6. کتاب الزکوٰۃ

【1】

ایمان اور نماز کے بعد زکوٰۃ کی دعوت

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی الله عنہ کو یمن کی طرف بھیجا (رو رخصت کرتے ہوئے ان سے) فرمایا : کہ تم ایک صاحبِ کتاب قوم کے پاس پہنچو گے ، (جب تم ان کے پاس پہنچو) تو (سب سے پہلے) ان کو اس کی دعوت دینا کہ وہ (اس حقیقت کو مانیں اور) اس کی شہادت ادا کریں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو تم ان کو بتلانا کہ اللہ نے تم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، پھر اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو بتلانا کہ اللہ نے ان پر صدقہ (زکوٰۃ) فرض کی ہے ، جو ان میں کے مالداروں سے وصول کی جائے گی اور انہی میں کے فقراء و غرباء کو دےدی جائے گی پھر اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو (زکوٰۃ کی اس وصولیابی کے سلسلے میں چھانٹ چھاٹ کے) ان کے اچھے نفیس اموال لینے سے پرہیز کرنا (بلکہ اوسط کے حساب سے وصول کرنا ، اور اس کے بارے میں کوئی ظلم و زیادتی کسی پر نہ کرنا) اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا ، کیوں کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک نہیں ہے۔ (وہ بلا روک ٹوک سیدھی بارگاہِ خداوندی میں پہنچتی ہے اور قبول ہوتی ہے) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بسم اللہ الرحمن الرحیم دین میں زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کا مقام یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے ۔ قرآن مجید میں ستر سے زیادہ مقامات پر اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ان دونوں کا مقام اور درجہ قریب قریب ایک ہی ہے ۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض علاقوں کے ایسے لوگوں نے جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے اور توحید و رسالت کا اقرار کرتے اور نمازیں پڑھتے تھے زکوٰۃ سے انکار کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کا اسی بنیاد پر فیصلہ کیا تھا کہ یہ نماز اور زکوٰۃ کے حکم میں تفریق کرتے ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے انحراف اور ارتداد ہے ..... صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مشہور روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا : وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ خدا کی قسم نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو لوگ تفریق کریں گے ، میں ضرور ان کے خلاف جہاد کروں گا ۔ پھر تمام صحابہ کرامؓ نے ان کے اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا اور اس پر سب کا اجماع ہو گیا ۔ اسی سلسلہ “ معارف الحدیث ” کی پہلی جلد کے بالکل شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیثیں ذکر کی جا چکی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ارکان اور بنیادی احکام و مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے توحید و رسالت کی شہادت کے بعد اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ ہی کا ذکر کیا ہے ۔ بہر حال قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و خطبات میں اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر عموماً اس طرح ساتھ ساتھ کیا گیا ہے جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا درجہ قریب قریب ایک ہی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی خاص رابطہ ہے ۔ زکوٰۃ کے تین پہلو زکوٰۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو ہیں : ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل و نیاز مندی کا مظاہر جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و رحمت اور اس کا قرب اس کو حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اسکی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کو سمجھتا اور یقین کرتا ہے ، اور اسکی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے ..... زکوٰۃ کا شمار “ عبادات ” میں اس پہلو سے ہے ۔ دین و شریعت کی خاص اصطلاح میں “ عبادات ” (جیسے کہ پہلے بھی اپنے موقع پر ذکر کیا جا چکا ہے) بندے کے انہی اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا خاص مقصد و موضوع اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی عبدیت اور بندگی کے تعلق کو ظاہر کرنا اور اس کے ذریعہ اس کا رحم و کرم اور اس کا قرب ڈھونڈھنا ہو ۔ دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت و اعانت ہوتی ہے ۔ اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے ۔ تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے ، زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے ۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا (سوره توبه ، 103 : 9) اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے جس کے ذریعہ ان کے قلوب کی تطہیر اور ان کے نفوس کی تطہیر اور ان کے نفوس کا تزکیہ ہو ۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ہے : وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ۰۰۱۷ الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى ۚ۰۰۱۸ (سورة الليل) اور اس آتش دوزخ سے نہایت متقی بندہ دور رکھا جائے گا جو اپنا مال راہ خدا میں اس لیے دیتا ہو کہ اس کی روح اور اس کے دل کو پاکیزگی حاصل ہو ۔ بلکہ زکوٰۃ کا نام غالباً اسی پہلو سے زکوٰۃ رکھا گیا ہے ، کیوں کہ زکوٰۃ کے اصل معنی ہی پاکیزگی کے ہیں ۔ زکوٰۃ کا حکم اگلی شریعتوں میں زکوٰۃ کی اس غیر معمولی اہمیت اور افادیت کی وجہ سے اس کا حکم اگلے پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی نماز کے ساتھ ہی ساتھ برابر رہا ہے ۔ سورہ انبیاء میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسحٰق اور پھر ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے : وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِيْنَۚۙ۰۰۷۳ (سوره انبياء 3 : 21) اور ہم نے ان کو حکم بھیجا نیکیوں کے کرنے کا (خاص کر) نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا اور وہ ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔ اور سورہ مریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے : وَ كَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ (مريم 55 : 19) اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ۔ اور اسرائیلی سلسلے کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کے متعلق ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے فرمایا : اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاۙ۰۰۳۰ وَّ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا٢۪ۖ۰۰۳۱ (سوره مريم 31 : 19) میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے اور نبی بنایا ہے اور میں جہاں کہیں میں ہوں مجھے اس نے بابرکت بنایا ہے اور جب تک میں زندہ رہوں گا مجھے نماز اور زکوٰة کی وصیت فرمائی ہے۔ اور سورہ بقرہ میں جہاں بنی اسرائیل کے ایمانی میثاق اور بنیادی احکام کا ذکر کیا گیا ہے جن کی ادائیگی اور ان سے عہد لیا گیا تھا ان میں ایک حکم یہ بھی بیان کیا گیا ہے : وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ (سوره بقره 83 : 2) اور نماز قائم کرتے رہنا اور زکوٰۃ ادا کیا کرنا ۔ اسی طرح جہاں سورہ مائدہ میں بنی اسرائیل کے اس عہد و میثاق کا ذکر کیا گیا ہے ، وہاں یہ بھی فرمایا گیا ہے : وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي پھر اللہ نے فرمایا میں (اپنی مدد کے ساتھ) تمہارے ساتھ ہوں اگر تم قائم کرتے رہے نماز اور ادا کرتے رہے زکوٰة اور ایمان لاتے رہے میرے رسولوں پر ۔ قرآن مجید کی ان آیات سے ظاہر ہے کہ نماز اور زکوٰۃ ہمیشہ سے آسمانی شریعتوں کے خاص ارکان اور شعائر رہے ہیں ، ہاں ان کے حدود اور تفصیلی احکام و تعینات میں فرق رہا ، اور یہ فرق تو خود ہماری شریعت کے بھی ابتدائی اور آخری تکمیلی دور میں رہا ہے ۔ مثلاً یہ کہ پہلے نماز تین وقت کی تھی پھر پانچ وقت کی ہو گئی اور مثلاً یہ کہ پہلے ہر فرض نماز صرف دو رکعت پڑھی جاتی تھی پھر فجر کے علاوہ باقی چاروں وقتوں میں رکعتیں بڑھ گئیں ، اورمثلاً یہ کہ ابتدائی دور میں نماز پڑھے ہوئے سلام کلام کی اجازت تھی اس کے بعد اس کی ممانعت ہو گئی ۔ اسی طرح ہجرت سے پہلے مکہ کے زمانہ قیام میں زکوٰۃ کا حکم تھا ۔ (چنانچہ سورہ مومنون ، سورہ نمل ، اور سورہ لقمان) کی بالکل ابتدائی آیتوں میں اہل ایمان کی لازمی صفات کے طور پر اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے ۔ حالانکہ یہ تینوں سورتیں مکی دور کی ہیں) لیکن اس دور میں زکوٰۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ اللہ کے حاجت مند بندوں پر اور خیر کی دوسری راہوں میں اپنی کمائی صرف کی جائے ۔ نظام زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اس وقت نہیں آئے تھے وہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں آئے ۔ پس جن مورخین اور مصنفین نے یہ لکھا ہے کہ زکوٰۃ کا حکم ہجرت ک ے بعد دوسرے سال میں یا اس کے بھی بعد میں آیا ، اس کا مطلب غالباً یہی ہے کہ اس کی حدود تعینات اور تفصیلی احکام اس وقت آئے ، ورنہ زکوٰۃ کا مطلق حکم تو یقیناً اسلام کے ابتدائی دور میں ہجرت سے کافی پہلے آ چکا تھا ۔ یہ بات قرآن مجید کی محولہ بالا مکی سورتوں کی ان آیات کے علاوہ جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کی اس سے بھی ثابت ہوتی ہے جس میں انہوں نے حبشہ کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سوال کے جواب میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تعلیم کے بارے میں ان کے یہ الفاظ بھی ہیں : وَيَامُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ ..... الخ اور وہ ہمیں نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ۔ اور یہ معلوم ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے بہت پہلے اسلام کے ابتدائی دور میں حبشہ جا چکے تھے ۔ اسی طرح صحیح بخاری وغیرہ کی روایت کے مطابق شاہ روم کے سوال کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق (اس وقت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید دشمن) ابو سفیان کا بیان کہ : وَيَامُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ ..... الخ وہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے ہیں ، اور صلہ رحمی اور پاکدامنی کی ہدایت کرتے ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے مککہ معظمہ کے زمانہ قیام میں بھی نماز اور زکوٰۃ کی دعوت دیتے تھے ..... ہاں نظام زکوٰۃ کے تفصیلی مسائل اور حدود و تعینات ہجرت کے بعد آئے ، اور مرکزی طور پر اس کی تحصیل وصول کا نظام تو ۸؁ھ کے بعد قائم ہوا ..... اس تمہید کے بعد زکوٰۃ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھئے ۔ تشریح ..... یہ حدیث اگرچہ اس سلسلہ معارف الحدیث کی پہلی جلد کتاب الایمان میں گذر چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح بھی کافی تفصیل سے کی جا چکی ہے لیکن امام بخاریؒ وغیرہ کے طریقے پر یہی مناسب معلوم ہوا کہ کتاب الزکاۃ کا آغاز بھی اسی حدیث سے کیا جائے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی اور قاضی بنا کر بھیجنے کا یہ واقعہ جس کا ذکر اس حدیث میں ہے اکثر علماء اور اہل سیر کی تحقیق کے مطابق ۹؁ھ کا ہے اور امام بخاری اور بعض دوسرے اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ۱۰؁ھ کا واقعہ ہے ۔ یمن میں اگرچہ اہل کتاب کے علاوہ بت پرست مشرکین بھی تھے ، لیکن اہل کتاب کی خاص اہمیت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا اور اسلام کی دعوت و تبلیغٖ کا یہ حکیمانہ اصول تعلیم فرمایا کہ اسلام کے سارے احکام و مطالبات ایک ساتھ مخاطبین کے سامنے نہ رکھے جائیں ، اس صورت میں اسلام نہیں بہت کٹھن اور ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہو گا ، اس لیے پہلے ان کے سامنے اسلام کی اعتقادی بنیاد صرف توحید و رسالت کی شہادت رکھی جائے جس کو ہر معقولیت پسند اور ہر سلیم الفطرت اور نیک دل انسان آسانی سے ماننے پرآمادہ ہو سکتا ہے ، خصوصاً اہل کتاب کے لیے وہ جانی بوجھی بات ہے ..... پھر جب مخاطب کا ذہن اور دل اس کو قبول کر لے اور وہ اس فطری اور بنیادی بات کو مان لے تو اس کے سامنے فریضہ نماز رکھا جائے جو جانی ، جسمانی اور زبانی عبادت کا نہایت حسین اور بہترین مرقع ہے اور جب وہ اس کو قبول کر لے تو اس کے سامنے فریضہ زکوٰۃ رکھا جائے اور اس کے بارے میں خصوصیت سے یہ وضاحت کر دی جائے کہ یہ زکوٰۃ اور صدقہ اسلام کا داعی اور مبلغ تم سے اپنے لئے نہیں مانگتا بلکہ ایک مقررہ حساب اور قاعدے کے مطابق جس قوم اور علاقہ کے دولت مندوں سے یہ لی جائے گی اسی قوم اور علاقہ کے پریشان حال ضرورت مندوں میں خرچ کر دی جائے گی ۔ دعوت اسلام کے بارے میں اس ہدایت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ تاکید بھی فرمائی کہ زکوٰۃ کی وصولی میں پورے انصاف سے کام لیا جائے ، ان کے مویشی اور ان کی پیداوار میں بھی چھانٹ چھانٹ کے بہتر مال نہ لیا جائے ۔ سب سے آخر میں نصیحت فرمائی کہ تم ایک علاقے کے حاکم اور والی بن کر جا رہے ہو ، ظلم و زیادتی سے بہت بچنا ، اللہ کا مظلوم بندہ جب ظالم کے حق میں بد دعا کرتا ہے تو وہ سیدھی عرش پر پہنچتی ہے ؎ بہ ترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید اس حدیث میں دعوت اسلام کے سلسلے میں صرف شہادت توحید و رسالت ، نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے ، اسلام کے دوسرے احکام حتیٰ کے روزہ اور حج کا بھی ذکر نہیں فرمایا گیا ہے ، جو نماز اور زکوٰۃ ہی کی طرح اسلام کی ارکان خمسہ میں سے ہیں ، حالانکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جس زمانہ میں یمن بھیجے گئے ہیں روزہ اور حج دونو۳ں کی فرضیت کا حکم آ چکا تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مقصد دعوت اسلام کے اصول اور حکیمانہ طریقے کی تعلیم دینا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان تین ارکان کا ذکر فرمایا ، اگر ارکان اسلام کی تعلیم دینا مقصود ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب ارکان کا ذکر فرماتے ، لیکن حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اس کی تعلیم کی ضرورت نہیں تھی ، وہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو علم دین میں خاص امتیاز رکھتے تھے ۔

