6. مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کا بیان

【1】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

ابوکامل، عبدالواحد، اعمش، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ زمین میں سب سے پہلی کونسی مسجد بنائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد حرام میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد کونسی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد اقصی میں نے عرض کیا ان دونوں مسجدوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال پھر جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو وہی مسجد ہے۔

【2】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

علی بن حجر سعدی، علی بن مسہر، اعمش، حضرت ابراہیم بن یزید تیمی سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کو مسجد سے باہر سائبان میں قرآن سنایا کرتا تھا۔ جب میں سجدہ کی آیت پڑھتا تھا تو وہ سجدہ کرلیتے میں نے اپنے والد سے کہا اے ابا جان کیا آپ راستہ ہی میں سجدہ کرلیتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے سنا ہے وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا زمین میں سب سے پہلی کونسی مسجد بنائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد حرام، میں نے عرض کیا پھر کونسی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد اقصی، میں نے عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال کا، پھر ساری زمین تیرے لئے مسجد ہے جہاں تو نماز کا وقت پائے تو نماز پڑھ لے۔

【3】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، سیار، یزید فقیر، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پہلے ہر نبی صرف خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں ہر سرخ اور سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہوں پہلے کسی نبی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں ہوتا تھا وہ صرف میرے لئے حلال کردیا گیا ہے اور صرف میرے لئے تمام روئے زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے لہذا جو آدمی جس جگہ بھی نماز کا وقت پائے وہاں نماز پڑھ لے اور میری ایسے رعب سے مدد کی گئی جو ایک ماہ کی مسافت سے طاری ہوجاتا ہے اور مجھ کو شفاعت عطا کی گئی۔

【4】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ہشیم، سیار، یزید فقیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

【5】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، ابی مالک اشجعی، ربعی، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمیں اور لوگوں پر تین چیزوں کی بناء پر فضیلت دی گئی ہے ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنادی گئی ہیں اور ہمارے لئے ساری روئے زمین مسجد بنادی گئی ہے اور اس کی مٹی ( پانی نہ ملنے کے وقت) ہمارے لئے پاک کرنے والی بنادی گئی اور ایک اور خصلت بیان فرمائی۔

【6】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

ابوکریب، محمد بن علاء، ابن ابی زائدہ، سعد بن طارق، ربعی بن خراش، حضرت حذیفہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔

【7】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، علی بن حجر، اسماعیل ابن جعفر، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ وجوہ سے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر فضیلت دی گئی ہے مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا اور میرے لئے تمام روئے زمین پاک کرنے والی اور نماز کی جگہ بنادی گئی اور مجھے تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (یعنی میں خاتم الانبیاء ہوں)

【8】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں جَوَامِعِ الْکَلِمِ کے ساتھ مبعوث کیا گیا، رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی، خواب میں زمین کے خزانوں کی چابیاں لا کر میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئیں، حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تو دنیا سے تشریف لے گئے اور تم وہ خزانے نکال رہے ہو۔

【9】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

حاجب بن ولید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، سعید بن مسیب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے حسب سابق حدیث نقل کی ہے۔

【10】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن مسیب، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی حدیث کی طرح نقل فرمایا۔

【11】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابویونس مولیٰ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دشمن کے مقابلہ میں رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور مجھے جَوَامِعِ الْکَلِمِ عطا فرمائے گئے اور سونے کی حالت میں زمین کے خزانوں کی چابیاں لا کر میرے ہاتھوں میں رکھ دی گئی ہیں۔

【12】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اس حدیث کا ذکر کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور مجھے جَوَامِعِ الْکَلِمِ عطا فرمائے گئے ہیں۔

【13】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحیی، عبدالوارث ابن سعید، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے اور شہر کے بالائی علاقہ کے ایک محلہ میں تشریف لے گئے آپ ﷺ نے وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ ﷺ نے قبیلہ بنو نجار کو بلوایا وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے حضرت انس (رض) کہتے ہیں یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا تھا آپ ﷺ اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر (رض) آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار آپ کے ارد گرد تھے آپ ﷺ حضرت ابوایوب کے گھر کے صحن میں اترے حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ ﷺ جہاں نماز کا وقت پاتے وہیں نماز پڑھ لیتے تھے یہاں تک کہ بکریوں کے باڑہ میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور بنو نجار کو بلوایا جب وہ آئے تو فرمایا تم اپنا باغ مجھے فروخت کردو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو آپ ﷺ سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں انہیں میں بتاتا ہوں اس میں کچھ کھجوروں کے درخت، مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے پس رسول اللہ ﷺ نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں اور کھنڈرات ہموار کر دئیے گئے اور کھجور کی لکڑیاں قبلہ کی طرف گاڑھ دی گئیں اور اس کے دونوں طرف پتھر لگا دئیے گئے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رجزیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔

【14】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عبنری، شعبہ، ابوتیاح، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے۔

【15】

مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہوں کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خالد بن حارث، شعبہ، ابی تیاح، انس ایک اور سند کے ساتھ حضرت انس (رض) نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان اسی طرح نقل کیا ہے۔

【16】

بیت المقدس سے کعبة اللہ کی طرف قبلہ بدلنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواحوص، ابی اسحاق، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف سولہ مہینہ تک نماز پڑھی یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ جو سورت البقرہ میں نازل ہوئی اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلو یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب نبی ﷺ نے نماز پڑھ لی لوگوں میں سے ایک آدمی یہ حکم سن کر چلا راستہ میں انصار کی ایک جماعت کو نماز پڑھتے ہوئے پایا اس آدمی نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو وہ لوگ سنتے ہی بیت اللہ کی طرف پھرگئے۔

【17】

بیت المقدس سے کعبة اللہ کی طرف قبلہ بدلنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابوبکر بن خلاد، یحییٰ ابن مثنی، یحییٰ بن سعید، سفیان، ابواسحاق، حضرت براء فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ مہینوں تک نماز پڑھی پھر ہمیں کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔

【18】

بیت المقدس سے کعبة اللہ کی طرف قبلہ بدلنے کے بیان میں

شیبان بن فروخ، عبدالعزیز بن مسلم، عبداللہ بن دینار، ابن عمر، قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن دینار، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ لوگ صبح کی نماز قباء میں پڑھ رہے تھے اسی دوران ایک آنے والے نے آکر کہا کہ رات کو رسول اللہ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے اور بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے پہلے ان کے منہ شام کی طرف تھے پھر کعبہ کی طرف گھوم گئے۔

【19】

بیت المقدس سے کعبة اللہ کی طرف قبلہ بدلنے کے بیان میں

سوید بن سعید، حفص بن میسرہ، موسیٰ بن عقبہ، نافع ابن عمر، عبداللہ بن دینار حضرت ابن عمر (رض) سے ایک اور سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔

【20】

بیت المقدس سے کعبة اللہ کی طرف قبلہ بدلنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے پس یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی تحقیق ہم آپ ﷺ کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا ہوا دیکھ رہے ہیں ہم ضرور آپ ﷺ کو اس طرف پھیر دیں گے جس طرف کا آپ ﷺ قبلہ پسند کرتے ہیں پس آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے، بنو سلمہ میں سے ایک آدمی ادھر سے گزر رہا تھا وہ فجر کی نماز میں رکوع کی حالت میں تھے اور ایک رکعت بھی پڑھ لی تھی اس آدمی نے بلند آواز سے کہا کہ قبلہ بدل گیا ہے یہ سنتے ہی وہ لوگ اسی حالت میں قبلہ کی طرف پھرگئے۔

【21】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید قطان، ہشام، ان کے والد، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور اس میں تصویریں لگی ہوئی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں کا یہی حال تھا کہ جب ان میں کوئی نیک مرجاتا تھا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہیں تصویر بناتے یہی لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں بدترین مخلوق ہوں گے۔

【22】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، وکیع، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات میں آپ ﷺ کے پاس لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے تو حضرت ام سلمہ (رض) اور حضرت ام حبیبہ (رض) نے بھی ایک گرجا کا ذکر کیا پھر وہی حدیث ذکر فرمائی جو گزر چکی۔

【23】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

ابوکریب، ابومعاویہ، ہشام، ان کے والد، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات نے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اسے ماریہ کہا جاتا ہے باقی حدیث وہی ہے جیسے گزر چکی۔

【24】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، ہاشم بن قاسم، شیبان، ہلال بن ابی حمید، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ ﷺ کھڑے نہیں ہوئے (یعنی دوبارہ تندرست نہیں ہوئے) اس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر آپ کو اس بات کا خیال نہ ہوتا تو آپ ﷺ اپنی قبر مبارک کو ظاہر کردیتے سوائے اس کے کہ آپ ﷺ کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں آپ ﷺ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔

【25】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، یونس، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہودیوں کو تباہ و برباد کر دے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔

【26】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

قتیبہ بن سعید، عبیداللہ بن اصم، یزید، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہود و نصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔

【27】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

ہارون بن سعید ایلی حرملہ بن یحیی، ہارون بن وہب، یونس ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ، حضرت عائشہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک پر چادر ڈال لی پھر جب گھبراہٹ ہوتی تو چہرہ مبارک سے چادر ہٹا دیتے اور فرماتے کہ یہود و نصاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا آپ ﷺ ڈرتے تھے کہ کہیں آپ ﷺ کی امت کے لوگ بھی ایسا نہ کرنے لگ جائیں۔

【28】

قبروں پر مسجد بنانے اور ان پر مردوں کی تصویریں رکھنے اور ان کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت کا بیان

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر، زکریا ابن عدی، عبیداللہ بن عمرو، زید بن ابی انیسہ، عمرو بن مرہ، عبداللہ بن حارث، حضرت جندب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے وصال سے پانچ دن پہلے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا تھا اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر (رض) کو بناتا آگاہ ہوجاؤ کہ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے روکتا ہوں۔

【29】

مسجد بنانے کی فضیلت اور اسکی ترغیب دینے کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، احمد بن عیسی، ابن وہب، عمرو، بکیر، عاصم بن عمر بن قتادہ، حضرت عبیداللہ خولانی فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) جس وقت رسول اللہ ﷺ کی مسجد بنانے لگے تو انہوں نے لوگوں کو اس میں باتیں کرتے سنا تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ تم نے مجھ پر بہت زیادتی کی ہے حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اللہ کے لئے مسجد بنائے گا راوی بکیر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا ابن عیسیٰ نے اپنی روایت میں کہا کہ اس جیسا جنت میں ایک مکان بنائے گا۔

【30】

مسجد بنانے کی فضیلت اور اسکی ترغیب دینے کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، ضحاک بن مخلد، عبدالحمید بن جعفر، محمود بن لبید، حضرت محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اس چیز کو برا سمجھا اور اس بات کو پسند کرنے لگے کہ اسے اسی حالت پر چھوڑ دیں تو حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ کے لئے مسجد بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں اس جیسا گھر بنائیں گے۔

【31】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

محمد بن علاء ہمدانی، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابراہیم، حضرت اسود اور حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم دونوں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے گھر میں آئے تو انہوں نے فرمایا کیا ان لوگوں نے تمہارے پیچھے نماز پڑھ لی ہے ہم نے کہا کہ نہیں انہوں نے فرمایا کہ اٹھو اور نماز پڑھو پھر ہمیں اذان کا اور اقامت کا حکم نہیں دیا ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو ہمارا ہاتھ پکڑ کر ایک کو دائیں طرف کردیا اور دوسرے کو بائیں طرف کردیا پھر جب رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے تو انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور ہتھیلیوں کو جوڑ کر رکھ دیا جب نماز پڑھائی تو فرمایا کہ تمہارے اوپر ایسے حکام مقرر ہوں گے جو نمازوں کو اس کے وقت سے تاخیر میں پڑھیں گے اور عصر کی نماز کو اتنا تنگ کردیں گے کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہوجائے گا لہذا جب تم ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھو تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھ لو اور پھر ان کے ساتھ دوبارہ نفل کے طور پر پڑھ لو اور جب تم تین آدمی ہو تو سب مل کر نماز پڑھ لو اور جب تین سے زیادہ ہو تو ایک آدمی امام بنے اور وہ آگے کھڑا ہو اور جب رکوع کرے تو اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور جھکے اور دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر رانوں میں رکھ لے گویا کہ میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کو دیکھ رہا ہوں۔

【32】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

منجاب بن حارث تیمی، ابن مسہر، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، محمد بن رافع، یحییٰ بن آدم، مفضل، اعمش، ابراہیم، علقمہ، اسود، عبداللہ، معاویہ، ابن مسہر، یہ روایت بھی ایک دوسری سند کے ساتھ الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【33】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، عبداللہ بن موسی، اسرائیل، منصور، ابراہیم، حضرت علقمہ (رض) اور حضرت اسود (رض) سے روایت ہے کہ یہ دونوں حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پیچھے والوں نے نماز پڑھی ہے انہوں نے کہا کہ ہاں پھر حضرت عبداللہ (رض) ان دونوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کیا پھر رکوع کیا تو ہم نے اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا حضرت عبداللہ (رض) نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور دونوں ہاتھوں کو ملا کر رانوں کے درمیان رکھا پھر جب نماز پڑھ لی تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا ہے۔

【34】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوکامل جحدری، قتیبہ، ابوعوانہ، ابویعفور، حضرت مصعب بن سعد (رض) سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ کے پہلو میں نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ گھٹنوں کے درمیان رکھے تو میرے باپ نے میرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ، وہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے دوسری مرتبہ اس طرح کیا تو انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا کہ ہمیں اس سے روک دیا گیا ہے اور ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

【35】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

خلف بن ہشام، ابواحوص، ابن ابی عمر، سفیان، ابویعفور، اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【36】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسماعیل، ابوخالد، زبیر بن عدی، حضرت مصعب (رض) بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رکوع کیا پھر میں نے دونوں ہاتھوں کو ملا کر رانوں کے درمیان رکھ لیا میرے باپ نے کہا کہ پہلے ہم ایسے ہی کرتے تھے پھر ہمیں بعد میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔

【37】

رکوع کی حالت میں ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنے اور تطبیق کے منسوخ ہونے کے بیان میں

حکم بن موسی، عیسیٰ بن یونس، اسماعیل بن ابی خالد، زبیر ابن عدی، حضرت مصعب بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کے پہلو میں نماز پڑھی پھر جب میں نے رکوع کیا تو میں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈال کر دونوں گھٹنوں کے درمیان رکھ لیا انہوں نے میرے ہاتھ پر مارا پھر جب نماز پڑھ لی تو فرمایا کہ پہلے ہم اسی طرح کرتے تھے پھر ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔

【38】

نماز میں ایڑیوں پر بیٹھنے کے جائز ہونے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بکر، حسن حلوانی، عبدالرزاق، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت طاؤس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس (رض) سے قدموں پر بیٹھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تو سنت ہے ہم نے عرض کیا کہ ہم تو اس طرح بیٹھنے میں مشقت کا سبب خیال کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) فرمانے لگے یہ تو تمہارے نبی ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔

【39】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

ابوجعفر، محمد بن صباح، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن ابراہیم، حجاج صواف، یحییٰ بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، معاویہ ابن حکم سلمی (رض) سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے (یَرحَمُکَ اللہ) کہہ دیا تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا میں نے کہا کاش کہ میری ماں مجھ پر رو چکی ہوتی تم مجھے کیوں گھور رہے ہو یہ سن کر وہ لوگ اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے لگے پھر جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہوگیا جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے میرا باپ اور میری ماں آپ ﷺ پر قربان میں نے آپ ﷺ سے پہلے نہ ہی آپ کے بعد آپ ﷺ سے بہتر کوئی سکھانے والا دیکھا اللہ کی قسم نہ آپ ﷺ نے مجھے جھڑکا اور نہ ہی مجھے مارا اور نہ ہی مجھے گالی دی پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز میں لوگوں سے باتیں کرنی درست نہیں بلکہ نماز میں تو تسبیح اور تکبیر اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے زمانہ جاہلیت پایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا ہے ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تم ان کے پاس نہ جاؤ میں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ برا شگون لیتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کو وہ لوگ اپنیدل میں پاتے ہیں تم اسطرح نہ کرو پھر میں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا انبیا کرام میں سے ایک نبی بھی لکیریں کھیچتے تھے تو جس آدمی کا لکیر کھینچھنا اس کے مطابق ہو وہ صحیح ہے۔ (لیکن اس طرح لکیر کھینچنا کسی کو معلوم نہیں اس لئے حرام ہے) راوی معاویہ کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے علاقوں میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا میری ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا ہے آخر میں بھی بنی آدم سے ہوں مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح کہ دوسرے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا مجھ پر یہ بڑا گراں گزرا اور میں نے عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں آپ ﷺ نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ میں اسے آپ ﷺ کے پاس لے آیا آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اس لونڈی نے کہا آسمان میں آپ ﷺ نے اس سے پوچھا میں کون ہوں اس لونڈی نے کہا کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں آپ ﷺ نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔

【40】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، حضرت یحییٰ بن کثیر سے اس سند کے ساتھ اسی طرح ایک روایت نقل کی گئی ہے۔

【41】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، ابوسعید اشج، ابن فضیل، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں نماز کی حالت میں سلام کرلیا کرتے تھے اور آپ ﷺ ہمیں سلام کا جواب بھی دیا کرتے تھے پھر جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے تو ہم نے آپ ﷺ پر سلام کیا تو آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم نماز میں آپ ﷺ پر سلام کرتے تھے تو آپ ﷺ ہمیں سلام کا جواب بھی دیتے تھے آپ ﷺ نے فرمایا کہ نماز ہی میں مشغول رہنا چاہئے۔ (نماز میں تسبیحات اور قرأت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنی چاہئے)

【42】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

ابن نمیر، اسحاق بن منصور سلوالی، ہریم بن سفیان، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ اس طرح کی ایک اور روایت نقل کی گئی ہے۔

【43】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد، حارث بن شبیل، ابوعمرو شیبانی، زید بن حارث بن شبیل، ابوعمرو شیبانی، حضرت زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نماز میں باتیں کیا کرتے تھے ہر آدمی نماز میں اپنے ساتھ والے سے باتیں کرتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اللہ کے سامنے خاموش کھڑے ہوجاؤ پھر آپ ﷺ نے ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا اور نماز میں بات کرنے سے روک دیا۔

【44】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، وکیع، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اسماعیل بن خالد، اس سند کے ساتھ اسی طرح کی ایک اور روایت نقل کی گئی ہے۔

【45】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا پھر میں واپس آیا تو آپ ﷺ چل رہے تھے راوی قتیبہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو میں نے آپ ﷺ پر سلام کیا آپ نے مجھے اشارہ سے جواب دیا جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور پھر مجھے فرمایا کہ تو نے مجھے نماز کی حالت میں سلام کیا تھا اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مبارک مشرق کی طرف تھا۔

【46】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

احمد بن یونس، زہیر، ابوزبیر، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا اور آپ ﷺ بنی مصطلق کی طرف جا رہے تھے جب میں واپس آیا تو آپ ﷺ اپنے اونٹ پر نماز پڑھ رہے تھے پھر میں نے بات کی تو آپ ﷺ نے اس طرح اشارہ کیا زہیر راوی کہتے ہیں کہ جس طرح آپ ﷺ نے اشارہ کیا اسی طرح اشارہ کر کے میں نے بتایا میں نے پھر بات کی تو آپ نے مجھ سے اشارہ اس طرح فرمایا۔ راوی زہیر نے اس کو بھی زمین کی طرف اشارہ کر کے کے بتایا اور میں سن رہا تھا کہ آپ ﷺ قرآن مجید پڑھ رہے ہیں اپنے سر سے اشارہ کر رہے ہیں پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کام کے لئے میں نے تجھے بھیجا تھا اس کام کا کیا کیا ؟ اور میں نماز میں تھا جس کی وجہ سے میں تجھ سے بات نہیں کرسکا راوی زہیر کہتے ہیں کہ ابوالزبیر قبلہ کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھے تھے تو ابوالزبیر نے اپنے ہاتھ کے ساتھ بنی مصطلق کی طرف اشارہ کیا اور اپنے ہاتھ (کے اشارہ) سے بتایا کہ وہ کعبہ کی طرف نہیں تھے۔

【47】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

ابوکامل، جحدری، حماد بن زید، کثیر بن عطاء، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ ﷺ نے مجھے ایک کام سے بھیجا جب میں واپس آیا تو آپ ﷺ اپنی سواری پر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ ﷺ کا چہرہ مبارک قبلہ کی طرف بھی نہیں تھا میں نے آپ ﷺ پر سلام کیا تو آپ ﷺ نے مجھے سلام کا جواب نہیں دیا پھر جب نماز سے فارغ ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ میں نماز میں تھا جس کی وجہ سے میں تمہارے سلام کا جواب نہ دے سکا۔

【48】

نماز میں کلام کی حرمت اور کلام کے مباح ہونے کی تنسیخ کے بیان میں

محمد بن حاتم، معلی بن منصور، عبدالوارث بن سعید، کثیر بن شنظیر، عطاء، حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک کام کے لئے بھیجا باقی حدیث وہی ہے جو گزر چکی ہے۔

【49】

دوران نماز شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنا اور نماز میں عمل قلیل کرنے کے جواز میں۔

اسحاق بن ابراہیم، اسحاق بن منصور، نضر بن شمیل، شعبہ، محمد بن زیاد، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گزشتہ رات ایک بڑا جن میری نماز توڑنے کے لئے میری طرف بڑھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میرے قبضہ میں کردیا میں نے اس کا گلا دبا دیا اور میں نے ارادہ کیا کہ میں اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ جب صبح ہو تو سب لوگ اسے دیکھ لیں پھر مجھے میرے بھائی حضرت سلیمان کی یہ دعا یاد آگئی اے پروردگار مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نہ ملے پھر اللہ تعالیٰ نے اس جن کو ذلیل ورسوا کرتے ہوئے بھگا دیا۔

【50】

دوران نماز شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنا اور نماز میں عمل قلیل کرنے کے جواز میں۔

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، ابوبکر بن ابی شیبہ، شبابہ، شعبہ، ابن جعفر، حضرت شیبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【51】

دوران نماز شیطان پر لعنت کرنا اور اس سے پناہ مانگنا اور نماز میں عمل قلیل کرنے کے جواز میں۔

محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید، ابی ادریس خولانی، ابودرداء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ( أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْکَ ) آپ ﷺ فرماتے تھے میں اللہ تعالیٰ کی تجھ سے پناہ مانگتا ہوں پھر فرمایا کہ میں تجھ پر تین مرتبہ اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ پھیلایا جیسے کوئی چیز لے رہے ہوں جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم نے آپ ﷺ سے نماز میں کچھ کہتے ہوئے سنا جو اس سے پہلے کبھی نہیں سنا اور ہم نے آپ ﷺ کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے بھی دیکھا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ میرا منہ جلائے تو میں نے ( أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْکَ ) تین مرتبہ کہا پھر میں نے کہا کہ میں تجھ پر اللہ تعالیٰ کی پوری لعنت بھیجتا ہوں وہ تین مرتبہ تک پیچھے نہیں ہٹا پھر میں نے اسے پکڑنے کا ارادہ کیا اللہ کی قسم اگر ہمارے بھائی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینہ والوں کے لڑکے اس کے ساتھ کھیلتے۔

【52】

نماز میں بچوں کے اٹھانے کے جواز اور جب تک ناپاکی ثابت نہ ہو کپڑوں کے پاک ہونے اور علم قلیل اور اس طرح کے متفرق افعال سے نماز کے باطل نہ ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب، قتیبہ بن سعید، مالک بن عامر، عبداللہ بن زبیر، یحییٰ بن یحیی، مالک، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم زرقی، ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ امامہ (جو کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت زیبب (رض) کی بیٹی ہیں) کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے یہ حضرت ابوالعاص (رض) کی بیٹی تھیں جب آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے اور جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو اسے زمین پر بٹھا دیتے۔

【53】

نماز میں بچوں کے اٹھانے کے جواز اور جب تک ناپاکی ثابت نہ ہو کپڑوں کے پاک ہونے اور علم قلیل اور اس طرح کے متفرق افعال سے نماز کے باطل نہ ہونے کے بیان میں

محمد بن ابی عمر، سفیان عثمان بن ابی سلیمان، ابن عجلان، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم زرقی ابوقتادہ انصاری سے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کا امام بنے ہوئے اور امامہ حضرت ابوالعاص (رض) کی بیٹی اور آپ ﷺ کی (نواسی) آپ ﷺ کی بیٹی حضرت زینب (رض) کی بیٹی کو آپ ﷺ کے کندھے پر بیٹھا دیکھا اور جب آپ رکوع کرتے تو اسے آپ ﷺ نیچے بٹھا دیتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو پھر اسے اپنے کندھے پر بٹھا لیتے۔

【54】

نماز میں بچوں کے اٹھانے کے جواز اور جب تک ناپاکی ثابت نہ ہو کپڑوں کے پاک ہونے اور علم قلیل اور اس طرح کے متفرق افعال سے نماز کے باطل نہ ہونے کے بیان میں

ابوطاہر، ابن وہب، مخرمہ بن بکیر، ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، مخرمہ، عمرو بن سلیم، ابوقتادہ انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے دیکھا اور حضرت ابوالعاص (رض) کی بیٹی امامہ آپ ﷺ کی گردن پر تھیں پھر جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو اسے نیچے بٹھا دیتے۔

【55】

نماز میں بچوں کے اٹھانے کے جواز اور جب تک ناپاکی ثابت نہ ہو کپڑوں کے پاک ہونے اور علم قلیل اور اس طرح کے متفرق افعال سے نماز کے باطل نہ ہونے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن مثنی، ابوبکر حنفی، عبدالحمید بن جعفر، سعید مقبری، عمرو بن سلیم، ابوقتادہ انصاری فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لے آئے باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزری لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ آپ ﷺ نماز میں لوگوں کے امام بنے۔

【56】

نماز میں ایک دو قدم چلنے اور کسی ضرورت کے وجہ سے امام کا مقتدیوں سے (نسبتاً) بلند جگہ پر ہونے کے بیان میں۔

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، یحیی، عبدالعزیز بن ابی حازم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد (رض) کے پاس آئے اور منبر کے بارے میں آپس میں جھگڑنے لگے کہ وہ کس لکڑی کا تھا انہوں نے کہا اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کس قسم کی لکڑی کا تھا اور کس نے اسے بنایا تھا اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو پہلے دن اس پر بیٹھے ہوئے دیکھا میں نے اس سے کہا اے ابوالعباس ہمیں بیان کرو۔ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی طرف اپنا قاصد بھیجا راوی ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد (رض) اس دن اس عورت کا نام لے رہے تھے، کہ تو اپنے لڑکے کو جو کہ بڑھئی ہے کہہ دے کہ میرے لئے ایک منبر بنا دے کہ جس پر میں بیٹھ کر لوگوں سے بات کروں چناچہ اس لڑکے نے تین سیڑھیوں کا ایک منبر بنادیا پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر وہ منبر اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور منبر کی لکڑی غابہ کے مقام کی جھاؤ کی لکڑی تھی اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور آپ ﷺ منبر پر تھے پھر آپ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھایا الٹے پاؤں نیچے اتر کر منبر کی جڑ میں سجدہ کیا پھر آپ ﷺ لوٹے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوگئے پھر آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے لوگو میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تم میری اقتدا کرو اور تم میری طرح نماز پڑھنا سیکھ لو۔

【57】

نماز میں ایک دو قدم چلنے اور کسی ضرورت کے وجہ سے امام کا مقتدیوں سے (نسبتاً) بلند جگہ پر ہونے کے بیان میں۔

قتیبہ بن سعید، یعقوب بن عبدالرحمن بن محمد، عبداللہ بن عبدالقاری قرشی، ابوحازم، سہل بن سعد ساعدی، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ابوحازم سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【58】

نماز کے دوران کوکھ پر ہاتھ رکھنے کی ممانعت کے بیان میں

حکم بن موسی، عبداللہ بن مبارک، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد، ابواسامہ، ہشام، محمد، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی نماز کی حالت میں کوکھ پر ہاتھ رکھے اور ابوبکر کی روایت میں ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

【59】

نماز کی حالت میں کنکریاں صاف کرنے اور مٹی برابر کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، معیقیب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سجدہ کی جگہ میں سے کنکریاں صاف کرنے کے بارے میں فرمایا کہ اگر تمہیں ایسا کرنا ہی پڑجائے تو صرف ایک بار کرو۔

【60】

نماز کی حالت میں کنکریاں صاف کرنے اور مٹی برابر کرنے کی ممانعت کے بیان میں

محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، معیقب فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ سے نماز میں کنکریاں صاف کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ۔

【61】

نماز کی حالت میں کنکریاں صاف کرنے اور مٹی برابر کرنے کی ممانعت کے بیان میں

عبیداللہ بن عمرقواریری، خالد بن حارث، ہشام اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【62】

نماز کی حالت میں کنکریاں صاف کرنے اور مٹی برابر کرنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسی، شیبان، یحیی، ابوسلمہ، معیقب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سجدہ والی جگہ سے مٹی برابر کرنے والے ایک آدمی سے فرمایا اگر تمہیں ایسا کرنا ہی پڑجائے تو ایک مرتبہ کرو۔

【63】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلہ کی طرف دیوار میں تھوک لگا ہوا دیکھا آپ ﷺ نے اسے کھرچ دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے چہرے کے سامنے نہ تھوکے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے سامنے ہوتے ہیں جب وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے۔

【64】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، ابن نمیر، عبیداللہ، قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح، لیث، بن سعد، زہیر بن حرب، اسماعیل ابن علیہ، ایوب ابن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک ابن عثمان، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر سے نبی سے اس سند کے ساتھ کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح حدیث نقل کی ہے۔

【65】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، سفیان، یحیی، سفیان بن عیینہ، زہری، حمید بن عبدالرحمن، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں قبلہ رخ میں بلغم لگا دیکھا آپ ﷺ نے اسے ایک کنکری کے ساتھ کھرچ دیا پھر آپ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ آدمی اپنی دائیں طرف یا اپنے سامنے کی طرف تھوکے بلکہ بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔

【66】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابوہریرہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【67】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلہ رخ والی دیوار میں تھوک یا بلغم لگا دیکھا تو آپ ﷺ نے اسے کھرچ دیا۔

【68】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن علیہ، زہیر، ابن علیہ، قاسم بن مہران، ابورافع، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں قبلہ میں تھوک دیکھا تو آپ ﷺ نے لوگوں سے متوجہ ہو کر فرمایا تم لوگ کیا کرتے ہو کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو پھر وہ اپنے سامنے تھوکتا ہے کیا تم میں سے کوئی آدمی پسند کرتا ہے کہ کوئی آدمی اس کی طرف منہ کر کے اس کے منہ میں تھوک دے جب تم میں سے کسی کو تھوک آئے تو اپنی بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے اور اگر اس طرح نہ کر پائے تو اس طرح کرے راوی قاسم نے اس طرح کر کے بتایا کہ اپنے کپڑے میں تھوکے پھر اسے صاف کر دے۔

【69】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحییٰ بن یحیی، ہشیم، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قاسم بن مہران، ابورافع، ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے ابن علیہ کی روایت کی طرح نقل کیا ہے اور اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ اپنے کپڑے کو کھرچ رہے ہیں۔

【70】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اس لئے نہ تو وہ اپنے سامنے تھوکے اور نہ اپنے دائیں طرف اور لیکن اپنے بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے۔

【71】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، یحیی، قتیبہ، ابوعوانہ، قتادہ، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ہے۔

【72】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قتادہ (رض) سے مسجد میں تھوکنے کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت انس (رض) بن مالک (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ہے۔

【73】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، شیبان بن فروخ، مہدی ابن میمون، واصل ابی عیینہ، یحییٰ بن عقیل، یحییٰ بن یعمر، ابواسود دیلی، حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میری امت کے اچھے اور برے اعمال مجھ پر پیش کئے گئے تو میں نے ان کے اچھے اعمال میں سے اچھا عمل راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیز کا دور کردینا پایا اور میں نے ان کے برے اعمال میں سے مسجد میں تھوکنا اور اس کا دفن نہ کرنا پایا۔

【74】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، کہمس، یزید بن عبداللہ بن شخیر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے تھوکا اور پھر اپنے جوتے سے اسے مسل دیا۔

【75】

مسجد میں نماز کی حالت میں اور نماز کے علاوہ تھوکنے کی ممانعت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یزید بن زریع، جریری، ابی علاء یزید بن عبداللہ بن شخیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے تھوکا پھر اپنے بائیں جوتے سے مسل دیا۔

【76】

جوتے پہن کر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، بشر بن مفضل، ابومسلمہ، سعید بن یزید فرماتے ہیں میں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے عرض کیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ جوتے پہن کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے تو حضرت انس (رض) نے فرمایا ہاں۔

【77】

جوتے پہن کر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

ابوربیع، زہرانی، عباد بن عوام، سعید بن یزید، ابوسلمہ اس سند کے ساتھ حضرت سعد بن یزید نے فرمایا میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا۔

【78】

نقش ونگار والے کپڑے میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش ونگار تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا ان نقش ونگار نے مجھے اپنے میں مشغول کردیا ہے پس جاؤ ابی جہم کو یہ چادر دے دو مجھے اس کی چادر لا دو ۔

【79】

نقش ونگار والے کپڑے میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسی چادر میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے کہ جس کے اوپر نقش ونگار تھے آپ کی نظر مبارک اس چادر کے نقش ونگار کی طرف پڑگئی جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ جاؤ اس چادر کو ابوجہم بن حذیفہ کو دے دو اور ان کی چادر مجھے لا دو کیونکہ اس چادر نے میری نماز میں خلل ڈال دیا ہے۔

【80】

نقش ونگار والے کپڑے میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس نقش ونگار والی ایک چادر تھی جس کی وجہ سے نماز میں آپ ﷺ کو خلل محسوس ہوا آپ ﷺ نے وہ چادر ابوجہم کو دے دی اور ان کی سادہ چادر ان سے لے لی۔

【81】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب شام کا کھانا سامنے ہو اور نماز بھی کھڑی ہونے والی ہو تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے کھانا کھالو اور کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی نہ کرو۔

【82】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، ابن شہاب، انس بن مالک (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب شام کا کھانا سامنے ہو اور نماز بھی کھڑی ہونے والی ہو تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے کھانا کھالو اور کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی نہ کرو۔

【83】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، حفص، وکیع، ہشام اس سند کے ساتھ حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے ابن عیینہ عن الزہری عن انس (رض) کی طرح حدیث نقل کی ہے۔

【84】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

ابن نمیر، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، عبیداللہ، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی آدمی کے سامنے شام کا کھانا رکھ دیا جائے اور نماز بھی کھڑی ہونے لگی ہو تو پہلے شام کا کھانا کھالو اور جلدی نہ کرو جب تک کہ کھانے سے فارغ نہ ہوجاؤ۔

【85】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

محمد بن اسحاق مسیبی، انس ابن عیاض، موسیٰ بن عقبہ، ہارون بن عبداللہ، حماد بن مسعدہ، ابن جریج، صلت بن مسعود، سفیان بن موسی، ایوب، نافع، ابن عمر سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔

【86】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

محمد بن عباد، حاتم بن اسماعیل، یعقوب بن مجاہد، ابن ابی عتیق فرماتے ہیں کہ میں اور قاسم حضرت عائشہ (رض) کے پاس ایک حدیث بیان کرنے لگے اور قاسم بہت باتیں کرنے والے آدمی تھے اور اس کی ماں ام ولد تھیں حضرت عائشہ (رض) نے اس سے فرمایا کہ تجھے کیا ہوا کہ تم میرے اس بھتیجے کی بات کیوں نہیں کرتے ؟ میں جانتی ہوں کہ تو کہاں سے آیا ہے، اسے اس کی ماں نے ادب سکھایا ہے اور تجھے تیری ماں نے ادب سکھایا ہے، یہ سن کر قاسم غصہ میں آگیا اور حضرت عائشہ (رض) پر اس کا اظہار بھی کیا، جب قاسم نے دیکھا کہ حضرت عائشہ (رض) کا دستر خوان لگ رہا ہے تو قاسم اٹھ کھڑے ہوئے تو حضرت عائشہ (رض) نے اس سے فرمایا کہاں جا رہے ہو قاسم نے کہا نماز پڑھنے کے لئے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا بیٹھ جاؤ، قاسم نے کہا میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اے بےوفا بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کھانا سامنے ہو اور پیشاب یا پاخانہ کا تقاضا ہو تو نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔

【87】

کھانا سامنے موجود ہو اور اسے کھانے کو بھی دل چاہتا ہو ایسی حالت میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، ابوحزرہ، عبداللہ بن ابی عتیق، حضرت عائشہ (رض) نے نبی ﷺ سے اس طرح حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں قاسم کے واقعہ کو ذکر نہیں کیا۔

【88】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

محمد بن مثنی، زہیر بن حرب، یحییٰ قطان، عبیداللہ، نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خبیر میں فرمایا کہ جس نے اس درخت سے کھایا یعنی لہسن کو کھایا تو وہ مسجد میں نہ آئے راوی زہیر نے غزوہ کا ذکر کیا اور خبیر کا ذکر نہیں کیا۔

【89】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، محمد بن عبداللہ بن نمیر، عبیداللہ بن نافع، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس ترکاری کو کھایا تو وہ ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے یعنی لہسن۔

【90】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

زہیر بن حرب، اسماعیل ابن علیہ، عبدالعزیز، ابن صہیب فرماتے ہیں کہ حضرت انس (رض) سے لہسن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس درخت سے کھایا تو وہ نہ ہمارے قریب آئے اور نہ ہی ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔

【91】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

محمد بن رافع، عبد بن حمید، عبد، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس درخت سے کھایا تو وہ نہ ہماری مسجد کے قریب آئے اور نہ ہی لہسن کی بدبو سے ہمیں تکلیف دے۔

【92】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، کثیر بن ہشام دستوائی، ابوزبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع فرمایا ہمیں ان کے کھانے کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے کھالیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو اس بدبو دار درخت میں سے کھالے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو ان چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے جن چیزوں سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے۔

【93】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

ابوطاہر، حرملہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عطاء بن ابی رباح، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے پیاز یا لہسن کھایا وہ ہم سے علیحدہ رہے یا ہماری مسجد سے علیحدہ رہے اور اسے چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے ایک مرتبہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میں سالن تھا آپ ﷺ نے اس میں بدبو محسوس کی آپ ﷺ نے اس سالن کے بارے میں پوچھا کہ اس میں کیا ہے آپ ﷺ کو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ میں نے سے ایک صحابی کے ہاں اسے بھیجنے کا حکم فرمایا چونکہ آپ ﷺ نے اس کھانے کو ناپسند فرمایا اس لئے آپ ﷺ کے اس صحابی نے بھی اس کھانے کو ناپسند فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم کھاؤ کیونکہ میں فرشتوں سے مناجات کرتا ہوں تم ان سے مناجات نہیں کرتے۔

【94】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، عطا، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس لہسن کے درخت میں سے کھایا اور ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے پیاز، لہسن اور گندنا کھایا تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔

【95】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بکر، محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں پیاز اور گندنا کا ذکر نہیں ہے۔

【96】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

عمرو ناقد، اسماعیل بن علیہ، جریری، ابی نضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ابھی تک ہم واپس نہ لوٹے تھے کہ خیبر فتح ہوگیا اس دن رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اس لہسن کے درخت پر گرپڑے اور لوگ اس دن بھوکے تھے تو ہم نے بہت زیادہ لہسن کھالیا پھر ہم مسجد کی طرف آئے تو رسول اللہ ﷺ نے بدبو محسوس کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس خبیث درخت سے کچھ کھایا تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے لوگ کہنے لگے کہ لہسن حرام ہوگیا تو یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لوگو میں اس چیز کو حرام نہیں کرتا جسے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کردیا ہو لیکن یہ لہسن کا درخت ایسا ہے کہ اس کی بدبو مجھے ناپسند ہے۔

【97】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

ہارون بن سعید ایلی، احمد بن عیسی، ابن وہب، عمرو، بکیر بن اشج، ابن خباب، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ اپنے صحابہ کے ساتھ پیاز کے کھیت پر سے گزرے ان میں سے کچھ لوگوں نے کھیت میں سے پیاز کھایا اور کچھ لوگوں نے نہیں کھایا پھر ہم آپ ﷺ کی طرف آگئے آپ نے ان لوگوں کو بلا لیا جنہوں نے پیاز نہیں کھایا اور دوسروں کو نہیں بلایا جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی گئی۔

【98】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، ہشام، قتادہ، سالم بن ابی جعد، معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماریں اور میں اسے یہی خیال کرتا ہوں کہ میری موت قریب ہے کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور خلافت اور اس چیز کو جسے دے کر اپنے نبی ﷺ کو بھیجا ہے ضائع نہیں کرے گا اگر میری موت جلد ہی آجائے تو خلافت مشورہ کے بعد ان چھ حضرات کے درمیان رہے گی جن سے رسول اللہ ﷺ اپنی وفات تک راضی رہے اور میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اس معاملہ میں جن کو خود میں نے اپنے ہاتھ سے مارا ہے اسلام پر طعن کریں گے اگر انہوں نے اس طرح کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے دشمن اور کافر گمراہ ہیں اور میں اپنے بعد کسی چیز کو اتنا اہم نہیں سمجھتا جتنا اہم میرے نزدیک کلالہ ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا کہ کلالہ کے بارے میں پوچھا اور آپ ﷺ نے کسی چیز میں اتنی سختی نہیں فرمائی جتنی کہ اس مسئلہ میں یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی مبارک میرے سینے میں ماری پھر فرمایا اے عمر کیا تجھے وہ آیت کافی نہیں جو گرمیوں کے موسم میں سورت النسا کے آخر میں نازل ہوئی (یَستَفتُونَکَ قُلِ اللہ یُفتِیکُم فِی الکَلا لَہ) آپ ﷺ سے حکم پوچھتے ہیں فرما دیں کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے اور اگر میں زندہ رہا تو کلالہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا جس کے متعلق ہر آدمی جس نے قرآن پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ اے اللہ تو ان لوگوں پر گواہ رہنا کہ جنہیں میں نے شہروں کی حکومت دی اور میں نے انہیں اسی لئے بھیجا ہے کہ وہ ان پر انصاف کریں اور ان لوگوں کو دین کی باتیں سکھائیں اور ان کو نبی ﷺ کی سنت سکھائیں اور جو مال غنیمت ان کو ملے اسے تقسیم کریں اور جس معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے تو میری طرف رجوع کریں پھر (فرمایا) اے لوگو ! تم دو درختوں کو کھاتے ہو۔ میں ان کو خبیث سمجھتا ہوں، یہ درخت پیاز اور لہسن کے ہیں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ مسجد میں ان درختوں کی کسی آدمی سے بدبو محسوس کرتے تو حکم فرماتے کہ اسے بقیع کی طرف نکال دیا جائے، تو جو آدمی انہیں کھائے تو خوب انہیں پکا کر ان کی بدبو مار دے۔

【99】

لہسن پیاز اور بدبو دارچیز یا اس جیسی کوئی اور چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت کے بیان میں جب تک کہ اس کی بدبو نہ چلی جائے اور یا مسجد سے نکل جائے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، حضرت قتادہ (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【100】

مسجد میں گمشدہ چیز کو تلاش کرنے کی ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ تلاش کرنے والے کو کیا کہنا چاہیے۔

ابوطاہر، احمد بن عمرو، ابن وہب، حیوہ، محمد بن عبدالرحمن، ابوعبداللہ مولی، شداد بن ہاد، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی مسجد میں کسی آدمی کو اپنی گمشدہ چیز کو بلند آواز کے ساتھ تلاش کرتے ہوئے سنے تو اسے کہنا چاہیے کہ اللہ کرے تیری یہ چیز نہ ملے کیونکہ یہ مسجدیں اس لئے نہیں بنائی گئیں۔

【101】

مسجد میں گمشدہ چیز کو تلاش کرنے کی ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ تلاش کرنے والے کو کیا کہنا چاہیے۔

زہیر بن حرب، مقری، حیوۃ، ابواسود، ابوعبداللہ مولیٰ شداد اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے۔

【102】

مسجد میں گمشدہ چیز کو تلاش کرنے کی ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ تلاش کرنے والے کو کیا کہنا چاہیے۔

حجاج بن شاعر، عبدالرزاق، ثوری، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ، حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آیک آدمی نے مسجد میں آواز لگائی اور اس نے کہا کہ میرا سرخ اونٹ کون لے گیا ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا تجھے وہ نہ ملے کیونکہ مسجدیں انہی کاموں کے لئے ہوتی ہیں جن کے لئے بنائی گئی ہیں۔

【103】

مسجد میں گمشدہ چیز کو تلاش کرنے کی ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ تلاش کرنے والے کو کیا کہنا چاہیے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابی سنان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی ﷺ نے نماز پڑھ لی تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا کہ میرا سرخ اونٹ کون لے گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا وہ تجھے نہ ملے کیونکہ مسجدیں ان کاموں کے لئے ہیں جن کے لئے بنائی گئی ہیں۔

【104】

مسجد میں گمشدہ چیز کو تلاش کرنے کی ممانعت کے بیان میں اور یہ کہ تلاش کرنے والے کو کیا کہنا چاہیے۔

