53. منافقین کی صفات اور ان کے احکام کا بیان

【1】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسیٰ زہیر بن معاویہ ابواسحاق حضرت زید بن ارقم (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں نکلے جس میں لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں یہاں تک کہ وہ آپ ﷺ کے پاس سے جدا اور دور ہوجائیں زہیر نے کہا یہ قرأت اس کی قرأت ہے جس نے حولہ پڑھا ہے اور عبداللہ بن ابی نے یہ بھی کہا اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹے تو عزت والے مدینہ سے ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے پس میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کو اس بات کی خبر دی پس آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بلانے کے لئے بھیجا پھر اس سے پوچھا تو اس نے قسم کھا کر کہا میں نے ایسا نہیں کہا اور کہنے لگا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے جھوٹ کہا ہے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی اس بات سے میرے دل میں بہت رنج اور دکھ واقع ہوا یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے میری تصدیق کے لئے یہ آیت نازل کی (اِذَا جَا ءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ) 63 ۔ المنافقون : 1) کہ جب آپ ﷺ کے پاس منافقین آئیں پھر نبی ﷺ نے انہیں بلوایا تاکہ ان کے لئے مغفرت طلب کریں لیکن انہوں نے اپنے سروں کر موڑ لیا (نہ آئے) اور پھر اللہ عزوجل کا قول (کَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ) گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں دیوار پر لگائی ہوئی انہیں کے بارے میں نازل ہوا حضرت زید نے کہا یہ لوگ بظاہر بہت اچھے اور خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔

【2】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، احمد بن عبدہ ضبی ابن ابی شیبہ ابن عبدہ سفیان بن عیینہ، عمرو، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عبداللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لے گئے اور اسے اس کی قبر سے نکلوایا پھر اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اپنا لعاب مبارک اس پر تھوکا اور اپنی قمیض اسے پہنائی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

【3】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

احمد بن یوسف ازدی عبدالرزاق، ابن جریج، عمرو بن دینار، حضرت جابر (رض) بن عبداللہ روایت ہے کہ نبی ﷺ عبداللہ بن ابی کی قبر کی طرف اس کے دفن کئے جانے کے بعد تشریف لائے باقی حدیث سفیان کی حدیث کی طرح ہے۔

【4】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبہ ابواسامہ، عبیداللہ بن عمر (رض) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی سلول فوت ہوگیا تو اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ ﷺ سے آپ ﷺ کی قمیض مانگنے کے لئے آیا جس میں اس کے باپ کو کفن دیا جائے پس آپ ﷺ نے قمیض اسے عطا کردی پھر اس نے عرض کیا آپ ﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھیں پس رسول اللہ ﷺ اس کا جنازہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ ﷺ کا کپڑا پکڑ کر عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ نے اختیار دیا ہے اللہ عزوجل نے فرمایا ہے آپ ﷺ ان کے لئے مغفرت مانگیں یا استغفار نہ کریں اگر آپ ﷺ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی مغفرت طلب کریں گے اور میں اس کے لئے ستر سے بھی زیادہ دفعہ مغفرت طلب کروں گا حضرت عمر (رض) نے عرض کیا وہ تو منافق ہے پس رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی تو اللہ رب العزت نے یہ آیت مبارکہ نازل کی (وَلَا تُصَلِّ عَلٰ ي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِه) 9 ۔ التوبہ : 84) ان میں سے کوئی بھی آدمی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔

【5】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبیداللہ بن سعید یحییٰ قطان عبیداللہ یہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں اضافہ یہ ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا چھوڑ دی۔

【6】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

محمد بن ابی عمر مکی، سفیان، منصور مجاہد ابی معمر، حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ بیت اللہ کے پاس تین آدمی جمع ہوئے دو قریشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قریشی، ان کے دلوں میں سمجھ بوجھ کم تھی ان کے پیٹوں میں چربی زیادہ تھی پس ان میں سے ایک نے کہا تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری بات کو سنتا ہے اور دوسرے نے کہا اگر ہم بلند آواز سے بولیں تو سنتا ہے اور اگر آہستہ بولیں تو نہیں سنتا تیسرے نے کہا اگر وہ ہماری بلند آواز کو سنتا ہے تو وہ ہماری آہستہ آواز کو بھی سنتا ہے تو اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (وَمَا كُنْتُمْ تَسْ تَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ ) 41 ۔ فصلت : 22) تم (اپنے گناہ) اس لئے نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے کان اور آنکھیں اور کھالیں تمہارے خلاف گواہی دیں گے بلکہ تم یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو نہیں جانتا جو تم کرتے ہو۔

【7】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن خلاد باہلی ابن سعید سفیان، سلیمان عمیر وہب بن ربیعہ عبداللہ یحیی، منصور مجاہد ابی معمر، عبداللہ (رض) ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔

【8】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری ابی شعبہ، عدی ابن ثابت عبداللہ بن یزید حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ غزوہ کے لئے نکلے پس آپ ﷺ کے ساتھ جانے والوں میں کچھ لوگ واپس آگئے پس اصحاب النبی ﷺ واپس جانے والوں کے بارے میں دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ان میں بعض نے کہا ہم انہیں قتل کریں گے اور بعض نے کہا نہیں تو اللہ رب العزت نے (فَمَالَکُم فِی المَنَافِقِینَ فِئَتَینِ ) نازل کی تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین کے بارے میں تم دو گرہوں میں تقسیم ہوگئے۔

【9】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید ابوبکر بن نافع غندر شعبہ (رض) ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔

【10】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

حسن بن علی حلوانی محمد بن سہل تمیمی ابن ابی مریم محمد بن جعفر، زید بن اسلم عطاء بن یسار حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے زمانہ مبارک میں منافقین میں سے بعض ایسے تھے جو جب نبی ﷺ غزوہ کے لئے نکلے تو وہ پیچھے رہ گئے اور نبی ﷺ کے خلاف بیٹھ جانے سے خوش ہوئے جب نبی ﷺ واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ ﷺ سے معذرت کی اور قسم اٹھائی اور انہوں نے اس بات کو پسند کیا کہ ان کی تعریف کی جائے اس کام پر جو انہوں نے سر انجام نہیں دیئے تو آیت (لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَا اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ) 3 ۔ ال عمران : 188) نازل ہوئی اپنے کئے پر خوش ہونے والے لوگوں کو مت گمان کرو جو پسند کرتے ہیں اس بات کو کہ ان کی تعریف کی جائے ایسے اعمال پر جو انہوں نے سر انجام نہیں دئے پس آپ ﷺ ان کے بارے میں عذاب سے نجات کا گمان نہ کریں۔