【2】

زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذاب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا فرمائی اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو وہ دولت قیامت کے دن اس آدمی کے سامنے ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا۔ جس کے انتہائی زہریلے پن سے اس کے سر کے بال جھڑ گئے ہوں اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں ۔ (جس سانپ میں یہ دو باتیں پائی جائیں ، وہ انتہائی زہریلا سمجھا جاتا ہے) پھر وہ سانپ اس (زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے بخیل) کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا (یعنی اس کے گلے میں لپٹ جائے گا) پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا (اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیری دولت ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ “ اور نہ گمان کریں وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اس مال و دولت میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کرم سے ان کو دیا ہے (اور اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتے) کہ وہ مال و دولت ان کے حق میں بہتر ہے۔ بلکہ انجام کے لحاظ سے وہ ان کے لیے بدتر ہے اور شر ہے ۔ قیامت کے دن ان کے گلوں میں طوق بنا کے ڈالی جائے گی وہ دولت جس میں میں انہوں نے بخل کیا ۔ “ (اور جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی) ۔ (اور جامع ترمذی ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ میں قریب قریب یہی مضمون لفظوں کے معمولی فرق کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی مروی ہے) ۔ تشریح قرآن و حدیث میں خاص خاص اعمال کی جو مخصوص جزائیں یا سزائیں بیان کی گئی ییں ان اعمال اور ان کی ان جزاؤں اور سزاؤں میں ہمیشہ کوئی خاص مناسبت ہوتی ہے ۔ بعض اوقات وہ ایسی واضح ہوتی ہے جس کا سمجھنا ہم جیسے عوام کے لیے بھی زیادہ مشکل نہیں ہوتا اور کبھی کبھی وہ ایسی دقیق اور خفی مناسبت ہوتی ہے جس کو صرف خواص عرفاء اور امت کے اذکیاء ہی سمجھ سکتے ہیں..... اس حدیث میں زکوٰۃ نہ دینے کے گناہ کی جو خاص سزا بیان ہوئی ہے یعنی اس دولت کا ایک زہریلے ناگ کی شکل میں اس کے گلے میں لپٹ جانا اور اس کی دونوں باچھوں کو کاٹنا یقیناً اس گناہ اور اس کی اس سزا میں بھی ایک خاص مناسبت ہے یہ وہی لطیف مناسبت ہے جس کی وجہ سے اس بخیل آدمی کی جو حب مال کی وجہ سے اپنی دولت سے چمٹا رہے اور خرچ کرنے کے موقعوں پر خرچ نہ کرے ، کہتے ہیں کہ وہ اپنی دولت اور اپنے خزانے پہ سانپ بنا بیٹھا رہتا ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے بخیل و خسیس آدمی کبھی کبھی اس طرح کے خواب بھی دیکھتے ہیں ۔ اس حدیث میں نیز آل عمران کی مندرجہ بالا آیت میں یوم القیمۃ کا جو لفظ ہے ، اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ عذاب دوزخ یا جنت کے فیصلے سے پہلے محشر میں ہو گا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک دوسری میں (جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے) زکوٰۃ ادانہ کرنے والے ایک خاص طبقہ کے اسی طرح کے اییک خاص عذاب کے بیان کے ساتھ آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں : ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ ، ‏‏‏‏‏‏فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ ، ‏‏‏‏‏‏وَإِمَّا إِلَى النَّارِ اس عذاب کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حساب کتاب کے بعد بندوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس فیصلے کے بعد یہ آدمی یا جنت کی طرف چلا جائے گا یا دوزخ کی طرف (جیسا بھی اس کے حق میں فیصلہ ہو گا) ۔ یعنی جتنا عذاب و حساب وہ آخری فیصلہ سے پہلے اٹھا چکے گا اگر اس کی بد اعمالی کی سزا کے لیے اللہ کے نزدیک وہی کافی ہو گا تو اس کے بعد اس کی چھٹی اور نجات مل جائے گی اور وہ جنت میں بھیج دیا جائے گا ، اور اگر محشر کے اس عذاب سے اس کا حساب بے باق نہ ہوا ہو گا تو مزید سزا اور عذاب پانے کے لیے وہ دوزخ میں بھی بھیجا جائے گا ۔ اللهم احفظنا واغفر لنا ولا تعذبنا ۔ قیامت اور جنت دوزخ کے عذاب و ثواب کے بارے میں جو اصولی باتیں معارف الحدیث جلد اول میں لکھی جا چکی ہیں جن حضرات کی نظر سے نہ گزری ہوں وہ ان کا ضرور مطالعہ کریں ، ان چیزوں کے بارے میں جو ذہنی الجھنیں بہت سوں کے لیے خلجان کا باعث بنتی ہیں ، انشاء اللہ اس کے مطالعہ سے دور ہو جائیں گی ۔

【3】

زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذاب

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مال زکوٰۃ جب دوسرے مال میں مخلوط ہو گا تو ضرور اس کو تباہ کر دے گا ۔ (مسند شافعی ، تاریخ کبیر ، بخاری ، مسند حمیدی) تشریح امام حمیدیؒ جو امام بخاریؒ کے استاد ہیں انہوں نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کر کے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی آدمی پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ اس کو ادا نہ کرے تو بے برکتی سے اس کا باقی مال بھی تباہ ہو جائے گا ۔ (1) اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں امام احمد بن حنبلؒ کی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہی روایت نقل کر کے لکھا ہے کہ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب اور مصداق یہ ہے کہ اگر ایک غنی آدمی (جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے) غلط طریقے پر زکوٰۃ وصول کر لے تو یہ زکوٰۃ اس کے باقی مال میں شامل ہو کر اس کو بھی تباہ کر دے گی .... راقم سطور عرض کرتا ہے کہ حدیث کے الفاظ میں ان دونوں تشریحوں کی گنجائش ہے ، اور ان دونوں میں کوئی تناقض اور منافات بھی نہیں ہے ۔

【4】

زکوٰۃ ، مال کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب (سورہ توبہ) کی یہ آیت نازل ہوئی : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ. اور جو لوگ سونا چاندی (وغیرہ مال و دولت) بطور ذخیرے کے جمع کرتے اور جوڑتے رہتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان کو (پرستاران دولت کو آخرت کے) درد ناک عذاب کی خبر سنادیجئے (یہ عذاب انہیں اس دن ہو گا) جس دن کہ ان کی جمع کردہ دولت کو آگ میں تپایا جائے گا۔ پھر ان سے ان کے ماتھے ، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور ان سے) کہا جائے گاکہ یہ ہے (تمہاری وہ دولت) جس کو تم نے اپنے لیے جوڑا تھا اور ذخیرہ کیا تھا ، پس مزہ چکھو تم اپنی دولت اندوزی کا ۔ (تو جب یہ آیت نازل ہوئی جس میں ذخیرے کے طور پر مال و دولت جمع کرنے والوں کے لیے آخرت کے سخت درد ناک عذاب کی وعید ہے) تو صحابہ رضی اللہ عنہم پر اس کا بہت بوجھ پڑا (اور وہ بڑی فکر میں پڑ گئے) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا : تمہاری اس فکر اور پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کروں گا ، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیاکہ حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کے صحابہ پر اس آیت کا بڑا بوجھ ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ پاک نے زکاۃ تو اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کی ادائیگی کے بعد جو مال باقی رہ جائے وہ پاک ہو جائے اور (اسی طرح) اور میراث کا قانون اس لیے مقرر کیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہاں ایک کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا جو مجھے یاد نہیں رہا (لیکن میراث کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میراث کا قانون اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ) تمہارے پسمندگان کے لیے سہارا ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر خوشی میں) کہا اللہ اکبر ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : میں تم کو وہ بہترین دولت بتاؤں جو اس کی مستحق ہے کہ اس کو حاصل کیا جائے اور قدر کے ساتھ رکھا جائے وہ نیک خصلت اور صالح زندگی والی رفیقہ حیات ہے جس کو آدمی دیکھے تو وہ روح اور دل خوش ہو اور اس سے کسی کام کو کہے تو وہ اطاعت کرے اور اس کو انجام دے ، اور جب شوہر کہیں باہر جائے تو اس کے عدم موجودگی میں اس کے گھر بار اور ہر امانت کی حفاظت کرے “ ۔ تشریح سورہ توبہ کی جس آیت کا حدیث میں ذکر ہے جب وہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے ظاہری الفاظ اور انداز سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب اور مطالبہ یہ ہے کہ اپنی کمائی میں سے کچھ بھی پس انداز نہ کیا جائے اور دولت بالکل ہی جمع نہ کی جائے ، جو ہو سب خدا کی راہ میں خرچ کر دیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ بات انسانوں کے لیے بہت ہی بھاری اور بڑی دشوار ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں استفسار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو مال و دولت جمع کریں اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کریں ، لیکن زکوٰۃ ادا کی جائے تو پھر باقی مال حلال اور طیب ہو جاتا ہے .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ اس کے نکالنے سے باقی مال پاک ہو جائے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا : اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قانون میراث اس لیے رکھا ہے کہ آدمی کے اٹھ جانے کے بعد اس کے پسماندگان کے لیے ایک سہارا ہو .... اس جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اگر پس انداز کرنا اور مال و دولت کا جمع کرنا مطلقاً منع ہوتا تو شریعت میں زکوٰۃ کا حکم اور میراث کا حکم ہی نہ ہوتا ، کیوں کہ شریعت کے ان دونوں حکموں کا تعلق جمع شدہ مال ہی سے ہھ ، اگر مال و دولت رکھنے کی بالکل اجازت نہ ہو تو زکوٰۃ اور میراث کا سوال ہی پیدا نہ ہو گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصل سوال کے جواب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذہنی تربیت کے لیے ایک مزید بات یہ بھی فرمائی کہ مال و زر سے زیادہ کام آنے والی چیز جو اس دنیا میں دل کے سکون اور روح کی راحت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ، اچھی صاحب صلاح ، نیک سیرت اور اطاعت شعار رفیقہ حیات ہے ، اس کی قدر مال و دولت سے بھی زیادہ کرو ، اور اس کو اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت سمجھو .... یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اس لیے فرمائی کہ اس دور میں عورتوں کی بڑی ناقدری اور ان کے ساتھ بڑی بے انصافی کی جاتی تھی ۔