قتیبہ بن سعید، جریر، محمد بن شیبہ، علقمہ بن مرثد، ابن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد کے دروازہ سے اندر داخل ہو آگے حدیث اسی طرح ہے جس طرح گزر چکی۔

【105】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آکر اسے مشتبہ کردیتا ہے یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے نماز کی کتنی رکعات پڑھی ہیں پس جب تم میں سے کوئی اس کو پائے تو وہ بیٹھنے کی حالت میں دو سجدے کرے۔

【106】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح، لیث بن سعد اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【107】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پشت پھیر کر گوز مارتے ہوئے بھاگتا ہے تاکہ وہ اذان نہ سن لے جب اذان پوری ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے پھر تکبیر ہوتی ہے تو پھر پشت پھیر کر بھاگ جاتا ہے جب تکبیر پوری ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے اور نمازی کو وسوسہ ڈالتا ہے اور اس کی بھولی ہوئی باتوں کو یاد کراتا ہے کہ فلاں بات یاد کرو فلاں بات یاد کرو یہاں تک کہ نمازی کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے نماز میں کتنی رکعات پڑھی ہیں جب تم میں سے کسی کو یاد نہ رہے کہ کتنی رکعات پڑھی ہیں تو بیٹھنے کی حالت میں دو سجدے کرے۔

【108】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو، عبد ربہ بن سعید، عبدالرحمن اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب نماز کے لئے تکیبر پڑھی جاتی ہے تو شیطان پشت پھیر کو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے حدیث مذکورہ حدیث کی طرح ہے لیکن اس میں یہ زائد ہے کہ پھر وہ آکر اسے اپنی ضرورتیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہ تھیں۔

【109】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن اعرج، عبداللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی جس میں دو رکعتیں پڑھا کر بغیر قعدہ کئے کھڑے ہوگئے لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے جب آپ ﷺ نے نماز پوری کرلی اور ہم سلام پھیر نے کے انتظار میں تھے کہ آپ ﷺ نے اَللَّهُ أَکْبَرُ کہا پھر بیٹھے ہوئے دو سجدے کئے پھر آپ ﷺ نے سلام پھیرا۔

【110】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن رمح، لیث، ابن شہاب، اعرج، عبداللہ بن بحینہ اسدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز میں قعدہ کئے بغیر کھڑے ہوگئے جب آپ ﷺ نے نماز پوری کرلی تو آپ ﷺ نے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے دو سجدے کئے ہر سجدہ میں تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدے کئے یہ سجدے اس قعدہ کے بدلے میں تھے جو آپ ﷺ بھول گئے تھے۔

【111】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابوربیع زہرانی، حماد ابن زید، یحییٰ بن سعید، عبدالرحمن، اعرج، عبداللہ بن مالک ابن بحینہ ازدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اپنی نماز کی جن دو رکعت کے بعد بیٹھنے کا اراد تھا آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اس کے بعد آپ ﷺ نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے آپ ﷺ نے دو سجدے کئے۔

【112】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

محمد بن احمد بن ابی خلف، موسیٰ بن داؤد، سلیمان بن بلال، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے اور معلوم نہ ہو کہ کتنی رکعات پڑھی ہیں تین یا چار تو شک کو چھوڑ کر اور جتنی رکعات کا یقین ہو اس کے مطابق نماز پڑھے پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور اگر اس نے پانچ رکعات پڑھ لی ہوں تو ان دو سجدوں کے ساتھ اس کی چھ رکعات ہوجائیں گی اور اگر پوری چار رکعات پڑھی ہوں تو یہ دو سجدے شیطان کے لئے ذلت کا سبب بن جائیں گے۔

【113】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

احمد بن عبدالرحمن بن وہب، عبداللہ بن وہب، داؤد بن قیس، زید بن اسلم اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【114】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عثمان، ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، حضرت علقمہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی راوی ابراہیم کہتے ہیں کہ کچھ زیادہ کیا یا کم جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ کیا ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے اس طرح نماز پڑھائی حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے پاؤں پلٹے اور قبلہ رخ ہو کردو سجدے کئے پھر سلام پھیرا پھر اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کر کے فرمایا اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تمہیں بتادیتا لیکن میں تمہاری طرح کا انسان ہوں میں بھول بھی سکتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو لہذا جب بھول جایا کروں تو مجھے یاد دلایا کرو اور جب تم میں کسی کو اپنی نماز میں شک ہو تو خوب غور کرے پھر جو درست ہو اس کے مطابق نماز پوری کرے پھر دو سجدے کرکے سلام پھیر دے۔

【115】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابوکریب، ابن بشر، محمد بن حاتم، وکیع، مسعر بن منصور اس سند کے ساتھ کچھ کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【116】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحییٰ بن حسان، وہیب بن خالد، منصور اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【117】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبیداللہ بن سعید اموی، سفیان منصور اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے صرف الفاظ کی تبدیلی ہے۔

【118】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح روایت کی گئی ہے راوی نے کہا کہ جو صحیح ہے اس میں غور کرے یہی درستگی کے زیادہ قریب ہے۔

【119】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، فضیل بن عیاض، منصور اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【120】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابن ابی عمر، عبدالعزیز بن عبدالصمد، منصور اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【121】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، ابی شعبہ، حکم، براہیم، علقمہ، عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ظہر کی نماز پانچ رکعات پڑھا دیں جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ کیا نماز میں زیادتی ہوگئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ کیسے عرض کیا گیا کہ آپ ﷺ نے پانچ رکعات پڑھا دیں پس آپ ﷺ نے دو سجدے کئے۔

【122】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابن نمیر، ابن ادریس، حسن بن عبیداللہ، ابراہیم، علقمہ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【123】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، حسن بن عبیداللہ، ابراہیم بن سوید کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ (رض) نے ظہر کی نماز کی پانچ رکعات پڑھا دیں جب انہوں نے سلام پھیرا تو لوگوں نے کہا کہ اے ابوشبل آپ نے پانچ رکعتیں پڑھا دیں انہوں نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اس طرح نہیں کیا لوگوں نے کہا آپ نے پانچ رکعتیں پڑھائی ہیں راوی ابراہیم کہتے ہیں کہ میں ایک کونے میں تھا اور میں اس وقت تھا بھی کم سن میں نے بھی کہا کہ آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں وہ کہنے لگے اے کانے تو بھی اسی طرح کہتا ہے میں نے کہا ہاں، یہ سن کر وہ لوٹے اور پھر دو سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا اور پھر کہا کہ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ رکعتیں پڑھائیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کردیا آپ ﷺ نے پوچھا کیا بات ہے لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا نماز میں زیادتی ہوگئی ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہرگز نہیں لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے پانچ رکعتیں پڑھا دی ہیں آپ ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا اور فرمایا میں تمہاری طرح انسان ہوں میں بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو ابن نمیر کی حدیث میں یہ زائد ہے کہ جب تم میں سے کوئی بھول جائے تو دو سجدے کرے۔

【124】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عون بن سلام کوفی، ابوبکر نہشلی، عبدالرحمن، اسود، عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا نماز میں زیادتی ہوگئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ کیسے ؟ ہم نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے پانچ رکعات پڑھا دی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح کا انسان ہوں میں بھی اسی طرح یاد کرتا ہوں جس طرح تم یاد کرتے ہو اور میں بھی بھول جاتا ہوں جس طرح کہ تم بھول جاتے ہو پھر آپ ﷺ نے بھولنے کے دو سجدے کئے۔

【125】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

منجاب بن حارث تمیمی، ابن مسہر، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ زیادتی یا کچھ کمی کے ساتھ نماز پڑھائی راوی ابراہیم کہتے ہیں کہ یہ وہم میری طرف سے ہے آپ ﷺ سے عرض کیا گیا، کہا اے اللہ کے رسول کیا نماز میں زیادتی ہوگئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں میں بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو جب تم میں سے کوئی آدمی بھول جائے تو بیٹھ کردو سجدے کرے پھر رسول اللہ ﷺ قبلہ رخ ہوئے پھر دو سجدے کئے۔

【126】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، ابن نمیر، حفص، معاویہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے سلام اور بات کرنے کے بعد بھولنے کے دو سجدے کئے۔

【127】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

قاسم بن زکریا، حسین بن علی، جعفی، زائدہ بن سلیمان، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے نماز میں کچھ زیادتی کی یا کمی کی ابراہیم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ شبہ مجھے ہوا حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، پھر ہم نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے اس طرح کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ جب کسی آدمی سے نماز میں کچھ زیادتی ہو یا کمی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ دو سجدے کرے پھر آپ ﷺ نے دو سجدے کئے۔

【128】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، عمرو، سفیان بن عیینہ، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ظہر کی یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا پھر ایک لکڑی کی طرف آئے جو مسجد میں قبلہ رخ لگی ہوئی تھی اس پر ٹیک لگا کر غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے جماعت میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) بھی تھے یہ دونوں حضرات اس بات سے ڈرے کہ آپ ﷺ سے بات کریں اور جلدی جانے والے لوگ یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ نماز کم کردی گئی تو ذوالیدین کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول کیا نماز کم کردی گئی ہے یا آپ ﷺ بھول گئے ہیں نبی ﷺ دائیں اور بائیں طرف دیکھ کر فرمانے لگے کہ ذوالیدین کیا کہتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ سچ کہتا ہے آپ ﷺ نے صرف دو رکعات ہی پڑھائی ہیں پھر آپ ﷺ نے دو رکعات اور پڑھائیں اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی پھر سجدہ کیا پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا راوی محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ عمران بن حصین کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے کہا اور سلام پھیرا۔

【129】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابوربیع زہرانی، حماد، ایوب، محمد، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی باقی حدیث سفیان کی حدیث کی طرح ہے

【130】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی تو آپ ﷺ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا تو ذوالیدین کھڑے ہو کر کہنے لگے اے اللہ کے رسول کیا نماز کم کردی گئی یا آپ ﷺ بھول گئے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس میں سے کوئی بات بھی نہیں اس نے عرض کیا کہ کچھ تو ہوا ہے پھر رسول اللہ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے صحابہ نے عرض کیا ہاں اے اللہ کے رسول ! پھر رسول اللہ ﷺ نے باقی نماز پوری فرمائی پھر آخری قعدہ میں سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے۔

【131】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

حجاج بن شاعر، ہارون بن اسماعیل، خزار، علی ابن مبارک، یحیی، ابوسلمہ، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ظہر کی نماز کی دو رکعات پڑھائیں پھر آپ ﷺ نے سلام پھیر دیا بنی سلیم کے ایک آدمی نے آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کیا نماز میں کمی ہوگئی ہے یا آپ ﷺ بھول گئے ہیں باقی حدیث اسی طرح ہے جس طرح گزر چکی۔

【132】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

اسحاق بن منصور، عبیداللہ بن موسی، شیبان، یحیی، ابی سلمہ، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تو بنی سلیم کا ایک آدمی کھڑا ہوا باقی حدیث اسی طرح ہے جس طرح گزر چکی۔

【133】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن علیہ، زہیر، اسماعیل بن ابراہیم، خالد، ابی قلابہ، ابی مہلب، عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی تو آپ ﷺ نے تین رکعات کے بعد سلام پھیر دیا پھر اپنے گھر تشریف لے جانے لگے تو آپ ﷺ کی طرف ایک آدمی کھڑا ہوا جسے خرباق کہا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی لمبے تھے اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! پھر آپ ﷺ نے جو کیا وہ آپ ﷺ کو اس نے یاد دلا دیا آپ ﷺ غصہ میں اپنی چادر کھنچتے ہوئے نکلے اور لوگوں تک پہنچ گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا یہ سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا کہ ہاں پھر آپ ﷺ نے ایک رکعت پڑھائی پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔

【134】

نماز میں بھولنے اور اس کے لئے سجدہ سہو کرنے کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، عبدالوہاب ثقفی، خالد حذاء، قلابہ، ابی مہلب، عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی تین رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا پھر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے اتنے میں ایک لمبے ہاتھوں والے آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا نماز کم کردی گئی ہے آپ ﷺ غصہ میں نکلے اور جو رکعت چھوٹ گئی تھی وہ پڑھائی پھر سلام پھیرا دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔

【135】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، محمد بن مثنی، یحییٰ قطان، زہیر، یحییٰ بن سعید، عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قرآن پڑھتے تھے پھر اس میں سجدہ والی سورت پڑھتے تو سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو اپنی پیشانی رکھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی تھی۔

【136】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قرآن پڑھتے اور سجدہ والی آیت سے گزرتے تو آپ ﷺ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہجوم کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو سجدہ کرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی یہ سجدہ نماز کے علاوہ میں ہوتا تھا۔

【137】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سورت النجم پڑھی پھر اس میں سجدہ کیا آپ ﷺ کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے سجدہ کیا سوائے ایک بوڑھے کے اس نے مٹی کی ایک مٹھی بھر کر اپنی پیشانی سے لگائی اور کہا کہ مجھے یہی کافی ہے حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اس کے بعد حالت کفر ہی میں مارا گیا۔

【138】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر، یحییٰ بن یحیی، اسماعیل ابن جعفر، یزید بن حصیفہ، ابن قسیط، عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے پوچھا کہ کیا امام کے ساتھ قرأت کرنی چاہئے تو فرمایا کہ امام کے ساتھ قرأت نہیں کرنی چاہیے اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے (إِذَا هَوَی فَلَمْ يَسْجُدْ ) پڑھی اور سجدہ نہیں کیا۔

【139】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک عبداللہ بن یزید مولیٰ اسود بن سفیان، ابوسلمہ بن عبدالرحمن (رض) روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے (إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ) پڑھی پھر سجدہ کیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سورت میں سجدہ کیا ہے۔

【140】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

ابراہیم بن موسی، عیسی، اوزاعی، محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

【141】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ایوب بن موسی، عطاء بن میناء، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ (إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ) اور (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ ) میں سجدہ کیا۔

【142】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

محمد بن رمح، لیث، یزید بن ابوحبیب، صفوان بن سلیم، عبدالرحمن اعرج، مولیٰ بنی مخزوم، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ (إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ) اور (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ ) میں سجدہ کیا۔

【143】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، عمرو بن حارث، عبیداللہ بن ابی جعفر، عبدالرحمن اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

【144】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، عنبری، محمد بن عبدالاعلی، معتمر، بکر، حضرت ابورافع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی تو انہوں نے نماز میں (إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ) پڑھی پھر سجدہ کیا میں نے کہا۔ آپ نے یہ کیا کیا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کے پیچھے نماز میں ان کے ساتھ سجدہ کیا ہے اور میں بھی ہمیشہ یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔

【145】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

عمرو ناقد، عیسیٰ بن یونس، ابوکامل، یزید بن زریع، احمد بن عبدہ، سلیم بن اخضر، اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【146】

سجدہ تلاوت کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عطا بن ابی میمونہ، حضرت ابورافع (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو (إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ) کی تلاوت کے بعد سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے عرض کیا کہ آپ سجدہ کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے اپنے خلیل ﷺ کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے اور میں ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا۔

【147】

نماز میں بیٹھنے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کے بیان میں

محمد بن معمر بن ربعی، ابوہشام، مخزومی، عبدالوحد بن زیاد، عثمان بن حکیم، عامر بن عبداللہ بن زبیر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان کرلیتے تھے اور اپنا دایاں پاؤں بچھا دیتے اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیتے اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھ لیتے اور اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے۔

【148】

نماز میں بیٹھنے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث ابن عجلان، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمر، ابن عجلان حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ دعا مانگنے کے لئے بیٹھتے تو دایاں ہاتھ دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت والی انگلی سے اشارہ فرماتے اور انگوٹھا اپنی درمیانی انگلی پر رکھتے اور بایاں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے۔

【149】

نماز میں بیٹھنے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کے بیان میں

محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اٹھاتے وہ انگلی جو انگوٹھے کے قریب ہے آپ ﷺ اس سے دعا کرتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر بچھا دیتے۔

【150】

نماز میں بیٹھنے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کے بیان میں

عبد بن حمید، یونس بن محمد، حماد بن سلمہ، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور تریپن کی شکل بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرماتے۔

【151】

نماز میں بیٹھنے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، مسلم بن ابی مریم، حضرت علی (رض) ، عبدالرحمن المعاوی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابن عمر (رض) نے نماز میں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے مجھے روکا اور فرمایا اس طرح جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے کیا کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ جب آپ ﷺ نماز میں بیٹھتے تو آپ ﷺ اپنی دائیں ہتھیلی کو دائیں ران پر رکھتے اور دوسری ساری انگلیوں کو بند کر کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ فرماتے اور بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے۔

【152】

نماز میں بیٹھنے اور رانوں پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، مسلم بن ابی مریم، علی بن عبدالرحمن معاوی اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【153】

نماز سے رفراغت کے وقت سلام پھیرنے کی کیفیت کے بیان میں

زہیر بن حرب، یحییٰ بن سعید، شعبہ، حکم، منصور، مجاہد، حضرت ابومعمر (رض) فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک امیر تھا جو دونوں طرف سلام پھیرا کرتا تھا حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اس نے یہ طریقہ کہاں سے سیکھا ہے حکم اپنی حدیث میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح کیا کرتے تھے۔

【154】

نماز سے رفراغت کے وقت سلام پھیرنے کی کیفیت کے بیان میں

احمد بن حنبل، یحییٰ بن سعید، شعبہ، حکم، مجاہد، ابومعمر، حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ شعبہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک امیر آدمی دونوں طرف سلام پھیرتا ہے تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ اس نے (یہ طریقہ) کہاں سے سیکھا ہے ؟

【155】

نماز سے رفراغت کے وقت سلام پھیرنے کی کیفیت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ابوعامر عقدی، عبداللہ بن جعفر، اسماعیل بن محمد، حضرت عامر بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دائیں طرف اور بائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھتا تھا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے رخساروں کی سفیدی بھی دیکھتا۔

【156】

نماز کے بعد کے ذکر کا بیان

زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، عمرو، ابومعبد، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کے ذریعہ پہچان لیتے تھے۔

【157】

نماز کے بعد کے ذکر کا بیان

ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابی معبد مولیٰ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کے ذریعہ پہچان لیتے تھے حضرت عمرو (رض) کہتے ہیں کہ میں نے ابی معبد سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی حضرت عمرو نے کہا کہ اس سے پہلے آپ ﷺ ہی نے مجھ سے بیان کی تھی۔

【158】

نماز کے بعد کے ذکر کا بیان

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، اسحاق بن منصور، عبدالرزاق، ابن جریج، عمرو بن دینار، ابومعبد مولیٰ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جس وقت لوگ فرض نماز سے فارغ ہوں اس وقت بلند آواز سے ذکر کرنا رسول اللہ کے زمانہ مبارک میں تھا حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب میں ذکر کو سنتا تو مجھے معلوم ہوجاتا کہ وہ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں۔

【159】

تشہد اور سلام پھیر نے کے درمیان عذاب قبر اور عذاب جہنم اور زندگی اور موت اور مسیح دجال کے فتنہ اور گناہ اور قرض سے پناہ مانگنے کے استح کے بیان میں

ہارون بن سعید، حرملہ بن یحیی، ہارون، حرملہ، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ کیا تم جانتی ہو کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی ؟ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر کانپ اٹھے اور فرمایا کہ یہودی آزمائے جائیں گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہم چند راتیں ٹھہرے پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم جانتی ہو کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائی جاؤ گی حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔

【160】

تشہد اور سلام پھیر نے کے درمیان عذاب قبر اور عذاب جہنم اور زندگی اور موت اور مسیح دجال کے فتنہ اور گناہ اور قرض سے پناہ مانگنے کے استح کے بیان میں

ہ اورن بن سعید، حرملہ بن یحییٰ عمرو بن سواد، وہب، یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اس کے بعد سے آپ ﷺ قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔

【161】

تشہد اور سلام پھیر نے کے درمیان عذاب قبر اور عذاب جہنم اور زندگی اور موت اور مسیح دجال کے فتنہ اور گناہ اور قرض سے پناہ مانگنے کے استح کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، جریر، زہیر، جریر، منصور، ابو وائل، مسروق، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مدینہ منورہ کی دو بوڑھی یہودی عورتیں میرے پاس آئیں اور کہنے لگی کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ان کو جھٹلایا اور ان کی تصدیق کو اچھا نہیں سمجھا پھر وہ دونوں عورتیں نکل گئیں اور رسول اللہ ﷺ تشریف لائے میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ مدینہ کی دو یہودی بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں تھیں۔ وہ خیال کرتی ہیں کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے ؟ تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائی کہ انہیں عذاب دیا جاتا ہے کہ جن کو جانور تک سنتے ہیں پھر حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ ہر نماز کے بعد قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے رہے۔

【162】

تشہد اور سلام پھیر نے کے درمیان عذاب قبر اور عذاب جہنم اور زندگی اور موت اور مسیح دجال کے فتنہ اور گناہ اور قرض سے پناہ مانگنے کے استح کے بیان میں

ہناد بن سری، ابواحوص، اشعث، مسروق سے اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے لیکن اس میں یہ الفاظ ہیں کہ اس کے بعد آپ ﷺ نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی کہ جس میں قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔

【163】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

عمرو ناقد، زہیر بن حرب، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، صالح، ابن شہاب، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ اپنی نماز میں دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتے تھے۔

【164】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، ابن نمیر، ابوکریب، زہیر بن حرب، وکیع، ابوکریب، وکیع، اوزاعی، حسان بن عطیہ، محمد بن ابی عائشہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھے تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں کی پناہ مانگے ( اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ) اے اللہ میں تجھ سے جہنم کے عذاب اور قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کے فتنے اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔

【165】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی اسحاق، ابوالیمان، شعیب، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ (رض) نبی کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اور تجھ سے زندگی اور موت کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ میں تجھ سے گناہ اور قرض سے پناہ مانگتا ہوں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک کہنے والے نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ ﷺ قرض سے بہت کثرت سے پناہ مانگتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب آدمی قرض دار ہوجاتا ہے تو جھوٹ بھی بولتا ہے اور وعدہ خلا فی بھی کرتا ہے۔

【166】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، اوزاعی، حسان بن عطیہ، محمد بن ابی عائشہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ کر فارغ ہو تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں کی پناہ مانگے جہنم کے عذاب سے قبر کے عذاب سے زندگی اور موت کے فتنہ سے مسیح دجال کے شر سے۔

【167】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

حکم بن موسی، ہقل بن زیاد، علی بن خشرم، عیسیٰ ابن یونس، اوزاعی، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی تشہد سے فارغ ہو اور اس میں آخر کا ذکر نہیں۔

