2. ایمان کا بیان

【1】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

ابوخیثمہ، زہیر بن حرب، وکیع، کہمس، عبداللہ بن بریدہ، یحییٰ بن یعمر سے دو سلسلوں کے ساتھ روایت ہے اور دونوں سلسلوں میں کہمس راوی ہیں کہ سب سے پہلے بصرہ میں معبد جہنی نے انکار تقدیر کا قول کیا یحییٰ کہتے ہیں کہ اتفاقا میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری ساتھ ساتھ حج یا عمرہ کرنے گئے اور ہم نے آپس میں کہہ لیا تھا کہ اگر کسی صحابی سے ملاقات ہوئی تو ان سے تقدیر الٰہی کا انکار کرنے والوں کا مقولہ دریافت کریں گے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت ابن عمر (رض) سے ملاقات ہوگئی آپ مسجد میں داخل ہو رہے تھے ہم دونوں نے دائیں بائیں سے گھیر لیا چونکہ میرا خیال تھا کہ میرا ساتھی سلسلہ کلام میرے ہی سپرد کرے گا اس لئے میں نے کہنا شروع کیا، اے ابوعبدالرحمن ہمارے ہاں کچھ ایسے آدمی پیدا ہوگئے ہیں جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور علم دین کی تحقیقات کرتے ہیں اور راوی نے ان کی تعریف کی مگر ان کا خیال ہے کہ تقدیر الٰہی کوئی چیز نہیں ہے ہر بات بغیر تقدیر کے ہوتی ہے اور سارے کام ناگہاں ہوتے ہیں حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اگر تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہوجائے تو کہہ دینا کہ نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے اور نہ ان کا مجھ سے حضرت ابن عمر (رض) قسم کھا کر فرماتے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کر دے تب بھی اللہ اس کی خیرات قبول نہیں کرے گا تاوقتیکہ اس کا تقدیر پر ایمان نہ ہو مجھ سے میرے باپ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ایک حدیث بیان کی تھی فرمایا کہ ایک روز ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے اچانک ایک شخص نمودار ہوا نہایت سفید کپڑے بہت سیاہ بال سفر کا کوئی اثر یعنی گردو غبار وغیرہ اس پر نمایاں نہ تھا اور ہم میں سے کوئی اس کو جانتا بھی نہ تھا بالآخر وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے زانو بزانو ہو کر بیٹھ گیا اپنے دونوں ہاتھوں کو رسول پاک ﷺ کی رانوں پر رکھ دیا اور عرض کیا یا محمد ﷺ اسلام کی کیفت تبائیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم کلمہ توحید یعنی اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ کی رسالت (کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) کا اقرار کرو، نماز پابندی سے بتعدیل ارکان ادا کرو، زکوٰۃ دو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعتِ زاد راہ ہو تو حج بھی کرو۔ آنے والے نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ ہم کو تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد اس شخص نے عرض کیا کہ ایمان کی حالت بتائیے آپ ﷺ نے فرمایا ایمان کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور قیامت کا یقین رکھو، تقدیر الٰہی کو یعنی ہر خیر وشر کے مقدم ہونے کو سچا جانو۔ آنے والے نے عرض کیا : آپ نے سچ فرمایا۔ پھر کہنے لگا احسان کی حقیقت بتائیے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : احسان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (تو کم از کم) اتنا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔ آنے والے نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں بتائیے آپ ﷺ نے عرض کیا کہ قیامت کے بارے میں جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ اس بات سے واقف نہیں ہے اس نے عرض کیا اچھا قیامت کی علامات بتائیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کی علامات میں سے یہ بات ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور تو دیکھے گا کہ ننگے پاؤں ننگے جسم تنگ دست چرواہے بڑی بڑی عمارتوں پر اترائیں گے اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمر کیا تم جانتے ہو کہ یہ سوال کرنے والا کون تھا میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔

【2】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

محمد بن عبید الغبری، ابوکامل الفضیل بن الحسین الجحدری و احمد بن عبدہ الضبی، حماد بن زید، مطر الوراق، عبداللہ بن بریدہ، یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ جب معبد نے تقدیر کا انکار کیا تو ہمیں اس مسئلہ میں تردد ہوا۔ اتفاق سے میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج کے لئے گئے امام مسلم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد یحییٰ بن یعمر نے وہی حدیث کچھ لفظی فرق کے ساتھ بیان کی جو اس سے پہلے گزر چکی ہے۔

【3】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید القطان، عثمان بن غیاث عبداللہ بن بریدہ، حضرت یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمن دونوں بیان کرتے ہیں کہ ہماری ملاقات حضرت ابن عمر سے ہوئی ہم نے ان سے تقدیر کا انکار کرنے والوں کا ذکر کیا اس کے بعد انہوں نے وہی پورا واقعہ اور حضرت عمر (رض) کی روایت بیان کی (جو گزر چکی ہے) مگر اس روایت کے بعض الفاظ میں کمی بیشی ہے۔

【4】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

حجاج بن الشاعر، یونس بن محمد، معتمر اپنے والد سے، یحییٰ بن یعمر، ابن عمر، عمر نبی کریم ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں جو کہ گزر چکی ہے۔

【5】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن علیہ، زہیر، اسماعیل بن ابراہیم، ابی حیان، ابی زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنے تشریف فرما تھے اتنے میں ایک آدمی نے حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ایمان کیا چیز ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس سے ملنے کا، اس کے پیغمبروں کا اور حشر کا یقین رکھو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اسلام کیا ہے ؟ فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز پابندی سے پڑھو، فرض کی گئی زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول احسان کس کو کہتے ہیں ؟ فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے تو (کم از کم اتنا یقین رکھو) کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا قیامت کب ہوگی ؟ ارشاد فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے اس بات کا زیادہ جاننے والا نہیں ہے، ہاں میں تمہیں اس کی علامات بتاتا ہوں : جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی یہ قیامت کی علامات میں سے ہے جب ننگے بدن اور ننگے پاؤں رہنے والے لوگوں کے سردار ہوجائیں گے تو یہ قیامت کی علامت ہے جب اونٹوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر فخر کریں گے تو یہ قیامت کی علامات میں سے ہے، قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ ) 31 ۔ لقمان : 34) پھر وہ شخص پشت پھیر کر چلا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو واپس لاؤ لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل آئے تھے تاکہ لوگوں کو ان کا دین سکھائیں۔

【6】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، محمد بن بشر، حضرت ابوحیان تیمی کی روایت بھی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت کے مطابق ہے صرف اتنا لفظ بدلا ہوا ہے کہ بجائے رب کے بعل کا لفظ ہے ترجمہ یہ ہے کہ جب لونڈی اپنے شوہر کی مالکہ ہوگی۔

【7】

ایمان اور اسلام اور احسان اور اللہ سبحانہ وتعالی کی تقدیر کے اثبات کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر بن عمارہ یعنی ابن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو۔ لوگوں پر ہیبت چھا گئی کہ آپ ﷺ سے کچھ پوچھیں۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور رسول اللہ ﷺ کے زانوں کے پاس بیٹھ کر عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ اسلام کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، نماز پابندی سے پڑھو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا آپ نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ایمان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس سے ملنے کا اور اس کے پیغمبروں کا یقین رکھو، حشر کو سچا جانو اور ہر طرح کی تقدیر الٰہی کو خواہ خیر ہو یا شر ہو دل سے مانو اس نے کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا اس نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ احسان کس کو کہتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا خوف اتنا رکھو گویا ہر وقت اس کو دیکھ رہے ہو اگر یہ بات نہ ہو تم کم از کم اتنا یقین رکھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے عرض کیا آپ نے سچ فرمایا۔ پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ قیامت کب ہوگی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس بات کو سائل سے زیادہ نہیں جانتا ہاں میں اس کی علامات تمہیں بتادیتا ہوں جب تم دیکھو کہ عورتیں اپنے مالکوں کو جنم دے رہی ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں بہرے گونگے جاہل زمین کے بادشاہ ہو رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب دیکھو کہ اونٹوں کے چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر اترا رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے قیامت ان پانچ غیبی چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ) 31 ۔ لقمان : 34) پڑھی اس کے بعد وہ شخص اٹھ کر چلا گیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو واپس بلاؤ لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے چونکہ تم نے خود سوال نہیں کیا تھا اس لئے انہوں نے چاہا کہ تم لوگ دین کی باتیں سیکھ لو۔

【8】

ان نمازوں کے بیان میں جو اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہیں

قتیبہ بن سعید بن جمیل بن طریف بن عبداللہ الثقفی، مالک بن انس، ابی سہیل اپنے باپ سے، حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، ہمیں اس کی آواز میں گنگناہٹ تو سنائی دے رہی تھی مگر بات سمجھ میں نہیں آتی تھی بالا آخر جب وہ رسول اللہ ﷺ کے قریب ہوگیا اس وقت معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اس نے عرض کیا کیا اس کے علاوہ بھی کوئی نماز میرے لئے فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، ہاں اگر تم نفل پڑھ لو تو خیر اور ماہ رمضان کے روزے بھی فرض ہیں۔ اس نے عرض کیا کیا اس کے علاوہ بھی میرے لئے کوئی روزہ فرض ہے ؟ فرمایا نہیں ہاں اگر تم نفل روزہ رکھو تو خیر، رسول اللہ ﷺ نے اس کے سامنے زکوٰۃ کا بھی تذکرہ کیا اس نے عرض کیا کیا اس کے علاوہ بھی کوئی اور صدقہ دینا مجھ پر لازم ہے ؟ فرمایا نہیں ہاں اگر اپنی طرف سے دو تو بہتر ہے، اس کے بعد وہ شخص پشت پھیر کر یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ اللہ کی قسم میں اس میں کمی بیشی نہیں کروں گا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا تو کامیاب ہوگیا۔

【9】

ان نمازوں کے بیان میں جو اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہیں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، ابی سہیل اپنے والد سے، حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے اس حدیث کو امام مالک کی حدیث کی طرح نبی ﷺ سے روایت کیا ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس کے باپ کی اگر یہ سچا ہے تو کامیاب ہوگیا یا قسم ہے اس کے باپ کی اگر یہ سچا ہے تو جنت میں داخل ہوگا۔

【10】

اسلام کے ارکان اور ان کی تحقیق کے بیان میں

عمرو بن محمد بن بکیر الناقد، ہاشم بن القاسم ابوالنصر، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ چونکہ ہمیں از خود رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا اس لئے ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھدار دیہاتی آئے اور وہ آپ ﷺ سے سوال کرے اور ہم بھی سنیں۔ اتفاقا ایک دیہاتی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد ﷺ آپ ﷺ کا قاصد ہمارے ہاں آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اللہ نے آپ ﷺ کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے، اس دیہاتی نے کہا آسمان کو کس نے بنایا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اس نے عرض کیا زمین کو کس نے بنایا ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اس نے عرض کیا ان پہاڑوں کو کس نے بنایا ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اس دیہاتی نے عرض کیا اس اللہ کی قسم جس نے آسمان بنایا زمین بنائی پہاڑ قائم کئے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں بیشک دیہاتی نے عرض کیا آپ ﷺ کا قاصد کہتا تھا کہ دن رات میں ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا، دیہاتی نے عرض کیا آپ ﷺ کو اس اللہ کی قسم جس نے آپ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کا حکم بھی دیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، دیہاتی نے عرض کیا کہ آپ ﷺ کا قاصد یہ بھی کہتا تھا کہ ہم پر اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے سچ کہا، دیہاتی نے عرض کیا کہ اس اللہ کی قسم جس نے آپ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، دیہاتی نے عرض کیا آپ ﷺ کا قاصد کہتا تھا کہ سال میں ماہ رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے سچ کہا، دیہاتی نے کہا آپ ﷺ کو اس اللہ کی قسم جس نے آپ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کا حکم بھی دیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، دیہاتی نے عرض کیا آپ ﷺ کا قاصد یہ بھی کہتا تھا کہ ہم میں سے جس کو استطاعت زاد راہ ہو اس پر بیت اللہ کا حج کرنا بھی ضروری ہے، آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا، اس کے بعد وہ دیہاتی پشت پھیر کر یہ کہتا ہوا چلا گیا قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں میں نہ زیادہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔

【11】

اسلام کے ارکان اور ان کی تحقیق کے بیان میں

عبداللہ بن ہاشم العبدی، بہز، سلیمان بن مغیرہ، حضرت ثابت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہمیں رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرما دیا گیا تھا اور باقی حدیث اس طرح بیان کی جو اوپر گزری۔

【12】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

محمد بن عبداللہ بن نمیر اپنے والد سے، عمر بن عثمان، موسیٰ بن طلحہ، حضرت ابوایوب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سفر کے دوران ایک دیہاتی سامنے سے آیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے ایسی چیز بتا دیجئے جو مجھے جنت کے قریب اور دوزخ سے دور کر دے ! رسول اللہ ﷺ رک گئے اور اپنے صحابہ کی طرف غور سے دیکھ کر فرمایا اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق مل گئی یا فرمایا ہدایت مل گئی، پھر دیہاتی سے فرمایا تو نے کیا کہا تھا ؟ دیہاتی نے دوبارہ وہی عرض کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، نماز پاپندی سے پڑھ اور زکوٰۃ ادا کر اور رشتہ داروں سے میل جول رکھ پس اب میری اونٹنی چھوڑ دے۔

【13】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

محمد بن حاتم و عبدالرحمن بن بشر، بہز، محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب، اس کے والد عثمان، موسیٰ بن طلحہ، حضرت ابوایوب (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث مبارکہ بھی اسی طرح روایت کی ہے۔

【14】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

یحییٰ بن یحییٰ التمیمی، ابوالاحوص، ابوبکر بن شیبہ، ابوالاحوص، ابواسحاق، موسیٰ بن طلحہ، حضرت ابوایوب (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت سے نزدیک اور دوزخ سے دور کر دے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور نماز پابندی سے پڑھ اور زکوٰۃ ادا کر اور اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر، اس کے بعد وہ شخص پشت پھیر کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر یہ میرے حکم پر کار بند رہے گا تو جنت میں داخل ہوجائے گا۔

【15】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

ابوبکر بن اسحاق، عفان، وہیب، یحییٰ بن سعید، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجئے کہ اگر میں اس پر عمل پیرا ہوں تو جنت میں داخل ہوجاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز پابندی سے پڑھو اور فرض کی گئی زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو، دیہاتی نے یہ سن کر کہا قسم ہے اس اللہ کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں کبھی اس میں کمی بیشی نہیں کروں گا پھر جب وہ پشت پھیر کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی کو جنتی آدمی دیکھنے سے خوشی ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔

【16】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوسفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نعمان بن قوقل نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے پس عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس سے بچتا رہوں اور حلال کو حلال سمجھوں تو کیا آپ ﷺ کی رائے میں میں جنت میں داخل ہوجاؤں گا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں۔

【17】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

حجاج بن شاعر، قاسم بن زکریا، عبیداللہ بن موسی، شیبان، اعمش، ابوصالح، ابوسفیان، جابر سے روایت ہے کہ نعمان بن قوقل نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا اے اللہ کے رسول ﷺ باقی روایت اسی طرح ہے جو اوپر گزری ہے اس میں صرف اتنا زیادہ ہے کہ اس پر میں کچھ بھی زیادہ نہیں کروں گا۔

【18】

اس ایمان کے بیان میں جو جنت میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے اور وہ احکام جن پر عمل کی وجہ سے جنت میں داخلہ ہوگا

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل یعنی عبداللہ، ابوالزبیر، جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس سے بچتا رہوں تو کیا آپ ﷺ کی رائے میں میں جنت میں داخل ہوجاؤں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! اس شخص نے عرض کیا اللہ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا۔

【19】

اسلام کے بڑے بڑے ارکان اور ستونوں کے بیان میں

محمد بن عبداللہ ابن نمیر الہمدانی، ابوخالد یعنی سلیمان بن حیان الاحمر، ابومالک الاشجعی، سعد بن عبیدہ، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار، پابندی سے نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ ایک شخص نے راوی سے کہا کہ اصل حدیث میں الحج وصیام رمضان یعنی حج کا ذکر رمضان سے مقدم ہے راوی نے جواب میں کہا کہ نہیں صیام رمضان والحج ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے۔

【20】

اسلام کے بڑے بڑے ارکان اور ستونوں کے بیان میں

سہل بن عثمان العسکری، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، سعد بن طارق، سعد ابن عبیدہ السلمی ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کے علاوہ ہر چیز کی عبادت سے انکار کرنا، پابندی سے نماز پڑھنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

【21】

اسلام کے بڑے بڑے ارکان اور ستونوں کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ اپنے والد سے، عاصم یعنی ابن محمد بن زید بن ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کا اقرار کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز پابندی سے پڑھنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

【22】

اسلام کے بڑے بڑے ارکان اور ستونوں کے بیان میں

ابن نمیر اپنے والد سے، حنظلہ، عکرمہ بن خالد، طاؤس، ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ کیا آپ جہاد نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔

【23】

اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ اور شریعت کے احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اسکی طرف لوگوں کو بلانا اور دین کے بارے میں پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو اسکی تبلیغ کرنا

خلف بن ہشام، حماد بن زید، ابوجمرہ، ابن عباس، ح، یحییٰ بن یحییٰ عباد بن ابوجمرہ، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم خاندان ربیعہ سے ہیں اور ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم آپ ﷺ کی خدمت میں حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور زمانہ میں نہیں پہنچ سکتے اس لئے آپ ہمیں کوئی ایسا حکم فرمائیں جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور ادھر والوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تم کو چار باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں کی ممانعت کرتا ہوں : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، نماز باقاعدگی سے پڑھنا، زکوٰۃ ادا کرنا، مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنا اس کے بعد فرمایا میں تم کو درج ذیل چیزوں سے منع کرتا ہوں کدو کے تون بے سے، سبز گھڑے سے، لکڑی کے گھڑے سے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن سے خلف بن ہشام نے اپنی روایت میں اتنا زیادہ کیا ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اشارہ فرمایا۔

【24】

اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ اور شریعت کے احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اسکی طرف لوگوں کو بلانا اور دین کے بارے میں پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو اسکی تبلیغ کرنا

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابوبکر، غندر، شعبہ، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوجمرہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے لوگوں کے درمیان ترجمانی کیا کرتا تھا اتنے میں ایک عورت آئی اس نے حضرت ابن عباس (رض) سے گھڑے کی نبیذ کے متعلق مسئلہ پوچھا حضرت ابن عباس (رض) نے جواب دیا کہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون سا وفد ہے یا کس قوم سے ہیں ؟ وفد والوں نے عرض کیا کہ خاندان ربیعہ، آپ ﷺ نے اس وفد کو خوش آمدید کہا اور دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تم کو رسوا اور پشیمان نہ کرے، اہل وفد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ ﷺ کی خدمت میں دور دراز سے سفر کر کے آئے ہیں اور ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان قبیلہ مضر کے کافر حائل ہیں اور ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور کسی مہینہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتے اس لئے آپ ﷺ ہمیں کوئی ایسا امر فیصل بتادیں جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنے کی دعوت دیں اور ہم جنت میں داخل ہوجائیں، آپ ﷺ نے ان کو چار چیزوں کے کرنے کا اور چار چیزوں سے رک جانے کا حکم دیا آپ ﷺ نے ان کو ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا اور پھر خود ہی فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان لانے کے کیا معنی ہیں ؟ وفد والوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنا، آپ ﷺ نے ان کو چار چیزوں سے منع فرمایا کدو کی تونبی، سبز گھڑا، روغن قیر ملا ہوا برتن، شعبہ کی روایت کے مطابق لکڑی کا برتن پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم خود بھی اسے یاد رکھو اور اپنے پیچھے والوں کو بھی اطلاع کردو ابوبکر بن شیبہ نے اپنی روایت میں لکڑی کے برتن کا ذکر نہیں کیا۔

【25】

اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ اور شریعت کے احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اسکی طرف لوگوں کو بلانا اور دین کے بارے میں پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو اسکی تبلیغ کرنا

عبیداللہ بن معاذ اپنے والد سے، نصر بن علی الجہضمی اپنے والد سے، قرہ بن خالد، ابی جمرہ حضرت ابن عباس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس حدیث کو حضرت شعبہ (رض) والی حدیث کی طرح نقل کیا ہے اور اس میں آپ ﷺ نے فرمایا میں تم کو اس نبیذ سے منع کرتا ہوں جو کدو کی تو نبی اور لکڑی کے کٹھلے اور سبز گھڑے اور روغن قیر ملے ہوئے برتن میں بنایا جاتا ہے حضرت ابن معاذ (رض) کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اشج سے جو قبیلہ عبدالقیس کا سردار تھا فرمایا تمہارے اندر دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے عقلمندی اور سوچ سمجھ کر کام کرنا۔

【26】

اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ اور شریعت کے احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اسکی طرف لوگوں کو بلانا اور دین کے بارے میں پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو اسکی تبلیغ کرنا

یحییٰ بن ایوب، ابن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ (رض) نے فرمایا کہ مجھ سے اس شخص نے روایت نقل کی ہے جو قبیلہ عبدالقیس کے وفد سے ملا تھا وہ وفد جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، حضرت سعید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابونضرہ کے واسطہ سے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت بیان کی کہ قبیلہ عبدالقیس کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم ربیعہ کے قبیلہ سے ہیں ہمارے اور آپ ﷺ کے درمیان قبیلہ مضر کے کفار حائل ہیں اس لئے حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور مہینوں میں ہم آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتے اس لئے آپ ﷺ ہمیں ایسا حکم دیں جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ والوں کو بھی اس پر عمل کرنے کا حکم دیں اور اس کے ذریعے ہم جنت میں داخل ہوجائیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم کو چار باتوں کے کرنے کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرو اور چار باتوں سے میں تم کو منع کرتا ہوں۔ کدو کی تونبی، سبز گھڑا، روغن قیر ملا ہوا برتن، لکڑی کا کٹھلا، وفد کے لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ کیا آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ کٹھلا کیا ہوتا ہے اور کس کام آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں لکڑی کو کھود کر تم لوگ اس میں کھجوریں ڈال کر پانی ملاتے ہو جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو پھر تم اس کو پی لیتے ہو اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ نشہ میں تم میں سے کوئی اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارنے لگتا ہے، راوی نے کہا لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا اس کو اس نشہ کی بدولت زخم لگ چکا تھا اس نے کہا میں اس کو رسول اللہ ﷺ سے شرم کے مارے چھپاتا تھا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ پھر ہم کس برتن میں پانی پئیں آپ ﷺ نے فرمایا چمڑے کے مشکوں میں جن کا منہ باندھا جاتا ہے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ ہمارے علاقے میں چوہے بہت ہیں چمڑے کی مشکیں نہیں رہ سکتیں، آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ چوہے کاٹ ڈالیں اگرچہ چوہے کاٹ ڈالیں اگرچہ چوہے کاٹ ڈالیں پھر رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ عبدالقیس کے سردار اشج سے فرمایا تمہارے اندر دو خصلتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے عقلمندی اور بردباری۔

【27】

اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ اور شریعت کے احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اسکی طرف لوگوں کو بلانا اور دین کے بارے میں پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو اسکی تبلیغ کرنا

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ سے روایت ہے کہ مجھ سے ان لوگوں نے روایت کیا جو قبیلہ عبدالقیس کے وفد سے ملے اور حضرت قتادہ (رض) نے حضرت ابونضرہ کے واسطہ سے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا باقی حدیث اسی طرح ہے جو گزر چکی ہے صرف سند اور کچھ الفاظ کا ردوبدل ہے مگر ترجمہ یہی ہے۔

【28】

اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ اور شریعت کے احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اسکی طرف لوگوں کو بلانا اور دین کے بارے میں پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو اسکی تبلیغ کرنا

محمد بن بکاربصری، عاصم ابن جریج، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابوقرعہ، ابونضرہ، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ ہم آپ ﷺ پر قربان، ہمیں کس قسم کی چیز میں پینا حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لکڑی کے کٹھلے میں نہ پیا کرو، لوگوں نے عرض کی اے اللہ کے نبی ﷺ ہم آپ ﷺ پر قربان، کیا آپ ﷺ جانتے ہیں کہ لکڑی کا کٹھلا کیا ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں لکڑی کو اندر سے کھود لیتے ہیں اسے کٹھلا کہتے ہیں اور کدو کی تو بنی اور سبز گھڑے میں بھی نہ پیا کرو ہاں چمڑے کے برتن میں جس کا منہ ڈروی سے باندھ دیا جاتا ہے۔

【29】

تو حید ورسالت کی گواہی کی طرف دعوت دینا اور اسلام کے ارکان کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ابوبکر، وکیع، زکریا، ابن اسحاق، یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی، ابی معبد، ابن عباس، معاذ بن جبل، ابوبکر، وکیع، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور فرمایا تم اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے پاس جا رہے ہو پہلے تم انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ اس کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے دن رات میں پانچ نمازیں ان پر فرض فرمائی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو دولت مندوں سے لے کر انہی کے مفلس طبقہ میں تقسیم کی جائے گی اب اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو تم ان کا بہترین مال ہرگز نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے ڈرنا کیونکہ مظلوموں کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ (براہ راست اللہ تک پہنچتی ہے)

【30】

تو حید ورسالت کی گواہی کی طرف دعوت دینا اور اسلام کے ارکان کا بیان

ابن ابی عمر، بشر بن السری، زکریابن اسحاق، ح، عبد بن حمید، ابوعاصم، زکریا بن اسحاق، یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی، ابی معبد، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا باقی حدیث وہی ہے جو اوپر گزری ہے صرف سند کا فرق ہے۔

【31】

تو حید ورسالت کی گواہی کی طرف دعوت دینا اور اسلام کے ارکان کا بیان

امیہ بن بسطام عیشی، یزید بن زریع، روح یعنی ابن قاسم، اسماعیل بن امیہ، یحییٰ بن عبداللہ صیفی، ابی معبد، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ (رض) کو یمن کو حاکم بنا کر بھیجا تو فرمایا تم اہل کتاب کی قوم کی طرف جا رہے ہو پہلے تم انہیں اس چیز کی دعوت دینا کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کریں اگر وہ توحید کا اقرار کرلیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے دن رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں اگر وہ اس کی بھی تعمیل کرنے لگیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو دولت مند لوگوں سے لے کر انہی کے محتاجوں کو دی جائے گی اب اگر وہ یہ بات بھی مان لیں تو ان سے وصول کرنا مگر ان کے اعلی درجہ کے مال سے پرہیز رکھنا۔

【32】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

قتیبہ بن سعید، لیث بن سعید، عقیل، زہری، عبیداللہ بن عبداللہ، عتبہ بن مسعود، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب وفات پائی اور آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر (رض) خلیفہ بنائے گئے اور اہل عرب میں سے جنہیں کافر ہونا تھا وہ کافر ہوگئے حضرت ابوبکر (رض) نے ان کے خلاف اعلان جنگ کیا تو حضرت عمر فاروق (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کس طرح جنگ کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا تھا کہ مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم اس وقت تک ہوا ہے کہ وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کے قائل ہوجائیں پس جو شخص لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا قائل ہوجائے گا وہ مجھ سے اپنا جان ومال بچالے گا ہاں حق پر ضرور اس کے جان و مال سے تعرض کیا جائے گا باقی اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے حضرت ابوبکر (رض) نے جواب میں ارشاد فرمایا اللہ کی قسم میں ضرور اس شخص سے قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت میں فرق جانتا ہے کیونکہ جس طرح نماز جسم کا حق ہے اسی طرح زکوٰۃ مال کا حق ہے اللہ کی قسم اگر وہ لوگ ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں گے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دیا کرتے تھے اور مجھے نہ دیں گے تو میں ضرور ان سے جنگ کروں گا، حضرت عمر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر (رض) کا سینہ مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے کشادہ کردیا ہے تو میں بھی سمجھ گیا کہ یہی بات حق ہے۔

【33】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، احمد بن عیسی، احمد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے یہاں تک کہ لَا اِلٰہ اِلَّاَ اللہ کے قائل ہوجائیں جو شخص لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا قائل ہوجائے وہ مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرے گا لیکن حق پر اس کے جان و مال سے تعرض کیا جائے گا باقی اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔

【34】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

احمد بن عبدہ الضبی، عبدالعزیز (در اور دی) علاء، ح، امیہ بن بسطام یزید بن زریع، روح، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب اپنے والد سے، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے لوگوں سے لڑنے کا حکم اس وقت تک ہے کہ وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کی گواہی دینے لگیں اور میرے ان تمام احکام پر ایمان لے آئیں جو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لایا ہوں اگر وہ ایسا کرلیں تو مجھ سے اپنی جان ومال محفوظ کرلیں گے ہاں حق پر ان کی جان ومال سے تعرض کیا جائے گا باقی ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔

【35】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، اعمش، ابی سفیان، جابر، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں باقی حدیث اسی طرح ہے جو گزر چکی ہے صرف الفاظ کا فرق ہے باقی مفہوم یہی ہے۔

【36】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ح، محمد بن مثنی، عبدالرحمن یعنی ابن مہدی، سفیان، ابی الزبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے لوگوں سے لڑنے کا اس وقت تک حکم ہے کہ وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کے قائل ہوجائیں اگر وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کے قائل ہوجائیں گے تو ان کی جان اور انکا مال مجھ سے بچ جائے گا ہاں حق پر جان و مال سے تعرض کیا جائے گا باقی ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی یعنی آپ ﷺ تو نصیحت کرنے والے ہیں آپ ﷺ ان پر کوئی داروغہ نہیں ہیں۔

【37】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

ابوغسان مسمعی، مالک بن عبدالواحد، عبدالملک بن الصباح، شعبہ، واقد بن محمد بن زید بن عبداللہ، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے کہ وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی دینے لگیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں اگر وہ ایسا کریں گے تو مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچالیں گے ہاں حق پر جان ومال سے تعرض کیا جائے گا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔

【38】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

سوید بن سعید، ابن ابی عمر، مروان، ابومالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور چیزوں کی پرستش کا انکار کردیا اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔

【39】

ایسے لوگوں سے قتال (جہاد) کا حکم یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد الاحمر، ح، زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، ابومالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کو ایک مانا پھر اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔

【40】

موت کے وقت نزع کا عالم طاری ہونے سے پہلے پہلے اسلام قابل قبول ہے اور مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں اور شرک پر مرنے والا دوزخی ہے کوئی وسیلہ اس کے کام نہ آئے گا

حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو ان کے پاس موجود پایا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے چچا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کلمہ کہہ دو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی گواہی دوں گا ابوجہل اور ابن امیہ کہنے لگے کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر رہے ہو ؟ مگر رسول اللہ ﷺ باربار کلمہ توحید اپنے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کرتے رہے اور یہی بات دھراتے رہے بالآخر ابوطالب نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک مجھے روکا نہیں جائے گا میں تو برابر دعائے مغفرت کرتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْ ا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) 9 ۔ التوبہ : 113) نازل فرمائی نبی ﷺ اور مومنوں کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوگیا ہو کہ وہ دوزخی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ) 28 ۔ القصص : 56) یعنی بیشک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔

【41】

موت کے وقت نزع کا عالم طاری ہونے سے پہلے پہلے اسلام قابل قبول ہے اور مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں اور شرک پر مرنے والا دوزخی ہے کوئی وسیلہ اس کے کام نہ آئے گا

اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ح، حسن الحلوانی، عبد بن حمید، یعقوب یعنی ابن ابراہیم بن سعد اپنے والد سے، صالح، زہری نے انہی سندوں کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر اس روایت میں دونوں آیات کا تذکرہ نہیں ہے۔

【42】

موت کے وقت نزع کا عالم طاری ہونے سے پہلے پہلے اسلام قابل قبول ہے اور مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں اور شرک پر مرنے والا دوزخی ہے کوئی وسیلہ اس کے کام نہ آئے گا

محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابوحازم، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ) 28 ۔ القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بیشک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔

【43】

موت کے وقت نزع کا عالم طاری ہونے سے پہلے پہلے اسلام قابل قبول ہے اور مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں اور شرک پر مرنے والا دوزخی ہے کوئی وسیلہ اس کے کام نہ آئے گا

محمد بن حاتم بن میمون، یحییٰ بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم اشجعی، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا سے فرمایا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دو تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے جواب میں کہا قریش مجھے بدنام کریں گے اور کہیں گے کہ ابوطالب نے ڈر کے مارے ایسا کیا اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں کلمہ پڑھ کر آپ ﷺ کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا اسی پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ) 28 ۔ القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بیشک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔

【44】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ابوبکر، ابن علیہ، خالد، ولید بن مسلم، حمران، عثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا یقین رکھتے ہوئے مرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

【45】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

محمد بن ابی بکر مقدمی، بشربن مفضل، خالد حذاء، ولید ابی بشر، حمران، حضرت عثمان (رض) سے اسی طرح کا فرمان رسول اللہ ﷺ کا نقل کیا ہے صرف الفاظ میں ردو بدل ہے مطلب اور ترجمہ یہی ہے۔

【46】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

ابوبکر بن نضر بن ابی النضر، ابوالنضر ہاشم بن القاسم، عبیداللہ اشجعی، مالک بن مغول، طلحہ بن مصرف، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے لوگوں کے پاس جو زاد راہ تھا وہ ختم ہوگیا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں میں سے بعض کے اونٹ ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر آپ ﷺ لوگوں کے پاس سے بچا ہو زاد راہ جمع کریں اور اس پر دعا فرمائیں تاکہ اس میں برکت ہوجائے اور سب کو کفایت کر جائے، آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا تو جس کے پاس گیہوں تھے وہ گیہوں لے کر آگئے اور جس کے پاس کھجور تھی وہ کھجور لے کر آگئے اور جس کے پاس خالی گٹھلیاں تھیں وہ خالی گٹھلیاں لے کر آیا، میں نے کہا گٹھلی کو کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ گٹھلیوں کو چوستے تھے اور اس پر پانی پی لیا کرتے تھے بالآخر سارا سامان جب جمع ہوگیا تو آپ ﷺ نے اس پر دعا فرمائی نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگوں نے اپنے اپنے توشہ دانوں کو بھر لیا اس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو بندہ اللہ تعالیٰ سے ان دونوں باتوں کی شہادتوں کا یقین رکھتے ہوئے مرے گا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔

【47】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

سہل بن عثمان، ابوکریب، محمد بن علاء، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ یا حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے ( راوی اعمش کو شک ہے) کہ جب غزوہ تبوک کا وقت آیا تو اس دن لوگوں کو بہت سخت بھوک لگی، انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر آپ ﷺ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنے ان اونٹوں کو جن پر پانی لاتے ہیں ان کو ذبح کرکے گوشت وغیرہ کھالیں اور چربی کا تیل بنالیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم ایسا کرلو، اتنے میں حضرت عمر (رض) آئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ اگر آپ ﷺ ایسا کریں گے تو سواریاں کم ہوجائیں گی آپ ﷺ ایسا نہ کریں بلکہ سب لوگوں کا بچا ہوا کھانے پینے کا سامان جمع کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس میں برکت کی دعا فرمائیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا آپ ﷺ نے فرمایا اچھا ! پھر چمڑے کا دستر خوان منگوا کر بچھا دیا اور لوگوں کے پاس جو کچھ کھانے پینے کا سامان بچ گیا تھا اس کو طلب فرمایا : آپ ﷺ کے حکم کے مطابق کچھ لوگوں نے مٹھی بھر جو اور کچھ لوگوں نے مٹھی بھر چھوہارے اور کچھ لوگوں نے روٹی کا ٹکڑا لا کر حاضر کردیا یہاں تک کہ یہ سب کچھ جب دستر خوان پر جمع ہوگیا تو آپ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی، دعا کے بعد فرمایا اپنے اپنے سب برتن بھر لو، لوگوں نے تمام برتن بھر لئے پھر لشکر میں کوئی برتن خالی نہ رہا پھر سب لوگوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور اس کے بعد بھی کچھ باقی رہ گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں جو بندہ ان دونوں شہادتوں پر یقین رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا (مرے گا) اسے جنت سے ہرگز نہ روکا جائے گا۔