【5】

کم سے کم کتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہے؟

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں پر زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے ، اور پانچ راس اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم) تشریح زکوٰۃ کے تفصیلی احکام اور ضوابط زکوٰۃ کی اجمالی اور بنیادی حقیقت تو یہی ہے کہ اپنی دولت اور اپنی کمائی میں سے اللہ کی رضا کے لیے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے .... (وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ) اور جیسا کہ عنقریب میں ہی ذکر کیا جا چکا ہے ، اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں یہی مجمل حکم تھا ۔ بعد میں اس کے تفصیلی احکام آئے اور ضوابط مقرر ہوئے ۔ مثلاً یہ کہ مال کی کن اقسام پر زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ کم از کم کتنے پر زکوۃ واجب ہو گی ، کتنی مدت گزر جانے کے بعد واجب ہو گی ، کن کن راہوں میں وہ خرچ ہو سکے گا ۔ اب وہ حدیثیں پڑھی جائیں جن میں زکوٰۃ کے یہ تفصیلی احکام اور ضوابط بیان فرمائے گئے ہیں ۔ تشریح ..... عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خاص کر مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں جو لوگ خوش حال اور دولت مند ہوتے تھے ان کے پاس دولت زیادہ تر تین جنسوں میں سے کسی جنس کی صورت میں ہوتی تھی ۔ یا تو ان کے باغوں کی پیداوار اور کھجوروں کی شکل میں ، یا چاندی کی شکل میں ، یا اونٹوں کی شکل میں .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ان تینوں جنسوں کا نصاب زکوٰۃ بیان فرمایا ہے ۔ یعنی ان چیزوں کی کم سے کم کتنی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہو گی .... کھجوروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ پانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ، ایک سوق قریباً چھ من ہوتا ہے ، اس حساب پانچ وسق کھجوریں تیس من کے قریب ہوں گی ، اور چاندی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ، ایک اوقیہ چاندی چالیس رہم کے برابر ہوتی ہے ، اس بناء پر پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہو گی ۔ جس کا وزن مشہور قول کی بناء پر ساڑھے باون تولے ہوتا ہے ۔ اور اونٹوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ پانچ راسوں سے کم میں زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔ اس حدیث میں صرف ان ہی تین جنسوں میں زکوٰۃ واجب ہونے کا کم سے کم نصاسب بیان فرمایا گیا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ پانچ وسق (۳۰ من) کھجوریں ایک مختصر گھرانے کے سال بھر کے گذارے کے لیے کافی ہو جاتی ہیں ، اسی طرح دو سو درہم میں سال بھر کا خرچ چل سکتا ہے اور مالیت کے لحاظ سے قریب قریب یہی حیثیت پانچ اونٹوں کی ہوتی ہے ، اس لیے مقدار کے مالک کو خوش حال اور صاحب مال قرار دے کر زکوٰۃ واجب کر دی گئی ہے ۔

【6】

کم سے کم کتنے مال پر زکوٰۃ فرض ہے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” گھوڑوں میں اور غلاموں میں زکاۃ واجب نہیں کی گئی ہے پس ادا کرو تم زکاۃ چاندی کی ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم ، اور ایک سو نوے درہم میں کچھ واجب نہیں ہے ، اور جب دو سو پورے ہو جائیں تو ان میں سے پانچ درہم واجب ہوں گے “ ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد) تشریح گھوڑے اور غلام اگر کسی کے پاس تجارت کے لیے ہوں تو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی آگے درج ہونے والی حدیث کے مطابق ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہو گی ۔ لیکن اگر تجارت کے لیے نہ ہوں بلکہ سواری کے لیے اور خدمت کے لیے ہوں تو خواہ ان کی قیمت کتنی ہی ہو ان پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں غلاموں اور گھوڑوں پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے کا جو بیان ہے اس کا تعلق اسی صورت مین سے ہے .... آگے چاندی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جب تک کسی کے پاس پورے دو سو درہم برابر چاندی نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو گی اور دو سو درہم کے بقدر ہو جانے پر (۴۰/۱) کے حساب سے پانچ درہم ادا کرنے ہوں گے ۔

【7】

اموالِ تجارت پر زکوٰۃ

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم کو حکم تھا کہ ہم ہر اس چیز میں زکوٰۃ نکالیں جو ہم نے بیع و فروخت (یعنی تجارت) کے لیے مہیا کی ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی جس مال کی بھی تجارت اور سودا گری کرے اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی ۔

【8】

سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہو گی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی کو کسی راہ سے مال حاصل ہو تو اس پر اس کی زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہیں ہو گی جب تک اس مال پر سال نہ گزر جائے ۔ (جامع ترمذی)

【9】

زیورات پر زکوٰۃ کا حکم

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون اپنی ایک لڑکی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اور اس لڑکی کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے اور بھاری کنگن تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم ان کنگنوں کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا کہ : میں اس کی زکوٰۃ تو نہیں دیتی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو کیا تمہارے لیے یہ بات خوشی کی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کنگنوں کی (زکوٰۃ نہ دینے کی) وجہ سے قیامت کے دن آگ کے کنگن پہنائے؟ اللہ کی اس بندی نے وہ دونوں کنگن ہاتھوں سے اتار کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دئیے اور عرض کیا کہ : اب یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

【10】

زیورات پر زکوٰۃ کا حکم

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کے “ اوضاح ” (ایک خاص زیور کا نام ہے) پہنتی تھی ، میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ بھی اس “ کنز ” میں داخل ہے؟ (جس پر سورہ توبہ کی آیت وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ .... الاية میں دوزخ کی وعید آئی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکاۃ ادا کرنے کا حکم ہو ، پھر حکم کے مطابق اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے۔ (موطا امام مالک ، سنن ابی داؤد) تشریح ان حدیثوں ہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ سونے چاندی کے زیورات پر (اگر وہ بقدر نصاب ہوں) زکوٰۃ فرض ہونے کے قائل ہیں لیکن دوسرے ائمہ امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں فرض ہے جب وہ تجارت کے لیے ہوں ، یا مال کو محفوظ کرنے کے لیے بنوائے گئے ہوں ، لیکن جو زیورات صرف استعمال اور آرائش کے لیے ہوں ، ان ائمہ کے نزدیک ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے بھی مختلف رہی ہے ۔ لیکن احادیث سے زیادہ تائید امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کی ہوتی ہے ۔ اسی لیے بعض شافعی المسالک علماء محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفی مسلک کو ترجیح دی ہے ۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازیؒ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ظاہر نصوص اسی کی تائید کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

【11】

زکوٰۃ پیشگی بھی ادا کی جا سکتی ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے پیشگی اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی اجازت دے دی ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی)

【12】

زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین

زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ، زیاد نے اس موقع پر ایک طویل حدیث ذکر کی ، اور اسی سلسلہ میں یہ واقعہ نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرمائیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ : اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو نہ تو کسی نبی کی مرضی پر چھوڑا ہے اور نہ کسی غیر نبی کی مرضی پر ، بلکہ خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے اور ان کے آٹھ حصے (یعنی آٹھ قسمیں) کر دی ہیں تو اگر تم ان قسموں میں سے کسی قسم کے آدمی ہو تو میں زکوٰۃ میں سے تم کو دے دوں گا “ ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مصارف زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کا حوالہ دیا ہے وہ سورہ توبہ کی اس آیت میں مذکور ہے : إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ (سورہ توبہ ۶۰ : ۹) زکوٰة بس حق ہے مفلسوں اور محتاجوں کا اور تحصیل وصول کا کام کرنے والوں کا اور مؤلفۃ القلوب کا ، اور نیز وہ صرف کی جا سکتی ہے غلاموں کی آزادی دلانے اور ان کی گلو خلاصی کرانے اور ان لوگوں کی مدد میں جو قرض وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہوں ، اور (اسی طرح) مجاہدوں اور مسافروں کی مدد میں ۔ فقراء : یعنی عام غریب اور مفلس لوگ .... فقیر عربی زبان میں غنی کے مقابلے میں بولا جاتا ہے ، اس لحاظ سے وہ تمام ٖغریب لوگ اس میں آ جاتے ہیں جو غنی نہیں ہیں (یعنی جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے) ۔ شریعت میں غناء کا معیار ییہ ہے ۔ کتاب الزکوٰۃ کے بالکل شروع میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں زکوٰۃ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے ۔ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ اِلَى فُقَرَائِهِمْ مساکین : وہ حاجت مند جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہ ہو ار بالکل خالی ہاتھ ہوں ۔ عاملین : یعنی زکوٰۃ کی تحصیل وصول کرنے والا عملہ .... یہ لوگ اگر بالفرض غنی بھی ہوں جب بھی ان کی محنت اور ان کے وقت کا معاوضہ زکوٰۃ سے دیا جا سکتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی دستور تھا ۔ مؤلفۃ القلوب : ایسے لوگ جن کی تالیف قلب اور دلجوئی اہم دینی و ملی مصالح کے لیے ضروری ہو ، وہ اگر دولت مند بھی ہوں تب بھی اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کی مد سے ان پر خرچ کیا جا سکتا ہے ۔ رقاب : یعنی غلاموں اور باندیوں کی آزادی اور گلو خلاصی .... اس مد میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے ۔ غارمین : جن لوگوں پر کوئی ایسا مالی بار آ پڑا ہو ، جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہ ہو ، جیسے اپنی مالی حیثیت سے زیادہ قرض کا بوجھ یا کوئی دوسرا مالی تاوان .... ان لوگوں کی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے ۔ فی سبیل اللہ : علماء اور ائمہ کے نزدیک اس سے مراد دین کی نصرت و حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے کی ضروریات ہیں ۔ ابن السبیل : اس سے مراد وہ مسافر ہیں جنہیں مسافرت میں ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت ہو ۔ زیاد بن حارث صدائی کی اس حدیث میں جن صاحب کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرما دیجئے ! انہیں جواب دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف خود ہی مقرر فرما دئیے ہیں ، اگر تم ان میں سے کسی طبقہ میں داخل ہو تو میں دے سکتا ہوں ، اور اگر ایسا نہیں ہے پھر مجھے یہ حق اور اختیار نہیں ہے کہ اس مد میں سے تم کو کچھ دے سکوں ..... (یہاں صرف حدیث کی تشریح اور تفہیم کے لیے مصارف کا مختصر بیان کر دیا گیا ہے ۔ تفصیلی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھے جائیں ، یا علماء و اصحاب فتویٰ سے دریافت کئے جائیں) ۔

