہ مخواہ موہوم خطرات سے بھی ہر وقت گھبراتا رہتا ہے اور اس کو اطمینان کے سانس لینے نصیب نہیں ہوتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے دل کی ان دونوں کیفیتوں کو بدترین کیفیت بتلایا ، اور فی الحقیقت یہ بدترین اور ذلیل ترین خصلتیں ہیں ۔

【138】

صبر و شکر : سچے مؤمن کیلئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے نعمت پر شکر کرے تو خیر ہے ، مصیبت پر صبر کرے تو خیر ہے

حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ مومن کا معاوملہ بھی عجیب ہے ، اس کے ہر معاملہ اور ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ، اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لئے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے ۔ (مسلم) تشریح اس دنیا میں تکلیف اور آرام تو سب ہی کے لیے ہے لیکن اس تکلیف اور آرام سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا یہ صرف اُن اہل ایمان ہی کا حصہ ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا ایمانی رابطہ قائم کر لیا ہے کہ وہ چین و آرام اور مسرت و خوشی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں ، اور جب کسی رنج اور دکھ میں مبتلا کئے جاتے ہیں ، اور کوئی ناخوشگواری ان کو پیش آتی ہے ، تو وہ بندگی کی پوری شان کے ساتھ صبر کرتے ہیں ۔ اور چونکہ دکھ سکھ اور خوشی و ناخوشی ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کی زندگی کسی وقت بھی خالی نہیں رہتی اس لیے ان بندگانِ خدا کے قلوب بھی صبر و شکر کی کیفیات سے ہمہ دم معمور رہتے ہیں ۔ اس دنیا میں دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام اور خوشی بھی ، شادی بھی ہے اور غمی بھی ، شیرینی بھی ہے اور تلخی بھی ، سردی بھی ہے او رگرمی بھی ، خوشگواری بھی ہے اور ناخوشگواری بھی ، اور سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے بندوں کا حال یہ ہونا چاہئے کہ جب کوئی دکھ اور مصیبت پیش آ جائے تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہوں بلکہ ایمانی صبر و ثبات کے ساتھ اس کا استقبال کریں ، اور دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے ، اور وہی ہم کو اس دکھ اور مصیبت سے نجات دینے والا ہے ۔ اسی طرح جب ان کے حالات سازگار ہوں اور ان کی چاہتیں ان کو مل رہی ہیں اور خوشی اور شادمانی کے سامان میسر ہوں تو بھی وہ اس کو اپنا کمال اور اپنی قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ اس وقت اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بخشش ہے ، اور وہ جب چاہے اپنی بخشی ہوئی ہر نعمت چھین بھی سکتا ہے ، اس لئے ہر نعمت پر اس کا کر ادا کریں ۔ یہ اسلام کی خاص تعلیمات میں سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طرح طرح سے اس کی ترغیب اور تعلیم دی ہے ، اس تعلیم پر عمل کرنے کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ بندہ ہر حال میں خدا سے وابستہ رہتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی مصیبتوں اور ناکامیوں سے شکست نہیں کھاتا اور رنج و غم کے تسلسل سے بھی اس کی جان نہیں گھلتی اور مایوسی اور دل شکستگی اس کی عملی قوتوں کو ختم نہیں کر سکتی ۔ اس سلسلے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھئے :

【139】

شروع صدمہ میں صبر کرنے والے کو رحمت کی بشارت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے فرزندِ آدم ! اگر تو نے شروع صدمہ میں صبر کیا اور میری رضا اور ثواب کی نیت کی ، تو میں نہیں راضی ہوں گا کہ جنت سے کم اور اس کے سوا کوئی ثواب تجھے دیا جائے ۔ (ابن ماجہ) تشریح جب کوئی صدمہ کسی آدمی کو پہنچتا ہے تو اس کا زیادہ اثر ابتدا ہی میں ہوتا ہے ، ورنہ کچھ دن گذرنے کے بعد تو وہ اثر خود بخود بھی زائل ہو جاتا ہے ، اس لیے صبر دراصل وہی ہے جو صدمہ پہنچنے کے وقت اللہ تعالیٰ کا خیال کر کے اور اس کی رضا اور ثواب کی امید پر کیا جائے ، اس کی فضیلت ہے اور اسی پر ثواب کا وعدہ ہے ، بعد میں طبعی طور پر جو صبر آ جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان فرمایا ہے کہ جو صاحبِ ایمان بندہ کسی صدمہ کے پہنچنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی نیت سے صبر کرے گا تو اللہ اس کو جنت ضرور عطا فرمائے گاس اور جنت کے سوا اور اس سے کم درجہ کی کوئی چیز اس کے صبر کے ثواب میں دینے پر خود خدائے تعالیٰ راضی نہ ہو گا ۔ اللہ اکبر ! کس قدر کریمانہ انداز ہے ، براہِ راست بندہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اے ابنِ آدم جب تجھے میرے تقدیری حکم سے کوئی صدمہ پہنچے اور تو اس وقت میری رضا اور ثواب کی امید پر اس صدمہ کا استقبال صبر سے کرے تو تجھے جنت دئیے بغیر میں راضی نہ ہوں گا ۔ گویا اس صبر کی وجہ سے بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو ایسا خاص تعلق ہو جائے گا کہ اس بندہ کو جنت دئیے بغیر اللہ تعالیٰ راضی اور خوش نہ ہوں گے ۔ ف ۔ ۔ ۔ جب کسی بندہ خدا کو کسی قسم کا کوئی صدمہ پہنچے تو اگر اس وقت اس حدیث کو اور اللہ تعالیٰ کے اس کریمانہ وعدہ کو یاد کر کے صبر کر لے ، تو ان شاء اللہ اس صبر میں ایک خاص لذت اور حلاوت ملے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقیناً جنت بھی عطا ہوگی ۔

【140】

جو اپنی مصیبت کسی پر ظاہر نہ کرے اس کیلئے بخشش کا وعدہ ہے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ : جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو ، اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے ، اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے ۔ (معجم اوسط للطبرانی) تشریح صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصیبت اور تکلیف کا کسی سے اظہار بھی نہ ہو اور ایسا صابروں کے لئے اس حدیث میں مغفرت کا پختہ وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بخشش کا ذمہ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان مواعید پر یقین اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

【141】

ایک نواسہ کی وفات پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اپنی صاحبزادی کو صبر کی تلقین

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا کے بھیجا کہ میرے بچے کا آخری دم ہے ، اور چل چلاؤ کا وقت ہے ، لہذا آپ اس وقت تشریف لے آئیں ، آپ نے اس کے جواب میں سلام کہلا کے بھیجا اور پیام دیا کہ بیٹی ! اللہ تعالیٰ کسی سے جو کچھ لے وہ بھی اسی کا ہے ، اور کسی کو جو کچھ دے وہ بھی اسی کا ہے ، الغرض ہر چیز ہر حال میں اُسی کی ہے (اگر کسی کو دیتا ہے تو اپنی چیز دیتا ہے اور کسی سے لیتا ہے تو اپنی چیز لیتا ہے) اور ہر چیز کے لیے اس کی طرف سے ایک مدت اور وقت مقرر ہے (اور اس وقت کے آ جانے پر وہ چیز اس دنیا سے اٹھا لی جاتی ہے) پس چاہئے کہ تم صبر کرو ، اور اللہ تعالیٰ سے اس صدمہ کے اجر و ثواب کی طالب بنو ۔ صاحبزادی صاحبہ نے پھر آپ کے پاس پیام بھیجا اور قسم دی کہ اس وقت حضور ضرور ہی تشریف لے آئیں ، پس آپ اُٹھ کر چل دئیے ، اور آپ کے اصحاب میں سے سعد بن عبادہؓ اور معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ اور بعض اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہو لئے ، پس وہ بچہ اُٹھا کر آپ کی گود میں دیا گیا ، اور اس کا سانس اُکھڑ رہا تھا ، اس کے حال کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، اس پر سعد بن عبادہ نے عرض کیا ، حضرت یہ کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ رحمت کے اس جذبہ کا اثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دیا ہے ، اور اللہ کی رحمت ان ہی بندوں پر ہوگی جن کے دلوں میں رحمت کا یہ جذبہ ہو (اور جن کے دل سخت اور رحمت کے جذبہ سے بالکل خالی ہوں ، وہ خدا کی رحمت کے مستحق نہ ہوں گے) ۔ تشریح حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ کسی صدمہ سے دل کا متاثر ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہنا صبر کے منافی نہیں ، صبر کا مقتضی صرف اتنا ہے کہ بندہ مصیبت اور صدمہ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت یقین کرتے ہوئے اس کو بندگی کی شان کے ساتھ انگیز کرے ، ، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور اس کاشاکی نہ ہو اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود کا پابند رہے ۔ باقی طبعی طور پر دل کا متاثر ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہنا تو قلب کی رقت اور اس جذبہ رحمت کا لازمی نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی فطرت میں ودیعت رکھا ہے ، اور وہ اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے اور جو دل اس سے خالی ہو وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہِ رحمت سے محروم ہے ۔ سعد بن عبادہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ کر تعجب سے سوال اس لئے کیا کہ اس وقت تک ان کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ دل کا یہ تاثر اور آنکھوں سے آنسو گرنا صبر کے منافی نہیں ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【142】

معاذ بن جبل کے صاحبزادے کے انتقال پر ان کے نام حضور ﷺ کا نہایت مؤثر اور ایمان آفریں تعزیت نامہ