【48】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

داؤد بن رشید، ولید یعنی ابن مسلم، ابن جابر، عمیر بن ہانی، جنادہ، ابی امیہ، عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اس بات کا قائل ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے نبی، حضرت مریم کے بیٹے اور کلمہ اللہ ہیں جو اس نے حضرت مریم کی طرف القاء کیا تھا اور روح اللہ ہیں اور یہ کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو وہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔

【49】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

احمد بن ابراہیم دورقی، مبشر بن اسماعیل، اوزاعی، حضرت عمیر بن ہانی سے اسی طرح کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اس کے جو عمل بھی ہوں لیکن اس روایت میں یہ الفاظ مذکور نہیں کہ جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے چلا جائے۔

【50】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان، محمد بن یحییٰ ابن حبان، ابن محیریز، حضرت صنابحی سے روایت ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت (رض) نزع کی حالت میں تھے میں حاضر ہوا اور انہیں دیکھ کر رونے لگا انہوں نے فرمایا روتا کیوں ہے اللہ کی قسم اگر مجھ سے گواہی لی گئی تو میں تیرے لئے گواہی دوں گا اگر میری سفارش قبول کی گئی تو میں تیرے لئے سفارش کروں گا اگر مجھ میں طاقت ہوئی تو تجھے فائدہ پہنچاؤں گا پھر فرمایا کوئی حدیث ایسی نہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو اور اس میں تم لوگوں کو فائدہ ہو اور میں نے تم سے وہ بیان نہ کی ہو ہاں ایک حدیث میں نے بیان نہیں کی وہ میں آج تم سے بیان کرتا ہوں کیونکہ میرا سانس گھٹنے کو ہے مرنے کے قریب ہوں میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص لَا اِلٰہ اِلَّاِ اللہ اور مُحَمَّدُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ کی گواہی دے گا اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو حرام کر دے گا۔

【51】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

ہداب بن خالد ازدی، ہمام، قتادہ، انس بن مالک، معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا میرے اور آپ ﷺ کے درمیان کجاوے کی درمیانی لکڑی کے علاوہ اور کوئی چیز حائل نہ تھی اتنے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے معاذ بن جبل (رض) ! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں حاضر ہوں، پھر تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا اے معاذ بن جبل (رض) ! میں نے عرض کیا میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول ﷺ ! پھر تھوڑی دور چلے پھر فرمایا اے معاذ بن جبل ! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اس کے بعد پھر آپ ﷺ تھوڑی دیر چلتے رہے پھر فرمایا اے معاذ بن جبل (رض) کیا تو جانتا ہے کہ بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے ؟ بشرطیکہ وہ ایسا کریں یعنی شرک نہ کریں، میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو عذاب نہ دے۔

【52】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، سلام بن سلیم، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے عفیر نامی گدھے پر آپ ﷺ کے ساتھ سوار تھا، آپ ﷺ نے فرمایا اے معاذ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ اس کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں (ورنہ) وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔

【53】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوحصین، اشعث بن سلیم، اسود بن ہلال، معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے معاذ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے (اس کے بعد) فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے ؟ جب وہ ایسا کریں ! (یعنی شرک نہ کریں) میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ ان کو عذاب نہ دے

【54】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

قاسم بن زکریا، حسین، زائدہ، ابی حصین، اسود بن ہلال، معاذ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے آواز دی اور میں نے جواب دیا آپ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا حق لوگوں پر کیا ہے ؟ باقی حدیث وہی ہے جو ابھی گذری

【55】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

زہیر بن حرب، عمر بن یونس حنفی، عکرمہ بن عمار، ابوکثیر، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی شامل تھے اچانک رسول اللہ ﷺ ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ہم ڈر گئے کہ کہیں (اللہ نہ کرے) آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا ہرچند باغ کے چاروں طرف گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا میں اسی نالہ میں سمٹ کر گھر کے اندر داخل ہوا اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ابوہریرہ ! میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کا کیا حال ہے ؟ آپ ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ گزرا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے۔ سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی (تلاش کرتے کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور لوگ میرے پیچھے ہیں۔ آپ نے اپنے نعلین مبارک مجھے دے کر فرمایا ابوہریرہ ! میری یہ دونوں جوتیاں (بطور نشانی) کے لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الٰہ الّا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو ۔ (میں نے حکم کی تعمیل کی) سب سے پہلے مجھے حضرت عمر (رض) ملے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ (رض) ! یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ حضرت عمر (رض) نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ (رض) ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر (رض) بھی آپہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ ! کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر (رض) سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ انہوں نے میرے سینے پر ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں سرینوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگے لوٹ جا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کیا آپ نے ابوہریرہ (رض) کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں ! حضرت عمر (رض) نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل کرنا چھوڑ دیں گے) اور اسی فرمان پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اچھا تو) رہنے دو ۔

【56】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

اسحاق بن منصور، معاذ بن ہشام اپنے والد سے، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور معاذ بن جبل ایک سواری پر سوار تھے معاذ (رض) آپ ﷺ کے پیچھے تھے آپ ﷺ نے فرمایا اے معاذ حضرت معاذ (رض) نے عرض کیا حاضر ہوں اے اللہ کے رسول ﷺ نے پھر فرمایا اے معاذ ! حضرت معاذ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں حاضر ہوں خدمت اقدس میں موجود ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا جو بندہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اللہ اس پر ضرور دوزخ حرام کر دے گا، حضرت معاذ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس فرمان کی لوگوں کو اطلاع نہ کر دوں کہ وہ خوش ہوجائیں آپ ﷺ نے فرمایا اگر ایسا ہوگا تو اعمال چھوڑ کر لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے معاذ (رض) نے اپنی موت کے وقت گناہ کے خوف کی وجہ سے یہ حدیث بیان کی۔

【57】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

شیبان بن فروخ، سلیمان یعنی ابن المغیرہ، ثابت، انس بن مالک، محمود بن ربیع، حضرت عتبان بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں میں کچھ خرابی ہوگئی تھی اس لئے میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میری یہ خواہش ہے کہ آپ ﷺ میرے گھر میں تشریف لا کر نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو اپنے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں کیونکہ میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں پس آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے مگر صحابہ (رض) آپس میں گفتگو میں مشغول رہے دوران گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا کہ وہ آپ ﷺ کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے، صحابہ (رض) نے کہا کہ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ ﷺ اس کے لئے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہوجائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا صحابہ (رض) نے عرض کیا زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی حضرت انس (رض) نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کو لکھ لو تو انہوں نے اس حدیث کو لکھ لیا۔

【58】

جو شخص عقیدہ توحید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا

ابوبکر بن نافع عبدی، بہز، حماد، ثابت، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت عتبان بن مالک (رض) نے حدیث بیان کی کہ وہ نا بینا ہوگئے تھے اس لئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ ﷺ میرے گھر تشریف لائیں اور مسجد کی ایک جگہ مقرر کردیں پس آپ ﷺ آئے عتبان کے خاندان والے بھی آئے مگر ایک آدمی جس کا نام مالک بن دخیشم تھا نہ آیا باقی حدیث وہی ہے جو ابھی گزری

【59】

اس بات کے بیان میں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو رب اسلام کو دین اور محمد ﷺ کو رسول مان کر راضی ہو پس وہ مومن ہے اگرچہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرے

محمد بن یحییٰ بن ابی عمر مکی، بشر بن حکم، عبدالعزیز (محمد بن در اور دی) یزید بن ہاد، محمد بن ابراہیم، عامر بن سعد، حضرت عباس (رض) بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر اپنی رضا کا دل سے اعلان کردیا اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔

【60】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

عبیداللہ بن سعید، عبد بن حمید، ابوعامر عقدی، سلیمان بن بلال، عبداللہ بن دینار، ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان ہی کی ایک شاخ ہے۔

【61】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، سہل، عبداللہ بن دینار، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر یا کچھ اوپر ساٹھ شاخیں ہیں جن میں سب سے بڑھ کر لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا قول ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کردینا ہے اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

【62】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو الناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم نے اپنے باپ ابن عمر (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سنا کہ ایک آدمی اپنے بھائی کو حیاء کے متعلق نصیحت کر رہا ہے فرمایا حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔ عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، اس روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انصار کے ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیاء داری کی نصیحت کررہا ہے۔

【63】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

سفیان بن عیینہ کے بجائے معمر نے زہری سے مذکورہ بالاسند کےساتھ خبر دی اور کہا کہ آپ ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو نصیحت کر رہا تھا

【64】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، ابوالسوار، حضرت عمران بن حصین (رض) نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا حیاء سے خیر ہی حاصل ہوتی ہے بشیر بن کعب نے عمران (رض) کی زبان سے یہ حدیث سن کر کہا حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حیاء سے وقار حاصل ہوتا ہے عمران (رض) بولے میں تمہارے سامنے رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالیشان بیان کر رہا ہوں اور تم اپنی حکمت کی کتابوں کی باتیں بیان کرتے ہو۔

【65】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

حماد بن زید نے اسحاق بن سوید سے روایت کی کہ ابو قتادہ ( تمیم بن نذیر ) نے حدیث بیان کی ، کہا کہ ہم انپے ساتھیوں سمیت حضرت عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس حاضر تھے ، ہم میں بشیر بن کعب بھی موجود تھے ، اس روز حضرت عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ہمیں ایک حدیث سنائی ، کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ حیا بھلائی ہے پوری کی پوری ۔ ‘ ‘ ( انہوں نے کہا : یہ الفاظ فرمائے ) : ’’حیا پوری کی پوری بھلائی ہے ۔ ‘ ‘ تو بشیر بن کعب نے کہا : ہمیں کتابون یا حکمت ( کے مجموعوں ) میں یہ بات ملتی ہے کہ حیا سے اطمینان اور اللہ کے لیے وقار ( کا اظہار ) ہوتا ہے اور اس کی ایک قسم ضعیفی ( کمزور ) ہے ۔ حضرت عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سخت غصے میں آ گئے حتی کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور فرمانے لگے : کیا میں دیکھ نہیں رہا کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ سے حدیث سنا رہا ہوں اور تم اس میں مقابلہ کر رہے ہو ؟ ابوقتادہ نے کہا : عمران نےدوبارہ حدیث سنائی اور بشیر نے پھر وہی کہا : اس پر عمران ( سخت ) غصے میں آ گئے ۔ ( ابو قتادہ نے ) کہا : تو ہم نے بار بار یہ کہنا شروع کر دیا : اے ابو نجید! ( حضرت عمران کی کنیت ) یہ ہم میں سے ( مسلمان اور حدیث کا طالب علم ) ہے ۔ اس ( کے عقیدے ) میں کوئی عیب یا نقص نہیں ہے ۔

【66】

ایمان کی شاخوں کے بیان میں کہ ایمان کی کونسی شاخ افضل اور کونسی ادنی؟ اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کے بیان میں

نضر ( بن شمیل ) نے کہا : ہمیں ابو نعامہ عدوی نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں نےحجیر بن ریبع عدوی سےسنا ، وہ کہتے تھے : عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ۔ ( جس طرح ) حماد بن زید کی حدیث ہے ۔

【67】

اسلام کے جامع اوصاف کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابن نمیر، ح، قتیبہ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، جریر، ح، ابوکریب، ابواسامہ، ہشام بن عروہ اپنے والد سے، حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر میں اس کو آپ ﷺ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں ابواسامہ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ کے علاوہ کسی سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو کہہ میں ایمان لایا اللہ پر پھر ڈٹارہ۔

【68】

اسلام کی فضیلت اور اس بات کے بیان میں کہ اسلام میں کونسے کام افضل ہیں؟

قتیبہ بن سعید، لیث، ح، محمد بن رمح بن مہاجر، لیث، یزید بن ابی حبیب، ابوالخیر، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ کون سا اسلام بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا کھانا کھلاؤ اور سلام کرو ہر شخص کو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہیں۔

【69】

اسلام کی فضیلت اور اس بات کے بیان میں کہ اسلام میں کونسے کام افضل ہیں؟

ابوطاہر احمد بن عمرو، ابن عمرو بن سرح المصری، ابن وہب، عمرو بن حارث، یزید بن ابی حبیب، ابوالخیر، ابن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کونسا مسلمان سب سے بہتر ہے آپ ﷺ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

【70】

اسلام کی فضیلت اور اس بات کے بیان میں کہ اسلام میں کونسے کام افضل ہیں؟

حسن الحلوانی، عبد بن حمید، ابوعاصم، ابن جریج، ابوالزبیر، جابر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔

【71】

اسلام کی فضیلت اور اس بات کے بیان میں کہ اسلام میں کونسے کام افضل ہیں؟

سعید بن بن یحییٰ بن سعید اموی اپنے والد سے، ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ بن ابی موسی، ابوبردہ، ابوموسیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کس شخص کا اسلام سب سے بہتر ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

【72】

اسلام کی فضیلت اور اس بات کے بیان میں کہ اسلام میں کونسے کام افضل ہیں؟

ابراہیم بن سعید جوہری، ابواسامہ، برید بن عبداللہ اس روایت میں دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا مسلمان افضل ہے تو آپ ﷺ نے اس طرح ذکر فرمایا۔

【73】

ان خصلتوں کے بیان میں جن سے ایمان کی حلاوت حاصل ہوتی ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن یحییٰ بن ابوعمرو، محمد بن بشار، ثقفی، ابن ابی عمر، عبدالوہاب، ایوب، ابوقلابہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی اس کو ان کی وجہ سے ایمان کی لذت حاصل ہوگی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اسے دیگر سب چیزوں سے محبوب ہوں جس شخص سے محبت کرے اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کرے جب اللہ تعالیٰ نے اسے کفر سے نجات دے دی تو پھر دوبارہ کفر کی طرف لوٹنے کو اتنا برا سمجھے جتنا آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔

【74】

ان خصلتوں کے بیان میں جن سے ایمان کی حلاوت حاصل ہوتی ہے۔

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی اس کو ایمان کا مزہ آجائے گا جس شخص سے محبت کرے صرف اللہ کے لئے کرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اس کو تمام عالم سے زیادہ محبوب ہوں جب اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دے دی تو پھر کفر کی طرف لوٹنے سے زیادہ آگ میں ڈالے جانے کو اچھا سمجھے۔

【75】

ان خصلتوں کے بیان میں جن سے ایمان کی حلاوت حاصل ہوتی ہے۔

اسحاق بن منصور، نضر بن شمیل، حماد، ثابت، انس سے یہ روایت بھی اسی طرح منقول ہے لیکن اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ دوبارہ یہودی یا نصرانی ہونے سے آگ میں لوٹ جانے کو زیادہ بہتر سمجھے۔

【76】

اس بات کے بیان میں کہ مومن وہی ہے جسے رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھر والوں، والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت ہو

زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ، ح، شیبان بن ابی شیبہ، عبدالوارث، عبدالعزیز، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی بندہ کوئی شخص مومن نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے تمام متعلقین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔

【77】

اس بات کے بیان میں کہ مومن وہی ہے جسے رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھر والوں، والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت ہو

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

【78】

اس بات کے بیان میں کہ ایمان کی خصلت یہ ہے کہ اپنے لئے جو پسند کرے اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک یہ بات نہ ہو کہ جو بات اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی اپنے بھائی کے لئے یا پڑوسی کے لئے پسند کرے۔

【79】

اس بات کے بیان میں کہ ایمان کی خصلت یہ ہے کہ اپنے لئے جو پسند کرے اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے۔

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، حسین معلم، قتادہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ مومن نہیں ہوگا جب تک اپنے ہمسایہ یا اپنے بھائی کے لئے وہی بات دل سے نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔

【80】

ہمسایہ کو تکلیف دینے کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر بن ایوب، اسماعیل، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔

【81】

ہمسایہ اور مہمان کی عزت کرنا اور نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا ایمان کی نشانیوں میں سے ہے کا بیان

حرملہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

【82】

ہمسایہ اور مہمان کی عزت کرنا اور نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا ایمان کی نشانیوں میں سے ہے کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، ابی حصین، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔

【83】

ہمسایہ اور مہمان کی عزت کرنا اور نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا ایمان کی نشانیوں میں سے ہے کا بیان

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح فرمایا جو گزشتہ حدیث میں گزرا مگر اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کرے۔

【84】

ہمسایہ اور مہمان کی عزت کرنا اور نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا ایمان کی نشانیوں میں سے ہے کا بیان

زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابن عیینہ، سفیان، عمرو، نافع بن جبیر، حضرت ابوشریح خزاعی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کرنا چاہئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔

【85】

اس بات کے بیان میں کہ بری بات سے منع کرنا ایمان میں داخل ہے اور یہ کہ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قیس بن مسلم، حضرت طارق بن شہاب سے روایت ہے کہ عید کے دن سب سے پہلے نماز سے قبل جس شخص نے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا ایک آدمی کھڑا ہو کر مروان سے کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہونی چاہئے مروان نے جواب دیا وہ دستور اب چھوڑ دیا گیا ہے حاضرین میں سے ابوسعید (رض) بولے اس شخص پر شریعت کا جو حق تھا وہ اس نے ادا کردیا اب چاہے مروان مانے یا نہ مانے میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو شخص تم میں سے کوئی بات شریعت کے خلاف دیکھے تو وہ ہاتھ سے اس کو بدل دے اگر ایسا ممکن نہ ہو تو زبان سے ایسا کرے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے ہی اس کو برا جانے مگر یہ ضعیف ترین ایمان کا درجہ ہے۔

【86】

اس بات کے بیان میں کہ بری بات سے منع کرنا ایمان میں داخل ہے اور یہ کہ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے

ابوکریب، محمد ابن العلاء، ابومعاویہ، اعمش، اسماعیل بن رجاء اپنے والد سے، ابوسعید خدری، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، ابوسعید خدری (رض) سے بھی یہ روایت بالکل اسی طرح مذکور ہے۔

【87】

اس بات کے بیان میں کہ بری بات سے منع کرنا ایمان میں داخل ہے اور یہ کہ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے

عمروالناقد، ابوبکر بن نضر، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، حارث، جعفر بن عبداللہ بن حکم، عبدالرحمن بن مسور، ابورافع، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ سے پہلے جس امت میں نبی بھیجا گیا ہے اس کی امت میں سے اس کے کچھ دوست اور صحابی بھی ہوئے ہیں جو اس کے طریقہ پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو رہے ہیں لیکن ان صحابیوں کے بعد کچھ لوگ ایسے بھی ہوئے ہیں جن کا قول فعل کے خلاف اور فعل حکم نبی کے خلاف ہوا ہے جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا جس نے زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن تھا اس کے علاوہ رائی کے دانہ کے برابر ایمان کا کوئی درجہ نہیں ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابن عمر (رض) کے سامنے بیان کی انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا اتفاق سے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) آگئے اور قناہ وادی مدینہ میں اترے تو حضرت ابن عمر (رض) حضرت عبداللہ بن مسعود کی عیادت کو مجھے اپنے ساتھ لئے گئے میں ان کے ساتھ چلا گیا جب ہم وہاں جا کر بیٹھ گئے تو میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی جیسا کہ میں نے حضرت ابن عمر (رض) سے بیان کی تھی حضرت صالح فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ابورافع (رض) سے اسی طرح بیان کی گئی ہے۔

【88】

اس بات کے بیان میں کہ بری بات سے منع کرنا ایمان میں داخل ہے اور یہ کہ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے

ابوبکر بن اسحاق بن محمد، ابومریم، عبدالعزیزبن محمد، حارث بن فضیل خطمی، جعفر بن عبداللہ بن حکم، عبدالرحمن بن مسور بن مخرمہ، ابورافع نبی ﷺ کے آزاد کردہ غلام، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی کے کچھ دوست ولی ہوئے ہیں جو نبی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور اس کی سنت پر عامل رہے ہیں باقی حدیث صالح کی حدیث کی طرح ہے مگر اس میں حضرت ابن مسعود (رض) کے آنے اور حضرت ابن عمر (رض) کے ملنے کا کوئی تذکرہ نہیں۔

【89】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ح، ابن نمیر، ح، ابوکریب، ابن ادریس، اسماعیل بن ابی خالد، ح، یحییٰ بن حبیب الحارثی، معتمر، اسماعیل، قیس، حضرت ابومسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یمن کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ایمان تو یہاں ہے اور سخت مزاجی اور سنگ دلی ربیعہ و مضر اونٹ والوں میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے ہانکتے چلے جاتے ہیں جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے یعنی قبیلہ ربیعہ اور مضر۔

【90】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

ابوالربیع زہرانی، حماد بن زید، ایوب، محمد، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یمن والے آئے ہیں یہ بہت نرم دل ہیں ایمان بھی یمنی اچھا ہے شریعت فہمی بھی یمنی اور حکمت بھی یمنی۔

【91】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ح، عمروالناقد، اسحاق بن یوسف ازرق، ابن عون، محمد، ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے یہ روایت بھی اسی طرح بیان فرمائی۔

【92】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

عمرو الناقد، حسن حلوانی، یعقوب یعنی ابن ابراہیم بن سعد اپنے والد سے، صالح، اعرج، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارے پاس یمن والے آئے ہیں ان کی طبیعتیں بہت کمزور، دل بہت نرم ہیں فقہ بھی اور حکمت بھی یمن والوں کی اچھی ہے۔

【93】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی الزناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کفر کا مرکز مشرق کی طرف ہے فخر و غرور گھوڑے والوں میں اور اونٹ والوں میں ہے جن کے دل سخت ہیں اور نرم اخلاقی و مسکینی بکری والوں میں ہے۔

【94】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

یحییٰ بن ایو ب، قتیبہ، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، ابن ایوب، اسماعیل، علاء اپنے والد سے، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان تو یمن والوں میں ہے اور کفر مشرق کی طرف ہے اور بکری والوں میں مسکنت نرم مزاجی ہوتی ہے اور غرور اور ریاکاری، سخت مزاجی اور بدخلقی گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں ہے۔

【95】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ! فخر غرور اور سخت مزاجی اونٹوں والوں میں ہے اور نرم مزاجی بکری والوں میں ہے۔

【96】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابوالیمان، شعیب، زہری سے اسی مذکورہ روایت کی طرح منقول ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ایمان یمن والوں میں ہے اور حکمت بھی یمن والوں میں ہے۔

【97】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن، ابوالیمان، شعیب، زہری، سعید بن مسیب، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ یمن والے آگئے ہیں یہ لوگ نہایت نرم دل اور کمزور دل ہیں ایمان بھی یمنی اور حکمت بھی یمنی اور مسکینی بکری والوں میں اور فخر و غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں۔

【98】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس یمن والے آئے ہیں جو بہت نرم دل اور رقیق القلب ہیں ایمان یمن میں اور حکمت بھی یمن میں ہے کفر کی جڑ مشرق کی طرف ہے۔

【99】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، زہیر بن حرب، جریر، اعمش لکھتے ہیں یہ روایت اسی مذکورہ سند کے ساتھ مذکور ہے مگر اس میں یہ آخری جملہ نہیں ہے کہ کفر کی جڑ مشرق کی طرف ہے۔

【100】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ح، بشر بن خالد، محمد یعنی ابن جعفر، شعبہ، اعمش نے اسی مذکورہ سند کے ساتھ جریر کی حدیث کے مطابق نقل کیا اور اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ فخر اور غرور اونٹ والوں میں اور مسکنت اور وقار بکری والوں میں ہے۔

【101】

ایمان والوں کی ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت اور یمن والوں کے ایمان کی ترجیح کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن حارث مخزومی، ابن جریج، ابوالزبیر، جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دل کی سختی اور سخت مزاجی مشرق والوں میں ہے ایمان حجاز والوں میں ہے۔

【102】

جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔

【103】

جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے

زہیر بن حرب، جریر، اعمش سے اسی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے، آگے حدیث کے وہی الفاظ ہیں جو اس سے پہلی والی حدیث میں ہیں۔

【104】

دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے

محمد بن عباد مکی، سفیان، سہیل، عطاء بن برید، تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کس چیز کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ کی اور تمام مسلمانوں کی۔

【105】

دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے

محمد بن حاتم، ابن مہدی، سفیان، سہیل بن ابی صالح، عطاء بن برید لیثی، حضرت تمیم داری ہی سے اسی حدیث کی طرح رسول اللہ ﷺ سے حدیث نقل کی گئی ہے۔

【106】

دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے

امیہ بن بسطام، برید یعنی ابن زریع، روح یعنی ابن قاسم، سہیل، عطاء بن یزید، ابوصالح، حضرت تمیم داری رسول اللہ ﷺ سے اسی حدیث کی طرح نقل کرتے ہیں۔

【107】

دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، اسماعیل بن ابی خالد، قیس، جریر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

【108】

دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، سفیان، زیاد بن علاقہ، جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

【109】

دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے

سریج بن یونس، یعقوب دورقی، ہشیم، سیار، شعبی، جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے بیعت کی کہ جو کچھ آپ ﷺ فرمائیں گے میں اس کو سنوں گا اور اطاعت کروں گا آپ ﷺ نے میری استطاعت کے مطابق ہی عمل کا حکم فرمایا اور میں نے ہر مسلمان سے خیر خواہی کی بھی بیعت کی۔

【110】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

حرملہ بن یحییٰ بن عبداللہ عمران تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی حالت میں کوئی زنا کرنے والا زنا نہیں کرتا اور نہ ہی ایمان کی حالت میں کوئی چور چوری کرتا ہے اور نہ ہی ایمان کی حالت میں کوئی شراب خور شراب خوری کرتا ہے ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ سے عبدالملک بن ابی بکر نے نقل کیا کہ حضرت ابوبکر (رض) حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ روایت کرتے تھے پھر فرماتے کہ ایمان کی حالت میں اعلانیہ کوئی لوگوں کے سامنے نہیں لوٹتا ( یعنی اس وقت اس میں ایمان نہیں ہوتا) ۔

【111】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

عبدالملک بن شعیب، ابن لیث، بن سعد، عقیل بن خالد، ابن شہاب، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زنا کرنے والا زنا نہیں کرتا اور پھر حدیث بالا کی روایت بیان کی اور اس میں نھبہ کا لفظ بھی ہے مگر اس کے ساتھ ذات شرف کا لفظ نہیں ہے ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید اور ابوسلمہ اور ان سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہ رسول اللہ ﷺ سے حضرت ابوبکر (رض) کی اس حدیث کی طرح روایت کی مگر اس میں لفظ نہبہ (لوٹ) نہیں ہے۔

【112】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

محمد بن مہران رازی، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، زہری، ابن مسیب، ابی سلمہ، ابی بکر بن عبدالرحمن، بن حارث، بن ہشام، ابوہریرہ (رض) نے اسی حدیث کے مثل روایت کی جو عقیل نے زہری سے زہری نے ابوبکر (رض) سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی اور اس میں نہبہ کا لفظ ذکر کیا ہے اور لفظ ذات شرف نہیں ہے۔

【113】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

حسن بن علی حلوانی، یعقوب بن ابراہیم، عبدالعزیز بن مطلب، صفوان بن سلیم، عطاء بن یسار، میمونہ، حمید بن عبدالرحمن ابوہریرہ (رض) اس سند میں مذکور راویوں کی روایت حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور حضرت ابوہریرہ (رض) نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

【114】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز در اور دی، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) اسی سند میں مذکور راویوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے روایت کیا۔

【115】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) سے زہری کی حدیث کی طرح روایت ہے علاوہ اس کے علاء اور صفوان بن سلیم کی روایت میں یہ لفظ ہیں کہ (یَرفَعُ النَاسُ اِلَیہ فِیہَا اَبصَارِہِم) اور ہمام کی روایت کے الفاظ یہ ہیں (یَرفَعُ اِلَیہ المُومِنُونَ اّعیُنِہِم) اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ لَا یَغِلُّ اّحَدَکُم الخ یعنی جب تم میں سے کوئی شخص غنیمت کے مال میں سے چوری کرے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا پس اس سے بچتے رہو پس اس سے بچتے رہو۔

【116】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، شعبہ، سلیمان، ذکوان، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا زنا کرنے والا شخص زنا کی حالت میں مومن نہیں ہوتا اور چور بھی چوری کی حالت میں مومن نہیں اور اسی طرح جب کوئی شراب نوشی کرتا ہے تو اس حالت میں وہ مومن نہیں ہوتا اور توبہ کا دروازہ اس کے بعد بھی کھلا رہتا ہے۔

【117】

گناہ کرنے سے ایمان کم ہوجاتا ہے اور گناہ کرتے وقت گنہگار سے ایمان علیحدہ ہوجاتا ہے یعنی اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔

محمد بن رافع، عبدالرزاق، سفیان، اعمش، ذکوان، حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے پھر آگے شعبہ کی حدیث کے مثل ہے۔

【118】

منافق کی خصلتوں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، اعمش، زہیر بن حرب، وکیع، سفیان، عبداللہ بن مرہ، مسروق، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہوجائیں تو وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو کہ اس میں منافق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی جب تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب عہد کرے تو توڑ ڈالے جب وعدہ کرے تو وعدے کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا کرے تو آپے سے باہر ہوجائے سفیان کی حدیث میں یوں ہے کہ جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی علامت ہوگی۔

【119】

منافق کی خصلتوں کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، ابوسہیل، نافع بن مالک، ابن ابوعامر، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

【120】

منافق کی خصلتوں کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق، ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب مولیٰ حرقہ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

【121】

منافق کی خصلتوں کے بیان میں

عقبہ بن مکرم، یحییٰ بن محمد بن قیس، ابوزکیر، علاء بن عبدالرحمن اس سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں اور اگرچہ وہ روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔

【122】

منافق کی خصلتوں کے بیان میں

ابونصر تمار، عبدالاعلی بن حماد، حماد بن سلمہ، داود بن ابی ہند، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) ہی سے مذکورہ سند کے ساتھ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اگرچہ وہ روزہ رکھتا ہو اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔

【123】

مسلمان بھائی کو کافر کہنے والے کے حال کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ بن عمر، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو دونوں میں سے کسی ایک پر یہ کلمہ چسپاں ہو کر رہتا ہے۔

【124】

مسلمان بھائی کو کافر کہنے والے کے حال کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پہ کفر آئے گا اگر وہ واقعی کافر ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا۔

【125】

مسلمان بھائی کو کافر کہنے والے کے حال کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین ابن بریدہ، یحییٰ بن یعمر، ابواسود، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا۔

【126】

جاننے کے باوجود اپنے باپ کے انکار کرنے والے کے ایمان کی حالت کا بیان

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، جعفر بن ربیعہ، عراک بن مالک، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے آباء کے نسب کا انکار نہ کرو جس نے اپنے باپ کے نسب کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔

【127】

جاننے کے باوجود اپنے باپ کے انکار کرنے والے کے ایمان کی حالت کا بیان

عمرو ناقد، ہشیم بن بشیر، خالد، ابوعثمان فرماتے ہیں کہ جب زیاد کے بارے میں بھائی ہونے کا دعوی کیا گیا تو میں نے ابوبکرہ سے ملاقات کی تو ان سے کہا کہ تم نے کیا کہا میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے خود اپنے کانوں سے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان نے جاننے کے باوجود اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا باپ بنایا تو اس پر جنت حرام ہے ابوبکرہ نے کہا کہ یہ بات تو خود میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔

【128】

جاننے کے باوجود اپنے باپ کے انکار کرنے والے کے ایمان کی حالت کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، ابومعاویہ، عاصم، ابوعثمان، سعد، ابوبکرہ دونوں سے روایت ہے کہ ہمارے کانوں نے محمد ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور میرے دل نے یقین کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ بنائے اس پر جنت حرام ہے۔

【129】

نبی ﷺ کے اس فرمان کے بیان میں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

محمد بن بکار بن ریان، عون بن سلام، محمد بن طلحہ، محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، ح، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، زبید، ابو وائل، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا برا بھلا کہنا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے حدیث کے راوی زبید کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے کہا آپ نے یہ بات عبداللہ بن مسعود (رض) سے سنی ہے جو وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں زبید نے کہا ہاں میں نے یہ روایت رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے شعبہ کی حدیث میں زبید کی ابو وائل سے اس بات کا ذکر نہیں ہے۔

【130】

نبی ﷺ کے اس فرمان کے بیان میں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ابن نمیر، عفان، شعبہ، اعمش، ابو وائل، عبداللہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے مذکورہ روایت کی طرح ہی نقل کی ہے۔

【131】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنے لگ جانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، علی بن مدرک، ابوزرعہ، حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے حجہ الوداع کے موقع پر فرمایا لوگوں کو خاموش کرا دو پھر فرمایا کہ میرے بعد کافروں جیسی حرکتیں نہ کرنے لگ جانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

【132】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنے لگ جانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، واقد بن محمد، ابن عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی مذکورہ حدیث مبارکہ کی طرح روایت کیا۔

【133】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنے لگ جانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوبکر بن خلاد باہلی، محمد بن جعفر، شعبہ، واقد بن محمد بن زید، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا ویحکم یا وَیلَکُم میرے بعد کافروں جیسی حرکتیں نہ کرنے لگ جانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگ جاؤ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہوجاؤ۔

【134】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ میرے بعد کافروں جیسے کام نہ کرنے لگ جانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، عمر بن محمد، ابن عمر (رض) سے شعبہ کی واقد سے روایت کی گئی حدیث کی طرح نقل کرتے ہیں۔

【135】

نسب میں طعنہ زنی اور میت پر رونے پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، ابن نمیر، محمد بن عبید، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں میں دو چیزیں کفر ہیں نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔

【136】

بھاگے ہوئے غلام پر کافر ہونے کا اطلاق کرنے کے بیان میں

علی بن حجر سعدی، اسماعیل ابن علیہ، منصور ابن عبدالرحمن، شعبی، جریر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو غلام اپنے آقاؤں سے بھاگا اس نے کفر کیا یہاں تک کہ وہ ان کے پاس لوٹ آئے راوی منصور نے کہا کہ واللہ یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی مجھ سے یہاں بصرہ میں روایت کرے۔

【137】

بھاگے ہوئے غلام پر کافر ہونے کا اطلاق کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، داؤد، شعبی، جریر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو غلام اپنے آقا سے بھاگ جائے اس غلام سے اللہ بری الذمہ ہوجاتا ہے۔

【138】

بھاگے ہوئے غلام پر کافر ہونے کا اطلاق کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، جریر مغیرہ، شعبی، جریر بن عبداللہ (رض) نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ اپنے آقا سے بھاگ کر جانے والے غلام کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔

【139】

جس نے کہا بارش ستاروں کی وجہ سے ہوتی ہے اس کے کفر کا بیان

یحییٰ بن یحیی، مالک، صالح بن کیسان، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، زید بن خالد جہنی (رض) کہتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اس وقت رات کی بارش کا اثر باقی تھا نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا کہ میرے بعض بندے صبح ایمان پر اور بعض کفر پر کرتے ہیں جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوتی ہے تو یہ مجھ پر ایمان لانے والے اور ستاروں کا انکار کرنے والے ہیں اور جس نے کہا کہ فلاں فلاں ستارہ کی وجہ سے ہم پر بارش ہوتی ہے تو وہ میرا انکار کرنے والے اور ستارے پر ایمان لانے والے ہیں۔