【13】

زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اصلی مسکین (جس کی صدقہ سے مدد کرنی چاہئے) وہ آدمی نہیں ہے جو (مانگنے کے لیے) لوگوں کے پاس آتا جاتا ہے (در در پھرتا ہے اور سائلانہ چکر لگاتا ہے) اور دو لقمے یا دو ایک دو کھجوریں (جب اس کے ہاتھ میں رکھ دی جاتی ہیں تو) لے کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ بلکہ اصل مسکین وہ بندہ ہے جس کے پاس جس کے پاس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کا سامان بھی نہیں ہے ۔ اور (چونکہ وہ اپنے اس حال کو لوگوں سے چھپاتا ہے اس لیے) کسی کو اس کی حاجت مندی کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ صدقہ سے اس کی مدد کی جائے ، اور نہ وہ چل پھر کر لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مدعا یہ ہے کہ وہ پیشہ ور سائل اور گدا گر جو در در پھر کر لوگوں سے مانگتے ہیں ، اصلی مسکین اور صدقہ کے اصلی مستحق نہیں ہیں ، بلکہ صدقہ کے لیے ایسے باعفت ضرورت مندوں کو تلاش کرناچاہئے جو شرم و حیا اور عفت نفس کی وجہ سے لوگوں پر اپنی حاجت مندی ظاہر نہیں کرتے اور کسی سے سوال نہیں کرتے .....یہی لوگ اصل مسکین ہیں ۔ جن کی خدمت اور مدد نہایت مقبول اور پسندیدہ عمل ہے ۔

【14】

زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زکوٰۃ حلال نہیں ہے (مالدار) کو اور توانا و تندرست کو ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، سنن دارمی)

【15】

زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین

حضرت عبید اللہ بن الخیار تابعی نقل کرتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زکوٰۃ کے اموال تقسیم فرما رہے تھے ، تو ہم دونوں نے بھی اس میں سے کچھ مانگا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو تندرست و توانا محسوس کیا ، پھر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دوں (مگر یہ سمجھ لو کہ) ان اموال میں مالداروں کا اور ایسے تندرست و توانا لوگوں کا حصہ نہیں ہے ، جو اپنی معاش کمانے کے قابل ہوں ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح ان دونوں حدیثوں میں غنی سے مراد غالباً وہ آدمی ہے جس کے پاس اپنے کھانے ، کپڑے جیسی ضروریات کے لیے کچھ سامان موجود ہو اور اسے فی الحال ضرورت نہ ہو ، ایسے آدمی کو اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے زکوٰۃ دی جائے ، تو اگچہ ادا ہو جائے گی ، لیکن خود اس آدمی کو زکوٰۃ لینے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ اسی طرح جو آدمی تندرست و توانا ہو اور محنت کر کے روزی کما سکتا ہو اس کو بھی زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہئے .... عام ضابطہ یہی ہے ، اور ان دونوں حدیثوں میں اسی عام ضابطہ کی ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ لیکن خاص حالات میں ایسے لوگوں کو بھی زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے ۔ اسی لیے عبیداللہ بن عدی والی دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں صاحبوں سے یہ بھی فرمایا کہ : “ اگر تم لینا چاہو تو میں دے دوں گا ” ۔ إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا

【16】

زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت

عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال و دولت کا میل کچیل ہیں ، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہیں ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں زکوٰۃ و صدقات کو میل کچیل اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ جس طرح میل کچیل نکل جانے کے بعد کپڑا ظاہری نظر میں صاف ہو جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ نکلنے کے بعد باقی مال عنداللہ اور باطنی نظر میں پاک ہو جاتا ہے ۔ اس میں اس طرف سے بھی اشارہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے مال زکوٰۃ کے استعمال سے پرہیز ہی کیا جائے ۔ اسی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لیے اور قیامت تک کے واسطے اپنے اہل خاندان ان بنی ہاشم کے لیے زکوٰۃ کو ناجائز قرار دے دیا ۔

【17】

زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے ، راستے میں پڑی ہوئی اویک کھجور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی تو فرمایا کہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ شاید یہ زکوٰۃ کی ہو تو میں اس کو اٹھا کے کھا لیتا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا دراصل لوگوں کو یہ سبق دینے کے لیے تھا کہاگر اللہ کا رزق اور اس کی کوئی نعمت (اگرچہ کیسی ہی کم حیثیت اور کم قیمت ہو) کہیں گری پڑی نظر آئے تو اس کا احترام اور اس کی قدر کی جائے اور اس سے وہ کام لیا جائے جس کے لیے اللہ نے وہ بنائی ہے ۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتا کے کہ : “ میں اس کو اس لیے نہیں کھا سکتا کہ شاید یہ زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے گر گئی ہو ۔ ” مشکوک اور مشتبہ چیزوں کے استعمال کرنے سے پرہیز اور احتیاط کا سبق بھی اہل تقویٰ کو دے دیا ہے ۔

【18】

زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے (اپنے بچپن میں) زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا : كخ كخ (اخ اخ) تا کہ وہ اس کو منہ سے نکال دیں اور تھوک دیں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بیٹا ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ہم لوگ (بنی ہاشم) زکوٰۃ نہیں کھاتے ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【19】

زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور دستور تھا کہ جب کوئی کھانے کی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے کہ : یہ ہدیہ ہے کہ صدقہ ؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا کہ یہ صدقہ ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے (یعنی ان اصحاب رضی اللہ عنہم سے جن کے لیے صدقہ کھانے میں کوئی مضائقہ نہ ہوتا ، جیسے کہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم) فرما دیتے کہ تم لوگ کھاؤ ، اور خود اس میں سے نہ کھاتے ۔ اور اگر آپ کو بتایا جاتا کہ یہ کھانا ہدیہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے اور ان اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس کے کھانے میں شرکت فرماتے ۔ (صحیح مسلم ، صحیح بخاری) تشریح کسی شخص کو غریب اور ضرورت مند سمجھ اعانت و امداد کے طور پر ثواب کی نیت سے جو کچھ دیا جائے وہ شریعت کی اصطلاح میں صدقہ کہلاتا ہے ، خواہ وہ فرض و واجب ہو ، جیسے زکوٰۃ یا صدقہ فطر ، یا نفلی ہو (جس کو ہماری زبان میں امداد اور خیرات کہا جاتا ہے) .... (اور اگر عقیدے اور تعلق و محبت کی وجہ سے اور اس کے تقاضے سے کسی اپنے محترم اور محبوب کی خدمت میں کچھ پیش کیا جائے تو وہ ہدیہ کہلاتا ہے .... صدقہ میں دینے والے کی پوزیشن اونچی اور بلند ہوتی ہے اور بےچارے لینے والی کی نیچی اور پست ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا صدقہ استعمال نہیں فرماتے تھے .... اور ہدیہ دینے والا اس کے ذریعے احترام و عقیدت اور تعلق و محبت کا اظہار کرتا ہے اور اس کو اپنی ذاتی ضرورت سمجھتا ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو خوشی سے قبول فرماتے تھے ، پیش کرنے والے کو دعائیں دیتے تھے ، اور بسا اوقات اپنی طرف سے اس کو ہدیہ دے کر اس کی مکافات بھی کرتے تھے ۔ (1) ..... اور جب کوئی صدقہ کے طور پر کچھ لاتا تو وہ اپنے اصحاب مستحقین کو دے دیتے تھے ۔

【20】

زکوۃ و صدقات اور خاندان نبوت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک آدمی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر فرمایا ۔ اس مخزومی نے ابورافع سے کہا : تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ تمہیں بھی (حق المحنت کے طور پر) اس میں سے کچھ مل جائے جس طرح مجھے ملے گا ، ابو رافع نے ان سے کہا کہ : جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت نہ کر لوں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا ، اس کے بعد ابو رافع انہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہمارے گھر اور ہمارے خاندان کے لیے زکوٰۃ میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے ، اور کسی گھرانے کے غلام بھی ان ہی میں سے ہیں ۔ (اس لیے ہماری طرح تمہارے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے) ۔ تشریح اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خاندان کے لیے زکوٰۃ حلال نہیں ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کے غلاموں کے لیے بھی حلال نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ آزاد ہونے کے بعد بھی وہ زکوٰۃ فنڈ سے کچھ نہیں لے سکتے .... دوسری بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کی تحصیل وصول کی اجرت اور حق المحنت کے طور پر اسی زکوٰۃ میں سے ہر عامل کو دیا جا سکتا ہے (حتیٰ کہ عامل اگر اپنے گھر کا دولت مند ہو اور خود اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہو ، تب بھی اس کو بطور اجرت زکوٰۃ سے دیا جاتا ہے) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں اور ان کے غلاموں کے لیے اس کی گنجائش نہیں ہے .... ایک تیسری بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اسلامی قانون نے غلاموں کو اس زمانہ میں جب دنیا میں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی کتنا بلند درجہ دیا تھا ، اور قانونی مالکوں کی خاندانی خصوصیات تک میں ان کو کس حد تک شریک کر دیا تھا ۔

【21】

کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت

حبشی بن جنادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سوال کرنا جائز نہیں ہے غنی آدمی کو اور نہ توانا اور تندرست آدمی کو ۔ البتہ ایسے آدمی کو جائز ہے جس کو ناداری اور افلاس نے زمین پر گرا دیا ہو یا جس پر قرض یا کسی تاوان وغیرہ کا کوئی بھاری بوجھ پڑ گیا ہو ، اور جو آدمی (محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ) اپنے مال کے اضافے کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور سوال کرے تو قیامت کے دن اس کا یہ سوال اس کے چہرے پر ایک زخم اور گھاؤ کی شکل میں نمایاں ہو گا۔ اور جہنم کا گرم جلتا ہوا پتھر ہو گا جس کو وہاں وہ کھائے گا ، اس کے بعد جس کا جی چاہے سوال کم کرے اور جس کا جی چاہے زیادہ کرے (اور آخرت میں اس کا یہ نتیجہ بھگتے) ۔ (جامع ترمذی) تشریح حضرات محدثین “ کتاب الزکوٰۃ ” ہی میں وہ حدیثیں بھی درج کرتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ جن حالات میں سوال کرنے کی ممانعت ہے اور کن حالات میں اجازت ہے ۔ ان کے اس طریقے کی پیروی میں اس سلسلہ “ معارف الحدیث ” میں بھی وہ حدیثیں یہیں درج کی جاتی ہیں : تشریح ..... اس حدیث میں بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث (نمبر ۱۴) کی طرح غنی سے مراد وہ آدمی ہے جو فی الحال محتاج اور ضرورت مند نہ ہو (اگرچہ وہ صاحب نصاب اور سرمایہ دار بھی نہ ہو) ایسے آدمی کو اور اس تندرست و توانا آدمی کو جو محنت کر کے اپنی روزی کما سکتا ہو ، اس حدیث میں سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ عام ضابطہ اور مسئلہ یہی ہے کہ ایسے آدمی کو کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرنا چاہئے ۔ ہاں اگر افلاس و ناداری نے کسی کو بالکل ہی گرا دیا ہو اور سوال کے سوا اس کے سامنے کوئی راہ نہ ہو ، یا کسی کو کوئی جرمانہ یا تاوان یا قرض ادا کرنا ہو اور وہ دوسروں سے امداد لیے بغیر اس کو ادا نہ کر سکتا ہو تو ان صورتوں میں اس کو سوال کرنے کی اجازت ہے .... آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضرورت مندی اور محتاجی کی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا اس کو قیامت میں اس کی سزا یہ دی جائے گی کہ اس کے چہرے پر ایک بدنما گھاؤ ہو گا .... اور جو کچھ اس نے سوال کر کے لوگوں سے لیا تھا وہ وہاں جہنم کا گرم پتھر بنا دیا جائے اور وہ اسے کھانے پر مجبور ہو گا ۔