【11】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

زہیر بن حرب، ہارون بن عبداللہ زہیر حجاج بن محمد ابن جریج، ابن ابی ملیکہ حمید بن عبدالرحمن بن عوف مروان حضرت حمید بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے رافع ابن عباس کے پاس جاؤ اور کہو کہ اگر ہم میں سے ہر آدمی اپنے کئے ہوئے عمل پر خوش ہو اور وہ اس بات کو پسند کرے کہ اس کی تعریف ایسے عمل میں کی جائے جو اس نے سر انجام نہیں دیا تو اسے عذاب دیا جائے گا پھر تو ہم سب کو ہی عذاب دیا جائے گا تو ابن عباس (رض) نے کہ تمہارا اس آیت سے کیا تعلق ہے حالانکہ یہ آیت تو اہل کتاب کے بارے میں نازل کی گئی تھی پھر ابن عباس (رض) نے (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّه لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَه) 3 ۔ آل عمران : 187) تلاوت کی اور جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور بضرور اسے لوگوں کے لئے بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں اور ابن عباس (رض) نے (لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَا اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ) 3 ۔ آل عمران : 188) تلاوت کی ان کو ہرگز نہ گمان کرنا (مومن) جو اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں اس بات کو کہ ان کی تعریف کی جائے ایسے کاموں پر جو انہوں نے سر انجام نہیں دیئے ابن عباس (رض) نے فرمایا نبی ﷺ نے ان سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس چیز کو آپ سے چھپایا اور اس کے علاوہ دوسری بات کی خبر دی پھر نکلے اس حال میں خوش ہوتے ہوئے کہ انہوں نے آپ ﷺ کو اس بات کی اطلاع دے دی ہے جو آپ ﷺ نے ان سے پوچھی تھی پس انہوں نے آپ ﷺ سے اس بات پر تعریف کو طلب کیا اور جو بات بتائی اور آپ نے ان سے جو بات پوچھی اسے آپ ﷺ سے چھپانے کی وجہ سے خوش ہوئے۔

【12】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر شعبہ بن حجاج قتاہ ابی نضرہ حضرت قیس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمار (رض) سے کہا آپ اپنے اس عمل کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جو آپ نے حضرت علی (رض) کے معاملہ میں اختیار کیا ؟ (انکا ساتھ دیا) کیا وہ تمہاری اپنی رائے تھی جسے تم نے اختیار کیا یا کوئی ایسی چیز تھی جس کا وعدہ تم سے رسول اللہ ﷺ نے لیا تھا انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کوئی ایسا وعدہ نہیں لیا تھا جس کا وعدہ آپ ﷺ نے تمام لوگوں سے نہ لیا ہو لیکن حذیفہ نے مجھے نبی ﷺ سے خبر دی کہ نبی ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ کی طرف منسوب لوگوں میں سے بارہ آدمی منافق ہیں ان میں سے آٹھ آدمی جنت میں داخل نہ ہوں گے اور یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے آگ کا شعلہ ان میں سے آٹھ کے لئے کافی ہوگا اور چار کے بارے میں مجھے یاد نہیں رہا کہ شعبہ نے ان کے بارے میں کیا کہا۔

【13】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ ابی نضرہ حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ ہم نے عمار سے عرض کیا کیا تم نے اپنے قتال (معاویہ و علی کے درمیان جنگ) میں اپنی رائے سے شرکت کی تھی حالانکہ رائے میں خطاء بھی ہوتی ہے اور درستگی بھی یا یہ کوئی وعدہ تھا جس کا تم سے رسول اللہ ﷺ نے عہد لیا ہو انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کوئی ایسا وعدہ نہیں لیا جس کا وعدہ آپ ﷺ نے تمام لوگوں سے نہ لیا ہو اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک میری امت میں شعبہ نے کہا راوی نے کہا کہ حضرت حذیفہ نے حدیث بیان کی اور غندر نے کہا میں بھی یہی خیال کرتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا میری امت میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ (آگ کا شعلہ) کافی ہوگا جو ان کے کندھوں سے ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔

【14】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابواحمد کوفی ولید بن جمیع حضرت ابوطفیل سے روایت ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک آدمی اور حضرت حذیفہ (رض) کے درمیان عام لوگوں کی طرح جھگڑا ہوا تو انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بتاؤ اصحاب عقبہ کتنے تھے (حضرت حذیفہ (رض) سے) لوگوں نے کہا آپ ان کے سوال کا جواب دیں جو انہوں نے آپ سے کیا ہے حضرت حذیفہ (رض) نے کہا ہم کو خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ تھے اور اگر تم بھی انہیں میں سے ہو تو وہ پندرہ ہوجائیں گے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے رضامندی کے لئے جہاد کیا۔

【15】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عبنری ابی قرہ بن خالد ابی زبیر حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ثنیہ المرار گھاٹی پر چڑھے گا اس کے گناہ اس سے اسی طرح ختم ہوجائیں گے جس طرح بنی اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے پس سب سے پہلے اس پر چڑھنے والا ہمارا شہسوار یعنی بنو خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر دوسرے لوگ یکے بعد دیگرے چڑھنا شروع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم سب کے سب بخش دیئے گئے ہو سوائے سرخ اونٹ والے آدمی کے ہم اس کے پاس گئے اور اس سے کہا چلو رسول اللہ تیرے لئے مغفرت طلب کریں گے اس نے کہا اللہ کی قسم اگر میں اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کروں تو یہ میرے نزدیک تمہارے ساتھی کی میرے لئے مغفرت مانگنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کر رہا تھا۔

【16】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، قرہ ابوزبیر، حضرت جابر (رض) بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو ثنیہ المرار یا مرار کی گھاٹی پر چڑھے گا باقی حدیث مبارکہ گزر چکی ہے اور اس میں یہ ہے کہ وہ دیہاتی آیا جو اپنی گمشدہ چیز کو تلاش کر رہا تھا۔

【17】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

محمد بن رافع ابونضر سلیمان ابن مغیرہ ثابت، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ہم بنی نجار میں سے ایک آدمی نے سورت البقرہ اور آل عمران پڑھی ہوئی تھی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے لکھا کرتا تھا وہ بھاگ کر چلا گیا یہاں تک کہ اہل کتاب کے ساتھ جا کر مل گیا پس اہل کتاب نے اس کی بڑی قدر ومنزلت کی اور کہنے لگے کہ یہ وہ آدمی ہے جو محمد ﷺ کے لئے لکھا کرتا ہے وہ خوش ہوئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن انہیں میں توڑ دی پس انہوں نے گڑھا کھود کر اسے چھپا دیا پس جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ زمین نے اسے باہر پھینک دیا ہے انہوں نے پھر اس کے لئے گڑھا کھودا اور اسے دفن کردیا لیکن صبح پھر زمین نے اسے باہر نکال کر پھینک دیا انہوں نے دوبارہ اس کے لئے گڑھا کھودا اور اسے دفن کردیا پس صبح پھر زمین نے اسے نکال کر باہر پھینک دیا انہوں نے اسے اسی طرح باہر پھینکا ہوا چھوڑ دیا۔

【18】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، حفص ابن غیاث اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر سے آئے جب مدینہ کے قریب پہنچے تو آندھی اتنے زور سے چلی قریب تھا کہ سوار زمین میں دھنس جائے پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ آندھی کسی منافق کی موت کے لئے بھیجی گئی ہے جب آپ ﷺ مدینہ پہنچے تو منافقین میں سے ایک بہت بڑا منافق مرچکا تھا۔

【19】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

عباس بن عبدالعظیم عنبری ابومحمد نضر بن محمد بن موسیٰ یمامی عکرمہ حضرت ایاس (رض) سے روایت ہے کہ مجھ سے میرے باپ نے حدیث روایت کی کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک بیمار کی عیادت کی جسے بخار ہو رہا تھا میں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا تو میں نے کہا اللہ کی قسم میں نے آج تک کسی بھی آدمی کو اتنا تیز بخار نہیں دیکھا اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں قیامت کے دن اس سے زیادہ گرم جسم والے آدمی کے بارے میں خبر نہ دوں یہ دو آدمی ہیں جو سوار ہو کر منہ پھیر کر جا رہے ہیں ان دو آدمیوں کے بارے میں فرمایا جو اس وقت بظاہر آپ ﷺ کے اصحاب میں سے (سمجھے جاتے) تھے۔