【140】

جس نے کہا بارش ستاروں کی وجہ سے ہوتی ہے اس کے کفر کا بیان

حرملہ بن یحیی، عمرو بن سواد عامری، محمد بن سلمہ، مرادی، عبداللہ بن وہب، یونس ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ، بن عتبہ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اپنے پروردگار کے اس فرمان پر غور نہیں کرتے کہ میں اپنے بندوں پر کوئی نعمت نازل کرتا ہوں مگر اس کے نتیجے میں ایک گروہ کفران نعمت کرنے والوں کا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے والا گروہ ہوتا ہے کہ فلاں ستارہ کی وجہ سے ایسا ہوا۔

【141】

جس نے کہا بارش ستاروں کی وجہ سے ہوتی ہے اس کے کفر کا بیان

محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ح، عمرو بن سواد، عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابویونس، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے جو برکت بھی نازل کرتا ہے تو لوگوں میں سے ایک گروہ اس کی نا شکری کرتے ہوئے صبح کرتا ہے اللہ بارش نازل فرماتا ہے اور اس گروہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ستارے نے بارش برسائی۔

【142】

جس نے کہا بارش ستاروں کی وجہ سے ہوتی ہے اس کے کفر کا بیان

عباس بن عبدالعظیم، نضر بن محمد، عکرمہ، ابن عمار، ابوزمیل، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں بارش ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ شکر کرتے ہوئے صبح کرتے ہیں اور کچھ لوگ ناشکری کرتے ہوئے صبح کرتے ہیں شکر گزاروں نے کہا کہ یہ اللہ کی رحمت ہے اور نا شکروں نے کہا کہ ستارہ کی وجہ سے بارش ہوئی حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (فَلَا اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ ) 56 ۔ الواقعہ : 75) میں ستاروں کے گرنے کی جگہ کی قسم کھاتا ہوں یہاں تک پہنچنے ( اِنَّکُم تُکَذِّبُونَ ) تم جھوٹ اور باطل کو اپنا رزق بتاتے ہو۔

【143】

اس بات کے بیان میں کہ انصار اور حضرت علی (رض) سے محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، ابن مہدی، شعبہ، عبداللہ بن عبداللہ بن جبیر حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن جبیر (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی علامت انصار سے بغض ہے اور ایمان کی علامت انصار سے محبت ہے۔

【144】

اس بات کے بیان میں کہ انصار اور حضرت علی (رض) سے محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد، ابن حارث، شعبہ، عبداللہ بن عبداللہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض نفاق کی علا مت ہے۔

【145】

اس بات کے بیان میں کہ انصار اور حضرت علی (رض) سے محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے

زہیر بن حرب، معاذ بن معاذ، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عدی بن ثابت نے کہا کہ میں نے حضرت براء (رض) کو نبی اللہ ﷺ کا انصار سے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان سے مومن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا جو ان سے محبت کرے اللہ اسے محبوب بنائے اور جو ان سے بغض رکھے وہ اللہ کے ہاں مبغوض ہو، شعبہ نے عدی سے کہا کہ تم نے یہ حدیث حضرت براء (رض) سے سنی ہے ؟ حضرت عدی نے کہا یہی حدیث حضرت براء (رض) نے بیان فرمائی۔

【146】

اس بات کے بیان میں کہ انصار اور حضرت علی (رض) سے محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری، سہیل، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا آدمی انصار سے بغض نہیں رکھے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔

【147】

اس بات کے بیان میں کہ انصار اور حضرت علی (رض) سے محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے

عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، جریر ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ اعمش، ابوصالح، ابوسعیدخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسے آدمی کو انصار سے بغض نہیں ہوسکتا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔

【148】

اس بات کے بیان میں کہ انصار اور حضرت علی (رض) سے محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق کی علامات میں سے ہے

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابومعاویہ اعمش، یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ اعمش عدی، بن ثابت، زر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے بغض منافق ہی رکھے گا۔

【149】

طاعات کی کمی سے ایمان میں کمی واقع ہونا اور ناشکری اور کفران نعمت پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

محمد بن رمح بن مہاجر مصری، لیث، ابن ہاد، عبداللہ بن دینار، ابن عمر (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عورتوں کے گروہ صدقہ کرتی رہا کرو اور کثرت سے استغفار کرتی رہا کرو کیونکہ میں نے دوزخ والوں میں سے زیادہ تر عورتوں کو دیکھا ہے، ان عورتوں میں سے ایک عقلمند عورت نے عرض کیا کہ ہمارے کثرت سے دوزخ میں جانے کی وجہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لعنت کثرت سے کرتی ہو اور اپنے خاوند کی نا شکری کرتی ہو میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر عقل اور دین میں کمزور اور سمجھدار مردوں کی عقلوں پر غالب آنے والی نہیں دیکھیں، اس عقلمند عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ عقل اور دین کا نقصان کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عقل کی کمی تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے یہ عقل کے اعتبار سے کمی ہے اور دین کی کمی یہ ہے کہ ماہواری کے دنوں میں نہ تم نماز پڑھ سکتی ہو اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہو یہ دین میں کمی ہے۔

【150】

طاعات کی کمی سے ایمان میں کمی واقع ہونا اور ناشکری اور کفران نعمت پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، بکر بن مضر، ابن ہاد سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔ حسن بن علی حلوانی، ابوبکر بن اسحاق ابن ابی مریم، محمد بن جعفر، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ بن ابوسعید خدری (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کیا حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے حضرت ابن عمر (رض) والی روایت ہی کی طرح روایت کی۔

【151】

طاعات کی کمی سے ایمان میں کمی واقع ہونا اور ناشکری اور کفران نعمت پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

عیاض بن عبد اللہ نےحضرت ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے اور ( سعید ) مقبری نے حضرت ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی جس طرح حضرت ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی روایت ہے ۔ باب : 35 ۔ نماز چھوڑنے والے پر لفظ کفر کا اطلاق کرنا نمازاسلام کا رکن ہے ۔ اس کا ترک پچھلی احادیث میں ذکر کیے گئے متعدد گناہوں سے زیادہ سنگین ہے ۔ اس پر جس کفر کا اطلاق کیا گیا وہ ان کے کفر سے بڑا کفر ہے ، پھر بھی اس سے توبہ اور آیندہ نماز کی پابندی سے انسان اچھا مسلمان بن جاتا ہے ، اسے دوبارہ اسلام لانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جو نماز کا منکر ہے اسے ازسرنو اسلام لانے کی ضرورت ہے

【152】

نماز کو چھوڑنے پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ ابوکریب، ابومعاویہ اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب ابن آدم یعنی انسان سجدہ والی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اور ہائے افسوس کہتا ہوا اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور ابی کریب کی روایت میں ہے شیطان کہتا ہے ہائے افسوس ابن آدم کو سجدہ کا حکم کیا گیا تو وہ سجدہ کرکے جنت کا مستحق ہوگیا اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں سجدے کا انکار کرکے جہنمی ہوگیا۔

【153】

نماز کو چھوڑنے پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

زہیر بن حرب، وکیع، اعمش (رض) سے بھی اسی سند کے ساتھ اسی طرح یہ حدیث روایت کی گئی صرف اتنا اضافہ ہے کہ شیطان کہتا ہے کہ میں نے نافرمانی کی تو میں دوزخی ہوگیا۔

【154】

نماز کو چھوڑنے پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش ابوسفیان، جابر، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انسان اور اس کے کفر وشرک کے درمیان نظر آنے والا فرق نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔

【155】

نماز کو چھوڑنے پر کفر کے اطلاق کے بیان میں

ابوغسان مسمعی، ضحاک بن مخلد، ابن جریج، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی اور اس کے کفر و شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔

【156】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم، ابراہیم بن سعد، محمد بن جعفر بن زیاد، ابراہیم، ابن سعد ابن شہاب، سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اعمال میں سب سے افضل عمل کونسا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا پھر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا عرض کیا گیا پھر ؟ آپ ﷺ نے فرمایا حج مبرور (نیکیوں والا حج) ۔

【157】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبد بن حمید عبدالرزاق، معمر، زہری سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔

【158】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

ابوربیع زہری، حماد بن زید، ہشام بن عروہ، خلف بن ہشام، حماد بن زید، ہشام بن عروہ، ابومراوح لیثی، ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اعمال میں سے کونسا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ پر ایمان اور اس کے راستے میں جہاد ؟ میں نے عرض کیا کہ کونسا غلام آزاد کرنا سب سے افضل ہے آپ ﷺ نے فرمایا جو اس کے مالک کے نزدیک سب سے اچھا اور قیمتی ہو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ایسا نہ کرسکوں تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کسی کے کام میں اس سے تعاون کرو یا کسی بےہنر آدمی کے لئے کام کرو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کرسکوں تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو اس لئے کہ اس کی حیثیت تیری اپنی جان پر صدقہ کی طرح ہوگی۔

【159】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

محمد بن رافع عبد بن حمید، عبد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری ابومراوح، عبدالرزاق، عروہ بن زبیر، ابوذر (رض) نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی۔

【160】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، شیبانی، ولید بن عیزار، سعد بن ایاس، ابوعمروشیبانی، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر ادا کرنا، میں نے عرض کیا اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مزید سوال نہیں کیا تاکہ آپ ﷺ کی طبیعت پر بار نہ ہو۔

【161】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

محمد بن ابی عمر مکی، مروان بن معاویہ فزاری، ابویعفور، ولید بن عیزار، ابی عمرو شیبانی، عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ کون سے اعمال جنت کے قریب کرنے والے ہیں ؟ (جنت میں پہنچانے والے) آپ ﷺ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر پڑھنا، میں نے عرض کیا اس کے بعد ؟ اے اللہ کے نبی ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

【162】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، ولید بن عیزار، ابوعمرو شیبانی فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کو کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر پڑھنا، میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر میں مزید آپ ﷺ سے سوالات کرتا تو آپ ﷺ مزید ارشاد فرما دیتے۔

【163】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح ہے اس میں صرف اتنا زائد ہے کہ حضرت عبداللہ کے گھر کی طرف راوی نے اشارہ کیا اور ان کا نام ہمارے سامنے بیان نہیں کیا۔

【164】

سب سے افضل عمل اللہ پر ایمان لانے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، حسن بن عبیداللہ، ابوعمرو شیبانی، عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا اعمال یا عمل میں سب سے افضل عمل نماز اپنے وقت پر پڑھنا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔

【165】

سب سے بڑے گناہ شرک اور اس کے بعد بڑے بڑے گناہوں کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عثمان، منصور، ابو وائل، عمرو بن شرحبیل، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے ہاں گناہوں میں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے، میں نے عرض کیا واقعی وہ بڑا گناہ ہے، میں نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردینا کہ وہ تیرے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو، میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد کونسا گناہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی عورت کے ساتھ زنا کرے۔

【166】

سب سے بڑے گناہ شرک اور اس کے بعد بڑے بڑے گناہوں کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر عثمان، اعمش، ابو وائل، عمرو بن شرحبیل، عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ کے ہاں گناہوں میں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا پھر کونسا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ کھانے میں تیرے ساتھ شریک ہو اس نے عرض کیا پھر کونسا گناہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے ہمسائے کی عورت سے زنا کرو پھر آپ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں پکارتے اور نہ ہی ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ ہی زنا کرتے ہیں اور جو لوگ ایسے کام کریں گے وہ اپنی سزا پالیں گے۔

【167】

بڑے بڑے گناہوں اور سب سے بڑے گناہ کے بیان میں

عمرو بن محمد بن بکیر، ابن محمد ناقد، اسماعیل بن علیہ سعید جریری، عبدالرحمن بن ابی بکر (رض) اپنے باپ حضرت ابوبکرہ (رض) سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں گناہوں میں سب سے بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں ! تین مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا وہ گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا فرمایا جھوٹی بات کہنا، رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو آپ ﷺ بیٹھ گئے اور باربار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے دل میں کہا کاش آپ ﷺ خاموشی اختیار فرماتے۔

【168】

بڑے بڑے گناہوں اور سب سے بڑے گناہ کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد ابن حارث، شعبہ، عبیداللہ بن ابی بکر، انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور قتل کرنا اور جھوٹ بولنا ہے۔

【169】

بڑے بڑے گناہوں اور سب سے بڑے گناہ کے بیان میں

محمد بن ولید بن عبدالحمید، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیداللہ بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک (رض) کو نبی ﷺ کا یہ فرمان نقل فرماتے سنا کہ نبی ﷺ سے بڑے گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا، کسی نفس کو قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ان بڑے گناہوں میں سے شرک کے بعد سب سے بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں ! آپ ﷺ نے فرمایا جھوٹی بات کہنا یا فرمایا جھوٹی گواہی دینا شعبہ کہتے ہیں کہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جو فرمایا وہ جھوٹی گواہی ہے۔

【170】

بڑے بڑے گناہوں اور سب سے بڑے گناہ کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، سلیمان، بن بلال، ثور بن زید، ابوغیث، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سات ہلاکت میں ڈال دینے والی چیزوں سے بچو، عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ سات ہلاک کرنے والی چیزیں کونسی ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور جادو کرنا اور کسی نفس کا قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا سوائے حق کے اور یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، جہاد سے دشمن کے مقابلہ سے بھاگنا اور پاکدامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا۔

【171】

بڑے بڑے گناہوں اور سب سے بڑے گناہ کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث ابن ہاد، سعد بن ابراہیم، حمید بن عبدالرحمن، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بڑے گناہ یہ ہیں کہ کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی دے سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں کوئی آدمی کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو اپنے باپ کو گالی دیتا ہے اور کوئی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اپنی کی ماں کو گالی دیتا ہے۔

【172】

بڑے بڑے گناہوں اور سب سے بڑے گناہ کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، سفیان، سعد بن ابراہیم ایک دوسری سند میں بھی اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【173】

تکبر کے حرام ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابراہیم بن دینار، یحییٰ بن حماد، شعبہ، ابان بن تغلب، فضیل بن عمرو تمیمی، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

【174】

تکبر کے حرام ہونے کے بیان میں

منجاب بن حارث تمیمی، سوید بن سعید، علی بن مسہر، منجاب ابن مسہر، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی آدمی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا اور کوئی ایسا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا۔

【175】

تکبر کے حرام ہونے کے بیان میں

محمد بن بشار، ابوداؤد، شعبہ، ابان بن تغلب، فضیل، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کوئی آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا۔

【176】

اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، شقیق، عبداللہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ وکیع نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابن نمیر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا اور میں کہتا ہوں کہ مجھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

【177】

اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابومعاویہ، اعمش، ابوسفیان، جابر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ جنت اور دوزخ کو واجب کرنے والی کیا چیز ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

【178】

اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

ابوایوب غیلانی، سلیمان بن عبیداللہ، حجاج بن شاعر، عبدالملک، ابن عمرو، ابوزبیر جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اللہ کے ساتھ اس حال میں ملاقات کی کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اللہ کے ساتھ اس حال میں ملاقات کی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا تھا تو وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔ حضرت ابوایوب راوی نے کہا کہ ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا۔ اسحاق بن منصور، معاذ ابن ہشام ابوزبیر، جابر ایک دوسری سند سے حضرت جابر (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

【179】

اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

( قرہ کے بجائے ) ہشام نے ابوزبیر کے واسطے سے حضرت جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی حدیث سنائی : بے شک اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ...... ( آگے ) سابقہ روایت کے مانند ہے

【180】

اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، واصل، احدب، معرور بن سوید (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) کو نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری دی کہ آپ ﷺ کی امت میں سے جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے یہ سن کر عرض کیا اگرچہ وہ آدمی زنا اور چوری کرتا ہو فرمایا خواہ وہ زنا یا چوری کرے۔

【181】

اس بات کے بیان میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔

زہیر بن حرب، احمد بن خراش، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین، ابن بریدہ، یحییٰ بن یعمر، ابواسود دیلی ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کی خدمت میں آیا آپ ﷺ سفید کپڑا اوڑھے ہوئے سو رہے تھے میں واپس چلا گیا پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ ﷺ جاگ رہے تھے میں آپ ﷺ کے پاس بیٹھ گیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس بندے نے لَا ِالٰہ اِلَّا اللہ کہا اور اس پر وہ مرگیا تو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے عرض کیا اگرچہ وہ زنا کرتا ہو اور چوری کی ہو آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو تین مرتبہ فرمایا پھر چوتھی مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا (اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے) ابوذر (رض) کی ناک خاک آلود ہو، پھر حضرت ابوذر (رض) آپ ﷺ کا محبت اور شفقت بھرا جملہ دھراتے ہوئے نکلے کہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔

【182】

اس بات کے بیان میں کہ کافر کا لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔

قتیبہ بن سعید، لیث محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب عطاء بن یزید لیثی، عبیداللہ بن عدی بن خیار، مقداد بن اسود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر کافروں میں کسی آدمی سے میرا مقابلہ ہوجائے مجھ سے لڑے میرا ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر جب میرے حملے کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہے کہ میں اللہ پر ایمان لے آیا ہوں تو کیا اس کلمہ کے بعد اے اللہ کے رسول ﷺ میرے لئے اسے قتل کرنا درست ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے قتل کرنا درست نہیں، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے یہ کلمہ میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کہا ہے تو میں اسے کیسے قتل نہ کروں ؟ آپ نے فرمایا اسے ہرگز قتل نہ کرنا کیونکہ اگر اسے قتل کرو گے تو اب وہ ایسا ہی مسلمان ہوگا جیسا تم اسے قتل کرنے سے پہلے اور تم اسی طرح ہوجاؤ گے جیسے وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔

【183】

اس بات کے بیان میں کہ کافر کا لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، اسحاق بن موسیٰ انصاری، ولید بن مسلم، اوزاعی محمد بن رافع، عبدالرزاق ابن جریج، زہری ایک دوسری سند میں امام اوزاعی اور ابن جریر دونوں کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا کہ میں اللہ عزوجل کے لئے اسلام لایا جیسا کہ لیث کی حدیث میں ہے اور معمر کی روایت میں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کرنا چاہا تو اس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دیا۔

【184】

اس بات کے بیان میں کہ کافر کا لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عطا بن یزید، لیثی، جندعی، عبیداللہ، ابن عدی بن خیار، مقداد بن عمرو بن اسود کندی (رض) جو بنو زہرہ کے حلیف ہیں اور بدری صحابی (رض) ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگر کافروں میں سے کسی شخص سے میرا مقابلہ ہوجائے پھر لیث کی روایت کی طرح حدیث مبارکہ ذکر کی۔

【185】

اس بات کے بیان میں کہ کافر کا لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمد، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، ابومعاویہ، اعمش، ابوظبیان، اسامہ بن زید (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ (جنگ) میں بھیجا تو ہم صبح صبح جہینہ کے علاقہ میں پہنچ گئے میں نے وہاں ایک آدمی کو پایا اس نے کہا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ، میں نے اسے ہلاک کردیا پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو ؟ تو میں نے اس کے متعلق نبی ﷺ سے ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا اس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا ! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے تو یہ کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں، آپ ﷺ باربار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا حضرت سعد (رض) نے کہا اللہ کی قسم میں مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک کہ اس کو اسامہ قتل کردیں ایک آدمی نے کہا کہ کیا اللہ عز وجل نے نہیں فرمایا کافروں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ فتنہ نہ رہے اور اللہ کا دین عام ہوجائے حضرت سعد (رض) نے کہا کہ ہم فتنہ مٹانے کے لئے جہاد کر رہے ہیں اور تمہارے ساتھی فتنہ پھیلانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔

【186】

اس بات کے بیان میں کہ کافر کا لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔

یعقوب دورقی، ہشیم، حصین، ابوظیبان، اسامہ، بن زید بن حارثہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا جو قبیلہ جہینہ سے ہے ہم صبح صبح وہاں پہنچ گئے اور ان کو شکست دے دی میں نے اور ایک انصاری نے مل کر اس قبیلہ کے آدمی کو گھیر لیا جب وہ ہمارے حملہ کی زد میں آگیا تو اس نے کہا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ ! انصاری تو یہ سن کر علیحدہ ہوگیا لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا جب ہم نبی ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے اسامہ ! کیا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر ڈالا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کہا تھا آپ ﷺ بار بار یہی فرماتے تھے یہاں تک کہ مجھے باربار آرزو ہونے لگی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔

【187】

اس بات کے بیان میں کہ کافر کا لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔

احمد بن حسن بن خراش، عمرو بن عاصم، معتمر، خالد، صفوان بن محرز بیان کرتے ہیں کہ حضرت جندب بن عبداللہ البجلی (رض) نے عسعس بن سلام کی طرف کسی کو بھیجا حضرت ابن زبیر (رض) کے دور حکومت میں فتنہ کا زمانہ تھا انہوں نے فرمایا کہ اپنے کچھ بھائیوں کو جمع کرلو تاکہ ان کے سامنے حدیث بیان کروں تو جندب نے آدمی بھیج کر ان کو بلایا سب کے جمع ہونے پر عسعس زرد رنگ کا کپڑا سر پر لپیٹے ہوئے آئے انہوں نے فرمایا اس فتنہ کے بارے میں گفتگو کرو جو تم کرتے ہو لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے پھر جب حضرت عسعس سے بات کرنے کے لئے کہا گیا تو وہ کپڑا آپ کے سر سے کھل گیا اور انہوں نے فرمایا میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کردوں رسول اللہ ﷺ نے کچھ مسلمانوں کو مشرکین کی طرف بھیجا، ان مشرکیں میں سے ایک آدمی ایسا تھا کہ مسلمانوں میں سے جس کو قتل کرنے کا ارادہ کرتا تو اسے قتل کردیتا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی حضرت اسامہ بن زید (رض) نے اسے غفلت میں ڈال کر اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا جب تلوار اس کی طرف اٹھائی تو اس نے کہا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ ! مگر اسامہ نے اسے قتل کردیا پھر فتح کی بشارت دینے والا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے جنگ کے بارے میں پوچھا وہ بتارہا تھا یہاں تک کہ اس نے حضرت اسامہ (رض) کا یہ واقعہ بیان کیا کہ کس طرح اسامہ نے کیا، آپ ﷺ نے اسامہ کو بلا کر پوچھا کہ تم نے اسے کیوں قتل کردیا ؟ اسامہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس نے مسلمانوں میں کھلبلی ڈال دی تھی اور اس نے فلاں فلاں مسلمان کو قتل کیا اور میں نے اس پر قابو پالیا جب اس نے تلوار دیکھی تو لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے لگا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اس کے بعد بھی اسے قتل کردیا ؟ اسامہ نے عرض کیا جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا اس کے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کیا جواب دو گے جب وہ قیامت کے دن اس کو لے کر آئے گا ؟ اسامہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں، مگر آپ ﷺ یہی فرماتے رہے کہ تم کیا جواب دو گے جب وہ قیامت کے دن لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ لے کر آئے گا۔

【188】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ جو ہم پر اسلحہ اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحییٰ قطان، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ابن نمیر، عبیداللہ بن نافع، ابن عمر، یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، ابن عمر حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہم پر ( یعنی مسلمانوں) پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

【189】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ جو ہم پر اسلحہ اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، مصعب، ابن مقدام، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے ہم پر یعنی مسلمانوں پر تلوار اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں۔

【190】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ جو ہم پر اسلحہ اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن براد، اشعری، ابوکریب، ابواسامہ برید، ابی بردہ (رض) حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

【191】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری، ابوالاحوص محمد بن حیان، ابن ابوحازم، سہیل بن ابی صالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہم پر (مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔

【192】

نبی ﷺ کے فرمان کے بیان میں کہ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن حجر، اسماعیل بن جعفر، ابن ایوب، علاء، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ غلہ کے ایک ڈھیر پر سے گزرے آپ ﷺ نے اس میں اپنا مبارک ہاتھ ڈالا تو انگلیاں تر ہوگئیں، آپ ﷺ نے غلہ کے مالک سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ بارش کی وجہ سے بھیگ گیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم یہ تر حصہ اوپر نہیں کرسکتے تھے کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے پھر فرمایا جس نے دھوکہ دیا ہو مجھ سے نہیں۔

【193】

منہ پر مارنے گریبان پھاڑنے اور جاہلیت کے زمانہ جیسی چیخ وپکار کی حرمت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، و کی، ع ابن نمیر، اعمش، عبداللہ بن مرہ، مسروق، عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ہم میں سے نہیں کہ جو اپنے منہ پر مارے اور گریبان پھاڑے یا زمانہ جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے یہ حدیث یحییٰ سے اسی طرح روایت ہے اور ابن نمیر اور ابوبکر کی روایت بغیر الف کی شق اور دعا کے ہے۔

【194】

منہ پر مارنے گریبان پھاڑنے اور جاہلیت کے زمانہ جیسی چیخ وپکار کی حرمت کے بیان میں

عثمان بن ابی شبیہ، جریر، اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اعمش ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【195】

منہ پر مارنے گریبان پھاڑنے اور جاہلیت کے زمانہ جیسی چیخ وپکار کی حرمت کے بیان میں

حکم بن موسیٰ قنطری، یحییٰ بن حمزہ، عبدالرحمن بن یزید بن جابر، قاسم بن مخیمرہ، ابوبردہ بن ابوموسی سے روایت ہے کہ وہ سخت بیمار ہوگئے اتنے سخت بیمار کہ غشی طاری ہوگئی اور آپ کا سر آپ ﷺ کی اہلیہ کی گود میں تھا اہلیہ یہ حالت دیکھ کر چلاّ پڑیں، حضرت ابوموسی (رض) اس وقت کچھ کہنے پر قادر نہ تھے پھر جب آپ کو اس سے افاقہ ہوا تو ان کو فرمایا کہ میں اس چیز سے بری ہوں جس سے رسول اللہ ﷺ نے برأت فرمائی بیشک رسول اللہ ﷺ نے مصیبت کے وقت چلانے والی اور بال مونڈنے والی اور گریبان پھاڑنے والی عورتوں سے برأت ظاہر فرمائی۔

【196】

منہ پر مارنے گریبان پھاڑنے اور جاہلیت کے زمانہ جیسی چیخ وپکار کی حرمت کے بیان میں

عبد بن حمید، اسحاق بن منصور، جعفر بن عون، ابوعمیس، ابوصخرہ، عبدالرحمن بن یزید، ابی بردہ، ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسی (رض) پر مرض کی شدت کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی تو ان کی اہلیہ ام عبداللہ چلاّ اٹھیں حضرت ابوموسی (رض) کو جب افاقہ ہوا تو فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے بری ہوں جو بطور ماتم بال منڈوائے اور چلاّ کر روئے اور کپڑے پھاڑے۔

【197】

منہ پر مارنے گریبان پھاڑنے اور جاہلیت کے زمانہ جیسی چیخ وپکار کی حرمت کے بیان میں

عبداللہ بن مطیع، ہشیم، حصین، عیاض اشعری، امراۃِ ابی موسی، ابی موسیٰ حضور اللہ ﷺ (دوسری سند) حجاج بن شاعر، عبدالصمد، داؤد ابن ابی ہند، عاصم، صفوان بن محزر، ابوموسی، حسن بن علی حلوانی، عبدالصمد، شعبہ، عبدالملک بن عمیر، ربعی بن حراش، ابوموسی ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے جس طرح پہلے مذکور ہوئی اس میں صرف اتنا فرق ہے کہ بَرِيئٌ کی جگہ لَيْسَ مِنَّا ہے یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

【198】

چغل خوری کی سخت حرمت کے بیان میں

شیبان بن فروخ، عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، مہدی، ابن میمون، واصل، ابو وائل، حذیفہ حضرت ابو وائل (رض) سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) تک یہ بات پہنچی کہ ایک آدمی ادھر کی بات ادھر لگاتا پھرتا ہے تو حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔

【199】

چغل خوری کی سخت حرمت کے بیان میں

علی بن حجر سعدی، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، جریر، منصور، ابراہیم، ہمام بن حارث (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی حاکم تک لوگوں کی باتیں نقل کرتا تھا، حضرت ہمام (رض) کہتے ہیں کہ پھر وہ آدمی ہم میں آکر بیٹھ گیا تو حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

【200】

چغل خوری کی سخت حرمت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، منجاب بن حارث، تمیمی بن مسہر، اعمش، ابراہیم، ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ (رض) کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی کر ہمارے ساتھ بیٹھ گیا حضرت حذیفہ (رض) سے کہا گیا کہ یہ آدمی لوگوں کی باتیں حاکم تک پہنچا دیتا ہے تو حضرت حذیفہ (رض) نے اس آدمی کو سنانے کے ارادے سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

【201】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، علی بن مدرک، ابوزرعہ، خرشہ بن حر، ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں گناہوں سے پاک وصاف کرے گا (معاف کرے گا) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے، حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تین بار یہ فرمایا : حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ لوگ تو سخت نقصان اور خسارے میں ہوں گے یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا اور دے کر احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا۔

【202】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

ابوبکر بن خلاد باہلی، یحییٰ قطان، سفیان، سلیمان، اعمش، سلیمان بن مسہر، خرشہ بن حر، ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تین آدمیوں سے اللہ عزوجل قیامت کے دن بات نہیں کرے گا ایک وہ آدمی جو ہر نیکی کا احسان جتلاتا ہے، دوسرا وہ جو جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچتا ہے اور تیسرا وہ آدمی جو اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔

【203】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

بشر بن خالد، محمد ابن جعفر، شعبہ، سلیمان ایک دوسری سند میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کلام نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک و صاف کرے گا ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

【204】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابومعاویہ، اعمش، ابی حازم، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیں پاک و صاف کریں گے اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور مفلس تکبر کرنے والا۔

【205】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابی صالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت کریں گے اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے، ایک تو وہ آدمی جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو پھر اس کے باوجود کسی مسافر کو پانی نہ دے اور دوسرا وہ آدمی جو عصر کے بعد کوئی چیز بیچے اور اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ میں نے یہ چیز اتنے میں خریدی ہے اور خریدار اس کی بات پر یقین کرلے حالانکہ حقیقتًا اس نے اتنے میں نہ خریدی ہو اور تیسرا وہ آدمی جو دنیاوی مال کی خاطر بیعت کرے پھر اگر وہ اسے مال دے تو وہ حقِ بیعت ادا کرے اور نہ دے تو حقِ بیعت کی ادائیگی سے گریز کرے۔

【206】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

زہیر بن حرب، جریر، سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، اعمش، ایک دوسری سند میں یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں قیمت بتانے کا ذکر ہے۔

【207】

ازار بند (شلوار، پاجامہ وغیرہ) ٹخنوں سے بیچے لٹکانے اور عطیہ دے کر احسان جتلانے اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والوں کی سخت حرمت اور ان تین آدمیوں کے بیان میں کہ جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں فرمائیں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔

عمرو ناقد، سفیان، عمرو، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت فرمائیں گے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا اور ایک آدمی وہ ہے کہ جس نے عصر کے بعد قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال مار لیا باقی حدیث اعمش کی حدیث کی طرح ہے۔

【208】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوسعید، اشج، وکیع، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور اس ہتھیار سے اپنے پیٹ کو زخمی کرتا رہے گا، ہمشیہ ہمیشہ دوزخ کی آگ میں رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ اسے چوستا رہے گا اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا تو وہ پہاڑ سے یوں ہی گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہے گا۔

【209】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، ابن قاسم، یحییٰ بن حبیب، حارثی، خالد بن حارث، شعبہ ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【210】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابومعاویہ ابن سلام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوقلابہ، ثابت بن ضحاک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے غزوہ حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے بیعت کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی اسلام کے علاوہ دوسری ملت پر جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا تو قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا اور اگر کسی آدمی نے غیر مملوکہ چیز کی منت مانی تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔

【211】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

ابوغسان، معاذ ابن ہشام، یحییٰ ابن ابی کثیر، ابوقلابہ، ثابت بن ضحاک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کسی آدمی پر ایسی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے جس کا وہ مالک نہ ہو اور مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے اور جس نے اپنے آپ کو دنیا میں کسی چیز سے قتل کر ڈالا قیامت کے دن وہ اسی سے عذاب دیا جائے گا اور جس نے اپنے مال میں زیادتی کی خاطر جھوٹا دعوی کیا تو اللہ تعالیٰ اس کا مال اور کم کر دے گا اور یہی حال اس آدمی کا ہوگا جو حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائے گا۔

【212】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، اسحاق بن منصور، عبدالوارث بن عبدالصمد، عبدالصمد بن عبدالوارث، شعبہ، ایوب، ابوقلابہ، ثابت بن ضحاک انصاری، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ثوری، خالد حذاء، ابوقلابہ، ثابت بن ضحاک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ اپنی قسم کے مطابق ہوگا اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر ڈالا تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیں گے جس چیز سے اس نے اپنے آپ کو قتل کیا سفیان کی روایت یہی ہے اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق ہوگا اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے ذبح کیا تو قیامت کے دن وہ اسی چیز سے ذبح کیا جائے گا۔

【213】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

محمد بن رافع، عبد ابن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن المسیب، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم غزؤہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو آپ ﷺ نے ایک آدمی کے بارے میں جو اسلام کا دعوی کرتا تھا فرمایا کہ یہ دوزخ والوں میں سے ہے پھر جب جنگ شروع ہوئی تو وہ آدمی بڑی بہادری کے ساتھ لڑا اور زخمی ہوگیا آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ جس آدمی کے بارے میں فرما رہے تھے کہ یہ دوزخی ہے اس نے تو آج خوب بہادری سے لڑائی کی ہے اور مرچکا ہے نبی ﷺ نے فرمایا وہ دوزخ میں گیا بعض صحابہ (رض) آپ کے فرمان کی تہہ تک نہ پہنچ سکے اسی دوران اس کے ابھی نہ مرنے بلکہ شدید زخمی ہونے کی اطلاع ملی پھر جب رات ہوئی تو وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے اپنے آپ کو قتل کر ڈالا آپ کو اس کی خبر دی گئی تو فرمایا اَللَّهُ أَکْبَرُ اللہ سب سے بڑا ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں آواز لگادیں کہ جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اس دین کی برے آدمی کے ذریعے بھی مدد کرا دیتا ہے۔

【214】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن، ابوحازم، سہل بن سعد ساعدی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مشرکوں کا ایک غزوہ میں آمنا سامنا ہوا اور نوبت سخت کشت و خون تک پہنچ گئی پھر جب رسول اللہ ﷺ اپنے لشکر کی طرف تشریف لے گئے اور مشرکین اپنے لشکر کی طرف چلے گئے آپ ﷺ کے ساتھیوں میں ایک آدمی ایسا تھا کہ وہ اکا دکا کافر کو نہیں چھوڑتا تھا بلکہ اس کا پیچھا کرکے تلوار سے اسے اڑا دیتا تھا صحابہ کرام یہ کہنے لگے کہ اس آدمی کی طرح آج ہمارے کوئی کام نہ آیا رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہے صحابہ (رض) میں سے ایک نے کہا کہ میں مستقل اس کے ساتھ رہوں گا پھر وہ صحابی اس کے ساتھ رہے جہاں ٹھہرتا اس کے ساتھ ٹھہرتے اور جب وہ تیزی کے ساتھ چلتا تو یہ بھی تیزی کے ساتھ چلتے حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ سخت زخمی ہوگیا اس نے زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے جلد موت کو گلے سے لگا لینا چاہا تو تلوار کا دستہ زمین پر رکھ کا اس کی نوک دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی پھر اس پر زور دے کر خود کو قتل کر ڈالا تب وہ صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے جس کے بارے میں دوزخی ہونے کے متعلق فرمایا تھا لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تھا اور میں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ میں تمہاری خاطر اس کی خبر رکھوں گا پھر میں اس کی جستجو میں نکلا وہ آدمی بالآخر سخت زخمی ہوا اور مرنے کی جلدی میں اس نے اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھ کو اس کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر زور دے کر خود کو مار ڈالا یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی لوگوں کی نظر میں جنتیوں والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخ والوں میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظر میں دوزخ والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ بالآخر جنتی ہوتا ہے۔