【22】

کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی (حاجت سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ) زیادہ مال حاصل کرنے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ درحقیقت اجپنے لیے جہنم کا انگارہ مانگتا ہے (یعنی جو کچھ اس طرح سوال کر کے وہ حاصل کرے گا وہ آخرت میں اس کے لیے دوزخ کا انگارہ بن جائے گا) ...... اب خواہ اس میں کمی کرے ، یا زیادتی کرے ۔ (صحیح مسلم)

【23】

کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ایسی حالت میں لوگوں سے سوال کرے کہ اس کے پاس “ مَا يُغْنِيهِ ” ہو (یعنی اتنا موجود ہو جو اس کے لیے کافی ہو ، اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہ رہے) تو وہ قیامت کے دن محشر میں اس حال میں آئے گا کہ اس کا سوال اس کے چہرے میں ایک گھاؤ کی صورت میں ہو گا (خموش) خدوش ، کدوخ ۔ یہ تینوں لفظ قریب المعنی ہیں ، ان کے معنی زخم کے ہیں ۔ غالباً راوی کو شک ہو گیا ہے کہ اصل حدیث میں ان تینوں میں سے کون سا لفظ تھا .... آگے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کا یہ ارشاد سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کتنی مقدار ہے جس کو آپ نے “ مَا يُغْنِيهِ ” فرمایا (اور جس کے بعد وہ دوسروں کا محتاج اور دست نگر نہیں رہتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : پچاس درہم ، یا ان کی قیمت کا سونا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس پچاس درہم یا اس کے قریب مالیت موجود ہو ، جسے وہ اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتا ہو اور کسی کاروبار میں لگا سکتا ہو اس کے لیے سوال کرنا گناہ ہے ، اور ایسا شخص قیامت میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر اس ناجائز سوال کی وجہ سے بدنما داغ ہو گا ۔ اس حدیث میں اس غنا کا معیار جس کے ہوتے ہوئے سوال جائز نہیں ، پچاس درہم کی مالیت کو قرار دیا گیا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کی مالیت کا بھی ذکر ہے ..... اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے لیکن سنن ابی داؤد کی ایک اور حدیث میں جو سہل بن الحنظلیہ سے مروی ہے مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا : ما الغنى الذى تسعى معه المسئلة (غنا کی وہ کیا مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قدر ما يغديه ويعشيه (اتنا کہ اس سے دن کا کھانا کھا سکے اور رات کا کھانا کھا سکے) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایک دن کے کھانے بھر بھی ہے تو اس کو سوال کرنا درست نہیں ۔ وہ غنا جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اس کا معیار تو متعین ہے اور اس کے متعلق حدیثیں پہلے گزر چکی ہیں ، لیکن وہ غنا جس کے حاصل ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں اس کے معیار مختلف بیان فرمائے ہیں ۔ شارحین حدیث نے اس اختلاف کی توجیہ کئی طرح سے کی ہے ۔ اس عاجز کے نزدیک سب سے اقرب بات یہ ہے کہ یہ اختلاف اشخاص اور احوال کے لحاظ سے ہے ۔ یعنی بعض حالات اور اشخاص ایسے ہو سکتے ہیں کہ تھوڑا بہت اثاثہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے لیے سوال کی گنجائش ہو سکتی ہے ، لیکن اگر یہ اثاثہ (۴۰ ، ۵۰) درہم کی مالیت کو معیار بتایا گیا ہے ان میں رخصت اور فتوے کا بیان ہے ، اور جن میں ایک دن کے کھانے بھر ہونے کی صورت میں بھی سوال سے منع کیا گیا ہے وہ عزیمت اور تقوے کا مقام ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【24】

سوال میں بہرحال ذلت ہے

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا اور مانگنے سے پرہیز کرنے کا ذکر کرتے ہوئے بر سر منبر ایک دن فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ، اوپر والا ہاتھ دینے والا ہوتا ہے اور نیچے والا ہاتھ لینے والا ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ دینے والے کا مقام اونچا اور عزت کا ہے ، اور مانگنے والے کا نیچا اور ذلت کا ۔ اس لیے مومن کو دینے والا بننا چاہئے اور سوال کی ذلت سے اپنے کو حتی الامکان بچانا ہی چاہئے ۔

【25】

اگر سوال کرنا ناگزیر ہو تو اللہ کے نیک بندوں سے کیا جائے

ابن الفراسی تابعی اپنے والد فراسی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : میں اپنی ضرورت کے لیے لوگوں سے سوال کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (جہاں تک ہو سکے) سوال نہ کرو ، اور اگر تم سوال کے لیے مجبور ہی ہو جاؤ تو اللہ کے نیک بندوں سے سوال کرو ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

【26】

اگر سوال کرنا ناگزیر ہو تو اللہ کے نیک بندوں سے کیا جائے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس آدمی کو کوئی سخت حاجت پیش آئی اور اسے اس نے بندوں کے سامنے رکھا (اور ان سے مدد چاہی) تو اسے اس مصیبت سے مستقل نجات نہیں ملے گی ، اور جس آدمی نے اسے اللہ کے سامنے رکھا اور اس سے دعا کی ، تو پوری امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کی یہ حاجت ختم کر دے ، یا تو جلدی موت دے کر (اور اگر اس کی موت کا مقرر وقت آ گیا ہو) یا کچھ تاخیر سے خوشحالی دے کر ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

【27】

بندوں سے سوال نہ کرنے پر جنت کی ضمانت

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا : جو مجھ سے اس بات کا عہد کرے کہ وہ اللہ کے بندوں سے اپنی کوئی حاجت نہ مانگے گا تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ ثوبان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) میں یہ عہد کرتا ہوں .... راوی کا بیان ہے کہ اس وجہ سے حضرت ثوبان کا یہ دستور تھا وہ کسی آدمی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی)

【28】

اگر بغیر سوال اور طمع نفس کے کچھ ملے تو اس کو لے لینا چاہئے

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے کچھ عطا فرماتے تھے تو میں عرض کرتا تھا کہ : حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ! کسی ایسے آدمی کو دے دیجئے جس کو مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ عمر اس کو لے لو اور اپنی ملکیت بنا لو (پھر چاہو تو) صدقہ کے طور پر کسی حاجت مند کو دے دو (اور اپنا یہ اصول بنا لو کہ) جب کوئی مال تمہیں اس طرح ملے کہ نہ تو تم نے اس کے لیے سوال کیا اور نہ تمہارے دل میں اس کی چاہت اور طمع ہو (تو اس کو اللہ کا عطیہ سمجھ کر) لے لی کرو ، اور جو مال اس طرح تمہارے پاس نہ آئے تو اس کی طرف توجہ بھی نہ کرو (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【29】

جب تک محنت سے کما سکتے ہو سوال نہ کرو

حضرت زبیر بن العوام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کسی ضرورت مند آدمی کا یہ رویہ کہ وہ رسی کے کر جنگل جائے اور لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی کمر پر لاد کے لائے اور بیچے ، اور اس طرح اللہ کی توفیق سے وہ سوال کی ذلت سے اپنے کا بچا لے ، اس سے بہت بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے سوال کا ہاتھ پھیلائے پھر خواہ وہ اس کو دیں یا نہ دیں ۔ (صحیح بخاری)

【30】

جب تک محنت سے کما سکتے ہو سوال نہ کرو

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک (مفلس اور غریب شخص) انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور (اپنی حاجت مندی ظاہر کر کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز بھی نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : پس ایک کمبل ہے جس میں سے کچھ ہم اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں ، (باقی بس اللہ کا نام ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ ، انہوں نے وہ دونوں لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کمبل اور پیالہ ہاتھ میں لیا اور (نیلام کے طریقے پر) حاضرین سے فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدنے پر تیار ہے ؟ ایک صاحب نے عرض کیا : حضرت ! میں ایک درہم میں ان کو لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کون ایک درہم سے زیادہ لگاتا ہے ؟ “ ، (یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ یا تین دفعہ فرمائی) ایک دوسرے صاحب نے عرض کیاکہ : حضرت ! میں یہ دو درہم میں لے سکتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں چیزیں ان صاحب کو دے دیں اور ان سے دو درہم لے لیے اور ان انصاری کے حوالے کئے اور ان سے فرمایا کہ : ان میں سے ایک کا تو تم کھانے کا کچھ سامان (غلہ وغیرہ) لے کر اپنے بیوی بچوں کو دے دو اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خریدو اور اس کو میرے پاس لے کر آؤ ، انہوں نے ایسا ہی کیا اور کلہاڑی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس کلہاڑی میں لکڑی کا ایک دستہ خوب مضبوط لگا دیا ، اور ان سے فرمایا : جاؤ اور جنگل کی لکڑیاں لا کر بیچو اور اب میں پندرہ دن تک تم کو نہ دیکھوں ، (یعنی دو ہفتہ تک یہی کام کرو اور میرے پاس آنے کی بھی کوشش نہ کرو) چنانچہ وہ صاحب چلے گئے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق جنگل کی لکڑیاں لا لا کر بیچتے رہے ، پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنی محنت اور لکڑی کے اس کاروبار میں دس بارہ درہم کما لئے تھے ، جن میں کچھ کا انہوں نے کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ وغیرہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : اپنی محنت سے یہ کمانا تمہارے لیے اس سے بہت ہی بہتر ہے کہ قیامت کے دن لوگوں سے مانگنے کا داغ تمہارے چہرے پر ہو ، (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) سوال کرنا صرف تین قسم کے آدمیوں کے لیے درست ہے : ایک وہ آدمی جسے فقر و فاقہ نے زمین سے لگا دیا ہو ، دوسرے وہ جس پر قرض یا کسی ڈنڈ کا بھاری بوجھ ہو ، (جس کی ادائیگی اس کے امکان میں نہ ہو) تیسرے وہ جس کو کوئی خون بہا ادا کرنا ہو اور وہ اسے ادا نہ کر سکتا ہو ۔ (سنن ابی داؤد) تشریح یہ حدیث کسی تشریح کی محتاج نہیں ۔ افسوس ً جس پیغمبر کی یہ ہدایت اور یہ طرز عمل تھا ، اس کی امت میں پیشہ ور سائلوں اور گداگروں کا ایک طبقہ موجود ہے ، اور کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو عالم یا پیر بن کر معزز قسم کی گدا گری کرتے ہیں ۔ یہ لوگ سوال اور گدا گری کے علاوہ فریب دہی اور دین فروشی کے بھی مجرم ہیں ۔