【168】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، ہشام، یحیی، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب اور دوزخ کے عذاب اور زندگی اور موت کے فتنہ سے مسیح دجال کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔

【169】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

محمد بن عباد، سفیان، عمرو، طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ سے اللہ کے عذاب کی پناہ مانگو تم اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب کی پناہ مانگو تم اللہ تعالیٰ سے مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگو تم اللہ تعالیٰ سے زندگی اور موت کے فتنہ سے پناہ مانگو۔

【170】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

محمد بن عباد، سفیان، ابن طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

【171】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

محمد بن عباد، ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، سفیان، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

【172】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، بدیل، عبداللہ بن شقیق، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی قبر کے عذاب اور جہنم کے عذاب اور دجال کے فتنہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

【173】

نماز میں فتنوں سے پناہ مانگنے کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، ابوزبیر، طاؤس، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے یہ دعا سکھایا کرتے تھے جس طرح کہ قرآن مجید کی کوئی سورت سکھایا کرتے تھے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تم کہو (اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ) اے اللہ ہم تجھ سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اور میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں، صاحب مسلم امام مسلم بن حجاج فرماتے ہیں کہ مجھے طاؤس کی یہ بات پہنچی کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تو نے اپنی نماز میں یہ دعا مانگی ؟ اس نے جواب میں کہا کہ نہیں تو حضرت طاؤس نے فرمایا کہ اپنی نماز دوبارہ پڑھ۔ کیونکہ طاؤس نے اسے تین یا چار راویوں سے نقل کیا ہے۔

【174】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

داؤد بن رشید، ولید، اوزاعی، عمار، شداد بن عبداللہ، ابی اسماء حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو تین مرتبہ استغفار فرماتے اور یہ دعا مانگتے (اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ) روای ولید کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ آپ ﷺ استغفار کس طرح فرمایا کرتے تھے ؟ تو فرمایا آپ ﷺ اس طرح فرماتے ( أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ ) ۔

【175】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابومعاویہ، عاصم، عبداللہ بن حارث، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ سلام پھیرنے کے بعد نہیں بیٹھتے تھے مگر اتنی مقدار میں کہ جس میں درج ذیل تسبیح کہتے تھے (اَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ )

【176】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

ابن نمیر، ابوخالد احمر، عاصم سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【177】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

عبدالوارث بن عبدالصمد، شعبہ، عاصم، عبداللہ بن حارث، خالد، عبداللہ بن حارث حضرت عائشہ (رض) سے یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【178】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مسیب بن رافع، وراد مولیٰ مغیرہ بن شعبہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے حضرت معاویہ (رض) کو لکھا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے اور سلام پھیر تے تو فرمایا کرتے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اے اللہ جسے تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی کوشش کرنے والے کی کوشش تیرے مقابلہ میں کوئی نفع دینے والی نہیں ہے۔

【179】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، احمد بن سنان، ابومعاویہ، اعمش، مسیب بن رافع، وراد مولیٰ مغیرہ بن شعبہ، اس سند کے ساتھ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے۔

【180】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ابن جریج، عبدہ بن ابی لبابہ، وراد مولیٰ مغیرہ بن شعبہ، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں (وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ) کا ذکر نہیں ہے۔

【181】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

حامد بن عمر بکراوی، بشر بن مفضل، محمد بن مثنی، ازہر، ابن عون، ابوسعید اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【182】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

ا بن ابی عمر مکی، سفیان، عبدہ بن ابی لبابہ، عبدالملک بن عمیر، حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کے کاتب فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت مغیرہ کو لکھا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا ہو مجھے لکھ کر بھیجو حضرت مغیرہ نے انہیں لکھا کہ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوتے تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ) ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس کی بادشاہت اور اسی کی تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اے اللہ جسے تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کوئی کوشش تیری کوشش کے مقابلہ میں نفع دینے والی نہیں ہے۔

【183】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، ہشام، ابوزبیر، حضرت ابن زبیر (رض) ہر نماز میں جب بھی سلام پھیر تے تو یہ کہتے ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ) سے لے کر ( وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ ) تک اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دینے والا نہیں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اسی کی ساری نعمتیں ہیں اسی کا فضل و ثنا و حسن ہے اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں ہم خالص اسی کی عبادت کرنے والے ہیں اگرچہ کافر ناپسند کریں راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔

【184】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، ابوزبیر، عبداللہ بن زبیر، اس سند کے ساتھ یہ روایت بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس کے آخر میں یہ ہے کہ حضرت ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔

【185】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

یعقوب بن ابراہیم، دورقی، ابن علیہ، حجاج بن ابی عثمان، ابوزبیر، حضرت ابوالزبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا وہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جب سلام پھیر تے تو ہر نماز یا نمازوں کے بعد، پھر آگے اسی طرح حدیث ذکر کی جیسے گزری۔

【186】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، یحییٰ بن عبداللہ بن سالم، موسیٰ بن عقبہ، حضرت ابن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نماز میں سلام پھیرنے کے بعد کہتے تھے۔۔۔ باقی حدیث اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں ہے انہوں نے کہا کہ وہ اس دعا کو رسول اللہ ﷺ سے ذکر کرتے تھے۔

【187】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

عاصم بن نضر تیمی، معتمر، عبیداللہ، قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان، ابوصالح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ مہاجرین فقراء رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ مالدار لوگ اعلی درجہ اور ہمیشہ کی نعمتوں میں چلے گئے آپ ﷺ نے فرمایا وہ کیسے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں جس طرح کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی روزہ رکھتے ہیں جس طرح کہ ہم روزہ رکھتے ہیں اور وہ صدقہ نکالتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں دے سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم غلام آزاد نہیں کرسکتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں کوئی ایسی چیز نہ سکھاؤں کہ جو تم سے سبقت لے گئے ہیں تم انہیں پالو اور اپنے بعد والوں سے آگے بڑھ جاؤ اور کوئی تم سے افضل نہ ہو سوائے اس کے کہ جو تمہارے جیسے کام کرے، انہوں نے عرض کیا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ! فرمائیے ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ اور اَللَّهُ أَکْبَرُ اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ پڑھا کرو، راوی ابوصالح کہتے ہیں کہ مہاجرین فقراء دوبارہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی یہ سن لیا ہے اور وہ بھی اسی طرح کرنے لگے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور روایت میں غیر قتیبہ نے یہ زائد کہا ہے کہ لیث بن عجلان سے روایت ہے کہ سمی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنے گھر والوں میں سے کسی سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ تم کو وہم ہوگیا ہے بلکہ اس طرح فرمایا کہ 33 دفعہ سُبْحَانَ اللَّهِ 33 دفعہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ 33 دفعہ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہو پھر میں ابوصالح کے پاس لوٹا اور ان سے میں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہاللَّهُ أَکْبَرُ اور سُبْحَانَ اللَّهِ اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اور اَللَّهُ أَکْبَرُ اور سُبْحَانَ اللَّهِ اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اس طرح کہے کہ پوری تعداد 33 مرتبہ ہوجائے ابن عجوان کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث رجاء بن حیوہ سے بیان کی تو انہوں نے اسی طرح مجھ سے ابوصالح کے واسطے سے حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کی ہے۔

【188】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

امیہ بن بسطام عیشی، یزید بن زریع، روح، سہیل، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ فقراء مہاجرین نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول مالدار لوگ اعلی درجہ اور ہمیشہ کی نعمتیں لے گئے باقی حدیث اسی طرح ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ مہاجرین فقراء پھر آپ ﷺ کی خدمت میں آئے باقی حدیث اسی طرح ہے اور اس میں یہ زائد ہے کہ سہیل راوی کہتے ہیں کہ ہر ایک کلمہ گیارہ گیارہ مرتبہ کہے تاکہ سب کلمات تینتیس مرتبہ ہوجائیں۔

【189】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

حسن بن عیسی، ابن مبارک، مالک بن مغول، حکم بن عتیبہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر نماز کے بعد کچھ دعائیں ایسی ہیں کہ جن کو پڑھنے والا یا جن کو کرنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ 33 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ 33 مرتبہ اَللَّهُ أَکْبَرُ ۔

【190】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، ابوا حمد، حمزہ، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، حضرت کعب بن عجرہ (رض) رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد کی (کچھ دعائیں) ایسی ہیں کہ جن کا کہنے والا یا کرنے والا محروم نہیں ہوتا 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ 33 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ 33 مرتبہ اَللَّهُ أَکْبَرُ ۔

【191】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

محمد بن حاتم، اسباط بن محمد، عمرو بن قیس ملائی، حکم۔ اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【192】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

عبدالحمید بن بیان واسطی، خالد بن عبداللہ، سہیل، ابوعبید مذحجی، مسلم ابوعبید مولیٰ سلیمان بن عبدالملک، عطاء بن یزید لیثی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللَّهِ 33 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اور 33 مرتبہ اَللَّهُ أَکْبَرُ کہا تو یہ 99 کلمات ہوگئے اور سو کا عدد پورا کرنے کے لئے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ کہہ لیا تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

【193】

نماز کے بعد ذکر کے استح اور اس کے بیان میں

محمد بن صباح، اسماعیل بن زکریا، سہیل، ابوعبید، عطاء، حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل کر کے فرمایا۔

【194】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

زہیر بن حرب، جریر، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز کی تکبیر کہتے تو قرأت سے پہلے کچھ دیر خاموش رہتے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، آپ ﷺ تکبیر اور قرأت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے ہیں تو اس میں آپ ﷺ کیا پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا پڑھتا ہوں ( اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ کَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ کَمَا يُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَائِ وَالْبَرَدِ ) اے اللہ میرے اور گناہوں کے درمیان اس قدر دوری کر دے کہ جس قدر تو نے مشرق ومغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے اے اللہ مجھے گناہوں سے اس طرح صاف فرما دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کردیا جاتا ہے اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور پانی اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔

【195】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابن فضیل، ابوکامل، عبدالواحد بن زیاد، عمارہ، قعقاع ، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【196】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

مسلم، یحییٰ بن حسان، یونس، عبدالواحد ابن زیاد، عمارہ بن قعقاع، ابوزرعہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) سے قرأت شروع فرماتے اور خاموش نہ ہوتے۔

【197】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

زہیر بن حرب، عفان، حماد، قتادہ، ثابت، حمید، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور صف میں داخل ہوگیا اور اس کا سانس پھول رہا تھا اس نے کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا کَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَکًا فِيهِ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تم میں سے نماز میں یہ کلمات کہنے والا کون ہے لوگ خاموش رہے آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ تم میں سے یہ کلمات کہنے والا کون ہے اس نے کوئی غلط بات نہیں کہی تو ایک آدمی نے عرض کیا کہ میں آیا تو میرا سانس پھول رہا تھا تب میں نے یہ کلمات کہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ جو ان کلمات کو اوپر لے جانے کے لئے جھپٹ رہے تھے۔

【198】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

زہیر بن حرب، اسماعیل بن علیہ، حجاج بن ابی عثمان، ابوزبیر، عون بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ جماعت میں سے ایک آدمی نے کہا (اللَّهُ أَکْبَرُ کَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ کَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُکْرَةً وَأَصِيلًا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس طرح کے کلمات کہنے والا کون ہے ؟ جماعت میں سے ایک آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تعجب ہوا کہ اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو پھر کبھی نہیں چھوڑا جب سے اس بارے میں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔

【199】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید، ابوہریرہ (رض) محمد بن جعفربن زیاد، ابراہیم، ابن سعد، زہری سعید، ابوسلمہ، ابوہریرہ (رض) حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کھڑی ہوجائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ اس طرح چلتے ہوئے آؤ کہ تم پر سکون طاری ہو اور جو تم پالو انہیں پڑھ لو اور جو چھوٹ جائیں انہیں پوری کرلو۔

【200】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، قتیبہ بن سعید، ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، ابن ایوب، اسماعیل، علاء، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب نماز کے لئے تکبیر کہی جائے تو تم دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ اطمینان سے آؤ اور نماز کی جتنی رکعتیں تمہیں مل جائیں انہیں پڑھو اور جو چھوٹ جائیں انہیں پوری کرلو کیونکہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ نماز میں ہوتا ہے۔

【201】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب نماز کے لئے آواز دی جائے تو تم اس انداز میں آؤ کہ تم پر سکون طاری ہو اور نماز کی جتنی رکعات تمہیں مل جائیں انہیں پڑھ لو اور جو رہ جائیں انہیں پوری کرلو۔

【202】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، فضیل بن عیاض، ہشام، زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو تم میں سے کوئی آدمی دوڑتا ہوا نہ آئے بلکہ سکون اور وقار سے چلتا ہوا آئے جو نماز تم پالو اسے پڑھ لو اور جو چھوٹ جائے اسے بعد میں پوری کرلو۔

【203】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

اسحاق بن منصور، محمد بن مبارک صوری، معاویہ بن سلام، یحییٰ بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابوقتادہ (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے آپ ﷺ نے تیز دوڑنے کی آواز سنی آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے نماز کی طرف جلدی کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب ایسے نہ کرنا، جب تم نماز کے لئے آؤ تو سکون سے آؤ جو تمہیں مل جائیں انہیں پڑھ لو اور جو چھوٹ جائیں انہیں پورا کرلو۔

【204】

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان پڑھی جانے والی دعاؤں کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، معاویہ، ہشام، شیبان اس سند کے ساتھ یہ روایت اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【205】

اس بات کے بیان میں کہ نماز کے لئے کب کھڑا ہو؟

محمد بن حاتم، عبیداللہ بن سعید، یحییٰ بن سعید، حجاج صواف، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو تم مت کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو ابن حاتم کہتے ہیں کہ جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے یا اذان دی جائے۔

【206】

اس بات کے بیان میں کہ نماز کے لئے کب کھڑا ہو؟

ابوبکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، معمر، ابوبکر، ابن علیہ، حجاج بن ابوعثمان، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، عبدالرزاق، معمر، اسحاق بن ولید بن مسلم، شیبان، یحییٰ بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابی قتادہ، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن روایت میں یہ زائد ہے کہ یہاں تک کہ تم مجھے دیکھ لو جب میں نکلوں۔

【207】

اس بات کے بیان میں کہ نماز کے لئے کب کھڑا ہو؟

ہارون بن معروف، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نماز کے لئے اقامت کہی گئی تو ہم صفیں سیدھی کر کے رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور اپنے مصلے پر کھڑے ہوگئے تکبیر کہنے سے پہلے آپ ﷺ کو کچھ یاد آیا تو آپ ﷺ چلے گئے اور ہمیں فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو یہاں تک کہ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے پھر آپ نے تکبیر کہہ کر ہمیں نماز پڑھائی۔

【208】

اس بات کے بیان میں کہ نماز کے لئے کب کھڑا ہو؟

زہیر بن حرب، ولید بن مسلم، ابوعمرو اوزاعی زہری، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نماز کی اقامت کہی گئی اور لوگوں نے اپنی صفیں باندھ لیں تو رسول اللہ تشریف لا کر اپنی جگہ کھڑے ہوگئے۔

【209】

اس بات کے بیان میں کہ نماز کے لئے کب کھڑا ہو؟

ابراہیم بن موسی، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نماز کے لئے اقامت رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے پر کہی جاتی تھی اور لوگ اپنی صفیں بنا لیتے تھے اور نبی ﷺ کے کھڑے ہونے سے پہلے اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوجاتے۔

【210】

اس بات کے بیان میں کہ نماز کے لئے کب کھڑا ہو؟

سلمہ بن شبیب، حسن بن اعین، زہیر، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ فرمایا کہ جب زوال ہوجاتا تو حضرت بلال (رض) اذان کہتے اور اقامت نہ کہتے جب تک کہ نبی ﷺ تشریف نہ لاتے تو جب آپ ﷺ تشریف لاتے حضرت بلال (رض) آپ ﷺ کو دیکھ لیتے تو تب نماز کی اقامت کہتے۔

【211】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز میں ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی۔

【212】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن وہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے امام کے ساتھ نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز کو پالیا۔

【213】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، ابوکریب، ابن مبارک، معمر، اوزاعی، مالک بن انس، یونس، ابن نمیر، ابن مثنی، عبدالوہاب، عبیداللہ، زہری، ابوسلمہ، ابوہریرہ ان مختلف سندوں کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح نقل کیا ہے ایک حدیث میں ہے کہ اس نے پوری نماز کو پالیا۔

【214】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

یحییٰ بن یحیی، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، بسر بن سعید، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے سورج نکلنے سے پہلے صبح کی نماز سے ایک رکعت پالی تو اس نے صبح کی نماز کو پالیا اور جس آدمی نے عصر کی نماز سے ایک رکعت کو پالیا سورج غروب ہونے سے پہلے تو اس نے عصر کی نماز کو پا لیا۔

【215】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

حسن بن ربیع، عبداللہ بن مبارک، یونس بن یزید، زہری، عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے سورج کے غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز میں سے ایک سجدہ کو پالیا یا جس آدمی نے سورج کے نکلنے سے پہلے صبح کی نماز سے ایک سجدہ کو پالیا تو اس نے اس نماز کو پالیا اور سجدہ سے رکعت مراد ہے۔

【216】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابوسلمہ، اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【217】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

حسن بن ربیع، عبداللہ بن مبارک، معمر، ابن طاؤس، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز میں سے ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی اور جس آدمی نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی۔

【218】

اس بات کے بیان میں کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز پالی

عبدالاعلی، حماد، معتمر، معمر، اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【219】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، محمد بن رمح، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز کچھ دیر سے پڑھی تو عروہ نے اس سے کہا کہ حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے امام بن کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھائی تو حضرت عمر (رض) نے اس سے فرمایا کہ سمجھ کر کہہ کیا کہتا ہے ! انہوں نے کہا کہ میں نے بشر بن ابی مسعود سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابومسعود (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے میری امامت کی اور میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی وہ پانچوں نمازوں کو اپنی انگلیوں کے ساتھ شمار کرتے تھے۔

【220】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن عصر کی نماز کافی دیر سے پڑھی حضرت عروہ بن زبیر ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں خبر دی کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) کوفہ میں تھے کہ ایک دن انہوں نے نماز میں دیر کردی تو حضرت ابومسعود انصاری (رض) ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے مغیرہ یہ کیا کیا ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ ﷺ کو اسی طرح حکم دیا گیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے حضرت عروہ سے فرمایا اے عروہ دیکھو تم کیا بیان کر رہے ہو کہ جبرائیل نے رسول اللہ ﷺ کو نمازوں کے اوقات بتائے حضرت عروہ نے کہا کہ بشیر بن ابن مسعود نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح بیان فرمایا ہے۔

【221】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

حضرت عروہ (رض) نے فرمایا کہ مجھ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) نبی کی زوجہ مطہرہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں عصر کی نماز پڑھتے تھے کہ سورج ان کے صحن میں ہوتا تھا سایہ کے ظاہر ہونے سے پہلے۔

【222】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، عمرو، سفیان، زہری، عروہ، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میرے حجرہ میں اس حال میں عصر کی نماز پڑھتے تھے کہ سورج نکلا ہوا ہوتا تھا کہ اس کے بعد میں سایہ بلند نہیں ہوتا تھا۔

【223】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز پڑھتے تھے اور سورج (دھوپ) ان کے صحن میں ہوتی تھی اور چڑھتی نہ تھی۔

【224】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، وکیع، ہشام، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز پڑھتے تھے اور سورج (دھوپ) میرے حجرہ میں ہوتی تھی۔

【225】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

ابوغسان مسمعی، محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، ابوقتادہ، ابوایوب، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تم فجر کی نماز پڑھ چکو تو اس کا وقت باقی ہے جب تک سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے پھر جب تم ظہر کی نماز پڑھ چکو تو اس کا وقت سورج کے زرد ہونے تک ہے جب تم مغرب کی نماز پڑھ چکو تو اس کا وقت شفق کے غروب ہونے تک ہوتا ہے پھر جب تم عشاء کی نماز پڑھ چکو تو اس کا وقت آدھی رات تک ہوتا ہے۔

【226】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ عنبری، شعبہ، قتادہ، ابوایوب، یحییٰ بن مالک ازدی، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ظہر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کا وقت اس وقت تک باقی ہے جب تک سورج زرد نہ ہو اور مغرب کا وقت اس وقت تک باقی ہے جب تک کہ شفق کی تیزی نہ جائے اور عشاء کا وقت آدھی رات تک اور فجر کا وقت اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک کہ سورج نہ نکلے۔

【227】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابوعامر عقدی، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابوبکیر، حضرت شعبہ (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【228】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

احمد بن ابراہیم دورقی، عبدالصمد، ہمام، قتادہ، ابوایوب، حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے کہ آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہوجائے جب تک عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو اور مغرب کی نماز کا وقت شفق غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت بالکل آدھی رات تک رہتا ہے اور صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلنے تک رہتا ہے پھر جب سورج نکلنے لگے تو کچھ دیر کے لئے نماز سے رک جائے کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

【229】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

احمد بن یوسف ازدی، عمرو بن عبداللہ بن رزین، ابراہیم، ابن طہمان، حجاج ابن حجاج، قتادہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے اور ظہر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے کہ جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے اور اس کے اوپر کا کنارہ غروب نہ ہوجائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق غائب نہ ہوجائے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔

【230】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، عبداللہ بن یحییٰ بن ابی کثیر فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ علم جسم کے آرام کے ساتھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

【231】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

زہیر بن حرب، عبیداللہ بن سعید، ازرق، زہیر بن اسحاق بن یوسف ارزق، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سے ایک آدمی نے نماز کے وقت کے بارے میں پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو دو دن ہمارے ساتھ نماز پڑھ چناچہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ ﷺ نے حضرت بلال کو حکم فرمایا انہوں نے اذان دی پھر آپ ﷺ نے بلال کو حکم فرمایا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی کہ سورج ابھی تک بلند اور سفید تھا پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا تو انہوں نے سورج کے غروب ہونے کے وقت مغرب کی اقامت کہی پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا تو انہوں نے شفق کے غائب ہونے کے وقت میں عشاء کی نماز کی اقامت کہی پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا تو انہوں نے طلوع فجر کے وقت میں فجر کی نماز کی اقامت کہی پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ ﷺ نے ظہر کی نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کو حکم فرمایا اور خوب ٹھنڈے وقت میں پڑھی اور عصر کی نماز پڑھی کہ سورج ابھی بلند تھا لیکن پہلے دن سے ذرا اوپر سے پڑھی اور مغرب شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء تہائی رات کے بعد پڑھی اور فجر کی نماز اس وقت پڑھی کہ جب خوب روشنی پھیل گئی پھر فرمایا کہ نماز کے وقت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے تو اس نے عرض کیا میں ہوں اے اللہ کے رسول آپ ﷺ نے فرمایا یہ نمازوں کے جو اوقات تم نے دیکھے ہیں ان کے درمیان تمہاری نمازوں کے اوقات ہیں۔