【215】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

محمد بن رافع، زبیر ی، محمد بن عبداللہ، ابن زبیر، شیبان کہتے ہیں میں نے حضرت حسن کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کو پھوڑا نکلا پھر جب اسے سخت تکلیف ہوئی تو اس نے ترکش سے تیر نکال کر اس سے پھوڑا چیر دیا اور خون بند نہ ہونے کہ وجہ سے وہ آدمی مرگیا تو اللہ عزوجل نے فرمایا کہ میں نے اس پر جنت حرام کردی پھر حسن (رض) نے اپنا ہاتھ مسجد کی طرف دراز کر کے فرمایا اللہ کی قسم یہ حدیث جندب بن عبداللہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے اسی مسجد میں مجھ سے بیان فرمائی۔

【216】

خود کشی کی سخت حرمت اور اس کو دوزخ کے عذاب اور یہ کہ مسلمان کے علاوہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا کے بیان میں

محمد بن ابوبکر مقدمی، وہب بن جریر (رض) اپنے والد کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم سے حضرت جندب بن عبداللہ البجلی (رض) نے اسی مسجد میں حدیث بیان کی جسے ہم نہ بھولے اور نہ ہی ڈر ہے کہ حضرت جندب (رض) نے رسول اللہ ﷺ کی طرف اس کو غلط منسوب کیا ہو حضرت جندب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کے پھوڑا نکلا تھا پھر اسی حدیث کے مطابق ذکر فرمایا۔

【217】

مال غنیمت میں خیانت کی سخت حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔

زہیر بن حرب، ہاشم بن قاسم، عکرمہ بن عمار، سماک، ابوزمیل حنفی، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : غزوہ خیبر میں چند صحابہ کرام (رض) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ فلاں آدمی شہید ہے یہاں تک کہ ایک آدمی پر گزر ہوا تو اس کے متعلق بھی کہنے لگے کہ فلاں شہید ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے چادر یا عباء کی چوری کی وجہ سے اس کو جہنم میں دیکھا ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب جاؤ اور لوگوں میں آواز لگا دو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نکل کر لوگوں میں یہ آواز لگادی کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔

【218】

مال غنیمت میں خیانت کی سخت حرمت اور اس بات کے بیان میں کہ جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔

ابوطاہر، ابن وہب، مالک بن انس، ثور بن زید دیلی، سالم ابی غیث مولیٰ ابن مطیع، ابوہریرہ (رض) ، قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، ابن محمد، ثور، ابوغیث، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خبیر کی طرف نکلے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی تو ہم نے سونا اور چاندی نہیں بلکہ اسباب اناج اور کپڑا وغیرہ مال غنیمت میں سے لیا پھر ہم وادی کی طرف چلے، اس غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غلام تھا جسے قبیلہ جذام کے بنی ضبیب کے ایک آدمی رفاعہ بن زید نے پیش کیا تھا پھر ہم وادی میں اترے تو رسول اللہ ﷺ کا غلام آپ ﷺ کا سامان کھولنے لگا اسی دوران اسے ایک تیر لگا اور اس سے وہ مرگیا، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اس کے لئے شہادت مبارک ہو، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے جو چادر اس کے حصہ میں نہیں تھی وہی چادر اس کے اوپر شعلہ کی صورت میں جل رہی ہے یہ سن کر سب خوف زدہ ہوگئے ایک آدمی ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ مجھے خبیر کے دن جنگ کے موقع پر ملے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ تسمے بھی آگ کے ہیں۔

【219】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ خود کشی کرنے والا کافر نہیں ہوگا

ابوبکر بن ابی شبیہ، اسحاق بن حرب، سلیمان، ابوبکر، سلیمان بن حرب، حماد بن زبیر، حجاج صواف، ابوزبیر، جابر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت طفیل بن عمرو الدوسی (رض) نبی ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ ﷺ کو ایک مضبوط قلعہ اور حفاظتی مقام کی ضرورت ہے ؟ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ حضرت طفیل (رض) کے پاس زمانہ جاہلیت میں دوس کا ایک قلعہ تھا، نبی ﷺ نے اس سے انکار فرما دیا کیونکہ یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے انصار کے لئے مقدر کردی تھی پس جب نبی ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو حضرت طفیل (رض) بھی اپنی قوم کے ایک آدمی کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تو حضرت طفیل (رض) کا ساتھی مدینہ کی آب ہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہوگیا جب بیماری حد سے بڑھ گئی برداشت کے قابل نہ رہی تو اس نے اپنے تیر کے پھل سے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے جوڑ کاٹ دئے جس کی وجہ سے ہاتھوں سے خون بہنے لگا اور اس کے نتیجے میں وہ مرگیا، حضرت طفیل بن عمرو (رض) نے اسے خواب میں دیکھا تو اچھی حالت میں تھے مگر اس کے ہاتھ ڈھکے ہوئے تھے انہوں نے پوچھا کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت کی برکت سے معاف کردیا ہے پھر اس سے پوچھا کہ تو نے اپنے ہاتھوں کو چھپا رکھا ہے تو اس نے کہا کہ مجھ سے کہہ دیا گیا ہے کہ تو نے اس کو خود بگاڑا ہے ہم اسے درست نہیں کریں گے حضرت طفیل (رض) نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی کہ اے اللہ اس کے ہاتھوں کی بھی مغفرت فرما۔

【220】

قرب قیامت کی اس ہوا کے بیان میں کہ جس کے اثر سے ہر وہ آدمی مر جائے گا جس کے دل میں تھوڑا سا ایمان بھی ہوگا۔

احمد بن عبدہ ضبی، عبدالعزیز بن محمد، ابوعلقمہ، صفوان بن سلیم، عبداللہ بن سلمان، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یمن کی طرف سے ایک ایسی ہوا چلائے گا جو ریشم سے بھی زیادہ نرم ہوگی جس کے دل میں تھوڑا سا ایمان بھی ہوگا اس کو نہیں چھوڑے گی یعنی اس کی روح قبض کرلے گی، حضرت علقمہ (رض) کی روایت کے مطابق ہر وہ آدمی مرجائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔

【221】

فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک اعمال کی طرف متوجہ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ، ابن حجر اسماعیل بن جعفر، ابن ایوب، علاء، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے جلد جلد نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے صبح آدمی ایمان والا ہوگا اور شام کو کافر یا شام کو ایمان والا ہوگا اور صبح کافر اور دنیوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔

【222】

مومن کے اس خوف کے بیان میں کہ اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسی، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اے ایمان والو ! اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز پر بلند نہ کرو کہیں تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو تو حضرت ثابت بن قیس (رض) اپنے گھر ہی میں بیٹھ گئے اور سمجھنے لگے کہ میں دوزخی ہوں اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے تو نبی ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ (رض) سے پوچھا اے ابوعمرو (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! ثابت کا کیا حال ہے کیا وہ بیمار ہوگئے ؟ حضرت سعد (رض) سے عرض کیا کہ وہ میرے ہمسائے ہیں اور مجھے ان کے بیمار ہونے کا علم نہیں، حضرت سعد (رض) حضرت ثابت (رض) کے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پوچھنے کا ذکر کیا تو حضرت ثابت نے فرمایا کہ یہ آیت نازل ہوگئی اور تم جانتے ہو کہ میری آواز رسول اللہ ﷺ کے سامنے تم سب سے زیادہ بلند ہوتی ہے پس میں دوزخی ہوں حضرت سعد نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا وہ تو جنتی ہیں۔ (دوزخی نہیں)

【223】

مومن کے اس خوف کے بیان میں کہ اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں

قطن بن نسیر، جعفر بن سلیمان، ثابت، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس (رض) بن شماس انصار کے خطیب تھے پھر جب یہ آیت نازل ہوئی باقی حدیث حماد کی حدیث کی طرح ہے لیکن اس میں حضرت سعد بن معاذ کا ذکر نہیں۔

【224】

مومن کے اس خوف کے بیان میں کہ اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں

احمد بن سعید بن صخر دارمی، حبان، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اے ایمان والو اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز پر بلند نہ کرو اور حدیث مبارکہ میں حضرت سعد بن معاذ (رض) کا ذکر نہیں۔

【225】

مومن کے اس خوف کے بیان میں کہ اس کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں

ہریم بن عبدالاعلی اسدی، معتمر بن سلیمان، انس سے روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور حضرت سعد بن معاذ (رض) کا اس حدیث میں بھی ذکر نہیں صرف اتنا زائد ہے کہ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ثابت بن قیس (رض) کو اپنے درمیان پا کر یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے درمیان ایک جنتی آدمی چل رہا ہے۔

【226】

اس بات کے بیان میں کہ کیا زمانہ جاہلیت میں کئے گئے اعمال پر مواخذہ ہوگا

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابی وائل، عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم سے ان اعمال پر مواخذہ ہوگا جو ہم سے جاہلیت کے زمانے میں سرزد ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جس نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا تو اس کا مواخذہ نہیں ہوگا اور جس نے سچے دل سے اسلام قبول نہ کیا بلکہ بظاہر مسلمان اور باطن میں کافر تو اس سے دور جاہلیت اور دور اسلام دونوں کے اعمال کے بارے میں مواخذہ ہوگا۔

【227】

اس بات کے بیان میں کہ کیا زمانہ جاہلیت میں کئے گئے اعمال پر مواخذہ ہوگا

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی وکیع، ابوبکر بن ابی شیبہ۔ وکیع، اعمش ابو وائل، عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم سے جاہلیت کے زمانہ میں کئے گئے اعمال کے بارے میں مواخذہ ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے سچے دل سے اسلام قبول کیا اس سے جاہلیت والے اعمال کے بارے میں باز پرس نہیں ہوگی اور جس نے سچے دل سے اسلام قبول نہ کیا صرف دکھلاوے کے لئے قبول کیا اس سے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں اعمال کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

【228】

اس بات کے بیان میں کہ کیا زمانہ جاہلیت میں کئے گئے اعمال پر مواخذہ ہوگا

منجاب بن حارث تمیمی، علی بن مسہر، اعمش، ایک دوسری سند سے بھی اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【229】

اس بات کے بیان میں کہ اسلام اور حج اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹادیتے ہیں

محمد بن مثنی عنزی، ابومعن، اسحاق بن منصور، ابوعاصم، ابن مثنی، ضحاک، ابوعاصم، حیوہ بن شریح، یزید بن ابی حبیب، ابن شماسہ کہ ہم عمرو بن العاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیرلیا ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابا جان کیوں رو رہے ہیں کیا اللہ کے رسول ﷺ نے آپ ﷺ کو یہ بشارت نہیں سنائی ؟ حضرت عمرو بن العاص (رض) ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ ﷺ پر قابو پا کر آپ ﷺ کو قتل کر دوں اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کروں، آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط ہے آپ ﷺ نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور ہجرت سے اس کے سارے گذشتہ اور حج کرنے سے بھی اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ؟ اور رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مجھے کسی سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی میری نظر میں آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا مقام تھا اور آپ ﷺ کی عظمت کی وجہ سے مجھ میں آپ ﷺ کو بھر پور نگاہ سے دیکھنے کی سکت نہ تھی اور اگر کوئی مجھ سے آپ ﷺ کی صورت مبارک کے متعلق پوچھتے تو میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میں آپ ﷺ کو بوجہ عظمت و جلال دیکھ نہ سکا، اگر اس حال میں میری موت آجاتی تو مجھے جنتی ہونے کی امید تھی پھر اس کے بعد ہمیں کچھ ذمہ داریاں دی گئیں اب مجھے پتہ نہیں کہ میرا کیا حال ہوگا پس جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ نہ کوئی رونے والی ہو اور نہ آگ ہو جب تم مجھے دفن کردو تو مجھ پر مٹی ڈال دینا اس کے بعد میری قبر کے اردگرد اتنی دیر ٹھہر نا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ تمہارے قرب سے مجھے انس حاصل ہو اور میں دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔

【230】

اس بات کے بیان میں کہ اسلام اور حج اور ہجرت پہلے گناہوں کو مٹادیتے ہیں

محمد بن حاتم بن میمون، ابراہیم بن دینار، ابراہیم، حجاج، بن محمد، ابن جریج، یعلی بن مسلم، سعید بن جبیر، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے بہت سے قتل کئے تھے اور کثرت سے زنا کا ارتکاب بھی کیا تھا، وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ آپ ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں اور جس بات کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھا ہے اگر آپ ﷺ ہمارے گناہوں کا کفارہ بتلا دیں جو ہم نے کئے ہیں تو ہم مسلمان ہوجائیں، اس پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور جس آدمی کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہاں مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا نہیں کرتے اور جوا ی سے کام کرے گا تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا سورت الفرقان اور یہ آیت نازل ہوئی اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانون پر زیادتی کی ہے وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔

【231】

اسلام لانے کے بعد کافر کے گزشتہ نیک اعمال کے حکم کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے جاہلیت کے زمانے میں جو نیک کام کئے کیا ان میں میرے لئے کچھ اجر ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسلام لائے ان نیکیوں پر جو تم کرچکے ہو، (یعنی ان کا بھی ثواب ملے گا) تحنث کے معنی عبادت کے ہیں یعنی گناہ سے نفرت اور غیر اللہ کی عبادت سے توبہ کرنا۔

【232】

اسلام لانے کے بعد کافر کے گزشتہ نیک اعمال کے حکم کے بیان میں

حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب ابن ابراہیم بن سعد، ابن سعد، صالح، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حکیم بن حزام (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ ان کاموں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ جو میں نے جاہلیت کے زمانے میں ( یعنی اسلام لانے سے پہلے) مثلا صدقہ و خیرات یا غلام آزاد کرنا یا رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا کئے تھے ان کاموں میں مجھے اجر ملے گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اسی نیکی پر اسلام لائے جو تم پہلے کرچکے ہو۔

【233】

اسلام لانے کے بعد کافر کے گزشتہ نیک اعمال کے حکم کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، اسحاق بن ابراہیم، ابومعاویہ، ہشام بن عروہ، حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ چند کام ایسے بھی ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں بھی کرتا تھا، راوی ہشام کہتے ہیں کہ نیک کام کرتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو ان نیکیوں پر اسلام لایا ہے جو تو نے اسلام لانے سے پہلے کی ہیں، میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں ان نیکیوں کو نہیں چھوڑوں گا جو میں جاہلیت کے زمانہ میں کرتا تھا اور زمانہ اسلام میں بھی اسی طرح نیک کام کرتا رہوں گا۔

【234】

اسلام لانے کے بعد کافر کے گزشتہ نیک اعمال کے حکم کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حکیم بن حزام (رض) نے اسلام لانے سے قبل زمانہ جاہلیت میں سو غلاموں کو آزاد کیا اور سو اونٹ اللہ کے راستے میں سواری کی خاطر دئیے تھے اس کے بعد پھر جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو سو اونٹوں کو آزاد کیا اور مزید سو اونٹ اللہ کے راستے میں سواری کی خاطر دئیے پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے پھر وہی حدیث بیان کی گئی جو ذکر کی گئی۔

【235】

سچے دل سے ایمان لانے اور اس کے اخلاص کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، ابومعاویہ، وکیع، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ( اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْ ا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰ ى ِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ) 6 ۔ الانعام : 82) (وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا) تو اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ پر یہ بات شاق گزری تو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہ کیا ہو (یعنی اس سے گناہ نہ ہوا ہو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کا مطلب یہ نہیں جو تم خیال کر رہے ہو اس آیت میں ظلم کا مطلب وہ ہے جو حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ اے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا نا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔

【236】

سچے دل سے ایمان لانے اور اس کے اخلاص کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم، عیسیٰ ابن یونس، منجاب بن حارث تمیمی، ابن مسہر، ابوکریب، ابن ادریس، اعمش، ابوکریب ایک دوسری سند میں یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【237】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہوجائیں اور اللہ پاک کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور اس بات کے بیان میں کہ نیکی اور گناہ کے ارادے کا کیا حکم ہے۔

محمد بن منہال، ضریر، امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح، ابن قاسم، علاء، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ پر یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں کہ اللہ ہی کی ملک میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو باتیں تمہارے نفسوں میں ہیں اگر تم ان کو ظاہر کروگے یا چھپاؤ گے اللہ تعالیٰ تم سے حساب لیں گے جسے چاہیں گے معاف فرما دیں گے اور جسے چاہیں گے عذاب دیں گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، تو صحابہ کرام (رض) پر یہ آیات کریمہ گراں گزریں وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر یعنی دو زانو ہو کر آپ ﷺ سے عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ ہمیں ان اعمال کے کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے نماز روزہ جہاد اور صدقہ تو آپ ﷺ پر یہ آیات نازل ہوئیں جس میں ذکر کئے گئے احکام کی ہم طاقت نہیں رکھتے (یعنی دل میں کوئی وسوسہ نہ آنے پائے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو جس طرح تم سے پہلے اہل کتاب کہہ چکے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نافرمانی کی ( اس پر عمل نہیں کریں گے) بلکہ تم اس طرح کہو کہ ہم نے آپ ﷺ کا فرمان سن لیا اور ہم نے بخوشی مان لیا۔ ہم آپ سے مغفرت چاہتے ہیں اے پروردگار اور آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے، صحابہ کرام (رض) نے کہا (سَمِعنَا وَاَطَعنَا غُفرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیکَ المَصَیِر) صحابہ کرام (رض) کے یہ کہنے کے فورا بعد ہی یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں، ایمان لائے رسول اس چیز پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی اور مومنین بھی سارے کے سارے ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ہم اس کے تمام رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ان سب نے یوں کہا ہم نے سن لیا آپ ﷺ کا فرمان اور ہم نے خوشی سے مان لیا ہم آپ سے مغفرت چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے، جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ) 2 ۔ البقرۃ : 386) منسوخ فرما کر یہ آیات نازل فرمائیں (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِيْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَه عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِه وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْ صُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ : 286) سورت البقرہ کے آخری رکوع تک اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں بناتا مگر جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ملے گا جو وہ ارادے سے کرے اور اسے سزا بھی اسی کی ملے گی جو وہ ارادے سے کرے اے ہمارے پروردگار ہمارا مواخذہ نہ فرمایا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے غلطی ہوجائے، اللہ نے فرمایا اچھا ! اے ہمارے پروردگار اور ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس کی ہم کو طاقت نہ ہو، فرمایا اچھا اور ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مالک ہے کافروں پر ہمیں غلبہ عطا فرما، اللہ نے فرمایا اچھا۔

【238】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہوجائیں اور اللہ پاک کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور اس بات کے بیان میں کہ نیکی اور گناہ کے ارادے کا کیا حکم ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سفیان، آدم بن سلیمان، خالد، سعید بن جبیر، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ مغفرت چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے، جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ) 2 ۔ البقرۃ : 386) ( سورت البقرہ) نازل ہوئی اور اگر تم ظاہر کرو یا چھپاؤ جو کچھ تمہارے نفسوں میں ہے اللہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے تو صحابہ (رض) کے دلوں میں ایسا ڈر پیدا ہوا کہ اس سے پہلے کسی چیز سے ان کے دلوں میں ایسا ڈر پیدا نہیں ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم کہو کہ ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کی اور ہم نے مان لیا پس اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ان کے دلوں میں ڈال دیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ( لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ الخ۔ ) 2 ۔ البقرۃ : 286) کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتے ہر آدمی کو اس کے نیک اعمال پر اور برے اعمال پر سزا ملے گی اے پروردگار اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں تو ہمارا موخذہ نہ فرمانا اللہ عزوجل نے فرمایا میں نے کردیا، اے ہمارے پروردگار ہم پر کوئی ایسا بوجھ (دنیا وآخرت میں) نہ ڈالنا جس طرح ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے کردیا، ہمیں معاف فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مالک ہے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا میں نے کردیا۔

【239】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

سعید بن منصور، قتیبہ بن سعید، محمد بن عبید، سعید، ابوعوانہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں سے جو ان کے نفسوں میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں جب تک کہ ان کا کلام نہ کریں یا جب تک کہ ان پر عمل نہ کریں معاف کردیا ہے۔

【240】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن مسہر، عبدہ بن سلیمان، ابن مثنی، ابن بشار، ابن ابی عدی، سعید بن ابوعروہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وساوس و خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک کہ ان پر عمل پیرا نہ ہوں یا کلام نہ کریں۔

【241】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

زہیر بن حرب، وکیع، مسعر، ہشام، اسحاق بن منصور، حسین بن علی، زائدہ، شیبان، قتادہ (رض) سے یہ روایت بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【242】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ابن عیینہ، ابی زناد، اعرج، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرے تو اسے اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر وہ اس پر عمل کرے تو ایک گناہ لکھو اور جب کسی نیکی کا ارادہ کرے لگے اس نیکی پر عمل نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھو اور اگر اس نیکی پر عمل کرلے تو اس کی ایک نیکی کے بدلہ میں اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھو۔

【243】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ ابن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، علاء، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب میرا بندہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا تو میں اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہوں اگر اس نیکی پر عمل کرلے تو میں دس گنا نیکیوں سے سات سو گنا نیکیوں تک لکھتا ہوں اور جب گناہ کا ارادہ کرے اور اس گناہ پر عمل نہ کرے تو میں اس کا گناہ نہیں لکھتا اگر وہ اس گناہ پر عمل کرلے تو میں ایک ہی گناہ لکھتا ہوں۔

【244】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) حضرت محمد ﷺ سے کچھ احادیث ذکر فرما رہے تھے ان میں سے ایک نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب میرا بندہ کسی نیک کام کا ارادہ کرتا ہے تو میں اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہوں جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے جب اسپر عمل کرے تو میں ایک نیکی کے بدلہ دس نیکیاں لکھتا ہوں اور جب کسی گناہ کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو میں اسے معاف کردیتا ہوں جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے اور جب اس گناہ پر عمل کرے تو ایک ہی گناہ لکھتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سچے دل سے اسلام قبول کرلیتا ہے تو اس کی ہر نیکی کو دس سے لے کر سات سو نیکیوں تک لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

【245】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

ابوکریب، ابوخالد احمر، ہشام، ابن سیرین، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی نیکی کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو اس کے لئے اس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرنے کے ساتھ اس پر عمل بھی کرے تو اس کے لئے اس کے نامہ اعمال میں سات سو نیکیوں تک لکھی جاتی ہیں اور جس نے برائی کا ارادہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا اور اگر اس گناہ پر عمل کرلے تو ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے۔

【246】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

شیبان بن فروخ، عبدالوارث جعدانی، ابورجاء، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پروردگار سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں پھر ان کو بیان فرمایا پس جس آدمی نے نیکی کا ارادہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں پوری ایک نیکی لکھیں گے اگر اس نیکی کے ارادے کے ساتھ اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ دس نیکیوں سے لے کر سات سو نیکیوں تک بلکہ اس سے بھی زیادہ لکھیں گے اور اگر برائی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ ایک ہی برائی لکھتے ہیں۔

【247】

اس چیز کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جب تک کہ دل میں پختہ نہ ہو جائیں

یحییٰ بن یحیی، جعفر بن سلیمان، ابوعثمان، عبدالوارث ایک دوسری سند کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کو بھی مٹا دیں گے اور عذاب میں وہی مبتلا ہوگا جس کے مقدر میں ہلاکت لکھی ہو۔

【248】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

زہیر بن حرب، جریر، سہیل، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کرسکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو ؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔

【249】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، محمد بن عمرو بن جبلہ بن ابی رواد، ابوبکر بن اسحاق، ابوجواب، عمار بن رزیق، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ ایک دوسری سند سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے روایت فرمائی۔

【250】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

یوسف بن یعقوب، علی بن عثام، سعید بن خمس، مغیرہ، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے وسوسہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو محض ایمان ہے۔

【251】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

ہارون بن معروف، محمد بن عباد، سفیان، ہشام، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے میں اللہ پر ایمان لایا۔

【252】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

محمود بن غیلان، ابونضر، ابوسعید، ہشام ابن عروہ سے اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آکر کہتا ہے کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے پھر اسی طرح حدیث ذکر کی اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ اور اس کے رسولوں پر۔

【253】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

زہیر بن حرب، عبد بن حمید، یعقوب، زہیر یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح اس طرح کس نے پیدا کیا یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو۔

【254】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

عبدالملک بن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان بندے کے پاس آکر کہتا ہے کہ اس اس کو کس نے پیدا کیا آگے مذکورہ حدیث کی طرح۔

【255】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

عبدالوارث بن عبدالصمد، ایوب، محمد بن سیرین ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ لوگ تجھ سے ہمیشہ علم کے بارے میں پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ یہ کہیں گے کہ ہمارا خالق تو اللہ ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) اس حدیث کی روایت کرتے ہوئے اس آدمی کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا ہے مجھ سے دو آدمی سوال کرچکے ہیں اور یہ تیسرا ہے یا فرمایا مجھ سے ایک آدمی سوال کرچکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔

【256】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

زہیر بن حرب، یعقوب دورقی، اسماعیل، ابن علیہ، ایوب، محمد، ابوہریرہ (رض) ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں نبی ﷺ کا ذکر نہیں لیکن حدیث کے آخر میں یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا۔

【257】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

عبداللہ بن رومی، نضر بن محمد عکرمہ، ابن عمار، ابوسلمہ، ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا اے ابوہریرہ (رض) یہ لوگ تجھ سے ہمیشہ پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ کہیں گے کہ یہ تو اللہ ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ دیہاتی لوگ آکر کہنے لگے اے ابوہریرہ یہ تو اللہ ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے مٹھی بھر کر کنکریاں ان کو مار کر کہا اٹھو چلے جاؤ۔ میرے دوست ﷺ نے سچ فرمایا۔

【258】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

محمد بن حاتم، کثیر بن ہشام، جعفر بن برقان، یزید بن اصم، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے لوگ ہر چیز کے متعلق پوچھیں گے یہاں تک کہ یہ بھی کہیں گے کہ ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟

【259】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

عبداللہ بن عامر بن زرارہ، محمد بن فضیل، مختار بن فلفل، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ ہمیشہ کہتے رہیں گے یہ کیا ہے یہ کیا ہے یہاں تک کہ کہیں گے کہ ساری مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟

【260】

ایمان کی حالت میں وسوے اور اس بات کا بیان میں کہ وسوسہ آنے پر کیا کہنا چاہئے ؟

اسحاق بن ابراہیم، جریر ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، مختار، انس ایک دوسری سند میں حضرت انس (رض) سے یہ روایت بھی نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح ذکر کی گئی ہے اس میں آپ ﷺ کی امت کا ذکر نہیں ہے۔

【261】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، ابن ایوب، علاء، ابن عبدالرحمن، معبد بن کعب سلمی، عبداللہ بن کعب، ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارا تو اللہ اس کے لئے دوزخ کو لازم کر دے گا اور اس پر جنت کو حرام کر دے گا ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اگرچہ وہ معمولی چیز ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ وہ پیلو درخت کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔

【262】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ہارون بن عبداللہ، ابواسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن کعب سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن کعب سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ حضرت ابوامامہ حارثی (رض) نے فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا۔

【263】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابن نمیر، ابومعاویہ، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، اعمش ابوائل، عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی آدمی نے کسی حاکم کے حکم سے کسی مسلمان کا مال دبانے کے لئے قسم کھائی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر اللہ ناراض ہوگا، روای کہتے ہیں کہ اشعث بن قیس (رض) حاضرین کے پاس آکر کہنے لگے کہ ابوعبدالرحمن نے تم سے کیا بیان کیا ہے انہوں نے کہا کہ اس طرح، حضرت اشعث (رض) نے کہا کہ ابوعبدالرحمن نے سچ فرمایا ہے اس حدیث کا تعلق مجھ سے ہے، یمن میں میرے اور ایک آدمی کے درمیان زمین کا جھگڑا تھا یہ جھگڑا نبی ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا آپ ﷺ نے فرمایا اس آدمی سے قسم لے لو میں نے عرض کیا وہ تو جھوٹی قسم اٹھا لے گا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ جو آدمی کسی مسلمان کا مال دبانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے گا تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا پھر یہ آیت نازل ہوئی یقینا جو لوگ اللہ کے عہد اور اس کی قسموں کے بدلہ میں (ثمناً قلیلاً ) تھوڑا مول لے لیتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں یہ آیت کریمہ آخر تک تلاوت فرمائی۔

【264】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ابو وائل، عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے کسی کا مال دبانے کی خاطر جھوٹی قسم کھائی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوں گے پھر اعمش کی حدیث کی طرح ذکر کیا مگر اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے اور ایک آدمی کے درمیان ایک کنوئیں کا جھگڑا تھا ہم نے یہ جھگڑا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا آپ ﷺ نے مدعی سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر ورنہ مدعا علیہ پر قسم ہے۔

【265】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

ابن ابی عمر مکی، سفیان، جامع بن ابوراشد، عبدالملک، ابن اعین، شقیق بن سلمہ، ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو فرماتے ہوئے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس آدمی نے کسی مسلمان آدمی کا مال دبانے کے لئے ناحق قسم اٹھائی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوں گے حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی تصدیق میں اللہ کی کتاب قرآن مجید میں آیت کریمہ پڑھی (اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَ مَنًا قَلِيْلًا الخ۔ ) 3 ۔ آل عمران : 77) آخر تک جو لوگ اللہ کے عہد اور اس کی قسموں کے بدلہ میں ثمنا قلیلا لے لیتے ہیں آخرت میں ان کا حصہ نہیں۔

【266】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، ہناد بن سری، ابوعاصم حنفی، ابوالاحوص، سماک، علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرموت کا اور ایک آدمی کندہ کا دونوں نبی ﷺ کی خدمت میں آئے حضری نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اس آدمی نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے جو کہ مجھے میرے باپ سے ملی تھی، کندی نے کہا کہ یہ زمین میری ہے میں اس میں کاشت کرتا ہوں اس زمین میں اس کا کوئی حق نہیں، نبی ﷺ نے حضری سے فرمایا کیا تیرے پاس گواہ ہیں ؟ اس نے کہا نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تو اس سے قسم لے لے، اس حضری نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ آدمی فاجر ہے جھوٹی قسم کھانے میں بھی کوئی پرواہ نہیں کرے گا اور کسی چیز سے پرہیز بھی نہیں کرے گا ہر طرح اپنی بات منوانے کی کوشش کرے گا، آپ ﷺ نے فرمایا اب تیرے لئے اس کی قسم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں پھر وہ آدمی قسم کھانے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس نے دوسرے کا مال ظلماً مارنے کی خاطر قسم کھائی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے اعراض کرے گا بوجہ ناراضگی اس پر متوجہ نہ ہوگا۔

【267】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی جھوٹی قسم کھا کر کسی کا حق مارے اسکی سزا دوزخ ہے۔

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، ابی ولید، زہیر، ہشام بن عبدالملک، ابوعوانہ، عبدالملک بن عمیر، علقمہ بن وائل ابن حجر کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں دو آدمی ایک زمین کے سلسلہ میں جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اس آدمی نے زمانہ جاہلیت میں میری زمین چھین لی وہ امرؤ القیس بن عابس کندی تھا اور اس کا حریف جس سے جھگڑا ہوا وہ ربیعہ بن عبد ان تھا آپ ﷺ نے فرمایا تیرے پاس اس بات کے گواہ ہیں ؟ اس نے کہا میرے پاس گواہ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا پھر مدعا علیہ پر قسم ہے، اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ تو میرا مال دبالے گا، آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بغیر تو کوئی چارہ نہیں پھر جب وہ قسم اٹھانے کے لئے کھڑا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی ظلمًا کسی کی زمین دبائے گا تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا اسحاق کی روایت میں ریبعہ بن عیدان ہے۔

【268】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی کسی کا ناحق مال مارے تو اس آدمی کا خون جس کا مال مارا جا رہا ہے اس کے حق میں معاف ہے اور اگر وہ مال مارتے ہوئے قتل ہوگیا تو دوزخ میں جائے گا اور اگر وہ قتل ہوگیا جس کا مال مارا جا رہا تھا وہ تو شہید ہے۔

ابوکریب، محمد بن علاء، ابن مخلد، محمد بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ اس آدمی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ کوئی آدمی میرا مال لینے (چھیننے کیلئے) آئے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو اس کو نہ دے، اس نے عرض کیا اگر وہ مجھ سے لڑے تو آپ ﷺ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تو بھی اس سے لڑ، اس نے عرض کیا اگر وہ مجھے مار ڈالے ؟ (قتل کردے) آپ ﷺ نے فرمایا تو شہید ہوگا، اس نے عرض کیا اگر میں اس کو مار ڈالوں (قتل کردوں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ دوزخ میں جائے گا۔

【269】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی کسی کا ناحق مال مارے تو اس آدمی کا خون جس کا مال مارا جا رہا ہے اس کے حق میں معاف ہے اور اگر وہ مال مارتے ہوئے قتل ہوگیا تو دوزخ میں جائے گا اور اگر وہ قتل ہوگیا جس کا مال مارا جا رہا تھا وہ تو شہید ہے۔

حسن بن علی حلوانی، اسحاق بن منصور، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، سلیمان، ثابت سے روایت ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) اور عنبسہ بن ابی سفیان (رض) دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا دونوں لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تو حضرت خالد بن العاص (رض) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کی طرف سوار ہو کر آئے اور انہیں سمجھایا تو حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اپنا مال بچاتے ہوئے قتل ہوجائے وہ شہید ہے۔

【270】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی کسی کا ناحق مال مارے تو اس آدمی کا خون جس کا مال مارا جا رہا ہے اس کے حق میں معاف ہے اور اگر وہ مال مارتے ہوئے قتل ہوگیا تو دوزخ میں جائے گا اور اگر وہ قتل ہوگیا جس کا مال مارا جا رہا تھا وہ تو شہید ہے۔

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، احمد بن عثمان نوفلی، ابوعاصم، ابن جریج (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【271】

رعایا کے حقوق میں خیانت کرنے والے حکمران کے لئے دوزخ کا بیان

شیبان بن فروخ، ابواشہب، حسن کہتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد، حضرت معقل بن یسار (رض) کے مرض الموت میں ان کی عیادت کے لئے آیا تو حضرت معقل (رض) نے فرمایا کہ میں تجھے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہے اگر مجھے اپنے زندہ رہنے کا علم ہوتا تو میں تجھے بیان نہ کرتا میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی آدمی ایسا نہیں کہ اللہ اسے رعایا پر حاکم بنائے اور وہ ان کے حقوق میں خیانت کرے تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔

【272】

رعایا کے حقوق میں خیانت کرنے والے حکمران کے لئے دوزخ کا بیان

یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، یونس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زیاد، حضرت معقل بن یسار (رض) کی بیماری میں ان کی عیادت کے لئے آئے ان کا حال پوچھا حضرت معقل (رض) کہنے لگے کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے ابھی تک بیان نہیں کی وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جسے لوگوں کا حکمران بناتا ہے اور پھر وہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہوئے مرتا ہے تو اللہ اس پر جنت حرام کردیتا ہے، ابن زیادہ کہنے لگا کیا تم مجھ سے اس سے پہلے یہ حدیث نہیں بیان کرچکے ؟ حضرت معقل (رض) نے فرمایا میں نے تجھ سے یہ حدیث بیان نہیں کی یا یہ فرمایا کہ میں تجھے اس سے پہلے یہ حدیث بیان نہیں کرسکا۔