【31】

زکوٰۃ کے علاوہ مالی صدقات

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا) حق ہے ” ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ لَيْسَ البِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ ، وَلَكِنَّ البِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى المَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي القُرْبَى وَاليَتَامَى وَالمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ، وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ ، وَآتَى الزَّكَاةَ ..... الآيَةَ (البقرة : 177 : 2) اصل نیکی اور بھلائی (کا معیار) یہ نہیں ہے کہ (عبادت میں) تم مشرق کی طرف اپنا رخ کرو ، یا مغرب کی طرف ، بلکہ اصل نیکی کی راہ بس ان لوگوں کی ہے جو ایمان لائے اﷲ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پر اور اﷲ کی کتابوں پر اور اس کے نبیوں پر ، اور جنہوں نے مال کی محبت کے باوجود اس کو خرچ کیا قرابت داروں اور یتیموں ، مسکینوں پر اور مسافروں پر اور سائلوں پر اور غلاموں کی آزادی دلانے میں ، اور اچھی طرح قائم کی انہوں نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ ۔ الخ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، مسند دارمی) تشریح حدیث کا مقصد و منشاء یہ ہے کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہئے ک مقررہ زکوٰۃ (یعنی فاضل سرمایہ کا چالیسواں حصہ) ادا کر دینے کے بعد آدمی پر اللہ کا کوئی مالی حق اور مطالبہ باقی نہیں رہتا اور وہ اس سلسلہ کی ہر قسم کی ذمہ داریوں سے بالکل سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے ، بلکہ خاص حالات میں زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی اللہ کے ضرورت مند بندوں کی مدد کی ذمہ داری دولت مندوں پر باقی رہتی ہے ۔ مثلاً ایک صاحب ثروت آدمی حساب سے پوری زکوٰۃ ادا کر چکا ہو ، اس کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس کے پڑوس میں فاقہ یا اس کا فلاں قریبی رشتہ دار سخت محتاجی کی حالت میں ہے ، یا کوئی شریف مصیبت زدہ مسافر ایسی حالت میں اس کے پاس پہنچے جس کو فوری امداد کی ضرورت ہو تو ایسی صورتوں میں ان ضرورتمندوں ، محتاجوں کی امداد اس پر واجب ہو گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی اور بطور استشہاد سورہ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات تلاوت فرمائی ۔ اس آیت میں اعمال بر (نیکی کے کاموں) کے ذیل میں ایمان کے بعد یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سائلوں وغیرہ حاجت مند طبقوں کی مالی مدد کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد اقامت صلوٰۃ اور اداء زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کمزور اور ضرورت مند طبقوں کی مالی مدد کا جو ذکر یہاں کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے ، کیوں کہ زکوٰۃ کا مستقلاً ذکر اس آیت میں آگے موجود ہے ۔

【32】

امیر غریب ہر مسلمان کے لیے صدقہ لازم ہے

حضرت اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ : اگر کسی آدمی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو وہ کیا کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اپنے دست و بازو سے محنت کرے اور کمائے ۔ پھر اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے ۔ عرض کیا گیا کہ : اگر وہ یہ نہ کر سکتا ہو تو کیا کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی پریشان حال محتاج کا کوئی کام کر کے اس کی مدد ہی کر دے (یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہے) ۔ عرض کیا گیا کہ : اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اپنی زبان ہی سے لوگوں کو بھلائی اور نیکی کے لیے کہے ۔ لوگوں نے عرض کیا : اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (کم از کم) شر سے اپنے کو روکے (یعنی اس کا اہتمام کرے کہ اس سے کسی کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچے) یہ بھی اس کے لیے ایک طرح کا صدقہ ہے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر دولت اور سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ان کو بھی صدقہ کرنا چاہئے ۔ اگر روپیہ پیسہ سے ہاتھ بالکل خالی ہو تو محنت مزدوری کر کے اور اپنا پیٹ کاٹ کر صدقہ کی سعادت حاصل کرنی چاہئے ل۔ اگر اپنے خاص حالات کی وجہ سے کوئی اس سے بھی مجبور ہو تو کسی پریشان حال کی خدمت ہی کر دے ، اور ہاتھ پاؤں سے کسی کا کام نہ کر سکے تو زبان ہی سے خدمت کرے .... حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ ہر مسلمان خواہ امیر ہو یا غریب ، طاقتور اور توانا ہو یا ضعیف اس کے لیے لازم ہے کہ دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے جس طرح اور جس قسم کی بھی مدد اللہ کے حاجت مند بندوں کی کر سکے ضرور کرے ، اور اس سے دریغ نہ کرے ۔

【33】

صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہر بندے کو اللہ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے فرزند ! تو (میرے ضرورت مند بندوں پر) اپنی کمائی خرچ کر ، میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جو بندہ اس کے ضرورت من بندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتا رہے گا اس کو اللہ تعالیٰ کے خزانہ غیب سے ملتا رہے گا .... اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں کو یقین کی دولت سے نوازا ہے ہم نے دیکھا کہ ان کا یہی معلوم ہے اور ان کے ساتھ ان کے رب کریم کا یہی معاملہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم کو بھی اس یقین کا کوئی حصہ نصیب فرمائے ۔ فائدہ ..... پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حوالہ سے کوئی بات بیان فرمائیں اور وہ قرآن مج ید کی آیت نہ ہو ، اس حدیث کو “ حدیث قدسی ” کہا جاتا ہے ، یہ حدیث بھی اسی قسم کی ہے ۔

【34】

صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تم اللہ کے بھروسہ پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنو مت (یعنی اس فکر میں نہ پڑو کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں کتنا راہ خدا میں دوں) اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کر کے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا (اور اگر بے حساب دو گی تو وہ بھی تم پر اپنی نعمتیں تم پر بےحساب انڈیلے گا) اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا (کہ رحمت اور برکت کے دروازے تم پر خدانخواستہ بن ہو جائیں گے) لہٰذا تھوڑا بہت کچھ ہو سکے اور جس کی توفیق ملے راہ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【35】

صدقہ کی ترغیب اور اس کی برکات

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے آدمؑ کے فرزندو ! اللہ کی دی ہوئی دولت جو اپنی ضرورت سے فاضل ہو اس کا راہ خدا میں صرف کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا روکنا تمہارے لیے برا ہے ، اور ہاں گزارے کے بقدر رکھنے پر کوئی ملامت نہیں ۔ اور سب سے پہلے ان پر خرچ کرو جن کی تم پر ذمہ داری ہے ۔ (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کا پیغام یہ ہے کہ آدمی کے لیے بہتر یہ ہے کہ جو دولت وہ کمائے یا کسی ذریعہ سے اس کے پاس آئے اس میں سے اپنی زندگی کی ضرورت کے بقدر تو اپنے پاس رکھے باقی راہ خدا میں اس کے بندوں پر خرچ کرتا رہے ، اور اس پر پہلا حق ان لوگوں کا ہے جن کا اللہ نے اس کو ذمہ دار بنایا ہے اور جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے ۔ مثلاً اس کے اہل و عیال اور حاجت مند قریبی اعزہ وغیرہ ۔

【36】

جو راہ خدا میں خرچ کر دیا جائے وہی باقی اور کام آنے والا ہے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی (اور اس کا گوشت للہ تقسیم کر دیا گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ : بکری میں سے کیا باقی رہا ؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ : صرف ایک دست اس کی باقی رہی ہے (باقی سب ختم ہو گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اس دست کے علاوہ جو للہ تقسلیم کر دیا گیا دراصل وہی سب باقی ہے اور کام آنے والا ہے (یعنی آخرت میں ان شاء اللہ اس کا اجر ملے گا) ۔ (جامع ترمذی)

【37】

انفاق کے بارے میں اصحاب یقین و توکل کی راہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میرے لیے بڑی خوشی کی بات یہ ہو گی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس کو راہ خدا میں خرچ کر دوں اور میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے سوائے اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کے لیے اس میں کچھ بچا لوں ۔ (صحیح بخاری)

【38】

انفاق کے بارے میں اصحاب یقین و توکل کی راہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ پہنچے اور دیکھا کہ ان کے پاس چھواروں کا ایک ڈھیر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو آئندہ کے لیے ذخیرہ بنایا ہے (تا کہ مستقبل میں روزی کی طرف سے ایک گونہ اطمینان رہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال ! کیا تمہیں اس کا ڈر نہیں ہے کہ کل قیامت کے دن آتش دوزخ میں تم اس کی تپش اور سوزش دیکھو ۔ اے بلال ! جو ہاتھ پاس آئے اس کو اپنے پر اور دوسروں پر خرچ کرتے رہو اور عرش عظیم کے مالک سے قلت کا خوف نہ کرو (یعنی یقین رکھو کہ جس طرح اس نے یہ دیا ہے آئندہ بھی اسی طرح عطا فرماتا رہے گا ، اس کے خزانہ میں کیا کمی ہے ، اس لیے کل کے لیے ذخیرہ رکھنے کی فکر نہ کرو) ۔ (شعب الایمان للبیہقی) تشریح حضرت بلال رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی متوکلانہ زندگی کا طریقہ اپنایا تھا ۔ ان کے لیے مستقبل کے واسطے غـذا کا ذخیرہ کرنا بھی مناسب نہ تھا ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ ہدایت فرمائی ۔ اگرچہ عام لوگوں کے لیے یہ بات بالکل جائز ہے ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو بھی اس سے روکا تھا کہ وہ اپنا سارا مال راہ خدا میں خرچ کر دیں اور گھر والوں کے لیے کچھ نہ رکھیں .... لیکن صحابہ میں سے جن حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب صفہ والی خالص توکل کی راہ اپنائی تھی ان کے لیے اس طرز عمل کی گنجائش نہ تھی .... ع “ جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے ” حدیث کے آخری فقرے میں اشارہ ہے .... کہ اللہ کا جو بندہ خیر کی راہوں میں ہمت کے ساتھ صرف کرے گا .... وہ اللہ تعالیٰ کی عطا مین کبھی کمی نہ پائے گا ۔

【39】

جو دولت مند کشادہ دستی سے راہ خدا میں صرف نہ کریں بڑے خسارے میں ہیں

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کعبہ کے سائے میں اور اس کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا : رب کعبہ کی قسم ! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ؟ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ! کون لوگ ہیں جو بڑے خسارے میں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ لوگ جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیںٰ ، ان میں سے وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں (ہر طرف خیر کے مصارف میں) اپنی دولت کشادہ دستی کے ساتھ صرف کرتے ہیں .... مگر دولت مندوں اور سرمایہ داروں میں ایسے بندے بہت کم ہیں ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے فقر کی زندگی اختیار کر رکھی تھی اور ان کے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے یہی ان کے لیے بہتر تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اطمینان خاطر کے لیے بیان فرمایا کہ : دولت مندی اور سرمایہ داری جو بظاہر بڑی نعمت ہے دراصل کڑی آزمائش بھی ہے اور صرف وہی بندے اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس سے دل نہ لگائیں اور پوری کشادہ دستی کے ساتھ دولت کو خیر کے مصارف میں خرچ کریں ، جو ایسا نہ کریں گے وہ انجام کار بڑے خسارے میں رہیں گے ۔

【40】

صدقہ کے خواص اور برکات

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے ۔ (جامع ترمذی) تشریح جس طرح دنیا کی مادی چیزوں جڑی بوٹیوں تک کے خواص اور اثرات ہوتے ہیں ، اسی طرح انسانوں کے اچھے برے اعمال اور اخلاق کے بھی خواص اور اثرات ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ اس حدیث میں صدقہ کی دو خاصیتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر بندے کی کسی بڑی لغزش اور معصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب اور ناراضی کے اس کی رضا اور رحمت کا مستحق بن جاتا ہے اور دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ بری موت سے آدمی کو بچاتا ہے (یعنی صدقہ کی برکت سے اس کا خاتمہ اچھا ہوتا ہے) دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح کی موت سے بچاتا ہے جس کو دنیا میں بری موت سمجھا جاتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【41】

صدقہ کے خواص اور برکات

مرثد بن عبداللہ تابعی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے کہ قیامت کے دن مومن پر اس کے صدقہ کا سایہ ہو گا ۔ (مسند احمد) تشریح حدیثوں میں بہت سے اعمال صالحہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن یہ اعمال سایہ کا ذریعہ بن جئائیں گے ۔ اس حدیث میں صدقہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت میں اس کی ایک برکت یہ ظاہر ہو گی کہ صدقہ کرنے والے کے لیے اس کا صدقہ سائبان بن جائے گا جو اس دن کی تپش اور تمازت سے اس کو بچائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان حقیقتوں کا یقین اور اس کے مطابق عمل نصیب فرمائے ۔