【20】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ عبیداللہ محمد بن مثنی، عبدالوہاب ثقفی عبیداللہ بن نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہے کبھی اس ریوڑ میں چرتی ہے اور کبھی اس ریوڑ میں۔

【21】

منافقین کی خصلتون اور ان کے احکام کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، یعقوب ابن عبدالرحمن قاری موسیٰ بن عقبہ نافع اس سند سے بھی حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے لیکن اس میں ہے کبھی وہ اس ریوڑ میں گھس آتی اور کبھی دوسرے ریوڑ میں۔

【22】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق یحییٰ بن بکیر مغیرہ حزامی ابی زناد اعرج حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بہت موٹا آدمی لایا جائے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگی پڑھو ( فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا) پس ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔

【23】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

احمد بن عبداللہ بن یونس فضیل ابن عیاض منصور ابراہیم، عبیدہ سلمانی حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک یہودی عالم نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے محمد یا کہا اے ابوالقاسم بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر اور زمینوں کو ایک انگلی پر پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر اور کیچڑ ایک انگلی پر اور باقی ساری مخلوق کو ایک انگلی پر رکھ لے گا پھر انہیں ہلا کر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں، رسول اللہ ﷺ اس یہودی عالم کی بات پر تعجب کرتے ہوئے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہنس پڑے پھر وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا يُشْرِکُونَ تلاوت کی انہوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق تھا اور قیامت کے دن ساری زمینیں اس کی مٹھی میں ہوں گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے اللہ پاک اور بلند ہے اس چیز سے جسے یہ مشرک شریک کرتے ہیں۔

【24】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں ہے کہ یہودیوں میں سے ایک عالم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا باقی حدیث فضیل کی حدیث کیطرح ذکر کی لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ پھر انہیں حرکت دے گا اور یہ کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں اس کی بات پر تعجب اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے پھر رسول اللہ ﷺ نے آیت مبارکہ (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه) 39 ۔ الزمر : 67) حق قدرہ تلاوت فرمائی۔

【25】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

عمر بن حفص ابن غیاث ابی اعمش، ابراہیم، علقمہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے ابوقاسم بیشک اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور درختوں اور کیچڑ کو ایک انگلی پر اور باقی مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ کر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں میں بادشاہ ہوں میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں مبارک ظاہر ہوئیں پھر آپ ﷺ نے (وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ) تلاوت کی۔

【26】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبیہ ابوکریب ابومعاویہ اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم عیسیٰ بن یونس، عثمان بن ابی شبیہ جریر، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن ان میں یہ ہے کہ درخت ایک انگلی پر اور کیچڑ ایک انگلی پر اور جریر کی حدیث میں یہ نہیں کہ باقی مخلوقات ایک انگلی پر لیکن اس کی حدیث میں پہاڑ ایک انگلی پر اور جریر کی حدیث میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اس کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس کی بات پر تعجب کرتے ہوئے (آپ ﷺ ہنسے) ۔

【27】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ ابن وہب، یونس ابن شہاب ابن مسیب حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک وتعالی قیامت کے دن زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ لپیٹ لے گا پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں۔

【28】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ عمر بن حمزہ سالم بن عبداللہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ رب العزت آسمانوں کو لپیٹ لے گا پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں، زور والے (جابر) بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے کہاں ہیں پھر زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں زور والے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے کہاں ہیں ؟

【29】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

سعید بن منصور، یعقوب ابن عبدالرحمن ابوحازم، حضرت عبیداللہ بن مقسم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر (رض) کی طرف دیکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے کیسے حدیث روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت اپنے آسمانوں اور اپنی زمینوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑے گا تو فرمائے گا میں اللہ ہوں اور آپ اپنی انگلیوں کو بند کرتے اور کھولتے تھے (پھر اللہ فرمائے گا) میں بادشاہ ہوں یہاں تک کہ میں نے منبر کی طرف دیکھا تو اس کے نیچے کی طرف کوئی چیز حرکت کر رہی تھی یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ (منبر) رسول اللہ ﷺ کو لے کر گرپڑے گا۔

【30】

قیامت جنت اور جہنم کے احوال کے بیان میں

سعید بن منصور، عبدالعزیزبن ابی حازم، ابی عبیداللہ بن مقسم حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ جبار رب العزت اپنے آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑے گا باقی حدیث مبارکہ گزر چکی ہے۔

【31】

مخلوق کی پیدائش کی ابتداء اور حضرت آدم کی پیدائش کے بیان میں

سریج بن یونس ہارون بن عبداللہ حجاج بن محمد ابن جریج، اسماعیل بن امیہ ایوب بن خالد عبداللہ بن رافع مولیٰ ام سلمہ حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر ارشاد فرمایا اللہ رب العزت نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور اس میں پہاڑ اتوار کے دن پیدا کئے اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور مکروہات منگل کے دن پیدا کئے اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جمعرات کے دن زمین میں چوپائے پھیلائے اور آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد مخلوق میں سب سے آخر میں جمعہ کی ساعات میں سے آخری ساعت عصر اور رات کے درمیان پیدا فرمایا آگے اسی حدیث کی ایک اور سند ذکر کی ہے۔

【32】

دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن زمین کیفیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد محمد بن جعفر بن ابی کثیر ابوحازم، دینار حضرت سہل بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو سرخی مائل سفیدی پر اٹھایا جائے گا جو میدے کی روٹی کی طرح ہوگی اس (زمین) میں کسی کے لئے علامت ونشان نہ ہوگا۔

【33】

دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن زمین کیفیت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، داؤد شعبی، مسروق، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ رب العزت کے قول َوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان (بھی بدل دئے جائیں گے) کے متعلق پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول اس دن لوگ کہاں ہوں گے آپ ﷺ نے فرمایا پل صرا پر۔

【34】

اہل جنت کی مہمانی کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، خالد بن یزید سعید بن ابی ہلال زید بن اسلم عطاء بن یسار حضرت ابوسعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن زمین ایک روٹی ہوجائے گی اللہ رب العزت اسے اپنے دست قدرت سے اوپر نیچے کر دے گا اہل جنت کی مہمانی کے لئے جیسا کہ تم میں سے کوئی سفر میں اپنی روٹی کو الٹ پلٹ لیتا ہے اتنے میں یہود میں سے ایک آدمی نے عرض کیا آپ ﷺ پر اللہ کی برکتیں ہوں اے ابوالقاسم کیا میں آپ ﷺ کو قیامت کے دن اہل جنت کی مہمانی کے بارے میں خبر نہ دوں آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں اس نے عرض کیا زمین ایک روٹی ہوجائے گی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا پھر رسول اللہ ﷺ ہماری طرف دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں اس نے کہا میں آپ کو (اہل جنت کے) سالن کی خبر نہ دوں آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس نے عرض کیا ان کا سالن با، لام اور نون ہوگا صحابہ نے کہا یہ کیا ہے اس نے کہا بیل اور مچھلی جن کے کلیجے کے ٹکڑے میں سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔

【35】

اہل جنت کی مہمانی کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، قرہ محمد بن حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اگر یہود میں سے دس (عالم) میری اتباع کرلیتے تو زمین پر کوئی یہودی بھی مسلمان ہوئے بغیر نہ رہتا۔

【36】

یہودیوں کا نبی ﷺ سے روح کے بارے میں سوال اور اللہ عزوجل کے قوم آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کے بیان میں

عمر بن حفص ابن غیاث ابی اعمش، ابراہیم، علقمہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ ایک کھیت میں چل رہا تھا اور آپ ﷺ ایک لکڑی سے سہارا لیتے ہوئے چل رہے تھے کہ آپ ﷺ کا ایک یہودی کی جماعت کے پاس سے گزر ہوا تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھو انہوں نے کہا تمہیں اس بارے میں کیا شبہ ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ﷺ تم کو ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار گزرے انہوں نے کہا آپ ﷺ سے پوچھو ان میں سے کچھ نے کھڑے ہو کر آپ سے روح کے بارے میں سوال کیا پس نبی ﷺ خاموش ہوگئے اور انہیں اس بارے میں کوئی جواب نہ دیا پس مجھے معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کی طرف وحی کی جا رہی ہے پس میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا جب وحی نازل ہوچکی تو آپ نے فرمایا ( وَيَسْأَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا) وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں کم علم عطا کیا گیا ہے۔

【37】

یہودیوں کا نبی ﷺ سے روح کے بارے میں سوال اور اللہ عزوجل کے قوم آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوسعید اشج وکیع، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، علی بن خشرم عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابراہیم، علقمہ (رض) حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ میں مدینہ کی ایک کھیتی میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا باقی حدیث حفص کی حدیث کی طرح ہے البتہ وکیع کی حدیث میں إِلَّا قَلِيلًا اور عیسیٰ بن یونس کی حدیث میں وَمَا أُوتُوا ہے۔

【38】

یہودیوں کا نبی ﷺ سے روح کے بارے میں سوال اور اللہ عزوجل کے قوم آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کے بیان میں

ابوسعید اشج عبداللہ بن ادریس اعمش، عبداللہ بن مروہ مسروق، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کھجوروں کے باغ میں ایک لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے باقی حدیث اسی طرح ہے البتہ اس میں بھی (وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا) ہے۔

【39】

یہودیوں کا نبی ﷺ سے روح کے بارے میں سوال اور اللہ عزوجل کے قوم آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن سعید اشج، عبداللہ، وکیع، اعمش، ابی ضحی، مسروق، حضرت خباب (رض) سے روایت ہے کہ عاص بن وائل پر میرا قرض تھا پس میں اس کے پاس آیا اور اس سے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا میں ہرگز تمہارا قرض ادا نہیں کروں گا یہاں تک کہ تم محمد کا انکار کرو تو میں نے اس سے کہا ہرگز نہیں میں محمد کے ساتھ کفر نہ کروں گا یہاں تک کہ تو مرجائے پھر دوبارہ زندہ کیا جائے اس نے کہا میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا تو تیرا قرض ادا کر دوں گا جب میں مال اور اولاد کی طرف لوٹوں گا وکیع نے کہا اعمش نے بھی اسی طرح کہا ہے پس یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی (اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا) 19 ۔ مریم : 77) سے وَيَأْتِينَا فَرْدًا کیا آپ ﷺ نے اس آدمی کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیات کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے ضرور بالضرور مال اور اولاد عطا کی جائے گی کیا وہ غیب پر مطلع ہوگیا ہے یا اس نے رحمن کے پاس سے کوئی وعدہ لے لیا ہے ہرگز نہیں عنقریب ہم لکھ لیں گے جو وہ کہتا ہے اور ہم اس کے لئے عذاب کو طویل کردیں گے اور ہم اس کے قول کے وارث ہیں اور ہمارے پاس اکیلا آئے گا۔

【40】

یہودیوں کا نبی ﷺ سے روح کے بارے میں سوال اور اللہ عزوجل کے قوم آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کے بیان میں

ابوکریب ابومعاویہ ابن نمیر، ابواسحاق بن ابراہیم جریر، ابن ابی عمر (رض) ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ حضرت خباب کہتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں لوہار تھا پس میں عاص بن وائل کے لئے کام کیا کرتا تھا پھر میں اس کے پاس تقاضا کرنے کے لئے آیا۔

【41】

اللہ عزوجل کے قول اللہ انہیں آپ ﷺ کی موجودگی میں عذاب نہ دے گا کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری شعبہ، عبدالحمید زیاد حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ابوجہل نے کہا اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو پھر ہمارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا کوئی دردناک عذاب لے آ تو آیت مبارکہ (وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ) 8 ۔ الأنفال : 33) نازل ہوئی کہ جب تک آپ ﷺ ان میں موجود ہیں اللہ انہیں عذاب نہ دے گا اور نہ ہی اللہ انہیں عذاب دینے والا ہے اس حال میں کہ وہ بخشش مانگتے ہوں اور کیا وجہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں۔

【42】

اللہ رب العزت کے قول ہرگز نہیں بے شک انسان البتہ سر کشی کرتا ہے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ محمد بن عبدالاعلی معتمر ابی نعیم ابن ابی ہند ابی حازم حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ابوجہل نے کہا کیا محمد تمہارے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں اسے کہا گیا ہاں تو اس نے کہا لات اور عزی کی قسم اگر میں نے انہیں ایسا کرتے دیکھا تو ان کی گردن (معاذ اللہ) روند دوں گا یا ان کا چہرہ مٹی میں ملاؤں گا پس وہ رسول اللہ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نماز ادا کر رہے تھے اس ارادہ سے کہ وہ آپ ﷺ کی گردن کو روندے جب وہ آپ کے قریب ہونے لگا تو اچانک اپنی ایڑیوں پر واپس لوٹ آیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے کسی چیز سے بچ رہا تھا پس اسے کہا گیا تجھے کیا ہوا تو اس نے کہا میرے اور ان کے درمیان آگ کی خندق تھی ہول اور (فرشتوں کے) بازو تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر وہ مجھ سے قریب ہوتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو نوچ ڈالتے پس اللہ رب العزت نے یہ آیات نازل فرمائیں راوی کہتا ہے ہم نہیں جانتے کہ یہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے یا ہمیں کسی اور طریقہ سے پہنچی ہے آیات (كَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰ ى اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰى اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى) 96 ۔ العلق : 6 ۔ 7 ۔ 8) ہرگز نہیں بیشک انسان البتہ سرکشی کرتا ہے اس نے اپنے آپ کو مستغنی سمجھ لیا ہے بیشک تیرے پروردگار کی طرف ہی لوٹنا ہے کیا آپ نے اس کو دیکھا ہے جو (ہمارے) بندے کو روکتا ہے جب وہ نماز پڑھتا ہے کیا خیال ہے کہ اگر وہ ہدایت پر ہوتا یا تقوی اختیار کرنے کا حکم دیتا (تو یہ اچھا خیال نہ تھا) کیا خیال ہے اگر وہ جھٹلائے اور پیٹھ پھیرے (ابو جیل & تو پھر کیسے گرفت سے بچ سکتا ہے) کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ہرگز نہیں اگر وہ باز نہ آیا تو ہم یقینا اسے پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر کھینچیں گے ایسی پیشانی جو جھوٹی اور گناہ گار ہے پس چاہئے کہ وہ اپنے مددگاروں کو پکارے عنقریب ہم بھی فرشتوں کو بلائیں گے ہرگز نہیں آپ اس کی اطاعت نہ کریں۔ اور عبیداللہ نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے کہ اور اسے وہی حکم دیا جس کا انہیں حکم دیا ہے اور ابن عبدالاعلی نے اپنی حدیث میں أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ کا معنی بھی درج کیا کہ وہ اپنی قوم کو پکارے۔