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ تعزیت نامہ لکھوایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے رسول محمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کی طرف سے معاذ بن جبل کے نام ، میں پہلے اُس اللہ کی تم سے حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ (بعد ازاں) دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس صدمہ کا اجر عظیم دے ، اور تمہارے دل کو صبر عطا فرمائے ، اور ہم کو اور تم کو نعمتوں پر شکر کی توفیق دے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال اور ہمارے اہل و عیال یہ سب اللہ تعالیٰ کے مبارک عطیے ہیں اور اس کی سونپی ہوئی امانتیں ہیں (اس اصول کے مطابق تمہارا لڑکا بھی اللہ تعالیٰ کی امانت تھا) اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا خوشی اور عیش کے ساتھ تم کو اس سے نفع اٹھانے اور جی بہلانے کا موقع دیا ، اور جب اس کی مشیت ہوئی اپنی اس مانت کو تم سے واپس لے لیا ، اور وہ تم کو اس کا بڑا اجر دینے والا ہے ، اللہ کی خاص نوازش اور اس کی رحمت اور اس کی طرف سے ہدایت (کی تم کو بشارت ہے) اگر تم نے ثواب اور رضا الہی کی نیت سے صبر کیا ۔ پس اے معاذ ! صبر کرو ، اور ایسا نہ ہو کہ جزع و قزع تمہارے اجر کو غارت کر دے ، اور پھر تمہیں ندامت ہو (کہ صدمہ بھی پہنچا اور اجر سے بھی محرومی رہی) اور یقین رکھو کہ جزع و فزع سے کوئی مرنے والا واپس نہیں آتا ، اور نہ اس سے دل کا رنج و غم دور ہوتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم اترتا ہے وہ ہو کر رہنے والا ہے ، بلکہ یقیناً ہو چکا ہے ۔ والسلام ۔ (معجم کبیر و معجم اوسط) تشریح قرآن مجید میں مصائب پر صبر کرنے والے بندوں کو تین چیزوں کی بشارت دی گئی ہے ارشاد ہے ، “ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖوَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ” (ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص نوازش اور عنایت ہوگی ، اور وہ رحمت سے نوازے جائیں گے ، اور وہ ہدایت یاب ہوں گے) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعزیت نامہ میں اسی قرآنی بشارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ “ تم نے ثواب اور رضاء الہی کی نیت سے اس صدمہ پر صبر کیا ، تو تمہارے لئے اللہ کی خاص نوازش اور اس کی رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے ” ۔ ف ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تعزیت نامہ میں ہر اُس صاحب ایمان بندے کے لیے تعزیت و نصیحت اور تسلی تشفی کا پورا سامان ہے ، جس کو کوئی صدمہ پہنچے ، کاش اپنی مصیبتوں میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ایمان افروز تعزیت و نصیحت سے سکون حاصل کریں اور صبر و شکر کو اپنا شعار بنائیں ۔

【143】

امت محمدی ﷺ کے صبر و شکر کا سر چشمہ ان کی عقلیت نہیں بلکہ اللہ تعالی کا فضل اور اس کی خاص عطا ہے

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ام الدرداءؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں ، مجھ سے میرے شوہر ابو الدرداء نے بیان کیا کہ میں نے رسولِ خدا سے سنا ، آپ بیان فرماتے تھے ، کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ سے فرمایا کہ اے عیسیٰ ! میں تمہارے بعد ایک امت پیدا کروں گا جس کی سیرت یہ ہوگی کہ جب ان کو ان کی چاہت اور خواہش کے مطابق نعمتیں ملیں گی تو وہ جذبہ شکر سے معمور ہو کر اللہ کی حمد و ثنا کریں گے ، اور جب اُن پر ناخوشگوار احوال آئیں گے تو وہ صبر سے ان کا استقبال کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کے طالب ہوں گے حالانکہ ان میں (کوئی خاص درجہ کی) بردباری اور دانشمندی نہ ہوگی ۔ حضرت عیسیٰؑ نے عرض کیا کہ ، جب ان میں بردباری اور دانشمندی نہ ہوگی ، تو ان سے خوشحالیوں میں شکر ، اور مصائب پر صبر کیونکر ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں ان کو اپنے حلم اور اپنے علم میں سے کچھ حصہ دوں گا ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح مصیبت میں مایوس ، دل شکستہ اور سراسیمہ ہو جانا اور نعمت اور خوشحالی میں مست ہو کر اپنی اصل حقیقت کو اور خدا کو بھی بھول جانا انسانوں کی عام کمزوری ہے ، اسی کو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : “ إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ﴿١٩﴾ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا﴿٢٠﴾ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ” اب اگر کسی امت اور کسی گروہ کی سیرت ایسی ہو کہ وہ مصیبتوں میں صابر اور نعمتوں پر شاکر ہو ، تو اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص فضل ہے ، اور یہ اس کا بڑا امتیاز ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عام صحابہ اور قرون ما بعد کے صلحاء مومنین کو اللہ تعالیٰ نے جو خاص روحانی صفات عطا فرمائیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو صبر و شکر کی دولت سے بہرہ ور فرمایا ، اور ان کے اس صبر و شکر کا سرچشمہ ان کی عقلیت اور علم کی وسعت نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے اپنے علم و حلم کے کچھ ذرے ان بندوں کو عطا فرما دئیے ہیں ، اور یہ صبر و شکر اسی کے ثمرات ہیں ۔ جس طرح اس امت کے اور بہت سے امتیازات اور خصائص کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء سابقین سے فرمایا ، اسی طرح صبر و شکر میں اس کے امتیاز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تا کہ انہیں معلوم ہو کہ انسانوں کی روحانی تربیت اور سیرت سازی کا جو کام انہوں نے اور ان سے پہلے اللہ کے پیغمبروں نے کیا اس کی تکمیل ان کے بعد آنے والے اللہ کے پیغمبر کے ذریعہ ہونے والی ہے ، اور اس کے نتیجہ میں ایک ایسی امت ظہور میں آنے والی ہے ، جو صبر و شکر کے مقام پر فائز ہوگی ، اور اللہ تعالیٰ کے علم و حلم سے وہ بہرہ یاب ہوگی ۔