【232】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

ابراہیم بن محمد بن عرعرہ سامی، حرمی بن عمارہ، شعبہ، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھنے لگا آپ نے فرمایا ہمارے ساتھ نمازیں پڑھ کر دیکھ لو پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال کو حکم فرمایا انہوں نے اندھیرے میں صبح کی اذان دی پھر طلوع فجر کے وقت صبح کی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ نے حضرت بلال کو حکم فرمایا تو انہوں نے ظہر کی اذان دی کہ جس وقت سورج آسمان کے درمیان سے ڈھل گیا پھر آپ ﷺ نے بلال کو عصر کا حکم فرمایا اور سورج ابھی بلند تھا پھر آپ ﷺ نے مغرب کا حکم فرمایا جس وقت کہ سورج غروب ہوگیا پھر آپ ﷺ نے عشا کا حکم فرمایا جس وقت کہ شفق غائب ہوگیا پھر اگلی صبح کو خوب روشنی پھیل جانے پر فجر کی نماز کا حکم فرمایا پھر آپ نے ظہر کی نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کا حکم فرمایا پھر آپ ﷺ نے عصر کا حکم فرمایا اور سورج ابھی سفید تھا اس میں زردی کا اثر نہیں ہوا تھا پھر آپ نے شفق کے غائب ہونے سے پہلے مغرب کا حکم فرمایا پھر آپ ﷺ نے تہائی رات کے گزر جانے پر عشاء کی اذان کا حکم فرمایا حرمی راوی کو اس میں شک ہے پھر جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ جو وقت تو نے دیکھا اس کا درمیانی وقت نمازوں کا ہے۔

【233】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

محمد بن عبداللہ بن نمیر، بدر بن عثمان، حضرت ابوبکر بن موسیٰ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا آیا آپ ﷺ نے اسے اس وقت کوئی جواب نہ دیا اور صبح صادق کے طلوع ہوجانے پر فجر کی نماز پڑھی کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے تھے پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا تو ظہر کی نماز سورج کے ڈھل جانے پر پڑھی اور کہنے والا کہہ رہا تھا کہ دوپہر ہوگئی اور آپ ﷺ تو ان سے زیادہ جاننے والے تھے پھر حکم فرمایا اور عصر کی نماز قائم کی اور سورج ابھی بلند تھا پھر آپ نے حکم فرمایا اور سورج کے غروب پر ہی مغرب کی نماز قائم کی پھر آپ ﷺ نے حکم فرمایا اور شفق کے غائب ہونے پر عشاء کی نماز قائم کی اور پھر اگلے دن فجر کی نماز کو مؤخر فرمایا جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل گیا یا نکلنے والا ہے اور پھر آپ ﷺ نے ظہر کی نماز کو مؤخر فرمایا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت قریب تھا اور پھر عصر کی نماز میں اتنی تاخیر فرمائی کہ کہنے والے نے کہا کہ سورج زرد ہوگیا ہے اور مغرب کی نماز اتنی دیر سے پڑھی کہ شفق ڈوبنے کو ہوگئی اور عشاء کی نماز اتنی دیر سے پڑھی کہ تہائی رات کا ابتدائی حصہ ہوگیا پھر صبح کے وقت پوچھنے والے کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان میں ہے۔

【234】

پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، بدر بن عثمان، ابی بکر، بن ابی موسی، یہ حدیث بھی اسی سند کے ساتھ اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ ﷺ نے مغرب کی نماز دوسرے دن شفق غائب ہونے سے پہلے پڑھائی۔

【235】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب، ابن مسیب، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب سخت گرمی ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو کیونکہ سخت گرمی دوزخ کی بھاپ کی وجہ سے ہے۔

【236】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【237】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، عمرو بن سواد، احمد بن عیسی، عمرو، ابن وہب، عمرو، بکیر، بسر بن سعید سلمان، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب گرمی ہو تو ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرو کیونکہ سخت گرمی دوزخ کی بھاپ کی وجہ سے ہے۔

【238】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز، علاء، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ گرمی دوزخ کی بھاپ کی وجہ سے ہے، تو تم نماز ٹھنڈا کر کے پڑھو۔

【239】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے احادیث کو ذکر فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گرمی میں نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کیونکہ سخت گرمی دوزخ کی بھاپ کی وجہ سے ہے۔

【240】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، مہاجر ابوحسن، زید بن وہب، حضرت ابوذر (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن نے ظہر کی اذان دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دو ٹھنڈا ہونے دو یا فرمایا انتظار کرو انتظار کرو اور فرمایا کہ سخت گرمی دوزخ کے بھاپ لینے کے وجہ سے ہے تو جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے یہاں تک انتظار کیا کہ ٹیلوں کے سائے تک دیکھ لئے۔

【241】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

عمرو بن سواد، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ کی آگ نے اپنے رب سے شکایت کی اور اس نے عرض کیا اے میرے پروردگار میرا بعض حصہ بعض حصہ کو کھا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت عطا فرمائی ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں تو اس وجہ سے تم سخت گرمی پاتے ہو اور سخت سردی پاتے ہو۔

【242】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، عبداللہ بن یزید مولیٰ اسود بن سفیان، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب گرمی ہو تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کیونکہ سخت گرمی دوزخ کے سانس لینے کی وجہ سے ہے اور ذکر فرمایا کہ دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اسے ہر سال میں دو سانس لینے کی اجازت دی گئی ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں۔

【243】

سخت گرمی میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، عبداللہ بن وہب، حیوہ، یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دوزخ نے کہا اے میرے رب میرا بعض حصہ بعض حصہ کو کھا گیا ہے اس لئے مجھے سانس لینے کی اجازت عطا فرمائیں تو اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو دو سانس لینے کی اجازت عطا فرما دی ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں اور تم جو سردی پاتے ہو یہ دوزخ کے سانس سے ہے اور اسی طرح تم جو گرمی پاتے ہو یہ بھی جہنم کے سانس لینے سے ہے۔

【244】

سخت گرمی کے علاوہ ظہر کی نماز پہلے وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن بشار، یحییٰ قطان، ابن مہدی، ابن مثنی، یحییٰ بن سعید، شعبہ، حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ظہر کی نماز جب سورج ڈھل جاتا تو پڑھتے تھے۔

【245】

سخت گرمی کے علاوہ ظہر کی نماز پہلے وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوالاحوص، سلام بن سلیم، ابواسحاق، سعید بن وہب، حضرت خباب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے گرمیوں میں نماز کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ہماری شکایت کو دور نہیں فرمایا۔

【246】

سخت گرمی کے علاوہ ظہر کی نماز پہلے وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

احمد بن یونس، عون بن سلام، عون ابن یونس، زہیر، ابواسحاق، سعید بن وہب، حضرت خباب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور سخت گرمی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے ہماری شکایت کو دور نہیں فرمایا زہیر نے کہا کہ میں نے ابواسحاق سے کہا کہ کیا ظہر ؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا کیا ظہر کو جلدی پڑھیں ؟ فرمایا ہاں۔

【247】

سخت گرمی کے علاوہ ظہر کی نماز پہلے وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، بشر بن مفضل، غالب قطان، بکر بن عبداللہ، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سخت گرمی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی کو زمین پر رکھنے کی طاقت نہ رکھتا تو وہ اپنے کپڑے کو بچھا کر اس پر سجدہ کرتا۔

【248】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن رمح، لیث، ابن شہاب، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز پڑھتے تھے اس حال میں کہ سورج بلند ہوتا اور کوئی عوالی کی طرف جانے والا عوالی پہنچ جاتا تو پھر بھی سورج بلند ہوتا قتیبہ کی روایت میں عوالی جانے کا ذکر نہیں۔

【249】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو، ابن شہاب، حضرت انس (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح حدیث مبارکہ نقل کی ہے۔

【250】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے تھے پھر کوئی قباء کی طرف جانے والا جاتا تو وہاں پہنچ جانے کے بعد بھی سورج بلند ہوتا۔

【251】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے تھے پھر ایک انسان قبیلہ عمرو بن عوف کی طرف جاتا تو ان کو عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔

【252】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن ایوب، محمد بن صباح، قتیبہ و ابن حجر، اسماعیل بن جعفر، علاء بن عبدالرحمن، حضرت علاء بن عبدالرحمن (رض) فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر بصرہ میں حضرت انس بن مالک (رض) کے گھر میں گئے وہ گھر مسجد کے ایک کونے میں تھا تو جب ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی تو ہم نے ان سے کہا کہ ہم ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر آئے ہیں انہوں نے فرمایا کہ عصر کی نماز پڑھ لو تو ہم کھڑے ہوئے تو ہم نے نماز پڑھی جب ہم فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ تو منافق کی نماز ہے کہ سورج کو بیٹھے دیکھتا رہتا ہے جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان میں ہوتا ہے تو کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مارنے لگ جاتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا مگر بہت تھوڑا۔

【253】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

منصور بن ابی مزاحم، عبداللہ بن مبارک، ابی بکر بن عثمان بن سہل بن حنیف، حضرت امامہ بن سہل فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی پھر ہم نکلے یہاں تک کہ حضرت انس بن مالک (رض) کے پاس پہنچ گئے تو ہم نے ان کو عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے عرض کیا اے چچا جان یہ آپ نے کونسی نماز پڑھی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا عصر کی نماز اور یہ وہ نماز ہے جسے ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔

【254】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

عمرو بن سواد عامری، محمد بن سلمہ مرادی، احمد بن عیسی، عمرو، ابن وہب، عمرو بن حارث، یزید بن ابی حبیب، موسیٰ بن سعد، انصاری، حفص بن عبیداللہ، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو بنی سلمہ کا ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم ایک اونٹ ذبح کرنا چاہتے ہیں اور ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اس موقع پر آپ ﷺ بھی ہمارے ساتھ موجود ہوں آپ ﷺ نے فرمایا اچھا چلو اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلے ہم نے دیکھا کہ ابھی تک اونٹ ذبح نہیں ہوا تھا پھر اسے ذبح کیا گیا پھر اس کا گوشت کاٹا گیا پھر اس گوشت کو پکایا گیا پھر ہم نے اس گوشت کو سورج غروب ہونے سے پہلے کھالیا۔

【255】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مہران رازی، ولید بن مسلم، اوزاعی، نجاشی، رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھتے تھے پھر ہم اونٹ ذبح کر کے دس حصوں میں تقسیم کرتے پھر اسے پکایا جاتا تو ہم پکا ہوا گوشت سورج کے غروب ہونے سے پہلے کھالیتے۔

【256】

عصر کی نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن منصور، عیسیٰ بن یونس، شعیب بن اسحاق دمشقی، اوزاعی، اس سند کے ساتھ یہ حدیث اسی طرح نقل کی گئی ہے لیکن اس میں ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہم اونٹ ذبح کرتے تھے اور یہ نہیں کہا کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔

【257】

عصر کی نماز کے فوت کردینے میں عذاب کی وعید کے بیا میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، ابن عمر سے وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی سے عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا کہ اس کے گھر والے اور اس کا مال ہلاک ہوگیا۔

【258】

عصر کی نماز کے فوت کردینے میں عذاب کی وعید کے بیا میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، سفیان، زہری، سالم، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی۔

【259】

عصر کی نماز کے فوت کردینے میں عذاب کی وعید کے بیا میں

ہارون بن سعید ایلی، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی کی عصر کی نماز فوت ہوگئی تو گویا کہ اس کے گھر والے اور اس کا مال ہلاک ہوگیا۔

【260】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوا سامہ، ہشام، محمد بن عبیدہ، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے دن فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے جیسے کہ انہوں نے ہمیں صلوہ وسطی سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔

【261】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

محمد بن ابوبکر مقدامی، یحییٰ بن سعید، اسحاق بن ابراہیم، معتمر بن سلیمان، حضرت ہشام (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【262】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، ابوحسان، عبیدہ، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب والے دن ارشاد فرمایا کہ کافروں نے ہمیں نماز وسطی سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اللہ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے شعبہ راوی کو شک ہے کہ بیوت فرمایا یا بطون فرمایا۔

【263】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

محمد بن مثنی، ابن عدی، سعید، قتادہ، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے اور اس میں بغیر کسی شک کے (بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ ) فرمایا۔

【264】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، وکیع، شعبہ، حکم، یحییٰ بن حزار، علی، عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، حکم، یحیی، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب کے دن فرمایا اس حال میں کہ آپ ﷺ خندق کے راستوں میں سے ایک راستہ پر تشریف فرما تھے، مشرکوں نے ہمیں نماز وسطی سے روکے رکھا ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا ہے اللہ ان کی قبروں اور گھروں کو یا فرمایا ان کی قبروں یا ان کے پیٹوں کو آگ سے بھر دے۔

【265】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، مسلم بن صبیح، شتیر بن شکل، حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احزاب والے دن فرمایا کافروں نے ہمیں صلوہ وسطی یعنی عصر کی نماز پڑھنے سے روکے رکھا ہے اللہ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھردے پھر آپ نے عشاء اور مغرب کے درمیان عصر کی نماز ادا فرمائی۔

【266】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

عون بن سلام کوفی، محمد بن طلحہ یامی، زبید، مرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو عصر کی نماز سے روک دیا یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مشرکوں نے ہمیں صلوہ وسطی سے روک دیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے۔

【267】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، مالک، زید بن اسلم، قعقاع، حکیم، حضرت ابویونس (رض) حضرت عائشہ (رض) کے غلام فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے حکم فرمایا کہ میں ان کے لئے قرآن لکھوں اور فرماتی ہیں کہ جب تو اس آیت پر پہنچے تو مجھے بتانا (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ : 138) تو جب میں اس آیت پر پہنچا تو آپ (رض) کو میں نے بتایا تو انہوں نے فرمایا کہ اس آیت کو اس طرح لکھو حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی ( وَصَلَاةِ الْعَصْرِ ) وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ، عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے اس آیت کو اسی طریقے سے سنا ہے۔

【268】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، یحییٰ بن آدم، فضیل بن مرزوق، شقیق بن عقبہ، حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت نازل ہوئی حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ تو ہم اس آیت کو جب تک اللہ نے چاہا اسی طرح پڑھتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ فرما دیا تو اس طرح آیت نازل ہوئی (حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی) تو ایک آدمی جو کہ حضرت شقیق کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اب نماز عصر ہی یہی نماز (نماز وسطی) ہے حضرت براء نے فرمایا کہ میں نے تجھے بتادیا ہے کہ یہ آیت کیسے نازل ہوئی اور اللہ نے اسے کیسے منسوخ فرما دیا اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

【269】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

اشجعی، سفیان ثوری، اسود بن قیس، شقیق بن عقبہ، حضرت براء بن عازب (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ اس آیت کو ایک عرصہ دراز تک اسی طرح پڑھتے رہے باقی حدیث اسی طرح سے ہے جیسے گزری۔

【270】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

ابوغسان، محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، یحییٰ بن کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) غزوہ خندق والے دن قریش کے کافروں کو سب وشتم کرنے لگے اور عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ کی قسم عصر کی نماز ابھی تک نہیں پڑھی اور سورج غروب ہونے کے قریب ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میں نے بھی عصر کی نماز پڑھی ہو، پھر ہم بطحان کی طرف اترے رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور ہم نے بھی وضو کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھائی پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

【271】

اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ صلوہ وسطی نماز عصر ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم، ابوبکر، اسحاق، وکیع، علی بن مبارک، یحییٰ بن ابی کثیر، اس سند میں یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【272】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں اور فجر کی نماز میں اور عصر کی نماز میں وہ اکٹھے ہوتے ہیں پھر یہ اوپر چڑھ جاتے ہیں پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم نے ان کو نماز کی حالت میں چھوڑا اور ہم ان کے پاس سے آئے تو اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

【273】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی ہے۔

【274】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

زہیر بن حرب، مروان بن معاویہ، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ بلاشبہ تم اپنے رب کو اس طرح سے دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور اسے دیکھنے میں تم کسی قسم کی دقت محسوس نہیں کرتے پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج کے نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے کی نمازوں یعنی عصر اور فجر کی نمازوں کو قضاء نہ کرنا پھر حضرت جریر نے یہ آیت پڑھی (وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا) 20 ۔ طہ : 130) سورج کے نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی پاکی حمد کے ساتھ بیان کرو۔

【275】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن نمیر، ابواسامہ، وکیع، اس سند کے ساتھ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ تمہیں عنقریب اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اپنے رب کو اسطرح دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو پھر آپ ﷺ نے پڑھا۔

【276】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ابن ابی خالد، مسعر، مختار، حضرت ابوبکر بن عمارہ بن رویبہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ آدمی ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی یعنی فجر اور عصر کی نماز۔ بصرہ کے ایک آدمی نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے انہوں نے فرمایا ہاں، تو اس آدمی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے میرے کانوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔

【277】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

یعقوب بن ابراہیم، یحییٰ بن ابی بکیر، شیبان، عبدالملک بن عمیر، حضرت عمارہ (رض) بن رویبہ (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ آدمی دوزخ میں نہیں جائے گا جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی اور ان کے پاس بصرہ کا ایک آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا آپ نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے اسی جگہ سے سنا جس سے میں سن سکتا ہوں۔

【278】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

ہداب بن خالد، ہمام بن یحیی، ابوحمزہ ضبعی، ابوبکر حضرت ابوبکر (رض) اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے دو ٹھنڈی نمازیں پڑھیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔

【279】

صبح اور عصر کی نماز کی فضیلت اور ان پر محافظ مقرر کرنے کے بیان میں

ابن ابی عمر، بشربن سری، ابن خراش، عمرو بن عاصم، ہمام اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【280】

اس بات کے بیان میں کہ مغرب کی نماز کا بتدائی وقت سورج غروب ہونے کے وقت ہے۔

قتیبہ بن سعید، حاتم بن اسماعیل، یریذ بن ابی عبید، حضرت سلمہ بن اکوع (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج غروب ہوتا (اور اتنا غروب ہوتا) کہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔

【281】

اس بات کے بیان میں کہ مغرب کی نماز کا بتدائی وقت سورج غروب ہونے کے وقت ہے۔

محمد بن مہران، ولید بن مسلم، اوزاعی، ابونجاشی، حضرت رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ ہم مغرب کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی نماز سے فارغ ہوتا تو وہ اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ سکتا تھا۔

【282】

اس بات کے بیان میں کہ مغرب کی نماز کا بتدائی وقت سورج غروب ہونے کے وقت ہے۔

اسحاق بن ابراہیم، شعیب بن اسحاق دمشقی، اوزاعی، ابونجاشی، رافع بن خدیج، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【283】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

عمرو بن سواد عامری، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی اور اس کو عتمہ پکارا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ نہ نکلے یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے عرض کیا کہ عورتیں اور بچے سو گئے تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جس وقت آپ ﷺ تشریف لا رہے تھے تو مسجد والوں سے فرمایا کہ تمہارے علاوہ زمین والوں میں سے کوئی بھی اس کا انتظار نہیں کر رہا اور یہ لوگوں میں اسلام کے پھیلنے سے پہلے کی بات ہے حرملہ نے اپنی روایت میں زیادہ کیا ہے اور اس میں اس طرح ہے کہ حضرت عمر (رض) بن خطاب نے جس وقت چلا کر رسول اللہ ﷺ کو نماز کی طرف متوجہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے لئے یہ مناسب نہیں کہ تم رسول اللہ ﷺ سے نماز کا کہو۔

【284】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

عبدالملک بن شعیب بن لیث، عقیل، ابن شہاب اس سند کے ساتھ ایک اور روایت میں اس طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【285】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم و محمد بن حاتم، محمد بن بکر، ہارون بن عبداللہ، حجاج بن محمد، حجاج بن شاعر و محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریر، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات نبی ﷺ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا بہت سا حصہ گزر گیا اور یہاں تک کہ مسجد والے سو گئے پھر آپ ﷺ نکلے اور نماز پڑھائی اور فرمایا کہ عشاء کی نماز کا یہی وقت ہوتا اگر مجھے میری امت پر مشقت کا خیال نہ ہوتا۔

【286】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

زہیر بن حرب و اسحاق بن ابراہیم، زہیر، جریر، منصور، حکم، نافع، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لئے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے رہے تو آپ ﷺ تہائی رات کے وقت یا اس کے بعد ہماری طرف تشریف لائے ہمیں نہیں معلوم کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں کسی کام میں مصروف تھے یا اس کے کے علاوہ کوئی اور وجہ تھی تو نکلتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کوئی بھی دین والا جس کا انتظار نہیں کر رہا اور اگر میری امت پر بوجھ نہ ہوتا تو میں اسی وقت نماز پڑھتا پھر آپ نے مؤذن کو حکم فرمایا تو اس نے نماز کی اقامت کہی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔

【287】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، نافع، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات اپنے کسی کام میں مصروف تھے تو آپ ﷺ نے عشاء کی نماز میں دیر کردی یہاں تک کہ ہم مسجد میں سو گئے پھر ہم جاگے پھر ہم سو گئے پھر ہم جاگے پھر رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائے پھر فرمایا کہ زمین والوں میں سے تمہارے علاوہ رات کو نماز کا انتظار کرنے والا اور کوئی نہیں ہے۔

【288】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

ابوبکر بن نافع عبدی، بہز بن اسد، حماد بن سلمہ حضرت ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت انس (رض) سے رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات عشاء کی نماز میں آدھی رات تک یا آدھی رات کے قریب تک تاخیر کردی پھر آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ لوگوں نے نماز پڑھی اور سو گئے اور تم نماز میں ہو جب تک تم نماز کے انتظار میں ہو، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ گویا کہ میں آپ کی چاندی کی انگوٹھی کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔

【289】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

حجاج بن شاعر، ابوزید سعید بن ربیع، قرہ بن خالد، قتادہ، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم نے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کیا یہاں تک کہ آدھی رات کے قریب ہوگئی پھر آپ ﷺ تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے گویا کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ چاندی کی انگوٹھی آپ کے دست مبارک میں چمک رہی ہے۔

【290】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

عبداللہ بن صباح عطار، عبیداللہ بن عبدالمجید، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح سے نقل کی گئی ہے لیکن اس میں (ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ) یعنی پھر آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اس کا ذکر نہیں ہے۔