【43】

دھوئیں کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور ابی ضحی، عبداللہ حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا اے ابوعبدالرحمن کندہ کے دروازوں کے پاس ایک قصہ گو بیان کر رہا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے وہ دھواں آنے والا ہے پس وہ کفار کی سانسوں کو روک لے گا اور مومنین کے ساتھ صرف زکام کی کیفیت پیش آئے گی حضرت عبداللہ غصہ سے اٹھ بیٹھے پھر فرمایا اے لوگو اللہ سے ڈرو تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق ہی بیان کرے اور جو بات نہیں جانتا تو کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ تم میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جو جس بات کو نہ جانتا ہو اس کے بارے میں کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے پس بیشک اللہ رب العزت نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا آپ فرما دیں میں تم سے اس بات پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں میں سے بعضوں کی رو گردانی دیکھی تو فرمایا اللہ نے ان پر سات سالہ قحط نازل فرمایا جیسا کہ یوسف کے زمانہ میں سات سالہ قحط نازل ہوا تھا ابن مسعود (رض) نے کہا پس ان پر ایک سالہ قحط آیا جس نے ہر چیز کو ملیا میٹ کردیا یہاں تک کہ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور مردار کھائے گئے اور ان میں سے جو کوئی آسمان کی طرف نظر کرتا تھا تو دھوئیں کی سی کیفیت دیکھتا تھا پس آپ ﷺ کے پاس ابوسفیان حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد بیشک آپ اللہ کی اطاعت کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دینے کے لئے تشریف لائے ہیں اور بیشک آپ ﷺ کی قوم و برادری تحقیق ہلاک ہوچکی آپ ﷺ اللہ سے ان کے لئے دعا مانگیں اللہ رب العزت نے فرمایا آپ ﷺ انتظار کریں اس دن کا جس دن کھلم کھلا دھواں ظاہر ہوگا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا یہ دردناک عذاب ہے بیشک تم لوٹنے والے ہو تک نازل فرمائیں تو انہوں نے کہا کیا آخرت کا عذاب دور کیا جاسکتا ہے تو اللہ عزوجل نے فرمایا جس دن ہم پکڑیں گے بڑی گرفت کے ساتھ بیشک ہم بدلہ لینے والے ہوں گے پس اس پکڑ سے مراد بدر کے دن کی پکڑ ہے اور دھوئیں اور لزام (یعنی بدر کی دن کی گرفت و قتل) اور روم کی علامات کی نشانیاں گزر چکی ہیں۔

【44】

دھوئیں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ وکیع، ابوسعید اشج وکیع، عثمان بن ابی شیبہ جریر، اعمش، یحییٰ بن یحیی، ابوکریب ابومعاویہ اعمش، مسلم بن صبیح، عبداللہ حضرت مسروق (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا میں مسجد میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ آیا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتا ہے وہ اس آیت (یوم نبطش البطشہ) کہ جس دن آسمان پر واضح دھواں ظاہر ہوگا کی تفسیر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قیامت کے دن دھواں لوگوں کی سانسوں کو بند کر دے گا یہاں تک کہ ان کی زکام کی سی کیفیت ہوجائے گی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا جو آدمی کسی بات کا علم رکھتا ہو وہ وہی بات کہے اور جو نہ جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے پس بیشک آدمی کی عقلمندی یہ ہے کہ وہ جس بات کا علم نہ رکھتا ہو اس کے بارے میں کہے اللہ اعلم ان قریشیوں نے جب نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ ﷺ نے ان کے خلاف قحط پڑنے کی دعا کی جیسے کہ حضرت یوسف کے زمانہ کے لوگوں پر قحط اور مصیبت و تنگی آئی تھی یہاں تک کہ جب کوئی آدمی آسمان کی طرف نظر کرتا تو اپنے اور آسمان کے درمیان اپنی مصیبت کی وجہ سے دھواں دیکھتا تھا اور یہاں تک کہ انہوں نے ہڈیوں کو کھایا پس ایک آدمی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول مضر (قبیلہ) کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں پس بیشک وہ ہلاک ہوچکے ہیں آپ نے فرمایا تو نے مضر کے لئے بڑی جرات کی ہے پھر آپ نے اللہ سے ان کے لئے دعا مانگی تو اللہ رب العزت نے (إِنَّا کَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّکُمْ عَائِدُونَ ) ہم چند دنوں کے لئے عذاب روکنے والے ہیں (لیکن) تم پھر وہی کام سر انجام دو گے نازل فرمائی کہتے ہیں پس ان پر بارش برسائی گئی پس جب وہ خوشحال ہوگئے تو پھر وہ اسی کی طرف لوٹ گئے جس پر پہلے قائم تھے تو اللہ رب العزت نے یہ آیات (فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ) نازل کی۔

【45】

دھوئیں کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، جریر، اعمش، ابی ضحی مسروق حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جو کہ گزر چکی ہیں دھواں لزام (قیدوبند) ، (غلبہ) روم بطشہ (جنگ بدر) اور (شق) قمر۔

【46】

دھوئیں کے بیان میں

ابوسعید اشج وکیع، اعمش، ان اسناد سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔

【47】

دھوئیں کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر شعبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر شعبہ، قتادہ، عزرہ حسن عرنی یحییٰ حزار عبدالرحمن ابن ابی لیلی حضرت ابی بن کعب (رض) سے اللہ عزوجل کے قول وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنْ الْعَذَابِ الْأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ ) ہم ضرور بالضرور بڑے عذاب سے پہلے انہیں چھوٹے عذاب دیں گے کے بارے میں روایت ہے کہ اس سے مراد دنیا کی مصیبتیں (غلبہ) روم بطشہ (غزوہ بدر) یا دھواں ہے اور شعبہ کو بطشہ یا دخان میں شک ہے۔

【48】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

عمرو ناقد زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، ابن ابی نجیح مجاہد ابی معمر، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گواہ ہوجاؤ۔

【49】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب اسحاق بن ابراہیم، ابی معاویہ، عمر بن حفص بن غیاث ابی اعمش، منجاب بن حارث تمیمی ابن مسہر اعمش، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ کے ہمراہ منیٰ میں تھے کہ چاند پھٹ گیا دو ٹکڑوں میں پس ایک ٹکڑا تو پہاڑ کے پیچھے چلا گیا اور دوسرا دوسری طرف تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا گواہ ہوجاؤ۔

【50】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری ابی شعبہ، اعمش، ابراہیم، ابی معمر، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ مبارک میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا پس ایک ٹکڑے کو پہاڑ نے چھپالیا اور دوسرا ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے اللہ گواہ رہ۔

【51】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ ابی شعبہ، اعمش، مجاہد حضرت ابن عمر (رض) نے نبی ﷺ سے یہ حدیث مبارکہ اسی طرح روایت کی ہے۔