【144】

توکل اور رضا بالقضا

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ میری امت میں سے ستر ہزار بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے وہ ، وہ بندگانِ خدا ہوں گے جو منتر نہیں کراتے ، اور شگونِ بد نہیں لیتے ، اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں ۔ (بخاری و مسلم) تشریح ہم انسانوں کو جو حقیقتیں حضرات انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ معلوم ہوئی ہیں ، ان میں سے ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کارخانہ ہستی میں جو کچھ ہوتا ہے اور جس کو جو کچھ ملتا یا نہیں ملتا ہے ، سب براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے ، اور ظاہری اسباب کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے ہم تک پہنچنے کے لیے اللہ ہی کے مقرر کئے ہوئے صرف ذریعے اور راستے ہیں ، جس طرح کھروں میں پانی جن نلوں کے ذریعہ پہنچتا ہے وہ پانی پہنچانے کے صرف راستے ہیں ، پانی کی تقسیم میں ان کا اپنا کوئی دخل اور کوئی حصہ نہیں ہے ، اسی طرح عالمِ وجود میں کار فرمائی اسباب کی بالکل نہیں ہے ، بلکہ کارفرما اور مؤثر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا حکم ہے ۔ اس حقیقت پر دل سے یقین کر کے اپنے تمام مقاصد اور کاموں میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ، اسی سے لو لگانا ، اسی کی قدرت اور اسی کے کرم پر نظر رکھنا ، اسی سے امید یا خوف ہونا اور اسی سے دعا کرنا ، بس اسی طرزِ عمل کا نام دین کی اصطلاح میں توکل ہے ۔ توکل کی اصل حقیقت بس اتنی ہی ہے ۔ ظاہری اسباب و تدابیر کا ترک کر دینا ، یہ توکل کے لیے لازم نہیں ہے ۔ حضرات انبیاء علیہم السلام خاص کر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرامؓاور ہر دور کے عارفین کاملین کا توکل یہی تھا ، یہ سب حضرات اس کارخانہ ہستی کے اسبابی سلسلے کو اللہ تعالیٰ کے امر و حکم کے ماتحت اور اس کی حکمت کا تقاضا جانتے ہوئے عام حالات میں اسباب کا بھی استعمال کرتے تھے ، لیکن دل کا اعتماد اور بھروسہ صرف اللہ ہی کے حکم ہپر ہوتا تھا ، اور جیسا کہ عرض کیا گیا وہ اسباب کو اپنی کے نلوں کی طرح صرف ایک ذریعہ ہی جانتے تھے ، اور اسی واسطے وہ ان اسباب کے استعمال میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے احکام کی تعمیل کا پورا پورا لحاظ رکھتے تھے ، نیز یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی پابن نہیں ہے ، وہ اگر چاہتے تو ان کے بغیر بھی سب کچھ کر سکتا ہے ، اور کبھی کبھی وہ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا مشاہدہ اور تجربہ بھی کرتے تھے ۔ الغرض ترکِ اسباب نہ توکل کی حقیقت میں داخل ہے نہ اس کے لیے شرط ہے ، ہاں اگر غلبہ حال سے اللہ کا کوئی صاحب یقین بندہ ترکِ اسباب کر دے تو قابل اعتراض بھی نہیں ، بلکہ ان کے حق میں یہی کمال ہی ہو گا ، اسی طرح اگر اسباب سے دل کا تعلق توڑنے کے لیے اور بجائے اسباب کے اللہ پر یقین پیدا کرنے کے لیے یا دوسروں کو اس کا مشاہدہ اور تجربہ کرانے کے لیے کوئی بندہ خدا ترکِ اسباب کا رویہ اختیار کر لے ، تو یہ بھی بالکل درست ہو گا ، لیکن توکل کی اصل حقیقت صرف اسی قدر ہے جو اوپر عرض کی گئی ، اور قرآن و حدیث میں اسی کی ترغیب و دعوت دی گئی ہے اور اسی کے حاملین کی مدح و ثنا کی گئی ہے ، اور بلا شبہ یہ توکل ، ایمان اور توحید کے کمال کا لازمی ثمرہ ہے ، جس کو توکل نصیب نہیں یقیناً اس کا ایمان اور اس کی توحید کامل نہیں ہے ۔ پھر توکل سے بھی آگے رضا بالقضا کا مقام ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندے پر جو بھی اچھے یا بُرے احوال آئیں ، وہ یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر حال کا بھیجنے والا میرا مالک ہی ہے ، اس کے حکم اور فیصلہ پر دل سے راضی اور شاد رہے ، اور راحت و عافیت کے دنوں کی طرح تکلیف و مصیبت کی گھڑیوں میں بھی اس کے خدا آشنا دل کی صدا یہی ہو ، کہ : ہر چہ از دوست میرسد نیکوست ان تمہیدی سطروں کے بعد توکل اور رضا بالقضاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیثیں پڑھئے : تشریح ۔ ۔ ۔ اس حدیث کا مطلب صحیح طور پر سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مبعوث ہوئے اس وقت اہل عرب میں دوسری بہت سی چھوٹی بڑی قابلِ اصلاح برائیوں کے علاوہ یہ دو برائیاں بھی عام طور پر رائج تھیں ۔ ایک یہ کہ جب وہ خود یا ان کے بچے کسی بیماری اور دکھ درد میں مبتلا ہوتے ، تو اس وقت کے منتر کرنے والوں سے منتر کراتے اور سمجھتے کہ یہ جنتر منتر دکھ اور بیماری کو بھگانے کی ایک آسان تدبیر ہے (اور یہ منتر عموماً جاہلیت کے زمانہ ہی کے تھے) اور دوسرے یہ کہ جب وہ کوئی ایسا کام کرنے کا ارادہ کرتے جس میں نفع اور نقصان ، ہار اور جیت دونوں کا احتمال ہوتا تو شگون لیتے اور اگر شگون بُرا نکلتا تو سمجھتے کہ یہ کام ہم کو راست نہیں آئے گا ، اس لئے پھر اس کو نہیں کرتے تھے ، الغرض شگون کو بھی وہ نقصان سے بچنے کی ایک آسان تدبیر جانتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں چیزوں کی مختلف موقعوں پر مذمت فرمائی اور تعلیم دی کہ بیماری دور کرنے کے لیے منتر نہ کرائے جائیں ، اور شگونِ بد لینے اور اس کا اثر قبول کرنے کا یہ طریقہ بھی چھوڑا جائے ، اور یقین رکھا جائے کہ بیماری اور تندرستی اور نفع نقصان سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے ، لہذا اس پر بھروسہ کیا جائے اور اپنے مقاصد اور ضروریات کے لیے صرف وہی اسباب اور تدابیر استعمال کی جائیں جو اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہیں ، کیوں کہ اصل کارفرما اور موثر اسباب نہیں ہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کا حکم ہے ، لہذا کسی مقصد کے لیے ایسے اسباب استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ، سخت حماقت ہے ۔ پس اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ جنت میں بے حساب جانے والے یہ بندگانِ خدا وہ ہوں گے جنہوں نے اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کر کے منتر اور شگونِ بد کے ان غلط طریقوں کو چھوڑ دیا ۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ یہ لوگ اسباب کا استعمال مطلقاً ترک کر کے توکل کرنے والے ہوں گے ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، اگر یہ مقصد ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی صراحت فرماتے ، اس موقع پر اسباب میں سے صرف ان ہی دو چیزوں (منتر اور شگونِ بد) کے ذکر کرنے سے (جو کہ شریعت میں خود ہی ممنوع ہیں) صاف معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کا مطلب یہی ہے کہ یہ بندے وہ ہوں گے جو اپنے مقاصد اور ضروریات میں اللہ تعالیٰ ہی پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کی وجہ سے اور اسی کی مشیت اور اسی کے حکم کو اصل کار فرما اور مؤثر سمجھنے کے سبب سے اس اسباب کو استعمال نہیں کرتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ۔ پس یہ حدیث خود ہی اس کی دلیل ہے کہ جو اسباب اللہ تعالیٰ نے جن مقاصد کے لیے اپنی حکمت سے مقرر فرمائے ہیں اور شریعت نے ان کی اجازت دی ہے ان کا ترک کر دینا توکل کا مقتضی نہیں ہے ، بلکہ صرف ان اسباب اور تدابیر کا ترک کرنا توکل کا اقتضا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ، اور شریعت نے جن کو غلط قرار دیا ہے ۔ (۱) البتہ توکل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسباب کو بس ایک راستہ اور اللہ کی حکمت کا پردہ سمجھے اور دل کا تعلق بس اللہ ہی سے ہو ، اور یہی چیز متوکل اور غیر متوکل کے طرزِ عمل میں ایک محسوس فرق بھی پیدا کر دیتی ہے ۔ اس حدیث میں جنت میں بے حساب داخل ہونے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کی تعداد ستر ہزار بتلائی گئی ہے ، یہ تعداد صرف ان کی ہے جو اس فضیلت کے درجہ اول میں مستحق ہوں گے ، ورنہ ایک دوسری حدیث میں یہ اضافہ بھی آیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ستر ستر ہزار اور بھی بے حساب ہی جنت میں داخل کئے جائیں گے ۔ علاوہ ازیں یہ بات کئی دفعہ ذکر کی جا چکی ہے کہ عربی زبان اور محاورات میں یہ عدد صرف کثرت اور غیر معمولی بہتات کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، اور اس حدیث میں بھی غالباً ایسا ہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ یہ حدیث صرف ایک پیشن گوئی اور آخرت میں پیش آنے والے ایک واقعہ کی صرف خبر ہی نہیں ہے بلکہ حدیث کا اصل منشاء یہ ہے کہ آپ کے جن امتیوں کو یہ حدیث پہنچے وہ اپنی زندگی کو توکل والی زندگی بنانے کی کوشش کریں ، تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں بے حساب داخل ہونے والوں کی فہرست میں ان کا نام بھی چڑھ جائے ۔

【145】

توکل اور رضا بالقضا

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ ارشاد فرماتے تھے ، کہ اگر تم لوگ اللہ پر ایسا توکل اور اعتماد کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے ، تو تم کو وہ اس طرح روزی دے جس طرح کہ پرندوں کو دیتا ہے ، وہ صبح کو بھوکے اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس آتے ہیں ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر بنی آدم روزی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ پر ایسا اعتماد اور بھروسہ کریں ، جیسا کہ انہیں کرنا چاہئے تو اللہ کا معاملہ ان کے ساتھ یہ ہو کہ جس طرح وہ چڑیوں کو سہولت سے رزق دیتا ہے کہ انہیں آدمیوں کی سی محنت و مشقت کے بغیر معمولی نقل و حرکت سے روزی مل جاتی ہے ، صبح کو وہ خالی پیٹ نکلتی ہیں اور شام کو پیٹ بھری اپنے آشیانوں میں واپس آتی ہیں ، اسی طرح پھر اللہ تعالیٰ آدمیوں کو بھی سہولت سے رزق پہنچائے اور انہیں زیادہ کدوکاش نہ اٹھانی پڑے ، جیسا کہ اب اٹھانی پڑتی ہے ۔

【146】

رضا بالقضا کا مطلب

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : آدمی کے دل کے لیے ہر میدان میں ایک شاخ ہے (یعنی ہر میدان میں آدمی کے دل کی خواہشیں پھیلی ہوئی ہیں) پس جو آدمی اپنے دل کو ان سب شاخوں اور خواہشوں میں لگا دے گا ، اور فکر کے گھوڑے ہر طرف دوڑائے گا تو اللہ کو پروا نہ ہوگی ، کہ کسی وادی اور کس میدان میں اس کی ہلاکت ہو ، اور جو آدمی اللہ پر بھروسہ کرے (اور اپنی حاجتیں اس کے سپرد کر دے ، اور اپنی زندگی کو اس کا تابع فرمان بنا دے) تو اللہ تعالیٰ اس کی ساری ضرورتوں کے لئے کفایت کرے گا (اور اس کو دل کے اطمینان و سکون کی وہ دولت نصیب ہوگی جو اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے) ۔ تشریح حدیث کا نفس مطلب ترجمہ کے ساتھ واضح کیا جا چکا ہے ، حاصل اور اصل پیغام اس حدیث کا یہ ہے کہ بندہ اپنی ساری ضروریات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے ، اور اس پر توکل اور اعتماد کرے ، اور اس کے احکام کا پابند ہو کر زندگی گزارے ، اور دنیوی ضرورتوں کے سلسلہ میں اپنی جدو جہد کو بھی اس کے احکام کے تحت کر دے ، پھر اللہ اس کے لیے کافی ہو گا اور وہی اس کی ضرورتیں پوری کرتا رہے گا ۔

【147】

رسول اللہ ﷺ کی وصیت کہ اپنی ضرورتوں کیلئے صرف اللہ پر نظر رکھو اور اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھا کہ آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ، اے لڑکے تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ (یعنی اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ ہو) اللہ تعالیٰ تیرا خیال فرمائے گا ، اور دنیا و آخرت کی آفات و بلیات سے تیری حفاظت کرے گا ، تو اللہ کو یاد رکھ ، جیسا کہ یاد رکھنا چاہئے ، اس کو تو اپنے سامنے پائے گا ، اور جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ ، اور جب کسی ضرورت اور مہم میں تو مدد کا محتاج اور طالب ہو تو اللہ ہی سے امداد و اعانت طلب کر ، اور اس بات کو دل میں بٹھا لے کہ اگر ساری انسانی برادری بھی باہم متفق ہو کر اور جڑ کر چاہے کہ تجھ کو کسی چیز سے نفع پہنچائے تو صرف اسی چیز سے تجھ کو نفع پہنچا سکے گی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کر دی ہے ، اس کے سوا کسی چیز سے نہیں اور اسی طرح اگر ساری انسانی دنیا تجھ کو کسی چیز سے نقصان پہنچانا چاہے تو صرف اسی چیز سے نقصان پہنچا سکے گی جس سے نقصان پہنچنا اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی تیرے لئے مقدر کر دیا ہے ، اس کے سوا کسی چیز سے تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکے گا ، اُٹھ چکے قلم اور خشک بھی ہو چکے صحیفے ۔ (مسند احمد و جامع ترمذی) تشریح حدیث کا مطلب و منشاء اور اس کی روح یہی ہے کہ ہر قسم کا نفع و نقصان اور دکھ آرام صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ، اس کے سوا کسی کے بس میں کچھ بھی نہیں ، حتی کہ اگر ساری دنیا کے انسان مل کر کسی بندہ کو کوئی نفع یا نقصان یا دکھ یا آرام پہنچانا چاہیں تب بھی اللہ کے حکم اور اس کے فیصلے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ، وجود میں وہی آئے گا اور وہی ہو گا جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے ، اور قلم تقدیر جس کو اب سے بہت پہلے لکھ کر فارغ ہو چکا ہے ، اور اس کی تحریر خشک بھی ہو چکی ہے ۔ ایسی صورت میں اپنی حاجات کے لیے کسی مخلوق سے سوال کرنا اور اس سے مدد مانگنا صرف نادانی اور گمراہی ہے ۔ لہذا جو مانگنا ہو اللہ وے مانگو اور اپنی حاجات کے لیے اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ ، اور اس سے لینے کی صورت یہ ہے کہ اس کو اور اس کے احکام و حقوق کو یاد رکھو ، وہ تمہیں یاد رکھے گا اور تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا ، اور دنیا و آخرت میں تم پر فضل فرمائے گا ۔ چونکہ کتاب الایمان میں تقدیر کے بیان میں پوری وضاحت اور تفصیل سے بتلایا جا چکا ہے کہ “ تقدیر ” کا مطلب کیا ہے ، اور تقدیر کو ماننے کے باوجود عمل اور تدبیر کی ضرورت کیوں ہے ، اس لیے اس شبہ اور وسوسہ کے متعلق یہاں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ۔ ناظرین میں سے اگر کسی کو اس بارے میں خلجان ہو تو معارف الحدیث حصہ اول میں تقدیر کا بیان پڑھ لیا جائے ۔