【42】

صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آئی بلکہ برکت ہوتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی (بلکہ اضافہ ہوتا ہے) اور قصور معاف کر دینے سے آدمی نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کو سربلند کر دیتا ہے ۔ اور اس کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لیے فروتنی اور خاکساری کا رویہ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کو رفعت اور بالا تری بخشے گا ۔ (صحیح مسلم)

【43】

صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں آئی بلکہ برکت ہوتی ہے

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) ! بتائیے کہ صدقہ کیا ہے ؟ (یعنی اللہ کی طرف سے اس کا کیا اجر ملنے والا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : چند در چند (یعنی جتنا کوئی اللہ کی راہ میں صدقہ کرے اس کا کئی گنا اس کو ملے گا) اور اللہ کے ہاں بہت ہے ۔ (مسند احمد) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کی راہ میں جتنا صدقہ کرے گا اس کو اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا ۔ دوسری بعض احادیث میں دس گنے سے سات سو گنے تک کا ذکر ہے اور یہ بھی آخری حد نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اس سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا ۔ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ اس کا خزانہ لا انتہا ہے ۔ بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ صدقہ کے عوض میں کئی گنا تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں عطا فرماتا ہے ، اور اس کا صلہ جو آخرت میں عطا فرمایا جائے گا وہ اس سے بہت زیادہ ہو گا ۔ اللہ کے بندوں کا یہ عام تجربہ ہے کہ اللہ پر یقین اور اعتماد کرتے ہوئے وہ اخلاص کے ساتھ جتنا اس کی راہ میں اس کے بندوں پر صرف کرتے ہ یں اس کا کئی گنا اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا ہی میں عطا فرما دیتا ہے ، ہاں اخلاص اور یقین شرط ہے ۔

【44】

ضرورتمندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس مسلم نے کسی دوسرے مسلم بھائی کو جس کے پاس کپڑا نہیں تھا ، پہننے کو کپڑا دیا ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جس مسلم بھائی نے دوسرے مسلم بھائی کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل اور میوے کھلائے گا ، اور جس مسلم نے پیاس کی حالت میں دوسرے مسلم بھائی کو پانی پلایا ، تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی سر بمہر شراب پلائے گا ۔ (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی)

【45】

ضرورتمندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ، جس بندے نے کسی مسلم کو کپڑا پہنایا وہ یقیناً اس وقت تک اللہ کے حفظ و امان میں رہے گا جب تک کہ اس کے جسم پر اس کپڑے میں سے کچھ بھی رہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی)

【46】

ضرورتمندوں کو کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر و ثواب

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے سمجھنے کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، جب میں نے غور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور دیکھا تو پہچان لیا (اور بلا کسی شک و شبہ کے جان لیا) کہ یہ ہرگز کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی جو بات فرمائی وہ یہ تھی کہ : “ اے لوگو ! آپس میں سلام کی خوب اشاعت کرو اور رواج دو (یعنی ہر ایک دوسرے کو سلام کیا کرے اس سے دل کی گرہیں کھلتی ہیں اور تعلق بڑھتا ہے) اور (اللہ کے بندوں کو خاص کر ان کو جو ضرورت مند ہوں) کھانا کھلاؤ ، اور آپس میں صلہ رحمی کرو (یعنی قرابت کے حقوق ادا کرو) اور رات کو جس وقت لو پڑے سوتے ہیں اللہ کے حضور میں نماز پڑھو ، ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں جاؤ گے ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

【47】

بھوکے پیاسے جانوروں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بد چلن عورت اس عمل پر بخش دی گئی کہ وہ ایک کنوئیں کے پاس سے گزری اور اس نے دیکھا کہ ایک کتا زبان نکالنے ہوئے (اور اس کی حالت ایسی ہے کہ) گویا وہ پیاس سے مر ہی جائے گا (اس عورت کے دل میں ترس آیا ۔ وہاں پانی نکالنے کے لیے رسی ڈول کچھ موجود نہیں تھا) اس نے اپنا چمڑے کا موزہ پاؤں سے نکالا اور (کسی طرح اس کو) اپنی اوڑھنی سے باندھا اور (محنت مشقت کر کے) سی کے ذریعہ کنوئیں سے پانی نکال کر اس کو پلایا ، وہ عورت اپنے اسی عمل کی وجہ سے بخش دی گئی .... کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا جانوروں کے کھلانے پلانے میں بھی ثواب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! ہر حساس جانور (جس کو بھوک پیاس کی تکلیف ہوتی ہو) اس کو کھلانے پلانے میں اجر و ثواب ہے ۔

【48】

بھوکے پیاسے جانوروں کو کھلانا پلانا بھی صدقہ ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو مسلمان بندہ کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے تو اس درخت یا اس کھیتی سے جو پھل اور جو دانہ کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا کوئی چوپایہ کھائے گا وہ اس بندہ کے لیے صدقہ اور اجر و ثواب کا ذریعہ ہو گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【49】

اللہ کی بندوں کو زحمت سے بچانے کا صلہ جنت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ : اللہ کا کوئی بندہ کسی راستے پر چلا جا رہا تھا جس پر کسی درخت کی ایک شاخ تھی (جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی) اس بندے نے اپنے جی میں کہا کہ میں اس شاخ کو یہاں سے الگ کر کے راستہ صاف کروں گا تا کہ بندگانِ خدا کو تکلیف نہ ہو (پھر اس نے ایسا ہی کیا) تو وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے جنت میں بھیج دیا گیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض اعمال بظاہر بہت چھوٹے اور معمولی ہوتے ہیں ، لیکن کبھی کبھی وہ دل کی ایسی کیفیت اور ایسے خدا پرستانہ جذبہ کے ساتھ صادر ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بڑا قیمتی اور محبوب ہوتا ہے ، اس کی وجہ سے ارحم الراحمین کا دریائے رحمت جوش میں آ جاتا ہے ، پھر اس بندے کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور اس کے لیے مغفرت اور داخلہ جنت کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی مندرجہ بالا حدیث میں ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے والی ایک بدچلن عورت کی مغفرت کی جو خوشخبری دی گئی ہے اور اس حدیث میں راستے سے ایک درخت کی صرف شاخ ہٹا دینے پر ایک آدمی کے داخلہ جنت کی جو بشارت سنائی گئی ہے اس کا راز یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

【50】

کس وقت صدقہ کا ثواب بہت زیادہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : کس صدقہ کا ثواب زیادہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : زیادہ ثواب کی صورت یہ ہے کہ تم ایسی حالت میں صدقہ کرو جب کہ تمہاری تندرستی قائم ہو اورتمہارے اندر دولت کی چاہت اور اس کو اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو ، اس حالت میں (راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے) تمہیں محتاجی کا خطرہ ہو ، اور دولت مندی کی دل میں آرزو ہو (ایسے وقت میں اللہ کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کرنا سچی خدا پرستی اور خدا طلبی کی دلیل ہے اور ایسے صدقہ کا ثواب بہت بڑا ہے) ۔ اور اسیا نہ ہونا چاہئے کہ تم سوچتے رہو اور ٹالتے رہو ، یہاں تک کہ جب موت کا وقت آ جائے اور جان کھنچ کر حلق میں آ جائے تو تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا فلاں کو اور اتنا فلاں کو ، حالانکہ اب تو مال (تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں فلاں کا (یعنی وارثوں) کا ہو ہی جائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح انسانوں کی یہ عام کمزوری ہے کہ جب تک وہ تندرست و توانا ہوتے ہیں اور موت سامنے نہیں کھڑی ہوتی ، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتے ہیں ۔ شیطان ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگر ہم نے راہِ خدا میں خرچ کیا تو ہمارے پاس کمی ہو جائے گی ، ہم خود تنگدست اور محتاج ہو جائیں گے ۔ اس لیے ان کا ہاتھ نہیں کھلتا ، لیکن جب موت سامنے آ جائی ہے اور زندگی کی امید باقی نہیں رہتی تو انہیں صدقہ یاد آتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے ، اللہ کی نگاہ میں محبوب اور مقبول صدقہ وہ ہے جو بندہ تندستی اور توانائی کی ایسی حالت میں کرے کہ اس کے سامنے اپنے مسائل اور اپنا مستقبل بھی ہو اس کے باوجود وہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے آخرت کے ثواب کی امید میں اور رب کریم کے وعدوں پر یقین و اعتماد کرتے ہوئے اسی حال ت میں ہاتھ کھول کر اللہ کی راہ میں اس کے بندوں پہ خرچ کرے ۔ ایسے بندوں کے لیے قرآن مجید میں فلاح کا وعدہ ہے ۔ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

【51】

اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی صاحب ایمان بندہ اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرے تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہو گا (اور وہ عند اللہ ثواب کا مستحق ہو گا) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کم و بیش خرچ تو سب ہی کرتے ہیں لیکن اس خرچ کرنے سے لوگوں کو وہ روحانی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کے نیک بندوں کو دوسرے ضرورت مندوں اور مساکین و فقراء پر صدقہ کرنے سے ہوتی ہے ، کیوں کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کو لوگ کار ثواب نہیں سمجھتے ، بلکہ اس کو مجبوری کا ایک تاوان ، یا نفس کا ایک تقاضا سمجھتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اپنے اہل و عیال اور اعزہ و اقارب پر بھی لوجہ اللہ اور ثواب کی نیت سے خرچ کرنا چاہئے ، اس صورت میں جو خرچ اس مد میں ہو گا وہ سب صدقہ کی طرح آخرت کے بینک میں جمع ہو گا ، بلکہ دوسرے لوگوں پر صدقہ کرنے سے زیادہ اس کا ثواب ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم سے ہمارے لیے خیر و سعادت کا ایک بہت بڑا دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اب ہم جو کچھ اپنے بیوی بچوں کے کھانے ، کپڑے پر ، حتیٰ کہ ان کے جوتوں پر جائز حدود میں خرچ کریں وہ ایک طرح کا “ صدقہ ” اور کار ثواب ہو گا ۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم اس ذہن سے اور اس نیت سے خرچ کریں ۔

【52】

اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ صدقہ افضل ترین صدقہ ہے جو غریب آدمی اپنی محنت کی کمائی سےکرے اور پہلے ان پر خرچ کرو جن کے تم ذمہ دار ہو (یعنی اپنے بیوی بچوں پر) ۔ (سنن ابی داؤد)

【53】

اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورعرض کیا کہ : میرے پاس ایک دینا رہے (بتائیے کہ میں وہ کہاں خرچ کروں اور کس کو دے دوں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (سب سے مقدم یہ ے) کہ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرو ۔اس نے کہا کہ : اس کے لیے میرے پاس اور ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اسکو اپنی بیوی کی ضروریات پر خرچ کرو ۔ اس نے کہا کہ : اس کے لیے میرے پاس اور ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ پھر اس کو اپنے غلام اور خادم پر صرف کر دو ۔ اس نے کہا کہ : اس کے لیے میرے پاس اور ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ تم زیادہ واقف ہو (کہ تمہارے اہل قرابت میں کون زیادہ ضرورت مند اور مستحق ہے) ۔ (سنن ابی داؤد ، سنن نسائی) تشریح غالباً ان صاحب کے ظاہری حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اندازہ کیا تھا کہ یہ خود ضرورت مند اور تنگ حال ہیں اور ان کے پاس بس ایک دینار ہے اور یہ اس کو ثواب آخرت اور اللہ کی رضا کے لیے کہیں خرچ کرنا چاہتے ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ مومن بندہ جو کچھ اپنی ضرورتوں پر خرچ کرے یا اپنے بیوی بچوں اور غلاموں پر (جن کی اس پر ذمہ داری ہے) خرچ کرے وہ سب بھی صدقہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کا وسیلہ ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بالترتیب یہ مشورہ دیا ۔ عام اصول اور حکم یہی ہے کہ آدمی پہلے ان حقوق اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جن کا وہ ذاتی اور شخصی طور پر ذمہ دار ہے اس کے بعد آگے بڑھے ۔ ہاں وہ خاصاسن خدا جن کو توکل و اعتماد علی اللہ کا بلند مقام حاصل ہو اور ان کے اہل و عیال کو بھی اس عدولت میں سے حصہ ملا ہو ان کے لیے یہ صحیح ہے کہ خود فاقہ سے رہیں ، پیٹوں پہ پتھر باندھیں اور گھر میں جو کھانا ہو وہ دوسرے اہل حاجت کو کھلا دیں ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خواص صحابہ کا حال اور طرز یہی تھا ۔وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سورہ الحشر)