【52】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

بشر بن خالد محمد بن جعفر، محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، ابن معاذ شعبہ، ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ ابن ابی عدی کی حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایا تم گواہ ہوجاؤ تم گواہ ہوجاؤ۔

【53】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبد بن حمید یونس بن محمد شیبان قتادہ (رض) ، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ انہیں کوئی نشانی دکھائیں تو آپ ﷺ نے انہیں دو مرتبہ چاند کا پھٹنا دکھایا۔

【54】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

محمد بن رافع عبد الرزاق معمر، قتادہ، انس، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔

【55】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، ابوداؤد ابن بشار یحییٰ بن سعید محمد بن جعفر، ابوداؤد شعبہ (رض) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا اور ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑوں میں پھٹا۔

【56】

شق قمر کے معجزے کے بیان میں

موسیٰ بن قریش تمیمی اسحاق بن ابکر بن مضر ابی جعفر بن ربیعہ عراک بن مالک عبیداللہ بن عبداللہ عتبہ بن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چاند پھٹ گیا تھا۔

【57】

کافروں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ ابواسامہ اعمش، سعید بن جبیر ابوعبدالرحمن سلمی حضرت ابوموسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی بھی اللہ رب العزت سے بڑھ کر تکلیفوں پر صبر کرنے والا نہیں ہے کہ اس سے شریک کیا جاتا ہے اور اس کے لئے اولاد ثابت کی جاتی ہے پھر بھی وہ انہیں عافیت اور رزق عطا کرتا ہے۔

【58】

کافروں کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابوسعید اشج وکیع، اعمش، سعید بن جبیر ابوعبدالرحمن سلمی حضرت ابوموسی (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے البتہ اس میں انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اللہ کے لئے اولاد ثابت کی جاتی ہے۔

【59】

کافروں کے بیان میں

عبیداللہ بن سعید ابواسامہ اعمش، سعید بن جبیر ابوعبدالرحمن حضرت عبداللہ بن قیس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی تکلیف دہ باتوں کو سن کر ان پر صبر کرنے والا نہیں ہے کافر اللہ کے لئے ہمسر بناتے ہیں اور اس کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں پھر بھی وہ اس کے باوجود انہیں رزق اور عافیت اور (دوسری چیزیں) عطا کرتا ہے۔

【60】

کافروں سے زمین بھر کے برابر فدیہ طلب کرنے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری ابی شعبہ، ابوعمران جونی حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ جہنم والوں میں سے کم عذاب والوں سے فرمائے گا اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے لئے ہو تو کیا تو اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لئے وہ دے دے گا وہ کہے گا جی ہاں اللہ فرمائے گا کہ میں نے تجھ سے اس سے بھی کم ترین چیز کا مطالبہ اس وقت کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا کہ تو شرک نہ کرنا میرا گمان ہے کہ اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ کو جہنم میں نہ ڈالوں گا لیکن تو نے شرک کے سوا (باقی سب باتوں کا) انکار کیا۔

【61】

کافروں سے زمین بھر کے برابر فدیہ طلب کرنے کے بیان میں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابوعمر انس بن مالک (رض) اسی طرح حدیث روایت کرتے ہیں البتہ اس حدیث میں تجھ کو جہنم میں داخل نہ کروں گا مذکور نہیں۔

【62】

کافروں سے زمین بھر کے برابر فدیہ طلب کرنے کے بیان میں

عبیداللہ بن عمر قواریری اسحاق بن ابراہیم، محمد بن مثنی، ابن بشار اسحاق معاذ بن ہشام (رض) قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن کافر سے کہا جائے گا اگر تیرے لئے زمین بھر کے برابر سونا ہوتا تو کیا تو اسے عذاب سے بچنے کے لئے فدیہ کردیتا تو وہ کہے گا جی ہاں تو اس سے کہا جائے گا تجھ سے اس سے بھی آسان چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

【63】

کافروں سے زمین بھر کے برابر فدیہ طلب کرنے کے بیان میں

عبد بن حمید روح بن عبادہ عمرو بن زرارہ عبدالوہاب ابن عطاء، سعید بن ابی عروبہ قتادہ، حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اسے کہا جائے گا تو نے جھوٹ کہا حالانکہ تجھ سے اس سے آسان چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

【64】

کافر کو چہرے کے بل جمع کئے جانے کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبد بن حمید زہیر یونس بن محمد شیبان قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول قیامت کے دن کفار کو کیسے چہرے کے بل جمع کیا جائے گا آپ ﷺ نے فرمایا کیا وہ جو دنیا میں اسے پاؤں کے بل چلاتا ہے وہ قیامت کے دن اسے چہرے کے بل چلانے پر قادر نہیں ہے یہ حدیث سن کر قتادہ نے کہا کیوں نہیں ہمارے پروردگار کی عزت کی قسم۔

【65】

جہنم میں اہل دنیا کی نعمتوں کے اثر اور جنت میں دنیا کی سختیوں اور تکلیفوں کے اثر کے بیان میں

عمرو ناقد یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ ثابت، حضرت انس (رض) بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن جہنم والوں میں سے اس آدمی کو لایا جائے گا جو اہل دنیا میں سے بہت نعمتوں والا تھا پھر اس سے کہا جائے گا اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی بھلائی بھی دیکھی تھی کیا تجھے کبھی کوئی نعمت بھی ملی تھی وہ کہے گا اے میرے رب اللہ کی قسم نہیں اور اہل جنت میں سے اس آدمی کو پیش کیا جائے گا جسے دنیا میں لوگوں سے سب سے زیادہ تکلیفیں آئی ہوں گی پھر اسے جنت میں ایک دفعہ غوطہ دے کو پوچھا جائے گا اے ابن آدم کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف بھی دیکھی کیا تجھ پر کبھی کوئی سختی بھی گزری وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار اللہ کی قسم نہیں کبھی کوئی تکلیف میرے پاس سے نہ گزری اور نہ ہی میں نے کبھی کوئی شدت و سختی دیکھی۔

【66】

مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں اور آخرت میں ملنے اور کافر کی نیکیوں کا بدلہ صرف دنیا میں دیے جانے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، زہیر یزید بن ہارون، ہمام یحییٰ قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کسی مومن سے ایک نیکی کا بھی ظلم نہیں کرے گا دنیا میں اسے اس کا بدلہ عطا کیا جائے گا اور آخرت میں بھی اسے اس کا بدلہ عطا کیا جائے گا اور کافر کو دنیا میں ہی بدلہ عطا کردیا جاتا ہے جو وہ نیکیاں اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت میں فیصلہ ہوگا تو اس کے لئے کوئی نیکی نہ ہوگی جس کا اسے بدلہ دیا جاتا۔

【67】

مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں اور آخرت میں ملنے اور کافر کی نیکیوں کا بدلہ صرف دنیا میں دیے جانے کے بیان میں

عاصم بن نضر تیمی معتمر ابوقتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کافر کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اس کی وجہ سے دنیا سے ہی اسے لقمہ کھلا دیا جاتا ہے اور مومن کے لئے اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو آخرت کے لئے ذخیرہ کرتا رہتا ہے اور دنیا میں اپنی اطاعت پر اسے رزق عطا کرتا ہے۔