【148】

رسول اللہ ﷺ کی وصیت کہ اپنی ضرورتوں کیلئے صرف اللہ پر نظر رکھو اور اسی سے اپنی حاجتیں طلب کرو

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اے لوگو ! نہیں ہے کوئی چیز ایسی جو جنت سے تم کو قریب اور دوزخ سے تم کو بعید کرے ، مگر اس کا حکم میں تم کو دے چکا ہوں ، اور اسی طرح نہیں ہے کوئی چیز ایسی جو دوزخ سے تم کو قریب اور جنت سے بعید کرے ، مگر میں تم کو اس سے منع کر چکا ہوں (یعنی کوئی نیکی اور ثواب کی بات ایسی باقی نہیں رہی جس کی تعلیم میں نے تم کو نہ دے دی ہو ، اور کوئی بدی اور گناہ کی بات ایسی نہیں رہی جس کی میں نے تم کو ممانعت نہ کر دی ہو ، اس طرح اوامر و نواہی کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں ، اور اللہ کے تمام مثبت و منفی احکام جو مجھے ملے تھے وہ میں تم کو پہنچا چکا ہوں) اور الروح الامین نے اور ایک روایت میں ہے کہ روح القدس نے (اور دونوں سے مراد جبرئیل امین ہیں) ابھی میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے (یعنی اللہ کی طرف سے یہ وحی پہنچائی ہے) کہ کوئی متنفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہ کر لے (یعنی ہر شخص کو اس کے مرنے سے پہلے اس کا مقدر رزق ضرور بالضرور مل جاتا ہے ، اور جب تک رزق پورا نہ ہو جائے اُس کو موت آ ہی نہیں سکتی ہے) لہذا اے لوگو ! خدا سے ڈرو اور تلاشِ رزق کے سلسلہ میں نیکی اور پرہیزگاری کا رویہ اختیار کرو ، اور روزی میں کچھ تاخیر ہو جانا تمہیں اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم اللہ کی نافرمانیوں اور نامشروع طریقوں سے اس کے حاصل کرنے کی فکر و کوشش کرنے لگو ، کیوں کہ جو کچھ اللہ کے قبضہ میں ہے وہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گذاری ہی کے ذریعہ اس سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ (شرح السنۃ ، شعب الایمان للبیہقی) تشریح حدیث کا ابتدائی حصہ صرف تمہید ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر دراصل وہی خاص بات اپنے مخاطبین کو بتلانا اور پہنچانا چاہتے تھے جو جبرئیل امینؑ نے اُس وقت آپ کے دل میں ڈالی تھی ، لیکن مخاطبین کے ذہنوں کو پوری طرح متوجہ کرنے کے لیے آپ نے پہلے ارشاد فرمایا کہ لوگو ! حلال و حرام اور گناہ و ثواب کی پوری تعلیم میں تم کو دے چکا ہوں ، اب ایک اہم تکمیلی بات جو ابھی جبرئیل امین نے مجھے پہنچائی ہے ، میں تم کو بتانا چاہتا ہوں ۔ اس تمہید کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے مخاطبین کے ذہنوں کو بیدار اور متوجہ کیا اور اس کے بعد وہ خاص بات ارشاد فرمائی ، جس کا حاصل یہ ہی ہے کہ ہر شخص کا رزق مکتوب اور مقدر ہو چکا ہے ، وہ مرنے سے پہلے پہلے اس کو مل کر رہے گا ، اور جب معاملہ یہ ہی ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ اگر روزی میں کچھ تنگی اور تاخیر بھی ہو جب بھی وہ اس کے حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو ، اور بس میں اس کی نافرمانی ہوتی ہو ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر یقین رکھتے ہوئے صرف حلال اور مشروع طریقوں ہی سے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرے کیوں کہ اللہ کا فضل و انعام اس کی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری ہی کے راستہ سے حاصل کی جا سکتا ہے ۔ اس کو ایک جزئی مثال کے انداز میں آسانی سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ فرض کیجئے اللہ کا کوئی بندہ تنگدستی میں مبتلا ہے اور اس کو اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے ، اس موقع پر وہ ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ سو رہا ہے ، شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس سونے والے شخص کی کوئی چیز اٹھا لے اور ابھی ہاتھ کے ہاتھ بیچ کی روزی حاصل کر لے ، ایسے وقت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم ہے کہ یقین رکھو جو روزی تم کو پہنچنے والی ہے وہ پہنچ کر رہے گی ، پھر کیوں چوری کر کے اپنے اللہ کو ناراض ، اپنے ضمیر اور اپنی روح کو ناپاک ، اور اپنی عاقبت کو خراب کرتے ہو ، بجائے چوری کرنے کے کسی حلال اور جائز ذریعہ سے روزی حاصل کرنے کی کوشش کرو ، حلال کا میدا ہرگز تنگ نہیں ہے ۔

【149】

ایک صحابی اور ان کی بیوی نے سخت حاجتمندی کے وقت اللہ تعالی سے رزق کی دعا کی اور ان کو اسی وقت خزانہ غیب سے رزق ملا

حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں) اللہ کا ایک بندہ اپنے اہل و عیال کے پاس پہنچا جب اس نے ان کو فقر و فاقہ کی حالت میں دیکھا تو (الحاح کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے کے لئے) جنگل کی طرف چل دیا ، جب اس کی نیک بیبی نے دیکھا (کہ شوہر اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لئے گئے ، تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ کر کے اس نے تیاری شروع کر دی) وہ اٹھ کر چکی کے پاس آئی اور اس کو تیار کیا (تا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہیں سے کچھ غلہ آئے تو جلدی سے اس کو پیسا جا سکے) پھر وہ تنور کے پاس گئی اور اس کو گرم کیا (تا کہ آتا پس جانے کے بعد پھر روٹی پکانے میں دیر نہ لگے) پھر اس نے خود بھی دعا کی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے مالک ہمیں رزق دے ۔ اب اس کے بعد اس نے دیکھا کہ چکی کے گردا گرد آٹے کے لئے جو جگہ بنی ہوتی ہے (جس کو چکی کا گرانڈ اور کہیں کہیں چکی کی بھِر بھی کہتے ہیں) وہ آٹے سے بھری ہوئی ہے ، پھر وہ تنور کے پاس گئی تو دیکھا کہ تنور بھی روٹیوں سے بھرا ہوا ہے (اور جتنی روٹیاں اس میں لگ سکتی ہیں ، لگی ہوئی ہیں) اس کے بعد اس بیوی کے شوہر واپس آئے اور بیوی سے پوچھا کہ میرے جانے کے بعد تم نے کچھ پایا ؟ بیوی نے بتایا کہ ہاں ہمیں اپنے پروردگار کی طرف سے ملا ہے (یعنی براہِ راست خزانہ غیب سے اس طرح ملا ہے) یہ سُن کر یہ بھی چکی کے پاس گئے (اور اس کو اٹھا کر دیکھا یعنی تعجب اور شوق میں غالباً اس کا پاٹ اٹھا کر دیکھا) پھر جب یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر یہ اس کو نہ اُٹھا کر نہ دیکھتے تو چکی قیامت تک یوں ہی چلتی رہتی اور اس سے ہمیشہ آٹا نکلتا رہتا ۔ (مسند احمد) تشریح اس روایت میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ خوارق کے قبیل سے ہے ، اس دنیا میں عام طور سے اللہ تعالیٰ کی عطائیں اسباب ہی کے سلسلہ سے ملتی ہیں ، لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ تماشا بھی ظہور میں آتا ہے کہ عالمِ اسباب کے عام دستور کے خلاف براہِ راست اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے ، اس کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ۔ پھر اس قسم کے واقعات اگر اللہ کے کسی پیغمبر کے ہاتھ پہ ظاہر ہوں تو ان کو معجزہ کہا جاتا ہے ، اور اگر ان کے کسی متبع اُمتی کے ہاتھ پہ ایسے واقعہ کا ظہور ہو ، تو اس کو کرامت کہا جاتا ہے ۔ ان دونوں میاں بیوی نے اللہ تعالیٰ پر پوری طرح یقین کر کے اس سے روزی مانگی تھی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس طرح قبول کیا کہ خارقِ عادت طریقہ سے ان کے لئے روزی کا سامان بھیجا ، غیب سے چکی میں آ گیا اور تنور میں روٹیاں لگ گئیں ۔ جو لوگ یقین اور توکل کی دولت سے محروم اور اللہ کی قدرت کی وسعتوں سے نا آشنا ہیں ان کے دلوں میں شاید اس قسم کی روایت پر شبہات اور وساوس پیدا ہوتے ہوں لیکن اللہ کے جن بندوں کو یقین و توکل اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت کا کچھ حصہ ملا ہے ، اُن کے لیے تو ایسے واقعات میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے “ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ” (سورہ طلاق) اور جو کوئی اللہ پر توکل کرے (جیسا کہ توکل کا حق ہے) تو اللہ اس کے لئے اور اس کے کام بنانے کے لئے کافی ہے ۔