【291】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

ابوعامر اشعری و ابوکریب، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے وہ ساتھی جو میرے ساتھ کشتی میں تھے بقیع کی پتھریلی زمین میں اترے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تھے اور ہم میں سے ایک جماعت کے لوگ ہر رات عشاء کی نماز کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے تھے، حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ اپنے کسی کام میں مصروف تھے یہاں تک کہ نماز میں تاخیر ہوگئی اور آدھی رات کے بعد تک ہوگئی پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور سب کو نماز پڑھائی پھر جب نماز پوری ہوگئی تو جو لوگ اس وقت موجود تھے ان سے فرمایا کہ ذرا ٹھہرو میں تمہیں بتاتا ہوں اور تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے اوپر اللہ کا یہ احسان ہے کہ لوگوں میں سے اس وقت تمہارے علاوہ کوئی بھی نماز نہیں پڑھ سکا یا یہ فرمایا کہ اس وقت تمہارے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی (راوی نے کہا) کہ ہم نہیں جانتے کہ کون سا کلمہ فرمایا حضرت ابوموسی فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے یہ خوشخبری سنی تو خوشی خوشی واپس لوٹے۔

【292】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے کہا تمہارے نزدیک عشا کی نماز پڑھنے کے لئے کونسا وقت زیادہ بہتر ہے ؟ وہ وقت کہ جسے لوگ عتمہ کہتے ہیں، امام کے ساتھ پڑھے یا اکیلا ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی ﷺ نے عشاء کی نماز میں دیر فرما دی یہاں تک کہ لوگ سو گئے پھر جاگے پھر سو گئے اور پھر جاگے تو حضرت عمر بن خطاب (رض) نے کھڑے ہو کر فرمایا : نماز ! عطا کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی ﷺ تشریف لائے گویا کہ میں اب بھی ان کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ﷺ نے اپنے سر مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری امت پر کوئی دقت نہ ہوتی تو میں اسے اسی وقت نماز پڑھنے کا حکم دیتا راوی کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ نبی ﷺ نے اپنے سر پر ہاتھ کیسے رکھا ہوا تھا جیسا کہ اسے حضرت ابن عباس (رض) نے بتایا، عطاء نے اپنی انگلیاں کچھ کھولیں پھر اپنی انگلیوں کے کنارے اپنے سر پر رکھے پھر ان کو سر سے جھکایا اور پھیرا یہاں تک کہ آپ کا انگوٹھا کان کے اس کنارے کی طرف پہنچا جو کنارہ منہ کی طرف ہے پھر آپ ﷺ کا انگوٹھا کنپٹی تک اور داڑھی کے کنارے تک ہاتھ نہ کسی کو پکڑتا تھا ورنہ ہی ہاتھ کسی چیز کو چھوتا تھا میں نے عطا سے کہا کہ کیا آپ کو اس کا بھی ذکر کیا کہ نبی ﷺ نے رات کی نماز میں کتنی دیر فرمائی کہنے لگے کہ میں نہیں جانتا، عطاء کہنے لگے کہ میں اس چیز کو پسند کرتا ہوں چاہے امام کے ساتھ نماز پڑھوں یا اکیلا نماز پڑھوں دیر کر کے جس طرح کہ نبی ﷺ نے اس رات دیر کرکے نماز پڑھائی اگر مجھے تنہائی میں مشقت ہو یا لوگوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں اور تو ان کا امام ہو تو انہیں درمیانی وقت میں نماز پڑھاؤ، نہ تو جلدی اور نہ ہی دیر کر کے۔

【293】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحیی، ابواحوص، سماک، حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھا کرتے تھے۔

【294】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

قتیبہ بن سعید، ابوکامل جحدری، ابوعوانہ، سماک، حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری نمازوں (کے اوقات) کی طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور عشاء کی نماز تمہاری نماز سے کچھ تاخیر کر کے پڑھا کرتے تھے اور آپ ﷺ نماز میں تخفیف فرمایا کرتے تھے۔

【295】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

زہیر بن حرب و ابن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ابن ابی لبید، ابوسلمہ، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمہاری نمازوں کے نام پر دیہاتی غالب نہ آجائیں کیونکہ دیہاتی عشاء کو عتمہ کہتے ہیں اور عتمہ اندھیرا چھا جانے کو کہتے ہیں۔

【296】

عشاء کی نماز کے وقت اور اس میں تاخیر کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، عبداللہ بن ابی لبید، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیہاتی تمہاری عشاء کی نماز کے نام پر غالب نہ آجائیں کیونکہ وہ اللہ کی کتاب میں عشاء ہے اور دیہاتی دیر سے اونٹوں کا دودھ دوہتے ہیں۔

【297】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ و عمرو ناقد و زہیر بن حرب، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ مومن عورتیں صبح (فجر) کی نماز نبی ﷺ کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں پھر اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی (اپنے گھروں کو) واپس لوٹتی تھیں کہ انہیں کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا۔

【298】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ مومن عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی رسول ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضر ہوتی تھیں پھر وہ اپنے گھروں کو لوٹتی تھیں کہ انہیں کوئی بھی نہیں پہچانتا تھا۔

【299】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

نصر بن علی جہضمی و اسحاق بن موسیٰ انصاری، معن، مالک، یحییٰ بن سعید، عمرۃ، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھتے تھے اور عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس آتی تھیں اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔

【300】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی و ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سعد بن ابراہیم، حضرت محمد بن عمرو بن حسن بن علی فرماتے ہیں کہ حجاج مدینہ منورہ میں آیا تو ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز گرمی کے وقت پڑھتے تھے اور عصر کی نماز جب سورج صاف ہوتا اور مغرب کی نماز جب سورج ڈوب جاتا اور عشاء کی نماز میں کبھی تاخیر فرماتے اور کبھی جلدی پڑھ لیتے جب دیکھتے تھے کہ لوگ جمع ہوگئے ہیں کہ تو جلدی پڑھ لیتے اور جب دیکھتے کہ لوگ دیر سے آئے ہیں تو دیر فرماتے اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔

【301】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، سعد، حضرت محمد بن عمرو بن حسن بن علی (رض) فرماتے ہیں کہ حجاج نمازوں میں دیر کرتا تھا تو ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا باقی حدیث اسی طرح سے ہے۔

【302】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

یحییٰ بن حبیب حارثی، خالد بن حارث، شعبہ، حضرت سیار بن سلامہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے ابویسال ابوبرزہ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں سنا راوی نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ نے اس کو حضرت ابوبرزہ سے سنا ہے تو انہوں نے فرمایا گویا کہ میں اس وقت اس کو سن رہا ہوں (مطلب یہ کہ اتنا یاد ہے) پھر اس نے کہا کہ میں نے اس کو سنا وہ ابوسیال سے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھ رہے تھے انہوں نے فرمایا کہ آپ ﷺ کوئی پرواہ نہ فرماتے تھے کہ عشاء کی نماز میں اگرچہ آدھی رات تک دیر ہوجاتی اور نماز سے پہلے سونے اور نماز کے بعد باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے راوی شعبہ نے کہا کہ پھر میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا انہوں نے فرمایا کہ ظہر کی نماز جب سورج ڈھل جاتا تو پڑھتے تھے اور عصر کی نماز جب آدمی مدینہ کے آخر میں چلا جاتا تھا اور سورج ابھی باقی ہوتا تھا اور مغرب کی نماز کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ وہ کس وقت پڑھتے تھے شعبہ نے کہا میں نے ان سے پھر ملاقات کی اور پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ صبح کی نماز ایسے وقت میں پڑھتے کہ آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو دیکھ لیتا جسے جانتا تھا تو اسے پہچان لیتا تھا اور اس میں ساٹھ (آیات سے لے کر) سو (آیات) تک پڑھا کرتے تھے۔

【303】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، سیار بن سلامہ، حضرت ابوبرزہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز کو آدھی رات تک دیر سے پڑھنے کی کوئی پرواہ نہ فرماتے تھے اور نماز سے پہلے سونے کو اور نماز کے بعد باتیں کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے شعبہ کہتے ہیں کہ پھر میں اس سے ملا تو انہوں نے فرمایا یا تہائی رات تک۔

【304】

صبح کی نماز (فجر) کو اس کے اول وقت میں پڑھنے اور اس میں قرأت کی مقدار کے بیان میں۔

ابوکریب، سوید بن عمرو کلبی، حماد بن سلمہ، سیار بن سلامہ، منہال، ابوبرزہ، حضرت ابوبرزہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر سے پڑھا کرتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند سمجھتے تھے اور فجر کی نماز میں سو آیات سے لے کر ساٹھ آیات تک پڑھا کرتے تھے اور نماز سے فارغ ہوتے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھے۔

【305】

اس بات کے بیان میں کہ مختار وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

خلف بن ہشام، حماد بن زید، ابوربیع زہرانی و ابوکامل جحدری، حماد بن زید، ابوعمران جونی، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم اس وقت کیا کرو گے جب تم پر ایسے حکمران ہوں گے جو نماز کو اس کے وقت سے دیر کر کے پڑھیں گے یا نماز کو اس کے وقت سے مٹا ڈالیں گے تو میں نے عرض کیا کہ اس وقت میرے لئے کیا حکم ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا لیکن اگر ان کے ساتھ بھی پالو پڑھ لینا کیونکہ وہ تمہارے لئے نفل نماز ہوجائے گی راوی خلف نے لفظ عَنْ وَقْتِهَا کا ذکر نہیں کیا۔

【306】

اس بات کے بیان میں کہ مختار وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

یحییٰ بن یحیی، جعفر بن سلیمان، ابی عمران جونی، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا اے ابوذر عنقریب میرے بعد ایسے حکمران ہوں گے جو نماز کو مٹا ڈالیں گے تو تم نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا تو اگر تو نے نماز کو اپنے وقت پر پڑھ لیا تو وہ نماز (جو حاکم کے ساتھ پڑھی گئی) تیرے لئے نفل ہوگی ورنہ تو نے تو اپنی نماز پوری کر ہی لی۔

【307】

اس بات کے بیان میں کہ مختار (مستحب) وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن ادریس، شعبہ، ابوعمران، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت فرمائی ہے میں سنوں اور فرمانبرداری کروں اگرچہ ہاتھ پاؤں کٹا ہوا غلام ہو اور یہ کہ میں نماز کو اپنے وقت پر پڑھوں اگر تو لوگوں کو پائے کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے تو تو نے اپنی نماز پہلے ہی پوری کرلی ورنہ وہ نماز تیرے لئے نفل ہوجائے گی۔

【308】

اس بات کے بیان میں کہ مختار (مستحب) وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

یحییٰ بن حبیب، خالد بن حارث، شعبہ، بدیل، ابوعالیہ، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور میری ران پر ہاتھ مارا کہ تیرا کیا حال ہوگا جب تو ایسے لوگوں میں باقی رہ جائے گا جو نماز کو اپنے وقت سے تاخیر کر کے پڑھیں میں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ ایسے وقت کے لئے مجھے کیا حکم فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا پھر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جانا پھر اگر نماز کی اقامت کہی جائے اس حال میں کہ تم مسجد میں ہو تو نماز پڑھ لینا۔

【309】

اس بات کے بیان میں کہ مختار (مستحب) وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، حضرت ابوالعالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ ابن زیاد نے نماز میں تاخیر کی تو حضرت عبداللہ بن صامت (رض) میرے پاس آئے اور میں نے ان کے لئے کرسی ڈالی وہ اس کر سی پر بیٹھے تو میں نے ان سے ابن زیاد کے کام کا ذکر کیا تو انہوں نے اپنے ہونٹ دبائے اور میری ران پر مارا اور فرمایا کہ میں نے ابوذر (رض) سے پوچھا تھا جس طرح تو نے مجھ سے پوچھا ہے اور انہوں نے بھی میری ران پر مارا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا اور فرمایا کہ نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا اور اگر تو نے نماز ان کے ساتھ پا لی تو پڑھ لینا یہ مت کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے اس لئے اب میں نماز نہیں پڑھتا۔

【310】

اس بات کے بیان میں کہ مختار (مستحب) وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

عاصم بن نضر تیمی، خالد بن حارث، شعبہ، ابونعامہ، عبداللہ بن صامت، حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ تمہارا کیا حال ہوگا یا فرمایا کہ تیرا کیا حال ہوگا کہ جب تو ایسے لوگوں میں باقی رہ جائے گا جو نماز کو اپنے وقت سے دیر کر کے پڑھتے ہیں تو نماز کو اپنے وقت پر پڑھ اگر نماز کھڑی ہوجائے تو تو ان کے ساتھ نماز پڑھ کیونکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔

【311】

اس بات کے بیان میں کہ مختار (مستحب) وقت سے نماز کو تاخیر سے پڑھنا مکروہ ہے اور جب امام تاخیر کرے تو مقتدی بھی ایسے ہی کریں۔

ابوغسان مسمعی، معاذ، ابن ہشام، مطر، حضرت ابوالعالیہ براء (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن صامت (رض) سے کہا کہ ہم جمعہ کے دن حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں وہ نماز میں تاخیر کرتے ہیں راوی ابوالعالیہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ (رض) نے میری ران پر ایک ہاتھ مارا تو مجھے درد ہونے لگا اور فرمایا کہ میں نے بھی اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نماز کو اپنے وقت پر پڑھو اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل کردیا کرو راوی نے کہا کہ حضرت عبداللہ نے مجھ سے ذکر کیا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابوذر (رض) کی ران پر بھی ہاتھ مارا تھا۔

【312】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا پچیس گنا اس نماز سے افضل ہے جو تم میں سے کوئی اکیلا نماز پڑھے۔

【313】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، عبدالاعلی، معمر، زہری، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے رات اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو (قرآن کی یہ آیت) پڑھو ! إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُودًا) ۔ 17 ۔ الاسراء : 78)

【314】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن اسحاق، ابویمان، شعیب، زہری، سعید، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا باقی حدیث اسی طرح ہے۔

【315】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

عبداللہ بن مسلمہ، قعنب، افلح، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم، سلیمان اغر، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے والے کی پچیس نمازوں کے برابر ہے۔

【316】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

ہارون بن عبداللہ، محمد بن حاتم، حجاج بن محمد، ابن جریج، حضرت عمر بن عطاء بن ابی خوار فرماتے ہیں کہ ہم حضرت نافع بن جبیر بن مطعم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعبداللہ وہاں سے گزرے حضرت نافع نے انہیں بلایا انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ امام کے ساتھ ایک نماز پڑھنا اکیلے پچیس نمازیں پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔

【317】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے والے سے ستائیس گنا فضیلت رکھتا ہے۔

【318】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن مثنی، یحییٰ بن عبیداللہ، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا فضیلت رکھتا ہے۔

【319】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، ابن نمیر، عبیداللہ ابن نمیر، اس سند میں ابن نمیر نے بیس اور کچھ زیادہ اور ابوبکر کی روایت میں ستائیس درجہ ہے۔

【320】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

ابن رافع، ابن ابی فدیک، ضحاک، نافع، حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کچھ زیادہ اور بیس۔

【321】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

عمرو ناقد، سفیان بن عیینہ، ابوزناد، اعرج، ابوہریرہ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو نمازوں میں موجود پایا تو فرمایا کہ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر ان آدمیوں کی طرف جاؤں جو نماز سے پیچھے رہ گئے ہیں پھر میں لکڑیاں جمع کروا کے ان کے گھروں کو جلا ڈالنے کا حکم دوں اور اگر ان میں سے کسی کو معلوم ہوجائے کہ انہیں گوشت سے پر ہڈی ملے گی تو وہ اس نماز یعنی عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتے۔

【322】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

ابن نمیر، اعمش، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوصالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ منافقوں پر سب سے زیادہ بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے اور اگر وہ جان لیں کہ ان نمازوں میں کتنا اجر ہے تو یہ ان نمازوں کو پڑھنے کے لئے ضرور آئیں اگرچہ ان کو گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے اور میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں نماز کا حکم دوں پھر وہ قائم کی جائے پھر میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلوں کہ لکڑیوں کے ڈھیر ان کے ساتھ ہو ان لوگوں کی طرف جو (جان بوجھ کر) نماز میں حاضر نہیں ہوتے ان کے گھروں کو آگ کے ساتھ جلا ڈالوں۔

【323】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، حضرت ہمام بن منبہ ان چند چیزوں میں سے نقل فرماتے ہیں جو کہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ ﷺ سے نقل فرمائی ہیں ان احادیث میں یہ حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں اپنے جوانوں کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں پھر میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر ان گھروں پر آگ لگا دوں جن میں وہ ہیں۔

【324】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

زہیر بن حرب، ابوکریب، اسحاق بن ابراہیم، وکیع، جعفر بن برقان، یزید بن اصم اس سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث نقل فرمائی۔

【325】

نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور اس کے چھوڑنے میں سخت وعید اور اس کے فرض کفایہ ہونے کے بیان میں

احمد بن عبداللہ بن یونس، زہیر، ابواسحاق، ابواحوص، حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایسے لوگوں کے لئے فرمایا کہ جو جمعہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ایسے آدمیوں کے گھروں پر آگ لگا دوں جو جمعہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

【326】

اس بات کے بیان میں کہ کو اذان کی آواز سنے اس کے لئے مسجد میں آنا واجب ہے

قتیبہ بن سعید و اسحاق بن ابراہیم و سوید بن سعید و یعقوب دورقی، مروان، قتیبہ، فزاری، عبیداللہ بن اصم، یزید بن اصم، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی آیا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرا کوئی ایسا رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد کی طرف لے کر آئے اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ اس لئے پوچھا تاکہ اسے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مل جائے آپ ﷺ نے اسے اجازت دے دی جب وہ پشت پھیر کر جانے لگا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا کیا تو نماز کے لئے اذان کی آواز سنتا ہے اس نے عرض کیا جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تیرے لئے ضروری ہے کہ مسجد میں آکر نماز پڑھ۔

【327】

اس بات کے بیان میں کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنن ہُدیٰ میں سے ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشرعبدی، زکریا بن ابی زائدہ، عبدالملک بن عمیر، ابی احوص، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم دیکھتے تھے کہ سوائے منافق کے نماز سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہتا تھا جس کا نفاق ظاہر ہو یا وہ بیما رہو اگر بیمار ہوتا تو بھی دو آدمیوں کے سہارے چلتا ہوا نماز پڑھنے کے لئے آجاتا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سنن ہدی سکھایا ہے اور سنن ہُدیٰ میں یہ کہ اس مسجد میں نماز پڑھنا کہ جس میں اذان دی جاتی ہو۔

【328】

اس بات کے بیان میں کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنن ہدی میں سے ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، ابی عمیس، علی بن اقمر، ابواحوص، حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ وہ کل اسلام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ساری نمازوں کی حفاظت کرے جہاں سے انہیں پکارا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کے لئے ہدایت کے طریقے متعین کر دئیے ہیں اور یہ نمازیں بھی ہدایت کے طریقوں میں سے ہیں اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں پڑھتا ہے تو تم نے اپنے نبی ﷺ کے طریقے کو چھوڑ دیا ہے اور اگر تم اپنے نبی ﷺ کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے اور کوئی آدمی نہیں جو پاکی حاصل کرے پھر ان مسجدوں میں سے کسی مسجد کی طرف جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے ہر قدم پر جو وہ رکھتا ہے ایک نیکی لکھتا ہے اور اس کے ایک درجے کو بلند کرتا اور اس کے ایک گناہ کو مٹا دیتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ منافق کے سوا کوئی بھی نماز سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہ جس کا نفاق ظاہر ہوجاتا اور ایک آدمی جسے دو آدمیوں کے سہارے لایا جاتا تھا یہاں تک کہ اسے صف میں کھڑا کردیا جاتا۔

【329】

جب موذن اذان دے دے تو مسجد سے نکلنے کی ممانعت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواحوص، ابراہیم بن مہاجر، حضرت ابوشعثاء (رض) فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو مؤذن نے اذان دی تو ایک آدمی کھڑا ہو اور مسجد سے جانے لگا حضرت ابوہریرہ اپنی نگاہ سے اس کا پیچھا کرتے رہے یہاں تک کہ وہ مسجد سے نکل گیا پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ اس آدمی نے حضرت ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔

【330】

جب موذن اذان دے دے تو مسجد سے نکلنے کی ممانعت کے بیان میں

ابن ابی عمر مکی، سفیان بن عیینہ، عمر بن سعید، حضرت اشعث بن ابی شعثا صحابی (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا اور انہوں نے ایک آدمی کو اذان کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔

【331】

عشاء اور صبح کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، مغیرہ بن سلمہ، عبدالواحد بن زیاد، عثمان بن حکیم، حضرت عبدالرحمن بن ابوعمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور اکیلے بیٹھ گئے تو میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا تو انہوں نے فرمایا اے میرے بھتیجے میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس آدمی نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا کہ اس نے ساری رات قیام کیا۔

【332】

عشاء اور صبح کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

زہیر بن حرب، محمد بن عبداللہ اسدی و محمد بن رافع، عبدالرزاق، سفیان، ابی سہل، حضرت عثمان بن حکیم (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح سے نقل کی گئی ہے۔

【333】

عشاء اور صبح کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، بشر ابن مفضل، خالد، حضرت انس بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جندب بن عبداللہ (رض) سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھی تو وہ اللہ کی ذمہ داری میں ہے اللہ کی ذمہ داری میں خلل نہ ڈالو تو جو اس طرح کرے گا اللہ اسے اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈال دے گا۔

【334】

عشاء اور صبح کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

یعقوب بن ابراہیم دورقی، اسماعیل، خالد، حضرت انس بن سیرین (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جندب قمری سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے صبح کی نماز پڑھی تو وہ اللہ کی ذمہ داری میں ہے کوئی اللہ کی ذمہ داری میں خلل نہ ڈالے تو جو آدمی اللہ سے کسی چیز کے ساتھ اللہ کی ذمہ داری کو طلب کرے گا تو اللہ اسے اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈال دے گا۔

【335】

عشاء اور صبح کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، داؤد بن ابی ہند، حسن، حضرت جندب بن سفیان (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح یہ حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈالے جانے کا ذکر نہیں ہے۔