【68】

مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں اور آخرت میں ملنے اور کافر کی نیکیوں کا بدلہ صرف دنیا میں دیے جانے کے بیان میں

محمد بن عبداللہ رزی عبدالوہاب بن عطاء، سعید قتادہ، حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔

【69】

مومن اور کافر کی مثال کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی، معمر، زہری، سعید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال کھیتی کی طرح ہے کہ اسے ہمیشہ ہوا جھکاتی رہتی ہے اور مومن کو بھی مصیبتیں پہنچتی رہتی ہیں اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے جو حرکت نہیں کرتا یہاں تک کہ جڑ سے اکھیڑ دیا جاتا ہے۔

【70】

مومن اور کافر کی مثال کے بیان میں

محمد بن رافع عبد بن حمید معمر، زہری، عبدالرزاق، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔

【71】

مومن اور کافر کی مثال کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر محمد بن بشر زکریاء بن ابی زائدہ سعد بن ابراہیم، حضرت کعب بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال کھیتی کے سر کنڈے کی طرح ہے ہوا اسے جھونکے دیتی ہے ایک مرتبہ اسے گرا دیتی ہے اور ایک مرتبہ اسے سیدھا کردیتی ہے یہاں تک کہ خشک ہوجاتا ہے اور کافر کی مثال صنوبر کے اس درخت کی ہے جو اپنے تنے پر کھڑا رہتا ہے اسے کوئی بھی (ہوا) نہیں گراتی یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔

【72】

مومن اور کافر کی مثال کے بیان میں

زہیر بن حرب، بشر بن سری عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، عیینہ سعد بن ابراہیم، حضرت عبدالرحمن بن کعب (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال کھیتی کے سر کنڈے کی طرح ہے ہوا اسے جھونکے دیتی رہتی ہے کبھی اسے گرا دیتی اور کبھی سیدھا کردیتی ہے یہاں تک کہ اس کا مقررہ وقت آجاتا ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے جو اپنے اس تنے پر کھڑا رہتا ہے جسے کوئی آفت نہیں پہنچتی یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔

【73】

مومن اور کافر کی مثال کے بیان میں

محمد بن حاتم، محمود بن غیلان بشر بن سری سفیان، سعد بن ابراہیم، حضرت عبداللہ بن کعب (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے اسی طرح ارشاد فرمایا البتہ محمود نے بشر سے اپنی روایت میں کہا کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے اور ابن حاتم نے منافق کی مثال کہا ہے جیسا کہ زہیر نے کہا۔

【74】

مومن اور کافر کی مثال کے بیان میں

محمد بن بشار، عبداللہ بن ہاشم یحییٰ قطان سفیان، سعد بن ابراہیم، ابن ہاشم عبداللہ بن بشار ابن کعب ابن مالک اس سند سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ ان سب اسناد سے یہ مروی ہے کہ کافر کی مثال صنوبر کے درخت کی ہے۔

【75】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر سعدی یحییٰ اسماعیل ابن جعفر عبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے پس تم مجھے بیان کرو کہ وہ کونسا درخت ہے پس لوگوں کا خیال جنت کے درختوں کی طرف گردش کرنے لگا حضرت عبداللہ نے کہا میرے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے پس میں نے شرم محسوس کی پھر صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ہی ہمیں بتادیں وہ کون سا درخت ہے تو آپ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے کہتے ہیں پھر میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت عمر (رض) سے کیا تو انہوں نے کہا اگر تو کہہ دیتا کہ وہ کھجور کا درخت ہے تو یہ میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے زیادہ پسندیدہ ہوتا۔

【76】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

محمد بن عبید عنبری حماد بن زید ایوب ابی خلیل مجاہد حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ کرام سے فرمایا مجھے اس درخت کی خبر دو جس کی مثال مومن کی طرح ہے پس صحابہ نے جنگل کے درختوں کا ذکر کرنا شروع کردیا ابن عمر (رض) نے کہا میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ وہ کھجور کا درخت ہے پس میں نے اسے کہنے کا ارادہ کیا لیکن میں وہاں بڑے لوگوں کی وجہ سے بات کرنے سے ڈر گیا جب وہ سب خاموش ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

【77】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ ابن ابی عمر سفیان بن عیینہ، ابن ابی نجیح حضرت مجاہد (رض) سے روایت ہے کہ میں مدینہ تک حضرت ابن عمر (رض) کے ساتھ رہا پس میں نے ان سے ایک حدیث کے سوا کوئی حدیث رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے نہیں سنی انہوں نے کہا ہم نبی ﷺ کے پاس حاضر تھے آپ ﷺ کی خدمت میں کھجور کے درخت کا گودا پیش کیا گیا باقی حدیث اسی طرح ہے۔

【78】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ابن نمیر، ابی سفیف مجاہد حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کھجور کے درخت کا گودا پیش کیا گیا باقی حدیث اسی طرح ہے۔

【79】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شبہ ابواسامہ عبیداللہ بن عمر نافع حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ایسے درخت کی خبر دو جو مشابہ ہوتا ہے یا فرمایا مسلمان مرد کے مشابہ ہوتا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے ابراہیم نے کہا شاید کہ وہ مسلمان ہو امام مسلم نے کہا انہوں نے شاید یہ کہا وہ پھل دیتا ہے اور اسی طرح میں نے اپنے سے علاوہ کی روایات میں یہ پایا ہے کہ وہ ہر وقت پھل نہیں دیتا ابن عمر (رض) نے کہا پس میرے دل میں یہ بات واقع ہوگئی کہ وہ کھجور کا درخت ہوگا اور میں نے ابوبکر وعمر (رض) کو دیکھا کہ وہ نہیں بول رہے تو میں نے اس بارے میں کوئی بات کرنا پسند نہ کیا تو عمر (رض) نے فرمایا اگر تم بتا دیتے تو یہ فلاں فلاں چیز سے زیادہ (میرے نزدیک) پسندیدہ ہوتا۔

【80】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، اسحاق عثمان جریر، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک شیطان تحقیق مایوس ہوچکا ہے اس بات سے کہ نمازی حضرات اس کی جزیرہ عرب میں عبادت کریں لیکن وہ ان میں لڑائی اور فساد کرا دے گا۔

【81】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابوکریب ابومعاویہ اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔

【82】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ اسحاق ابراہیم، اسحاق عثمان جریر، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ابلیس کا تخت سمندر پر ہوتا ہے پس وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو فتنہ میں ڈالیں پس ان لشکر والوں میں سے اس کے نزدیک بڑے مقام والا وہی ہوتا ہے جو ان میں سب سے زیادہ فتنہ ڈالنے والا ہو۔

【83】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ابوکریب محمد بن علاء، اسحاق بن ابراہیم، ابوکریب ابومعاویہ اعمش، ابوسفیان، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے پس اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا کام) سر انجام نہیں دیا پھر ان میں سے ایک (اور) آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے ہاں ! تو ہے (جس نے بڑا کام کیا ہے) اعمش نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا وہ اسے اپنے سے چمٹا لیتا ہے۔

【84】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، معقل، ابی زبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے شیطان اپنے لشکریوں کو بھیجتا ہے وہ لوگوں میں فتنہ ڈالتے ہیں پس ان میں سے مرتبہ کے اعتبار سے وہی زیادہ بڑا ہوتا ہے جو ان میں سے فتنہ ڈالنے کے اعتبار سے بڑا ہو۔