【150】

اللہ کے فیصلوں پر دل سے راضی رہنا بندے کی سعادت و خوش نصیبی ہے اور ناراض رہنا شقاوت و بدبختی ہے

حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : آدمی کی نیک بختی اور خوش نصیبی میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جو فیصلہ ہو وہ اُس پر راضی رہے ، اور آدمی کی بدبختی اور بدنصیبی میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے خیر اور بھلائی کا طالب نہ ہو اور اس کی بدنصیبی اور بدبختی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ناخوش ہو ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی) تشریح اللہ کے فیصلہ اور اس کی تقدیر سے بعض اوقات بندہ پر ایسے حالات آتے ہیں جو اُس کی طبیعت اور چاہت کے خلاف ہوتے ہیں ، ایسے موقع پر بندہ کی سعادت اور نیک بختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علیم کل اور حکیم مطلق اور رؤف بالعباد یقین کرتے ہوئے اُس کے فیصلہ پر راضی رہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے “ عَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ” (ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو اور حقیقت اور انجام کے لحاظ سے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو ، اور اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسن کرو اور چاہو اور حقیقت اور انجام کے لحاظ سے اس میں تمہارے لئے برائی اور خرابی ہو ، علمِ حقیقی ٓصرف اللہ کو ہے ، اور تم بے خبر ہو) دوسری بات اس حدیث میں یہ فرمائی گئی ہے کہ بندہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے برابر یہ دعا کرتا رہے کہ اس کے نزدیک بندہ کے لئے جو خیر ہو اُسی کا اس کے لئے فیصلہ کیا جائے حضور نے فرمایا بندہ کا اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر نہ مانگنا بندہ کی بڑی بدنصیبی اور بدبختی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی بدبختی اور بدنصیبی ہے کہ بندہ اللہ کی قضا و قدر اور اس کے فیصلوں سے ناخوش اور ناراض ہو ۔ ظاہر ہے کہ “ رضا بالقضا ” کا یہ مقام بندہ کو جب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی اُن صفات کمال و جمال پر پورا پورا ایمان و یقین حاصل ہو جو قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائی ہیں ، اور پھر اس معرفت اور اس ایمان و یقین کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں رچ بس گئی ہو ۔ ایمان و محبت کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد بندہ کے دل کی صدا یہ ہوتی ہے ؎ زندہ کنی عطائے تو ور بکشی فدائے تودل شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضائے تو

【151】

اخلاص کی حقیقت اور اس کی اہمیت

حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : “ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا ، و لیکن تمہارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے ” ۔ (صحیح مسلم) تشریح اخلاص و للہیت اور نام و نمود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانی دنیا کو اخلاق حسنہ کی جو تعلیم و ہدایت ملی ہے ، اس عاجز کے نزدیک اُس کی تکمیل اخلاص و للہیت کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔ یعنی اخلاص و للہیت کتابِ اخلاق کا آخری تکمیلی سبق اور روحانی و اخلاقی بلندی کا آخری زینہ ہو ۔ اس اخلاص و للہیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھا کام یا کسی کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف اس لئے اور اس نیت سے کیا جائے کہ ہمارا خالق و پروردگار ہم سے راضی ہو ، ہم پر رحمت فرمائے اور اس کی ناراضی اور غضب سے ہم محفوظ رہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ تمام اچھے اعمال و اخلاق کی روح اور جان یہی اخلاصِ نیت ہے ۔ اگر بظاہر اچھے سے اچھے اعمال و اخلاق اس سے خالی ہوں اور اُن کا مقصد رضاءِ الہٰی نہ ہو ، بلکہ نام و نمود یا اور کوئی ایسا ہی جذبہ ان کا محرک اور باعث ہو تو اللہ کے نزدیک ان کی کوئی قیمت نہیں اور اُن پر کوئی ثواب ملنے والا نہیں ۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کا ثواب جو اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کا اصل صلہ اور نتیجہ ہے اور جو انسانوں کا اصل مطلوب و مقصود ہونا چاہئے وہ صرف اعمال و اخلاق پر نہیں ملتا بلکہ جب ملتا ہے جب کہ ان اعمال و اخلاق سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اُخروی ثواب کا ارادہ بھی کیا گیا ہو ، اور وہی ان کے لیے اصل محرک ہو ۔ اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے ، اپنے معاملات میں خود ہمارا بھی یہی اصول ہے ۔ فرض کیجئے کوئی شخص آپ کی بڑی خدمت کرتا ہے ، آپ کو ہر طرح آرام پہنچانے اور خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن پھر کسی ذریعہ سے آپ کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اُسے آپ کے ساتھ کوئی خلوص نہیں ہے بلکہ اُس کا یہ برتاؤ اپنی فلاں ذاتی غرض کے لئے ہے ک ، یا آپ کے کسی دوست یا عزیز قریب سے وہ اپنا کوئی کام نکالنا چاہتا ہے اور صرف اس کے دکھاوے کے لئے آپ کے ساتھ اُس کا یہ برتاؤ ہے ، تو پھر آپ کے دل میں اُس کی اور اس کے اس برتاؤ کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی ۔ بس یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے ، فرق اتنا ہے کہ ہم دوسروں کے دلوں کا حال نہیں جانتے ، اور اللہ تعالیٰ سب کے دلوں اور اُن کی نیتوں کا حال جانتا ہے ، پس اُس کے جن بندوں کا یہ حال ہے کہ وہ اُس کی خوشنودی اور رحمت کی طلب میں اچھے اعمال کرتے ہیں وہ ان کے ان اعمال کو قبول کر کے ان سے راضی ہوتا ہے اور ان پر رحمتیں نازل کرتا ہے ، اور آخرت جو دار الجزا ہے اس میں اُس کی اس رضا اور رحمت کا پورا ظہور ہو گا ۔ اور جو لوگ اچھے اعمال و اخلاق کا مظاہرہ دنیا والوں کی داد و تحسین اور نیک نامی و شہرت طلبی کے لئے یا ایسے ہی دوسرے اغراض و مقاصد کے لئے کرتے ہیں اُن کو یہ دوسرے مقاصد چاہے دنیا میں حاصل ہو جائیں لیکن وہ اللہ کی رضا اور رحمت سے محروم رہیں۔ اور ان کی اس محرومی کا پورا پورا ظہور بھی آخرت میں ہی ہو گا ۔ اس باب میں اصل بنیاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث “ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ” الحدیث ہے ، جو حصہ اول کے بالکل شروع میں درج ہو چکی ہے اور وہیں اس کی تشریح بھی بسط و تفصیل سے کی جا چکی ہے ، اس لئے یہاں اُس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ، اب اُس کے علاوہ اس سلسلہ کی دوسری چند حدیثیں یہاں درج کی جارہی ہیں ، اور ان ہی حدیثوں پر یہ جلد دوم ختم ہو رہی ہے ۔ تشریح ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبولیت کا معیار کسی کی شکل و صورت یا اُس کی دولت مندی نہیں ہے ، بلکہ دل کی درستی اور نیک کرداری ہے ، وہ کسی بندے کے لیے رضا اور رحمت کا فیصلہ اُس کی شکل و صورت یا اس کی دولت مندی کی بنیاد پر نہیں کرتا ، بلکہ اس کے دل یعنی اس کی نیت کے صحیح رُخ اور اس کی نیک کرداری کی بنیاد پر کرتا ہے ۔ بلکہ اس حدیث کی بعض رواویتوں میں بجائے مذکورہ بالا الفاظ کے یہ الفاظ ہیں : إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى اَجْسَادِكُمْ وَلَا اِلَى صُوَرِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ (جمع الفوائد ج 2 ص 160) “ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں اور تمہارے صرف ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتا ، بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ” ۔ یہ الفاظ اس حقیقت کے ادا کرنے کے لیے زیادہ واضح اور زیادہ صریح ہیں کہ مقبولیت کا اصل دارو مدار دل کے رخ کی صحت یعنی نیت کی درستی پر ہے ، پس اگر کسی شخص کا عمل بظاہر اچھے سے اچھا ہو لیکن اس کا دل اخلاص سے خالی ہو ، اور اس کی نیت درست نہ ہو ، تو وہ عمل ہرگز قبول نہ ہو گا ۔