【273】

رعایا کے حقوق میں خیانت کرنے والے حکمران کے لئے دوزخ کا بیان

قاسم بن زکریا، حسین، زائدہ، ہشام سے روایت ہے کہ حضرت حسن نے فرمایا کہ ہم حضرت معقل بن یسار (رض) کے پاس ان کی عیادت کے لئے آئے ہوئے تھے اتنے میں عبیداللہ بن زیاد آگیا تو حضرت معقل (رض) نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تجھ سے ایک حدیث بیان کروں گا جو میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہے پھر دونوں حدیثوں کی طرح بیان کیا جو اس سے قبل ذکر کی گئیں۔

【274】

رعایا کے حقوق میں خیانت کرنے والے حکمران کے لئے دوزخ کا بیان

ابوغسان مسمعی، محمد بن مثنی، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق، معاذ بن ہشام، قتادہ، ابی ملیح سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معقل بن یسار (رض) کی بیماری میں ان کی عیادت کے لئے ان کے پاس آیا تو اس سے حضرت معقل (رض) نے فرمایا کہ میں تجھ سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں کہ اگر میں مرنے والا نہ ہوتا تو میں تجھ سے وہ حدیث بیان نہ کرتا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو آدمی مسلمانوں کا حکمران ہو اور پھر ان کی بھلائی کے لئے جدوجہد نہ کرے اور خلوص نیت سے ان کا خیر خواہ نہ ہو تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔

【275】

بعض دلوں سے ایمان وامانت اٹھ جانے اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، وکیع، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، زید بن وہب، حذیفہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اللہ کے رسول ﷺ نے دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک تو میں دیکھ چکا اور دوسری کے انتظار میں ہوں، آپ ﷺ نے ہمیں بیان فرمایا کہ امانت کا نزول لوگوں کے دلوں کی جڑوں پر ہوا۔ پھر قرآن نازل ہوا اور انہوں نے قرآن وسنت کا علم حاصل کیا پھر آپ ﷺ نے ہمیں دوسری حدیث امانت کے اٹھ جانے کے متعلق بیان فرمائی آپ نے فرمایا ایک آدمی تھوڑی دیر سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھالی جائے گی اس کا ہلکا سا نشان رہ جائے گا پھر ایک بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھ جائے گی اس کا نشان ایک انگارہ کی طرح رہ جائے گا جس طرح کہ ایک انگارہ تو اپنے پاؤں پر لڑھکا دے اور کھال پھول کر چھالے کی شکل اختیار کرلے اور اس کے اندر کچھ نہ ہو، پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکا دیا اور پھر فرمایا کہ لوگ خریدو فروخت کریں گے اور ان میں سے کوئی امانت کا حق ادا کرنے والا نہیں ہوگا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ میں ایک آدمی صاحب امانت ہے اور ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے گا کہ کس قدر ہوشیار ہے کس قدر خوش اخلاق ہے کس قدر عقلمند ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا اور حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایسے دور سے گزر چکا ہوں جب میں ہر ایک سے بےتکلف اور بغیر غور و فکر کے معاملہ کرلیتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اسے بےایمانی سے روکے رکھتا اور اگر یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا حاکم اسے بےایمانی نہ کرنے دیتا مگر آج تو میں فلاں فلاں کے علاوہ اور کسی سے معاملہ نہیں کرسکتا۔

【276】

بعض دلوں سے ایمان وامانت اٹھ جانے اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان

ابن نمیر، ابو وکیع، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس ایک دوسری سند میں حضرت اعمش (رض) سے یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【277】

بعض دلوں سے ایمان وامانت اٹھ جانے اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوخالد سلیمان بن حیان، سعد بن طارق، ربیع، حذیفہ (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے اللہ کے رسول ﷺ سے فتنوں کا ذکر سنا ہے ایک جماعت کے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نے سنا ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ شاید تمہاری مراد ان فتنوں سے وہ فتنے ہیں جو اس کے گھر والوں میں، مال میں اور ہمسایوں میں ہوتے ہیں لوگوں نے عرض کیا جی ہاں حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ ان فتنوں کا کفارہ تو نماز، روزہ اور صدقہ سے ہوجاتا ہے لیکن تم میں سے کسی نے رسول اللہ ﷺ سے ان فتنوں کے بارے میں سنا ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح امڈ آئیں گے، حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ یہ سن کر خاموش ہوگئے میں نے عرض کیا کہ میں نے سنا ہے، حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ تیرا والد بہت اچھا تھا (کہ تم بھی ان کے بیٹے ہو) حضرت حذیفہ (رض) کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک اس طرح آئیں گے کہ جس طرح بوریا اور چٹائی کے تنکے ایک کے بعد ایک ہوتے ہیں جو دل اس فتنہ میں مبتلا ہوگا وہ فتنہ اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ ڈال دے گا اور جو دل اسے رد کرے یعنی قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اس کے دل میں ایک سفید نقطہ لگ جائے گا یہاں تک کہ اس کے دو دل ہوجائیں گے ایک سفید دل کہ جس کی سفیدی بڑھ کر کوہ صفا کی طرح ہوجائے گی جب تک زمین و آسمان رہیں گے اسے کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچائے گا اور دوسرا دل سیاہ راکھ کے کوزہ کی طرح علوم سے خالی ہوگا نہ نیکی کو پہنچانے گا اور نہ ہی بدی کا انکار کرے گا مگر اپنی خواہشات کی پیروی کرے گا، حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے یہ حدیث بیان کی کہ تیرے اور ان فتنوں کے درمیان ایک بند دروازہ ہے اور قریب ہے کہ وہ ٹوٹ جائے حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ وہ توڑ دیا جائے گا تیرا باپ نہ رہے اگر وہ کھلتا تو شاید بند ہوجاتا میں نے عرض کیا وہ کھلے گا نہیں بلکہ ٹوٹ جائے گا اور میں نے حضرت عمر سے فرمایا وہ توڑ دیا جائے گا ؟ ایک آدمی ہے یا تو قتل کردیا جائے گا یا اس کا انتقال ہوجائے گا یہ حدیث غلط باتوں میں سے نہ تھی ابوخالد نے کہا کہ میں نے سعد سے عرض کیا کہ اسود مرباد سے کیا مراد ہے فرمایا سیاہی میں سفیدی کی شدت۔ میں نے عرض کیا اِنَّ الکَوزَ مَجخِیَّا سے کیا مراد ہے فرمایا الٹا ہوا کوزہ۔

【278】

بعض دلوں سے ایمان وامانت اٹھ جانے اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان

ابن ابی عمر، مروان، ابومالک، ربعی سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) جب حضرت عمر (رض) کے پاس آئے تو بیٹھ کر ہم سے حدیث بیان فرمانے لگے کہ کل جب میں امیر المومنین کے پاس بیٹھا تھا تو انہوں نے صحابہ (رض) سے پوچھا کہ تم میں سے کس کو رسول اللہ ﷺ کا فرمان فتنوں کے بارے میں یاد ہے پھر ابوخالد سے مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث روایت کی مگر اس میں ابومالک کی مرباد اور مَجخِیَّا کی تفسیر ذکر نہیں کی۔

【279】

بعض دلوں سے ایمان وامانت اٹھ جانے اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان

محمد بن مثنی، عمرو بن علی، عقبہ بن مکرم، محمد بن ابی عدی، سلیمان تیمی، نعیم بن ابی ہند، ربعی بن حراش، حذیفہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے ایک مرتبہ ہم سے حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ تم سے کس نے رسول اللہ ﷺ سے فتنوں کے بارے میں حدیث سنی ہے ان میں حضرت حذیفہ بھی تھے انہوں نے کہا کہ میں نے فتنوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا ہے اور پھر اس اس طرح حدیث بیان کی جس طرح کہ ابومالک نے ربعی سے روایت کی ہے اور اس روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے ان سے ایک حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی بلکہ وہ بالکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔

【280】

اس بات کے بیان میں کہ اسلام ابتداء میں اجنبی تھا اور اتنہا میں بھی اجنبی ہوجائے گا اور یہ کہ سمٹ کر مسجدوں میں گھس جائے گا

محمد بن عباد، ابی عمر، مروان، ابن عباد، یزید، ابن کیسان، ابوحازم، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی اور پھر یہ حالت غربت کی طرف لوٹ آئے گا پس غرباء کے لئے خوشخبری ہو۔

【281】

اس بات کے بیان میں کہ اسلام ابتداء میں اجنبی تھا اور اتنہا میں بھی اجنبی ہوجائے گا اور یہ کہ سمٹ کر مسجدوں میں گھس جائے گا

محمد بن رافع، فضل بن سہل، اعرج، شبابہ، سوار، عاصم، ابن محمد، عمری، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی ابتداء غربت کی حالت میں ہوئی اور پھر ایسا وقت آئے گا کہ یہ (اسلام) ابتداء کی طرح غربت کی حالت میں ہوجائے گا اور وہ سمٹ کردو سجدوں میں آجائے گا جیسا کہ سانپ سمٹ کر اپنے سوارخ میں چلا جاتا ہے۔

【282】

اس بات کے بیان میں کہ اسلام ابتداء میں اجنبی تھا اور اتنہا میں بھی اجنبی ہوجائے گا اور یہ کہ سمٹ کر مسجدوں میں گھس جائے گا

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، عبیداللہ بن عمر، خبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایمان اس طرح سمٹ کر مدینہ منورہ میں آجائے گا جس طرح کہ سانپ سمٹ کر اپنے سوراخ میں چلا جاتا ہے۔

【283】

اس بات کے بیان کیں کہ آخری زمانہ میں ایمان رخصت ہوجائے گا

زہیر بن حرب، عفان، حماد، ثابت، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ زمین میں اللہ اللہ کیا جاتا رہے گا۔

【284】

اس بات کے بیان کیں کہ آخری زمانہ میں ایمان رخصت ہوجائے گا

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، ثابت، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا باقی رہے گا۔

【285】

خوفزدہ کے لئے ایمان کو پو شیدہ رکھنے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، شقیق، حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھے آپ ﷺ نے مجھے شمار کر کے فرمایا کہ اسلام کے قائل ( کھلا اظہار کرنے والے) کتنے ہیں ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ ﷺ کو ہم پر (دشمنوں کی طرف سے کسی سازش کا) خوف ہے ؟ اور ہماری تعداد چھ سو سے سات سو تک ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے شاید کہ تم کسی آزمائش میں پڑجاؤ، حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد حضرت عثمان (رض) کے دور خلافت میں ہم آزمائش میں مبتلا ہوگئے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض نماز بھی چھپ کر پڑھنے لگے۔

【286】

کمزور ایمان والے کی تالیف قلب کرنے اور بغٰیر دلیل کے کسی کو مومن نہ کہنے کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، زہری، عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ مال تقسیم فرمایا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ فلاں کو دیجئے کیونکہ وہ مومن ہے نبی ﷺ نے فرمایا وہ مسلمان ہے ( مومن نہیں ظاہری طور پر عبادت گزار ہے) ، میں نے تین مرتبہ عرض کیا کہ وہ مومن ہے اور آپ ﷺ نے تینوں مرتبہ یہی فرمایا کہ وہ مسلمان ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا میں اس آدمی کو دیتا ہوں حالانکہ میں دوسرے کو اس سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں صرف اس ڈر سے اسے دیتا ہوں کہ کہیں اللہ اسے منہ کے بل جہنم میں نہ گرا دے۔

【287】

کمزور ایمان والے کی تالیف قلب کرنے اور بغیر دلیل کے کسی کو مومن نہ کہنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، عامر بن سعد ابن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال عطا فرمایا اور حضرت سعد (رض) بھی ان میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے کچھ ایسے لوگوں کو مال عطا نہیں فرمایا جو میرے نزدیک زیادہ مستحق تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فلاں کو عطا نہیں فرمایا اللہ کی قسم میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلم ؟ حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر مجھے وہی خیال غالب آنے لگا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فلاں آدمی کو کیوں عطا نہیں فرمایا اللہ کی قسم میں اس کو مومن جانتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا مسلم ؟ حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ میں پھر کچھ دیر خاموش رہا پھر مجھ پر وہی خیال غالب آ نے لگا جس کے بارے میں میں آگاہ تھا میں نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فلاں آدمی کو مال عطا نہیں فرمایا اللہ کی قسم میں اس کو مومن ہونے کو جانتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یا مسلم ؟ اور پھر آپ ﷺ نے فرمایا میں ایک آدمی کو دے دیتا ہوں حالانکہ دوسرا آدمی مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے اور میں صرف اس ڈر سے اسے دیتا ہوں کہ کہیں وہ ( کفر کر کے) منہ کے بل جہنم میں نہ گرا دیا جائے۔

【288】

کمزور ایمان والے کی تالیف قلب کرنے اور بغیر دلیل کے کسی کو مومن نہ کہنے کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب ابن ابراہیم، ابن سعد، صالح، ابن شہاب، عامر بن سعد، سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو عطا فرمایا اور میں انہیں میں بیٹھا ہوا تھا پھر آپ ﷺ نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح فرمایا لیکن اس سند کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف کھڑا ہوا اور آپ ﷺ سے خاموشی سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فلاں آدمی کو کیوں نہیں عطا فرمایا ؟

【289】

کمزور ایمان والے کی تالیف قلب کرنے اور بغیر دلیل کے کسی کو مومن نہ کہنے کے بیان میں

حسن حلوانی، یعقوب، صالح، اسماعیل بن محمد بن سعد ایک دوسری سند میں یہی روایت بیان کی گئی ہے لیکن اس حدیث میں ہے کہ حضرت سعد (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری گردن اور کندھے کے درمیان مارا اور فرمایا اے سعد کیا تو جھگڑتا ہے کہ میں ایک آدمی کو نہیں دیتا آخر حدیث تک۔

【290】

دلائل کے اظہار سے دل کو زیادہ اطمینان حاصل ہونے کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار مجھے دکھلا دیجئے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے اللہ نے فرمایا کیا تجھے اس بات کا یقین نہیں عرض کیا کیوں نہیں ! یقین ہے، لیکن اس غرض سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے دل کو اطمینان ہوجائے آپ ﷺ نے فرمایا اور اللہ حضرت لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط پایہ کی پناہ چاہتے تھے اور اگر میں اتنے عرصے تک قید رہتا جتنے عرصے تک حضرت یو سف (علیہ السلام) رہے تو میں بلا نے والے کے بلانے پر فورًا چلا جاتا۔

【291】

دلائل کے اظہار سے دل کو زیادہ اطمینان حاصل ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن محمد، اسماء، جویریہ، مالک، زہری، سعید بن مسیب، ابوعبید، ابوہریرہ (رض) ایک دوسری سند میں حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے زہری کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں۔ اور مالک کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا وَلٰکِنَّ لِیَطمَئِنَّ قَلبِی پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی یہاں تک کہ (آپ ﷺ نے) اس کو پورا پڑھ دیا۔

【292】

دلائل کے اظہار سے دل کو زیادہ اطمینان حاصل ہونے کے بیان میں

عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابواویس، زہری، مالک، زہری کی روایت اس سند کے ساتھ مالک کی روایت کی طرح ہے فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی یہاں تک کہ پوری پڑھ لی۔

【293】

ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کی شریعت کی وجہ سے باقی تمام شریعتون کی منسوخ ماننے کے وجوب کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث سعید بن ابی سعید، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے معجزے عطا کئے گئے ہیں جو اسی جیسے دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی عطا کئے گئے اور لوگ ان پر ایمان لائے اور مجھے جو معجزہ عطا کیا گیا وہ وحی الٰہی یعنی قرآن مجید ہے کہ اور کوئی نبی اس معجزہ میں میرا شریک نہیں کہ اس جیسا معجزہ اسے ملا ہو اور مجھے امید ہے کہ میری پیروی کرنے والوں کی تعداد دوسرے انیباء (علیہم السلام) کی پیروی کرنے والوں کی تعداد سے قیامت کے دن زیادہ ہوگی۔

【294】

ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کی شریعت کی وجہ سے باقی تمام شریعتون کی منسوخ ماننے کے وجوب کے بیان میں

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عمرو، ابویونس، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ اس امت کا کوئی بھی یہودی اور نصرانی جو میری بات سنے (شریعت) جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں (یعنی اسلام) اور وہ اس پر ایمان نہ لائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم والوں میں سے ہوگا۔

【295】

ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کی شریعت کی وجہ سے باقی تمام شریعتون کی منسوخ ماننے کے وجوب کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، صالح بن صالح ہمدانی، شعبی کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ اے ابوعمرو خراسان کے لوگ کہتے ہیں کہ کسی آدمی کا اپنی باندی کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرلینا اس آدمی کی طرح ہے جو اپنی قربانی کے جانور پر سوار ہو حضرت شعبی کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد حضرت ابوموسی اشعری کے حوالہ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو دوہرا ثواب دیا جائے گا ایک تو وہ آدمی جو اہل کتاب میں سے ہو اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اس نے نبی ﷺ کا زمانہ پایا آپ ﷺ پر بھی ایمان لایا آپ ﷺ کی پیروی اور تصدیق کی تو اس کے لئے دوہرا ثواب ہے اور ایک وہ آدمی ہے جس کے پاس ایک باندی ہو اسے اچھی طرح کھلائے پلائے اس کی اچھے طریقے سے تعلیم و تربیت کرے اس کے بعد اسے آزاد کر کے خود اس سے نکاح کرلے تو اس کے لئے بھی دوہرا ثواب ہے پھر حضرت شعبی نے اس خراسانی سے فرمایا کہ یہ حدیث بغیر کسی چیز کے (محنت ومشقت کے بغیر) لے لو ورنہ ایک آدمی کو اس جیسی حدیث کے لئے مدینہ منورہ تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔

【296】

ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے اور آپ ﷺ کی شریعت کی وجہ سے باقی تمام شریعتون کی منسوخ ماننے کے وجوب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ابن ابی عمر، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، صالح بن صالح ایک دوسری روایت کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【297】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب، ابن مسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے سنا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم لوگوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نزول فرمائیں گے شریعت محمدیہ کے مطابق حکم دیں گے اور عدل و انصاف کریں گے صلیب (سولی) توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو موقوف کریں گے اور مال بہت دیں گے یہاں تک کہ کوئی مال قبول کرنے والا نہیں رہے گا۔

【298】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

عبدالاعلی بن حماد، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، حسن حلوانی، عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح زہری سے یہ حدیث بھی اس سند کے ساتھ نقل کی گئی ہے اور ابن عیینہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انصاف کرنے والے امام اور عدل کرنے والے حکمران ہوں گے اور یونس کی روایت میں ہے کہ عدل کرنے والے حاکم ہوں گے اور اس میں انصاف کرنے والے امام کا ذکر نہیں کیا گیا جیسا کہ لیث نے اپنی روایت میں کہا ہے اور اس میں اتنا زائد ہے کہ اس زمانہ میں ایک سجدہ دنیا ومافیھا سے بہتر ہوگا پھر حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پڑھو (وَاِنَّ مِن اَہلِ الکِتَابِ اِلَّا لَیُومِنَنَّ بِہ قَبلَ مَوتِہ) یعنی کوئی آدمی اہل کتاب میں سے نہیں رہتا مگر وہ اپنے مرنے سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق ضرور کرتا ہے۔

【299】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، سعید بن ابی سعید، عطاء بن میناء، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم حضرت عیسیٰ ابن مریم ضرور اتریں گے وہ انصاف کرنے والے حاکم ہوں گے وہ صلیب توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کریں گے اور جوان اونٹنیاں چھوڑیں گے مگر ان پر کوئی متوجہ نہیں ہوگا یعنی ان سے بار برداری کے لئے کام نہیں لے گا لوگوں کے دلوں سے کینہ بغض اور حسد ختم ہوجائے گا اور وہ لوگوں کو مال کی طرف بلائیں گے مگر کوئی بھی مال قبول نہیں کرے گا۔

【300】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، نافع، قتادہ انصاری، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اس وقت کس حال میں ہو گے جب تم میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اتریں گے اور تمہارے امام ہوں گے۔

【301】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

محمد بن حاتم بن میمون، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، نافع، ابوقتادہ (رض) انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اتریں گے اور تمہارے امام بنیں گے۔

【302】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، ابن ابی ذنب، ابن شہاب، نافع، ابوقتادہ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اتریں گے تم ہی میں سے تمہارے امام بنیں گے ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تمہارا امام تم ہی میں سے بنے گا ابن ابی ذئب نے کہا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا اس کا کیا مطلب ہے میں نے عرض کیا کہ مجھے بتائیے، آپ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ تمہاری امامت کریں گے (وہ اس کے مطابق فیصلے کریں گے) ۔

【303】

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے بیان میں

ولید بن شجاع، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن شاعر، ابن محمد، ابن جریج، ابوزبیر (رض) کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق کی خاطر لڑتا رہے گا اور قیامت تک غالب رہے گا اور فرمایا کہ پھر حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اتریں گے لوگوں کا امیر ان سے نماز پڑھانے کے لے عرض کرے گا آپ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ نہیں بلکہ تم ایک دوسرے پر امیر ہو یہ وہ اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عطا فرمایا ہے۔

【304】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل بن حعفر، علاء ابن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا پھر جب سورج مغرب سے نکلے گا تو سب لوگ ایمان لے آئیں گے مگر اس وقت کا ایمان لانا کسی کو فائدہ نہ دے گا جو اس سے پہلے (یقینی قیامت کی نشانی سے قبل) ایمان نہیں لایا تھا یا اس نے ایمان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی تھی۔

【305】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابوکریب، ابن فضیل، زہیر بن حرب، جریر، عمارہ بن قعقاع، ابی زرعہ، ابوہریرہ (رض) ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، عبداللہ بن ذکوان، عبدالرحمن اعرج، ابوہریرہ (رض) ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【306】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، زہیر بن حرب، اسحاق بن یوسف، فضیل بن غزوان، ابوکریب، محمد بن علاء، ابن فضیل، ابی حازم، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزوں کے ظاہر ہوجانے کے بعد کسی ایسے آدمی کا ایمان لانا اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہوگا جو کہ ان سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا نیک کام کیا ہو ان تین میں سے ایک سورج کا مغرب سے نکلنا دوسرے دجال کا نکلنا تیسرے دَابَّةُ الْأَرْضِ کا نکلنا ہے۔

【307】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

یحییٰ بن ایوب، اسحاق بن ابراہیم، ابن علیہ، ابن ایوب، ابن علیہ، یونس، ابراہیم بن یزید تمیمی، ابوذر (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے صحابہ (رض) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا یہ چلتا ہے یہاں تک کہ اپنے قیام کی جگہ عرش کے نیچے آجاتا ہے اور سجدہ ریز ہوجاتا ہے سجدے میں پڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اٹھنے کا (بلند ہونے) کا حکم ملتا ہے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں پر لوٹ جا پھر صبح کو نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے پہنچ جاتا ہے اور پھر سجدہ میں پڑجاتا ہے یہاں تک کہ اسے حکم ہوتا ہے کہ اٹھ کر جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا تو وہ لوٹ جاتا ہے پھر صبح کو اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر اس طرح چلتا رہتا ہے پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کو اس کے چلنے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے آجائے گا پھر اسے کہا جائے گا کہ اٹھ اور مغرب کی طرف سے نکل چناچہ وہ اس وقت مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کب ہوگا یہ اس وقت ہوگا جب کسی کا ایمان لانا اس کو فائدہ نہ دے گا جب تک کہ وہ اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا ایمان کی حالت میں اس نے نیک کام نہ کئے ہوں۔

【308】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

عبدالحمید بن بیان، واسطی، خالد، ابن عبداللہ بن یونس، ابراہیم تیمی، ابوذر (رض) ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【309】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے پھر جب سورج غروب ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوذر کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا یہ سورج جا کر اللہ تعالیٰ سے سجدہ کی اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت مل جاتی ہے اور ایک مرتبہ قیامت کے قریب اسے کہا جائے گا کہ جہاں سے نکلا ہے وہیں لوٹ جا تو وہ مغرب کی طرف سے نکلے گا حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ (رض) کی قرأت کی مطابق پڑھا ( ذَلِکَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا) یعنی یہی مقام سورج کے ٹھہرنے کا ہے۔

【310】

اس زمانے کے بیان میں کہ جس میں ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔

ابوسعید اشج، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، اعمش، ابراہیم تیمی، ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا) کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے ہے۔

【311】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

ابوطاہر، احمد بن عمرو بن عبداللہ بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر (رض) ، عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ آپ ﷺ کے خواب سچے ہونے لگے آپ ﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہوتا پھر آپ ﷺ کو تنہائی پسند ہونے لگی، غار حرا میں تنہا تشریف لے جاتے کئی کئی رات گھر میں تشریف نہ لاتے اور عبادت کرتے رہتے (دین ابراہیمی کے مطابق) اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان رکھتے پھر ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) کے پاس واپس تشریف لاتے، حضرت خدیجہ (رض) پھر اسی طرح کھانے پینے کا سامان پکا دیتیں یہاں تک کہ اچانک غار حرا میں آپ ﷺ پر وحی اتری فرشتہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا پڑھئے ! آپ ﷺ فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر فرمایا پڑھیے ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتہ نے دوبارہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا اس کے بعد مجھے چھوڑ دیا آپ ﷺ نے فرمایا فرشتہ نے پھر تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں تھک گیا پھر مجھے چھوڑ کر کہا (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ) پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے، پڑھ ! تیرا پروردگار بڑی عزت والا ہے جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا، پھر رسول اللہ ﷺ واپس گھر تشریف لائے تو وحی کے جلال سے آپ کے شانہ مبارک اور گردن کے درمیان کا گوشت کانپ رہا تھا، حضرت خدیجہ (رض) کے پاس تشریف لا کر فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو ! آپ ﷺ پر کپڑا اوڑھا دیا گیا یہاں تک کہ جب گھبراہٹ ختم ہوگئی تو فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، حضرت خدیجہ (رض) فرمانے لگیں کہ ہرگز نہیں آپ ﷺ خوش رہیں، اللہ کی قسم اللہ آپ ﷺ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، یتیموں مسکینوں اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور ناداروں کو دینے کی خاطر کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور پریشان لوگوں کی پریشانی میں لوگوں کے کام آتے ہیں، اس کے بعد حضرت خدیجہ (رض) آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس لے گئیں، ورقہ دور جاہلیت میں اسلام سے قبل نصرانی ہوگئے تھے، وہ عربی لکھنا جانتے تھے اور انجیل کو عربی زبان میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا لکھتے تھے یہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، حضرت خدیجہ (رض) نے ورقہ سے کہا اے چچا ! (ان کی بزرگی کی وجہ سے اس طرح خطاب کیا اصل میں وہ چچا زاد بھائی تھے) اپنے بھتیجے کی بات سنئے ورقہ نے آپ ﷺ کو مخاطب کرکے کہا اے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے آگاہ کیا، ورقہ کہنے لگا یہ تو وہ ناموس ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا کاش میں اس وقت جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب تیری قوم تجھے نکالے گی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے ورقہ نے کہا ہاں جو بھی آپ ﷺ جیسا نبی بن کر دنیا میں آیا لوگ اس کے دشمن ہوگئے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا۔

【312】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ابتدا میں رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز اس طرح سے ہوا اور پھر اسی طرح حدیث بیان کی جو گزر گئی، لیکن اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اللہ کی قسم اللہ کبھی آپ کو رنجیدہ نہیں کرے گا اور راوی کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ (رض) نے ورقہ سے کہا اے چچا کے لڑکے اپنے بھتیجے ( اللہ کے رسول ﷺ کی بات سنو۔

【313】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

عبدالملک، ابن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عروہ (رض) بن زبیر سے سنا کہتے تھے کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہ (رض) کے پاس جب واپس تشریف لائے تو آپ ﷺ کا دل کانپ رہا تھا پھر اسی طرح حدیث بیان کی جو گزر چکی لیکن اس حدیث میں یہ نہیں کہ شروع میں آپ ﷺ پر وحی کا آغاز سچے خواب سے ہوا اور دوسری روایت کی طرح اس روایت میں ہے کہ اللہ کی قسم اللہ آپ ﷺ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا اور حضرت خدیجہ (رض) کا یہ قول نقل کیا کہ اے چچا کے بیٹے اپنے بھیجے کی بات سنو۔

【314】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، جابر بن عبداللہ انصاری رسول اللہ ﷺ کے صحابہ (رض) میں سے ایک انصاری حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آپ ﷺ وحی کے رک جانے کے زمانہ کا تذکرہ فرما رہے تھے کہ میں ایک مرتبہ جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ حضرت جبرائیل ہے جو غار حرا میں میرے پاس وحی لے کر آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ دیکھ کر گھبرا گیا مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی پھر میں لوٹ کر گھر آیا تو میں نے کہا مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو ، تو مجھے گھر والوں نے کپڑا اوڑھا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ سورت (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِيَابَکَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَهِيَ الْأَوْثَانُ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ ) اے کپڑے میں لپٹنے والے اٹھو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو اور بتوں سے علیحدہ رہو، آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر برابر وحی آنے لگی۔

【315】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب، ابن لیث، عقیل بن خالد، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں ڈر کی وجہ سے سہم گیا یہاں تک کہ میں زمین پر گرپڑا اور ابوسلمہ کہتے ہیں کہ وَالرُّجْزَ سے مراد بت ہیں پھر برابر لگاتار وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

【316】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، یونس ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرض نماز سے پہلے یہ آیات مبارکہ (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سے فَاھجُر) تک نازل فرمائیں۔

【317】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

زہیر بن حرب، ولید، ابن مسلم، اوزاعی، یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسلمہ (رض) سے پوچھا کہ قرآن کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ) 74 ۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ ) تو وہ کہنے لگے کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کونسی آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے فرمایا (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ) 74 ۔ المدثر : 1) میں نے کہا یا (اقْرَأْ ) تو حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بیان کی تھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں غار حرا میں ایک مہینہ تک ٹھہرا رہا جب میری ٹھہر نے کی مدت ختم ہوگئی تو میں وادی میں اتر کر چلنے لگا تو مجھے آوازی دی گئی میں نے اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد پھر آواز دی گئی اور میں نے نظر ڈالی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا اس کے بعد مجھے پھر آواز دی گئی اور میں نے اپنا سر اٹھایا تو ہوا میں ایک درخت پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا مجھ پر اس مشاہدہ سے کپکپی طاری ہوگئی اور میں نے حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آکر کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں (يٰ اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ) 74 ۔ المدثر : 1)

【318】

رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کے آغاز کے بیان میں

محمد بن مثنی، عثمان بن عمر، علی بن مبارک، یحییٰ بن ابی کثیر ایک دوسری سند کی روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آسماں و زمین کے درمیان عرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔

【319】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

شیبان بن فروخ، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے لئے براق لایا گیا، براق ایک سفید لمبا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے منتہائے نگاہ تک اپنے پاؤں رکھتا ہے میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس آیا اور اسے اس حلقہ سے باندھا جس سے دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اپنے اپنے جانور باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہو اور میں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) دو برتن لائے ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دودھ تھا میں نے دودھ کو پسند کیا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آپ ﷺ نے فطرت کو پسند کیا، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ آسمان کی طرف چڑھے، فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو فرشتوں نے پوچھا آپ کون ؟ کہا جبرائیل کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملاقات کی آدم (علیہ السلام) نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پھر پوچھا گیا کون ؟ کہا جبرائیل اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ ہیں انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر گئے تو دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ فرشتوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں، پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور اللہ نے انہیں حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھولنے کے لئے کہا گیا تو پوچھا کون ؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا محمد ﷺ پوچھا گیا کہ کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھلا تو میں نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، حضرت ادریس کے بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایا ( وَرَفَعْنَاهُ مَکَانًا عَلِيًّا) ہم نے ان کو بلند مقام عطا فرمایا ہے، پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا حضرت جبرائیل نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد ﷺ پوچھا گیا کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا تو میں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو پوچھا گیا کون ؟ کہا کہ جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد ﷺ پھر پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ کہاں کہ ہاں یہ بلائے گئے ہیں ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے دعائے خیر کی، پھر ہمیں ساتویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا حضرت جبرائیل ﷺ نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا تو فرشتوں نے پوچھا کون ؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا کہ محمد ﷺ پوچھا گیا کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ کہا ہاں ان کو بلانے کا حکم ہوا ہے پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت المعمور کی طرف پشت کئے اور ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا اور بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور انہیں دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملتا ( فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے) پھر حضرت جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی کی طرف لے گئے اس کے پتے ہاتھی کے کان کی طرح بڑے بڑے تھے اور اس کے پھل بیر جیسے اور بڑے گھڑے کے برابر تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب اس درخت کو اللہ کے حکم سے ڈھانکا گیا تو اس کا حال ایسا پوشیدہ ہوگیا کہ اللہ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض فرمائیں پھر میں وہاں سے واپس حضرت موسیٰ تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا پچاس نمازیں دن رات میں، موسیٰ نے فرمایا کہ اپنے رب کے پاس واپس جا کر ان سے کم کا سوال کریں اس لئے کہ آپ کی امت میں اتنی طاقت نہ ہوگی کیونکہ میں بنی اسرائیل پر اس کا تجربہ کرچکا اور آزماچکا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے پھر واپس جا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میری امت پر تخفیف فرما دیں تو اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں میں پھر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ نے پانچ نمازیں کم کردیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں اپنے رب کے پاس جا کر ان میں تخفیف کا سوال کریں۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس طرح اپنے اللہ کے پاس سے موسیٰ کے پاس اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے اللہ کے بارگاہ میں آتا جاتا رہا اور پانچ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ہر نماز کا ثواب اب دس نمازوں کے برابر ہے پس اس طرح ثواب کے اعتبار سے پچاس نمازیں ہوگئیں اور جو آدمی کسی نیک کام کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرسکے تو میں اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کروں گا اور اگر وہ اس پر عمل کرلے تو میں اسے دس نیکیوں کا ثواب عطا کروں گا اور جو آدمی کسی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس کا ارتکاب نہ کرے تو اس کے نامہ اعمال میں یہ برائی نہیں لکھی جاتی اور اگر برائی اس سے سرزد ہوجائے تو میں اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھوں گا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں پھر واپس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس جا کر تخفیف کا سوال کریں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اپنے پروردگار کے پاس اس سلسلہ میں بار بار آ جا چکا ہوں یہاں تک کہ اب مجھے اس کے متعلق اپنے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

【320】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

عبداللہ بن ہاشم عبدی، بہز بن اسد، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے فرشتے زم زم کی طرف لے گئے پھر میرا سینہ چاک کرکے اسے زمزم کے پانی سے دھویا اس کے بعد مجھے واپس اپنی جگہ پر چھوڑ دیا۔

【321】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

شیبان بن فروخ، حماد ابن سلمہ، ثابت بنانی، انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور اس وقت آپ ﷺ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے حضرت جبرائیل نے آپ کو پکڑا، آپ کو پچھاڑا اور دل کو چیر کر اس میں سے جمے ہوئے خون کا ایک لو تھڑا نکالا اور کہا کہ یہ آپ میں شیطان کا حصہ تھا پھر اس دل کو سونے کے طشت میں زم زم کے پانی سے دھویا پھر اسے جوڑ کر اس جگہ میں رکھ دیا اور لڑکے دوڑتے ہوئے آپ کی رضاعی والدہ کی طرف آئے اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ قتل کر دئے گئے یہ سن کر سب دوڑے دیکھا صرف آپ کا رنگ خوف کی وجہ سے بدلا ہوا ہے حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینہ مبارک میں اس سلائی کا نشان دیکھا تھا۔