【336】

کسی عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کی رخصت کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت محمود بن ربیع انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عتبان بن مالک (رض) نبی ﷺ کے صحابہ میں سے وہ صحابی ہیں جو انصار میں سے غزوہ بدر میں شریک ہوئے وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میری بینائی ختم ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارش ہوتی ہے تو میرے اور ان کے درمیان ایک نالہ ہے جو بہتا ہے جس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں ان کو نماز پڑھانے کے لئے نہیں آسکتا اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول آپ ﷺ میرے گھر میں تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں تاکہ میں اس جگہ میں اپنی نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں تو رسول اللہ ﷺ فرمایا میں اسی طرح کروں گا اگر اللہ نے چاہا تو عتبان کہتے ہیں کہ اگلے دن رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) دن چڑھے ہی میرے ہاں تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے اجازت طلب فرمائی اور میں نے آپ ﷺ کو اجازت دی آپ ﷺ گھر میں داخل ہوئے ابھی آپ ﷺ بیٹھے نہیں تھے اور فرمایا کہ تو کہاں چاہتا ہے کہ ہم تیرے گھر میں نماز پڑھیں عتبان کہتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم بھی آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے دو رکعتیں نماز کی پڑھائیں پھر آپ ﷺ نے سلام پھیر دیا عتبان کہتے ہیں کہ ہم نے آپ ﷺ کے لئے حریرہ بنایا ہوا تھا ہم نے آپ ﷺ کو روکا کہ آپ ﷺ کو وہ حریرہ کھلائیں اور ہمارے اردگرد کے لوگ بھی آگئے یہاں تک کہ گھر میں کچھ لوگوں کا ایک اجتماع ہوگیا ان لوگوں میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ مالک بن دخشن کہاں ہے ؟ ان میں سے کسی نے (جذبات میں آکر) کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت نہیں کرتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسے اس طرح نہ کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہے وہ اس سے صرف اللہ کی رضا چاہتا ہے عتبان کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی زیادہ جاننے والے ہیں (ان لوگوں میں سے کسی نے) کہا کہ ہم نے اس کی تو جہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں کے لئے کرتا دیکھا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اللہ کی رضا کی خاطر لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اللہ نے اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیا ہے ابن شہاب کہتے ہیں کہ پھر میں نے حضرت حصیں بن محمد (رض) انصاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا جو محمود بن ربیع نے بیان کی ہے تو انہوں نے اس کی تصدیق کی حضرت حصین بن محمد (رض) قبیلہ بنی سالم کے سردار ہیں۔

【337】

کسی عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کی رخصت کے بیان میں

محمد بن رافع و عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری، محمود بن ربیع، حضرت عتبان بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا پھر آگے حدیث اسی طرح بیان کی سوائے اس کے کہ اس حدیث میں ہے کہ ایک نے کہا کہ مالک بن دخشن یا دخشین کہا ہے محمود کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث چند آدمیوں سے بیان کی۔ ان میں حضرت ابوایوب انصاری تھے انہوں نے فرمایا کہ میرا خیال نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہو جو تو نے کہا ہے۔ محمود راوی نے کہا کہ پھر میں نے قسم کھائی کہ میں عتبان کی طرف جا کر ان سے پوچھوں گا تو میں ان کی طرف گیا تو میں نے ان کو بوڑھا پایا، ان کی بینائی جاتی رہی تھی اور وہ اپنی قوم کے امام تھے۔ تو میں ان کے پہلو کی طرف جاکر بیٹھ گیا اور میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اسی طرح حدیث بیان کی جیسے پہلے بیان کی تھی زہری کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد بہت سی چیزیں فرض ہوئیں اور احکام نازل ہوئے اور ہم نے دیکھا کہ کام (دین) ان پر انتہا ہوگیا تو جو اس کی استطاعت رکھتا ہے کہ دھوکہ نہ کھائے تو وہ دھوکہ نہ کھائے۔

【338】

کسی عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کی رخصت کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، حضرت محمود بن ربیع (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کا وہ کلی کرنا یاد ہے کہ جو کلی آپ ﷺ نے ہمارے گھر کے ڈول سے کی تھی حضرت محمود فرماتے ہیں کہ حضرت عتبان بن مالک (رض) نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میری بینائی کمزور ہوگئی ہے پھر آگے ایسی حدیث بیان فرمائی جو ابھی گزری یہاں تک کہ آپ ﷺ نے ہمیں دو رکعتیں نماز پڑھائیں اور ہم نے رسول اللہ ﷺ کو جشیشہ کھلانے کے لئے روک لیا جو ہم نے آپ ﷺ کے لئے بنایا تھا اور اس کے بعد حدیث میں یونس اور معمر کی زیادتی کا ذکر نہیں ہے۔

【339】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ ان کی دادی ملیکہ (رض) نے ایک کھانے پر جو انہوں نے بنایا رسول اللہ ﷺ کو بلایا تو آپ ﷺ نے اس کھانے میں سے کھایا پھر فرمایا کھڑے ہوجاؤ میں تمہارے لئے نماز پڑھوں حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میں ایک چٹائی لے کر کھڑا ہوگیا جو کثرت استعمال کی وجہ سے سیاہ ہوگئی تھی میں نے اس پر پانی چھڑکا پھر اس پر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے میں نے اور ایک یتیم نے آپ ﷺ کے پیچھے ایک صف باندھی اور بڑھیا ملیکہ بھی ہمارے پیچھے کھڑی ہوگئی پھر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی پھر آپ ﷺ تشریف لے گئے۔

【340】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

شیبان بن فروخ و ابوربیع، عبدالوراث، شیبان، عبدالوارث، ابوتیاح، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق والے تھے بعض مرتبہ آپ ﷺ ہمارے گھر میں ہوتے تھے تو نماز کا وقت آجاتا تو اس چٹائی کو اٹھانے کا حکم فرماتے جس چٹائی پر آپ ﷺ تشریف فرما تھے پھر اسے صاف کیا جاتا پھر اسے پانی سے دھویا جاتا اور پھر رسول اللہ ﷺ امام بنتے اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوتے اور کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی ہوتی تھی۔

【341】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

زہیر بن حرب، ہاشم بن قاسم، سلیمان بن ثابت، حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ ہمارے گھر داخل ہوئے جبکہ گھر میں میں اور میری والدہ اور ام حرام میری خالہ تھیں آپ ﷺ نے فرمایا کھڑے ہوجاؤ تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں اور وہ وقت کسی نماز کا بھی نہیں تھا ایک آدمی نے ثابت سے پوچھا کہ آپ ﷺ نے حضرت انس (رض) کو کہاں کھڑا کیا تھا انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے انہیں اپنی دائیں طرف کھڑا کیا پھر آپ ﷺ نے ہمارے گھر والوں کے لئے ہر طرح کی دنیا وآخرت کی بھلائی کی دعا فرمائی میری والدہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول انس آپ ﷺ کا ایک چھوٹا سا خادم ہے اس کے لئے آپ دعا فرمائیں ! آپ ﷺ نے میرے لئے ہر طرح کی بھلائی کی دعا فرمائی اور دعا کے آخر میں جو میرے لئے تھی اس کے ساتھ یہ فرمایا اے اللہ ان کے مال اور ان کی اولاد میں کثرت اور ان کے لئے اس میں برکت عطا فرما۔

【342】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

عبیداللہ بن معاذ، شعبہ، عبداللہ بن مختار، موسی، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اور ان کی والدہ یا ان کی خالہ کو نماز پڑھائی اور ارشاد فرمایا کہ مجھے آپ ﷺ نے دائیں طرف کھڑا کیا اور خاتون کو ہمارے پیچھے کھڑا کیا۔

【343】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، زہیر بن حرب، عبدالرحمن بن مہدی اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔

【344】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، خالد بن عبداللہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، شیبانی، عبداللہ بن شداد، حضرت میمونہ (رض) نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے اور بعض مرتبہ آپ ﷺ کے کپڑے میرے ساتھ لگتے تھے جب سجدہ کرتے اور آپ ﷺ چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے۔

【345】

جماعت کے ساتھ نوافل اور پاک چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنے کے جواز کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوکریب، ابومعاویہ، سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش، اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابوسفیان، جابر، ابوسعید خدری (رض) ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ کو ایک چٹائی پر نماز پڑھتے ہوئے پایا جس پر آپ ﷺ سجدہ فرما رہے تھے۔

【346】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوکریب، ابومعاویہ، ابوبکر، اعمش، ابی صالح، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس کا اپنے گھر میں نماز پڑھنے پر کچھ اوپر بیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور یہ اس لئے کہ تم میں سے کوئی جب وضو کرتا اور خوب اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد میں آتا ہے اسے نماز کے علاوہ کسی نے نہیں اٹھایا اور نہ ہی نماز کے علاوہ اس کا کسی چیز کا ارادہ ہے تو کوئی قدم نہیں اٹھاتا مگر اللہ تعالیٰ اس کے (ایک قدم) کے بدلہ میں اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو جب وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے تو وہ نماز ہی کے حکم میں رہتا ہے جب تک کہ نماز اسے روکے رکھتی ہے اور فرشتے تمہارے لئے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی اسی جگہ میں بیٹھا رہتا ہے جس میں اس نے نماز پڑھی ہے کہتے رہتے ہیں اے اللہ اس پر رحم فرما اے اللہ اس کی مغفرت فرما اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما جب کہ وہ بےوضو نہ ہو۔ (وہ فرشتے دعا ہی کرتے رہتے ہیں)

【347】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی، عبثر، محمد بن بکار بن ریان، اسماعیل، بن زکریا، محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، شعبہ، اعمش سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【348】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

ابن ابی عمر، سفیان، ایوب، ابن سیرین، حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک تم میں سے کوئی اپنی نماز پڑھنے کی جگہ میں بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ اس کی مغفرت فرما اے اللہ اس پر رحم فرما جب تک وہ آدمی بےوضو نہ ہو اور تم میں سے ہر ایک نماز ہی میں ہوتا ہے جب تک کہ اسے نماز روکے رکھتی ہے۔

【349】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن حاتم، بہز، حماد بن سلمہ، ثابت، رافع، حضرت ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ نماز ہی میں ہوتا ہے جب تک کہ وہ اپنی نماز کی جگہ نماز کے انتظار میں رہے اور فرشتے کہتے ہیں اے اللہ اس کی مغفرت فرما اے اللہ اس پر رحم فرما یہاں تک کہ وہ واپس چلا جائے یا اسے حدث لاحق ہوجائے میں نے عرض کیا کہ حدث کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہوا خارج کر دے۔

【350】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، مالک، ابوزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی نماز ہی کے حکم میں رہتا ہے جب تک کہ نماز اسے روکے رکھتی ہے گھر جانے میں نماز کے علاوہ اور کوئی چیز اسے نہیں روکتی۔

【351】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس بن محمد بن سلمہ مرادی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی جب تک نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے تو وہ نماز ہی کے حکم میں رہتا ہے اور جب تک کہ وہ بےوضو نہ ہو تو فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں اے اللہ اس کی مغفرت فرما اے اللہ اس پر رحم فرما۔

【352】

فرض نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی فضیلت اور نماز کے انتظار اور کثرت کے ساتھ مسجد کی طرف قدم اٹھانے اور اس کی طرف چلنے کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل فرمائی۔

【353】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

عبداللہ بن براد اشعری و ابوکریب، ابواسامہ، برید، ابوبردہ، حضرت ابوموسی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے نماز کا سب سے بڑا اجر اس آدمی کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ دور سے اس کی طرف چل کر آتا ہے پھر جو ان کے بعد میں آنے والا ہو اور وہ آدمی جو امام کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہو اور اس آدمی کا اجر اس آدمی سے زیادہ ہے جو نماز پڑھتا ہے پھر سو جاتا ہے اور ابوکریب کی روایت میں ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے امام کے ساتھ نماز پڑھنے کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے۔

【354】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

یحییٰ بن یحیی، عبثر، سلیمان تیمی، ابوعثمان نہدی، حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی تھا کہ جس کو میرے سے زیادہ کوئی آدمی اسے نہیں جانتا کہ وہ مسجد سے اتنی دور ہے اور اس کی کوئی نماز بھی نہیں چھوٹتی تھی تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تو ایک گدھا خرید لے کہ جس پر تو سوار ہو کر اندھیرے میں اور گرمیوں میں آیا کرے ! اس نے کہا کہ میرے لئے یہ کوئی خوشی کی بات نہیں کہ میرا گھر مسجد کے کونے میں ہو بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد کی طرف چل کر جانا لکھا جائے اور واپس جانا جب میں اپنے گھر کی طرف واپس جاؤں تو یہ بھی لکھا جائے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے یہ سارا ثواب تیرے لئے جمع کردیا ہے۔

【355】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن عبدالاعلی، معتمر بن سلیمان، اسحاق بن ابراہیم، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【356】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن ابی بکر مقدامی، عباد بن عباد، عاصم، ابی عثمان، حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی تھا اس کا گھر مدینہ منورہ سے بہت دور تھا اور اس کی کوئی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چھوٹتی بھی نہیں تھی حضرت ابی فرماتے ہیں کہ ہمیں اس کی اس تکلیف کا احساس ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں کاش کہ تو ایک گدھا خرید لیتا جو تجھے گرمی اور زمین کے کیڑے مکوڑوں سے بچاتا تو اس آدمی نے کہا اللہ کی قسم میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد ﷺ کے قریب ہو حضرت ابی کہتے ہیں کہ مجھے اس آدمی کی یہ بات ناگوار لگی میں اللہ کے نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ ﷺ کو اس آدمی کی بات سے آگاہ کیا آپ ﷺ نے اس آدمی کو بلایا تو اس نے اسی بات کی طرح آپ ﷺ کے سامنے ذکر کیا اور یہ کہ میں اپنے قدموں کے اجر کی امید رکھتا ہوں نبی ﷺ نے اس آدمی سے فرمایا کہ تجھے وہی اجر ملے گا جس کی تو نے نیت کی ہے۔

【357】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

سعید بن عمرو اشعثی و محمد بن ابی عمر، ابن عیینہ، سعید بن ازہر واسطی، وکیع، حضرت عاصم (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح یہ حدیث بھی نقل کی گئی ہے۔

【358】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

حجاج بن شاعر، روح بن عبادہ، زکریا بن اسحاق، ابوزبیر، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمارے گھر مسجد سے دور تھے تو ہم نے چاہا کہ ہم اپنے گھروں کو بیچ دیں اور مسجد کے قریب گھر لے لیں تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منع فرما دیا اور فرمایا کہ تمہارے لئے ہر قدم کے ساتھ ایک درجہ ہے۔

【359】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالصمد بن عبدالوارث، جریری، ابونضرہ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ مسجد کے گرد کچھ جگہیں خالی ہوئیں تو بنی سلمہ نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب منتقل ہوجائیں تو یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ مجھے تمہاری یہ بات پہنچی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتے ہو انہوں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ہم نے یہ ارادہ کیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے بنی سلمہ اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں (آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا) اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔

【360】

مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم اٹھا کر جانے والوں کی فضیلت کے بیان میں

عاصم بن نضر تیمی، معتمر، کہمس، ابونضرہ، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب والی جگہوں میں منتقل ہوجائیں راوی نے کہا کہ وہاں کچھ مکان خالی تھے یہ بات نبی ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا اے بنی سلمہ تم اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں انہوں نے عرض کیا کہ اب ہمیں منتقل ہونے کی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (جتنی کہ آپ ﷺ کے یہ فرمانے پر کہ تمہارے قدموں کے نشانات بھی لکھے جاتے ہیں)

【361】

مسجد کی طرف نماز کے لئے جانے والے کے ایک ایک قدم پر گناہ مٹ جاتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔

اسحاق بن منصور، زکریا بن عدی، عبیداللہ بن عمرو، زید بن ابی انیسہ، عدی بن ثابت، ابوحازم، اشعجی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اپنے گھر میں طہارت حاصل کرے پھر وہ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر کی طرف چلے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فریضہ کو پورا کرے تو اس کے قدموں میں سے ایک سے گناہ مٹیں گے اور دوسرے قدم سے اس کا ایک درجہ بلند ہوگا۔

【362】

مسجد کی طرف نماز کے لئے جانے والے کے ایک ایک قدم پر گناہ مٹ جاتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔

قتیبہ بن سعید، لیث، قتیبہ، بکر ابن مضر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور ابوبکر کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر کوئی نہر ہو اور وہ روزانہ اس میں سے پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ اس پر سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کے ذریعہ سے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

【363】

مسجد کی طرف نماز کے لئے جانے والے کے ایک ایک قدم پر گناہ مٹ جاتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوکریب، ابومعاویہ، اعمش، ابوسفیان حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پانچ نمازوں کی مثال اس گہری نہر کی طرح ہے جو تم میں سے کسی کے دروزاے پر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں سے پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو، حسن کہنے لگا کہ پھر تو اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گی۔

【364】

مسجد کی طرف نماز کے لئے جانے والے کے ایک ایک قدم پر گناہ مٹ جاتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔

ابوبکر بن ابی شیبہ و زہیر بن حرب، یزید بن ہارون، محمد بن مطرف، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی صبح کے وقت مسجد کی طرف آتا ہے یا شام کے وقت تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ضیافت تیار رکھتے ہیں کہ وہ صبح آئے یا شام آئے۔

【365】

صبح (فجر) کی نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے اور مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

احمد بن عبداللہ بن یونس، زہیر، سماک بن حرب، یحییٰ بن یحیی، ابوخیثمہ، سماک بن حرب فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ سے عرض کیا کہ کیا آپ (رض) رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے انہوں نے فرمایا کہ ہاں بہت زیادہ۔ آپ ﷺ اپنی جگہ سے کھڑے نہیں ہوتے تھے جس جگہ صبح کی نماز پڑھتے تھے جب تک کہ سورج نہ نکل آتا پھر جب سورج نکل آتا تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے اور لوگ باتیں کرتے رہتے تھے اور زمانہ جاہلیت کا تذکرہ کرتے اور ہنستے اور آپ ﷺ بھی مسکراتے۔

【366】

صبح (فجر) کی نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے اور مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

ابوبکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابوبکر، محمد بن بشر، زکریا، سماک، حضرت جابر بن سمرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ جب فجر کی نماز پڑھتے تھے تو اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج خوب اچھی طرح طلوع ہوجاتا۔

【367】

صبح (فجر) کی نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے اور مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

قتیبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواحوص، ابن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت سماک (رض) سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【368】

صبح (فجر) کی نماز کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھے رہنے اور مسجدوں کی فضیلت کے بیان میں

ہارون بن معروف، اسحاق بن موسیٰ انصاری، انس بن عیاض، ابن ابی ذباب، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔

【369】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، قتادہ، ابی نضرہ، حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک امام بنے اور ان میں سے امامت کا مستحق وہ ہے جو ان میں سے زیادہ (قرآن مجید) پڑھا ہوا ہو۔

【370】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، شعبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوخالد احمر، سعید بن ابی عروبہ، ابوغسان مسمعی، معاذ بن ہشام، ابوہشام، قتادہ، اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【371】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

محمد بن مثنی، سالم بن نوح، حسن بن عیسی، ابن مبارک، جریری، حضرت ابوسعید (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح نقل فرمائی ہے۔

【372】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوسعیداشج، ابوخالد احمر، اعمش، اسماعیل بن رجاء، اوس بن ضمعج، ابومسعود انصاری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کا امام وہ آدمی بنے جو اللہ کی کتاب کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو اور اگر قرآن مجید کے جاننے میں سب برابر ہوں تو پھر وہ آدمی امام بنے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو تو اگر سنت کے جاننے میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی جس نے ہجرت پہلے کی ہو تو اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امام بنے جس نے اسلام پہلے قبول کیا ہو اور کوئی آدمی کسی آدمی کی سلطنت میں جا کر امام نہ بنے اور نہ اس کے گھر میں اس کی مسند پر بیٹھے سوائے اس کی اجازت کے۔

【373】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

ابوکریب، ابومعاویہ، اسحاق، جریر، ابومعاویہ، اشج، ابن فضیل، ابن ابی عمر، سفیان، حضرت اعمش (رض) سے اس سند کے ساتھ اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے۔

【374】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، اسماعیل بن رجاء، اوس بن ضمعج، حضرت ابومسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا کہ لوگوں کا امام وہ آدمی بنے جو اللہ کی کتاب کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو اور سب سے اچھا پڑھتا ہو تو اگر ان کا پڑھنا برابر ہو تو وہ آدمی امام بنے جس نے ان میں سے پہلے ہجرت کی ہو اور اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو وہ آدمی امامت کرے جو ان میں سب سے بڑا ہو اور کوئی آدمی کسی آدمی کے گھر میں امام نہ بنے اور نہ ہی اس کی حکومت میں اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کی عزت کی جگہ پر بیٹھے سوائے اس کے کہ وہ اجازت دیدے۔

【375】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب ابی قلابہ، مالک بن حویرث فرماتے ہیں کہ ہم سب جوان اور ہم عمر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور ہم آپ ﷺ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے اور رسول اللہ ﷺ نہایت مہربان اور نرم دل تھے آپ ﷺ کو اس چیز کا خیال ہوگیا کہ ہمیں اپنے وطن جانے کا اشتیاق ہوگیا ہے آپ ﷺ نے ہم سے پوچھا کہ تم اپنے گھروں میں سے کس کو چھوڑ کر آئے ہو ؟ تو ہم نے آپ ﷺ کو اس سے باخبر کردیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کی طرف واپس جاؤ اور ان میں ٹھہرو اور ان کو دین کی باتیں سکھاؤ اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے پھر تم میں سے جو سب سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔

【376】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

ابوربیع زہرانی، خلف بن ہشام، حماد، ایوب سے اس سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے۔ ابن ابی عمر، عبدالوہاب ثقفی، ابوقلابہ، مالک بن حویرث نے حویرث ابی سلیمان (رض) فرماتے ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور ہم جوان ہم عمر تھے باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزری۔

【377】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

اور یہی حدیث ہمیں ابن ابی عمر نے سنائی ، کہا : عبدالوہاب نے بھی ایوب سے ہمیں حدیث بیان کی ، کہا : مجھ سے ابو قلابہ نے بیان کیا ، کہا : ہمیں ابو سلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی ، کہا : میں کچھ لوگوں ( کی معیت ) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ، ہم تقریبا ہم عمر نوجوان تھے......آگے دونوں ( حماد اور عبدالوہاب ) نے ابن علیہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی ۔ عبدالوہاب ثقفی نے خالد حذاء سے ، انھوں نے ابو قلابہ سے اور انھوں نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، کہا : میں اور میرا ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جب ہم نے آپ کے ہاں سے واپسی کا ارادہ کیا تو آپ نے ہم سے فرمایا : ‘ ‘ جب نماز ( کا وقت ) آئے تو اذان کہو ، پھر اقامت کہو اور تم دونوں میں جو بڑا ہو وہ تمھاری امامت کر لے

【378】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

اسحاق بن ابراہیم، عبدالوہاب، خالد حذاء، ابوقلابہ، مالک بن حویرث فرماتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے پھر جب ہم نے آپ ﷺ کے پاس سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے ہمیں فرمایا کہ جب نماز کا وقت آئے تو تم اذان دینا اور اقامت کہنا اور تم میں سے جو بڑا ہو اسے اپنا امام بنا لینا۔

【379】

اس بات کے بیان میں کہ امامت کرنے کا زیادہ مستحق کون ہے ؟

ابوسعیداشج، حفص بن غیاث، خالد حذاء اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔

【380】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابوطاہر، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت فجر کی نماز میں قرأت سے فارغ ہوتے اور تکبیر کہتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو ( سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ) کہتے پھر کھڑے کھڑے یہ دعا فرماتے اے اللہ ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام اور عیاش ابن ابی ربیعہ اور کمزور مومنوں کو کافروں سے نجات عطا فرما، اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی سختی نازل فرما اور ان پر بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کی طرح قحط سالی مسلط فرما اے اللہ قبیلہ لحیان اور رعل اور ذکوان اور عصیہ پر لعنت فرما انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی ہے پھر ہمیں یہ بات پہنچی کہ آپ ﷺ نے یہ دعا چھوڑ دی جب یہ آیت نازل ہوئی ( لَيْسَ لَکَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْئٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ) 3 ۔ آل عمران : 128) اے پیغمبر اسلام اس معاملہ میں آپ ﷺ کا کوئی اختیار نہیں ہے (اے اللہ) ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمایا ان کو عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔

【381】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ و عمرو ناقد، ابن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح نقل کیا ہے لیکن اس روایت میں کَسِنِی یوسف تک ہے اس کے بعد اور کچھ ذکر نہیں کیا۔

【382】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

محمد بن مہران، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک مہینہ تک نماز میں رکوع کے بعد قنوت پڑھی جب آپ ﷺ (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہتے ہوئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے اے اللہ ولید بن ولید کو نجات عطا فرمایا اے اللہ سلمہ بن ہشام کو نجات عطا فرما اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات عطا فرما اے اللہ کمزور مسلمانوں کو نجات عطا فرما اے اللہ قبیلہ مضر پر اپنی سختی نازل فرما اے اللہ ان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کے قحط کی طرح کا قحط نازل فرما حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد یہ دعا کرنی چھوڑ دی تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ نے ان کے لئے یہ دعا چھوڑ دی تو مجھے کہا گیا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ جن کے لئے نجات کی دعا کی جاتی تھی وہ تو آگئے ہیں۔

【383】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

زہیر بن حرب، حسین بن محمد، شیبان، یحیی، ابوسلمہ، ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز پڑھا رہے تھے جب آپ ﷺ نے (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ) کہا پھر آپ ﷺ نے سجدہ کرنے سے پہلے یہ دعا کی اے اللہ عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات عطا فرما پھر اس طرح ذکر فرمائی ( کَسِنِي يُوسُفَ ) تک اور اس کے بعد ذکر نہیں فرمایا۔

【384】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

محمد بن مثنی، معاذ، ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابوسلمہ بن عبدالرحمن، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی طرح نماز پڑھاؤں گا پھر حضرت ابوہریرہ (رض) ظہر اور عشاء اور صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے اور مومنوں کے لئے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت بھیجتے۔

【385】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

یحییٰ بن یحیی، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں پر تیس دن تک صبح کے وقت بد دعا فرمائی کہ جنہوں نے بیر معونہ والوں کو شہید کردیا تھا خاص طور پر رعل اور ذکوان اور لحیان اور عصیہ والوں کے خلاف بد دعا فرمائی کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں جو بیر معونہ میں شہید کردیئے گئے قرآن نازل فرمایا ہم اس حصے کو پڑھتے بھی رہے پھر بعد میں اسے منسوخ کردیا گیا، ہماری طرف سے ہماری قوم کو یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم نے اپنے رب سے ملاقات کی وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہوئے۔

【386】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

عمرو بن ناقد و زہیر بن حرب، اسماعیل، ایوب، محمد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے عرض کیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز میں دعائے قنوت پڑھی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں رکوع کے بعد (حالات) کی آسانی تک۔

【387】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

عبیداللہ بن معاذ و ابوکریب و اسحاق بن ابراہیم و محمد بن عبدالاعلی، معتمر بن سلیمان، سلیمان، ابی مجلز، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ صبح کی نماز میں رکوع کے بعد قنوت پڑھی جس میں آپ ﷺ رعل اور ذکوان کے خلاف بد دعا فرماتے اور فرماتے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔

【388】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

محمد بن حاتم، بہز بن اسد، حماد بن سلمہ، انس بن سیرین، حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں رکوع کے بعد قنوت پڑھی جس میں بنی عصیہ کے خلاف بد دعا فرمائی۔

【389】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابوبکر بن ابی شیبہ و ابوکریب، ابومعاویہ، عاصم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے قنوت کے بارے میں پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد تو انہوں نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے میں نے عرض کیا کہ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی ہے حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف بد دعا فرمائی جنہوں نے صحابہ کرام میں سے ان لوگوں کو شہید کردیا تھا کہ جن کو قراء کہا جاتا تھا۔

【390】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابن ابی عمر، سفیان، عاصم، حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی لشکر کے لئے اتنا پریشان ہوتا نہیں دیکھا جتنا کہ ان ستر صحابہ کی وجہ سے پریشان ہوئے کہ جنہیں بئر معونہ میں شہید کردیا گیا جن کو قراء کے نام سے پکارا جاتا تھا آپ ﷺ نے ایک مہینہ ان شہداء کے قاتلوں کے خلاف بد دعا فرماتے رہے۔

【391】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابوکریب، حفص، ابن فضیل، ابن ابی عمر، مروان، عاصم، انس اس سند کے ساتھ حضرت انس (رض) نے نبی ﷺ سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا۔

【392】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

عمرو ناقد، اسود بن عامر، شعبہ، قتادہ، انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک مہینہ قنوت پڑھتے رہے جس میں آپ ﷺ رعل ذکوان اور عصیہ پر لعنت بھیجتے رہے کہ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی۔

【393】

مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام کا بیان

عمرو ناقد، اسود بن عامر، شعبہ، موسیٰ بن انس، حضرت انس بن مالک (رض) نے نبی ﷺ سے اسی طرح حدیث نقل کی ہے۔

【394】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، ہشام، انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مہینہ قنوت پڑھی جس میں عرب کے کئی قبیلوں کے خلاف بد دعا فرماتے رہے پھر اسے چھوڑ دیا۔

【395】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

محمد بن مثنی و ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمرو بن مرہ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر اور مغرب کی نمازوں میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔

【396】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابن نمیر، سفیان، عمرو بن مرہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فجر اور مغرب کی نمازوں میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔

【397】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

ابوطاہر، احمد بن عمرو بن سرح المصری، ابن وہب، لیث عمران بن ابی انس، حنظلۃ بن علی، حضرت خفاف بن ایما غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں فرمایا اے اللہ بنی لحیان اور رعل اور ذکوان اور عصیہ پر لعنت فرما کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی ہے اور قبیلہ غفار کی مغفرت فرما اور قبیلہ اسلم کو سلامتی عطا فرما۔

【398】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

یحییٰ بن ایوب و قتیبہ و ابن حجر، ابن ایوب، اسماعیل، محمد بن عمرو، خالد بن عبداللہ بن حرملہ، حارث بن خفاف فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع فرمایا پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قبیلہ غفار کی مغفرت فرمائے اور قبیلہ اسلم کو سلامتی عطا فرمائے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی ہے اے اللہ بنی لحیان پر لعنت فرما اور رعل اور ذکوان پر لعنت فرما پھر آپ ﷺ سجدہ میں چلے گئے حضرت خفاف نے فرمایا کہ کافروں پر اسی وجہ سے لعنت کی جاتی ہے۔

【399】

تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے استح کے بیان میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور اس کے پڑھنے کا وقت صبح کی نماز میں آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور بلند آواز کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے۔

یحییٰ بن ایوب، اسماعیل، عبدالرحمن بن حرملہ، حنظلہ بن علی بن اسقع، خفاف بن ایما، اس سند کے ساتھ حضرت خفاف بن ایما (رض) سے اسی طرح حدیث نقل کی گئی ہے لیکن اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کافروں پر لعنت اسی وجہ سے کی جاتی ہے۔

【400】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

حرملہ بن یحییٰ تجیبی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو ایک رات چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کو نیند کا غلبہ ہوا تو رات کے آخری حصہ میں اترے اور حضرت بلال (رض) سے فرمایا کہ تم آج رات پہرہ دو تو حضرت بلال (رض) نے نماز پڑھنی شروع کردی جتنی نماز اس سے پڑھی جاسکی اور رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام (رض) سو گئے پھر جب فجر کا وقت قریب ہوا تو حضرت بلال (رض) نے صبح طلوع ہونے والی جگہ کی طرف اپنا رخ کر کے اپنی اونٹنی سے ٹیک لگائی تو حضرت بلال (رض) پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا پھر نہ تو رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور نہ ہی حضرت بلال (رض) اور نہ ہی صحابہ کرام (رض) میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ دھوپ ان پر آگئی تو رسول اللہ ﷺ ان میں سے سب سے پہلے بیدار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے دھوپ دیکھی تو گھبرا گئے اور فرمایا اے بلال ! تو حضرت بلال نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان میرے نفس کو بھی اسی نے روک لیا جس نے آپ کے نفس مبارک کو روک لیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہاں سے کوچ کرو پھر کچھ دور چلے پھر رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور حضرت بلال کو حکم فرمایا پھر انہوں نے نماز کی اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی جب نماز پوری ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے تو جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا أَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي میری یاد کے لئے نماز قائم کر پس راوی کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس لفظ کو لِلذِّکْرَی پڑھا کرتے تھے یعنی یاد کے لئے۔

【401】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن حاتم و یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن حاتم، یحییٰ بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم، ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں اترے اور ہم میں سے کوئی بھی بیدار نہیں ہوا یہاں تک کہ سورج نکل آیا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر آدمی اپنی سواری (اونٹ) کی لگام پکڑے (اور چلے) کیونکہ اس جگہ میں شیطان آگیا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے ایسے ہی کیا پھر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور وضو فرمایا اور دو رکعت نماز سنت پڑھی اور راوی یعقوب نے کہا کہ سجدہ کی بجائے صلی ہے پھر نماز کی اقامت کہی گئی پھر آپ ﷺ نے صبح کی فرض نماز پڑھائی۔

【402】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

شیبان بن فروخ سلیمان ابن مغیرہ، ثابت، عبداللہ بن ابی رباح، ابی قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور اس میں فرمایا کہ تم دو پہر سے لے کر ساری رات چلتے رہو گے اور اگر اللہ نے چاہا تو کل صبح پانی پر پہنچو گے تو لوگ چلے اور ان میں کوئی کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا ابوقتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی اور میں آپ ﷺ کے پہلو میں تھا ابوقتادہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اونگھنے لگے آپ ﷺ اپنی سواری پر سے جھکے تو میں نے آپ ﷺ کو جگائے بغیر سہارا دے دیا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہوگئے پھر چلے یہاں تک کہ جب رات بہت زیادہ ہوگئی تو آپ ﷺ پھر اپنی سواری پر جھکے تو میں نے آپ ﷺ کو جگائے بغیر سیدھا کیا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی سواری پر سیدھے ہوگئے پھر چلے یہاں تک کہ جب سحر کا وقت ہوگیا پھر ایک بار اور پہلے دونوں بار سے زیادہ مرتبہ جھکے یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ ﷺ گرپڑیں میں پھر آیا اور آپ ﷺ کو سہارا دیا تو آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا یہ کون ہے میں نے عرض کیا ابوقتادہ آپ ﷺ نے فرمایا تم کب سے اس طرح میرے ساتھ چل رہے ہو میں نے عرض کیا کہ میں رات سے اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ چل رہا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تیری حفاظت فرمائے جس طرح تو نے اللہ کے نبی ﷺ کی حفاظت کی ہے پھر آپ نے فرمایا کیا تو دیکھتا ہے کہ ہم لوگوں سے پوشیدہ ہیں پھر فرمایا کیا تو کسی کو دیکھ رہا ہے میں نے عرض کیا یہ ایک سوار ہے یہاں کہ سات سوار جمع ہوگئے پھر رسول اللہ ﷺ راستہ سے ایک طرف ہوگئے اور اپنا سر مبارک رکھا پھر فرمایا تم ہماری نمازوں کا خیال رکھنا تو رسول اللہ ﷺ سب سے پہلے بیدار ہوئے اور سورج آپ ﷺ کی پشت پر تھا پھر ہم بھی گھبرائے ہوئے اٹھے آپ ﷺ نے فرمایا سوار ہوجاؤ تو ہم سوار ہوگئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ جب سورج بلند ہوگیا آپ ﷺ اترے پھر آپ ﷺ نے وضو کا برتن منگوایا جو کہ میرے پاس تھا اور اس میں تھوڑا سا پانی تھا پھر آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا جو کہ دوسرے وضو سے کم تھا اور اس میں سے کچھ پانی باقی بچ گیا پھر آپ نے ابوقتادہ (رض) سے فرمایا کہ ہمارے اس وضو کے پانی کے برتن کی حفاظت کرو کیونکہ اس سے عنقریب ایک عجیب خبر ظاہر ہوگی پھر حضرت بلال نے اذان دی پھر رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ ﷺ نے صبح کی نماز اسی طرح پڑھی جس طرح آپ ﷺ روزانہ پڑھتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ سوار ہوئے پھر ہم میں سے ہر ایک آہستہ آہستہ یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری اس غلطی کا کفارہ کیا ہوگا جو ہم نے نماز میں کی کہ ہم بیدار نہیں ہوئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہارے لئے مقتدیٰ نہیں ہوں پھر فرمایا کہ سونے میں کوئی تفریط نہیں ہے بلکہ تفریط تو یہ ہے کہ ایک نماز نہ پڑھے یہاں تک دوسری نماز کا وقت آجائے تو اگر کسی سے اس طرح ہوجائے تو اسے چاہئیے کہ جس وقت بھی وہ بیدار ہوجائے نماز پڑھ لے اور جب اگلا دن آجائے تو وہ نماز اس کے وقت پر پڑھے پھر فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ لوگوں نے ایسا کیا ہوگا پھر آپ ﷺ نے خود ہی فرمایا کہ جب لوگوں نے صبح کی تو انہوں نے اپنے نبی ﷺ کو نہ پایا تو حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ تمہارے پیچھے ہوں گے، آپ کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ آپ ﷺ تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں اور لوگوں نے کہا رسول اللہ ﷺ تمہارے آگے ہوں گے اور وہ لوگ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) کی بات مان لیتے تو وہ ہدایت پالیتے انہوں نے کہا کہ پھر ہم ان لوگوں کی طرف اس وقت پہنچے جس وقت دن چڑھ چکا تھا اور ہر چیز گرم ہوگئی اور وہ سارے لوگ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہمیں تو پیاس نے ہلاک کردیا آپ ﷺ نے فرمایا تم ہلاک نہیں ہوئے پھر فرمایا میرا چھوٹا پیالہ لاؤ پھر آپ ﷺ نے پانی کا برتن منگوایا تو رسول اللہ ﷺ پانی انڈیلنے لگے اور حضرت ابوقتادہ لوگوں کو پانی پلانے لگے تو جب لوگوں نے دیکھا کہ پانی تو صرف ایک ہی برتن میں ہے تو وہ اس پر ٹوٹ پڑے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سکون سے رہو تم سب کے سب سیراب ہوجاؤ گے پھر لوگ سکون و اطمینان سے پانی پینے لگے رسول اللہ ﷺ پانی انڈیلتے رہے اور میں ان لوگوں کو پلاتا رہا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی بھی باقی نہ رہا راوی نے کہا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا پیو میں نے عرض کیا میں نہیں پیوں گا جب تک کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ ﷺ نہیں پئیں گے آپ ﷺ نے فرمایا قوم کو پلانے والا سب سے آخر میں پیتا ہے تو پھر میں نے پیا اور رسول اللہ ﷺ نے پیا راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ میں جامع مسجد میں اس حدیث کو بیان کرتا ہوں عمران بن حصین کہنے لگے اے جوان ذرا غور کرو کیا بیان کر رہے ہو کیونکہ اس رات میں بھی ایک سوار تھا میں نے کہا کہ آپ تو حدیث کو زیادہ جانتے ہوں گے انہوں نے کہا کہ تو کس قبیلہ سے ہے میں نے کہا انصار سے انہوں نے کہا کہ پھر تو تم اپنی حدیثوں کو اچھی طرح جانتے ہو پھر میں نے قوم سے حدیث بیان کی عمران کہنے لگے کہ اس رات میں بھی موجود تھا مگر مجھے نہیں معلوم کہ جس طرح تمہیں یاد ہے کسی اور کو بھی یاد ہوگا۔

【403】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

احمد بن سعید بن صخردارمی، عبیداللہ بن عبدالمجید، سلم بن زریر عطاری، ابورجاء عطاردی، عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں چلا تو ایک رات ہم چلتے رہے یہاں تک کہ رات صبح کے قریب ہوگئی تو ہم اترے ہماری آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ دھوپ نکل آئی تو سب سے پہلے حضرت ابوبکر (رض) بیدار ہوئے اور ہم اللہ کے نبی ﷺ کو جب آپ ﷺ سو رہے ہوں نہیں جگایا کرتے تھے جب تک کہ آپ ﷺ خود بیدار نہ ہوں پھر حضرت عمر (رض) بیدار ہوئے تو نبی ﷺ کے پاس کھڑے ہو کر اپنی بلند آواز کے ساتھ تکبیر پڑھنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ بھی بیدار ہوگئے پھر جب آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور سورج کو دیکھا کہ وہ نکلا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا یہاں سے نکل چلو ہمارے ساتھ آپ ﷺ بھی چلے یہاں تک کہ سورج سفید ہوگیا تو آپ ﷺ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی لوگوں میں سے ایک آدمی علیحدہ رہا اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو اس آدمی سے فرمایا اے فلاں ہمارے ساتھ پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا اس نے کہا اے اللہ کے نبی مجھے جنابت لاحق ہوگئی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم فرمایا اور اس نے مٹی کے ساتھ تیمم کیا پھر نماز پڑھی پھر آپ نے مجھے جلدی سے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیجا تاکہ ہم پانی تلاش کریں اور ہم بہت سخت پیاسے ہوگئے ہم چلتے رہے کہ ہم نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ایک سواری پر اپنے دونوں پاؤں لٹکائے ہوئے جارہی ہے دو مشکیزے اس کے پاس ہیں ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ہے اس عورت نے کہا کہ پانی بہت دور ہے پانی بہت دور ہے پانی تمہیں نہیں مل سکتا ہم نے کہا کہ تیرے گھر والوں سے کتنی دور ہے اس عورت نے کہا کہ ایک دن اور ایک رات کا چلنا ہے ہم نے کہا رسول اللہ ﷺ کی طرف چل اس عورت نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کیا ہیں تو ہم اس عورت کو مجبور کر کے آپ ﷺ کی طرف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے حالات وغیرہ پوچھے تو اس نے آپ ﷺ کو اسی طرح بتائے جس طرح ہمیں بتائے کہ وہ عورت یتیموں والی ہے اور اس کے پاس بہت سے یتیم بچے ہیں آپ ﷺ نے اس کے اونٹ بٹھلا نے کا حکم فرمایا پھر اسے بٹھلا دیا گیا آپ ﷺ نے مشکیزوں کے اوپر والے حصوں سے کلی کی پھر اونٹ کو کھڑا کردیا گیا پھر ہم نے پانی پیا اور ہم چالیس آدمی پیاسے تھے یہاں تک کہ ہم سیراب ہوگئے اور ہمارے پاس مشکیزے برتن وغیرہ جو تھے وہ سب بھر لئے اور ہمارے جس ساتھی کو غسل کی حاجت تھی اسے غسل بھی کر وایا سوائے اس کے کہ ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہیں پلایا اور اس کے مشیکزے اسی طرح پانی سے بھرے پڑے تھے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے اسے لاؤ تو ہم نے بہت سارے ٹکڑوں اور کھجوروں کو جمع کیا اور آپ ﷺ نے اس کی ایک پوٹلی باندھی اور اس عورت سے فرمایا کہ اس کو لے جاؤ اور اپنے بچوں کو کھلاؤ اور اس بات کو جان لے کہ ہم نے تیرے پانی میں سے کچھ بھی کم نہیں کیا تو جب وہ عورت اپنے گھر آئی تو کہنے لگی کہ میں سب سے بڑے جادوگر انسان سے ملاقات کر کے آئی ہوں یا وہ نبی ہے جس طرح کہ وہ خیال کرتا ہے اور آپ ﷺ کا سارا معجزہ بیان کیا تو اللہ نے اس ایک عورت کی وجہ سے ساری بستی کے لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی وہ خود بھی اسلام لے آئی اور بستی والے بھی اسلام لے آئے۔

【404】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن ابراہیم حنظلی، نضر بن شمیل، عوف بن ابی جمیلہ اعرابی، ابورجا عطاری، عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے یہاں تک کہ رات کے آخری حصہ میں صبح کے قریب ہم لیٹ گئے اور اس وقت کسی آدمی کو بھی آرام کرنے سے زیادہ کوئی چیز اچھی نہیں لگتی تھی پھر ہمیں دھوپ کی گرمی کے علاوہ کسی چیز نے نہیں جگایا اور یہ حدیث سلم بن زریر کی حدیث کی طرح بیان کی گئی ہے اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت عمر (رض) بن خطاب (رض) جاگے اور انہوں نے لوگوں کا حال دیکھا اور وہ بلند آواز والے اور طاقت والے تھے تو انہوں نے بلند آواز سے تکبیر کہنا شروع کردی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ بھی بیدار ہوگئے حضرت عمر (رض) کی شدت آواز کی وجہ سے جب رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو لوگوں نے آپ ﷺ کو اپنا حال سنانا شروع کردیا آپ ﷺ نے فرمایا کوئی بات نہیں چلو۔

【405】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

اسحاق بن ابرہیم، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمہ، حمید بن بکر بن عبداللہ عبداللہ بن رباح، ابوقتادہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ دوران سفر رات کے وقت پڑاؤ کرتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے اور اگر صبح صادق سے کچھ دیر پہلے پڑاؤ کرتے تو اپنے بازو کو کھڑا کرتے اور ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھتے تھے۔

【406】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

ہداب بن خالد، ہمام، قتادہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے جب اسے یاد آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو پڑھ لے اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں حضرت قتادہ (رض) نے (وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) پڑھی۔

【407】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

یحییٰ بن یحییٰ و سعید بن منصور و قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح فرمایا اور اس میں اس بات کا ذکر نہیں کہ سوائے اس کے اس کا کوئی کفارہ نہیں۔

【408】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

محمد بن مثنی، عبدالاعلی، سعید بن قتادہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا سوتا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اس کو یاد آجائے اس نماز کو پڑھ لے۔

【409】

فوت شدہ نمازوں کی قضاء اور ان کو جلد پڑھنے کے استح کے بیان میں

نصر بن علی جہضمی، علی، مثنی، قتادہ، انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز میں سو جائے یا نماز سے غافل ہوجائے تو اسے چاہئے کہ جب اسے یاد آئے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ( وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِکْرِي) میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