【152】

اخلاص کی برکت اور تاثیر و طاقت

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ : “ تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ اُن کو مینہ (بارش) نے آ لیا ، وہ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے ، پہاڑ سے غار کے منہ پر ایک پتھر کی چٹان آ پڑی اور غار کو بند کر دیا ، تینوں میں سے ایک نے دوسروں سے کہا ، اپنے اُن نیک عملوں پر نظر ڈالو جو خاص طور پر خدا کے لئے کئے ہوں ، اور اُس عمل کے وسیلہ سے خدا سے دعا مانگو ، اُمید ہے کہ خدا وند تعالیٰ اس پتھر یا اس مصیبت کو دور کر دے ۔ ایک نے ان میں سے کہا اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میرے کئی چھوٹے بچے تھے ، میں بکریاں وغیرہ چرایا کرتا تھا کہ ان کا دودھ ان سب کو پلاؤں جب شام ہو جاتی تو میں گھر آتا دودھ دوہتا اور سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا پھر بچوں کو دیتا ، ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ چراگاہ کے درخت مجھ کو دُور لے گئے (یعنی بکریوں کو چراتا چراتا میں دور نکل گیا) اور وقت پر میں گھر واپس نہ آ سکا یہاں تک کہ شام ہو گئی ، جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ میرے ماں باپ دونوں سو گئے ہیں ، میں نے حسب معمول دودھ دوہا پھر دودھ کا برتن لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا ، اور اُن کے سرہانے کھڑا ہوگیا ، مجھ کو اُن کو جگانا بھی بُرا معلوم ہوا ، اور یہ بھی کہ ماں باپ سے پہلے بچوں کو دودھ پلا دوں ، بچے میرے پاؤں کے پاس پڑے بھوک سے روتے اور چلاتے تھے ، اور میں دودھ لئے کھڑا تھا ، صبح تک یہی کیفیت رہی یعنی میں دودھ لئے کھڑا رہا ، اور بچے روتے رہے ، اور ماں باپ پڑے سوتے رہے ، اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ اگر میں میں نے یہ کام محض تیری رضا مندی اور خوشنودی کے لئے کیا تھا تو تو اس پتھر کو اتنا کھول دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ آسمان نظر آنے لگا ۔ دوسرے شخص نے کہا اے اللہ ! میرے چچا کی ایک بیٹی تھی میں اُس سے انتہائی محبت رکھتا تھا ، ایسی محبت جیسی کسی مرد کو کسی عورت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے ، میں نے اُس سے جماع کی خواہش ظاہر کی ، اُس نے کہا کہ جب تک سو اشرفی نہ دو گے ایسا نہیں ہو سکتا ، میں نے کوشش شروع کی ، اور سو اشرفیاں جمع کر لیں ، اور اُن کو لیکر میں اُس کے پاس پہنچا ، پھر جب میں اُس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا (یعنی جماع کے لئے) تو اُس نے کہا کہ اے خدا کے بندے خدا سے ڈر اور مُہر کو نہ توڑ ! میں خدا کے خوف سے فوراً اٹھ کھڑا ہوا (یعنی اُس سے جماع نہیں کیا) اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک میرا یہ فعل محض تیری رضا مندی اور خوشنودی کے لئے تھا تو اس پتھر کو ہٹا دے اور ہمارے لئے راستہ کھول دے ، خداوند تعالیٰ نے پتھر کو تھوڑا سا اور ہٹا دیا ۔ تیسرے شخص نے کہا اے اللہ ! میں نے ایک شخص کو مزدوری پر لگایا تھا ، ایک فرق (پیمانہ) چاول کے معاوضہ پر ، جب وہ شخص اپنا کام ختم کر چکا تو کہا میری مزدوری مجھ کو دلوائیے ؟ میں اُس کی مزدوری دینے لگا تو وہ اس کو چھوڑ کر چلا گیا ، اور پھر اپنے حق کو لینے کے لئے نہ آیا ، تو میں نے اس کی مزدوری کے چاولوں سے کاشت شروع کر دی ، اور ہمیشہ کاشت کرتا رہا ، یہاں تک کہ اُن چاولوں کی قیمت سے میں نے بہت سے بیل اور اُن کے چرواہے جمع کر لئے ۔ پھر مدت کے بعد وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہا ، خدا سے ڈر اور مجھ پر ظلم نہ کر ، اور میرا حق میرے حوالہ کر ، میں نے کہا کہ ان بیلوں اور چرواہوں کو لے جا (کہ وہ تیرا حق ہے) اُس نے کہا خدا سے ڈر اور مجھ سے مذاق نہ کر ، میں نے کہا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا ، ان بیلوں اور چرواہوں کو لے جا ، یہ سب تیرے ہی ہیں ، چنانچہ اُس نے اُن سب کو جمع کیا اور لے کر چلا گیا ۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک میرا یہی فعل محض تیری خوشنودی اور رضا مندی کے لئے تھا ، تو تو اس پتھر کو بالکل ہٹا دے ، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے پتھر کو ہٹا دیا اور راستہ کھول دیا ” ۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تین صاحبوں کا قصہ بیان فرمایا ہے ، بظاہر کسی اگلے پیغمبر کے امتی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سبق آموزی کے لئے اس قصہ کو بیان فرمایا ۔ اس واقعہ میں اللہ کے ان بندوں نے اپنے جن اعمال کو خدا کے حضور میں پیش کر کے اُس سے دعا کی ہے اُن کی چند خصوصیتیں قابلِ لحاظ ہیں ۔ سب سے پہلی اور سب سے اہم خصوصیت جس کا حدیث میں صراحۃً ذکر بھی ہے یہ ہے کہ تینوں عمل صرف اللہ کی رضا جوئی میں کئے گئے تھے اور ان اعمال کی اسی خصوصیت کی بنا پر ان بندوں نے اللہ کے حضور میں ان کو پیش کیا تھا ۔ دوسری ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ تینوں عمل اللہ کے حکم و مرضی کے مقابلے میں اپنے نفس کی چاہت کو دبانے اور قربان کرنے کی اعلیٰ مثال ہیں ۔ ذرا سوچئے پہلے شخص کا مجاہدہ نفس کتنا سخت ہے ، دن بھر وہ جانوروں کو جنگل میں چراتا رہا ہے ، اور شام کو دیر سے تھکا ہارا آیا ہے ، قدرتی طور پر اس کا جی سونے کو بے حد چاہتا ہو گا ۔ بلکہ وہ سونے کے لئے مضطر اور بے قرار ہو گا ، لیکن چونکہ ماں باپ بلا دودھ پئے سو گئے تھے ، اور یہ اللہ کی رضا اسی میں سمجھتا تھا کہ جس وقت نیند سے ان کی آنکھ کھلے ، یہ اُن کو دودھ پلا دے ، اس لئے یہ شخص رات بھر دودھ کا برتن ہاتھ میں لئے ان کے سرہانے کھڑا رہا ۔ اور پھر اس کے بچے اس کے قدموں میں پڑے بھوک سے روتے چلاتے رہے ، لیکن اس نے ماں باپ کے حق کو مقدم جان کر اللہ ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ مجاہدہ بھی کیا کہ بوڑھے ماں باپ سے پہلے اپنے پیارے بچوں کو بھی دودھ نہ پلایا ، یہاں تک کہ اسی حال میں صبح ہو گئی ۔ اسی طرح دوسرے شخص کے عمل کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہے ۔ ایکجوان ایک لڑکی سے عشق رکھتا ہے اور جب ایک بیش قرار رقم طے ہو جاتی ہے ، اور کسی طرح وہ رقم مہیا کر کے اس کو دے بھی دیتا ہے اور زندگی کی سب سے بڑی تمنا پوری کرنے کا اُسے پورا موقع مل جاتا ہے اور کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی ، تو ٹھیک اُس وقت اللہ کا نام بیچ میں آتا ہے اور وہ بندہ اپنے نفس کی خواہش پوری کئے بغیر اللہ سے ڈر کر اور اس کی رضا طلبی میں اُٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ ہر نفس رکھنے والا انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ کتنا سخت مجاہدہ ہے ، اور اللہ کی رضا کے مقابلے میں خواہش نفس قربان کرنے کی یہ کتنی اعلیٰ مثال ہے ۔ اسی طرح تیسرے شخص کے عمل کی یہ خصوصیت بھی ظاہر ہے ۔ ایک مزدور کے چند سیر چاول ایک شخص کے پاس رہ گئے اُس نے انہی چاولوں کو اپنی زمین میں بو دیا ، پھر جو پیداوار ہوئی اس کو اس نے اُسی مزدور کی ملکیت قرار دے کر اُسی کے حساب میں اُس کو لگاتا اور بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس سے اتنی دولت فراہم ہو گئی ، کہ جانوروں کا ایک ریوڑ کا ریوڑ ہوگیا ۔ پھر جب کچھ مدت کے بعد وہ مزدور آیا تو اس امانت دار اور نیک کردار بندہ نے وہ ساری دولت جو خود اس کی اپنی محنت اور توجہ سے فراہم ہوئی تھی وہ سب کی سب اُس مزدور کے حوالہ کر دی ، ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ اُس وقت شیطان نے دل میں کیسے کیسے وسوسے ڈالے ہوں گے ، اور اپنے نفس کی یہ کتنی شدید خواہش ہوگی کہ یہ دولت جو صرف اپنی محنت سے پیدا کی گئی ہے ، اور جس کا اُس مزدور کو کئی علم بھی نہیں ہے ، اس کو اپنے ہی پاس رکھا جائے لیکن اللہ کے اس بندے نے رضا الہٰی کی طلب میں اپنے نفس کی اس خواہش کو قربان کیا اور وہ ساری دولت اس بے چارے مزدور کے حوالے کر دی ۔ اسی طرح ان تینوں عملوں کی ایک خصوصیت یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اصطلاحی اور عرفی عبادت نہیں ہے ، بلکہ ایک کا تعلق بابِ معاشرت سے ہے ، ایک کا بابِ معاملت سے اور ایک کی نوعیت یہ ہے کہ اللہ کے ایک بندہ نے خدا سے ڈر کر اور اس کی رضا جوئی میں ایک ایسے گناہ کو چھوڑا ہے جو اُس کی انتہائی تمنا اور خواہش تھی اور جس کے سارے اسباب بھی اُس نے فراہم کر لئے تھے ۔ اس حدیث سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ اگر بندہ اپنے کسی نیک عمل کے متعلق یہ اندازہ رکھتا ہو کہ وہ اخلاص کی کیفیت کے ساتھ ادا ہوا ہے تو اپنی دعا میں بطور وسیلہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اُس کو پیش کر سکتا ہے ۔ اخلاص و للہیت (یعنی ہر نیک عمل کا اللہ کی رضا اور رحمت کی طلب میں کرنا) جس طرح ایمان و توحید کا تقاضا اور عمل کی جان ہے اسی طرح ریا و سمعہ یعنی مخلوق کے دکھاوے اور دنیا میں شہرت اور ناموری کے لئے نیک عمل کرنا ایمان و توحید کے منافی اور ایک قسم کا شرک ہے ۔