【322】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، سلیمان ابن بلال، شریک بن عبداللہ بن ابی نمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک (رض) اس رات کے بارے میں سنا جس میں اللہ کے رسول ﷺ کعبہ کی مسجد میں سو رہے تھے کہ آپ کی پاس تین فرشتے آئے نزول وحی سے پہلے، اس کے بعد ثابت کی بیان کردہ روایت کو نقل کیا مگر بعض باتوں کو پہلے اور بعض باتوں کو بعد میں اور بعض کو کم اور بعض کو زیادہ۔

【323】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

حرملہ بن یحییٰ تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب انس بن مالک (رض) ، ابوذر (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھولی گئی پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اترے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا پھر ایک سونے کا طشت حکمت اور ایمان سے بھر کر لائے اس کو میرے سینہ میں رکھا پھر اس کو جوڑ دیا، پھر حضرت جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور پھر آسمان کی طرف چڑھے پھر جب ہم آسمان دنیا پر آئے تو جبرائیل نے آسمان کے پہرے دار سے کہا دروازہ کھولئے اس نے کہا کون ؟ کہا جبرائیل اس نے پوچھا کیا تیرے ساتھ کوئی ہے ؟ کہا ہاں میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں اس نے پوچھا کیا ان کو بلایا گیا ہے ؟ کہا ہاں پھر فرشتے نے دروازہ کھولا آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے اس کے دائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے اور اس کے بائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے جب وہ آدمی اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے اور اپنے بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے اس نے مجھے دیکھ کر فرمایا خوش آمدید اے نیک نبی اور اے نیک بیٹے ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ یہ کون ہیں حضرت جبرائیل نے کہا کہ یہ آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے دائیں طرف جنتی اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں اس لئے جب دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو روتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر حضرت جبرائیل مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے گئے اور اس کے پہرے دار سے کہا دروازہ کھولئے آپ نے فرمایا کہ دوسرے آسمان کے پہرے دار نے بھی وہی کچھ کہا جو آسمان دنیا کے پہرے دارے نے کہا تھا پھر اس نے دروازہ کھولا حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی آسمانوں پر حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت ادریس حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم (علیہم السلام) سے ملاقات ہوئی اور یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس آسمان پر کس نبی سے ملاقات ہوئی البتہ یہ بتلایا کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم سے اور چھٹے آسمان پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی پھر جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور رسول اللہ ﷺ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے تو انہوں نے نیک نبی اور نیک بھائی کو خوش آمدید کہا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ یہ کون ہیں جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں آپ ﷺ نے فرمایا پھر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا آپ ﷺ نے فرمایا کہ نیک نبی اور نیک بھائی کو خوش آمدید ہو ! میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہیں جبرائیل نے کہا یہ حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا آپ نے فرمایا نیک نبی اور نیک بھائی کو خوش آمدید ہو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جبرائیل نے کہا کہ یہ حضرت ابراہیم ہیں ایک دوسری سند میں ابن شہاب اور ابن حزم نے کہا کہ ابن عباس اور ابوحبہ انصاری دونوں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے معراج کرائی گئی یہاں تک کہ مجھے ایک بلند ہموار مقام پر چڑھایا گیا وہاں میں نے قدموں کی آواز سنی ابن حزم اور حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں آپ نے فرمایا کہ میں ان نمازوں کو لے کر لوٹا تو حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا ان پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں گئی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کی طرف واپس گیا تو اللہ نے اس میں سے کچھ نمازیں کم کردیں پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف واپس آیا تو ان کو بتایا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جائیے آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی پھر میں اپنے رب کی طرف گیا تو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کردیں اور ثواب میں پچاس نمازوں کا ہی ملے گا اللہ عزوجل نے فرمایا میرے قول میں تبدیلی نہیں آتی پھر جب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف واپس آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جائیے تو میں نے کہا کہ اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے جبرائیل (علیہ السلام) لے گئے یہاں تک کہ ہم سدرۃ المنتہی پر آگئے جہاں ایسے ایسے رنگ چھائے ہوئے تھے کہ ہم نہیں جان سکے کہ وہ کیا ہیں آپ ﷺ نے فرمایا پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جہاں موتیوں کے گنبد اور اس کی مٹی مشک کی تھی۔

【324】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

محمد بن مثنی، محمد ابن ابوعدی، سعید، قتادہ، انس بن مالک (رض) ، حضرت مالک بن صعصعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ایک آدمی سے سنا کہ اس نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں بیت اللہ میں سونے اور جاگنے کی درمیانی حالت میں تھا تو میں نے ایک کہنے والے کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ ہم دونوں آدمیوں میں ایک تیسرے ہیں پھر ایک سونے کا طشت لایا گیا اس میں زم زم کا پانی تھا میرا سینہ کھولا گیا (یہاں سے یہاں تک) راوی قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے معنی کے بارے میں اپنے ساتھی سے پوچھا تو اس نے کہا پیٹ کے نیچے تک چیرا گیا پھر میرا دل نکال کر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا پھر اسے اس کی جگہ پر لوٹا دیا گیا پھر ایمان اور حکمت سے اسے بھر دیا گیا پھر سفید رنگ کا ایک جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا تھا جہاں تک اس کی نظر پہنچتی وہاں وہ قدم رکھتا تھا مجھے اس پر سوار کرایا گیا پھر ہم چلے یہاں تک کہ آسمان دنیا پر آئے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا پوچھا گیا کون ؟ کہا جبرائیل پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ کہا محمد ﷺ پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟ کہاں ہاں پھر ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا فرشتوں نے کہا خوش آمدید آپ کا تشریف لانا مبارک ہو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ہماری ملاقات حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی اور پھر باقی واقعہ اسی طرح ہے جس طرح سابقہ حدیث میں گزرا اور یہ بھی ذکر کیا کہ دوسرے آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ سے ملاقات ہوئی اور تیسرے آسمان میں حضرت یوسف سے ملاقات ہوئی اور چوتھے آسمان میں حضرت ادریس (علیہ السلام) پانچویں میں حضرت ہارون سے ملاقات ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے وہاں میری ملاقات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی میں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سلام کیا موسیٰ نے فرمایا خوش آمدید اے نیک بھائی پھر جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے آواز آئی اے موسیٰ کیوں روتے ہو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار اس نوجوان کو تو نے میرے بعد مبعوث فرمایا اور میری امت کی بہ نسبت اس کی امت کے زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے، آپ ﷺ نے فرمایا پھر ہم آگے بڑھے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی اور ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں جو سدرۃ المنتہی کی جڑ سے نکلتی ہیں دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ باطنی نہریں تو جنت میں ہیں اور ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں پھر مجھے بیت المعمور کی طرف اٹھایا گیا میں نے جبرائیل سے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ بیت المعمور ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ کبھی اس میں داخل نہیں ہوتے (بکثرت تعداد) پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے ایک میں شراب تھی اور دوسری میں دودھ میں نے دودھ کو پسند کیا پھر کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو پا لیا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی وجہ سے آپ ﷺ کی امت کو فطرت عطا فرمائی پھر ہر روز مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں پھر اس واقعہ کو آخر حدیث تک ذکر فرمایا۔

【325】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، انس بن مالک، حضرت مالک بن صعصعہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر اس طرح مذکورہ حدیث کی طرح ذکر فرمایا اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ میرے پاس سونے کا طشت حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا لایا گیا پھر میرے سینے کو پیٹ کے نیچے تک کھولا گیا اسے زمزم کے پانی سے دھویا اور ایمان سے بھر دیا گیا۔

【326】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے تمہارے نبی ﷺ کے چچا زاد بھائی یعنی حضرت ابن عباس (رض) نے رسول اللہ ﷺ کے معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لمبے قد کے تھے گویا کہ وہ قبیلہ شنوات کے ایک آدمی ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا کہ وہ درمیانہ قد اور گھنگریالے بالوں والے ہیں اور آپ ﷺ نے مالک داروغہ جہنم اور دجال کے بارے میں ذکر فرمایا۔

【327】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

عبد بن حمید، یونس بن محمد، شیبان ابن عبدالرحمن، قتادہ، ابوعالیہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) پر میرا گزر ہوا تو وہ لمبے قد اور گھنگریالے بالوں والے آدمی تھے گویا کہ وہ قبیلہ شنوء کے ایک آدمی ہیں اور میں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ درمیانہ قد اور سرخ وسفید رنگ والے اور سیدھے بالوں والے تھے اور مجھے مالک داروغہ جہنم اور دجال کو دکھایا گیا ان چند نشانیوں میں سے جو اللہ نے مجھے دکھائیں، آپ کی جو ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ سے ہوئی تو اس میں شک نہ کر حضرت قتادہ (رض) اس کی تفسیر میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ نبی ﷺ کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بلا شک وشبہ ملاقات ہوئی۔

【328】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

احمد بن حنبل، سریج بن یونس، ہشیم، داؤد بن ابی ہند، ابوعالیہ، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر وادی ازرق سے ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ کون سی وادی ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا یہ وادی ازرق ہے آپ ﷺ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت موسیٰ کو چوٹی سے اترتا ہوا اور بلند آواز سے لبیک کہتا ہوا دیکھ رہا ہوں اس کے بعد آپ ﷺ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو پوچھا یہ وادی کونسی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ ہرش کی چوٹی ہے آپ ﷺ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت یونس بن متی (علیہ السلام) کو موٹی اونٹنی پر سوار اور بالوں والا جبہ پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے اور وہ تلبیہ کہہ رہے ہیں ابن حنبل (رح) اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ ہشیم نے کہا کہ لیفا یعنی کھجور کے درخت کی چھال۔

【329】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، داؤد، ابوعالیہ، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی سے گزرے آپ ﷺ نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا یہ ارزق کی وادی ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں پھر آپ ﷺ نے ان کے رنگ اور بالوں کے بارے میں کچھ فرمایا جو راوی داؤد کو یاد نہ رہا موسیٰ (علیہ السلام) انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے بلند آواز سے لبیک کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پھر ہم چلتے ہوئے ایک چوٹی پر آئے تو آپ ﷺ نے پوچھا یہ کونسی چوٹی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ہر شیٰ یا لفت کی چوٹی ہے آپ ﷺ نے فرمایا گویا کہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کو ایک سرخ اونٹنی پر بالوں کا جبہ پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے درخت کی چھال کی ہے اور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں۔

【330】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون، مجاہد، ابن عباس حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس (رض) کی خدمت میں موجود تھے کہ لوگوں نے دجال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ میں نے تو یہ آپ ﷺ سے نہیں سنا مگر آپ ﷺ نے یہ ضرور فرمایا کہ حضرت ابراہیم جو تمہارے صاحب جیسے ہیں اور حضرت موسیٰ گندم گوں رنگ اور گھنگریالے بالوں والے آدمی ہیں اور وہ ایسے سرخ اونٹ پر سوار ہیں جس کا بدن گٹھا ہو اور اس کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے گویا کہ میں انہیں اس طرح دیکھ رہا ہو کہ وہ وادی میں لبیک کہتے ہوئے اتر رہے ہیں۔

【331】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، ابوزبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انبیا کرام (علیہم السلام) میرے سامنے لائے گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) درمیانے انسان تھے گویا کہ وہ قبیلہ شنوء کے آدمی ہیں اور میں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کو دیکھا تو ان کے سب سے زیادہ مشابہ عروہ بن مسعود نظر آئے ہیں میں نے حضرت ابراہیم کو دیکھا تو ان کے سب سے زیادہ مشابہ تمہارے صاحب ( یعنی آپ ﷺ ہیں اور میں نے حضرت جبرائیل کو دیکھا تو مجھے ان میں سب سے زیادہ مشابہ حضرت دحیہ (رض) نظر آئے اور ابن رمح کی روایت میں ہے کہ دحیہ بن خلیفہ۔

【332】

اللہ کے رسول ﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور فرض نمازوں کا بیان

محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبد، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے میری ملاقات ہوئی پھر آپ ﷺ نے ان کی شکل و صورت کے بارے میں فرمایا میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اس طرح فرمایا راوی کو شک ہے کہ وہ سیدھے بالوں والے قبیلہ شنوء کے آدمیوں جیسے تھے آپ ﷺ نے فرمایا میری ملاقات حضرت عیسیٰ بن مریم سے ہوئی تو وہ درمیانہ قد سرخ رنگ والے تھے گو یا کہ ابھی ابھی حمام سے نکلے ہوں اور میں نے حضرت ابراہیم کو دیکھا اور میں ان کی اولاد میں ان سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے ان میں سے ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ دونوں میں سے جس کو چاہو پسند کرلو میں نے دودھ کو پسند کرلیا اور اسے پیا جبرائیل نے کہا آپ ﷺ کو راہ فطرت نصیب ہوئی یا آپ ﷺ فطرت تک پہنچ گئے اور اگر آپ شراب پسند فرماتے تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔

【333】

مسیح بن مریم اور مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک نافع، عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک رات دکھایا گیا کہ میں بیت اللہ کے پاس ہوں میں نے ایک گندم گوں آدمی کو دیکھا جیسے تم نے کسی خوبصورت گندمی رنگ والے آدمی کو دیکھا ہو کندھوں تک اس کے بال ہوں جیسے تم نے کسی اچھے کندھوں تک بالوں والے کو دیکھا ہو اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی اور گویا ان کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا وہ ٹیک لگائے ہوئے ہیں دو آدمیوں پر یا ان کے کندھوں پر اور بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون ہیں تو بتایا گیا کہ یہ مسیح بن مریم ہیں اور اس کے بعد میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے بال زیادہ گھنگریالے تھے اور وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا اور اس کی آنکھ پھولے ہوئے انگور کی طرح تھی میں نے پوچھا یہ کون ہے تو کہا گیا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

【334】

مسیح بن مریم اور مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں

محمد بن اسحاق مسیبی، انس، ابن عیاض، موسیٰ ابن عقبہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کے سامنے مسیح دجال کے بارے میں ذکر فرمایا تو بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں، آگاہ رہو کہ مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہے گویا اس کی آنکھ پھولا ہوا انگور ہے، حضرت ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک رات خواب میں بیت اللہ کے پاس ایک آدمی دکھایا گیا تو وہ خوبصورت گندمی رنگ والوں جیسا گندمی رنگ کا آدمی تھا کندھوں تک اس کے بال تھے اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اس کے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر تھے اور وہ ان دونوں آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہیں لوگوں نے کہا کہ یہ حضرت مسیح بن مریم ہیں اور مجھے ان کے پیچھے ایک اور آدمی نظر آیا جس کے بال بےحد گھنگریالے تھے اور وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں بنی قطن اس سے زیادہ مشابہ ہے وہ بھی دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

【335】

مسیح بن مریم اور مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں

ابن نمیر، حنظلہ، سالم، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بیت اللہ کے پاس ایک گندم گوں آدمی کو دیکھا اس کے بال نکلے ہوئے تھے اس کے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے اس کے سر سے پانی بہہ رہا تھا یا اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے میں نے پوچھا یہ کون ہے تو لوگوں نے کہا کہ یہ عیسیٰ بن مریم ہیں یا اس طرح فرمایا کہ یہ مسیح بن مریم ہیں معلوم نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ کہا حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کے پیچھے ایک دوسرا آدمی نظر آیا جس کا رنگ سرخ، بال گھنگریالے اور دائیں آنکھ سے کانا تھا میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں اس سے سب سے زیادہ مشابہ ابن قطن تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

【336】

مسیح بن مریم اور مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، عقیل، زہری، ابوسلمہ (رض) ، عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھے جھٹلایا اور میں حطیم میں کھڑا ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا اور میں دیکھ کر اس کی نشانیاں بتلانے لگا۔

【337】

مسیح بن مریم اور مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، سالم، ابن عمر بن خطاب (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، اس دوران کہ میں سو رہا تھا میں نے اپنے آپ کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا او ایک سیدھے لمبے بالوں والے آدمی کو دو آدمیوں کے درمیان دیکھا اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا یا اس کے سر سے پانی بہہ رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت مریم کے بیٹے ہیں پھر میں جاتے ہوئے متوجہ ہوا تو ایک سرخ رنگ بھاری بھر کم آدمی کو دیکھا کہ جس کے بال گھنگریالے تھے اور وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا گویا کہ اس کی آنکھ پھولا ہوا انگور تھی میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے لوگوں نے کہا کہ یہ دجال ہے لوگوں میں سب سے زیادہ اس کے مشابہ ابن قطن ہے۔

【338】

مسیح بن مریم اور مسیح دجال کے ذکر کے بیان میں

زہیر بن حرب، حجین بن مثنی، عبدالعزیز (ابن ابی سلمہ) ، عبداللہ بن فضل، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور قریش مجھ سے میرے معراج پر جانے کے بارے میں سوال کر رہے تھے تو قریش نے مجھ سے بیت المقدس کی چند ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھا جن کو میں دوسری اہم چیزوں میں مشغولیت کے باعث محفوظ نہ رکھ سکا تھا، مجھے اس کا اتنا زیادہ افسوس ہوا کہ اتنا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کے درمیان پردے اٹھا کر میرے سامنے کردیا میں نے اسے دیکھ کر جس کے بارے میں سوال کرتے وہ انہیں بتلا دیتا اور میں نے اپنے آپ کو انبیاء (علیہ السلام) کی ایک جماعت میں دیکھا اور حضرت موسیٰ کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا گویا کہ وہ گٹھے ہوئے جسم اور گھنگریالے بالوں والے آدمی ہیں گو یا کہ وہ قبیلہ شنوء کے ایک آدمی ہیں اور حضرت عیسیٰ بن مریم کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو لوگوں میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی (رض) ہیں اور حضرت ابراہیم کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا لوگوں میں سے سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں اس کے بعد نماز کا وقت آیا تو میں امام بنا پھر میرے نماز سے فارغ ہونے پر ایک کہنے والے نے کہا کہ اے محمد ﷺ یہ مالک، داروغہ جہنم ہے اس پر سلام کیجئے میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو پہلے اس نے مجھے سلام کیا۔

【339】

سدرہ المنتہی کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، مالک بن مغول، ابن نمیر، زہیر بن حرب، عبداللہ بن نمیر، زبیر بن عدی، طلحہ بن مصرف، مرہ، عبداللہ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کے لئے سیر کرائی گئی تو آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا جو کہ چھٹے آسمان میں واقع ہے زمین سے اوپر چڑھنے والی چیز اور اوپر سے نیچے آنی والی چیز یہاں آکر رک جاتی ہے پھر اسے لے جایا جاتا ہے اللہ نے فرمایا (اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى) 53 ۔ النجم : 16) کہ ڈھانک لیتی ہے وہ چیزیں کہ جو ڈھانک لیتی ہیں حضرت عبداللہ نے فرمایا یعنی سونے کے پتنگے۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں پانچ نمازیں سورت البقرہ کی آخری آیتیں اور آپ ﷺ کی امت میں ہر ایک ایسے آدمی کو بخش دیا گیا جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔

【340】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابوربیع، زہرانی، عباد، ابن عوام، شیبانی، حضرت سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت زر بن حبیش سے اللہ کے فرمان (فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی) کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں۔

【341】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، شیبانی، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی میں دیکھنے سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھنا ہے آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔

【342】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عبنری، شعبہ، سلیمان، شیبانی، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں (لَقَدْ رَأَی مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْکُبْرَی) یعنی آپ ﷺ نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں اس دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں۔

【343】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبدالملک، عطاء، ابوہریرہ (رض) حضرت ابوہریرہ (رض) نے ( وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَی) کے بارے میں فرمایا کہ آپ ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا۔

【344】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص، عبدالملک، عطاء، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا۔

【345】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص، عبدالملک، عطاء، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان (مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَی) سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے رسول ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں دو مرتبہ دیکھا۔

【346】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوسعید اشج، وکیع، اعمش، زیاد بن حصین، ابی جہمہ، ابوعالیہ سے روایت ہے کہ ہم سے حضرت ابوجہمہ نے اسی سند کے ساتھ روایت نقل فرمائی۔

【347】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل ابن ابراہیم، داود، شعبی، حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے پاس تکیہ لگائے بیٹھا تھا انہوں نے فرمایا اے ابوعائشہ (یہ ان کی کنیت ہے) تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی ان کا قائل ہوجائے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا میں نے عرض کیا وہ تین باتیں کونسی ہیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ جس نے خیال کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا مسروق کہتے ہیں کہ میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا میں نے یہ سنا تو اٹھ کر بیٹھ گیا میں نے عرض کیا اے ام المومنین مجھے بات کرنے دیں اور جلدی نہ کریں کیا اللہ نے نہیں فرمایا (وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى) 53 ۔ النجم : 3) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرمانے لگیں کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا ان آیتوں سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں میں نے انہیں ان کی اصل صورت میں نہیں دیکھا سوائے دو مرتبہ کے جس کا ان آیتوں میں ذکر ہے میں نے دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے تن وتوش کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کو گھیر رکھا ہے اس کے بعد حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) 6 ۔ الانعام : 103) کیا تو نے اللہ عز وجل کا یہ ارشاد نہیں سنا (وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَا ي ِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِه مَا يَشَا ءُ اِنَّه عَلِيٌّ حَكِيْمٌ) 42 ۔ الشوری : 51) یعنی اس کی آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کا ادراک کرسکتا ہے اور وہی لطیف وخبیر ہے اور کسی انسان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اللہ سے باتیں کرے مگر وحی یا پردے کے پیچھے سے اور دوسری آیت یہ ہے کہ جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی کتاب میں سے کچھ چھپالیا ہے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا (يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ) اے رسول ﷺ جو آپ ﷺ پر آپ ﷺ کے رب کی طرف سے اترا ہے اس کی تبلیغ کیجئے اگر آپ ﷺ ایسا نہ کریں گے تو آپ حق رسالت ادا نہ کریں گے اور تیسری بات یہ کہ جو آدمی یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ آئندہ ہونے والی باتوں کو جانتے تھے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا اور اللہ فرماتا ہے کہ اے محمد ﷺ آپ ﷺ فرما دیجئے کہ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی باتیں نہیں جانتا۔

【348】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالوہاب، داؤد نے اسی سند کے ساتھ ابن علیہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے اور اس میں اتنا زائد ہے کہ اگر محمد ﷺ اس میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے جو آپ پر نازل ہوا تو اس آیت کو چھپاتے ( وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِيْ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخْ فِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰ ىهُ ) 33 ۔ الاحزاب : 37) اور جب آپ ﷺ اس آدمی سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور آپ ﷺ نے بھی انعام کیا کہ اپنی زوجہ مطہرہ زینب (رض) کو اپنی زوجیت میں رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور آپ ﷺ اپنے دل میں وہ بات بھی چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ آخر میں ظاہر کرنے والا تھا اور آپ ﷺ لوگوں کے طعن سے ڈر رہے تھے اور ڈرنا تو اللہ ہی سے سزاوار ہے۔

【349】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابن نمیر، اسماعیل، شعبی، مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے پوچھا کہ کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا سُبْحَانَ اللَّهِ آپ کی یہ بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور پھر واقعہ اس طرح بیان کیا اور داؤد کی روایت زیادہ پوری اور لمبی ہے۔

【350】

اللہ تعالیٰ کے فرمان ولقد راہ نزلہ اخری کے معنی اور کی نبی ﷺ کو معراج کی رات اپنے رب کا دیدار ہوا کے بیان میں

ابن نمیر، اسماعیل شعبی، مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے (ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِهِ مَا أَوْحَی) پھر نزدیک ہوئے جبرائیل اور محمد ﷺ کے قریب ہوگئے اور دو کمانوں یا اس کے بھی قریب کا فاصلہ رہ گیا اس کے بعد اللہ نے اپنے بندہ کی طرف وحی کی جو بھی کی، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں وہ آپ ﷺ کے پاس مردوں کی صورت میں آتے تھے اور اس مرتبہ اپنی اصل صورت میں آئے ہیں جس سے آسمان کا سارا کنارہ بھر گیا۔

【351】

نبی ﷺ کے اس فرمان کہ وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں اور اس فرمان کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، یزید بن ابراہیم، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔

【352】

نبی ﷺ کے اس فرمان کہ وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں اور اس فرمان کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے کے بیان میں

محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، حجاج، بن شاعر، عفان بن مسلم، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، ابوذر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے کہا کہ تم کس بات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ رہے ہو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ہے کہ کیا آپ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے۔

【353】

نبی ﷺ کے اس فرمان کہ اللہ سوتا نہیں اور اس فرمان ککہ اس کا حجاب نور ہے اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے اپنی مخلوق کو جلا ڈالے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، عمرو بن مرہ، ابوعبیدہ، ابوموسی، عبداللہ بن شقیق حضرت ابوموسی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں فرمائیں کہ اللہ سوتا نہیں اور نہ ہی سونا اس کی شان ہے میزان اعمال کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے اس کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے بلند کیا جاتا ہے اور اس کا حجاب نور ہے اور ابوبکر کی روایت میں ہے کہ اس کا حجاب آگ ہے اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں جہاں تک اس کی نگاہیں پہنچتی ہیں مخلوق کو جلا دیں۔

【354】

نبی ﷺ کے اس فرمان کہ اللہ سوتا نہیں اور اس فرمان ککہ اس کا حجاب نور ہے اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے اپنی مخلوق کو جلا ڈالے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش حضرت اعمش سے یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے مگر اس میں چار باتوں کا ذکر ہے اور مخلوق کا ذکر نہیں اور فرمایا اس کا حجاب نور ہے۔

【355】

نبی ﷺ کے اس فرمان کہ اللہ سوتا نہیں اور اس فرمان ککہ اس کا حجاب نور ہے اگر وہ اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے اپنی مخلوق کو جلا ڈالے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابوعبیدہ، حضرت ابوموسی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھڑے ہو کر چار باتیں ارشاد فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور نہ ہی سونا اس کی شان کے لائق ہے اللہ تعالیٰ میزان اعمال کو اونچا نیچا کرتا ہے دن کے اعمال رات اور رات کے اعمال دن کو اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔

【356】

آخرت میں مومنوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی کے دیدار کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، ابوغسان، مسمعی، اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز بن عبدالصمد، ابوغسان، ابوعمران، جونی، ابوبکر بن عبداللہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں کہ دو جنتیں تو چاندی کی ہوں گی اور دونوں کے برتن اور ان میں جو کچھ ہوگا وہ بھی چاندی کا ہوگا اور اسی طرح دو جنتیں سونے کی ہوں گی ان دونوں کے برتن اور ان میں جو کچھ ہوگا وہ سونے کا ہوگا اور اہل جنت کے اور اللہ تعالیٰ کے دیدار کے درمیان کبریائی کی چادر ہوگی جو جنتِ عدن میں اللہ کے چہرے پر ہوگی۔

【357】

آخرت میں مومنوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی کے دیدار کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر بن میسرہ، عبدالرحمن بن مہدی، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، عبدالرحمن بن ابی لیلی حضرت صہیب (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تمام جنت والے جنت میں چلے جائیں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ کیا تم مزید کچھ چاہتے ہو وہ جنتی عرض کریں گے اے اللہ کیا تو نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا ؟ کیا تو نے ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ ان کے اور اپنے درمیان سے پردے اٹھا دے گا اور جنتی اللہ کا دیدار کریں گے تو ان کو اس دیدار سے زیادہ کوئی چیز پیاری نہیں ہوگی۔

【358】

آخرت میں مومنوں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی کے دیدار کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، صہیب، حضرت حماد بن سلمہ (رض) سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت ہے لیکن اس میں اتنا زائد ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (لِلَّذِيْنَ اَحْسَ نُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ اُولٰ ى ِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) 10 ۔ یونس : 26) نیک لوگوں کے لئے نیک انجام اور مزید انعام ہے یعنی دیدار الہی۔

【359】

اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کا بیان

زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، عطاء بن یزید، لیثی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں چودہویں رات کے چاند کے دیکھنے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا جس وقت بادل نہ ہوں کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر تم اسی طرح اپنے رب کا دیدار کرو گے اللہ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کر کے فرمائیں گے جو جس کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے ساتھ ہوجائے جو سورج کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے ساتھ ہوجائے اور جو بتوں اور شیطانوں کی عبادت کرتا تھا وہ انہی کے ساتھ ہوجائے گا اور اس میں اس امت کے منافق بھی ہوں گے اللہ تعالیٰ ایسی صورتوں میں ان کے سامنے آئے گا کہ جن صورتوں میں وہ اسے نہیں پہچانتے ہوں گے، پھر وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں جب تک ہمارا رب نہ آئے ہم اس جگہ ٹھہرتے ہیں پھر جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایسی صورت میں آئیں گے جسے وہ پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے کہ میں تمہارا رب ہوں وہ جواب دیں گے بیشک تو ہمارا رب ہے پھر سب اس کے ساتھ ہوجائیں گے اور جہنم کی پشت پر پل صراط سے گزریں گے رسولوں کے علاوہ اس دن کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور رسولوں کی بات بھی اس دن اللہم سلم سلم (اے اللہ سلامتی رکھ) ہوگی اور جہنم میں سعدان خاردار جھاڑی کی طرح اس میں کانٹے ہوں گے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ان کانٹوں کو کوئی نہیں جانتا کہ کتنے بڑے ہوں گے لوگ اپنے اپنے اعمال میں جھکے ہوئے ہوں گے اور بعض مومن اپنے نیک اعمال کی وجہ سے بچ جائیں گے اور بعضوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور بعض پل صراط سے گزر کر نجات پاجائیں گے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر کے فارغ ہوجائیں گے اور اپنی رحمت سے دوزخ والوں میں سے جسے چاہیں گے فرشتوں کو حکم دیں گے کہ ان کو دوزخ سے نکال دیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا اور ان میں سے جس پر اللہ اپنا رحم فرمائیں اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہتا ہوگا فرشتے ایسے لوگوں کو پہچان لیں گے اور ایسوں کو بھی پہچان لیں گے کہ ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہوں گے اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ سجدہ کے نشان کو کھائے پھر ان لوگوں کو جلے ہوئے جسم کے ساتھ نکالا جائے گا پھر ان پر آب حیات بہایا جائے گا جس کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح تر وتازہ ہو کر اٹھیں گے کہ جیسے کیچڑ میں پڑا ہوا دانہ اگ پڑتا ہے پھر اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ سے فارغ ہوگا تو ایک شخص رہ جائے گا کہ جس کا چہرہ دوزخ کی طرف ہوگا اور وہ جنت والوں میں سے آخری ہوگا جو جنت میں داخل ہوگا وہ اللہ سے عرض کرے گا اے میرے پروردگار میرا چہرہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے اس کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور اس کی تپش مجھے جلا رہی ہے پھر جب تک اللہ چاہیں گے وہ دعا کرتا رہے گا پھر اللہ اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمائیں گے کہ اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کردیا تو پھر تو اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا وہ کہے گا کہ اس کے علاوہ کوئی سوال آپ سے نہیں کروں گا پھر پرو ردگار اس سے اس کے وعدہ کی پختگی پر اپنی منشا کے مطابق عہد و پیمان لیں گے پھر اللہ اس کے چہرے کو دوزخ سے پھیر دیں گے اور جنت کی طرف کردیں گے اور جب وہ جنت کو اپنے سامنے دیکھے گا تو جب تک اللہ چاہیں گے وہ خاموش رہے گا پھر کہے گا اے میرے پروردگار ! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے تو اللہ اس سے کہیں گے کہ کیا تو نے مجھے عہد و پیمان نہیں دیا تھا کہ میں اس کے علاوہ اور کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا افسوس ابن آدم تو بڑا وعدہ شکن ہے وہ پھر عرض کرے گا اے پروردگار……۔ وہ اللہ سے مانگتا رہے گا یہاں تک کہ پروردگار فرمائیں گے کیا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں تو پھر اور تو کچھ نہیں مانگے گا وہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم، اللہ تعالیٰ اس سے جو چاہیں گے نئے وعدہ کی پختگی کے مطابق عہد و پیمان لیں گے اور اس کو جنت کے دروازے پر کھڑا کردیں گے جب وہاں کھڑا ہوگا تو ساری جنت آگے نظر آئے گی جو بھی اس میں نفیس اور خوشیاں ہیں سب اسے نظر آئیں گی پھر جب تک اللہ چاہیں گے خاموش رہے گا پھر کہے گا اے پروردگار مجھے جنت میں داخل کر دے تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ کیا تو نے مجھ سے یہ عہد و پیمان نہیں کیا تھا کہ اس کے بعد اور کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا افسوس ابن آدم تو کتنا دھو کے باز ہے وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں ہی تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدبخت، وہ اسی طرح اللہ سے مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہنس پڑیں گے جب اللہ تعالیٰ کو ہنسی آجائے گی تو فرمائیں گے جنت میں داخل ہوجا اور جب اللہ اسے جنت میں داخل فرما دیں گے تو اللہ اس سے فرمائیں گے کہ اپنی تمنائیں اور آرزوئیں ظاہر کر پھر اللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتوں کی طرف متوجہ فرمائیں گے اور یاد دلائیں گے فلاں چیز مانگ فلاں چیز مانگ جب اس کی ساری آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ اس سے فرمائیں گے کہ یہ نعمتیں بھی لے لو اور ان جیسی اور نعمتیں بھی لے لو۔ حضرت ابوسعید خدری (رض) نے بھی اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث کے مطابق بیان کیا صرف اس بات میں اختلاف ہوا کہ جب حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ بیان کیا کہ ہم نے یہ چیزیں دیں اور اس جیسی اور بھی دیں تو حضرت ابوسعید خدری (رض) نے فرمایا کہ دس گنا زائد دیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ مجھے تو یہی یاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح فرمایا ہے کہ ہم نے یہ سب چیزیں دیں اور اس جیسی اور دیں حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم نے یہ سب دیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ دیں حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ یہ وہ آدمی ہے جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا۔

【360】

اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کا بیان

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، ابویمان، شعیب، زہری، سعید بن مسیب، عطاء بن یزید، لیثی، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ صحابہ (رض) نے نبی ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو دیکھیں گے پھر اس کے بعد وہی حدیث ہے جو گزر چکی ہے۔

【361】

اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کا بیان

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام، ابن منبہ، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں سب سے کم درجہ کا وہ جنتی ہوگا جس سے اللہ فرمائے گا کہ تم تمنا کرو وہ تمنا کرے گا پھر اللہ اس سے فرمائیں گے کیا تو نے تمنا کرلی ہے وہ کہے گا ہاں پھر اللہ اس سے فرمائیں گے کہ تیرے لئے ہے وہ جو تو نے تمنا کی اور اس جتنا اور بھی لے لو۔