【54】

اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت

سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی اجنبی مسکین کو اللہ کے لیے کچھ دینا صرف صدقہ ہے ار اپنے کسی عزیز قریب (ضرورت مند) کو اللہ کے لیے کچھ دینے میں دو پہلو ہیں اور دو طرح کا ثواب ہے ، ایک یہ کہ وہ صدقہ ہے اور دوسرے یہ کہ وہ صلہ رحمی ہے (یعنی حق قرابت کی ادائیگی ہے) جو بجائے خود بڑی نیکی ہے ۔ (مسند احمد ، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، ابن ماجہ ، سنن دارمی)

【55】

اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک خطبہ میں خاص طور سے عورتوں کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ : اے خواتین ! تم کو چاہئے کہ راہ خدا میں صدقہ کیا کرو ، اگرچہ تم کو اپنے زیورات میں سے دینا پڑے (آگے زینب بیان کرتی ہیں کہ) میں نے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا تو میں نے اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور میں نے ان سے کہا کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم عورتوں کو خاص طور سے صدقہ کی تاکید فرمائی ہے (اور میں چاہتی ہوں کہ میرے پاس جو کچھ ہے اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کروں) اور تم بھی تنگ حال اور خالی ہاتھ ہو ، اب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کرو (کہ اگر میں تم کو ہی دے دوں تو کیا میرا صدقہ ادا ہو جائے گا) اگر میرا تم کو دینا صحیح ہو تو میں تم ہی کو دے دوں گی ، ورنہ دوسرے ضرورت مند پر خرچ کر دوں گی .... کہتی ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود نے مجھ سے کہا کہ : تم خود ہی جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو ۔ تو میں خود گئی ، وہاں پہنچی تو دیکھا کہ انصار میں سے ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑی اور اس کی غرض بھی وہی ہے جو میری غرض ہے (یعنی وہ بھی یہی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئی تھی) ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ہیبت دی تھی (جس کی وجہ سے ہر ایک کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بدو بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اس لیے ہمیں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی) اتنے میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص خادم اور موذن) حضرت بلال رضی اللہ عنہ باہر نکلے ۔ ہم دونوں نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیجئے کہ دو عورتیں دروازے پر کھڑی ہیں اور آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہیں کہ اگر وہ اپنے ضرورت مند شوہروں اور یتیموں پر جو خود ان کی گود میں پرورش پا رہے ہیں صدقہ کریں تو کیا یہ صدقہ ادا ہو جائے گا ۔ (اور ہم کو اس صدقہ کا ثواب ملے گا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی یہ نہ بتانا کہ ہم کون دو عورتیں ہیں ؟ .... بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں عورتوں کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ : وہ کون عورتیں ہیں ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ : ایک عورت تو انصار میں سے ہے اور دوسری زینب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کون سی زینب ؟ بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ان کا صدقہ ادا ہو جائے گا ، بلکہ اس صورت میں) ان کو دو ہر ثواب ملے گا ، ایک صدقہ کا اور دوسرا ص؛پ رحمی کا ثواب ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

【56】

اہل قرابت پر صدقہ کی خاص فضیلت

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کے باغات کے لحاظ سے مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ دولت مند حضرت ابو طلحہ انصاری تھے اور انہیں اپنے باغات اور جائیدادوں میں سے سے زیادہپ محبوب بیر حا تھا (یہ ان کے ایک قیمتی باغ کا نام تھا) اور یہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس کا نفیس پانی (شوق سے) نوش فرماتے تھے ... انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی : لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (نیکی اور مقبولیت کا مقام تم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اپنی محبوب چیزوں کو تم راہ خدا میں خرچ نہ کرو) تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ اور مجھے اپنی ساری مالیات میں سب سے زیادہ محبوب بیر حاء ہے ، اس لیے اب وہی میری طرف سے اللہ کے لیے صدقہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ آخرت میں مجھے اس کا ثواب ملے گا ، اور میرے لیے ذخیرہ ہو گا ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں وہ فیصلہ فرما دیں جو اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن میں ڈالے (یعنی جو مصرف اس کا مناسب سمجھیں معین فرما دیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واہ واہ ! یہ تو بڑی نفع مند اور کارآمد جائیداد ہے ، میں نے تمہاری بات سن لی (اور تمہارا منشاء سمجھ لیا) میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کو اپنے ضرورت مند قرئبی رشتہ داروں میں تقسیم کر دو ۔ حضرت ابو طلحہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں یہی کروں گا ۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں میں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کر دیا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح بعض روایات میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ باغ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق اپنے خاص اقارب ابی بن کعب ، حسان بن ثابت ، شداد بن اوس اور عبیط بن جابر پر تقسیم کر دیا تھا ..... یہ باغ کس قدر قیمتی تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا حصہ ایک لاکھ درہم میں خریدا تھا ۔ فائدہ .... چونکہ آدمی کا زیادہ واسطہ اپنے عزیزوں قریبوں ہی سے رہتا ہے اور زیادہ تر معاملات انہیں سے پڑتے ہیں ، اس لیے اختلافات اور تنازعات بھی زیادہ تر اقارب ہی سے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس دنیا کی زندگی بھی عذاب بن جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم و ہدایت پر عمل کیا جائے اور لوگ اپنے قرابت داروں پر اپنی کمائی خرچ کرنا اللہ کی رضا کا وسیلہ سمجھیں تو دنیا اور آخرت کے بڑے عذاب سے محفوظ رہیں ۔ کاش دنیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت کی قدر سمجھے اور اس سے فائدہ اٹھائے ۔

【57】

مرنے والوں کی طرف صدقہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ : میری والدہ کا بالکل اچانک اور دفعتاً انتقال ہو گیا اور میرا گمان ہے کہ اگر وہ موت واقع ہونے سے پہلے کچھ بول سکتیں تو وہ ضرور کچھ صدقہ کرتیں ، تو اب اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کا ثواب ان کو پہنچ جائے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہاں ! پہنچ جائے گا ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح صدقہ کیا ہے ؟ اللہ نے بندوں کے ساتھ اس نیت سے اور اس امید پر احسان کرنا کہ اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمت اور مہربانی نصیب ہو گی اور بلا شبہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا کرم و احسان حاصل کرنے کا خاص الخاص وسیلہ ہے ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ جس طرح ایک آدمی اپنی طرف سے صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ثواب و صلہ کی امید کر سکتا ہے اسی طرح اگر کسی مرنے والے کی طرف سے صدقہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا ثواب و صلہ اس مرنے والے کو عطا فرمائے گا .... پس مرنے والوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی و احسان کا ایک طریقہ ان کے لیے دعا و استغفار کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ کیا جائے ، یا اسی طرح ان کی طرف سے دوسرے اعمال خیر کر کے ان کو ثواب پہنچایا جائے ..... اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے :

【58】

مرنے والوں کی طرف صدقہ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ایسے وقت ہوا کہ خود سعد موجود نہیں تھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے ۔ جب ان کی واپسی ہوئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوں نے عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا ، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں ، تو کیا وہ ان کے لیے نفع مند ہو گا (اور ان کو اس کا ثواب پہنچے گا ؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں پہنچے گا ۔ انہوں نے عرض کیا : تو میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا باغ مخراف اپنی والدہ مرحومہ کے لیے صدقہ کر دیا ۔ (صحیح بخاری)

【59】

مرنے والوں کی طرف صدقہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ : حضرت ! میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور انہوں نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہے اور (صدقہ وغیرہ کی) کوئی وصیت نہیں کی ہے ، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کے لیے کفارہ سیئات اور مغفرت و نجات کا ذریعہ بن جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! (اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید ہے) ۔ (تہذیب الآثار لابن جریر)

【60】

مرنے والوں کی طرف صدقہ

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ قربان کرنے کی نذر مانی تھی (جس کو وہ پورا نہیں کر سکے تھے) تو ان کے ایک بیٹے ہشام بن العاص نے تو پچاس اونٹوں کی قربانی (اپنے باپ کی اس نذر کے حساب میں) کر دی ، اور دوسرے بیٹے عمرو بن العاص نے (جن کو اللہ نے اسلام کی توفیق دے دی تھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اگر تمہارے باپ ایمان لے آئے ہوتے اور پھر تم ان کی طرف سے روزے رکھتے یا صدقہ کرتے ، تو ان کے لیے نفع مند ہوتا (اور اس کا ثواب ان کو پہنچتا ، لیکن کفر و شرک کی حالت میں مرنے کی وجہ سے اب تمہارا کوئی عمل ان کے کام نہیں آ سکتا) ۔ (مسند احمد) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حدیثوں میں (اور ان کے علاوہ بھی بہت سی حدیثوں میں جو کتب حدیث کے مختلف ابواب میں مروی ہیں) یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ صدقہ وغیرہ جو قابل قبول نیک عمل کسی مرنے والے کی طرف سے کیا جائے یعنی اس کا ثواب اس کو پہچایا جائے وہ اس کے لیے نفع مند ہو گا اور اس کو اس کا ثواب پہنچے گا .... گویا جس طرح اس دنیا میں ایک آدمی اپنا کمایا ہوا پیسہ اللہ کے کسی دوسرے بندے کو دے کر اس کی خدمت اور مدد کر سکتا ہے اور وہ بندہ اس سے نفع اٹھا سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی صاحب ایمان اپنے مرحوم ماں باپ یا کسی دوسرے مومن بندہ کی طرف سے صدقہ کر کے اس کو آخرت میں نفع پہنچانا اور اس کی خدمت کرنا چاہے تو مندرجہ بالا حدیثوں نے بتایا کہ ایسا ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ کتنا عظیم فضل و احسان ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس راستے سے ہم اپنے ماں باپ اور دوسرے عزیزوں قریبوں اور دوستوں محسنوں کی خدمت ان کے مرنے کے بعد بھی کر سکتے ہیں ، اور اپنے ہدئیے اور تحفے ان کو برابر بھیج سکتے ہیں ۔ یہ مسئلہ احادیث نبویہ سے بھی ثابت ہے اور اس پر امت کے ائمہ حق کا اجماع بھی ہے ۔ ہمارے زمانہ کے بعض ان لوگوں نے جو حدیث و سنت کو کتاب اللہ کے بعد دین و شریعت کی ثانوی اساس بھی نہیں مانتے ، اور اس کے حجت دینی ہونے کے قطعی منکر ہیں ، اس مسئلہ سے نکار کیا ہے .... اس عاجز نے اب سے قریباً ۲۰ سال پہلے ایک مستقل مبسوط رسالہ اس موضوع پر لکھا تھا ، اس میں اس مسئلہ کے ہر پہلو پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور منکرین کے ہر شبہ کا جواب دیا گیا ہے ۔ الحمد للہ وہ اس موضوع پر کافی شافی ہے ۔ کتاب الزکوٰۃ کو ہم اسی پر ختم کر کے کتاب الصوم شروع کرتے ہیں ۔ اللَّهُمَّ , لَكَ الْحَمْدُ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