【153】

ریا ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق ہے

شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرماتے تھے ، جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اُس نے شرک کیا ، اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ خیرات کیا اُس نے شرک کیا ۔ (مسند احمد) تشریح حقیقی شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات یا اس کے افعال اور اس کے خاص حقوق میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے یا اللہ کے سوا کسی اور کی بھی عبادت کی جائے ، یہ وہ “ شرک حقیقی ” اور “ شرک جلی ” اور “ شرک اکبر ” ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں اعلان فرمایا گیا ہے ، اور ہم مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اس کا کرنے والا ہرگز ہرگز نہیں بخشا جائے گا ۔ لیکن بعض اعمال اور اخلاق ایسے بھی ہیں جو اگرچہ اس معنی کے شرک نہیں ہیں لیکن اُن میں اس شرک کا تھوڑا بہت شائبہ ہے ، اُن ہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اللہ کی عبادت یا کوئی اور نیک کام اللہ کی رضا جوئی اور اس کی رحمت طلبی کے بجائے لوگوں کے دکھاوے کے لیے کرے ، یعنی اس غرض سے کرے کہ لوگ اس کو عبادت گذار اور نیکو کار سمجھیں اور اس کے معتقد ہو جائیں ، اسی کو ریا کہا جاتا ہے ، یہ اگرچہ حقیقی شرک نہیں ہے لیکن ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق اور سخت درجہ کا گناہ ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں اس کو “ شرک خفی ” اور ایک اور حدیث میں “ شرک اصغر ” کہا گیا ہے ۔ (یہ دونوں حدیثیں آگے درج کی جا رہی ہیں) ۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں نماز ، روزہ اور صدقہ و خیرات کا ذکر صرف مثال کے طور پر کیا گیا ہے ، ورنہ ان کے علاوہ بھی جو نیک عمل لوگوں کے دکھاوے کے لئے اور ان کی نظروں میں معزز و محترم بننے کے لئے یا اُن سے کوئی دنیوی فائدہ ھاصل کرنے کے لئے کیا جائے گا وہ بھی ایک درجہ کا شرک ہی ہو گا ، اور اس کا کرنے والا بجائے ثواب کے خدا کے سخت عذاب کا مستحق ہو گا ۔

【154】

ریا ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق ہے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے حجرہ مبارک سے) نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اُس وقت ہم لوگ آپس میں مسیح دجال کا کچھ تذکرہ کر رہے تھے ، تو آپ نے ہم سے فرمایا ، کیا میں تم کو وہ چیز بتاؤں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے ، ہم نے عرض کیا ، حضور ! ضرور بتلائیں وہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ شرک خفی ہے (جس کی ایک مثال یہ ہے) کہ آدمی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو ، پھر اپنی نماز کو اس لئے لمبا کر دے کہ کوئی آدمی اس کو نماز پڑھتا دیکھ رہا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب غالباً یہ تھا کہ دجال جس کھلے شرک و کفر کی دعوت دے گا اور جس کے لئے وہ لوگوں کو مجبور کرے گا ، مجھے اس کا زیادہ خطرہ نہیں ہے کہ میرا کوئی سچا امتی اس کی بات ماننے کے لئے آمادہ ہو گا ، لیکن مجھے اس کا خطرہ ضرور ہے کہ شیطان تم کو کسی ایسے شرک میں مبتلا کر دے جو بالکل کھلا ہوا شرک نہ ہو ، بلکہ خفی قسم کا شرک ہو ، جس کی مثال آپ نے یہ دی کہ نماز اس لئے لمبی اور بہتر پڑھی جائے کہ دیکھنے والے معتقد ہو جائیں ۔ سنن ابن ماجہ ہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی امت کے شرک میں مبتلا ہونے کا خطرہ ظاہر فرمایا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا کہ آپ کے بعد آپ کی امت شرک میں مبتلا ہو جائے ؟ آپ نے فرمایا : یہ تو اطمینان ہے کہ میرے امتی چاند سورج کو اور پتھروں اور بتوں کو نہیں پوجیں گے ، لیکن یہ ہو سکتا ہے اور ہو گا کہ ریا والے شرک میں وہ مبتلا ہوں ۔

【155】

ریا ایک درجہ کا شرک اور ایک قسم کا نفاق ہے

محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ “ شرک اصغر ” کا ہے ۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! “ شرک اصغر ” کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ، ریا (یعنی کوئی نیک کام لوگوں کے دکھاوے کے لئے کرنا) (مسند احمد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا اصل مقصد و منشاء اپنے امتیوں کو اس خطرہ سے خبردار کرنا ہے تا کہ وہ ہوشیار رہیں ، اور اس خفیہ قسم کے شرک سے بھی اپنے دلوں کی حفاظت کرتے رہیں ، ایسا نہ ہو کہ شیطان ان کو اس خفی قسم کے شرک میں مبتلا کر کے تباہ کر دے ۔

【156】

جس عمل میں شرک کی ذرا بھی آمیزش ہوگی وہ قبول نہ ہو گا

حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں شرک اور شرکت سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں (یعنی جس طرح اور شرکاء شرکت پر راضی ہو جاتے ہیں اور اپنے ساتھ کسی کی شرکت منظور کر لیتے ہیں ، اسی طرح میں راضی نہیں ہوتا ، اور کسی کی ادنیٰ شرکت گوارا نہیں کر سکتا ، ہر قسم کی شرکت سے بالکل نے نیاز اور سخت بیزار ہوں) پس جو شخص کوئی عمل (عبادت وغیرہ) کرے جس میں میرے ساتھ کسی اور سے بھی کچھ شریک کرے (یعنی اس سے اس کی غرض میری رضا اور رحمت کے علاوہ کسی اور کو بھی کچھ حاصل کرنا یا زس کو معتقد بنانا ہو) تو میں اس کو اور اس کے شریک کو دونوں کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ میں اُس سے بیزار اور بے تعلق ہوں ، وہ عمل (میرے لئے بالکل نہیں بلکہ) صرف اس دوسرے کے لئے ہے جس کے لئے اُس نے کیا (یعنی جس کو اُس نے شریک کیا) ۔ (صحیح مسلم)

【157】

جس عمل میں شرک کی ذرا بھی آمیزش ہوگی وہ قبول نہ ہو گا

ابو سعید بن ابی فضالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے سب آدمیوں (اولین و آخرین) کو جمع کرے گا تو ایک منادی یہ اعلان کرے گا ، کہ جس شخص نے اپنے کسی ایسے عمل میں جو اس نے اللہ کے لیے کیا کسی اور کو بھی شریک کیا تھا وہ اس کا ثواب اسی دوسرے سے جا کر طلب کرے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ سب شرکاء سے زیادہ نے نیاز ہے شرک سے ۔ (مسند احمد) تشریح دونوں حدیثوں کا حاصل اور پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف اس نیک عمل کو قبول کرتا ہے اور اسی پر ثواب دے گا جو اخلاص کی کیفیت کے ساتھ صرف اس کی رضا اور رحمت کی طلب میں کیا گیا ہو ، اور اس کے برخلاف جس عمل سے اللہ کے سوا کسی اور کی بھی خوشنودی یا اس سے کسی قسم کی نفع اندوزی مطلوب و مقصود ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہ کرے گا ، وہ نہایت بے نیاز اور شرک کی لگاوٹ سے بھی بیزار ہے ۔ یہ انجام تو ان اعمال کا ہے جو اللہ کے لیے کئے جائیں لیکن نیت میں پورا خلوص نہ ہو بلکہ کسی طور پر اللہ کے سوا کسی اور کی بھی لگاوٹ ہو لیکن جو “ نیک اعمال ” محض ریاکارانہ طور پر کئے جائیں ، جن سے صرف نام و نمود ، دکھاواو اور شہرت اور لوگوں سے خراجِ عقیدت وصول کرنا ہی مقصود ہو تو وہ نہ صرف یہ کہ مردود قرار دے کر ان عمل کرنے والوں کے منہ پر مار دئیے جائیں گے ، بلکہ یہ ریاکار اپنے ان ہی اعمال کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔

【158】

ریاکاروں کو فضیحت اور رسوائی کی سزا

حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص کوئی عمل سنانے اور شہرت دینے کے لیے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو شہرت دے گا اور جو کوئی دکھاوے کے لیے کوئی نیک عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو خوب دکھائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ دکھاوے اور شہرت کی غرض سے نیک اعمال کرنے والوں کو ایک سزا اُن کے اس عمل کی مناسبت سے یہ بھی دی جائے گی کہ ان کی اس ریاکاری اور منافقت کو خوب مشہور کیا جائے گا اور سب کو مشاہدہ کرایا جائے گا کہ یہ بدبخت لوگ یہ نیک اعمال اللہ کے لیے نہیں کرتے تھے ، بلکہ نام و نمود اور دکھاوے اور شہرت کے لیے کیا کرتے تھے ۔ الغرض جہنم کے عذاب سے پہلے ان کو ایک سزا یہ ملے گی کہ سرِ محشر ان کی ریاکاری اور منافقت کا پردہ چاک کر کے سب کو ان کی بدباطنی دکھا دی جائے گی ۔ اللهم احفظنا !

【159】

دین کے نام پر دنیا کمانے والے ریاکاروں کو سخت تنبیہ

حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانہ میں کچھ ایسے مکار لوگ پیدا ہوں گے جو دین کی آڑ میں دنیا کا شکار کریں گے ، وہ لوگوں پر اپنی درویشی اور مسکینی ظاہر کرنے اور ان کو متاثر کرنے کے لیے بھیڑوں کی کھال کا لباس پہنیں گے ، ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی ، مگر ان کے سینوں میں بھیڑیوں کے سے دل ہوں گے ، (ان کے بارے میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ، کیا یہ لوگ میرے ڈھیل دینے سے دھوکہ کھا رہے ہیں ، یا مجھ سے نڈر ہر کر میرے مقابلے میں جرأت کر رہے ہیں ، پس مجھے اپنی قسم ہے کہ میں ان مکاروں پر انہی میں سے ایسا فتنہ کھڑا کروں گا جو اُن کے عقلمندوں اور داناؤں کو بھی حیران بنا کے چھوڑے گا ۔ (جامع ترمذی) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ریاکاری کی یہ خاص قسم کہ عابدوں زاہدوں کی صورت بنا کر اور اپنے اندرونی حال کے بالکل برعکس اُن خاصان خدا کی سی نرم و شیریں باتیں کر کر کے اللہ کے سادہ لوح بندوں کو اپنی عقیدت کے جال میں پھانسا جائے ، اور ان سے دنیا کمائی جائے ، بدترین قسم کی ریا کاری ہے ، اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی تنبیہ ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اس دنیا میں بھی سخت فتنوں میں مبتلا کئے جائیں گے ۔