【85】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ اسحاق بن ابراہیم، اسحاق عثمان جریر، منصور سالم بن ابی جعد حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا جن ساتھی مقرر کیا گیا ہے صحابہ کرام نے عرض کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا اور میرے ساتھ بھی مگر اللہ نے مجھے اس پر مدد فرمائی تو وہ مسلمان ہوگیا پس وہ مجھے نیکی ہی کا حکم کرتا ہے۔

【86】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ابن مثنی ابن بشار عبدالرحمن ابن مہدی سفیان، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم عمار بن رزیق منصور جریر، عمران سفیان، ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے البتہ سفیان کی حدیث میں ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ اس کا ساتھی جن اور ایک ساتھی فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔

【87】

مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہونے کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی ابن وہب، ابوصخر، ابن قسیط عروہ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے اٹھ کر چلے گئے جب مجھے اس پر غیرت آئی پس آپ تشریف لائے تو دیکھا کہ میں کیا کر رہی ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوا کیا تجھے غیرت آئی میں نے عرض کیا مجھے کیا ہے کہ مجھ جیسی عورت کو آپ ﷺ جیسے مرد پر غیرت نہ آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تیرے پاس تیرا شیطان آیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا میرے ساتھ شیطان ہے آپ نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کیا ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی ہے آپ نے فرمایا ہاں لیکن میرے رب نے اس کے خلاف میری مدد کی یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا۔

【88】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، بکیر بسر بن سعید حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات نہ دے گا ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بھی نہیں ! مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے گا لیکن تم سیدھی راہ پر گامزن رہو۔

【89】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

یونس بن عبدالاعلی صدفی عبداللہ بن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن اشج اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ اللہ اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ لے گا اور تم سیدھی راہ پر گامزن رہو مذکور نہیں۔

【90】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، حماد ابن زید ایوب محمد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کسی بھی آدمی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہ کرائے گا آپ ﷺ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بھی نہیں سوائے اس کے کہ میرا رب مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا۔

【91】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ابن عون محمد حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے اس کا عمل نجات دلوا دے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بھی نہیں مگر یہ کہ مجھے اللہ مغفرت اور رحمت سے ڈھانپ لے گا ابن عون نے کہا اس طرح اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے سر پر اشارہ کر کے بتایا اور مجھے بھی نہیں سوائے اس کے کہ اللہ مجھے اپنی مغفرت کے ساتھ ڈھانپ لے گا۔

【92】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، سہیل حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جسے اس کے اعمال نجات دیں صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ اپنی رحمت میں لے لے گا۔

【93】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

محمد بن حاتم، ابوعباد یحییٰ بن عباد ابراہیم بن سعد ابن شہاب ابی عبید مولیٰ عبدالرحمن بن عوف حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں کسی کو بھی اس کے اعمال جنت میں داخل نہ کرائیں گے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا مجھے بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے گا۔

【94】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابی اعمش، ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میانہ روی اختیار کرو اور سیدھی راہ پر گامزن رہو اور جان رکھو کہ تم میں کوئی بھی اپنے اعمال سے نجات حاصل نہ کرے گا صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ لے گا۔

【95】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

ابن نمیر، ابی اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر (رض) نے بھی نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث روایت کی ہے۔

【96】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔

【97】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابومعاویہ اعمش، ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے البتہ اضافہ یہ ہے کہ خوش ہوجاؤ۔

【98】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

سلمہ بن شبیب حسن بن اعین معقل ابی زبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں داخل نہ کریں گے اور نہ ہی اسے جہنم سے بچائیں گے اور نہ مجھے مگر یہ کہ اللہ کی طرف سے رحمت کے ساتھ۔

【99】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز بن محمد محمد بن حاتم، بہز وہیب موسیٰ بن عقبہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سیدہ عائشہ (رض) زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیدھی راہ پر گامزن رہو اور میانہ روی اختیار کرو اور خوشخبری دو کیونکہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہ کرائیں گے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا اور مجھے بھی نہیں سوائے اس کے کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے گا اور جان لو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ کم ہو۔

【100】

کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں

حسن حلوانی یعقوب بن ابراہیم بن سعد عبدالعزیز بن مطلب موسیٰ بن عقبہ اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ اس میں خوشخبری دو مذکور نہیں۔

【101】

اعمال کی کثرت اور عبادت میں پوری کوشش کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، زیاد بن علاقۃ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس طرح نماز پڑھی کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک سوج گئے تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا آپ ﷺ ایسی مشقت کیوں برداشت کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ (اگر بالفرض ہوں) معاف کردیئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

【102】

اعمال کی کثرت اور عبادت میں پوری کوشش کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، سفیان، زیاد بن علاقہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اتنا قیام فرمایا کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک میں ورم آگیا صحابہ نے عرض کیا تحقیق اللہ آپ ﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کرچکا ہے آپ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں

【103】

اعمال کی کثرت اور عبادت میں پوری کوشش کرنے کے بیان میں

ہارون بن معروف، ہارون بن سعید ایلی ابن وہب، ابوصخر، ابن قسیط عروہ بن زبیر (رض) سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ جب نماز پڑھتے تو اس قدر قیام فرماتے کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک پھٹ جاتے عائشہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ ﷺ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ آپ ﷺ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے عائشہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

【104】

وعظ ونصیحت میں میانہ روی اختیار کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ وکیع، ابن نمیر، ابومعاویہ اعمش، شقیق حضرت شقیق سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ کے دروازہ پر ان کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس سے یزید بن معاویہ نخعی کا گزر ہوا تو ہم نے کہا ( عبداللہ (رض) کو) ہمارے یہاں حاضر ہونے کی اطلاع دے دینا تھوڑی دیر بعد ہی حضرت عبداللہ (رض) ہمارے پاس تشریف لائے تو کہا مجھے تمہارے آنے کی اطلاع دی گئی اور مجھے تمہاری طرف آنے سے اس بات کے علاوہ کسی بات نے منع نہیں کیا کہ میں تمہیں تنگ دل کرنے کو پسند نہ کرتا تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے اکتا جانے کے خوف کی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے وعظ و نصیحت کا ناغہ کرلیا کرتے تھے۔

【105】

وعظ ونصیحت میں میانہ روی اختیار کرنے کے بیان میں

ابوسعید اشج ابن ادریس منجاب بن حارث تمیمی ابن مسہر اسحاق بن ابراہیم، علی بن خشرم عیسیٰ بن یونس، ابن ابی عمر سفیان، اعمش منجاب ابن مسہر اعمش، عمرو بن مرہ شقیق عبداللہ ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔

【106】

وعظ ونصیحت میں میانہ روی اختیار کرنے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور ابن ابی عمر حضرت شقیق ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ہمیں ہر جمعرات کے دن وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے تو ان سے ایک آدمی نے کہا اے ابوعبدالرحمن ہم آپ کی حدیثوں اور باتوں کو پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ و نصیحت کیا کریں تو انہوں نے کہا مجھے تمہارے اکتا جانے کے ڈر کے علاوہ کوئی بھی چیز احادیث روایت کرنے سے روکنے والی نہیں بیشک رسول اللہ ہمارے اکتا جانے کے خوف کی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے وعظ و نصیحت کا ناغہ کرلیا کرتے تھے۔