【362】

اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کا بیان

سوید بن سعید، حفص بن میسرہ، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے (صحابہ کرام (رض) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں جب سورج نصف النہار پر ہو اس کے ساتھ بادل بھی نہ ہوں اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ اور جب چودہویں کے چاند کی رات آسمان پر چاند جلوہ آرا ہو اور بادل بھی نہ ہوں تو کیا چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ ۔ تو رسول ﷺ نے فرمایا پس جس کیفیت کے ساتھ تم دنیا میں سورج یا چاند کو دیکھتے ہو اسی کیفیت کے ساتھ تم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ وہ گروہ اس کی پیروی کرے جس کی پیروی وہ دنیا میں کرتا تھا اس اعلان کے بعد جتنے لوگ بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے سوا بتوں وغیرہ کو پوجتے تھے سب جہنم میں جاگریں گے اور صرف وہ لوگ بچ جائیں گے جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے چاہے وہ نیک ہوں یا برے اور کچھ لوگ اہل کتاب میں سے بھی باقی بچ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے چاہے وہ نیک ہوں یا برے پھر یہودیوں کو بلا کر ان سے پو جھا جائے گا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے وہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں اللہ کے بیٹے حضرت عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اللہ کی نہ تو کوئی بیوی ہے اور نہ ہی کوئی بیٹا، اب تم کیا چاہتے ہو ! وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی پلا دیں پھر انہیں اشارے سے کہا جائے گا کہ تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے پھر انہیں دوزخ کی طرف دھکیلا جائے گا وہ جہنم سراب (پانی کی جگہ) کی طرح دکھائی دے گی پھر وہ جہنم میں جا پڑیں گے پھر نصاری کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے وہ کہیں گے کہ ہم اللہ کے بیٹے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے پھر ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اللہ تعالیٰ کی نہ تو کوئی بیوی ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے پھر ان سے کہا جائے گا اب تم کیا چاہتے ہو ! وہ کہیں گے کہ ہم بہت پیاسے ہیں ہمیں پانی پلا دیان سے اشارے سے کہا جائے گا تم پانی کی طرف کیوں نہیں جاتے پھر انہیں دوزخ کی طرف دھکیلا جائے گا وہ دوزخ انہیں سراب کی طرح دکھائی دے گا پھر وہ دوزخ میں جا گریں گے یہاں تک کہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو دنیا میں صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے چاہے وہ نیک ہوں یا برے پھر ان کے پاس اللہ تعالیٰ ایک ایسی عورت بھیجیں گے جس عورت کو وہ دنیا میں کسی نہ کسی وجہ سے پہچانتے ہوں گے دنیا میں ان کو دیکھا ہوگا بحیثیت مخلوق کے نہ کہ معبود کے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب تم کس چیز کا انتظار کرتے ہو ہر گروہ اپنے معبود (دنیا میں جس جس کی عبادت یا جس جس کی پیروی کرتے تھے) کے ساتھ چلا گیا ہے وہ عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار ہم دنیا میں ان لوگوں سے علیحدہ رہے حالانکہ ہم ان کے سب سے زیادہ محتاج تھے اور ہم ان لوگوں کے ساتھ بھی نہیں رہے اس عورت سے آواز آئے گی کہ میں تمہارا رب ہوں وہ کہیں گے کہ ہم تم سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے وہ دو یا تین مرتبہ کہیں گے یہاں تک کہ ان کے دل ڈگمگانے لگیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ایسی نشانی ہے جس سے اپنے اللہ کو پہچان لو وہ کہیں گے ہاں پھر اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی منکشف فرمائیں گے اس منظر کو دیکھ کر جو آدمی بھی دنیا میں صرف اللہ کے خوف اور اس کی رضا کے لئے سجدہ کرتا تھا اسے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور جو آدمی کسی دنیوی خوف یا دکھلاوے کے لئے دنیا میں سجدہ کرتا تھا اسے سجدہ کی اجازت نہیں دی جائے گی اس کی پشت ایک تختہ کی طرح ہوجائے گی اور جب بھی سجدہ کرنا چاہے گا اپنی پشت کے بل گرجائے گا پھر مسلمان اپنا سر سجدہ سے اٹھائیں گے اور اللہ اس صورت میں ہوں گے جس صورت میں انہوں نے پہلی مرتبہ اسے دیکھا ہوگا اللہ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں مسلمان کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے پھر جہنم پر پل صراط بچھایا جائے گا اور شفاعت کی اجازت دی جائے گی اس وقت سب کہیں گے اللَّهُمَّ سَلِّمْ اللَّهُمَّ سَلِّمْ (اے اللہ سلامتی فرما اے اللہ سلامتی فرما) آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ وہ پل کیسا ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا ایک ایسی چیز جس میں پھسلن ہوگی اور اس میں دانے دار کانٹے ہوں گے وہ لوہے کے کانٹے ہوں گے وہ لوہے کے کانٹے سعد ان جھاڑی کے کانٹوں کی طرح ہوں گے بعض مسلمان اس پل سے پلک جھپکتے میں گزر جائیں گے بعض بجلی کی طرح بعض آندھی کی طرح بعض پرندوں کیطرح بعض تیز رفتار اعلی نسل کے گھوڑوں کی طرح اور بعض اونٹوں کی طرح یہ سب صحیح سلامت پل صراط سے گزر جائیں گے اور بعض مسلمان کانٹوں سے الجھتے ہوئے وہاں سے گزریں گے اور بعض کانٹوں سے زخمی ہو کر دوزخ میں گرپڑیں گے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو مومن نجات پا کر جنت میں چلے جائیں گے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو جو دوزخ میں گرے پڑے ہوں گے ان کو چھڑانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس طرح جھگڑیں جس طرح کہ کوئی اپنا حق مانگنے کے لئے بھی نہیں جھگڑتا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے اے ہمارے رب یہ لوگ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے ہمارے ساتھ حج کرتے تھے ان سے کہا جائے گا جن کو تم پہچانتے ہو ان کو دوزخ سے نکال لو ان لوگوں پر دوزخ حرام کردی جائے گی پھر جنتی مسلمان بہت سی تعداد میں ان لوگوں کو دوزخ سے نکلوا لائیں گے جن میں سے بعض کی آدھی پنڈلیوں کو اور بعض کو گھٹنوں تک دوزخ کی آگ نے جلا ڈالا ہوگا پھر جنتی لوگ کہیں گے اے اللہ اب ان لوگوں میں سے کوئی باقی نہیں بچا جن کو دوزخ سے نکالنے کا تو نے حکم دیا تھا پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی کوئی بھلائی ہے اسے بھی دوزخ سے نکال لاؤ پھر جنتی لوگ بہت سی تعداد میں لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے پھر اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے اے اللہ جن لوگوں کو تو نے ہمیں دوزخ سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا پھر اللہ فرمائیں گے جاؤ جس کے دل میں آدھے دینار کے برابر بھی اگر کوئی بھلائی ہے اسے بھی دوزخ سے نکال لاؤ جنتی لوگ پھرجائیں گے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے اے اللہ جن لوگوں کو تو نے ہمیں دوزخ سے نکالنے کو حکم دیا تھا ہم نے ان میں کسی کو نہیں چھوڑا پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس کے دل میں تم ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی بھلائی پاؤ اسے بھی دوزخ سے نکال لاؤ جنتی لوگ پھرجائیں گے اور دوزخ سے بہت بڑی تعداد میں اللہ کی مخلوق کو نکال لائیں گے پھر اللہ کی بارگاہ میں عرض کریں گے اے اللہ اب دوزخ میں بھلائی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے۔ ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ اگر تم مجھے اس حدیث میں سچا نہ سمجھو تو یہ آیت پڑھ لو (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا وَيُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا) 4 ۔ النساء : 40) اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں فرمائیں گے اور جو نیکی ہوگی اسے دوگنا فرمائیں گے اور اپنے پاس سے بہت سا ثواب عطا فرمائیں گے اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے فرشتوں نے شفاعت کردی انبیاء (علیہ السلام) نے شفاعت فرما دی مومنوں نے شفاعت کردی اور أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ کے علاوہ کوئی ذات بھی باقی نہ رہی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ایک مٹھی بھر آدمیوں کو جہنم سے نکالیں گے یہ وہ آدمی ہوں گے جنہوں نے کوئی بھلائی نہیں کی ہوگی اور یہ لوگ جل کر کوئلہ ہوگئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ایک نہر میں ڈالیں گے جو جنت کے دروازوں پر ہوگی جس کا نام نہر الحیاہ ہے اس میں اتنی جلدی تر وتازہ ہوں گے جس طرح کہ دانہ پانی کے بہاؤ میں کوڑے کچرے کی جگہ اگ آتا ہے تم دیکھتے ہو کبھی وہ دانہ پتھر کے پاس ہوتا ہے اور کبھی درخت کے پاس اور جو سورج کے رخ پر ہوتا ہے وہ زرد یا سبز اگتا ہے اور جو سائے میں ہوتا ہے وہ سفید رہتا ہے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ تو ایسے بیان فرما رہے ہیں گویا کہ آپ ﷺ جنگل میں جانوروں کو چراتے رہے ہوں پھر آپ ﷺ نے فرمایا وہ لوگ اس نہر سے موتیوں کی طرح چمکتے ہوئے نکلتے ہوں گے اور ان کی گردنوں میں سونے کے پٹے پڑے ہوئے ہوں گے جن کی وجہ سے جنت والے ان کو پہچان لیں گے اور ان کے بارے میں کہیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی عمل کے دوزخ سے آزاد فرمایا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائیں گے جنت میں داخل ہوجاؤ اور تم جس چیز کو بھی دیکھو گے وہ چیز تمہاری ہوجائے گی وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہمیں وہ کچھ عطا فرمایا ہے جو جہاں والوں میں سے کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تمہارے لئے میرے پاس اس سے افضل چیز ہے وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے پروردگار وہ کونسی چیز ہے ؟ جو اس سے بھی افضل ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے وہ افضل چیز ہے میری رضا۔ اب آج کے بعد میں تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔

【363】

اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کا بیان

مسلم، عیسیٰ بن حماد، لیث بن سعد، عیسیٰ بن حماد، خالد بن یزید، سعید بن ابوہلال، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب دن صاف ہو تو کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں کوئی دشورای آتی ہے ؟ ہم نے عرض کیا نہیں اور باقی حدیث اسی طرح ہے لیکن اس حدیث میں یہ زائد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا جنہوں نے کوئی نیک عمل نہیں کیا ہوگا تو ان سے اللہ فرمائے گا کہ جنت میں جو کچھ تم نے دیکھا وہ بھی لے لو اور اس جیسا اتنا اور بھی لے لو حضرت ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ تک نبی ﷺ کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ پل صراط بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہوگا اور لیث کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار تو نے ہمیں وہ کچھ دیا جو تمام جہاں والوں کو نہیں دیا۔

【364】

اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیت کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، جعفر بن عون، ہشام بن سعد، زید بن اسلم سے ایک دوسری سند کے ساتھ کچھ کمی بیشی کے ساتھ اسی طرح کی ایک روایت نقل کی گئی ہے۔

【365】

شفاعت کے ثبوت اور موحدوں کو دوزخ سے نکالنے کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، مالک بن انس، عمرو بن یحییٰ بن عمارہ، ابوسعید خدری (رض) حضرت عمرو بن یحییٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جسے چاہیں گے جنت میں داخل فرمائیں گے اور دوزخ والوں کو دو ذخ میں داخل فرمائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اسے دوزخ سے نکال لو چناچہ وہ لوگ کوئلہ کی طرح جلے ہوئے ہوں گے پھر انہیں نہر الحیوۃ یا حیاء (راوی کو شک ہے) میں ڈالا جائے گا وہ اس میں اس طرح اگیں گے جس طرح دانہ پانی کے بہاؤ والی مٹی سے زردی مائل ہو کر اگ پڑتا ہے۔

【366】

شفاعت کے ثبوت اور موحدوں کو دوزخ سے نکالنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، وہیب، حجاج بن شاعر، عمرو بن عون، خالد، عمرو بن یحیی، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں دانہ کے بجائے کوڑا کرکٹ کے اگنے کا ذکر ہے۔

【367】

شفاعت کے ثبوت اور موحدوں کو دوزخ سے نکالنے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، بشر ابن مفضل، ابومسلمہ، ابونضرہ ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو دوزخ والے ہیں (کافر) وہ اس میں نہ تو مریں گے اور نہ زندہ رہیں گے لیکن کچھ لوگ جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے آگ انہیں جلا کر کوئلہ بنادے گی اس کے بعد شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے پھر انہیں جنت کی نہروں میں ڈالا جائے گا پھر جنت والوں سے کہا جائے گا کہ اے جنت والو ان پر پانی ڈالو جس سے وہ تر تازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے جس طرح پانی کے بہاؤ سے آنے والی مٹی میں سے دانہ سرسبز و شاداب ہو کر نکل آتا ہے یہ سن کر صحابہ (رض) میں سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ دیہات میں رہے ہوں۔ (مطلب یہ کہ آپ ﷺ دانہ اگنے کی جو اتنی درست تمثیل دے رہے ہیں)

【368】

شفاعت کے ثبوت اور موحدوں کو دوزخ سے نکالنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابومسلمہ، ابونضرہ، ابوسعید خدری (رض) حضرت عبداللہ بن مسعود ایک اور سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے اس میں دانہ اگنے تک کا ذکر ہے اس کے بعد کوئی ذکر نہیں۔

【369】

دوزخیوں میں سے سب سے آخر میں دوزخ سے نکلنے والے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، جریر، منصور، ابراہیم، عبیدہ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ سب سے آخر میں دوزخ میں سے کون نکلے گا اور جنت والوں میں سے سب سے آخر میں کون جنت میں داخل ہوگا وہ ایک آدمی ہوگا جو سرینوں کے بل گھسٹتا ہوا نکلے گا اللہ اس سے فرمائیں گے جا جنت میں داخل ہوجا وہ جنت کے قریب آئے گا تو اسے افسوس ہوگا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹ آئے گا اور اللہ سے کہے گا اے میرے رب جنت تو بھری ہوئی ہے اللہ پھر فرمائیں گے جا جنت میں داخل ہوجا وہ پھر آئے گا اس کے خیال میں یہ بات ڈال دی جائے گی کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹ آئے گا اور کہے گا اے میرے رب جنت تو بھری ہوئی ہے تو اللہ اس سے فرمائیں گے جا جنت میں چلا جا تیرے لئے دنیا اور دس گنا دنیا کے برابر ہے تو وہ کہے گا کہ آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں یا ہنس رہے ہیں اور آپ تو بادشاہ ہیں ! حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے اگلے دانت ظاہر ہوگئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس سے کہا جائے گا کہ یہ جنت والوں کے لئے سب سے کم تر درجہ ہے۔

【370】

دوزخیوں میں سے سب سے آخر میں دوزخ سے نکلنے والے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، عبیدہ، عبداللہ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس آدمی کو پہچا نتا ہوں جو دوزخ والوں میں سے سب آخر میں دوزخ سے نکلے گا، ایک آدمی جو سرین کے بل گھسٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا اللہ اس سے فرمائیں گے کہ جنت میں چلا جا وہ جائے گا پھر جنت میں داخل ہوگا تو دیکھے گا کہ سب جگہوں پر جنتی ہیں اس سے کہا جائے گا کہ کیا تجھے وہ زمانہ یاد ہے جس میں تو تھا ؟ (دوزخ میں) وہ کہے گا جی ہاں یاد ہے تو پھر اس سے کہا جائے گا کہ اپنی تمنا کرو اور وہ تمنا کرے گا کہ تو اللہ اس سے فرمائیں گے کہ جس قدر تو نے تمنا کی وہ بھی تیرے لئے اور اس سے دس گنا دنیا کے برابر بھی وہ کہے گا کہ کیا آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں اور آپ تو بادشاہوں کے بادشاہ ہیں حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ بھی ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔

【371】

دوزخیوں میں سے سب سے آخر میں دوزخ سے نکلنے والے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان بن مسلم، حماد بن سلمہ، ثابت، انس، ابن مسعود حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا وہ گرتا پڑتا اور گھسٹتا ہوا دوزخ سے اس حال میں نکلے گا کہ دوزخ کی آگ اسے جلا رہی ہوگی پھر جب دوزخ سے نکل جائے گا تو پھر دوزخ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور دوزخ سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ اولین وآخرین میں سے کسی کو بھی وہ نعمت عطا نہیں فرمائی پھر اس کے لئے ایک درخت بلند کیا جائے گا وہ آدمی کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب کر دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ کو حاصل کرسکوں اور اس کے پھلوں سے پانی پیوں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے ابن آدم اگر میں تجھے یہ دے دوں تو پھر اس کے علاوہ اور کچھ تو نہیں مانگے گا وہ عرض کرے گا کہ نہیں اے میرے پروردگار، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے علاوہ اور نہ مانگنے کا معاہدہ فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائیں گے کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھ چکا ہوگا کہ جس پر اسے صبر نہ ہوگا اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردیں گے وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور اس کے پھلوں کے پانی سے پیاس بجھائے گا پھر اس کے لئے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے درخت سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگا وہ آدمی عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں اور اس کا پانی پیوں اور اس کے بعد میں اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ فرمائیں گے اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے اور کوئی سوال نہیں کرے گا اور اب اگر تجھے اس درخت کے قریب پہنچا دیا تو پھر تو اور سوال کرے گا اللہ تعالیٰ پھر اس سے اس بات کا وعدہ لیں گے کہ وہ اور کوئی سوال نہیں کرے گا تاہم اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ معذور ہوگا کیونکہ وہ ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہ کرسکے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کو درخت کے قریب کردیں گے وہ اس کے سایہ میں آرام کرے گا اور اس کا پانی پئے گا پھر اسے جنت کے دروزاے پر ایک درخت دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا وہ آدمی کہے گا اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام کروں اور پھر اس کا پانی پیؤں اور اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا پھر اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائیں گے اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے بعد اور کوئی سوال نہیں کرے گا وہ عرض کرے گا ہاں اے میرے پروردگار اب میں اس کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ اسے معذور سمجھیں گے۔ کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہیں کرسکے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کردیں گے جب وہ اس درخت کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا تو وہ پھر عرض کرے گا اے میرے رب مجھے اس میں داخل کر دے تو اللہ فرمائیں گے اے ابن آدم تیرے سوال کو کون سی چیز روک سکتی ہے کیا تو اس پر راضی ہے کہ تجھے دنیا اور دنیا کے برابر دے دیا جائے وہ کہے گا اے رب ! اے رب العالمین تو مجھ سے مذاق کرتا ہے یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ (رض) ہنس پڑے اور لوگوں سے فرمایا کہ تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا لوگوں نے کہا کہ آپ کس وجہ سے ہنسے ؟ فرمایا رسول اللہ ﷺ اسی طرح ہنسے تھے فرمایا اللہ رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے جب وہ آدمی کہے گا کہ آپ رب العالمین ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق فرما رہے ہیں تو اللہ فرمائیں گے کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا مگر جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں۔

【372】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن بکیر، زہیر بن محمد، سہل بن ابی صالح، نعمان بن ابی عیاش، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت والوں میں سے سب سے کم درجے کا وہ جنتی ہوگا جس کا چہرہ اللہ جہنم سے پھیر کر جنت کی طرف فرما دیں گے اور اس کے لئے ایک سایہ دار درخت بنادیں گے وہ آدمی کہے گا اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں باقی حدیث اسی طرح ہے جو گزر چکی لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ اے ابن آدم تیری آرزؤں کو کیا چیز ختم کرسکتی ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ اللہ اس سے فرمائیں گے کہ فلاں فلاں چیز کے بارے میں سوال کر پھر جب اس کی ساری آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ بھی تیرے لئے اور اس سے دس گنا زائد بھی تیرے لئے ہے پھر اللہ اسے اس کے گھر میں داخل فرما دیں گے اور خوبصورت آنکھوں والی دو حوریں اس کی زوجیت میں داخل ہو کر اس کے پاس آئیں گی اور کہیں گی کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے ہمارے لئے زندہ کیا اور ہمیں تیرے لئے زندہ کیا وہ آدمی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا عطا فرمایا ہے کہ کسی کو بھی اتنا نہیں عطا فرمایا۔

【373】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

سعید بن عمرو اشعثی، سفیان بن عیینہ، مطرف، ابن ابجر، شعبی، مغیرہ بن شعبہ، ابن ابی عمر، سفیان، مطرف بن طریف، عبدالملک بن سعید، شعبی، مغیرہ بن شعبہ ایک مرتبہ منبر پر (تشریف رکھے) فرما رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ اپنے رب سے پوچھا کہ جنت والوں میں سے سب کم درجہ کا کونسا آدمی ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ ایک آدمی ہوگا جو سارے جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت میں داخل ہوگا اس آدمی سے کہا جائے گا کہ جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ وہ آدمی عرض کرے گا اے میرے رب میں کیسے جاؤں وہاں تو سب لوگوں نے اپنے اپنے مراتب اپنی اپنی جگہوں کو متعین کرلیا ہے یعنی جنت کے تمام محلات پر سب جنتیوں نے قبضہ کرلیا ہے تو پھر اس آدمی سے اللہ فرمائیں گے کہ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ تجھے اتنا ملک دیا جائے جتنا دنیا کے بادشاہ کے پاس تھا وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں راضی ہوں پروردگار اس سے فرمائیں گے جاؤ اتنا ملک ہم نے تجھے دے دیا اور اتنا ہی اور، اتنا ہی اور، اتنا ہی اور، اتنا ہی اور، اتنا ہی اور، پانچویں مرتبہ وہ آدمی کہے گا میں راضی ہوگیا اے میرے پروردگار ! اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے تو یہ بھی لے لو اور اس کا دس گنا اور لے اور جو تیری طبیعت چاہے اور تیری آنکھوں کو پیارا لگے وہ بھی لے لو وہ کہے گا پروردگار میں راضی ہوگیا اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ سب سے بڑے درجے والا جنتی کونسا ہے اللہ نے فرمایا وہ تو وہ لوگ ہیں جن کو میں نے خود منتخب کیا ہے اور ان کی بزرگی اور عزت کو اپنے دست قدرت سے بند کردیا اور پھر اس پر مہر بھی لگا دی تو یہ چیزیں نہ تو کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان نعمتوں اور مرتبوں کا خیال گزرا اور اس چیز کی تصدیق کی جو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے وہ کہتا ہے (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ ) یعنی کسی کو معلوم نہیں کہ ان کے لئے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا جو سامان چھپا کر رکھا ہے۔

【374】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوکریب، عبیداللہ اشجعی، عبدالملک بن ابجر، مغیرہ بن شعبہ منبر پر فرما رہے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے جنت والوں میں سے سب سے کم درجے کے جنتی کے بارے میں پوچھا باقی وہی حدیث ہے جو گذر چکی ہے۔

【375】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابواعمش، معرور، ابن سوید، ابوذر (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا اور سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا وہ ایک آدمی ہوگا جو قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور بڑے گناہ مت پیش کرو چناچہ اس پر اس کے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ فلاں دن تو نے یہ کام کیا اور فلاں دن ایسا کیا وغیرہ، وہ اقرار کرے گا اور انکار نہ کرسکے گا اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈرے گا کہ کہیں وہ بھی پیش نہ ہوجائیں حکم ہوگا کہ ہم نے تجھے ہر ایک گناہ کے بدلے ایک نیکی دی۔ وہ کہے گا اے میرے پروردگار میں نے تو اور بھی بہت سے گناہ کے کام کئے ہیں جنہیں میں آج یہاں نہیں دیکھ رہا راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سامنے والے دانت ظاہر ہوگئے۔

【376】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابن نمیر، ابومعاویہ، وکیع، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، حضرت حماد بن زید ایک اور سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【377】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

عبیداللہ بن سعید، اسحاق بن منصور، روح بن عبادہ قیسی، ابن جریج، ابوزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے سنا کہ ان سے لوگ قیامت کے دن لوگوں کے حال کے بارے میں پوچھ رہے تھے انہوں نے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن تمام امتوں سے بلندی پر ہوں گے پھر باقی امتوں کو ترتیب کے لحاظ سے ان کے بتوں کے ساتھ بلایا جائے گا اس کے بعد ہمارا رب جلوہ افروز ہوگا، اللہ فرمائیں گے کہ تم کسے دیکھ رہے ہو وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کو دیکھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے شایان شان ان کے ساتھ چل پڑیں گے اور سارے لوگ بھی ان کے پیچھے چل پڑیں گے اور ہر ایک کو ایک نور ملے گا چاہے وہ مومن ہو یا منافق ہو اور لوگ اس نور کے پیچھے چلیں گے پل صراط پر کانٹے ہوں گے جسے اللہ تعالیٰ چاہیں گے پکڑ لیں گے پھر منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پاجائیں گے مومنوں کا پہلا گروہ جو نجات پا جائے گا ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے اور یہ ستر ہزار ہوں گے جن سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا پھر ان کے بعد ایک گروہ خوب چمکتے ہوئے تاروں کے طریقے پر ہوگا پھر اسی طرح شفاعت کا وقت آئے گا اور نیک لوگ شفاعت کریں گے یہاں تک کہ جن لوگوں نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہوگا اور ان کے دل میں ایک جو کے دانہ کے برابر بھی اگر کوئی بھلائی ہوگی تو انہیں دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور انہیں جنت کے سامنے ڈال دیا جائے گا اور جنت والے ان پر پانی چھڑکیں گے جس سے وہ اس طرح تروتازہ ہوجائیں گے جیسے سیلاب کے پانی کی مٹی میں سے دانہ ہرا بھرا اگ پڑتا ہے ان سے جلنے کے سارے آثار جاتے رہیں گے پھر ان سے پوچھا جائے گا پھر ہر ایک کو دنیا اور دس گنا دنیا کے برابر (انہیں جنت میں مقام) دیا جائے گا۔

【378】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمر، جابر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمائیں گے۔

【379】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوربیع، حمادابن زید حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا کہ کیا آپ نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے یہ حدیث سنی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شفاعت کی بنا پر کچھ لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرمائیں گے ! انہوں نے فرمایا ہاں۔

【380】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

حجاج بن شاعر، ابواحمد، زبیری، قیس ابن سلیم، عنبری، یزید فقیر، جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ جہنم سے نکال کر جنت میں اس حالت میں داخل کئے جائیں گے کہ ان کے چہروں کے علاوہ ان کا سارا جسم جل چکا ہوگا۔

【381】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

حجاج بن شاعر، فضل بن دکین، ابوعاصم، محمد بن ابی ایوب، یزید فقیر فرماتے ہیں کہ خارجیوں کی باتوں میں سے ایک بات میرے دل میں جم گئی ( کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ دوزخ میں رہے گا) چناچہ ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج کے ارادہ سے نکلے کہ پھر (اس کے بعد خارجیوں والی اس بات کو) لوگوں میں پھیلائیں یزید کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ منورہ سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) ایک ستون سے ٹیک لگائے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں بیان فرما رہے ہیں اور جب انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے ان سے کہا اے صحابی رسول ﷺ ! یہ آپ لوگوں سے کیسی حدیثیں بیان کر رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں (اے رب) بیشک تو نے جسے دوزخ میں داخل کردیا تو تو نے اسے رسوا کردیا۔ (دوسرے مقام پر یہ فرماتا ہے) جب دوزخی لوگ دوزخ سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو انہیں پھر اسی میں داخل کردیا جائے گا، اس (اللہ کے فرمان) کے بعد اب تم کیا کہتے ہو ؟ حضرت جابر (رض) نے فرمایا کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں انہوں نے فرمایا کہ کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کے مقام کے بارے میں سنا جو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو قیامت کے دن عطا فرمائیں گے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ پھر یہی تو وہ مقام محمود ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دوزخ سے جسے چاہیں گے نکال دیں گے اس کے بعد انہوں نے پل صراط اور لوگوں کا اس کے اوپر سے گزرنے کے بارے میں تذکرہ فرمایا حضرت یزید کہتے ہیں کہ میں اس کو اچھی طرح یاد نہیں رکھ سکا تاہم انہوں نے یہ فرمایا کہ کچھ لوگ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے ابونعیم نے کہا کہ وہ لوگ دوزخ سے اس حال میں نکلیں گے کہ جس طرح آبنوس کی جلی ہوئی لکڑیاں ہوتی ہیں پھر وہ لوگ جنت کی نہروں میں سے کسی نہر میں داخل ہوں گے اور اس میں یہ نہائیں گے اور پھر اس نہر سے کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے ( یہ حدیث سن کر) پھر ہم وہاں سے لوٹے اور ہم نے کہا افسوس (تم خارجی لوگوں) پر کیا تمہار اخیال ہے کہ شیخ جابر بن عبداللہ جیسا شخص بھی رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں اللہ کی قسم ہم میں سے ایک آدمی کے علاوہ سب خارجی تھے عقائد سے تائب ہوگئے جیسا کہا ابونعیم نے کہا۔

【382】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ہداب بن خالد ازدی، حماد بن سلمہ، ابی عمران، ثابت، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ چار آدمی دوزخ سے نکال کر اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے ان میں سے ایک آدمی دوزخ کی طرف دیکھ کر کہے گا اے میرے پروردگار جب آپ نے مجھے اس دوزخ سے نکال لیا ہے تو اب اس میں دوبارہ نہ لوٹانا تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے نجات عطا فرما دیں گے۔

【383】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوکامل، فضیل بن حسین جحدری، محمد بن عبیداللہ عنبری، ابوکامل، ابوعوانہ، قتادہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ قیامت کے دن تمام لوگوں کو جمع فرمائیں گے اور وہ اس پریشانی سے بچنے کی کوشش کریں گے اور ابن عبید نے کہا ہے کہ یہ کوشش ان کے دلوں میں ڈالی جائے گی وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کی طرف اگر کسی سے شفاعت کرائیں تاکہ اس جگہ سے ہم آرام حاصل کریں تو سب لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام مخلوق انسانی کے باپ ہیں آپ کو اللہ نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے اور اپنی پیدا کی ہوئی روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں تاکہ ہم اس جگہ سے راحت حاصل کریں، حضرت آدم (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں اور اپنی خطا کو یاد کریں گے جو ان سے ہوئی، اللہ تعالیٰ سے شرمائیں گے اور کہیں گے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ نے بھیجا، وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے وہ بھی فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں اور اپنی خطا یاد کریں گے جو دنیا میں ان سے سرزد ہوئی اور اپنے رب سے شرمائیں گے اور فرمائیں گے کہ تم حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ ان کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا وہ لوگ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے وہ بھی فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں وہ بھی اپنی اس خطا کو یاد کر کے جو دنیا میں ان سے ہوئی تھی اپنے رب سے شرمائیں گے اور فرمائیں گے کہ تم حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ جو اللہ کے کلیم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تو راہ عطا فرمائی وہ لوگ حضرت موسیٰ کے پاس آئیں گے وہ بھی فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں اور اپنی خطا کو یاد کر کے جو دنیا میں ان سے ہوئی اپنے رب سے شرمائیں گے اور فرمائیں گے کہ تم حضرت عیسیٰ کے پاس جاؤ جو روح اللہ اور کلمہ اللہ ہیں چناچہ سب لوگ حضرت عیسیٰ روح اللہ اور کلمۃ اللہ کے پاس آئیں گے وہ بھی فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں لیکن تم حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ جن کی شان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اگلی پچھلی تمام خطاؤں کو معاف فرما دیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر سارے لوگ میرے پاس آئیں گے میں اپنے پروردگار سے شفاعت کی اجازت مانگوں گا مجھے اجازت دی جائے گی۔ پھر میں اپنے آپ کو دیکھوں گا کہ میں سجدہ میں میں گرا پڑا ہوں، جب تک اللہ چاہیں گے مجھے اس حال میں رکھیں گے پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھائیے، فرمائیے ! سنا جائے گا، مانگئے ! دیا جائے گا، شفاعت فرمائیے ! شفاعت قبول کی جائے گی، پھر میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی ان کلمات کے ساتھ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے اس وقت سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھائیے ! فرمائیے ! سنا جائے گا، مانگئے ! دیا جائے گا، شفاعت کیجئے ! شفاعت قبول کی جائے گی، پھر میں اپنا سر سجدہ سے اٹھاؤں گا پھر میں اپنے رب کی حمد بیان کروں گا میرے لئے ایک حد مقرر کی جائے گی جس کے مطابق میں لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا راوی فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ تیسری یا چوتھی مرتبہ رسول اللہ ﷺ شفاعت فرما کر لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل فرمائیں گے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے دوزخ میں صرف وہ لوگ باقی رہ گئے ہیں جن کے حق میں قرآن نے ہمیشہ کا عذاب لازم کردیا ہے۔

【384】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حشر کے دن سارے مومن جمع کئے جائیں گے وہ اس دن سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یا ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی یہ حدیث مذکورہ حدیث کی طرح ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ چوتھی بار میں ان کی شفاعت کروں گا اور یہ عرض کروں گا اے پروردگار اب دوزخ میں صرف وہ لوگ باقی وہ گئے ہیں جن کو قرآن نے روکا ہے۔

【385】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ قیامت کے دن مومنوں کو جمع فرمائیں گے ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی کہ وہ اس دن سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں باقی حدیث اسی طرح ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ چوتھی مرتبہ فرمائیں گے اے پروردگار اب تو دوزخ میں کوئی بھی باقی نہیں سوائے ان کے جن کو قرآن نے روک رکھا ہے یعنی ان پر دوزخ میں رہنا ہمیشہ کے لئے لازم ہے۔

【386】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

محمد بن منہال ضریر، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، ہشام، قتادہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ میں سے ہر وہ آدمی نکال لیا جائے گا جس نے بھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہوگا اور اس کے دل میں جو کے برابر بھی نیکی ہے اسے بھی دوزخ سے نکال لیا جائے گا جس نے بھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہوگا اور اس کے دل میں گندم کے ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی ہوگی اسے بھی دوزخ کی آگ سے نکال لیا جائے گا۔