【160】

ریاکار عابدوں اور عالموں کو جہنم کا سخت ترین عذاب

حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم لوگ “ جب الحزن ” (غم کے کنوئیں یا غم کے خندق) سے پناہ مانگا کرو ۔ بعض صحابہ نے عرض کیا ، حضرت ! جب الحزن کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا ، جہنم میں ایک وادی (یا خندق) ہے (جس کا حال اتنا برا ہے کہ) خود جہنم ہر دن میں چار سو مرتبہ اُس سے پناہ مانگتی ہے ۔ عرض کیا گیا ، یا رسول اللہ ! اُس میں کون لوگ جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا ، وہ بڑے عبادت گذار اور یا وہ زیادہ قرآن پڑھنے والے جو دوسروں کو دکھانے کے لئے اچھے اعمال کرتے ہیں ۔ (جامع ترمذی) تشریح جہنم کے اس خندق جب الحزن میں ڈالے جانے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے “ القراء ” کا لفظ بولا ہے ، اس کے معنی زیادہ عبادت کرنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں ، اور قرآن کے علم اور قرآن پڑھنے میں خصوصیت اور امتیاز رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جہنم کے اس خاص کنوئیں یا خندق میں وہ لوگ جھونکے جائین گے جو بظاہر اعلیٰ درجہ کے دیندار ، علم قرآن کے سرمایہ دار اور بڑے عبادت گذار ہوں گے لیکن حقیقت میں اور باطن کے لحاظ سے اُن کی یہ ساری دینداری اور عبادت گذاری ریاکارانہ ہوگی ۔

【161】

قیامت کے دن دوزخ میں ڈالے جانے کا پہلا فیصلہ ریا کار عالم و عابد ، ریا کار مجاہد و شہید اور ریاکار سخی کے بارہ میں کیا جائے گا

حضرت ابو رہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلا شخص جس کے خلاف قیامت کے دن (دوزخ میں ڈالے جانے کا) فیصلہ عدالتِ خداوندی کی طرف سے دیا جائے گا ایک آدمی ہو گا جو (میدان جہاد میں) شہید کیا گیا ہو گا ، یہ شخص خدا کے سامنے لایا جائے گا ، پھر خداوند تعالیٰ اُس کو بتائے گا کہ میں نے تجھے کیا کیا نعمتیں دی تھیں ، وہ اللہ کی دی ہوئی سب نعمتوں کا اقرار کرے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا بتا تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ (اور کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا) وہ کہے گا (میں نے آخری عمل یہ کیا ہے) کہ میں نے تیری راہ میں جہاد کیا ، یہاں تک کہ میں شہید کر دیا گیا (اور اس طرح میں نے سب سے عزیز اور قیمتی چیز اپنی جان بھی تیری راہ میں قربان کر دی) اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ کہتا ہے تو نے تو جہاد میں حصہ اس لئے اور اس نیت سے لیا تھا کہ تیری بہادری کے چرچے ہوں ، سو (تیرا یہ مقصد حاصل ہو چکا اور دنیا میں) تیری بہادری کے چرچے ہو لئے ، پھر اُس کے لئے خداوندی حکم ہو گا اور وہ اوندھے منہ گھسیٹ کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ اور اسی کے ساتھ ایک دوسرا شخص ہو گا جس نے علم دین حاصل کیا ہو گا ، اور دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی ہوگی اور قرآن بھی خوب پڑھا ہو گا ، اس کو بھی خدا کے سامنے پیش کیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اُس کو بھی اپنی بخشی ہوئی نعمتیں بتائے گا وہ سب کا اقرار کرے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا بتا تو نے میری ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ (اور کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا) وہ کہے گا خدا وندا ! میں نے آپ کا علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور آپ ہی کی رضااکے لئے آپ کی کتابِ پاک قرآن میں مشغول رہا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے یہ بات جھوٹ کہی ، ہے تو نے تو علم دین اس لئے حاصل کیا تھا اور قرآن تو اس لئے پڑھتا تھا تا کہ تجھ کو عالم و قاری اور عابد کہا جائے ، سو (تیرا یہ مقصد حاصل ہو چکا اور دنیا میں) تیرے عالم و عابد اور قارئ قرآن ہونے کا چرچا ہو لیا ، پھر اُس کے لئے خدا تعالیٰ کا حکم ہو گا اور وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹ کے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ اور اسی کے ساتھ ایک تیسرا شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے بھرپور دولت دی ہوگی ، اور ہر طرح کا مال اس کو دیا ہو گا ، وہ بھی خدا کے سامنے پیش کیا جائے گا ، اللہ تعالیٰ اُس کو بھی اپنی نعمتیں بتلائے گا (کہ میں نے دنیا میں تجھے یہ یہ نعمتیں دی تھیں) وہ سب کا اقرار کرے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اس سے بھی پوچھے گا بتا تو نے میری ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ (اور کن مقاصد کے لیے ان کو استعمال کیا) وہ عرض کرے گا خدا وند ا ! جس جس راستہ میں اور جن جن کاموں میں خرچ کرنا تجھے پسند ہے میں نے تیرا دیا ہوا مال اُن سب ہی میں خرچ کیا ہے ، اور صرف تیری رضا جوئی کے لیے خرچ کیا ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے یہ جھوٹ کہا ، درحقیقت یہ سب کچھ تو نے اس لئے کیا تھا کہ کہ دنیا میں تو سخی مشہور ہو (اور تیری فیاضی اور داد و دہش کے چرچے ہوں) سو (تیرا یہ مقصد تجھے حاصل ہوگیا ، اور دنیا میں) تیری فیاضی اور داد و دہش کے چرچے خوب ہو لئے ، پھر اللہ تعوالیٰ کی طرف سے اُس کے لئے بھی حکم ہو گا اور وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹ کے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ (صحیح مسلم) تشریح العظمة لله ! کس قدر لرزا دینے والی یہ حدیث ، اس کی بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت کبھی کبھی بے ہوش ہو جاتے تھے ۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ اُن کے سامنے یہ حدیث بیان کی گئی تو وہ بہت روئے ، اور روتے روتے بے حال ہو گئے ۔ اس حدیث میں جن تین اعمال کا ذکر ہے ، یعنی علم دین کی تحصیل و تعلیم ، قرآن مجید میں مشغولیت اور راہِ خدا میں جانی اور مالی قربانی ۔ ظاہر ہے کہ یہ تینوں اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہیں ، اور اگر اخلاص کے ساتھ یہ عمل ہوں تو پھر ان کا صلہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے اعلیٰ درجات ہیں لیکن یہی اعمال جب دکھاوے اور شہرت کے لیے یا اسی قسم کے دوسرے دنیوی مقاصد کے لئے کئے جائیں تو اللہ کے نزدیک یہ اس درجہ کے گناہ ہیں کہ دوسرے سب گنہگاروں (چوروں ، ڈاکوؤں اور زناکاروں) سے بھی پہلے جہنم کا فیصلہ ان ہی کے لئے کیا جائے گا ، اور یہی سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جائیں گے ۔ اللهم احفظنا !

【162】

اعمالِ صالحہ کی وجہ سے لوگوں میں اچھی شہرت ، اللہ کی ایک نعمت ہے

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا ارشاد ہے ، ایسے شخص کے بارے میں جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ؟ اور ایک روایت میں ہے کہ پوچھنے والے نے یوں عرض کیا کہ کیا ارشاد ہے ایسے شخص کے بارے میں جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا ، یہ تو مؤمن بندہ کی نقد بشارت ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح ریا اور شہرت طلبی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالا قسم کے ارشادات نے صحابہ کرامؓ کو اتنا ڈرایا دیا تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ شبہ ہونے لگا کہ جس نیک عمل پر دنیا کے لوگ عمل کرنے والے کی تعریفیں کریں اور اس کی نیکی کا چرچا ہو ، اور لوگ اس کو اللہ کا نیک بندہ سمجھ کر اس سے محبت کرنے لگیں ، تو شاید وہ عمل بھی اللہ کے یہاں مقبول نہ ہو گا ، کیوں کہ اس عمل کرنے والے کو دنیا میں شہرت اور محبت کا صلہ ہی مل گیا ۔ اسی کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا “ تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ ” جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی نیک عملی کی شہرت ہو جانا اور لوگوں کا اس کی تعریف یا اس سے محبت کرنا کوئی بری بات نہیں ہے ، بلکہ سمجھنا چاہئے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آخرت میں ملنے والے اصل انعام سے پہلے اس دنیا میں نقد صلہ اس بندہ کی مقبولیت و محبوبیت کی ایک خوشخبری کی علامت ہے ۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کو ایک دفعہ یہ واقعہ پیش آیا کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ رہے تھے ، اسی حال میں ایک شخص آیا اور اس نے ان کو نماز پڑھتا ہوا دیکھا ، وہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس بات سے خوشی پیدا ہوئی کہ اس شخص نے مجھے نماز جیسے اچھے کام میں مشغول پایا ، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا (تا کہ خدانخواستہ اگر یہ بھی ریاکاری کی کوئی شاخ ہو تو اس سے توبہ و استغفار کیا جائے) آپ نے ان کو اطمینان دلایا کہ یہ ریا نہیں ہے بلکہ تم کو اس صورت میں خود کی نیکی کا بھی ثواب ملے گا اور جلوت کی نیکی کا بھی ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو اعمالِ صالحہ اخلاص کے ساتھ اللہ ہی کے لئے کئے جائیں ، لیکن عمل کرنے والے کے ارادہ اور کوشش کے بغیر اللہ کے دوسرے بندوں کو ان کا علم ہو جائے اور پھر اُس کو اس سے خوشی ہو ، تو یہ اخلاص کے منافی نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی نیک عمل اس لئے لوگوں کے سامنے کرتا ہے کہ وہ اس کی اقتدار کریں اور اس کو سیکھیں تو یہ بھی ریا نہ ہو گا بلکہ اس صورت میں اللہ کے اس بندہ کو تعلیم و تبلیغ کا بھی ثواب ملے گا ، بہت سی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اعمال میں یہ مقصد بھی ملحوظ ہوتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقتِ اخلاص نصیب فرمائے ، اپنا مخلص بندہ بنائے اور ریا سمعہ جیسے مہلکات سے ہمارے قلوب کی حفاظت فرمائے ۔ اَللَّهُمَّ آمِيْن ! ۔ حصہ دوم مکمل ہوا فَالْحَمْدُ لِلهِ الَّذِىْ بِعَزَّتِهِ وَجَلَالِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