【387】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوربیع عتکی، حماد بن زید، معبد بن ہلال عنزی، سعید بن منصور، حماد بن زید، معبد بن ہلال کہتے ہیں کہ ہم حضرت انس بن مالک (رض) سے ملنا چاہتے تھے اور ان سے ملاقات کے لئے ہم نے حضرت ثابت (رض) کی سفارش چاہی جب ہم ان تک پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے حضرت ثابت (رض) نے ہمارے لئے اندر آنے کی اجازت مانگی ہم اندر داخل ہوئے حضرت انس (رض) بن مالک نے ثابت کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھا کر فرمایا اے ابوحمزہ) یہ ان کی کنیت ہے (تیرے بصرہ والے بھائی تجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم ان سے شفاعت والی حدیث بیان کرو حضرت ثابت (رض) فرمانے لگے کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کے پاس جائیں گے پھر سب سے پہلے حضرت آدم کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ آپ اپنی اولاد کے لئے شفاعت فرمائیں وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں تم حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ لوگ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں لیکن تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں سب لوگ حضرت موسیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں مگر تم حضرت عیسیٰ کے پاس جاؤ وہ روح اللہ اور کلمہ اللہ ہیں چناچہ سب لوگ حضرت عیسیٰ کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں لیکن تم حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ وہ سب میرے پاس آئیں گے میں ان سے کہوں گا کہ ہاں میں اس کا اہل ہوں اور میں ان کے ساتھ چل پڑوں گا اور اللہ سے اجازت مانگوں گا مجھے اجازت ملے گی اور میں اس کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی ایسی حمد وثنا بیان کروں گا کہ آج میں اس پر قادر نہیں ہوں وہ حمد وثناء اللہ اسی وقت القاء فرمائیں گے اس کے بعد میں سجدہ میں گر جاؤں گا مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد اپنا سر اٹھائیے اور فرمائیے سنا جائے گا اور مانگئے دیا جائے گا اور شفاعت کیجئے شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے پروردگار میری امت میری امت۔ تو پھر اللہ فرمائیں گے جاؤ جس کے دل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے دوزخ سے نکال لو میں ایسے سب لوگوں کو دوزخ سے نکال لوں گا پھر اپنے پروردگار کے سامنے آکر اسی طرح حمد بیان کروں گا اور سجدہ میں پڑجاؤں گا پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد اپنا سر اٹھائیے فرمائیے سنا جائے گا مانگئے دیا جائے گا شفاعت کیجئے شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت۔ پھر اللہ پاک مجھے فرمائیں گے کہ جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے دوزخ سے نکال لو میں ایسا ہی کروں گے اور پھر لوٹ کر اپنے رب کے پاس آؤں گے اور اسی طرح حمد بیان کروں گا پھر سجدہ میں گر پڑوں گا مجھ سے کہا جائے گا اے محمد اپنا سر اٹھائیے اور فرمائیے سنا جائے گا مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت۔ پھر اللہ پاک مجھے فرمائیں گے کہ جاؤ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اسے دوزخ سے نکال لو میں ایسا ہی کروں گا اور پھر لوٹ کو اپنے رب کے پاس آؤں گا اور اسی طرح حمد بیان کروں گا پھر سجدہ میں گر پڑوں گا مجھ سے کہا جائے گا اے محمد فرمائیے سنا جائے گا مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں شفاعت قبول کی جائے گی میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت۔ مجھ سے اللہ پاک فرمائیں گے کہ جاؤ اور جس کے دل میں رائی کے دانہ سے بھی کم بہت کم اور بہت ہی کم ہو اسے بھی دوزخ سے نکال لو میں ایسا ہی کروں گا۔ معبد بن ہلال کہتے ہیں کہ یہ حضرت انس (رض) کی روایت ہے جو انہوں نے ہم سے بیان کی جب ہم ان کے پاس سے نکلے اور حبان قبرستان کی بلندی پر پہنچے تو ہم نے کہا کاش کہ ہم حضرت حسن بصری کی طرف چلیں اور انہیں سلام عرض کریں وہ ابوخلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے (حجاج بن یوسف کے خوف سے) پھر ہم ان کے پاس گئے اور انہیں سلام کہا ہم نے کہا اے ابوسعید ہم تمہارے بھائی ابوحمزہ کے پاس سے آرہے ہیں انہوں نے شفاعت کے بارے میں ہم سے ایک حدیث بیان کی اس طرح کی حدیث ہم نے نہیں سنی انہوں نے کہا بیان کرو ہم نے جواب دیا بس اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کی انہوں نے کہا کہ یہ حدیث تو ہم سے حضرت انس (رض) نے بیس سال قبل بیان کی تھی جب وہ طاقتور تھے اب انہوں نے کچھ چھوڑ دیا میں نہیں جانتا کہ وہ بھول گئے یا تم سے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا ایسا نہ ہو کہ تم اسی پر بھروسہ کر بیٹھو اور نیک اعمال میں سستی کرنے لگو ہم نے ان سے کہا کہ وہ کیا ہم سے بیان کیجئے یہ سن کر حضرت حسن بصری ہنسے اور کہنے لگے کہ انسان کی پیدائش میں جلدی ہے میں نے تم سے یہ واقعہ اس لئے بیان کیا تھا کہ میں تم سے اس حصہ کو جو انس بن مالک نے چھوڑ دیا تھا وہ بیان کروں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر میں چوتھی مرتبہ اللہ کے پاس واپس لوٹ کر جاؤں گا اور اسی طرح حمد بیان کروں گا اور سجدہ میں پڑجاؤں گا۔ مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد اپنا سر اٹھائیے فرمائیے سنا جائے گا مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں شفاعت قبول کی جائے گی اس وقت میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار اس آدمی کو بھی مجھے جہنم سے نکالنے کی اجازت دیجئے جو کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا قائل ہو اللہ فرمائیں گے کہ یہ تیر اکام نہیں لیکن میری عزت و بزرگی اور جاہ و جلال کی قسم میں دوزخ سے ایسے آدمی کو بھی نکال دوں گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہوگا حضرت معبد کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث جو انہوں نے ہم سے بیان کی اس کو انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے سنا ہے اور میرا گمان یہ ہے کہ انہوں نے بیس سال قبل سنی ہوگی جب حضرت انس جوان تھے۔

【388】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ بن نمیر، یزید، محمد بن بشر، ابوحیان، ابوزرعہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا رسول اللہ ﷺ کو دستی کا گوشت پسند تھا اس لئے پوری دستی پیش کی گئی آپ ﷺ نے اسے اپنے دانتوں سے کھانا شروع کیا پھر فرمایا میں قیامت کے دن سب کا سردار ہوں گا کیا تم جانتے ہو کہ یہ سب کس وجہ سے ہوگا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین وآخرین کو ایک ایسے ہموار میدان میں جمع فرمائیں گے کہ وہ سب آواز دینے والے کی آواز سنیں گے اور ہر آدمی کی نگاہ (یا اللہ کی نظر) سب کے پار جائے گی اور سورج قریب ہوجائے گا اور لوگوں کو ناقابل برداشت گھبراہٹ اور پریشانی کا سامنا ہوگا اس وقت بعض لوگ دوسرے لوگوں سے کہیں گے کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارا کیا حال ہے اور کیا نہیں سوچتے کہ تم کس قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے ہو آؤ ایسے آدمی کی تلاش کریں جو اللہ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کرے پھر بعض لوگ ایک دوسرے سے مشورہ کرکے کہیں گے کہ چلو حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس چلو پھر لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے آدم (علیہ السلام) آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے اور آپ میں اپنی روح پھونکی ہے اور تمام فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا آپ اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور کیا آپ ہماری تکلیفوں کا مشاہدہ نہیں کر رہے ؟ حضرت آدم فرمائیں گے کہ آج میرا رب اس قدر جلال میں ہے کہ کبھی اس سے پہلے جلال میں نہیں آیا اور بات دراصل یہ ہے کہ اللہ نے مجھے درخت کے قریب جانے سے روکا تھا اور میں نے اس کی نافرمانی کی آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ لوگ حضرت نوح کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ زمین پر سب سے پہلے رسول ہیں آپ کا نام اللہ نے شکر گزار بندہ رکھا ہے آج اللہ کے ہاں ہماری شفاعت کر دیجئے کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ گئی ہے حضرت نوح فرمائیں گے کہ آج میرا رب اس قدر غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے انتا غضبناک ہوا اور نہ اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا میں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ تباہ ہوگئی آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم ابراہیم کے پاس جاؤ لوگ ابراہیم کے پاس جا کر عرض کریں گے آپ اللہ کے نبی ہیں اور ساری زمین والوں میں سے اللہ کے خلیل ہیں ہماری اللہ کے ہاں شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں اور کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ چکی ہے حضرت ابراہیم فرمائیں گے کہ آج میرا پروردگار اتنا غضبناک ہے نہ اس سے پہلے اتنا غضبناک ہوا اور نہ اس کے بعد اتنا غضبناک ہوگا حضرت ابراہیم اپنے جھوٹ بولنے کو یاد کر کے فرمائیں گے کہ آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ لوگ موسیٰ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور ہم کلامی دونوں سے نوازا ہے آپ اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال میں ہیں اور ہمیں کتنی تکلیفیں پہنچ رہی ہیں پھر ان سے حضرت موسیٰ فرمائیں گے کہ آج میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اتنا غضبناک نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا اور میں نے بغیر حکم کے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم عیسیٰ کے پاس جاؤ، لوگ عیسیٰ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے عیسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے گہوارے میں بات کی آپ کلمہ اللہ ہیں اور روح اللہ ہیں آج اللہ کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمیں کتنی تکلیفیں پہنچ رہی ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ آج میرا رب اتنا غضبناک ہے، اتنا غضبناک نہ اس سے پہلے کبھی ہو اور نہ اس کے بعد کبھی ہوگا حضرت عیسیٰ نے اپنے قصور کا ذکر نہیں فرمایا اور فرمائیں گے کہ آج تو میں بھی اپنی فکر میں مبتلا ہوں تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ جاؤ محمد ﷺ کے پاس جاؤ، لوگ میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے محمد ﷺ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سارے قصور معاف فرما دئیے ہیں اپنے پروردگار کے ہاں ہماری شفاعت فرمائیں کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کس حال میں ہیں کیا آپ ہیں جانتے کہ ہماری تکلیف کس حد تک پہنچ گئی ہے پھر میں چلوں گا عرش کے نیچے آؤں گا پھر سجدہ میں پڑجاؤں گا پھر اللہ میرے سینہ کو کھول دے گا اور مجھے حمد وثناء کے ایسے کلمات القاء فرمائے گا جو مجھے پہلے القاء نہیں کئے گئے پھر کہا جائے گا اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھائیے مانگئے دیا جائے گا شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنا سر اٹھاؤں گا پھر عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت میری امت پھر کہا جائے گا کہ اے محمد اپنی امت میں سے جن کا حساب نہیں لیا گیا انہیں جنت کے دائیں دروازوں سے داخل کردو اور یہ لوگ اس کے علاوہ دوسرے دروزاوں سے بھی داخل ہوسکتے ہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ جنت کے دروازوں کے کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر کے درمیان یا مکہ اور بصرٰی کے درمیان ہے۔

【389】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

زہیر بن حرب، جریر، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ثرید اور گوشت کا ایک پیالہ رکھا آپ ﷺ نے پیالے میں سے بکری کی ایک دستی اٹھائی کیونکہ گوشت میں سے دستی ہی آپ ﷺ کو پسند تھی آپ ﷺ نے اسے دانتوں سے کھانا شروع کردیا اور فرمایا قیامت کے دن میں تمام لوگوں کا سردار ہوں گا پھر دوبارہ آپ نے وہ دستی کھائی پھر فرمایا میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ صحابہ اس کی وجہ نہیں پوچھ رہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کیوں نہیں کہہ رہے کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟ پھر صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس دن تمام لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے پھر اس کے بعد وہی حدیث بیان فرمائی جو گزر چکی البتہ اس سند میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جب لوگ جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں نے ستاروں کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ میرا رب ہے اور اسی طرح میں نے اپنی قوم کے معبود ان باطلہ کے بارے میں کہا تھا کہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہاں میں بیمار ہوں اور جنت کے دروازوں اور کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور ہجر کے مقام میں ہے۔

【390】

سب سے ادنی درجہ کے جنتی کا بیان۔

محمد بن طریف بن خلیفہ بجلی، محمد بن فضیل، ابومالک اشجعی، ابوحازم، ابوہریرہ، ابومالک، ربعی بن حراش، حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مومنوں کو جمع فرمائیں گے اور جنت ان کے قریب کردی جائے گی پھر سارے مومن حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے اے ہمارے باپ ہمارے لئے جنت کا دراوزہ کھلوائیے تو وہ فرمائیں گے کہ تمہارے باپ کی ایک ہی خطا نے تو تم کو جنت سے نکالا تھا میں اس کا اہل نہیں ہوں جاؤ میرے بیٹے ابراہیم کے پاس وہ اللہ کے خلیل ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم فرمائیں گے کہ میں تو اس کا اہل نہیں ہوں میرے خلیل ہونے کا مقام تو اس سے بہت پیچھے ہے جاؤ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جن کو اللہ نے اپنے کلام سے نوازا ہے پھر لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں جاؤ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وہ اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں جاؤ محمد ﷺ کے پاس وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے پھر آپ ﷺ کھڑے ہوں گے اور آپ ﷺ کو شفاعت کی اجازت دیدی جائے گی اور امانت اور رحم کو چھوڑ دیا جائے گا اور وہ دونوں پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑے ہوں جائیں گے تم میں سے پہلا آدمی بجلی کی طرح گزر جائے گا میں نے عرض کیا وہ کونسی چیز ہے جو بجلی کی طرح گزر جائے گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے بجلی کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح گزرتی ہے اور پلک جھپکنے سے پہلے لوٹ آتی ہے اس کے بعد وہ لوگ پل صراط سے گزریں گے جو آندھی کی طرح گزر جائیں گے اس کے بعد پرندوں کی رفتار سے گزریں گے پھر اس کے بعد آدمیوں کے دوڑنے کی رفتار سے گزریں گے ہر آدمی اپنے اعمال کے مطابق رفتار سے دوڑے گا اور تمہارے نبی پل صراط پر کھڑے ہوئے فرما رہے ہوں گے اے میرے پروردگار انہیں سلامتی سے گزار دے پھر ایک وقت آئے گا کہ بندوں کے اعمال انہیں عاجز کردیں گے اور لوگوں میں چلنے کی طاقت نہیں ہوگی اور وہ اپنے آپ کو پل صراط سے گھسیٹتے ہوئے گزاریں گے اور پل صراط کے دونوں طرف لوہے کے کانٹے لٹک رہے ہوں گے اور جس آدمی کے بارے میں حکم ہوگا وہ اس کو پکڑ لے لگا بعض ان سے الجھ کر دوزخ میں گرجائیں گے حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں ابوہریرہ (رض) کی جان ہے جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔

【391】

نبی ﷺ کے اس فرمان میں کہ میں سب سے پہلے جنت میں شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء (علیہ السلام) سے زیادہ میرے تابع دار ہوں گے۔

قتیبہ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، قتیبہ، جریر، مختار بن فلفل، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سارے لوگوں میں سے سب سے پہلے میں جنت میں شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء کرام سے زیادہ میرے تابعدار ہوں گے۔

【392】

نبی ﷺ کے اس فرمان میں کہ میں سب سے پہلے جنت میں شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء (علیہ السلام) سے زیادہ میرے تابع دار ہوں گے۔

ابوکریب، محمد بن علاء، معاویہ بن ہشام، سفیان، مختار بن فلفل، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تمام انبیاء کرام سے زیادہ میرے تابعدار ہوں گے اور سب سے پہلا میں ہوں گا جو جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔

【393】

نبی ﷺ کے اس فرمان میں کہ میں سب سے پہلے جنت میں شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء (علیہ السلام) سے زیادہ میرے تابع دار ہوں گے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی زائدہ، مختار بن فلفل، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جنت میں میں شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء کرام میں سے کسی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی کہ میری تصدیق کی گئی اور یہاں تک کہ انبیاء کرام میں سے بعض نبی ایسے ہوں گے کہ ان کی امت میں سے ان کی تصدیق کرنے والا صرف ایک آدمی ہوگا۔

【394】

نبی ﷺ کے اس فرمان میں کہ میں سب سے پہلے جنت میں شفاعت کروں گا اور تمام انبیاء (علیہ السلام) سے زیادہ میرے تابع دار ہوں گے۔

عمرو بن محمد ناقد، زہیر بن حرب، ہاشم بن قاسم، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن جنت کے دروازہ پر آؤں گا اور اسے کھلواؤں گا جنت کا داروغہ کہے گا آپ کون ہیں تو میں کہوں گا محمد وہ کہے گا کہ مجھے آپ ﷺ سے پہلے کسی کے لئے دروازہ کھولنے کا حکم نہیں دیا گیا۔

【395】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

یونس بن عبدالاعلی، عبداللہ بن وہب، مالک بن انس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ مانگتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے سنبھال کر رکھوں۔

【396】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

زہیر بن حرب، عبد بن حمید، زہیر، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک دعا ہے جو کہ یقینًا قبول ہوتی ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو میں چاہوں گا کہ میں اپنی یہ دعا اپنی امت کی شفاعت کے لئے قیامت کے دن کروں۔

【397】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

زہیر بن حرب، عبد بن حمید، زہیر، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی ایک دوسری سند کے ساتھ یہ روایت بھی حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح ذکر کی ہے۔

【398】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عمرو بن ابی سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی، ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ مانگتا ہے اور وہ اللہ کے ہاں یقینًا قبول ہوتی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں یہ دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے سنبھال کر رکھوں، حضرت کعب (رض) نے حضرت ابوہریرہ (رض) کہا کہ کیا آپ نے یہ حدیث خود رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا ہاں !

【399】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کر لئے ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول کی جاتی ہے تو ہر نبی نے جلدی کی کہ اپنی اس دعا کو مانگ لیا ہے اور میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے سنبھال رکھا ہے اور اگر اللہ نے چاہا تو میری شفاعت میری امت کے ہر اس آدمی کے لئے ہوگی جو اس حال میں مرگیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو۔

【400】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

قتیبہ بن سعید، جریر، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ (رض) ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول کی جاتی ہے جب بھی وہ اپنی امت کیلئے اس دعا کو مانگتا ہے تو اسے وہ دیا جاتا ہے اور میں نے (اپنی دعا) قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے سنبھال رکھی ہے۔

【401】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، محمد بن زیاد، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ اپنی امت کے حق میں مانگتا ہے تو اس کی وہ دعا قبول کی جاتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں اپنی دعا کو قیامت کے دن تک اپنی امت کے شفاعت کے لئے مؤخر کر دوں۔

【402】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

ابوغسان مسمعی، محمد بن مثنی، ابن بشار، ابوغسان سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ اپنی امت کے لئے مانگتا ہے اور میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ کرلیا ہے۔

【403】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

زہیر بن حرب، ابن ابوخلف، روح، شعبہ، قتادہ سے یہی حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔

【404】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

ابوکریب، وکیع، ابراہیم بن سعید، ابواسامہ، مسعر، قتادہ اس سند کے ساتھ حضرت قتادہ (رض) سے یہ روایت نقل کی گئی ہے۔

【405】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

محمد بن عبدالاعلی، معتمر، انس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا حضرت قتادہ (رض) نے حضرت انس (رض) کی حدیث کی طرح ذکر کیا۔

【406】

نبی ﷺ کا اس بات کو پسند کرنا کہ میں (قیامت کے دن) اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا سنبھال کر رکھوں

محمد بن احمد بن ابی خلف، روح، ابن جریج، ابوزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک دعا ہے جو اس نے اپنی امت کے لئے مانگی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کے لئے قیامت کے دن بطور شفاعت روک رکھی ہے۔

【407】

نبی ﷺ کا اپنی امت کے لئے دعا فرمانا اور بطور شفقت رونے کا بیان

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکر بن سوادہ، عبدالرحمن بن جبیر، عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان جو ابراہیم کے بارے میں ہے کی تلاوت فرمائی (رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ ۚ فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) اے پروردگار ان معبودان باطلہ نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو جس نے میری تابعداری کی تو وہ مجھ سے ہوا میرا ہے اور جس نے نافرمانی کی تو تو اس کو بخشنے والا رحم کرنے والا ہے اور یہ آیت (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) جس میں عیسیٰ کا فرمان ہے کہ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور فرمایا اے اللہ میری امت میری امت اور آپ ﷺ پر گریہ طاری ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے جبرائیل جاؤ محمد ﷺ کے پاس حالانکہ تیرا رب خوب جانتا ہے ان سے پوچھ کہ آپ ﷺ کیوں رو رہے ہیں جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور جو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کو اس کی خبر دی حالانکہ وہ اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے تو اللہ نے فرمایا اے جبرائیل جاؤ محمد ﷺ کی طرف اور ان سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ ﷺ کی امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور ہم آپ ﷺ کو نہیں بھولیں گے۔

【408】

اس بات کے بیان میں کہ جو آدمی کفر پر مرا وہ دوزخی ہے اسے نہ ہی کسی کی شفاعت اور نہ ہی مقربین کی قرابت کوئی فائدہ دے گی۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میرا باپ کہاں ہے آپ ﷺ نے فرمایا دوزخ میں جب وہ آدمی واپس جانے لگا تو آپ ﷺ نے اس کو بلایا اور پھر فرمایا کہ میرا باپ اور تیرا باپ دونوں دوزخ میں ہیں۔

【409】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

قتیبہ بن سعید، زہیر بن حرب، جریر، عبدالملک بن عمیر، موسیٰ بن طلحہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ جب یہ آیت کریمہ (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ) نازل ہوئی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے، تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کو بلایا عام وخاص سب کو جمع فرمایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے کعب بن لؤی کے قبیلہ والو ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے عبدشمس کے قبیلے والو ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے عبد مناف کے قبیلہ والو ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے بنی عبدالمطلب والو ! اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے فاطمہ (رض) اپنے آپ کو دوزخ سے بچا لے کیونکہ میں تمہارے لئے اللہ سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ میں تمہارا رشتہ دار ہوں اور بحثیت رشتہ داری کے میں تم سے صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔

【410】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

عبیداللہ بن عمر، ابوعوانہ، عبدالملک بن عمیر سے اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【411】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر، وکیع، یونس بن بکیر، ہشام بن عروہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ جب آیت کریمہ نازل ہوئی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈارئیے، تو رسول اللہ ﷺ کوہ صفا پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے فاطمہ محمد کی بیٹی اے صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی میری پھوپھی اے عبدالمطلب کی اولاد میں اللہ کے سامنے تمہارے بارے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا البتہ یہاں میرے مال میں سے جو چاہو لے لو۔

【412】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابن مسیب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے تو آپ ﷺ نے اپنے خاندان والوں کو مخاطب کر کے فرمایا اے قریش کی جماعت تم اپنی جانوں کو نیک اعمال کے بدلہ میں اللہ سے خرید لو میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آسکتا اے عباس بن عبدالمطلب میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آسکتا اے صفیہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی اللہ کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی مجھ سے جو چاہو لے لو لیکن میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔

【413】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

عمرو ناقد، معاویہ بن عمرو زائدہ، عبداللہ بن ذکوان، اعرج ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【414】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

ابو کامل، یزید بن زریع تیمی، ابوعثمان، قبیصہ، مخارق، زہیر بن عمرو فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور آپ ﷺ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں، تو رسول اللہ ﷺ پہاڑ کے سب سے بلند پتھر پر کھڑے ہوئے اور پھر آواز دی اے عبدمناف کے بیٹو میں تمہیں (عذاب سے) ڈرا رہا ہوں میری اور تمہاری مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے دشمن کو دیکھا ہو اور وہ دشمن سے اپنے گھر والوں کو بچا نے کی لئے دوڑ پڑا ہو کہ کہیں دشمن اس سے پہلے نہ پہنچ جائے اور بلند آواز سے پکارا یا یا صباحاہ خبردار آگاہ ہوجاؤ دشمن (یعنی اللہ کا عذاب آرہا ہے) ۔

【415】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

محمد بن عبدالاعلی، معتمر، ابوعثمان، زہیر بن عمرو، قبیصہ بن مخارق ایک دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【416】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

ابوکریب محمد بن علاء، ابواسامہ، اعمش، عمرو بن مرہ، سعید بن جبیر، ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو بھی ڈرائیے، تو رسول اللہ ﷺ کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز کے ساتھ فرمایا یا صباحاہ سنو آگاہ ہوجاؤ لوگوں نے کہا کہ یہ کون آواز لگا رہا ہے تو سب کہنے لگے کہ محمد ﷺ آواز لگا رہے ہیں تو سب آپ ﷺ کی طرف جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے فلاں کے بیٹو اے عبد مناف کے بیٹو اے عبدالمطلب کے بیٹو ! تو وہ سب آپ ﷺ کی طرف جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے نیچے ایک گھڑ سوار لشکر ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے تو سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے تو کبھی آپ ﷺ کو جھوٹا نہیں پایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں بہت سخت عذاب سے ڈرا رہا ہوں، حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابولہب نے کہا کہ (العیاذ باللہ) آپ ﷺ کے لئے تباہی ہے کیا آپ ﷺ نے ہمیں اسی لئے جمع کیا ہے پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی ٹوٹ گئے ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ خود بھی ہلاک ہوجائے۔

【417】

اللہ کے اس فرمان میں کہ اے نبی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش اس سند کے ساتھ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن صفا پر چڑھے آپ ﷺ نے فرمایا یا صباحاہ سنو آگاہ ہوجاؤ باقی حدیث اسی طرح ہے جس طرح گزری لیکن اس میں آیت کریمہ کے نزول کا ذکر نہیں۔

【418】

نبی ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر، محمد بن ابی بکر مقدامی، محمد بن عبدالملک، ابوعوانہ، عبدالملک بن عمیر بن عبداللہ بن حارث بن نوفل، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ ﷺ نے ابوطالب کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا کیونکہ وہ تو آپ ﷺ کی حفاظت کرتا تھا اور آپ ﷺ کی وجہ سے لوگوں پر غضبناک ہوجاتا تھا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں وہ دوزخ کے اوپر کے حصہ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا یعنی ان کے لئے دعا نہ کرتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے حصے میں ہوتے۔

【419】

نبی ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، عبدالملک، بن عمیر، عبداللہ بن حارث، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ابوطالب آپ ﷺ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ ﷺ کی مدد کرتے اور آپ ﷺ کے لئے لوگوں پر غصے ہوتے تھے تو کیا ان باتوں کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ ہوا آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے انہیں آگ کی شدت میں پایا تو میں انہیں ہلکی آگ میں نکال کرلے آیا۔

【420】

نبی ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے بیان میں

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، سفیان، عبدالملک بن عمیر، عبداللہ بن حارث، عباس بن عبدالمطلب نے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی ہے۔

【421】

نبی ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن ہاد، عبداللہ بن خباب، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے چچا ابوطالب کا تذکرہ ہوا آپ ﷺ نے فرمایا شاید کہ قیامت کے دن میری شفاعت سے ابوطالب کو فائدہ پہنچے کہ دوزخ کے اوپر والے حصے میں لایا جائے گا کہ جہاں آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس کی شدت سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔

【422】

دوزخ والوں سے سب سے ہلکے عذاب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، سہیل بن ابی صالح، نعمان بن ابی عیاش، ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ والوں میں سب سے ہلکا جس کو عذاب ہوگا اس کو آگ کی دو جو تیاں پہنائی جائیں گی جن کی شدت کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔

【423】

دوزخ والوں سے سب سے ہلکے عذاب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، ابوعثمان نہدی، ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا دوزخ والوں میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہوگا اور اسے آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔

【424】

دوزخ والوں سے سب سے ہلکے عذاب کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، نعمان بن بشیر نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن دوزخ والوں میں سب سے ہلکا عذاب اس آدمی کو ہوگا جس کے پاؤں کے نیچے آگ کے انگارے ہوں گے جن کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔

【425】

دوزخ والوں سے سب سے ہلکے عذاب کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، اعمش، ابواسحاق، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ والوں میں سب سے ہلکا عذاب اس آدمی کو ہوگا جس کو آگ کی دو جوتیاں تسموں سمیت پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ جس طرح ہانڈی میں پانی جوش سے کھولتا ہے وہ سمجھ رہا ہوگا کہ اسے سب سے سخت عذاب دیا گیا ہے حالانکہ اسے سب سے ہلکا عذاب دیا گیا ہوگا۔

【426】

اس بات کی دلیل کا بیان کہ حالت کفر میں مرنے والے کو اسکا کوئی عمل فائدہ نہیں دیگا

ابوبکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، داود، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ابن جدعان زمانہ جاہلیت میں اسلام سے قبل حالت کفر میں صلہ رحمی کرتا تھا مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا اس سے اس کو فائدہ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کام اسے کوئی فائدہ نہ دیں گے کیونکہ اس نے کبھی یہ نہیں کہا رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ یعنی اے میرے پروردگار قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف فرما دینا۔

【427】

مومنوں سے تعلق رکھنے اور غیر مومنوں سے قطع تعلق اور برأت کا بیان

احمد بن حنبل، محمد بن جعفر، شعبہ، اسماعیل بن ابی خالد، قیس، عمروابن عاص فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ بلند آواز سے نہ کہ آہستہ آواز سے فرما رہے تھے آگاہ رہو کہ میرے باپ کی اولاد یعنی فلاں خاندان والے میرے دوست نہیں بلکہ میرا دوست تو اللہ ہے اور نیک مومن۔

【428】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

عبدالرحمن بن سلام بن عبیداللہ، ربیع بن مسلم، محمد بن زیاد، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ اس آدمی کو ان لوگوں میں سے کر دے پھر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اس نے بھی یہی کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے سبقت لے گئے ہیں۔

【429】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، محمد بن زیاد ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا۔

【430】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے ستر ہزار کی ایک جماعت جنت میں داخل ہوگی جن کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ عکاشہ بن محصن الاسدی یہ سن کر اپنی چادر سمیٹتے ہوئے کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے کر دے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ عکاشہ کو ان میں سے کر دے پھر ایک انصار کا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے کر دے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے سبقت لے گیا ہے۔

【431】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، حیوہ، ابویونس، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کی ایک جماعت جنت میں داخل ہوگی جن کی صورتیں چاند کی طرح چمک رہی ہوں گی۔

【432】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن خلف باہلی، معتمر، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، عمران فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ کون سے لوگ ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے کہ جو نہ داغ لگوائیں گے اور نہ منتر کرتے ہوں گے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں گے عکاشہ یہ سن کر کھڑے ہوگئے عرض کی اے اللہ کے نبی ﷺ دعا فرمائیں اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے جو بغیر حساب جنت میں جائیں گے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم انہی میں سے ہو پھر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی اے اللہ کے نبی ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا۔

【433】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبدالصمد بن عبدالوراث، حاجب بن عمر، ابوخشینہ ثقفی، حکم بن اعرج، عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے صحابہ نے عرض کیا وہ کون سے لوگ ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو نہ منتر کرتے ہیں اور نہ برا شگون لیتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔

【434】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، ابن ابی حازم، سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ستر ہزار آدمی یا سات لاکھ راوی حدیث ابوحازم کو صحیح یاد نہیں کہ حضرت سہل (رض) نے ستر ہزار فرمایا یا سات لاکھ آدمی جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے پہلا آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ ان کا آخری نہ داخل ہوجائے ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے۔

【435】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

سعید بن منصور، ہشیم، حصین بن عبدالرحمن، سعید ابن جبیر، حضرت حصین بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں حضرت سعید بن جبیر (رض) کے پاس تھا انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے کل رات ٹوٹنے والے ستارہ کو دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا پھر میں نے عرض کیا کہ میں اس وقت نماز نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ مجھے بچھو نے ڈسا ہوا تھا حضرت سعید (رض) فرمانے لگے کہ پھر تم نے کیا کیا میں نے عرض کیا کہ میں نے جھاڑ پھونک کروائی انہوں نے فرمایا تم نے جھاڑ پھونک کیوں کروائی میں نے عرض کیا کہ اس حدیث کی بنا پر جو شعبی نے ہمیں بیان فرمائی انہوں نے فرمایا کہ شعبی (رض) نے تم سے کونسی حدیث بیان کی ہے میں نے کہا کہ انہوں نے حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی کے حوالہ سے حدیث بیان کی کہ یہ جھاڑ پھونک نفع نہیں دیتا سوائے نظر لگنے یا کاٹے ہوئے کے علاج کے سلسلہ میں حضرت سعید (رض) فرماتے ہیں کہ جس نے جو کچھ سنا اور اس پر عمل کیا اس نے اچھا کیا مگر ہم سے حضرت ابن عباس (رض) نے حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے امتیں لائی گئیں تو میں نے کسی نبی کے ساتھ دس سے بھی کم دیکھے اور کسی نبی کے ساتھ ایک آدمی اور دو آدمی دیکھے اور ایسا نبی بھی دیکھا کہ جن کے ساتھ کوئی بھی نہیں پھر میرے سامنے ایک بڑی جماعت لائی گئی تو میں نے انہیں اپنا امتی خیال کیا تو مجھے کہا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ اور ان کی امت ہے لیکن آپ ﷺ آسمان کے کنارے کی طرف دیکھیں میں نے دیکھا تو بہت بڑی جماعت نظر آئی پھر مجھ سے کہا گیا کہ آسمان کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھیں میں نے دیکھا تو ایک بہت بڑی جماعت نظر آئی تو مجھے کہا گیا کہ یہ آپ ﷺ کی امت ہے اور ان میں ستر ہزار آدمی ایسے ہوں گے جو بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے پھر اٹھ کر آپ ﷺ گھر میں تشریف لے گئے تو صحابی نے کہا کہ شاید ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہیں اور کچھ لوگوں نے کہا کہ شاید ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیدائشی مسلمان ہیں اور انہوں نے کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرایا اور بعض لوگوں نے کچھ اور کہا پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور پوچھا کہ تم لوگ کس کے بارے میں گفتگو کر رہے ہو تو آپ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی آپ ﷺ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ منتر کرتے اور نہ منتر کراتے ہیں اور نہ برا شگون لیتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں، عکاشہ بن محصن کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا تو انہی میں سے ہے پھر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے کر دے آپ ﷺ نے فرمایا عکاشہ تم پر سبقت لے گیا ہے۔

【436】

بعض مسلمانوں کے بغیر حساب اور بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، حصین، حضرت سعد بن جبیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے سامنے امتیں لائی گئیں پھر باقی حدیث اسی طرح بیان فرمائیں لیکن اس میں حدیث کا شروع والا حصہ بیان نہیں فرمایا۔

【437】

جنت والوں میں سے آدھے اس امت محمدیہ میں سے ہونے والوں کا بیان

ہناد بن سری، ابواحوص، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا کہ کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ جنت والوں میں سے چوتھائی تم میں سے ہوں (یہ سن کر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے) ہم نے تکبیر کہی پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ جنت والوں میں ایک تہائی تم میں سے ہوں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم میں سے ہوں گے اور اس کی وجہ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مسلمان کافروں میں اسطرح سے ہیں جس طرح کہ ایک سفید بال سیاہ بیل میں یا ایک سیاہ بال سفید بیل میں۔

【438】

جنت والوں میں سے آدھے اس امت محمدیہ میں سے ہونے والوں کا بیان

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے کہ جس میں تقریبا چالیس آدمی ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت والوں میں تمہاری تعداد چوتھائی ہو ہم نے عرض کیا کہ ہاں (ہم خوش ہیں) پھر آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم ہوگے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں صرف مسلمان داخل ہوگا اور وہ مسلمان شرک کرنے والوں میں اس طرح سے نمایاں ہوگا کہ جس طرح ایک سفید بال کالے بیل کی کھال میں یا ایک کالا بال سرخ بیل کی کھال میں نمایاں ہوتا ہے۔

【439】

جنت والوں میں سے آدھے اس امت محمدیہ میں سے ہونے والوں کا بیان

محمد بن عبداللہ بن نمیر، مالک ابن مغول، ابواسحاق، عمرو بن میمون، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک چمڑے کے خیمے میں ٹیک لگا کر ایک خطبہ دیا اور فرمایا آگاہ رہو کہ جنت میں سوائے مسلمان کے کوئی داخل نہیں ہوگا اے اللہ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے اے اللہ گواہ رہنا، (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ جنت والوں میں تم چوتھائی ہو ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے پھر فرمایا کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ جنت والوں میں تمہاری تعداد تہائی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں تعداد میں تم آدھے ہو گے۔ تم دوسری امتوں میں اس طرح سے ہو جس طرح ایک کالا بال سفید بیل میں یا ایک سفید بال سیاہ بیل میں یعنی ہر صورت میں نمایاں نظر آئے۔

【440】

اس فرمان کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) سے فرمائیں گے کہ دوزخیوں کے ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکال لو۔

عثمان بن ابی شیبہ عبسی، جریر، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے آدم۔ آدم (علیہ السلام) عرض کریں گے لبیک تیرے حکم کو پورا کرنے لئے میں حاضر ہوں اور نیکی اور بھلائی تیرے ہی قبضہ وقدرت میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرمائیں گے کہ دوزخیوں کی ایک جماعت نکالو وہ کہیں گے دوزخیوں کی کیسی جماعت ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ فرمائیں گے کہ ہزار سے نو سو ننانوے دوزخی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا کہ یہی وہ وقت ہوگا کہ (ڈر اور خوف کی شدت سے) بچہ بوڑھا ہوجائے گا اور ہر حاملہ عورت اپنے حمل کو گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشہ کی حالت میں دیکھے گا حالانکہ حقیقت میں وہ نشہ میں نہیں ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب سخت ہوگا حضرت ابوسعید نے کہا کہ صحابہ (رض) یہ حدیث سن کر بہت پریشان ہوئے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں سے کون سا آدمی جنتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا خوش ہوجاؤ کہ ایک ہزار یاجوج ماجوج کے مقابلہ میں تم میں سے ایک آدمی ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم میں سے ہوں گے تمہاری مثال دوسری امتوں میں ایسی ہے جس طرح سفید بال کالے بیل کی کھال میں یا ایک نشان گدھے کے پاؤں میں۔

【441】

اس فرمان کے بیان میں کہ اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) سے فرمائیں گے کہ دوزخیوں کے ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکال لو۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوکریب ابومعاویہ، اعمش سے اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس روایت میں گدھے کے پاؤں میں نشان کا ذکر نہیں۔